سلیمان داؤد کی بلوچ جنگ آزادی میں کوئی کردار نہیں پندرہ سالہ جنگ میں کسی بلوچ کو ایک کٹورہ پانی نہیں پلایا مگر جنرل مشرف کو اپنے محل میں دعوت دیکر ایک تلوار تحفہ میں دیکر مشرف کی بلوچ کش کارروائیوں کی حمایت کا علامتی اظہار کیا ۔آپ بلوچ قومی رہنماؤں کو راستے سے ہٹانے، دوریاں اور بدگمانیاں پیدا کرنے کیلئے سازشیں بُن رہے ہو۔ بلوچ قوم دوست رہنما ڈاکٹر اﷲ نذر بلوچ
بلوچ قوم دوست رہنما ڈاکٹر اﷲ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سلیمان داؤد نے اپنے 10 اکتوبر 2014 کو شائع ہونیوالے بیان میں اختر مینگل کیساتھ میری ملاقات کا ذکر کرکے جو تاثر دینے کی کوشش کی ہے یہ سلیمان داؤ د کی ذہنی پستی و کم فہمی کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر میں اختر مینگل سے بحیثیت بلوچ ملاقات کروں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ بحیثیت ایک سیاسی کارکن کے، میرے لئے سب قابل احترام ہیں۔ جس طرح چارٹر آف لبریشن کو میرے قابل احترام دوست میر ہیربیار مری نے اخترمینگل کو اپنے دوستوں کے ذریعے بھجوایا تو کوئی آسمان نہیں گرا، لیکن سلیمان داؤد کی فراصت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قلات جرگے میں انہوں نے جو سپریم کونسل تشکیل دی تھی اس میں نواب مگسی، نواب شاہوانی، نواب رئیسانی، سردار ثناء اللہ زہری اور سردار اختر مینگل کو ہی چُنا تھا۔ سلیمان داؤد کی دیانتداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچوں کی ٹیکس سے خریدا ہوا ’’ہیرا‘‘، جو کہ بلوچ قومی وراثت تھی، فروخت کردیا۔ سلیمان داؤد کی بلوچ جنگ آزادی میں کوئی کردار نہیں اور نہ ہی انہیں معلومات تک رسائی ہے۔ ان کی معلومات کی رسائی کا ذریعہ صرف کوئٹہ کلب ہے۔ سلیمان داؤد نے اپنی ذہنی عارضے کے سبب دوستوں کے درمیان بدگمانی اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کیلئے جولائی 2010 میں اپنے ایک رشتہ دار کے ذریعہ اپنا فون نمبر بجھوایا تھا۔ احوال کرنے پر میرے قابل احترام دوست میر ہیر بیار مری اور میر جاوید مینگل سے متعلق کہا کہ ان سے خبردار رہنا یہ آپ کو قتل کروانا چاہتے ہیں۔ اور یہ بات میں نے متعلقہ دوستوں اور بی ایل ایف کی کونسل کو پہلے ہی بتا دی ہیں۔ اس کوتاہ اندیش شخص نے بابامری اور شہید نواب اکبر خان بگٹی کے متعلق جو ریمارکس دیئے ہیں وہ بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ سلیمان داؤد یاد رکھیں کہ بلوچوں کی تاریخ میں عام بلوچ سے زیاہ شہزادے اور امیر زادے اپنے قول سے پھرے ہیں اور اپنے دوستوں کو دغا دی ہے۔ جس طرح انگریزوں نے اپنے دور میں شہید غلام حسین مسوری کیساتھ کیا وہی پاکستانی رجیم میں شہید نورا مینگل، شہید علی محمد مینگل، شہید سفر خان، اور عطا بلوچ کیساتھ سرداروں نے کیا۔ نواب نوروز خان کی شہادت کے بعد آپ کے دادا نے بلوچستان سے دست بردار ہو کر مغربی پاکستان میں گورنر موسیٰ کی منشی گری قبول کی۔ سلیمان داؤد کی واپسی کیلئے حالیہ دنوں ایک قرار داد بلوچستان کی کٹھ پتلی اسمبلی میں پیش ہوئی ہے۔ اس کے پس پردہ محرکات سے بلوچ قوم بخوبی واقف ہیں جس کا مقصد بکاؤ منڈی میں اپنی قیمت بڑھانا ہے۔ اس کیلئے سلیمان داؤ نے کس کس کو منتیں کیں وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے اور اس اسمبلی کی حقانیت سے بلوچ قوم اور میرے قابل احترام دوست میر ہیربیار مری بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ سلیمان داؤد صاحب، اب ’’ پدرم سلطان بود‘‘ والی بات نہیں ہوگی۔ اس جنگ آزادی میں ایک عام بلوچ تو درکنار سلیمان داؤد اپنے خاندان کا ایک فرد بھی شامل نہیں کراسکے ہیں، وہ بلوچ قوم کی کیسے رہنمائی کر پائیں گے؟ سلیمان داؤد نے اس پندرہ سالہ جنگ میں کسی بلوچ کو ایک کٹورہ پانی نہیں پلایا مگر جنرل مشرف کو اپنے محل میں دعوت دیکر ایک تلوار تحفہ میں دیکر مشرف کی بلوچ کش کارروائیوں کی حمایت کا علامتی اظہار کیا اور ایک طرح سے مشرف کو بلوچوں کیخلاف مسلح کرکے بلوچ نسل کشی کی حامی بھر لی۔ مگر یہ 1973 نہیں ہے کہ وہ عام بلوچ کو تیس روپے کے عوض ہتھیار ڈلواکر اپنی مراعات و آسائشیں دوبالا کروائیں گے اور نہ ہی بلوچوں کو دو سو 200 سال پیچھے دھکیل کر اپنے آپ کو بادشاہ بنانے کی خواہش پوری کر پائیں گے۔ اس کا اظہار آپ کو انگریزوں کی دی ہوئی His Highness کے خطاب اور روپوش تُرکی کی ’’بیگلر بیگی‘‘ کے بے نور خطاب سے دستبردار نہ ہونے سے ہوتا ہے۔ سلیمان داؤد، یہ یاد رکھیں کہ آپ جس محل میں رہ رہے ہیں اس میں ہمارے آباواجداد کی خون پسینے کی کمائی سے دیاہوا ٹیکس شامل ہے۔ مجھے شک ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے کسی بریگیڈئیر کے نام نوے 90 سال کی لیز پر دی گئی ہو۔ یاد رکھیں بلوچستان کی معلوم تاریخ میں پہلی دفعہ بلوچ بحیثیت قوم اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے اورمیراپختہ ایمان ہے کہ یہ جنگ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیگی۔ لیکن شہزادوں کو یہ باور کرنا ہوگا کہ یہ بلوچوں کی جنگ ہے اور کسی کی ذاتی خواہش پر اسکے رُخ کو موڑا نہیں جائیگا۔ میرے قابل احترام دوست میر ہیربیار مری، حالیہ دورہ جنیوا میں سلیمان داؤد آپ کے ساتھ تھے، واقفانہ حال کے مطابق انہوں نے میر ہیر بیار مری سمیت دیگر دوستوں کے متعلق جو تبصرے کئے ہیں وہ بھی سلیمان داؤد کی ذہنی پسماندگی کا سب سے بڑا مظہر ہیں۔ سلیمان داؤد یاد رکھیں کہ لندن کے خوبصورت محلات میں رہ کر محکوم و مظلوم بلوچوں کی جنگ آزادی سے مذاق کرنے والے لوگوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کریگی۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ بلوچ قومی رہنماؤں کو راستے سے ہٹانے، دوریاں اور بدگمانیاں پیدا کرنے کیلئے کس طرح سے اور کیسے سازشیں بُن رہے ہو۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий