تین اسٹیٹ کے نوابوں نے غداری کرکے پاکستان سے الحاق کیا،میجر مجید
مقبوضہ بلوچستان: بلوچی زبان کے نامورشاعر و ادیب اور دانشور میجر مجید نے بی آر پی کے سربراہ براہمدغ بگٹی کے 27مارچ کے حوالے سے جاری بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ براہمدغ بگٹی ، اس کی پارٹی اور اسکے ساتھی بلوچ جہد آزادی کا ایک بڑا حصہ ہیں ۔ جس طرح دوسری آزادی پسند ہیں اسی طرح وہ بھی تحریک کا ایک ستون ہیں ۔اور اس کی ایماندری پر کسی کو کوئی شک نہیں ہے لیکن براہمدغ صاحب کا جو بیان قلات اسٹیٹ کے حوالے سے آیا ہے اس نے ہمیں اچھنبے میں ڈال ڈیاہے کیونکہ 70سال ہوچکے ہیں بلوچ قوم اسے جبری الحاق قرار دے رہا ہے ۔اور پھر جبری الحاق کے مکمل ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں ۔میر گل خان نصیر کے ’’تاریخ بلوچستان ‘‘ یا ڈاکٹرنصیر دشتی کے ’’دی بلوچ اینڈ بلوچستان ‘‘کے کتابوں میں باقاعدہ دلیلوں سے یہ ثابت ہے کہ قلات پر جبری الحاق ہواتھا اور اس میں کوئی دورائے نہیں اور بلوچ قوم کا بچہ بچہ اس سے واقف ہے۔
واجہ براہمدغ بگٹی اپنے بیان میں کہہ رہے ہیں کہ ان تینوں اسٹیٹ نے اپنی مرضی سے الحاق کیا ہے ۔میں اس بات پر اس کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ مکران ، خاران اور لسبیلہ ،قلات اسٹیٹ کے تین اسٹیٹ تھے اور یہ تینوں قلات کے ماتحت تھے ۔ان تینوں اسٹیٹ کے سالانہ یا ماہانہ مالیتی آمدنی قلات اسٹیٹ کے خزانے میں جمع ہوتا رہا۔
اور یہ تینوں اسٹیٹ قلات کے ایوان بالا اور ایوان ذیلی کے ممبر تھے۔قلات کے دونوں ایوانوں میں مکران کے 10ممبران تھے ۔اور الحاق کی بات جب محمد علی جناح نے خان قلات سے کی تو اس نے سبی میں دونوں ایوانوں کا اجلاس بلاکر یہ معاملہ ان کے سامنے رکھ دیا اور دونوں ایوانوں نے اس معاملے کو مسترد کردیا ۔اس وقت دونوں ایوانوں میں مکران ، خاران اور لسبیلہ کے نمائندگان موجود تھے ۔
جب دونوں ایوانواں میں پاکستان سے الحاق کا معاملہ مسترد کیا گیا تو محمد علی جناح نے قلات کے وزیر اعظم اسلم خان جو ایک پنجابی تھا سے صلاح و مشورہ کے بعد ایک سازش رچی اور لسبیلہ ،خاران اور مکران کے نوابوں کو چھپکے سے کراچی میں بلاکر انہیں مراعات دیں اور آپس میں الحاق کا فیصلہ کیا۔
میں نواب براہمدغ بگٹی کی توجہ اب اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کو یہ ایک غداری کیس ہے جو نوابوں نے کیاہے ۔ اس میں نہ بلوچ عوام کی رضا ومنشا شامل تھی اور نہ ان تینوں اسٹیٹ کے نمائندگان کی جو ایوان بالا و ذیلی کے اجلاس میں شریک تھے ۔ یہ صرف تین نوابوں کی غداری تھی اوران کا یہ عمل بھی غیر دستوری و غیر آئینی تھا۔محمد علی جناح کو یہ اتھارٹی دستوری و قانونی نہیں تھا کہ وہ اسٹٹ کے ساتھ ڈیل کرسکے ۔یا دیگرتینوں اسٹیٹ کے ساتھ بالواستہ ڈیل کرسکے ۔بذات خود یہ ایک تضاد ہے اور ایک آئینی بریک آؤٹ ہے جو جناح نے کیا ہے ۔اس نوعیت کے حساس معاملے پر بیان دینے کیلئے بہت غور فکر اور تاریخی پہلوؤں کاجائزہ لینا چاہیے۔
واجہ میجر مجید مزیدنے کہا ہے کہ میں واجہ براہمدغ بگٹی سے امید اور درخواست کرتا ہوں کہ وہ تاریخی حقائق کا مطالعہ کرکے اپنے اس بیان پر نظر ثانی کرے کیونکہ کھبی کھبی نادانستہ اور غلطی سے بہت ساری باتیں انسان سے سرزد ہوجاتی ہیں لیکن اپنی غلطی کو ماننا خودایک بڑاپن ہے اور میں سمجھتا ہوں اس میں یہ بڑا پن اور یہ جرأت ہے کیونکہ وہ ایک لیڈر ہیں اور بلوچ قوم کواور جہد آزادی کو لیڈ کر رہے ہیں۔
اس معاملے پر ہر کسی کو اپنے رائے دینے کا حق حاصل ہے لیکن میں ان دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے پر لکھتے وقت گالم گلوچ اور غیر تہذیبی زبان استعمال نہ کریں کیونکہ اخلاق سے گری اور غیر شائستہ زبان دورریاں پیدا کرتا ہے اور بلوچ قوم کو ابھی دوری کی نہیں یکجہتی و نزدیکی اور مہرو محبت کی ضرورت ہے ۔
میں ایک بار پھر ایک معمولی ورکر کی حیثیت سے واجہ براہمدغ بگٹی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے بیان پر نظر ثانی کرے اور دیگر دوستوں سے بھی یہ اپیل ہے کہ وہ اپنی بیان بازی کو کم کریں ۔کیونکہ لیڈر کوئی بیان دیتا ہے تو اس کے جواب میں لیڈر جواب دیتا ہے ۔اگرچہ یہ ایک بحث ہے اس میں کسی کو کوئی بندش نہیں ہے لیکن ورکر اس بات کا زیادہ خیال کریں ۔https://dailysangar.com/home/page/10270.html
اور یہ تینوں اسٹیٹ قلات کے ایوان بالا اور ایوان ذیلی کے ممبر تھے۔قلات کے دونوں ایوانوں میں مکران کے 10ممبران تھے ۔اور الحاق کی بات جب محمد علی جناح نے خان قلات سے کی تو اس نے سبی میں دونوں ایوانوں کا اجلاس بلاکر یہ معاملہ ان کے سامنے رکھ دیا اور دونوں ایوانوں نے اس معاملے کو مسترد کردیا ۔اس وقت دونوں ایوانوں میں مکران ، خاران اور لسبیلہ کے نمائندگان موجود تھے ۔
جب دونوں ایوانواں میں پاکستان سے الحاق کا معاملہ مسترد کیا گیا تو محمد علی جناح نے قلات کے وزیر اعظم اسلم خان جو ایک پنجابی تھا سے صلاح و مشورہ کے بعد ایک سازش رچی اور لسبیلہ ،خاران اور مکران کے نوابوں کو چھپکے سے کراچی میں بلاکر انہیں مراعات دیں اور آپس میں الحاق کا فیصلہ کیا۔
میں نواب براہمدغ بگٹی کی توجہ اب اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کو یہ ایک غداری کیس ہے جو نوابوں نے کیاہے ۔ اس میں نہ بلوچ عوام کی رضا ومنشا شامل تھی اور نہ ان تینوں اسٹیٹ کے نمائندگان کی جو ایوان بالا و ذیلی کے اجلاس میں شریک تھے ۔ یہ صرف تین نوابوں کی غداری تھی اوران کا یہ عمل بھی غیر دستوری و غیر آئینی تھا۔محمد علی جناح کو یہ اتھارٹی دستوری و قانونی نہیں تھا کہ وہ اسٹٹ کے ساتھ ڈیل کرسکے ۔یا دیگرتینوں اسٹیٹ کے ساتھ بالواستہ ڈیل کرسکے ۔بذات خود یہ ایک تضاد ہے اور ایک آئینی بریک آؤٹ ہے جو جناح نے کیا ہے ۔اس نوعیت کے حساس معاملے پر بیان دینے کیلئے بہت غور فکر اور تاریخی پہلوؤں کاجائزہ لینا چاہیے۔
واجہ میجر مجید مزیدنے کہا ہے کہ میں واجہ براہمدغ بگٹی سے امید اور درخواست کرتا ہوں کہ وہ تاریخی حقائق کا مطالعہ کرکے اپنے اس بیان پر نظر ثانی کرے کیونکہ کھبی کھبی نادانستہ اور غلطی سے بہت ساری باتیں انسان سے سرزد ہوجاتی ہیں لیکن اپنی غلطی کو ماننا خودایک بڑاپن ہے اور میں سمجھتا ہوں اس میں یہ بڑا پن اور یہ جرأت ہے کیونکہ وہ ایک لیڈر ہیں اور بلوچ قوم کواور جہد آزادی کو لیڈ کر رہے ہیں۔
اس معاملے پر ہر کسی کو اپنے رائے دینے کا حق حاصل ہے لیکن میں ان دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے پر لکھتے وقت گالم گلوچ اور غیر تہذیبی زبان استعمال نہ کریں کیونکہ اخلاق سے گری اور غیر شائستہ زبان دورریاں پیدا کرتا ہے اور بلوچ قوم کو ابھی دوری کی نہیں یکجہتی و نزدیکی اور مہرو محبت کی ضرورت ہے ۔
میں ایک بار پھر ایک معمولی ورکر کی حیثیت سے واجہ براہمدغ بگٹی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے بیان پر نظر ثانی کرے اور دیگر دوستوں سے بھی یہ اپیل ہے کہ وہ اپنی بیان بازی کو کم کریں ۔کیونکہ لیڈر کوئی بیان دیتا ہے تو اس کے جواب میں لیڈر جواب دیتا ہے ۔اگرچہ یہ ایک بحث ہے اس میں کسی کو کوئی بندش نہیں ہے لیکن ورکر اس بات کا زیادہ خیال کریں ۔https://dailysangar.com/home/page/10270.html
Комментариев нет:
Отправить комментарий