Powered By Blogger

четверг, 21 декабря 2017 г.

آزادی کا متوالہ شہید حکیم بلوچ
مہراب مہر
آزادی کے کاروان کے شروعاتی دنوں کے کچھ عرصے بعد تحریک کی آواز گھر گھر تک پہنچ چکی تھی سرفیس سیاست مکمل طور بلوچ مزاحمتی تحریک کی لپیٹ میں آ چکی تھی۔ ڈاکٹر اللہ نظر علیحدہ بی ایس او لیکر آزادی کے لیے آواز بلند کرتے رہے شہید غلام محمد اس وقت کے بی این ایم کے اندر سوچ آزادی کے لیے کام کرتے رہے ہر طرف سیاسی بحث مباحثوں کا بازار گرم تھا جو آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کی تگ و دو میں تھے انھیں بی این پی و بی این ایم حئی پاگل و دیوانے کہتے رہے ۔اور وہ دیوانے وطن کے عشق میں سرگرداں آزادی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے جو لوگ مضبوط فکر کے مالک ہوتے ہیں ان پر ایسی باتوں کا اثر نہیں ہوتا۔ اور وہ مزاحمتی سوچ کے راہ پر مضبوطی کے ساتھ گامزن رہے۔اور خلوص کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے کھٹن حالات کا مقابلہ بلند حوصلوں کے ساتھ کرتے رہے۔اور حقیقت و سچائی جتنے پردوں میں روپوش ہووہ کھبی بھی چھپ نہیں سکتی ایک نہ ایک دن قوم کے سامنے آشکار ہو گی۔اور آزادی کے متوالے اپنے فکر پر مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہے اورقوم پرستی کے آڑ میں چھپے ففتھ کالمسٹوں کی حقیقت قوم کے سامنے آشکار کرتے رہے اور آہستہ آہستہ اپنے کاروان کو بڑھاتے رہے۔ نوجوانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ بی ایس او کی کوکھ میں پرورش پانے کے بعد ڈاکٹر اللہ نظر کی قیادت میں آزادی کے سفر پر نکل پڑے۔ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ مزاحمتی تحریک کی حمایت کو لیکر علحیدہ بی ایس او کے قیام کو عمل میں لے آئے۔اس وقت بی ایس او کے کاروان میں ظہور گل بلوچ و مالک بلوچ ڈاکٹر اللہ نظر کے قریب رہے اور اسطرح اسن سرپھرے نوجوانوں میں شہید حکیم بلوچ شہید سعید دیوار شہید اشرف بلوچ شہید رعبدالرسول بنگلزئی سمیت بہت سے دیگر کارکنان بھی شامل تھے۔ خیر مالک بلوچ جیل جانے کے بعد خاموشی اختیار کی۔ لیکن باقی ساتھی اپنی شہادت تک جہد آزادی سے جڑے رہے ظہور گل بلوچ آج بھی اپنے فکری ساتھیوں کے ساتھ ہم قدم ہے اس طرح یہ چھوٹا گروہ مضبوط ہوتا رہا ان ساتھیوں میں ہر ایک اپنی بساط کے مطابق مسلح و غیر مسلح محاذ پر وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔اوراپنے مخلصی و صلاحیتوں کی بدولت ایک دوسرے سے دو قدم آگے تھے۔لیکن ایک ساتھ تھے ایک جسم کی مانند۔ اس وقت مزاحمتی تحریک کی زبان بنکر سرفیس سیاست میں مخلصی کے ساتھ اپنا نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔ ان ساتھیوں کی کوششوں کی وجہ سے دیگر بہت سے ساتھی جہد آزادی کے کاروان میں شامل ہوتے گئے ان میں سے کچھ شہادت کے رتبے تک پہنچے کچھ آج بھی تاریک راستوں میںآزادی کا چراغ لیے دوڑ رہے ہیں شہید ساتھیوں میں خلوص قربانی بے لوث جذبہ کی بنیاد پر ہر ایک کی اپنی علیحدہ پہچان ہے ان شہید ساتھیوں میں شہید حکیم بلوچ ایک علیحدہ کردار کے مالک تھے قریبا یہ سارے گم گو تھے لیکن حکیم ان سے کچھ زیادہ ہی کم گو تھا شہید حکیم سے کئی بار ملاقاتیں ہو چکی تھی وہ ایک بالکل منفرد و علیحدہ شخصیت کے مالک تھے حیران کن حد تک وہ خاموش رہتا تھا ۔اور دیگر کو والیانہ انداز میں غور سے سنتا تھا ۔ ویسے بھی جو وسیع انظر ہوتے ہیں وہ سنتے ہیں پڑھتے ہیں اور بہت ہی کم بولتے ہیں جب وہ بولتے ہیں تو تاریک راستے روشنی کا سیلاب اپنی دامن میں سمو لیتے ہیں۔وہ اپنی خاموش طبعیت کے ساتھ خیالوں میں گم سم سیاسی اتار چڑھاؤ سیاسی چالبازیوں سے کوسوں دور وطن کے پہاڑوں کی خوشبو سونگ رہے تھے وہ بس ایک ہی چیز چاہتے تھے کہ ہم آزاد ہوں اور آزادی کے لیے اس نے اپنے دن رات ایک کردی تھی ۔اس کے نظر میں ہر بلوچ قابل احترام تھا ہر بلوچ سے یہی امید رکھتا تھا کہ وہ آزادی کے سفر میں ہمارا ہمنوا بنے گا اس وجہ سے اس نے کچھ ایسے اخلاقی اقدار بنائے تھے جن پر خود کاربند رہتا کسی دوست کی تکلیف سے لیکر مسئلے مسائل تک ہر وقت حاضر رہتا کسی بھی بڑے سے بڑے مسئلے پر وہ اپنے جذبات پر قابو رکھتا تھا بی ایس او کے زونل و سینٹرل کمیٹی ممبر ہونے کے ناتھے ہاسٹل کے مسائل سے لیکر دیگر تنظیموں کے ساتھ بڑے سے بڑے مسائل کو جنگ کی نوعیت تک پہنچنے سے روکے رکا۔ کیونکہ وہ اندرونی جھگڑوں کو قومی تباہی سمجھتے تھے اپنی دور اندیشی ووسیع النظر ہونے کی وجہ سے وہ تمام مسائل کو صبر و برداشت کے ساتھ حل کرتے۔ وہ اس وقت سے لیکر اپنی شہادت کے وقت تک بلوچ جہد میں آپسی جھگڑوں کو قومی تباہی کہتے رہے اس کی مثال اسکی اپنی ذات ہے جب بی ایس او کے دور سیاست میں بی ایس او امان اللہ کے ساتھیوں نے ہاسٹل کے کمرے کے مسئلے پر ڈیرہ مراد جمالی سے تعلق رکھنے والے طلبا کو پیٹھنے کی غرض سے آئے تھے اس وقت شہید حکیم بلوچ بی ایس او آزاد پولی ٹیکنیک کالج میں یونٹ سیکرٹری تھے جب شہید حکیم بلوچ کو پتہ چلا کہ بی ایس او امان کے ساتھی لڑنے جھگڑنے آ رہے ہیں تو انھوں نے اپنے قومی فرض کے تحت اس چھوٹے مسئلے پر انھیں روکنے کی کوشش کی اور کامیاب ہوئے لیکن بی ایس او امان والوں نے اس طلبا کے بدلے شہید حکیم بلوچ کے ہاتھ پاؤں توڑ کر چلے گئے پھر بی ایس او آزاد و امان کے بیچ بدلے کی آگ پنپھنے لگی لیکن شہید حکیم جس کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ چکے تھے اسکے سرپر گہری چھوٹ آئیں تھی اس نے اپنے ساتھیوں کو بدلہ لینے سے روکے رکھا اور خود تین چار مہینے تک بستر پر رہے اور اپنے دوستوں کو سمجھاتے رہے کہ آپسی چپقلش و اندرونی جھگڑے ہمیں آزادی کے منزل سے دور لے جائیں اور وہ بد ضد رہے اور اپنے تنظیم کے ساتھیوں کو بدلہ لینے سے روکنے میں کامیاب ہوئے اسکی ہر کامیابی اسکے جان کو نقصان دینے کا سبب بنی وہ خود نقصان برداشت کر سکتے تھے لیکن قومی حوالے سے کسی بھی نقصان کو برداشت کرنے اس میں سکت نہ تھی۔ اسی وجہ سے وہ ہر قومی مسئلے کا حل مل بیٹھ کر بات چیت سے کرنے کے حامی تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ بلوچ اپنے اندرونی مسائل میں الجھ جائیں اسی سوچ کے تحت وہ ہر قومی و اجتماعی فکر کو اپنے سینے میں قید کر کے چلتے رہے اور یہی ایسے جہد کاروں کی خاصیت ہے اور حقیقی جہد کار اجتماعی مفاد کے لیے خود کو قربان کرتے ہیں اور شہید حکیم بھی ایسے ہی تھے اس نے اپنے تمام خاندانی رشتوں کو قومی اجتماعی مفاد کے لیے قربان کر چکے تھے اسکی سنگتی میں رہنے والے دوست شہید کریم دہوار شہیداشرف بلوچ جو کہ اپنی شہادت تک شہید حکیم کے فلسفے پر گامزن رہے جب شہید حکیم سے پوچھا گیا کہ اب بی ایس او امان کے ساتھ کیا رویہ رکھا جائے بقول ایک دوست کے انھوں نے کہا کوئی مسئلہ نہیں انھیں میڑھ مرکہ کرنے کی ضرورت نہیں میں خود انکے پاس جاؤں گا بلے غلطی انکی ہو وہ ہمارے ناداں بھائی ہیں ہم انھیں ضرور ایک دن صحیح راستے پر لے آئیں گے اور اسکی یہ کوشش بھی کامیاب ہوئی۔ اور بی ایس او کے دیگر ساتھی شہید حکیم کے کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ شہید جیسے کردار ہی جذبہ آزادی کو لوگوں کے دلوں میں بیدار کرتے رہے ۔اور وہ چھوٹا کاروان بڑھتا گیا۔شہید حکیم جیسے ہزاروں لوگوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج جہد آزادی اپنی منزلیں طے کرتے کرتے اس نتیجے پر پہنچی ہے
وہ محنتی ساتھی تھے وہ ہر کام ایمانداری و مخلصی کے ساتھ کرتے تھے۔ وہ بردبار و شریف انسان تھے وہ بلوچ جہد آزادی میں اپنے کردار اخلاق محنت وطن دوستی کا اعلی نمونہ تھے ۔وہ شروع سے ڈاکٹر اللہ نظر سے قریب رہے سرفیس پالیٹکس میں انھوں نے سیاسی اتار چڑھاؤ کو سمجھ کر بھی نا سمجھ رہے کیونکہ وہ سیاسی تب و مزاج سے کوسوں دور اپنی دن میں دھرتی ماتا کی لوری سنتے رہے وہ جانتے تھے کہ جو آج نہیں سمجھتے وہ کل سمجھ پائیں گے اسی کردار کے تحت وہ ہر اس شخص کو تحریک میں لانے کی کوشش کرتے رہے جو کسی بھی بلوچ قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اسکی نظر میں ہر بلوچ ہماری طرح مخلص و ایماندار ہے اسے قوم سے محبت ہے اس بنا پر وہ دن رات ایک کر کے بی ایم سی ڈگری و پولی ٹیکنیک کے گرد چکر لگاتے رہے کھبی کسی دوست سے مل کر اسے آزادی کی درس دیتے رہے تو کھبی کسی اور کو۔ اسی ادا کے ساتھ وہ اپنے بنائے ہوئے اخلاقی و سیاسی اصولوں کے تحت چلتے رہے وہ سب سے یکتا شخصیت کے مالک تھے مکران سے لیکر سوراب و شال تک ہر مزاحمت کار کے لیے اسکے دروازے کھلے تھے جہاں پناہ نہ ملے شہید حکیم کو بلا کر پناہ کا مسئلہ کرتے وہ اپنی انوکھے شخصیت کے ساتھ دوستوں سے ہم قدم رہے ہر سیاسی مسلئے پر اس کا زاویہ مختلف تھا وہ اندرونی خلفشار و تضادات کو تحریک کے لیے سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے تھے وہ انتہائی آہستہ بولتے تھے غصہ سے کوسوں دور تھے جب وہ کسی سے ہمکلام ہوتے تو انتہائی شائستگی کے ساتھ اپنی بات اسکے سامنے رکھتے وہ آہستہ آہستہ رک رک کر بولتے تھے اور اس میں اپنی بات سمجھانے کی کمال کی خوبی تھی شہید حکیم جسے بہول کے نام سے جانا جاتا ہے وہ 2015 کو شور آئے تھے تاکہ دوستوں سے مل سکے اس وقت اندرونی اختلافات شدت اختیار کر چکے تھے تنظیموں کے اندر دوریاں بڑھ چکے تھے لیکن شہید حکیم بلوچ اپنے بنائے گئے اخلاقی و سیاسی اصولوں کے تحت بی ایل اے کے کیمپ آتے ہیں دوستوں سے ملتے ہیں بحث مباحثہ ہوتا ہے لیکن اس کاجواب ہوتا ہے ڈاکٹر اللہ نظر و حیربیار کیسے ایک دوسرے کے خلاف ہو سکتے ہیں آپ جانتے ہو ان چھوٹے مسلوں کو بڑھاوے سے روکو۔ میں زیادہ نہیں جانتا یہ ہماری تباہی کے سبب ہونگے وہ سمجھتے تھے کہ سب ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں پھر کیوں اتنی دوری ہے وہ اس امیدکے ساتھ کیمپ سے چلے گئے تھے کہ تنظیموں کے بیچ وہ دوریاں ختم ہونگے اور وہ ایک دو دن کے بعد مکران کی طرف روانہ ہوتے ہیں کسی کو وہم و گمان ہی نہ تھا کہ یہ اسکی زندگی کا آخری سفر ہوگا وہ مکران میں اپنے تمام دوستوں سے ملتے ہیں انکے مرکزی کیمپ میں ہوتے ہیں وہاں بھی وہ یہی باتیں دہراتے ہیں وہ ڈاکٹر اللہ نظر کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے اور وہ ڈاکٹر اللہ نظر کے ہر دلعزیز دوست تھے کچھ وقت وہاں پر رہے کہ ایک دن اسکی شہادت کی خبر آئی کہ وہ دشمن سے مڈبھیڑ میں شہید ہوئے اس دن سرزمین اپنے ایک اور سپوت سے محروم ہوا جو کہ مادر وطن کی لاج رکھنے میں میدان جنگ مین اپنا کردار ادا کر رہے تھے اس دن کے بعد سے لیکر آج تک وادی مستونگ کی زینت اور بڑھ گئی ہے۔اور شہید حکیم اپنے دیگر ساتھیوں شہید رحمت شاہین شہید کریم دہوار شہید سہراب مری شہید عبدالرسول کے ساتھ گل مل گئے وہ مٹی کا حق ادا کر کے چلے گئے لیکن وطن اپنے ایک جانباز نڈر مخلص محنتی و ایماندارسپاہی سے محروم ہو گیا۔ لیکن اس کا کردار بلوچ تاریخ کے اوراق میں مخلص و ایماندار ساتھی کے طور پر یاد رکھے جائیں گے
 

суббота, 16 декабря 2017 г.

بی ایل ایف کسی فرد ،پارٹی،خاندان اور گروہ کی ذاتی دوستی یادشمنی بنیادپر پالیسیاں نہیں بناتاہے۔ گہرام بلوچ 

مقبوضہ بلوچستان:    ) نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان نے گزشتہ روز اپنے ایک پریس ریلیزمیں بلوچستان لبریشن فرنٹ اوربلوچ آزادی پسندرہنماڈاکٹراللہ نذر بلوچ کے خلاف جوالزام تراشی اورزہرافشانی کی ہے اس کاجواب دیناضروری نہیں تھا تاہم اس نے بلوچ دانشوروں اور اہل فکر کو بعض نقاط پربحث کی دعوت دی ہے، اس لیے این پی ترجمان کے الزامات اوراس کے اٹھائے گئے نقاط پراپنے نقطہ نظر کو بیان کرنا بی ایل ایف مناسب خیال کرتاہے۔
این پی ترجمان نے پہلا الزام یہ لگایا ہے کہ ” ڈاکٹراللہ نذر اپنے زمانہ طالبعلمی سے نیشنل پارٹی کی لیڈرشپ کے ساتھ کینہ وبغض رکھتا ہے اور اللہ نذرکانیشنل پارٹی کے ساتھ ذاتی طورپر کینہ رکھناہی بی ایل ایف کی جانب سے باربارنیشنل پارٹی کو نشانہ بنانے کی وجہ ہے”۔ نیشنل پارٹی ترجمان کایہ الزام اپنے آپ انتہائی سطحی،ناپختہ اور بددیانتی پرمبنی ہے۔ جو لوگ نیشنل پارٹی کی قیادت کررہے ہیں ان میں سے بیشترکے ساتھ ڈاکٹراللہ نذرکے ذاتی تعلقات خوشگوار اور دوستانہ رہے ہیں مگر کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی،کینہ و بغض کبھی نہیں رکھااورنہ این پی کسی کے ساتھ ذاتی کینہ و بغض کو ثابت کر سکتاہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بی ایل ایف بلوچ قومی تحریک آزادی کا ایک سنجیدہ قومی تنظیم ہے جو بطور ایک قومی ادارہ کام کرتاہے۔ وہ کسی فرد ،پارٹی،خاندان اور گروہ کے ساتھ ڈاکٹر اللہ نذر یا کسی اور رہنما کی ذاتی دوستی یادشمنی،پسندیدگی یا ناپسندیدگی کی بنیادپر پالیسیاں بناتا اور اہداف مقررنہیں کرتاہے بلکہ بلوچ قومی مفاد اور قومی آزادی کی جانب تحریک کی پیشرفت کے تقاضوں کومدنظررکھ کرہی بی ایل ایف پالیسی بناتا اور اہداف کاانتخاب کرتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیشنل پارٹی اور بی ایل ایف کے گہرے اورواضح سیاسی اختلافات ہیں اوراس سیاسی اختلاف کو دشمنی میں بدلنے میں پہل نیشنل پارٹی نے کی ہے۔ بی ایل ایف نے تو بلوچستان پرپاکستان کی جبری قبضہ کے خلاف قومی آزادی کیلئے مسلح جدوجہد شروع کی ہے اوراس جدوجہدمیں پاکستانی قابض افواج،عسکری و خفیہ ادارے اور ان کے شریک کارہی اس کی کارروائیوں کا ہدف رہے ہیں۔ اس جدوجہدآزادی میں ایک فریق بلوچ قوم اورسرمچار ہیں اور دوسرا فریق پاکستان اوراس کے مسلح افواج سمیت دیگرسکیورٹی وخفیہ ادارے اوران کے شریک کار ہیں۔ اس صف بندی میں نیشنل پارٹی صاف اور اعلانیہ طورپر بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف پاکستان آرمی اورخفیہ اداروں کے ساتھ سیاسی،سفارتی اور عسکری محاذوں پر بطور شریک کار  شانہ بہ نشانہ کھڑی ہے۔
نیشنل پارٹی کے ترجمان،اس کے صدر حاصل بزنجو،سابق صدر ڈاکٹر عبدالمالک سمیت کئی رہنما متعدد بار میڈیا کے سامنے اس بات کا فخر یہ اقرار کرتے رہے ہیں کہ این پی بلوچ مسلح تحریک کے خلاف فوج اور سیکورٹی اداروں کے ساتھ ایک ہی صفحہ پیج پر ہے۔ وہ خود بلوچ قومی تحریک آزادی او ر عوام کے خلاف ریاستی عسکری اداروں کی وحشیانہ کارروائیوں کا سہرا اپنے سرپرباندھ رہے ہیں اوردوسری جانب الزام لگا رہے ہیں کہ بی ایل ایف نیشنل پارٹی کو اْن کے ساتھ ڈاکٹراللہ نذرکے ذاتی بغض کی وجہ سے نشانہ بنارہاہے۔
نیشنل پارٹی ترجمان نے سوال کیاہے کہ "نیشنل پارٹی”1997 سے 2013 تک اپوزیشن میں تھا تو پھر اس کے بعض رہنماؤں کو کیوں قتل کیاگیاہے ؟” اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اکتوبر2003 سے پہلے نیشنل پارٹی کا وجود ہی نہ تھاتوایسی جماعت جس کا وجود ہی نہ ہو اس کے ساتھ دوستی یادشمنی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے۔ رہی اپوزیشن میں ہونے کا دعویٰ تو اس کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں ہے۔ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز شرف نے اقتدار پر اپنے غاصبانہ نظام کو دوام دینے کیلئے جب نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا تو اس نظام کے تحت اس وقت کا بلوچستان نیشنل موومنٹ مقبوضہ بلوچستان میں فوج کاسب سے بڑاپارٹنر بن کر اْبھرااور اسی پارٹنرشپ سے خوش ہوکر فوج نے مقبوضہ بلوچستان میں اپنے شریک کار کو نیشنل پارٹی کی صورت میں یکجا کردیا۔ جولائی 2004 میں بلوچ سرمچاروں کے خلاف سائیجی،تلار،دڑامب اور مزن بند کے پہاڑی سلسلوں میں پہلا فوجی آپریشن نیشنل پارٹی کیچ اورگوادرکے ضلع ناظمین کی درخواست اور مشورہ پر کیا گئی۔
نیشنل پارٹی کے ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیاہے کہ "نیشنل پارٹی پْرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتا ہے۔ وہ سیاست میں تشدد کے خلاف ہے۔ صرف حکومت میں شامل ہونے کی وجہ سے انھیں نشانہ بنایا جا رہاہے جبکہ حکومت میں شامل دوسری قوتوں کو نشانہ نہیں بنایاجاتاہے”۔ حقائق کی روشنی میں دیکھیں تو نیشنل پارٹی کے یہ دعوے بھی دروغ ہی ہیں۔ فوجی ڈکٹیٹر کا ساتھ دینا،بلوچ نسل کشی کی حدوں کو چْھونے والی فوجی آپریشنز میں فوج و دیگر سیکورٹی اداروں کے ساتھ ایک صفحہ پیج پر ہونا کسی بھی لحاظ سے امن پسندی کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔ اسمبلیوں میں بیٹھ کر نیشنل ایکشن پلان کے نام پر کالے قوانین بنانے میں شریک ہونا، حکومت میں شریک ہوکر فوج و خفیہ اداروں کی خواہش کے مطابق کالے قوانین بنانا،فوجی کارروائیوں کیلئے وسائل اور احکامات دینا، نہ صرف یہ بلکہ سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں ،مسخ شدہ لاشوں،گھرواملاک کو جلانے اور لوٹنے،جبری نقل مکانی پر بلوچ عوام کو مجبور کرنے والی غیر انسانی اجتماعی سزاؤں کی براہ راست اور بالواسطہ حمایت کرنے جیسے جنگی جرائم کو کیسے پْرامن جدو جہد کہاجاسکتاہے؟
اپریل 2015 میں چینی صدر کے دورہ کے بعد سی پیک جیسے سامراجی استحصالی منصوبے کی تکمیل کو یقینی بنانے کیلئے جون 2015 میں اس وقت کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک کے زیرصدارت ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں وسیع پیمانے کے خونی کارروائیوں کو حتمی شکل دے کر” پْرامن بلوچستان پروگرام ” جیسا دلکش نام دیا گیا۔پْرامن بلوچستان پروگرام کے تحت بیسیمہ سے گوادر تک سی پیک شاہراہ کے نزدیک پڑنے والی بے شمارآبادیوں کوفوجی کارروائیوں کے ذریعے نیست ونابود کرکے ہزاروں بلوچ خاندانوں کونقل مکانی پرمجبورکیاگیاہے۔
حالیہ دنوں 22نومبر2017 کو کیچ آرمی ہیڈکوارٹرتربت میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، جس میں کٹھ پتلی وزیراعلیٰ ثناء 4 زہری،این پی کے ڈاکٹر مالک،سدرن کمانڈکے کورکمانڈر سمیت اعلیٰ سطحی عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اسی اجلاس میں بلوچ تحریک آزادی کو کمزور کرنے کیلئے پورے بلوچستان خصوصاً مکران،جہلاوان اور سرا وان میں سوات طرز کے ایک نئے سخت فوجی آپریشن کی تجویز دی گئی اور اگلے روزسدرن کمانڈہیڈکوارٹر کوئٹہ میں پاکستان آرمی کے سربراہ کی زیرصدارت اجلاس میں بلوچ عوام کے خلاف ایک نئے خونی آپریشن کو”خوشحال بلوچستان منصوبہ ” کے نام سے حتمی شکل دی گئی۔ اس پرعملدرآمدکا آغاز یکم دسمبر کو مشکے،راغے اور گچک میں بڑے پیمانے کی زمینی اورفضائی آپریشن کی صورت میں کیاگیاہے جس میں اب تک ایک خاتون اور بچی سمیت ایک درجن سے زائدبلوچ فرزندوں کو شہید کیاگیاہے ۔ڈاکٹراللہ نذربلوچ کی دو بہنوں کو ان کے بچوں،پوتوں ،نواسوں سمیت ایک سو سے زائدباعزت خواتین کوفوجی کیمپوں میں منتقل کی گئی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں مقیم مال مویشی پالنے والے سینکڑوں خاندانوں کے گھروں کو تباہ کرکے انھیں شہری علاقوں میں نقل مکانی کیلئے مجبور کیاجارہاہے جہاں ان کیلئے نہ رہائش ،نہ مال مویشیوں کیلئے چراگاہیں اورنہ کوئی روزگار کاذریعہ ہے۔
اب دشت،گوادر،میرانی ڈیم اورحْرکے علاقوں میں بڑی تعدادمیں فوج جمع کی جارہی ہے جن کا ہدف دشت،سائیجی،تلار،دڑامب اور مزن بند کے عوام ہونگے۔ایسی حکومت میں شامل ہونا جو بلوچ عوام کے خلاف ایک جارحانہ جنگ لڑرہی ہے کسی طرح پْرامن سیاست نہیں کہلایا جاسکتا۔جہاں تک فوج کی کٹھ پتلی حکومتوں میں شامل دوسرے عناصر کے ساتھ نرمی برتنے کا الزام ہے تووہ سراسر غلط ہے۔ سابق وزرائے اعلیٰ نواب مگسی،جام یوسف،اسلم رئیسانی اورثناء زہری سمیت متعدد شریک کار پر سرمچاروں نے حملے کئے ہیں۔ اگر نیشنل پارٹی زیادہ نشانہ بنتا رہاہے تو یہ ان کی زیادہ شرکت کی وجہ سے ہوا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ "حصہ بقدرجثہ ” جس سی پیک کو نیشنل پارٹی بلوچ قوم کی ترقی کہتا ہے اس کے بارے میں این پی کے اپنے صدراورپاکستان کے وزیربرائے پورٹ اینڈ شپنگ حاصل بزنجو نے سینٹ کو بتایا کہ گوادر پورٹ کی کل آمدنی کا91 فیصد چین کو اور9 فیصد پورٹ اتھارٹی کو ملے گااوریہ 9 فیصد بلوچوں کونہیں بلکہ قابض پاکستان کوملے گا،وہ بھی منصوبے کی تکمیل کے نو سال بعد ملنا شروع ہوگا۔ حاصل کا یہ بیان 25 نومبر2017 کو ڈان میں شائع ہوئی ہے اوراسلام آباد میں چینی ہائی کمیشن کے ڈپٹی چیف نے اسلام آباد میں منعقد سی پیک میڈیا فورم کے تیسرے سالانہ اجلاس کے موقع پرحاصل بزنجو کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے بتایاکہ پاکستان کو گوادر پورٹ اتھارٹی کی کل آمدنی کانوفیصداورگواد اورفری اکنامک زون کی آمدنی کا پندرہ فیصد حصہ پاکستان کوملے گا۔ "اسی کو کہتے ہیں مال مفت دل بے رحم”۔جبکہ بلوچوں کے حصہ میں صرف بے دخلی ہی آئے گا کیونکہ گوادرشہر کی تقریباً70/80 ہزارکی آبادی کے مقابلے میں اس وقت گوادرمیں پانچ لاکھ چینی آبادکاروں کیلئے زمین قبضہ کیاگیاہے۔ گوادر کے بلوچ تو ایک ایک بوند پانی کیلئے ترس رہے ہیں۔ انھیں تو پیاس ،بھوک اور روزانہ چھاپوں کے ذریعے نقل مکانی پر مجبورکیاجارہاہے۔ اس لئے بی ایل ایف سی پیک کو ایک غیر قانونی استحصالی منصوبہ کہہ کراس کیخلاف مزاحمت کررہاہے۔ سی پیک منصوبوں پرکام کرنے والوں اوران کے محافظوں پر حملے کرتا ہے جسے ریاستی پابندیوں میں جکڑی ہوئی میڈیااورنیشنل پارٹی جیسے فوج کے دلال نسل پرستی،تنگ نظری اورمزدوروں کو نشانہ بنانے کا گمراہ کن نام دیتے ہیں۔ بی ایل ایف ایسے مسائل پر کھل کربحث کرنے کیلئے تیار ہے مگرہمیں شک ہے کہ نیشنل پارٹی بحث کے نام پرقوم دوست بلوچ دانشوروں،قلمکاروں،شاعروں،ادیبوں اورصحافیوں کوایکسپوزکرناچاہتاہے تاکہ فوج اورخفیہ ادارے باآسانی انھیں ہدف بناکرراستے سے ہٹاسکیں۔

четверг, 14 декабря 2017 г.

پاکستان سی پیک کو قابل عمل بنانے کیلئے بلوچ نسل کشی کررہاہے، ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

(  مقبوضہ بلوچستان: )بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ پاکستان بلوچ نسل کشی کے عمل کوتیز کرنے کے لئے کثیرالجہتی حکمت عملی اپناکردہشت گردی و ظلم وجبرکی شدت میں نئی اضافہ کررہاہے۔ اس وقت پاکستان کے دو ڈویژن ریگولر آرمی بلوچ قومی نسل کشی کے لئے سرگرم کئے جا چکے ہیں۔ بلوچ قوم کے خلاف گزشتہ سترہ سالوں سے جاری آپریشنوں میں پاکستان جنیوا کنونشن کے تمام جنگی قوائد و ضوابط کو پاؤں تلے روند رہاہے ۔ پاکستانی فوج کے آپریشنوں میں دہشت گردی کا یہ عالم ہے کہ شیرخواربچوں سے لے کر 80سالہ بزرگوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنارہاہے ۔پاکستانی فوج ، بلوچ خواتین کی گرفتاری اور انہیں ٹارچر سیلوں میں اذیت دینے کا عمل اعلا نیہ طور پر شروع چکاہے ۔ اگر مہذب ممالک اور اوام متحدہ نے اپنا آئینی کردار ادا نہیں کیا تو میرے خیال میں پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش میں بنگالی قوم پر ڈھائے گئے مظالم بلوچ قوم پر دہشت گردی کے سامنے ماند پڑجائیں گے ۔بلوچستان میں ریگولرآرمی ،ایف سی اورخفیہ اداروں کے استعمال کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ اورانسانیت کش قوتوں پرمشتمل ڈیتھ سکواڈزکی تشکیل کرکے انہیں بلوچ قوم کے قتل و غارت گری کا کھلی چوٹ دی گئی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ آپریشنوں کے تازہ لہر کو پورے بلوچستان میں پھیلا جارہاہے ۔ مشکے ،واشک اورآواران میں آپریشن جاری ہے جبکہ مکران کے اکثر علاقوں میں تازہ دم فوجی دستے اکھٹے کئے جارہے ہیں۔ ایک دو روز میں یہاں بھی ایک بڑی خونی آپریشن متوقع ہے۔ پاکستا ن چین کے اشتراک سے جاری استحصالی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اوربلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لئے اب اعلانیہ نسل کشی کررہاہے۔ اس کا واضح ثبوت کٹھ پتلی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کا کھلے عام نسل کشی کا اعلان ہے۔ عالمی اداروں کی اپنے فرائض سے غفلت نے پاکستا ن کو بلوچ قومی نسل کشی اورجنگی جرائم دُہرانے میں استثنیٰ دلایاہے جو انسانی تاریخ میں بلوچ کے ساتھ جاری مظالم پر ان اداروں اور مہذب دنیاکے خلاف ہمیشہ ایک قابل مواخذہ عمل کے طورپر یاد رکھا جائے گا ۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ سی پیک منصوبے کوقابل عمل بنانے کے لئے پاکستان پہلے ہی ہزاروں افراد کو لاپتہ اور شہید کر چکی ہے۔ میں پہلے اس بارے میں شماریات دے چکا ہوں ۔ میڈیا بلیک آؤٹ اور پاکستانی مظالم میں چین کے ساتھ پاکستان کا بلوچستان کے بارے میں معاہدات کے بعد شدت لائی گئی۔ ان میں نیشنل پارٹی کے رہنماؤں اور ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران نام نہاد ترقی کے نام پر چین پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) منصوبے کے معاہدے پر دستخط کے بعد تشدد میں انتہا درجے کی شدت لائی گئی اور ہزاروں لوگوں کو اُٹھاکر غائب کیا گیا اور سینکڑوں بستیاں جلائی گئیں ۔ ان میں اکثر سی پیک روٹ پر واقع تھے۔ اگست 2016 کو کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفراز نے کہا نیشنل ایکشن پلان کے تحت 13,575افراد کو بلوچستان سے ’گرفتار‘ کیاگیاہے۔ دسمبر 2015 میں سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے اعتراف کیا کہ اس سال 9,000 سے زائد مشکوک افراد کو ’گرفتار‘ کیا ہے۔ 2004 میں اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ، جو نواب اکبر خان بگٹی قتل کیس میں نامزد مجرم بھی ہیں، نے 4000 بلوچوں کو ’’گرفتار‘‘ کرنے کا اعتراف کیا۔ یہ قریبا 27000بنتے ہیں جن کا اعتراف ریاستی سطح پر ہوا ہے۔ مظالم کے ان دو دہائیوں میں ٹوٹل چالیس ہزار بلوچوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا گیا ہے اور سینکڑوں کو تشدد کے دوران شہید کرکے لاشیں جنگل، ویرانوں اور سڑکوں پر پھینکی گئی ہیں۔ یہ نسل کشی ہے۔سی پیک منصوبوں کی تکمیل اور قابل عمل بنانے کے لئے پاکستان لوگوں کو دربدر اور معاش کے تمام ذرائع سے محروم کرچکاہے۔ اسکے متاثرین انتہائی مشکل حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔کئی دیگر استحصالی منصوبوں کی طرح اب پاکستان خاران اورواشک میں تیل اور گیس کی تلاش کا کام شروع کررہاہے۔ اس کیلئے زمین ہموار کرنے کے لئے ان علاقوں میں فوجی قوت کا بے دریغ استعما ل روبہ عمل لارہاہے جس کا نتیجہ بلوچ قوم کی مزید تباہی کی صورت میں برآمد ہوگا ۔
قوم پرست رہنما نے کہا کہ پاکستانی ریاستی دہشت گردی کے تازہ لہرکا متوقع الیکشن سے بھی گہری تعلق ہے ،کیونکہ 2013ء کے الیکشن انتہائی ناکامی سے دوچار ہوئے ۔یہ الیکشن پاکستان کے حق کے بجائے بلوچ قومی آزادی کے لئے ایک استصواب رائے ثابت ہوئے۔ بلوچ قوم نے انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کرکے قومی آزادی کی تحریک کے کال پرلبیک کہا۔ پاکستان آئندہ انتخابات میں گزشتہ حشر سے بچنے کے لئے ہر اُس آوازکو ختم کرنے کی کوشش رہاہے جو بلوچ قومی تحریک سے وابستہ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ میں واضح کرتا ہوں کہ پاکستان کو اس دہشت گردی میں نام نہاد قوم پرست نیشنل پارٹی کا عملی تعاون واشتراک حاصل ہے۔ پاکستان کے جنگی جرائم میں نیشنل پارٹی ہرسطح پر ملوث ہے۔ تاریخ کے کٹہرے میں پاکستان کے ساتھ ساتھ نیشنل پارٹی کا وہی حشر ہوگا جو اس وقت بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کا ہورہاہے ۔ڈاکٹر مالک کاسوات طرز کا مشورہ اور ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں اجتماعی قبروں کی برامدگی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ نیشنل پارٹی بھی بلوچ نسل کشی ،جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں برابر شریک ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا روز بہ روز بڑھتی فوج کی تعداد اور دہشت گردی اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان کو بلوچ قوم کے سخت جان تحریک آزادی اور شدید مزاحمت کا سامنا ہے ۔مگر بلوچ قوم پاکستان کے تمام مظالم کا سامنا کرکے اپنی قومی تحریک آزادی کو منزل تک پہنچائے گااور اپنی حق آزادی سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوگا ۔اس تحریک کی آبیاری بلوچ قوم اپنے خون سے کر رہا ہے۔ یہ عمل ماضی کے قبضہ گیر، حملہ آوروں اور استحصالی قوتوں کی طرح پاکستان کو بھی اس سرزمین پر شکست سے دوچار کرے گا ۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کو اس انسانی المیے پر اپنی فرائض کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اقوام متحدہ سمیت تمام انسانی حقوق کے دعویدار عالمی اداروں اورمہذب ممالک کی خاموشی یہاں انسانی المیہ کو مزید سنگین تر بنادے گا ،جو یقیناعالم انسانیت اور عالمی اقدار کے لئے نیک شگون نہیں ہے ۔بیرونی میڈیا اور عالمی اداروں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ یہاں آکر بلوچ نسل کشی اور انسانی بحران کا جائزہ لیکر اس خوفناک تصویر کودنیا کے سامنے لائیں جو ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے جنم لے چکی ہے۔

понедельник, 11 декабря 2017 г.

بلوچ ریاست کے دفاع میں ناکامی کی وجوہات


حمید بلوچ 
1839 ء تا 1945ء دنیا کی تاریخ کا وہ سیاہ دور ہے جب سامراجی قوتوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور دنیا میں اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لئے انسانی اقدار کی دھجیاں اڑاکر رکھ دیے تھے۔ البتہ اسی جنگ کی تباہ کاریوں نے برطانیہ جیسی طاقت کو سخت نقصان سے دوچار کرکے اسے مجبور کیا کہ وہ اس نازک صورتحال میں اپنی نو آبادیوں سے نکل جائے۔ لیکن اپنے’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت اْس نے ہندوہستان کی تقسیم کا بھی اعلان کردیا تاکہ ایک ایسا ملک اپنے ایجنٹوں کے ذریعے وجود میں لایا جاسکے جو مستقبل قریب میں برطانوی مفادات کی چوکیداری اِس خطے میں کرتا رہے اور اس سلسلے کا پہلا کام سر اسٹیفورڈ کرپس کی سربراہی میں ایک مشن کے ذریعے انجام دیا گیا۔ لیکن اس برطانوی کاوش کو کانگریس نے ناکام بنایا اسکے بعد بھی انکی کاوشیں جاری رہیں اور بالاخر 3جون 1947 کو انگریزوں نے ہندوہستان کی تقسیم کا اعلان کردیا اور اعلان کیا کہ 15 اگست کو ان ملکوں کو اقتدار بھی منتقل کیا جائے گا ۔ اسکے بعد قلات کی بھی آزادی کا اعلان کیا گیا اور 4 اگست 1947 کو وایسرائے ہند جناح اور خان کے درمیان ملاقات کے بعد بلوچستان کی آزادی کا اعلان آل انڈیا ریڈیو دہلی سے نشر کیا گیا اس آزادی کو پاکستانی حکمران جناح نے بھی تسلیم کیا۔ 1839 ء میں انگریز کا حملہ، 1893 ء میں مکمل قبضہ، 1947 ء میں آزادی اور صرف 9 ماہ کے عرصے میں ایک اور سامراجی چوکیدار کا قبضہ، اور اس قبضے کے خلاف بغاوت اور بغاوت کی ناکامی کئی سوالاات کو جنم دیتی ہے کہ کیوں بلوچ اپنی آزادی کا دفاع کرنے میں ناکام ہوئے اور کیوں انکی پاکستان کے خلاف بغاوت چندمہینوں کے بعد دم توڑ گئی یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر آج بھی بحث جاری ہے اور ان بحثوں میں اکثر ایک سوال دہرایا جاتا ہے کہ اگر بلوچ اپنی آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو اپنی ریاست کا دفاع کرسکیں گے یا ایک مرتبہ پھر ایک اور ریاست ان پر قابض ہوجائے گا ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں تاریخی پس منظر میں جانا ہوگا تاکہ ماضی میں ہوئی ناکامیوں کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرنے کے بعد مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جاسکے تاکہ ہماری آزادی کو دنیا کی کوئی دوسری طاقت سلب کرنے کی کوشش نہ کرسکیں۔آزادی کے اعلان کے بعد 15 اگست 1947ء کو سربراہ بلوچ ریاست میر احمد یار خان نے عوامی اجتماع سے خطاب کیا اور اپنے نظریات اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے عوام کی تعاون کی درخواست کی ۔ حکومت سنبھالنے کے کچھ دن بعد ریاست کاآئین بنایا گیا، آئین کے مطابق ملک میں عام انتخابات ہوئے، اسمبلیوں کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ ملک کے لئے قانون سازی کی جاسکے ،ریاستی انتظام چلانے کے لئے وزرا کی کونسل بنائی گئی، جس کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا تھا اور جن کی تقرری کا اختیار سربراہ ریاست کو بنایا گیا، اختیارات اور طاقت کا مرکز خان تھا ۔خان نے اپنے تقریر میں اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تمام بلوچوں کو متحد کریں گے اور اپنی آزادی کے دفاع کے لئے ہر طرح کی قربانیوں کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں گے۔لیکن آزادی حاصل کرنے کے کچھ مہینوں بعدبلوچ ریاست کو مختلف مسائلوں نے گھیر لیا کہ وہ مستقبل میں کسی دوسرے ملک کے ساتھ الحاق کریں گے یا اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھے گے۔ اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے لئے ریاست قلات نے 12 دسمبر کو الحاق حوالے ایوان زیریں کا اجلاس طلب کیا گیا اور اسکے بعد فروری کو ایوان بالا کا اجلاس طلب کیا گیا تاکہ الحاق حوالے کسی نتیجے پر پہنچا جاسکے ۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے الحاق کو سرے سے ہی مسترد کردیا اور قرداد پیش کیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ دوستانہ معاہدہ کریں گے لیکن الحاق نہیں کسی صورت نہیں کریں گے۔ وزیراعظم قلات قرداد کی کاپیاں لیکر جناح سے ملنے کراچی گئے تاکہ مستجار جگہوں پر اور الحاق حوالے بات کی جاسکیں لیکن جناح نے صرف الحاق کے مطالبے کو ہی دہرایا۔ وزیر اعظم قلات کا دورہ مکمل طور پر ناکام ہوا اور اس ناکامی نے خان کو سخت مشکلات سے دوچار کردیاتھا ایک طرف عوام جو الحاق کے خلاف تھے اور دوسری طرف پاکستان کا دھمکی آمیز رویہ اور اسکی سب سے بڑی وجہ پاکستانی تنخواہ خور وزیر اعظم محمد اسلم خان تھا جس نے اپنی ڈبل پالیسی کے ذریعے خان اور ریاست قلات کے لئے سخت مشکلات کھڑی کردی تھی جس کا اعتراف خان خود بھی کرتا ہے خان کہتے ہیں کہ میری مشکلات اس وقت کم 
ہوئی جب مجھے پتہ چلا کہ جناح سبی تشریف لارہے ہیں اور میں ساری صورتحال کو ان کے سامنے رکھوں گا اور ان کا صیح حل نکل آ ئے گا۔ جب 11 فروری 48 19 ء کو جناح سبی تشریف لائے اور خان سے ملاقات میں جناح نے پھر الحاق کا مشورہ دیا دوسری ملاقات میں انہوں نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ اور آزادی ایکٹ 1935 ء کی کاپیاں خان کو دی ۔ بقول خان کہ اس رویئے نے مجھے دماغی طور پر سخت نڈھال کردیا میں بیمار پڑگیا ۔جناح کی سازش کے خلاف خان نے پاکستانی سیکرٹری خارجہ سے احتجاج کیا لیکن اس احتجاج کا کچھ بھی فائدہ 
نہیں ہوا۔ 8 مارچ 1948ء کو جناح نے خط کے ذریعے خان کو پیغام دیا کہ اب میں ذاتی حوالے سے قلات کے معاملے کو آگے نہیں بڑھاوں گا بلکہ اب اس کا فیصلہ وزارت خارجہ پاکستان حل کریں گے۔ پاکستان کے اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب حکومت پاکستان قلات کے خلاف جارحانہ اقدام اٹھانے کا فیصلہ کرچکی ہے اور انکی نیت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس اقدام کے بعدبلوچ ریاست کے خلاف سازشوں کا جال تیار کیا گیا جس میں خان کو پھنسا کر آسانی سے بلوچستان پر قبضہ کیا جاسکے۔خاران اور بیلہ کے سردار خان کے مخالف تھے، اب اس سازش میں مکران کے نواب بائیان گچکی کو بھی شامل کیا گیا، بائیان گچکی علاج کی غرض سے کراچی گئے اور وہاں شئے عمر کے ذریعے خفیہ طور پر پاکستانی اداروں کے ساتھ ملکر خان کے خلاف باتیں کیں اور ان پر الزام لگایا کہ خان ٹیکس لیتا ہے اور اپنے عوام میں جناح کے خلاف پروپگنڈہ کرتا ہے۔ اگر حکومت پاکستان ہمارے ساتھ الحاق نہیں کرتا تو ہم کوئی اور قدم اٹھانے پر مجبور ہونگے ۔بائیان کی ملاقات کے بعد کابینہ کا ایمرجنسی اجلاس بلایا گیا ۔جس میں فیصلہ ہوا کہ ان ریاستوں کے ساتھ الحاق کو منظور کیا جائے تاکہ خان پر دباو ڈال کر الحاق پر مجبور کیا جاسکے۔ ریاست پاکستان نے 17 مارچ 1948ء کو مکران بیلہ اور خاران کے ساتھ الحاق کرکے ایک غیر آئینی قدم اٹھایا۔ اس خبر کو وزارت خارجہ پاکستان نے اخباری بیان کے ذریعے 18 مارچ 1948 ء کو تصدیق کی کہ خاران، مکران اور لسبیلہ کے الحاق کے بعد 
قلات اپنے آدھے حصے سے محروم ہوگیا۔اسکے بعد انہوں نے دیگر سرداروں کے ساتھ رابطے کئے تاکہ انہیں رشوت دیکر اپنے ساتھ ملا کر خان پر دباو بڑھایا جاسکے ۔یہ سازشیں جاری تھی کہ 27مارچ 1948ء کو آل انڈیا ریڈیو سے وی پی مینن کا ایک بیان جاری ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’ خان نے اپنا سفارتی نمائندہ الحاق کے لئے ہندوہستان بھیجا ہے‘‘ اسی رات پاکستانی فوج نے قلات پر چڑھائی کرکے خان سے بندوق کی نوک پر الحاق نامے پر دستخط کروائیں۔اس جبری قبضے کے خلاف عوامی ریلیوں کا آغاز ہوا، عوامی طوفان کو کنٹرول کرنے کے لئے فوج کو الرٹ کردیاگیا، قلات اسٹیٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی ،لیڈران گرفتار کردئے گئے ،قلات کے معاملات چلانے کے لئے 15 اپریل 1948 ء کو پاکستانی ریاست نے پولیٹیکل ایجنٹ کا تقرر کیا اور پورے قلات کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس غیر آئینی و غیر جمہوری رو یے نے پورے بلوچستان میں بے چینی اور مایوسی کو جنم دیا اس نازک صورتحال میں خان قلات کے بھائی پرنس کریم آغا خان نے قومی تحریک آزادی کی قیادت کا فیصلہ کرلیا۔آغا عبدالکریم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سرلٹھ کے مقام پر جمع ہوئے۔ لیکن اس مقام پر افغان حکومت نے آپکو پیغام دیا کہ ہم اپنے سرحد سے آپکو پاکستان کے خلاف کاروائی کی اجازت نہیں دینگے آپ ایک پناہ گزین کی حیثیت سے افغان علاقوں میں ایک پناہ گزین کی حیثیت سے آجائیں ہم آپکو حق دینگے۔ لیکن ہیاں بھی کچھ ایسے لوگ موجود تھے جن کے رابطے پولیٹیکل ایجنٹ کے ساتھ تھے میجر بیگ نے مختلف حلیے بہانے سے آپکو وہاں جانے سے روکا اور دوسری طرف غوث بخش بزنجو نے بھی مسلح جدوجہد کی مخالفت کی۔ اندرونی و بیرونی امداد نہ ملنے کی وجہ سے مجبور ہوکر پرنس کریم قلات آئے جہاں قران پر ہاتھ رکھ کر معاہدے ہوئے ۔لیکن پاکستانی فوج نے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے پرنس اور اسکے ساتھیوں پر حملہ کرکے انہیں گرفتار کرلیا ان پر مقدمات چلائے گئے ۔27نومبر 1948ء کو پرنس اور اسکے ساتھیوں کو مختلف سزائیں اور جرمانے کئے گئے پرنس اور ساتھیوں کی گرفتاری نے بلوچوں کی تحریک کو شدید نقصان سے دوچار کردیا اور یہ تحریک اپنے اختتام کو پہنچی اور بلوچ معاشرے میں ایک مرتبہ پھر مایوسی اور ناامیدی نے جنم لیا ۔یہ بلوچ قومی آزادی قبضہ بغاوت کی ایک مختصر تاریخ تھی جن کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ بلوچ کیوں اپنے آزادی کے دفاع میں ناکام ہوئے اور کس طرح آسانی سے پاکستانی فوج نے قومی تحریک آزادی کو کچل دیا۔ 21 ویں صدی میں یہ سوال بلوچ قوم کے لئے آج بھی اہمیت رکھتا ہے کہ ناکامی کی وجوہات کیا تھی اگر اس سوال کا جواب نہ ڈھونڈا گیا اور ماضی کی غلطیوں کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ نہیں کیا گیا تو ہماری مستقبل کی آزادی بھی ظالم ریاستیں سلب کرسکتی ہے ۔ میرے رائے کے مطابق بلوچ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر اپنے آزادی کا دفاع کرنے میں.ناکام ہوئے ۔
1.موروثی سرداروں کی طاقت.
بلوچ ریاست دفاع میں ناکامی کی اہم وجہ سرداروں کی طاقت تھی۔ کیونکہ یہ سردار اپنے مفادات کے لئے کبھی برطانیہ سرکار کے ساتھ اور کبھی پاکستانی ریاستوں کے ساتھ خان آف قلات کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل رہے۔ انہی سرداروں نے 1839 ء میں نواب محراب خان کا ساتھ دینے کے بجائے چپ سادھ لی تھی اور یہ وہ سردار تھے جب رابرٹ سنڈیمن دربار سبی میں آئے تھے تو ایک سردار کو چھوڑ کر باقی تمام سردار سنڈیمن کے ساتھ تھے۔ ان سرداروں کو ہروقت اپنا ذاتی مفاد عزیز تھا اور یہ اپنے مفادات کو مقدس سمجھتے تھے ۔ رابرٹ سنڈیمن نے جب بلوچ سرزمین پر قدم رکھا تو اس نے وہاں کے سرداروں کی طاقت میں اضافہ کیا انہیں مراعات و سہولیات دی تاکہ انگریز سرکار انہیں اپنے مفاد کے لئے استعمال کرسکیں ۔سنڈیمن نظام کے نفاذ نے سرداروں کو سخت طاقتور بنادیا اور ان سرداروں نے اپنے طاقت و اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا عوام کو انہوں نے اپنا غلام بنایا یہ وہ سردار تھے جو ترقی و خوشحالی سے نفرت کرتے تھے اسلئے انہوں نے اپنے عوام کو ترقی سے دور رکھ کر ہمیشہ اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ۔ جب ریاست پاکستان نے قلات پر جبری قبضہ کیا تو اس قبضے کو آسان بنانے میں بھی ان موروثی سرداروں کا بڑا ہاتھ تھا جنھوں نے پاکستانی حکمرانوں سے سازباز کرکے الحاق کیا اور خان کے خلاف ساشوں میں مصروف عمل رہے۔ بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف انہوں نے ہمیشہ طاقتور ملکوں کا ساتھ دیکر اپنے سرزمین سے غداری کی اور اس تحریک کی ناکامی میں اور اسکے دفاع میں ناکامی کی اہم وجہ سرداروں کی طاقت تھی جنھوں نے عوام کو تحریک آزادی سے دور ر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔
2.تعلیم سے دوری.
بلوچ ریاست کے دفاع میں ناکامی کی دوسری اہم وجہ تعلیم سے دوری تھا۔ نیلسن منڈیلا کہتے ہیں کہ کسی ملک کی ترقی میں تعلیم ایک اہم کردار کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچ عوام کو تعلیم سے ہمیشہ دور رکھا گیا اور تعلیم کو سردار کے گھر کی لونڈی ہر طاقتور نے بنایا۔ ڈاکٹر عنایت بلوچ اپنی کتاب ” بلوچستان کا مسئلہ” کے آرٹیکل گرہن آزادی میں لکھتے ہیں کہ قومی تحریک کے ناکامی کی سب سے بڑی وجہ قومی تعمیر کے لئے ایک ترقی پسند سماج کی ناپیدی تھی سرداروں نے جدید اداروں اور اصلاحات کی مخالفت کی 1929 ء سے لیکر 1948 ء تک کوئی کالج یونیورسٹی قائم نہیں کی گئی۔ لیکن پہلے بلوچ قوم کو برطانیہ نے سرداروں کے ذریعے تعلیم سے دور رکھا اور اسکے بعد سرداروں نے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے بلوچ قوم کو علم کی روشنی سے دور رکھا تاکہ وہ شعور و زانت کی طاقت سے محروم ہوکر اپنے غلامی کو مزید طول دیں ۔ 
3.خواتین کی تحریک میں عدم شرکت۔
ریاست قلات کی آزادی کے دفاع میں ناکامی کی ایک اہم وجہ عورتوں کی انتظامی امور اور تحریک آزادی میں عدم شمولیت تھی ۔ جب انگریز سرکار نے قلات کی آزادی کا اعلان کیا تو آئین کے مطابق اسمبلیاں بنائی گئی لیکن ان اسمبلیوں میں عورت کے لئے کوئی بھی نشست مختص نہیں کی گئی تھی۔ اسکے علاوہ پرنس کریم کی شروع کردہ بغاوت میں بھی کسی خواتین کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ اگر ہم دنیا کی تحریک آزادیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان تحریکوں میں عورتوں کا 50 فیصد کردار نظر آتاہے ۔لیکن بنیادی بلوچ تحریک میں عورت کہیں بھی نظر نہیں آئی جو تحریک کی ناکامی کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔ بلوچ سماج میں عورت کا ایک قابل ذکر کردار ملتا ہے کہ عورت جرگوں میں فیصلے کرتی نظر آتی تھی جنگ کے میدان میں عورت نظر آتی تھی، لیکن جب اس سرزمین پر انگریز نے قبضہ جمایا سنڈیمن نظام کے ذریعے بلوچ سماج میں عورتوں کے کردار کو ختم کردیا گیا اور اسی قبضہ گیر کے نظام نے بلوچ سماج میں کاروکاری جیسی اصطلاحات کو پرموٹ کیا۔ اس لئے عورت کی سماجی، تعلیمی ،سیاسی و معاشی نظام میں کردار ختم ہوگیا اور وہ گھر کی چار دیواری کی زینت بن گئی۔ 
4. کمزور ادارے۔
ریاست قلات کی ناکامی کی ایک وجہ ریاست میں مضبوط اداروں کا نہ ہونا تھا نہ ہی ریاست کے پاس دفاعی ادارے موجود تھے۔ جو کسی ناخوشگوار حالات میں ملک کے دفاع کے فرائض سر انجام دیتے ۔سنڈیمن نظام کی وجہ سے سرداروں کے پاس باقاعدہ لیویز کی شکل میں فوج موجود تھی لیکن ریاست کے پاس باقاعدہ ریگولر آرمی موجود نہیں تھی جو پاکستان آرمی کے خلاف جنگ لڑتی اور انہیں اپنے سرزمین سے نکال دیتی جب پرنس کریم نے جنگ کا اعلان کیا تو اسوقت بھی کچھ قبائل کے لوگ ان کے ہمراہ تھے۔ 
5. خان سیاسی لیڈر سے زیادہ مذہبی رہنما۔
ناکامی کی ایک وجہ خان سیاست کے داؤ پیج سے عاری ایک حکمران تھا وہ ایک سیاسی لیڈر سے زیادہ مذہبی رہنما لگتا تھا۔ میر گل خان نصیر تاریخ بلوچستان میں خان کے متعلق کہتے ہیں کہ خان کے سیاسی نظریات میں تضاد پایا جاتا ہے ایک طرف وہ قومپرستی کے علمبردار اور دوسری طرف ایک خالص مذہبی ریاست کے داعی ہیں۔ وہ قومی اور مذہبی حکومت میں کوئی فرق نہیں کرتے جو انکے کردار میں پختگی کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس لئے وہ اپنے لئے کوئی راہ کا انتخاب نہیں کرسکے تھے ۔ انہوں نے 15 اگست کی تقریر میں بھی واضح طور پر کہا کہ وہ ملک میں اسلامی دستور اور شریعت کے لئے جدوجہد کرینگے اور آئین میں جو پابندیاں دوسرے لوگوں پر تھی علماء پر ان کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا تھا اس لئے بلوچ سماج جو اپنے خان کو فوجی جرنیل کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے مذہبی لیڈر کی حیثیت سے نہیں۔ اس لئے عوام نے انکے نیم مذہبی اور نیم قومی رحجانات کو قبول نہیں کیا اور خان نے اپنے پروگرام کو مکمل کرنے کے لئے غیروں کو اپنا سمجھا۔ جنہوں نے ان کے اقتدار کو ختم کرکے اقتدار اپنے لوگوں کو منتقل کردیا۔ 
6.غیروں پر انحصار ۔
کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست قومی مفادات کے تحت چلتی ہے اور دنیا کا ہر ملک اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر خارجہ پالیسی بناتی ہے۔ اور انہی مفادات کو مدنظر رکھ کر اپنے تعلقات بناتے ہیں۔ لیکن خان آف قلات سیاست کے ان مفروضوں سے عاری ایک کمزور شخص تھا جس نے اپنے ریاست کا انتظام کے ایک ایسے ملک کے تنخواہ خور ملازم کے ہاتھ میں دیا تھا جو ہمیشہ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے کا عادی ہے۔ اور اسی وزیر اعظم نے خان کو ایسے پھنسا دیا تھا کہ اس مشکل سے نکلنا خان کے بس کی بات نہیں تھی۔ اسکے علاوہ وزیر خارجہ ڈی وائی فل جو برطانوی نژاد تھا ۔ وہ ڈی وائی فل ہی تھا جس نے خان کو مزاحمت کرنے سے روکا اسکے علاوہ جب پرنس کریم نے بغاوت شروع کی تو اس نے اپنے عوام پر اعتماد کرنے کے بجائے روس اور افغانستان کی طرف نظریں گھمائیں جنھوں نے مدد سے انکار کردیا اور وہ مجبور ہوکر واپس قلات آئے اور گرفتار کردئے گئے اور ان کی گرفتاری کے بعد قومی تحریک بھی دم توڑ گئی۔ 
7.فیصلہ کرنے سے عاری لیڈرز۔
ایک لیڈر ہی قوم کی کشتی کو طوفانوں اور مشکلات سے نکال کر کنارے پر لے جاتا ہے۔ لیکن بلوچ لیڈر ان صلاحیتوں سے عاری تھے ۔ان میں مشکل وقت میں فیصلہ کرنے کی طاقت نہیں تھی اس لئے پاکستان نے بزور طاقت قلات پر حملہ کردیا اگر اسوقت خان جنگ کا فیصلہ کرلیتا تو آج یہ صورتحال پیش نہیںآتی۔ 
8.مرکز اور ریاستوں میں ہم آہنگی کا نہ ہونا۔
دفاع میں ناکامی کی ایک وجہ قلات اور اسکے ملحقہ ریاستوں میں رابطوں کا فقدان تھا خاران اور بیلہ کے حکمران ہمیشہ خان کے خلاف بغاوتوں کی کوشش میں مصروف تھے ۔وہ پاکستان کے ساتھ الحاق پر زور دے رہے تھے اسکے بعد انکے ساتھ مکران کا نواب بھی شامل ہوگیا مرکز کا صوبوں سے رابطہ وتعلقات ہی ریاست کو مضبوط کرتا ہے لیکن ہیاں مکمل انڈر اسٹینڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے قلات پاکستان کے قبضے میں چلا گیا۔ 
برطانوی و پاکستانی سازش ۔
ریاست قلات اپنے آزادی کے دفاع میں اس لئے بھی ناکام ہوئی کہ پاکستان اور برطانیہ نے قلات کی آزاد حیثیت کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا وہ ہر وقت موقع کی تلاش میں تھے کہ مناسب موقع ملتے ہی قلات پر قبضہ کیا جاسکے۔ انہی سازشوں کی وجہ سے ہی ریاست پاکستان نے قلات پر ہلہ بول دیا اور زبردستی بندوق کی نوک پر خان سے الحاق نامے پر دستخط کروائے۔ برطانیہ نے ہمیشہ بلوچستان کو ہندوہستانی ریاست کے طور پر دیکھا اور اپنے اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی قلات کی آزاد حیثیت کی مخالفت کرتا رہا۔ شاہی نمائندے نے لارڈ ماونٹ بیٹن نے کو اس خطرے سے بھی آگاہ کیا برطانیہ کو یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں قلات ریاست سویت یونین کے ساتھ تعلقات قائم نہ کریں۔ اسلئے اسکی کوشش تھی کہ ریاست قلات پاکستان کے ساتھ الحاق کریں۔ اسکی واضح مثال یہ ہے کہ برطانوی ریاست نے دانستہ طور پر ریاست قلات کو ہتھیار نہ دیئے جس کی وجہ سے قلات پاکستان کے زیر قبضہ چلا گیا پاکستان نے بھی موروثی سرداروں کے ساتھ ملکر قلات کے خلاف سازشیں کیں جسکی وجہ سے خان کی پوزیشن سخت کمزور ہوگئی اور وہ مشکل وقت میں کوئی فیصلہ نہ کرسکا اور قلات پر پاکستان نے اپنا قبضہ جما کر بلوچ قوم کی آزادی کو سلب کردیا۔ قلات کی آزادی کے بعد پاکستانی قبضہ، پرنس کی مزاحمت اور مزاحمت کے ناکامی اور اسکی وجوہات بلوچ قوم کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آج بھی بلوچ قوم اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کرر ہے ہیں اور ان تمام ناکامیوں کو مدنظر رکھ کر بلوچ سیاسی پارٹیوں کو اپنی حکمت عملی بنانا ہوگی اگر ان غلطیوں کا تجزیہ سائنسی بنیادوں پر نہیں ہوا تو بلوچ قوم مستقبل میں بھی اس طرح کے حالات کے شکار ہوسکتے ہیں ۔آج بلوچ انقلابی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچ عوام میں سرداروں کے خلاف شعور و آگاہی فراہم کریں کہ یہ سردار بلوچ قوم کے ہمدرد نہیں بلکہ سامراج کے ہاتھوں میں استعمال ہونے والے کھلونے ہیں۔ جس طرح قلات اسٹیٹ پارٹی نے ریاستی الیکشن میں ان کو عبرتناک شکست سے دوچار کرکے ثابت کردیا کہ وہ ایک عوامی پارٹی ہے اور عوام میں اپنی جڑیں رکھتی ہے۔ آج بلوچ پارٹیوں کو بھی اسی جذبے و حکمت عملی کی ضرورت ہے بلوچ نوجوانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لئے اپنی جدوجہد کو تیز کرنا چاہئیے اور بلوچ خواتین کو تحریک آزادی میں متحرک کرنا چاہیئے اسکے علاوہ آزادی پسند تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ بلوچ قوم کو اس حقیقت سے واقفیت دلانا ضروری ہے کہ دنیا میں کوئی کسی کو آزادی نہیں دلاسکتا بلوچ تحریک کی اصل طاقت بلوچ عوام ہے اور عوام کی شرکت کے بغیر آزادی کی منزل حاصل کرنا محض ایک خواب ہوگا ۔

воскресенье, 10 декабря 2017 г.

ی این ایم کے چیئرمین خلیل بلوچ کا خصوصی انٹرویو
December 10, 2017027
خلیل بلوچ اس وقت بلوچستان کے سب سے بڑے آزادی پسند سیاسی جماعت بلوچ نیشنل مومنٹ کے گذشتہ سات سالوں سے چیئرمین ہیں ، اس سے پہلے وہ بی این ایم کے سیکریٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے سیاست کا آغاز بحثیت ایک طالبعلم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے ایک کارکن کے حیثیت سے کی اور بعد ازاں وہ بی ایس او کے وائس چیئرمین کے حیثیت سے بھی فرائض سر انجام دے چکے ہیں ۔ وہ گذشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے بلوچ قوم پرست سیاست سے جڑے ہیں، انکا شمار ان باخبر سیاسی لیڈروں میں ہوتا ہے جو حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور عوام کے بیچ رہ کر حالات کا بہتر اداراک رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ گذشتہ دنوں دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے نے چیئرمین خلیل بلوچ سے ایک نامعلوم مقام پر ملاقات کی اور بلوچستان کے حالات، بلوچ آزادی پسند سیاست کے نشیب و فراز، مواقعوں و مشکلات کے بابت ان سے تفصیلی گفتگو کی جو دی بلوچستان پوسٹ کے قارئین کے دلچسپی کیلئے پیشِ خدمت ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: بلوچ نیشنل موومنٹ بلا شبہ پہلی اور سب سے بڑی بلوچ آزادی پسند سیاسی جماعت ہے، کیا آپکی نظر میں بی این ایم بلوچوں کی سیاسی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
خلیل بلوچ: بلوچ نیشنلزم کی سیاست میں پہلی مرتبہ بی این ایم ایک سیاسی پارٹی کے حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی تگ و دو میں ہے اور اس سلسلے کو کامیابی سے آگے بڑھانے کی خاطر بی این ایم کافی زیادہ قربانیاں دے چکی ہے ۔ جہاں تک بات ہے بلوچ عوام کی تمام وابسطہ امیدوں کی تو، ہم قومی آزادی کی سیاست کرنے والے پارٹی کو ریاست کا متبادل سمجھتے ہیں ۔ قومی آزادی کی سیاست کرنے والی ماس پارٹی ایک ”منی اسٹیٹ“ کے تصور پر پورا اترتا ہے۔ اس عمل کے بتدریج مختلف مراحل ہیں اور ہماری کوشش یہ ہے کہ اس پر پورا اتریں۔ دیکھا جائے تو اس مختصر وقت میں ہی ہمیں کافی کامیابیاں ملی ہیں ۔ وہ کامیابی، سیاست میں سب سے اہم شے یعنی عوامی حمایت ہے، جو ہمیں حاصل ہے ۔ بی این ایم آج اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ لوگ اسے قومی پارٹی سمجھتے ہیں اور ہم مزید بہتری کی طرف جہد آجوئی کے اس سفر میں گامزن ہیں ۔ اس سفر میں ہم نے بہت سے قربانیاں کا سلسلہ بھی دیکھا ہے ۔
جہاں تک لوگوں کے مسائل کا تعلق ہے ، انہیں حل کرنے کیلئے ہماری چاگردی( سماجی) کمیٹیاں کافی عرصے سے کام کررہے ہیں، کافی مسائل کو بلوچ روایات کے مطابق حل کرنے میں ہمیں کامیابی ملی ہے ۔ اس کے باوجود، ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچوں کے تمام مسائل کا حل اور انکی نجات قومی آزادی میں ہے ۔ بی این ایم ایک انقلابی پارٹی کی حیثیت سے ضرور یہ توقع رکھتی ہے اور کوشش کررہی ہے کہ وہ اس سفر میں کامیاب ہو۔ ہماری ایک بہت بڑی کامیابی یہ رہی ہے کہ اس مختصر سفر میں ہم بلوچ قوم کا ریاست سے جڑت کو توڑنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ بی این ایم بلوچ قوم کے تمام مسائل حل کرنے اور جدجہد آزادی میں ضرور کامیاب و فتحیاب ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: بی این ایم پر الزام ہے کہ اب بی این ایم خالص سیاسی جماعت نہیں رہی ہے بلکہ اب بی این ایم “ماس” کم “مسلح” جماعت بن چکی ہے، کیا یہ کسی خالص سیاسی جماعت کیلئے نیک شگون امر ہے؟
خلیل بلوچ: بلوچ نیشنل موومنٹ ایک سیاسی پارٹی ہے،اسکے سیاسی مقاصد ہیں، ایک سیاسی نظریہ ہے اور بلوچ نیشنلزم کی بنیاد پر جہد کررہی ہے۔لیکن جس زمین پر بی این ایم جدوجہد کر رہی ہے اسے مقبوضہ بلوچستان کہتے ہیں اور وہ قوم جو اس وقت بلوچستان پر قابض ہے ، اسکے پاس نہ تہذیب ہے، نا کوئی قانون ہے اور نا ہی کوئی دستور ۔ وہ باقاعدہ بلوچوں پر بربریت کر رہی ہے اور اعلانیہ ایک نسل کشی کر رہی ہے۔ حال ہی میں انکے نام نہاد وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے اعلان کیا تھا کہ وہ بلوچوں کی نسل کشی کریں گے، تو ایسے حالات میں ہمارے کارکنان نے اپنے دفاع کے لیئے حکمت عملی بدلی ہے۔ جیسا کہ پوری دنیا کو پتہ ہے کہ ہمارے کئی ساتھیوںکو شہید کیا گیا ہے، مگر ہم پھر بھی اپنے سیاسی مقاصد پر گامزن ہیں، گو کہ آج ماس پارٹی یا بلوچ سیاسی پارٹیوں پر قدغن لگانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی کارکن یا قائد کی شہادت نا صرف تنظیم بلکہ پوری بلوچ قوم کے لیئے ایک نقصان ہے، انکی حفاظت کے لیئے ہم نے ضرور سیاسی حکمت عملی بدلی ہے۔ اس حکمت عملی کے بابت یہ تاثر دینا کہ بی این ایم ایک مسلح جماعت بن چکی ہے، سراسر غلط ہے۔
پچھلے بارہ تیرہ سالوں سے دیکھیں کہ جہاں بھی بلوچ آبادیوں پر ظلم و جبر کیا جارہا ہو، وہاں بی این ایم ان حالات کے باوجود قائم رہ کر اپنے لوگوں کی آواز بن رہی ہے، یہ ہمارے حکمت عملی کی کامیابی ہے۔یہ تاثرغلط ہے کہ بی این ایم اب ایک مسلح جماعت بن چکی ہے، ہمارے مقاصد اب بھی وہی ہیں ، ہمارے سیاسی مقاصد ہیں اور ہم اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا رہے ہیں گو کہ اب طریقہ کار الگ ہے۔ جہاں انقلابی جنگیں ہوتی ہیں وہاں انقلابی اور نئے طریقہ کار اپنائی جاتی ہیں۔ پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ ہم ماضی کی طرح بڑے جلسے جلوس کریں اور اپنے کارکنوں اور قائدین کو سامنے لے آئیں تا کہ وہ سافٹ ٹارگٹ بن جائیں، مگر ہم ایسا نہیں کرینگے۔ہم اپنے کیڈرز کے لیئے رسک کم کر رہے ہیں، مگر اس بات کو ایک الگ رنگ دینا میں سمجھتا ہوں کہ غلط ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ نا صرف بلوچستان بلکہ بیرون ملک بھی تمام پولیٹیکل ٹولز کو استعمال کر رہی ہے جو ایک سیاسی جماعت لائن آف ایکشن میں کرتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: چیئرمین غلام محمد کے شہادت کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ بی این ایم قیادت کے حوالے سے مسلسل بحران کا شکار نظر آئی اور اسکے بعد ہم بی این ایم (غلام محمد) گروپ اور بلوچستان انڈیپنڈنٹ پارٹی نامی گروپ کا ظہور دیکھتے ہیں، اس بابت الزام آپ سمیت دوسری قیادت پر لابینگ اور تنظیم ہائی جیکنگ کا لگتی رہی ہے۔ اس بابت آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
خلیل بلوچ: چیئرمین غلام محمد کی شہادت یقینا ہمارے لیئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا،کیونکہ پارٹی فارمیشن کے چھ سال بعد ہی تنظیم کے بانی چیئرمین شہید غلام محمد کو شہید کردیا گیا۔ جب چیئرمین غلام محمد کو لالا منیر اوربلوچ ریپبلکن پارٹی کے شیرمحمد بلوچ کے ساتھ شہید کیا گیا تو ہم نے دیکھا کہ ریاست باقاعدہ طور پر اپنی ” کلِ اینڈ ڈمپ “ پالیسی کا آغاز کرچکی ہے۔ یہ یقینا ہمارے لیئے ایک صدمے اور دھچکے سے کم نہیں تھا، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہم شخصیات نہیں بلکہ اداروں کی سیاست کررہے ہیں۔ جس پارٹی کے پلیٹ فارم سے آج ہم جدوجہدکررہے ہیں، اس پارٹی کی بنیاد شخصیات یا کسی شخصیت کے نام سے نہیں بلکہ اداروں سے جڑی رہی ہے۔شہید غلام محمد کی قربانیاں اور اسکی جدوجہد، اسکی جرات یا انکا علم و زانت شاید ہم میں نا ہو لیکن یہ ایک انقلابی عمل کے حصے ہیں اور یہ ایک انقلابی عمل کا تسلسل ہے کہ شہادتیں ہوتی ہیں۔
جہاں تک بحران کی بات آتی ہے، تو یقینا آپ دیکھیں کہ ایک پارٹی کے بانی کا جب شہادت ہوتا ہے تو پھر یہ یقینا اس پارٹی کو ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا کرسکتی ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا یقین ہمارے اداروں پر تھا،ہم ایک ٹیم کی طرح کام کرتے تھے میں خود بحثیت سیکریٹری جنرل اس ٹیم کا حصہ تھا ، اسکے علاوہ دیگر دوست بھی رہے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک بہترین ٹیم ورک کے تحت ہم نے پارٹی کو اتنے بڑے صدمے و بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ چیئر مین غلام محمد کو شہید کرنے کے بعد بی این ایم کے بابت جو ریاستی ”اسکرپٹ“ تھا ، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اسے ناکام بنادیا۔
میں اس بات کی بھی وضاحت کرتا چلوں کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کا قیام ۳۰۰۲ کو عمل میں آیا، اسکے ساتھ ہی بلوچ نیشنل مومنٹ نے ایک انقلابی عمل کا آغاز کردیا اور پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی کرلی، انہوں نے پاکستانی فریم ورک تسلیم کرنے کو بلوچ کے مستقبل کیلئے زھرِ قاتل سمجھا۔شاید بعض ایسے دوست ہیں یا تھے جن کے خیال یا وہم و گمان میں نا آیا ہوکہ ایسا بھی اسٹیج تحریک میں آسکتا ہے جب ریاست اس طرح کھلے عام بی این ایم کے کارکنوں و لیڈروں کو شہید کرنا شروع کرے گا۔ یہ کچھ لوگوں کی نظریاتی نا پختگی تھی یا انکی فکری نابالیدگی تھی ، میں اسے ایک بحرانی کیفیت نہیں سمجھتا ہوں ۔ بی این ایم ایک پولرائیزیشن کے عمل سے گذری ہے اور یہ عمل پیوریفیکیشن کی شکل میں ملا ہے ، ہم نے ضرور اپنے قائد اور کئی عظیم ساتھی کھوئے ہیں، جو جسمانی طور پر ہم میں نہیں ہیں، ہم نے صمد تگرانی ، ڈاکٹرمنان، رزاق گل ، نصیر کمالان ، چیئرمین آغا عابد شاہ سمیت سینکڑوں اور دوستوں کو کھویا ہے۔
میں نہیں سمجھتا ہوں کہ بی این ایم کوئی پارلیمانی یا مراعات کی پارٹی ہے کہ لابینگ ہو ، یہ ایک انقلابی پارٹی ہے، یہ ایک انقلابی عمل ہے ، جہاں پر فیصلے انقلابی طریقہ کاروں و بنیادوں پر ہوتی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ بحرانی کیفیت کے شکار پارٹی اتنے بڑے ریاستی کریک ڈاون یا ریاستی دہشتگردی کے سامنے ٹِک سکتی ہو، بی این ایم نا صرف ٹِکی ہے بلکہ اس نے شعوری سطح پر کافی” گروتھ“ کیا ہے اور خاص طور پر 2009 کے بعد یہ جو آٹھ سال گذرے ہیں، ان میں سینکڑوں دوستوں کی شہادتیں ہوئیں ہیں ، اسکے باوجود بی این ایم اپنے داخلی و خارجی پالیسیاں وضع کررہی ہے اور لوگوں میں موجود ہے ۔
وہ جو پارٹی بنی ہے بی این ایم غلام محمد کے نام سے یا کوئی دوسرا ، یہ ہر کسی کا جمہوری حق ہے ، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حالات کی جو تپش ہے یا اس جدوجہد کی جو تپش ہے ، اس میں شاید ہی نظریاتی و فکری بنیاد پر مضبوط اعصاب رکھنے والوں کے علاوہ کوئی اسطرح مستقل مزاجی کے ساتھ رہ سکتی ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تنظیمیں بنتی ہیں، پارٹی بنتے ہیں ، اخباری سطح پر بنتی ہیں ، کاغذی سطحوں پر بنتی ہیں ، یاگروہی بنیادوں پر بنتی ہیں، ہم انہیں پارٹی نہیں کہہ سکتے ، ہم اسے تقسیم یا ڈویژن نہیں کہہ سکتے ، ہم اسے محض راہِ فرار کہہ سکتے ہیں۔ اِن کاغذی پارٹیوں کا قیام محض راہِ فرار ہے، یہ اس راہِ فراریت کو کوئی شکل یا جامے پہنانے کے مترادف ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس عمل سے بی این ایم کو کوئی نقصان ہوا ہو ، یہ شفافیت کا عمل ہے ، جس سے بی این ایم گذر رہا ہے ، آج بی این ایم کی جو بھی مقدار بچی ہے ، جتنے بھی دوست ہیں ، وہ حقیقی بنیادوں پر اپنے زمین سے اپنے پارٹی سے جڑت رکھتے ہیں ، اپنے فکر و نظریے سے انکی حقیقی جڑت ہے ۔
بعض ایسے دوست رہے ہونگے ، جن کے وہم و گمان میں نہیں آیا ہوگا کہ ریاست اس نہج تک آسکتی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی کارکن کو ٹارگٹ کرے ، یہ سمجھنے کی بات ہے کہ جہاں کہیں بھی آزادی کی جدوجہد شروع ہوتی ہے تو شروع کرنے سے پہلے ہی قیادت اسکی اسکرپٹ بناتی ہے ۔ یہ ایک وضع کردہ یا تسلیم شدہ شے ہے کہ جدوجہد شروع کرنے کی صورت میں ہمیں ان تمام مشکلات ، ریاستی دہشتگردی اور قربانیوں سے گذرنا ہوگا ، کیونکہ یہ ایک حتمی حقیقت ہے، یہ ہر جگہ ہوئی ہے اور ہر جگہ ہورہا ہے ۔ بہت سے اقوام نے کافی سالوں بلکہ صدیوں سے ان تمام مصائب کا سامنا کیا ہے، جن کا بلوچ آج کررہی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں جسے آپ بحران کہہ رہے ہیں وہ ایک بحران نہیں تھا ، بلکہ یہ ان دوستوں کی سیاسی نابالیدگی تھی ، جو پارلیمانی یا پاکستانی زنگ آلود سیاست سے متاثر تھے ، جو شاید اس بات سے غافل تھے کہ اس قومی آزادی کے جہد میں کچھ بھی قربان کیا جاسکتا ہے اور جو قربانی دینے والے دوست ہیں وہ کافی زیادہ قربان ہوچکے ہیں اور آگے بھی ہوتے رہیں گے اور جو ڈرتے ہیں وہ راہِ فرار ڈھونڈتے رہیں گے ، اس راہ فراریت کو بحرانی کیفیت کا نام دینا میرے خیال میں درست نہیں ، میرے لیئے اسے ماننا مشکل ہوگا، میں اسے تسلیم نہیں کرسکتا ، میں سمجھتا ہوں کے یہ راہ فرار کے سوا کچھ نہیں ، یہ قومی نہیں بلکہ ذاتی بقا کے فیصلے تھے ، تاریخ بہت بے رحم ہے ، تاریخ تمام چیزوں کو آشکار کرے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: بی این ایم اتحاد یا سنگل پارٹی کے بابت کیا موقف رکھتی ہے؟ کیا اس بابت آپ کی جانب سے کوئی عملی کوشش ہورہی ہے؟
خلیل بلوچ: اتحاد اور سنگل پارٹی دو مختلف شے ہیں ، میں سمجھتا ہوں سنگل پارٹی کا قیام شاید اتنی آسانی سے ممکن نا ہو، جہاں مختلف الخیال لوگ ہیں ، جہاں طریقہ کار مختلف ہوں، وہاں سنگل پارٹی کو عمل میں لانا ایسی آسان شے نہیں ہوگی ۔ ہم ضرور اتحاد پر بات کرسکتے ہیں اور اتحاد اس وقت ہوتا ہے، جب اختلافات ہوتے ہیں ، جہاں طریقہ کار پر یا دیگر سیاسی اختلافات ہوتے ہیں ، جہاں نظریہ اور فکر کی بات ہوتی ہے وہاں اتحاد ہوسکتا ہے ۔ بی این ایم اپنے ابتداءسے ابتک اتحاد کیلئے کوشاں رہا ہے۔ اس سے پہلے بی این ایم کی قیادت چیئرمین غلام ، جلیل ریکی اسکے علاوہ چیئرمین شہید سنگت ثناءکی کوششوں سے ، شاید ہم دوست بھی اس میں ساتھ تھے ، بلوچ کو ایک اتحاد میں لانے کیلئے بی این ایف کی صورت میں کوششیں کی اور اب بھی ہمارا اتحاد پر ایک سلسلہ تمام آزادی پسندوں کے ساتھ چل رہا ہے اور پیش رفت ہورہی ہے۔ بی این ایم ہمیشہ آزادی پسند پارٹیز کے اتحاد کا خواہاں ہے ، ہاں ہم نے یہ ضرور کہا ہے کہ اتحاد کے انقلابی معیار ہوں اور اسکے اصول و ضوابط ہوں ، اتحاد کو ضرورت سمجھ کر یا اتحاد بحالت مجبوری کرنے کے حوالے سے شاید ہمارا پارٹی قائل نہیں ہو۔ حقائق کو مد نظر رکھ کر اور اصولوں کے بنیاد پر جب اتحاد ہو تاہے تو اسکے ثمر اور فوائد بلوچ تک یا بلوچ قومی آزادی کے جہد تک پہنچ سکتے ہیں۔
بلو چ اتحاد کیلئے ہمیشہ سے ہی ہماری کوششیں رہی ہیں اور اب بھی جاری ہیں ۔ اس بابت ہماری کمیٹی بھی ہے، جو ہمارے خارجہ سیکریٹی حمل حیدر اور ہمارے سینئر دوست کچکول علی ایڈوکیٹ کی صورت میں کام کررہی ہے۔ ہم نے 2011 اور 12 میں کمیٹی بنائی تھی ، یہ اس وقت میرے سربراہی میں بنی تھی ، جس میں حمل حید ر ، کچکول ایڈوکیٹ ، ڈاکٹر نسیم اور نبی بخش بھی موجود تھے ۔ جو اس اشتراک عمل یا اتحاد کو پختہ کرنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتی رہی ہے ۔
جہاں تک بات سنگل پارٹی کی ہے مجھے کم از کم مستقبل قریب میں اسکے آثار نظر نہیں آتے ، کیونکہ سیاسی عمل ایک سائنسی عمل ہے ، ہم اسے ایک سائنسی عمل سے گذار کر ہی ایک ترکیب یا ترتیب دے سکتے ہیں ۔ گوکہ ہمارا فکر اور نظریہ آزاد بلوچستان ہے لیکن جو ذہنی اپروچ ہیں، ان میں اختلافات ہے ۔ اسکے علاوہ طریقہ کار ، اداروں کی تشکیل کے فارمولوں میں بھی اختلافات موجود ہیں ، ان تمام اختلافات کو نظر انداز کرکے ہم اگر سنگل پارٹی کی طرف جائیں گے تو یہ نا قابلِ عمل ہوگا۔ گر ان عوامل کو نظر انداز کرکے سنگل پارٹی کی جانب بڑھا گیا تو پھر ہم اسکی طویل عمری کیلئے بس دعا گو ہی ہوسکتے ہیں۔ اتحاد ہوسکتی ہے ، اسکے لئے ہمارے پاس مختلف فارمولے ہیں ، جن پر بات چیت ہورہی ہے ۔ میڈیا میں کچھ حد تک اسکے تفصیلات آئے ہیں ، لیکن ایک بات میں ضرور بتانا چاہوں گا کہ ہماری پارٹی ایک شے کی قائل ہے کہ ہم اپنی قوم کو تب تک امیدیں نہیں دلا سکتے ، جب تک کہ ہمیں یہ یقین نا ہو کہ ہم انہیں جو امیدیں دے رہے ہیں، وہ قابلِ عمل ہیں ۔ بحالتِ مجبوری ہم اپنی قوم کو اتحاد کی خوشخبری سنانے جائیں تو شاید یہ امید ٹوٹ بھی سکتی ہے اور اسکے ٹوٹنے کے امکانات زیادہ ہوسکتے ہیں۔ اگر اصولوں اور ذمینی حقائق کے بنیاد پر اور معیار کے بنیاد پر ہم اکھٹے ہوں تو پھر اس اتحاد کے طویل العمری کے بابت ہم امید رکھ سکتے ہیں ۔
سنگل پارٹی کا فارمولے کے بابت مجھے اچھے طریقے سے یاد ہے ، جب ۴۰۰۲ میں ہم نواب اکبر خان بگٹی سے ملنے گئے تھے، تو انہوں نے سنگل پارٹی کا فارمولہ ہمارے سامنے رکھا تھا ، اس وقت بھی ہم نے بطور طلبہ تنظیم نمائیندے کے متحدہ محاذ کی بات کی تھی ، کیونکہ بلوچ کو ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کی ضرورت ہے ۔ وقت و حالات متحدہ محاز کی تشکیل چاہتے ہیں ، لیکن اگر آپ مختلف الخیال شخصیات کو زبردستی ایک جگہ لاکر اکھٹا کریں گے تو پھر یہ بار آور ثابت نا ہوگا ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اداروں کی بالاداستی چاہتے ہیں ، ہم بلوچ سیاست میں ہیرارکی کے خلاف ہیں ،ہم بلوچ سیاست کو اسکی نظر نہیں کرنا چاہتے ہیں ،کچھ خیالات ہیں جو ہیرارکی کی طرف لیجاتے ہیں اور کچھ اداروں کی طرف لیجاتے ہیں ۔ شاید ایسے اختلافات سنگل پارٹی کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ جب تک ہم ایک پیج پر نہیں آتے اور جب تک ہم ایک دوسرے سے قائل نہیں ہوجاتے تب تک کوئی سنگل پارٹی تشکیل نہیں دی جاسکتی ، ہاں اتحاد ایک موثر شے ہے وہ بھی اصول و ضوابط کے بنیاد پر ہوتو اس پر ضرور آگے بڑھا جا سکتا ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: تمام بلوچ آزادی پسند سیاسی جماعتیں اور قائدین اتحاد کو بلوچ تحریک کے لئیے وقت کی ضرورت سمجھتے ہیں، مگر اب تک اتحاد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، اس سست روی کی وجہ کیا ہے؟
خلیل بلوچ: اتحاد وقت کی ضرورت ہے ، اس امر کو ضرور سمجھنا چاہیئے، شاید ہم سمجھ چکے ہیں یا اب تک سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اتحاد کا مسئلہ ہمارے اداروں میں زیر بحث ہے۔ سست روی کی وجہ شاید یہ ہے کہ حالات ایسے ہیں، جس میں کمیونیکیشن گیپ اور کنفیوژن کو آسانی سے ختم نہیں کرپارہے ہیں، لیکن ایک عمل چل رہا ہے ، ہم ایک ایسے اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں، کہ ہم اسے آنے والے وقتوں میں منطقی انجام تک پہنچا سکتے ہوں ۔ اتحاد کی ضرورت ضرور ہے ، ہم اسکے طریقہ کار و ضوابط ، اورآپس کے جڑت پربحث کررہے ہیں ، سست روی کی وجہ شاید حالات ہوں ، جن کی وجہ سے قیادت کے بیچ رابطے مہینوں تک نہیں ہوپاتے ، کیونکہ ہم ایک حالتِ جنگ میں ہیں ، لیکن ہمارے نمائیندے خصوصاً جو بلوچ سر زمین سے باہر ہیں ، وہ پارٹی ہدایات کے مطابق اس سلسلے کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔ شاید یہ سلسلہ اب اپنے ان مراحل تک پہنچ چکا ہے ،جہاں شاید وقت کی ضرورت کو ہم عنقریب حاصل کرنے میں کامیاب ہوں ۔
ہمارے رابطے مختلف پارٹیوں کے ساتھ ہیں، جیسے بی آر پی کے سربراہ براہمداغ بگٹی کے ساتھ ، مہران مری ، میر جاوید مینگل کے ساتھ اور بی ایس او کے ساتھ ہم پہلے سے ہی بی این ایف کی شکل میں اتحاد میں ہیں اور ان سے صلح و مشورے ہوتے ہیں ، یہ سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے اور پختہ ہورہا ہے ، بلوچ تحریک کے جتنے اسٹیک ہولڈرز ہیں جو قومی آزادی کے تحریک میں ایک ساتھ چلنا چاہتے ہیں اور وہ اداراتی شکل اختیار کرچکے ہیں یا شکل اختیار کرنے جارہے ہیں ، ان کے ساتھ یہ عمل اپنے آخری مراحل کو طے کررہا ہے ۔ ہاں سست روی ہے لیکن اس سست روی کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ یہاں کوتاہیاں ہیں ، کہ ہم یہ کہیں کہ ہمارے مفادات وابستہ نہیں ہیں ، یا ہم انکاری ہیں یا یہ ہمارے ”پرارٹی“ نہیں ہے ۔ اتحاد یقینا ہماری” پرارٹی“ ہے اور عنقریب اس پر فیصلے ہوسکتے ہیں اور ہم کم ا ز کم نقاط پر اتحاد کی کوشش کررہے ہیں ۔
بلوچ آزادی کی جہد میں ایسے آثار نمایاں نظر آرہے ہیں ، ضرور یہ مثبت نتائج کے ساتھ واضح ہوتا جائے گا ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اب اتحاد اپنے منطقی انجام کی طرف جارہی ہے ، جو ریاستی حربے ہیں وہ بھی بڑے شد و مد کے ساتھ کارفرما ہیں ۔گذشتہ دنوں جیسے سوئس حکومت نے مہران مری کے داخلے پر پابندی لگائی ، یہ ایسے دباو ہیں جو پاکستان کے آجکل کے سب سے بڑے اتحادی چین کے توسط سے قائم کی جارہی ہیں ۔یہ یقینااسکی کاوئنٹر پالیسی ہے اور وہ اس پر عمل پیرا ہے ، یہ اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے کیسے روک سکتے ہیں اور اپنا پروگرام آگے بڑھا سکتے ہیں ۔ ہماری کوششیں ہیں کہ ہم بلوچ قوم کے امیدوں پر پورا اتریں ۔
دی بلوچستان پوسٹ: پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بلوچستان میں کردار قابل ستائش نہیں، مگر اسکا متبادل سوشل میڈیا ہے، جو زیادہ کارآمد مانا جاتا ہے، کیا بہتر نہیں آزادی پسند تنظیمیں مشترکہ سوشل میڈیا ٹیم قائم کرکے منظم انداز میں بلوچستان کے مسئلے کو اجاگر کریں؟
خلیل بلوچ: بلوچستان میں میڈیا کی جو حالت ہے ، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، یہاں مکمل میڈیا بلیک آوٹ ہے ۔ موجودہ حالات کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ بلوچ قوم پر ایک بحرانی کیفیت طاری ہونے جاری ہے یا ہوچکی ہے ، کافی زیادہ لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ، یا سی پیک کے نام سے ایک بڑی تباہی لائی جارہی ہے۔ اس کے باوجود یہاں پر کوئی میڈیا نظر نہیں آتی۔پاکستان کا ایک کالونیل مزاج ہے ، وہ نہیں چاہتا کہ یہ تنازعہ دنیا کے سامنے آشکار ہو۔ لیکن کسی حد تک بلوچ سیاسی پارٹیوں یا جدوجہد نے یا میڈیا کے دوسرے ٹول جیسے کے سوشل میڈیا کی وجہ سے ہم اس تنازعے کو کسی حد تک دنیا کو سمجھانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ میرے خیال میں ، آپ جس سوشل میڈیا ٹیم کے بارے میں بات کررہے ہیں اسکی ضرورت ہے ، بجائے اسکے کہ ہم سوشل میڈیا کو منفی استعمال کریں ۔
ہم شروع سے اس بارے میں قائل رہے ہیں کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال ہو ، بلوچستان میں تو کافی عرصے سے شاید سوشل میڈیا بھی بند ہے ، کیونکہ یہاں انٹرنیٹ وغیرہ جیسے سہولیات آئے روز بند کردیئے جاتے ہیں ، عام لوگوں کی رسائی کو اس تک مشکل کرنے کیلئے یہ ایک ریاستی حکمت عملی ہے ۔ اسکے باوجود ایک بڑی آبادی ہے ، سول سوسائٹی ہے ، وہاں تک آپ اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں ۔ سوشل میڈیا ایک موثر ذریعہ بن سکتا ہے، بشرطیکہ اسکا مثبت استعمال کیا جائے ۔ اس بابت ہماری پہلے سے ہی ایک ٹیم ہے ، جو اس پر کام کررہی ہے اور کسی حد تک وہ بلوچ کے بیانیے کو دنیا تک پہنچانے کیلئے اور موبلائزیشن کیلئے اس طریقہ کار کو استعمال کررہی ہے ۔ اسکو مزید وسعت دی جاسکتی ہے ، اسکو مزید بہتر کرنے کیلئے اگر مختلف پارٹیوں کے ہنرمند دوست ، یکجاں ہوجائیں تو یہ ایک اچھا اور مثبت عمل ہوگا ۔ یہ مسئلہ ہمارے اداروں میں زیر بحث ہے، جہاں میڈیا بلیک آوٹ ہو ، وہاں سوشل میڈیا کا جتنا استعمال ہوسکتا ہو ، وہ اتنا ہی بہتر ہوگا ۔
دی بلوچستان پوسٹ: چیئرمین غلام محمد کے شہادت کے بعد سے ابتک ہم دیکھتے ہیں کہ بی این ایم ریاستی جبر کا خاص طور پر شکار رہی، اس دوران بی این ایم کے کئی مرکزی قائدین اور کارکنان شہید کیئے گئے، آپ کے خیال میں اس ریاستی جبر کا مقابلہ کیسے ممکن ہے اور کس طرح تنظیمی سرگرمیاں جاری رکھی جاسکتی ہیں؟ الزام یہ ہے کہ ان تمام واقعات کے باوجود بی این ایم کے طرزِ سیاست میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
خلیل بلوچ: جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ہم جس عمل کو آگے بڑھارہے ہیں ، یا ہم جس عمل کو ماننے والے ہیں ، یا ہم نے اس مختصر مدت میں جو کامیابی کے منازل طے کی ہیں ، یا ہم نے ریاست پاکستان یا قابض کو جس قدر حواس باختہ کیا ہے ، یہ یقینا ہماری سیاسی کامیابیاں ہیں کہ ہم نے قابض کو حواس باختہ کردیا ہے ۔اس کے جواب میں ہمیں جبر کا ضرور سامنا ہے، جہاں تک بات شہادتوں کی ہے ، تو شہادتیں ہوتی ہیں اور شہادتیں ہونی ہیں ۔ ہم عوام سے رابطہ نہیں توڑ سکتے ، مختلف حکمت عملیاں ہوتی ہیں لیکن آپ کو ہر حال میں عوام کے پاس جانا ہوتا ہے۔
بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جنہیں شاید وقت و حالات اور پارٹی حکمت عملی کے تحت ہم اپنے انٹرویوز ، پریس ریلیز ، بیانات اور میڈیا میں نہیں کہہ سکتے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری حکمت عملیاں اس سے متاثر ہوسکتی ہیں ۔ اب پہلے والے طریقہ کار نہیں رہے ،پہلے عوامی مقامات پر مباحثے ہوتے تھے یا سرکلز ہوتے تھے ، اب اس طرح نہیں رہا ۔ اس طریقہ کار میں تبدیلی آئی ہے ، حکمت عملیاں تبدیل ہوئی ہیں۔ جہاں تک ہمارے سیاسی پروگرام کا تعلق ہے، یعنی بی این ایم کا لٹریچر ، اسکا میڈیا ، یا عوام تک اسکا پیغام پہنچانا ، یا اسکا جو رابطہ ہے، وہ پہلے کی طرح بلکہ پہلے سے بہتر چل رہا ہے۔ ہاں ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے چند ایک جو شہری علاقے ہیں وہاں پر اس طریقے سے بات نہیں جارہی، جس طرح آٹھ دس سال پہلے ممکن تھا ، اب بلوچستان عملًا ایک وار زون بن چکا ہے اور ایک وار زون میں ، سیاسی طریقہ کار تبدیل ہوتے ہیں ، حکمت عملیاں تبدیل ہوتے ہیں ، لیکن پھر بھی آپ کو اپنے سر زمین کے ساتھ وابستہ رہنا ہوتا ہے ، اپنے سر زمین پر رہنے والی قوم کے ساتھ وابستگی مضبوط کرنی ہوتی ہے ۔
بلوچستان پر گذشتہ 69 سالوں سے ایک قبضہ گیر قابض ہے، وہ اپنے قبضے کو دوام بخشنے کیلئے، اپنے تمام حربے استعمال کررہا ہے ، وہ اپنی پوری ٹیکنالوجی استعمال کررہا ہے ، اب دیکھیں موت کے خوف سے ہم اپنے قوم سے، اپنے لوگوں سے اپنی جڑت کو نہیں تو ڑ سکتے ۔ موت کے خوف سے ہم اپنی پالیسیاں لوگوں تک پہنچانے سے باز نہیں آسکتے اور یہ جو ریاستی مظالم ہیں ، انہیں آشکار کرنے سے ہم نہیں رک سکتے ۔ ہم ہمہ وقت اپنا طریقہ کار تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس قومی آزادی کی جنگ میں ہمارے دشمن کو کم سے کم کامیابیاں حاصل ہوں اور ہمیں زیادہ سے زیادہ کامیابیاں ملیں ۔ یہ شہادتیں اور قربانیاں ایک جنون ہے، اپنی قوم و وطن کے ساتھ یہ ایک لگاو ہے ، یہ ایک احساس ہے جو لوگوں کو کھینچتی ہے ، اسے قربان ہونے پر تیار کرتی ہے ۔ یہ اس جہد کا حصہ ہے ، میں یہاں اپنے شہید دوست ، شہید منان جان کے اس بات کو ضرور بیان کرنا چاہوں گا کہ ہمیں خوف اور احتیاط کے بیچ کی جو فرق ہے اسے واضح کرنا چاہیئے ، احتیاط خوف کی شکل اختیار نا کرجائے یا ہم خوف کو احتیاط کا نام نا دے دیں اور اپنا کام اور اسکے تسلسل کے رفتار میں کمی لائیں ۔ احتیاط ہمارے دوست کررہے ہیں ، ہمارے دوست نا صرف اپنے پولیٹکل کیڈرز کو بلکہ عام عوام کو بھی احتیاط کی ترغیب دیتے ہیں اور انکو سمجھاتے ہیں ۔
دی بلوچستان پوسٹ: مجموعی حوالے سے آزادی پسند سیاسی تنظیموں کے پاس آئندہ پانچ یا دس سالوں کی منصوبہ بندی دکھائی نہیں دیتی یا پھر یوں کہیں ہماری تنظیمیں محض واقعات کو لیکر سیاست کرتی ہیں، کیا آپ اس سے اتفاق کرینگے؟
خلیل بلوچ: میں بلوچ نیشنل مومنٹ کی بات کرسکتا ہوں ، میں بی این ایم کی پالیسیاں بیان کرسکتا ہوں ، بی این ایم قومی آزادی کے جدوجہد کو آگے بڑھانے والی پارٹی ہے ، بی این ایم کا واقعات پر انحصار نہیں ہے ، اسکے پاس ایک پروگرام ہے ایک منشور ہے ایک چارٹر ہے ۔ شاید ہمارے کافی زیادہ لٹریچر آتے ہیں اورآتے رہیں گے ، اور ہمارے کافی زیادہ سرکلز اور ڈسکشنز ہیں ، ان میں ہم سب سے زیادہ زور اس بات پر دیتے ہیں کہ ہمیں اپنا پولیٹکیل کیڈر اس طرح تیار کرنا چاہیئے کہ وہ ایک آزاد ریاست کے تصور کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ یہ تحریک ایک وقتی شے نہیں ہے ، یہ کوئی واقعاتی شے نہیں ہے ، یہ واقعے پر سیاست نہیں بلکہ تحریک ہے ۔ اب تو یہ واقعات معمول کا حصہ بن چکے ہیں اور جو پروگرام ہے وہ طویل المدتی ہے اور واضح ہے ۔ ہماری ذہن سازی اسی بنیاد پر ہورہی ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہم واقعات کی سیاست کررہے ہیں، یا جز وقتی سیاسی پروگرام چلا رہے ہیں ۔
ہمارا پروگرام آزادی سے پہلے سے لیکر بعد تک جاری رہنے والا پروگرام ہے ، جسے ہم نے اپنے آئین و منشور میں سمیٹا ہوا ہے ۔ واقعات ضرور آتے ہیں ، واقعات زیر بحث ہوتے ہیں ، واقعات پر موبلائزیشن اور موٹیویشن ہوتی ہے جو ایک سیاسی پارٹی کا ذمہ داری ہے ۔ جہاں کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے یا کوئی بڑی قربانی ہوتی ہے، تو اس قربانی کو اپنے لوگوں اور عالمی سطح تک پہنچانا بھی پارٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اسے آپ واقعاتی سیاست نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ ایک عمل و قربانی کو سیاسی شکل دینا ، وضع اور تشریح کرنا ہے ۔ یہ ایک سیاسی پارٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اس تشریح کو لیکر اگر اسے واقعات پر سیاست کرنا کہا جائے، تو پھر یہ ایک غلط رجحان ہوگا ، جس سے میں ہرگز اتفاق نہیں کرتا ۔
دی بلوچستان پوسٹ: خاص طور پر گذشتہ سات سالوں کے تجربات کے روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح دِکھائی دیتی ہے کہ بلوچستان میں اب پر امن سیاست کرنا نا ممکن ہوچکا ہے اور سیاسی جماعتوں کے پاس پر امن سیاست کیلئے کوئی امکان نظر آتا ہے، ایسے ماحول میں بی این ایم اپنے منشور کو لیکر آخر کیسے بڑھ سکتا ہے؟
خلیل بلوچ: جس دن بی این ایم کی بنیاد رکھی گئی، اسی دن یہ طے تھا کہ قومی آزادی کے جدوجہد کا جو منطقی انجام ہے، یہ جو عمل ہے، وہ یقینا ایک وار زون کو” کریٹ“ کرسکتی ہے یا کریٹ کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔ اسے کاونٹر کرنا یا کریش کرنا قابض کا فطری ردعمل ہے۔یہ پوری دنیا میں دستور رہا ہے۔ ایک سیاسی لیڈر، ایک ویژنری سیاسی لیڈر کو ان تمام حالات کا ادراک ہوتا ہے ، جہاں تک بات ہے کہ اب پر امن سیاسی جدوجہد نا ممکن ہے، تو میں اس بات سے اتفاق نہیں رکھتا ہوں ۔ بالکل جدوجہد ہوسکتی ہے اور ہورہی ہے ، مختلف ذرائع ہیں اور مختلف ٹولز ہیں ، جدوجہد کو صرف بڑے بڑے اجتماعات کا نام دینا یا جلسوں کے شکل میں آنا، یا مجمعے اکھٹے کرنا ہی نہیں سمجھنا چاہیئے ۔ یا پارلیمنٹ کو ہی جمہوری سیاست کا نعم البدل قرار دینا، یہ ایسے اصطلاحات ہیں جن سے ہم اتفاق نہیں کرتے، بی این ایم کا جو منشور ہے ہم اسکو آگے بڑھانے کیلئے آج بھی پر امن طریقے استعمال کررہے ہیں۔ آج بھی بی این ایم کے اسٹڈی سرکل، عوامی رابطے ، کارنر میٹنگز ، سوشل میڈیا استعمال ، تنظیم کاری ، رابطے ہیں اور نا ہی دانشوروں کے ساتھ رابطوں کا تسلسل ٹوٹا ہے ۔ بی این ایم کے پر امن سیاسی جدوجہد کا تسلسل جاری ہے اور آگے بڑھ رہا ہے ۔
اگر ایسا نا ہوتا اور یہ تمام حربے ختم ہوچکے ہوتے تو پھر شاید بلوچ قومی جہد قومی آزادی کی شکل ایسی نا ہوتی ۔ اس جدوجہد میں اور بھی تنظیمیں ہیں جو آزادی پر یقین رکھتے ہیں ، انکی کوششیں اور قربانیاں ضرورہیں ، میں ہرگز یہ نہیں کہوں گا کہ یہ جدوجہد اور کامیابیاں صرف بی این ایم کے مرہونِ منت ہیں ، ضرور بی این ایم نے اس میں ایک کردار ادا کیا ہے اور کرتی رہے گی لیکن ایسا نہیں ہے کہ اب پر امن ذرائع ناپید ہوچکے ہیں یا ختم ہوچکے ہیں اور صرف مسلح جدوجہد بچی ہو ۔ سیاسی جدوجہد اپنے منازل طے کرتے ہوئے جارہی ہے ، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ حکمت عملیاں بدلتی رہتی ہیں اور انکے تحت جدوجہد آگے جاتی رہتی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اب ناممکن ہوچکا ہے اس سے ہم اتفاق نہیں رکھتے ، میں یہ سمجھتا ہوں کہ آنے والے وقت میں ریاستی جبر کی وجہ سے بلوچستان کے حالات جس طرف جارہے ہیں ، اسکی وجہ سے ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے ۔ لیکن ہم پر امید ہیں کہ ہم پھر بھی پر امن طریقے سے اپنا پیغام عوام کو پہنچا سکیں گے ، ہمارا طریقہ کا ر بلکل رکا نہیں ہے اور نا ہی اسے روکا جاسکتا ہے ، ہمارے مختلف علاقوں میں سیلز ہیں ، ہمارے ورکرز ہیں ، بات حکمت عملی کی ہے ، بی این ایم اب مختلف حکمت عملی سے اپنے کام بڑھاتی جارہی ہے ، بحثیتِ ایک سیاسی جماعت وہ اپنی آئین دستور اور منشور کے تحت اپنی سرگرمیوں کو آگے بڑھا رہی ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: گذشتہ پانچ سالوں کے دوران، بی این ایم نے بہت تیزی کے ساتھ خود کو بیرونی مماکل میں منظم کیا ہے، جو یقیناً قابلِ تعریف ہے۔ آپکی نظر میں موجودہ حالات کے تناظر میں بیرون ملک سفارت کاری کتنی اہمیت رکھتی ہے؟
خلیل بلوچ: یقینا قابلِ ستائش ہیں وہ دوست جو بلوچ سر زمین سے باہر رہ کر بھی اپنی قومی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہیں اور اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں، بلوچ نیشنل موومنٹ نے ۲۱۰۲ کے اواخر میںاپنی خارجہ پارلیسی وضع کی اور اپنا خارجہ سیکریٹری کا انتخاب کیا اور ان پانچ سالوں میں جیسے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ بیرون ممالک میں انہوں نے ایک متوازی سیاسی قوت اور ادارے تشکیل دیئے ہیں ۔ میں اس عمل کو سراہتا ہوں اور ان تمام دوستوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں، جو اس عمل کا حصہ ہیں اور اسے آگے بڑھا رہے ہیں ،جنکی جدوجہد اور قربانیوں اور مخلصی کی وجہ سے آج ہم اس اسٹیج پر پہنچے ہیں ۔
اس جدید دور میں دنیا کے دستور کے مطابق ، سفارت کاری بہت اہمیت رکھتی ہے۔ سفارت کاری کے ذریعے سے ہی ہم اپنے حالات و پیغامات اور اپنے سرزمین پر رونما ہونے والے حالات کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرسکتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ایک انسانی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں ، ایک ایسے دشمن کی طرف سے جو تمام اخلاقیات اور جنگی اصول و ضوابط سے عاری ہے ، جس کے پاس نا تہذیب ہے اور نا انسانی اقدار۔ وہ جینیوا کنوینشن و اقوام متحدہ کے اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی کررہا ہے اور بلوچ نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے، جو اعلانیہ طور پر کی جارہی ہے ۔ ان حالات میں سفارت کاری بہت اہمیت رکھتی ہے ، اس کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے دوست اور خاص طور پر حمل حید ر نے اس بابت بہت محنت کی ہے۔ میں اسکے کام کو بہت سراہتا ہوں ۔ سفارت کاری کے ضرورت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ، یہ انتہائی بنیادی ضرورت ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچ اب دنیا کو باور کراچکی ہے کہ بلوچ ایک متنازعہ علاقے میں رہ رہی ہے اور یہ تنازعہ پاکستان کے ساتھ ہے، جس کا آغاز ۷۲ مارچ ۸۴۹۱ سے ہوا ہے ۔ قطع نظر اسکے کہ انکا کیا کردار رہا ہے ، وہ اپنا کردار نبھا رہے ہیں یا نہیں ، لیکن جو ہمارے دوستوں کی سفارت کاری ہے میں سمجھتا ہوں وہ اپنے کوششوں میں کامیاب ہورہے ہیں ، وہ اپنی بات کسی حد تک منوا چکے ہیں اور وہ دنیا کو آگاہ کرچکے ہیں اور یقینا اس میں بہتری کی گنجائش ہے ۔
میں اکثر اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ ہمیں ایک انقلابی تنظیم وراثت میں نہیں ملی ہے ۔ ۰۰۰۲ کے دہائی سے جس جہد کی بنیاد ہمارے قائدین نے رکھی ہے، میں ڈاکٹر اللہ نظر ، چیئرمین غلام محمد ، چیئر مین رحیم ایڈوکیٹ کا نام ضرور لینا چاہوں گا جنہوں نے قومی آزادی کی جدوجہد کو انقلابی سطور پر لانے کیلئے اداروں کے بنیاد پر پارٹی اور اداروں کی تشکیل کی ۔ یہ ایک مختصر مدت ہے ، بحثیت سیاسی کارکن ہمارے فارن پالیسیز سے جڑے جو دوست ہیں وہ پروفیشنل نہیں ہیں، وہ اپنے تجربات اور” سیلف اسٹڈی“ سے سیکھ رہے ہیں لیکن اسکے باوجود وہ کامیابی کی طرف جارہے ہیں ، یہ قابلِ ستائش بات ہے ۔
اس ضرورت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ آج دنیا کو باور کرانا یا دنیا کے توجہ کو اپنی سر زمین کی طرف راغب کرنا ، ایک اہم اور بہترین سفارت کاری کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتا ہے،مجھے یقین ہے جس طرح ان پانچ سالوں میں بلوچ وطن سے باہر جس طرح ہمارے دوستوں کو جو کامیابیاں ملی ہیں، جس طرح انہوں نے تنظیم کاری اور سفارت کاری کا سلسلسہ آگے بڑھایا ہے ، یہ یقینا آگے مستحکم ہوگا اور بہتر نتائج آئیں گے اور اس کے ضروریات اہم سے اہم تر ہوتے جائیں گے ، ہمارے سر زمین کی جو جیو پولیٹکل اہمیت ہے ، شاید وہ آنے والے دنوں میں دنیا کو باور کرانے میں زیادہ کامیاب ہوگی کہ انکے بھی مفادات بلوچ سر زمین سے وابسطہ ہیں ، اور اسکی اہمیت کو ماننا دنیا کیلئے شاید ناگزیر بن جائے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بلوچ من حیث القوم آزادی کیلئے کوئی مشترکہ خارجہ پالیسی رکھتی ہے؟ یا بیرونِ ملک سرگرمیاں اطمینان بخش ہیں؟ بادی النظر یہ تاثر ملتا ہے کہ اس وقف بلوچ بیرون ملک انتہائی منتشر اور مبہم تاثر دے رہا ہے کچھ تو الزام لگاتے ہیں کہ ” ہر کسی نے اپنا دکان کھولا ہوا ہے”۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
خلیل بلو چ: جہاں تک بات ایک مشترکہ خارجہ پالیسی کی ہے، تو شاید میں آج یہ نا کہہ سکوں کے ہماری کوئی مشترکہ خارجہ پالیسی ہے ، بی این ایم کی ایک خارجہ پالیسی ہے، وہ اس پر عمل پیرا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ہم من حیث القوم ایک مشترکہ خارجہ پالیسی اپنانے میں کامیاب ہوں ، اس سلسلے میں ہمارے جو رابطے ہیں وہ ضرور جاری ہیں ۔ بیرونی ملک سرگرمیوں کی جہاں تک بات ہے تو شاید وہاں پر بلوچوں کی منتشر آبادی ہے اور جو ڈائسپورا ہے وہ بھی منتشر ہے ، کچھ کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اپنی پوری قوت کا ایک جگہ مظاھرہ کرسکیں۔اسکے باوجود جو سرگرمیاں ہورہی ہیں ، جس طرح بون کانفرنس ہوئی ہمارے پارٹی کی طرف سے یا دیگر ایونٹس ہوئے ہیں ، وہ اطمینان بخش ہیں ۔
بلوچ قومی تحریک میں شروع سے ہی ہماری یہ پالیسی رہی ہے کہ بلوچ پالیٹکس میں شخصیت کی بنیاد پر یا اداروں سے ہٹ کر سیاست کرنا ، اداروں کو بالائے طاق رکھ کر شخصی بنیادوں پر سیاست کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائیگی ۔ جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ بیرونِ ملک کچھ نے اپنی اپنی دکانیں کھولی ہوئی ہیں، تو آپ دیکھیں کو ن دکانیں کھول رہا ہے ، شاید اس بابت اب نا صرف بلوچ کو بلکہ دنیا کو بھی آگاہی حاصل ہوگئی ہے ۔
سیاست میں کٹھ پتلی یا پراکسی کی ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے ، یہ بیرونی قوتوں کی ضرورت ہے کہ انہیں بلوچستان جیسے جیو پولیٹکل طور پر اہمیت کے حامل خطوں میں ایسے لوگ ملیں جو کم شرائط پر آسانی سے انکے کنٹرول میں آسکیں۔ اب یہ چھوٹی چھوٹی کھلی دکانیں اصل میں، اسی عمل کا شاخسانہ ہوتی ہے۔ ہم شروع دن سے اسکے مخالف رہے ہیں ، کیونکہ جو حقیقی طاقت ہے وہ بلوچ ہے اور وہ بلوچ سرزمین پر ہے ، بلوچ کی حمایت جہاں پر ہے، کامیابی وہیں پر ہوگی۔ بلوچ کے منشاءکے بغیر کوئی اپنے مفادات کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا۔
جنہوں نے دکان کھولی ہے یا کھولنا چاہتے ہیں، ہم انہیں جنگی منافع خور کہہ سکتے ہیں ، جو جنگ سے منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں، انکا سوچ و ایمان ” شیئر پولیٹکس “ہے ، ہم نا کبھی” شیئر پولیٹکس “پر یقین رکھتے تھے اور نا رکھیں گے ۔ ہمارے لیئے سب سے زیادہ اہم ہمارے قومی مفادات ہیں جن پر کسی بھی صورت ہم سمجھوتا نہیں کرسکتے اور نا ہم انہیں داو پر لگائیں گے ، جو عناصر اس طرح کرنا چاہتے ہوں تو میں نہیں سمجھتا کہ انہیں ایسی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے ، جس طرح بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ انکو اس عمل میںکوئی کامیابی ملے گی ۔ یہ فردی کوششیں ہیں دیکھا جائے تو انہیں اتنی کامیابی نہیں ملی ہے ، نا ہی انہیں مل سکتی ہے ، کیونکہ بلوچ کا جو مینڈٹ ہے وہ انہیں حاصل نہیں ہے ۔سیاسی دکانوں کا یہ سلسلہ شاید اور بھی چلتا رہے لیکن میں ان دکانداروں کے خواہشوں سے کبھی مرعوب نہیں ہوا ۔ جہاں ادارے مضبوط ہونگے، وہاں پر ایسے عناصر تنہائی کا شکار ہونگے اور انکا حقیقی کردار کبھی نا کبھی واضح ہوجائیگا ، بحثیت بلوچ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بلوچ یہ حق رکھتی ہے کہ ایسے عناصر کو کٹھڑ ے میں کھڑا کرکے جواب طلبی کرسکے اور ایک دین قوم ایسا ضرور کریگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: سی پیک روٹ ، گوادر پورٹ ، مضبوط پاکستانی فوج، چین کی ہمکاری ، امریکہ کو پاکستانی امداد، منتشر بلوچ یہ تمام عوامل ظاھر کرتے ہیں کہ آزادی کے اس جنگ میں بلوچ ایک انتہائی کمزور پوزیشن میں ہے۔ کیا بلوچ کامیاب ہوسکتے ہیں؟
خلیل بلوچ: دیکھیں میں نہیں سمجھتا کہ بلوچ کمزور پوزیشن میں ہیں۔ جب ایک تحریک، ایک قومی جدوجہد اپنی قوم پر انحصار کرتی ہو تو وہ کمزور نہیں کہلائی جاسکتی۔ یہاں پر جو وحشیانہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے ، جسطرح تمام جنگی قوانین کو روند کر آپریشنز کیئے جارہے ہیں، جسطرح بلوچ نسل کشی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں، ہم پر گن شپ کوبرا ہیلی کاپٹر استعمال کیئے جارہے ہیں اور بلوچستان عملاََ ایک وار زون بن چکی ہے۔ایسے حالات میں آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بلوچ کمزور ہے۔ جہاں ملٹی ملین ڈالر کے پروجیکٹس کی حفاظت کے لیئے بلوچوں پر تشدد کا استعمال کیا جا رہا ہو، انھیں علاقہ بدر کیا جارہا ہو، میں سمجھتا ہوں یہ بلوچ کے طاقت کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ خود سے اتنی بڑی طاقت کو حواس باختہ کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ بلوچ جس قوت سے سامنے آئی ہے اسی بنا پر دنیا بھر کے سرمایہ کار، ماسوائے چین کے،یہا ں آنے سے گریزاں ہیں۔
جہاں تک چین کی بات ہے تو چین بین القوامی سیاست کے تحت اس علاقے میں اپنی مونوپولی /اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہے، تا کہ وہ اس بلاک میں ایک مضبوط طاقت بن کر ابھر ے اور انڈیا جیسے ملکوں کو دھمکائے۔ چین یہاں سے اپنے لیئے وسطی ایشیاءکی راہ کھولنا بلکہ انکے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ جہاں تک بلوچ کی بات ہے ،تو بلوچ تن تنہا نہ صرف اسکے تمام ملٹی ملین پروجیکٹس کو سبوتاژ کر رہی ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ تمام انفارمل فورسز کا مقابلہ بھی کر رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اب تک بلوچ نے انکے سی پیک کے خواب کو خواب تک ہی محدود رکھا ہے۔جب سے نام نہاد سی پیک کا اعلان ہوا ہے تب سے اب تک ہم نہیں دیکھتے کہ چین کسی بھی طرح سے یہاں پر سرمایہ کاری کر پائی ہے۔ جب ستر ٹرالر اس روٹ سے گزارے گئے تھے، تووہ بھی فوج کی فضائی نگرانی میں، اس پر بھی بلوچ سرمچاروں نے مختلف مقامات پر حملے کرنے میں کامیاب ہوئے تھے، کہنے کا مقصد یہ کہ ان سب کو ہم سرمایہ کاری نہیں کہہ سکتے۔ ہاں یہ بات ہے کہ چین کے بلوچستان میں معاشی مفادات سے زیادہ عسکری مفادات ہیں اور اس بات کی نشاندہی بلوچ قیادت ایک دہائی قبل کرچکی ہے، چین یہاں پر اپنا مضبوط نیول بیس بنانا چاہتی ہے اور یہیں سے وہ نہ صرف انڈیا کے خلاف بلکہ دنیا بھر میں طاقت کے توازن میں بگاڑ لانا چاہتی ہے، یہی واحد چیز ہے جسے ہمیں سمجھنا ہوگا۔ باقی اس روٹ کو یا کہ سی پیک کو اقتصادی کہنا درست نہ ہوگا، ہاں یہ روٹ معیشت کے لیئے یا پھر اقتصادی مقصد کے لیئے استعمال ہو سکتی ہے، مگر جب تک بلوچ نہ چاہیں تب تک ہرگز نہیں۔
بلوچ ایسے کسی بھی منصوبے کا بھر پور مزاحمت کریں گے، کیونکہ میں سمجھتا ہوں یہ بلوچ کے زیست و مرگ کا معاملہ ہے اور بلوچ مضبوطی کے ساتھ اسکے خلاف کھڑا رہے گا، میں بلوچ کو مظبوط کہہ رہا ہوں کیونکہ ہمیں اپنی قوم کا اور سیاسی جماعتوں کا حمایت حاصل ہے۔ جہاں تک امریکی امداد کی بات ہے تو اب امریکہ میں بھی اس امداد پر بات ہورہی ہے ، جو پاکستان کو نائن الیون کے بعد سے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر دی جارہی ہے، مگر یہ امداد انہی دہشتگردوں کے افزائش اور سب سے زیادہ بلوچوں کے خلاف استعمال ہورہی ہے، حالیہ دنوں میں دیکھیں پاکستان کی حافظ سعید کے بابت پالیسی، یا پھر پاکستان کے خارجہ مشیر سرتاج عزیز کا وہ بیان جہاں انھوں نے کہا تھا کہ طالبان کو پاکستان میں پناہ گاہیں حاصل ہیں اور انھیں یہاں صحت کی بھی سہولیات میسر ہیں۔ اسکے علاوہ ملا اختر منصو ر کا یہا ں پر مارا جانا یا کہ نائن الیون کے واقعے میں سب سے زیادہ مطلوب کردار اسامہ بن لادن کا فوجی کیمپ کے انتہائی قریب مارا جانا، یہ تمام باتیں اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے اور اب دنیا بھر کے لیئے خطرہ بن چکی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کینسر کو اب کاٹنا چاہیئے، لیکن دنیا اور عالمی طاقتیں کب اسے سمجھیں گی یہ دنیا پر منحصر ہے۔لیکن بلوچ اپنے سرذمین کی آزادی کی جدوجہد اپنے شرائط کے مطابق آگے بڑھائے گی اور ہر اس ڈیموگرافک چینج جو کہ بلوچ کی تباہی کا موجب بنے گی بلوچ اسکا مقابلہ ہر طریقے سے کریگی اور پوریطاقت سے کریگی۔میں یہا ں بلوچ کے پوزیشن کو کمزور نہیں مضبوط سمجھتا ہوں، جس نے پاکستانی فوج کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے کئی فوجی ڈویژن یہاں بھیجے ، میں سمجھتا ہوں کوئی کمزور قوت اتنی بڑی طاقت کو اس قدر مجبور نہیں کر سکتا۔
دی بلوچستان پوسٹ: بلوچ سیاست میں تقسیم در تقسیم کیسے رک سکتی ہے؟
خلیل بلوچ: یہ ایک فطری عمل ہے ، اسکا رکنا شاید کسی طے فارمولے کے بعد ہی ممکن ہو لیکن یہ تقسیم در تقسیم کا سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ ہمیں ایسے کسی ادارے کی ضرورت ہے جو اس تقسیم در تقسیم کو روکے ، اگر میں آسان الفاظ میں کہوں تو ایک ایسے مشترکہ کونسل کی ضرورت ہے ، جس کے اصولوں پر عمل در آمد کرنا ، جن پر عمل کرنا ہم اپنی ذمہ داری سمجھیں ، پھر شاید یہ کونسل ایک ایسی انڈر اسٹینڈنگ پیدا کرے یا امکانات پیدا کرے جو بلوچ سیاست کو تقسیم کے بجائے یکجہتی کی جانب لے آنے میں کارگر ثابت ہو۔ میرے خیال میں ایک مشترکہ کونسل ہی یہ کام کرسکتی ہے اور اسکے اصولوں پر ایمانداری اور نیک نیتی کے ساتھ عمل کرنا اس تقسیم در تقسیم کو روکنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: ریاستی سرپرستی میں بلوچ سماج میں پھیلائی جانے والی مذہبی شدت پسندی کو بلوچ آزادی پسند کیسے روک سکتے ہیں؟
خلیل بلوچ: بلوچ ایک سیکولر قوم کی حیثیت سے ایک طویل تاریخ و تہذیب رکھتی ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ریاستی حکمت عملی ہے کہ بلوچ سماج میں شدت پسندی کو پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بلوچ زمین پر نیشنلزم کی ایک طویل تاریخ ہے ، اپنی اس تاریخ کی وجہ سے بلوچ سماج میں کبھی بھی مذہبی شدت پسندی نا ابھی تک کامیاب ہوسکی ہے اور نا آئیندہ ہوگی ۔ بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی کا جو رجحان ہے، وہ عام لوگوں میں نہیں ہے ۔ جو مذہبی شدت پسند یہاں پائے جاتے ہیں وہ ریاستی پیرول پر کام کررہے ہیں ، جو زرخرید ہیں ، انکی پرورش بھی فوجی کنٹونمنٹوں میں ہوتی ہے ۔ یہ مذہبی جنونی فورسز دراصل پاکستان کی غیر رسمی فوج ہے ۔
تشویشناک بات تب ہوتی، جب ہم سمجھتے کہ شدت پسندی ہمارے سماج میں جڑیں مضبوط کررہی ہے ۔ ہم نے ایسا کبھی نا دیکھا ہے، نا محسوس کیا ہے کہ بلوچ سماج میں مذہبی شدت پسندی یا پاکستان کے بنائے ہوئے مذہبی شدت پسند جڑ پکڑ رہے ہوں ۔ یہ بلوچ سماج میں اپنے لیئے جگہ نہیں بنا سکے ہیں ۔ بلوچ سماج میں آزادی کیلئے برسرپیکار تنظیموں نے اپنے لیئے یقینا جگہ بنائی ہے ، جو ایک مضبوط عوامی حمایت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ مذہبی شدت پسند ریاستی ٹولز ہیں ، انہیں بطور ڈیتھ اسکواڈز استعمال کی جاتی ہے ۔
ان مذہبی شدت پسندوں کے بیانیے کو بلوچ سماج میں وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی، جسطرح انہیں پاکستان میں حاصل ہوئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان مذہبی شدت پسندوں نے پنجاب وغیرہ میں زیادہ تر اپنی جڑیں آسانی سے مضبوط کرلیں ہیں ، وہاں کا کلچر ، وہاں کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وہاں جو بھی فاتح آیا ہے یا کوئی بھی مذہبی جنونی نظریہ آیا ہے، وہ کامیاب ہوئی ہے، لیکن بلوچ انکا مقابلہ کررہی ہے ۔ بلوچ اسے اپنے نظریے سے متصادم نظریہ سمجھتی ہے ، بلوچ نا اسکی پیروی کرتی ہے اور نا کرے گی ۔
بلوچستان میں بلوچ بطور ایک سیکیولر قوم کے ، دیگر تمام مذاہب کے ساتھ اچھے تعلقات کے ساتھ رہی ہے ، یہاں تمام مذاہب کے مذہبی تہوار صدیوں سے منائے جاتے رہے ہیں ، تمام مذاہب صدیوں سے آزادی کے ساتھ رہتی رہی ہیں۔ شاید آجکل انہی پاکستانی پراکسیوں کی وجہ سے انہیں ضرر پہنچایا جارہا ہو ، لیکن بلوچ کی طرف سے نا انہیں کسی قسم کا ضرر پہنچایا گیا ہے نا بلوچ بحثیت قوم اس پر یقین رکھتی ہے ، میں نہیں سمجھتا ہوں کہ پاکستان یا پاکستانی فوج کو اس میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: مذہب و قوم پرستی کے مابین تعلق کو آپ بلوچ تحریکِ آزادی کے بابت کیسے تشریح کریں گے؟
خلیل بلوچ: بلوچ قوم پرستی کا مذہب کے ساتھ نہ کوئی تعلق رہا ہے اور نا ہی کوئی تعلق ہے،مذہب کو ہم نے ہمیشہ ایک الگ معاملہ سمجھا ہے۔ ہاں عرب قوم پرست جو مذہب کو اپنے قوم کا حصہ بناتے ہیں، شاید وہا ں پر مذہب اور قوم پرستی کے مابین کو ئی تعلق ہو،مگر بلوچ ایک سیکولر تاریخ رکھتی ہے، بلوچ کا ایک سیکولر کلچر ہے اور بلوچ تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے۔ مذہب کا وجود کس طرح شروع ہوا یا پھر اسکے وجود کا مقصد کیا تھا اور اسکے لوازمات کیا ہیں اور آج کل اسے کن مقاصد کے لیئے استعمال کیا جارہا ہے ، شاید یہ ایک پیچیدہ چیز بن چکی ہے، اب تو مذاہب کو امن عالم کیلئے ایک خطرہ سمجھا جا رہا ہے ، یقینا یہ ایک قابلِ افسوس بات ہے کہ اب مذہب کو ایک خطرہ سمجھا جاتاہے۔
بہر حال میرے خیال میں ہم بلوچ نیشنلزم کو مذہب کے ساتھ نتھی نہیں کر سکتے، ہاں ہم بلوچ نیشنلزم میں تمام مذاہب کی بات کرتے ہیں، انکے الگ عبادت گاہو ں کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ مگر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پاکستان جو خود کو ایک نام نہاد اسلامی مملکت کہلاتی ہے اور اسکے علماءبھی اس بات کا خوب پرچار کرتے ہیں، مگر جب بلوچوں کے گھروں میں پاکستانی فوج قرآن پاک کو جلاتی ہے تو ان میں اس بابت کوئی ردعمل دکھائی نہیں دیتا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح وہابی ازم کے فروغ کے لیئے اپنے خزانوں کے دروازے کھولے گئے ہیں اور انہی سے مذہبی دہشتگردی کی بھی آبیاری ہو رہی ہے، مگر ہم نے اسکی ہمیشہ سے مخالفت کی ہے، اسکے خلاف ڈٹے رہے ہیں اور لڑے ہیں۔
بلوچ ایک سیکولر قوم ہے اور ہم اپنے سیکولر اقدار کی حفاظت کریں گے ، اس میں مذہبی شدت پسندی کو جذب ہونے نہیں دینگے، بلکہ سیکولرازم میں جدت پیدا کریں گے۔بلوچ آزادی کی تحریک خالصتاََ بلوچ نیشنلزم کی بنیاد پر ہے اور جو لوگ یہ ابہام پھیلا رہے ہیں کہ مذہبی شدت پسند بھی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں یا پھر وہ نجات دہندہ ہیں تو میر ایسے لوگوں کیلئے ا ایک پیغام ہے کہ سب سے پہلے وہ آزادی کے معنوں کو سمجھیں کہ آیا ہمارا مقصد صرف یہاں سے پاکستانی قابض فورسز کو نکالنا ہے اور پھر اسکے بعد ہم یہاںمذہبی شدت پسندوں کو لاکر بٹھا دیں۔ جو اسی طرح ہمارا استحصال کریں، ہمارے ہزاروں سالوں پر محیط سیکولر اقدار کو مسخ کریں اور ہمارے تاریخی مقامات کو گرادیں؟جس طرح کہ بامیان میں ہوا، جس طرح شام اور عراق میں ہورہا ہے؟ ایسے نظریے کے قائل لوگوں کی ہم یقینا مخالفت کریں گے ، انکی مذمت کریں گے، ایسے مذہبی شدت پسندوں کے لیئے بلوچ سماج میں کوئی گنجائش نہیں۔یہ بلوچ نیشنلزم اور بلوچ تحریکِ آزادی کے دشمن ہیں اور یہ بلوچ نیشنلزم کو مسخ کرنا چاہتے ہیں، بلوچ آئیڈیالوجی کو مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ جو بلوچ اقدار کو مسخ کرنے کا سوچتا ہے، وہ یقینا دشمن کے زمرے میں آتا ہے۔ ہاں ایسے بھی علماءہیں جو پاکستانی بربریت کی مذمت کرتے ہیں اور مذہب کی تشریح خالصتاََ انسانیت کی بنیاد پر کرتے ہیں اور انسانیت کی بقاءکے لیئے جدوجہد کرتے ہیں، ہم یقینا ایسے عقائد کا احترام کرتے ہیں۔
مذہب کی وہ تشریح جہاں انسانیت کے خاتمے کی تلقین کی جائے، انسانوں کا بے دریغ قتل کیا جائے، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں داعش لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفنا رہا ہے، اسی طرح کے اجتماعی قبریں بلوچستان کے توتک، پنجگور اور کان مہترزئی سے برآمد ہوئی ہیں جو کہ پاکستانی فوج کے شفیق مینگل، راشد پٹھان، ملا شاہ میر جیسے مذہبی شدت پسندوں کی کارستانیاں ہیں، اس طرح کے مذہبی شدت پسندوں کا بلوچ سماج میں کوئی گنجائش نہیں، یہ بلوچوں کے دشمن ہیں اور بلوچ انکو دشمن مانتی ہے کیونکہ انکا جنگ بلوچ آزادی و بلوچ نیشنلزم کے خلاف ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپ بلوچ نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
خلیل بلوچ: میں نہیں سمجھتا کہ میں بلوچ نوجوانوں کو کوئی پیغام دینے کے قابل ہوں ، میں خود بلوچ قومی سیاست میں ایک طابعلم ہوں لیکن میں ہمیشہ یہی کہتا آرہا ہوں کہ ہماری جدوجہد کا جو محور ہے وہ ہماری ذہنی سطح پر انحصار کرتی ہے ۔ ذہنی سطح سے مراد میرا مراد شعور و آگہی سے ہے ۔ بلوچ آزادی کے جدوجہد بہت پر خار ہے، اس میں مصائب ہیں ، لیکن جب ہم نظریے شعور اور فکر کی بنیاد پر اپنا ذہنی نشونما کرپائیں گے تو یہ پرخار راستے ، ہمیں پر سکون نظر آئیں گے ، یہ راستہ اور سفر بلوچ یقینا طے کریگا ، یہ ایک یقین ہے ، ایک سچائی ہے ۔ جہاں قومیں نظریاتی اور فکری بنیاد پر اپنی آزادی کی جنگیں لڑتی ہیں کامیابی انکے نصیب میں آتی ہے ، چاہے انکے مد مقابل دشمن جتنا بھی طاقتور کیوں نا ہو شکست اسکا نصیب بن جاتا ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو اپنے آپ کو بلوچ کے روشن مستقبل کیلئے تیار کرنا ہوگا ، بلوچ نوجوانوں کو ایک آزاد بلوچ ریاست کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تیار ہونا ہوگا، جس تصورکیلئے ہزاروں بلوچ اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں ہزاروں شہید ہوچکے ہیں ، ہزاروں کی تعداد میں زندانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں ۔ یہ تمام قربانیاں صرف اس تصور کیلئے جو بلوچ کو مستقبل میں ایک فلاحی ریاست دیگی ، اس تصور کو قابلِ عمل بنانا بلوچ نوجوانوں کی ذمہ داری ہے ۔ بلوچ نوجوان آنے والے وقتوں کیلئے ایک فلاحی ریاست کی تکیمل و تشکیل کیلئے خود کو تیار کریں ، محنت کریں تاکہ وہ اس تصور کو عملی صورت میں نافذ کرسکیں ۔ بلوچ نوجوانوں اسی فکر و فلسفے کے بنیاد پر خود کو ذہنی طور پر مسلح کریں ۔ تاکہ آزاد بلوچستان ایک ایسا ریاست ہو، جہاں ناصرف بلوچ قوم بلکہ پوری دنیا اس ریاست کے ثمرات سے مستفید ہوں ۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمارے لیئے وقت نکالا اور اپنے خیالات سے ہمیں مستفید ہونے کا موقع عنایت کیا۔
خلیل بلوچ: میں دی بلوچستان پوسٹ کے دوستوں کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں منت وار۔بی این ایم کے چیئرمین خلیل بلوچ کا خصوصی انٹرویو
December 10, 2017027
خلیل بلوچ اس وقت بلوچستان کے سب سے بڑے آزادی پسند سیاسی جماعت بلوچ نیشنل مومنٹ کے گذشتہ سات سالوں سے چیئرمین ہیں ، اس سے پہلے وہ بی این ایم کے سیکریٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے سیاست کا آغاز بحثیت ایک طالبعلم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے ایک کارکن کے حیثیت سے کی اور بعد ازاں وہ بی ایس او کے وائس چیئرمین کے حیثیت سے بھی فرائض سر انجام دے چکے ہیں ۔ وہ گذشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے بلوچ قوم پرست سیاست سے جڑے ہیں، انکا شمار ان باخبر سیاسی لیڈروں میں ہوتا ہے جو حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور عوام کے بیچ رہ کر حالات کا بہتر اداراک رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ گذشتہ دنوں دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے نے چیئرمین خلیل بلوچ سے ایک نامعلوم مقام پر ملاقات کی اور بلوچستان کے حالات، بلوچ آزادی پسند سیاست کے نشیب و فراز، مواقعوں و مشکلات کے بابت ان سے تفصیلی گفتگو کی جو دی بلوچستان پوسٹ کے قارئین کے دلچسپی کیلئے پیشِ خدمت ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: بلوچ نیشنل موومنٹ بلا شبہ پہلی اور سب سے بڑی بلوچ آزادی پسند سیاسی جماعت ہے، کیا آپکی نظر میں بی این ایم بلوچوں کی سیاسی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
خلیل بلوچ: بلوچ نیشنلزم کی سیاست میں پہلی مرتبہ بی این ایم ایک سیاسی پارٹی کے حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی تگ و دو میں ہے اور اس سلسلے کو کامیابی سے آگے بڑھانے کی خاطر بی این ایم کافی زیادہ قربانیاں دے چکی ہے ۔ جہاں تک بات ہے بلوچ عوام کی تمام وابسطہ امیدوں کی تو، ہم قومی آزادی کی سیاست کرنے والے پارٹی کو ریاست کا متبادل سمجھتے ہیں ۔ قومی آزادی کی سیاست کرنے والی ماس پارٹی ایک ”منی اسٹیٹ“ کے تصور پر پورا اترتا ہے۔ اس عمل کے بتدریج مختلف مراحل ہیں اور ہماری کوشش یہ ہے کہ اس پر پورا اتریں۔ دیکھا جائے تو اس مختصر وقت میں ہی ہمیں کافی کامیابیاں ملی ہیں ۔ وہ کامیابی، سیاست میں سب سے اہم شے یعنی عوامی حمایت ہے، جو ہمیں حاصل ہے ۔ بی این ایم آج اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ لوگ اسے قومی پارٹی سمجھتے ہیں اور ہم مزید بہتری کی طرف جہد آجوئی کے اس سفر میں گامزن ہیں ۔ اس سفر میں ہم نے بہت سے قربانیاں کا سلسلہ بھی دیکھا ہے ۔
جہاں تک لوگوں کے مسائل کا تعلق ہے ، انہیں حل کرنے کیلئے ہماری چاگردی( سماجی) کمیٹیاں کافی عرصے سے کام کررہے ہیں، کافی مسائل کو بلوچ روایات کے مطابق حل کرنے میں ہمیں کامیابی ملی ہے ۔ اس کے باوجود، ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچوں کے تمام مسائل کا حل اور انکی نجات قومی آزادی میں ہے ۔ بی این ایم ایک انقلابی پارٹی کی حیثیت سے ضرور یہ توقع رکھتی ہے اور کوشش کررہی ہے کہ وہ اس سفر میں کامیاب ہو۔ ہماری ایک بہت بڑی کامیابی یہ رہی ہے کہ اس مختصر سفر میں ہم بلوچ قوم کا ریاست سے جڑت کو توڑنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ بی این ایم بلوچ قوم کے تمام مسائل حل کرنے اور جدجہد آزادی میں ضرور کامیاب و فتحیاب ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: بی این ایم پر الزام ہے کہ اب بی این ایم خالص سیاسی جماعت نہیں رہی ہے بلکہ اب بی این ایم “ماس” کم “مسلح” جماعت بن چکی ہے، کیا یہ کسی خالص سیاسی جماعت کیلئے نیک شگون امر ہے؟
خلیل بلوچ: بلوچ نیشنل موومنٹ ایک سیاسی پارٹی ہے،اسکے سیاسی مقاصد ہیں، ایک سیاسی نظریہ ہے اور بلوچ نیشنلزم کی بنیاد پر جہد کررہی ہے۔لیکن جس زمین پر بی این ایم جدوجہد کر رہی ہے اسے مقبوضہ بلوچستان کہتے ہیں اور وہ قوم جو اس وقت بلوچستان پر قابض ہے ، اسکے پاس نہ تہذیب ہے، نا کوئی قانون ہے اور نا ہی کوئی دستور ۔ وہ باقاعدہ بلوچوں پر بربریت کر رہی ہے اور اعلانیہ ایک نسل کشی کر رہی ہے۔ حال ہی میں انکے نام نہاد وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے اعلان کیا تھا کہ وہ بلوچوں کی نسل کشی کریں گے، تو ایسے حالات میں ہمارے کارکنان نے اپنے دفاع کے لیئے حکمت عملی بدلی ہے۔ جیسا کہ پوری دنیا کو پتہ ہے کہ ہمارے کئی ساتھیوںکو شہید کیا گیا ہے، مگر ہم پھر بھی اپنے سیاسی مقاصد پر گامزن ہیں، گو کہ آج ماس پارٹی یا بلوچ سیاسی پارٹیوں پر قدغن لگانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی کارکن یا قائد کی شہادت نا صرف تنظیم بلکہ پوری بلوچ قوم کے لیئے ایک نقصان ہے، انکی حفاظت کے لیئے ہم نے ضرور سیاسی حکمت عملی بدلی ہے۔ اس حکمت عملی کے بابت یہ تاثر دینا کہ بی این ایم ایک مسلح جماعت بن چکی ہے، سراسر غلط ہے۔
پچھلے بارہ تیرہ سالوں سے دیکھیں کہ جہاں بھی بلوچ آبادیوں پر ظلم و جبر کیا جارہا ہو، وہاں بی این ایم ان حالات کے باوجود قائم رہ کر اپنے لوگوں کی آواز بن رہی ہے، یہ ہمارے حکمت عملی کی کامیابی ہے۔یہ تاثرغلط ہے کہ بی این ایم اب ایک مسلح جماعت بن چکی ہے، ہمارے مقاصد اب بھی وہی ہیں ، ہمارے سیاسی مقاصد ہیں اور ہم اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا رہے ہیں گو کہ اب طریقہ کار الگ ہے۔ جہاں انقلابی جنگیں ہوتی ہیں وہاں انقلابی اور نئے طریقہ کار اپنائی جاتی ہیں۔ پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ ہم ماضی کی طرح بڑے جلسے جلوس کریں اور اپنے کارکنوں اور قائدین کو سامنے لے آئیں تا کہ وہ سافٹ ٹارگٹ بن جائیں، مگر ہم ایسا نہیں کرینگے۔ہم اپنے کیڈرز کے لیئے رسک کم کر رہے ہیں، مگر اس بات کو ایک الگ رنگ دینا میں سمجھتا ہوں کہ غلط ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ نا صرف بلوچستان بلکہ بیرون ملک بھی تمام پولیٹیکل ٹولز کو استعمال کر رہی ہے جو ایک سیاسی جماعت لائن آف ایکشن میں کرتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: چیئرمین غلام محمد کے شہادت کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ بی این ایم قیادت کے حوالے سے مسلسل بحران کا شکار نظر آئی اور اسکے بعد ہم بی این ایم (غلام محمد) گروپ اور بلوچستان انڈیپنڈنٹ پارٹی نامی گروپ کا ظہور دیکھتے ہیں، اس بابت الزام آپ سمیت دوسری قیادت پر لابینگ اور تنظیم ہائی جیکنگ کا لگتی رہی ہے۔ اس بابت آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
خلیل بلوچ: چیئرمین غلام محمد کی شہادت یقینا ہمارے لیئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا،کیونکہ پارٹی فارمیشن کے چھ سال بعد ہی تنظیم کے بانی چیئرمین شہید غلام محمد کو شہید کردیا گیا۔ جب چیئرمین غلام محمد کو لالا منیر اوربلوچ ریپبلکن پارٹی کے شیرمحمد بلوچ کے ساتھ شہید کیا گیا تو ہم نے دیکھا کہ ریاست باقاعدہ طور پر اپنی ” کلِ اینڈ ڈمپ “ پالیسی کا آغاز کرچکی ہے۔ یہ یقینا ہمارے لیئے ایک صدمے اور دھچکے سے کم نہیں تھا، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہم شخصیات نہیں بلکہ اداروں کی سیاست کررہے ہیں۔ جس پارٹی کے پلیٹ فارم سے آج ہم جدوجہدکررہے ہیں، اس پارٹی کی بنیاد شخصیات یا کسی شخصیت کے نام سے نہیں بلکہ اداروں سے جڑی رہی ہے۔شہید غلام محمد کی قربانیاں اور اسکی جدوجہد، اسکی جرات یا انکا علم و زانت شاید ہم میں نا ہو لیکن یہ ایک انقلابی عمل کے حصے ہیں اور یہ ایک انقلابی عمل کا تسلسل ہے کہ شہادتیں ہوتی ہیں۔
جہاں تک بحران کی بات آتی ہے، تو یقینا آپ دیکھیں کہ ایک پارٹی کے بانی کا جب شہادت ہوتا ہے تو پھر یہ یقینا اس پارٹی کو ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا کرسکتی ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا یقین ہمارے اداروں پر تھا،ہم ایک ٹیم کی طرح کام کرتے تھے میں خود بحثیت سیکریٹری جنرل اس ٹیم کا حصہ تھا ، اسکے علاوہ دیگر دوست بھی رہے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک بہترین ٹیم ورک کے تحت ہم نے پارٹی کو اتنے بڑے صدمے و بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ چیئر مین غلام محمد کو شہید کرنے کے بعد بی این ایم کے بابت جو ریاستی ”اسکرپٹ“ تھا ، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اسے ناکام بنادیا۔
میں اس بات کی بھی وضاحت کرتا چلوں کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کا قیام ۳۰۰۲ کو عمل میں آیا، اسکے ساتھ ہی بلوچ نیشنل مومنٹ نے ایک انقلابی عمل کا آغاز کردیا اور پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی کرلی، انہوں نے پاکستانی فریم ورک تسلیم کرنے کو بلوچ کے مستقبل کیلئے زھرِ قاتل سمجھا۔شاید بعض ایسے دوست ہیں یا تھے جن کے خیال یا وہم و گمان میں نا آیا ہوکہ ایسا بھی اسٹیج تحریک میں آسکتا ہے جب ریاست اس طرح کھلے عام بی این ایم کے کارکنوں و لیڈروں کو شہید کرنا شروع کرے گا۔ یہ کچھ لوگوں کی نظریاتی نا پختگی تھی یا انکی فکری نابالیدگی تھی ، میں اسے ایک بحرانی کیفیت نہیں سمجھتا ہوں ۔ بی این ایم ایک پولرائیزیشن کے عمل سے گذری ہے اور یہ عمل پیوریفیکیشن کی شکل میں ملا ہے ، ہم نے ضرور اپنے قائد اور کئی عظیم ساتھی کھوئے ہیں، جو جسمانی طور پر ہم میں نہیں ہیں، ہم نے صمد تگرانی ، ڈاکٹرمنان، رزاق گل ، نصیر کمالان ، چیئرمین آغا عابد شاہ سمیت سینکڑوں اور دوستوں کو کھویا ہے۔
میں نہیں سمجھتا ہوں کہ بی این ایم کوئی پارلیمانی یا مراعات کی پارٹی ہے کہ لابینگ ہو ، یہ ایک انقلابی پارٹی ہے، یہ ایک انقلابی عمل ہے ، جہاں پر فیصلے انقلابی طریقہ کاروں و بنیادوں پر ہوتی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ بحرانی کیفیت کے شکار پارٹی اتنے بڑے ریاستی کریک ڈاون یا ریاستی دہ