نواب خیربخش مری قائد بلوچ جدوجہد
نوراحمدمری
_________________________________
نواب مری ،،لفظ نوابی سے اگر کسی کو چڑ ہے تو یہ انکا قصور
نواب مری کا نہیں نواب صاحب کے بس میں جو ہو سکا مخلصی
کے ساتھ کیا لیکن آج بہت ہی تکلیف دہ امر ہے کہ جس عظیم
ہستی نے اپنی زندگی کے شروعات اس محکوم قوم کے آزادی
کے جدوجہد میں گزارا اور جلاوطن ہوا شہید بالاچ سمیت دیگر
سنگتوں کی شہادت کو اپنے سینے میں جگہ دی بڑھاپے تک اس
بات پر قائم رہا کہ بندوق ہاتھ سے گرلے نہ پاۓ اوراسی بندوق
سے دشمن کو تکلیف ہوتا ہے،آج اسے بھی معاف نہیں کررہا کل
تک تو باباۓ بلوچ ہم سب کے لیے معتبر تھا،ایک تاریخی جلسہ
میں خطاب کرتے صادق صاحب کہتے ہیں کہ نواب مری بلوچ جہد
میں پیغمبر کی حیثیت رکھتے ہیں،سلام صابر استداسلم سارے
سنگت نواب مری کو عظیم الفاظوں میں یادکرتے تھے جب نواب
صاحب وفات پاگے تو نواب صاحب کے جسدخاکی کو نیوکاہان میں
دفنانے کی بات کی گئی اس وقت بابا کا فلسفہ صحیح تھا،آج ہر
اوطاق میں نواب صاحب کے ایصال ثواب میں خیرات کیا جاتا ہے
کبھی کسی دوست نے اعتراض نہیں کیا کہ کیونکر یہ سب کچھ
ہو رہا ہے باباۓ بلوچ نے توبی ایل اے کو توڑ دیا انہوں نے مہران
مری سے قربت رکھا اب اسے چاہے جو نام دو،مگرسب ٹھیک
ھاک تھا
کیا نواب مری کے جسدخاکی پر آزاد بلوچستان کا وہ بیرک نہیں
چڑھایا گیا وہی جو بی ایل اے کے سنگتوں اور ہر شہیدکے
جسدخاکی پر رکھا جاتا ہے لیکن کوئی اعتراض نہیں،
ایوب اسٹیڈیم میں جمع لاکھوں لوگوں کا ہجوم ان سوالوں کا جوا
ہے کہ آج کل ناپختہ سیاسی لوگ فیس بک پر کہتے ہیں کہ نواب
صاحب ناکام رہا،
اتنی ہجوم اس شخص کےلئے بلکل نہیں آت جو بقول آپکے کہ اپنا
مقبولیت کھو کر صرف مھران مری اور یوبی اے کا قاید تھا،
ہاں اگر بابا ناکام رہا تو ٹھیک ایک منٹ کومان بھی لیتے ہیں
مگر باباۓ بلوچ نے سرتوڑ کوشش کی یا اس سے بھی کسی کو انکار ہے
اس تحریک کو منظم کرنے والے کون تھے ہاں شہدا اور اسیراں
سمیت سرمچاروں کی قربانیوں نے تحریک کو ایندھن فراہم کی
مگر اس تحریک کو صحیح سمت میں لے جانے والا خالص زہین
باباۓ بلوچ کا تھا جو بغض اناء تکبر رعب دبدبہ،لالچ آسائش سمیت
پاک تھا کھبی لیڈری کا دعوی نہیں کیا کبھی بلوچ پر احسان
جتانے کی بات نہیں کی
باباۓ بلوچ تؤ زندگۓ مدام
Комментариев нет:
Отправить комментарий