ڈاکٹر سعید بلوچ کی اغوا نما گرفتاری پر قلم خاموش کیوں؟ ... الیاس کشمیری
گذشتہ دنوں پاکستانی ریاست کی آرمی نے ایم بی بی ایس فائنل سال کے طالبِ علم ڈاکٹر سعید بلوچ کو بولان میڈیکل کالج سے اغوا کر کے نا معلوم مقام پر منتقل کر دیاہے۔ڈاکٹر سعید کا اغوا کوئی پہلا اغوا نہیں گذشتہ چار دائیوں سے بلوچستان کے پڑھے لکھے طبقے پروفیسروں،ڈاکٹرز، وکلا،انجینئرز، صحافیوں،اساتذہ،طلبا اور دیگر مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اغوا کیا ،ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکیں ،ٹارچر سیلوں میں ٹارچر کیا اور ہر طرح کی غیر انسانی تشدد کر کے قتلِ عام کیا۔قومی آزادی کی تحریک سے خوف زدہ شکست خوردہ درندہ صفت جابر ریاست نے پڑھے لکھے طبقے کو صفا ہستی سے مٹانے کی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔اس ریاستی بے ہودگی اور غیر انسانی درندہ صفتی نے بلوچ عوام کے پڑھے لکھے ڈاکٹر سے لیکر عام مزدور تک کو عظیم قومی آزادی کی تحریک سے جوڑ دیا اور قومی آزادی کی تحریک میں فتح یاب ہونے کے لیے پوری بلوچ قوم یک جان ہو گئی۔مارنے اور مر مٹنے کے جزبات کو بلوچ عوام اور آزادی پسندوں نے اپنا سب سے بڑا ہتھیار بنا لیا ہے۔پڑھے لکھے طبقے نے قوموں اور محنت کش طبقے کی تاریخ کاسبق کتابوں سے حاصل کیا تو ایسے مزدور نے جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتا اس نے عمل میں ریاستی ظلم جبر دہشت گردی ناانصافی اور بربریت سے سبق حاصل کیا ہے۔کتاب سے سیکھے ہوئے نظریے اور عمل سے تخلیق ہونے والے نظریات کا ملاپ ایک ایسی تحریکی شکل اختیار کر چکا ہے جس نے قابض ریاست کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔یہ اسی ریاستی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے بلوچستان کے اکثریتی علاقوں کے نہتے عوام پر خون ریز فوجی آپریشن میں تیزی لائی گئی ہے ۔اس فوجی آپریشن میں سول آبادی کو بری طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔عوامی آبادی پر بمباری،قتل و غارت اور لوٹ مار کا اندھا سلسلہ جاری ہے ۔پاکستانی فوج اس سے قبل ایسے کئی فوجی آپریشن کر چکی ہے جن میں ہزاروں بے گناہ معصوم عوام کا قتلِ عام اور اغوا وجبری گمشدگیوں کا دردناک کھیل کھیلا گیا لیکن اس ساری بربریت اور ریاستی دہشت گردی کے باوجود قابض ریاست بلوچ عوام کی قومی آزادی کی تحریک کو کچلنے میں نا کام رہی ہے ۔ایک وقت ایسا بھی دیکھا گیا جب سیکورٹی فورسز نے بلوچستان میں پڑھے لکھے لوگوں کے خلاف سخت گیر آپریشن کے دوران ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کو گرفتار کیا ان پر شدید تشدد کیا ان کے جسم میں زہر انڈھیلا گیا۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ اس وقت ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں کتنے سر گرم تھے لیکن اس کے بعد ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نہ صرف تحریک آزادی میں سر گرم ہوئے بلکہ سخت محنت لگن اور قومی آزادی کی تحریک کے ساتھ لازوال کمٹمنٹ نے انہیں قومی آزادی کی قیادت کرنے والے راہنماؤں میں شامل کر دیا۔مذہب کی آڑ میں قبضہ گیریت کو دوام بخشنے کے لیے پاکستانی ریاست بلوچستان میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کی ہی نہیں بلکہ جنگی جراہم کی بھی مرتکب ہو رہی ہے ۔تین مارچ کی رات کو بولان میڈیکل کالج سے فائنل ایئر کے طالبِ علم ڈاکٹر سعید بلوچ کو سیکورٹی فورسز نے اغوا کیا اور نہ معلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ دستیاب معلومات کے مطابق ڈاکٹر سعید بلوچ کا تعلق کسی بھی سیاسی تنظیم سے نہیں تھا۔البتہ ڈاکٹر سعید بلوچ کی اغوا نما گرفتاری نے عوامی سطح پر ایک عرصہ سے موجود احتجاجی جمود کو توڑا ہے ۔چار دن سے بولان میڈکل کالج کے طلبا مکمل ہڑتال کیے ہوئے ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر سعید بلوچ کو بازیاب کیا جائے اور اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو عدالت میں ان کے خلاف کیس ٹراہل کیا جائے ۔گذشتہ ایک عرصے سے فوجی بربریت اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے سیاسی سطح پر منظم احتجاج کے حوالے سے بلوچ سماج پر ایک جمود طاری تھا جس پر ایک کاری ضرب لگی ہے اور یہ جمود ٹوٹا ہے ۔قابض ریاست کے لیے یہ نیک شگون بات نہیں ہے ۔جبکہ قومی آزادی کی تحریک کے لیے یہ ایک حوصلہ افزا اور آگے کی جانب پیش رفت کا عمل ہے ۔اس ساری صورتحال میں انسانی حقوق کے علمبردار اور باہیں بازو کے دانشوروں کے قلم کی حرکت میں ایک مکمل جمود طاری ہے ۔انسانیت کے عَلمبردار اداروں اور دانشوروں کی بلوچ عوام پر جاری جارحیت اجتماعی نسل کشی،ماورائے عدالت قتلِ عام لوٹ کھسوٹ اور اغوا کاری پر مسلسل خاموشی ان کے انسانیت دوستی کے ڈھونگ کو بے نقاب کرتی ہے ۔ان انسانیت کے علمبرداروں کو شام سری لنکا اور دنیا کے کسی بھی کونے پر رونما ہونے والے واقعات میں نا انصافی اور انسانی اقدار کی خلاف ورزی نظر آ جاتیہے اور یہ خوب چیختے چلاتے ہیں۔لیکن بلوچستان میں بلوچ نہتے عوام پر جاری خون ریز ریاستی جارحیت جو تاریخِ انسانی کی بد ترین جارحیت ہے پر یہ مکمل خاموش ہیں کیوں۔۔۔۔۔۔؟اس لیے کے یہ کاہل ہیں بزدل ہیں ڈرتے ہیں کہ سچ بولا یا لکھا تو ریاست قتل کر دے گی۔پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس وحشی ریاست سے اتنا گھبراتے ہو کہ اس کے ظلم و جبر اور قتلِ انسانیت کو بے نقاب نہیں کر سکتے ہو تو پھر انسانی حقوق اور انسان دوستی کا راگ کیوں الاپتے ہو؟۔خاموشی ظالم اور جابر ریاست کی جارحانہ پالیسیوں کی مکمل حمایت کے مترادف ہے ۔قابض پاکستانی ریاست کے توسیع پسندانہ عزائم اور بلوچ نہتے عوام کی قومی آزادی کی جدوجہد میں کوئی فردِ واحد یا تنظیم غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔جو فرد یا تنظیم بلوچ عوام پر ہونے والی جارحیت کو بے نقاب کرتی ہے اس کی مخالفت کرتی ہے وہ بلوچ عوام کے ساتھ ہے اور جو فرد یا تنظیم اس پر تشدد جارحیت کے ہوتے ہوئے بھی خاموش ہے وہ اس غیر فطری انسانی اقدار کی قاتل ریاست کی جارحیت اور بلوچ عوام کے قتلِ عام کی حمایتی ہے ۔چاہے لفاظی اور پروگرام میں جتنی انسانی حقوق کی عَلمبردار اور حق و سچ کی داہی کیوں نہ بنی رہے۔بلوچ عوام پر جاری ننگی جارحیت پر خاموش رہنے والا قلم سامراج اور اس کی حواری قوتوں اور مذہبی بنیاد پرست ریاست پاکستان کا حامی معاون و مدد گار قلم ہے۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий