Powered By Blogger

вторник, 30 июня 2020 г.

بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کی پاکستان اسٹاک ایکسینج پے ہونے والے حملے کی تناظر میں ایک دوست سے حال احوال۔ ‏ ‏ ‏


بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے کل پاکستانی اسٹاک ایکسینج پے مجید برگیڈ کے فداہین نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں قابض پاکستانی فورسز کو جانی و مالی نقصان اُٹھانا پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر ایک عالمی خبر بن گیا۔
جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ دشمن کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ہمارے اپنے بھی ہمیں کمزور کرنے نقصان دینے میں پیچھے نہیں رہے ہیں اور کہی نہ کہی دشمن کے سہولت کار کے طور پر کام کرتے آرہے ہیں، دانستہ یا نادانستہ اللہ ہی جانے۔
خیر یہ بڑا خبر تھا ہر طرف اس کی چرچا ہورہی تھی تو اسی تناظر میں ایک دوست نے کال کیا، حال احوال کے بعد اسی حملے پے بات کرنا شروع کیا کہ دیکھیں یار ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، میں نے کہا کیون ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اس حملے میں کیا خرابی یا نقصان تھا؟ بولنے لگا یار مسنگ پرسنز کا کیس خراب ہوگا، میں نے کہا تو آپ بولو کیا کریں جنگ بندی کا اعلان کریں؟ ریاست تو روز ہمارے لوگوں کو مار رہا ہے گھروں کو جلا رہا ہے مسخ شدہ لاشیں پھینک رہا ہے تو آپ بولو بلوچ کیا کریں۔ اس طرح دیکھا جاۓ قابض ریاست چار بندوں کو چھوڈ دیگا چار سو پھر اُٹھا لیگا، پچھلے ایک ہفتے میں کہی بے گناہ بلوچوں کو جبران گمشدہ کرچکا ہے، ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ یہ جنگ مسنگ پرسنز کے نام پے ہورہا ہے بلکہ یہ جنگ قبضہ گیریت کے خلاف ہورہا ہے اور مسنگ پرسنز کا کیس اس جنگ کا تحریک کا حصہ ہے لیکن اصل چیز قابض کے خلاف جنگ ہے، اگر ریاست کسی کو بھی رہا نہیں کریگا بلکہ سینکڑوں اور کو لاپتہ کرے تو کیا بلوچ مسلح تنظیمیں خاموش بیٹھ جاہیں؟
دوست سنتا رہا پھر اچانک سے کہنے لگا یار وہ نیوز میں میں نے دیکھا انڈیا نے بھی اس حملے کی مزمت، مخالفت کی ہے دیکھو یار انڈیا بھی ہمارا مخالف بن رہا ہے۔ میں نے کہا کیا یہ جنگ بلوچوں نے انڈیا کے خوش رکھنے کے لیے شروع کیا ہے، یا یہ جنگ انڈیا کی مفادات کے لیے ہورہا ہے؟ انڈیا مزمت کرے یا حمایت وہ ایک الگ بات ہے اور ساتھ ہی ساتھ ملکوں کو ڈپلومیسی بھی کرنا ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کے انڈیا جو بولے ہم وہی کریں، یہ جنگ ہماری اپنی جنگ ہے بلوچوں کی اپنی جنگ ہے کہ پاکستان جیسے ریاست نے ہمارے زمیں پے قبضہ کیا ہے، ہم کسی کو خوش یا ناراض کرنے کے لیے یہ جنگ نہیں لڑرہے ہیں۔ کل کو انڈیا و پاکستان کے نعلقات ٹھیک ہوجاتے ہیں اور انڈیا پاکستان کے ساتھ مل کر آپکے خلاف مشترکہ مزاحمت کرے گا تو کیا کرو گئے؟ بلوچ نہ کسی کے پراکسیز ہیں اور نہ ہی انڈیا سمیت کسی کے کہنے یا کسی کو خوش کرنے کے لیے یہ جنگ لڑرہے ہیں۔انڈیا سمیت کوئی بھی مزمت کرے یا حمایت لیکن بلوچ نے کیا کرنا ہے اس کے مفادات کس چیز میں ہیں ہمیں وہ کرنا چاہیے۔
دوست۔ یار بشیر زیب ان کو استعمال کررہا ہے اپنے مفاد کے لیے مجھے سب پتہ ہے۔
میں نے کہا اچھا یہ استعمال ہورہے ہیں کیا آپکو پتہ ہے یہ جو فداہین کرتے ہیں یہ مجھ سے آپ سے اور ہمارے نامونہاد لیڈر صاحباں سے کہی زیادہ باشعور ہوتے ہیں، فکری و نظریاتی طور پر ہم کسی کہی زیادہ پختہ ہوتے ہیں، ان کے پاس اتنا علم ہوتا ہے کہ میرے اور آپ کے گمان سے بھی زیادہ تو کیا یہ کسی کو خوش کرنے کے لیے فداہیں کرتے ہیں؟ وطن کے ان دیوانوں کو یہ کہنا کہ کسی کے کہنے پے استعمال ہورہے ہیں ایسی گندی گھٹیا سوچ وہ لوگ رکھتے ہیں جو ضد حسد گھبرائٹ میں اندھے ہو چکے ہوں، کیا آپ اور مجھ میں اتنا ہمت، جزبہ ہے کہ ہم ایسا سوچ بھی سکیں کہ ہم بھی اس جہد کا عملی حصہ بننا چاہتے ہیں بلوچ فداہین بننا تو بہت دور کی بات ہے، بلوچ فداہین اپنے سرزمین کے لیے اپنے دھرتی کے آجوئی کے لیے قربان ہونے کے جزبے سے یہ فداہین کرتے ہیں نہ کے کسی کو خوش کرنے کے لیے۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ بلوچ فداہین کسی کے کہنے پے حملے کرتے ہیں تو اس دنیا میں اس سے بڑا جاہل احمق نہیں ہے۔ کوئی کسی کے کہنے پے یا کسی کے مفادات کو تکمیل دینے کے لیے فداہین جیسا عمل ہرگز نہیں کرسکتا یہ عمل وطن کے وہ دیوانے کرسکتے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف بلوچ سرزمین کی آجوئی ہے۔ فداہین کو پتہ ہے کہ ہم ایک ایسی مشن پے جارہے ہیں جس سے واپسی لوٹنا ناممکن ہے وہ کیسے کسی کے کہنے یا مفاد کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔
دوست لمبی خاموشی کے بعد کہنے لگا اس طرح دنیا ہمیں دہشتگرد قرار دیگا۔ میں نے کہا دنیا دہشتگرد قرار دے یا نہ دے لیکن آپکو تو یہ جنگ ہرحالت میں لڑنی ہے، لیکن پھر بھی ایک بات واضح ہے دنیا کو بھی پتہ ہے عالمی اداروں کو بھی پتہ ہے کہ بلوچ کیون لڑرہے ہیں بلوچ کیون مجبور ہوکر فداہین کررہے ہیں کیونکہ ہمارا زمین قبضہ ہوچکا ہے قابض ریاست ہماری نسل کشی کررہا ہے، ہماری ماؤں بہنون کی تزلیل کررہا ہے، عورتوں بچون کو ماررہا ہے اس لیے بحالت مجبوری بلوچ یہ عمل کررہا ہے، اپنے سرزمین کے لیے لڑنے سے جدوجہد کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت ہمیں روک نہیں سکتی، کوئی بھی ملک ہو اس کے اپنے حدو حدود ہوتے ہیں اور وہ کھبی بھی یہ برداشت نہیں کرسکتا ہے کوئی ملک اس کے زمین ایک انچ بھی قبضہ کرے اور دوسری طرف بلوچ کا پورا سرزمین قبضہ ہوچکا ہے تو اس کے لیے لڑنے مرنے مارنے کے علاوہ بلوچ کے پاس اور کیا آپشن موجود ہیں؟ دنیا خانہ پوری کی حد تک ضرور دہشتگرد لکھے گا لیکن ان کو پتہ ہے بلوچ اپنے حق کے لیے لڑرہے ہیں کل بلوچ فداہین کے حملے کو عالمی میڈیا نے کوریج دی تو وہاں انہوں نے بلوچ کو دہشتگرد نہیں بلکہ فریڈیم فاہٹرز کہا، یہ لکھا کہ یہ حملہ بلوچستان کی آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجوؤں نے قبول کیا ہے اور مسقبل میں بھی حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
بھائی اس ضد، حسد آنا سے نکل جاؤ اپنے غلامی کو محسوس کرو اس جنگ کا حصہ بن جاؤ بن نہیں سکتے کم سے کم حمایت کرو اس طرح دانستہ یا نادانستہ طور پر تنظیمون کے خلاف استعمال مت ہوجاؤ۔ لوگ لڑرہے ہیں مررہے ہیں ماررہے ہیں اور ہم پھوتاری میں لگے ہیں۔ کسی نے بھی آپکو جدوجہد کرنے سے نہیں روکا ہے اپنے بساط کے مطابق جدوجہد کرتے رہو لیکن دشمن کا کام آسان کرنے کے لیے اس کے بیانینے کو پرموٹ کرنے سے آپ بلوچ کا خیرخواہ ہرگز نہیں ہو سکتے۔
سنگت بلوچ

пятница, 1 мая 2020 г.

ساجد حسین کی موت نے گہرے صدمے سے دوچار کیاہے، چیئرمین خلیل بلو چ ‏ ‏


 



  
بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ہے کہ لاپتہ جلاوطن بلوچ صحافی ساجد حسین کی موت نے ہمیں گہرے صدمے سے دوچار کیا ہے۔ یہ ہمارے لئے ناقابل تلافی قومی نقصان ہے۔ سویڈش پولیس اور اختیار داروں نے ہمیں شدید مایوس کیا ہے۔ ساجد حسین کی موت نے ہزاروں جلاوطن بلوچوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ مہذب کہلائے جانے والے ملک میں بھی ستم رسیدہ بلوچوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم ”رپورٹر وِد آؤٹ بارڈر“ نے ہماری خدشات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ساجد حسین کی گمشدگی میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ ہم نے پہلے ہی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس میں پاکستان کا بدنامہ زمانہ خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ملوث ہوسکتی ہے۔ لیکن سویڈش حکومت کی نہایت سست رفتارتحقیقات اورسست رفتار بازیابی کی کوشش نے ہم سے ایک بلوچ صحافی، دانشور اور مدبر انسان چھین لیا۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا بلوچستان میں پاکستان انسانی لہو سے ہولی کھیل رہا ہے۔ پاکستانی افواج اور خفیہ ادارے شدت کے ساتھ بلوچ نسل کشی کے گھناؤنے عمل میں مصروف عمل ہیں۔ بلوچ دو دہائیوں سے مہذب دنیا،اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کررہے ہیں کہ اس نسل کشی کے سدباب کے لئے عملی کردار ادا کریں۔ لیکن اقوام متحدہ سمیت مہذب دنیا کی مجرمانہ غفلت سے پاکستانی جنگی جرائم نے بلوچستان میں ایک انسانی المیہ جنم دیاہے۔ پاکستان کے جنگی جرائم اور درندگی کے خلاف آوازاٹھانے کے لئے ہزاروں بلوچ نوجوانوں نے یورپ سمیت دیگر ممالک کا رخ کیا ہے۔ ان میں صحافی، دانشور اورسیاسی و انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں۔ اب نوبت بہ اینجا رسید کہ یورپ میں بلوچ محفوظ نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ ممالک جو اپنی انسانی حقوق اور اقدار پر فخر کرتے ہیں، ان میں دن دھاڑے ایک نامور صحافی کا اغوا اور موت ایک نہایت افسوسناک امر ہے۔ ساجد حسین ایک معمولی انسان نہیں تھے بلکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر پاکستان کے معروف انگریزی جرائد ”دی نیوز انٹرنیشنل“،”ڈیلی ٹائمز“ میں بطور اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر اور ڈپٹی سٹی ایڈیٹر کام کرچکے ہیں۔ بلوچ صحافیوں کے قتل اور ملنے والی دھمکیوں کے بعد ساجدحسین نے مختلف ممالک میں خود ساختہ جلاوطنی کے بعد سویڈن میں سیاسی پناہ حاصل کی۔ انسانی المیے سے دوچاربلوچستان کے حقائق دنیاکے سامنے لانے کے لئے آن لائن جریدہ ”بلوچستان ٹائمز“ کا اجراء کیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپسالہ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کررہے تھے، جہاں سے وہ دو مارچ کو لاپتہ کئے گئے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ساجد حسین کی موت سے جہاں بلوچ قوم نے اپنا قیمتی فرزند کھو دیا ہے، وہاں یورپی ملک کی ساکھ اور شہرت پر سنجیدہ سوالات اٹھنا ایک فطری امر ہے۔ میں سویڈش حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ ساجد حسین کی جبری گمشدگی اور موت کا شفاف اور فوری تحقیقات کی جائیں لیکن معاملے کی سنگینی کو مدنظر رکھ کر اقوام متحدہ، صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔
 

воскресенье, 5 апреля 2020 г.

قومی آزادی کی جدوجہدمیں تنظیم کی ضرورت قومی تحریک کے تناظر میں – واحد قمبر بلوچ

بلوچ قومی تحریک آزادی میں ایک سپاہی کی حیثیت سے میں نے ایک طویل مسافت طے کی ہے۔ اس دوران میں نے تحریک میں بہت سے نشیب و فراز کامشاہدہ کیاہے۔ پہلی بار کوشش کررہاہوں کہ تحریک پر ایک طائرانہ نظرڈالنے کے ساتھ ساتھ تحریک کے باربار تسلسل ٹوٹنے کے بنیادی وجوہات اختصارکے ساتھ پیش کروں۔

قوم ایک وحدت کا نام ہے جس میں لوگوں کا بہت بڑا گروہ جن کا کسی سرزمین سے وابستگی ہو اور تمام لوگ جغرفیائی یا معاشی مفادات سے مشترک ہوں۔ اس اشتراک عمل کو میں’قوم‘سمجھتاہوں۔ بلوچ بھی ایک قوم کی حیثیت رکھتی ہے جو ہزاروں سال ایرانی پلیٹو میں اپنی موجودگی کا احسا س تاریخی حوالے سے دلاتی رہی ہے۔ بقول ڈاکٹر نصیر دشتی ’’بلوچ قوم سات ہزارسال سے اس خطے میں آباد ہے‘‘۔ یہ خطہ اپنی ذرخیزی اورتزویراتی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ غاصبین کی توجہ کا مرکز رہاہے اورآج بھی صورت حال ماضی سے زیادہ مختلف نہیں ہے لیکن بلوچ قوم کا اپنی وجود اور اپنی تشخص سے وابستگی اس بات کا غمازہے کہ بلوچ قوم کو مٹانے میں تمام قبضہ گیروں کی طرح پاکستان بھی ناکام رہے گا اوربلوچ اپنے تاریخی فریضے کی ادائیگی میں سرخ رو ہوگا ۔

آج کی گفتگومیں ہم تاریخ پر بحث کرنے کے بجائے بلوچوں کی قومی آزادی کی جدوجہدپر اپنے خیالات کا اظہارکریں گے جوکہ میرا بنیادی موضوع بحث ہے ۔یہ تاریخی صداقت ہے کہ بلوچ قبائلیت میں منقسم قوم رہی ہے۔ وہ ہرحملہ آور کے خلاف قبائلی شکل و صورت میں نبردآزما رہے ہیں۔ انگریزوں کے خلاف ہماری جنگ قبائلی بنیاد پر ہوئی ۔انگریزوں کے خلاف جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں جن کا آغاز خان مہراب خان کی شہادت سے ہوتا ہے، جنہوں نے قبضہ گیریت کے خلاف سرتسلیم خم کرنے کے بجائے انگریزی فو ج کا مقابلہ کیا اوراپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہیدہوئے۔ اسی طرح مری قبائل اپنے علاقے میں اپنے زورِ بازو پر انگریزکے خلاف لڑتے رہے۔کیچ مکران میں بلوچ خان نوشیروانی انگریزوں کے خلاف لڑتا ہوا ’’گوک پروش ‘‘ کے میدان میں شہید ہوئے ۔جھالاوان میں بھی مزاحمت ہوئی مگر صورت قبائلی رہی۔ یہاں تک ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس دورکی مناسبت میں بلوچ سماج کی ہیئت قبائلی تھی اور بلوچ قبائلی نظم میں زیادہ منظم تھے لیکن ہماری جدید تاریخ جو بلوچ وطن پر پاکستان کے قبضے سے شروع ہوتاہے اس دورمیں بھی بلوچوں میں مرکزیت کی کمی تھی۔ پاکستان کے خلاف جتنے مزاحمتی دور گزرے ہیں سب کے سب قبائلی سرداروں یاقبائلی شخصیات کے ماتحت ہوئی ہیں۔ ان جنگوں میں قبائلیت کا جوش و جذبہ زیادہ تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستان نے قلات پر حملہ کرکے مارچ ۴۸ء کو بلوچستان پر قبضہ کرلیا ۔پہلامزاحمت آغاعبدالکریم نے پاکستانی حکومت کے خلاف جنگ کا اعلان کرکے کیا اورآغاعبدالکریم کی جنگ ایک علامتی جنگ تھی جواثرات کے حوالے سے موثرمگرمیدان جنگ میں بڑی کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ آغا تھوڑی سی مزاحمت کے بعد سرلٹھ چلاگیا کیونکہ ان کے پاس آزادی کی جنگ میں تنظیم یا پارٹی کا وجود نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ایوب خان دور میں نواب نوروز خان اور اس کے ساتھیوں نے ایوبی حکومت کے خلاف زبردست مزاحمت کی اوردشمن نے نوروز کو دھوکہ دیکر پہاڑوں سے نیچے اتارا اوران کو حیدرآباد جیل میں پابند سلاسل کردیا ۔ ان کے ساتھیوں کو حیدرآباد میں پھانسی دی گئی؛ خود بابوصاحب پیرانہ سالی میں جیل میں وفات پاگئے۔ کہتے ہیں کہ نواب صاحب پر جیل میں تشددکیاگیا جس سے وہ شہید ہوگئے ۔

نواب نوروزخان کی جدوجہدکے بعد بھٹو کے دورمیں جب وزیر اعلیٰ عطاء اللہ مینگل کی نیپ کی حکومت ختم کی گئی توایک مزاحمت دوبارہ شروع ہوئی مگر اس دور میں بھی کوئی واضح سیاسی تنظیم نہیں تھی اور اس جنگ میں صرف مری اور مینگل قبائل جنگ لڑرہے تھے۔ کوئی واضح سیاسی لائحہ عمل نہیں تھا۔ کوئی تنظیمی پالیسی نہیں تھی۔ مری اور مینگل قبائل اپنے سربراہوں کے مرہون منت تھے ۔جب انیس سوستترکو قبائلی سربراہاں جیل سے رہا ہوئے تو پورے بلوچستان میں خاموشی چھاگئی۔ کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ اس جنگ کا کیا مقصد تھا ۔ضیاء الحق کے پورے دورحکومت میں بلوچ قومی تحریک میں حرکت دیکھنے میں نہیں آئی کیونکہ تمام جددجہد کا محور قبائلی تھا اور پوری تحریک چند شخصیات کے تحریک سے وابستگی ،اندازوں اور سوجھ بوجھ پر منحصرتھا۔ تنظیم اور تنظیمی نظم میں فیصلوں کی عدم موجودگی سے اداروں کا خلاء واضح طورپر محسوس ہوتاتھا مگر اس جانب سنجیدہ کوششیں کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ جس مقصد کے لئے ہزاروں بلوچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ،بے پناہ مالی مشکلات کا سامنا کیا، نتیجہ انہیں مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں ملا ۔

میں بی ایس او سے منسلک تھا اور آزادی کا جذبہ دل میں موجزن تھا اورشہید فدا احمد بلوچ کی سیاسی ہمراہی میں ذہنی طورپر اس بات کا قائل ہوچکاتھا کہ بلوچ جدوجہدمیں تنظیمی خلاکو پر کرنے کے لئے عملی کوشش کی جائے کیونکہ شہید فدا بلوچ ہروقت ادارہ سازی کی درس دیتے تھے۔ انیس سو اسی میں میں نے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ اس وقت میں بی ایس او عوامی کراچی زون کا صدر تھا۔آزادی کی جستجو کو لے کر انیس سواکیاسی میں میں مری علاقے میں چلاگیا تاکہ اس جدوجہد کو سیاسی تنظیمی بنیاد پر جاری کیاجائے۔ میں نے اپنے طورپر تمام علاقے یعنی مری بگٹی علاقے میں سیاسی تنظیم اور جدوجہدآزادی کے لئے ہوم ورک کیا۔میں اورمیرے چند دوست اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر آزادی چاہتے ہیں تو ایک سیاسی پلیٹ فارم بنایا جائے اور جدوجہدکوسیاسی تنظیم تشکیل دی جائے۔ ہم نے بزگرمیں شہید سدومری کے کیمپ میں غالباََ پچاسی یا چھیاسی کوتمام کمانڈروں کو بلاکر ایک میٹنگ کا انعقادکیا۔ اس میں میرے علاوہ شہید سعادت مری ،میر عبدالنبی بنگلزئی ،میررحمدل مری،نیاز احمد چلگری اورشکل کلوانی شامل تھے۔ ہم نے اس پر بحث و مباحثہ کی ۔تمام ساتھی میرے موقف کے حامی تھے مگر میرصاحب نے زبردست اس کی مخالفت کی اور ان کا کہنا تھا کہ ’’آپ لوگ اپنے نمائندے بابوشیر محمد مری کے پاس بھیج دیں ‘‘اس کے بعد کیمپوں کے کمانڈر اور میرصاحب بشمول من کوئٹہ میں بابو شیر محمد مری سے ملاقات کی اور اپنا مدعابیان کیا۔ وہاں غیر متوقع طورپرشیر محمد مری نے بھی اس کی بھرپور مخالفت کی اورکہا کہ’’ آپ لوگ سامراج کی زبان میں بات کر رہے ہیں ‘‘اوریہاں بھی میرعبدالنبی نے شیر محمد کی تائید کی۔ یہ انیس سو چھیاسی کی بات تھی۔ میں اس نتیجے پر پہنچاکہ موجودہ جدوجہدمیں اسٹیک ہولڈرتحریک پر اپنی گرفت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس مقصدکے لئے قبائلیت ا ن کا موزوں ہتھیارہے ۔قبائلی محورکے گرد گھومنے والی جدوجہدمیں ’’قبائلیت ‘‘ کو میرعبدالنبی کی بھی بھرپور حمایت حاصل تھی ۔ہم نے اس وقت بھی شیر محمد مری سے کہا تھا ’’جناب سیاسی جدوجہد کو ایک منظم سیاسی تنظیم کی ضرورت ہے ‘‘۔اس کے علاوہ آزادی ہمیں نہیں مل سکتی۔ مگرہماری آوازایسی تھی جیسے نقارخانے میں طوطی کی آواز۔۔۔۔لیکن میں نے مایوس ہونے بجائے اپنا کام جاری رکھا کہ کوئی صورت نکل آئے گا۔ اس وقت نواب خیر بخش اپنی طویل جلاوطنی کے سلسلے میں یورپی ممالک کا دورہ کرنے کے بعد افغانستان میں مقیم تھے ۔

جدوجہد میں پارٹی کی خلاء کو پرکرنے کے لئے نواب خیربخش مری سے ملنے کے لئے شہید فدااحمدبلوچ ،میر حمل پرکانی اورمیر عبدالنبی بنگلزئی کے ہمراہ کابل افغانستان چلے گئے۔ بنیادی معاملہ تنظیم کی ضرورت اور اس کے قیام کے لئے کوششیں تھیں تاکہ اس جانب پیش رفت کیاجائے اور تین مہینے وہاں قیام کیا۔ جب واپس آئے توہم نے کراچی میں ایک میٹنگ کا انعقاد کیا جس میں راقم کے علاوہ شہید فدا احمد ،میر عبدالنبی بنگلزئی اورمولابخش دشتی شامل تھے۔ شہید فدا احمد نے اپنی رپورٹ پیش کی، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ’’ جب میں نے نواب صاحب کے سامنے اپنی رائے کا اظہارکیا تو نواب صاحب نے مجھ سے تنظیمی خاکے کامطالبہ کیا تو میں نے انہیں بلوچ قومی سیاسی تنظیم کا خاکہ اور اس کے آئینی ڈھانچہ فراہم کیا لیکن نواب صاحب بنیادی طورپر تنظیم کے ضرورت پر قائل نہیں ہوسکا۔ اس کے ساتھ ہی نواب صاحب نے میر عبدالنبی بنگلزئی کو اپنا نمائندہ بنایا جبکہ مجھ کو (فدااحمد بلوچ) بلوچ طلباء تنظیم بی ایس اوعوامی کا نمائندہ قراردیااوربلوچستان میں جاکر اس پر مزیدکام کرنے کی ہدایت کی گئی تو میں بلوچستان آگیا۔ فدابلوچ کا کہنا تھا کہ بی ایس او سے فارغ ہونے والے سیکڑوں کی تعداد میں فارغ التحصیل نوجوان پاکستانی نظام میں چلے جاتے ہیں اور بلوچ قومی تحریک سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ قومی سیاسی پارٹی کی عدم موجودگی ہے ،جبکہ میٹنگ میں میر عبدالنبی بنگلزئی کا کہنا تھا ان کا رشتہ اوراعتمادنواب صاحب کی شخصیت سے وابستہ ہے وہ انہیں کسی صورت میں چھوڑ نہیں سکتے ہیں۔ یوں ہمار ا یہ میٹنگ بھی بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوا ۔اس میٹنگ کے اثرات یہ ہوئے کہ شہید فدا بلوچ نے بی این وائی ایم کے نام سے ایک پارٹی کی داغ بیل ڈالی ۔

انیس سو نوے کے سال ہم میر عبدالنبی بنگلزئی کے ساتھ افغانستان چلے گئے۔ افغانستان میں سیاسی تنظیم کی بجائے بلوچیت اورقبائلیت کی بنیادپر کام کررہے تھے۔ کسی قسم کی تنظیمی سیاست نہیں تھی مگر اس وقت چند طلباء اور رہنما سوویت یونین چلے گئے۔ وہ بی پی ایل ایف کے پلیٹ فارم سے جاتے تھے یا اس کے علاوہ جتنے بھی بلوچ ہمدرد ملک تھے ان کے ساتھ تعلقات کے باب میں یہی تنظیم کا نام استعمال ہوتا تھا مگر گراؤنڈ میں اس تنظیم کے خدوخال واضح نہیں تھے اورنہ ہی اس کے پلیٹ فارم پر فیصلے ہوتے تھے۔

ہم نے نواب سے پوچھا کہ بی ،پی، ایل، ایف کیا ہے ؟ کیا یہ ہماری تنظیم نہیں ہے ؟

توانہوں نے کہا ’’بالکل نہیں ،اس کو’’ ہم کارڈ‘‘ کے طورپر استعما ل کررہے ہیں ،اس سے ہمار اکوئی تعلق نہیں ہے‘‘
تو ہم نے جس میں ڈاکٹر بہارخان مرحوم پیش پیش تھا نے کہا ایک قومی سیاسی تنظیم،ایک قومی سیاسی پارٹی تشکیل دی جائے ۔

نواب صاحب نے کہا کہ ’’ہلمند جاکر عوام سے مشورہ کریں گے ‘‘۔

تو جب ہم لوگ ہلمند گئے تو وہاں پر بحث و مباحثہ ہوئی کہ ’’کس طرح کی تنظیم بنائی جائے ‘‘تو میں نے ایک تنظیمی خاکہ پیش کیا جس میں بلوچ قوم کی تاریخ، سیاسی جدوجہد اورتنظیم کی ضرورت پر زوردیاگیا توتقریباََ دوہزاربلوچوں کے مجمع میں نواب خیر بخش مری ،میرعبدالنبی کی موجودگی میں میرہزارخان کافی حد تک ناراض ہوئے اورانہوں نے غصے میں آکر مجھے کہا کہ ’’آپ مکران سے آئے ہو تو آپ مکران چلے جائیں ،ہماری تنظیم مریوں تک محدودہے اور قبائلیت خود ایک تنظیم ہے ‘‘۔

نواب صاحب خاموش رہا۔انہوں نے نہ ہماری حمایت کی اورنہ ہی مخالفت ۔لیکن ایسا پہلی بار ہورہاتھاکہ اُس دورکے جدوجہد سے جڑے جہدکاروں کے سامنے پہلی بار یہ مسئلہ پورے آب وتاب کے ساتھ زیر بحث آیا۔ مگریہ پہلی سیاسی مجلس ایک ٹرننگ پوئنٹ ثابت ہوا کہ اس کے بعد مری قبیلہ گزینی اور بجارانی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ،کیونکہ یہاں سے میرہزارخان کا گروپ الگ ہوگیا جبکہ اکثریت کا تعلق نواب صاحب کے ساتھ رہا ۔

انیس سو بیانوے کو جب نجیب اللہ کی حکومت ٹوٹ گئی اورمجاہدین برسراقتدار آگئے توافغانستان براہ راست پاکستان کے زیر اثر آگیا اور ہمارے لئے مزید قیام ممکن نہیں رہا۔ ہم لوگ واپس ’چھوٹو‘کے راستے دالبندین میں پہنچے اوروہاں سے کوئٹہ چلے گئے ،اورچلتن کے دامن میں نیوکاہان کے نام سے ایک کیمپ میں رہائش اختیار کی جسے عالمی اداروں کے ساتھ پاکستان کے فلاحی ادارہ ایدھی وغیر ہ اشیائے خردونوش کی مدمیں مددکرتے تھے ۔نواب صاحب اپنے گھر میں رہائش پذیر تھے مگر روزانہ صبح کو کیمپ میں آتے تھے۔ وہاں پر بھی ہم نے تین مہینے تک تنظیم اورتنظیم کاری پر بحث کی لیکن نواب صاحب کوانیس سو ترانوے تک منظور نہ تھی۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس تاریخی جدوجہد میں تنظیم نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ یہاں سے فکری طورپر میں اپنے راستے الگ کرچکاتھا کیونکہ میں اس نتیجے پر پہنچ چکاتھا کہ جدوجہد تنظیمی دستور اور لائحہ عمل کے بغیر کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتاہے اورتنظیم کے قیام میں رکاوٹ ڈالنا میں سمجھتا ہوں کہ ارتقاء کی راہوں کو مسدودکرنے کے مترادف ہے جس کا نقصان ہمیں اٹھاناپڑتا ہے۔ ہمیں ہر صورت میں اس جانب بڑھنا چاہئے۔ اس کے بعد میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ کام کا آغاز کیا اورہم سن دوہزارمیں بی ایل ایف کے نام سے ایک تنظیم پر متفق ہوئے۔ بی ایل ایف کو قیام میں لانے میں ڈاکٹر اللہ نذر ،شہید سعادت مری ،میر رحمدل مری ،ڈاکٹر خالدکے علاوہ چند اور دوست تھے جن کے نام یہاں بیان کرنا مناسب نہیں۔

غالبا دوہزار دویا تین کو حیربیار مری نے ہمیں دبئی بلایا اورایک میٹنگ کا انعقادکیا جس میں راقم کے علاوہ حیربیار مری ،شہیدامیربخش ،استاد اسلم بلوچ ،حسنین جمالدینی ،نبی دادمری شامل ہوئے۔ یہ میٹنگ شاید میرحیر بیارمری نے پرانے تعلقات کی بناء پر بلایا تھا مگر میں ذہنی طورپر شخصی اجارہ دارانہ جدوجہد سے مایوس ہوچکا تھا اور ہم متبادل کے طورپر بی ایل ایف کا قیام عمل میں لاچکے تھے۔اس میٹنگ میں بھی حیر بیار اُسی طریقہ کارپر مصر تھا۔ شایدتنظیم کی ضرورت محسوس کرنے والے احباب نے تسلی کے لئے بی ایل اے کے نام سے جدوجہد کرنے پر زوردیا۔ میرے نزدیک بی ایل اے کسی واضح تنظیمی ڈھانچہ اور دستور سے محروم فقط ایک نام تھاجس پر ایک فردکی اجارہ تھی۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ اس میٹنگ میں حیربیار نے کہاکہ ’’میرے جیل جانے یا کسی دوسرے حادثاتی یا طبعی موت کے بعد میرا بھائی زعمران میرا جانشین ہوگااوروہی اس مشن کوآگے بڑھائے گا ‘‘۔ یہ اس بات کا عندیہ تھا کہ بی ایل اے کی آڑ میں وہی موروثی اوراجارہ دارانہ سیاست کوبلوچ کا مقدربنانے کا دورختم نہیں ہواہے بلکہ اسے نئے دورکے ساتھ نئی روپ میں مزید مستحکم کیاجارہاہے ۔اس پر میں مطمئن نہیں ہوسکا۔ میں نے اس میٹنگ میں باقاعدہ بی ایل ایف کا آئین ،منشور،عملی پروگرام پیش کیا اوردوستوں پر واضح کیا کہ ہمارا جدوجہد اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہوگا۔ ہاں ہم آپ کے ساتھ تعلقات قائم رکھیں گے اور مشترکہ جدوجہدکے لئے تیار ہیں مگر ہمارا پلیٹ فارم الگ ہوگا اورہمارے فیصلے تنظیمی ہوں گے‘‘ ۔اس کے بعد ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔ یہاں یہ سب ذکرکرنے سے میر امقصود یہ ہے کہ بلوچ قومی جدوجہد میں بی ایل ایف پہلی دستوری تنظیم تھی جس کے تنظیمی ڈھانچے کے علاوہ عملی پرگروام ،اختیارات کی تقسیم اور فیصلہ و پالیسی ساز اداروں کے اشکا ل واضح تھے۔

اکیسویں صدی بہت حوالوں سے جاناجاتا ہے ۔ بلوچ کے لئے اس کے اثرات نہایت وسیع ہیں۔ مشرف کے دورمیں میگامنصوبوں کے ذریعے بلوچ کے وجود کو مٹانے کے لئے پاکستان نئی تیاریوں کے ساتھ سامنے آئی ۔پاکستان کو بلوچ مزاحمت کے ابھارکاخدشہ ضرورتھا کہ اُس نے متوقع تحریک کوکاؤنٹر کرنے لئے ایسی جماعت کی ضرورت محسوس کی جو مستقبل میں پاکستان کا ہمنوا بن جائے اورپاکستانی منصوبوں کی حمایت کرے اور اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے میں پاکستان کی مددکرے اوریہ کام پاکستان نے نیشنل پارٹی کے قیام کی صورت میں کیا لیکن یہاں سے بلوچ نیشنل موومنٹ جیسے قومی پارٹی کا وجود سامنے آیا۔ چیئرمین غلام محمد شروع ہی سے بلوچ قومی آزادی کے لئے ایک جذبہ رکھتے تھے مگر سابقہ بی این ایم کے لیڈرشپ کی منافقانہ سیاست اوردھوکہ دہی کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہیں موقع نہیں ملا۔ جب سابق بی این ایم اور بی این ڈی پی نامی پارٹی نے انضمام کرکے واضح طورپر قومی موقف سے انحراف کی تکمیل کی اور نیشنل پارٹی بنائی تو چیئرمین غلام محمد شہید نے اس موقع پر تاریخ کاحق اداکرکے بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کو برقرار رکھ کر جد وجہد کی۔

اس کام میں بلوچ قومی تحریک میں پارٹی جدوجہدکے قائل رہنماؤں نے چیئرمین غلام محمد کا ہرقدم پر ساتھ دیاجو قومی سیاسی پارٹی کی خلاء کو پر کرنے کا بہترین ذریعہ بن گیا اور آج تک تجربہ یہی کہتاہے کہ جس پارٹی کو عشروں پہلے بننا چاہئے تھا لیکن بلوچ آزادی پسند لیڈرشپ کی مسلسل پہلوتہی سے نہیں ہوسکا تھا مگر غلام محمد جیسے تاریخ کے مزاج سے آشنا انسان نے یہ کام آسان کرکے بلوچ قوم کوایک ایسی سیاسی پارٹی سے نوازا جس کا بلاشبہ تاریخ میں ہمیں نظیر نہیں ملتی۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کے قیام کے بعد بلوچ تحریک آزادی کو ایک ایسی استحکام مل گیا کہ آج تک دشمن کی تمام بربریت کے باوجود تحریک کا تسلسل نہ صرف قائم ہے بلکہ روز بہ روز اس کی طاقت میں اضافہ دیکھنے میں آرہاہے ۔

میں نے یہاں صرف بی ایل ایف اور بی این ایم کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری تنظیم اور پارٹیوں کا ذکر نہ کرنے کا میرامقصد خدانخواستہ انہیں نظرانداز کرنا نہیں ہے۔ ہر کسی کی ایک اہمیت ضرور ہوتی ہے۔ ماضی میں تحریک پارٹی سے محروم تھا لیکن اس کی اہمیت سے ہم انکار نہیں کرسکتے ہیں لیکن میرا تجزیہ تاریخ کے تناظر اور تجربات کی بنیاد پر ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بی این ایم اور بی ایل ایف کے علاوہ دوسری تنظیمیں اس معیار پر پورا نہیں اترتے ہیں جنہیں پارٹی اور تنظیم کا معیار مانا جاتاہے ۔

میں ایک جہدکار کی حیثیت سے محسوس کررہاہوں کہ بلوچوں کی باقی جتنی تنظیمیں ہیں ان میں جمہوریت ،سیاسی شعور ،اختیار کی تقسیم اورجمہوری مرکزیت کی کمی ہے ۔میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ان تنظیموں میں اختیارات کی تقسیم کی فقدان ہے اورفرد واحد کی حکمرانی ہے۔ جمہوریت مرکزیت سے لے کر اورسیاسی اداروں کی کمی ہے ۔۔میں پھر سے دوستوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ اگر وہ بلوچستان کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں تو اس جنگ میں انہیں ایسے منظم سیاسی تنظیم کی اشد ضرورت ہے جسے واقعتاتنظیم یا قومی پارٹی کہاجائے ،اوران میں پالیسی ساز ادارہ ہوناچاہئے اورادارے میں جمہوری مرکزیت ہونا چاہئے۔ فرد واحد نہ تنظیم چلاسکتا ہے اورنہ ہی آزادی حاصل کرسکتی ہے۔ میرا دوستوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ قومی آزادی کے جدوجہدکے لئے اس عالمی سچائی کا ادراک کریں کہ اس جدیددورمیں شخصی اجارہ داری ایک دقیانوسی اور فرسودہ سوچ ہے،اس سے چھٹکارہ پانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے حاصل وصول سوائے زیاں کے کچھ نہیں

пятница, 27 марта 2020 г.

آزادی سے پاکستانی قبضے تک کی اصل کہانی – ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ

بلوچستان کی تاریخی حیثیت: آزادی سے پاکستانی قبضے تک کی اصل کہانی
ستائیس مار چ کے حوالے سے خصوصی تحریر
تحریر : ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ 
گیارہ گست1947 ؁ء میں برطانوی اقتدار کے خاتمے کے بعدِ بلوچستان ایک آزاد اور خودمختار ریاست بنا۔ 15 اگست 1947 ؁ء کو خان میر احمد یار خان نے ایک عوامی اجتماع میں آزادی کا اعلان کیا ۔ انہوں نے نو آبادیاتی طرزِ تقریر کے برعکس سامعین سے بلوچی میں خطاب کیا جبکہ انگریزی نظام میں تقاریر انگریزی ، فارسی یا پھر اردو میں کی جاتی تھیں۔
خان نے واضح طور پر کہا:’’ میں آج آپ لوگوں سے بلوچی میں خطاب کرنے پر فخر محسوس کررہا ہوں ۔ انشاء اﷲ اگر مستقبل میں بھی خطاب کیا تو وہ بھی بلوچی میں ہی ہوگا کیونکہ بلوچ قوم کی زبان بلوچی ہی ہے۔‘‘
اپنے سیاسی نظریات اور مستقبل کے منصوبوں کے متعلق انہوں نے کہا: ’’ اب تک ایک غیر ملکی اقتدار کی وجہ سے میں آپ لوگوں کے سامنے اپنے خیالات و نظریات کھلے طور پر پیش نہیں کرسکا ہوں ۔ آج ہمارا ملک آزاد ہے لہٰذا میں صاف اور بلا جھجک انداز میں بات کرسکتا ہوں۔‘‘
انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی مستقبل کی پالیسی کی بنیاد ریاستِ بلوچستان کی خودمختاری کا تحفّظ اور بلوچوں کو ایک پرچم تلے متحد کرنا ہوگا۔ ’’ مکمل خود مختاری اور بلوچوں کی یکجہتی کی تکمیل تک ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔اس مقصد کے حصول کے سِوا ہم کسی اور چیز پر مطمئن نہیں ہوں گے۔‘‘ خان نے واضح طور پر کہا کہ ’’ خارجہ پالیسی کا مرکز تمام اقوام اور خصوصاً ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ عدم مداخلت اور دوستانہ تعلقات ہوں گے۔‘‘ اپنی تقریر میں انہوں نے نظام بادشاہت کی مخالفت کرتے ہوئے ایک ایسے بلوچی ’’رواج‘‘ (غیر مروّجہ آئین) کی طرفداری و حمایت کی جسکا ڈھانچہ جمہوری اصولوں پر استوار ہو۔
’’ لوگوں کی اکثریت میرے لئے اپنی گفتگو اور خطوط میں لفظ شاہ استعمال کرتے ہیں ۔ میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہمارے افتخار اور شان کی وجہ بادشاہت نہیں ہے میں بلوچ قوم اور اسلام کا ایک خادم ہونے پر فخر محسوس کرتا ہوں ۔‘‘
بلوچ آئین(رواج) میں موجود جمہوری اصولوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ ہمارے آباء و اجدادخودکو شاہ یا حاکم تصور نہیں کرتے تھے ۔ عظیم نصیر خان نوری نے ہمارے خاندان کے لئے یہی نصیحت چھوڑی ہے ۔ حقیقی کامیابی اس وقت ملے گی جب ہم اپنے آپ کو بلوچ عوام کا خادم تصور کریں گے۔جس دن ہم نے قوم سے اپنے آپ کو برتر و اعلیٰ تصور کیا یقیناً ہماری بربادی اور تنزّل کا آغاز ہوگا۔‘‘
خان کے خطاب کے بعد قومی جھنڈا لہرایا گیا ۔ جھنڈے میں موجود سُرخ اور سبز رنگ بالترتیب انقلاب اور امن کی علامت کی نشاندہی کررہے تھے ۔ ایک اور روایت کے مطابق سبز رنگ قرآن پاک جبکہ سُرخ رنگ تلوار یاجہاد کی علامتیں ہیں۔
آئین:
اسی مہینے خان کی جانب سے ایک شاہی فرمان کے ذریعے ایک مروّجہ ریاستی آئین کا نفاذ کیا گیا۔ نیا مرتب کردہ آئین تین حصوں پر مشتمل تھا ۔ پہلا حصّہ ریاستی قوانین اور عدالتی امور کے بابت ، دوسرا حصّہ ریاست کے انتظامیہ کے متعلق اور تیسرا اور آخری حصّہ قانون سازی کے حوالے سے لکھا گیا تھا۔آئین میں واضح طور پر نشاندہی کی گئی تھی کہ خان اقتدار اعلیٰ کے منصب کے امین اور پارلیمان لوگوں کا نمائندہ ادارہ ہوگا۔
وزراء کی کونسل:
یہ ایک وزیرِ اعظم اور اس کے کابینہ کے ارکان پر مشتمل تھا ۔ان کی تعینّاتی خان کے ذریعے ہوتی تھی اور خان کی تفویض کردہ اختیارات کے تحت وہ اپنا کام کرتے تھے ۔ کونسل کا کام معزّز خان کو ریاستی امور کے چلانے میں مشورہ اور مدد فراہم کرنا تھا۔ کونسل کا سربراہ وزیر اعظم مقرر تھا ۔بصورت دیگر سربرائی خان کی ہوتی تھی۔ خان کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی بھی فرد کو کونسل کا رکن منتخب کرے جن میں غیر ملکی شہری بھی شامل تھے مثال کے طور پر وزیر اعظم نوابزادہ محمد اسلم اور وزیر خارجہ ڈی وائی فیل دونوں غیر ملکی تھے اور ان کا تعلق بالترتیب پاکستان اور برطانیہ سے تھا ۔ خان کے یہ وسیع تر اختیارات بلوچ قوم کے لئے فائدہ مند نہیں تھے کیونکہ وزیر اعظم محمد اسلم اپنے دورِ حکومت میں پاکستانی مفادات کیلئے کام کرتے رہے اور بلوچ قوم اور خان سے دغابازی کے مرتکب ہوئے۔
مجلسِ قانون ساز:
مرتب شدہ آئین دو قانون ساز اداروں پر مشتمل تھا۔
(الف) دارالامراء جو ایوانِ بالا کہلاتا تھا اور قبائلی سرداروں پر مشتمل تھا۔
(ب) دارالعوام جو کہ ایوانِ زیریں کہلاتا تھا۔
ایوان بالا میں جھالاوان اور ساراوان صوبوں کے موروثی سردار موجود تھے جبکہ اس میں شامل چھیالیس ارکان میں سے دس کا انتخاب خان کے ذریعے ہوتا تھا۔ مزید براں ان دس میں سے آٹھ کا انتخاب ایوان زیریں اور وزراء کی کونسل سے جبکہ باقی دو کا انتخاب اقلیتوں مثلاً ہندوؤں سے ہوتا تھا ۔کابینہ کے ارکان کو اجازت تھی کہ وہ بحث و مباحثے میں شرکت کریں لیکن انہیں ووٹ دینے کا اختیار نہیں تھا۔ اگرچہ مجلسِ قانون ساز کی مدتِ عمل پانچ سال ہوتی تھی لیکن خان کو اختیار حاصل تھا کہ وہ ایوانوں کو مقررہ مدت سے قبل ہی تحلیل کردے یا مدت میں مزید ایک سال کی حد تک اضافہ کردے۔ ایوان بالا کی تحلیل کرنے کی صورت میں خان کو اس بات کا ذمہ دار بنایا گیا تھا کہ وہ نئے ایوان کی تشکیل کیلئے چھہ ماہ کے اندر اندر کسی تاریخ کا اعلان کردے ۔ وزیراعظم ایوان بالا کا صدر تھا جبکہ اس کی غیر موجودگی میں یہ منصب ایک سینیئر وزیر کے حوالے کردیا جاتا تھا ۔ خان کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی منشاء پر ایوانوں کے اجلاس کسی بھی وقت طلب کرسکتا تھا گر چہ سال میں کم از کم ایک مرتبہ اجلاس کا منعقد کرنا لازمی تھا۔
ایوان زیریں ،جو کہ 55 اراکین پر مشتمل تھا ،کے پچاس ارکان کا انتخاب بذریعہ چناؤ ہوتا تھا جبکہ پانچ کا تقرر خان اپنی صوابدید سے کرتا تھا ۔ ایوان زیریں کا سربراہ بھی وزیر اعظم ہوتا تھا جبکہ ان کی عدم موجودگی میں یہ ذمہ داری کسی سینیئر وزیر کو سونپی جاتی تھی۔ اراکین کا انتخاب پانچ سال کے لئے کیا جاتا تھا۔
یہ لکھا گیا آئین کوئی منفرد دستاویز نہیں بلکہ قلات ایکٹ 1946 ؁ء کی ہی ایک سادہ سی نقل تھی ۔اس میں خارجہ امور میں خان کے اختیارات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کہی گئی تھی اور نہ ہی سزائے موت کے متعلق اختیاراتی معلومات فراہم کیے گئے تھے ۔ اس میں شاہی خاندان کے حقوق و فرائض کی بھی نشاندہی نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی لسبیلہ اور خاران جیسے قبائلی ریاستوں کے قلات کے ساتھ تعلقات کا تذکرہ موجود تھا ۔ جبکہ آئین کے متوازی نظام ’’رواج‘‘ بدستور نافذ العمل رہا۔
پارلیمان کا چناؤ:
آئین کے نافذ العمل ہوتے ہی بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریاستِ قلات میں انتخابات منعقد ہوئے ۔ قلات نیشنل پارٹی نے ایوان کے کل اکیاون میں سے اُنتالیس نشستیں جیت لیں ۔ باقی نشستیں ان آزاد امیدواروں نے حاصل کیے جو قلات نیشنل پارٹی کے حامی تھے ۔ انتخابات کا انعقاد پذیر ہونا بلوچستان کی اُن جمہوری قوتوں کا فتح تھا جو1920 سے جمہوریت اور ایک خود مختار عظیم تر بلوچستان کیلئے کوشاں تھے۔
بلوچ۔ پاکستان تعلقات:
 تیرہ دسمبر کو خان نے ریاستی امور پر بحث کرنے کے لئے ایوانِ زیریں کا اجلاس طلب کرلیا۔تین دن تک چلنی والے اس اجلاس میں مندرجہ ذیل امور زیر ِ بحث لائے گئے۔
(الف) بلوچستان کی قومی اور سرکاری زبان ۔
(ب) شریعت ( اسلامی قانون )۔
(ج) پاکستان کے ساتھ بلوچستان کے تعلقات، خصوصاً الحاق کے حوالے سے۔
(الف) ایوان نے بلوچی زبان کو بلوچستان کی قومی اور سرکاری زبان قرار دیا ۔ اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کے ذمے یہ کام سونپا گیا کہ وہ ایسے تجاویز اور اقدامات تجویز کرے کہ جس سے اسکولوں میں بلوچی زبان کو بطور ذریعہ تعلیم رائج کیا جاسکے ۔
(ب) طویل بحث و مباحثے کے بعد ایوان نے فیصلہ کیا کہ چونکہ لوگ اپنے معاملات ’’رواج‘‘ (رِوایت) کے تحت چلا رہے ہیں لہٰذہ بلوچ معاشرے میں شریعت کا لاگو کرنا ایک مشکل امر ہوگا لیکن ایوان نے فیصلہ کیا کہ ایک کمیٹی ترتیب دی جائے جو کہ شریعت کے مرحلہ وار نفاذ کے حوالے سے اقدامات تجویز کرے۔
(ج) ستمبر 1947 ؁ء میں وزیراعظم نوابزادہ محمد اسلم اور وزیر خارجہ ڈی وائی فیل(DYFell) نے کراچی کا دورہ کیا تاکہ 1947 ؁ء کے قلات ۔پاکستان معائدہ پر بحث کی جائے جس کے تحت بعض علاقے پاکستان کو لیز پر دیئے گئے تھے۔لیکن دونوں ریاستوں کے درمیان ان اجلاس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا کیونکہ پاکستانی حکومت قلات کی پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کرانے کی پالیسی پر بضد تھی ۔ لہٰذا اگست1947 ؁ء کے تحت طے شدہ مذاکراتی عمل پر بحث نہ کی جاسکی ۔ ریاست قلات کا وفد واپس روانہ ہوا اور اپنی رپورٹ خان کے حوالے کردی۔20 ستمبر 1947 ؁ء کو پاکستان کے خارجہ سیکریٹری اکرام اﷲ نے ریاست قلات کے وزیر اعظم محمد اسلم کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے مذاکرات کے بجائے ریاست قلات کی پاکستان کے ساتھ الحاق پر اصرار کیا ۔ انہوں نے لکھا ’’ بحث کے دوران آپ نے (بشمول ڈی وائی فیل ) ایسے نقطوں پر بات کی جن کے بارے میں خان معظم کو تشویش ہے کہ وہ حل ہوجائیں ۔اگر ہم ان نقطوں پر بحث کرنے لگ جائیں تو ہم قلات کے ساتھ بعض اہم امور طے کرنے کے مواقع گنوادیں گے ۔‘‘ اسی دوران قاضی عیسیٰ نے، جو برٹش بلوچستان میں مسلم لیگ کے صدر تھے ،نے خان سے ملاقات کی اور انہیں گورنر جنرل پاکستان جناح کا پیغام پہنچایا جنہوں نے خان کو دعوت دی تھی کہ وہ کراچی آئیں تاکہ پاکستان اور ریاستِ قلات کے مابین مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے بحث کی جاسکے ۔ خان نے اپنے اکتوبر 1947 ؁ء کے دورہِ پاکستان سے قبل اپنے وزیراعظم اور وزیرِخارجہ سے تمام ممکنہ اقدامات کے حوالے سے گفت و شنید کی ۔ انہوں نے پانچ ممکنات پر بحث کی۔
(الف) ایران سے الحاق ۔
(ب) افغانستان میں شمولیت (الحاق)
(ج) ہندوستان سے الحاق
(د) پاکستان سے الحاق
(ر) حکومتِ برطانیہ کے ساتھ بطور ذیلی ریاست شمولیت ۔
(الف) ایران میں شمولیت اس حوالے سے ناممکن تھی کہ دونوں قوموں کے درمیان تاریخی دشمنی کی رکاوٹ حائل تھی ۔ ایران جسے خود اپنے بلوچوں سے آزادی کے مطالبے کی وجہ سے مسائل درپیش تھے، بلوچ عوام بلوچستان کی ایران میں شمولیت کو کبھی بھی قبول نہ کرتا ۔ لیکن وزیر خارجہ فیل اس الحاق کے خلاف نہیں تھے کیونکہ ان کے خیال میں آگے جاکر اس قدم سے بلوچ اتحاد کے لئے راہ ہموار ہوجائے گی۔
(ب) افغانستان کے ساتھ الحاق کے لئے کچھ اراکین نے اثبات کا اظہار کیا جن میں افغانستان کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی خان کی شریکِ حیات کے علاوہ خان کے بعض خاندان کے افراد اور شہزادہ سلطان ابراہیم بھی شامل تھے۔ لیکن وزیرخارجہ فیل نے اس کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ افغانستان خود بیرونی مدد کے بغیر روس سے اپنا دفاع تک نہیں کرسکتا ابھی تک تو افغانستان چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ایک ایسا ملک ہے جسے کسی ملک کی دلچسپی کا سامنا نہیں ہے لیکن اگر اس کی سرحدیں بلوچستان کی صورت میں سمندر تک پہنچ جاتی ہیں تو پھر روس اسے حاصل کرنے کے لئے افغانستان کی خودمختاری کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ لہٰذا خان نے ،جو ایک کٹّر مسلمان اور کمیونزم کے خلاف تھا ، اس خیال کو سختی کے ساتھ رد کردیا ۔ مزید براں یہ حل بلوچوں کے لئے بھی قابلِ قبول نہیں تھا جو اپنے وطن کو افغانستان کی طرح ایک مساوی آزاد ملک گردانتے تھے۔
(ج) انڈیا کے ساتھ الحاق جغرافیائی اور سیاسی دشواریوں کے بنا پرناممکن تھی اور یہ پاکستان کے لئے بھی انتہائی اشتعال انگیزی کا باعث بنتا۔ اس کے علاوہ خان اور کانگریس کے درمیان تعلقات تواسی وقت کشیدہ ہوگئے تھے جب نہرو نے قلات کی بطور خودمختار اور آزاد حیثیت ریاست کی مخالفت کی تھی۔اگست 1947 ؁ء میں قلات نے حکومتِ ہندوستان کی توجہ اس پاک قلات معاہدے کی جانب دلائی جس کے تحت حکومتِ پاکستان نے قلات کی بطورِ آزاد ریاست حیثیت کو تسلیم کرلیا تھا۔خان کی حکومت نے ہندوستان کی حکومت کو بھی ایک ایسا ہی معاہدہ کرنے کی دعوت دی ۔ اس کے بعد خان کے نمائندے سر سلطان احمد کی جانب سے دہلی میں ایک تجارتی مرکز قائم کرنے کی درخواست کی گئی لیکن نمائندے کو بتایا گیا کہ ان درخواستوں پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام حقائق کی بناء پر خان نے الحاقِ ہندوستان کے خیال کو مسترد کردیا ۔
(د) پاکستان کے ساتھ الحاق اس بنا پر دشوار کن تھا کہ لوگوں کی اکثریت قلات ا سٹیٹ نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم کی صورت میں اسکے خلاف تھی اور ایک آزاد ریاست قلات کو عظیم تر بلوچستان کا بنیادی مرکز سمجھتی تھی ۔ خان نے محمد اسلم کو حکم دیاکہ وہ پاکستان کے ساتھ ایک با عزت وباوقار معاہدہ کرائیں۔
(ر) جہاں تک حکومتِ برطانیہ میں بطور ایک ذیلی ریاست کے شمولیت کا تعلق تھا (جیسا کہ خلیج کے عرب ممالک نے کیا تھا) تو وزیر خارجہ فیل(Fell) کا کہنا تھا کہ ’’ یقیناًخان کے ذہن میں یہ بات موجود ہے کہ قلات کو آزاد رہنے کے لئے ایک طاقتور حمایتی کی ضرورت ہے ‘‘ لیکن وزیر خارجہ نے خان کو اطلاع دی کہ بلوچستان کے ایک ایسی حیثیت حاصل کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے، لہٰذہ جب دسمبر 1947 ؁ء میں وزیر خارجہ فیل انگلستان گئے تو وہاں انہوں نے دولتِ مشترکہ کے تعلقات عامّہ کے ایک افسر مائلز کلاسن(Miles Clausen) سے مشورہ کیا جنہوں نے یہ کہہ کر بلوچستان کو بطورِ برطانیہ کے تحفّظ شدہ ریاست کے نفی کی اس سے پاکستان کی حکومت ناراض ہوگی بلکہ انہوں نے قلات اور پاکستان کے مابین معاہدے کی حمایت کی اور کہا کہ برطانیہ بلوچستان کو ایک ہندوستانی ریاست کے طور پر دیکھتی ہے ۔ درحقیقت تو حکومت برطانیہ اپنے اقتدار کے خاتمے سے قبل بھی قلات کی آزاد حیثیت کی مخالفت کرتا رہا تھا ۔شاہی نمائندے نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن(Lord Mount Batten) کو ایسے امکان کے خطرات سے آگاہ بھی کیا گیا تھا جسے انہوں نے پاکستانی حکومت تک پہنچایا تھا۔
جناح کی دعوت پر خان ایک ایسا مرتب کردہ معاہدہ اپنے ساتھ لے کر پاکستان گئے جسے وہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دوران بطورِ دستاویز استعمال کرنا چاہتے تھے ۔ اس معاہدے کے تحت قلات کی پاکستان کیساتھ تعلقات کی حدبندی کی گئی تھی ۔ مجوزہ معاہدے میں مندرجہ ذیل نکات شامل تھے:
(الف) قلات کو بطور ایک آزاد ریاست کے تسلیم کرنا۔
(ب) بیرونی ملک کی جانب سے حملے کی صورت میں اُس کے خلاف اتحاد کیلئے حتمی اقدام کرنا۔
(ج) دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت اور مسائل کو پُر امن ذرائع سے حل کرنے کیلئے پالیسی کا تعین۔
لیکن سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کراچی میں خان کی آمد پر نہ گورنر جنرل اور نہ ہی وزیراعظم پاکستان نے ان کا استقبال کیا۔ اس سے قلات کے متعلق پاکستان کی پالیسی میں بدلاؤ کااشارہ ملتا تھا۔ جناح نے خان سے برطانیہ کے ماتحت ہندوستانی غیر خود مختار حاکموں جیسا سلوک کیا جس سے خان کو مایوسی ہوئی۔ جناح نے خان کو تاکید کی کہ وہ قلات کو پاکستان کے اندر ضم کردیں اور یہ کہ وہ الحاق سے کم کسی بھی حل پر تیار نہیں ہوں گے۔
پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کی اہم وجہ برطانوی حکومت تھی کیونکہ پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر نے حکومت پاکستان کو ان خطرات کے متعلق تنبیہ کیا تھا جو اسے قلات کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی صورت میں درپیش ہوسکتے تھے۔لیکن ان تمام حالات کے باوجود خان نے جناح کے مطالبے کو رد کردیااور کہا ’’ بلوچستان کثیر قبائل پر مشتمل خطّہ ہے لہذا کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے وہاں کے عوام سے مشاورت کرنا ہوگا۔ لہذا میں جب تک انہیں اعتماد میں نہیں لیتا قبائلی روایت کے مطابق ان پر کوئی فیصلہ مسلّط نہیں کروں گا ‘‘۔
’’حکومتِ برطانیہ کی پالیسی اور قلات کیلئے ہتھیار‘‘
پاکستان سے واپسی پر خان کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ قلات پر بیرونی جارحیت کی صورت میں کیسے اس کا دفاع کیا جائے ۔ لہذا انہوں نے قلات کی فوج کے کمانڈر انچیف بریگیڈیئر پرویز کو حکم دیا کہ وہ افواج کی صف بندی کریں اور گولہ بارود و ہتھیاروں کے ذخائر کو منظّم کریں ۔ جنرل پرویز نے دسمبر1947 ؁ء میں اپنے دورہِ انگلستان کے دوران دولتِ مشترکہ کے تعلقاتِ عامّہ اور وزیرِ ترسیلات سے ملاقات کی لیکن 25 مارچ1948 ؁ء کو دولتِ مشترکہ تعلقات کے دفتر کے ایک اہلکار لیفٹیننٹ کرنل پنّل(Pinnel) کو حکومت برطانیہ کے وزیر ترسیلات نے آگاہ کیاکہ حکومتِ پاکستان کی منظوری کے بغیر کوئی ہتھیار نہ بھیجے جائیں ۔ اس کے بعد دولتِ مشترکہ کے تعلقات کے دفتر کے سیاسی شاخ نے پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر کو اطلاع دی کہ اگر پاکستانی حکومت کی رضا مندی ہو تو قلات کے لئے مندرجہ ذیل ذخائر حاصل کئے جاسکتے ہیں:
(الف) ہتھیار ( بشمول 1500 رائفلز، 4مارٹر گولے اور 6 وکِّرز(Vicker): قیمت سات ہزار نو سو چھیانوے پاؤنڈ ۔
(ب) گولہ بارود ( تقریباً پچاس لاکھ راؤنڈز ): قیمت اسّی ہزار پاؤنڈ ۔
(ج) کپڑے اور کمبل :قیمت سات ہزار دو سو پاؤنڈ۔
مندرجہ بالا معلومات پاکستان میں فائز ہائی کمشنر کو 2 اپریل1948 ؁ء کو اس وقت پہنچائی گئیں جب قلات کو پہلے ہی الحاق کرنے پر مجبور کیا جاچکا تھا۔ حکومتِ برطانیہ کے اس سوچے سمجھے تاخیر سے پاکستان کو بلوچستان میں فوجی کارروائی کے دوران فائدہ پہنچا۔
قلات کی پارلیمنٹ اور الحاق:
اپنے پاکستان کے دورے میں خان نے جناح سے وعدہ کیا تھا کہ وہ قلات کی پارلیمنٹ سے صلاح و مشورہ کرنے کے بعد انہیں جواب دیں گے۔ بلوچ آئین کے مطابق خان مطلق العنان حاکم نہیں تھا بلکہ پارلیمان کو بھی حق حاصل تھا کہ وہ اہم معاملات مثلاً الحاق وغیرہ پر فیصلہ کرے۔ 12دسمبر 1947 ؁ء کو خان نے دارالعلوم کا ایک اجلاس بلایا کہ الحاق کے مسئلے پر بات چیت کی جاسکے ۔ وزیر خارجہ فیل نے ایوان کو بتایا کہ پاکستان نے معاہدہ کرنے سے انکار کردیا ہے اور غیر مشروط الحاق کا مطالبہ کیا ہے ۔ ان کے خطاب کے بعد ایوان کے دوسرے ارکان نے بھی خطاب کیا جن میں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے ارکان کی اکثریت تھی ۔ ایوان کے قائد غوث بخش بزنجو نے حکومت پاکستان کے غیر دوستانہ رویّے پر تنقید کی اور تنبیہ کیا کہ بلوچ کسی توہین آمیز رویے کو برداشت نہیں کریں گے اور اپنی قومی آزادی کے لئے جان تک قربان کردیں گے۔ایوان کے دوسرے اراکین نے بھی میر بزنجو کے خیالات کی تائید کی ۔ ایوان نے طویل بحث مباحثے کے بعد 14دسمبر 1947 ؁ء کو مندرجہ ذیل قرارداد متفقّہ طور پر منظور کرلی۔
’’ پاکستان کیساتھ الحاق کے بجائے دوستی پر مشتمل ایک ایسا معاہدہ کیا جائے جو کسی بھی دو آزاد و خودمختار ریاستوں کے مابین ہوسکتا ہے‘‘۔
4 جنوری 1948 ؁ء کو الحاق کے معاملے پر غور کرنے کے لئے دارالامراء کا اجلاس ہوا۔ ایوان بالا نے دارالعوام کے فیصلے کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔ ایوان بالا جو کہ سرداروں کی اکثریت( بشمول کیچ مکران کے گچکی سردار حالی خان پر مشتمل تھی ) نے درج ذیل قرار داد کی منظوری دی:
’’ یہ ایوان حکومتِ پاکستان کے ساتھ خان کی جانب سے ہر باوقار اور دوستانہ معاہدے کی توثیق کرے گی بشرطیکہ (ہمارے) مُلک کی آزادی اور اقتدارِ اعلیٰ کو برقرار رکھا گیا ہو ، لیکن یہ ایوان کسی بھی ایسے الحاق کو نہیں مانے گی جس سے بلوچستان کی علیحدہ اور جدا گانہ حیثیت پر ضرب پڑتا ہو ‘‘۔
وزیراعظم محمد اسلم کراچی کے اپنے دورے میں پارلیمنٹ کے قراردادوں کی کاپیاں اپنے ساتھ لے آئے تھے۔اُنہوں نے جناح سے ملاقات کی اور الحاق کے معاملے پر بات چیت کی ۔ وہ فروری میں قلات واپسی پر 2فروری1948 ؁ء کو لکھے گئے جناح کے خط کو ساتھ لائے اور اسے خان کے لئے پڑھا۔ اس خط میں ایک بار پھر جناح نے پاکستان میں شمولیت کرنے کے اپنے مطالبے کو دہرایا۔
پاکستان کی الحاق کے حوالے سے پالیسی:
گیارہ فروری1948 ؁ء کو جناح سابقہ برٹش بلوچستان میں واقع سبّی (ایک قدیم شہر اور بلوچ کنفیڈریشن کا پرانا دارالخلافہ) آئے جہاں اگلے دن کے شام کو خان اور ان کے درمیان ملاقات ہوئی۔ 13فروری کو قلات کے سرد موسم کے دارالخلافہ ڈھاڈر میں ان کے درمیان دوسری ملاقات ہوئی جبکہ 14 فروری کو طے شدہ ایک اوراجلاس خان کے اچانک خرابیِ صحت کی وجہ سے برخاست کی گئی ۔ اپنے غیر متوقع خرابیِ صحت کے متعلق بات کرتے ہوئے خان نے حکومتِ پاکستان کی قلات کے حوالے سے اُن کے غیر مصنفانہ اور غیر دوستانہ پالیسی پر تنقید کی ۔ ان کا کہنا تھا :
’’ جب میں سبّی میں محمد علی جناح سے دوسری بار ملا تو انہوں نے مجھے بتایاکہ حکومت پاکستان نے کچھ ترامیم اور تبدیلیوں کے بعد الحاق کے متعلق ایک اور دستاویز بنائی ہے لہذا میں اس نئے دستاویز کو دیکھوں ۔ جب میں نے دستاویز پڑھی تو ایک لمحے کے لئے حیران رہ گیا کیونکہ اس میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ؁ء اور آزادی ایکٹ 1947 ؁ء کے حوالاجات (references) موجود تھے ۔ان سے قلات کے تاریخی حیثیت پر اثر پڑ تا تھااوراصلی معاہدے میں یہ چیزیں شامل نہیں تھیں۔ میرے ارادے تمام مراحل میں دیانتداری پر مشتمل تھے۔الحاق سے متعلق دستاویز میں یہ تبدیلی نہ صرف میرے لئے شدید حیرانی کا باعث بنی بلکہ مجھے شدید طور پر متاثر بھی کرگئی پچھلے مہینے کے شدید مصروفیات نے میرے ذہن اور جسم پر اپنے اثرات مرتب کئے تھے اب اسی آخری دھچکے نے مجھے دماغی طور پر نڈھال کردیا ۔ میں بیمار پڑ گیا اور نئے تبدیلیوں کی وجہ سے کافی مایوس اور دلبرداشتہ ہوگیا۔ میری طبیعت اتنی بگڑ گئی کہ میں آج محمد علی جناح کو خدا حافظ کہنے بھی نہ جاسکا اور انہیں صرف ایک الوداعی خط بھیج دیا ‘‘۔
14 فروری کو جناح کے ایک خصوصی سفیر ایس۔ پی ۔شاہ نے خان سے ملاقات کی ۔ ملاقات کے دوران خان نے الحاق کے متعلق دستاویز میں ترامیم پر احتجاج کیاجو کہ پاکستان کے خارجہ سکریٹری اکرام اﷲ کی طرف سے لکھے گئے 20 ستمبر1947 ؁ء کے خط میں کیے گئے وعدے کے خلاف تھے۔ اس خط میں اکرام اﷲ نے قلات کی ممتاز حیثیت سے برقرار رہنے اور الحاق کے دستاویز میں مفید اقدامات کی بات کی تھی۔خان نے 14فروری 1948 ؁ء کو لکھا گیا ایک خط کرنل ایس۔ پی۔ شاہ کے ذریعے جناح کو بھیجا اور اس میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ 9 مارچ 1948 ؁ء کو خان کو بتایا گیا کہ ’’ جناب عالی(جناح)نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب قلات کے ساتھ مذاکرات اور پاکستان اور قلات کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کو ذاتی طور پر نہیں چلائیں گے‘‘۔کرنل ایس ۔ پی ۔ شاہ کو قلات کے معاملات پر اختیار سونپا گیا تھا اور ان کے ساتھ محمد اسلم کو شامل رکھا گیا تھا جنہیں خان اور ان کے سرداروں (بشمول دو جاگیردار سردار غلام قادر ، جام لسبیلہ اور میر حبیب اﷲ نوشیروانی ، نواب خاران) کے مابین اندرونی اختلافات اور رقابتوں کا علم تھا۔ جام لسبیلہ کے خان کے ساتھ مراسم خاندانی شادیوں کے حوالے سے تھے اور وہ عظیم میر نصیر خان کے زمانے سے قلات کے ایک جاگیردار تھے۔ اپنے غلبے کے دوران جام نے بطور ماتحت حاکم کی حیثیت سے انکار کرنے کی کوشش کی تھی ۔ جام نے 6 جولائی1947 ؁ء کو اے جی جی بلوچستان کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ لسبیلہ کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے ۔ اسی مہینے اے جی جی بلوچستان نے انہیں اطلاع دی کہ وہ ریاست قلات کے ایک ماتحت حکمران ہیں ۔اے جی جی نے مزید کہا کہ 1939 ؁ء میں سر میٹکاف(Sir Metcalf) نے جام کو بتایا تھا کہ لسبیلہ کی آئینی حیثیت قلات کے زیرِاثر ایک جاگیردانہ ریاست کی ہے اور یہ حیثیت جام نے منظور کرلی تھی ۔ اب اگر( جام کی طرف سے ) نافرمانی کی جاتی ہے تو خان کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنا اختیار قائم رکھنے کے لئے تمام ذرائع استعمال کرے۔ بالکل اسی طرح کا پیغام نواب خاران کو بھی پہنچایا گیالیکن دونوں سردار اپنی حیثیت سے خوش نہیں تھے۔
انہوں نے فروری 1948 ؁ء کے آخر میں پاکستان سے الحاق کی کوشش کی لیکن جناح نے ان کو منع کردیا ۔ اب پاکستان کے ساتھ الحاق سے قلات کے انکار نے پاکستان کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ لسبیلہ اور خاران کے جاگیر دارسرداروں سے براہ راست سودے بازی کرے لہٰذہ حکومتِ پاکستان نے لسبیلہ اور خاران کے سرداروں کو دعوت نامے جاری کردیے ۔ ان جاگیردار سرداروں کے علاوہ سردار بائیان گچکی، جو کہ خان کے سالے اور قلات کے ایوانِ بالا کے رکن تھے اور جنہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی مخالفت کی تھی ، بھی کراچی چلے گئے۔ حاکمِ قلات نے لکھا :
’’ میں نے نواب بائیان گچکی کو ان کے علاج کی خاطر کراچی جانے کی اجازت دی تھی اور ساتھ ہی انہیں تاکید کی تھی کہ وہ سرداروں کی کونسل کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے25مارچ یا پھر ہر حال میں 30 مارچ (1948) واپس لوٹ جائیں ۔ سردار بائیان کے قلات کے ساتھ کچھ مالی مسائل تھے کیونکہ وہ مکران صوبے کے ضلع کیچ کے معصولات میں سے آدھا حصّہ قلات کے اداروں کو ادا کرنے سے انکاری تھے۔ سردار بائیان اگست 1947 ؁ء سے اپنے لئے شئے عمر کے ذریعے پاکستانی اداروں سے رابطہ کرنے کے لئے خفیہ طور پر کوشش کررہے تھے ۔ اپنے کراچی آمد کے دوران وہ قلات کے جاگیردار سرداروں کے ساتھ شامل ہوگئے ۔ وہ 17مارچ1948 ؁ء کو جناح سے ملے اور انہیں آگاہ کیا کہ اگر پاکستان فوری طور پر ان کے الحاق کی دعوت کو قبول نہیں کرلیتا تو وہ مجبور ہونگے کہ خان قلات کے جارحانہ اقدامات کے خلاف اپنے تحفظ کے لئے دوسرے انتظام کریں ۔ انہوں نے خان پر درج ذیل الزامات لگائے:
(الف) خان چاغی اور مکران کے فصلوں پر لگائی محصول ہتھیاتے رہے ہیں ۔
(ب) خاران کے لوگوں کو سردار کے خلاف اُکسایا جارہا ہے ۔
(ج) اپنے چھوٹے بھائی کو ان ہدایات کے ساتھ مکران بھیجا ہے کہ وہ لوگوں کو سردار بائیان کے خلاف بھڑکائے۔
(د) بولان کے درّے پر ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی کوشش۔
(ر) جناح کے خلاف بلوچستان میں غلط اور بغض پر مبنی پراپیگنڈہ۔
جناح کے ساتھ اُنکی ملاقات کے بعد پاکستان کی کابینہ کا ایک ایمرجنسی سیشن بلایا گیا جس میں بلوچستان کے سرداروں کے اِن مطالبات کا جائزہ لیا گیا ۔ کابینہ نے فیصلہ کیا کہ ان کے پیشکش کو مان لیا جائے تاکہ خان پر الحاق کیلئے دباؤ ڈالا جاسکے۔17 مارچ کو حکومت پاکستان کی طرف سے ایک غیر آئینی قدم اُٹھایا گیا اور جناح نے جاگیردار سردار بشمول سردار بائیان کی الحاق کے پیشکش کو مان لیا ۔ اس موقع پر جناح نے بائیان کے کردار
کی تعریف کی اور کہا ’’بائیان! لسبیلہ اور خاران کے موجودہ سردار برطانیہ کی پیداوار ہیں لیکن آپ کی تخلیق پاکستان نے کی ہے‘‘۔
18 مارچ کو پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ایک اخباری بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے مکران، خاران اور لسبیلہ کی جانب سے الحاق کو منظور کرلیا ہے ۔ ان علاقوں کے الحاق کرنے کے بعد قلات اپنے آدھے حصّے سے محروم ہوگیا ۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ اس کے رابطے منقطع ہوگئے اور سمندر کے لئے جانے والے راستے بھی اس سے کٹ گئے ۔ پاکستان کی حکومت نے اپنی جارحیّت اور غیر آئینی اقدام کو مندرجہ ذیل وجوہات کی صورت میں جائز قرار دیا:
(الف) خان ایک ایجنٹ کے ذریعے ( غالباً برٹش افغانستان کے ایک کانگریسی حمایت یافتہ رہنما عبدالصمد خان اچکزئی) ہندوستان کو الحاق کی پیشکش کررہا ہے اور قلات کے ہوائی اڈوں کو(ہندوستان کے لئے ) استعمال کرنے پر بھی راضی ہے ۔
(ب) خان نے افغانستان کو مکران کے ساحل کے سمندری بندرگاہوں کو استعمال کرنے کی پیش کش کی ہے ۔

(ج) قلات کے بعض علاقوں کی پاکستان کیساتھ الحاق کی خبر سن کر خان حکومت برطانیہ سے تحفظ فراہم کرانے کی کوشش کررہے ہیں ۔

ریاست قلات نے ان الزامات کی تردید کی لیکن پاکستان نے اِن احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے خان پر پاکستان کے مفادات کے خلاف سازش کرنے کا الزام عائد کیا ۔ خان نے اِس الزام کی تردید کی اور دھمکی دی کہ وہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور اقوامِ متحدہ سے رابطہ کریں گے ۔ خان نے پاکستانی حکومت اور جناح کو اُنہیں اور بلوچ قوم کے ساتھ دھوکہ بازی کرنے پر تنبیہ کی ۔ انہوں نے کہا :

’’ اگر قلات کو الحاق کرانے پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ الحاق رضاکارانہ نہیں ہوگا۔‘‘

پاکستان کی حکومت قلات کے تابعدار ریاستوں کی جانب سے الحاق کرانے کے بعد قلات کو تقسیم کرانے کی پالیسی پر گامزن ہوگئی۔ وزارتِ خارجہ کے جوائنٹ سیکرٹری ایس بی شاہ نے بلوچ سرداروں وڈیرہ بنگلزئی ، سردار شاہوانی اور سردار سنجرانی سے رابطے کیے تاکہ اُنہیں رشوت دیکر خریدا جاسکے ۔ اُس نے انہیں پیشکش کی کہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کردیں تو انہیں خودمختار حیثیت دی جائے گی ۔ اس دوران سردار رئیسانی نے کرنل شاہ کو تعاون کی پیشکش کی۔ تاہم جب یہ سازشیں جاری تھیں اسی دوران آل انڈیا ریڈیو نے 27مارچ 1948 ؁ء کو وی پی مینن (V.P.Menon) کا یہ بیان نشر کردیا کہ خان نے الحاق کے لئے ایک سفارتی نمائندہ ہندوستان بھیج دیا ہے ۔ اسی دن خان نے گورنر جنرل انڈیا ماؤنٹ بیٹن کو ایک خط لکھا اور شدید احتجاج کیا ۔ اُنہوں نے لکھا :
’’میں اس شرارتی خبر کے سننے پر بہت حیران ہوں اور پرزور انداز میں اس کی تردید کرتا ہوں۔ قلات کی حکومت نے ایسی کوئی درخواست ہندوستان سے نہیں کی ہے ۔ میں درخواست کروں گا کہ آپ اس خبر کی تردید کردیں یا پھر اگر آپ کے پاس قلات حکومت کی طرف سے واقعی کوئی خط وغیرہ ہے تو پھر آپ اسے اخبارات میں کیوں شائع نہیں کرتے ؟‘‘
انڈیا اور قلات:
تیس مارچ1948 ؁ء کو گورنر جنرل انڈیا نے خان کو ٹیلی گرام بھیجا جس میں انہوں نے آل انڈیا ریڈیو کی رپورٹنگ پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے ایک غلطی قرار دیا ۔ اسی دن نہرو نے ہندوستانی پارلیمنٹ کو بتایا کہ آل انڈیا ریڈیو کی رپورٹ ایک غلطی کا نتیجہ ہے جس پر وہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا :
’’ اب تک نہ حاکم قلات کے کسی نمائندے اور نہ ہی حکومتِ ہندوستان کی جانب سے ریاستِ قلات کی انڈیا کے ساتھ الحاق پر کوئی بات کی گئی ہے۔ قلات کی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ میں یہ کہتا چلوں کہ بیرونی اخبارات میں ریاستِ قلات اور حکومتِ ہندوستان کے مابین جن سیاسی مذاکرات کا لکھا گیا ہے وہ بالکل بے بنیاد ہیں ۔ یہ بیان کہ ہماری حکومت نے قلات کو رقم فراہم کی ہے اور قلات میں ہوائی اڈوں کی مانگ کی ہے ، بھی مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔‘‘
اسی دن ماؤنٹ بیٹن نے وی پی مینن سے ملاقات کی اور ان سے خانِ قلات کے احتجاج کے متعلق گفتگو کی ۔ بحث کے بعد ماؤنٹ بیٹن نے اعلان کیا کہ ’’ ریاستِ قلات کے متعلق انتقالِ اقتدار کے دوران مسٹر جناح نے اس کی آزاد حیثیت کو تسلیم کرلیا تھا۔ بعد میں سوچا گیا کہ قلات کو ہر حال میں پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہئے ۔ لیکن جب قلات نے دباؤ کو مسترد کردیا تو اسے توڑنے کے لئے اس کے ماتحت سرداروں کا الحاق منظور کرلیا گیا۔ مسٹر مینن کا خیال ہے کہ یہ متوازی صورتحال حیدر آباد کے ساتھ بھی ہے۔‘‘
تحلیلِ قلات:
مینن کے بیان اور پاکستان کے قلات کو کئی حصّوں میں تقسیم کرنے کے پالیسی نے خان کو پریشان کیا ہوا تھا ۔ ان کے سامنے دو راستے تھے:
(الف) محل چھوڑ دیں اور پہاڑوں میں پناہ لے لیں تاکہ پاکستان کی جانب سے حملے کی صورت میں دفاعی جنگ لڑسکیں اور اقوامِ متحدہ سے رابطہ و دوستوں کی تلاش کی جائے تاکہ قلات کی اقتدارِ اعلیٰ کا تحفظ کیا جاسکے۔
(ب) الحاق کے مطالبے کو تسلیم کرلیا جائے ۔
وزیر خارجہ فیل نے پہلے تجویز کی اس بنیاد پر مخالفت کی کہ اس سے روس کو بلوچ آبادی کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے کا موقع مِل سکتا ہے ۔لیکن پہلے تجویز کی قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے اراکین ، بلوچ لیگ ، پرنس عبدالکریم گروپ ، سلطان ابراہیم اور مری کے قبائلی خطے کے ’’ مظلوم پارٹی‘‘ کے رہنما شیر محمد مری نے حمایت کی ۔ لیکن خان نے فیل کے غلبے کے زیرِ اثر پہلے تجویز کو رد کردیا۔ اپنے آباء و اجداد کے مزاحمت کے عظیم روایت کے برعکس (جو ایرانیوں ، افغانیوں اور برطانیوں سے بلوچستان کی اقتدارِ اعلیٰ کے لئے لڑتے رہے) خان نے پارلیمان کی منظوری کے بغیر الحاق کے ’’ عقل مندانہ‘‘ فیصلے کا اعلان کردیا ( 27 مارچ کو پاکستانی قبضے کے بعد خان سے زبردستی الحاق کے کاغذات پر دستخظ کروایا گیا)۔ 28مارچ کو اُنہوں نے حکومتِ پاکستان
کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا اورریاستِ قلات پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اُن کے فیصلے کی بلوچ قوم پرستوں نے مخالفت کی جیسا کہ
ایک بلوچ لکھاری لکھتا ہے :
’’ نصیر اول نے بلوچوں کو متحد کیا ۔ نصیر دوئم نے اس اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد کی ۔ خدائے داد خان نے اپنی پوری زندگی حکومت منظم کرنے کے لئے لڑ کر گزار دی ۔ محمود خان دوئم نے ریاست کی خاطر کفن ہمیشہ تیار رکھا اور احمد یار موجودہ
خان نے اپنی تمام زندگی کی ناز اور شان و شوکت کو دفن کردیا۔‘‘
بلوچ قومی مزاحمت :
ریاستِ بلوچستان کے حکمران میر احمد یار خان کو الحاق کے مسوّدے پر دستخط کرنے کے لئے مجبور کیا گیا ۔خان ایک مطلق العنان حکمران نہیں تھے ۔ اُنہیں ’’رواج‘‘ (بلوچی آئین) کے تحت کام کرنا ہوتا تھااور انہیں کوئی اختیار نہیں تھا کہ پارلیمان کی مرضی کے بغیر وہ مسوّدے پر دستخط کرتے ۔ خان نے اپنی آپ بیتی میں تسلیم کیا ہے کہ انہوں بلوچستان کے پاکستان میں ضم کرنے کے دستاویز پر دستخط کرکے اپنے منصب کی خلاف ورزی کی ہے ۔خان کا دعویٰ تھا کہ ان کے اس غیر آئینی اقدام کے باوجود بلوچ قوم نے نہ ہی اس کے خلاف آواز بلند کیا اور نہ اس پر احتجاج کیا لیکن حقائق اُن کے اس دعوے کی تردید کرتے نظر آتے ہیں ۔ قلات کی بزورِ قوت انضمام سے پاکستان مخالف ریلیوں کا پورے ریاست میں آغاز ہوا۔ بلوچ قوم کے جذبات پر قابو کرنے کے لئے فوج کو چوکس رہنے کا حکم دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے 15 اپریل 1948 ؁ء کو ریاستِ قلات کے پورے انتظامیہ کو اپنے تحویل میں لینے کا فیصلہ کرلیا ۔ اے جی جی بلوچستان نے جناح کے ان احکامات کا اعلان کیا کہ قلات کی حیثیت سابقہ برطانوی دورِ اقتدار والی حالت پر واپس چلی جائے گی ۔ قلات کے انتظامیہ کو چلانے کے لئے ایک پولیٹیکل ایجنٹ کا تقرر کیا گیا۔خان نے با دِل نخواستہ اس تبدیلی کو قبول کرلیا اور گورنر جنرل پاکستان جناح کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ : ’’ میرے قانونی اختیار بطور خانِ اعظم کا 15 اپریل1948 ؁ٗ ؁ء کو خاتمہ کردیا گیا ، قلات کے معاملات میں میرا دخل ختم کر دیا گیا اور مجھے آرڈر کے موصول ہونے کے بیس گھنٹوں کے اندر اندر حکومتِ قلات کے بیشتر وزراء کو گرفتار یا جلا وطن کردیا گیا ۔ میرے متعارف کرائے گئے تمام سماجی، معاشی اور انتظامی اصلاحات کو یکسر پلٹ دیا گیا۔ بلوچوں کی نمائندہ پارلیمنٹ اور بلوچ کنفیڈریشن کو بہ یک جنبشِ قلم توڑ دیا گیا۔‘‘
پاکستان کی مرکزی حکومت کی قلات کے لئے پالیسی کے علاوہ جناح نے بلوچستان کو بھی خودمختیاری دینے سے انکار کردیااس کے بدلے میں اس نے سرداروں کے بدنام زمانہ سنڈیمن سسٹم کے مطالبے کو تسلیم کردیا ۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بلوچستان کو ایک بوجھ سے تشبیہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری اداروں کے بجائے بلوچستان کو ان کی رہنمائی کے تحت سماجی اور معاشی پروگراموں کی ضرورت ہے۔ اپریل 1948 ؁ء میں بلوچستان سے کئی سیاسی لیڈر جیسے محمد امین کھوسہ اور عبدالصمد اچکزئی کو گرفتار کیا گیا۔ انجمن وطن پارٹی جو کانگریس نواز پارٹی تھی اور صمد اچکزئی کی سربرائی میں کام کرتی تھی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ۔
خود مختیاری دینے سے انکار ، سنڈیمن نظام کی واپسی اور بلوچستان کے پاکستان میں غیر آئینی اور غیر جمہوری انضمام نے بے چینی اور ہلچل کو جنم دیا ۔لہذا 16 مئی 1948 ؁ء کو خان کے چھوٹے بھائی پرنس عبدالکریم نے قومی آزادی کی تحریک کی قیادت کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ انہوں نے قوم پرست سیاسی جماعتوں کے سرکردہ اراکین (جن میں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی ، بلوچ لیگ اور بلوچ نیشنل ورکرز پارٹی شامل تھے ) کو دعوت دی کہ وہ ایک عظیم تر بلوچستان کی آزادی کے کوششوں میں ان کا ساتھ دیں ۔ اپنے سیاسی عزائم کے ساتھ ساتھ پرنس شاہی خاندان کے رکن اور صوبہ مکران کے سابق گورنر تھے ۔ قلات کے بزورِ طاقت الحاق اور سردار بائیان کے بطور والی مکران تقرر ہونے سے وہ برہم ہوگئے ۔ اُنہوں نے افغانستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں سے مدد لی جاسکے اور تحریکِ آزادی کو منظّم کیا جاسکے۔ پرنس کریم نے 28جون1948 ؁ء کو خان کو ایک خط لکھا اور اُنہیں اپنی جلاوطنی کے وجوہات سے آگاہ کیا اپنے طویل مضمون میں انہوں نے جلاوطنی کے وجوہات کے حوالے سے خاران اور مکران کے
غیر آئینی شمولیت ، مکران صوبے کے غیر منصفانہ الحاق اور قلات کے بزورِ طاقت
پاکستان میں انضمام کا ذکر کیا ۔ انہوں نے لکھا:
’’ اس تمام بے چینی اور گڑبڑ کی اصل وجہ پاکستانی لوگوں کی انتہا پسندی اور غیر قانونی اقدام ہیں ۔ ہمارے دونوں ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں نے الحاق کے خلاف متفقہ طور پر فیصلہ دیا تھا اور زندگی کے آخری لمحے تک اپنی مکمل آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے تیار تھے ۔آپ (خان) نے بھی کئی موقعوں پر اپنی خطوط اور زبانی کلاموں میں بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ کیا اِن سب کی وجہ میں ہوں؟ اگر پاکستانی لوگ ریاستِ قلات کی آزادی کو سلب کر رہے ہیں تو وہ یہ ایک باقاعدہ طے شدہ پروگرام کے تحت کر رہے ہیں ،میرے جلاوطنی کی وجہ سے نہیں۔ میں تو جب سے یہاں آیاہوں مکمل خاموش رہا ہوں لیکن وہ (پاکستانی)ہمارے آزادی اورقومیت کو تباہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں ۔ بلوچ ریاست جیسے کہ مستونگ کے لئے پولیٹیکل ایجنٹ کی تقرری ،ساراوان میں ناظم کا چناؤ اور مرکز میں ایک معاون وزیرِ اعظم کا لانا ، ریاست کے غداروں پر مراعات کے دروازے کھول دینا اور ریاست کے وفاداروں پر ظلم و ستم کرنا ، یہ سب چیزیں کیا معنی رکھتے ہیں ؟ کیا لوگ ان چیزوں کے بارے میں اندھے ہوگئے ہیں ۔آپ اور آپ کی ہدایات کے ماتحت بلوچ قوم نے برطانوی آقاؤں کی منشاء کے خلاف پاکستان کے بقاء کے لیئے اخلاقی اور مادی امداد فراہم کی لیکن نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے ۔ آپ کو ابھی تک فریب ہے کہ پاکستان کے خالق (جناح) آپ کے رفیق ہیں اور وہ بلوچ قوم کو خوش اور ترقی کرکے دنیا میں آگے بڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ لیکن ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ الحاق کرانے کے باوجود ( جو کہ سراسر بلوچ قوم کی منشاء کے خلاف تھا) آپ کو کس قدر غیر اخلاقی ، غیر معاشرتی اور غیر مذہبی سلوک سے نوازا گیا ۔ مکران کے صوبے کو بغیر کسی وجہ کے قلات سے کاٹ دیا گیاہے یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کی ہمت اُن لادین برطانوی لوگوں کو بھی نہیں ہوئی جنکے خلاف ہم نے ( خدمات قبول کرنے کے ساتھ ساتھ )کئی مسلّح جنگیں لڑیں جو کہ خان محراب خان کے زمانے سے لیکر پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے تک جاری رہیں تھیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی لوگ نہ صرف یہ کہ برطانیوں سے زیادہ جارحیّت پسند ہیں بلکہ انہیں اپنے دوستوں کو دغا دینے کی بھی عادت ہے۔ اس حقیقت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ (پاکستانی) کس کردار کے لوگ ہیں ۔
’’بلوچستان سے نکلنے کے وقت حکومتِ برطانیہ نے آپ کے اقتدار اعلیٰ کے منصب کو مدّ نظر رکھتے ہوئے لسبیلہ اور خاران کے خطّے آپ کے حوالے کر دیئے تھے آپ نے جناح کی اس حد تک خدمت کی کہ نامساعد حالات کے دوران آپ سے متاثر ہوکر انہوں نے آپ کو اپنا فرزند قرار دیا ۔ اب انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اپنے پدری حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے وہ ایک قدم آگے آتے اور نوشکی ، کوئٹہ ، بولان اور نصیر آباد کے علاقوں کو ( جن کی لیز کی مدّت قانونی طور پر ختم ہوچکی تھی) آپ کے حوالے کرتے لیکن اس کے برعکس قربانیوں کا صلہ انہوں نے آپ کو استبداد کی صورت میں دیا۔ اگرچہ لسبیلہ اور خاران کا الحاق بھی غیر قانونی تھا لیکن مکران کے الحاق کا تسلیم کیا جانا پورے بلوچ قوم اور آپ کے لئے ایک کھلی توہین کے برابر تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود آپ نے اپنی جھوٹی امیدیں نہیں چھوڑی اور اپنی فرزند کی حیثیت میں رہتے ہوئے اپنے پدری نسبت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور قوم سے التجا کی کہ وہ خوشی سے الحاق کو قبول کریں اور انصاف کی توقع کریں ۔ ایک لمبے عرصے تک بلوچ قوم نے چپ سادھ رکھی کہ وہ جلد ہی ریڈیو سے یہ اعلان سنیں گے کہ خان قلات کے تمام اختیارات کو بحال کردیا گیا ہے، مکران کو قلات ہی کا حصہ رہنے دیا گیا ہے ، لسبیلہ اور خاران پر قلات کے اقتدار کو مان لیا گیا ہے اور یہ کہ لیز پر دیئے گئے علاقوں پر قلات کا اختیار مان لیا گیا ہے۔لیکن جب اعلان سامنے آیا تو اس پرانی استبداد پر مبنی مطالبہ تھا کہ مکران کو خالی کیا جائے اور اسکی انتظامیہ کو کیچ کے غدّار سردار بائیان کے حوالے کیاجائے۔
’’ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی کی وجہ ان میں عدم اتحاد کا پا یا جانا ہے لیکن کیا اس کا احساس پاکستان کے لوگوں کو بھی ہے کہ جن کے رواج اور اعمال غیر بھائی چارے ، غیر مساوات، ناانصافی اور استبداد پر مبنی ہیں؟لہٰذا ان تمام حقائق کو مدّنظر رکھتے میں درخواست کرتا ہوں کہ اب جھوٹی امیدیں باندھنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب ایک ایسے شخص کو پرکھنا ہے جسے کہ پہلے ہی پرکھا جاچکا ہے اور وہ اس میں ناکام ثابت ہُوا ہے۔ ہم کسی بھی نظریئے سے پاکستان کے موجودہ حکومت پر نظر ڈالیں توجو چیز ہمیں نظر آتی ہے وہ ہے صرف اور صرف پنجابی فاشزم ۔ لوگوں کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ یہ آدمی اور اسلحہ ہیں جن کی حکمرانی ہے یہاں کوئی اخلاقی نظام اور انصاف نہیں ہے ۔ خودغرضی اور استبداد کا دور دورہ ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ یہ ایک غیر اخلاقی فوجی حکومت ہے جو کہ برطانوی جمہوریت سے کئی درجے بدتر ہے ۔ اس حکومت میں کسی دوسرے قوم کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے چاہے وہ بلوچ ہوں یا سندھی، بنگالی ہوں یا پٹھان ، تا وقتیکہ وہ اپنے آپ کو یکساں طور پر طاقتور نہ بنائیں ۔ان حقائق کی روشنی میں ایسا سوچنے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ پاکستان دُنیا کی پانچواں سب سے بڑی ریاست ہے اور دنیامیں مسلمانوں کی سب سے بڑی اور اپنے وسیع ذخائر کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ یہ مسلمانوں کے اتحاد اور بھائی چارے کا مرکز بن جائے ۔کیونکہ یہ ملک اسلامی اصولوں کی بنیا دپر قائم ہوا ہی نہیں ہے اسلامی اصولوں کی بات تو ایک طرف اِنہیں (پاکستانیوں کو)تو اس کے نام کا بھی خیال نہیں ہے ۔ شراب کی دکانیں اور طوائفوں کے کھوٹے بدستور چل رہے ہیں اور پنجابی فاشزم کی ہرجگہ حکمرانی ہے ۔ ان وجوہات کی بنا پریہ مملکت اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور ترقی کرنے کے لیے استعماری طاقتوں کے لئے ایک مضبو ط مرکز بننے پر مجبور ہے یہ ان کے اشاروں پر ناچتی ہے اور دوسرے قوموں کے فطری آرزوؤں کو دباتی رہی ہے ۔ یہ (پاکستان) استبدادیت کا راستہ ہے اور انسانی تجربے اور خود قرآن پاک کا یہ فیصلہ ہے کہ استبداد کبھی بھی قائم دائم نہیں رہ سکتا چاہے وہ کتنی ہی مادی وسائل سے ہی لیس ہو۔یہی یقین میرا واحد سہارا بن کے مجھے یہاں کھینچ کر لائی ہے ۔ میں نہایت انکساری سے آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ بلا ضرورت میرے لئے بلاوا بھیج کر میرے مشکلات میں اضافہ نہ کیجئے گا۔آپ کے ہاتھ میں اب کچھ نہیں ہے کہ جس سے مجبور ہوکر میں اپنی جلا وطنی ختم کردوں ۔ مکران کے بزورِ قوت الحاق کو ختم کرایئے اُس صوبے کو واپس قلات میں شامل کرایئے تاکہ مجھے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی جھلک دیکھنے کو ملے ۔ اگر آپ خود ایسا نہیں کرتے تو کیا مکران کے الحاق کی صورت میں دیئے گئے زخم کو مندمل کرنے کے حوالے سے قلات کے تمام اختیارات کو بحال کرکے اسلامی بھائی چارے کا کوئی بھی ثبوت دیا ہے ؟ یہ دکھلایا ہے کہ پنجابی فاشزم کس حد تک جُھک سکتی ہے ؟ یقیناًایسا نہ ہوا ہے اور نہ ہوگا ۔ اگر کچھ واقعی ہوا ہے تو یہ کہ فوجی (پاکستانی فوج) طاقت میں اضافہ کیا گیا ہے ، محاصرے کو سخت کیا گیاہے، پُر امن راہگیروں کو گرفتار اور گولیوں سے چھلنی کیا جارہا ہے اور پورے ریاست میں میرے نام پر پابندی لگائی گئی ہے۔مجھے معاف کیجیئے، میں ایسے دردناک اور استبداد کے ماحول میں رہنے کے قابل نہیں ہوں ۔ میں آپ سے اقرار کرتا ہوں کہ میں اُسی وقت ضرور واپس لوٹوں گا جب میرے جلا وطنی کے وجوہات ختم کردیئے گئے ہوں یا پھر میں خود طاقت حاصل کرکے اُنہیں دور کردوں ‘‘۔
پرنس کریم کی روانگی سے قبل خان کی شریکِ حیات نے انہیں مالی مدد کے طور پر سونا اور چاندی دیا تھا ۔ اس سے ان کے اقدام (جلاوطنی) کے لئے خان کی منظوری کی نشاندہی ہوتی ہے کیونکہ خان کو پرنس کریم کے جدوجہد کی صورت میں ان کے شاہی امتیازی اختیارات کے بحالی کی امید نظر آتی تھی۔ لیکن وزیر خارجہ فیل نے خان اور شہزادے کے مابین کسی بھی رابطے کا انکار جنہیں کہ ریاست کے چند اہلکاروں اور فوجی جوانوں کی مدد حاصل تھی ۔ چند نمایاں سیاسی رہنما جنہوں نے پرنس کریم کے ساتھ جدوجہد میں حصہ لیا ، درج ذیل ہیں: محمد حسین عنقا ( بلوچ لیگ پارٹی کے سیکرٹری اور ہفتہ وار ’’ بولان‘‘ مستونگ کے ایڈیٹر ) ، ملک سعید دہوار ( قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے سیکرٹری) ، قادر بخش نظامانی( بلوچ لیگ کے رکن اور کمیونسٹ پارٹی سندھ ۔ بلوچستان کے شاخ کے ایک ممتاز رکن ) اور مولوی محمد افضل ( ممبر جمعیت علمائے بلوچستان) ۔ بلوچ مجاہدین ( جیسا کہ وہ خود کو کہلواتے تھے ) افغانستان میں داخل ہوگئے اور صوبہ قندہار کے علاقے سر لٹھ میں قیام پذیر ہوئے ۔ اپنے قیام کے دوران بلوچ آزادی کے جنگجوؤں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیئے مندرجہ ذیل اقدامات پر کام کیا۔
(الف) مشرقی اور مغربی بلوچستان کے بلوچ سرداروں کو جدوجہد میں شامل ہونے کیلئے پیغامات بھیجنا۔
(ب) بلوچستان میں ایک پراپیگنڈہ مہم چلانا جس کے ذریعے بغاوت ، ہلچل اور گڑبڑ پھیلائی جاسکے۔ ساتھ ہی نیشنل لبریشن فورس کے لئے لوگوں کو بھرتی کرنا۔
(ج) بین الاقوامی اور خصوصاً افغانستان اور سوویت یونین سے امداد حاصل کرنے کی کوشش ۔
اوپر درج کیے گئے مقاصد کے سلسلے میں رودینی قبیلے کے میر غلام فاروق ، چاغی کے سنجرانی قبیلے کے میر وزیر خان ،سردار محراب خان، میر جمعہ اور کئی دوسرے سرداروں کو پیغامات ارسال کیے گئے جبکہ پراپیگنڈہ کو دو محاذوں پر چلایا گیا :
(الف) قومی ثقافتی محاذ ۔
(ب) مذ ہبی محاذ۔
(الف) قومی ثقافتی محاذ کے سلسلے میں پارٹی نے بلوچستان کے تمام علاقوں میں پمفلٹ تقسیم کیے تاکہ لوگوں کو پاکستان کے استبدادی حکومت کے خلاف بغاوت کے لئے آمادہ کیا جائے ۔ پمفلٹ میں لکھا گیا ۔
’’ محمد علی جناح اور ان کے ساتھی ، جن کے ہاتھوں میں انگریزوں نے حکومت نے دی ہے ، ہمیں غلام بنانے کی خواہش رکھتے ہیں اور ہمارے مادرِ وطن (بلوچستان) پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں ۔ وہ مادرِ وطن جس کے ایک ایک انچ کے لئے ہمارے آباء و اجداد نے اپنے خون کی قربانی دی اور اسے غیر ملکیوں سے آزاد کرایا ۔ ہم اپنے پیشروں کی روایت کے خلاف غافل اولاد بننے کے لئے تیار نہیں ۔ ہم نے اپنے مادرِ وطن کے ایک ایک انچ کی آزادی کے لئے لڑنے کا پختہ ارادہ کیا ہے ۔ محمد علی جناح اور اس کے بے شرم ساتھی ہمارے بلوچ ثقافت کا دیوالیہ نکالنا چاہتے ہیں تاکہ مستقبل میں ہم اپنے آپ کو بلوچ نہ کہلواسکیں، اپنی مادری زبان میں بات نہ کرسکیں ۔اپنے پرانے مہذّب رسومات کو نظر انداز کرکے ان کے بے حیا طور طریقے اپنائیں۔ لیکن ہم نے مصمّم ارادہ کرلیا ہے کہ ہم اپنے ثقافت کا تحفّظ کریں گے ۔ جب تک جان ہے اپنی مادری زبان نہیں چھوڑیں گے اور آخر تک اپنے وقار کا دفاع کریں گے۔‘‘
(ب) مذہبی محاذ پر ایک ممتاز مذہبی لیڈر مولوی محمد افضل نے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں سرکاری ملازموں اور فوجی اہلکاروں کو مخاطب کیا گیا تھا ۔ فتوے میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کے مسلمان اور خصوصاً فوجی پاکستان کے غیر اسلامی حکومت کے خلاف جہاد میں شامل ہوجائیں ۔ فتوے میں اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان کا حکمران جناح مذہب کے لحاظ سے ایک خوجہ ہے جبکہ اُس کے وزراء میں لیاقت علی خان رافضی (کافر) عبدالرّب نشتر ایک مُلحد جبکہ ظفراﷲ ایک لادین قادیانی ہے۔وہ اسلام کے کبھی بھی خیرخواہ نہیں ہوسکتے ۔فتوے میں پاکستانی فوج سے درخواست کی گئی کہ وہ ایک سچّے اسلامی جذبے کے ساتھ ایک غیر اسلامی حکومت کے خلاف جہاد کے لئے بلوچ لبریشن فورس میں شامل ہوجائیں ۔ فتوے میں مسلمان سپاہیوں کو تنبیہ کی گئی تھی کہ اِس اسلامی جہاد میں جو ہمارے خلاف لڑے گا وہ عام اصطلاح میں خنزیر کہلائے گا اور خدا اور اس کے پاک رسول ﷺ کے سنگین نافرمانوں میں سے ہوگا۔
ثقافتی اور مذہبی تحریکوں کے ساتھ ساتھ آغا عبدالکریم نے قلات کے سابق سپاہیوں اور اہلکاروں پر مشتمل ایک لبریشن فورس کو منظم کیا اور اسے بلوچ مجاہدین کانام دیا۔شہزادہ کریم کو سپریم کمانڈر کے طور پر منتخب کیا۔ اس سلسلے میں بھرتیوں کے لئے پرنس کی جانب سے ایک اپیل بھی جاری کیاگیا کہ جو شخص سو آدمیوں کو فوج میں بھرتی کراتا ہے اسے بطورِ میجر اور پچاس آدمی بھرتی کرانے والے شخص کو بطورِ کیپٹن تعینات کیاجائے گا۔بلوچ لبریشن آرمی کی ایک خفیہ ایجنسی ’’ جان نثار‘‘ کے نام سے قائم کی گئی جس کی ذمہ داریوں میں معلومات اکھٹا کرنا، ترسیلات کے نظام کو تباہ کرنااورغدّاروں کے سرگرمیوں پر نظر رکھنا تھا۔ جان نثار ایجنسی کے ماتحتوں میں ’’ جان باز‘‘ شامل تھے۔ایجنسی کی قیادت پرنس کریم کے پاس تھی اور اس کے ہیڈ کوارٹر کو ’’ بابِ آلی‘‘ (خفیہ جنگ کا دفتر) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جان نثار کے اراکین کی تعداد تیس تھی جبکہ جان بازوں کی صحیح تعداد کا تعین نہیں کیا جاسکا ہے ۔ بابِ آلی کے جان نثاروں اور جان بازوں کے لئے پہلے حکم میں ان کے مقصد کے لئے مندرجہ ذیل جملے شامل تھے ۔
’’ باب آلی جان نثاروں کے ان مسلسل رپوٹوں اور تجاویز سے اتفاق کرتی ہے کہ بلوچ قوم اور قلات کے غدّاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔ لہٰذہ بابِ آلی جان بازوں کو قطعی حکم جاری کرتی ہے کہ یکم جون 1948 ؁ء سے اس حکم پر نہایت احتیاط عمل درآمدکرایا جائے چاہے اس میں ان کی جان (جان بازوں کی ) ہی کیوں نہ چلی جائے۔ جب ایک جان نثار کسی غدّار کے نام کو جان باز کے سامنے لاتا ہے تب یہ جان باز کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ غدار کے زندگی کا خاتمہ کرے اور اس کی رپورٹ متعلقہ جان نثار کے ذریعے آگے بھیجے ‘‘۔
تاہم افغانستان کے انکار اور اسٹالینی روس کے تعاون پر خاموشی کی وجہ سے پرنس آزادی کی جنگ شروع نہ کرسکے۔سرلٹھ میں اپنی قیام کے دوران پرنس کریم نے ملک سعید اور قادر بخش نظامانی کو بطور سفیر افغان حکومت اور کابل میں دوسرے سفارت خانوں کے اخلاقی اور مادی تعاون حاصل کرنے کے لیئے بھیجا۔ نظامانی نے رپورٹ پیش کی کہ افغان حکومت نے کسی بھی طرح کے تعاون سے انکار کیا ہے اوار کہا ہے کہ وہ (بلوچ) یا تو بطور پناہ گزین قندھار میں رہیں یا پھر واپس لوٹ جائیں ۔افغان اربابِ اقتدار نے باغیوں کو افغان سرزمین سے کاروائی کرنے کی اجازت نہیں دی ۔نظامی نے ایرانی سفارت خانے کو بھی بلوچوں کے مطالبات سے آگا ہ کیا۔ایرانی ایلچیوں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور باغیوں کو ایران میں پناہ گاہ فراہم کرانے کے خواہش کا اظہار کیا لیکن تعاون کی پیشکش انہوں نے بھی نہیں کی ۔پرنس کے نمائندے کی آخری امید روسی سفارتخانے کی صورت میں تھی۔سوویت اہلکاروں نے غور سے نظامانی کے گفتگو کو سنا ۔ اگرچہ انہوں نے کسی طرح کی یقین دہانی تو نہیں دلائی تاہم وعدہ کیا کہ وہ ماسکو کو آگاہ کریں گے۔یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں افغان حکومت ، جو کہ پاکستان کے خلاف تھی، بلوچ قومی تحریک کی مدد کرنے میں ناکام رہی اور کیوں اسٹالینی روس نے مارکسزم اور لیننزم کے اصولوں کی روشنی میں بلوچوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت نہیں کی، جبکہ اُنیس سو بیس کے عشرے میں لینن نے افغانستان میں سوویت نمائندگان کو بلوچ انقلابیوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور ان کی مدد کرنے کی تلقین کی تھی ، اور کیوں ایرانیوں نے بلوچ مسئلے میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا جو کہ ایرانی پالیسی کے خلاف تھی۔ واضع رہے کہ ایران پالیسی بلوچ ، کرد اور آذری قومی تحریکوں کو زیرِ قابو کرنے پرمشتمل تھی۔ یہ سوالات ایک تاریخی تجزیے کا طلبگار ہیں ۔
افغانوں نے احمد شاہ کے زمانے سے بلوچستان کو ایک تابعدار ریاست کے طور پر تصور کیا تھا تاوقتیکہ 1758 ؁ء میں بلوچوں اور افغانوں کے مابین جنگ ہوئی اور دونوں ریاستوں کے درمیان عدم مداخلت کے معاہدے پر دستخط ہوا۔19 ویں صدی میں افغان حکمرانوں شجاع الدین اور امیر عبدالرحمٰن نے بلوچستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔ امیر عبدالرحمٰن نے اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کا اظہار اپنی جان نشینوں کے لیے وصیت نامے میں کیا ۔
’’ اگر افغانستان کو پانی تک رسائی مل جائے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے ملک امیر و کبیر ہوجائے گا ۔ اگر میری زندگی کے دوران اس مقصد میں کامیابی نہیں ملی تو میرے بیٹوں اور جان نشینوں کو اس سلسلے میں بلوچستان کے خطے پر اپنی آنکھیں جما لینی چاہیئے ۔‘‘
1947 ؁ء میں افغانستان کی حکومت نے مطالبہ کیا کہ پشتونستان کا قیام عمل میں لایا جائے جس کی سرحدیں چترال اور گلگت سے لیکر بحیرہ عرب کے بلوچ ساحل تک پھیلی ہوئی ہوں۔افغان حکومت اپنے بیانات اور تحریروں میں بلوچستان کو جنوبی پشتونستان کے نام سے منسوب کرتی تھی۔ افغان توسیع پسندانہ پالیسی کے مضمرات اس چاروں طرف سے خشکی میں گھری ہوئی ملک کے معاشی مفادات میں چھپی ہوئی تھیں ۔لیکن ساَ تھ ہی افغان حکومت کے لیے یہ بھی نا ممکن تھاکہ وہ اپنے قومی مفادات کو نظر انداز کرکے ایک آزاد عظیم تر بلوچستان کی تحریک کو مدد فراہم کرتا جو کہ افغانستان میں موجود بلوچ خطّوں کابھی دعوے دار تھا۔ اسٹالنی ٹولی مشرق میں لینن کے پالیسیوں پر عمل پیرا نہیں تھی اور ہندوستان میں تو اسٹالن کے پیروکار مذہب کے نام پر قائم ہونے کے دعویدار پاکستان کے حق میں تھے۔ مزیدبراں ماسکوکی اسٹالن حکومت افغانوں اور برطانیوں ، جو ایک آزاد و خود مختار بلوچستان کے مخالف تھے، کوناراض کرنے پر تیار نہیں تھے۔
جہاں تک ایرانی پالیسی کا تعلق ہے تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایرانی چاہتے تھے کہ بلوچ رہنماؤں کو دھوکے سے ایران بلا کر انہیں پاکستانی اداروں کے حوالے کیا جائے ۔ ( ہمیں یاد رکھنا چائیے کہ شاہِ ایران ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے پاکستان کو ایک آزاد و
خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کیا تھا)۔
اس دوران ، 24 مئی 1948 ؁ء کو ایک شاہی فرمان کے ذریعے پرنس کریم اور اس کی پارٹی کو ایک باغی گروپ قرار دے دیا گیااور کہا گیا کہ پرنس اور اس کی جماعت کے ساتھ کوئی کسی قسم کا تعلق نہیں رکھے گااور نہ ہی انہیں کوئی راشن فراہم کرے گااور اگر باغی گروپ کے کسی رکن نے کسی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اسے سزا دی جائے گی ۔پاکستان کی حکومت نے فوج پنجپائی چمن چشمہ اور افغان سرحدوں کے قریب راستری کے فوجی اڈّوں پر بھیجی تاکہ باغیوں کی راشن سپلائی لائن کو کنٹرول کیا جائے جو کہ انہیں آزادی کے حامی لوگوں کے ذریعے ملتی تھی ، اور ان کے سرگرمیوں یا حملے کی کوشش پر قابو پایا جائے ۔
پاکستانی اداروں نے اس کی فوج اور لبریشن فورسز کے درمیان دو جھڑپوں کی تصدیق کی۔ بلوچستان میں موجود تناؤ اور ہلچل سے بچنے کے لئے خان نے اپنے ماموؤں حاجی ابراہیم خان اور حاجی تاج محمد کو سرلٹھ بھیجا تاکہ وہ پرنس کریم کو واپس قلات بلالیں لیکن پرنس کریم نے اپنے 18 مئی 1948 ؁ء کو خان کو لکھے گئے خط میں واپسی کو مشروط کردیا۔ انہوں درج ذیل شرائط پیش کئے:
(1) بلوچ، افغانوں کی طرح ایک علیحدہ قوم ہے ۔ ان کی اپنی زبان اور ثقافت ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تصدیق جغرافیہ اور تاریخ سے ہوتی ہے ۔ انہیں ایک آزاد قوم کی طرح زندہ رہنے کا حق دیا جانا چائیے۔
(2) قلات بلوچوں کا قدیم مرکز رہا ہے اب اگر وہ خطے جنہیں قلات سے کاٹ کر پاکستان کی حکمرانی میں ڈالا گیا واپس قلات میں شامل ہونے چاہیے تو پاکستان کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چائیے۔
(3) پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت قلات کو اپنی خودمختار حیثیت کو برقرار رکھنا چائیے۔
لیکن پرنس اور آزادی کی تحریک داخلی اور بیرونی امداد حاصل کرنے میں ناکام رہے جبکہ بلوچ قوم پرست بھی دو حصوں میں بٹ گئے تھے ۔ محمد حسین عنقا اور ملک سعید گوریلا جنگ کی صورت میں مسلح جدوجہد کی حق میں تھے جبکہ میر غوث بخش بزنجو اور دوسرے نمایاں رہنما تیاریوں کی کمی اور داخلی و بیرونی امداد کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ کسی فوجی مقابلے کے معاملے پر خاموش دکھائی دیتے تھے۔ مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر پرنس کریم کو مجبوراً واپس قلات آنا پڑا تاکہ اپنے مطالبات پر پرامن مذاکرات کئے جائیں ۔ جب 8 جولائی 1948 ؁ء کو قلات میں پرنس کی آمد کی خبر پہنچی تو انہیں خان کا پیغام سنانے کے لئے ڈی وائی فیل قلات اسٹیٹ فورس کے ساتھ ہربوئی پہنچے ۔ ان کی ملاقات کے دوران ڈی وائی فیل نے ان کے کچھ مطالبات مان لیے اور یقین دلایا کہ اگر وہ اپنے لشکر کو غیر مسلح کردیں تو انہیں معافی دی جائے گی ۔پرنس نے اس پر عمل درآمد کرادیا ایک اور خیال کے مطابق پاکستان کے اعلیٰ اہلکاروں نے ہربوئی کے مقام پر پرنس کی پارٹی کے ساتھ مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب قرآن پاک پر قسم کھاکرایک ’’ محفوظ طرزِ عمل‘‘ کا معاہدہ کیا لیکن معاہدے کی خلاف ورزی اس وقت کی گئی جب پاکستانی فوج نے آغا کریم اور ان کی پارٹی کے 142 اراکین پر حملہ کردیا ۔
پاکستان کے سرکاری نقطہِ نظر کے مطابق عبدالکریم افغان امداد کے ساتھ بلوچستان میں داخل ہوئے اور زرکزئی قبیلے کے ایک بااثر قبائلی لیڈر میر گوہر خان زہری کے تعاون سے جھالاوان کے علاقے میں پاکستان کے خلاف ایک بغاوت کو منظم کیا ۔ مزید براں یہ کیا گیا کہ ساتویں بیڑے کے انچارج میجر جنرل اکبر خان کو احکامات جاری کئے گئے کہ وہ سرکشوں پر حملہ کرکے اُنہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کریں۔ پرنس کریم اور ان کے 142 پیروکاروں کو گرفتار کرلیا گیا اور انہیں مچھ اور کوئٹہ کے جیلوں میں قید کرلیا گیا۔ اس سلسلے میں ایک تفصیلی اور دلچسپ بیان جنرل اکبر خان کی طرف سے 14 اگست1960 ؁ء کو ان کی طرف سے روزنامہ ڈان میں شائع کردہ آرٹیکل ’’ ایک سپاہی کی تازہ یادیں ‘‘ ۔ جنرل اکبر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ریاست قلات پر حملے کا ایک باقاعدہ منصوبہ تیار کیا گیا تھا وہ پاکستانی فوج اور بلوچ لبریشن فورس کے مابین تصادموں کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔ اکبر کے مطابق جناح نے احکامات جاری کیے تھے کہ اس خبر کو پریس میں نہ پھیلنے دیا جائے ۔ میجر جنرل نے اپنے آرٹیکل میں لکھا :
’’ مسٹر جناح نے مجھے گفتگو کے لیے بلایا تو میں نے اُن کے سامنے اپنا منصوبہ ( حملے کا) پیش کردیا ۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ ہمیں قلات پر اس طرح سے حملہ نہیں کرنا چائیے کہ جس سے دنیا کو پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کا موقع مِل جائے ۔ اُن کے منصوبے کے تحت مسٹر جناح نے بلوچستان کے ریاستوں کو شدید ہلچل اور گڑبڑ والے علاقے قرار دیا ۔مجھے آٹھویں فوجی دستے کا کمانڈر مقرر کیا گیا ۔ یہ واقعہ رمضان کے مہینے میں پیش آیا ۔میں نے ساتویں بلوچ بٹالین کو حکم دیاکہ وہ ریاست پر پیش قدمی کریں ۔ میرے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے کرنل گلزار احمد نے کچھ اُونٹ اکھٹے کیے ۔ جن پر ہم نے جنگی سامان لادا اور طے کیا کہ ہم ریاست میں اس طرح داخل ہونگے کہ کوئی بھی ہم پر شُبہ نہ کرسکے ۔ اِس طرح سے ہمارے سپاہی ریاست میں تاجروں کا بھیس بدل کر داخل ہوئے ۔ اسی دوران ہمارے مرکزی قلات روڈ سے گزرنے کے بعد ریاستی فورسز جُھلو کے وادی میں داخل ہو گئے تھے۔ خان قلات نے جان بوجھ کر اپنے محل کو چھوڑ دیا تھا تاکہ پرنس عبدالکریم اُس پر قبضہ کرکے ریاست کی آزادی کا اعلان کردیں ‘‘۔ اکبر خان مزید لکھتا ہے :
’’ خان کو بے وقوف بنانے کے لئے میں نے ان کی جانب سے پاکستان آرمی کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں شرکت کی دعوت دی۔ ریاستی اداروں نے روایتی رقص اور موسیقی کا انتظام کیا تھا ۔ جشن کے دوران میں نے میجر بُخاری کے اصرار پر تقریب کو چھوڑ دیا۔ میں سیدھا شاہی مہمان خانے تک بذریعہ گاڑی پہنچا اور پھر وہاں کے پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا ۔ میں نے وہ جگہ ایک فوجی جیپ کیساتھ چھوڑی ۔ قلات کے ریاستی فوج کو اس شام (ہمارے) حملے کی اطلاع مل گئی تھی اور اس کی فوجیں پہاڑوں پر پوزیشنیں سنبھالے ہوئے موجود تھے ۔ اُنہوں نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا ۔ اچانک پاکستانی فوج نے قلات کے ریاستی فورسز پر دھاوا بول دیا چار گھنٹے تک لڑائی جاری رہی ۔ اس دوران کرنل گلزار کے بٹالین نے بھی اپنی پیش قدمی کو شروع کردیا ، جب مسٹر ڈگلس فیل کو میرے منصوبے کا علم ہُوا تو انہوں نے مجھے ہٹانے کے احکامات جاری کردیئے ۔ جب رات کو میں اپنے فوجیوں سے ملا تو پتا چلا کہ پاکستانی بریگیڈیئر کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ ہر اٹھائے گئے قدم کے سلسلے میں اپنے انگریز آفیسر سے مشورہ کرتے تھے ، وہ (انگریز) اپنے منصب سے انصاف نہیں کررہے تھے ۔ میں نے اسے معطل کردیا اور اس کی جگہ پر محمد زمان خان کو مقرر کردیا ‘‘۔
اس طرح سے آزادی کیلئے پرنس آغا عبدالکریم اور ان کے لبریشن فورس کی کوششیں اپنے اختتام کو پہنچیں ۔
مُقدمہ:
پرنس کریم اور ان کے پارٹی ارکان کی گرفتاری کے بعد اے جی جی نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کوئٹہ خان صاحب عبداﷲ خان کی سربراہی میں ایک تفتیشی ٹیم کے لیے احکامات جاری کردیئے جس نے 12 ستمبر 1948 ؁ء کو اپنی رپورٹ پیش کردی ۔ یہ رپورٹ پرنس کی سرگرمیوں اور لبریشن فورس کے ذریعے تقسیم کیے گئے خطوط اور دستاویزات کے متعلق تھی۔ تفشیش کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کوئٹہ آر ۔کے۔ساکر نے ایک خصوصی جرگہ (معتبرین کا سرکاری کونسل) تشکیل دیا جس میں مندرجہ ذیل اراکین شامل تھے:
-:1 خان بہادر صاحبزادہ محمد ایّوب خان عیسیٰ خیل جو پشین کے ایک پشتون تھے۔
-:2 کے بی باز محمد خان جوگیزئی ، جو لورالائی کے پشتون تھے۔
-:3 عبدالغفار خان اچکزئی ، جو پشین کے پشتون تھے۔
-:4 ایس بی وڈیرہ نور محمد خان ، جو قلات کے ایک بلوچ سردار تھے۔
-:5 قلات کے سیّد اورنگ شاہ ۔ 
-:6 شیخ باز گل خان ، جو پشتون(ژوب) تھے۔
-:7 وہاب خان پانیزئی جو سبّی کے پشتون تھے۔ اور
-:8 سردار دودا خان مری ۔ جو سبّی کے ایک بلوچ تھے۔ 
جرگے کو احکامات جاری کیے گئے کہ وہ اُن حالات و واقعات کا جائزہ لیں جو بغاوت کی وجہ بنے اور اپنی سفارشات ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو پیش کریں ۔10 نومبر1948 ؁ء کو جرگے نے ملزمان کے بیانات سُنے اور 17 نومبر1948 ؁ء کو اپنی سفارشات ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حوالے کردیئے جن میں پاکستان حکومت کے صوابدید پر لورالائی سے پرنس کی رہائی کے علاوہ کچھ جُرمانے شامل تھے لیکن ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے جرگے کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے 27 نومبر کے آرڈر میں پرنس کو 10 سال قیدِ بامشقّت کی سزا سنائی اور اُن پر 5000 روپے جُرمانہ عائد کیا جبکہ اُن کے پارٹی کے دوسرے ارکان کو مختلف سزائیں اور جرمانے دی گئیں ۔
اس طرح سے پاکستانی حکومت نے ( بلوچوں کے) پہلے قومی جدوجہد(برائے آزادی) کو کُچل دیا۔
تجزیاتی کلمات :
اس تحقیق میں بلوچ نیشنلزم کے مختلف پہلوؤں ریاست قلات کے زوال کے مختلف وجوہات اور قوم پرستوں کے 1947 ؁ء1948-
؁ء میں کیے گئے ایک آزاد وطن کے دفاع کے حصول میں ناکامی پر بحث کی گئی ہے۔
ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ ثقافت اور تاریخ سے بلوچ کاز کو کافی قوّت حاصل ہوتی ہے اور نسلی واقفیت اسے مددفراہم کرتی ہے جبکہ جغرافیہ مثبت اور منفی اثرات کی حامِل ہے ۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ سنگلاخ چٹانوں اور صحرائی خطوں نے تاریخی طور پر اُن کے (بلوچوں کے) آزادی کی حفاظت کی تھی ۔ حملہ آور بلوچ خطّے پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے لیکن دوسری طرف سخت موسمی حالات اور پانی کی عدم دستیابی بلوچوں کو بطور ایک جاگیردار قوم کے اُبھرنے نہ دیا۔اگرچہ قلات کے خانوں ، بلیدیوں اور دودائیوں نے ایک جاگیردار قوم بنانے کی کوششیں کیں لیکن اِس عمل میں اندرونی جھگڑوں اور بیرونی حملوں ( جیسے کہ ڈیرہ جات پر دُرّانی کے حملے ) ، برطانیوں کی مداخلت اور پھر بلوچستان پر برطانیہ کے بلاواسطہ حکمرانی نے مشکلات پیدا کیے ۔ شدید موسم اور پانی کی کمی نے بلوچوں کو مجبور کیے رکھا کہ یا وہ خانہ بدوشی یا نیم خانہ بدوشی کی زندگی گزاریں یا پھر برصغیر ہند، وسطی ایشیاء ، مشرقی افریقہ اور عرب مشرقِ وسطیٰ ہجرت کرجائیں ۔
بلوچستان پر برطانوی قبضے کا عمل 1840 ؁ء کے عشرے سے شروع ہوا اور 1893 ؁ء میں جاکر مکمل ہوا ۔ برطانیہ کیابلوچستان میں دلچسپی فوجی اور جغرافیائی و سیاسی وجوہات کی بنا پر تھی تاکہ وہ مدِّ مقابل توسیع پسندانہ قوتوں روس، فرانس اور جرمنی سے اپنے کالونی (ہندوستان ) کی حفاظت کرسکے اور وہ بلوچستان کو افغانستان اور ایرانی خلیج کے خطوں میں اپنے مفادات کے تحفّظ کے لئے استعمال کرسکے ۔ برطانیہ نے بلوچستان کو متعدد حصّوں میں تقسیم کیا جن میں سے ہر ایک حصّے کو مختلف آئینی اور سیاسی حیثیت دی گئی ۔ ہندوستان کے برعکس اُنہوں نے بلوچستان کے معاشی وسائل کا نوآبادیاتی طریقے سے استحصال نہیں کیا ۔ مثلاً اس کے باوجود کہ بلوچستان کے پاس ایک وسیع و عریض ساحلِ سمندر موجود تھی ۔ اُنہوں نے کبھی بھی بلوچستان کے بندرگاہوں کو برآمداتی سہولیات فراہم نہیں کیے۔ اس کے بجائے اُنہوں نے ایک نیا سماجی و سیاسی نظام ’’ سنڈیمن یا سرداری نظام‘‘ کے نام سے قائم کیا ۔ 1854 ؁ء میں برطانوی دباؤ سے مجبور ہوکر خان قلات نے بلوچستان کی حکومتِ برطانیہ کے ذیلی ریاست کے حیثیت کو تسلیم کر لیا۔1876 ؁ء حکومتِ برطانیہ نے خان کو بے بس کردیا اور ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے دوسرے سرداروں کے ساتھ اختلافات اور اندرونی چپقلشوں میں برطانیہ کو ثالث مان لیں اس نئی پالیسی کی وجہ سے قبائلی صوبوں میں خان کو اپنے جاگیردارانہ اختیارات سے دستبردار ہونا پڑا ساتھ ہی لیز پر دیئے گئے خطوں (Leased land) میں بھی اُن کی گرفت ختم ہو کر رہ گئی 1876 ؁ء کے اس معاہدے نے بلوچ معاشرے میں نئے سیاسی قوتوں کو جنم دیا۔ خان کا زوال اور سرداروں کی طاقت میں اضافہ ہوا ۔سنڈیمن نظام کے تحت قبائلی علاقوں کو مکمل خودمختاری دی گئی ۔سردار کی حیثیت کو ایک جاگیردار امیر کی صورت میں تحلیل کیا گیا اور قبائلیوں کو رعایا قرار دیا گیا۔سرداروں نے برطانیہ کے اختیار کو تسلیم کرلیا ۔ اس نئے نظام کی وجہ سے بلوچوں کے اس جمہوری روایت کا خاتمہ ہوگیا جس کے ذریعے بلوچ ایک منتخب ’’ مجلس‘‘ یا ’’جرگہ‘‘ کے ذریعے اپنے جھگڑے حل کرلیتے تھے۔ اس کے مقابلے میں موروثی سرداروں پر مشتمل ایک نیا جرگہ سسٹم ’’سرداری یا شاہی جرگہ ‘‘ کہ نام سے قائم کیا گیا جسے بلوچ عوام کے جان و مال پر وسیع ترین اختیارات دیئے گئے ۔ نئے نظام کے تحت امن و امان کی ذمّہ داری قبائلی سرداروں کے ذمّے سونپی گئی ۔اس نظام نے برطانیوں کو قوم پرستانہ رُجحانات کو کچلنے میں مدد فراہم کیا۔ حقیقت میں سنڈیمن نظام کے تحت سرداروں کی ان کے اپنے قبیلے کے اندر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا تھا۔اُنہیں ایسے رقومات اورمالی و قانونی اختیارات تفویض کئے گئے جو 1876 ؁ء سے پہلے کبھی بھی اُن کے پاس نہیں تھے۔بس یہاں سے بلوچ عوام اور سرداروں کے درمیان بلوچ معاشرے میں ایک واضح طبقاتی اختلاف کاآغازہوا ۔نئے نظام کے تحت بلوچ معاشرے میں قبائلیوں اور سرداروں کے درمیان تضاد شروع ہوا۔اس صورتحال میں سرداروں سے مقابلہ مشکل ہوگیا، کیونکہ انہیں برطانیہ کی امداد و پشت پناہی حاصل تھی ۔ بلوچ عوام نے ایک سامراج مخالف جدوجہد کا آغاز کیا لیکن ان کوششوں کو سرداروں نے برطانوی تعاون سے شکست دیدی۔ سرداروں اور ان کے سرپرست کے خلاف لڑنے کا واحد طریقہ بلوچ عوام کو ایک ایسی سیاسی جھنڈے تلے منظم کرنا تھا جس کی بنیاد ایک ترقی پسندانہ سوچ رکھنے والی قوم پرست تحریک ہو۔ اس حقیقت کا ادراک قوم پرستوں کو 1929 ؁ء میں ہوا جب انہوں نے اپنے سیاسی پروگرام کا آغاز کیا ۔ وہ جانتے تھے اُنہیں سردار اور برطانیہ دونوں کے خلاف لڑنا ہوگا جو ایک آسان کام ہرگز نہیں تھا۔اپنی اس جدوجہد میں انہوں نے خان سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی (جس کے اختیارات برطانیہ نے سرداروں کے تعاون سے پہلے ہی ختم کردیئے تھے ) یوسف عزیز مگسی نے تعلیمی اصلاحات کے لئے برطانیہ سے بھی امداد حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوششیں برطانیہ اور سرداروں کی مخالفت سے ناکام ہوئیں اور 1939 ؁ء میں اس خوف سے کہ کئی سردار برطانیہ سے اتحاد نہ بنالیں ، خان نے
قوم پرستوں سے اپنے تعاون کو واپس لے لیا۔
قومی تحریک کے ناکامی کی سب سے بڑی وجہ قومی تعمیر کے لئے ایک ترقی پسند سماجی بنیاد کی ناپیدی تھی۔سردار جدید اداروں اور اصلاحات کی مخالفت کرتے تھے ۔ 1929 ؁ء سے لیکر1948 ؁ء تک کوئی صنعتیں ، کالج یا یونیورسٹی قائم نہیں کی گئی تھی اور مملکت محض قبائلی امراء مظلوم خانہ بدوشوں اور کسانوں پر ہی مشتمل تھی ۔قوم پرست رہنما جو اکثر نچلے درمیانے طبقے کا پس منظر رکھتے تھے، سرداروں کے مضبوط گرفت اور برطانیہ کے مخالفت کی وجہ سے بلوچ عوام کو قبائلی علاقوں میں حرکت میں لانے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور سرداروں کو کمزور کرنے کے لئے انہوں نے بلوچستان سے باہر مدد حاصل کرنے کے لئے دیکھنا شروع کردیا ۔ اس سلسلے میں انہوں نے آل انڈیا کانگریس سے اتحاد بھی کرلیا جبکہ مسلم لیگ نے خان اور سرداروں کے ساتھ اپنے اشتراک کی وجہ سے اتحاد سے انکار کردیا ۔1947 ؁ء میں برطانیہ کے اقتدارکے خاتمے کی وجہ سے قوم پرستوں کو بلوچستان کی سیاست میں ایک نئے صورتحال کا سامنا ہوا ۔ سرداروں کو ایک اور آقاکی تلاش تھی جس کے لئے انہوں نے مسلم لیگ سے اتحاد کرلیا ۔ اسکے بدلے میں جناح نے ان کے مفادات کا خیال رکھنے کا وعدہ کرلیا۔ یہ قبائلی امراء خان قلات کے ساتھ اتحاد کرنے سے قاصر رہے جو قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے جدید اداروں کو متعارف کرانا چاہتے تھے۔
1948 ؁ء میں خانِ قلات سرداروں کے خلاف بلوچ قوم پرستوں کی حمایت حاصل کرنے اور بلوچستان کی آزادی کے لئے ایک طاقتور معاون تلاش کرنے میں ناکام ہوئے ۔ اگر ان کا رابطہ سوویت یونین سے ہوجاتا تو ممکن تھا بحیرہ عرب میں سمندری سہولیات فراہم کرنے کے بدلے وہ ایک ڈیل کے ذریعے روسی امداد حاصل کرلیتے ۔1948 ؁ء کے پرنس آغا عبدالکریم کی قیادت میں پہلی بلوچ بغاوت کے رہنما برطانوی سامراج ،پاکستان اور سرداروں کے مابین اتحاد کے چیلنج کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ بلوچ قوم پرستوں کی 1920 ؁ء تا 1948 ؁ء کے دورانیے پر مشتمل بلوچ نیشنلزم کی ناکامی کی وجہ سے سرداری نظام مضبوط ہوا اور جدید سماجی بنیادیں استوار نہیں کی جاسکیں اور آخر میں جاکر خان کے آزادی کے لئے ایک مضبوط حامی حاصل کرنے میں ناکامی کا بھی سبب بنا جو کہ انہیں سرمایہ دارانہ نظام کے اُس مرحلے سے بچ نکلنے میں مدد فراہم کر تا اور قبائلی معاشرے کو ایک جدید قومی ریاست
میں ڈھال دیتا۔

تاہم بلوچ نیشنلزم کے اثرات بلوچستان پر پڑے اور اِس سے آگاہی اور سیاسی شعور میں اضافہ ہوا۔ اس کے اثرات آج کے بلوچ سیاست میں نظر آتے ہیں

суббота, 29 февраля 2020 г.

بابا مری ایک انقلابی صوفی – کریمہ بلوچ

بابا مری ایک انقلابی صوفی – کریمہ بلوچ
     
چند سال پہلے جب میری ملاقات بابا مری کے ساتھ نہیں ہوئی تھی میں نے انکے جلاوطنی کے زمانے کے ایک دوست سے انکے متعلق پوچھا کہ بابا کیسے مزاج کے انسان ہیں؟ انہوں نے جواب میں صرف اتنا کہا کہ آپ نے کبھی گوتم بدھ کے بارے میں سنا ہے؟ بس انہیں دیکھ کر گوتم بدھ کا گمان ہوتا ہے، جلاوطنی میں جب ہم ساتھ تھے تو وہ خود بیلچہ لے کر اپنے رہائش گاہ کی چھت پر جمی برف ہٹاتے تھے. وہ غرور سے نا واقف انسان ہیں۔
جب پہلی با ر میری ملاقات بابا سے ہوئی تو انکی بچوں جیسی معصوم مسکراہٹ دیکھ اور دھیمہ لہجہ سنکر مجھے انکے دوست کی وہ بات یاد آگئی ۔ اس دن کے بعد سے ہماری دوستی شروع ہوگئی، ہاں دوستی، کیونکہ وہ غرور و تکبر سے پاک انسان تھے ، ان میں دکھاوے اور سرداری شان کی رمق بھی نہیں تھی۔ وہ مجھ سے ایسے ملے جیسے میں انہی کے گھر پیدا ہوئی انکی سگی بیٹی ہوں۔ اور ہاں، بابا میں ایک اور بات یہ بھی تھی کہ وہ کسی کو دیکھتے تو چند لمحوں کی ملاقات میں ہی سمجھ لیتے کہ سامنے والا انسان کیسی ذہنیت کا مالک ہے۔اور اس کے سامنے ہی یہ بات کہہ بھی دیتے۔بابا، ایک ایسے انسان تھے جو ایک طرف سے محبت کے جذبات سے سیراب ہو اور ساتھ ہی ساتھ ایک بہت بڑا جنگجو بھی ہو۔ بابا ، جو جنگ کی تیاری میں بھی مصروف رہتے اور اتنی ہی شدت سے انسان سے محبت بھی کرتے ،وہ نواب بھی تھے درویش و ملنگ بھی ، بہت بڑی طاقت کا مالک انسان پھر بھی نہایت معصوم اور نرم گو۔بابا ، جو سخت سے سخت بات بھی انتہاء درجے کے نرم لہجے میں کرتے تھے.

بابا انسان دوست تھے، وہ انسانی برابری کے علمبردار بھی تھے اور اس برابری کے دشمنوں سے انتہائی نفرت بھی کرتے تھے

حقیقتاً بابا ایک انقلابی صوفی تھے۔ بابا میری نظر میں اس عہد کا سب سے بڑا انسان ہے، بے بہا آدرشوں کا تخلیق کار انسان اپنی عہد اور اس کے شرائط پہ فتح رکھنا والا انسان ، یہ سچ ہے کہ وقت اور حالات انسانوں کو تخلیق کرتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بابا وہ انسان ہے جس نے خود کو تخلیق کیا ، خود کو تلاش کیا اور پورے انسانی سماج کو راہ دکھانے کی جدوجہد میں کامیاب ہوا۔

بابا جہد مسلسل کا دوسرا نام ہے، مسلسل سفر کرنے والی ایک ایسی علامت جو بلوچ تاریخ میں نہیں ملتی۔ جو نا کبھی جھکے، نا رُکے ، نا ٹوٹے اور نا کبھی منزل سے پہلے ڈیرے ڈالے ۔ ایسی مستقل مزاجی تو سخت پہاڑوں میں بھی نہیں ہوتی، موسموں کے نشیب و فراز اور وقت کی ظالم رفتار تو ان سنگلاخ پہاڑوں کو رگڑ رگڑ کی فضاوں میں ریت کی صورت میں بکھیر دیتی ہے، مگر بابا کو تو زندگی، غلامی، اور برے سے برے حالات کے نشیب و فراز کے آ ہنی ہاتھ بھی نہ ہلا سکے ۔

بابا کی کٹھن اور تکلیف دہ زندگی کے انگنت راز ایسے بھی ہیں جو کبھی عیاں ہوئے ہی نہیں کیونکہ انکی عظمت ایسی ہے کہ انہوں نے کبھی جتایا ہی نہیں، کبھی کوئی گلہ کیا ہی نہیں ، کبھی اپنے ماتھے پر شکن تک آنے نہیں دی ۔ عظمت کی بلند روح انکی شخصیت میں پوشیدہ تھی ۔ خاموشی سے سب سہہ لیا اور خاموشی سے چلے بھی گئے ۔

انگریز لاٹ کی بگھی کھینچنے سے انکاری عَلم بغاوت بلند کرنے والے خیر بخش اول کے فکر کا اکلوتا وارث بابا خیر بخش مری ہی تھے ، اب یہ وراثت کب، کہاں اور کتنے نسلوں بعد اس گلزمین کو نصیب ہو کون جانے ؟، کیوں کہ بابا مری روز روز پیدا نہیں ہوا کرتے ، صدیوں کی مسافت درکار ہوتی ہے۔

29فروری1928کو مہراللہ مری کے گھر میں جنم لینے والا یہ مضبوط آدرشوں کا مالک انسان بچپن ہی میں اپنے والد اور والدہ کے سائے سے محروم ہوگیا ۔ میں نے ایک دفعہ جب سوال کیا کہ بابا آپ کے کتنے بھائی بہن ہیں تو وہ دھیمی آواز میں بولتے رہے میرے سارے بہن بھائی بچپن میں پیدا ہوتے ہی فوت ہوگئے تھے ، میری پیدائش کے چند مہینوں میں والدہ کا انتقال ہوگیا تھا اور جب میں چھ سال کا ہی تھا تو میرے والد کا بھی انتقال ہوگیا تھا اپنے سارے بہن بھائیوں میں صرف میں ہی زندہ رہ سکا، چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ مسکراتے ہوئے اپنے متعلق بولے۔

1933 میں جب بابا 6سال کے تھے تو انکے والد کا انتقال ہوگیا، اس وقت وہ بہت چھوٹے تھے اس لئے عارضی طور پر انکی جگہ انکے چچا دودا خان مری کو قبیلے کے سرداری کے فرائض سونپے گئے ، بابا مری کی ابتدائی تعلیم انکے اپنے آبائی علاقے کوہلو میں ہوئی اسکے بعد وہ لاہور ایچی سن کالج پڑھنے گئے وہاں سے تعلیم مکمل کر کے 1950میں کوہلو واپس آئے اور باعدہ طور پر قبیلے کے سردار ی کے فرائض سنبھالے ۔

ایوب کے دور حکومت میں مارکسسٹ نظریہ رکھنے والے بابا مری نے جب سیاست میں قدم رکھا تو پہلی بار انہوں نے سوشلزم کا نعرہ دیا ، ایوب خان بابا مری کی فکر سے خائف تھے۔ انہوں نے 1964 انکی سرداری ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے انکے جگہ انکے چچا دودا خان مری کو سردار مقرر کرنے کا اعلان کیا تو مری قبیلے نے دودا خان کو اپنا سردار تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انکا سردارصرف خیر بخش مری ہی ہیں، جس کے نتیجے میں مری قبائل نے دودا خان کو قتل کردیا اور طویل عرصے تک بابا مری کی ایوبی آمریت سے مخاصمت جاری رہی 1968 میں جب ایوب خان نے تمام سرداروں سے صلح کرنے کا اعلان کیا تو باقنے صلح کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں حکومت کی تمام کو چھوڑ کر بابا مری ا ساتھی نہیں بن سکتا۔
بابا مری اپنے ابتدائی سیاسی ادوار میں پارلیمانی سیاست سے مکمل دلبرداشتہ نہیں تھے، آپ پہلی بار 1962 میں ایم این اے بنے، دوسری بار 1970 کے انتخابات میں حصہ لیا پھر جیت کر ایم این اے بنے اس دوران ذولفقار علی بھٹو نے آپ کو بلوچستان کی گورنر شپ کی بھی پیشکش کی ،مگر بابا نے گورنر شپ قبول نہ کیا ، آپ نے 1973 کے آئین پر بھی دستخط کرنے سے انکار کردیا حالانکہ نیپ کی باقی قیادت اسے قبول کرچکی تھی۔

بھٹو نے جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کی توبابا مری، عطااللہ مینگل ، غوث بخش بزنجو اور ولی خان کو گرفتار کر کے ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جو حیدر آباد ٹریبونل کے نام سے مشہور ہے،اس کیس میں وہ غدار بھی قرار دیئے گئے تھے اور سزائے موت کا بھی امکان تھا مگر اس دوران بھٹو کی حکومت ختم کرکے جب ضیاالحق نے مارشل لاء لگائی تو انہوں نے بلوچوں کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے حیدر آباد ٹریبیونل ختم کرکے بابا مری سمیت نیپ کی باقی قیادت کو رہا کردیا ۔

رہائی کے بعد بابا علاج کے غرض سے لندن بھی گئے اور فرانس بھی ، بعد میں آپ وہاں سے افغانستان چلے گئے جہاں پر مری قبیلہ پہلے سے ہزار خان مری اور شیر محمد مری کی سربراہی میں موجود تھا ۔ بابا مری نے ہلمند میں اس وقت بلوچوں کو منظم کیا ۔ یہ وہ دور تھا جب افغانستان میں نور محمد ترکئی کی قیادت میں ثور انقلاب برپا ہوچکی تھی اور وہاں حفیظ اللہ امین ، ببرک کارمل اور نجیب جیسے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کی حکومت تھی۔

افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد باباِ اور بلوچ قوم کو ادراک ہوگیا تھا کہ طالبان کی جڑیں کہاں پیوست ہیں اور وہ بلوچوں کے خلاف کیا کر سکتے ہیں تو یہ انکی قائدانہ صلاحیت ہی تھیں کہ انہوں نے بر وقت فیصلہ لے کر وہاں سے نکلنے اور وطن واپس آنے کا فیصلہ کرلیا۔

1992کو جب وہ بلوچستان واپس آئے تو کوئٹہ ائرپورٹ پر بلوچ عوام نے انکا تاریخی استقبال کیا کہتے ہیں کے اس موقعے پر بابا نے طنزکرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے لگا تھا کہ میں جنگ چھوڑ کر آ رہا ہوں تو لوگ میرا استقبال ٹماٹروں سے کریں گے مگر یہاں لوگ مجھ پر پھول برسا رہے ہیں، اور افسوس کا اظہار بھی کیا کہ ہماری ذہنیت ابھی تک لیڈر شپ اور شخصیت پرستی سے آگے نا جا سکی ۔

حقیقت یہ ہے کہ بابا جنگ چھوڑ کر نہیں آئے تھے ، بلکہ اس جنگ کو جیتنے کے لئے بر وقت اور صحیح فیصلہ کر کے آئے تھے، جنگ کی تیاری اور بھی منظم طریقے سے کرنے کی حکمت عملی کے ساتھ آئے تھے ، یہ تو انکی شان اور بے نیازی تھی، ان کو کبھی اپنی تعریف آپ نہ کرنی پڑتی، وہ بزور دست بنایا گیا لیڈر نہ تھا بلکہ ان صلاحیتوں کا بذات خود مالک تھا۔ 1992 میں بلوچستان آنے کے بعدوہ کوئٹہ میں گوشہ نشین ہوگئے اور حق توار سرکلز کا آغاز کر دیا۔ بابا کے انہی تعلیمی سرکلز کے کوکھ سے سگار جیسے ہزاروں ایسے فرزندانِ وطن پیدا ہوئے ، جن کا آج تک کوئی نعم البدل پیدا نا ہوسکا۔

آئی ایس آئی کو بابا مری گوراہ نا تھے جب مشرف کا دور حکومت آیا تو جسٹس نواز مری کو قتل کرکے آئی ایس آئی نے بابا مری کو اس کیس میں ملوث کر کے راستے سے ہٹانے کی کوششیں کی ،بابامری کو گرفتار کر کے 18ماہ تک پابند سلاسل رکھا ، رہائی کے بعد وہ کراچی چلے گئے جہاں جاوید مینگل کے رہائشگاہ میں اپنی باقی کی زندگی گزاری ۔

بلوچ تاریخ نام خیر بخش کو کبھی فراموش نہیں کر پائے گی، اس نام کے دو ایسے شخصیات ہیں کے جنہوں نے بلوچ تاریخ کو سیاہ ہونے نہیں دیا، بابا بلوچ خیربخش دویم اور دوسرے بابا بلوچ خیر بخش مری کے دادا خیر بخش مری اول۔

خیر بخش مری اول جب مری قبیلے کے سردار تھے تو اس وقت انگریزوں نے زبردستی دوسرے قبائل کے لوگوں کو فوج میں بھرتی کی تو مری قبیلے نے خیر بخش اول کی سربراہی میں فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کر کے بغاوت کردی تھی۔ انکی قیادت میں مری قبیلے نے انگریزوں کے خلاف تاریخی مزاحمت کی ، جس میں سبز گنبد جیسے تاریخی معرکے بھی شامل ہیں، اس جنگ میں انگریزوں نے ہر مری کی سر کی قیمت دس روپے رکھا تھا.

انگریز استعمار اپنی پوری قوت استعمال کرنے کے بعد بھی انہیں زیر کرنے میں ناکام ہوا اور بالآخر خیر بخش اول کے مطالبات مان کر صلح کے میز پر آگیا ۔یہ صلح 1903میں ہوئی تھی جس کے بعدپہلی با ران کو نواب کا خطاب دیا گیا ۔

معاہدہ امن کے بعد انگریز لاٹ نے ایک دفعہ تمام بلوچ سرداروں کو ایک میٹنگ کے غرض سے اور اپنا مطیع بنانے کیلئے سبی میں جمع کیا ، اجلاس کے بعد انگریز لاٹ نے تمام سرداروں کو حکم دیا کہ وہ اسکی بگھی (جس میں انگریز لاٹ کی اہلیہ بھی بیٹھی ہوئی تھی)کو تمام سردار کھینچ کر ریلوے اسٹیشن تک لے جائیں اور بصورت دیگر وہ انگریز سرکار کی دشمنی قبول کریں ،تو باقی تمام قبائل کے سرداروں نے یہ بگھی کھینچ کر اپنے نام تا ابد رسوائی رقم کردی، لیکن اس دوران خیر بخش اول نے اپنی تلوار میان سے نکال کر کہا ہم جنگجوہیں بگھی کھینچنے والے نہیں۔

ایک بابا خیر بخش دویم جو جدید بلوچ سیاسی تحریک کا خالق جو زندگی بھر ایک بات پر اٹل رہے کہ یہ جنگ ہماری آزادی کی جنگ ہے جس کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں، نہ کبھی کسی انٹرنیشل کمپنی سے کوئی ڈیل کی، نا تحریک کے نام بلوچستان کے وسائل کاسودہ کیا نا کسی سامراجی قوت سے تحریک کی کمک کے نام پر سودے بازی کی۔

سلیگ ہیریسن بابا مری کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان سے زیادہ شائستہ، وجیہہ اور دانشور شخص میں نے بلوچوں میں نہیں دیکھا ۔اپنے سیاسی نظریات کے آگے وہ اپنے نوابانہ عظمت کو ہمیشہ قربان کرتے آئے ان کے سیاسی نظریات کی وجہ سے ان کا طاقتور مری قبیلہ گزینی و بجارانی میں تقسیم تو ہوگئی مگر بابا نے کبھی قومی سیاسی اصولوں پر سمجھوتہ نا کیا ۔ انہوں نے اپنی نوابی کو پس پشت ڈال کر سیاسی نظریہ کواولیت دی۔بابا جیسے انسان صدیوں میں اس دھرتی پر پیدا ہوتے ہیں اور جب آتے ہیں تو کبھی مرتے نہیں۔ بابا مری مرہی نہیں سکتے کیوں جسم مرا کرتے ہیں نظریہ اور افکار نہیں، کوئی بھی موت روح کو مار نہیں سکتی، بابا محض ایک جسم نا تھے۔

пятница, 28 февраля 2020 г.

کیا میں اپنے پاگ ( پگڑٰی )کی وجہ سے بلوچ ہوں؟ میر محمد علی تالپور .


“یوم مزاحمت یا ثقافتی دن”
میں ایک سوال کھڑا کر رہا ہوں اور پھر اس کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ میرے جواب میں کسی ایسی چیز پر اپنے خیالات کا اظہار کروں گا جو حال ہی میں سیاسی ، ثقافتی ، معاشرتی یا معاشی طور پر صفر کی واپسی کے ساتھ ایک فیشن اور فیشن بن گیا ہے۔
کیا پاگ ، سدری اور چاوٹ )( جوتے )یا پشک قمیض اور سری کسی شخص یا اس کے بلوچیات کی تعریف کرتے ہیں یا یہ اس شخص کا کردار اور کام ہے جو واقعی اس کی بلوچیات اور بلوچستان سے محبت کی تعریف کرتا ہے؟
ہر 2 مارچ کو ’’ یوم بلوچ کلچر ڈے ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے اور بہت سارے بلوچوں نے روایتی پاگ ، سادریش ، پشک اور بلوچ ملبوسات کے ٹکڑوں کی مدد سے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ بلوچ ہیں۔ اور انہیں یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ بلوچ ہیں اور اس پر فخر ہے۔ مجھ سے پرے ہے لباس حتمی علامت کیوں بننا چاہئے اور کسی قوم کی شناخت کا اندازہ میرے لئے واقعی حیران کن ہے۔ کیونکہ صرف وہی ممالک اور مصنوعی طور پر من گھڑت اقوام جن کی کوئی تاریخ نہیں ہے اور ثقافتی طور پر دیوالیہ ہیں انہیں علامت سمجھنے اور مسلط کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ علامتیت احساس کمتری کا موروثی احساس بھی ظاہر کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں انہیں اہم اور ضروری ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ شیروانی (اوور کوٹ) اور ٹوپی کا پاکستانی جنون اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔
شناخت اور ثقافت کو لباس کے ٹکڑوں میں کیوں گھٹایا جانا چاہئے جب بلوچ جیسے قوم میں اتنی تاریخ اور میراث ہے کہ اس پر فخر اور احترام کیا جائے؟ ‘ثقافت کے دن’ یا تو بلوچوں یا سندھیوں کے معاملے کے لئے ، یہ بنیادی طور پر فرار کی حیثیت رکھتے ہیں اور کسی قوم کا حصہ بننے کی حقیقی ذمہ داریوں سے بچتے ہوئے اطمینان کا غلط احساس پیش کرتے ہیں جو یقینی طور پر قربانی ، صبر اور آخری کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن کم از کم نہیں۔ اگر آپ واقعتاً اسے دل سے پیار کرتے ہیں تو اپنی قوم کے مفادات کی صحیح معنوں میں مدد کرنے کے قابل حکمت ہے۔ ’ثقافت کے دن‘ آپ کو ناچنے ، گھماؤ پھراؤ ، قہقہے لگانے ، اپنے نئے کپڑے اور اپنی قوم کے لئے جوش و خروش اور آسانی سے گھر میں آرام سے آپ کی قوم کے لئے اگلی مارچ 2 تک اپنی خدمات انجام دینے کا آسان آپشن مہیا کرتے ہیں۔
آج بلوچ قوم کو اپنی شناخت ، حقوق ، ثقافت ، زندگی اور اس کی تاریخ کو درپیش مشکل چیلنجز اور خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ ان ہزاروں سالوں میں پہلے کبھی نہیں تھا جس کی انہوں نے جدوجہد کی ہے اور وہ زندہ ہیں۔ ان کی ہر چیز کو جس سے وہ عزیز رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ پہچانتے ہیں اس سے بھی زیادہ خطرہ ہے اس لئے ان کی زمین اور اس کے ساتھ نہ صرف ان کی طرز زندگی بلکہ ان کی زندگی بھی۔ میگا پروجیکٹس کے نام پر ان کے وسائل سنبھالے جارہے ہیں ، ان میگا پروجیکٹس کی حفاظت اور ان کو بچانے کے لئے فوجی اور بحری اڈے لگائے جارہے ہیں۔ انہیں مذہب کے نام پر سیاسی ، معاشرتی اور معاشی طور پر حق رائے دہی سے محروم اور بے دخل کیا جارہا ہے جو انہیں پاکستانی ہونے کو قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے کیونکہ وہ بنیادی طور پر مسلمان ہیں اور صرف اتفاقی طور پر بلوچ ہیں۔
ایک بااختیار ، جان بوجھ کر ، پیمانہ اور تدریجی عمل 27 مارچ 1948 کے بعد سے ہی اپنے مادر وطن بلوچستان میں بلوچوں کو بے اختیار اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے منظم انداز میں متحرک ہے۔ یہ دو طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ ایک آبادیاتی تبدیلیوں کے ذریعہ اور دوسرا جاری سست جلتی نسل کشی کی وجہ سے جو کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ تو ، کیا “یوم ثقافت” کے منتظمین اور شرکا یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خوشی اور دلبرداشتہ دن کے ساتھ ان خطرات سے بچ سکتے ہیں؟ اس دن سے ان خطرات سے فرق نہیں پڑتا ہے جو ہمارے وجود کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
خوشی اور مسرت جو قدرتی طور پر ان نام نہاد ثقافت کے دنوں کے ساتھ ہوتی ہے اس سے صورتحال کی حقیقت کو دھندلا جاتا ہے۔ ضرورت ہے کہ میں اس بات کو دہراؤں کہ سیاسی کتابیں اور سیاسی ادب کے کتاب میلوں کو ریاست نے روک لیا ہے جبکہ ان ثقافتی ایام کو فروغ اور ترغیب دی جاتی ہے۔ کیوں ؟کیونکہ یہ غلامی اور تسلط کی لعنت سے لوگوں کو غافل کرکے ریاست کی مدد کرتے ہیں جو بلوچوں کے لئے روز مرہ کی حقیقت ہے۔ کلچر ڈے ، جس طرح یہاں منایا جاتا ہے ، یہ ریاست کا ایک اور ذریعہ ہے تاکہ لوگوں کی ثقافت پر اس کی آہنی گرفت مضبوط ہو اور جس طرح یہ اپنے مقصد کے مطابق ہو اور اسے اپنی ثقافت کے اصل جوہر سے بھی گمراہ کرے۔ لوگوں کو دستاویزی مضمون بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی تاریخ اور ثقافت سے انکار کیا جائے۔ تاریخ اور ثقافت لازم و ملزوم ہیں لیکن یہ ’کلچر ایام‘ شعوری طور پر تاریخ کو نظر انداز کرتے ہیں اور اسی وجہ سے لوگوں کو اپنی جدوجہد اور مزاحمت کی تاریخ سے لاعلم رکھتے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم کس رخ پر ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو ہمیں فراموشی میں دھکیلنا چاہتے ہیں یا ہم وہ لوگ ہیں جو ہمارے مستقبل کے لئے لڑتے ہیں ، گیند ہماری عدالت میں ہے۔
‘کلچر ڈے’ کے موقع پر ایک بلوچ کی طرح دیکھنا پیسوں کے معاملے میں مہنگا پڑ سکتا ہے لیکن تاریخ اور تاریخی ذمہ داری کے مطابق طرز عمل کے مطابق ایک بلوچ ہونے کی قیمت اس قیمت پر آتی ہے جو شاید ہم میں سے بہت سے ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اسی وجہ سے ان شرم سے کلچر کے دن طے کرتے ہیں . اگر یوم ثقافت اس طرح سے منایا جاتا جس طرح اب یہ ریاست کے مقصد کو پورا نہیں کیا جاتا تو وہ اس پر روک لگاتے کیونکہ آپ کے کتاب میلوں کو روک دیتے ہیں۔ ’’ یوم حق ،حقوق بلوچ ‘‘ منانے کی کوشش کریں اور دیکھیں کہ کیا آپ کو یونیورسٹیوں اور پریس کلبوں میں پروگرام منعقد کرنے کی اجازت ہے؟ بلوچوں کا کوئی بھی عمل جو ریاستی ظلم و ستم کے خلاف بغاوت اور مزاحمت کا نشانہ بناتا ہے ، اس طرح کے پروگرام کو اپنانے کی ہمت کرنے والوں کی ریاست کی مضبوطی سے باز آٹ ہوگی۔
ایک ایسا دن جس کا مقابلہ مزاحمت اور قوم کی جدوجہد سے نہیں ہے اور جبر کے خلاف جنگ میں اس کی مدد نہیں کرتا ہے ایک ایسا درس ہے ، جس کا مقصد عوام کے ذہنوں کو حقیقی خطرات سے ہٹانے کے لئے غیر متزلزل ، غیر متعلقہ اور قابل تحسین چیزوں کی طرف مبذول کرنا ہے۔
اگر منایا جانے والا دن اپنے حقوق اور وقار کی زندگی کے لئے بلوچ جدوجہد کا اٹوٹ حصہ نہیں بنتا ہے تو ، وہ اس کے لئے جدوجہد کرتے رہیں گے اور جو کچھ ہے وہ رہے گا۔ لوگوں کو یہ باور کرنے کے لئے کہ یہ ان کی زندگی پر ایک حق ہے اور یہ مفت لوگوں میں شمار کرتے ہیں ، کو محض ایک اور چال چل رہی ہے۔
میرے خیال میں جس طرح سے ثقافت کا دن منایا جارہا ہے یہ ایک ریاست کی سرپرستی میں رہے گا ، ٹیلی الیکڑونکس نے اس چیریز کو ترقی دی جس کا مقصد 27 مارچ 1948 سے جاری ثقافتی ، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی ظلم و جبر کو مستحکم اور طول دینا ہے۔ فیصلہ یہ ہے بالآخر اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی آپ کو بلوچ پہنے ہوئے ہو یا کوئی ایسا شخص جو بلوچ کی پرواہ کرے اور اپنی قوم کے حقوق کے لئے جدوجہد کرے۔
اگر کوئی دن منایا جائے تو ایک ‘یوم مزاحمت’ منایا جائے جو نواب نوروز خان ، نواب خیر بخش مری ، شیر محمد مری ، میر لاؤنگ خان ، کی پسند کی جدوجہد ، قربانیوں ، بہادریوں اور ثابت قدمی کی یاد کو اعزاز اور روشنی ڈالتا ہے ، صفر خان زرکزئی ، شفیع بنگلزئی ، علی شیر کرد ، بالاچ مری ، صبا دشتیاری ، رضا جہانگیر ، ڈاکٹر منان ، نواب اکبر بگٹی ، مجید لانگوں اور کنبہ ، حمید بلوچ ، جلیل ریکی ، ثنا سنگت ، کامریڈ قمبر ، محراب خان (1839) ، عطا شاد ، گل خان نصیر ، اور دیگر افراد جنہوں نے اپنے آپ کو قربانی دی یا بلوچ حقوق کے لئے اپنی زندگی صرف کی۔ اس دن کا مشاہدہ کریں جس میں ذاکر مجید ، علی خان مری ، کبیر بلوچ ، زاہد بلوچ ، ڈاکٹر دین محمد ، محمد رمضان جیسے ہزاروں افراد کی تعظیم کی جائے جو گوانتانامو اور ابوغریب جیل سے بھی بدتر مراکز میں پاکستان کی تحویل میں ہیں۔
ہماری ثقافت وہ ہے جو ہم ہیں۔ یہ ہمارے اعمال کی عکاس ہے کیونکہ ثقافت کوئی خارجی چیز نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہم سے آزاد ہے۔ ہم کس چیز کے لئے کھڑے ہیں ، ہم کس چیز کی مخالفت اور مزاحمت کرتے ہیں ، جس پر ہم یقین رکھتے ہیں اور اپنی روزمرہ کی زندگی میں خود کو کس طرح برتاؤ کرتے ہیں وہ نہ صرف ہماری بلکہ ہماری ثقافت کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔ ہمیں اپنی ثقافت کے علاوہ انصاف نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ہمارے علاوہ ہمارے کلچر کا انصاف کیا جاسکتا ہے۔ ہم کیا کرتے ہیں اور ہم کس طرح رہتے ہیں وہ ہماری ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے اور اگر ہم اپنی ثقافت کے جوہر کے مطابق نہیں جیتے تو ہم اپنے قوم کے وفادار اور حقیقی نمائندے نہیں بن سکتے۔
ہم اپنے ثقافت کی نمائندگی اپنے عمل سے کرتے ہیں نہ کہ اپنے الفاظ اور خالی چالوں سے۔ بلوچ بننے کے لئے آپ کو ان اقدار کے مطابق زندگی بسر کرنا ہوگی جو آپ کو ایک بلوچ بناتے ہیں۔ ہماری اقدار اور جس کے لئے ہم کھڑے ہیں وہ ہمیں بلوچ بنا دیتا ہے اگر کپڑے ، پاگ اور داڑھیوں نے ہمیں بلوچ بنا دیا تو سواری آسان ہوتی اور اب ہمیں اپنے حقوق مل جاتے۔ یہ آپ کا ایک ایسا طرز عمل ہے جس سے دشمن خوفزدہ ہوتا ہے اور وہ ہمیں ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ ادب کے میلے میں آنے سے ہمیں دانشور نہیں بنتا ہے جس طرح ثقافت کے دنوں میں شرکت کرنا ہمیں مفید بلوچ نہیں بناتا ہے۔

لہذا ، اس بارے میں گہری سوچ اور فکر کے ساتھ اپنی پسند کا انتخاب کریں کہ آپ تاریخ کے ذریعہ کس طرح سوچنا چاہتے ہیں خصوصا بلوچ تاریخ کے لئے اگر ہم اپنی توانائیاں ، وقت اور پیسہ ان چیزوں سے دور رہتے ہیں جو دن کے آخر میں جانوں پر کوئی نشان نہیں چھوڑتے ہیں۔ اور ہم جس قوم سے تعلق رکھتے ہیں اس کا مستقبل اس کے حصے کی حیثیت سے منانا چاہتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ مانا ہے کہ تمام پیدائشی انسانیت پر قرض کا مقروض ہے اور اس قرض کا ازالہ آپ انسانیت کے لئے کیا کرتے ہیں اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ایک بلوچ پیدا ہونے سے آپ پر بلوچ قوم کا قرض واجب الادا ہے اور یہ آپ کا فرض ہے کہ اس کی تلافی کریں۔ . اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس قرض کو اس طرح سے چھٹکارا دے رہے ہیں جس طرح سے ان ثقافت کے دن منائے جارہے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہی شاید ہی کوئی امید ہے کہ بہت ہی قریب مستقبل میں بلوچ قوم شمالی امریکہ کے ہندوستانیوں کو پسند کرے گی۔
میں ایک سوال کے ساتھ ایک بار پھر رخصت لیتا ہوں جس کا جواب ہم سب کو اپنے ضمیر کے ساتھ دینا چاہئے۔ کیا ہم مقامی امریکیوں کی طرح مختلف کوریڈورزCorridorے تحفظات پر بات کرنا چاہتے ہیں جو قدرتی طور پر سی پی ای سیCPECکی پیروی کرتے ہوئے پیگز ، سدرس ، جوتے ، ساریس ، قمیضوں کی پیروی کریں گے کیونکہ امریکہ کے ہندوستانی ٹیپیز ، ہیڈ ڈریسس ، موکاسین وغیرہ کا کوئی حق نہیں رکھتے ہیں۔ ہمارے لئے اور ہمارا ہونا چاہئے؟