Powered By Blogger

понедельник, 19 января 2015 г.

سال 2014کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ 

(اس رپورٹ و تجزیہ میں سال بھر کے مکمل ڈیٹا کو شامل کیا گیاہے،ادارہ)
2014ء کا سال بلوچ فرزندوں کی شہادت،اغوا،اجتماعی قبروں،مسخ لاشیں آبادیوں پر بمباری،خواتین و بچوں کے اغوا کی تاریخ رقم کر گئی۔یہ سال بھی بلوچ قوم کے لیے خونی سال ثابت ہوا جہاں پاکستانی فورسز نے آبادیو ں پہ بمباری،ٹارگٹ کلنگ،بلوچ فرزندوں کی اغوا اور مسخ لاشوں کے سلسلے کو جاری رکھا۔ہر دور میں قابض نے محکوم اقوام کو اپنی زیر دست رکھنے کے لیے جبر کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔اسی طرح اس خطے میں بلوچ قوم جو اپنی آزادی کی جدوجہد میں ہر پلیٹ فارم پر کوشاں ہے کو بھی قابض ریاستی جبر کا سامنارہا ہے۔اس فیز کے جہد میں قابض ریاست نے بلوچ قوم کو داخلی طور پر کمزور کرنے اور انقلابیوں کو زیر کرنے کے لیے علاقائی سطح پر اپنے خاص لوگوں کو چنا اور ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دئیے۔جن کے ذریعے ہزاروں فرزندوں کو اغوا کیا گیا اور سینکڑوں کی لاشیں ملیں اور ہزاروں آج تک لا پتہ ہیں۔
جنوری کے خونی مہینے میں اچانک خضدار توتک میں اجتماعی قبروں کی دریافت سامنے آئے جس جگہ یہ اجتماعی قبریں ملیں یہ عین وہی مقام ہے جب جنوری 2011 میں پاکستانی فوج نے ایک بڑے آپریشن کے بعد اس علاقے کو اپنی ڈیتھ اسکواڈ مسلح دفاع کے سربراہ شفیق مینگل کے حوالے کیا۔اس آپریشن میں بزرگ قلندرانی و انکے پورے خاندان کو فورسز نے اغوا کیا جو تاحال لاپتہ ہیں۔اسی مسلح دفاع سے آئی ایس آئی نے کئی اور ڈیتھ اسکواڈ بھی بنائے یہ جگہ جہاں اجتماعی قبریں ملیں ہیں خفیہ اداروں و انکی ڈیتھ اسکواڈ کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ 160کے قریب لاشیں اجتماعی قبروں سے ملی ہیں۔ اہم ذرائع کے مطابق لاشیں ۲ سو کے قریب ہو سکتی ہیں یا اس سے بھی زائد۔۔۔۔یقیناًیہ لاشیں بلوچ مسنگ پرسنز ہی کی ہیں اس لیے کہ اتنی بڑی تعداد میں لاشیں اور ہوہی نہیں سکتی اور یہ لاشیں سال سے ڈیرھ سال اور چند ماہ پرانی ہیں۔اس جگہ کا انکشاف اس طرح ہوا کہ علاقائی لوگوں کے مطابق ریاستی پاور کو بیلنس کر نے کے لیے اختر مینگل و شفیق میں پاور بیلنس کرنے کے معاملے کی وجہ سے شفیق مینگل و آئی ایس آئی کو اپنی ہیڈ کوارٹر یہاں سے شفٹ کرنا پڑا اور وسیع میدانی علاقہ ہونے کی وجہ سے مال مویشی والے کسی چرواہے نے انسانی ہڑیاں دیکھیں اور اطلاع پر مقامی انتظامیہ پہنچا۔مگر جب بات درجنوں لاشوں کی اور کئی اجتماعی قبروں کی نکلی تو فوج نے کنٹرول سنبھال کراس بات کو دبانے کی کوشش کی جس کی واضح مثال وزیر داخلہ سرفرزا بگٹی کی اس ننگی جھوٹ سے عیاں ہے کہ پہلے روز صرف 2 لاشیں ملی ہیں اور پھر7جبکہ پہلے روز کمشنر خضدار وحید شاہ کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ 11 لاشیں ملیں ہیں اور تعداد سو سے زائد ہو سکتی ہے۔اور اسکے بعد فوج نے کنٹرول سنبھال کر سب رفع دفع کر دیا۔پاکستان کی اس وحشی پن پر نہ بلوچ کو حیرانگی ہونی چائیے نہ کسی اور کو مگر اقوام متحدہ و عالمی اداروں کی بلوچ نسل کشی واجتماعی قتل عام پر خاموشی پوری انسانیت کے لیے تباہی کا باعث ہے۔
جنوری 2014ء تاریخ عالم میں لانگ مارچ کی وجہ سے اپنی اہمیت تاریخ کے صفحات میں اہم سے اہم تر کر گیا۔ماما قدیر بلوچ،بانک فرزانہ بلوچ،سمی بلوچ، کمسن کامریڈ علی حیدر بلوچ و دیگر شرکاء نے تاریخی لانگ مارچ کے سفر کی تکالیف کو مٹھاس،یکتا ،انقلاب و انسانیت کی بقا کی صورت میں سندھ دھرتی کو معطرکرتے ہوئے پنجاب داخل ہوئے۔وائس فار مسنگ پرسنز لانگ مارچ کوئٹہ سے کراچی کا اپنا کٹھن اور طویل سفر طے کرنے کے بعد کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کا فیصلہ کیا اور یہ سفر تمام سنگینیوں کے باوجود رواں رہا۔نہ جانے ارباب اختیار و عالمی اداروں پر کتنی افادیت کے ساتھ بلوچ مسنگ پرسنز لانگ مارچ اثر اندازکرگئی ، گھونگی بہری سرمایہ دار اداروں پر شاید کوئی خاص اثر بھی نہ ہو۔۔۔۔مگر تاریخ کے اوراق اور انسانی حقوق و قومی آزادی کی جہدوں میں ضرور ایک اعلیٰ پائے کا مقام حاصل کر پائے گی۔سندھ دھرتی ماں پر مسنگ پرسنز لانگ مارچ کے شرکاء کا ہر قدم یقیناًانقلاب کی نوید ثابت ہوگئی،خاموش اپنی تاریخ و تمدن سے بے خبر سندھی قوم کو یقیناًبیدار کر گئی۔جسکی واضح مثال سندھی قوم کی تاریخ ساز استقبال اور محبت ہے ۔ایک پرانے دوست اور لاڑکانہ پریس کلب کے اہم رکن سے لانگ مارچ کے لاڑکانہ آمد پر بات ہوئی تو ساتھی نے کہا ’’ ہم بلوچ مسنگ لانگ مارچ کو سندھ میں داخل ہوتے ہی باریک بینی سے دیکھ رہے تھے کہ سندھی قوم کا مشترکہ ردعمل کیسے ہو گا مگر لاڈکانہ تک کے سفر نے تو حیران کر دیا۔بلوچ آبادیوں والے علاقوں میں محبت ،استقبال کا پہلے سے اندازہ تھا اور کچھ سندھی علاقوں میں بھی جہاں ابھی سندھو دیش کا نعرہ پروان چڑھنا شروع ہوا ہے مگر کل ملا کر میں تو حیران رہ گیا کہ بلوچ قومی انقلاب نے سندھ میں انقلاب کی کونپلوں کو جنم دیا۔ سندھی قوم میں انکی قومیت کے سوال کو اجاگر اور ایک تحریک کو ضرور شروع کرنے کا سبب بنا ۔خود میرے گھر میں جہاں میرے بچے اور میری بڑی بیٹی 14 اگست کے دن پاکستان کی آزادی پر جشن مناتے اور میں بھی۔ لانگ مارچ کی لاڑکانہ اور آمد پورے سفر کا سندھی میڈیا ،الیکٹرونک و پرنٹ میں اپنی طورپر پزیرائی رہی۔سب کو اس لانگ مارچ کا علم ہو گیا ۔بیٹی نے سوال کیا ابا کیا ہم پاکستانی ایک قوم نہیں ہیں؟ہم ایک نہیں ہیں؟کیا ہم الگ ہیں؟ میرے خیال میں یہی سوال بنیاد ہیں کسی بھی قومی جہد کا اور یہی اثاثہ اور احساس آج بلوچ بیٹیوں اور ماما قدیر نے ہمیں دیا ہے،شاید سندھی قوم کو بہت وقت لگے گامگر اس میں کوئی غلط بیانی نہیں ہو گی اگر کہا جائے کہ یہی سوالات مضبوط بنیاد کھڑے کرتے ہوئے ایک روشن مستقبل کا تعین کریں گے۔اور سندھی قوم میں ایک سوال ضرور اُٹھا ہے اب سندھ کے آزادی پسند تنظیم اس تپش کو کیسے تراش و تربیت کر کے آگ اور چنگاری بناتے ہیں وقت فیصلہ کر ئے گا‘‘
واقعی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی لانگ مارچ نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے ۔اس مارچ کی سب سے بڑی کامیابی اور حاصل یہی ہے کہ انسانیت کے لیے ، حق و مظلوم اقوام کی آواز کی بنیاد بنی ہے جو آج تک کوئی سیاسی تنظیم نہ کر سکا وہ بلوچ قوم کے چند بیٹیوں و کمسن کامریڈ علی حیدر و ماما قدیر نے کر دیا۔لانگ مارچ کے پنجاب داخل ہوتے ہی سیکورٹی اداروں،خفیہ اداروں کی جانب سے دھمکیوں میں اضافہ بھی ہوا شرکاء کو ڈرانے ،دھمکانے کے ساتھ کروڑوں کی لالچ بھی شرکاء کے سامنے رکھی گئی مگر وطن کی مٹی کی خوشبو اور انسانیت کے لیے آواز و عملی قدم اُٹھانے والے تاریخ گواہ ہے خود جان دے دیتے ہیں مگر بھکاؤ نہیں ہوتے،شاید پنجاب کے میاں و چوہدری سب بلوچوں کو مالک،حاصل،زہری، سمجھ بیٹھے ہیں مگر انکا اندازہ غلط ہے آج 99 فیصد بلوچ اپنی سرزمین کی مٹی کا دیوانہ ہے اور ایک فیصد پارلیمانی جو ایسے مراعات کے چکر میں آج قوم پر بدنما داغ ہیں۔پنجاب میں مسنگ مارچ پر حملے بھی انکی ہمت نہ تھوڑ سکے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز لانگ مارچ کا قافلہ بلوچ سر حدی مقبوضہ علاقوں جو آج کل نقشے میں پنجاب کا حصہ ہیں داخل ہوا تو بلوچ قوم نے بھرپور استقبال کیا ۔ پنجاب کے قبضہ میں مقبوضہ بلوچ زمین کے باسیوں کا اپنی حق و ریاستی جبر کے خلاف لانگ کے شرکاء کاپرجوش استقبال اس بات کی واضح مثال ہے کہ بلوچ دنیا کے جس کھونے میں بھی آباد ہے ،جذبہ وطنی کے اس جہد سے غافل نہیں اور یہی بلوچ قومی وحدت ،پہچان و تشخص کی انقلاب کے نعرے کی کامیابی کا منہ بھولتا ثبوت ہے۔پنجاب کے علاقوں میں لانگ مارچ داخل ہوتے ہی مارچ کے شرکاء میں اضافہ ہوتا رہا۔ایک جانب خفیہ اداروں کی دھمکیاں تو دوسری جانب مقامی ریاستی اداروں کی جانب سے پیدا کی جانے والی تکالیف،مگر مسنگ پرسنز لانگ مارچ کے شرکاء کی ہمت ، حوصلہ اور عہد انسانیت سے وفا کے وعدے ثابت قدمی سے انکی طاقت بن رہے تھے۔اوکاڑہ شہر سے نکلتے ہی ریاستی خفیہ اداروں کی جانب سے لانگ مارچ کو دی جانے والی دھمکیوں کو حتمی شکل دے کر تیز رفتار ٹرک کے ذریعے ان پر حملہ کیا گیا۔لاہور سے آئے ہوئے مارچ کے ساتھ چلنے والے کامریڈ عرفان اور ایک ساتھی زخمی ہوئے جبکہ دو بلوچ قوم کی بیٹیوں کو بھی معمولی چوٹیں آئیں۔واقعے کے فورا بعد جب نمائندہ سنگر نے ماما قدیر ،بانک فرزانہ مجید سے رابطہ کیا تو انکے حوصلے آسمان کو چھو رہے تھے،جیسے یہ حادثہ تو متوقع تھا۔انکے حوصلوں نے ہماری ہمت کو بھی بڑھاوا دیا۔ماما قدیر نے کہا کہ ریاست لاکھ حملے کرے زندہ نہ سہی یہ لاشیں تو ضرور اسلام آبادو اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے پہنچیں گے۔بانک فرزانہ نے ببانگ دہل کہا کہ موت و حملے،دھمکیاں اس مارچ کو نہیں روکھ سکتی ہیں۔قوم ہمت سے کام لے اپنے حوصلے قائم رکھے اس لانگ مارچ کوحملوں سے نہیں روکھا جا سکتا۔ہمارے قدم ،ہمت،حوصلے ان حملوں دھمکیوں سے پست نہیں ہونگے۔
لانگ مارچ کے سرپرست اعلیٰ ماما قدیر اور بانک فرزانہ مجید کے الفاظ نے تاریخ رقم کر لی۔بلاآخر قافلہ انسانیت دردِبلوچاں لے کر تمام ریاستی جبر و ظلم اور تکالیف و مصائب کے اسلام آباد پہنچ گیا۔دہشت گرد ریاست کے دارالخلافہ جسے عالمی دہشت گردی کا ہیڈ کوارٹر کہنا غلط نہ ہوگا،بلوچ لانگ مارچ شرکاء کی آمد پر پاکستانی گھونگی ،بہری میڈیا کو بھی ذرہ کچھ پل کے لیے کروٹ بدلنی پڑی۔نا چاہتے ہوئے بھی چند چینل نے آنکھیں موند ھ کر چند لمحے کے لیے مارچ کی خبر چلا ہی دی جسے صحافت نہیں مجبوری کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ دوسری طرف عالمی میڈیا کی توجہ مبذول کرانے میں لانگ مارچ کے شرکاء کامیاب ہوئے۔بی بی سی نے بھی بسم اللہ کر کے 28 مارچ سیربین کا پروگرام مسنگ پرسنز کے نام کا اعلان کیا اور تفصیلی انٹرویو کا شور مچایا مگر انٹرویو نہ تفصیلی تھا نہ سوالات آزاد میڈیا کے معیار پر تھے بلکہ خانہ پوری،بادشاہ وقت کا بھی خیال اور رہی سہی اپنی آزاد حیثیت کا جھنڈا بھی بلندکیا۔عین جس طرح بی بی سی نے لانگ مارچ کی طویل جہد کو ریاستی سوالات کی بوچھاڑ،کا ڈرامہ رچایا ۔اس سے بھی سخت حالات کا سامنا مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے اُٹھانا پڑا جب،قومی غدار،آبادکاروں کا قتل عام ،بیرونی ایجنٹ وغیرہ۔۔۔آفرین ماما قدیر مارچ کے شرکاء اور بانک فرزانہ پر جنکی ہمت خود انقلاب ہے۔جب ریاستی صحافی آئی ایس آئی کے سوالات کی بوجھاڑ کر رہے تھے تو بانک فرزانہ نے تاریخ بلوچ کو ہی اپنی باہمت الفاظ سے رقم بند کر دیا۔بانک کے چند الفاظ ’’تم لوگ واویلہ کر رہے ہو کہ بلوچ یہ ہیں وہ ہیں،بھئی میں پچھلے5 سال سے کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد مظاہرے ریلی آپکی سپریم کورٹ سب کے آگے چلاتی رہی کہ ہمارے پیاروں کو بازیاب کرو،کہاں تھا اس وقت تمہاری سرکار؟کہاں تھی تمہاری سپریم کورٹ؟کہاں تھا آپ کا پاکستان واسکی پارلیمنٹ؟اسکے ادارے اور آپ لوگ ؟آج تم لوگ ہماری پر امن مارچ کو تھوڑ مروڈ کر اپنی بات کر رہے ہو، یہ بچہ اسکے باپ کی مسخ لاش پھینکی گئی اس نے خود دیکھا،ماما نے اپنے بیٹے کا مسخ لاش اُٹھایاکہاں تھے آپ لوگ؟ آج آئے ہیں باتیں کرنے؟۔ہاں ہم اقوام متحدہ کے دفتر پرآئے ہیں اس ملک سے نہ کوئی امید تھی اور نہ رہے گی،آزادی ہمار ا حق ہے۔‘‘آفرین میرے قوم کی بیٹی،صد آفرین۔میرا ایمان ہے کہ بلوچ قوم کو اب کوئی بھی دیر تک غلام بنائے نہیں رکھ سکتا۔
جنوری آپریشن و مسخ لاشوں کے ریکارڈ بھی دیگر مہینوں سے کچھ کم نہ تھے بلکہ اس ماہ تو سنگینیوں کے سلسلوں میں شدت آئی،ڈیرہ بگٹی،نصیر آباد،کوہلو آپریشن کی زد میں رہے ۔کئی فرزندوں کو اغوا کیا گیا،کوئٹہ میں مری آبادی و بلوچ آبادیوں سے کئی فرزندوں کو اغوا کیا گیا اسی طرح کیچ سے بھی کئی کمسن نوجوانوں کو اغوا کیاگیا اور8 سالہ کمسن چاکر بلوچ کو ڈیتھ اسکواڈ نے اغوا کے بعد شہید کیا۔پنجگور میں فورسز نے حاجی شاہ میر بلوچ کے گھر پر حملہ کیا دو بیٹیوں سمیت 6 افراد شہید ہوئے جبکہ چادر چار دیواری کی پامالی پر بی ایل ایف کے سرمچاروں نے فورسز پر جوابی حملہ کیا26 گھنٹے کی لڑائی میں 30 سے زائد اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا۔ اسی طرح مستونگ میں مذہبی دہشتگروں کے خلاف آپریشن کے نام پر درجنوں بلوچ فرزندوں کو شہید کیا گیا جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ ہزارہ برادی کو مارنے والے لشکر جھنگوی آئی ایس آئی اور فوج کی گھود میں بیٹھے ہیں۔
مشکے میں فورسز نے آپریشن کے سلسلوں میں تیزی کو قائم رکھا تین سو افراد کو اُٹھا کر غائب کیا گیااور تین روز کے اندر سب کو نیم مردہ حالت میں واپس پھینک دیا ۔جس رفتار کے ساتھ قومی جہد آزادی اپنی منزل کی جانب عوام کی جڑیں مضبوط کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے اسی رفتار کے ساتھ ریاستی سنگینیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔جو یقیناًتلخ و سنگین ہی سہی مگر متوقع ہیں ان سب کو پسے رکھ کر اچانک قومی جہد میں ایک مخصوص گروہ یا چند افراد جنکی تعداد بظاہر درجن قریب ہے قومی جہد میں ایک عجیب کیفیت پیدا کرنے میں مگن ہیں۔جسکی شروعات پر اگر غور کیا جائے تو یو بی اے کی وجود سے ہی اور پھر تھوڑی مدت کے بعد یہ سلسلہ شروع کیا گیا۔جہاں بذریعہ اخبارات یو بی اے کو ریاستی پروپیکنڈہ اور اسکی آشیر باد قرار دیا گیا۔یکے بعد دیگرے کئی الزامات سرد و گرم اخبارات کی زینت بن گئے اور پھر سوشل میڈیا اور روزنامہ توار واضح فریق کے طور پر تا حال اپنا جانے کون سا کردار نبھا رہے ہیں۔ایک زمانے میں جب سب خوش منگل تھا روزنامہ توار علم و تربیت کے ساتھ واحد قومی ادارہ کے طور پر جانا جاتا تھا مگر پھر چند ساتھیوں کی شہادت اور دور اندیش ساتھیوں کی توار کی پالیسیوں پر اور دیگر مجبوریوں کی وجہ سے علیحدگی اور پھر افغانستان میں بیٹھے ساتھیوں کی ٹیک آور نے توار کو آج کس مقام پر اور قومی جہد کے حوالے سے اسکی نئی پالیسیوں کو لے کر اس کی تمام سابقہ جہد پر جیسے پانی پھیر دیا جا رہا ہے۔موضوع کافی وسیع اور یادیں بے شمار۔۔۔۔تجزیہ میں سال بھر کی صبر کے بعد چند باتوں پر غور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس لیے کہ آج کے حالات کو جس جانب مروڈا جا رہا ہے شاید اس پر خاموشی خود گناہ کبیرہ ہوگی۔الزامات و سرٹیفکٹ جیسے ساتھی دیتے رہے ہیں ان سب کی پروا کیے بغیر قومی جہد میں اس رخ کی جانب ایک ہلکی نظرکو ہم اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔کوشش کر رہے ہیں کہ موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے کہ انکی وجود کہاں سے پڑی ہے۔بی ایس او آزاد کی کونسل سیشن کے بعد اچانک ہی چند مدت کے اندر افغانستان و لندن میں مقیم دوستوں نے سوشل میڈیا میں منظر کشی کے ساتھ ایک نیا کھیل شروع کیا جو بظاہر ایک ہوا بھرے غبارے کے سوا کچھ بھی نہیں مگر ساتھیوں نے اس غبارے کی ایسی نقش کشی کرنے کی کوشش کی جیسے اس میں ہوا نہیں بلکہ وزنی خزانہ بھرا ہوا ہے۔اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سیشن کے بعد سوشل میڈیا میں بی این ایم،بی آر پی اور بی ایس او کی جانب توپیں کر لی گئیں ۔تنقید اور غور فکر کے نام پر ایک ننگے کھیل کا آغاز کردیا گیا جس میں ان ساتھیوں نے تنقید کی اینٹیں بجا دیں کہ کسی کے لیے عزت و ننگ کو بھی نہیں چھوڑا گیا اور بقول ان صاحب علم ساتھیوں کے یہ سب تحقیق،تنقید اور فکر کے حصہ ہیں اور تاحال یہ سلسلہ تحقیق و تنقید جاری ہے۔جب سیاسی تنظیموں کی خوب کچھائی کی کوشش جاری تھی تو پھر یو بی اے کے بعد اچانک بی ایل ایف اور بی آر اے بھی ان صاحب علم لوگوں کی غور فکر،تنقید و تحقیق کے ننگے پن سے نہ بچ سکے۔ جب عوامی توجہ صرف رہی تو قومی رہبروں سردار خیر بخش مری،ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ،براہمدغ بگٹی،بی این ایم کے چےئرمین بی ایس او کے چےئرمین و دیگر سیاسی ورکروں و رہنماؤں پر بھی غور فکر کے نئے باب روشن ہونے لگے صرف یہ نہیں بلکہ آج جب ایک انتہائی سخت دور میں جب ہمارے یہی ساتھی افغانستان اور چند دیگر مقامات پہ رہائش پذیر ہیں جن کا زمینی حقائق سے کھوسوں دور کوئی تعلق نہیں ہے گودی کریمہ و دیگر خواتین کو بھی نہیں بخشا اخلاقیات و تحقیق کا ایسا کھیل جس کے لیے ننگے پن کا لفظ بھی کمزور پڑتا ہے شاید تاریخ کے اورواق اس سے کوئی انصاف کر پائیں۔آج یہی بہنیں،بیٹیاں ،ماں اپنا سب کچھ دھاؤ پر لگا کر رات و دن اپنی سرزمین پر تگ و دو میں ہیں مگر وطن کی مٹی سے دور تربیت و علم کے نئی داعیوں نے انکو بھی نہیں بخشا ،کیا انقلاب تحقیق غور فکر ایک خیالی شے کا نام ہے؟یا وہ افراد یا تنظیمیں جو اپنی زمین پر موجود قومی جہد میں سرگرم ہیں انکی حقیقی جہد کا نام انقلاب ہے۔سوالات تو بہت ہیں اور باتیں بھی جو شاید ان دوستوں کو ناگوار گزریں۔بحث کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے آج تک یہ ساتھی اس بات کی وضاعت نہ کر سکے کہ کونسی وہی نازل ہوئی اور کونسے احکامات نازل ہوئے جو یہ سب کچھ جو آج غور فکر و تحقیق اور ڈوائیڈ اینڈ رول والی پالیسی انکو اپنانا پڑا۔ بی ایل اے کی تھوڑ پوڑ اور اور اس عظیم جماعت پر چوہدری پن کے اسباب اور وضاحت کے بجائے صرف گروہ بندی کو ہی انقلاب کا نام دینا کونسی علم و زانت ہے اور اگر کوئی لبیک نہیں کہتا تو وہ غور فکر و تحقیق کے ننگے پن سے نہیں بچ سکتا آج صورت حال یہاں تک آ پہنچی ہے۔قابل غور طلب بات یہ ہے کہ یہ سب واجہ حیر بیار مری صاحب کے نام پر شروع ہوا حالات کو اتنا تنگ کرنے کی کوشش کہ تنظیم یا جماعتوں کی جداگانہ پالیسیوں اور آئین کو بھی اپنے تابع کر نے کے چکر میں مسخ کیا گیااور مجبور کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ فریق بنیں اور گروہ بندی ہو،جہاں تنظیموں پر دباؤ رہا عین اسی طرح سنگر پبلی کیشنز بھی جو تمام ریاستی حربوں اور سختیوں کے باوجود اپنی جہد کے میدان میں ثابت قدم رہنے کی جستجو میں رہا اس پر بھی ہمارے دوستوں نے گروہ بندی کی پوری زور لگائی،افغان نشین و دیگر دوستوں نے ریاست کے سختیوں میں معاون کا کردادا کیا اور کوشش کی کہ انکی امامت قبول کر کے انکے سروں پر لبیک کیا جائے ورنہ گرو جیسے سرٹیفیکٹ جیب میں انکے حاضر رہے۔مگر گمنامی میں سنگر ٹیم نے جو سالوں سے جہد کو جاری رکھا ہے ریاستی و دوستوں کی تمام جبر کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے اپنی جہد کو جاری رکھا ان تحقیق اور غور فکر کے نام نہاد لچر پن سے نہ مرغوب ہوا اور نہ کبھی ہو گا۔ادارہ اپنے کام اور عمل سے آج قوم کے سامنے ہے اس لیے ہمیں نہ کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے اور نہ ہی ادارہ کسی ایوارڈ،سرٹیفکیٹ و کسی کی جی حضوری کے لیے میدان عمل میں موجود ہے، اور قومی ادارہ کے طور پر اپنا کام جاری رکھے گی۔
پاکستان کی مقبوضہ بلوچستان میں بھاگ دوڑ کے نئے گدھوں میں اقتدار مال و آسائشوں کو لے کر ٹول مٹول حکومت کی وجود سے پہلے ہی بندر بانٹ کی شکل میں شروع ہو چکے تھے۔جیسے کر کے ان آسائش پر حاویت جاگیرداروں،نام نہادمڈل کلاس ریاستی قوم پرستوں و سرمایہ داروں نے لے دے کر معاملات کو وقتی طور پر آئی ایس آئی کی آشیر باد سے بندر بانٹ کے ذریعے سرکاری کرسی مالک کی تشریف کے لیے تیار کیا۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ بے نام اختیار و اندرونی و بیرونی امدادی مال و زر کی بندر بانٹ سے بیلنس کا فقدان شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔اس لوٹ مار کی بازار میں جہاں حاصل اینڈ کمپنی سالوں سے انتظار میں تھے،موقع ملتے ہی لوٹ کھسوٹ میں بازی لیتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ فوج و ایجنسیوں کے پرانے و روز اول کے وفادار زہری اینڈ دیگر وفادار give more کے اپنے پرانے سلوگن کے ساتھ اپنی دباؤ کو برقرار رکھنے کے لیے دباؤ بڑھانے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ دوسری جانب مشرف کی اقتدار کے ساتھ فوج و خفیہ اداروں کے ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ شفیق مینگل بھی ریاست کے موجود وفاداروں پہ دباؤ بڑھانے کے لیے پس پردہ فوج پر دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی پر گامزن ہیں۔جبکہ اختر مینگل اپنی علاقائی سرداری طاقت کو بچانے کے لیے سرکار کی بخل میں غوطہ خوری کی بھر پور کوششوں میں مصروف ہے۔ اجتماعی قبروں کی برآمدگی جس میں سینکڑوں لاپتہ بلوچ فرزندوں کی لاشیں برآمد ہوئیں تو شفیق مینگل اسکی ٹیم پر داخلی دباؤ بڑھتا گیا جس کے پیش نظر اس سرکاری گروپ نے خود کو اکیلا پاکر فوج و ا ختر مینگل کے نئے تعلقات کو لے کر اجتماعی قبروں کی دریافت اور اختر و فوج کے خلاف کئی بیانات داغے جس سے ایک بات دنیا کے سامنے واضح ہو گئی کہ لاپتہ فرزندوں کی اجتماعی قبریں لاشوں کا دریافت خفیہ اداروں،فوج و انکی ڈیتھ اسکواڈ وں کی مشترکہ کاروائیاں و حکمت عملیاں تھیں اور سلسلہ نئی حکمت عملیوں کے تحت جاری ہے۔فوج کے ایک طبقے کا اختر مینگل کی جانب جھکاؤ کو شفیق مینگل نے اپنے بیانات اور بلوچ فرزندوں کی شہادتوں کو فوج کی کارستانی قرار دے کر اپنے اختلاافات کا پس پردہ واضح اظہار کیا(ہون ے کہ پہ حق ءَ رچیت ھاکے تہا گار نہ بیت)
ریاستی ڈیتھ اسکواڈ و پارلیمانی گرہوں میں بندر بانٹ کو لے کر اختلافات سے بلوچ قوم پر جاری جبر میں انکی حصہ داری کے پردے فاش ہورہے ہیں۔مالک،حاصل اینڈ کمپنی کی فوج ،ایجنسیوں پر اعتماد میں بحالی اور اپنی کرسی بچانے کے عمل میں کوشش تیز تر ہوتے جا رہے ہیں جسکا اند ازہ حاصل بزنجو کے ہر ہفتے بیانات سے صاف دکھائی دیتا ہے ۔جناب فرماتے ہیں کہ مزاحمت کاروں سے بات چیت کے لیے پر امید ہیں جبکہ یہ بات تو قومی جہد آزادی کے اس فیز کے شروع سے واضح ہے کہ آزادی پسند تمام سیاسی و مزاحمتی تنظیمیں بلوچ سرزمین کی آزادی کے علاوہ کسی بھی مزاکراتی ایجنڈہ کو نہیں مانتے جبکہ حاصل ایند کمپنی اپنی سرکار کو بچانے ،وسائل کی لوٹ مار میں روز نت نئے جھوٹ کا سہارہ لے کر بھیک پر گزارہ کرنے والی پاکستان کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور اپنی کرسی کے بچاؤ کے لیے بلوچ نسل کشی کے ساتھ پاکستانی وفاق و فوج کو سبز باغ ددکھانے کی پالیسیوں میں مصروف عمل ہیں۔
فروری کے مہینے میں ریاستی جبر حسب معمول تیزی سے جاری رہی۔آئی ایس آئی کے خاص نمائندے اور وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بھی اس گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ڈیرہ بگٹی کے کئی علاقوں میں ریاستی بربریت کے تسلسل میں بلوچ اپنی زمین پر بے ننگ ہے۔ فروری میں متعدد بگٹی بلوچوں کو شہید درجنوں گھروں کو جلانے کے ساتھ کئی چوٹے دیہات صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے۔ تمام آپریشن فرزندوں کی شہادتیں براہ راست وزیر داخلہ کے سائے جاری ر ہیں۔ کوہستان مری بھی انکی شر سے نہ بچ سکا ۔کئی فرزندوں کو اغوا کیا گیاجبکہ مکران کے کئی علاقوں بلکہ یہ کہنا مغالطہ نہ ہو گا کہ پور ا مکران ریاستی ظلم و جبر سے گونج رہا ہے۔ مشکے آواران جو جہد آزادی کے اس فیصلہ کن دور میں ریاستی فوج کا اہم ٹارگٹ رہے ہیں یکے بعد دیگرے آبادیوں پر کئی حملے کیے گئے۔آزادی پسند رہنما اختر ندیم بلوچ کے گھر و قصبے پر کئی بار فوج نے اپنی فرعونیت سے تباہی مچانے و لوگوں کوہراساں کرنے کی کوشش کی اور لوٹ مار جاری رکھا۔جھاؤ جو بلوچ نیشنل موؤمنٹ کی 2010ء میں کونسل سیشن کے بعدانقلاب ہی انقلاب بنتا گیا اور اب جھاؤ کی طویل و عریض سرزمین جس نے انقلاب کا ایسا لبادہ اوڑھا کہ اب بچہ بچہ آزاد بلوچستان کا گھن گاتا ہے۔قابض ریاستی فورسز نے فروری کو جھاؤ کے کئی علاقوں میں فضائی اور زمینی فوج سے حملہ کیا۔کھوڑو فوج نے اس لیے آبادی پر حملہ کے کیا کہ وہاں لوگ پاکستان سے نفرت اور آزادی کے خواہاں ہیں انکے بچے ماں ’’چکیں بلوچانی‘‘ پڑھتے ہیں۔نوجوانوں سے لے کر بزرگ انقلابی لٹریچرپڑھتے ہیں ،بوڑھی مائیں اور خواتین بچوں کو آزادی کے لیے جدوجہد کا درس دیتی ہیں۔خواتین گھروں میں شہیدوں اور قومی آزادی کے رہبروں کامریڈوں کی تصاویر رکھتی ہیں اور گھروں پر آزاد بلوچستان کا ترنگہ لہراتی ہیں۔حملہ تو ہونا ہی تھا،جھاؤ کے کئی دیہاتوں پر فوج نے حملہ کر کے درجنوں گھروں کو جلا دیا۔واجہ ابراہیم بلوچ کے پورے میتگ کو لوٹ مار کے بعد جلایا گیا اور اس سے پہلے فضائی بمباری سے 5 فرزندوں کو بزرگ ماسٹر نور محمد کے ساتھ شہید کیا گیا۔ شہید ہونے والے فرزند ،نواز ولد نودل،تاج ولدحاجی،غلام جان ولد نوار،طالب ولد ملنگ، پیشے سے مزدور،طلباء مال مویشی اور دور دراز علاقوں میں مزدوری کرنے والے بلوچ فرزندتھے جنہیں ایٹمی پاور نے جنگی ہیلی کاپٹر کی شیلنگ سے شہید کر کے بی ایل ایف کے سرمچار قرار دیئے۔اب اہل علاقہ تواچھی طرح جانتا ہے یہ معصوم کون تھے۔تیس سے زائد فرزندوں کو اغوا کیا گیا جن میں ایک زخمی بچہ بھی شامل ہے۔پاکستانی فوج کے ترجمان نے اغوا ہونے والے معصوم بلوچ فرزندوں کو دہشت گرد اور سرمچار قرار دیا جبکہ یہ بھی کہا ان میں سے ایک بی ایل ایف کا اہم کمانڈر ہے۔ معصوم مزدور،طلباء،ٹیچر،شاعروں کو اغوا کرنے والی فوج کی اس شکست اور درندگی نما بے چارگی پر ہنسی آتی ہے۔آج پوری آب و تاب کے ساتھ بلوچ قوم کے فرزندوں کو اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ بلوچ قوم کے دلوں میں خوف پیدا کیا جا سکے،مگر آج قومی جہد آزادی خوف سے کھوسوں دور اپنی منزل کو چھونے والی ہے تو اس طرح کے ریاستی ہتھکنڈے بے سود ہیں۔ہاں البتہ انکے مقامی دلال اور مقامی افسر ضرور اس طرح کے جھوٹے بیانات سے اپنی پوزیشن مستحکم اور آسائشوں و ترقی میں اضافہ کر رہے ہیں یعنی اب معصوم قوم کے فرزندوں کی لہو سے قابض فوج و اسکے دلالوں کے بچے مزید آسائش حاصل کر رہے ہیں،اس طرح کے جھوٹے بیانات صرف اپنی شکست زدہ فوج کے حوصلوں کو بڑھانے اور اپنی ترقی کے لیے راہ ہموار کرنے کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتے۔جھاؤ آپریشن میں جہاں ننے بچوں و مزدوروں کو اغوا کیا گیا وہیں پر بلوچی زبان کے شاعر قلمکار حاصل حسرت کو بھی فوج نے اغوا کیا۔حسرت بلوچ سب سے بڑا مجرم اس لیے ہے کہ وہ بلوچی زبان کا شاعر ہے،اپنی قومی زبان میں لگتا ہے اور اسکا گناہ یہ ہے کہ وہ مقبوضہ بلوچ سرزمین کاوارث ہے۔پھر ایسے میں اغوا گرفتاری،مسخ لاشیں تو لازمی ہیں۔ایک ایسی ریاست جو عطا شاد ڈگری کالج پر ہلہ بول کر اسی شاعر کی کتابوں کو ضبط کر کے انھیں باغی مواد قرار دیتی ہے اور کتابوں کو پابند سلال کیا جاتا ہے جسکے نام پر اسی ریاست نے کالج کو منصوب کیا ہے اب اس بے وقوف فوج و اسکے دلالوں پر ہنسی کے علاوہ کوئی شے بنتی نہیں۔سامراجی فوج سے بمباری،قتل و غارت،شعراء و دیگر مکاتب فکر کو گرفتار و اغوا کرنے کے بعد انھیں سرمچار قرار دے کر کھلے عام شہید کرنے کے علاوہ کوئی اور توقع رکھی بھی نہیں جا سکتی۔ دوران آپریشن شہید علی جان کے آخری آرام گاہ کو بھی مسمار کرنے کے بعد بوڑھی والدہ پر تشدد اور گھر جلا دئیے گئے۔ڈاکٹر مالک و اسکی فوج شہید فرزند کے والدہ پر تشدد کر کے اسکے پوتے پوتیوں کو پاکستانی بنا نا چاہتے ہیں شاید یہ لوگ تاریخ بلوچ سے نا واقف ہیں۔ ہاں یہ چنگاری جو آج شہیدوں کے قبروں ،انکی گھروں کو مسمار و جلانے کے ساتھ لاوا بن رہی ہے۔اس ریاست کو زمین بوس کرکے آزاد بلوچستان کے ترنگے کو ضرور آسمان پر لہرائے گی۔
فروری کے آخر میں کیچ میں فورسز نے مقامی دلالوں کے ساتھ مل کر بلوچ سرمچاروں پر حملے کیے تربت چاہ سر میں بی آر اے کے سرمچاروں کو گھیر کر فورسز نے ہتھیار ڈالنے کو کہا مگر عاشقانِ سرزمین نے شہادت کو ترجیح دیتے ہوئے کئی گھنٹوں تک فورسز کے ساتھ دو بدو لڑائی لڑی ۔گھمسان کی لڑائی کے بعد ۵ سرمچاروں نے ونگ کمانڈر کے ساتھ جام شہادت نوش کی،مگر انقلابی فکر نظریہ کو دشمن کے آگے جھکنے نہیں دیا۔شہیدعقیل،شہید نوروز،شہیدجہانزیب،شہیدموسیٰ،شہید جنید کو بی آر پی کے ترجمان نے سلامی اور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دستارِ وطن کا خطاب دیا۔ اس سے کچھ روز قبل بسیمہ میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ لڑائی میں لشکر بلوچستان کے 7 سرمچار خاک وطن ہوئے ۔دوران لڑائی فرزندان سرزمین نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
شہید مجید بلوچ،شہیدرزاق ،بلوچ،شہید اللہ بخش
بلوچ،شہیداکبربلوچ،شہیدسروربلوچ،شہیدعبدالحمیدبلوچ،شہیدعلی جان،بلوچ، یقیناًشہیدوں کی قربانیاں بلوچ قومی آزادی کا روشن باب رئینگے۔
سرمچاروں نے جس انقلابی بندوق کو کندھے پر اُٹھا کر سرزمین سے عہد ووفا کا سوگند لیا۔اس سوگند کو سرمچاروں نے اپنی لہو سے وفا کر دیا۔میدان لڑائی میں جام شہادت ایک عظیم رتبہ ہے حق و سچائی،اپنی قومی دفاع ،مادریں وطن کے لیے جدوجہد کرنا،لڑنا خود ایک عظیم درجہ ہے قومی بقا ء کی جدوجہد میں دشمن کو شکست فاش دینا اور مادریں سرزمین میں خاک ہونا اور وطن کی آغوش میں لپٹ کر اسے ابدی بھوسہ دینا خود عظمت کی سربلندی ہے۔عاشق وطن کے لئے شہادت نہ صرف عظیم رتبہ ہے بلکہ قوم کی آنے والی نسلوں اور جہد کاروں کے لیے فخر ،حوصلہ اور منزل کے تعین کا نظریہ بن جاتا ہے۔ شہید کی لہو اُس روشنائی کی طرح جہد کاروں کی رہنمائی کرتی ہے جو اندھیرے میں انسان کو راستہ دکھانے کا وسیلہ ہوتا ہے۔مارچ کا مہینہ بھی گزشتہ مہینوں کی طرح سرزمین بلوچ پر فرزندوں کی لہو کی خوشبو کو پھیلاتا ہوا اور سامراج کی بربریت کو تاریخ میں رقم کرتاہوا شروع ہوا۔وہیں پر دنیا کی طویل لانگ مارچ شرکاء نے اسلام آباد میں سامراج کے سینے پر آزاد بلوچستان کے نعرے کو بلند کرنے کے ساتھ بلوچ قوم کی تکالیف،ریاستی جبرکو پوری دنیا کی میڈیا،انسانی حقوق کی تنظیموں کو پیش کر کے ریاستی بربریت کا اصل چہرہ دستاویزی شکل میں پیش کیا۔بلا کی ہمت اور خود اعتمادی بانک فرزانہ بلوچ کے الفاظ میں ،عظیم بلوچ بیٹی کا ایک ایک لفظ تیر کی طرح چھیرتا ہوا سامراجی صحافیوں کو پچھا ڑتا گیا۔ماما قدیر بلوچ نے تو تاریخ کو ہی از سرے نو قلم بند کر دیا۔کراچی کے ایک صحافی سے مارچ کے بارے میں بات ہوئی تو موصوف نے کہا کہ یار واقعی انقلابی جہد خود ایک تربیت ہے درس گاہ ہے۔ بچے علی حیدر کو لیں،ریاستی جبر نے اس جہد نے وقت سے پہلے اسے بالغ بنا دیا،پھر مارچ کے ساتھ سفر نے اس کے الفاظ میں جان بخش دی اب دیکھیں اس بچے کو عمر کے لحاظ سے ابھی نابالغ ہے مگر سوچ فکر کسی بڑے سے بڑے تعلیم یافتہ دانشور سے بھی بلند ہے،یہی ہے بلوچ کے جہد کی کامیابی۔واقعی اس انقلابی جہد نے جہاں بلوچ قوم کو ایک قوم بنانے کے عمل میں بہترین راستہ اختیار کیا تو وہیں بلوچ قوم کی تربیت بھی کرتی آ رہی ہے۔
بلوچ فرزندوں کی لانگ مارچ نے قوم کے ساتھ قابض ریاست میں آباد اقوام اور دنیا کو آگاہی دی۔مارچ کے مہینے میں ریاستی فورسز کی اپنی پارلیمنٹیرین کے ساتھ بلوچ قوم پر اجتماعی جبر یعنی آبادیوں پر آپریشن میں قدرے اضافہ ہوا ڈیرہ بگٹی میں آپریشن میں اتنی شدت لائی گئی کہ پورے کے پورے قصبے،دیہاتوں کو بمباری کے بعد جلا کر صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا ۔کہتے ہیں کہ تبدیلی عام آدمی لاتا ہے اس جبر کی تاریخ میں بھی عام آدمی نے جہد کو تنظیم کے خوبصورت دستے میں سجا کر قوم کو آگاہی بخشی اور مکران جو اس جہد کے فیز میں پیش پیش رہافوج و اسکی نام نہاد پارلیمنٹیرین نے بھی خون کی ہولی خوب کھیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔پنجگور سے تربت ،گوادر سے سے بلوچ ساحل کی آخری سرحد و دیگر مکمل بلوچستان آپریشن کی زد میں رہا۔ شاپک کے پورے گاؤں کو لوٹ مار کے بعد کئی گھروں کو جلایا گیا ،درجنوں فرزنداغوا کیے گئے۔مگر انقلاب کو تشدد سے کبھی بھی ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔بلکہ قابض و سامراج کی ہر گولی،تشدد اسے صحت بخشتی ہے جسکی واضح مثال بی این ایم کی جانب سے ۹ مارچ کو وہ عظیم الشان جلسہ تھا جس میں اندازے کے مطابق ہزاروں کے قریب لوگوں جن میں خواتین،بچے،بوڑھے ،نوجوان شامل تھے شرکت کرتے ہوئے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا کر دشمن ریاست پر واضح کر دیا کہ جتنی لاشیں گرانی ہیں گرا لو، مگر اب آزاد بلوچستان کو دنیا کے نقشے میں نمودار ہونے سے کوئی بھی نہیں روکھ سکتا۔شہدائے بالگتر کی یاد میں یہ جلسہ نوید ہے خوشحال کل کی۔ڈیرہ بگٹی مکران مارچ کے ماہ میں خاص ریاستی فورسز کی بربریت کا نشانہ رہا جہاں فورسز نے مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے بلوچ سول آبادیوں کو خطرناک انداز میں نشانہ بنایا۔پیدارک میں فورسز نے بی این ایم کے شہید رہنما واجہ نصیر کمالان کے گھر پر بمباری کے ساتھ انکے رشتہ داروں اور درمکول پر شدید بمباری کی جس سے شہید رہنما کے فرزند داماد و بھانجے سمیت دو فرزند شہید ہوئے اسی دوران بی ایل ایف کے سرمچاروں اسلام بلوچ اور سمیر نے قابض ریاستی فورسز کا انتہائی بہادری سے کئی گھنٹے تک مقابلہ کر کے دشمن ریاست کے کئی اہلکاروں کو ہلاک و زخمی کیا۔جھڑپ میں بی ایل ایف کے دونوں جانباز سرمچار شہید ہوئے۔ قومی تنظیم کے ترجمان گہرام بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں شہدائے پیدارک اور قومی سرمچاروں کو شہادت پر سرخ سلام و خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انکی قربانی کو قوم کے لیے مشعل راہ قرار دیا۔فورسز کی بمباری سے 5بلوچ سرزمین کے وارث شہید ہوئے ۔شہید حاجی کمال کہدائی،مراد حاصل،اسلام،سمیرنصیر کمالان،اکرام بلوچ جبکہ دو خواتین سمیت ۶ فرزند زخمی ہوئے اور کئی افراد کو فورسز نے اغوا کیا۔مارچ کے مہینے میں ریاستی فورسز نے22 بلوچ فرزندوں کو شہیدکیاجبکہ 46 فرزندوں کو فورسز نے اغوا کیا۔ لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے اس لیے کہ یہ تعداد اخبارات سے لیے گئے ہیں اور مقبوضہ بلوچستان کی وسیع و عریض سرزمین پر درجنوں واقعات اخبارات تک پہنچ نہیں پاتے۔پاکستانی خفیہ اداروں نے مقبوضہ بلوچستان کے علاوہ شروع سے ہی بلوچ پناہ گزینوں کو بھی نشانہ بنایا اور ایک بار پھر اسپین بولدگ افغانستان میں بگٹی مہاجرین کیمپ پر آئی ایس آئی نے حملہ کیا اور بی آر پی کے رہنما کے فرزند اس دھماکہ میں زخمی ہوئے اس سے پہلے بھی انکے گھر پر حملہ اور فرزندوں کو شہید کیا گیا۔
اپریل کا ماہ بلوچ تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے، اسی ماہ شہدائے مرگاپ کا دل لرزاں دینے والا واقعہ تاریخ رقم ہو کر اس ماہ کو سرخ کرنے کے ساتھ بلوچ تاریخ میں اسے اہم مقام دے گیا۔چئیرمین غلام محمد بلوچ،لالہ منیر بلوچ،شیرمحمد بلوچ کی شہادت کے ساتھ بلوچ نسل کشی کی ایک ایسے سلسلے کا آغاز کیا گیا جو طلوع وغروب ہوتی سورج کے ساتھ بلوچ لہو سے رنگتا گیا۔شہدائے مرگاپ بلوچ لیڈورں کی شہادت لہو نے قوم کی قومی پرورش میں اہم کردار ادا کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آزادی کا نعرہ بلوچستان کے لیے لازم و ملزوم ہونے کے ساتھ قابض پاکستان کا نام و نشان بلوچ کے لیے ایک گالی بن گیا۔2014 ء کے اپریل کا ماہ بے شمار پاکستانی سیاسی اُتار چڑھاؤ اور بلوچ فرزندوں کی نسل کشی و اغوا کے ساتھ جاری ہے۔
اپریل کے مہینے میں پورا مقبوضہ بلوچستان ریاستی جبر کا شکار رہا،3 اپریل پیدارک ریاستی فورسز او انکی ڈیتھ ا

Комментариев нет:

Отправить комментарий