Powered By Blogger

суббота, 30 августа 2014 г.


بلوچ قومی رہنماء اور گوریلا کمانڈر ڈاکٹر ﷲ نذر سے گفتگو

تحریر : بوریوال کاکڑ 
ترجمہ : لطیف بلیدی

’چھ ہزار بلوچ جنگجو پاکستانی فوج کیخلاف مزاحمت کر رہے ہیں‘ 
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ


’یہ پنجابی کے شریک کار ہیں جنہیں نشانہ بنارہے ہیں نہ کہ پنجابی آبادکاروں کو۔ وہ لوگ جو مارے جا رہے ہیں وہ مزدور کے بھیس میں ملٹری انٹیلی جنس یا آئی ایس آئی کے مخبر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔‘ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا کہنا ہے کہ ’آزادی کی جنگ میں، شریک کار کو نہیں بخشا جا سکتا، تاہم کسی پنجابی آبادکار کو نہیں مارا گیا ہے۔‘ جاری بلوچ مزاحمت اور بلوچ قوم پرستی کی ایک مرکزی شخصیت، ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے بطور ایک ممتاز طالب علم رہنماء کے ابھر کر سامنے آئے۔ ان کو انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اٹھایا، ان پر غیر قانونی حراست کے دوران تشدد کیا گیا اور چند سال تک وہ ’لاپتہ‘ رہے۔ ان کی دلیرانہ جدوجہد سے انہیں بلوچستان میں ایک شاندار حیثیت حاصل ہوئی ہے۔ اس وقت وہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کو کمان کر رہے ہیں۔

بوریوال کاکڑ: پاکستان میں سندھیوں، سرائیکیوں اور پشتونوں کو بھی ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ لیکن صرف بلوچ نے مسلح جدوجہد کا انتخاب کیا ہے۔ کیوں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھی مظلوم ہیں، اسی طرح سے پشتون اور دیگر بھی۔ پاکستان میں قومی جبر موجود ہے۔ بلوچستان کے معاملے میں، ہم اپنی جغرافیائی، تاریخی اور ثقافتی بحالی کیلئے لڑ رہے ہیں کیونکہ ہم پر پاکستان نے قبضہ کیا تھا۔ بلوچ پاکستان کیساتھ رضاکارانہ طور پر شامل نہیں ہوئے۔

بوریوال کاکڑ: اسوقت بلوچستان میں بلوچ قوم پرست اقتدار میں ہیں۔ انہیں بلوچ عسکریت پسندوں کیساتھ مذاکرات کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ کیا آپ ڈاکٹر مالک کی حکومت کیساتھ مذاکرات کریں گے؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ بلوچ قوم پرست اقتدار میں ہیں۔ وہ وفاق پرست ہیں، نہ کہ قوم پرست، اور انہیں بلوچ عوام نے منتخب نہیں کیا۔ بلوچ قوم نے گزشتہ سال کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کو اپنے حلقے سے بمشکل دو فیصد ووٹ ملے ہوں گے۔ وہ وفاق اور پنجاب کی زبان بول رہے ہیں۔ تاہم، بلوچ مذاکرات کے ذریعے حل سے انکار نہیں کریں گے جب تک کہ اقوام متحدہ جیسا کوئی تیسرا بین الاقوامی فریق اس مذاکراتی عمل میں ثالثی نہ کرے۔

بوریوال کاکڑ: آپ اقوام متحدہ کی ثالثی میں مذاکرات قبول کریں گے؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: جی ہاں۔ اگر اقوام متحدہ تاریخی طور پر موجود بلوچستان اور اس کی شناخت کو قبول کر لے تو ہم اقوام متحدہ کی ثالثی قبول کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ بلوچستان کو ایک جنگ زدہ علاقہ قرار دے۔ بلوچستان پر بلوچ عوام کی مرضی کیخلاف قبضہ کیا گیا تھا۔ جب تک کہ بلوچستان اپنی کھوئی ہوئی آزادی حاصل نہ کرلے، تب تک نہ خطے میں اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر امن قائم کیا جا سکتا ہے۔

بوریوال کاکڑ: بالفرض اگر اقوام متحدہ ثالثی کرتا ہے تو کیا آپ ایک آزاد بلوچستان کا مطالبہ کریں گے یا آپ پاکستانی ریاست کے اندر خود مختاری مانگیں گے؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: اقوام متحدہ کو قومی سوال حل کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا۔ جب تک کہ اقوام متحدہ بلوچستان کی تاریخی سرحدوں کی موجودگی کا احترام کرتی ہے، بلوچ اس طرح کے ہر اس آپشن پر غور کریں گے جو بلوچ آزادی کی ضمانت دیتا ہو۔

بوریوال کاکڑ: آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: جی ہاں، بالکل۔ تاہم، اگر جمہوریت کا مطلب جبر ہے، جیسا کہ پاکستانی جمہوریت ہے، تو یہ دقت طلب ہے۔ پاکستانی پارلیمان بلوچ پر ظلم کا جواز پیش کرنے کیلئے ایک آلہ ہے۔ کیونکہ پاکستانی قانون ساز بلوچ پر ظلم کو جواز فراہم کرنے اور اسے درست قرار دینے کیلئے قانون سازی کرتے ہیں، ہم پاکستانی پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کرتے۔ بلوچ بطور ایک قوم یہ کہتی ہے کہ ہم جمہوری لوگ ہیں۔ ہم جمہوریت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔

بوریوال کاکڑ: لیکن جمہوریت اور مسلح جدوجہد ایک ساتھ نہیں چل سکتے؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: ہماری مسلح جدوجہد کی رہنمائی جمہوری سوچ کر رہی ہے۔ ہم ایک متحدہ کمان پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم جمہوری اداروں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہماری بندوقیں کسی فاشسٹ نظریے کا دفاع یا حمایت نہیں کرتیں۔ ہم نے بندوقیں بنیادی انسانی حقوق کے دفاع کیلئے اٹھائی ہوئی ہیں۔

بوریوال کاکڑ: کتنے مسلح بلوچ گروہ اس جدوجہد میں مصروف عمل ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: آپ کے پاس بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ریپبلکن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی ہے۔ وہ سب کے سب بلوچستان کی آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں۔

بوریوال کاکڑ: انکے آپس میں کیا اختلافات ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: کوئی اختلافات نہیں ہیں۔

بوریوال کاکڑ: تو پھر کیوں بہت ساری مختلف تنظیمیں ہیں؟ شاید حکمت عملی پر اختلافات ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: بنیادی چیزوں پر کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ سب ایک ہی دشمن کیخلاف لڑ رہے ہیں اور جڑے ہوئے ہیں۔ طریقہ کار پر کچھ اختلافات ہو سکتے ہیں، مگر سب بلوچ آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں۔

بوریوال کاکڑ: کیا یہ ایک بہت بڑا فرق نہیںہے کہ ہیر بیار لندن میں اور براہمداغ بگٹی سوئٹزرلینڈ میں ہیں جبکہ آپ بلوچستان کے پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: صحیح۔ انکی اپنی مجبوریاں ہو سکتی ہیں۔ تاہم ہمارا مقصد ایک ہی ہے: بلوچستان کی آزادی۔

بوریوال کاکڑ: آپ کے خیال میں تمام مسلح گروہوں میں سے کونسا مضبوط ہے؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: ہمارے اندر کسی بھی گروہ کا دوسرے کے مقابلے میں مضبوط ہونے کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ ہم سب آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں۔

بوریوال کاکڑ: تمام گروہوں کو ملا کر وہاں کتنے جنگجو موجود ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: چھ ہزار سے زائد ہیں لیکن لوگ جوق در جوق شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ ہمارا نصب العین عوامی حمایت حاصل کرنا ہے۔ بلوچ سرمچاروں سے بلوچ قوم محبت کرتی ہے۔ اسکے نتیجے میں تعداد بڑھ رہی ہے۔

بوریوال کاکڑ: آپ کس طرح سے چھ لاکھ کی ایک مضبوط فوج کیساتھ چھ ہزار جنگجووں پر مشتمل ایک طاقت کا موازنہ کرتے ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: وہ 6000 سرمچار نہیں ہیں بلکہ وہ بلوچ قوم کے بیس ملین سے زائد لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آپ ایک پوری قوم کیساتھ چھ لاکھ کی ایک مضبوط فوج کا موازنہ نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی فوج ایک ایسی فوج ہے جسے کوئی بھی کرائے پر لے سکتا ہے۔ اسکی کوئی قومی تاریخ، کوئی قومی تشخص یا نظریہ نہیں ہے۔ آپ کیسے اس طرح کی ایک فوج کیساتھ ایک قوم کا آپس میں موازنہ کرسکتے ہیں جو اپنی ثقافت اور ہزاروں سال پر محیط تاریخ پر فخر کرتی ہو؟ بلوچ قوم کے سامنے پاکستانی فوج کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

بوریوال کاکڑ: آپ کے سیاسی جماعتوں کیساتھ بھی رابطے ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: جی ہاں، ہمارے آزادی پسند سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے ہیں۔

بوریوال کاکڑ: کس پارٹی کیساتھ آپ کی نظریاتی قربت ہے؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: مثال کے طور پر بی این ایم (بلوچ نیشنل موومنٹ)۔ یہ بلوچستان کی آزادی کیلئے لڑ رہی ہے۔ اسکی اور اسکے ساتھ بلوچ نیشنل فرنٹ کے تمام کارکنوں کی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے تحت تربیت ہوئی ہے۔ ہمارے ان تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے ہیں جو بلوچستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔

بوریوال کاکڑ: بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل گروپ یا نیشنل پارٹی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی دونوں بلوچستان پر مسلط کی گئی جنگ کا حصہ ہیں۔ بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی دونوں پاکستانی ریاست کی طرف سے مرتب کردہ آئینی ڈھانچے کو مانتے ہیں۔ بلوچ کارکنوں کی گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اسی آئینی فریم ورک کی فضیلت سے کی جارہی ہیں۔ اس ظلم کے حصے کے طور پر، وہ کس طرح سے بلوچستان کے نمائندے ہو سکتے ہیں؟

بوریوال کاکڑ: لیکن وہ بھی حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: دیکھیں، نیشنل پارٹی پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا ہے۔ بے شک بی این پی کے سرگرم کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پھر بھی بی این پی کی قیادت بلوچ کاز کیلئے جدوجہد نہیں کررہی ہے۔ اس کے بجائے، یہ اپنی بقاء کے بارے میں فکر مند ہے۔ بی این پی کی قیادت زندہ رہنے کیلئے پاکستانی اسٹابلشمنٹ کی قبولیت کا خواہاں ہے۔ وہ بلوچ قوم کی بقاء کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں۔

بوریوال کاکڑ: ٹھیک ہے، اگر بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی بلوچستان کے نمائندے نہیں ہیں تو وہ کیونکرحملوں کی زد میں ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: جیسا کہ پہلے واضح کیا کہ نیشنل پارٹی حملوں کی زد میں نہیں ہے۔ تاہم، بی این پی کے کارکنوں کو شہید کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے، اس سب کے باوجود بی این پی مینگل کی قیادت انفرادی فوائد کیلئے سمجھوتہ کررہی ہے۔

بوریوال کاکڑ: آپ کو کسی بھی غیر ملک سے مدد مل رہی ہے؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کسی اور مرحلے میں ہوتی۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور اس کے ساتھ ساتھ ایشیاء کے جمہوری ممالک ہمیں مدد فراہم کریں۔ ہم انکے شکرگزار ہونگے اگر کوئی ہمیں مالی مدد فراہم کرے۔

بوریوال کاکڑ: کہا جاتا ہے کہ بھارت افغانستان کے ذریعے آپ لوگوں کی مدد کررہا ہے۔ اس کے علاوہ، بلوچ عسکریت پسندوں کو تربیت دینے کیلئے افغانستان میں تربیتی کیمپ موجود ہیں۔
ڈاکٹر ﷲ نذر: بھارت ہمیں کوئی مدد فراہم نہیں کررہا ہے۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے، تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ بلوچستان اور افغانستان کے درمیان ثقافتی، جغرافیائی اور قبائلی روابط ہیں۔ میرے اپنے خاندان کا نصف نمروز میں رہتا ہے۔ کسی شادی جیسی تقریب میں شرکت کرنے یا ایسے کسی اور کام کیلئے لوگ (پاکستان اور افغانستان کو تقسیم کرنیوالی) ڈیورنڈ لائن کے آر پار سفر کرتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہاں تربیتی کیمپ موجود ہیں۔ ڈیورنڈ لائن، جسے نوآبادیت کی طرف سے کھینچا گیا تھا، دونوں اطراف میں قائم ہمارے رشتوں کو ختم نہیں کر سکتا۔

بوریوال کاکڑ: کیمپوں اور تعلقات کے درمیان ایک فرق موجود ہے۔ آپ اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ وہاں بلوچ عسکریت پسندوں کیلئے تربیتی کیمپ موجود ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: ہرگز نہیں۔

بوریوال کاکڑ: بلوچستان میں امریکی اور اسرائیلی ہاتھ کی طرف بھی اشارہ کیا جاتا ہے۔ کیا امریکہ خفیہ طور پر معاون ہے؟ یہ دعویٰ کتنا صحیح ہے؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: امریکہ نے افغانستان میں حامد کرزئی اور عراق میں نئی تشکیل شدہ حکومت کو مدد فراہم کی ہے۔ ہم امریکی مدد کا خیر مقدم کرتے، لیکن ہمیں کوئی مدد مل نہیں رہی ہے۔ اس معاملے کی حقیقت یہ ہے: ہمارا نوآبادکار بین الاقوامی برادری اور میڈیا کا توجہ ہٹانا چاہتا ہے اسی لئے غیر ملکی ہاتھ کی بات کرتا ہے۔

بوریوال کاکڑ: کسی غیر ملکی مدد کے بغیر آپ ہتھیار کہاں سے حاصل کرتے ہیں اور آپ اپنی جدوجہد کو مالی طور پر کس طرح سے برقرار رکھ سکتے ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: بلوچ قوم ایک بڑی قوم ہے۔ وہاں بلوچ تارکین وطن موجود ہیں۔ وہ ہماری مالی اعانت کرتے ہیں۔ جہاں تک ہتھیاروں کی فراہمی کا تعلق ہے تو میں سب کو یاد دلاتا چلوں کہ ’افغان جہاد‘ کے دوران چار ہزار روپے کے عوض ایک کلاشنکوف خریدا جا سکتا تھا۔ ہم نے 1980 کی دہائی کے دوران اسلحہ خریدا اور ذخیرہ کیا۔ کیا ہمارے پاس کوئی جدید ہتھیار، کوئی اسٹینگر میزائل یا طیارہ شکن توپ، کوئی گائیڈڈ میزائل ہیں؟ اس صورت میں تو ہم اب تک آزادی کی جدوجہد جیت چکے ہوتے۔ ہم بلوچ قوم کی مدد سے اپنی جنگ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

بوریوال کاکڑ: کیا آپ کو لگتا ہے کہ بین الاقوامی برادری آپ کو مدد دینے کیلئے ہاتھ بڑھائے گی؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: یقینا۔ دنیا کا ضمیر اب تک مرا نہیں ہے۔ امریکی کانگریس اور پینٹاگون سے لیکر یورپی یونین اور عرب ممالک تک، وہ لوگ جنکا ضمیر زندہ ہے، مدد کریں گے۔

بوریوال کاکڑ: کیوں غریب پنجابی آبادکار بلوچستان میں مارے جا رہے ہیں؟ ان کا قصور کیا ہے؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: مجھے ایک بات کی وضاحت کرنے دیں: یہ پنجابی کے شریک کار ہیں جنہیں نشانہ بنارہے ہیں نہ کہ پنجابی آبادکاروں کو۔ وہ لوگ جو مارے جا رہے ہیں، وہ مزدور کے بھیس میں ملٹری انٹیلی جنس یا آئی ایس آئی کے مخبر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ آزادی کی جنگ میں شریک کار کو نہیں بخشا جا سکتا۔ تاہم کسی پنجابی آبادکار کو نہیں مارا گیا ہے۔

بوریوال کاکڑ: آپ بلوچستان میں بڑھتے ہوئی فرقہ وارانہ تشدد کی وضاحت کس طرح سے کریں گے؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: اسکے لئے طالبان ذمہ دار ہیں۔ وہ پاکستان فوج کے اسٹراٹجک اثاثے ہیں۔ بلوچ قوم پرست فرقہ واریت میں ملوث نہیں ہیں۔ دراصل فرقہ وارانہ عناصر اپنی تربیت پنجاب میں حاصل کرتے ہیں۔ فوج فرقہ واریت کو بلوچ قومی جدوجہد سے توجہ ہٹانے کیلئے استعمال کررہی ہے۔

بوریوال کاکڑ: افغانستان میں لڑنے والے طالبان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: وہ بھی اسٹراٹجک اثاثے ہیں۔ کرنل امام یہ دعویٰ کرتے تھے کہ انہوں نے ان کو تربیت دی ہے۔ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد سے ملا۔ ملا عمر کوئٹہ میں کور کمانڈر کے گھر کے برابر میں رہتا ہے۔ یہاں اصل مسئلہ پنجاب ہے۔ یہ اس طرح سے ہے کہ وہ لوگ جنہیں بھارت پر حملہ کرنا ہو تو انہیں پنجاب کے راستے گزرنا پڑتا ہے۔ محمود غزنوی سے لیکر احمد شاہ ابدالی تک یہی صورت رہی ہے۔ اب پنجاب بدلہ لینا چاہتا ہے۔ دیکھیں کہ کس طرح سے پشتون ثقافتی ورثے کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ رحمان بابا کے مزار کے ساتھ ساتھ اجمل خٹک کے مزار پر بھی بم حملہ کیا گیا۔ وہ افغانستان کو پاکستان کا پانچواں غیراعلانیہ صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی سب سے بڑی خواہش ہے۔

بوریوال کاکڑ: افغانستان اور پاکستان میں امن کس طرح سے ایک دوسرے کیساتھ جڑے ہوئے ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: پاکستان دہرا کھیل کھیل رہا ہے۔ یہ دہشت گردی کا گڑھ بن چکا ہے۔ یہ طالبان کو تربیت دیتے اور افغانستان بھیجتے ہیں۔ نیٹو ممالک اس عمل کو ضروری طور پر روکیں۔ دیرپا امن کے حصول کیلئے، بلوچستان کی بطور ایک بفر ریاست کے ضرور حمایت کی جانی چاہیے۔

بوریوال کاکڑ: افغان امن کس طرح سے حاصل کیا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: جب تک کہ پاکستان اپنی موجودہ جغرافیائی صورت میں قائم رہیگا، امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ، جب تک کہ امریکہ اور مغرب پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے خوفزدہ رہیں گے، افغان مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک بلوچ اور پشتون قوم کی تاریخی حیثیت بحال نہیں ہوجاتی، ایک دیرپا امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔

بوریوال کاکڑ: بلوچستان کی طرف واپس چلتے ہیں۔ بلوچستان میں میگا پراجیکٹس کی مخالفت کیونکر جبکہ ان سے غریب فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: گوادر پروجیکٹ کی مثال لے لیں۔ اس کا مقصد نہ صرف پاکستان کی معیشت کو سہارا دینا ہے بلکہ بلوچستان کے باہر سے یہاں مزدور لاکر بلوچ کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ اسی وجہ سے ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم نے ان ممالک یا سرمایہ کاروں، جو بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کریں۔

بوریوال کاکڑ: لیکن وہاں ایسے بلوچ بھی ہیں جو اس طرح کے منصوبوں کی حمایت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ﷲ نذر: جی ہاں، انکے مفادات وابستہ ہیں۔

بوریوال کاکڑ: آپ پاک ایران گیس پائپ لائن کی بھی مخالفت کریں گے؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: چاہے وہ گوادر پورٹ ہو یا کوئی پائپ لائن، بلوچ عوام کی قیمت پر کسی بھی منصوبے کیخلاف مزاحمت کریں گے۔

بوریوال کاکڑ: بلوچستان میں پشتون اضلاع ہیں، ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ڈاکٹر ﷲ نذر: بلوچ کا پشتون کیساتھ کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ وہ اپنی تاریخی زمین پر رہ رہے ہیں۔ یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، افغانستان کیساتھ الحاق کرتے ہیں یا ایک آزاد پشتونستان کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بلوچ انکے فیصلے کا احترام کریں گے۔

بوریوال کاکڑ: آخر میں یہ کہ بلوچستان مسئلے کا حتمی حل کیا ہے؟
ڈاکٹر اﷲ نذر: ایک آزاد بلوچستان۔

بشکریہ : ویو پوائنٹ

четверг, 28 августа 2014 г.

خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں اضافہ
ارشاد مستوئی۔۔۔۔۔ 
گوکہ سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے یہ دعوے کئے جاتے ہیں کہ بلوچستان کے حالات تبدیل ہورہے ہیں اور ماضی کی نسبت امن و امان کی صورتحال قدرے بہتر ہے لیکن دوسری جانب بلوچستان میں تشدد کے واقعات بدستور برقرار ہیں بلکہ گذشتہ ہفتہ کوئٹہ اور مستونگ میں ہونے والے واقعات سے خوف دہشت اور عدم تحفظ کے نئے احساس نے جنم لیا 21 جولائی کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقے سریاب میں کلی کمالو کے مقام پر چار بلوچ خواتین پر اس وقت سرنج کے ذریعے تیزاب پھینکا گیا جب وہ عید کی شاپنگ کیلئے جارہی تھیں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان پر تیزاب پھینک دیا اور فرار ہوگئے تیزاب حملے میں خواتین کے ہاتھ پیر اور چہرے جھلس گئے جنہیں طبی امداد کیلئے بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
بلوچستان کے کسی بلوچ آبادی والے علاقے میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات کا سلسلہ تین چار سال قبل سابق حکومت کے دور میں شروع ہوا جب قلات اور دالبندین میں ایک شدت پسند گروہ نے پمفلٹ سازی کرتے ہوئے خواتین کے چار دیواری سے باہر نکلنے پر خود ساختہ پابندی عائد کی ‘‘2010ء میں قلات اور دالبندین میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات رونما ہوئے دالبندین میں بلوچ غیرت مند نامی ایک تنظیم نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبو ل کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ ’خواتین نہ صرف پردے کی پاسداری کریں بلکہ وہ کسی مرد کے بغیر بازار نہ جائیں
واقعہ کے فوراً بعد صوبائی وزیر داخلہ و قبائلی امور میر سرفراز بگٹی نے نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ انتظامیہ سے رپورٹ طلب کرلی جبکہ کیپٹل سٹی پولیس آفیسر عبدالرزاق چیمہ نے اس واقعہ کی تحقیقات کیلئے اے ایس پی سریاب کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیدی اور اس کو فوری طور پر تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی ابھی چوبیس گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ ضلع مستونگ میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کا ایک اور واقعہ پیش آیا مستونگ شہر میں 14 سے 15 سال کے درمیان عمروں کی دو بہنیں عید کی خریداری کے لیے بازار آئی تھیں خریداری کے بعد جب یہ واپس گھر جا رہی تھیں توموٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد نے ان پر تیزاب پھینک دیا تیزاب ان میں سے ایک کی گردن جبکہ دوسری کے چہر ے پر گرگیا۔ دونوں بہنوں کو ابتدائی طبی امداد کے لیے مستونگ شہر میں ایک پرائیویٹ ہسپتال منتقل کر دیاگیا ہے تاحال حملے کے محرکات معلوم نہیں ہو سکے بلوچستان میں 24گھنٹوں کے دوران تیزاب پھینکنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
بلوچ قوم پرست اور علیحدگی پسند حلقوں کی جانب سے اس پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا گیا بلکہ ان واقعات کو بلوچستان کے ترقی پسند و روشن خیال چہرے کو مسخ کرنے کی گھناؤنی سازش قرار دیا گیا حکمران جماعت نیشنل پارٹی کے ترجمان نے خواتین پر تیزاب پھینکنے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے بلوچ علاقوں میں خواتین و معصوم بچیوں پر تیزاب پھینکنے کے عمل کو کھلی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دہشت گرد عناصر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرکے معاشرے کو تہہ و بالا کرکے دہشت گردی و انتہاء پسندی کے ذریعے اپنا ایجنڈہ مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کی اجازت کوئی بھی مہذب معاشرہ نہیں دے سکتا تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے پروزور مطالبہ کرتے ہیں ان واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے ضرورت پڑنے پر ایسے دہشت گرد عناصر کے خلاف ضرب عضب طرز کے آپریشن کے آغاز سے بھی گریز نہ کیا جائے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے ان واقعات کی مذمت کی گئی ہے جبکہ علیحدگی پسند حلقوں کا خیال ہے کہ بلوچستان کی آزادی کے حوالے سے جاری تحریک کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی سے ریاستی قوتیں خوفزدہ ہیں اور انہوں نے بلوچ تحریک کا راستہ روکنے کیلئے انتہاء پسندی و مذہنی جنونیت کے بیج بونا شروع کردیئے ہیں ہزارہ برادری کی فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کے بعد خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں اضافہ انہی سلسلوں کی کڑی ہے تاکہ بلوچ تحریک کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کیا جاسکے بلوچستان کے سنجیدہ حلقوں کو بھی ان واقعات پر تشویش لاحق ہے سینئر صحافی تجزیہ نگار سلیم شاہد کا کہنا ہے کہ بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے اور یہاں دشمنیاں نبھانے کیلئے کبھی بھی تیزاب پھینکنے کا طریقہ نہیں اپنایا گیاہم یہ سنتے رہتے تھے کہ پنجاب میں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں جہاں خواتین کے چہروں کو مسخ کرنے کے لیے تیزاب پھینکا جاتا ہے۔
بلوچستان میں خواتین کے خلاف یہ ایک نئی چیز ہے اس پر لوگوں کو یہ تشویش ہے کہ بلوچستان میں یہ طریقہ کہاں سے آیا؟ بلوچستان کے کسی بلوچ آبادی والے علاقے میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات کا سلسلہ تین چار سال قبل سابق حکومت کے دور میں شروع ہوا جب قلات اور دالبندین میں ایک شدت پسند گروہ نے پمفلٹ سازی کرتے ہوئے خواتین کے چار دیواری سے باہر نکلنے پر خود ساختہ پابندی عائد کی ‘‘2010ء میں قلات اور دالبندین میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات رونما ہوئے دالبندین میں بلوچ غیرت مند نامی ایک تنظیم نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبو ل کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ ’خواتین نہ صرف پردے کی پاسداری کریں بلکہ وہ کسی مرد کے بغیر بازار نہ جائیں بصورت دیگر ان کے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی واقعہ کا وہ خود ذمہ دارہونگی۔‘ دالبندین میں پمفلٹ تقسیم کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ غیرت مند بلوچ اپنی خواتین کو بازار جانے نہ دیں۔ اگر کوئی مر یض ہو تو اپنے ساتھ مرد ضرور لائے اور جو خواتین کھلے منہ بازار اور گلیوں میں نظر آئیں ان کے چہروں پر تیزاب چھڑک دیں گے جس کی ذمہ داری متاثرہ خواتین پرعائدہوگی۔
پمفلٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بازار شیطان کی جگہ ہے اور آج کل خواتین بازارمیں شاپنگ کرنے کے لیے ایسی ملبو سات پہن کر آتی ہیں کہ شیطان بھی شرما جاتاہے۔پمفلٹ کے آخرمیں دائیں طرف ایک دکان میں کاسمیٹک کا سامان دکھایاگیا ہے جس پر کراس کا نشان ہے جبکہ بائیں جانب ایک پرانی عمارت کی تصویر دکھائی گئی ہے جو سادگی کی زندگی کو ظاہر کرتی ہے۔بلوچستان میں تقریباً تمام قوم پرست جماعتوں بشمول بلوچ مزاحمتی تنظیموں نیخواتین پر تیزاب پھنکنے کی شدید مذمت کی تھی اور اس واقعہ کو بلوچ روایات کے خلاف قرار دے دیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ بعض قوتیں بلوچ معاشرے کو رجعت پسندی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں جسے بلوچ قوم ناکام بنادے گی۔
کوئٹہ اور مستونگ میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کی تو کسی تنظیم یا گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے طاہر حسین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وویمن پروٹیکشن ایکٹ کے نافذ العمل نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کے واقعات ہورہے ہیں جب تک مکمل طور پر وویمن ایکٹ کے نفاذ کو یقینی نہیں بنایا جائے گا صورتحال کی بہتری ممکن نہیں ہوسکے گی ادھر سنجیدہ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ خواتین پر تیزاب پھینکنے کے بڑھتے ہوئے واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ یہ سماج سرمایہ داری کے زیرِ اثر گل سڑ چکا ہے اور بربریت روز بروز نئی شکلوں میں اپنا اظہار کر ہی ہے۔ان حالات میں ملائیت اور بورژوا لبرلازم دونوں ہی عورت کی نجات کے لئے کوئی لائحہ عمل دینے سے قاصر ہیں۔مذہبی بنیاد پرستی اور مغربی لبرل ازم دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
یہ دونوں عورت کو استعمال کی ایک چیز سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ استعمال کے ’’طریقہ کار‘‘اور حدود پر اختلاف بہر حال موجود ہے۔ملائیت عورت کو گھر کی چار دیواری تک محدود کر کے شوہر، باپ اور دوسرے نام نہاد خاندانی رشتوں کا غلام بناتی ہے تومغربی لبرل ازم اسے نام نہاد آزادی دے کر بازار میں سرِ عام نیلام کرتا ہے۔ حقوق نسواں کا کاروبار کرنے والی این جی اوز اور دیگر تنظیمیں بھی سامراجی قوتوں کی آلہ کار ہیں۔ آج کے معاشرے کی خواتین میں بھی طبقاتی فرق نمایاں ہے۔ایک جانب وہ خواتین ہیں جو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ جو پارلیمنٹ اور اقتدار کے دیگر ایوانوں میں محنت کشوں کو کچلنے والی پالیسیاں ترتیب دینے میں سرگرم ہیں۔ایسی خواتین بھی ہیں جو گھریلو ملازم محنت کشوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتی ہیں اور خود عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتی ہیں۔جن خواتین نے اپنی زندگیوں کو طبقہ امرا کے مردوں لیے نمائش بنا نے پر اکتفا کر لیا ہے،ہر وقت نئے زیورات اور لباس کے لیے تگ و دو ان کی زندگی کا محور ہے۔
جبکہ دوسری جانب وہ خواتین ہیں جو سخت موسموں میں بھی خاندان کی کفالت کے لیے شدید مشکلات برداشت کرتی ہیں اور زمانے بھر کی ذلتوں کا سامنا کرتی ہیں۔ان دونوں طبقوں کی خواتین کے مسائل اور زندگیاں مختلف ہیں اس لیے ان کی سیاسی اور سماجی جدوجہد بھی مختلف ہے۔گھریلو کام کاج جو محنت کش خواتین کی پیدائشی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے امیر گھرانوں کی خواتین اس سے مستثنیٰ ہیں بلکہ اسے قابل فخر سمجھا جاتا ہے کہ انہیں یہ کام نہیں آتے۔حقوق نسواں کا کاروبار کرنے والے افراد اس طبقاتی تفریق کو ماندکرنا چاہتے جو اس سماج کی جڑوں میں موجود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عورت سماجی طور پر تب تک آزاد نہیں ہو سکتی جب تک وہ معاشی طور پر آزاد اور خود مختار نہ ہواور یہ معاشی و سماجی خود مختاری موجودہ نظام کے زیرِ اثر رہ کر حاصل نہیں جا سکتی۔


вторник, 19 августа 2014 г.

توتک میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں کے متعلق عدالتی ٹریبونل کا تحقیقاتی رپورٹ کو جزوی طور پر شائع کیا گیا ہے۔ لیکن رپورٹ میں ٹریبونل نے فوج، ایف سی، آئی ایس آئی سمیت دیگر خفیہ اداروں اور حکومتوں کو بری الزمہ قرار دیکر مہبم انداز میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ شفیق مینگل کے طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ انھیں بھی ایک طرح سے بری الزمہ قرار دینے کی کوشش کی گئی ہیں۔ اگر یہ سب اس عمل میں شامل نہیں تو کیا پھر یہ اجتماعی قبروں سے ملنے افراد ازخود اپنے آپ کو ان اجتماعی قبروں میں دفن کئے تھے۔ ٹریبونل مہبم انداز میں شفیق مینگل کی طرف اشارہ دے رہی ہے لیکن یہ بات چھپا رہی ہیکہ شفیق کو کس نے مسلح کرکے لوگوں کی قتل عام کا سرٹفکیٹ جارہی کیا تھا اور شفیق کس کے ایماء اور سپورٹ سے لوگوں کو اغواء کرکے اُنھیں قتل کرکے اُنکی مسخ شدہ لاشیں پھینک رہے تھے اور اجتماعی قبروں میں دفن کررہے تھے۔ کیونکہ شفیق کو آئی ایس آئی نے مسلح کرکے آزادی پسند قوتوں کے سامنے کھڑے کرنے کی کوشش کی تھی اور توتک اجتماعی قبروں سے ملنے والی دو لاشوں کی شناخت ہوئی تھی جن کو ایف سی نے آواران سے اغواء کیا تھا اور سیاسی کارکنوں کو آئی ایس آئی، ایف سی ، فوج اور ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے ملکر اغواء کئے تھے جن کے اغواء اور لاپتہ کرنے کی شواہد اور کئی عینی شاہدین موجود ہیں۔ اب شفیق مینگل کو خاموشی سے عرضی طور پر سائیڈ لائن کرکے ڈی سی وحید شاہ کو سامنے لایا گیا جن کے زریعے یہ ڈرامہ رچایا گیا کہ یہ خضدار میں امن لانے کے لئے تنعینات کیا گیا ہیکہ اُن کے زریعے اجتماعی قبروں کو منظر عام پر لاکر شفیق مینگل اور اُنکے کارندوں کے خلاف کاروائی کرنے اور ڈیتھ اسکواڈز کو ختم کرنے کا نام نہاد ڈرامہ کیا گیا دراصل شفیق اور اُس کے کارندے آئی ایس آئی، ایف سی اور فوج کے بدنامی کے باعث بن رہے تھے۔ شفیق مینگل نے وھیر میں سرعام 8 لیویز اہلکاروں کو موت کی گھاٹ اُتار دی لیکن کسی نے اسکا بال بھی بیکا نہیں کرسکا آج بھی شفیق ایف سی کے گارڈز کے ساتھ دندناتے پھیر رہے ہیں۔ ایجنسیوں نے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے ڈی سی وحید شاہ کو سامنے لاکر عوام میں اپنی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کی اب ڈی سی وحید شاہ کے زریعے نئے مخبر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں اور اب ڈی سی وحید شاہ کے سربراہی میں ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دی گئی ہیں اور آئی ایس آئی و ایف سی اب اپنے تمام کارندوں کو وحید شاہ کے قیادت میں منظم کررہے ہیں، ان تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہیکہ خضدار میں قتل عام کرنے والے ایجنسیوں کے کارندے ڈی سی اور ایف سی کمانڈنٹ کے ساتھ براجمان ہیں۔ اب اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے بلوچ نوجوانوں کے اغواء، قتل عام، مسخ شدہ لاشوں، اجتماعی قبروں میں نوجوانوں کو دفنانے میں فوج، ایف سی، ایم آئی، آئی ایس آئی شامل ہیں شفیق، عطاء اور زکریا و دیگر غدار عام مہرے اور دلال ہیں جو چند روپیوں کے لئے اپنی ماں و بہنوں کو بھی فروخت کرنے سے گریز نہیں کرتے