Powered By Blogger

четверг, 21 февраля 2019 г.

برزکوہی کے کالم “توتک واقعہ اور ماں” کے تناظر میں ـ خالد شریف بلوچ 

دنیا کی سب سے عظیم اور اہم رشتہ ماں کا ہے، مجھے فخر ہے کہ میں ایک بلوچ ماں کا بیٹا ہوں اور اس ماں کے پیار نے ہمیں مادر وطن سے پیار کرنا سھکایا ہے، بلوچ مائیں ایک ظالم دشتگرد سامراج سے چھٹکارہ پانے اور آزاد ہونے کیلئے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بھی قربان کررہے ہیں، ہمیں ان ماؤں نے سکھایا ہے کہ احساس غلامی کیا ہے اور احساس انسانیت کیا ہوتا ہےـ
جو لوگ غلام ہوتے ہیں، اصل میں وہی لوگ انسانیت کی قدر کرنا جانتے ہیں ـ غلامی نے ہمیں بہت کچھ سکھایا اور بلوچستان کی آزادی کی جنگ میں سال کے بارہ مہینوں میں سے فروری کا مہینہ ہر سال بارشوں و سرد ہواؤں میں بلوچ قوم، بلوچ راج، اور بلوچ وطن پر قربان ہونے والے بہادر بلوچ نوجوانوں کی شہادتیں بہت کچھ یاد دلاتے ہیں اور حوصلہ و ہمت دیتے ہیں۔ شہید نعیم جان ہو یا شہید یحیٰ جان، شہید حق نواز، شہید دل جان ہو یا شہید نورلحق جان کی یادیں ہو سب فروری کی دین ہیں ـ
اس سال بھی ہر سال کی طرح فروری میں بارش ہورہا ہے اور میں 20 فروری کے دن تنظیم کے کسی کام سے نیٹورک میں گیا، ہلکی ہلکی بارش اور سرد ہواؤں سے لڑتے لڑتے جب میں نیٹورک پر پہنچا اور فون کھول کر دیکھا تو دی بلوچستان پوسٹ پر برزکوہی کا ایک آرٹیکل آیا تھا( واقعہ توتک اور ماں) اُس آرٹیکل کو پڑھتے پڑھتے میں ایک گہری سوچ میں گُم ہو گیا، کئی گھنٹوں بعد مجھے پتا چلا کہ میں ایک کام سے آیا ہوں وہ گہری سوچ کچھ یوں تھاـ
جو کچھ برزکوہی نے اپنے آرٹیکل میں بیان کیا تھا، ٹھیک اُسی طرح کی بارش اور سرد ہوائیں چل رہی تھیں، جب میں نیٹورک پر بیٹھ کر آرٹیکل کو پڑھ رہا تھا تو ایک پل کیلئے مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ میں ہی تھا، اُس آپریشن میں جس کا ذکر برزکوہی کر رہے تھے کیونکہ مجھے اُس ماں کی درد شدت سے محسوس ہورہی تھی، بہت خوش نصیب ہونگے وہ لوگ جن کی ایسی مائیں ہوتی ہیں ـ
کیسے ہونگے وہ لمحے، جب اُس وقت قبضہ گیر سامراج پاکستان کی آرمی اور ایف سی کی بربریت ایک طرف، سردی کے موسم میں بارش اور سرد ہوائیں دوسری طرف سے قہر ڈھا رہے ہونگے۔ ایک ماں پر اس وقت کیا گذر رہا ہوگا، جب وہ صبح سویرے فائرنگ کی آوازیں سن رہا ہوگا اور اُس ماں کو پتہ ہو کہ اُس کا پورا خاندان قبضہ گیر پاکستان کی گھیرے میں ہے، گولیاں ایسے برس رہے ہونگے، جیسے کہ بارش کی بوندیں ہوں، کیسے ہونگے وہ لمحے جب اس ماں کی دو بیٹے دشمن کے خلاف جنگ کر رہے ہونگے، اپنے فکری و نظریاتی دوست اور اپنے بھائیوں کو ظالم کے گھیرے سے نکالنے کیلئے ـ
میں اُس دن کی سوچوں میں گم تھا، مجھے پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ میں نیٹورک پر بیٹھ کر بارش میں بھیگ رہا ہوں، مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ میں خود پتہ نہیں آج بھی توتک کے آپریشن میں ہوں اور میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں، محسوس کررہا ہوں، ذہن میں پتہ نہیں کیوں یہ سوچ بار بار آرہی تھی کہ میں صبح سویرے جب اٹھ کر اپنے معمول کی مطابق ہاتھ منہ دھونے لگا کہ ایسے میں فائرنگ کی آواز شروع ہوئی اور میں دوڑ کر وتاخ گیا، جب وتاخ پہنچا تو مہمانوں کو آواز دی، “سنگت ہمیں دشمن فوج نے گھیر لیا ہے، چلو نکلو” جب ہم باہر نکلے شہر کے گلیوں میں ہر کوئی اپنے گھر کے باہر پریشان کھڑا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ قیامت کی گھڑی ہو، اُس وقت فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کہ کیا کرنا ہےـ
اس دوران سنگت ہمیں ہمت، حوصلے اور بہادری کا درس دے رہے تھا کہ مرینگے، دشمن کو خوب مارینگے مگر زندہ دشمن کے ہاتھ میں ہرگز نہیں جائینگے۔
اسی اثناء شہید نعیم جان کی ماں اپنے جوان بیٹے نعیم جان کی طرف جارہی تھی، وہ ہمیں دیکھ کر روک گئی اور کہا “میرے بیٹے اپنے مہمان کو کبھی اکیلا مت چھوڑنا اور انکا بہت زیادہ خیال رکھنا” پھر ہمیں ایک جگہ کاپتہ بتایا اور وہاں جانے کو کہا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اُس ماں کے کہے ہوئے جگہ پر گئے، تو ہمیں راستہ مل گیا۔
کچھ گھنٹے گذرنے کے بعد چیخوں کی آوازیں زیادہ ہونے لگیں اور شہر کی طرف سے جلے ہوئے گھروں کا دھواں نظر آرہا تھا، کانوں میں ایک عجیب سی آواز گونج رہی تھی اور ہم دشمن کے انتظار میں تھے کہ کب ہمارا دشمن سے سامنا ہو، اُس وقت صرف ایک خیال تکلیف دے رہا تھا کہ ہم بلوچ قوم کیلئے کچھ زیادہ نہ کر سکے، ہم ابھی جارہے ہیں اور بلوچستان کی آزادی کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پائینگے۔
خیر پورا دن دشمن کے گھیرے میں گذر گیا، لمحہ بہ لمحہ دشمن کے انتظار میں ہم بیٹھے رہے، شام کو ایک بچے کی آواز آرہی تھی، وہ کہہ رہا تھا کہ فوجیوں کی گاڑیاں واپس جارہی ہیں، اُس وقت شام ہونے والا تھا، ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ فوج چلا جائے گا۔ اسی میں شہید نعیم جان کی بھابھی آئی اور اُس کے ہاتھ میں شہید نعیم جان کا چادر تھا، جو خون سے لت پت تھا۔ اُس نے ہمیں آواز دی اور کہنے لگی “نعیم اور یحیٰ شہید ہو گئے ہیں” باقی سب کو فوج اپنے ساتھ لے گیا ہے، اب آپ لوگ یہاں سے نکلو ایسا نہ ہو کہ فوج واپس آئے، ہم وہاں سے نکلے، ہمارے کپڑے بارش سے بھیگے ہوئے تھے اور اُس سردی میں ہمارے پاس سردی سے بچنے کیلئے نہ چادر تھا، نہ کوٹ، خیر ہم راستے میں تھے، میرے فون پر ایک کال آیا اور میں نے فون اٹھایا، میں ایک پہاڑی کی بلندی پر بیھٹے بارش میں مکمل بھیگ رہا تھا اور اپنی سوچ کی گہرائی سے نکل کر دیکھا، تو میرے ماتھے پر پسینے اور آنکھوں سے آنسو بے اختیار بہہ رہے تھےـ فون اٹھایا تو عظیم ماں کی آواز سنا وہ سب سے پہلے بجائے میرا خیریت دریافت کرنے کے، دوست کا پوچھ رہی تھی، وہ کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ بالکل ٹھیک ہے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے خدا حافظ کیا اور کہا اللہ آپ لوگوں کا مدد و کمک ہو، آپ جلدی سے نکل جاو، دشمن پر بھروسہ نہیں۔
دوسرا کال دوست کا تھا، ھیلو کے بعد دوست نے کہا میں کتنی دیر سے کال کررہا ہوں، آپ فون کیوں نہیں اٹھا رہے ہوـ ہم سامراج پاکستان کی فوج کے گھیرےسے نکل چکے ہیں، پورے حوصلے اور ہمت کے ساتھ اپنے محاذ پر بیٹھے ہیں، ہم خیر خیریت سے ہیں، آپ لوگ کیسے ہیں؟ میں نے کہا ہم عظیم ماؤں کی دعاوں کے برکت بالکل خیرخیریت سے ہیں، وہ دعائیں ہمارے ساتھ ہیں اور میں دعا کرتا ہوں، ایسی مائیں ہمیشہ سلامت رہیں اور بلوچ جہدکاروں کیلئے دعا کرتے رہیں۔
میں تمام بلوچ قوم اور خاص طور پر بلوچ جہدکاروں سے یہی امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے مقصد اور اپنے شہیدؤں کی فکر و نظریئے سے سنجیدہ ہوجائیں اور اپنے کام اور ذمہ داریوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں اور ایسے عظیم ماؤں کی قربانیوں اور امیدوں کو ذہن میں رکھ کر ان کو نا امید نہ کریں کیونکہ جب تک ہم اپنے کام اور اپنے مقصد میں سنجیدہ نہ ہونگے، تب تک دشمن ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیگاـ

вторник, 19 февраля 2019 г.

واقعہ توتک اور ماں ۔ برزکوہی 

نپولین عظمت کیلئے فرانسیسیوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ” تم مجھے عظیم مائیں دو میں تمہیں ایک عظیم قوم دونگا” آج بحثیت قوم ہم بلوچ جس تاریخی عظمت کا دعویدار ہیں، وہ یقیناً عظیم بلوچ ماوں کی ہی دھان ہے۔
اس عظمت کے گواہ بلوچستان کے کوہ و صحرا ہیں، جو ان شیر زال ماؤں کی داستانیں اپنے سینے میں آنے والی نسلوں کو سنانے کیلئے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ آج سے پورے 8 سال قبل پیش آنے والے ایک حقیقی اور تاریخی واقعے اور کردار کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ کاش! ہمارے دانشوروں کے پاس میکسم گورکی جیسی صلاحیت، ہمت اور وقت ہوتا تو پافل ولاسوف کی ماں کے کردار کی طرح اس ماں کے کردار کو بھی امر کردیتے۔ کاش! اس ماں کے کوہ گراں کردار کو الفاظ کے لڑیوں میں اس خوبصورتی کے ساتھ پرویا جاتا کہ تاریخ اس کردار کا وزن اور ان لمحات کا الم اپنے پرنوں سے کبھی ماند پڑنے نا دیتا۔
یہ واقعہ روس، چین، فرانس، الجزائر، ویتنام، کیوبا وغیرہ میں پیش نہیں آیا اور نہ ہی یہ ماں کوئی روسی، فرانسیسی، کیوبن یا ویتنامی ماں ہے بلکہ یہ میری اور آپ کی اپنی دھرتی بلوچستان کے علاقے توتک کی ایک بلوچ ماں کی تاریخی و حقیقی کردار اور واقعہ ہے۔
جی ہاں! 8 سال قبل جب پاکستانی فورسز خضدار کے علاقے بلبل پشک اور مولی کے دامن توتک سرداری شہر پر صبح سویرے حملہ آور ہوئے تو پاکستانی فوج کے حملے کے خلاف اس شہر کے دونوجوان نعیم جان قلندرانی اور یحیٰ جان قلندرانی اپنے سرپر کفن باندھ کر اپنے نظریاتی دوستوں کو گھیرے سے نکالنے اور بچانے کے خاطر دیدہ دلیری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے اور درجنوں فوجی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو جہنم واصل کیا۔ فورسز نے ردعمل میں سیخ پا ہوکر نعیم جان کے 80 سالہ والد محترم و بزرگ حاجی رحیم خان قلندرانی، ان کے 40 سالہ بڑے بھائی ڈاکٹر طاہر قلندارانی، بھانجے عتیق قلندرانی، وسیم قلندرانی، خلیل قلندرانی اور باقی قریبی رشتہ دار آفتاب قلندرانی اور مقصود قلندرانی سمیت 25 نوجوانوں کو گرفتار کرلیا اور شہید نعیم کے گھر سمیت درجنوں مزید گھروں کے سازوسان لوٹ کر، گھروں کو آگ لگادی۔
دوران حراست چند مہینے بعد مقصود جان کو شہید کرکے اس کی تشدد زدہ لاش ویرانے میں پھینک دیا گیا اور کچھ رہا کردیئے گئے اور باقی لگ بھگ 18 بندے 80 سالہ حاجی رحیم خان قلندرانی سمیت آج تک لاپتہ ہیں، ان کا کوئی اتا پتا نہیں ہے کہ وہ زندہ ہیں یا شہید ہوچکے ہیں۔
جب صبح 6 بجے سے سخت سردی اور موسلا دھار بارش میں آپریشن شروع ہوا اور شام 7 بجے جب فورسز واپس چلے گئے، تو وہ سرسبز و شاداب اور خوشیوں کے گہوارے توتک کو میدان الم میں تبدیل کرچکے تھے، ہر طرف آگ و دھواں اور چیخ و پکار ہی بچا ہوا تھا۔ ایسے عالم میں فوج کے چلے جانے کے بعد فوراً شہید نعیم جان کی ماں نے اپنے اس بیٹے کو فون کیا جو آپریشن کے دوران گھیراو سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوا تھا اور اس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا “(کنا چنا ) میرے بچے! مجھے جلدی سے بتا دو کہ تمہارے ساتھی کیسے ہیں؟” بیٹے نے جواب دیا ” اماں جان دوست خیر خیریت سے ہیں” ماں نے انتہائی خوشی سے جواب دیا ” یا اللہ تیرا شکر ہے کہ ساتھی سلامت ہیں۔” وہ ماں جس کا جگر گوشہ، سب سے چھوٹا بیٹا چند گھنٹے پہلے انہی ساتھیوں کو بحفاظت نکالنے کیلئے شہید کیا گیا، 80 سالہ شوہر کو ایک بیٹے سمیت فوج گرفتار کرکے لے گئی، جس کے کئی بھانجوں اور رشتہ داروں کو فوج گھسیٹتے ہوئے ہمیشہ کیلئے لے گئی اور اسکی آنکھوں کے سامنے تنکا تنکا کرکے اسکے بنائے گھر کو سامان سمیت آگ لگادی گئی، اسے کسی چیز کا پرواہ نہیں اور پھر بھی شکر بجا لارہی ہے، اور شکر کس لیئے بجا لارہی ہے کہ وہ ساتھی بچ گئے جن کے ساتھ اسکا کوئی رشتہ و تعلق نہیں تھا، نا وہ اسکے قبیلے کے فرد تھے نا خاندان کے رکن، اگر کوئی تعلق تھا تو وہ محض فکر و نظریئے کا رشتہ۔ اس مستند حقیقت سے کوئی باعلم اور ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا کا سب سے عظیم، بڑا، اٹوٹ اور مقدس رشتہ، نظریاتی و فکری رشتہ ہے۔ اس کے علاوہ اور کسی رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
بہادر لاڈلے اور چھوٹے بیٹے نعیم جان اور رشتے دار یححیٰ جان کے خون سے لت پت لاش کے قریب برپا چیخ و پکار اور سسکیوں کی طوفان میں اور اس کربناک ماحول اور حالت میں بھی خون میں لت پت جگر گوشے کے بجائے فکری سنگتوں کے غم میں غلطاں ہونا اور فون پر نظریاتی دوستوں کی خیر خیریت دریافت کرنا، اپنے دیگر زندہ نکلنے والے بیٹوں اور رشتہ داروں کا بھی نہیں پوچھنا یہ خود کیا ہے؟ کیا یہ بلوچ تحریک، بلوچ وطن، بلوچ قوم اور قومی آزادی کے ساتھ سچی کمٹمنٹ، ایمانداری، خلوص، سچائی اور وفاداری نہیں ہے؟ کیا یہ جرت و بہادری نہیں ہے؟ کیا موجودہ بلوچ تحریک میں بلوچ ماوں کی تاریخی اور عظیم کردار نہیں ہے؟
آج شہید نعیم کی عظیم ماں کے علاوہ ہزاروں ایسے بہادر نظریاتی مخلص اور عظیم مائیں بلوچ تحریک کے ساتھ عملاً وابستہ ہیں، ان کا آج بھی تحریک میں ایک متحرک اور فعال کردار موجود ہے، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب اس تحریک کو کیا کوئی بھی طاقت، حالت اور قوت ختم کرسکتا ہے؟ کیا بلوچ قومی تحریک اب بانجھ ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں، جب مائیں اس طرح تحریک کے ساتھ ہوں اور جہدکاروں کے لیئے حوصلہ و ہمت ثابت ہوں تو جہدکاروں کے قدموں کی آہٹ اور حوصلوں کو کوئی مائی کا لال بے حوصلہ نہیں کرسکتا، انکے حوصلوں کو پست کرنے والا باطل وجود نہیں رکھتا، ایسی ماؤں کے لال ہی دھرتی ماں کے اصل وارث ثابت ہوتے ہیں، ایسی مائیں صرف بچے نہیں جنتے، وہ تاریخ جنتے ہیں۔ آج ہر ایک ایسی بلوچ ماں ایک تاریخ، ایک سبق اور عظمت کا درخشاں ستارہ ہے۔
اسی وجہ سے آج دشمن کی جبر و بربریت اور قہر کے علاوہ تحریک کی نشیب و فراز سے لیکر ہر تحریکی کیفیت میں بلوچ نوجوان مایوسی، الجھنوں، خوف اور خود غرضیوں سے بے نیاز ہوکر لڑرہے ہیں اور ان کا پورا پورا یقین، ایمان اور عقیدہ ہے کہ اس دفعہ بلوچ تحریک آزادی نہیں رکے گی، اور نہ ہی سرد مہری کا شکار ہوگا اور نہ ہی ختم ہوگا، یہی مضبوط سوچ، بلوچ قومی تحریک کی کامیابی و کامرانی کی امیدوں کو زندہ رکھتا ہے۔
بس ایسے بہادر بلوچ ماوں اور بہنوں کی تاریخی اور عظیم کرداروں کو اپنی قوم اور دنیا کے سامنے اجاگر کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ بلوچ قوم اور پوری دنیا کو یہ باور ہو کہ اس دفعہ بلوچ تحریک بلوچوں کے ہاتھوں میں ہے اور بلوچ قوم بغیر قومی آزادی کے کسی بھی چیز کے لیئے تیار نہیں ہونگے، جب تک بلوچستان آزاد نہیں ہوگا اور بلوچستان سے پاکستانی فوج کا مکمل انخلاء نہیں ہوگا۔
یہ سوچ، یہ احساس آج ثابت کرتا ہے کہ تحریک اپنی کامیابی کی طرف رواں دواں ہے، مزید بہتری کی گنجائش پہلے بھی تھا، آج بھی ہے۔ اس کی بھرپور انداز میں کوشش ہو بلکہ تحریک مکمل ادارتی بنیادوں پر استوار ہو، ادارہ سرگرم عمل ہو، پھر یہ نسل کشی، یہ گرفتاری، یہ شہادت، تکلیف اور کرب تحریک کے لیئے رکاوٹ اور خوف نہیں بلکہ باعث حوصلہ ہونگے۔

суббота, 16 февраля 2019 г.

 یہ موازنہ یا تقابلی جائزہ آخر کیوں؟ ... ڈاکٹر جلال بلوچ


کبھی ویتنامیوں کی مثال دے کر بلوچ قومی تحریک کو ناکام ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ، کبھی کیوباء، کبھی ساؤتھ افریقہ، کبھی الجزائر، کبھی سویت یونین ،کبھی چائنا، کبھی تامل اور کردوں اور آج کل پشتون تحفظ موونٹ کو بلوچ قومی تحریک کے لیے ایک مثال بنا کے پیش کیا جارہا ہے۔

یہ مباحثے ہمیں عام لکھاریوں یا عام لوگوں کی جانب سے دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتے بلکہ ایسے رویے اکثر قومی آزادی سے وابستہ لکھاریوں یا بعض اوقات تحریک میں ذمہ داریاں سنبھالیں لوگوں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

کیا اس قسم کے خیالات، سوچ یا منطق سے مبرا رویے سیاسی نابلدگی یا عمل سے راہ فرار تو نہیں ؟ الغرض کیفیات جو بھی ہوں وہ الگ بحث ہے۔ اس مضمون میں دیکھتے ہیں، کسی تحریک کا دوسرے تحریک یا تحریکوں سے موازنہ کرنے کے لیے اصول کیا ہیں خصوصاً بلوچ قومی تحریک کا پشتون قومی تحریک سے موازنہ کے زاویے کو نگاہ میں رکھ کر اور مختصراً سیاسی نظام کے اس اہم موضوع (تقابلی سیاست)پہ روشنی ڈالنے کی کوشش کرونگا۔

کسی بھی سیاسی کارکن کے لیے وابسطہ تحریک کا موازنہ کسی دوسرے تحریک سے کرنے کے لیے پہلے پہل خود سے اس ضمن میں چندضروری سوالات پوچھے ، جو کسی تحریک کا دوسرے تحریک سے موازنہ کرنے کے بنیادی اصول ہیں کہ

۱۔وابسطہ تحریک اور جس سے یا جن سے موازنہ کیا جارہا ہے ان کی سماجی نوعیت اور دشمن کی حالت؟۔۲۔تاریخی حیثیت،(نیزاس مد میں ماضی کے تجربات بھی اہمیت کے حامل ہیں)۔۳۔تحریکوں کی نوعیت، حالیہ اور سابقہ حیثیت، دشمن کی سابقہ اور موجودہ حیثیت۔۴۔ دنیا یا آس پاس کے حالات(موجودہ معروضی اور موضوعی حالات) وغیرہ۔ موازانہ کرتے وقت ان عوامل پہ وسیع نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے نہیں تو انسان اپنی حالت اور دوسروں کی کامیابیوں یا ان کے حالات دیکھ کر مایوسی کی بھنورمیں پھنس سکتا ہے۔

آتے موضوع کی جانب کہ بلوچ تحریک کا موازانہ کیوں دیگر تحریکوں سے کیا جاتا ہے؟ کیسے اس سوال کا جواب تواکثر اوقات ہمارے دانشور اور قلم کار بھی دینے سے قاصر رہتے ہیں۔اس کی آسان سی مثال ہم یوں لے سکتے ہیں ۔جب وہ ویتنام کی مثال دیتے ہیں تو یہ کہنے سے ہی قاصر ہیں کہ ویتنام کے کس دور کا ہم بلوچ تحریک سے موازنہ کررہے ہیں؟ یا کیوبا کی مثال دیتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ کیوباء میں فوکو تھیوری کا نظریہ ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے ،جب کہ بلوچ قومی تحریک کو دیکھتے ہوئے جہاں مسلح جدوجہد کے ساتھ ہمیں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد، بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچستان ریپبلکن پارٹی یعنی جماعتی اوور تنظیمی صورتحال وغیرہ کے طرز سیاست کا نظارہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔جو کیوبن انقلاب کے طریقہ کار سے متصادم ہے۔ایک اور مثال لے لیتے ہیں جو بلوچ قومی تحریک اور اس کا موازنہ بھی کیا جاتا ہے، وہ ہے سویت انقلاب۔اب بلا سویت یونین یا روس کی بالشویک انقلاب جہاں نظام اور ایک نئے معاشی نظریے کو لاگو کرنے کی جدوجہد ہورہی تھی اس کا بلوچ جہد آزادی سے کیا رشتہ اوور کیسا موازنہ۔اور نہ ہی اس ضمن میں سویت اور بلوچ سماج، جغرافیہ اور اس دور کے حالات اور ماضی کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔

ان تقابلی جائزوں میں کبھی بھی ہمارے قلم کاروں ، سیاسی دانشوروں نے جغرافیہ، سماج(تحریک سے وابستہ افراد اور دشمن)حالیہ اور سابقہ حیثیت، جدوجہد کی طوالت، سابقہ غلطیوں کا ازالہ، تحریک کی ساخت وغیرہ کی جانب توجہ دینے کی جسارت ہی نہیں کی ۔ اکثر کسی ایک واقعہ کو لے کر یا کسی ایک ہستی سے متاثر ہوکر مفروضات کی رو میں بہنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن ویتنامی تحریک میں فرانسیسی عہد کو وہ بھول جاتے ہیں جہاں ایک لاکھ سے زائد ویتنامی فرانسیسی عسکری اداروں میں اپنے ہی لوگوں کا لہو بہارہے تھے اور پچاس ہزار سے زائد ویتنامیوں کو فرانس میں تربیت دی گئی کہ وہ جاکے ویتنام میں فرانسیسی ثقافت کو فروغ دیں یا یوں کہہ سکتے ہیں نوآبادیاتی نظام کو طول دیا جائے۔اور چائنا کی مثال دیتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ماؤزے تنگ نے تضادات پہ قلم اٹھانے کی جسارت کیوں کی؟ یا منشویک پارٹی کے قیام کو قصداً زیر بحث ہی نہیں لایا جاتا۔ ایسے مباحثے، تحریر و تقاریر وغیرہ انسان کی مایوسیانہ کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ البتہ ایسا بھی نہیں کہ ان تحریکوں کو زیر بحث نہ لایا جائے لیکن شرط پھر وہی ہے کہ جب تک ہمیں ان پہ مکمل عبور وہ بھی تجزیاتی زاویے سے نہ ہو تو ان پہ بحث کرنا ، بات کرنا اور کچھ تحریر کرنا فائدے کی بجائے نقصانات کا باعث بنتے ہیں۔ یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر ہم بلوچ سماج کا جائزہ لیں تو ہمیں اپنی قومی تاریخ، جدوجہد کی تاریخ اور آج ہم کس سطح پہ پہنچ چکے ہیں دیکھنے چاہیے ۔یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری جدوجہد سے دیگر اقوام پہ کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ہمارے ادارے کس حد تک مضبوط ہیں اور ان میں موجود کارکنان کی ذہنی سطح کیا ہے؟ اداروں کا قیام اور دورانیہ کتنا طویل ہے اور اگر کمزوریاں موجود ہیں تو اس کے اثرات کیا مرتب ہوئے ہیں ، مثلاً اگر ادارے حقیقتاً کمزور یا نا قابل اصلاح ہیں تو ان کی وجہ سے تقسیم کے مرحلے سے ہم کتنی بار گزرچکے ہیں اور اس تقسیم سے کام میں جدت آیا ہے یا ہم زوال کی جانب محو سفر ہیں؟۔ دوسری بات سماج کی سیاسی سوچ کی سطح کیا ہے؟سماج کی بات اس لیے کہ ان باتوں کا براہ راست اثر سماج پہ پڑتا ہے جو تحریک کا محور ہے، بسا اوقات یہاں تحریک کی جو ساخت ہوگی سماج بھی اسی ڈھگ پہ چل سکتی ہے۔

جب مباحثوں، تحریر و تقاریر میں منطق پسِ آئینہ چلا جائے تو ان کی وجہ سے اکثر ہوتا یہ ہے کہ جنگ کی سختیوں سے تنگ آنے والے غیر منطقی سوالات ذہن میں لیے مزید مایوسیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ، جس کے اثرات عوام کے ساتھ عام کاکنوں پہ بھی پڑتے ہیں، جو یقیناًکسی بھی تحریک کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

بحث ، تقابلی جائزہ یا موازنہ الغرض ماضی میں جو ہوا ،سو ہوا، جہاں دنیا کے دیگر آزاد ریاستوں یا کامیاب تحریکوں کی ہمیں جو مثالیں دی جاتی تھی یا اب بھی دی جاتی ہے ۔پر آج کل سوشل میڈیا پہ چلنے والا ایک اورمباحثہ جس کے اثرات ہم جہدکاروں میں شدت کے ساتھ محسوس کررہے ہیں ۔وہ ہے پشتون تحفظ موومنٹ کا بلوچ قومی تحریک سے موازنہ۔ان مباحثوں میں دلیل، منطق اور سیاسی اصولوں یا طریقہ کار پردہ سکرین سے غائب ہیں۔ جن سے ایسا لگتا ہے کہ یہ مباحثے نہیں بس دل کا غبار ہے جو نکالاجارہا ہے یاتحریک کی سختیوں سے دل برداشتہ ہوکر راہ فرار اختیار کیا جارہا ہے یا کسی ایک فرد سے متاثر ہوکر یا چند ایک موقعوں پہ عوام کا جمِ غفیر دیکھ کر اثر لیا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ۔اس حوالے سے نہ ہمارے یہ تجزیہ نگار نظریہ عدم تشدد کی وجہ سے پشتونوں کا ماضی دیکھتے ہیں جہاں خان غفار خان نے کانگریس سے متاثر ہوکر پشتون قوم کی فطرت کے خلاف انہیں نظریہ عدم تشدد کی جانب گامزن کرنے کی کوشش کی جس کی سزا آج تک پشتون غلامی کی صورت میں بگھت رہی ہے۔حالانکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پشتون قوم فطرتاً مزاحمت پسند ہے اور وہ کسی غیر کو اپنی سرزمین پہ برداشت نہیں کرسکتے۔جیسے برطانیہ جو فقط انتالیس(۳۹) سال تک افغانستان پہ حکمرانی کرسکا اور آخر کار اسے پشتون مزاحمت کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا، دور جانے کی ضرورت نہیں سویت یونین کی مثال سب کے سامنے ہے اور آج کل امریکہ کی پسپائی کے چرچے زبان زد عام ہے۔اب بلا ایک ایسی قوم جورضاکارانہ طور پر اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے آخری حد تک جاسکتا ہے اسے نظریہ عدم تشدد کے فلسفے سے مسلح کرنے کا منطق کیا؟ لیکن بلوچوں نے قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے ہوتے ہوئے بھی مزاحمت شروع کی حالانکہ اس وقت قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو وہ بھی گاندھی جی سے متاثر تھے، لیکن بلوچوں نے پارٹی کی پروا کیے بغیر فطری اصولوں کی پیروی کی جو آج تک جاری و ساری ہے۔ایک اور اہم بات جو نظر اور سوچ سے غائب ہے وہ ہے تحریک کی ساخت اور مقاصد۔یہاں بلوچ واضح موقف لیے جدوجہد کررہے ہیں جبکہ پشتون تحفظ موومنٹ ریاستی نظام میں تبدیلی کی بات۔اب بلا موازنہ کیسے اور کیونکر؟

بلوچ قومی تحریک اور اس خطے میں چلنے والی دیگر تحاریک یا اقوام کا اس ضمن میں پس منظر یا اس خطے میں بلوچ قوم کی ذہنی سطح کیا ہے؟ اس حوالے سے کوئی دس سال قبل کا ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جو میرے ایک پشتون دوست کے ساتھ پیش آیا۔ میرے اس رفیق کا کہنا ہے کہ جب میں کسی تربیتی پروگرام کے سلسلے میں کراچی گیا ہوا تھا تو وہاں کسی سندھی قوم پرست سے قوم، قومیت اور قومی جدوجہد کے حوالے سے بات چیت ہوئی تو اس دوست کا کہنا تھا کہ سندھی ساتھی نے بلوچ قوم پرستی پہ تنقید کیا اور اس کے مقابلے میں سندھی قوم پرستی کو مضبوط خطوط پہ ظاہر کرنے کی کوشش کی اور یہاں تک کہ پاکستان سے چھٹکارے کے لیے انہوں نے سندھیوں کی جدوجہد کو بلوچ تحریک پہ فوقیت دی اور بلوچ قوم کو سیاسی حوالے سے پست اور حقیر ظاہر کرنے کو کوشش کی۔تو پشتون دوست کا کہنا تھا کہ میں نے فقط اتنا کہا کہ ’’بلوچوں نے تو روز اول سے اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کی جبکہ سندھیوں کو ابھی ہوش آرہا ہے اس سے نتیجہ یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ سیاسی پختگی میں سندھی بلوچوں سے ساٹھ (۶۰)سے پیچھے ہیں۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اس پشتون دوست کی اس بات نے ساری حقیقت کوایک ہی جملے میں سمیٹ دیا۔کہ اس خطے میں موجود دیگر اقوام کا بلوچ قوم سے سیاسی سوچ اور جدوجہد کے حوالے سے کیا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔

اس تاریخی حقیقت سے کوئی ذی شعور جو سیاست کی اونچ نیچ سے واقف ہے انکار نہیں کرسکتا کہ اگر دیگر اقوام اس خطے میں اپنی آزادی یا حقوق کی بات کرچکے ہیں، کررہے ہیں یا کریں گے تو ان پہ براہ راست بلوچ تحریک کے اثرات ہی مرتب ہوئے ہیں ، ہورہے ہیں اور ہوتے رہینگے۔کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ریاست پاکستان کے خلاف پہلی جدوجہد بلوچوں نے شروع کی جو ہنوز جاری ہے ۔ہاں ایسا بھی نہیں کہ تحریک میں کمزوریاں نہیں ہے یا ماضی میں غلطیاں سرزد نہیں ہوئی۔ لیکن موجودہ تحریک کو دیکھتے ہوئے جو گزشتہ دو دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے جس میں ہزاروں بلوچ فرزند شہید ہوچکے ہیں اور نصف لاکھ کے قریب بلوچ ریاستی عقوبت خانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں لیکن پھر بھی تحریک کی روانی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا بلکہ موجودہ تحریک میں پہلی دہائی کی نسبت دوسری دہائی میں شدت دیکھنے کو ملتی ہے حالانکہ اس دوران اختلافات کی ایک لہر بھی اٹھی جسے دیکھ کر بعض لکھاری، دانشور اور مدبرین اسے تحریک کا زوال تصور کررہے تھے لیکن آج ان اختلافات کی وہ صورت برقرار نہیں یا جنہوں نے اس دور میں رجعت پرستانہ سوچ کی ترویج کی ، اس سے انہیں نقصان اٹھانا پڑاجبکہ مجموعی طور پر تحریک میں جدت کی لہر دوڑنے لگی جو کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے اہم اور بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔

جبکہ بلوچ قومی تحریک کے برعکس پشتون تحفظ موومنٹ جس کے بارے میں ابھی تک یہ کہا جاتا ہے کہ یہ محض ریاست میں نظام کی تبدیلی اورچند ایک حقوق کی جدوجہد کررہی ہے، اس سے لگتا کچھ ایسا ہے کہ یہ ماضی کی ان غلطیوں کو دہرارہی ہے جو خان باچا خان سے سرزد ہوئی۔ جبکہ بلوچ قومی تحریک واضح موقف کے ساتھ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے جہاں وہ مختلف نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود بھی آزادی کی سوچ سے کبھی غافل نہیں رہے۔اور یہی سوچ ہے، جس کے اثرات سماج پہ پڑتے ہیں جو کسی بھی تحریک کا محور ہے ۔جس کا نظارہ ہمیں آج پورے بلوچستان میں عملی صورت میں نظر آرہاہے۔جبکہ پشتونوں میں آج تک پاکستان سے آزادی کی کوئی لہر دیکھنے کو نہیں ملتی ، تحریک کا ذکرتو دور کی بات ہے۔ تو بلوچ قومی تحریک کا پشتون تحفظ موومنٹ سے موازنہ یا تقابلی جائزہ کیسے اور کیونکر۔؟حتیٰ کہ دوسرے لوازمات اور جزئیات جو کسی تحریک کے لیے لازم ہوتے ہیں پہ بات ہی نہیں کرتے ، جن میں جغرافیہ، ماضی، جماعت یا تحریک کی ساخت، دارانیہ ، وقت وحالات ، سختیاں، قربانیاں اور افلاس اور اس میں ثابت قدمی وغیرہ۔جن سے ابھی تک پشتون قومی آزادی یا قومی سوچ کی مناسبت سے گزرے بھی نہیں۔ ہاں البتہ یہ ممکنات میں سے ہے کہ آنے والے دنوں میں اس خطے میں پشتونوں کے ساتھ ساتھ دیگر محکوم اقوام بھی اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد شروع کریں پریہاں یہ بات یا د رکھنے کی ہے جب بھی اس خطے میں کوئی تحریک ابھرے گی وہ بلووچ قومی تحریک سے ہی متاثر ہوگی کیونکہ اس خطے میں جدوجہد کی ماں بلوچ قومی تحریک ہی کہلاتی ہے اور کہلائیگی۔

سماجی اور سیاسی نشوونماء کے لیے میں ہمیں بلوچ قومی تحریک کا دیگر تحریکوں یا کسی بھی سیاسی عمل کا موازنہ کرنے کے لیے سائنسی نقطہ نگا ہ رکھنا چاہیے جو سیاسی نظام کا حصہ بھی ہے ۔اگر ہم تقابلی سیاست کو پسِ پشت ڈال کر رائے قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے ان کارکنوں میں ابہامی کیفیت پیدا ہوگی جو ابھی تربیت کے مرحلے سے گزررہے ہیں یا جنہوں نے ابھی تربیت حاصل کرنی ہے۔

جب تقابلی سیاست کی بات ہوتی ہے تو شعور میں یہ الفاظ گردش کرتے ہیں کہ تقابلی سیاست کسی بھی سیاسی تنظیم کی نشوونماء میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور سیاسی کارواں کو کامیابی سے منزل مقصود کی جانب لیجانے کا اہم ذریعہ ہے ۔جس سے حالات کو مدِ نظر رکھ کر سمتوں کا درست تعین کیا جاتا ہے ۔ یہ وہ اہم طریقہ کار ہے جس کے ذریعے سیاست کے اصولوں اور عمل کا تعین کیا جاتا ہے ۔ اس طریقہ کار کے اپنانے سے مختلف سیاسی مسائل، وابستہ تحریک کا دیگر تحریکوں سے موازنہ کرنے کا طریقہ کار کاتجزیہ کرکے ان کی نوعیت معلوم کی جاتی ہے جس سے مختلف سیاسی کیفیات اور معاملات اور ہر مسئلے پر اثر انداز ہونے والے حقیقی عوامل کی تہہ تک آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے۔

تقابلی سیاست کا مطالعہ سیاسی عمل میں ایک منظم طریقہ کار بھی ہے تحقیق کی سی صورت بھی اختیارر کرتی ہے۔منظم طریقہ کار اس لیے کہ یہ سیاسی عمل میں تعلقات کی راہ ہموار کرتی ہے جو وہاں کی سیاسی عمل میں پیدا ہوتی ہیں۔ تحقیق اس لیے کہ یہ سیاسی نظام کا بظاہر مطالعہ کرنے کے علاوہ اندرون خانہ تحقیق پر بھی زور دیتا ہے۔جس سے سیاسی نظام اور اس کے اداروں ، سیاسی پارٹیوں کے رویوں اور طرزِ عمل جس سے سیاسی پارٹیاں پروان چڑھتی ہیں کاپتہ چلتا ہے۔

لہٰذا بلوچ آزادی پسند جماعتوں اور تنظیموں کو اس مد میں نہ صرف پالیسی سازی پہ زور دینا چاہیے بلکہ ان پالیسیوں کا نفاذ بھی وقت کی ضرورت ہے۔پالیسیوں کے نفاذ کی بات اس لیے ہورہا ہے کیونکہ سیاسی نظام کے فرائض میں ایک اہم فریضہ پالیسی سازی میں کیے گئے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اس کے لیے سیاسی نظام میں وسیع مشینری موجود ہوتی ہے۔ جس میں مختلف شعبے فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ جن کے فرائض میں منظور شدہ پالیسیوں کو عملی جامہ پہناناہوتا ہے اور سیاسی عمل میں وہی نظام زیادہ کامیاب ہوتا ہے جو پالیسی کے نفاذ میں موثر حکمت علمی اپنائے۔ کیونکہ اس سے کارکنان کی بہتر نشوونماء ہوتی ہے جس سے وہ رائے قائم کرنے سے گریز کرتے ہیں اور کسی عمل کا تجزیہ کرنا ہوتو اس کے لیے وہ تحقیق یا مکمل سیاسی اپروچ کے ساتھ میدان عمل کا رخ کرتے ہیں۔


среда, 13 февраля 2019 г.

نا متقابل پشتون تحفظ موومنٹ اور بلوچ موومنٹ کا تقابل – برزکوہی

حقیقت یا زمینی حقائق کو مسخ کرکے یا پھر نظر انداز کرکے فوری طور پر متاثر ہونا یا حتمی رائے قائم کرنا یا اس سے بڑھ کر پھر حتمی فیصلہ کرنا میرے نذدیک بدترین جہالت و لاشعوری ہی ہوگا۔ کم از کم یہ عمل، علم و شعور اور ادراک کی علامت نہیں ہوتا۔
تشدد و عدم تشدد، بد امن و پرامن، مسلح و غیر مسلح طرز و تحریک کی اصطلاحات و تعریف کو شروع سے لیکر آخر تک گڈمڈ کرکے باقی تمام حقائق کو ملیامیٹ یا نظر انداز کرکے حتمی رائے اور فیصلہ کرنا انتہائی افسوناک عمل ہے اور ایسے ذہنوں پر ماتم کرنے کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی عمل اور الفاظ نہیں ہیں۔
پشتونوں کی پشتون تحفظ موومنٹ یا منظور پشتون کی شکل میں پرامن و عدم تشدد کی تحریک شروع کرنا، ایک سال میں کامیاب قرار پاتا ہے اور بلوچ قوم کے ماضی بعید کے تحریکوں کو چھوڑیں، موجودہ تحریک 18 سال سے مسلح جہدوجہد کی راہ اپنا کر یعنی تشدد کا راہ اپنا کر چل رہا ہے، ان کا تحریک ناکام ہوگیا کیا؟ یہ لغو قسم کی دلیل، منطق، آراء اور فیصلہ انتہائی مضحکہ خیز، بچگانہ، سطحی اور جہالت کے زمرے میں شمار نہیں ہوگا؟ کیا ایسے لغو باتوں اور آراء پر جب مورخ لکھے گا تو وہ بھی سرپکڑ کر ششدر و حیران نہیں ہوگا اور ماتم کرتے ہوئے قلم کو غصے سے جنبش میں نہیں لائے گا؟
میں اس تلخ حقیقت کا کل بھی اعتراف کرتا تھا، آج بھی برملا اعتراف کرتا ہوں اور آئندہ بھی اعتراف کرتا رہوں گا کہ بلوچوں میں جذبہ، احساس، قربانی، محنت و مشقت کے ساتھ خلوص کی موجودگی اپنی جگہ مگر قیادت سے لیکر جہد کاروں تک میں وہ علم و شعور، صلاحیت، بصیرت، وسیع سوچ و اپروچ اور ادراک پیدا ہو، جس کی اشد ضرورت ہے، اس کی بہت کمی ہے یعنی نالائقی و کم عقلی اور خاص کر مستقبل کے ادراک اور پیش بینی کے فقدان کے واضح علامات نظر آتے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کی تحریک سے مجھے ذاتی حوالے سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ میں پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں اس سے مجموعی طور پر پشتوں قوم کو فائدہ ہو یا نہیں ہو، وہ قبل از وقت ہے البتہ پشتونوں میں پشتون قوم پرستی کے رجحانات دوبارہ زندہ ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان کے خلاف ایک نفرت پیدا ہوگئی ہے اور یہ قومی پرستی کا جذبہ، رجحان اور ریاست کے خلاف نفرت کل کو باقاعدہ قومی آزادی کی تحریک و غلامی سے نجات دہندہ ثابت ہوگی یا نہیں وہ بھی ابھی تک قبل از وقت ہے۔
مگر میں کم از کم ایک بے وقوف اور احمق بن کر کبھی بھی پشتون تحفظ موومنٹ یا منظور پشتون کی نومولود تحریک سے مثاثر ہوکر اسکا بلوچ قومی آزادی کی جنگ سے موازنہ نہیں کرسکتا۔ ہاں! اگر مجھے کوئی زہریلا سانپ سونگھ لے، میں پاگل ہوکر یہ ضرور کہہ دونگا کہ بلوچ تحریک ناکام اور پشتون موومنٹ کامیاب ہوگیا ہے، لیکن ہوش و حواس میں ہرگز میرے لیئے ایسا ممکن نہیں وہ کیوں؟
سب سے پہلے کامیابی اور ناکامی کا حقیقی معیار کیا ہے؟ اور اس کی ناپ و تول کا پیمانہ کیا ہے؟ اور اس کا موازنہ کرنا، دیکھنا اور سمجھنے کا وہ نقطہ نظر اور زاویہ نظر کیا ہے اور کس کے پاس ہے؟
کیا یہ جہالت، لاعلمی، لاشعوری، گمراہ کن، حیران کن اور مضحکہ خیر نہیں ہے کہ ایک سال سے پشتون تحفظ موومنٹ پاکستان جیسے غیر فطری، بدمعاش ریاست کے فریم ورک میں رہ کر اپنے آپ کو مکمل پاکستان کے قانون کا پابند و وفادار ثابت کرنے اور صرف شہری اور ریاستی حقوق کے حصول کی خاطر پاکستان کی آئین و قانون کی بالادستی و بحالی کے خاطر پرسکون ماحول میں چند مظاہرے، چند احتجاجی جلسے و جلوس، دھرنے، انتخابی مہم اور پاکستانی پارلیمنٹ کا حصہ بن کر تحریک چلانے کے سوا اور کچھ نہیں یعنی قومی آزادی یا غلامی سے چھٹکارے کا نام و نشان نہیں، پھر اس تحریک کو کامیاب قرار دینا اور بلوچوں کی اس تحریک یا اس جنگ کو ناکام قرار دینا مضحکہ خیز حد تک لاعلمی نہیں تو پھر کیا ہے؟
آپ ماضی کو فی الحال ایک طرف رکھ دیں، بلوچ قوم پورے 18 سال سے اپنے واضح موقف، قومی آزادی و بلوچ ریاست کی بحالی اور پاکستان سے مکمل چھٹکارے کے حصول کی خاطر لڑرہے ہیں، ساتھ ساتھ چین جیسے سامراجی طاقت سے لڑرہے ہیں، اس وقت تک ہزاروں بلوچ شہید ہوچکے ہیں، ہزاروں بلوچ بدنام زمانہ قلعی کیمپ جیسے ٹارچر سیلوں میں 18 سال سے اذیت سہہ رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں بلوچ اپنے علاقوں سے دربدر مہاجرین کی زندگی گذار رہے ہیں، ایک ہی خاندان سے درجنوں بلوچ فرزند شہید اور لاپتہ ہیں، ایک گھر سے چار یا پانچ بھائی شہید ہوچکے ہیں، آج بھی دشمن کے زیرعتاب کاہان سے لیکر مکران تک بلوچ نوجوان انتہائی کٹھن حالات میں کم وسائلی کے ساتھ بھوک و افلاس، سردی اور گرمی میں پہاڑوں پر مورچہ زن ہوکر دشمن کے خلاف لڑ رہےہیں، شہید ہورے ہیں۔ پاکستان اور چین کی طاقت اور بربریت کے باوجود بلوچ تحریک ناختم ہونے والے اپنے تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے اور آج بھی شہید درویش، شہید ریحان، شہید ازل جان، بلال جان، شہید رئیس اور شہید فرید جیسے نوجوان بخوشی شعوری طور پر اپنی جان قربان کررہے ہیں اور ان کی مائیں اور بہنیں انہیں خوشی سے رخصت کرکے روانہ کرتے ہیں۔
اس کے باوجود کوئی آکر یہ کہہ دے کہ بلوچ تحریک ناکام اور پشتون تحفظ موومنٹ کامیاب ہوگیا ہے، پھر یہ سیاسی ناپختگی، عاقبت نا اندیشی، سطحیت اور جذباتیت کی حدِ طولیٰ نہیں تو پھر کیا ہے۔ کیا پشتون تحفظ موومنٹ یا منظور پشتون ایسے دور یا مراحل سے ابھی تک گذرے ہیں، جن کا بلوچ تحریک سامنا کرچکا ہے؟ یا پھر ان تمام حالات و واقعات کو سہہ کر پھر بھی ان کی تحریک اسی طرح جاری و ساری ہے؟ کیا پشتون تحفظ موومنٹ براہے راست دوٹوک الفاظ میں پاکستان اور چین سے چھٹکارہ کی بات کررہا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں پھر پشتون تحفظ موومنٹ کا کیسے اور کس طرح بلکہ کس بنیاد پر بلوچ قومی تحریک آزادی سے مواذانہ کرکے اسے کامیاب اور بلوچ قومی تحریک کو ناکام قرار دیا جارہا ہے؟ کیا یہ خود سیاسی بے وقوفی اور احمقی کی آخری درجہ نہیں ہے؟
میں تو کہتا ہوں آج اگر پشتون لیڈر باچاخان سمیت عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈران عدم تشدد کے فلسفے کو پیش نہیں کرتے اور پاکستانی طرز سیاست کی راہ نہیں اپناتے بلکہ پاکستان سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی خاطر عدم تشدد کے ساتھ ساتھ تشدد کا راستہ اختیار کرتے، تو آج خیبر پختون خواہ کی حالت یا پورے پشتون قوم کی حالت اس حد تک مذہبی شدت پسندی اور طالبائزیشن کا شکار نہیں ہوتا۔ آج عوامی نیشنل پارٹی کا یہ برا حال نہیں ہوتا بلکہ اپنے لوگوں کے ہاتھوں اپنے سینکڑوں لیڈر اور کارکن نہیں گنوا دیتا یعنی کوئی بھی قوم اور معاشرہ جب غلام و پسماندہ ہو، وہاں جس بنیاد پر جس نظریئے کے تحت کوئی جنگ شروع ہو، وہاں کے لوگ اسی جنگ سے متاثر ہوکر اس کی صرف حمایت نہیں کرتے بلکہ اس کا بھرپور حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ جنگ مذہبی ہو قبائلی ہو یا پھر قومی ہو۔
پشتون لیڈرشپ بحثیت غلام قوم عدم تشدد کا فلسفہ پیش کرکے پاکستانی طرز سیاست شروع کرکے خود مذہبی جنگ کو موقع فراہم کررہا ہے، اگر قومیت کی بنیاد پر پشتون قوم اس وقت لڑتے تو پشتون قوم میں آج اس حد تک مذہبی شدت پسندی کی رجحانات نہیں ہوتے گوکہ آئی آیس آئی سمیت دیگر قوتوں نے وہاں مذہبی جنگ شروع کرلی، پھر بھی پشتونوں کی شمولیت و حمایت کی بنیادی وجہ وہاں قومی جنگ کا نہ ہونا تھا، جس کی واضح مثال بلوچ قوم کا ہے، آئی ایس آئی سمیت دیگر قوت بلوچ قوم اور بلوچستان میں بھی مذہبی جنگ و مذہبی شدت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں، پھر بھی اس حد تک بلوچستان اور بلوچ قوم مذہبی شدت پسندی سے متاثر نہیں ہوئے، اس کا تمام تر سہرا بلوچ مزاحمت اور تشدد کی تحریک کے سر سجتا ہے، وگرنہ آج پورا بلوچ قوم اور بلوچستان کا ہر علاقہ طالبان کا گڑھ و مرکز ہوتا اور ہر بلوچ نوجوان طالبان اور کشمیری جہادی ہوتا تھا، خاص طور پر ان 18 سالوں میں اگر پھر بھی انتہائی کم تعداد میں بلوچ شدت پسندی سے متاثر ہوئے ہیں بھی تو اس کا بنیادی وجہ اس وقت کی مزاحمت کی سرد مہری ہے۔
یہ ایک مانا ہوا مستد حقیقت ہے، اس سے انکار کرنا کم علمی اور کم عقلی ہے کہ قومی جنگ اور تشدد خود قوموں کی تشکیل، قومی ترقی اور علم و شعور کی بنیاد پر ہوتا ہے، غلامانہ سماج اور غلامانہ معاشرے میں بے حسی یا خاموشی خود قوموں کے زوال و فنا کا مقدر ثابت ہوتا ہے، پھر کس بات اور دلیل کی بنیاد پر بلوچ ناکام اور پشتون کامیاب ہوگئے؟ کیا ایک سال میں پشتون قوم نے عدم تشدد یا پرامن تحریک شروع کرکے پاکستان سے نجات حاصل کرلیا یا آزاد پشتونستان بن گیا؟ گوکہ بلوچ قوم بھی آج تشدد کی تحریک سے آزاد تو نہیں ہوا ہے البتہ قومی آزادی کی سوچ، آزاد ریاست کی تشکیل کی فکر بلوچوں میں جس حد تک پختہ ہوچکا ہے، اسکی مثال ماضی میں نہیں ملتا۔ وہ پختگی خود کامیابی کی طرف اشارہ کرتا ہے، پشتونوں میں وہ سوچ ابھی تک نہیں ہے پھر کامیابی کس بات کی؟ چند ہڑتالوں، مظاہروں اور پاکستان کے قانون کے تحت احتجاجوں کی کامیابی کو تحریک کی کامیابی کا نام دینا مضحکہ خیز نہیں ہے؟
یہ نہیں دیکھنا چاہیئے کہ بلوچ تحریک آج کہاں پر کھڑا ہے، تحریک میں نشیب و فراز تو آتے رہتے ہیں، یہ تحریک کا حصہ ہیں، اس کی مختلف وجوہات ہوتے ہیں، ان کو سمجھنا ہوگا، یہ دیکھنا اور غور کرنا ہے کہ بلوچ قوم سوچ کے حوالے سے کہاں پر کھڑا ہے؟
18 سال پہلے کسی بلوچ ماں باپ کا بیٹا ایک دن پولیس تھانے میں قید ہوتا تو چیخ و پکار اور رونے دھونے سے زمین و آسمان کو ایک کرتے، آج شہید ازل جان اور شہید ریحان کی ماں کی طرح سینکڑوں مائیں شہادت اور قومی آزادی کی جنگ کے حوالے سے اپنے لخت جگروں کو بخوشی روانہ کرتے ہیں بلکہ ان پر فخر کرتے ہیں، کیا سوچ کے حوالے سے یہ ذہنی و فکری تربیت پرامن تحریک کے وجہ سے ہوئے؟
ہاں البتہ قومیت یا مظلومیت اور ریاست پاکستان کے خلاف نفرت کی بنیادوں تک بحثیت مظلوم بلوچ اور بلوچ جہدکار کی حثیت سے پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت کرنا، ہمدردی رکھنا، بالکل درست عمل ہے لیکن قومی جنگ اور دشمن کے خلاف تشدد سے راہ فراریت اور خوف میں مبتلا ہوکر بزدلی کا شکار ہوکر، پاکستانی فریم ورک و پاکستانی آئین و قانون کے دائرے میں احتجاجوں، مظاہروں اور دھرنوں کو بلوچ قومی آزادی کی جنگ سے موازانہ کرکے عدم تشدد یا پرامن جدوجہد کی کامیابی کا نام دیکر بلوچ مسلح جدوجہد کو ناکام قرار دینا انتہائی گمراہ کن عمل اور قومی جنگ سے راہ فراریت کے لیئے راستہ ڈھونڈنے کی ناکام کوشش ہے بلکہ پہلے خود جنگ کے ساتھ ہوکر اور جنگ میں شہید ہونے والے اپنے دوستوں کے خون سے غداری ہے اور ایسے غداروں کو نا تاریخ معاف کریگی اور نہ قوم معاف کریگی۔
18 سال سے تشدد اور مسلح جدوجہد کے نام پر بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں کو تبلیغ کرنا اور نوجوانوں کو جنگ اور تشدد کی ترغیب دینا، دوسرے معنوں میں نوجوانوں کے قیمتی جانوں کو قربان کروانا، اب پشتون تحفظ موومنٹ جیسے پاکستانی آئین اور قانوں کی پابند تحریک کی مثال پیش کرکے پرامن جدوجہد کی بات کرنا شہداء کے خون کے ساتھ واضح غداری ہے، قومی تحریک اور جنگ سے رافرایت اور غدادی کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی جاکر براہے راست دشمن کے ساتھ شامل ہو، دوسرے چیزوں کی طرح غداری اور راہ فراریت کی بھی مختلف شکلیں ہوتے ہیں، اس حالت میں قومی آزادی کی پرتشدد جدوجہد کی مخالفت میں دلیل پیش کرنا یا یہ بار بار کہنا کہ کچھ نہیں ہے اور کچھ نہیں ہوگا، اب جنگ کے لیئے حالات ساز گار نہیں ہیں یا پھر اس حالت میں بے حس خاموش اور بے عمل ہوکر آرام اور سکون سے زندگی گذارنا، یہ سب کے سب راہ فراریت اور غداری کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں، خاص کر اپنے شہید دوستوں کے خون اور محنت و مشقت کے ساتھ۔
براہے راست دشمن کا حصہ بننے والے یا اعلی اعلان سرنڈر ہونے والوں سے زیادہ خطرناک خاموش سرنڈر ہونے والے اس قسم کے جہدکار ہوتے ہیں، یہ دشمن سے زیادہ تحریک کے لیئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں، یہ تحریک میں موجود ہوکر تحریک کو نقصان سے دوچار کرتے ہیں اور دشمن تحریک سے باہر تحریک کو نقصان پہنچاتا ہے یعنی باہر والے اتنا زیادہ خطرناک نہیں ہوتا جتنا اندر والا خطرناک ہوتا ہے۔
بلوچ قوم خاص طور پر بلوچ نوجوان ہمیشہ ہر معاملے و ہر مسئلے بلکہ ہر معمولی اور غیر معمولی چیز پر ایک بار نہیں بار بار سوچ لیں اور فیصلہ کریں، اور اندر و باہر کے دشمنوں کو پہچان لیں، وگرنہ تحریک کو زیادہ نقصان ہوگا، پھر تاریخ میں کوئی معاف نہیں ہوگا۔

четверг, 7 февраля 2019 г.

غیر محفوظ بلوچ سیاسی کارکنان – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

بہزاد دیدگ بلوچ
اس ماہ کے اوائل میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مرکزی رہنما ابراہیم ارمان لونی کے بلوچستان میں پولیس اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں تشدد و قتل کے خلاف 32 سے زائد شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہورہے ہیں، گوکہ پی ٹی ایم بارہا اپنے موقف کی وضاحت کرچکی ہے کہ انکی تحریک ایک پرامن تحریک ہے اور وہ عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں لیکن اسکے باوجود وہ ریاستی تشدد سے گلو خلاصی کرنے میں کامیاب نہیں رہے۔
بلوچستان میں یہ اپنے نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے پر امن سیاست پر یقین رکھنے والے کئی نامور بلوچ قوم پرست دانشور، پروفیسر، سیاسی رہنما اور سیاسی کارکنان اسی طرز پر قتل کیئے جاچکے ہیں اور ہزاروں تادم تحریر لاپتہ ہیں۔ ان سرکردہ ناموں میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین غلام محمد بلوچ اور اسکے ساتھی، بلوچ دانشور و پروفیسر صباء دشتیاری اور بلوچ طلباء جماعت بی ایس او کے سیکریٹری جنرل رضا جہانگیر سمیت کئی قتل ہوچکے ہیں اور زاھد بلوچ، ذاکر مجید بلوچ و ثنااللہ بلوچ کی صورت میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ قوم پرست رہنما و کارکنان لاپتہ ہیں۔ ان میں سے 1300 سے زائد کی قابلِ شناخت مسخ شدہ و تشدد زدہ لاشیں مل چکی ہیں جبکہ سینکڑوں ناقابلِ شناخت لاشیں ایدھی دفن کرتی رہی ہے۔
بلوچستان میں پرامن سیاسی کارکنان کے اس قتلِ عام اور عدم تشدد کے سیاست کیلئے کوئی بھی گنجائش نا پاکر سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنان نے جلاوطنی اختیار کرکے یورپی ممالک، امریکہ، افغانستان اور خاص طور پر خلیجی ممالک کا رخ کیا، تاکہ وہ اپنی جان بچا سکیں اور اظہارِ رائے کی آزادی کی ساتھ اپنی آواز بلند کرسکیں۔ لیکن بیرونِ ممالک میں بھی وہ مکمل تحفظ کا احساس حاصل نہیں کرسکے، کیونکہ بیرونِ ملک مقیم ہونے کے باوجود انہیں دھمکیاں موصول ہوتی رہیں اور اہلخانہ کو زک پہچانے کی دھمکیاں خاص طور پر مختلف سرگرم سیاسی کارکنان کو دی گئیں۔ اس صورتحال میں کسی بھی بلوچ سیاسی کارکن کیلئے یہ ناممکن ہوگیا کہ وہ موجودہ حالات میں واپس بلوچستان آسکے۔
از خود جلاوطنی اختیار کرنے والوں میں ایک متحرک انسانی و سیاسی حقوق کے کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ راشد حسین بھی تھے۔ راشد حسین بلوچ ولد دیدار حسین اپنے درجنوں ہمعصر سیاسی کارکنان سمیت 14 سالہ کزن مجید زھری کا خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء اور پھر تشدد زدہ لاش اور بعد میں مجید زھری کے والد رمضان زھری کا سر عام قتل دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ کس طرح رمضان زھری کے بعد انکے پورے جائیداد، گھر اور کاروبار پر سرکاری حمایت یافتہ لشکر کا قبضہ ریاستی سرپرستی میں ہوا، اور پھر انکے پورے اہلخانہ کو مجبوراً جلاوطنی اختیار کرکے متحدہ عرب امارت منتقل ہونا پڑا، راشد حسین اس دوران تواتر کے ساتھ بلوچ سیاسی کارکنان کے اغواء اور قتل کے خلاف آواز اٹھاتے رہے، جس کی وجہ سے انکی جان کو بھی خطرات لاحق ہوگئے تھے۔ لہٰذا وہ بھی دوسرے بلوچ سیاسی کارکنان کی طرح اگست 2017 کو از خود جلاوطنی اختیار کرکے متحدہ عرب امارات چلے گئے اور وہاں اپنے کزنوں کے ساتھ رہنے لگے۔
26 دسمبر 2018 کو جب راشد حسین اپنے کزنوں کے ہمراہ شارجہ سے دبئی جارہے تھے، تو انہیں متحدہ عرب امارات کے خفیہ ادارے کے اہلکار گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ انکی اس طرح گرفتاری کے بعد انکے رشتہ داروں نے انہیں متعلقہ پولیس اسٹیشنوں میں ڈھونڈا اور پولیس سے معلومات حاصل کرنے کے بعد پتہ چلا کہ ان پر کوئی مقدمہ نہیں ہے، نا وہ پولیس کے حراست میں ہیں اور نا ہی وہ پولیس کو مطلوب ہیں۔ تین دن تک غائب رہنے کے بعد متحدہ عرب امارات کے خفیہ اداروں نے بھاری نفری کے ساتھ راشد حسین کے گھر پر چھاپہ مارا، وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہتا تھا، راشد حسین بھی ہتھکڑیوں میں جکڑے انکے ساتھ تھے۔ فورسز نے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور خواتین و بچوں کو سخت حراساں کیا، اور راشد حسین کا پاسپورٹ مانگا گیا، گھنٹوں تک وہاں رہنے کے بعد وہ یہ دھمکی دیکر چلے گئے کہ وہ راشد کو پاکستان ڈی پورٹ کرینگے۔
مذکورہ شب کے بعد راشد حسین تاحال لاپتہ ہیں، نا انہیں کسی جیل میں منتقل کیا گیا ہے اور نا ہی انکے رشتہ داروں کو ان سے ملاقات کا موقع دیا گیا ہے، اس واقعے نے تمام بلوچ سیاسی کارکنان میں تشویش کی ایک لہر دوڑا دی ہے کیونکہ اس واقعے سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے راشد حسین کو کسی مقدمے میں گرفتار نہیں کیا ہے بلکہ پاکستان کے دباو میں آکر انہیں اس طرح اغواء کرکے لاپتہ کیا گیا ہے اور اب انہیں پاکستان کے حوالے کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
لطیف بلوچ ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن سے جڑے ایک سیاسی کارکن اور ایک متحرک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں، جو راشد حسین بلوچ اور دوسرے ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنان کی طرح مجبوراً جلا وطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ راشد کے گرفتاری پر انہوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “بلوچوں کا ہمیشہ سے عربوں اور اس خطے کے دوسرے اقوام کے ساتھ بہترین تعلقات رہے ہیں، بلوچ لاکھوں کی تعداد میں سالوں سے عرب ممالک میں رہائش پذیر ہیں لیکن کبھی بھی وہ عرب قومی مفادات کے خلاف استعمال نہیں ہوئے، دوسری طرف پاکستان ہمیشہ ان عرب ممالک کو نا صرف بلیک میل کرتا رہا ہے بلکہ ضرورت پڑنے پر انکے مفادات کے خلاف بھی استعمال ہوتا رہا ہے، اب دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے کہنے پر ہمارے ایک بلوچ ایکٹویسٹ کو امارات کی حکومت گرفتار کرتی ہے، جو نا صرف امارات کے قوانین، انسانی حقوق بلکہ عرب بلوچ تاریخی تعلقات کی بھی توہین ہے۔”
جلاوطن بلوچ سیاسی کارکنان اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹس کے مطابق اس واقعے سے یہ ظاھر ہوتا ہے کہ اب پاکستان بیرونِ ملک بھی انکی آواز دبانا چاہتا ہے، اب وہ کہیں بھی محفوظ تصور نہیں کرتے، راشد حسین کا یوں اغواء محض آغاز ہے، اسی طرح ایک ایک کرکے اب تمام متحرک جلاوطن سیاسی کارکنان کو بیرون ممالک سے بھی غیرقانونی طریقے سے گرفتار کیا جائے گا۔
راشد حسین کے رشتہ داروں کے مطابق، راشد حسین پر متحدہ عرب امارات میں کوئی بھی مقدمہ نہیں ہے، جس طرح سے انہیں اغواء کرکے حبس بے جاء میں رکھا گیا ہے، یہ از خود متحدہ عرب امارات کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اس واقعے کے حوالے سے دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے نے راشد حسین کے کزن عبدالحفیظ سے بات کی جو راشد کے اغواء کے وقت وہاں موجود تھے اور واقعے کے چشم دید گواہ ہیں، انکا کہنا تھا کہ ” 26 دسمبر 2018 کو میں، راشد حسین، میرے چھوٹے بھائی نصیر احمد اور دبئی میں مقیم ایک اور بلوچ اپنے ٹیوٹا سیانا کار میں شارجہ سے دبئی جارہے تھے کہ ہمارے گاڑی کو دھاڑی روڈ پر فلیگ اسٹاف امارات کے مقام پر دو گاڑیوں جن میں سے ایک سفید مرسڈیز اور ایک جامنی رنگ کا الٹیما تھا نے روکا، دونوں گاڑیوں میں محض ایک ایک فرد سوار تھے، وہ سادہ لباس میں ملبوس تھے اور عربی بول رہے تھے، انہوں نے اپنا تعارف خفیہ ادارے کے اہلکاروں کی حیثیت سے کی اور اپنے کارڈ دِکھائے، انہوں نے ہمارے کاغذات مانگے اور پھر بغیر کسی وارنٹ کے راشد حسین کو اپنے ساتھ لے گئے۔”
عبدالحفیظ نے مزید کہا کہ ” تین دن بعد 29 دسمبر کو رات ایک بجے 15 اہلکاروں کے نفری کے ساتھ وہ دوبارہ ہمارے گھر آئے، راشد انکے پاس تھا، انہوں نے ہم پر تشدد کیا، مجھے بھی ہتھکڑیوں میں جکڑ لیا اور گھر میں توڑ پھوڑ کی اور راشد کا پاسپورٹ مانگتے رہے۔ پاسپورٹ نا ملنے پر وہ تین گھنٹے بعد راشد کو اپنے ہمراہ لیکر واپس چلے گئے، جس سے ہمارا یہ شک پختہ ہوگیا کہ وہ غیرقانونی طریقے سے راشد کو ڈی پورٹ کرنا چاہتے ہیں۔ اسکے بعد مجھے اور میری والدہ کو دھمکی آمیز فون موصول ہوتی رہی ہیں، خفیہ ادارے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے واپس فون کرکے راشد کے پاسپورٹ کو لانے کا کہا، لیکن وہ نا اپنا نام ظاھر کررہے تھے اور نا پاسپورٹ رسمی طور پر مانگ رہے تھے، وہ کہتے ہیں کہ پاسپورٹ کسی مخصوص پیٹرول پمپ، شاپنگ سینٹر یا کسی پولیس اسٹیشن کے باہر پہنچاؤ، لیکن وہاں جانے کے باوجود وہ سامنے نہیں آتے اور اگلے دن دوبارہ دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اب راشد حسین کے ساتھ ساتھ ہمارے پورے اہلخانہ کو بھی یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں ہمیں کوئی نقصان یہاں نا پہنچایا جائے۔”
راشد حسین کے اغواء کے بعد بلوچ سیاسی کارکنان گذشتہ ایک مہینے سے زائد عرصے سے سراپا احتجاج ہیں، اس حوالے سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم چلائی جارہی ہے اور برطانیہ و جرمنی سمیت مختلف ممالک میں احتجاجی مظاھرے بھی ہوچکے ہیں، جو متحدہ عرب امارات کے حکومت سے راشد حسین کی رہائی اور ممکنہ پاکستان ڈی پورٹیشن کو روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس حوالے ایشیئن ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی راشد حسین کے رہائی کیلئے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے نام ایک پٹیشن بھی داخل کی ہے جس پر ابتک 2000 سے زائد افراد نے دستخط کیئے ہیں، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اقوام متحد کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر مداخلت کرکے راشد حسین کی رہائی ممکن بنائے۔
متحدہ عرب امارات کے خفیہ ادارے کے ہاتھوں راشد حسین بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف بلوچ سیاسی کارکنان نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے، حکیم واڈیلہ بلوچ لندن میں جلاوطنی کی زندگی گذارنے والے ایک متحرک سیاسی کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ معروف بلوچ قوم پرست جماعت بلوچ نیشنل مومنٹ کے یو- کے زون کے صدر بھی ہیں، انہوں نے نمائیندہ دی بلوچستان پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “راشد حسین بلوچ کا یوں اغواء اور ممکنہ ڈی پورٹ کی کوشش نا صرف تمام بلوچ سیاسی کارکنان بلکہ ان اقوام اور اقلیتوں کے متحرک کارکنان کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے، جو اپنی جان بچا کر پاکستان سے بیرون ممالک تحفظ اور اظہارِ رائے کی آزادی کیلئے منتقل ہوئے تھے۔ اگر راشد حسین کو پاکستانی حکام کے حوالے کیا جاتا ہے تو اسکا مطلب پھر کوئی بھی سیاسی کارکن کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہ نا صرف انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے، بلکہ تشدد کے خلاف عالمی کنونشن کے آرٹیکل 3 کی بھی خلاف ورزی ہے جو اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ کسی شخص کو ایک ایسے ملک واپس نہیں بھیجا جائے گا، جہاں اسے تشدد کا نشانہ بننے یا اسکے قتل کیئے جانے کا خدشہ ہو۔”
بلوچ نیشنل مومنٹ بلوچستان کی سب سے بڑی قوم پرست سیاسی جماعت ہے، راشد حسین بلوچ کے مسئلے پر دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے نے بی این ایم کے مرکزی ترجمان دلمراد بلوچ سے انکی رائے لی تو انکا کہنا تھا کہ “راشدحسین کی گرفتاری اوراسے جبری طور لاپتہ رکھنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور سنگین مسئلہ ہے اورامارت جیسے ملک میں یہ عمل بلوچ اور عربوں کے تاریخی تعلقات کے منافی ہے۔ راشدایک جنگ زدہ خطے میں انسانی حقوق کا کارکن ہے اوران کے خاندان کے بیشتر افراد ریاست کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں، ان سانحات کے باوجود وہ اپنی قوم کے لئے آواز اٹھاتے رہے اوریہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کی جدوجہد بلاتفریق ہر اُس انسان کے لیئے ہے جس کے بنیادی حقوق غاصب کے ہاتھوں پامال ہوچکے ہیں، وہ حقوق جن کی ضمانت انسانی حقوق کے عالمی معاہدے دیتے ہیں اورپاکستان انکی توثیق کرچکاہے۔”
جب نمائیندہ ٹی بی پی نے دلمراد بلوچ سے دریافت کیا کہ راشد بلوچ کی یوں گرفتاری اور ممکنہ ڈی پورٹیشن کے مسئلے کا دوسرے جلاوطن بلوچ سیاسی کارکنان پر کیا آثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ تو انکا کہنا تھا کہ ” اس کے اثرات تباہ کن ہوسکتے ہیں، میں سمجھتاہوں کہ راشد کا مسئلہ ایک ’’ٹیسٹ کیس‘‘ہے، جس میں اگر پاکستان اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتا ہے تو پاکستان اپنے منفی کوششوں کے سلسلے مزید بڑھاسکتاہے، اس سے آپ کے ہزاروں سیاسی کارکنان ایک غیر یقینی کی سی کیفیت میں مبتلا ہوجائیں گے کیونکہ پاکستان کے ظلم وستم سے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ جلاوطن ہوکر خلیج سمیت یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں بسنے پر مجبور ہیں۔”
دلمراد بلوچ نے راشد حسین کیلئے آواز اٹھانے کو قومی فریضہ گردانتے ہوئے کہا کہ “ہمیں ایک بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ جلاوطن سیاسی کارکنان اپنی ذاتی جنگ، ذاتی مقاصدو اغراض یا محض اپنی زندگی کی تحفظ کے لئے دربدی اور جلاوطنی کی زندگی پر مجبور نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ اجتماعی بقاء کے لئے، پوری قوم کے انسانی حقوق و قومی تحریک کے تقاضوں کے لئے، سرزمین پر غاصب اورقابض کے ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے دیارغیر کاانتخاب کرچکے ہیں۔ راشد انہی قومی فرزندوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، سرزمین کے سچے سپوتوں میں سے ایک ہے، راشد حسین کے لیئے آواز اٹھانا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ راشد حسین کے لئے آواز اٹھانا قومی آواز کو توانا بنانا ہے، ہمیں اسی احساس و ادراک کے ساتھ راشد حسین کے لیئے ہر ممکن فورم کا استعمال کرنا چاہیئے۔”
بلوچستان میں گذشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے بلوچ آزادی پسند مسلح جماعتیں متحرک ہیں اور روزانہ کے بنیادی پر پرتشدد واقعات کی ذمہ داری برملا اس دلیل کی بنیاد پر قبول کرتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک جمہوری اور مہذب ملک نہیں ہے اس لیئے یہاں پر امن جمہوری جدوجہد کیلئے کوئی گنجائش موجود نہیں لہٰذا انہوں نے مجبوراً سیاست کا پرتشدد راستہ یعنی مسلح مزاحمت اختیار کیا ہے، ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگیاں ہوں یا بلوچ دانشوروں، پروفیسروں اور ادیبوں کی ٹارگٹ کلنگ، پی ٹی ایم کے خلاف حالیہ کریک ڈاون و ارمان لونی کا قتل ہو یہ تمام عوامل بلوچ مزاحمتی تحریک کے پرتشدد راستے کے فلسفے کو تقویت پہنچاتی رہی ہیں اور اب وہ نوجوان جنہوں نے ان تمام حالات کے باوجود پر تشدد راستہ اختیار کرنے کے بجائے بیرون ملک جلا وطنی اختیار کرکے پر امن سیاست کا راہ اختیار کیا، انکا راشد حسین بلوچ کی صورت میں گرفتاری ایک خوفناک مستقبل کا عندیہ دے رہی ہے، جو بلوچ نوجوانوں کے سامنے صرف ایک ہی راستہ کھلا چھوڑنے کا موجب بنے گی۔