Powered By Blogger

пятница, 23 января 2015 г.


سونے کا خزانہ "ریکوڈک" بلوچستان


ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اور ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کے درمیان بلوچستان کی ریکو ڈک کان پر جاری تنازع اب عدالت سے باہر تصفیے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے 2013 میں جاری کردہ اپنے ایک حکم میں بلوچستان حکومت اور آسٹریلیا کی کان کن کمپنی بی ایچ پی کے درمیان 1993 میں طے پانے والے چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ (CHEJVA) کو بھی کالعدم قرار دے دیا تھا۔
بی ایچ پی نے اپنے شیئرز ایک غیر معروف کمپنی ٹی سی سی کو دے دیے تھے، جس نے کان کا انتظام 2008 میں کیس شروع ہونے سے پہلے تک چلایا۔
کورٹ کی کارروائی چلتی رہی، اور اسی دوران ٹی سی سی نے سرمایہ کاری کے تنازعوں کے حل کے عالمی ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈیسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا اور سب سے پہلے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ لیکن آئی سی ایس آئی ڈی نے بھی اس کے حقِ ملکیت کے دعوے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
اس کے بعد کمپنی نے سرمایہ کاری کے نقصانات کے ازالے کے لیے دلائل دیے، جو کہ تقریباً 40 کروڑ ڈالر کے برابر ہیں، اور لگتا ہے کہ کمپنی کیس کو اس کے حق میں فیصلے تک لے جانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ لیکن اسی وقت یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ کمپنی تصفیے پر راضی ہونے کی بھی خواہشمند ہے، بشرطیکہ اسے اس منافع بخش پراجیکٹ میں باقی رکھا جائے۔
اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ کیس بڑے پیمانے پر بلوچستان حکومت کی جانب سے ہینڈل کیا جارہا ہے، جس پر وفاق کی جانب سے عدالت سے باہر تصفیے کے لیے زور ڈالا جارہا ہے۔ جب اپوزیشن پارلیمنٹیرینز کی جانب سے حکومت پر کانیں ٹی سی سی کو دینے کا الزام عائد کیا گیا، تو وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اس سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ریکوڈک کا ایک پتھر بھی نہیں بیچیں گے۔
تو پھر ریکو ڈک ہے کیا؟ ایٹمی دھماکے کے لیے مشہور ضلع چاغی کا ایک چھوٹا سا قصبہ؟ جب بی ایچ پی نے ریکو ڈک کی کانوں کو دریافت کیا، تب سے یہ تنازعات کی زد میں ہیں۔ 1993 میں اس وقت کے نگران وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے CHEJVA معاہدے پر دستخط کر کے بی ایچ پی کو چاغی کی پورے علاقے میں کھوج کے حقوق دے دیے تھے۔ یہ ان انتظامی فیصلوں کا آغاز تھا، جس سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا ہے۔
اس معاہدے نے بی ایچ پی کو 33 لاکھ ایکڑ کے علاقے میں اگلے 56 سال تک ہونے والی تمام دریافتوں میں 75 فیصد حصے کا حقدار قرار دیا، اور بلوچستان حکومت کو مشترکہ سرمایہ کاری کی بنیاد پر صرف 25 فیصد حصہ ملا، اور 2 فیصد رائلٹی۔
1993 سے 1997 کے درمیان جاری کھوج میں 14 ممکنہ علاقوں کی نشاندہی کی گئی جن میں کُل 48 جگہوں پر کھدائی کی جاسکتی تھی۔ اس پورے علاقے کو ریکو ڈک کمپلیکس کا نام دیا گیا۔
بی ایچ پی نے معدنیات کی کھوج کے لیے لائسنس حاصل کیا، اور یہاں موجود سائٹ EL-5 میں کم گہری کھدائی پر ہی سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت ہو گئے۔

کھلا ڈاکہ؟

پاکستان مسلم لیگ نواز کے سابق قانون ساز نعیم اعوان کے مطابق یہی وہ موقع تھا جب عالمی کان کن کمیونٹی کو ریکو ڈک کی اہمیت کا اندازہ ہوا، اور انہوں نے فوراً لیکن خاموشی سے اپنے مفادات حاصل کرنے کا آغاز کر دیا۔ نعیم اعوان ہی کی پٹیشنز پہلی بار اس مسئلے کو سپریم کورٹ کے نوٹس میں لائی تھیں۔
نعیم اعوان نے کہا کہ تب سے اب تک جو بھی کیا جا رہا ہے، وہ ڈاکے کے علاوہ کچھ بھی نہیں، جبکہ جن لوگوں کو پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے، وہ نظریں چرانے میں مصروف ہیں۔
مزید پڑھیے: ریکوڈک کی داستان
جیولاجیکل لٹریچر اور ماہرین کے ساتھ انٹرویوز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ضلع چاغی ٹیتھیان میگمیٹک آرک نامی ایک ایسی پٹی کا حصہ ہے، جو یورپ سے منگولیا تک ہزاروں کلومیٹرز پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ پٹی نایاب معدنیات کے لیے مشہور ہے، جن میں پاکستان کا حصہ چاغی سے شمالی وزیرِستان تک کے نیچے ہے۔
مختلف جیولاجیکل اداروں، بشمول امریکی جیولاجیکل سروے کے مطابق اس پورے بلاک کی قدر و قیمت 1 سے 3 کھرب ڈالر کے درمیان ہے۔ کچھ ماہرینِ ارضیات کے مطابق یہ اندازہ بہت ہی کم ہے، کیونکہ اس اندازے میں وہ معدنیات شامل نہیں جو نئے شعبوں جیسے کہ نینو ٹیکنولاجی اور سیمی کنڈکٹر فزکس میں استعمال ہوسکتے ہیں۔

کچھ سوالات

اس پوری صورتحال میں، اور قریب موجود سیندک کی کانوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس بات کی کافی امید تھی کہ ضلع چاغی میں سونا دریافت ہوسکتا ہے۔ تو پھر آخر کیوں 25/75 کی ڈیل کی گئی جبکہ اس سے پہلے سیندک میں بدنام چینی کمپنی کے ساتھ 50/50 کی ڈیل کی گئی تھی؟ اس کے علاوہ ایسا معاہدہ جو معین قریشی کے غیر منتخب، قائم مقام نگران سیٹ اپ نے کیا تھا، اسے کسی سوال کے بغیر 2008 تک کیسے جاری رہنے دیا گیا؟ یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ آخر کیوں ریکو ڈک کے ذخائر کی کوئی آزادانہ جانچ کیوں نہیں کروائی گئی ہے۔
یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ٹی سی سی بھی کچھ چھپا رہی ہے۔
ٹی سی سی کی ویب سائٹ کے مطابق ریکو ڈک کا 'اقتصادی طور پر قابلِ کان کن حصہ' 2.2 ارب ٹن ہے، جس میں اوسطاً تانبہ 0.53 فیصد ہے جبکہ سونے کی مقدار 0.3 گرام فی ٹن ہے۔' اس کا مطلب ہے کہ ایک کروڑ ٹن تانبہ اور ایک کروڑ تیس لاکھ اونس سونا نکالے جانے کے قابل ہے۔
لیکن ٹی سی سی کے ماہرینِ ارضیات کی ایک اور تحقیق، جسے 2008 میں سوسائٹی آف جیولاجسٹس نے شائع کیا تھا، کے مطابق ریکو ڈک میں موجود تانبے اور سونے کے ذخائر اعلیٰ ترین کوالٹی کے ہیں، اور یہاں پر ایک کروڑ 80 لاکھ ٹن تانبہ اور 3 کروڑ 20 لاکھ اونس سونا موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹی سی سی اپنی ویب سائٹ پر تانبہ 80 لاکھ ٹن اور سونا ایک کروڑ 90 لاکھ اونس کم بتا رہی ہے۔
لیکن یہ کمتر اندازہ بھی اسے دنیا کی دسویں بڑی کان کے درجے پر لانے کے لیے کافی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے ایک جامع جانچ اسے دنیا کی بڑی کانوں کی فہرست میں کم از کم پانچویں نمبر پر تو لا ہی سکتی ہے۔
یہ سب کیوں کیا جارہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بی ایچ پی کا شیئر Mincor Resources NL نے ٹیک اوور کر لیا تھا، جو کہ دنیا کی بڑی کان کن کمپنیوں میں سے ہے، اور اس نے ٹی سی سی کو اپنے چہرے کے طور پر قائم کیا۔ کمپنی کو بعد میں اسرائیلی کینیڈین کمپنی بارِک گولڈ نے حاصل کر لیا تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہی ٹی سی سی کے پیچھے موجود حقیقی طاقت ہے، اور یہی رسک میں حصے داری کے لیے چلی کی کمپنی Antofagasta کو لائی تھی۔
بارِک گولڈ دنیا کی سب سے بڑی کان کن فرم ہے، اور Antofagasta کے ساتھ اس نے ریکو ڈک کے 75 فیصد کو سپریم کورٹ کی مداخلت تک کنٹرول کیا۔
حالیہ اندازے، جو کہ نہایت محتاط اندازے تصور کیے جاتے ہیں، کے مطابق ریکو ڈک کا ریوینیو 40 سال کے دوران 240 سے 260 ارب ڈالر کے درمیان ہونا چاہیے۔ اس میں پاکستان کا حصہ قومی جی ڈی پی میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے اضافے کا سبب بنے گا۔
لیکن ٹی سی سی کی آفر 30 سال کے عرصے میں 54 ارب ڈالر کی تھی، جس میں ایک شِق یہ بھی شامل تھی کہ وہ تمام خام سونے اور تانبے کو 'ریفائننگ' کے لیے پاکستان سے باہر لے جائے گی۔
اس پس منظر کو دیکھا جائے تو یہ بات بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے کہ آخر کیوں پاکستان کی قیادت ان کانوں کو بیچنے کی جلدی میں ہے، جو کہ پاکستان کی ابتر اقتصادی صورتحال کو سنبھالنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 23 جنوری 2015 کو شائع ہوا۔

понедельник, 19 января 2015 г.

سال 2014کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ 

(اس رپورٹ و تجزیہ میں سال بھر کے مکمل ڈیٹا کو شامل کیا گیاہے،ادارہ)
2014ء کا سال بلوچ فرزندوں کی شہادت،اغوا،اجتماعی قبروں،مسخ لاشیں آبادیوں پر بمباری،خواتین و بچوں کے اغوا کی تاریخ رقم کر گئی۔یہ سال بھی بلوچ قوم کے لیے خونی سال ثابت ہوا جہاں پاکستانی فورسز نے آبادیو ں پہ بمباری،ٹارگٹ کلنگ،بلوچ فرزندوں کی اغوا اور مسخ لاشوں کے سلسلے کو جاری رکھا۔ہر دور میں قابض نے محکوم اقوام کو اپنی زیر دست رکھنے کے لیے جبر کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔اسی طرح اس خطے میں بلوچ قوم جو اپنی آزادی کی جدوجہد میں ہر پلیٹ فارم پر کوشاں ہے کو بھی قابض ریاستی جبر کا سامنارہا ہے۔اس فیز کے جہد میں قابض ریاست نے بلوچ قوم کو داخلی طور پر کمزور کرنے اور انقلابیوں کو زیر کرنے کے لیے علاقائی سطح پر اپنے خاص لوگوں کو چنا اور ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دئیے۔جن کے ذریعے ہزاروں فرزندوں کو اغوا کیا گیا اور سینکڑوں کی لاشیں ملیں اور ہزاروں آج تک لا پتہ ہیں۔
جنوری کے خونی مہینے میں اچانک خضدار توتک میں اجتماعی قبروں کی دریافت سامنے آئے جس جگہ یہ اجتماعی قبریں ملیں یہ عین وہی مقام ہے جب جنوری 2011 میں پاکستانی فوج نے ایک بڑے آپریشن کے بعد اس علاقے کو اپنی ڈیتھ اسکواڈ مسلح دفاع کے سربراہ شفیق مینگل کے حوالے کیا۔اس آپریشن میں بزرگ قلندرانی و انکے پورے خاندان کو فورسز نے اغوا کیا جو تاحال لاپتہ ہیں۔اسی مسلح دفاع سے آئی ایس آئی نے کئی اور ڈیتھ اسکواڈ بھی بنائے یہ جگہ جہاں اجتماعی قبریں ملیں ہیں خفیہ اداروں و انکی ڈیتھ اسکواڈ کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ 160کے قریب لاشیں اجتماعی قبروں سے ملی ہیں۔ اہم ذرائع کے مطابق لاشیں ۲ سو کے قریب ہو سکتی ہیں یا اس سے بھی زائد۔۔۔۔یقیناًیہ لاشیں بلوچ مسنگ پرسنز ہی کی ہیں اس لیے کہ اتنی بڑی تعداد میں لاشیں اور ہوہی نہیں سکتی اور یہ لاشیں سال سے ڈیرھ سال اور چند ماہ پرانی ہیں۔اس جگہ کا انکشاف اس طرح ہوا کہ علاقائی لوگوں کے مطابق ریاستی پاور کو بیلنس کر نے کے لیے اختر مینگل و شفیق میں پاور بیلنس کرنے کے معاملے کی وجہ سے شفیق مینگل و آئی ایس آئی کو اپنی ہیڈ کوارٹر یہاں سے شفٹ کرنا پڑا اور وسیع میدانی علاقہ ہونے کی وجہ سے مال مویشی والے کسی چرواہے نے انسانی ہڑیاں دیکھیں اور اطلاع پر مقامی انتظامیہ پہنچا۔مگر جب بات درجنوں لاشوں کی اور کئی اجتماعی قبروں کی نکلی تو فوج نے کنٹرول سنبھال کراس بات کو دبانے کی کوشش کی جس کی واضح مثال وزیر داخلہ سرفرزا بگٹی کی اس ننگی جھوٹ سے عیاں ہے کہ پہلے روز صرف 2 لاشیں ملی ہیں اور پھر7جبکہ پہلے روز کمشنر خضدار وحید شاہ کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ 11 لاشیں ملیں ہیں اور تعداد سو سے زائد ہو سکتی ہے۔اور اسکے بعد فوج نے کنٹرول سنبھال کر سب رفع دفع کر دیا۔پاکستان کی اس وحشی پن پر نہ بلوچ کو حیرانگی ہونی چائیے نہ کسی اور کو مگر اقوام متحدہ و عالمی اداروں کی بلوچ نسل کشی واجتماعی قتل عام پر خاموشی پوری انسانیت کے لیے تباہی کا باعث ہے۔
جنوری 2014ء تاریخ عالم میں لانگ مارچ کی وجہ سے اپنی اہمیت تاریخ کے صفحات میں اہم سے اہم تر کر گیا۔ماما قدیر بلوچ،بانک فرزانہ بلوچ،سمی بلوچ، کمسن کامریڈ علی حیدر بلوچ و دیگر شرکاء نے تاریخی لانگ مارچ کے سفر کی تکالیف کو مٹھاس،یکتا ،انقلاب و انسانیت کی بقا کی صورت میں سندھ دھرتی کو معطرکرتے ہوئے پنجاب داخل ہوئے۔وائس فار مسنگ پرسنز لانگ مارچ کوئٹہ سے کراچی کا اپنا کٹھن اور طویل سفر طے کرنے کے بعد کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کا فیصلہ کیا اور یہ سفر تمام سنگینیوں کے باوجود رواں رہا۔نہ جانے ارباب اختیار و عالمی اداروں پر کتنی افادیت کے ساتھ بلوچ مسنگ پرسنز لانگ مارچ اثر اندازکرگئی ، گھونگی بہری سرمایہ دار اداروں پر شاید کوئی خاص اثر بھی نہ ہو۔۔۔۔مگر تاریخ کے اوراق اور انسانی حقوق و قومی آزادی کی جہدوں میں ضرور ایک اعلیٰ پائے کا مقام حاصل کر پائے گی۔سندھ دھرتی ماں پر مسنگ پرسنز لانگ مارچ کے شرکاء کا ہر قدم یقیناًانقلاب کی نوید ثابت ہوگئی،خاموش اپنی تاریخ و تمدن سے بے خبر سندھی قوم کو یقیناًبیدار کر گئی۔جسکی واضح مثال سندھی قوم کی تاریخ ساز استقبال اور محبت ہے ۔ایک پرانے دوست اور لاڑکانہ پریس کلب کے اہم رکن سے لانگ مارچ کے لاڑکانہ آمد پر بات ہوئی تو ساتھی نے کہا ’’ ہم بلوچ مسنگ لانگ مارچ کو سندھ میں داخل ہوتے ہی باریک بینی سے دیکھ رہے تھے کہ سندھی قوم کا مشترکہ ردعمل کیسے ہو گا مگر لاڈکانہ تک کے سفر نے تو حیران کر دیا۔بلوچ آبادیوں والے علاقوں میں محبت ،استقبال کا پہلے سے اندازہ تھا اور کچھ سندھی علاقوں میں بھی جہاں ابھی سندھو دیش کا نعرہ پروان چڑھنا شروع ہوا ہے مگر کل ملا کر میں تو حیران رہ گیا کہ بلوچ قومی انقلاب نے سندھ میں انقلاب کی کونپلوں کو جنم دیا۔ سندھی قوم میں انکی قومیت کے سوال کو اجاگر اور ایک تحریک کو ضرور شروع کرنے کا سبب بنا ۔خود میرے گھر میں جہاں میرے بچے اور میری بڑی بیٹی 14 اگست کے دن پاکستان کی آزادی پر جشن مناتے اور میں بھی۔ لانگ مارچ کی لاڑکانہ اور آمد پورے سفر کا سندھی میڈیا ،الیکٹرونک و پرنٹ میں اپنی طورپر پزیرائی رہی۔سب کو اس لانگ مارچ کا علم ہو گیا ۔بیٹی نے سوال کیا ابا کیا ہم پاکستانی ایک قوم نہیں ہیں؟ہم ایک نہیں ہیں؟کیا ہم الگ ہیں؟ میرے خیال میں یہی سوال بنیاد ہیں کسی بھی قومی جہد کا اور یہی اثاثہ اور احساس آج بلوچ بیٹیوں اور ماما قدیر نے ہمیں دیا ہے،شاید سندھی قوم کو بہت وقت لگے گامگر اس میں کوئی غلط بیانی نہیں ہو گی اگر کہا جائے کہ یہی سوالات مضبوط بنیاد کھڑے کرتے ہوئے ایک روشن مستقبل کا تعین کریں گے۔اور سندھی قوم میں ایک سوال ضرور اُٹھا ہے اب سندھ کے آزادی پسند تنظیم اس تپش کو کیسے تراش و تربیت کر کے آگ اور چنگاری بناتے ہیں وقت فیصلہ کر ئے گا‘‘
واقعی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی لانگ مارچ نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے ۔اس مارچ کی سب سے بڑی کامیابی اور حاصل یہی ہے کہ انسانیت کے لیے ، حق و مظلوم اقوام کی آواز کی بنیاد بنی ہے جو آج تک کوئی سیاسی تنظیم نہ کر سکا وہ بلوچ قوم کے چند بیٹیوں و کمسن کامریڈ علی حیدر و ماما قدیر نے کر دیا۔لانگ مارچ کے پنجاب داخل ہوتے ہی سیکورٹی اداروں،خفیہ اداروں کی جانب سے دھمکیوں میں اضافہ بھی ہوا شرکاء کو ڈرانے ،دھمکانے کے ساتھ کروڑوں کی لالچ بھی شرکاء کے سامنے رکھی گئی مگر وطن کی مٹی کی خوشبو اور انسانیت کے لیے آواز و عملی قدم اُٹھانے والے تاریخ گواہ ہے خود جان دے دیتے ہیں مگر بھکاؤ نہیں ہوتے،شاید پنجاب کے میاں و چوہدری سب بلوچوں کو مالک،حاصل،زہری، سمجھ بیٹھے ہیں مگر انکا اندازہ غلط ہے آج 99 فیصد بلوچ اپنی سرزمین کی مٹی کا دیوانہ ہے اور ایک فیصد پارلیمانی جو ایسے مراعات کے چکر میں آج قوم پر بدنما داغ ہیں۔پنجاب میں مسنگ مارچ پر حملے بھی انکی ہمت نہ تھوڑ سکے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز لانگ مارچ کا قافلہ بلوچ سر حدی مقبوضہ علاقوں جو آج کل نقشے میں پنجاب کا حصہ ہیں داخل ہوا تو بلوچ قوم نے بھرپور استقبال کیا ۔ پنجاب کے قبضہ میں مقبوضہ بلوچ زمین کے باسیوں کا اپنی حق و ریاستی جبر کے خلاف لانگ کے شرکاء کاپرجوش استقبال اس بات کی واضح مثال ہے کہ بلوچ دنیا کے جس کھونے میں بھی آباد ہے ،جذبہ وطنی کے اس جہد سے غافل نہیں اور یہی بلوچ قومی وحدت ،پہچان و تشخص کی انقلاب کے نعرے کی کامیابی کا منہ بھولتا ثبوت ہے۔پنجاب کے علاقوں میں لانگ مارچ داخل ہوتے ہی مارچ کے شرکاء میں اضافہ ہوتا رہا۔ایک جانب خفیہ اداروں کی دھمکیاں تو دوسری جانب مقامی ریاستی اداروں کی جانب سے پیدا کی جانے والی تکالیف،مگر مسنگ پرسنز لانگ مارچ کے شرکاء کی ہمت ، حوصلہ اور عہد انسانیت سے وفا کے وعدے ثابت قدمی سے انکی طاقت بن رہے تھے۔اوکاڑہ شہر سے نکلتے ہی ریاستی خفیہ اداروں کی جانب سے لانگ مارچ کو دی جانے والی دھمکیوں کو حتمی شکل دے کر تیز رفتار ٹرک کے ذریعے ان پر حملہ کیا گیا۔لاہور سے آئے ہوئے مارچ کے ساتھ چلنے والے کامریڈ عرفان اور ایک ساتھی زخمی ہوئے جبکہ دو بلوچ قوم کی بیٹیوں کو بھی معمولی چوٹیں آئیں۔واقعے کے فورا بعد جب نمائندہ سنگر نے ماما قدیر ،بانک فرزانہ مجید سے رابطہ کیا تو انکے حوصلے آسمان کو چھو رہے تھے،جیسے یہ حادثہ تو متوقع تھا۔انکے حوصلوں نے ہماری ہمت کو بھی بڑھاوا دیا۔ماما قدیر نے کہا کہ ریاست لاکھ حملے کرے زندہ نہ سہی یہ لاشیں تو ضرور اسلام آبادو اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے پہنچیں گے۔بانک فرزانہ نے ببانگ دہل کہا کہ موت و حملے،دھمکیاں اس مارچ کو نہیں روکھ سکتی ہیں۔قوم ہمت سے کام لے اپنے حوصلے قائم رکھے اس لانگ مارچ کوحملوں سے نہیں روکھا جا سکتا۔ہمارے قدم ،ہمت،حوصلے ان حملوں دھمکیوں سے پست نہیں ہونگے۔
لانگ مارچ کے سرپرست اعلیٰ ماما قدیر اور بانک فرزانہ مجید کے الفاظ نے تاریخ رقم کر لی۔بلاآخر قافلہ انسانیت دردِبلوچاں لے کر تمام ریاستی جبر و ظلم اور تکالیف و مصائب کے اسلام آباد پہنچ گیا۔دہشت گرد ریاست کے دارالخلافہ جسے عالمی دہشت گردی کا ہیڈ کوارٹر کہنا غلط نہ ہوگا،بلوچ لانگ مارچ شرکاء کی آمد پر پاکستانی گھونگی ،بہری میڈیا کو بھی ذرہ کچھ پل کے لیے کروٹ بدلنی پڑی۔نا چاہتے ہوئے بھی چند چینل نے آنکھیں موند ھ کر چند لمحے کے لیے مارچ کی خبر چلا ہی دی جسے صحافت نہیں مجبوری کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ دوسری طرف عالمی میڈیا کی توجہ مبذول کرانے میں لانگ مارچ کے شرکاء کامیاب ہوئے۔بی بی سی نے بھی بسم اللہ کر کے 28 مارچ سیربین کا پروگرام مسنگ پرسنز کے نام کا اعلان کیا اور تفصیلی انٹرویو کا شور مچایا مگر انٹرویو نہ تفصیلی تھا نہ سوالات آزاد میڈیا کے معیار پر تھے بلکہ خانہ پوری،بادشاہ وقت کا بھی خیال اور رہی سہی اپنی آزاد حیثیت کا جھنڈا بھی بلندکیا۔عین جس طرح بی بی سی نے لانگ مارچ کی طویل جہد کو ریاستی سوالات کی بوچھاڑ،کا ڈرامہ رچایا ۔اس سے بھی سخت حالات کا سامنا مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے اُٹھانا پڑا جب،قومی غدار،آبادکاروں کا قتل عام ،بیرونی ایجنٹ وغیرہ۔۔۔آفرین ماما قدیر مارچ کے شرکاء اور بانک فرزانہ پر جنکی ہمت خود انقلاب ہے۔جب ریاستی صحافی آئی ایس آئی کے سوالات کی بوجھاڑ کر رہے تھے تو بانک فرزانہ نے تاریخ بلوچ کو ہی اپنی باہمت الفاظ سے رقم بند کر دیا۔بانک کے چند الفاظ ’’تم لوگ واویلہ کر رہے ہو کہ بلوچ یہ ہیں وہ ہیں،بھئی میں پچھلے5 سال سے کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد مظاہرے ریلی آپکی سپریم کورٹ سب کے آگے چلاتی رہی کہ ہمارے پیاروں کو بازیاب کرو،کہاں تھا اس وقت تمہاری سرکار؟کہاں تھی تمہاری سپریم کورٹ؟کہاں تھا آپ کا پاکستان واسکی پارلیمنٹ؟اسکے ادارے اور آپ لوگ ؟آج تم لوگ ہماری پر امن مارچ کو تھوڑ مروڈ کر اپنی بات کر رہے ہو، یہ بچہ اسکے باپ کی مسخ لاش پھینکی گئی اس نے خود دیکھا،ماما نے اپنے بیٹے کا مسخ لاش اُٹھایاکہاں تھے آپ لوگ؟ آج آئے ہیں باتیں کرنے؟۔ہاں ہم اقوام متحدہ کے دفتر پرآئے ہیں اس ملک سے نہ کوئی امید تھی اور نہ رہے گی،آزادی ہمار ا حق ہے۔‘‘آفرین میرے قوم کی بیٹی،صد آفرین۔میرا ایمان ہے کہ بلوچ قوم کو اب کوئی بھی دیر تک غلام بنائے نہیں رکھ سکتا۔
جنوری آپریشن و مسخ لاشوں کے ریکارڈ بھی دیگر مہینوں سے کچھ کم نہ تھے بلکہ اس ماہ تو سنگینیوں کے سلسلوں میں شدت آئی،ڈیرہ بگٹی،نصیر آباد،کوہلو آپریشن کی زد میں رہے ۔کئی فرزندوں کو اغوا کیا گیا،کوئٹہ میں مری آبادی و بلوچ آبادیوں سے کئی فرزندوں کو اغوا کیا گیا اسی طرح کیچ سے بھی کئی کمسن نوجوانوں کو اغوا کیاگیا اور8 سالہ کمسن چاکر بلوچ کو ڈیتھ اسکواڈ نے اغوا کے بعد شہید کیا۔پنجگور میں فورسز نے حاجی شاہ میر بلوچ کے گھر پر حملہ کیا دو بیٹیوں سمیت 6 افراد شہید ہوئے جبکہ چادر چار دیواری کی پامالی پر بی ایل ایف کے سرمچاروں نے فورسز پر جوابی حملہ کیا26 گھنٹے کی لڑائی میں 30 سے زائد اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا۔ اسی طرح مستونگ میں مذہبی دہشتگروں کے خلاف آپریشن کے نام پر درجنوں بلوچ فرزندوں کو شہید کیا گیا جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ ہزارہ برادی کو مارنے والے لشکر جھنگوی آئی ایس آئی اور فوج کی گھود میں بیٹھے ہیں۔
مشکے میں فورسز نے آپریشن کے سلسلوں میں تیزی کو قائم رکھا تین سو افراد کو اُٹھا کر غائب کیا گیااور تین روز کے اندر سب کو نیم مردہ حالت میں واپس پھینک دیا ۔جس رفتار کے ساتھ قومی جہد آزادی اپنی منزل کی جانب عوام کی جڑیں مضبوط کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے اسی رفتار کے ساتھ ریاستی سنگینیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔جو یقیناًتلخ و سنگین ہی سہی مگر متوقع ہیں ان سب کو پسے رکھ کر اچانک قومی جہد میں ایک مخصوص گروہ یا چند افراد جنکی تعداد بظاہر درجن قریب ہے قومی جہد میں ایک عجیب کیفیت پیدا کرنے میں مگن ہیں۔جسکی شروعات پر اگر غور کیا جائے تو یو بی اے کی وجود سے ہی اور پھر تھوڑی مدت کے بعد یہ سلسلہ شروع کیا گیا۔جہاں بذریعہ اخبارات یو بی اے کو ریاستی پروپیکنڈہ اور اسکی آشیر باد قرار دیا گیا۔یکے بعد دیگرے کئی الزامات سرد و گرم اخبارات کی زینت بن گئے اور پھر سوشل میڈیا اور روزنامہ توار واضح فریق کے طور پر تا حال اپنا جانے کون سا کردار نبھا رہے ہیں۔ایک زمانے میں جب سب خوش منگل تھا روزنامہ توار علم و تربیت کے ساتھ واحد قومی ادارہ کے طور پر جانا جاتا تھا مگر پھر چند ساتھیوں کی شہادت اور دور اندیش ساتھیوں کی توار کی پالیسیوں پر اور دیگر مجبوریوں کی وجہ سے علیحدگی اور پھر افغانستان میں بیٹھے ساتھیوں کی ٹیک آور نے توار کو آج کس مقام پر اور قومی جہد کے حوالے سے اسکی نئی پالیسیوں کو لے کر اس کی تمام سابقہ جہد پر جیسے پانی پھیر دیا جا رہا ہے۔موضوع کافی وسیع اور یادیں بے شمار۔۔۔۔تجزیہ میں سال بھر کی صبر کے بعد چند باتوں پر غور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس لیے کہ آج کے حالات کو جس جانب مروڈا جا رہا ہے شاید اس پر خاموشی خود گناہ کبیرہ ہوگی۔الزامات و سرٹیفکٹ جیسے ساتھی دیتے رہے ہیں ان سب کی پروا کیے بغیر قومی جہد میں اس رخ کی جانب ایک ہلکی نظرکو ہم اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔کوشش کر رہے ہیں کہ موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے کہ انکی وجود کہاں سے پڑی ہے۔بی ایس او آزاد کی کونسل سیشن کے بعد اچانک ہی چند مدت کے اندر افغانستان و لندن میں مقیم دوستوں نے سوشل میڈیا میں منظر کشی کے ساتھ ایک نیا کھیل شروع کیا جو بظاہر ایک ہوا بھرے غبارے کے سوا کچھ بھی نہیں مگر ساتھیوں نے اس غبارے کی ایسی نقش کشی کرنے کی کوشش کی جیسے اس میں ہوا نہیں بلکہ وزنی خزانہ بھرا ہوا ہے۔اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سیشن کے بعد سوشل میڈیا میں بی این ایم،بی آر پی اور بی ایس او کی جانب توپیں کر لی گئیں ۔تنقید اور غور فکر کے نام پر ایک ننگے کھیل کا آغاز کردیا گیا جس میں ان ساتھیوں نے تنقید کی اینٹیں بجا دیں کہ کسی کے لیے عزت و ننگ کو بھی نہیں چھوڑا گیا اور بقول ان صاحب علم ساتھیوں کے یہ سب تحقیق،تنقید اور فکر کے حصہ ہیں اور تاحال یہ سلسلہ تحقیق و تنقید جاری ہے۔جب سیاسی تنظیموں کی خوب کچھائی کی کوشش جاری تھی تو پھر یو بی اے کے بعد اچانک بی ایل ایف اور بی آر اے بھی ان صاحب علم لوگوں کی غور فکر،تنقید و تحقیق کے ننگے پن سے نہ بچ سکے۔ جب عوامی توجہ صرف رہی تو قومی رہبروں سردار خیر بخش مری،ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ،براہمدغ بگٹی،بی این ایم کے چےئرمین بی ایس او کے چےئرمین و دیگر سیاسی ورکروں و رہنماؤں پر بھی غور فکر کے نئے باب روشن ہونے لگے صرف یہ نہیں بلکہ آج جب ایک انتہائی سخت دور میں جب ہمارے یہی ساتھی افغانستان اور چند دیگر مقامات پہ رہائش پذیر ہیں جن کا زمینی حقائق سے کھوسوں دور کوئی تعلق نہیں ہے گودی کریمہ و دیگر خواتین کو بھی نہیں بخشا اخلاقیات و تحقیق کا ایسا کھیل جس کے لیے ننگے پن کا لفظ بھی کمزور پڑتا ہے شاید تاریخ کے اورواق اس سے کوئی انصاف کر پائیں۔آج یہی بہنیں،بیٹیاں ،ماں اپنا سب کچھ دھاؤ پر لگا کر رات و دن اپنی سرزمین پر تگ و دو میں ہیں مگر وطن کی مٹی سے دور تربیت و علم کے نئی داعیوں نے انکو بھی نہیں بخشا ،کیا انقلاب تحقیق غور فکر ایک خیالی شے کا نام ہے؟یا وہ افراد یا تنظیمیں جو اپنی زمین پر موجود قومی جہد میں سرگرم ہیں انکی حقیقی جہد کا نام انقلاب ہے۔سوالات تو بہت ہیں اور باتیں بھی جو شاید ان دوستوں کو ناگوار گزریں۔بحث کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے آج تک یہ ساتھی اس بات کی وضاعت نہ کر سکے کہ کونسی وہی نازل ہوئی اور کونسے احکامات نازل ہوئے جو یہ سب کچھ جو آج غور فکر و تحقیق اور ڈوائیڈ اینڈ رول والی پالیسی انکو اپنانا پڑا۔ بی ایل اے کی تھوڑ پوڑ اور اور اس عظیم جماعت پر چوہدری پن کے اسباب اور وضاحت کے بجائے صرف گروہ بندی کو ہی انقلاب کا نام دینا کونسی علم و زانت ہے اور اگر کوئی لبیک نہیں کہتا تو وہ غور فکر و تحقیق کے ننگے پن سے نہیں بچ سکتا آج صورت حال یہاں تک آ پہنچی ہے۔قابل غور طلب بات یہ ہے کہ یہ سب واجہ حیر بیار مری صاحب کے نام پر شروع ہوا حالات کو اتنا تنگ کرنے کی کوشش کہ تنظیم یا جماعتوں کی جداگانہ پالیسیوں اور آئین کو بھی اپنے تابع کر نے کے چکر میں مسخ کیا گیااور مجبور کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ فریق بنیں اور گروہ بندی ہو،جہاں تنظیموں پر دباؤ رہا عین اسی طرح سنگر پبلی کیشنز بھی جو تمام ریاستی حربوں اور سختیوں کے باوجود اپنی جہد کے میدان میں ثابت قدم رہنے کی جستجو میں رہا اس پر بھی ہمارے دوستوں نے گروہ بندی کی پوری زور لگائی،افغان نشین و دیگر دوستوں نے ریاست کے سختیوں میں معاون کا کردادا کیا اور کوشش کی کہ انکی امامت قبول کر کے انکے سروں پر لبیک کیا جائے ورنہ گرو جیسے سرٹیفیکٹ جیب میں انکے حاضر رہے۔مگر گمنامی میں سنگر ٹیم نے جو سالوں سے جہد کو جاری رکھا ہے ریاستی و دوستوں کی تمام جبر کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے اپنی جہد کو جاری رکھا ان تحقیق اور غور فکر کے نام نہاد لچر پن سے نہ مرغوب ہوا اور نہ کبھی ہو گا۔ادارہ اپنے کام اور عمل سے آج قوم کے سامنے ہے اس لیے ہمیں نہ کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے اور نہ ہی ادارہ کسی ایوارڈ،سرٹیفکیٹ و کسی کی جی حضوری کے لیے میدان عمل میں موجود ہے، اور قومی ادارہ کے طور پر اپنا کام جاری رکھے گی۔
پاکستان کی مقبوضہ بلوچستان میں بھاگ دوڑ کے نئے گدھوں میں اقتدار مال و آسائشوں کو لے کر ٹول مٹول حکومت کی وجود سے پہلے ہی بندر بانٹ کی شکل میں شروع ہو چکے تھے۔جیسے کر کے ان آسائش پر حاویت جاگیرداروں،نام نہادمڈل کلاس ریاستی قوم پرستوں و سرمایہ داروں نے لے دے کر معاملات کو وقتی طور پر آئی ایس آئی کی آشیر باد سے بندر بانٹ کے ذریعے سرکاری کرسی مالک کی تشریف کے لیے تیار کیا۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ بے نام اختیار و اندرونی و بیرونی امدادی مال و زر کی بندر بانٹ سے بیلنس کا فقدان شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔اس لوٹ مار کی بازار میں جہاں حاصل اینڈ کمپنی سالوں سے انتظار میں تھے،موقع ملتے ہی لوٹ کھسوٹ میں بازی لیتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ فوج و ایجنسیوں کے پرانے و روز اول کے وفادار زہری اینڈ دیگر وفادار give more کے اپنے پرانے سلوگن کے ساتھ اپنی دباؤ کو برقرار رکھنے کے لیے دباؤ بڑھانے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ دوسری جانب مشرف کی اقتدار کے ساتھ فوج و خفیہ اداروں کے ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ شفیق مینگل بھی ریاست کے موجود وفاداروں پہ دباؤ بڑھانے کے لیے پس پردہ فوج پر دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی پر گامزن ہیں۔جبکہ اختر مینگل اپنی علاقائی سرداری طاقت کو بچانے کے لیے سرکار کی بخل میں غوطہ خوری کی بھر پور کوششوں میں مصروف ہے۔ اجتماعی قبروں کی برآمدگی جس میں سینکڑوں لاپتہ بلوچ فرزندوں کی لاشیں برآمد ہوئیں تو شفیق مینگل اسکی ٹیم پر داخلی دباؤ بڑھتا گیا جس کے پیش نظر اس سرکاری گروپ نے خود کو اکیلا پاکر فوج و ا ختر مینگل کے نئے تعلقات کو لے کر اجتماعی قبروں کی دریافت اور اختر و فوج کے خلاف کئی بیانات داغے جس سے ایک بات دنیا کے سامنے واضح ہو گئی کہ لاپتہ فرزندوں کی اجتماعی قبریں لاشوں کا دریافت خفیہ اداروں،فوج و انکی ڈیتھ اسکواڈ وں کی مشترکہ کاروائیاں و حکمت عملیاں تھیں اور سلسلہ نئی حکمت عملیوں کے تحت جاری ہے۔فوج کے ایک طبقے کا اختر مینگل کی جانب جھکاؤ کو شفیق مینگل نے اپنے بیانات اور بلوچ فرزندوں کی شہادتوں کو فوج کی کارستانی قرار دے کر اپنے اختلاافات کا پس پردہ واضح اظہار کیا(ہون ے کہ پہ حق ءَ رچیت ھاکے تہا گار نہ بیت)
ریاستی ڈیتھ اسکواڈ و پارلیمانی گرہوں میں بندر بانٹ کو لے کر اختلافات سے بلوچ قوم پر جاری جبر میں انکی حصہ داری کے پردے فاش ہورہے ہیں۔مالک،حاصل اینڈ کمپنی کی فوج ،ایجنسیوں پر اعتماد میں بحالی اور اپنی کرسی بچانے کے عمل میں کوشش تیز تر ہوتے جا رہے ہیں جسکا اند ازہ حاصل بزنجو کے ہر ہفتے بیانات سے صاف دکھائی دیتا ہے ۔جناب فرماتے ہیں کہ مزاحمت کاروں سے بات چیت کے لیے پر امید ہیں جبکہ یہ بات تو قومی جہد آزادی کے اس فیز کے شروع سے واضح ہے کہ آزادی پسند تمام سیاسی و مزاحمتی تنظیمیں بلوچ سرزمین کی آزادی کے علاوہ کسی بھی مزاکراتی ایجنڈہ کو نہیں مانتے جبکہ حاصل ایند کمپنی اپنی سرکار کو بچانے ،وسائل کی لوٹ مار میں روز نت نئے جھوٹ کا سہارہ لے کر بھیک پر گزارہ کرنے والی پاکستان کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور اپنی کرسی کے بچاؤ کے لیے بلوچ نسل کشی کے ساتھ پاکستانی وفاق و فوج کو سبز باغ ددکھانے کی پالیسیوں میں مصروف عمل ہیں۔
فروری کے مہینے میں ریاستی جبر حسب معمول تیزی سے جاری رہی۔آئی ایس آئی کے خاص نمائندے اور وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بھی اس گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ڈیرہ بگٹی کے کئی علاقوں میں ریاستی بربریت کے تسلسل میں بلوچ اپنی زمین پر بے ننگ ہے۔ فروری میں متعدد بگٹی بلوچوں کو شہید درجنوں گھروں کو جلانے کے ساتھ کئی چوٹے دیہات صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے۔ تمام آپریشن فرزندوں کی شہادتیں براہ راست وزیر داخلہ کے سائے جاری ر ہیں۔ کوہستان مری بھی انکی شر سے نہ بچ سکا ۔کئی فرزندوں کو اغوا کیا گیاجبکہ مکران کے کئی علاقوں بلکہ یہ کہنا مغالطہ نہ ہو گا کہ پور ا مکران ریاستی ظلم و جبر سے گونج رہا ہے۔ مشکے آواران جو جہد آزادی کے اس فیصلہ کن دور میں ریاستی فوج کا اہم ٹارگٹ رہے ہیں یکے بعد دیگرے آبادیوں پر کئی حملے کیے گئے۔آزادی پسند رہنما اختر ندیم بلوچ کے گھر و قصبے پر کئی بار فوج نے اپنی فرعونیت سے تباہی مچانے و لوگوں کوہراساں کرنے کی کوشش کی اور لوٹ مار جاری رکھا۔جھاؤ جو بلوچ نیشنل موؤمنٹ کی 2010ء میں کونسل سیشن کے بعدانقلاب ہی انقلاب بنتا گیا اور اب جھاؤ کی طویل و عریض سرزمین جس نے انقلاب کا ایسا لبادہ اوڑھا کہ اب بچہ بچہ آزاد بلوچستان کا گھن گاتا ہے۔قابض ریاستی فورسز نے فروری کو جھاؤ کے کئی علاقوں میں فضائی اور زمینی فوج سے حملہ کیا۔کھوڑو فوج نے اس لیے آبادی پر حملہ کے کیا کہ وہاں لوگ پاکستان سے نفرت اور آزادی کے خواہاں ہیں انکے بچے ماں ’’چکیں بلوچانی‘‘ پڑھتے ہیں۔نوجوانوں سے لے کر بزرگ انقلابی لٹریچرپڑھتے ہیں ،بوڑھی مائیں اور خواتین بچوں کو آزادی کے لیے جدوجہد کا درس دیتی ہیں۔خواتین گھروں میں شہیدوں اور قومی آزادی کے رہبروں کامریڈوں کی تصاویر رکھتی ہیں اور گھروں پر آزاد بلوچستان کا ترنگہ لہراتی ہیں۔حملہ تو ہونا ہی تھا،جھاؤ کے کئی دیہاتوں پر فوج نے حملہ کر کے درجنوں گھروں کو جلا دیا۔واجہ ابراہیم بلوچ کے پورے میتگ کو لوٹ مار کے بعد جلایا گیا اور اس سے پہلے فضائی بمباری سے 5 فرزندوں کو بزرگ ماسٹر نور محمد کے ساتھ شہید کیا گیا۔ شہید ہونے والے فرزند ،نواز ولد نودل،تاج ولدحاجی،غلام جان ولد نوار،طالب ولد ملنگ، پیشے سے مزدور،طلباء مال مویشی اور دور دراز علاقوں میں مزدوری کرنے والے بلوچ فرزندتھے جنہیں ایٹمی پاور نے جنگی ہیلی کاپٹر کی شیلنگ سے شہید کر کے بی ایل ایف کے سرمچار قرار دیئے۔اب اہل علاقہ تواچھی طرح جانتا ہے یہ معصوم کون تھے۔تیس سے زائد فرزندوں کو اغوا کیا گیا جن میں ایک زخمی بچہ بھی شامل ہے۔پاکستانی فوج کے ترجمان نے اغوا ہونے والے معصوم بلوچ فرزندوں کو دہشت گرد اور سرمچار قرار دیا جبکہ یہ بھی کہا ان میں سے ایک بی ایل ایف کا اہم کمانڈر ہے۔ معصوم مزدور،طلباء،ٹیچر،شاعروں کو اغوا کرنے والی فوج کی اس شکست اور درندگی نما بے چارگی پر ہنسی آتی ہے۔آج پوری آب و تاب کے ساتھ بلوچ قوم کے فرزندوں کو اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ بلوچ قوم کے دلوں میں خوف پیدا کیا جا سکے،مگر آج قومی جہد آزادی خوف سے کھوسوں دور اپنی منزل کو چھونے والی ہے تو اس طرح کے ریاستی ہتھکنڈے بے سود ہیں۔ہاں البتہ انکے مقامی دلال اور مقامی افسر ضرور اس طرح کے جھوٹے بیانات سے اپنی پوزیشن مستحکم اور آسائشوں و ترقی میں اضافہ کر رہے ہیں یعنی اب معصوم قوم کے فرزندوں کی لہو سے قابض فوج و اسکے دلالوں کے بچے مزید آسائش حاصل کر رہے ہیں،اس طرح کے جھوٹے بیانات صرف اپنی شکست زدہ فوج کے حوصلوں کو بڑھانے اور اپنی ترقی کے لیے راہ ہموار کرنے کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتے۔جھاؤ آپریشن میں جہاں ننے بچوں و مزدوروں کو اغوا کیا گیا وہیں پر بلوچی زبان کے شاعر قلمکار حاصل حسرت کو بھی فوج نے اغوا کیا۔حسرت بلوچ سب سے بڑا مجرم اس لیے ہے کہ وہ بلوچی زبان کا شاعر ہے،اپنی قومی زبان میں لگتا ہے اور اسکا گناہ یہ ہے کہ وہ مقبوضہ بلوچ سرزمین کاوارث ہے۔پھر ایسے میں اغوا گرفتاری،مسخ لاشیں تو لازمی ہیں۔ایک ایسی ریاست جو عطا شاد ڈگری کالج پر ہلہ بول کر اسی شاعر کی کتابوں کو ضبط کر کے انھیں باغی مواد قرار دیتی ہے اور کتابوں کو پابند سلال کیا جاتا ہے جسکے نام پر اسی ریاست نے کالج کو منصوب کیا ہے اب اس بے وقوف فوج و اسکے دلالوں پر ہنسی کے علاوہ کوئی شے بنتی نہیں۔سامراجی فوج سے بمباری،قتل و غارت،شعراء و دیگر مکاتب فکر کو گرفتار و اغوا کرنے کے بعد انھیں سرمچار قرار دے کر کھلے عام شہید کرنے کے علاوہ کوئی اور توقع رکھی بھی نہیں جا سکتی۔ دوران آپریشن شہید علی جان کے آخری آرام گاہ کو بھی مسمار کرنے کے بعد بوڑھی والدہ پر تشدد اور گھر جلا دئیے گئے۔ڈاکٹر مالک و اسکی فوج شہید فرزند کے والدہ پر تشدد کر کے اسکے پوتے پوتیوں کو پاکستانی بنا نا چاہتے ہیں شاید یہ لوگ تاریخ بلوچ سے نا واقف ہیں۔ ہاں یہ چنگاری جو آج شہیدوں کے قبروں ،انکی گھروں کو مسمار و جلانے کے ساتھ لاوا بن رہی ہے۔اس ریاست کو زمین بوس کرکے آزاد بلوچستان کے ترنگے کو ضرور آسمان پر لہرائے گی۔
فروری کے آخر میں کیچ میں فورسز نے مقامی دلالوں کے ساتھ مل کر بلوچ سرمچاروں پر حملے کیے تربت چاہ سر میں بی آر اے کے سرمچاروں کو گھیر کر فورسز نے ہتھیار ڈالنے کو کہا مگر عاشقانِ سرزمین نے شہادت کو ترجیح دیتے ہوئے کئی گھنٹوں تک فورسز کے ساتھ دو بدو لڑائی لڑی ۔گھمسان کی لڑائی کے بعد ۵ سرمچاروں نے ونگ کمانڈر کے ساتھ جام شہادت نوش کی،مگر انقلابی فکر نظریہ کو دشمن کے آگے جھکنے نہیں دیا۔شہیدعقیل،شہید نوروز،شہیدجہانزیب،شہیدموسیٰ،شہید جنید کو بی آر پی کے ترجمان نے سلامی اور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دستارِ وطن کا خطاب دیا۔ اس سے کچھ روز قبل بسیمہ میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ لڑائی میں لشکر بلوچستان کے 7 سرمچار خاک وطن ہوئے ۔دوران لڑائی فرزندان سرزمین نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
شہید مجید بلوچ،شہیدرزاق ،بلوچ،شہید اللہ بخش
بلوچ،شہیداکبربلوچ،شہیدسروربلوچ،شہیدعبدالحمیدبلوچ،شہیدعلی جان،بلوچ، یقیناًشہیدوں کی قربانیاں بلوچ قومی آزادی کا روشن باب رئینگے۔
سرمچاروں نے جس انقلابی بندوق کو کندھے پر اُٹھا کر سرزمین سے عہد ووفا کا سوگند لیا۔اس سوگند کو سرمچاروں نے اپنی لہو سے وفا کر دیا۔میدان لڑائی میں جام شہادت ایک عظیم رتبہ ہے حق و سچائی،اپنی قومی دفاع ،مادریں وطن کے لیے جدوجہد کرنا،لڑنا خود ایک عظیم درجہ ہے قومی بقا ء کی جدوجہد میں دشمن کو شکست فاش دینا اور مادریں سرزمین میں خاک ہونا اور وطن کی آغوش میں لپٹ کر اسے ابدی بھوسہ دینا خود عظمت کی سربلندی ہے۔عاشق وطن کے لئے شہادت نہ صرف عظیم رتبہ ہے بلکہ قوم کی آنے والی نسلوں اور جہد کاروں کے لیے فخر ،حوصلہ اور منزل کے تعین کا نظریہ بن جاتا ہے۔ شہید کی لہو اُس روشنائی کی طرح جہد کاروں کی رہنمائی کرتی ہے جو اندھیرے میں انسان کو راستہ دکھانے کا وسیلہ ہوتا ہے۔مارچ کا مہینہ بھی گزشتہ مہینوں کی طرح سرزمین بلوچ پر فرزندوں کی لہو کی خوشبو کو پھیلاتا ہوا اور سامراج کی بربریت کو تاریخ میں رقم کرتاہوا شروع ہوا۔وہیں پر دنیا کی طویل لانگ مارچ شرکاء نے اسلام آباد میں سامراج کے سینے پر آزاد بلوچستان کے نعرے کو بلند کرنے کے ساتھ بلوچ قوم کی تکالیف،ریاستی جبرکو پوری دنیا کی میڈیا،انسانی حقوق کی تنظیموں کو پیش کر کے ریاستی بربریت کا اصل چہرہ دستاویزی شکل میں پیش کیا۔بلا کی ہمت اور خود اعتمادی بانک فرزانہ بلوچ کے الفاظ میں ،عظیم بلوچ بیٹی کا ایک ایک لفظ تیر کی طرح چھیرتا ہوا سامراجی صحافیوں کو پچھا ڑتا گیا۔ماما قدیر بلوچ نے تو تاریخ کو ہی از سرے نو قلم بند کر دیا۔کراچی کے ایک صحافی سے مارچ کے بارے میں بات ہوئی تو موصوف نے کہا کہ یار واقعی انقلابی جہد خود ایک تربیت ہے درس گاہ ہے۔ بچے علی حیدر کو لیں،ریاستی جبر نے اس جہد نے وقت سے پہلے اسے بالغ بنا دیا،پھر مارچ کے ساتھ سفر نے اس کے الفاظ میں جان بخش دی اب دیکھیں اس بچے کو عمر کے لحاظ سے ابھی نابالغ ہے مگر سوچ فکر کسی بڑے سے بڑے تعلیم یافتہ دانشور سے بھی بلند ہے،یہی ہے بلوچ کے جہد کی کامیابی۔واقعی اس انقلابی جہد نے جہاں بلوچ قوم کو ایک قوم بنانے کے عمل میں بہترین راستہ اختیار کیا تو وہیں بلوچ قوم کی تربیت بھی کرتی آ رہی ہے۔
بلوچ فرزندوں کی لانگ مارچ نے قوم کے ساتھ قابض ریاست میں آباد اقوام اور دنیا کو آگاہی دی۔مارچ کے مہینے میں ریاستی فورسز کی اپنی پارلیمنٹیرین کے ساتھ بلوچ قوم پر اجتماعی جبر یعنی آبادیوں پر آپریشن میں قدرے اضافہ ہوا ڈیرہ بگٹی میں آپریشن میں اتنی شدت لائی گئی کہ پورے کے پورے قصبے،دیہاتوں کو بمباری کے بعد جلا کر صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا ۔کہتے ہیں کہ تبدیلی عام آدمی لاتا ہے اس جبر کی تاریخ میں بھی عام آدمی نے جہد کو تنظیم کے خوبصورت دستے میں سجا کر قوم کو آگاہی بخشی اور مکران جو اس جہد کے فیز میں پیش پیش رہافوج و اسکی نام نہاد پارلیمنٹیرین نے بھی خون کی ہولی خوب کھیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔پنجگور سے تربت ،گوادر سے سے بلوچ ساحل کی آخری سرحد و دیگر مکمل بلوچستان آپریشن کی زد میں رہا۔ شاپک کے پورے گاؤں کو لوٹ مار کے بعد کئی گھروں کو جلایا گیا ،درجنوں فرزنداغوا کیے گئے۔مگر انقلاب کو تشدد سے کبھی بھی ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔بلکہ قابض و سامراج کی ہر گولی،تشدد اسے صحت بخشتی ہے جسکی واضح مثال بی این ایم کی جانب سے ۹ مارچ کو وہ عظیم الشان جلسہ تھا جس میں اندازے کے مطابق ہزاروں کے قریب لوگوں جن میں خواتین،بچے،بوڑھے ،نوجوان شامل تھے شرکت کرتے ہوئے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا کر دشمن ریاست پر واضح کر دیا کہ جتنی لاشیں گرانی ہیں گرا لو، مگر اب آزاد بلوچستان کو دنیا کے نقشے میں نمودار ہونے سے کوئی بھی نہیں روکھ سکتا۔شہدائے بالگتر کی یاد میں یہ جلسہ نوید ہے خوشحال کل کی۔ڈیرہ بگٹی مکران مارچ کے ماہ میں خاص ریاستی فورسز کی بربریت کا نشانہ رہا جہاں فورسز نے مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے بلوچ سول آبادیوں کو خطرناک انداز میں نشانہ بنایا۔پیدارک میں فورسز نے بی این ایم کے شہید رہنما واجہ نصیر کمالان کے گھر پر بمباری کے ساتھ انکے رشتہ داروں اور درمکول پر شدید بمباری کی جس سے شہید رہنما کے فرزند داماد و بھانجے سمیت دو فرزند شہید ہوئے اسی دوران بی ایل ایف کے سرمچاروں اسلام بلوچ اور سمیر نے قابض ریاستی فورسز کا انتہائی بہادری سے کئی گھنٹے تک مقابلہ کر کے دشمن ریاست کے کئی اہلکاروں کو ہلاک و زخمی کیا۔جھڑپ میں بی ایل ایف کے دونوں جانباز سرمچار شہید ہوئے۔ قومی تنظیم کے ترجمان گہرام بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں شہدائے پیدارک اور قومی سرمچاروں کو شہادت پر سرخ سلام و خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انکی قربانی کو قوم کے لیے مشعل راہ قرار دیا۔فورسز کی بمباری سے 5بلوچ سرزمین کے وارث شہید ہوئے ۔شہید حاجی کمال کہدائی،مراد حاصل،اسلام،سمیرنصیر کمالان،اکرام بلوچ جبکہ دو خواتین سمیت ۶ فرزند زخمی ہوئے اور کئی افراد کو فورسز نے اغوا کیا۔مارچ کے مہینے میں ریاستی فورسز نے22 بلوچ فرزندوں کو شہیدکیاجبکہ 46 فرزندوں کو فورسز نے اغوا کیا۔ لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے اس لیے کہ یہ تعداد اخبارات سے لیے گئے ہیں اور مقبوضہ بلوچستان کی وسیع و عریض سرزمین پر درجنوں واقعات اخبارات تک پہنچ نہیں پاتے۔پاکستانی خفیہ اداروں نے مقبوضہ بلوچستان کے علاوہ شروع سے ہی بلوچ پناہ گزینوں کو بھی نشانہ بنایا اور ایک بار پھر اسپین بولدگ افغانستان میں بگٹی مہاجرین کیمپ پر آئی ایس آئی نے حملہ کیا اور بی آر پی کے رہنما کے فرزند اس دھماکہ میں زخمی ہوئے اس سے پہلے بھی انکے گھر پر حملہ اور فرزندوں کو شہید کیا گیا۔
اپریل کا ماہ بلوچ تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے، اسی ماہ شہدائے مرگاپ کا دل لرزاں دینے والا واقعہ تاریخ رقم ہو کر اس ماہ کو سرخ کرنے کے ساتھ بلوچ تاریخ میں اسے اہم مقام دے گیا۔چئیرمین غلام محمد بلوچ،لالہ منیر بلوچ،شیرمحمد بلوچ کی شہادت کے ساتھ بلوچ نسل کشی کی ایک ایسے سلسلے کا آغاز کیا گیا جو طلوع وغروب ہوتی سورج کے ساتھ بلوچ لہو سے رنگتا گیا۔شہدائے مرگاپ بلوچ لیڈورں کی شہادت لہو نے قوم کی قومی پرورش میں اہم کردار ادا کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آزادی کا نعرہ بلوچستان کے لیے لازم و ملزوم ہونے کے ساتھ قابض پاکستان کا نام و نشان بلوچ کے لیے ایک گالی بن گیا۔2014 ء کے اپریل کا ماہ بے شمار پاکستانی سیاسی اُتار چڑھاؤ اور بلوچ فرزندوں کی نسل کشی و اغوا کے ساتھ جاری ہے۔
اپریل کے مہینے میں پورا مقبوضہ بلوچستان ریاستی جبر کا شکار رہا،3 اپریل پیدارک ریاستی فورسز او انکی ڈیتھ ا

понедельник, 5 января 2015 г.

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے کمانڈر ڈاکٹر اللہ نذر سے 
خصوصی 
انٹرویو
از: آصف مگسی/ قلندر بخش میمن

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچستان کے متوسط طبقے کے مقبول ترین قوم دوست رہنما ہیں۔ وہ بلوچستان کے 
علاقے مشکے کے ایک معمولی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس 
آرگنائزیشن سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ فروری 2002 میں انہوں نے بی ایس او کے اپنے 
دھڑے کی بنیاد رکھی جس نے مسلح جدوجہد کے ذریعے بلوچستان کی آزادی کی کھلے عام 
حمایت کی۔ 2003 میں اپنے عسکریت پسند گروہ کو منظم کرنے کیلئے وہ زیر زمین چلے گئے۔ 
2 مئی 2004 کو ان کے بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے شہ سرخیوں میں جگہ بنائی 
جب 
اس تنظیم نے گوادر میں تین چینی انجینئروں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی۔
انہیں 25 مارچ 2005 کو کراچی میں ایک اپارٹمنٹ سے انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اٹھالیا جہاں وہ 
خفیہ طور پراپنے پرانے بی ایس او کے ساتھیوں سے ملنے آئے تھے۔ وہ ایک سال تک لاپتہ رہے۔ 
دریں اثنا، بی ایس او نے کراچی اور بلوچستان بھر میں ان کی رہائی کیلئے بڑے پیمانے پر احتجاج 
کا 
آغاز کیا۔ 12 اگست 2006 کو انہیں پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بلوچستان کے 
دارالحکومت 
کوئٹہ کے بولان میڈیکل کمپلیکس میں قائم جیل وارڈ میں منتقل کر دیا۔ ان کی حراست کے بعد قید 
تنہائی کے دوران انہیں شدید ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بولان میڈیکل کمپلیکس 
میں ایمبولینس کے اسٹریچر پر پڑے کمزور ڈاکٹر اﷲ نذر کی تصویر بلوچ نوجوانوں میں مقبول ہوگئی 
اور وہ جلد ہی ایک مشہور لیڈر بن گئے۔ ضمانت پر رہائی کے بعد وہ پھر سے روپوش ہو گئے اور 
اسوقت وہ بی ایل ایف کی قیادت کررہے ہیں۔
آصف مگسی: کیا آپ پنجابی آبادکاروں پر حملوں کی مذمت کرتے ہیں، انہیں کون مارہا ہے اور کیوں؟
ڈاکٹر اللہ نذر: میں دنیا میں کہیں بھی معصوم لوگوں پر کسی بھی قسم کے حملے کی مذمت 
کرتا 
ہوں کیونکہ ہم انسانیت سے محبت کرتے ہیں اور اس پریقین رکھتے ہیں۔ لیکن جہاں تک سوال کا 
تعلق ہے تو وہ شخص جوکہ استعمار کی پالیسیوں کی حمایت اور پانچویں کالم کا کردار ادا کرتا ہے 
تو بلوچ اسے ایک شریک کار سمجھتے ہیں۔ لہٰذا بلوچ بلا تفریق تعلق نسل ان کے حلیفوں کو نشانہ 
بناتے ہیں۔ خواہ وہ نسلاً بلوچ ہو یا کہ ایک آبادکار۔
آصف مگسی: بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ آزادی کیلئے بلوچ کی جدوجہد عسکریت پسند زیادہ 
اور سیاسی کم ہے، اس پر آپ کا کیا ردعمل ہے؟ آپ کی جدوجہد کے پیچھے کونسے سیاسی 
نظریات ہیں؟
ڈاکٹر اللہ نذر: بلوچ تحریک مکمل طور پر ایک سیاسی جدوجہد ہے۔ بلوچ عسکریت پسندی بھی 
سیاست کے سنہری اصولوں کی پابند ہے۔ ہمارے سیاسی نظریات کا مطلب ہماری سیاسی 
ریاست ہے؛ ایک جمہوری اور خوشحال آزاد بلوچستان۔
آصف مگسی: ایسا لگتا ہے کہ بلوچ کی جدوجہد میں اتحاد نہیں ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ اس نے 
جدوجہد محدود کیا ہے یا اسکے تدبیری فوائد ہیں، یعنی کہ متنوع قیادت ہونے کے سبب دشمن 
اسے مکمل طور پر ختم نہیں کرسکتا؟
ڈاکٹر اللہ نذر: جی ہاں، میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہاں ایک آزاد بلوچستان کی جدوجہد 
میں ایک سے زائد تنظیمیں کام کررہی ہیں جس کے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ لیکن ہم سب ایک 
نکتے پر متفق ہیں اور وہ ہے ایک آزاد بلوچستان۔ اس طرح سے ہمیں زیادہ تکالیف جھیلنی پڑیں گی 
لیکن قابض کا ظلم اور استبداد ہمیں متحد ہونے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے مجبور کردے گا۔
قلندر بخش میمن: کیا آپ اپنے قید میں گزارے گئے مہینوں کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟ کیا آپ کو 
تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا؟ کیا آپ نے دوسروں پر تشدد ہوتے ہوئے دیکھا تھا؟ کیا آپ پر کوئی الزام 
عائد کیا گیا تھا؟ کیا قانونی عمل کی پیروی کی گئی تھی؟
ڈاکٹر اللہ نذر: جی ہاں، میں نے دشمن کے عقوبت خانے میں اپنے ساتھی قیدیوں پر تشدد ہوتے 
ہوئے دیکھا تھا۔ میں بھی ان میں ایک تھا جسے مستعمر کے ہاتھوں اسی تشدد اور غیر انسانی 
سلوک کا سامنا کرنا پڑا جسے میرے بلوچ بھائی اب بھی جھیل رہے ہیں۔ مجھ پر بھینس کی چوری 
یا گاڑی چھیننے جیسے جعلی اور معمولی مقدمات کیساتھ الزامات عائد کیے گئے اور یہ سب کچھ 
مجھے بدنام کرنے کیلئے کیا گیا تھا۔
قلندر بخش میمن: آپ نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں ذکر کیا تھا کہ آپ نے فینن اور چے گویرا کی 
تحریروں کو پڑھا ہے، ان کی تحریروں میں آپ کو کس چیز نے متاثر کیا؟ چے اور فینن دونوں جدوجہد 
کے دوران ہی ایک نئے معاشرے کی تعمیر کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ چے اپنے کیمپوں میں 
طبی 
کلینک قائم کرتے اور گاوں میں کسانوں کے پاس جاتے اور ان کا علاج کرتے۔ کیا بی ایل ایف اپنے زیر 
اثر علاقوں میں وہ سب کچھ عملاً کرتی ہے جسکا وہ پرچار کرتی ہے؟ اگر ہاں تو کس طرح؟ فینن 
حریت پسندوں کے درمیان پیدا ہونے والی تبدیلی کا بھی ذکر کرتے ہیں، یعنی کہ وہ ’نئے لوگ‘ بن 
جاتے ہیں۔ کیا آپ نے اپنے اندر اور دوسروں میں کوئی تبدیلی محسوس کیا ہے؟ جدوجہد کس طرح 
سے سرمچاروں کی آتما کو بدل دیتا ہے؟
ڈاکٹر اللہ نذر: جی ہاں۔ میں نے دونوں عظیم لکھاریوں کو پڑھا ہے۔ لیکن ہر معاشرے کی اپنی 
پیچیدگیاں ہوتی ہیں تو لہٰذا ہر تحریک آزادی اپنے ماحول کے عین مطابق کام کرتی ہے اسلئے ہم 
بلوچ قوم کے عمدہ ضابطہ ہائے تعظیم پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم چے یا دیگر 
انقلابی 
رہنماوں کو کاپی نہیں کر رہے؛ ہم اپنے اصولوں اور اپنے طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں۔
ہمارا معاشرہ سب سے زیادہ پیچیدہ معاشروں میں سے ایک ہے۔ بلوچ معاشرے کی کئی پرتیں 
ہیں، مثال کے طور پر، ہمارا معاشرہ خانہ بدوش معاشرہ ہے لیکن کچھ علاقوں میں یہ نیم خانہ 
بدوش بھی ہے۔ کچھ جگہوں پر زرعی ہے تو نیم شہری علاقے بھی موجود ہیں۔ لہٰذا سرمچاروں نے 
ایک نئے معاشرے کی تعمیر کیلئے اپنی حکمت عملی وضع کی ہے۔ اب تک، میرے ذہنی مشاہدے 
کیمطابق، ایک بالکل نیا معاشرہ بلوچ قوم میں ابھرا ہے۔ سرمچار ایک آزاد اور فلاحی بلوچ ریاست 
کی 
اس ابھرتی ہوئی ذہنیت کے معمار ہیں۔
ایک طرح سے سرمچار خانہ بدوشوں، کسانوں اور بلوچ قوم کے دیگر طبقات کی رہنمائی کر رہے 
ہیں، اور اب ہم اس کے نتائج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آزادی کی جدوجہد نے نہ صرف سرمچاروں کو 
تبدیل کیا ہے بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں بلوچستان کی آزادی کے اس انقلابی عمل کو بلوچ قوم کی 
ایک ثقافتی اور دانشورانہ حیات نو قرار دیا جاتا ہے۔
آصف مگسی: اگر عالمی طاقتیں بلوچ آزادی کی حمایت نہیں کرتیں، جوکہ اب تک انہوں نے نہیں 
کی ہے، آپ کب تک خود انحصاری پر مزاحمت کرسکتے ہیں،آپ کی صلاحیت کتنی ہے؟
ڈاکٹر اللہ نذر: بلوچ تحریک آزادی ابتداء ہی سے ایک مقامی تحریک ہے۔ ہم اپنے لوگوں پر 
انحصارکرتے 
ہیں جو ہر طرح سے ہماری مدد کررہے ہیں؛ سامان کی ترسیل کے ساتھ ساتھ مالی معاونت بھی۔ 
ہم اسے فتح تک جاری رکھیں گے۔ اگرچہ عالمی برادری نے بلوچ کی جانب اپنی آنکھیں بند کرلی 
ہیں، وہ اپنی عالمی انسانی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہے ہیں اور پاکستان کیخلاف کارروائی کرنے سے 
گریزاں ہیں جو بلوچستان میں انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔
وحشی اور بدمعاش پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں، آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس نے 
ہزارہا 
بلوچ جبری طور پر لاپتہ کیے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کو نافذ کرنے کا پابند ہونے کے باوجود 
پاکستان 
ان کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ وہ عالمی برادری کو گمراہ بھی کر رہا ہے۔ لیکن 
ایک دن عالمی برادری اور آزادی پسند لوگوں کا ضمیر پاکستان کیخلاف جاگ جائے گا۔ یا پھر، مجھے 
یقین ہے کہ، آزادی کیلئے ہماری مسلسل جدوجہد انہیں جاگنے اور عمل کرنے پر مجبور کردے گی۔
قلندر بخش میمن: آئی ایس آئی بلوچستان میں جہادی گروہوں کی معاونت کر رہا ہے.... کیا آپ 
ہمیں بتا سکتے ہیں کہ آئی ایس آئی کن گروہوں کو اور کس طرح سے ان کی حمایت کررہا ہے۔ 
اسکے علاوہ، اس سلسلے میں آپ عالمی برادری اور بلوچ کو کیا پیغام دیں گے؟
ڈاکٹر اللہ نذر: میں نے بین الاقوامی میڈیا سے اپنے انٹرویوز میں بارہا اس بات کا ذکر کیا ہے کہ 
پاکستانی آئی ایس آئی فرقہ واریت کے ذریعے بلوچ تحریک آزادی کا مقابلہ کرنے کیلئے بلوچستان 
میں مذہبی بنیاد پرستوں کی حمایت کر رہی ہے۔ پنجگور اور دشت مکران میں لڑکیوں کے اسکولوں 
کو نذر آتش کرنا؛ مستونگ، خضدار اور کوئٹہ میں بلوچ خواتین پر تیزاب کے حملے؛ آواران اور دشت 
میں ذکریوں کا قتل عام بلوچستان میں جہادیوں کی موجودگی کی واضح مثالیں ہیں۔ لشکر جہاد، 
انصار الاسلام آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔ زلزلے سے متاثرہ علاقے آواران میں لشکر طیبہ نے 
حال 
ہی میں پاکستان آرمی کنٹونمنٹ آواران، جہاں ایک بریگیڈیئر پاکستانی فوجیوں کی کمان کر رہا ہے، 
کے قریب اپنا تربیتی کیمپ کھول رکھا ہے۔
آئی ایس آئی کھلے عام جہادیوں حمایت کر رہی ہے، مالی معاونت اور ہتھیاروں کی فراہمی 
کیساتھ 
اور نقد رقم کے ذریعے جسے یورپ، امریکہ اور دیگر ایشیائی اور افریقی ممالک کو منشیات سمگل 
کرکے حاصل کیا جارہا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد بلوچ تحریک آزادی کو کچلنا اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنا 
ہے اور عالمی برادری کی توجہ ہٹانا ہے کہ اصل مسئلہ بلوچ تحریک آزادی نہیں ہے بلکہ وہ اسے 
ایک فرقہ وارانہ مسئلے کے طور پر ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔
قلندر بخش میمن: لاپتہ افراد کا مسئلہ ہر بلوچ کے ذہن پر سوار ہے اور ہر پاکستانی کے لاشعور کا 
حصہ ہے۔ کیا آپ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ جو لوگ اٹھائے جا تے ہیں ان کیساتھ کیا 
ہوتا 
ہے؟ کیا وہ قتل کردیے جاتے ہیں یا سالوں تک زندہ رکھے جاتے اور پھر قتل کر دیے جاتے ہیں؟ کیا 
کبھی کوئی عقوبت خانوں سے فرار ہوا ہے؟
ڈاکٹر اللہ نذر: لاپتہ افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ انہیں عام طور پر گھروں، بسوں، بازاروں سے اٹھایا جاتا 
ہے اور ان میں سے اکثر کو آئی ایس آئی اور اس کی پراکسی تنظیموں کی طرف سے وحشیانہ 
تشدد کا نشانہ بناکر بیدردی سے قتل کرکے پھینک دیا جاتا ہے۔ بالفرض اگر کوئی ان کی قید سے 
زندہ بچ بھی جائے تو وہ پی ٹی ایس ڈی (پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر) میں مبتلا ہوتے ہیں 
اور اپنی یادداشت اور حواس کھو بیٹھتے ہیں۔

воскресенье, 4 января 2015 г.

Is this the end?

Dedicated activists, disheartened by disunity, are withdrawing into themselves while some are forming factions as if there were not enough already
Early in November last year, when the United Baloch Army (UBA) reported that it had been attacked by members of the Baloch Liberation Army (BLA), one of its commanders had been killed and four of its fighters captured, there was speculation that this spelt the end of the insurgency in Balochistan. There was undisguised jubilation in some quarters at this sad development. The question is: does this signal the end of the headache for Pakistan as many want to believe and would love to see happen? Let us examine.

Historically, the Baloch resistance was never a monolithic entity. In the past, pockets of resistance were too far away from each other and communications through couriers took weeks if not months so there has always been a very loose arrangement and unity with the singular aim being to resist the denial of rights and oppression by the Pakistani state. The lack of modern means of communication kept unity limited and therefore differences too.

The latest round of resistance restarted around the year 2002 and, like in the past, began in the Marri area where the kernel of resistance had been preserved. After Nawab Akbar Khan Bugti’s confrontation with the state and his consequent martyrdom in August 2006, resistance groups strove to preserve the Baloch identity and resist aggression. The BLA was there, Dr Allah Nazar’s Baloch Liberation Front (BLF) was active too and the Baloch Republican Army (BRA) was formed. There was cooperation among the three and this had the establishment worried no end but, unfortunately, with the martyrdom of Balach Marri in November 2008, this cooperation ebbed.

The increasing cooperation between the resistance groups needled the establishment as they knew this cooperation would endanger their already tenuous hold. It was in 2007-2008 that Pakistan started a four-pronged attack on the Baloch resistance. The first was to physically eliminate actual or suspected Baloch activists; even a whiff of suspicion carried a death warrant and with it began the institutionalised and systematic ‘dirty war’ against the Baloch. The second was to create fissures within the existing groups, which was quite easy due to infiltration and plants because these groups were led by relatively new leaders and their recruits’ vetting was inadequate. Anybody loudly denouncing oppression qualified. The third was the organising and funding of death squads like those of Shafiq Mengal to counter the nationalists. Last but not the least was the state sponsorship of madrassas (seminaries) to bring about a change in the social ethos of traditionally secular Baloch society.

The extravagant use of brute force and money started to have an effect and this was reinforced by the easy accessibility of social media where anybody with a fake identity said whatever he/she wanted with impunity. Social media, due to its novelty, easy access and apparent credibility, was effectively used to create confusion and disenchantment through spreading misinformation. The accusations, slander and untruths against the Baloch resistance on the cyber waves are mindboggling and this has done more damage than anything else by demoralising the cadre who do not have access to information that can help put their doubts to rest. No one can control social media; the slander and accusations continue to putrefy the atmosphere as anyone posing as anyone else can continue it. The Pakistani establishment is deeply involved in this as it has seen this bear fruit. This is compounded by a blanket ban on Baloch websites by the Pakistan Telecommunications Authority (PTA). Acceptance of all that is put on social media as truth undermines the resistance and unfortunately this will continue unless there is serious literature around to debunk the distortions but that will only happen when the cadre re-learn to read books instead of spending all their time on social media.

There indeed are deep differences between the BLF, UBA and BRA on one side and the BLA on the other. Then there were other issues of cooperation that demanded flexibility but rigidness prevailed and, eventually, cyber-warriors and loose cannons muddied the environment to the extent that the BLF in retaliation came out with a statement terming the BLA as an obstacle to the resistance and vice versa. These exchanges have become more marked since the death of Nawab Khair Bakhsh Khan Marri. It seems attempts to reconcile them have not borne fruit. These differences have seeped into student organisations too and this does not auger well for the resistance. Efforts for reconciliation are not being responded to so only a drawing back by the opposing sides themselves can lead to reconciliation.

The differences and disunity among the leaders is confounding the people and activists are giving up in despondency and frustration. Dedicated activists, disheartened by disunity, are withdrawing into themselves while some are forming factions as if there were not enough already. Those who sympathise with the Baloch resistance are worried by the frequent outbursts against each other and these differences undermine international sympathy as well. No one sympathises with bickering organisations; those who cannot put their house in order cannot hope that others will support them. Supporters have a very short tolerance capacity. They do not like to suffer fools. This rift is taking its toll in Balochistan as well as outside it. The consequences of the rift and fracture are dire. Moreover, Pakistan has stepped up persecution.

In a previous piece I wrote, “If the leaders want to become more than a footnote of ‘had fought’ in Balochistan’s history, they will have to change their ways and change them soon. Only those who love themselves and their self-interest more than Balochistan will find it hard to unite. Egos and differences need to be put aside. All organisations have a responsibility towards the Baloch people to serve them and the motherland selflessly and if they fail in their task of serving and leading the people, history will not forgive them.”

All said, will all these differences and problems mean the end? I do not think so because, as I said, the movement is not monolithic and, moreover, the struggle is larger than any organisation or individual and has found a place in the hearts and minds of the Baloch people because they have come to realise that their salvation lies in the struggle’s success. Any organisation or individual that goes against the people’s wishes is sooner rather than later bound to be rejected and the present crisis on which some have shown jubilation are in for a huge disappointment.


The writer has an association with the Baloch rights movement going back to the early 1970s. He tweets at mmatalpur and can be contacted at mmatalpur@gmail.com
Mir Mohammad Ali Talpur

четверг, 1 января 2015 г.


Hani Mat E Watan

ایسے حالات میں حوصلے اور ایک دوسرے کو مدد کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے، اگر ہم گالیاں اور برا بھلا کہتے رہے تو پھر ہم اپنے سیاسی مقاصد کبھی بھی حاصل نہیں کرسکتے ۔اسی طرح آج کوئی جنگی حالات کو برداشت نہیں کرپارہا ہے تو وہ بہت کنفیوز اور سراسیمگی کا شکا رہے یا مایوسی عالم میں راہِ فرار کی تلاش میں ہے ۔ہمارے اس طرح کے غلط رویے و اعمال ایسے لوگوں کو ایک مضبوط جواز فراہم کرتے ہیں ۔ ایسے میں لوگوں کا خاموش ہونا اور پارٹی فیصلے بغیر بیرون ملک جانا روایتیں بن جاتی ہیں ۔وجہ ! حالات کو نہ سمجھنایا غیر سیاسی عمل۔نتیجہ ! ناکامی۔دوسری جانب دیکھا جا ئے تو دشمن اپنی پالیسیوں و قوت کو وسعت دیکر ہر روز نئے طریقے سے حملہ آور ہوتا ہے ۔میرے خیال میں ہماری تحریک کو کاؤنٹر کرنے کیلئے بنائے گئے پاکستانی آرمی کی نئے ڈاکٹرائن نے ہمیں اتنانقصان نہیں پہنچایاجتنا آج ہماری ہی اپنی نئی ڈاکٹرائن ہمیں نقصان کی طرف لے جارہا ہے۔یہاں یہ بھی غلط نہ ہوگا کہ ہم پاکستانی آرمی کے ڈاکٹرائن کو سمجھ نہ سکے ہیں یا انکا مقابلہ نہ کرسکے ہیں ۔وہ ہمارے اندرموجود چھوٹے چھوٹے مسائل و تضادات کو جان کر یا اندر گھس کر ہوا دے کر ہم میں غلط فہمیاں پیدا کرکے اپنے مقاصد حاصل کررہے ہیں۔بلوچ قومی جہد میں اتحاد و اتفاق اور برد باری کی کمی اس کی واضح ثبوت ہیں ۔اگر یہ فاصلے اسی طرح رہے اور مزید بڑھتے گئے تو پھر بقول شاعر ۔’’فاصلے بڑھتے ہیں تو غلط فہمیاں بڑھ جاتی ہیںپھر وہ بھی سنائی دیتا ہے جو کہا بھی نہ ہو۔‘‘آج ہمارے دوستوں میں ایسا ہی ہورہا ہے ہم بہت زیادہ غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ہر ایک کا یہی خیال ہے کی صرف میں ’’ڈان ‘‘ ہوں دوسرے مایوس ہوکر مٹ جائیں گے ،، عوام مایوس ہوکر فلان پارٹی کے خلاف جائیگا اور وہ پارٹی ختم ہوگا،آخر میں صرف میرا وجود ہوگا وغیرہ وغیرہ۔لیکن آج ہماری قوت عوام مایوس ہوگیا اور تحریک پیچھے چلی گئی تو کوئی نہیں بچے گا۔یہ بات یاد رکھنی چاہئے ، اگر عوام پانی ہے ہماری جڑوں کو مضبوط کررہی ہے تو ہم زندہ ہیں ۔ اسی طرح انکے ساتھ ہم نے غلط کھیل کھیلنے کی کوشش کی تو پانی سیلاب بھی بن سکتی ہے۔بلوچ سیاست میں ایک ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے کہ کوئی ایمانداری سے کچھ لکھے یا کہے یا فریاد کرے تو اسے کسی نہ کسی کی ایجنٹ کا لیبل لگاکر رسوا کرکے اس سے سوشل بائیکاٹ کیا جاتا ہے جو بالکل ایک سیاسی عمل نہیں ہے ۔اور اسی طرح جلد بازی میں ایک دوسرے کو جواب دیا رہا ہے جیسے سب کچھ ختم ہوچکا ہے تمام رشتے ٹوٹ چکے ہیں ۔ اب راستے الگ الگ ہوچکے ہیں ۔پھر کبھی ملنا نہیں ہے۔مگر ہم بھول چکے ہیں کہ یہ آزادی کا شاہراہ ہے ہم سب اس منزل کے مسافر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔۔ کچھ ایسا عمل نہ کیا جائے کہ پھر پچھتانا پڑے۔بقول ارسطو ’’ جواب دینے میں جلدی نہ کرو تاکہ بعد میں شرمندگی نہ ہو ‘‘بی ایس او کے ایک عام کارکن کی حیثیت سے بی ایس او کی تربیت نے مجھے یہی سکھایا ہے کہ ہمیں یہ نہیں بھولنی چاہیے کہ سب عوام ہی ہے ۔اور میں یہی سمجھتا ہوں اس وقت ہمارے پاس عوامی طاقت اور مخلص دوستوں کی جذبات کے علاوہ کوئی بڑی طاقت و دولت نہیں ہے ۔ اگر یہ مایوس ہوگئے تو پھرہم کسی کام کے نہیں رہیں گے اور تما م نقصانات اور واقعات اور حالات کا ذمہ دار ہم ہی ہونگے۔ اور جو دوست اکثر کہتے ہیں کہ سیاست گند ہوچکا ہے اور وہ خاموش یا مایوس ہورہے ہیں ۔ میں ایک عام کارکن کی حیثیت سے انہیں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ افلاطون کی اس قول پر ضرور سوچیں جس میں اس نے کہاتھاکہ ’’ سیاست سے کنارہ کشی کا انجام یہ ہوگا کہ تم سے کمتر لوگ اٹھ کر تم پر (عوام ) راج کریں گے۔‘‘ ***