Powered By Blogger

воскресенье, 18 марта 2018 г.


متحدہ بلوچ قومی سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت : رحیم بلوچ ایڈوکیٹ 


’’اتحاد کی راہ ہموار کرنے کیلئے سب سے پہلے آزادی پسند تنظیموں اورحلقوں سے جڑے رہنماؤں،ان کے قریبی دوستوں اوردانشوروں کواپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لاناہوگا۔اختلاف رائے کو اختلاف رائے کے طورپر دیکھناہوگا۔مخالف رائے کا مقابلہ زور اور خاطرسے نہیں بلکہ دلیل و منطق سے کرنے کا چلن اپناناہوگا۔ ‘‘
انیس سو اسی اور انیس سو نوے کے دہائیوں کی طویل خاموشی کے بعد نئی صدی اور نئے ہزاریہ کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی بلوچ قومی آزادی کی خواہاں قوتیں ایک مرتبہ پھر قومی آزادی کی حصول کیلئے سرگرم ہوگئیں۔ قومی آزادی کی جدوجہد کا تجدید نو زیر زمین مسلح کارروائیوں کی صورت میں ہوا۔ البتہ ماضی کے برعکس اب کی بار ان کارروائیوں کا آغاز تنظیمی پلیٹ فارم سے ہوا۔ زیر زمین مسلح تنظیموں کے طورپر بی ایل اے اور بی ایل ایف کے نام سامنے آگئے اور آج کے دن سات مسلح تنظیمیں بلوچ قومی تحریک آزادی کے حوالے سے سرگرم عمل ہیں۔
ان تنظیموں میں تنظیمی اداروں کی کیاصورت ہے؟پالیسی سازی میں تنظیمی اداروں،شخصی و قبائلی اثرات وعوامل کا کردار کیاہے؟ یہ اور اس طرح کے دیگر مسائل ہمارا موضوع بحث نہیں ہیں کیونکہ ان موضوعات پر مختلف آراء پایا جاتا ہے اور نصف درجن تنظیموں کا وجود بذات خود اختلافات کا ثبوت ہے۔ابتدامیں بلوچ قومی تحریک آزادی نے اپنے سرگرمیوں کااحیاء مسلح سرگرمیوں سے کیاجبکہ تحریک کی جمہوری محاذ پراس وقت بھی پاکستانی پارلیمانی سیاست میں یقین رکھنے والے بلوچستان نیشنل موومنٹ حئی گروپ، بی این پی مینگل و عوامی اور جمہوری وطن پارٹی کاغلبہ بدستوربرقرارتھا۔لیکن یہ صورتحال زیادہ دیربرقرار رہ نہیں پایا۔آغاز میں بی ایس او حئی گروپ سے ڈاکٹراللہ نذربلوچ کی قیادت میں بی ایس او آزاد کے نام سے ایک دھڑاالگ ہوکرقومی آزادی کے نعرہ کے ساتھ بلوچ قومی تحریک آزادی کی جمہوری محاذ پر سامنے آیا۔بعدمیں بی ایس اوآزاد اور شہید حمید شاہین کی بی ایس او استارکے انضمام سے بی ایس او متحدہ وجود میں آیا۔اسی دوران بی این ایم حئی اورحاصل بزنجووسردار ثنازہری کی بی این ڈی پی کے انضمام سے اکتوبر2003 میں نیشنل پارٹی وجود میں آیا۔ نیشنل پارٹی کے اعلان کے اگلے روز بی ایس اوکے سابق چیئرمین اور بلوچستان نیشنل موومنٹ حئی گروپ کے سابق مرکزی سینیئرنائب صدر واجہ غلام محمد بلوچ نے بی این ایم کوبرقراررکھنے اور جدوجہدآزادی سے جْڑے رہنے کا علم بلند کیا۔ شہید نواب محمداکبرخان بگٹی کی شہادت کے بعداس کی جمہوری وطن پارٹی اس کے ورثا میں تقسیم ہوئی اورآزادی پسنددھڑا میربراہمدغ بگٹی کی قیادت میں بلوچ ریپبلکن پارٹی کے نام سے سامنے آیا۔
مسلح محاذ پر بی آر اے اور لشکر بلوچستان کا اضافہ ہوا۔ پھر بی ایل اے کے اندرونی دھڑہ بندی کے نتیجے میں یو بی اے بن گیا۔ پھر بلوچ ریپبلکن گارڈ کااضافہ ہو۔اورحال ہی میں ایک مرتبہ پھربی ایل اے دو دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔ اس طرح اب نصف درجن سے زائد بلوچ مسلح تنظیمیں پاکستان کیخلاف مقبوضہ بلوچستان کی آزادی کیلئے برسرپیکار ہیں۔ نئی آزادی پسندتنظیموں کا وجود میں آناایک طرف اس بات کااظہارہے کہ بلوچ معاشرے میں قومی آزادی کی ضرورت کااحساس پھیل رہاہے جوکہ ایک اچھی علامت ہے مگرقومی آزادی کیلئے پہلے سے برسرپیکارتنظیموں میں شمولیت کے بجائے نئی تنظیموں کاقیام بلوچ معاشرہ میں موجود تقسیم کامظہرہے۔
اب یہ آزادی پسندقیادت کی صلاحیتوں اور دوراندیشی پرمنحصرہے کہ وہ مشترکہ قومی دشمن کیخلاف بلوچ قومی قوت کو کیسے ایک مشترکہ محاذ کی صورت میں متحد کرتے ہیں۔ اس بات کااحساس تحریک آزادی سے جْڑی سب تنظیموں کوتقریباََ ہے۔ اسلئے اتحاد کی کوششوں میں تیزی نظرآرہا ہے۔30 اکتوبر 2017 کو بی ایل ایف اور بی ایل ایک ایک دھڑے نے اتحاد اور اشتراک عمل کااعلان کیا۔پھر 24 فروری 2018 کو یو بی اے، بی آراے اور لشکر بلوچستان نے اتحاد کااعلان کردیا۔ تاہم بی ایل اے کا ایک دھڑہ اور بی آرجی اب تک دونوں اتحادوں سے باہرہیں۔ چونکہ یہ زیرزمین تنظیمیں ہیں اسلئے ان اتحادوں کی تنظیمی ساخت اور ادارہ جاتی استحکام کے بار ے میں وثوق سے تو کچھ نہیں کہہ سکتے پھربھی ان پیشرفتوں کومثبت نظرسے دیکھناچاہیے۔ اگریہ اتحادقومی تقاضوں کی تکمیل کیلئے شعوری کوششوں کی پیداوارہیں تولازمی طورپراتحادوں میں شامل تنظیموں کے درمیان اختلافات اور بدگمانیوں کاخلیج بتدریج کم سے کم اوراعتماد کادائرہ وسیع تر ہوتاجائیگا۔اگر یہ اتحاد محض قوم اور کارکنوں کے دباؤکوکم کرنے کیلئے یاکسی اورسبب سے جودمیں لائے گئے ہیں پھر توزیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جانی چاہیءں۔ تاہم بظاہریہ ایک مثبت پیشرفت ہے۔ اسے مثبت ہی لیناچاہیے۔ ایک اورمثبت پیشرفت یو بی اے اوربی ایل اے کے ایک دھڑہ کے درمیان جنگ بندی کااعلان ہے ۔جنگ بندی کے اس فیصلے کااعلان دونوں تنظیموں کے ترجمانوں نے 4 مارچ 2018 کو کردیاہے۔ اب امیدکیاجاناچاہئے کہ بی ایل اے کا دوسرا دھڑا بھی یوبی اے کیساتھ اسی طرح کی جنگ بندی کاکوئی فیصلہ کرلے۔
ویسے دیکھاجائے توآزادی پسندبلوچ مسلح تنظیموں کے کارکنوں اور نچلی سطح کے کمانڈروں کے درمیان باہمی تعاون اوربعض اوقات دشمن کیخلاف مشترکہ کارروائیوں کی خبریں آتی رہی ہیں اورکئی بار ان کے مرکزی ترجمان ایسی مشترکہ کارروائیوں کی تردیدکرکے ایسے غیررسمی اشتراک کی حوصلہ شکنی بھی کرتے رہے ہیں۔ اب اتحادکی صورت میں کارکنوں اورنچلی سطح کے کمانڈروں کے درمیان غیررسمی اشتراک عمل کورسمی قبولیت مل گئی ہے لیکن بلوچ قومی تحریک آزادی کوجس اتحاد اور اشتراک عمل کی اشد ضرورت ہے ،وہ ہے جمہوری و سفارتی محاذ پرایک متحدہ بلوچ قومی سیاسی پلیٹ فارم کی تشکیل۔
بیشک مسلح تنظیموں کے مابین اتحاداوراشتراک عمل اچھی بات ہے مگراس سے عالمی سطح پربلوچ تحریک آزادی کواتنی مہمیزنہیں ملے گی جتنی کہ سرفیس سیاست میں اتحاد و اشتراک سے مل سکتی ہے کیونکہ ایک تو مسلح تنظیموں کوعالمی سطح پر اب تک کسی ملک یاعالمی ادارے نے بلوچ نمائندگی کے حوالے سے تسلیم نہیں کیاہے۔ دوسری بات یہ کہ مسلح تنظیموں کی قیادت بھی خفیہ رہ کرکام کررہے ہیں۔ نصف درجن سے زائدبلوچ مسلح تنظیموں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی قیادت کااعلان نہیں کیاہے۔ حالیہ اتحادوں نے بھی اپنے لئے کسی قائد کااعلان نہیں کیاہے۔ مسلح تنظیموں کے اشتراک عمل سے جنگ، سرمچاروں کی مورال اور کارکردگی پر ضرور مثبت اثرپڑے گامگررازداری اور خفیہ رہنے کے تقاضوں کے باعث اشتراک عمل اور باہمی تعاون کے دائرے کو محدود رکھناپڑیگا۔ویسے بھی خاطرخواہ عالمی حمایت وتوجہ، جنگی وسائل کی کمی اور بے لگام ریاستی دہشتگردی اورجبروتشددکے باوجودبلوچ تحریک آزادی کامسلح محاذپاکستانی فوج،خفیہ اداروں،ان کے کر ایہ کے قاتل نجی وفرقہ وارانہ لشکروں کابڑی کامیابی کیساتھ نہ صرف مقابلہ کرتا آرہاہے بلکہ ان پراپنا دباؤ بنائے رکھنے میں بھی کامیاب نظرآرہاہے۔ البتہ پاکستان کی بے لگام ریاستی دہشتگردی اورجبر و تشدد نے بلوچ تحریک آزادی کے جمہوری بازوکوکسی حدتک کمزوراورمحدودکردیا ہے۔
بی این ایف بناکر شہید واجہ غلام محمد بلوچ نے بلوچ تحریک آزادی کے جمہوری بازوکوبڑی حد تک سرگرم،متحداور منظم کیاتھامگر ان کی شہادت کے بعد بی این ایف کو مزیدمضبوط اورمنظم کرنے کے بجائے اتحادمیں شامل دوستوں نے پارٹی و گروہی مفادات کیلئے بی این ایف کاشیرازہ بکھیردیا۔پہلے تو بیرون ملک مقیم ایک دوست نے کہاتھاکہ بی این ایف اسے بیرون ملک اپناسفیر یانمائند ہ مقرر کرنے کا اعلان کرے جبکہ وہ دوست خودنہ بی این ایف میں شامل کسی تنظیم کا ممبر و نمائندہ اور نہ بی این ایف کے کسی ادارے کا پابند تھا۔اسلئے بی این ایف میں کسی ایسے شخص کواپناسفیر یانمائندہ قرار دینے پر اتفاق نہیں ہوسکاجواس کے کسی ادارے کارکن اورجوابدہ نہیں ہو۔بی این ایف کا اس بارے میں فیصلہ معقول اور منطقی تھامگراس کے فیصلہ پرمذکورہ دوست کا جو ردعمل سامنے آیا وہ منفی تھا۔اس نے ردعمل میں اپنے زیراثرکچھ چھوٹے گروہوں کو بی این ایف سے الگ کردیا۔پھرایک اوردوست نے تنہاپرواز اورایک پاکستانی پارلیمانی پارٹی سے قربت کے چکرمیں بلا کسی عذر اور معقول جواز کے بی این ایف سے علیٰحدگی اختیار کرلی۔ اس طرح بلوچ تحریک آزادی کاکمزور جمہوری بازو مزید کمزور پڑگیا۔
غالباََ 2016 میں بی این ایم کے چیئرمین واجہ خلیل بلوچ اور بی آر پی کے صدرمیر براہمدغ بگٹی نے آپسی روابط کوبحال کرنے اوراتحاد واشتراک عمل کیلئے مذاکرات کی نویدسنائی مگر تاحال وہ روابط اور مذاکرات بارآور نہیں ہوسکے۔ گذشتہ برس 18 نومبر2017 کو اتحاد کیلئے سوئزرلینڈمیں بلوچ رہنماؤں کاایک اجلاس ہونا تھامگر پاکستان وچین کی مداخلت پرسوئس حکام نے اجلاس نہ ہونے دیا۔ اجلاس تو نہ ہوسکا تاہم کافی عرصہ بعد اسی تاریخ کو بی آر پی کے صدرمیربراہمدغ بگٹی اورفری بلوچستان موومنٹ کے ایک وفد کے درمیان ملاقات ہوئی مگر تاحال ان کے درمیان بھی اتحاد کیلئے کوئی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آرہاہے۔
جس طرح مسلح آزادی پسند بلوچ تنظیموں نے اشتراک عمل کااعلان کیاہے۔ اسی طرح بلوچ تحریک آزادی کی جمہوری بازوسے جْڑی پارٹیوں اورتنظیموں کوبھی چاہئے کہ وہ عملی پیشرفت کرکے ایک اتحادتشکیل دیں تاکہ اشتراک عمل کی راہ ہموار ہوسکے۔ ایک مشترکہ قومی سیاسی پلیٹ فارم تشکیل دینے سے نہ صرف بلوچستان کے اندربلوچ تحریک آزادی کاجمہوری بازومتحرک،منظم اورتواناہوگابلکہ سفارتی محاذ پر بھی اس کے کافی مثبت اثرات پڑینگے کیونکہ بلوچ تارکین وطن کی تعداد ایک تو بہت کم ہے پھر وہ بھی مختلف پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے کوئی بھی پارٹی بیرون ملک ایسی کوئی منظم و موثر سرگرمی سرانجام نہیں دے سکتا،جو عالمی میڈیا،رائے عامہ، اداروں اورقوتوں کی توجہ،ہمدردی اورحمایت حاصل کرسکے۔ ایک مشترکہ قومی پلیٹ فارم یقینی طورپراس قابل ہوسکے گاکہ عالمی اداروں اورقوتوں تک بلوچ قومی آوازکوموثرطورپرپہنچاکر ان کی توجہ، ہمدردی اورحمایت حاصل کرسکے۔ بیشک اتحادوں کی سیاست ایک حساس اور نازک عمل ہے جو بْردباری،دوراندیشی اور ذہنی پختگی کامتقاضی ہے۔ اتحاد کو متحد،منظم، توانااورمقاصدکے حصول تک برقراررکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے اغراض و مقاصدایک منشورکی صورت میں واضح ہوں۔ اس کاایک باقاعدہ تنظیمی ڈھانچہ،کام کرنے کے صول وضوابط ہوں۔اس کی ایک پالیسی سازکونسل ہو جوطے شدہ اصول وضوابط کے تحت حکمت عملی تشکیل دینے، عہدیداروں کا انتخاب و جوابدہی اوران کے سرگرمیوں کی نگرانی کرے۔
سترہ سال کوئی چھوٹا عرصہ نہیں ہے کہ بلوچ عوام گذشتہ سترہ سال سے بدترین ریاستی دہشتگردی کامقابلہ بے پناہ اورانتھک قربانیاں دے کر کررہے ہیں۔ بلوچ آزادی پسندقیادت کو چاہیے کہ وہ روایتی شخصی قیادت و فیصلہ سازی کی راہ اور رجحان کو ترک کرکے ٹھنڈے دل ودماغ سے گزشتہ سترہ سال کی کارکردگی،مشکلات ومواقع، کامیابیوں اور ناکامیوں کاجائزہ لیکرایک متحدہ قومی سیاسی پلیٹ فارم اور متفقہ لائحہ عمل تشکیل دیں تاکہ قومی آزادی کے منزل کی جانب زیادہ تیزی سے آگے قدم بڑھایاجائے۔
اتحاد کی راہ ہموار کرنے کیلئے سب سے پہلے آزادی پسند تنظیموں اورحلقوں سے جڑے رہنماؤں،ان کے قریبی دوستوں اوردانشوروں کواپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لاناہوگا۔اختلاف رائے کو اختلاف رائے کے طورپر دیکھناہوگا۔مخالف رائے کا مقابلہ زور اور خاطرسے نہیں بلکہ دلیل و منطق سے کرنے کا چلن اپناناہوگا۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران اختلافات کااظہارجن الفاظ، زبان وبیان میں کیاجاتا رہاوہ بلوچ قومی اقدار اور شائستگی کے بالکل برعکس پاکستانی سیاسی کلچر کے بدنما رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ گوکہ 2015 کے بعد ناشائستہ زبان کے استعمال میں کمی محسوس کی گئی مگر بی ایل اے کی حالیہ بحران کے بعد کچھ لوگ دوبارہ سوشل میڈیا میں اسی طرح کا ناشائستہ زبان استعمال کرنے لگے ہیں جو اتحاد کی کوششوں اور امکانات پرمنفی اثرڈال سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بزرگ آزادی پسند رہنما واجہ واحد کمبر نے اپنے تجربات قلمبند کئے تواس پرایک دانشور نے سوشل میڈیامیں ایک کالم لکھاجس کاعنوان تھا ’’بولاتومعلوم ہواکہ گونگانہیں جھوٹاہے‘‘۔ عنوان سے اندازہ ہوتاہے کہ مندرجات میں کس قسم کی زبان وبیان سے کام لیاگیاہوگا۔ واجہ واحد کمبر کی رائے سے اختلاف رکھنے کاحق ہرکسی کو ہے مگر اس کااظہار کرنے میں بلوچی اقدار اورشائستگی کو پائمال نہیں کیاجانا چاہیے۔ بدزبانی و بداخلاقی اورمنفی روئے صرف نقصان ہی دے سکتے ہیں۔ پاکستان کی نوآبادیاتی قبضہ کیخلاف جدوجہدکے علمبرداروں کو پہلے اس کی منفی سیاسی کلچرسے خودکوآزادکرناہوگا۔
تاریخ
5۔3۔2018
https://dailysangar.com/home/page/10057.html

Комментариев нет:

Отправить комментарий