Powered By Blogger

четверг, 30 апреля 2015 г.

ھزار گنجی بس اڈہ، اصل مسئلہ کیا ہے۔۔؟



گذشتہ کئی دنوں سے ہم آپ دیکھ رہے ہیں کہ کوئٹہ سے بس اڈہ کو ھزارگنجی منتقل کرنے پر ایک تنازعہ سا اٹھ کھڑی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک صاحب کی حکومت گونا گوں کی سی کیفیت میں ہے وہ چاہتے ہوئے بھی کوئٹہ کے بس اڈہ کو ھزار گنجی منتقل نہیں کر پا رہی ہے ایک طرف وہ پارٹی اور قوتیں ہیں جو بس اڈہ کو کوئٹہ سے نکال کر ھزارگنجی میں منتقل کرنا چاہتے ہیں دوسری طرف وہ قوتیں ہیں جو اس عمل کی مخالفت کر رہے ہیں یعنی ڈاکٹر عبدالمالک صاحب دو پھاٹوں کے بیج پِس یا پھس گئے ہیں۔ مگرایسا کیوں ہے۔۔۔۔؟ آئیے اس مسئلے کی جڑ کا کھوج لگاتے ہیں۔ یہ 1996 ؁ کی کوئی ڈیدھ بجے دوپہر کا وقت ہے پانچ بہت بڑے بیورو کریٹ وزیر اعلیٰ ھاؤس آتے ہیں اور کوئی ایک گھنٹے بعد وہ ہنسی خوشی وہاں سے نکل جاتے ہیں ۔اصل میں وہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کو کوئٹہ کی بڑھتی ہوئی آبادی اور گنجان ٹریفک کی مصیبتوں سے نجات پانے کا ایک نسخہ کے بارے میں بریف کرتے ہوئے کوئٹہ کے بس اڈہ کو ھزار گنجی منتقل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔اور پھر سیاسی وزیر اعلیٰ جن کا زندگی میں پہلی بار براہ راست شاطر بیورو کرٹوں سے واسطہ پڑا ہے وہ بیوروکریسی کی اندر کچھ باہر کچھ سی چالوں کو نہیں سمجھ پاتے اور اُن کو ’’ھان ‘‘ کہ دیتے ہیں۔دوسرے دن تمام کوئٹہ میں کوئٹہ بس اڈہ کی ھزار گنجی منتقلی کی خبر گشت کرنے لگتی ہے۔نجانے بیورو کریسی سے چھوک ہو گئی تھی کہ وزیر اعلیٰ کے قریبی ذرائع سے کہ بات کا بتنگھڑ بن چکا تھا۔ شام کے کوئی چھ بجے ہیں وزیر اعلیٰ بلوچستان کو اطلاع ملتی ہے کہ کچھ بلوچ قبائلی متعبریں اُن سے ملنے آئے ہیں۔اور پھر وزیر اعلیٰ کے سریاب والی گھر میں ان قبائلیوں کو شرف ملاقات بخش دی جاتی ہے کوئی دو گھنٹے یہ ملاقات بر قرار رہتی ہے جس کے بعد یہ قبائلی بھی ہنسے ہوئے وزیر اعلیٰ کے گھر سے نکل پڑتے ہیں۔اصل میں ان بلوچ قبائلیوں نے وزیراعلیٰ کو صحیح صورت حال سے آگاہ کیا تھا انہوں نے بتایا تھا کہ ھزار گنجی کی تمام تر زمینیں یوں تو بلوچ قبائل کے ہیں مگر بلوچستان کے سب سے بڑے’’لینڈ مافیا‘‘ بلوچستان ریونیو بورڈ نے کس طرح ان کی پدری زمینات کو بڑی شاطرانہ انداز سے پہلے سرکاری اراضیات میں بدل دیں اور بعد ازاں اپنے نام الاٹ کروائے۔اور اب یہی (اُس وقت کی )بیورو کریسی یہ چاہتی ہے کہ کوئٹہ کا بس اڈہ ھزار گنجی منتقل ہو تاکہ ان کی الاٹ شدہ اراضیات کی قیمت بڑھ جائے اور وہ راتوں رات کروڑ پتی سے ارب پتی بن جائیں۔انہوں نے مذید حقائق کو سامنے لاتے ہوئے کہا تھا کہ اس عمل سے ایک تو بلوچوں کی اراضیات اُن سے چھینی جائیں گی اور دوسری طرف افغان مہاجرین جن کو وفاقی اور بلوچستان بیوروکریسی کی مکمل حمایت حاصل ہے کو ھزار گنجی میں آباد کیا جائے گا جس سے دوسرے بلوچ علاقوں کی طرح یہاں پر بھی غیر بلوچوں کی آبادکاری کی جائے گی اور بلوچ اور بلوچی،براھوئی زبانوں کو ختم کر دینے کا اہتمام کیا جائے گا۔ان ہی قبائلیوں نے وزیر اعلیٰ کو مشورہ دیا کہ اگر کوئٹہ کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کم کرنا چاہتے ہیں تو وہ کوئٹہ سے افغان مہاجرین کا انخراج کر دیں جس سے ایک طرف آبادی اعتدال پر آجائے گی دوسری طرف ٹریفک کا رش کم ہوجائے گا جبکہ سب سے اہم بات یہ کہ کوئٹہ سے غیرقانونی اسلحہ اور منشیات کا بھی خاتمہ ہو جائے گا یا پھران میں خاطر خواہ کمی آجائیگی۔ وزیر اعلیٰ صاحب نے ان قبائلیوں کو بھی وعدہ دیا کہ وہ اپنے دور حکومت میں کوئٹہ بس اڈہ کو ھزار گنجی منتقل ہونے نہیں دے گا۔اس وعدہ کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ نے اپنے پہلے وعدہ جو بیورو کریٹس سے کی گئی تھی ،منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ یوں تو تمام قارئین کرام اس بات سے آگاہی رکھتے ہیں کہ بلوچستان کے چھپے چھپے میں افغان مہاجرین کو ایک منصوبے کے تحت لاکر بلوچ آبادیوں میں آباد کر دیا گیا ہے تاکہ بوقت ضرورت ان سے کسی بھی قسم کی خدمات لیا جا سکے۔اگر کچھ اور نہیں تو بلوچ اکثریتی علاقوں کو اقلیتی علاقوں میں تبدیل کیا جا سکے اس لئے وفاق کے اس بلوچ دشمن منصوبے کے سامنے(اُس وقت کے) وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ایک نہ چلی مگر انہوں نے کوئٹہ بس اڈہ کا ھزار گنجی انتقال کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔جس سے جاننے والے جانتے ہیں کہ اپنی بریفنگ پر نہ آنے والے وزیر اعلیٰ کے خلاف بلوچستان بیوروکریسی نے ایک اور منصوبہ بنایا۔۔ان کی حکومت کو چلنے نہ دینے کا۔۔۔ اور پھر ہم سب سے دیکھا کہ بلوچستان حکومت میں وزیر اعلیٰ کے احکامات ردی کی ٹھوکری میں پڑے ہوئے ملنے لگے حتیٰ کہ میاں نواز شریف کو وزیر اعلیٰ کی استحقاق پر رحم آیا اور انہوں نے اس کمزور اور احکامات سے عاری وزیر اعلیٰ کی نہ صرف حکومت ختم کردی بلکہ ان کی پارٹی کو بھی دولخت کر دیا تاکہ نہ رہے بھانس نہ بجے بھانسری۔ اس کے بعد عین ممکن ہے کہ اُن بیورو کریٹس جن کی اراضیات ھزار گنجی میں تھیں کو موقع نہ ملا ہو یا وہ اپنی اپنی ملازمتوں سے ریٹائرڈ ہو چکے ہوں یا اُن کی بات نہ چلتی ہو کہ وہ کئی سالوں خاموش رہے۔مگر اب جبکہ ڈاکٹر عبدالمالک صاحب کی نحیف اور کمزور سی حکومت جو اُن ہی بیوروکریٹ کے دوستوں اور ان کی حمایتیوں کی طفیل سے چل رہی ہے اور ان کے ھر احکامات پر بھیگی بلی بن کر کھمبا نوچتی رہتی ہے جس سے ان بیوروکریٹس کو ایک بار پھر موقع ہاتھ لگا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے حکومت کی ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بار پھر اپنی اراضیات کو بھاری قیمتوں پر فروخت کرنے کا اہتمام کریں۔ اس لئے ایک بار کوئٹہ سے کئی کلومیٹر دور ھزارگنجی میں کوئٹہ بس اڈہ کو منتقل کا منصوبہ بنایا گیاجہاں نہ صرف کسی بس اڈہ کے لئے کوئی سہولیات میسر ہیں بلکہ مسافروں کو بھی یہ منتقلی بہت بھاری پڑے گی۔ وہ ایک کرایے ،مکران،سندھ(بشمول کراچی) اور پنجاب(بشمول پنجاب کے قابض بلوچ علاقوں کے) کا دیں اور پھر دوسرا کرایہ ھزارگنجی سے کوئٹہ شہر کا دیں۔ اگر ڈاکٹر عبدلمالک نے ان شاطر بیوروکریٹس کی چالوں اور ان کے حمایتی پارٹیوں کی سفارشوں تلے آکر ایسا عمل کیا تو ان کو یاد رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے بلوچ علاقے کو افغان مہاجرین کے نہ صرف حوالے کر رہے ہیں بلکہ اپنی پارٹی کا جنازہ بھی اس بلوچ علاقے سے نکال رہے ہیں۔

среда, 29 апреля 2015 г.

بلوچ تحریک آزادی اور ریاستی مذہبی انتہا پسندی 


مقبوضہ بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں کئی ہزار سالوں سے کئی مذہبی فرقے پر امن اور بھائی چارے کے ساتھ آباد ہیں اِن میں قابل ذکر سنی اورذکری فرقے اور کچھ ہندو، مسیحی اور دیگرمسالک و مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہی۔اگر انسانی یا مذہبی تاریخ میں دیکھاجائے تو انسانی معاشرے میں مذہب کا ایک انتہائی اہم مقام رہاہے کہیں اسے نجات دہندہ کے طورپر مانا گیا ہے تو کہیں کمزور حریف کے گردن کو کاٹنے کیلئے اسے ااستعمال کیا گیا ہے ۔تاریخ ایسے ہزاروں خون آلود کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ مذہب ایک ایسا ہتھیارہے کہ سادہ لوح لوگوں کو جزباتی کرکے اپنے من پسندمقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہوگیا ایک طرف اشتراکیت تو دوسری طرف جاگیردار اشرافیہ۔۔۔۔۔۔ جب روس اپنے سوشل ازم نظریہ کے ساتھ اس خطے میں موجود تھا اور دونوں طاقتوں کے درمیان سرد جنگ چل رہاتھا اور سویت بحرہِ بلوچ تک پہنچنے کے قریب تھا تو یہ بات دوسری طاقت یعنی سامراجی اشرافیہ اور اس کے گروہ کوگوارا نہیں ہوا اور اس حوالے سے انہوں نے سعودی عرب سے مل کر پاکستان کے کٹر پن توہم پرست جرائم پیشہ خفیہ اداروں کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا۔ریاست پاکستان سے ملکر اپنے مقاصد کی تکمیل کی کوشش شروع کی اور مذہب کو تلوار بناکر سویت یونین کے سرپرمارنے کا فیصلہ کیاگیا اور جہادی المعروف مجاہدین کی تشکیل کی گئی اس میں پاکستان کے کے خفیہ اداروں نے سب سے اہم کردار اداکیا۔ پیسے اور ٹریننگ کے بوجھ امریکہ اور سعودی نے برداشت کئے۔ ایک اندازہ کے مطابق 1992تک امریکہ نے مجاہدین میں پانچ ارب ڈالر تقسیم کئے ۔ CIA1986 کے ڈائریکٹر ولیم کسی نے ISIکے ایک فیصلہ کی تائید کی جوکہ مذہبی انتہاپسندی کا پلان تھا اور ISI نے اپنے کرایہ کے مجاہدین کو افغانستان بھیج کر سیکولر افغانستان کو مذہبی آتش فشان بناکر امنِ افغان کو تباہ و بربادکردیا۔
اور یہ ایک الگ بحث ہے کہ امریکہ اب خودآئی ایس آئی کی دوپوستی کا شکارہے پاکستان کے خفیہ اداروں اور فسادیوں کے تعلقات کے بارے میں دنیا کے کئی صحافیوں نے پردہ چاک کیاہے لحاظہ بادشاہ سلامت اور اس کے اتحادیISIکی مذہبی انتہاپسندی کو سمجھیں اور ان کے قاتل دستوں کی مذید مالی مدد اورحوصلہ افزائی نہ کریں۔ مذکورہ باتوں پر نظر دوڑانے کے بعد اب اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
جیسا کہ شروع دن سے پاکستان کشمیر میں ایک پراکسی وار لڑرہاہے جس کی حقیقت بھارت کی بلیک میلنگ کے سوا کچھ نہیں۔
پراکسی وار کیلئے ISIنے کئی اپنے مذہبی ونگ
تشکیل دیئے ہیں ان میں جماعت الدعوۃ،لشکرطیبہ،لشکرجھنگوی،انصارالاسلام،
الرشیدٹرسٹ ،الخیرٹرسٹ ، سمیت کئی گروہ اور ٹرسٹ شامل ہیں شاید لشکرجھنگوی اور باقی گروہوں کے بارے میں ہرکوئی جانتاہوگا ،بنیادی طورپر یہ کشمیر میں پراکسی وار کیلئے بنائے گے تھے۔لیکن جب بلوچ تحریک آزادی زور پکڑنا شروع ہوئی تو ریاست نے اپنے مذہبی دستوں کو بلوچستان بھیجنا شروع کیا اور ان کے توپوں اور بموں کا رخ بلوچوں کی طرف کرکے انھیں کبھی امریکہ تو کبھی ہندؤوں کا ایجنٹ تو کبھی اسلام مخالف قراردینا شروع کردیا حالانکہ بلوچ اچھی طرخ جانتے ہیں کہ یہ کاؤنٹر پالیسی ہے ۔آئی ایس آئی کی یہ دھڑے مذہب کے نام پہ پردے کے پیچھے کام کرتی ہیں اور ISIکی ذیلی ونگ ہیں ۔ کرنل ،جرنل رینک کے لوگ ان تنظیموں کے سربراہی کرتے ہیں آپ یقیناًسوچتے ہونگے کہ امریکہ نے حافظ سعید کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی ہے ،بھلا پھربھی یہ شخص سرعام گھومتا پھرتا ہے میڈیا کو ا نٹرویو دیتا ہے سرکاری پروٹوکول کا استعمال کرتا ہے ۔ پاکستان ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کرتا؟سیدھا جواب ہے بھلا کوئی اپنے دست بازو کو کیسے خود کاٹ سکتا ہے ،آئی ایس آئی کے یہ تمام ونگ بلوچستان میں کئی سالوں سے مذہبی فرقہ واریت کو بڑے پیمانے پر ابھارنے کیلئے مصروف عمل ہیں جس کا مقصد بلوچ تحریک کو کاونٹر اور پاکستان کی سامراجی مفادات ہیں ۔ISIکی دیرینہ کوشش یہی رہی ہے کہ وہ بلوچستان میں خاص کر ذکری اور نمازی فرقوں میں فرقہ واریت کا جنگ چھیڑکر دنیا میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ یہاں پر فرقہ واریت کی جنگ ہے نہ کہ کوئی تحریک وجود رکھتی ہے، اور اس کام کیلئے ISIایک طرف اپنی ٹریننگ شدہ فسادیوں کو منتقل کر رہاہے تو دوسری طرف جرائم پیشہ افراد منشیات کے آدھی لوگوں، چوروں کو اکھٹا کرکے آرٹیفشل جہادی تشکیل کررہی ہے جس کی واضح مثال ہمیں پنجگور میں ملی جہاں آئی ایس آئی کے ایک الفرقان نامی گروہ نے بچیوں کے اسکولوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا تا کہ خواتین کو تعلیم سے دور رکھ کر تحریک آزادی سے دور رکھا جا سکے اور بلوچ کے سیکولر سوچ کو چار دیواری میں بند کیا جاسکے ۔اس سے پہلے خفیہ اداروں نے بلوچ خواتین کو تحریک سے دور رکھنے کیلئے دھمکی دی ،جب وہ نکلے تو ان پر حملہ کرکے ان کے چہروں پر تیزاب پھینکے گئے تاکہ وہ خوف ذدہ ہوکر گھروں سے نہ نکلیں اس ٰ سے پہلے ستر کی دہائی میں جب تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا تو خفیہ اداروں نے مذہبی جنگ چھیڑنے کیلئے 27رمضان المبالک کو ذکری فرقے کے عبادت گاہ زیارت شریف کوہ مراد پر راکٹ داغے تاکہ بلوچ آپس میں لڑپڑیں، جب ایک معروف عالم دین مولانا عبدالحق نے اسی حملے کی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس حملے میں خفیہ ادروں کے ڈر گ اسمگل گروپ اور خفیہ اداروں کے ایک اعلی اہلکار اور خود کو مذہبی پیشوا کہنے والا اور انٹرنیشنل ڈرگ اسمگلر امام بھیل کا دست راست ملابرکت ملوث پایا گیا۔ اس سے پہلے 1992میں ملا برکت کی ایما پر ذکری زائرین کو حدف بناکر مارا گیا جس میں پانچ لوگ شہید ہوئے تھے اور 2014میں راغے ،پشتکوہ سے جانے والئے زائرین کو گوارگو کے مقام پر روک کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور زیارت جانے سے باز رہنے کا کہا۔ واپسی میں زائرین کے ایک بس کو گریشہ سریج کے مقام پر بمب سے نشانہ بنایاگیا تاکہ عام ذکری اور نمازی دست گریباں ہوجائیں اور یقیناًملا برکت اور اس کے گروہ ان حملوں میں بھی ملوث ہوگا کیونکہ امامّ بھیل اور ملا برکت بدلے نہیں ہیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ متحرک ہیں۔ امامّ بھیل کے بارے میں ہرکوئی جانتاہے کہ وہISIکی انٹرنیشنل ڈرگ اسمگلر ونگ کا سربراہ ہے اور اس وقت نیشنل پارٹی میں ہے۔این پی جو کہ بلوچ جُہد کاروں کی مخبری کرکے اُنہیں اغواء کروانے میں مشہور ہے ۔ بعد میں ان مغوی جہُد کاروں کی لاشیں ویرانوں سے برامد ہوتے ہیں اور یہی ان کی اصلیت ہے۔ جیسے جیسے تحریک زور پکڑتی جارہی ہے تو خفیہ ادارے بھی متحرک نظر آتے ہیں جب ان کی ڈیتھ اسکواڈ ناکام ہوئے تو انہوں نے حسب روایت اپنے آستین کے سانپ چھوڈدیئے۔میں ایک واقعہ سنانا چاہتاہوں ۔۔یہ دلچسپی کے ساتھ ساتھ آپ لوگون کو چونکا دینے والی کہانی ہے 2005 کی بات ہے کہ ہم کچھ دوست شکار پر گئے تھے پانی ختم ہوئے اور شدید گرمی کی وجہ سے دوستوں کو اچھا خاصا پیاس لگی ہوئی تھی مجھے ایک دوست نے کہا کہ بائیک لے کر دور ایک کنواں ہے پانی لانے کے لئے جاتے ہیں کنواں بہت دور تھا نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے دوست کے ساتھ جانا پڑا۔ہم کنویں سے پانی نکال رہے تھے کہ ایک تبلیغی جماعت آئی اسلام و علیکم کہا۔۔۔۔ ہم نے کہا وعلیکم اسلام۔۔۔ مولانا نے مجھ سے پوچھا کہ نوجوان تم کیا کر رہے ہو میں نے کہا کہ پانی نکال رہے ہیں، اس نے مجھ سے کہا کہ پھر اتنے زیادہ بوتل کا کیا کروگے ،میں نے کہا کہ مولانا شکار پر آئے تھے جانا تھا لیکن دوست پیاسے تھے اسلئے پانی لیکر جائینگے۔ مولانا صاحب پٹھان تھا لیکن جو باتیں اس نے کئے وہ میرے لیئے سوچنے کے تھے اور اس کے ہمراہ باقی سات ساتھی بھی تھے اُس نے مجھ سے کہا کہ یہاں پر کافر بھی ہیں اور پھر اس نے حسب روایت ایک لمبی تقریر بھی کی اور مجھے دعوت دین دیدی۔ میں نے کہا کہ مولانا صاحب میں مسلمان ہوں اور پانچ وقت نماز بھی پڑتاہوں، اس نے دوبارا کہا کہ کافر بھی ہیں یہاں، میرے لیئے یہ نئی بات تھی ۔میں نے کہاکہ مجھے تو کافر کا نہیں پتہ، مجھ سے پھر پوچھا کہ جنت میں جاناہے یا نہیں ؟میں نے جواب دیا کہ ہم سب اللہ سے یہی امید رکھتے ہیں۔ اس نے کہا کہ توقو موں والا بات چھوڑدواگر جنت چاہتے ہو تو سنو یہ شکار مکار چھوڈو جنت کا کام کرو میں نے پھر جواب دیا کہ نماز پڑھتاہوں اور روزہ بھی رکھتاہوں، اس نے ایک سانس میں کہا سبحان اللہ، اتنے سمجھ دار ،دین دار ہو پھر بھی کفار کا صفایہ نہیں کرتے ہو میں نے جواب دیا کہ مولانا میں سمجھا نہیں اس نے جواب دیا کہ جنت میں جانا ہے تو سنو، ذکریوں کو قتل کرو اللہ جنت میں تمھیں اس کا دگنا اجر وثواب دیگا اللہ کی دین کو عام کرو کفار کا صفایہ کرو ،میریے لیئے یہ سوچنے کی بات تھی کیونکہ وہ خود سرحد سے آکر مجھے اپنے بھائیوں سے لڑانا چاہ رہاتھا۔ میں نے دوست سے کہا کہ یہ مولانا دونمبر ہے مجھے جو شک تھا وہی نکلا بعد میں پتہ چلاکہ کچھ دن ایک سرکاری ملا کے پاس رکنے کی بعد تبلیغی جماعت آرمی کے کیمپ سے ٹکٹ آنے کے بعد اسلام آباد روانہ ہوا ہے ۔
اصل میں وہ ا خفیہ اداروں کا اعلیٰ اہلکار تھا جو اپنے ایک پلٹن کے سا تھ مذہبی جنگ چھیڑنے کیلئے مقبوضہ بلوچستان آیاتھا تاکہ یہاں کے عوام کو د ست وگریباں کرکے اپنے مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ تحریک زور پکرتی جارہی ہے تو ریاستی کاؤنٹر پالیسیاں بھی تیز ہورہی ہیں کیونکہ بلوچ جہد کیو کاؤنٹر کرنے کا ریاستی دیرینہ پالیسی ہے اور وہ اس پرکثیرالجہتی حکمت عملی کے ساتھ عمل پیرا ہے اور اس کی تازہ ترین واقعہ ہمیں آواران میں ملی 28 اگست کو ریاستی قاتل دستوں نے ذکری فرقے کے ایک عبادت گاہ پر حملہ کرکے عبادت میں مصروف لوگوں کو شہید کردیا اس حملے میں شہید ہونے والوں میں معروف طالب علم لیڈر شہید رضاجہانگیر کے والد بھی شامل تھے۔ یادرہے کہ آزادی کی جہد کی پاداش میں رضاجہانگیرکو گزشتہ اگست بلوچ کش دستہ فرنٹیئر کور نے تربت کے ایک گھر میں چھاپے کے بعد فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا۔ چشم دید گواہوں کے مطابق حملے کے بعد حملہ آور آواران بازار میں واقع آرمی کیمپ گئے اور اسی ہی دن تربت میں تین افراد کو ذکری شناخت کرکے لوکل گاڈیوں سے اتارا گیا جو کہ بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں سے ملیں ، اور یہ سلسلہ یقیناًآگے بڑے گا، ریاست اسے ابھار رہاہے اور یہ اس کی حکمت عملی ہے اور یہ تربیت ریاست نے سردجنگ کے دوران حاصل کیاتھا اور اپنے ادارے کی فسادی بنائے تھے ۔ یہ اس کی حکمت عملی ہے اس میں کوئی دو رائے ہے ہی نہیں لیکن ہماری کیا حکمت عملی ہے ۔اختلاف اپنی جگہ تمام آزادی پسندوں کو چاہیے کہ ایک پلیٹ فارم کا انتخا ب کریں تاکہ ریاستی ننگی جارحیت کا بروقت پردہ پاش کیاجائے عوام اور دنیا کو فورا آگاہ کیاجائے اور مشترکہ احتجاجی مظاہرہ کئے جائیں ۔ چاہے وہ بلوچستان کے اندر ہو یا باہراور آج کل سننے میں آرہاہے کہ ISIS بلوچستان میں سرگرم ہے تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ یہ کام ریاست کے ادارے ISIسے ملکر اور آگئے بڑھائینگے اور آزادی پسندوں کو ٹارگٹ کرینگے ۔وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ وہISISکے ذریعے کیوں نہ ہو دسمبر میں پاکستانی بغل بچہ طالبان کے پانچ کمانڈرون نے داعش میں شامل ہونے اور ابوبکر البغدادی کی بیعت کرنے کا اعلان بھی کیاتھا اور پشاور میں داعش کا ایک کتابچہ بھی شائع ہواتھا اور داعش کے حق میں مختلف علاقوں میں وال چاکنگ بھی نظرآئے۔ حال ہی میں داعش کے ایک اعلی کمانڈر نے اعلان کیا ہے کہ اس نے پاکستان اور افغانستا ن کیلئے حافظ سعید کو اپنا کمانڈرمقر کیا ہے ۔اس سے لگتاہے کہ داعش نے اس خطے میں واقعی قدم رکھاہے اور وہ اب یہا ں پڑاؤ کے موڈ میں ہے پاکستان کو بہترین موقع ملے گا کیونکہ مذہبی جنگ پاکستان کیلئے آکسیجن سے کم نہیں بہرحال جو بھی ہو ISIیاISISنقصان بلوچ کا ہی ہے ۔مستقل مزاجی سے سوچنے فیصلہ کرنے اور عوام کو آگاہ کرنے کی اشد ضرورت ہے اتحاد میں برکت ہے اس مسئلہ پر بولنے اور لکھنے کی ضرورت ہے 

четверг, 16 апреля 2015 г.

’ہم پاکستان کے ہاتھوں نسل کشی کا شکار ہیں: بی ایل ایف کے کمانڈرڈاکٹراللہ نذر سے انٹرویو: کارلوس زوروتوزا,


جمعہ کے روز پاکستانی ذرائع نے خبر دی کہ پاکستان کے جنوبی صوبے بلوچستان میں بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے 20 تعمیراتی کارکنوں کو گولی مار کر ہلاک کیا ہے۔ مبینہ طور پر حملہ آور ایک زیر تعمیر ڈیم کے قریب واقع مزدوروں کے کیمپ میں سیکورٹی گارڈز کو زیر کرنے کے بعد داخل ہوئے اور سوئے ہوئے مزدوروں کو قریب سے گولی مار کر ہلاک کردیا۔

ہدف بنا کر ہلاک کیے گئے تمام مزدور مبینہ طور پر کو بلوچستان سے باہر دوسرے صوبوں سے تعلق رکھتے تھے، ان میں 16 کا تعلق پنجاب اور چار سندھ سے تعلق رکھتے تھے۔ آٹھوں سیکورٹی گارڈز جوکہ سب بلوچستان سے تھے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ بی ایل ایف کے ایک ترجمان نے مبینہ طور پر کہا کہ ان کا ہدف پاکستانی فوج اور حکومت کے تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنیوالے کارکن تھے۔
تاہم، بی ایل ایف کے اعلیٰ کمانڈر ڈاکٹر اللہ نذر نے منگل کے روز پاکستانی میڈیا کی طرف سے پیش کردہ بیانیے کو ’’بلوچ تحریک آزادی کیخلاف مکمل اور صریحاً پروپیگنڈہ‘‘ قرار دیا۔ ڈاکٹر اﷲ نذر اس بات پر زور دیکر کہتے ہیں کہ ان کا ہدف فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے کارکن تھے جو کہ پاکستانی فوج سے منسلک ایک ادارہ ہے۔
انہوں نے اس ہفتے کے دوران وائس نیوز کیساتھ کیے گئے ایک انٹرویو میں پوچھا کہ ’’اگر وہ (تعمیراتی کارکن) محض عام شہری تھے تو کیونکر فرنٹیئر کور (ایک نیم فوجی گروہ) اور دیگر مسلح یونٹس کو ان کی حفاظت پر معمور کیا گیا تھا؟‘‘
بلوچ ایران، پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کے آر پار ایک شورش زدہ علاقے میں بستے ہیں۔ یہ ایک وسیع و عریض علاقہ ہے جوکہ فرانس جتنا ہے، اس میں گیس، سونے اور تانبے کے بہت بڑے ذخائر ہیں، زیرزمین تیل اور یورینیم کے بے تحاشہ وسائل ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ وہاں اسٹراٹیجک اہمیت کی حامل 600 میل سے زائد طویل ایک ساحلی پٹی ہے جو کہ آبنائے ہرمز کے دہانے کے قریب واقع ہے۔
اگست 1947ء میں بلوچ نے پاکستان سے آزادی کا اعلان کیا لیکن نو ماہ بعد پاکستانی فوج بلوچستان میں داخل ہوئی اور اس پر قبضہ کر لیا جس سے ایک شورش برپا ہوئی جو کہ وقفے وقفے سے آج تک جاری ہے۔
آج جنوبی پاکستان میں چھ سے سات بلوچ باغی گروہ موجود ہیں جو گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ تمام نمایاں طور پر سیکولر ہیں، اور آزاد بلوچستان کے ایک مشترکہ ایجنڈے پر متفق ہیں۔
’’جنگ 1948 میں شروع ہوئی، لیکن گزشتہ 14 سال میں پاکستان نے ’مارو اور پھینک دو‘ جیسے سفاکانہ طریقوں کے ذریعے اس کی شدت میں اضافہ کیا ہے‘‘، اﷲ نذر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، جو کہ ایک سابق ڈاکٹر رہے ہیں اور آج کی مجموعی طور پر بلوچ آزادی کی تحریک کے سب سے نمایاں چہروں میں سے ایک ہیں۔
مارچ میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ایک سماعت کے دوران ٹی کمار، جو کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکہ کے بین الاقوامی ایڈووکیسی ڈائریکٹر ہیں، نے پاکستان کی حکومت پر ’’بلوچ عوام کیخلاف جبری گمشدگیوں، تشدد، اور قتل‘‘ کی ایک منظم پالیسی کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا۔ کمار نے اس معاملے پر عالمی برادری کی خاموشی کی بھی مذمت کی۔
اگست 2014 میں انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان کی حکومت سے ’’پورے ملک میں ریاستی ایجنسیوں کی طرف سے سینکڑوں افراد کے اغواء کرنے اور ان کے انجام یا ٹھکانے کے بارے میں معلومات فراہم نہ کرنے کے ناپسندیدہ عمل کو روکنے‘‘ کا مطالبہ کیا۔
لاپتہ افراد کی صحیح تعداد تا حال نامعلوم ہے اور اس علاقے میں جاکر معلومات اکٹھی کرنا ناممکن ہے۔ تاہم، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، جوکہ لاپتہ افراد کے خاندان والوں میں سے کچھ کی طرف سے قائم کردہ پرامن احتجاج کرنیوالا ایک وکالتی گروہ ہے، 2000ء کے بعد سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کی تعداد کو تقریباً 20000 بتاتا ہے۔
اﷲ نذر لاپتہ افراد کے حوالے سے بات کرتے ہیں لیکن وہ اندرون ملک لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہونیوالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں جوکہ ’’یا تو پاکستانی فوج کی فوجی کارروائیوں کے سبب یا ملک بدری کی پالیسیوں‘‘ کی وجہ سے دربدر ہوئے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ’’صرف اپریل کے مہینے کے دوران اب تک فوج نے مشکے (اﷲنذر کے آبائی علاقے) میں 200 سے زائد گھروں کو جلا یا ہے اور 25 بے گناہ بلوچ قتل کر دیے ہیں۔‘‘
پیر کے روز، پاکستانی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ فوج نے بی ایل ایف کے 13 ارکان ہلاک کیے ہیں جوکہ مبینہ طور پر جمعے کے روز ہونیوالے حملے میں ملوث تھے اور دعوے کیساتھ خبر دی کہ ہلاک شدگان میں ایک ممتاز بلوچ کمانڈر بھی شامل تھا۔ لیکن اﷲنذر نے وائس نیوز کیساتھ گفتگو میں بالکل مختلف بات کہی۔
انہوں نے بتایا کہ ’’وہاں پانچ لاش ملے تھے۔ پاکستانی حکام نے جس شخص کی ’کمانڈر حیات بلوچ‘ کے نام سے نشاندہی کی، وہ محض ایک غریب آدمی تھا جو کہ دو سال قبل ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگنے کے بعد سے معذور ہو چکا تھا۔‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’دیگر چار ان لوگوں کی لاشیں تھیں جو ایک سال سے پاکستانی ایجنسیوں کی طرف سے ’غائب‘ کرنے کے بعد لاپتہ تھے،‘‘ انہوں نے پاکستانی ذرائع ابلاغ کی طرف سے پیش کردہ معلومات کو ’’مضحکہ خیز‘‘ قرار دیا۔

ایک متنازعہ منصوبہ

جمعہ کے روز ہلاک ہونیوالے 20 متاثرین گوادر شاہراہ کی سڑک پر کام کر رہے تھے جو کہ جنوب مغرب میں واقع ایک دور دراز ساحلی مقام ہے۔ یہ ایک متنازعہ چینی اور پاکستانی منصوبے کی وجہ سے خاص طور پر ایک حساس علاقہ ہے جو کہ بیجنگ کو گوادر کے انتہائی اسٹراٹیجک اہمیت کی حامل گہرے پانی کی بندرگاہ کا کنٹرول دے دیگی۔ پاکستانی حکومت نے پہلے ہی سے اس ماہ کے آخر تک اسکے بنیادی ڈھانچے کا افتتاح کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔
بلوچ نے کھلے طور پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، انہیں ڈر ہے کہ یہ منصوبہ اس خطے کو ایک اور کراچی میں تبدیل کردیگا۔ آج پاکستان کی اہم بندرگاہ، جو کہ ہمسایہ سندھ کی دھرتی پر واقع ہے، کراچی کے شہری علاقے کی آبادی میں 1947 میں 200000 نفوس سے بڑھ کر آج تقریباً 25 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ بلوچ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی بھی انفراسٹرکچر انکے علاقے کی نازک آبادیاتی خصوصیات کے توازن کو بگاڑکر انہیں اپنے ہی ملک میں اقلیت میں تبدیل کر سکتی ہے۔
اﷲ نذر نے کہا کہ ’’مستقبل تاریک نظر آرہا ہے، لیکن گوادر منصوبہ ہمارے لوگوں کیلئے پہلے ہی سے بہت ساری ذلت لایا ہے۔ بات کو آگے بڑھائے بغیر یہ کہنا کافی ہوگا کہ شاہراہ کے ساتھ واقع دیہاتوں میں بسنے والے 40000 سے زائد افراد کو اپنا گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا جاچکا ہے۔‘‘
اﷲ نذر مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ ’’وہ تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں جو یہاں آکر نو آبادیاتی سلطنتوں کی خاطر بلوچستان کے وسائل لوٹنے کی کوشش کررہی ہیں‘‘ وہ سب اپنی سرگرمیاں ختم کردیں، اور وہ اس بات کو دوہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک ’’کسی بھی قسم کی جارحیت کیخلاف‘‘ اپنی سرزمین کا دفاع جاری رکھے گی۔ بظاہر، مؤخر الذکر ایک وسیع معنوی حیثیت رکھتی ہے۔
اﷲ نذر نے کہا کہ ’’فوج اور پاکستانی انٹیلی جنس ادارے بلوچستان میں بنیاد پرست اسلام کے فروغ کیلئے ذمہ دار ہیں۔ ایک طرف یہ ہمارے قومی دعووں اور ہماری جائز جدوجہد سے توجہ ہٹانے کا ایک آلہ ہیں تو دوسری طرف وہ ان بنیاد پرستوں کو ہمارے خلاف لڑنے اور ہماری تحریک کو ختم کرنے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔‘‘
کمانڈر اﷲ نذر مزید کہتے ہیں کہ بلوچستان میں پاکستانی سیکورٹی فورسز چھ تربیتی کیمپوں کی معاونت کر رہی ہیں جہاں داعش (اسلامک اسٹیٹ) کے رنگروٹوں کو مبینہ طور پر تربیت دی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہماری گلیوں میں ان کی موجودگی انتہائی حد تک غالب ہے یہاں تک کہ وہ ان میں بھرتی ہونے کیلئے پمفلٹ تک تقسیم کرتے ہیں۔‘‘
پیٹر چاک، جوکہ رینڈ کارپوریشن کے ایک سیاسی تجزیہ کار ہیں، نے وائس نیوز سے بات کرتے ہوئے بلوچستان میں اسلامی گروہوں کے وجود کی بطور لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان کے نام سے تعیناتی کی تصدیق کی ہے۔
اﷲ نذر کہتے ہیں وہ نہیں چاہتے ہیں کہ ہمارا یہ انٹرویو باقی دنیا کیلئے المدد کی پکار بھیجے بغیر ختم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ مہذب دنیا کو یہ بات معلوم ہو کہ ہم پاکستان کے ہاتھوں نسل کشی کا شکار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی تنظیمیں اس بات کو سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔‘‘

вторник, 14 апреля 2015 г.

بلوچ قوم کو 1948سے فوجی طاقت کا سامنا ہے,, میر محمد علی ٹالپر سے انٹرویو ,وزیر رضا.


بلوچ دانشور میر محمد علی ٹالپر کا یہ ایک تازہ ترین انٹرویو ہے جوپاکستان چین اقتصادی راہداری حوالے سے رضا وزیر نامی ایک صحافی نے کی ہے جو دی فرائیڈے ٹائمز میں شائع ہوچکی ہے۔اس انٹرویومیں میر محمد علی ٹالپر نے پاکستانچین اقتصادی راہداری پر تحفظات کے بارے میں بات کی ہےانٹرویو: وزیر رضا……ی
رضا وزیر: آپ کیوں پاک چین اقتصادی راہداری کی مخالفت کرتے ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے جس سے یقینی طور پر پاکستان کو فائدہ ہو گا؟
میر محمد علی ٹالپر: ضروری نہیں ہے کہ جو پاکستان کے مفاد میں ہے وہ بلوچستان کے مفاد میں بھی ہو۔ اگر آپ بلوچستان سے گزرنا چاہتے ہیں، اس کے ساحل کواستعمال کرنا اور اس کے معدنیات نکالنا چاہتے ہیں تو اس میں بلوچ عوام اہم ترین حصہ دار ہیں۔ ان کے مفاد کو اولیت حاصل ہونی چاہئے۔
وہاں بلوچ قوم میں پہلے ہی سے ناراضگی موجود ہے، خاص طور پر چین کے ساتھ معاملات طے کرنے میں۔ انہوں نے سیندک میں جس طرح بلوچ عوام کو ایک طرف رکھا، یہ اس بات کی طرف ایک اشارہ ہے کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ فضل حیدر (ایک معروف صحافی) کے مطابق وہاں کوئی تانبا، سونا یا چاندی نہیں بچے گا جب چینی وہاں سے نکلیں گے۔ انہوں نے اپنے لیز میں 2017 تک کی توسیع کرائی ہے۔
میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بلوچستان کے مفاد کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ مقامی لوگوں کی خواہشات کو برتری حاصل ہونی چاہئے۔ چین بلوچ عوام کی مدد کرنے کیلئے بلوچستان میں نہیں آ رہا، بلکہ اسلئے کہ اسکے اپنے مفادات ہیں۔
رضا وزیر: اگر گوادر پورٹ کو ترقی دے دی جائے اور اس راہداری کے ساتھ ساتھ اقتصادی زونز فعال ہوجائیں تو کیا وہاں بلوچ عوام کیلئے روزگار کے بہت سارے نئے مواقع پیدا نہیں ہونگے؟
میر محمد علی ٹالپر: مجھے یقین ہے آپ نے وہ کہانی سنی ہوگی کہ ایک غریب شخص کو ایک جادوئی چراغ ملتا ہے؛ اس کے بعد وہ جن کو کہتا ہے کہ اس کیلئے ایک بڑا سا محل بنائے اور اس میں کچھ امیر لوگوں کو ڈال دے، اور پھر اسے اس محل کا چوکیدار بننے کا کہا جائے۔
بلوچ کسی اور کے محل کا چوکیدار نہیں بننا چاہتے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ (بلوچستان کے وزیر اعلیٰ) ہمیں چند معمولی ملازمتیں دلوا سکتے ہیں۔ مگر وہاں ایک کہاوت ہے کہ غربت میں آزادی خوشحال غلامی سے بہتر ہے ۔
یہ کوئی روزگار کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلوچ کا کہنا ہے کہ یہ زمین ہماری ہے۔ یہ تب ہمارا تھا جب یہ ویران تھا ۔ اب انہوں نے یہاں سونا، چاندی اور تانبا دریافت کیا ہے، یہ ہمارا ہے۔
رضا وزیر: اور منصوبے کے راستے پر حالیہ بحث کے بارے میں بلوچ عوام کیا کہتے ہیں؟
میر محمد علی ٹالپر: یہ مسئلہ راستے کا نہیں ہے۔ ہمیں اس پورے منصوبے کے بارے میں خدشات ہیں۔ ہمیں گوادر کے مستقبل کے بارے میں خدشات ہیں، جہاں سے یہ راستہ نکل کر آئے گا۔ اس بات سے قطع نظر کہ آیا یہ سڑک لاڑکانہ اور رتوڈیرو کے ذریعے گزرے گی یا ژوب یا ڈیرہ اسماعیل خان سے، اس پر ہمارے خدشات ہیں۔ گوادر جانے کیلئے یہ سڑک بلوچستان سے گزرے گی، تو لہٰذا بلوچستان کے مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔
رضا وزیر: بلوچستان کی منتخب حکومت نے منصوبے پر اتفاق کیا ہے۔ کیا اس کا مطلب بلوچ عوام کی رضامندی نہیں ہے؟
میر محمد علی ٹالپر: میرے خیال میں یہ کہنا مبالغہ آرائی ہے کہ موجودہ حکومت صوبہ بلوچستان کے عوام کی مرضی و منشاء کی نمائندہ ہے۔ اگر آپ پاکستان کے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جائیں، تو آپ دیکھیں گے کہ ڈاکٹر عبدالمالک نے 4000 سے تھوڑا زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ انکے حلقے میں ووٹ ڈالنے کی شرح محض 17 فیصد رہی۔ ڈپٹی اسپیکر قدوس بزنجو کو 544 ووٹ ملے۔ نادرا اور الیکشن کمیشن یہ بات مانتے ہیں کہ 2013 کے انتخابات میں بلوچستان میں ڈالے گئے 65 فیصد ووٹ جعلی تھے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ انہیں کس نے ووٹ دیا اور وہ کس کی نمائندگی کرتے ہیں؟ وہ محض ایک سویلین چہرہ ہیں جو ایف سی کے زیرانتظام چلنے والی انتظامیہ کو قانونی جواز فراہم کرتے ہیں۔
رضا وزیر: کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے؟
میر محمد علی ٹالپر: ایک سیاسی جدوجہد اس وقت کارگر ثابت ہوتی ہے جب آپ کا سامنا سیاست دانوں کے ساتھ ہو۔ بلوچستان میں تنازعے کو حل کرنے کیلئے انہوں کب سیاسی ذرائع استعمال کیے ہیں؟ ہم 27 مارچ 1948 کے بعد سے فوجی طاقت کا سامنا کرتے آئے ہیں۔
انہوں نے شیخ مجیب الرحمن اور بنگالیوں کیساتھ کس قسم کا سیاسی تصفیہ بروئے کار لایا؟ بلوچ کے پاس اور کونسا راستہ باقی رہ گیا ہے؟
رضا وزیر: پنجاب میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جب بھی بات پاکستان کی خوشحالی کی آتی ہے تو چھوٹے صوبے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
میر محمد علی ٹالپر: میرا خیال ہے کہ جو لوگ ایسی باتیں کہتے اور لکھتے ہیں وہ زمینی حقائق سے آگاہ نہیں ہیں۔ وہ بلوچ عوام کے جذبات کو نہیں سمجھتے۔ اگر پاکستان کی خوشحالی ضروری ہے، تو وہاں رہنے والے لوگوں کے جذبات بھی۔ ہم خوشحالی کیخلاف نہیں ہیں۔ ہم استحصال کیخلاف ہیں۔ ہمیں اپنے حقوق چاہئیں ۔ ترقی خود آئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ اشاعت : 13 مارچ 2015

воскресенье, 12 апреля 2015 г.

بلوچستان میں ایک بار پھر فوجی طاقت استعمال کرنے اور جارہی فوجی آپریشن میں 

شدت لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے 20 آبادکاروں جو مزدور کے آڑ میں ریاستی مخبری کا کام 

سرانجام دے رہے تھے اور جو علاقے میں بلوچ سرمچاروں کے سرگرمیوں پر نظر رکھنے 

اور اُنکے ٹھکانوں کی نشاندہی کرنے پرمعمور تھے جن کی ہلاکت ریاستی ایجنسیوں 

کے

مذموم مقاصد پر ایک کاری ضرب ہے جس سے ریاستی ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوچکا ہیں 

کہ اُنکے 20 مخبر ایک ساتھ مارے گئے۔ ایف ڈبلیو او فوج کی ایک تعمیراتی ادارہ ہے جو 

گزشتہ کئی عرصوں سے شورش زدہ بلوچستان میں سرگرم عمل ہیں اُن پر کئی حملے 

کئے گئے ہیں 2009 میں خضدار میں بی ایل اے نے سول کالونی میں پبلک اسکول کے 

قریب حملہ کرکے اُن کے دو اہلکاروں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کرکے بلوچستان 

سے سول اور فوجی تعمیراتی اداروں کو نکلنے کی تاکید کی تھی اُس کے بعد مختلف 

علاقوں میں بی ایل اے، بی ایل ایف،بی آر اے، لشکر بلوچستان اور یو بی اے نے گوادر 

پورٹ، ایف ڈبلیو او، بولان مائننگ، اٹک سیمٹ، ریکوڈک، سیندک، دلبند ، چمالانگ کوئل 

مائننگ اور تیل و گیس تلاش کرنے والے کمپنیوں سمیت دیگر ایسے پاکستانی اور غیر 

ملکی کمپینوں کے عمارتوں، املاک اور ملازمین کو نشانہ بناکر یہ واضح طور پر اعلان 

کئے 

تھے کہ ہم اپنے سرزمین پر سرمایہ داری کی اجازت نہیں دینگے گوادر میں بی ایل ایف، 

حب میں بی ایل اے چینیز انجئنیروں اور کراچی میں لشکر بلوچستان نے چین کے 

قونصلیٹ پر حملہ کرکے انھیں یہ تبیہ کی کہ وہ بلوچستان بلوچ ساحل اور وسائل کے 

متعلق قابض پاکستان کے ساتھ معاہدوں سے گریز کریں لیکن چین اس کے برعکس آج 

بھی بلوچ وسائل کی لوٹ مار میں حصہ دار اب اگر پنجاب کے مزدور اور چین کے انجئنیر 

بلوچ قوم کے وارننگ کو نظر انداز کرکے بلوچ سرزمین پر قبضہ گیر قوتوں کے آلہ کار بنیں 

گئے اور وسائل کی لوٹ مار میں حصہ دار ہونگے تو یہ واضح ہیکہ اُن پر حملہ ہوتے 

رئینگے 

اب تربت واقع کو لیکر بعض لوگ یہ تاثر دے رہے ہیکہ عالمی برادری نظر ہوگی، بلوچ 

تحریک بدنام ہوگا، انسانی حقوق کے علمبردار کیا سوچتے ہونگے جب یہ عالمی برادری 

پاکستان اور چین کے بلوچ سرزمین پر جبری قبضہ، سرمایہ کاری اور وسائل کی لوٹ مار 

کو نہیں روک سکتے جب انسانی حقوق کے علمبردار بلوچ لاپتہ نوجوانوں کی بازیابی، 

مسخ شدہ لاشوں، گھروں پر بمباری اور اجتماعی قبروں کی برآمدگی پر پاکستان کا 

کچھ 

نہیں بگاڑ سکتے اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر خاموش تماشائی کا 

کردار ادا کرتے ہیں پھر انھیں یہ حق کس نے دیا ہیکہ وہ بلوچوں کو غیر مہذب، انسانیت 

سے عاری اور مسلمانیت سے فارغ قرار دیں۔

вторник, 7 апреля 2015 г.

Pakistan nuclear test in Balochistan and its fatal repercussions

        Enrico Fermi is considered a major figure in the discovery of nuclear energy. This physicist was born in Rome, Italy, was 
NuclearTests-ChaghiHillsthe first scientist to split the atom and his research later led to nuclear power generation. Together with Leo Szilard, Fermi discovered the first nuclear reactor that caused nuclear chain reactions.
It was in 1934 when Fermi achieved success in his beta ray emission theory in radioactivity. He then pursued further study to determine the creation of artificially radioactive isotopes through the bombardment of neutron. His research on the bombardment of uranium with slow neutrons is now what we call atomic fission. This led Fermi to continue his research together with Leo Szilard. Together, they worked on building an atomic pile which could produce a controlled release of nuclear energy initially at Columbia and later on at the University of Chicago. They completed this project in 1942.
Following the same mentioned technology state of Pakistan in 1972 commenced establishing nuclear technology and after few decades this state on 28th May, 1998, tested its nuclear bombs in mountain Koh Kambar Raskoh hills of Chaghi in North West Balochistan. For many people this day has been celebrating as Yum-e-Takbeer, (the greatness day) a pride for them but for Baloch Nation this day is mourn. That day was not a great day for Baloch Nation, but they are calling their self as an Islamic atomic power. After testing nuclear explosion the engineers and scientist paid a postrait nuclear and thanked Allah that they got nuclear power.
At that time in Balochistan the BNP (Balochistan National Party-Mengal) was ruling. The mentioned party head Akhtar Mengal was the chief minister of Balochistan and at the arrival of Prime Minister Nawaz Sharif the CM of province Mr Mengal himself drove the vehicle from airport to governor house Quetta. Recently, Mr Nawaz Sharif during the visit of Quetta spoke-out that Akhtar Mengal was chanting slogan “Pakistan Zindabad”, “Long live Pakistan” with full-throat after successive nuclear blasts at the site in Raskoh Chaghi. But discussed party says that they were unaware about nuclear explosion schedule and made coalition with same that deceptive Punjab’s leaders. The said party also has taken part in parliamentary process and keeping silence about these testes and devastations in Balochistan.
They showed the world that no one can point out to Pakistan’s sovereignty. Being on seventh ranked in series of atomic power procuring countries the masses of Baloch are below the poverty line and they are living in the stone-age. The people value to sheep, they use their hairs and fabricate tents for shelter. Chaghi is deprived of basic rights, in which the provision of education and water shortage are the most noticeable.
The 30 kilo meter ranging grayish mountainous area of Chaghi after nuclear tests got changed in color yellow and white due to radiation of 30 tons of nuclear materials bombardment with five blasts in Chaghi, meanwhile two in the Kharan Mountains.
The poet Mansoor Baloch in his poetry said, “In the back drop of Balochistan’s occupation everything is weeping, invading the deep impassable sees, which is filled with blood tears”.
The radiation effects of nuclear tests in Balochistan:
The Baloch people of surrounding areas still suffer worst and drought engulfed Balochistan soon after the nuclear explosion also; Radioactivity, leukemia, cancer and numerous genital diseases have been reported from the different surrounding regions.
The people of Chaghi migrated to other parts of Balochistan. A large number of children including women got handicapped. The radiation of nuclear tests still exists in the area and impacting horribly to ecology. The new born babies including women are also suffering from adverse effect of mentioned tests.
Since the dirty nuclear blasts Baloch have been observing 28th May as black day, and condemning the rulers for selecting the Baloch land as their nuclear test venue. Each year this day Baloch protester demand to international community and United Nation to determine the radiation of these explosions in Balochistan.             
Let’s know medical science how elaborates Radiation effects on the Human Body
(1) Hair: The losing of hair quickly and in clumps occurs with radiation exposure at 200 rems or higher.Untitled-1
(2) Brain: Since brain cells do not reproduce, they won’t be damaged directly unless the exposure is 5,000 rems or greater. Like the heart, radiation kills nerve cells and small blood vessels, and can cause seizures and immediate death.
(3) Thyroid: The certain body parts are more specifically affected by exposure to different types of radiation sources. The thyroid gland is susceptible to radioactive iodine. In sufficient amounts, radioactive iodine can destroy all or part of the thyroid. By taking potassium iodide, one can reduce the effects of exposure.
(4) Blood System: When a person is exposed to around 100 rems, the blood’s lymphocyte cell count will be reduced, leaving the victim more susceptible to infection. This is often referred to as mild radiation sickness. Early symptoms of radiation sickness mimic those of flu and may go unnoticed unless a blood count is done. According to data from Hiroshima and Nagasaki, show that symptoms may persist for up to 10 years and may also have an increased long-term risk for leukemia and lymphoma.
(5) Heart: Intense exposure to radioactive material at 1,000 to 5,000 rems would do immediate damage to small blood vessels and probably cause heart failure and death directly.
(6) Gastrointestinal Tract: Radiation damage to the intestinal tract lining will cause nausea, bloody vomiting and diarrhea. This is occurs when the victim’s exposure is 200 rems or more. The radiation will begin to destroy the cells in the body that divide rapidly. These including blood, GI tract, reproductive and hair cells, and harm their DNA and RNA of surviving cells.
(7) Reproductive Tract: Because reproductive tract cells divide rapidly, these areas of the body can be damaged at rem levels as low as 200. Long-term, some radiation sickness victims will become sterile.
Radiation Effects on the Environment
There are many forms of radiation. Some forms of radiation are found in the natural environment and others are due to modern technology. Whether natural or man-made, radiation can be both harmful and beneficial to the environment. The sun, for example can have positive and negative effects on plant and animal life. At low levels, radiation can be beneficial to the environment. On the other hand ionized radiation such as x-rays, gamma rays, alpha and beta particles can be particularly harmful in excessive amounts.
Plant Growth:
Natural radiation is often beneficial to plant growth. It is necessary for many plants to receive some form of non-ionizing radiation. Radiation that produces light in order for photosynthesis to occur is a positive effect that radiation has on plant life. However, according to the Environmental Literacy Council, ionized radiation that occurs from nuclear material may result in weakening of seeds and frequent mutations. For instance, a nuclear plant, called Chernobyl in Russia leaked in 1986 that caused excessive amounts of radiation pollution in that region. A huge cloud of radiation was formed which resulted in a massive amount of destroyed plant life; particularly pine trees in that area. High doses of radiation can be devastating to the environment.
droughtbalochistanThe above mentioned devastation have been destroying the ecology of Balochistan and people are suffering from diseases afterward the nuclear test here. This area people are very poor and they are underdeveloped in all fields of life due to ignorance of state machinery. Instead of providing development in modern time they are gifted nuclear radiations which caused various plants eternal disappearance, infertile of orchards about fruits, contamination, drought and abnormality in new born babies.
The political parties of Balochistan haven’t learnt any lesson from past and they assisted state to use Balochistan as its laboratory because they have share or these have been founded by establishment. These said parties never observe black day the 28th May but in their informal meetings condemn the tests. These parties on one hand manipulating to contend masses and on the other hand colluding with state to spoil Baloch and their lives but they get incentives and privileges for doing so.

среда, 1 апреля 2015 г.

حیربیار کا تازہ ترین اقوال زرّیں ایک سیاسی المیہ 


سیاست میں اور خاص کر انقلابی سیاست میں ایک لیڈر کے لئے از حد ضروری ہے کہ وہ وژنری ہو، دانش مند ہو، فیصلہ ساز ہو اور مصمم ارادے کا مالک ہو کیونکہ انقلاب ایک سخت اور پیچیدہ سیاسی عمل ہے۔۔۔۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری تحریک میں چند ایک لیڈر جن کے آسرے ہم نے توقعات کے مینار تعمیر کئے تھے، ان خصوصیات سے عاری ہیں۔ 
آج حیربیار صاحب کا تارہ ترین اقوال زرّیں نظر سے گزرا تو دیکھ کر حیرانگی کی اتنہا نہ رہی۔
نیچھے تصویر میں بیان اپنے قول میں حیربیار اپنی سیاسی پالیسی کا خلاصہ بیان کررہے ہیں کہ بلوچستان میں روز ایک نئی تنظیم بن رہی ہے جنکو روکھنا نا گزیر ہے۔۔۔۔۔۔یعنی واجہ کی جدوجہد کا اولین مقصد ان تنظیموں کو روکھنا ہے جوآزادی پسندی کے نام پر بنائے جارہے ہیں یا بقول انکے اپنی دکانداری چمکانہ چاہتے ہیں۔ نواب زادہ آگے کہتے ہیں کہ ’’ آج اگر تنظیمیں توڑنے والوں کو نہیں روکھا گیا تو یہ آگے جاکر تباہ کن خانہ جنگی کا سبب بنیں گے‘‘۔
علمی لحاظ سے یہ ایک نہایت ہی مبہم، پرتضاد اور غیردانش مند سیاسی منطق ہے۔۔۔۔۔ مبہم اسلئے کہ حیربیار صاحب نے جن تنظیموں کے خلاف خطرناک محاذ کھول رکھا ہے ہے وہ نئی تنظیمیں ہرگز نہیں ہیں بلکہ واجہ کے سیاسی میدان میں قدم رکھنے سے سالوں قبل اسی فکر و نظریہ کے ساتھ بلوچ قومی تحریک کا حصہ ہیں۔ جیسے بی ایس او ، بی این ایم اور بی ایل ایف۔۔۔۔۔۔ (اگر ٹیکنکلی دیکھا جائے تو حیربیار خود نیا گروہ ہیں)۔۔۔۔۔۔۔ پرتضاد اسلئے کہ واجہ آج خود ان تنظیموں اور شخصیتوں کے ساتھ ہم دست و ہم کوپگ ہیں جو تنظیموں کو توڑنے کا سبب بنی ہیں۔ مثلاً بی این ایم (جی ایم)، بی این ایل ایف، سعید یوسف، شاہد، بیبگر اور کئی دیگر جنہیں ذمہ دار تنظیموں نے تنظیمی اختیار کے تحت نکالا ہے۔۔۔۔ غیر ذمہ دار و غیردانش مند اسلئے کہ جناب جس خوفناک خانہ جنگی کی بات کررہے ہیں اسکا آغاذ انہوں نے آج خود کیا ہوا ہے۔۔۔۔ نہ صرف خانہ جنگی بلکہ تحریک کےہر پرزے کو نیست و نابود کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔۔۔ دشمن اور انکے حواری ملاوں، وفاق پرست بلوچوں، سراج و شفیق مینگل ، ثنا اور چنگیز مری جیسے غدار سرداروں کو چھوڑ کر محض آزادی پسندوں کے خلاف اپنی مبہم اور بے سروپا پالیسی مرتب کرنا ، بی ایل ایف کے رہنماوں کو اغواء کرنا، یو بی اے کے خلاف محض چند زاتی اسلحہ کے لئے صف آرا ہونا اسکی مثالیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔ (ذاتی اسلحہ میں اسلئے کہہ رہا ہوں کیوں حیربیار اور اسکے پرچارک خود اسکا اظہار کرچکے ہیں)
ایک سیاسی شاگرد کی حیثیت سے میں نے آج تک ہ حیربیار اور اسکی بے تنظیم گروہ کے علاوہ کسی بھی آزادی پسند تنظیم کی طرف سے کوئی ایسا عمل نہیں دیکھا جس سے یہ تاثر ملے کہ وہ تحریک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں ، یا رد انقلابی روش کے ذریعے تحریک کے اندر ابہام پیدا کر رہے یا غلط اندازوں، وہم اور وسوسوں کے ذریعے لایعنی اختلاف تخلیق کررہے ہیں۔۔۔۔۔ ہر ہوش مند سیاسی کارکن جانتا ہے اس سلسلے کو شروع کرکے اس نہج تک پہنچانے کا ذمہ دار واضح طور پر حیربیار اور اسکے ساتھی ہیں۔۔ جبکہ ریکارڈ پر ہے دیگر تنظیموں نے بارہا کوشش کی ہے کہ اس مسئلے کو ٹھنڈا کیا جائے۔۔۔۔ مثلاً ڈاکٹر اللہ نظر ، بی این ایم اور بی ایس او کی جانب سے جنرل راحیل شریف کی اس بیان کے خلاف رد عمل ظاہر کرنا جس میں حیربیار کی پاکستان حوالگی کا مطالبہ کیا گیا تھاحالانکہ حیربیار دشمنی کی حد تک انکے خلاف سرگرم ہے۔۔۔ ان تنظیموں کی جانب یہ بہت ہی سنجیدہ اور اخلاص پر مبنی سیاسی قدم تھا کیوںکہ انہیں یہ شعور تھا کہ آپسی اختلافات خواہ کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں، دشمن کے خلاف یک آواز ہونا لازمی شرط ہے۔۔۔۔ بجائے کہ اس عمل سے حیربیار پر کوئی مثبت اثر پڑتا اس نے الٹا اس چیز کو تضاد کی شکل میں پیش کرکے اپنے پروپگنڈے کو مزید تیز کردیا۔
جب حیربیار نے اپنے ذاتی اصلحوں کے لئے بی ایل اے کو یو بی اے کخلاف کھڑا کیا تو محران اور یوبی اے کی قائدین نے انتہائی تحمل سے کام لیتے ہوئے خاموشی اختیار کی جبکہ بی ایل ایف، بی این ایم اور بی ایس او مسلسل رابطوں اور اخباری بیانات سے یہ کوشش کرتے رہے کہ یہ مسلئہ حل ہو۔۔۔ انکا موقف واضح تھا کہ اس سے دنیا میں خانہ جنگی کا تاثر پیدا ہوگا، عوام مایوس ہوگی اور دشمن کو فائدہ پہنچے گا۔مگر حیربیار نے قومی مفادات کی پرواہ کئے بغیر یو بی اے پر حملہ کیا، ایک سرمچار کو شہید اور تین کو اغوء کرلیا۔۔ستم بالاستم اب انہوں نے بی ایل ایف کے ایک کماش کمانڈر کو کہ جو پچاس سال سے تحریک کا حصہ ہیں، اغواء کرلیا ہے۔۔۔۔۔۔
ہم حیران ہیں کی مستقبل کی خانہ جنگی کی بے وجہ خوف سے حال میں خانہ جنگی کو شروع کرنا کس طرح کا سیاسی منطق ہے۔۔۔ دو چیزیں ہوسکتی ہیں یا تو جناب حیربیار غیبی وجدان کے مالک ہیں جسے ہم جیسے نام نہاد اشرف المخلوقات سمجھنے سے قاصر ہیں یا تو وہ فہم و دانش سے بے بہرہ ہیں ۔۔۔۔۔ نہ صرف فہم و دانش سے بے بہرہ بلکہ کامن سنس سے بھی فارغ ہیں۔۔۔۔