جنگ آزادی کی رہنماء
گل بی بی ۔
------ شاہ محمد مریگل بی بی ایک صدی قبل ،پہلی عالمی جنگ کے زمانے میں انگریزوں کے خلاف جنگِ آزادی میں بلوچستان کی ایک بہادر کمانڈر تھی۔وہ مغربی بلوچستان سے تعلق رکھتی تھی، جسے سرحدبھی کہتے تھے ، یا بعد میں اب جسے ایرانی بلوچستان کہا جاتا ہے۔ اس کا مشہور شہر ’’خاش ‘‘ ہے جو یاراحمدزئی قبیلے کا ہے ۔وہاں بہت سے دیگر قبائل بھی ہیں۔ مگر گل بی بی کے باب میں وہ دو قبیلے اہم ہیں جنہوں نے انگریز سامراج کے خلاف جنگِ آزادی جاری رکھی: یاراحمد زئی اور گمشادزئی۔
ہم 1916کا تذکرہ کر رہے ہیں ،جب بلوچوں کے یاراحمد زئی قبیلے نے برطانوی املاک اور اُس کے کاروانوں پر اپنے حملے جاری رکھے ۔ یہ قبیلہ اپنی سامراج دشمنی میں بالخصوص سردار جنید خان کے زمانے میں بہت مشہور ہوا۔جیند خان انگریزوں کاقسم کھایا ہوا دشمن تھا ۔وہ بہادر ی میں لاجواب ، عقل و تدبر میں لاثانی ، قوتِ فیصلہ کا بادشاہ اور عزت و احترام کا مالک تھا۔ اس جنگ کے دیگر ہیروؤں میں خلیل خان اور شاہسوار شامل تھے ۔
یاد رہے کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران 1916 میں جنرل ڈائر (9اکتوبر1864 ۔ 23 جولائی1927) نامی سفاک وچالاک افسر کو اِس علاقے میں بھیجاگیا تھا تاکہ وہ جاری بلوچ مزاحمت کو کچل سکے۔اس نے آٹھ ماہ تک یہاں اپنی سازشوں، بد عہدیوں ، دھوکوں، مظالم اور لالچوں کا بازارگرم کیے رکھا ۔ اس کے مدِمقابل قول و قرار کے پابند ، راست باز ،اور آزادی پسند بہادر بلوچ تھے جو اپنے گھر میں عام سی انسانی باشرف زندگانی گزاررہے تھے۔ بغیر کسی اشتعال کے اُن کے وطن پر قبضہ کے لیے حملہ کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ بلوچ اس قبضہ گر کے خلاف لڑے۔
یہیں پر ایک خاتون کمانڈر ابھر کر سامنے آجاتی ہے ۔ وہ نہ صرف خود بندوق اٹھا کر جنگ کرتی ہے بلکہ جنگی حکمت عملی کی خامیوں پر اپنے سردار تک کوڈانٹ دیتی ہے ۔ اُس کا مقدس نام ’’گل بی بی ‘‘ تھا۔
عبداللہ جان جمالدینی بھی اس عظیم خاتون سے بہت متاثر تھا جسے اُس نے اُس وقت دیکھا تھا جب وہ اُس کے چچا فقیر جان سے ملنے آئی تھی۔ جمالدینی صاحب کے بقول وہ نسبتاً فربہ خاتون تھی جس نے سینے پہ دو رویہ کارتوسوں بھراپٹہ سجا رکھا تھا اوراس کے کندھے پہ بندوق تھی۔(1) جمالدینی صاحب کی معلومات کے مطابق اور بھی کئی خواتین نے جنگ آزادی لڑی تھی، مگر گل بی بی ان میں بہادرترین اورذہین ترین کمانڈر تھی۔ وہ بے پناہ مذاکراتی مہارت رکھتی تھی۔
جنرل ڈائر اُس کی شکل وشباہت اور قدکاٹھ کے بارے میں یوں کہتا ہے۔ ’’میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میں نے دیکھا کہ گُل بی بی واقعی ایک خوبصورت نوجوان عورت تھی۔ ایک سرحدی کی مناسبت سے بہت حسین ، روشن چہرہ‘ تقریباً یونانی خدوخال ، غیر معمولی نگاہوں اور بڑی بڑی آنکھوں والی ایک حسینہ تھی ۔ گو بظاہر وہ چھوٹے قد کی تھی لیکن اُس کے اعضا اور ہاتھ بہت خوبصورت تھے‘‘اور اس کا لباس سفید تھا جس پر ۔۔۔کشیدہ کی گئی تھی ۔ سرپر اس نے گشان (دوپٹہ) ڈال رکھا تھا جو خوبصورت تہوں میں تھا، لیکن اُس کے چہرے کو چھپاتا نہیں تھا ۔ (2)
ظاہر ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ گل بی بی کس کی بیٹی تھی ۔ اُس کی کیا اولاد تھی ، وہ کتنے عرصے تک زندہ رہی اور کس سن میں فوت ہوگئی۔
صرف گل بی بی ہی نہیں بلکہ ہمیں اپنے بلوچ منابع کی طرف سے خود جیئند ، شاہسوار اور خلیل خان کی زندگانی کے بارے میں کچھ نہ مل سکا۔ جو مواد دستیاب ہے۔ وہ سارے کا سارا اُس انگریز کا ہے جو غیر جانبدار تاریخ نویسی نہیں تھی۔ بلکہ وہ تو جنگ کا مخالف فریق تھا۔ اور اپنے نکتہِ نظر سے باتیں لکھتا تھا۔
لہذا اصل حقائق معلوم کرنے کے لیے ہمیں انگریز کی تصانیف سے نکتے اٹھا اٹھا کر پورا سلسلہ ترتیب دینا ہوتا ہے۔ بالخصوص جدوجہد آزادی میں عورتوں کے حصے کی تحقیق مایوسی کی حد تک مشکل کام ہے ۔
البتہ ہم اتنا جان سکے ہیں کہ شاہسوار مشہور چھاپہ مار سردار جیئند خان کا رشتہ دار تھا۔ وہ خواہش کا مالک اور گورنر رہ چکا تھا۔ وہ گل بی بی نامی اس حسین عورت سے عشق میں مبتلا ہوگیا ۔ رواج کے مطابق گل بی بی کے طلب گار دولہا اور لڑکی کے نرینہ وارث محمد حسن کے درمیان گفت و شنید ہوتی رہی۔ محمد حسن نے گل بی بی کی قیمت میں خواش کے حقِ ملکیت کا مطالبہ کیا۔ شاہنواز کی انتہائی فریفتگی نے اُسے یہ قیمت ادا کرنے پر آمادہ کرلیا۔شاہسوار نے خواش کا قلعہ اُس کے حق مہر میں اُس کے قریبی نرینہ وارث محمد حسن کو دیا تھا۔ (3)
چنانچہ اس جنگ میں اگر ایک طرف گل بی بی کی سامراج دشمنی ، فراست اور بہادری ہے تو دوسری طرف ڈائرکی بدمستی ، طاقت اور روباہی ہے ۔ ڈائر 1885سے 1920تک برٹش آرمی میں رہا۔ اس نے ’’سیستان فورس ‘‘اور 25پنجاب کی کمان کی ۔ پہلی عالمی جنگ (18-1914) میں اس نے ’’سیستان فورس ‘‘کی کمان کرتے ہوئے میرے وطن کے مغربی حصے پہ حملے جاری رکھے ۔ اُسے 1915میں کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی اور 1916میں عارضی طور پر بریگیڈیئر جنرل بنادیا گیا۔یہ وہی ڈائر تھا جو بلوچستان کے بعد ہندوستان گیا اور اس نے تین برس بعد 1919میں وہاں جلیانوالہ باغ کا قتلِ عام کیا تھا۔
ڈائر کے مقابلے میں، سامراج دشمن جنگ میں دوندان شکن قبائل تھے : یار احمدزئی جوکہ سردار جیند خان کے پاک ہاتھوں میں تھی ، اور دوسرا گمشا دزئی جس کی قیادت سردار ھلیل خان کر رہا تھا۔ اس جنگ میں ڈائرکو زبردست جاسوس ملے۔۔۔گم کرونام کیا لینا جاسوسوں کا!۔
ھلیل وجیند دو بہادر بیل تھے ۔ ان کی قیادت میں بلوچوں نے اپنی سرزمین کی خوب دفاع کی ۔ایسی جنگ، جس میں جیند خان کا بیٹا مارا گیا اور ھلیل خود شہید ہوگیا۔
ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔مغربی بلوچستان میں ’’نالک ‘‘ کی لڑائی بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ مگر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آج ہم بلوچ عوام کو ’’جنگِ نالک ‘‘کے بارے میں کچھ معلومات حاصل نہیں ہیں۔ نہ تحریر میں اور نہ شاعری میں۔ وہاں انگریز کو تباہ کن شکست ہوئی تھی۔ تاریخ ظالم ہے جہاں زورآور کو فتح ہوتی ہے وہاں کی جنگ مشہور ہوجاتی ہے مگر جہاں اُس کو شکست ہوتی ہے وہ اُسے ،بلیک آؤٹ کرتا ہے ۔
واضح رہے نالک خاش کے قریب ایک تنگ درہ ہے۔ ’درہ اور بلوچ!‘ دشمن سلامت گزرنے کا سوچے بھی مت۔ جیند خان کے بعد اس کا بھتیجا شاہسوار لڑتا رہا۔
چاغی کی تاریخ میں بہت ہی طویل اور توانا سامراج دشمن اقدار کی حکمرانی ہے،جو جانا جا تاہے اُس عظیم جنگجو اور کمانڈرخاتون گل بی بی کے نامِ نامی سے جس نے پدر سری بلوچ معاشرے میں ‘انگریز دشمن لڑائی کی قیادت کی تھی۔گل بی بی نے نہ صرف اس جنگ کو منظم کیا ، اس کی قیادت کی ،بلکہ اسے اس طریقے سے جاری رکھا کہ انگریزی افواج کے سربراہ جنرل ڈائرکواس کو تسلیم کر کے اس خاتون کو باقاعدہ سلیوٹ کرنا پڑا۔۔۔ وہ جرات ، بہادری اور ملٹری لیڈر شپ میں یکتا تھی۔
شاہسوار نہ صرف اُس سے محبت کرتا تھا بلکہ اُس کی فہم ، فراست اور بہادری کے اعلیٰ اوصاف کی وجہ سے اس کی عزت بھی بڑی کرتا تھا ۔ڈائر کی کتاب میں سامراجیت کے عزائم کے بیچ میں غور سے جھانکیں تو معلوم ہوگا کہ شاہسوار اپنی بیگم اور ساتھی جنگجو ،گل بی بی کی بڑی تکریم کرتا تھا۔
گل بی بی ایک برابر کی کمانڈر کے بطور بحث مباحثہ کرتی، دلائل دیتی اور جنگ کے کسی محاذ کی قیادت کرتی۔ وہ صرف شاہسوار سے ہی نہیں بلکہ بزرگ جیند خان سے بھی جنگ کی حکمتِ عملی پہ بہت مفید اور کار آمد گفتگو کیاکرتی تھی۔
بالخصوص وہ جیند وشاہسوار پہ یہ تنقید کرتی تھی کہ وہ اپنی سادگی اور شرافت میں انگریز سے دھوکہ کھا گئے ۔ ڈائر کے بقول :’’عیدو چہچہاتے ہوئے بیان کرتا رہا کہ کس طرح گُل بی بی نے تحکمانہ لہجے میں اُن کو بیوقوف کہہ کر اُن کی ہنسی اُڑائی اور اُن کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہنے لگی کہ اب یہ ایک کُھلی حقیقت اور عام بات ہے کہ جرنیل صاحب صرف مُٹھّی بھر آدمیوں کے ساتھ یہاں پہنچا اور محض فریب دے کر اُن سے ہتھیار ڈلوالیے۔ گُل بی بی نے بات یہیں پر ختم نہیں کی بلکہ اُس نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے جیئند سے کہا کہ اگر اُس میں ایک چُوہے کا بھی دل ہوتا تو وہ گذشتہ شب یا دوسرے دن صبح کو حملہ کر کے خواش پر قبضہ کر لیتا کیونکہ جرنیل کی مختصر سی فوج سُورج کے خُوب بلند ہونے تک وہاں نہیں پہنچ پائی تھی‘‘۔
صرف جنگ میں ہی نہیں بلکہ فہم کی اس مالکن اور جنگ آزادی کی اس کمانڈر نے یہ حیران کن ڈپلومیسی اختیار کی کہ’’اپنی خوشنودی کے اظہار کے طور پر دشمن انگریز کے کمانڈر کو دو دنبے بھجوادیے۔
انگریز ڈائر قبول ورد کے محمضے میں پڑ گیا ۔ مگر اس کے جاسوس اورصلاح کارعید و کہا:’’ آپ اب تک گل بی بی کو نہیں جانتے ۔مگر اب آپ جان لیں گے ۔ وہ سرحد کی ایک بہت بارسُوخ شخصیت ہے۔ اگر چہ وہ ایک عورت ہے لیکن دنیا کی خوبصورت ترین عورت بھی ہے ۔ اور آپ مجھے معاف کریں صاحب! آپ کو یہ دُنبے جو اُس نے بھیجے ہیں قبول کرنا ہوں گے ۔ کیونکہ اگر آپ ان کو واپس کردیں گے تو اُس کی بہت بڑی بے عزتی ہوگی‘‘۔
سرحد دار نے بھی اِس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ’’ اِس میں پسند وناپسند کی کوئی بات نہیں ۔ دُنبوں کو امن کی پیشکش کے طور پر قبول کیاجائے‘‘۔
بہر حال خیر سگالی کے اس اقدام کے جواب میں مشیروں نے ڈائر کو مشورہ دیا:
’’ جاکر اُس سے ملیں صاحب ! عیدو نے کہا: گُل بی بی ا،س قسم کی عزت افزائی کرنے والوں کی پذیرائی کی عادی ہے ۔‘‘
انگریز نے یہی فیصلہ کیا۔ یہاں مجھے دو بہت دلچسپ فقرے ملے۔ ایک تو انگریز کا خیال تھا کہ وہ بلوچ کمانڈر خاتون مغل فیوڈل شاہی گھرانوں کی عورتوں کی طرح سات پردوں میں چھپی بیٹھی ہوگی ۔ لہذا اُس نے کمانڈر گل بی بی سے مذاکرات کی حامی بھرتے ہوئے یہ حتمی فقرہ کہہ دیا ۔’’اگر چہ میرا خیال ہے وہ پردے میں ہوگی‘‘۔
’’بالکل نہیں‘‘ ۔ ا س کے دستِ راست عیدو نے برجستہ جواب دیا۔ (پردہ والا ڈرامہ نہ چرواہا عورت کرتی ہے ، نہ خانہ بدوش عورت اور نہ ہی کسان عورت۔ ایک مکمل آزاد اور پر اعتماد محنت کش انسان)۔
چنانچہ اپنے جاسوس اور صلاح کاروں کے مشورے سے وہ اور اس کاسیکنڈ اِن کمانڈ میجر لینڈون اگلی صبح اُس سے ملنے موٹر کار میں چلے گئے ۔
ڈائراپنی اِ س ملاقات کا تذکرہ یوں کرتا ہے :
’’وہاں سے آدھے راستے پر خود شاہسوار ہمارے استقبال کو آیا اور ایک بہت بڑی جُھگی کی طرف ہماری رہنمائی کی ۔جُھگی کے اندر ہم نے اُس مشہور حسینہ کو رنگ برنگے گدیلوں پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اُس نے ایک گُشان (دوپٹہ) ڈال کر رکھا تھا جو خوبصورت تہوں میں تھا، لیکن اُس کے چہرے کو چُھپاتا نہیں تھا۔
’’ ہمارے داخل ہونے پر وہ ایک شان سے اُٹھی اور تھوڑی سی جھک گئی ۔ شاہسوار نے پھر ہم میں سے ہر ایک کا تعارف کرایا اور ہم تعظیماً سلام کو جُھکتے رہے اور پھر اُس کے دعوت دینے پر اُس کے سامنے نیم دائرے کی شکل میں زمین پر بیٹھ گئے۔
’’ تب اُس نے نہایت خوبصورتی سے فارسی میں ہمیں خطاب کیا جو لینڈون اور میں سمجھ لیتے تھے۔ اُس کی تقریر ختم ہوئی تو میں نے سرحد دار کی مدد سے جو بطور ترجمان بولتا رہا اپنی طرف سے بڑی کوشش کی کہ اُس کو معقول جواب دُوں‘‘۔
’’جب یہ اختتامی رسوم ختم ہوئیں تو ایک بڑا عمدہ قالین میزبان بیگم کی طرف سے لاکر مجھے پیش کیا گیا‘‘۔
اس خاتون کے بارے میں ہماری معلومات یہاں تک ہیں ۔لیکن یقیناًانگریز کے اُس زمانے کے جاسوسی رپورٹوں افسرانِ اعلیٰ کے ساتھ خط و کتابت کے ریکارڈ اور دیگر آرکائیوز میں اُس کے بارے میں مزید تفصیلات مل سکیں گی ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ اُس کے بارے میں بلوچ شاعری کہیں موجود ہو۔ یا اُس کے آل اولاد کی سراغ مل سکے جن سے کچھ مزید معلومات حاصل ہوں۔ ہمارے نوجوان محققین کے لیے کتنا زیادہ کام پڑا ہے !i
Комментариев нет:
Отправить комментарий