Powered By Blogger

суббота, 30 июня 2018 г.

بلوچ خواتین کے اغواء کا سنگین مسئلہ _ دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ 

دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
یاران دیار
شورش زدہ خطے بلوچستان میں فورسز کے ہاتھوں خواتین پر تشدد، حراست کے بعد لاپتہ کرنے، جنسی طور پر حراساں کرنے اور عصمت دری جیسے واقعات میں شدت و اضافے کے بعد سوشل میڈیا، بلوچ میڈیا، قوم پرست پارٹیوں، تنظیموں اور مقامی سماجی حلقوں میں ایک مرتبہ پھر شور وغل جاری اور کشیدگی کی فضاء برقرار ہے۔
آج جمعے کے ہی روز ایک بلوچ قوم پرست رہنماء، بی ایس او کے سابقہ چیئرمین اور بی این ایم کے سابقہ سیکرٹری جنرل رحیم بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام جاری کرتے ہوئے، انہوں نے یہ پاکستانی فورسز پر سنگین الزام لگاتے ہوئے ایک اور خاتون امینہ بلوچ بنت محمود کے اغواء کا ذکر کرتے ہوئے، اس واقعے کا ذمہ دار پاکستان آرمی کو قرار دیا ہے۔
رحیم بلوچ نے اپنے پیغام میں کہا کہ “جھاؤ کے رہائشی امینہ بلوچ بنت محمود کا اغواء پاکستانی آرمی کی ایک شرمناک حرکت ہے اور اس طرح کے اعمال سے پاکستانی آرمی نے1947 کے اقوام متحدہ کے ‘جنگی و ایمرجنسی حالات میں خواتین و بچوں کی حفاظت’ جیسے قانون کی خلاف ورزی کی ہے”۔
یاد رہے کہ رواں ماہ بلوچ قوم پرست جماعتوں نے پاکستانی فورسز پر الزام عائد کیا تھا کہ چار جون 2018 کو بلوچستان کے ضلع واشک کے علاقے ناگ رخشان میں امدادی سامان کی تقسیم کےلیئے خواتین کو زبردستی آرمی کیمپ منتقل کرکے ان کو شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اُن کی عصمت دری کی گئی تھی۔ ان خبروں کے بعد سیاسی و سماجی حلقوں نے سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا اور اس واقعے کے خلاف بلوچستان و بیرونِ ممالک میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید احتجاج بھی ریکارڈ کرائے گئے تھے۔
مذکورہ واقعے کے حوالے سے بلوچستان کی سب بڑی قوم پرست جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ “واشک میں خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ پاکستانی جنگی جرائم پر خاموش انسانی حقوق کے دعویدار تنظیموں کے منہ پر تمانچہ ہے”۔ انہوں نے مذید کہا تھا کہ “رخشان کے فوجی کیمپ میں کئی خواتین کو جبری طورپر منتقل کرکے انہیں وحشی فوجی اہلکاروں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناکر،ان کی آبروریزی کی لیکن ان کی دلدوز چیخیں خاموش میڈیا اور عالمی اداروں تک نہیں پہنچ سکتی کیونکہ بلوچستان عالمی میڈیاکی عدم رسائی اور پاکستان میڈیا کے بائیکاٹ کی وجہ سے ایک بلیک ہول بن چکا ہے۔”
واضح رہے کہ ایک شورش زدہ اور جغرافیائی حوالے سے دشوار علاقہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان خاص طور پر اندرونِ بلوچستان میڈیا کی رسائی نہیں ہوپاتی اور دوسری جانب مقامی میڈیا کو بھی یہاں کئی خطرات کا سامنا ہے۔ کچھ سال قبل صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم ‘رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے بلوچستان کے سب سے بڑے ضلعے اور مرکزی شہر خضدار کو صحافیوں کیلئے دنیا کے 20 خطرناک ترین شہروں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
دوسری جانب بلوچستان کے صحافی اکثر و بیشتر یہ شکایت کرتے رہے ہیں کہ ان کو صحافتی فٖرائض سر انجام دینے میں کئی دشواریوں کا سامنا ہے، ان کا کہنا ہے کہ “اگر ہم پاکستانی حکومتی و خفیہ اداروں کی بات سن کر بلوچستان کے خبروں و قومپرست پارٹیوں کے بیانات کو نظر انداز کردیں، تو ہمیں قوم پرست سیاسی تنظیموں کی جانب سے شدید احتجاج کا سامنا ہوتا ہے اور مسلح تنظیموں کی جانب سے بھی دھمکیاں ملتی ہیں اور اگر ہم تمام واقعات کی رپورٹنگ کریں، تو ہمیں خفیہ اداروں کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوتی ہیں، ایسی حالت میں ہم کس کے پاس جائیں سمجھ میں نہیں آتا۔
پاکستان میں صحافیوں کے اغواء، قتل اور ان پر قاتلانہ حملوں جیسے واقعات اکثر و بیشتر خبروں میں دیکھنے کو ملتے ہیں اور کئی مقامی و بینالاقوامی ادارے اس طرح کے حملوں کا الزام پاکستانی خفیہ اداروں پر لگاتے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ آزادی صحافت کے بارے میں بین الاقوامی تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی جانب سے اپریل 2018 کی جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آزادی صحافت کو انتہا پسند گروپوں، دینی تنظیموں اور انٹیلی جنس اداروں کے ہاتھوں نشانہ بننے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔”
خواتین کے اغواء و عصمت دری کے واقعات پر طلباء تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان میں فوجی آپریشنز اور خواتین کو حراساں اور لاپتہ کرنے کے واقعات پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ “بلوچستان کے مختلف علاقوں سے خواتین کو لاپتہ کرنے اور ان پر تشدد کے واقعات منظر عام پر آچُکے ہیں گذشتہ دنوں رخشان ناگ میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات، آواران، جھاو، مشکے سے خواتین کے اغوا اور تشدد کے بعد شہادت کے واقعات بھی اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔”
ناگ رخشان واقع پر بلوچ آزادی پسند مزاحمتی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے رہنما اسلم بلوچ نے سماجی رابطے کے ویب سائٹ ٹوئیٹر پر اپنے جاری کردہ پیغام میں کہا ہے کہ “بلوچستان کے علاقے واشک میں بلوچ خواتین سے غیرانسانی سلوک کرکے پاکستانی فوج نے اپنی بدکرداری کا ایک مرتبہ پھر تاریخی ثبوت پیش کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام عالم پاکستانی جنگی جرائم کا سنجیدگی سے نوٹس لیں۔”
اس موقعے پر بلوچستان کے ایک اور معروف بلوچ قوم پرست رہنما اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ “بلوچستان میں پاکستان کے زیر قبضہ انتخابا ت کو ناکامی سے بچانے کیلئے پاکستانی فوج مظالم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ایک اور دلخراش واقعے میں وحشی فوج نے درجنوں خواتین کو اپنی حوس کا نشانہ بنا کر ان کی عصمت دری کی ہے اور ایک حاملہ خاتون پر تشدد کرکے بچہ گرایا گیا ہے۔ چار جون کو ضلع واشک کے علاقے ناگ رخشان میں امدادی سامان کی تقسیم کے نام پر خواتین کو زبردستی فوجی کیمپ میں منتقل کرایا اور ان کو زدوکوب کرکے ان کی عصمت دری کی اور ایک حاملہ خاتون کو زبردستی حاملہ کرنے کے بعد اس کے بچے کو ضائع کیا گیا۔ دور دراز علاقہ، فوجی حصار اور مواصلاتی نظام کی کمی کی وجہ سے ایسی خبریں باہر نہیں آتی ہیں یا بہت دیر بعد پہنچتی ہیں۔ یہ علاقہ چین پاکستانی اکنامک کوریڈور (سی پیک) منصوبے کی روٹ پر واقع ہے گوکہ سی پیک روٹ پر بلوچوں پر مظالم نئی نہیں ہیں، مگر اس تعداد میں خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی عصمت دری کا کربناک واقعہ ہے۔ اس سے پہلے مکران میں اس طرح کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ اجتماعی عصمت دری کا واقعہ پاکستانی فوج کا بنگالیوں کے خلاف ہونی والی غلیظ جنگ کا تسلسل ہے۔ ایک لاکھ بنگالیوں کی عصمت دری اور نسل کشی پر دنیا نے خاموشی اختیار کرکے پاکستان کو ایک اور موقع دیا کہ وہ بلوچوں کے ساتھ وہی سلوک کرے۔ اکیسویں صدی میں دنیا نے اگر اس میں مزید تاخیر کی تو یہ انسانی المیہ تاریخ میں ایک سیاہ باب ہوگا اور اس میں تمام عالمی قوتیں قصور وار ٹہرائے جائیں گے۔”
اس حوالے سے کوئٹہ سے اسلامآباد طویل لانگ مارچ اور گذشتہ 3014 دنوں سے مسلسل علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کرکے احتجاج کرنے والے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر نے 21 جون کو ایک جاری کردہ بیان تیرہ میل واقعے کے ردعمل میں کہا تھا کہ “اب بلوچ خواتین کی عصمت دری کے علاوہ خواتین کی ٹارگٹ کلنگ بھی شروع کی گئی ہے۔”
یاد رہے 21 جون کو ایک واقعے میں فورسز نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے کاروائی کرکے چار دہشتگرد ہلاک کیئے ہیں، لیکن بعد ازاں میڈیا پر تصاویر آنے کے بعد یہ واضح ہوا تھا کہ فورسز کے کاروائی میں مارے جانے والوں میں ایک بلوچ خاتون اور ایک کمسن بچہ تھا جنہیں دہشت گرد ظاہر کیا گیا تھا۔ اس بابت بلوچ آزادی پسندوں نے الزام عائد کیا تھا خاتون سمیت چاروں افراد کو فورسز نے پہلے سے ہی اغواء کیا ہوا تھا اور بعد ازاں انہیں جعلی مقابلے میں ماردیا گیا۔
واضح رہے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستانی افواج پر خواتین کے اغواء اور ان پر جنسی زیادتی کا الزام لگا ہے، اس سے پہلے 1970۔71 کے دوران پاکستان افواج اور جماعت اسلامی پر ” جنسی نسل کشی” کا الزام لگتا آیا ہے۔ جہاں ایک اندازے کے مطابق دس سے بیس لاکھ سے زائد بنگالی خواتین کو اغواء کرکے انکو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور تقریبا ایک سے دو لاکھ خواتین کو قتل کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس نسل کشی کی تصدیق جسٹس حمودالرحمان کمیشن رپورٹ میں کی گئی تھی۔ یاد رہے ان واقعات کی تصدیق اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے تمام عالمی ادارے کرتے ہیں۔

четверг, 28 июня 2018 г.


نوسال کس کرب سے گزرے ہیں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:مہلب بلوچ 
’دین‘‘ یعنی کہ میرے والد دین محمد بلوچ، یہ وہ لفظ ہے جب پہلی دفعہ میں نے بولنا سیکھا
مجھے وراثت میں اس نام کے علاوہ اور کچھ نہیں ملا ہے،میں اپنے پیارے ابوجان کے بارے میں سوچتی ہوں تو سوچ کررہ جاتی ہوں کہ جب مجھے اسکول جانا تھا تب آپ وہاں موجود نہیں تھے،جب مجھے کچھ سیکھنا تھا تب بھی سکھانے کے لئے آپ وہاں موجود نہیں اور نہ ہی کوئی بات ،کوئی اپنی یاد بتانے کے لئے موجود تھے ۔
جب سے مجھے یاد ہے میں ماما (قدیر)کی دوست بن کر پھر رہی ہوں جیسے میں ماماکے خاندان کا ایک بچی ہوں اوروائس فارمسنگ پرسن کاکیمپ ہماری گھرہے لیکن اس گھرکے لوگوں کی زندگی خانہ بدوشوں کی طرح گزررہی ہے۔ کبھی کوئٹہ بھوک ہڑتالی کیمپ ،کبھی کراچی بھوک ہڑتالی کیمپ ،کبھی احتجاج ،کبھی پریس کانفرنس، کبھی ٹرین مارچ توکبھی لانگ مارچ۔۔۔۔۔۔
میرے اّبو جان یعنی کہ’’ ڈاکٹر دین محمد بلوچ جن کو پاکستانی خفیہ ادارے والے حراست میں لے چکے ہیں۔‘‘
کچھ دنوں تک یہ بات مسلسل چلتا رہا کہ’ ڈاکٹر دین محمد کو اس کے ڈیوٹی کہ دوران کچھ لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں‘ پھر شاید لوگوں کے لئے یہ بات صرف ایک کہانی بن گئی اورلوگ اس کہانی کو بھولتے چلے گئے مگرمیر ے سینے میں ایک زخم سا بنتاگیا،یہ سانحہ لوگوں کے لئے صرف ایک بات تھی لیکن میرے روح میں اندھیرا ہی پھیلتاگیا، ابو کی سارے پیار، محبت، شفقت سب کچھ بس مجھ سے ہی چھینی گئی تھی ابھی تک تو میں نے ابو کا کچھ نہیں دیکھاتھا،ابھی تومیرے پیار کاحصہ باقی تھا،ظالموں نے مجھے میرے پیارکے حصے سے محروم کیا۔
اسی پیار ومحبت ،اسی نام کے خاطر میں اپنے ابوکی تلاش میں نکلی، ایک تصویرہاتھ میں لیے شہرشہر، گلی گلی ،کوچے، جنگلوں میں پاگلوں کی طرح پھر رہی تھی کہ اچانک راستے میں میری ملاقات ایک بوڑھے آدمی سے ہوئی جس کو لوگ ماماکے نام سے جانتے ہیں اور وہاں اس کے پاس بیٹھی ایک عورت سے بھی ملی جو میری طرح کسی کی تلاش میں تھی جس کوفرزانہ مجید کہتے ہیں، ان کے اردگرد تصویروں سے بھری پڑی تھی، عورتیں، مرد، بچے، بوڑھے، جوان سب کی تصویریں موجود تھیں ۔
میں اپنے ماماسے پوچھنے لگی’’ یہ کون لوگ ہیں جن کی تصویریںیہاں ہیں؟‘‘
جواب میں مامانے مجھ سے کہا’’ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کی غلامی کے خلاف آواز اٹھانا شروع کیا ،ان آواز کو دبایا گیا، ان کو پاکستانی اذیت گاہوں میں ڈالا گیا، جس طرح تمہارے ہاتھ میں جو یہ تصویر ہے یہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔‘‘
میں ان تصویروں کو بڑی گہرائی سے دیکھ رہی تھی، جی چاہ رہی تھی بس دیکھتی جاؤں یہ ساری تصویریں بہت تکلیف دے رہی تھیں مجھے، میں نے تمام تصویروں کو گلے لگائی
ہر تصویر کی کہانی الگ تھی، ہر تصویر میں الگ الگ چہرے تھے، ہر تصویر پر الگ الگ تاریخ درج تھیں ،کسی پر ایک سال پرانی تاریخ تھی تو کسی پر چار سال، کسی اور تصویر پرآٹھ سال تو کسی پر دس سال پرانی تاریخ ۔
آخر میں میں نے بھی اپنی ہاتھ کی تصویر ان تصویروں کے ساتھ رکھا
چونکہ میری عمر بہت چھوٹی تھی اور میں بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھی تھی جہاں پر کچھ بھی کھا پی نہیں سکتے تھے، شروع شروع میں شام کے وقت بھوک اور پیاس برداشت سے باہر ہوتی تھی پھر آہستہ آہستہ کچھ دنوں بعد عادت سی ہونے لگی۔ روڈ پر بیٹھنے کی، گاڑیوں کے شور سننے کی،انسان کے دردسے بیگانے آتے جاتے لوگوں کی ۔
جب میں زیادہ بیزار ہوتی تھی تو وہیں کھیلنا شروع کرتی تھی ،اپنی اسکول کی کتابیں بھی ساتھ لاتی اور پڑھتی تھی۔
جب نیند آتی تھی وہیں تصویروں کے پیچھے سو جاتی تھی، مجھے یاد ہے ۔جب میں نیند سے اٹھتی توماما کہتا’’ بیٹا پریس یا میڈیا والے آگئے لیکن تم سو رہی تھی اس لئے میں نے ان سے کہا تھوڑی دیر بعد آجائیں،ہاں ابھی تک میرے لوگ نہیں آئے ہیں۔ ‘‘
جب واپس میڈیا والے آتے ایک عجیب انداز سے کہتے’’ تم لوگوں کی بس یہی ایک بچی ہے؟‘‘
میڈیاوالے ہماری مختصر انٹرویو کر کے چلے جاتے۔
کیمپ میں کچھ دن بعد میری ملاقات میری ہم عمر لڑکی سے ہوئی ،اسے دیکھ کر تھوڑی بہت خوشی ہوئی چلو یہاں پرمیری بھی ہم عمر کی لڑکیاں آتی ہیں۔ اسکی ہاتھ میں بھی ایک تصویر تھی، میں اس سے ملی، ہماری تھوڑی بہت دوستی ہوئی، میں اس سے پوچھنے لگی’’تمہاری ہاتھ میں جو تصویر ہے یہ کس کی ہے؟‘‘
وہ درد بھری نگاہوں سے تصویر کوتکتی ہوئی کہنے لگی’’ یہ میری بابا کی تصویر ہے ،ان کا نام علی اصغر بنگلزئی ہے، میرے پیدا ہونے کے دو مہینے کے بعد ان کو پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی والی لے گئے ہیں ،اب ان کو نو سال گزر گئے ہیں، اب بھی ہمیں کوئی بھی اطلاع نہیں ہے ان کے بارے میں ،میں ہمیشہ یہاں ماما کے کیمپ میں آتی ہوں۔‘‘
یہ باتیں سن کر میرے اندر ایک گھبراہٹ سی ہونی لگی، اندر سے ایک خوف پھیل رہی تھی، میری ہاتھ میں جو تصویر تھی وہ تصویر لرزنے لگی ۔میری آنکھ آنسوؤں سے بھرگئے ،بارباریہی بات میری ذہن میں گردش کرنے لگی کہ کہیں ایسا نہ ہو میرے بابا بھی اتنے عرصے تک لاپتہ رہیں۔ اتنے لمبے عرصے تک میں اپنے بابا کے بغیر کیسے زندہ رہ سکتی ہوں۔ کیسے اپنی زندگی میں آگے بڑھ سکتی ہوں؟
کئی عجیب طرح کے سوال میرے ذہن میں جنم لے رہے تھے۔
میں نے بہت خوفزدہ انداز سے اس لڑکی سے سوال کیا، شاید میری سوال بے مطلب ہو لیکن اس وقت مجھے اس سوال کا اندازہ نہیں تھی ،شاید مجھے اس وقت اس کے دل میں جو سمندر جیسے گہرے زخم تھے۔ درد اور تکلیفوں کی کوئی انتہا نہ تھی، مجھے اس وقت اسکا اندازہ نہیں تھا،شاید میں اس وقت اتنے لمبے عرصے کی بڑی تکلیف سے نہیں گزری تھی۔
میں نے پوچھا،’’ کیا تم اتنے لمبے عرصے تک اپنے بابا کو نہیں بھولے ہو؟
کیونکہ تمہیں اپنے بابا کا چہرہ بھی یاد نہ ہوگا‘‘
یہ سوال سننے کے بعدوہ لڑکی کچھ لمحوں تک خاموش رہنے کے بعد بڑی بے بسی اور ناامیدی سے نے کہامہلب
’’یہ ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا اور نہ اس کے نشان کبھی تمہیں بھولنے دیں گے‘‘
اوپرپھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگی میری دعا یہی ہے کہ جتنے لمبے عرصے تک میں جتنی تکالیف سہہ لئے ہیں،یہ تکالیف کوئی اور نہ سہے
وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگی،مجھے بہت افسوس ہواکہ میری وجہ سے انہیں تکلیف ہوئی ، میں نے انہیں گلے لگائی اورمیرے پاس چند جھوٹے تسلی کے کچھ الفاظ کے سواکچھ بھی نہ تھا جو انہیں دے سکوں ۔
پھر کیاہوا؟
میرے ابوایک تصویر کے فریم بند میرے ساتھ ہے لیکن مجھے کیا پتہ تھی کہ ایک دن میرے ابو کو بھی پاکستان کے زندانوں میں نو سال مکمل ہو جائیں گے اور میں اس کے لیے انتظار کے سوا کچھ نہیں کر سکوں گی،انتظاربس انتظاراورایک تصویر۔۔۔۔
اب مجھے میری دوست کے تمام باتوں کی آزمائش ہو گئی ہے۔
نو سال کس درد ناک کرب سے گزر گئے اس کی بھی اندازہ ہوئی ہے مجھے
نو سال دن رات اسی خوف میں مبتلا گزرے ہیں کہ کہیں والد کی مسخ شدہ لاش ملنے کی خبر نہ آئے،کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ میرے والد بازیاب تو ہوئے ہیں لیکن ہمیشہ کے لئے اپاہج اور معذور ہیں یا پھر اپنی دماغی تواذن کھو بیٹھے ہیں۔
یا پھر توتک اور بلوچستان کے دیگر شہروں میں جو صرف چندہڈیوں کی شکل میں انسان ملے ہیں، کہیں ان میں سے ایک میرے بابا نہ ہوں
بلوچستان کے کسی بھی کونے سے کسی بلوچ فرزند کی رہائی کی خبر آتی تھی ہم زمین ،آسمان ایک کر کے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ شاید وہ اذیت خانوں میں میری بابا سے ملے ہوں ،کوئی خبر یا کوئی پیغام ساتھ ہو لیکن ہر کسی سے نا امیدی کے سوا اور کچھ نہ ملی۔
ان نو سالوں میں ہم ہر رات اسی امید پر سوتے اورصبح جاگتے ہیں کہ جس طرح ہر اندھیری رات کے بعد ایک صبح ضرور ہوتی ہے ہمارے لئے بھی ایک صبح ضرورہوگی لیکن میرے لئے اور میری فیملی کے لئے کسی بھی اندھیری شب کے بعد کوئی صبح نہ ہوئی،ہم ابھی تک ظلم کے اندھیرے میں جی رہے ہیں نہ جانے کب تک۔۔۔۔؟

понедельник, 25 июня 2018 г.

بی ایل ایف اور بی آر اے کی بیان بازی، فائدہ کس کو؟ – برزکوہی



برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
میں نے بار بار سوچا اور غور کیا کہ اگر میں اس موضوعِ بحث پر کچھ اظہار خیال کروں، تو ایسا نہیں کہ میرا اظہار خیال از خود اس بیان بازی کی زمرے میں شمار ہو؟ لیکن باربارذہن میں کچھ سوال پیدا ہورہے ہیں، اگر وہ مناسب طریقے سے پیش کرسکوں، اس میں حرج کیا ہے؟
یہ ایک حقیقت ہے اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سوچ، طریقہ کار، حکمت عملی، رویوں، ذہنیت اور نقطہ نظر کی حد تک شروع دن سے بلوچ آزادی پسند مسلح و غیر مسلح تنظیموں میں اختلافات ضرور موجود رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تنظیمی و تحریکی اختلافات کو سوشل میڈیا اور اخبارات کی زینت بنا دیا جائے۔ اگر ان اختلافات کو ذینت بنانا ہے، تو اس سے پہلے یہ سوچنا بے حد ضروری ہوگا کہ اس عمل سے فائدہ کس کا ہوگا؟
اس عمل سے بی آر اے و بی ایل ایف کو فائدہ ہوگا؟ فائدہ مجموعی تحریک، قومی نظریئے، بلوچ قوم، بلوچ سرزمین کا ہوگا یا پھر فائدہ دشمن اٹھائے گا؟ اس پر ہر قسم کے جذبات، تنظیمی تعصب، انا پرستی و ضد سے ہٹ کر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور اس کا صحیح طریقے سے تجزیہ کرکے نتیجہ اخذ کرنا ہوگا، بصورت دیگر سطحیت بہتر کی سعی لاحاصل ہوگی۔ گر کوئی بندہ سڑک کنارے سبزی کا ٹھیلہ تک لگاتا ہے تو اس سے پہلے کئی بار سوچتا ہے، وہ تمام پہلووں کی جانچ کرتا ہے کہ اس ٹھیلے سے مجھے اور میرے گھر والوں یا گاہکوں کو کیا اور کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہوگا۔ ہم تو یہاں ایک قومی تحریک چلا رہے ہیں، وہ بھی بلوچ نوجوانوں کے خون و پسینے، محنت اور مشقت کے قیمت پر اس تحریک کو آگے بڑھارہے ہیں اور بلوچ قوم کی زندگیوں کو داو پر لگارہے ہیں۔ پھر بھی اگر ہم کسی عمل سے پہلے نہیں سوچینگے، غور نہیں کرینگے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سوچ و اپروچ، علم و شعور کا پیمانہ کس مقام پرکھڑا ہے؟
تنظیمی اور تحریکی مسائل کہاں پیش نہیں آتے؟ تحاریکِ عالم پر ایک جائزہ لیں تو سب اپنے تئیں مسائل رکھتے تھے۔ لیکن ان کے حل اور درمیانی راستے بھی ضرور موجود تھے اور ہنوز وجود رکھتے ہیں۔ بشرطیکہ درمیانی راستے اور حل پر توجہ و دلچسپی اور حل کو ڈھونڈنے کی سعی ہو۔ کیا آج اور ابھی تک وہ علم و شعور اور صلاحیت ہم میں پیدا نہیں ہوئی ہے؟ اگر ہم میں وہ صلاحیتیں دستیاب نہیں، تو پھر تحریک و بلوچ قوم کا بِیڑہ اٹھانا اور ایک ایٹمی قوت کے حامل ملک ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی شاطر اور چالباز دشمن سے نبردآزما ہونے کا حق ہمیں حاصل ہے؟ کہ ہم اس سے لڑیں اور پوری قوم کو داو پر لگا دیں۔ جب ہم معمولی سے معمولی، سطحی مسائل تک کو حل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، پھر بلوچ قوم، بلوچ تحریک کو متحد کرنا، دشمن کو شکست دینا، قومی تحریک کو منزل مقصود تک پہنچانا بہت دور کی بات ہوگی۔
اب بلوچ سیاست میں تحریکی یا تنظیمی یا ذاتی رنجشوں اور اختلافات کو کوئی بھی خوبصورت نام دیکر آج کل میڈیا کی ذینت بنانا ایک رواج بن چکا ہے۔ آج سوشل میڈیا ہی ہماری مقدس اور پارسا عدالت و منصف بن چکی ہے اور مکالمہ و مذاکرات کی میز بن چکی ہے۔
کھلم کھلا مذاکرات، مناظرہ، مذاکرے، مکالمے اور بیان بازی کے ذریعے ہم کس کی اور کن کن کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنا چاہتے ہیں؟ کس کس کو آگاہی فراہم کررہے ہیں؟ کس کو اپنی خامیوں، نالائقیوں، کمزوریوں کے درد کا داستان سنا رہے ہیں؟ یواین کو؟ یورپین یونین کو؟ انسانی حقوق کی تنظیموں کو؟ ہمدرد قوموں کو؟ بلوچ قوم کو؟ تنظیمی دوستوں کو یا پھر ظالم و جابر اور شاطر دشمن کو؟
اکثر یہ من گھڑت و بے بنیاد دلیلیں سننے کو ملتی ہے کہ ہم حقائق قوم کے سامنے رکھینگے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسے قوم کے سامنے؟ بلوچ قوم؟ کیا بلوچ قوم صرف سوشل میڈیا میں موجود ہے اور کوئی نہیں ہے؟ بلوچ قوم میں ایجوکیشن ریشو کتنا فیصد ہے؟ کتنے فیصد نیٹ استعمال کرتے ہیں؟ کتنے فیصد تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود، تحریک انکا دردِ سر نہیں۔ کتنے فیصد بلوچ عوام انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں وہ نہیں جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ کس بلا کا نام ہے؟
کیا اس وقت بلوچ زیادہ تعداد میں سوشل میڈیا میں موجود ہیں یا دشمن؟ پھر کس کو ہم اپنے اپنے درد داستان اور گلہ سنا رہے ہیں؟ کس مقصد کے تحت ؟
ہاں البتہ یورپ، خلیج و دیگر بیرون ممالک میں بیٹھے ہوئے بلوچوں کا واسطہ ضرور سوشل میڈیا کے ساتھ ہے۔ پھر یہ تمام بیان بازی صرف ان کیلئے؟ ان کو آگاہ کرنے کیلئے؟ کس لیئے کس مقصد کے تحت؟ ایک کو غلط قرار دینے، اپنے آپ کو سوشل میڈیا اور بیان بازی کی حد تک صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنے سے، آج تک اس سوشل میڈیا ٹرائیل کے بدولت کتنے فیصد بیرون ملکوں میں مقیم بلوچ ایک پارٹی کو غلط اور دوسروے کو صحیح سمجھ کر اس سے لاتعلق ہوکر اپنی وفاداریاں دوسروں کے ساتھ تبدیل کرچکے ہیں؟ سوائے چند مٹھی بھر مخصوص ذاتی، معاشی مفاد پرست طبقے کے علاوہ؟ وہ کبھی ادھر کبھی ادھر۔
پھر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ہر تنظیم اور پارٹی میں اس وقت کتنے گروانڈ سے وابستہ مخلص، ایماندار، محنت کش، قربانی کے جذبے سے سرشار، ہمسفر اسی سوشل میڈیا کی گند آلود کج بحثی، الزام تراشیوں اور کردار کشیوں کے سلسلے میں بلوچ تحریک سے مایوس اور بدظن ہوچکے ہیں یا پھر آج تک تحریک کے ساتھ وابستہ ہوتے ہوئے الجھن و مایوسی کا شکار ہوکر ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ وابستہ ہیں؟
یہ تو تحریکی ہمسفروں کی حقیقت ہے لیکن مجموعی بلوچ قوم پر اس سوشل میڈیائی گند آلود کج بحثی اور بیان بازیوں سے جو منفی اثرات پڑے ہیں، اگر کبوتر کی طرح ہم آنکھیں بند نہ کریں، مینڈک کی طرح کنویں میں رہ کر کنویں کو پوری دنیا تصور نہ کریں، تو ہمیں آج گراونڈ میں صحیح پوزیشن کا صحیح انداذہ ہوگا۔
میں بار بار کہہ چکا ہوں، آج بھی برملا کہتا ہوں کہ کچھ مخصوص طبقات آج بھی واضح انداز میں تحریک میں موجود ہیں کہ وہ بلکل اور بلکل یہ نہیں چاہتے ہیں کہ تحریکی مسائل صحیح طریقے سے حل ہوں، کیونکہ ان کی تمام ذاتی خواہشات، مفادات اور معاشی پیداوار انہی آپسی اختلافات میں پنہاں ہیں۔ جب اختلافات ختم ہونگے پھر ان کو کوئی پارٹی و تنظیم اور قیادت گھاس بھی نہیں ڈالے گا۔ آج کل مخلص ایماندار کارکنوں سے ذیادہ آپسی ضد و نفرت اور مخالفت کے ثواب میں ایسے لوگوں کی قیمیت اور زیادہ ہے اور یہ طبقہ اپنے عمل و کردار اور صلاحیتوں کو خود جانتے بھی ہیں کہ بغیر آپسی اختلافات اور چاپلوسی کے انکے پاس کچھ نہیں، لہٰذا وہ ان کو ہوا دینے کی مزید کوشش کرکے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہینگے۔
جب موجودہ تحریک شروع ہوا تو اس وقت جو جتنا محنت کرتا، باہنر و باصلاحیت، بے غرض و مخلص، بہادر اور قربانی کیلئے ہر وقت تیار ہوتا اور ہر سخت سے سخت کام کا رسک لیتا وہ سب سے زیادہ پارٹی و تحریک میں قابل قدر اور اہمیت یافتہ ہوتا۔
سوشل میڈیا کی گند آلود بحث اور آپسی اختلافات کی پاداش میں سنگتی کا پیمانہ اور معیار یکسر بدل گیا،جو جتنا بھی چاپلوس و خوشامدی، صرف اپنی پارٹی اور قیادت کی دن و رات ثناء و صفت خوانی کرے اور دوسروں کو برا بھلا کہے اور بلوچ قوم بلوچستان کیلئے کچھ کرنا اپنی جگہ کچھ کرنے کا سوچ بھی نہیں لگائے، وہ اہمیت یافتہ اور قابل قدر ہوگا۔ یہ معیار اور پیمانہ دن بہ دن بلوچ تحریک میں آزاد خیالی، موقع پرستی، خودغرضی، مفاد پرستی اور کچھ نکالو اور زندگی سنوارو کی غلیظ ترین سوچ ماحول اور رجحانات کو بڑھاوا دے رہا ہے، جو انتہائی خطرناک اور بڑی تباہی و بربادی ہے۔
شاید تحریک کا یہ خطرناک و مایوس کن اور نقصاندہ تحریکی عمل مرحلہ مستقل اور دیرپاء نہ ہو، لیکن اس وقت یہ تحریکی مرحلہ اور کیفیت بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں پر آخری حدتک اپنی منفی اثرات مرتب کررہا ہے، جو تحریک میں مایوسی اور بدظنی کے ماحول اور رجحان کو پروان چڑھا رہا ہے۔
دنیا کی دیگر مختلف تحریکوں کے مطالعے و جائزے اور تحیقیق سے یہ نتیجہ ضرور اخذ ہوچکا ہے کہ دنیا کے تمام چھوٹے اور بڑے کامیاب اور ناکام تحریک ایسے صورتحال اور مراحل سے ضرور دوچار ہوئے ہیں۔ لیکن وہاں تحریک کے قیادت کی دوراندیشی، بالغ نظری، فہم و ادراک، صبر وتحمل ایسے رجحانات، ماحول اور طبقات کا بیخ کنی اور حوصلہ شکنی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تو آج بلوچ قیادت کے سامنے تمام صورتحال روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں کہ ایسے صورتحال کو کس طرح اور کیسے قابو پائینگے بشرطیکہ اگر قیادت خود ایسے رجحان اور ماحول کا شکار نہ ہو۔ اگر بلوچ قیادت خود براہِ راست بلاواسطہ یا بالواسطہ ایسے مرحلے، ماحول اور رجحانات کا لاشعوری یا شعوری طور خود بھی شکار ہیں، تو پھر یہ بلوچ قوم اور قومی تحریک کی بدقسمتی اور زوال کا واضح علامت ہے۔
میں ہرگز یہ نہیں کہتا ہوں کہ اختلافات موجود نہیں، معمولی اور غیر معمولی واقعات بھی پیش آتے ہیں، لیکن بجائے جذباتی ہونے کے ان پر صبر و تحمل کے ساتھ تحقیق و غور کیا جائے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں، ایک نہیں 50 دفعہ بیٹھیں۔ ایک سال لگ جائے فرق نہیں پڑتا لیکن میڈیا میں مسائل نہیں لائیں جائیں۔ اگر پانچ منٹ کیلئے غور کریں اور ٹھنڈے دماغ سے حالیہ بیان بازی پر سوچیں کہ فاہدہ کیا ہوا؟ کوئی وضاحت کرسکتا ہے؟ ایک معمولی سا کوئی فائدہ بتا سکتا ہے؟ جو بلوچ قوم، بلوچ تحریک یا بی آر اے اور بی ایل ایف کیلئے سود مند ہو؟ میرے خیال میں نہیں، سوائے دشمن کیلئے آسانی پیدا کرنے اور بلوچ تحریک سے وابستہ صرف اور صرف مخلص اور ایماندار کارکنوں کیلے تکیلف اور پریشانی پیدا کرنے کے۔ قطع نظر بے عمل و بے کردار چاپلوس موقع پرست ٹولوں کے جن کیلئے یہ کھینچا تانی باعث سکون و باعث خوشی ضرور ہوگا۔
ہمیں ردعمل، جذباتیت اور پریشر پولیٹکس سے ہٹ کر ذرہ سنجیدگی سے تمام چیزوں کے تمام پہلوؤں پر اس وقت انتہائی غور کرنے کی ضرورت ہے، پھر تمام تحریکی مسائل، گفت و شنید سے بہتر انداز میں حل ہونگے۔

четверг, 21 июня 2018 г.

جیت اور جیت کا فلسفہ یا جیت اور ہار کا فلسفہ – برزکوہی 

برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
فیفا ورلڈکپ 2018 کے میچوں میں یا دوسرے کھیلوں میں بنیادی فلسفہ جیت اور ہار کا ہوتا ہے۔ ایک ٹیم کو ضرور ہارنا ہوگا، ایک کی ہار سے دوسرے کو جیت حاصل ہوتا ہے۔ اگر دو کمپنیاں ایک ہی قسم کی اشیاء، ایک ہی علاقے میں فروخت کریں تو ایک دوسرے کا ضرور مقابلہ ہوگا۔ کسی کی جیت اور کسی کی ہار یہاں مقدر ہے کیونکہ یہی بزنس اور معاشی مفاد کا حصول ہے یا پھر ایک ہی حلقہ انتخاب سے دو مخالف پارٹیوں میں مقابلہ ہو تو پھر ایک کو جیتنا اور ایک کو ہارنا پڑیگا۔
اسی فلسفے کے تناظر میں اگر ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے مسلح اور غیر مسلح جہدوجہد کا جائزہ لیں، تو یہاں کون سا فلسفہ قابل عمل ہونا چاہیئے جیت اور جیت کا یا جیت اور ہار کا؟
اگر مختلف پارٹیاں، خلوص، ایمانداری اور نیک نیتی سے ایک ہی نظریئے و فکر اور قومی مقصد کو لیکر جہدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ پہلا، لازمی اور سادھا سا سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر کیوں ایک نہیں؟ مختلف مختلف شکل میں ہیں؟ اگر حقیقت و سچائی کی بنیاد پر سب کا مقصد ایک ہے اور کوئی تحریک یا قوم مخالف، مخصوص، پوشیدہ مقاصد، ذاتی و گروہی مفاد، عزائم یا ایجنڈہ کارفرما نہ ہو۔
اہم مقصد کے علاوہ ثانوی چیزوں پر نقطہ نظر اور زوایہ نظر کو لیکر پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی حد تک مختلف وجود رکھنا، پھر ہاں ہار اور جیت کا فلسفہ کیوں؟ یعنی جب قومی مقصد ایک، سرزمین ایک اور دشمن ایک، پھر خود جیت جانا اور دوسروں کو ہرانا اور ختم کرنے والا فلسفہ اور تگ و دو کرنا کس مقاصد اور کن عزائم کی طرف اشارہ کرتا ہے؟
اس کے علاوہ اگر جیت اور ہار کا فلسفہ ایک تنظیم، پارٹی یا ٹیم ورک کے اندر موجود ہو، ایک دوسرے کو ہرانا یا خود جیت جانا پھر مقاصد و عزائم کیا ہونگے؟ پھر پارٹی تنظیم یا ٹیم ورک کا حال کیا ہوگا؟
ایسے لوگوں کے بارے میں اسٹیفن آر کوے کیا کہتا ہے، آو اسٹیفن کو ذرا غور سے پڑھتے ہیں “بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ جم کے بیٹھی ہوتی ہے۔ اسے میں کم ہے، کی ذہنیت کہتا ہوں یہ لوگ زندگی کو یوں دیکھتے ہیں کہ اس میں بہت کم دستیاب ہے۔ جیسے صرف ایک چھوٹا سا کیک ہے اور اگر کیک سے کسی نے ذرا بڑا ٹکڑا لے لیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میرے لیئے بہت تھوڑا بچے گا۔ کم ہے،کی ذہینیت دوسرے لفظوں میں ،جمع حاصل صفر، کا زوایہ نگاہ ہے۔ کم ہے، کی ذہنیت والے لوگوں کے لیئے یہ بڑا مشکل کام ہوتا ہے کہ وہ باقی لوگوں کے ساتھ اپنی کامیابیوں، لفظوں، قوتوں اور شہرت کو بانٹ سکیں حتیٰ کہ ان لوگوں کے ساتھ بھی، جنکے بدولت انہوں نے یہ سب حاصل کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کےلیئے یہ بھی انتہائی مشکل کام ہوتا ہےکہ وہ دوسروں کی کامیابیوں پر حقیقی پر حقیقی انداز میں خوش ہوسکیں۔ خاص کر اپنے خاندان کے افراد یا قریبی دوستوں کے سلسلے میں بھی۔ جب کسی دوسرے کو کسی خاص سلسلے میں اچھی شہرت ملتی ہے یا کچھ اور حاصل ہوتا یا بڑی کامیابی نصیب ہوتی ہے تو، کم ہے، کی ذہینیت لوگوں کو یوں لگتا ہے کہ گویا دراصل ان سے کچھ لے لیا گیا ہے یا انہوں نے کچھ کھودیا ہے جو دوسروں نے پالیا ہے۔”
اسٹیفن مزید کہتا ہے کہ “بظاہر ایسے لوگ دوسروں کی کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں لیکن اندر سے ان کا دل کٹ رہا ہوتا ہے۔ ان کی اپنی نظروں میں ان کی قدر و قیمت کا احساس ان کا دوسروں کے ساتھ مقابلے پر منحصر ہوتا ہے اور وہ دوسروں کی کامیابی کو ہمیشہ اپنی ناکامی جانتے ہیں۔ کم ہے، کی ذہنیت والے لوگ اکثر دوسروں کی ناکامیوں کی خفیہ امیدیں لگائے رکھتے ہیں، یہ لوگ ہر وقت مقابلے اور موازنے میں لگے رہتے ہیں یہ اپنی ساری توانائیاں اور وسائل دوسرے لوگوں کو ناکام کرنے میں لگائے رکھتے ہیں تاکہ ان کی اپنی اہمیت قائم رہے اور بڑھتی رہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ اس طرح کے ہوں، جیسے یہ انہیں دیکھنا چاہیتے ہیں۔ یہ اکثر ان کی نقلیں کرتے ہیں اور اپنے گرد خوشامدیوں کا جمگھٹا لگائے رکھتے ہیں چونکہ یہ خوشامدی لوگ کمزور ہوتے ہیں لہٰذا ان کی طرف سے انہیں کوئی چیلنج کا خطرہ نہیں ہوتا۔”
وہ مزید کہتے ہیں کہ ” کم ہے ،کی ذہنیت والے لوگوں کے لیے ٹیم سپرٹ کے ساتھ کسی ٹیم میں رہ کر کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، یہ اختلاف رائے کو بھی بے ادبی اور بدتمیزی کا سگنل سمجھتے ہیں۔”
یہ میرے الفاظ نہیں بلکہ اسٹیفن آر کوئے کے سبق آموز اور سنہرے الفاظ تھے۔ کیا آج بلوچ قومی تحریک میں مجموعی طور پر ایسے ، کم ہے ، کی ذہینیت رجحان اور رویے آزادی پسند پارٹیوں میں موجود نہیں ہے؟ حتیٰ کے مختلف پارٹیوں کے علاوہ ایک ہی پارٹی، تنطیم یا ٹیم ورک میں ایسے رجحان اور رویے موجود نہیں ہے؟ اگر موجود ہیں تو پھر کیوں؟ بنیادی وجویات کیا ہیں؟ کم علمی، شعور کی کمی، انا، ضد، حسد، بغض، احساس کمتری یا پھر نظریاتی سیاسی اختلافات یا اور خفیہ تحریک مخالف ایجنڈہ؟
سب سے پہلے ان چیزوں پر باریک بینی سے ہر ایک کو تحقیق اور غور کرنا چاہیئے کہ اصل وجوہات کیا ہیں؟ اس کے بعد آراء قائم کرکے فیصلہ کرنا ہوگا۔
سب سے پہلے کم ازکم ایک ہی پارٹی تنظیم اور ٹیم ورک اپنی ہی اندر سے علم، شعور، بالغ نظری، دوراندیشی، صبر و تحمل، برداشت سے ایسے رجحانات اور رویوں کا مکمل صفایا کرنا ہوگا نہیں تو کوئی بھی پارٹی تنظیم وقتی شاید چلے لیکن مسقبل میں ایسے رویوں کا متحمل نہیں ہوسکتا بلکہ تقسیم در تقسیم اور زوال کے صحرا میں غرق ہوگا۔
اگر باقی بلوچ تنظیموں کے ساتھ نظریاتی و فکری اختلاف یا تحریک مخالف مخصوص ایجنڈوں کا وجود نہیں ہے، صرف عدم برداشت، خیالات و سوچوں اور رویوں کا آپسی ٹکراو ہے، تو حالات اور تحریکی تقاضے یہ ہیں کہ ایک ہونا چاہیئے۔ اگر ایک ہونا ممکن نہیں کم سے کم خاص دشمن کو مدنظر رکھ کر پوری تحریک اور بلوچ قوم کی بقاء، اقدار،عزت اور خوشحال مستقبل کو ذہن میں رکھ کر بجائے مجموعی قومی تحریک کی زوال اور پاکستانی دشمن اور اس کے زرخرید ایجنٹوں کے مستقل میں جگ ہنسائی اور طنز کو دل و دماغ میں اچھی طرح بٹھا کر آج سے یہ فیصلہ کرلیں کہ کم سے کم دشمن کے خلاف ہر تنظیم کے چھوٹے اور بڑے کاراوئیوں کی مخالفت کرنے کے بجائے ان کو تہہ دل سے قبول کرکے، ان کی حمایت اور حوصلہ افزائی کریں۔ کیونکہ یہ عمل دشمن اور اس کے ایجنٹوں کے تکلیف میں مزید تکلیف اور خود بلوچ قوم خاص کر بلوچ نوجوانوں کے دل میں اپنی قومی ذمہ داریوں، قربانی، کام اور قومی عمل کیلے نفسیاتی طور پر جذبہ اور حوصلہ پیدا کریگی۔
اگر واقعی ہمارے دل میں بلوچ قومی درد اور دشمن سے نفرت کی انتہاء موجود ہے تو ہمیں یہ اقدامات اٹھانے ہونگے، وگرنہ بلوچ نوجوان بالآخر رفتہ رفتہ آپسی موازنے اور مقابلے کے رجحان اور رویے پیدا ہونگے۔ پھر دشمن کی نفرت، بلوچ قوم اور سرزمین کی محبت کا لگن جذبہ اور حوصلوں کو کمزور اور تذذب میں مبتلا کرکے، تمام تر توجہ اور سرگرمیوں کا مرکز ایک دوسرے کو کمزور کرنے اور نیچا دیکھانے کا ہوگا۔
یہ رجحان ایسا نہیں۔ صرف دوسرے تنظیموں کیلئے ہی ہوگا بلکہ ہر پارٹی تنظیم اور ٹیم ورک میں تیزی کے ساتھ بڑھتا جائے گا، مستقبل میں ہر پارٹی اس کا اچھا خاصہ شکار ہوگا۔ قطع نظر آج بھی یہ رجحان کسی حد تک ہر جگہ کمزور ہی صحیح موجود ضرور ہیں، یہ رجحانات اور رویے تحریک آزادی کیلئے دشمن کی شدت کے ساتھ حملوں سے بھی خطرناک ہیں۔ پھر یہ عمل خود تاریخ میں بلوچ قومی تحریک کیلے سیاہ باب سے کم نہیں ہوگا۔
ہمیں ہر وقت صرف ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اگر کامیابی کسی کا بھی ہو، وہ بلوچ قوم کا ہی ہوگا۔ دشمن کا شکست ہوگا، پھر،کم ہے، ذہینت کے بجائے مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہمیں سب کی چھوٹے اور بڑے کامیابیوں کو دل و جان سے قبول کرنا چاہیئے۔ یہ اس وقت سوفیصد ممکن ہوگا جب ہم اہنے ذہن میں بار بار ہر وقت صرف اور صرف بلوچ قوم کی قومی آزادی اور پنجابی دشمن کے شکست کو ذہن میں رکھیں۔ شروع شروع میں شاید ،کم ہے، ذہنیت کی وجہ سے بہت بہت مشکل ہو لیکن بار بار ہر وقت اور مسلسل کوشش کرتے رہیئے، تب جاکر یہ میرا ایمان ہے کہ ایسا ضرور ممکن ہوگا۔

вторник, 12 июня 2018 г.

کیاعبدالنبی کوئی بوڑھا بچہ ہے؟ – برزکوہی

برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ 
ایک نئے سائینسنی اور نفسیاتی ریسرچ کے مطابق، اگر کوئی بندہ بلاضرورت، بغیر کوئی کال اور میسج کے ایک گھنٹے کے اندر اندر آٹھ دفعہ اپنے موبائل فون کو ہاتھ میں لیکر اٹھاتا اور دیکھتا ہے، تو وہ سوشل میڈیا اڈکٹ ہوچکا ہے یعنی وہ سوشل میڈیا کی نشے میں مبتلا ہوچکا ہے، جو ایک نفسیاتی مرض ہے۔ میں ایسا ہر گز نہیں لیکن پھر بھی نا چاہتے ہوئے بھی کبھی کبھی دھیان موبائل کی طرف ضرور پلٹ جاتا ہے۔
ان دنوں میں پروشیا (جرمنی) کے شہر کونگس برگ کے مشہور و معروف فلاسفر امانوئل کانٹ کا مشہور و معروف کتاب “تنقید عقل محض” کا مطالعہ کررہا ہوں۔ کتاب تنقید عقل محض کو جو اہمیت و مقام جدید فلسفے میں حاصل ہے، اسے اہل نظر خوب جانتے ہیں۔ مگر یہ کتاب جتنی اہم ہے اتنی ہی دقیق اور مشکل ہے۔ اس لیئے کہ ایک تو فلسفے کا موضوع بحث سب سے ادق مسئلہ ہے یعنی نظریہ علم ہے، دوسری بات کانٹ کے اسلوب و بیان پیچیدگی میں بھول بھلیوں سے کم نہیں۔ “تنقید عقل محض” کے حوالے سے جرمن فلسفی شوپن ہاوایر کہا کرتا تھا کہ “جب تنقید عقل محض کو پڑھتا ہوں، تو سر چکرا جاتا ہے”
پھر ہم جیسے فلسفے سے نابلد انسانوں کا کیا حال ہوگا، کانٹ کو پڑھنے سے سر چکرا جانے کے ساتھ ساتھ سر درد، اکتاہٹ، غصہ، احساس کمتری اور حیرانگی کی ملتا جلتا ردعمل جب دماغ پر حاوی ہوتا ہے تو آدھے گھنٹے کے بعد وقفے وقفے سے کتاب ایک طرف رکھ کر موبائل ہاتھ میں لیکر ٹائم پاسی شروع کرتا ہوں۔ اسی ٹائم پاسی کے دوران اچانک میرعبدالنبی بنگلزئی کے انٹرویو پر نظر پڑا۔ پہلے نظر انداذ کرنے کی کوشش کی کیونکہ جہاں تک میں نے میر صاحب کے بارے میں سنا تھا وہ یہ کہ “وہ بولتا بھی ہے، لیکن کچھ نہیں بولتا” انکے نہ بولنے کی وجہ جو بھی ہے، جو بھی تھا، میں کچھ نہیں جانتا ہوں، لوگ بھی نہیں جانتے ہیں، میں کبھی اسے مصلحت پسندی، خوف غرضی، کبھی تو شخصیت پرستی، رواداری، ذاتی رشتہ داری، تعلق داری اور کبھی کبھار انتہائی بے رحم ہوکر کم علمی نا زانتکاری بھی گردانتا تھا، لیکن خود میر صاحب سے کبھی کبھار اس حوالے سے بات ہوتا، تو باتوں کے لب لباب سے اندازہ ہوتا میر صاحب انقلابی عمل سے ذیادہ ارتقائی عمل کی پیروکار ہیں۔ وہ چیزوں کے ارتقائی عمل کے ساتھ تبدیل کرنے خواہاں ہیں گوکہ ارتقائی عمل خود بھی ایک انقلابی عمل ہے، شاید رفتار میں فرق ہو کبھی کبھبار میر صاحب کے منطق سے مجھے ایسا لگتا تھا کہ وہ سماج اور سماجی زندگزراں کو مکمل مدنظر رکھ کر قدم اٹھانے اور رائے قائم کرنے کے قائل تھے اور ہم جیسے ادنیٰ سیاسی کارکن کہتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں کہ قدم اٹھاکر اور رائے قائم کرکے سماج اور سماجی ذندگزراں اور سماج کی موجودہ حالت اور سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا، نہ کہ فرسودہ روایتی قبائلی نیم قبائلی سماج کو خاطر میں لاکر اس کو وقت و حالات اور ارتقائی عمل پر چھوڑ کر تبدیلی کی خواہش کرنا۔
یہاں سے میر صاحب سے ہمیشہ اختلاف ہوتا، کبھی کبھار بلکہ آج بھی ہم سوچتے ہیں کہ شاید ہم نوجوان عقل و منطق سے عاری صرف جوش و جذبے اور تجربے کے حوالے سے میر صاحب سے کم، ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہیں یا میر کو نہیں سمجھتے ہیں یا میر ہم کو سمجھانے سے قاصر ہیں، یہ فیصلہ وقت پر چھوڑ دیا جائے تو بہتر ہوگا۔
لیکن میر صاحب کے حالیہ انٹرویو کو نظر انداز کرنا یا حسب روایات و حسب رسم محض ایک انٹرویو سمجھ کر نظر انداز کرنے کو میں خود غیرسیاسی عمل سمجھ کر بجائے سرسری پڑھنے کے غور سے پڑھنا شروع کیا۔ شروع شروع میں بہت سے جگہوں پر کانٹ کی کتاب “تنقید عقل محض” کی طرح میر کا انٹریو بھی میرے سر کو چکرا دیتا ہے۔ میں نے کہا شاید کانٹ کے کتاب کے ہر صفحے کو تین یا چار دفعہ پڑھنے کے بعد اب ہر پڑھنے والی چیز مجھے فلسفہ لگتا ہے یا پھر اس پر فلسفانہ نقطہ نظر سے سوچنا پڑتا ہے، اس لیئے سرمیں چکر اور درد ہوتا ہے۔
لیکن میر صاحب کے انٹریو کو تین دفعہ غور سے پڑھنے کے بعد جب ختم کیا اور اس کے بہت سے پوائنٹ نوٹ کرکے، ان پر غور کرنا شروع کیا تو واقعی عبدالنبی کی باتوں میں جگہ جگہ میں نے فلسفے کا رنگ اور فلسفے کے خوشبو کی مہک محسوس کی۔ جس طرح اس نے سوالوں کا جواب واضح، صاف، غیرجانبدار اور فلسفیانہ انداز میں دیا۔ میں نے جس عبدالنبی کو دیکھا تھا، وہ وہ عبدالنبی نہیں تھا۔ باقی سوالوں کے علاوہ خاص کر ایک سوال، جو صحافی کا سوال تھا، جو میرے ذہن میں بھی ہمیشہ ایک سوال رہا ہے۔ ظاہر صحافت میں مہارت رکھنے والے صحافی بھی عوامی سوچ اور عوامی سوالوں کو لیکر کسی سے سوال کرتے ہیں، وہ سوال مختصراً یہ تھا کہ ہمارے رہنماء دوسروں رہنماؤں جیسے کہ کم ال سنگ، اوجلان کرد وغیرہ کی طرح کیوں نہیں لکھتے؟ پھر جواب میں میر نے جس طرح اپنے آپ کو فلسفیانہ انداذ میں اور دوسرے رہنماوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر سماج، مفادات اور مجبوریوں کے قید میں صلاحیتوں کو پاپندِ سلاسل پیش کرکے میرے ذہن میں کب سے اس الجھے ہوئے سوال کو آزاد کردیا۔
اسی طرح بہت سے ذہنی الجھن اور سوال کب سے ذہن کو بار بار لاعلمی کے ہتھوڑے سے مار رہے تھے، ذہن زخمی اور مفلوج ہوتا جارہا تھا لیکن بہت سے سوال، خدشات، گبھراہٹ، محسوسات اور الجھن ذہن پر اب بھی سوار ہیں لیکن کچھ نہ کچھ بوجھ میر صاحب نے فلسفیانہ طرز انداذ میں کم تو کردیا۔ جس طرح گبرئیل گارسیا مارکیز کہتا ہے کہ “ادب چیزوں کی وضاحت نہیں کرتا بلکہ چیزوں کی طرف ایک معمولی اشارہ ہوتا ہے۔” میں کہتا ہوں فلسفہ بھی چیزوں کی کھوج لگانے ان کی گہرائی تک پہنچ جانے کے ساتھ ساتھ چیزوں کی طرف ایک جھلک اور اشارہ ہوتا ہے۔ اب میر صاحب کے نیم فلسفیانہ انٹرویو کو پورا کون سمجھا، کون سمجھتا اور کون سمجھ سکتا ہے؟
مجھے ویسے بھی سوشل میڈیا پر جو بھی آراء دیکھنے کو ملتے ہیں، جو بھی ماحول ہے، جس طرح دیگر اقوام کے مقابلے میں بلوچ اسکا استعمال کررہےہیں۔ میں اس سے ایک فیصد بھی مطمئن نہیں ہوں، کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ فائدے سے زیادہ نقصان ہے۔ کیوں اور کیسے؟ یہ ایک طویل بحث ہے۔ جس پر جانا نہیں چاہتا ہوں۔ پھر اصل موضوع گم ہوجائیگا، بہرحال سوشل میڈیا پر پیش کردہ آراء پر یقین نہیں، وہ لوگ جو حمایت کرتے ہیں کسی چیز کا؟ وہ کیسے لوگ ہیں؟ وہ جو مخالفت کرتے ہیں، کیسے لوگ ہیں؟ ان کی سوچ و اپروچ کی معیار، مفاد، علم و تجربہ اور عمل و کردار سب کے سامنے ہے۔ پھر میر صاحب کے انٹرویو کے بعد بلوچوں کے سوشل میڈیا کے گند آلود حصہ کے سیاسی گندگیوں پر نظر پڑا، تو یہ سمجھا کہ کوئی میر صاحب کے انٹرویو کو بغیر پڑھے، کوئی پڑھ کر نہ سمجھے، کوئی ضد، کوئی بغض، کوئی طنز، کوئی مذاق، کوئی گالی، کوئی الزام اور کوئی تحریکی رازوں کو افشاں کرنے میں پیش پیش، سب اپنے بنائے گئے مورچوں پر بیٹھ کر ہوائی فائرنگ شروع کیئے ہوئے تھے تاکہ حضور جی کو پتہ ہو کہ جی حضور آپ کے فرمانبرادار سوئے ہوئے نہیں بلکہ بیدار ہیں۔ آپ کے ہدایت کی روشنی میں ہم وہی کررہے ہیں، جو پانچ سال سے آپ کروارہے ہیں۔ یقین نہیں تو سکرین شاٹ روانہ کردینگے کہ ہم نے آج خوب دبا دیا رسوا کیا۔ فلانی نے بھی اچھا پوائنٹ مارا وہ ڈر گئے خاموش ہوگئے۔ سب لوگ ہمارے ساتھ ہیں، سب آپ کی تعریف کررہے ہیں۔ بلکہ اس انٹرویو کے بعد آپ کی اہمیت حضور پاک اور زیادہ بڑھ گیا، وہ تو رسوا ہوگئے، پورا بلوچ قوم ان سے بدظن ہوگیا، بس چند دن میں سب انکو چھوڑ رہے ہیں، ہمارے ساتھ آرہے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی میرے خیال میں میر صاحب کے انٹرویو کو کوئی سمجھ بھی نہیں رہا ہے، بھائی یہ کسی کے ذات کے خلاف نہیں، کسی کے حمایت میں بھی نہیں، بلکہ بلوچ تحریک کے ماضی حال اور مستقل کے بارے میں صرف عقلی نہیں بلکہ تجرباتی مسودہ ہے۔ جو حقائق اور غیرجانبداری پر مبنی ہے۔ اس پر غور ہونا چاہیئے کہ میر صاحب نے گولیوں کے رخ کے سامنے اپنا سینہ کرکے یہ باتیں کی ہیں۔ یہاں فلسفی ہیگل کا وہ جملہ مجھے یاد آتا ہے کہ “میرا فلسفہ میرا ایک ہی شاگرد روزن کرانز سمجھا ہے، وہ بھی غلط سمجھا ہے۔”
میر نے کم از کم 50 سالہ عملی جہدوجہد کا حصہ رہتے ہوئے، بلوچ تحریک کی شیرین اور تلخ حقائق، یادوں، نشیب و فراز کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے، محسوس کرتے، تجزیہ کرتے اور سمجھتے ہوئے وہ بھی بلوچ دشمنوں کو مدنظر رکھ کر پھر خاطر رواداری، صبر و خاموشی کے دامن کو ہاتھوں میں تھام کر بہت کچھ کہنے کے باوجود، کچھ بھی نہ کہتے ہوئے جب کچھ کہتا ہے، وہ بھی غیرجانبداری اور حقائق کی بنیاد پر، انتہائی محتاط اور سیاسی علمی اور فلسفانہ طرز میں کہتا ہے۔
یہ ردعمل مزاحقہ خیز ہے کہ عبدالنبی جیسا شخص استعمال ہورہا ہے، استعمال ہوگیا۔ کیا عبدالنبی بوڑھا بچہ ہے؟ فرض کریں عبدالنبی، ڈاکٹر نظر، اسلم اور بشیر زیب کے ہاتھوں استعمال ہوسکتا ہے اور یہ سب کہہ رہا ہے۔ پھر وہ نوجوان جو آج بھی نظریاتی یا مجبوری کے تحت واجہ حیربیار، واجہ براہمداغ، واجہ مہران، واجہ جاوید کے ساتھ وابسطہ ہیں پھر ان کو کیوں اللہ نظر اسلم اور بشیر استعمال نہیں کرسکتے ہیں؟ کیا وہ نوجوان سوچ، فکر، نظریہ، علم، تجربہ، حالات کے ادراک اور پیشن گوئیوں میں عبدالنبی سے زیادہ واقف ہیں؟
ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیئے اور بجائے کسی کو خوش کرنے کی خاطر پوائینٹ اسکورنگ کرنے کہ ایک دفعہ کم از کم میر صاحب کی انٹرویو پر غور کرکے سوچنا چاہیئے کہ کشتی میں کہاں سے سوراخ ہے؟

понедельник, 11 июня 2018 г.

شہید حمید بلوچ ایک عظیم رہبر – دوستین مراد بلوچ

دوستین مراد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تاریخ بلوچستان ایسے بہادر اور دلیر فرزندوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ہمیشہ مشکل وقت اور نامسائد حالات میں وطن عزیز کو پیش آنے والے مشکلات میں کسی بھی کمی بیشی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی مزاحمت کے ذریعے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ جب وطن مشکل میں ہو تو جنگ لازم ہوجاتی ہے اور جب جنگ لازم ہوجائے تو پھر مدمقابل آنے والوں کے لشکر و اسباب دیکھے نہیں جاتے بلکہ مدمقابل آکر دھرتی ماں سے محبت نبھائی جاتی ہے.
اسی فلسفے پر کاربند رہ کر ہر دور میں بلوچ فرزندوں نے بلوچستان پر آنے والے مشکلات میں محدود وسائل کے باوجود مزاحمت کا راستہ اپنا کر ایک سبق اور ایک راستہ دھرتی کے آنے والے وارثوں کے لیے چھوڑا ہے.
نجانے یہ بلوچ قوم کی بدقسمتی ہے یا خوش قسمتی کہ ہر دور میں اس کا واسطہ اس سے کئی گناہ طاقتور دشمنوں سے پڑا ہے، چاہے وہ حمل و جیئند کے مقابل اپنے وقت کے طاقتور پرتگیزی سمندری لٹیرے ہوں یا پھر شہید خان محراب خان کے مدمقابل انگریز سامراج جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا یا پھر پہلی جنگ عظیم میں نورا مینگل و خداداد مری کی جبری بھرتیوں کے خلاف تاریخی مزاحمت یا پاکستانی رجیم کے خلاف آغا عبدالکریم اور بابو نوروز کی جنگیں ہوں، بلوچ قوم کے فرزندوں نے ہمیشہ ہر حال میں یہ جاننے کے باوجود کہ انکے مدمقابل کی طاقت کئی گناہ زیادہ ہے، جس سے جیتنا آسان نہیں مگر مزاحمت کرکے آنے والوں کے لیے قوم کے لیے ایک زندہ تاریخ چھوڑا ہے کہ جس پر وہ فخر کرسکیں اور ایک راستہ دکھایا ہے جس پر وہ چل کر سامراجوں کو بتاسکیں کہ وہ ایک زندہ قوم کے فرزند ہیں اور اپنی دھرتی کی حفاظت کرنا جانتے ہیں.
جہاں بلوچ نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم اور یلغاروں کے خلاف مزاحمت کی ہے وہاں انہوں نے دنیا کی دوسرے مظلوم اقوام کا ساتھ دیکر انسان دوستی اور حریت پسندی کا ثبوت دیا ہے کہ جس طرح وہ اپنے لیے امن و آزادی چاہتے ہیں اسی طرح ہر مظلوم و محکوم قوم کے افراد کے لیے بھی چاہتے ہیں۔ اسی فلسفے پر کاربند رہ کر بلوچ دھرتی کے فرزندوں نے سینکڑوں سالوں سے اپنے ہمسایہ اقوام کی سرزمین اور رسوم و رواج میں عدم مداخلت کا رویہ جاری رکھا ہوا ہے اور بعض موقعوں پر اپنی ہمسایوں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں محکوم و مظلوم اقوام کے خلاف ہونے والے جارحیت کے خلاف عملی طور پر اُٹھ کر اپنا فرض نبھایا ہے اسکی پہلی مثال خان محراب خان کی مزاحمت ہے جس میں انہوں نے اپنے وقت کے طاقتور سلطنت برطانیہ کے افواج کو اپنے دیرینہ اور بے ضرر ہمسایہ افغان قوم کے خلاف اپنی دھرتی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، جس کا اختتام انگریزوں کی قلات پر یلغار و قبضہ اور خان محراب خان سمیت سینکڑوں ہندو و مسلمان بلوچ حریت پسندوں کی شہادت پر منتج ہوا تھا اور دوسری بار جنگ عظیم اول میں ہندوستان کے مسلمان رہنما سلطنت برطانیہ کا ساتھ دیکر اپنی وفاداریاں ثابت کررہے تھے لیکن دوسری طرف بلوچ دھرتی پر کوہستان مری میں خداداد مری اور سراوان و جھالاوان میں نورا مینگل و سردار شہباز گرگناڑی نے یہ کہہ کر جبری بھرتیوں کے خلاف مزاحمت شروع کی تھی کہ ہم سلطنت عثمانیہ کے مسلمان بھائیوں کے خلاف ظالم برطانیہ کا ساتھ دینے کے لیے اپنے قوم کے فرزندوں کو کرایہ کے قاتل کے طور پر کبھی بھیج نہیں سکتے. اس تاریخی مزاحمت میں سینکڑوں بلوچ شہید اور گرفتار ہوئے تھے گرفتار قیدیوں کو جنگ عظیم کے خاتمے پر چھوڑا گیا تھا جبکہ نورا مینگل کا آج تک علم نہیں ہوسکا مگر بلوچوں کی لوک گیتوں اور داستانوں میں نورا مینگل ایک ہیرو کی طرح زندہ ہے اور بلوچ آج بھی اپنے بچوں کے نام نورا مینگل رکھ کر اس سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
.
جدید بلوچ مزاحمتی تاریخ میں ایک ایسا ہی ایک کردار حمید بلوچ کا ہے جو بلوچستان کے مردم خیز خطہ مکران میں 1949 میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم مکران سے حاصل کی اور زمانہ طالب علمی میں بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او سے منسلک ہوکر عملی سیاست کا آغاز کیا اور بلوچ طلباء کی نظریاتی تربیت کرتے رہے. اور بلوچ وطن کی آزادی اور نظریاتی انقلاب کے لیے جدوجہد کرتے رہے. اسی دوران ستر کی دہائی میں سلطنت عمان میں ظفاری تحریک جو مظلوم و محکوموں کی تحریک تھی چل رہی تھی، جس کو کچلنا سلطنت عمان کے لیئے اپنے بل بوتے پر آسان نہیں تھا۔ اس لیئے اس نے پاکستان میں ضیاء رجیم سے افرادی قوت کی درخواست کی جس پر ضیاء رجیم نے انہیں مکران سمیت بلوچ بھر سے بھرتیوں کی اجازت دیدی. گوکہ بے روزگار افراد کے لیے یہ ایک روزگار کا سنہرا موقع تھا، جس میں پرکشش تنخواہیں اور دیگر مراعات تھے مگر وہ ان بھرتیوں کے مقاصد سے نابلد تھے کہ انہیں کس مقصد کے تحت بھرتی کیا جارہا ہے اور وہاں انہیں کس کے خلاف لڑایا جائیگا. دراصل یہ سلطنت عمان اور پاکستانی حکومت کا گٹھ جوڑ تھا کہ یہاں کے مظلوم و محکوموں کو وہاں کے محکوموں کے خلاف لڑایا جائے جس سے پاکستان کو زرمبادلہ آئیگا سلطنت اومان میں موجود تحریک کو کچلنے میں مدد ملیگا۔
انہی جبری بھرتیوں کے خلاف حمید بلوچ میدان میں اترے اور بھرتی مخالف تحریک شروع کی، جس میں انہوں نے مظاہروں کا انعقاد کیا اور گھر گھر جاکر لوگوں کو ان بھرتیوں کے مقاصد و تباہ کاریوں سے آگاہ کرتے رہے کہ یہ بھرتیاں تمہیں روزگار دینے کے لیئے نہیں بلکہ تمہیں تمہارے جیسے مظلوم محکوم و استحصال زدہ بھائیوں کے خلاف لڑانے کے لیئے ہے، جس میں تمہارا اور ان مظلوموں کا فائدہ کچھ بھی فائدہ نہیں ہے. دوسری طرف اومانی حکومت پاکستانی حکومت کی آشیرباد سے ان بھرتیوں کو جاری رکھا ہوا تھا بلآخر 3 اگست 1979 میں حمید بلوچ نے مزاحمت کا راستہ اپنا کر بھرتی کرنے والے اومانی افسروں پر پستول سے فائرنگ کی. اور فائرنگ کے بعد حمید بلوچ کو گرفتار کرلیا گیا اور انگریز سامراج کے بنائے ہوئے مچھ جیل میں ان پر مقدمہ چلا اور اقدام قتل کی جرم میں انہوں پھانسی کی سزا سنائی گئی جس کے خلاف انہوں نے کوئی اپیل نہیں کی اور نہ ہی معافی کا طلبگار ہوا بلکہ 11 جون 1981 کو بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کی طرح پھانسی کے پھندے کو چوم کر ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔
آج بلوچ قوم انہیں شہید حمید کے نام سے یاد کرتا ہے بلوچ شاعروں نے انہیں لوگ گیتوں میں زندہ رکھا ہوا ہے. بلوچ مائیں اپنے بچوں پر انکا نام رکھ کر انہیں حمید کے نام کی لوریاں سناتی ہیں. اور بلوچ نوجوان حمید کو اپنا نظریاتی استاد اور انکی فلسفہ زندگی و قربانی کو مشعل راہ بناکر اس پر کاربند رہ کر بلوچ وطن کی آزادی کے لیے ہر محاذ پر جدوجہد کررہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں جو آگے آکر ثمر آور ثابت ہونگے اور شہید حمید بلوچ کے دھرتی بلوچستان کو ظالم سرداروں اور سرکاروں سے آزادی ملیگی اور استحصال سے پاک بلوچستان وجود میں آئیگا۔
.
10 جون 1981 کو حمید بلوچ نے اپنا وصیت نامہ لکھا تھا جس میں انہوں نے بلوچستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں سے اتحاد و اتفاق رکھنے کی درخواست کی تھی شہید حمید بلوچ کا وصیت نامہ انہیں کے الفاظ میں اس طرح ہے
او بلوچ
تئی زہیروارتگ، زندگیں مرگاں کن اَنت
آمرد کے حون ء بیر کن اَنت
ماہیں جناں انگار کن اَنت
ملک ءُ ڈگار ءَ چون کن اَنت
مجھے اس بات کا کم یقین ہے کہ میرا یہ وصیت نامہ میرے عظیم بلوچستان کے عظیم فرزندوں تک پہنچ بھی جائے گا یا نہیں، اور جس وقت میں یہ لکھ رہا ہوں میرے ارد گرد مسلح افراد ہیں۔ جو میرے ایکشن کو بغور دیکھ رہے ہیں ۔ اس وقت مجھے مزید آٹھ گھنٹہ زندہ رہنے کی مہلت ہے۔ اور آٹھ گھنٹہ بعد میں تختہ دار پر ہونگا لیکن مجھے اس بات پر ذرا بھی نہ پشیمانی ہے اور نہ ہی اس بات کا خیال کہ مجھے مرنے سے زیادہ زندہ رہنا چاہیے تھا کیونکہ اگر زندگی بلا مقصد ہو اور غلامی میں بسر کی جائے اور وہ زندگی لعنت ہے۔بلوچی میں مقولہ ہے کہ
مردے پہ نانءَ مرایت
مردے پہ نامءَ مرایت
بلوچستان کے لیے صرف میں نے قربانی نہیں دی ہے۔ سینکڑوں بلوچ وطن کی راہ میں اب تک شہید ہو چکے ہیں۔ خود میرے خاندان میں میں دوسرا فرد ہوں جو پھانسی کے اس زنجیر کو چھو کر گلے میں ڈالوں گا۔اور اپنا خون اس عظیم مقصد کے لیے دوں گا جسکی تکمیل میرا ایمان ہے بلوچ بچے کریں گے۔میرے خاندان میں میرے دادا کو انگریزوں نے پھانسی دی تھی یہ واقعہ 1902ء میں ہوا۔
میرا ہمیشہ میرے دوستوں سے یہ کہنا رہا ہے کہ آزادی جیسی انمول دولت بغیر خون کی قربانی سے نہیں مل سکتی ۔ کم از کم میں نے کسی جگہ تاریخ میں یہ نہیں پڑھا کہ قوموں کو آزادی بغیر قربانی کے ملا ہو۔اور آزادی کی راہ دشوار ضرور ہے مگر منزل شاید اتنا نزدیک ہے میں تو اس کا خیال کرکے انتہا کی مسرت محسوس کرتا ہوں ، گوکہ شاید ہماری آزادی شاید میری بیٹی بانڑی جو اس وقت تین سال کی ہے اسکے زمانے میں بھی ہمیں نصیب نہ ہو۔ لیکن اس کے بچے یا میرے بھائی بیبرگ کے بچے ضرور اس منزل تک پہنچ جائیں گے۔ اس وقت میری روح کو تسکیں پہنچ جائے گا۔ یقینا ًمیری قربانی ان عظیم قربانیوں سے کم ہوگی جو بلوچ بچے اور بلوچ قوم اپنی آزادی کے لیے دے گے مگر کم ازکم میں نے اپنی جان دے کر صرف اپنے ساتھیوں تک یہ بات پہنچادی ہے کہ
تو پہ سرانی گڈگ ءَ زندءِ حیالانءَ کُشے
پہ سندگ ءَ داشت کنے پلءَ چہ بوتالانیءَ
مجھے یقین ہے کے میرے خاندان کے تمام افراد میری موت کو خندہ پیشانی سے قبول کریں گے بلکہ اس پر فخر محسوس کریں گے مگر میری ماں زندہ ہوتی جس نے مجھے بچپن میں یہ لوری یقینا دی ہوگی کہ
اگاں پہ مردی مرئے۔
گڑا کایاں تئی قبرءِ سرءَ
پیراں ، دو بر ورنا باں
تئی مٹ ءَ دوبر پیدا کناں
نوکیں سرء گواپے کناں
تئی موتک ءِ بدل ہالو کناں
مجھے یقین ہے کہ میری بہنیں ، عزیز یقینا! مرے مرنے پر نوحہ نہیں کریں گے میں بڑی امی سے کہوں گا کہ وہ لوریاں یاد رکھے جو اس نے ہم سب کو دیئے تھے کہ
بچ منی پلگدیں ورنابیت
زیریت ہر ششیں ہتھیاراں
بدواہاں شکون دیم کنت
جوریں دشمناں پرام ایت
میں نے ایک بہت بڑے کو شکست کی ٹھانی ہے میں اس میں ناکام نہیں ہوا ہوں میرے بھائی ، دوست عزیز اور میرے قوم کے بچے میری مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ میں اپنے طالبعلم ساتھیوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تم آزادی کی نعمت سے بار آور ہونا چاہتے ہو تو قربانی دینے سے پس پیش نہ کرو لیکن قربانی کے ساتھ آپس میں اتحاد و یکجہتی اور متحدہ عمل نہایت ضروری ہے۔ آپس کے اختلافات سے صرف دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہ یاد رکھو دشمن بڑا مکار ہے۔ لہٰذا اگر بی ایس او واقعی بلوچ قوم کی اس کے منزل تک پہنچنے میں رہنمائی کرے گی تو ان کے لیے آپ میں اتحاد ضروری ہے اتحاد کے بغیر ہم منتشر ہونگے اور ہماری منزل مزیددور ہوگی۔
بلوچستان کی سر زمین کو سبزہ زار بنانے کیلئے خون کے آبیاری کی ضرورت ہے اور خون ہی سے “سرمگیں بولان” سر سبز ہوتا ہے۔
کپ ایت بیر ءُ
سرپ انت دنباں
سبز ایت سر مگیں بولان
بلوچستان کے بلند و بالا پہاڑ اور حسین میدان اس بلوچ کے منتظر ہے جسے وہ اپنا گھر اپنا قلعہ کہتا ہے۔
کوہ انت بلوچانی کلات
انباراِش بے راہیں گر اَنت
آپ اِش بہوکیں چمگ اَنت
بور اِش سپیت ایں چبو ااَنت
بچ اِش گچین ایں گونڈل اَنت
آریپ اِش مزن ٹاپیں لڑاَنت
حمید بلوچ
پھانسی گھاٹ سینٹرل جیل مچھ
مورخہ 10 جون 1981ء وقت 4 بجے شام