Powered By Blogger

суббота, 31 октября 2015 г.

مذہبی انتہا پسندی و منافرت پاکستان کیلئے آکسیجن کا کام کر رہے ہیں

،بی این ایم

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کو ایک خطرناک صورتحال قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سربراہی میں مذہبی انتہاپسندی، شدت پسندی اور مذہبی منافرت کی پرورش کی جا رہی ہے، جس کا مقصد دنیا کو بلیک میل کرکے مراعات حاصل کرنا ہے جو آج پاکستان کیلئے آکسیجن کا کام کر رہے ہیں۔دوسری طرف انہی فدائین کو اپنے دشمن ممالک اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے تربیت دیکر افغانستان اور دوسرے ممالک میں بھیجا جا رہا ہے ۔آج یہ بات راز نہیں رہی کہ پاکستان کا دنیا کے تمام مذہبی انتہا پسندوں سے قریبی تعلقات ہیں ۔ القاعدہ سے لیکر لشکر جھنگوی کے رہنماؤں تک، تمام پاکستان کی محفوظ پناہ گاہوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی ہتھیار کو بلوچستان میں بلوچ جہد آزادی کے خلاف بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔مذہبی انتہا پسندوں کو عسکری تربیت و مالی معاونت کے بعد مسلح کرکے ڈیتھ اسکواڈ بنائے گئے ہیں جو بلوچستان میں فوج کی معاونت و مذہبی منافرت پھیلانے کا کام بھی کر رہے ہیں۔اسی طرح کا ایک عمل گزشتہ دنوں پنجگور میں دہرایا گیا۔ پنجگور میں قائم باب آجوئی کا نام اور شہداء کی تصاویر ہٹا کر جے یو آئی بلوچ دشمنی میں پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے ۔باب آجوئی پر پاکستان کا جھنڈا لگانا ہزاروں بلوچ شہداکی شہادت اور لاپتہ افراد کی گمشدگی میں شریک جرم کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔ چھ سالوں سے باب آجوئی ان شہدا کی تصویروں سے مزئین تھا مگر گزشتہ دنوں پاکستان کی انہی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر اسلام و انسانیت کے دعویداروں نے شہدا کی بے حرمتی کی۔ شہید غلام محمد، شہید لالا منیر ، شہید شیر محمد اور شہید رسول بخش کی تصویروں کی بے حرمتی ایک ناقابل برداشت عمل ہے۔جے یو آئی کو اپنے عمل پر نظر ثانی کرنا چاہئے اور عظیم شہدا کا احترام کرنا چاہئے۔ قرآن و اسلامی تعلیمات کا دعویدار جس غیر اسلامی طریقے سے شہدا کی بے حرمتی کررہے ہیں سے صاف عیان ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی و دوسرے خفیہ اداروں کی ایما پر چند علما اسلام کو بھی روندنے کو تیار ہونگے۔بلوچ علما کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی حرکات پر لب کشائی کریں اور پاکستان کی بلوچستان میں ہونے والی مظالم کو آشکار کرکے اپنا اسلامی و قومی فرض نبھائیں۔ ترجمان نے کہا کہ 29 اکتوبر کو فورسز نے قلات میں عام آبادیوں پر یلغار کرکے نہتے شہری عارف شاہ کو اغوا کرکے لاپتہ کر دیا ۔ اس سے پہلے گزشتہ مہینے قلات سے یاسر ، عمران، عنایت شاہوانی اور ہندو اقلیتی کے ساجن کو بھی حراست کے بعد لاپتہ کردیا ہے، جن کا تاحال کوئی خبر نہیں کہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔بلوچستان میں’مارو اور پھینکو ‘ کی پالیسی بھی بدستور جاری ہے ۔اگر انسانی حقوق کے اداروں نے خاموشی نہ توڑی تو ہزاروں لاپتہ افراد کی خاندانوں کو بھی اس کرب سے گزرنے کا اندیشہ ہے۔28اکتوبر کو اوڑماڑہ سے دو بلوچ فرزندوں محبوب اور علی مراد کی لاش ملیں جنہیں تین ہفتے پہلے پاکستانی فورسز نے مسافر گاڑی سے اُتار کر اغوا و لاپتہ کیا تھا۔

четверг, 8 октября 2015 г.


کسی اور دن کی یادیں

تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ : لطیف بلیدی
Mir Muhammad Ali Talpurفروری 1973ء میں حلف اٹھانے کے محض 10 ماہ بعد سردار عطاءاللہ مینگل کی حکومت کی غیر قانونی اور غیر منصفانہ برطرفی کے بعد بلاجواز اور ظالمانہ فوجی آپریشن کیخلاف بلوچ کی مزاحمت صوبے کی تاریخ میں سب سے زیادہ طویل، وسیع اور مضبوط ترین جدوجہد تھی۔
مینگل سرکار نے بڑی امیدیں اور توقعات لئے یکم مئی 1972 میں حلف اٹھایا لیکن روز اول سے اسے اپنی راہ میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وفاقی حکومت نے لسبیلہ میں اتھل پتھل پیدا کیا اور جام غلام قادر، سابق ریاست کے آخری حکمران، کے حامیوں کی صوبائی حکومت کے مبینہ ظلم و ستم کیخلاف ہتھیار اٹھانے کی حوصلہ افزائی کی۔ مینگل حکومت کو اس مصیبت پر قابو پانے کیلئے لیویز فورس میں اضافہ کرنا پڑا چونکہ وفاقی حکومت نے مدد بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ جام غلام قادر، لسبیلہ کے جام، مینگل حکومت کی برخاستگی کے بعد وزیر اعلیٰ بنے۔
سن 1973ء میں لاہور کے ایک عوامی اجلاس میں نواب اکبر بگٹی نے دعویٰ کیا کہ ’گریٹر بلوچستان‘ کیلئے ایک منصوبہ بنایا گیا ہے جسکا مقصد عسکری ذرائع سے پاکستان، ایران اور افغانستان میں بلوچ اکثریتی علاقوں پر مبنی خطے کی آزادی ہے۔ پنجابی افسران کو بلوچستان میں خدمات انجام دینے کیلئے بھیجنے کا مسئلہ بھی باعث آزار تھا اگرچہ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ پنجاب کے اس وقت کے گورنرغلام مصطفی کھر نے واپس آنے کیلئے افسران کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ ایران بھی بلوچوں کو کم سے کم خود مختاری ملنے پر اپنی سرحدوں کے اندر بلوچ کی مزاحمتی تحریک کے خوف سے خود کو غیر محفوظ محسوس کررہا تھا۔
اس ڈرامے کا آخری باب 10 فروری 1973 میں اسلام آباد میں عراقی سفارتخانے کے فوجی اتاشی ناصر السعود کی رہائش گاہ پر ہتھیاروں (300 عدد اے کے-47 بندوقیں اور 48,000 گولیاں) کا برامد ہونا تھا۔ بظاہر، یہ اسلحہ کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہتھیاروں کی برامدگی سے تین دن قبل السعود پاکستان سے غائب ہو چکے تھے۔ اتفاق سے یہ فوجی اتاشی ساواک کا ایجنٹ نکلا جسے بعد میں صدام حسین نے مار دیا تھا۔
مینگل حکومت 13 فروری کو برخاست کی گئی اور اس کے نتیجے میں صوبہ سرحد میں مفتی محمود کی حکومت نے بھی احتجاجاً استعفیٰ دے دیا چونکہ جے یو آئی کے ارکان مینگل حکومت کا حصہ تھے۔ نواب اکبر بگٹی گورنر بنائے گئے اور تقریباً ایک سال تک وہ اس عہدے پر براجمان رہے۔
یرے چچا میر رسول بخش ٹالپر، اس وقت کے گورنر سندھ، نے بھی استعفیٰ دے دیا کیونکہ ان کے بڑے بھائی اور میرے والد میر علی احمد ٹالپر پر عراقی سفارتخانے کے ہتھیاروں کے معاملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ان پر یہ الزام اسلئے عائد کیا گیا کہ اب یہ سب کو معلوم ہوچکا تھا کہ میں مری علاقے میں ہوں۔ یہ معلومات اکبر بگٹی کی مرہون منت پریس میں شائع ہوئی تھی۔
جمہوری طور پر منتخب حکومت کی برخاستگی بلوچ کیلئے اپنے حقوق کے دفاع اور ان پر کی جانیوالی نا انصافیوں کیخلاف لڑنے کیلئے کافی تھی۔
اس کی قیادت غوث بخش بزنجو، سردار عطاءاللہ خان مینگل، میر گل خان نصیر، خیر بخش خان مری، جو کہ نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) کے سربراہ تھے، اور دیگر نے کی جنہیں 1947 کے بعد سے بلوچ کی حالت زارپر اپنے خیالات کے اظہار کیلئے قید کی صعوبتیں اور سفری پابندیاں جھیلنی پڑیں۔
شیر محمد مری کو مارچ 1973ء میں گرفتار کیا گیا جبکہ مندرجہ بالا رہنماوں کو 1973ء کے آئین کے نفاذ کے فوراً بعد 15 اگست کو گرفتار کیا گیا۔ نواب خیر بخش اور میر علی احمد ٹالپر نے اس بنیاد پر آئین کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ یہ صوبائی خود مختاری کیلئے خاطر خواہ ضمانت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
بغاوت پربا ہونے والی تھی۔ بلوچ عوام جب تنازعے کے حل کیلئے بیکار میں انتظار کر رہے تھے تو حکومت مری اور مینگل علاقوں، 60 کے عشرے کی گزشتہ مزاحمت کے اہم مقامات، کی گھیرابندی میں مصروف تھی۔ انہوں نے رفتہ رفتہ اس حد تک گھیرا تنگ کردیا کہ مری علاقے میں رہنے والے لوگوں کو محض بنیادی راشن کے حصول کیلئے بھی انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک بار ہمارے چھوٹے سے گروہ کو چند دنوں کیلئے آٹے پر گزارا کرنا پڑا جو کہ کھانے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔ ہمارا گروہ تین مری قبائلیوں، ایک شہری کارکن، جو کہ گمنام رہنا چاہتے ہیں، اور مجھ پر مشتمل تھا۔ ہم ایک کمکار گروہ تھے، دو یا تین گدھوں پر ادویات اور کچھ اضافی راشن اٹھاتے اور دو بکریاں جنہیں ہم دودھ کیلئے رکھا کرتے تھے۔ میں بیماریوں کے علاج کے بارے میں تھوڑا بہت جانتا تھا جو کہ میں نے سندھ میں قیام کے دوران سیکھا تھا۔
مورخہ 18 مئی 1973ء میں سبی اسکاوٹس کی ایک آٹھ رکنی گشتی پارٹی پر تندوری کے قریب گھات لگا کر حملہ ہوا اور انہیں ہلاک کیا گیا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اسکا ذمہ دار کون تھا لیکن تین دن کے اندر اندر مری علاقے کے ایک چھوٹے سے قصبے ماوند میں ہیلی کاپٹروں، جوکہ فوجیوں کو لایا کرتے تھے، کیساتھ فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔ پندرہ دن بعد، کاہان پر علی الصبح قبضہ بھی اسی انداز میں شروع کیا گیا۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے۔ ہم جاگ چکے تھے اور چائے پی رہے تھے جب ہیلی کاپٹروں کی منحوس آواز نے ہمیں چونکا دیا کیونکہ ابھی تک اندھیرا تھا۔ ہم نے تقریباً 15 ہیلی کاپٹروں کو کاہان کی طرف پرواز کرتے ہوئے دیکھا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کردیا گیا تھا۔
فوج کیخلاف مزاحمت تقریباً فوری طور پر شروع کر دی گئی اور، ان الزامات کے برعکس کہ بلوچ جدوجہد غیر ملکی اعانت سے چل رہی ہے، یہ جدوجہد بلوچ حقوق کی صریح خلاف ورزی کا نتیجہ تھی۔ بلوچ جنگجووں کی طرف سے استعمال کیے جانیوالے ہتھیار یا تو 303 بندوقیں، پرانی لی اینفیلڈ سنگل شاٹ بندوقیں یا شکار کی بندوقیں تھیں۔ ایک اکیلی خود کار بندوق، اگر اسے یہ بلند و بالا درجہ دیا جا سکے، نائن ایم ایم کی ایک اسٹین گن تھی جو کہ اکثر چند گولیاں چلانے کے بعد جام ہوجایا کرتی تھی۔
مری جنگجو جنہیں ایک فائدہ حاصل تھا وہ تھا اپنے علاقے کے بارے میں معلومات؛ انہیں معلوم تھا کہ پانی کے چشمے کہاں ہیں، غاریں اور گھاٹیاں کہاں ہیں۔ وہ اپنی پُشتی، بیڈشیٹ جتنا کپڑا، پر اپنا آٹا اٹھاتے اور کلّی، چھوٹے مشکیزے، میں پانی اور معمولی راشن پر گزارا کرتے تھے۔ ان چیزوں کیساتھ مل کر ان کے عزم نے مریوں کو ایک قوی طاقت بنادیا۔ وہ لڑتے، پھر غائب ہوجاتے اور بعد میں کسی اور جگہ پر منظم ہو جاتے۔
مری کا علاقہ چھوٹا ہے، یہ محض 3,300 مربع میل ہے اور اسے کنٹرول کرنا نسبتاً آسان ہے، تو لہٰذا اسکا کریڈٹ مری جنگجووں کو جاتا ہے کہ اس جدوجہد کے دوران سب سے زیادہ کارروائیاں اسی علاقے میں ہوئیں۔ صحافی سیلگ ہیریسن کیمطابق، ایک وقت میں 80,000 فوجی صوبے میں تعینات کیے گئے تھے۔
آپریشن بے رحمانہ تھے اور انکے باعث وہاں کے باشندوں کی سماجی اور اقتصادی زندگی انتہائی حد تک تہ و بالا ہوکر رہ گئی۔ انہوں نے بلوچستان اور سندھ کے دیگر شہروں اور قصبوں کی طرف نقل مکانی کی۔ آخر میں، بہت ساروں کو افغانستان کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔ جن لوگوں نے موسم سرما میں ہجرت کی تھی ان میں نوجوان اور بوڑھوں کو یکساں طور پر شدید سردی اور سرما زدگی کے سبب ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی ہجرت نے تاہم زندگی کو کسی طرح سے بھی آسان نہیں کیا۔
ستمبر 1974 میں چمالنگ میں ایک فوجی آپریشن ہوا جہاں 15,000 مری اپنے خاندانوں سمیت جمع ہوئے تھے کیونکہ روایتی طور پر مری قبائلی اس علاقے میں اپنے گلوں کو چرانے کیلئے لیجاتے تھے۔ توپخانے کے علاوہ فوج نے مقامی مریوں کیخلاف میراج اور ایف 86 جنگی طیارے استعمال کیے اور اسکے ساتھ ساتھ ایرانی پائلٹوں کی طرف سے اڑائے جانیوالے ہُوئی کوبرا ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 125 گوریلاوں کو ہلاک اور 900 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم، بلوچ کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے ہیں اور یہ کہ انہوں نے 446 فوجی مار گرائے ہیں۔ 50000 کے قریب مال مویشی اور 550 سے زائد اونٹ چھینے گئے اور پنجاب میں لیجاکر فروخت کیے گئے۔ فوج نے دعویٰ کیا کہ یہ آپریشن ایک بڑی کامیابی تھی لیکن اصل میں مریوں کیلئے یہ محض ایک عارضی دھچکا ثابت ہوئی کیونکہ انہوں نے اپنی جنگ جاری رکھی۔
ہم سراغ لگنے سے بچنے کیلئے چھوٹے گروہوں میں نقل و حرکت کیا کرتے۔ یہ جنوری 1974 میں عید کا دن تھا اور ہم فوجی آپریشن سے بچنے کیلئے تدڑی کی طرف جا رہے تھے۔ اس سے چند روز قبل فوج نے ایک گھر پر حملہ کیا جہاں تنگو رمکانی، میر ہزار خان رمکانی کے ذیلی قبیلے کا ایک مری قبائلی، کے بھتیجے جلمب اور کرم ہلاک ہو گئے تھے۔ مری علاقے میں میر ہزار خان بغاوت کے رہنماء تھے۔ ہم نے وہ رات ہمیشہ کی طرح کھلے آسمان تلے سوکر گزاری اور علی الصبح چل دیے اس امید میں کہ ہمیں کہیں کسی مری کا گھر مل جائے جہاں ہم اپنے آٹے کے راشن کیساتھ روٹی پکا سکیں۔ ہم جیسے ہی ایک پہاڑ کے کونے پر مڑے تو ہم نے دھواں اٹھتے دیکھا جوکہ ہم نے سوچا کہ کسی گھر سے نکل رہا ہے۔ بظاہر وہاں رہنے والے لوگوں نے ہمیں دور سے ہی دیکھ لیا تھا اور جیساکہ ہمارے پاس بندوقیں تھیں تو انہوں نے ہمیں غلطی سے فوجی سمجھا اور اپنی پناہ گاہ چھوڑ دی تھی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو کوئی موجود نہ تھا۔ قریبی پہاڑوں میں سے کچھ لوگوں نے ہمیں آواز لگائی، یہ جاننے کے بعد کہ ہم فوجی نہیں تھے، اور ہمیں کھانے کیلئے رکنے کو کہا۔ لیکن ہم انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے، لہٰذا ہم وہاں سے آگے چلے گئے۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ اسوقت بھی اتنا ہی بڑے پیمانے پر تھا جتنا کہ اب ہے۔ ذرہ بھر شبہ ہونے پر لوگ اٹھائے جاتے یا بلوچ صفوں میں گھسنے والے چند خفیہ ایجنٹوں کی طرف سے فوج کے حوالے کر دیے جاتے۔ بہت سے لوگ کسی سراغ کے بغیر غائب ہوئے؛ ان میں سردار عطاءاللہ خان مینگل کے فرزند اسد اللہ مینگل اور ایک نڈر کارکن احمد شاہ کرد شامل ہیں۔ انہیں کراچی سے اٹھایا گیا اور پھر انکے بارے کبھی کچھ نہیں سنا گیا۔ دلیپ (جانی) داس کو شیر علی رمکانی مری کے ہمراہ بیل پٹ کے قریب سے اغواء کیا گیا، انہیں بھی ایک خفیہ ایجنٹ کی طرف سے ہتھے چڑھایا گیا اور ان دونوں کو بھی اسی انجام کا سامنا کرنا پڑا۔ شفیع محمد بادانی، بہار للوانی، علی دوست درکانی اور دیگر بہت سے لوگ بھی غائب کیے گئے۔
سرگرم کارکنوں کو اٹھایا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اسی طرح سے بہت سے قبائلیوں کو بھی۔ ان میں سے کچھ کو بعد میں رہا کر دیا گیا، تشدد کے باعث وہ اپاہج ہوچکے تھے۔ یہ وہی عرصہ تھا جسکے دوران کوئٹہ جیل کو توڑنے کا پہلا واقعہ پیش آیا۔ تشدد سے تنگ آئے چار نوجوان کارکنوں نے وہاں سے بھاگنے کا منصوبہ بنایا اور بعض دیگر قیدیوں کی بھی حمایت حاصل کی، اگرچہ وہ اس خطرناک مشق کو کرنے کیلئے تیار نہ تھے، جنہوں نے وعدہ کیا کہ مقررہ وقت پر وہ سب بیرونی دیوار پر لگے بجلی کے تاروں سے گزرنے والے کرنٹ کو کم کرنے کیلئے اپنے بجلی کے ہیٹر ایک ساتھ چلا دیں گے۔ تو لہٰذا منصوبے کیمطابق ایک قیدی نے دیوار پر چڑھ کر تاروں پر ایک رضائی ڈال دی اور دیوار پھلانگ دی، دیگر دو نے بھی یہی کیا لیکن چوتھا اپنی ٹانگ زخمی ہونے کے بعد دستبردار ہوگیا۔ قیدیوں کے دیوار پھلانگنے کے چند منٹ بعد گھنٹی بج گئی لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
دیگر صوبوں سے جو کارکنان جدوجہد میں ملوث تھے ان میں نجم سیٹھی، احمد رشید، راشد رحمن، اسد رحمن، دلیپ (جانی) داس، محمد بھابا اور میں شامل تھے۔ بلوچ قومی جدوجہد میں شمولیت اختیار کرنے سے قبل ان میں سے بیشتر لندن میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور یہ ”لندن گروپ“ کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ وہ بنیادی طور پر سیاسی کام میں ملوث تھے جس میں جبل نامی ایک خفیہ اخبار کی پرنٹنگ اور تقسیم بھی شامل تھی۔ وہ لوگوں کو تعلیم دینے اور بنیادی طبی امداد فراہم کرنے میں بہتری لانے کی تربیت دینے میں بھی ملوث تھے۔ فوجی آپریشن سے بچنے کیلئے شہری کارکن بھی پہاڑوں کی طرف فرار ہوئے اور انہی حالات میں رہے جن میں عام قبائلی رہ رہے تھے۔
دونوں متحارب اطراف سے ہلاکتوں کے بارے میں متضاد دعوے کیے جاتے ہیں، اگرچہ کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، یہ مانا جاتا ہے کہ اس جنگ کے دوران 3,000 فوجی اور 5,000 بلوچ مارے گئے تھے۔ لیکن دونوں اطراف سے اصل تعداد کو جاننے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے ممتاز بلوچوں میں سے چند یہ تھے: جھالاوان میں سفر خان زرکزئی، میر گل خان نصیر کے بڑے بھائی اور ستر سالہ ضعیف میر لونگ خان جو اپنے گاوں مالی کا دفاع کرتے ہوئے ہلاک ہوئے اور جلات خان درکانی۔ جب ضیاءالحق نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے مختلف جیلوں میں قید کیے گئے تقریباً 6,000 بلوچ رہا کر دیے۔
بھٹو کو ضیاء کی طرف سے معزول کیے جانے کے بعد، فوج کی سرگرمیوں کو عملی طور پر روک دیا گیا اگرچہ معمولی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ضیاء کی طرف سے بلوچ رہنماوں کی رہائی، حیدرآباد ٹربیونل کے خاتمے اور سب کیلئے عام معافی کے اعلان نے جدوجہد کو توڑ کر رکھ دیا۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ جدوجہد کے تسلسل کو جاری رکھنے کے حوالے سے اختلاف رائے پیدا ہوا، نہ صرف غیرفعال این اے پی کے پشتون اور بلوچ قیادت کے درمیان، بلکہ بلوچ رہنماوں کے آپس میں اختلافات ابھر کر سامنے آئے۔ زیادہ تر بلوچ رہنماوں، جو کابل میں جلاوطنی میں رہ رہے تھے، نے واپس آنے کا فیصلہ کیا اور صرف مریوں نے وہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ وہ صرف 1992ء میں افغانستان میں نجیب اللہ کی حکومت کے زوال کے بعد واپس آئے جیساکہ بنیاد پرست قیادت کہ جنہوں نے نجیب کی جگہ لے لی تھی بظاہر پاکستان کی حمایت کیلئے اسکے انتہائی شکرگزار تھے اور انہوں نے مریوں کی میزبانی کرنے سے انکار کر دیا۔
ذوالفقار بھٹو کے دور میں بلوچستان میں فوجی آپریشن کیخلاف بلوچ بغاوت کو 36 سال بیت چکے ہیں۔ لیکن صوبہ ایک بار پھر گرما رہا ہے۔ مشرف کے دور اقتدار میں ایک فوجی تصادم کے دوران نواب اکبر بگٹی اور ان کے ساتھیوں کا قتل اور حال ہی میں تربت میں تین بلوچ قوم پرستوں کے قتل نے بلوچ میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔
اگر صوبے کی شکایات کا جلد ازالہ نہیں کیا گیا تو بلوچستان ایک اور بغاوت دیکھ سکتی ہے اور اب کی بار اسکے نتائج خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

пятница, 2 октября 2015 г.

سردار ثناء اللہ زہری کے ظلم کی ایک انوکھی داستان………. تحریر: دارو بلوچ


سردار دوداخان زرکزئی کا عروج اس وقت شروع ہو اجب انہوں نے بلوچ قوم کے ساتھ غداری کی، وہ پاکستان کی طرف سے قرآن پاک اٹھا کر آزادی پسند رہنما بابونوروز خان کے ہاں میڑھ لے کرگئے جب بزرگ بلوچ قابض ریاست پاکستان کے ساتھ جنگ میں مشغول تھے ۔دودا خان نے بابونوروز خان اور اس کے برسر پیکار سرفروشوں کو قرآن پاک کی ضمانت پرپہاڑوں سے اتارا۔انہوں نے جھوٹا وعدہ کیاکہ پاکستان نے آپ کے ساتھ مذاکرات کرنے کا قسم اٹھاکر مجھے آپ کے ہاں بھیجا ہے تاکہ میں ثالث بن کر مسائل جنگ کے بجائے بات چیت ذریعے حل کرواؤں۔یہ کہنے بعد بہادر بلوچ نے مقدس کتاب کو شرف دیکر اپنے کامریڈوں کے ساتھ پہاڑوں سے اترنے کا فیصلہ کیا مگر پاکستان اور دوداخان اپنے وعدے سے مکرگئے بعد میں انکو عمر قید اور اسکے سات ساتھیوں کو پھانسی دی گئی ۔تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ وطن کے فرزند پھانسی گھاٹ پر چڑھے تو انکے پاس مقدس قرآن پاک تھی انکا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیں نہیں مقدس کتاب کو پھانسی دے رہا ہے ،کیونکہ ہم اس کتاب کے بھروسہ پر پہاڑوں سے اترے تھے یہ سمجھ کر کہ ہمارے ساتھ قابض ریاست گفت شنید کر رہی ہے مگر یہ ریاست انتہائی بھاڑی (کمزور،لغور،ڈرپوک)نکلا ۔
بلوچ وطن کے جیالے اپنا لہو مقدس زمین پر نچھاور کرکے امر ہوئے وہاں دودا خان بھی تاریخ کے سیاہ باب میں جگہ پاکر اس کے بعد بے موت مرگئے۔ تاہم مرنے سے قبل اس کے آقا پنجابی نے اپنے اس دلال کو جب تک زندہ تھا خوب پالا پوسا۔غداری کے انعام میں نہ صرف انہیں بلکہ اس کی آنے والی نسلوں کوبھی کھلی چھوٹ دی کہ آپ اپنے قوم کے ساتھ جو بھی سلوک، برے سے برا روا رکھیں آپ کو تحفظ دیا جائے گا اور آپ کے غیر قانونی عملکو قانونی شکل دی جائے گی۔ بعد کے حالات اور واقعات نے یہ ثابت کیا کہ یہاں پاکستان نے وفا کی اور موصوف نے برائی کی ابتداء اپنے ہی ہمسایوں سے شروع کی۔ ملاحظہ ہو انکے ہمسائیوں کی دردبھری خط جو اس وقت کے پاکستان کے صدر ضیاء الحق کو سردار دوداخان زرکزئی اور اس کے بیٹے کے ظلم بارے میں لکھا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بحضوروالاشان صدرمملکت
جناب جنرل محمد ضیاء الحق صدر پاکستان
موضوع: حق رسانی ونجات ظلم وستم از سردار دوداخان و میر رسول بخش وغیرہ
جناب عالی!
بمعاملہ مندرجہ صدر گذارش ہے کہ ہم اہلیان انجیرہ صدیوں سے اس خطہ زمین پر اپنے آباو اجداد سے لیکر آج تک بودوباش رکھتے چلے آرہے ہیں ۔ماضی کے حکمرانان قلات ہمارے آباو اجداد سے مروجہ ایک ریاستی ٹیکس یعنی ششک (ا۔۶ حصہ)۱۳۲۳ تک وصول کرتے رہے ہیں۔
2۔ ان حکمرانان قلات میں سے کمال خان التازئی خان میر نصیر خان خود خان خدائے داد خان ،خان محمود خان اور دوسرے خوانین کے دستاویزات ہمارے پاس موجود ہیں۔ہمارے اس علاقہ کی بودوباش کو ظاہر کرتی ہیں ان دستاویز ات میں سے ۱۲۰۰ھ ،۱۲۵۵ھ،اور دو ۱۲۸۲ھ کے ہیں موضع انجیرہ کا زیادہ تر حصہ خشکابہ ہے اور اس میں ایک چھوٹا چشمہ ہے جو ابھی تک خان کے نہر سے مشہور ہے اور ایک پرانا کاریز ہے ان دونوں کا پانی ایک جگہ مل جاتا ہے ،کل پانی بیس شبانہ ہے اس پانی کا چھ شبانہ ہم لوگوں کی ملکیت ہے لیکن ابھی سردار موصوف نے ہمیں پانی سے محروم رکھا ہواہے۔
3۔جناب عالی !۱۳۳۳ھ میں ایک مروجہ ٹیکس (ششک )کو نامعلوم کس طرح سردار صاحب کے دادا میر پسند خان اس وقت کے حکمران خوانین قلات سے حاصل کیا تھا خوانین کی طرح میر پسند خان یہ ٹیکس اپنے زمانے میں ہمارے پرانے لوگوں سے لیتا رہاہے اور اس ضمن میں اپنے اس ششک سے متعلق ایک دستاویز ہی ہمارے لوگوں کو ۱۳۲۳ھ میں دی ہے جوکہ ہمارے پاس محفوظ ہے۔
4۔سردار میر پسند خان کے بعد اس کا بیٹا سردار رسول بخش جوکہ نام بردہ کے والد تھا ہم سے چھٹا حصہ لیتا رہا تھا اور اس کے بعد سردار صاحب بھٹو کے دور حکومت تک یہ ٹیکس لے رہا تھا۔ سردارموصوف کے والد کا بھی ایک دستاویز ہمارے پاس موجود ہے۔
۵۔عالی قدر!جب سابقہ وزیر اعظم بھٹو نے یہ فرسودہ نظام ششک ختم کرنے کا اعلان کیا تو بلوچستان کے مختلف جگہوں پر زمینداروں نے ششک دینا بند کردیئے لیکن ہم باشندگان انجیر ہ شروع ہی سے سردار صاحب کے ظلم کے پاؤں تلے روندے چلے آرہے تھے ۔بھلا اس کو کس طرح ششک دینے سے انکار کرسکتے تھے دوسری طرف سردار صاحب کو بھٹو حکومت نے بڑے اختیارات سے نوازاتھا۔اس وقت کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اس کیلئے نائب کے طورپر کام کرتے تھے۔ سردار مذکورہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر ہمیں اپنے زمینوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے بیس آدمیوں کو بغیر کسی گناہ کے گرفتار کرواکے چار ماہ تک خضدار جیل میں رکھا گیا۔دوسری طرف ہمارے ربیع کے فصل کے تقریباََسینکڑوں بوری لوٹ لیئے۔اس دوران گورنمنٹ کی طرف سے ریلیف فنڈ سے ہزاروں گھنٹے لیکر ہمارے زمینوں میں بلڈوزر کے ذریعے کام کروائے اس طرح دوتین بندات کو توڑکر بڑے بڑے بند بنوائے۔ اس ظلم وستم وناانصافی اور لاقانونیت کے خلاف کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر قلات کو درخواست دی۔ہوایہ کہ ہمارے گرفتار شدہ افراد حفظ امن کے طورپر ضمانت پر رہا کردیئے گئے ۔
6۔رہائی کے بعد ہم لوگو ں نے اپنے زمینوں میں ہل چلائے تو سردارنے اپنے غنڈوں کے ساتھ ہمارے گھروں پر حملہ کیا۔عورتوں کی بے حرمتی کی گئی اور کئی افراد کو زخمی کیاگیا ،کئی افراد کو زبردستی لے جاکر اپنے بنائے ہوئے قید خانہ میں بند کیا گیا ،بہت سے زخمی لوگ کئی عرصہ تک ہسپتال میں پڑے رہے۔ اس حملے کے دوران ہمارے سولہ بیل لوٹ کر لے جائے گئے تا ہنوز ہمارے ہاتھ نہ آئے۔اس کے بعد سٹلمنٹ والوں کوسردار صاحب لائے اور وہ صرف اُس کیلئے اراضیات کا اندراج کررہے تھے تو ہم لوگوں نے ان کے خلاف درخواست دیکر پیمائش رکوایا اس ظلم وبربریت کے خلاف اسسٹنٹ کمشنر ڈپٹی کمشنر قلات کے عدالت میں ایک درخواست حق رسی کیلئے دیدیا۔ اسسٹنٹ کمشنر ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ملکر ہمارے حق رسی کرنے کے برعکس یکطرفہ فیصلہ سردار کے حق میں دیا گیا نہ ہمارے لوگوں سے دستاویز ی اور نہ شخصی ثبوت طلب کیا گیا۔
7۔ہم نے اسسٹنٹ کمشنر کے فیصلہ کے خلاف 1976ء میں سیشن جج مستونگ کے عدالت میں اپیل داخل کردی عدالت تین سال تک سمن جاری کرنے کے باوجود موصوف عدالت میں پیشی دینے پر حاضر نہ ہوا اس دوران ہمارے چند سرکردہ آدمیوں کے قتل کرنے کیلئے اپنے غنڈے پیچھے لگائے تھے اور یہ اپنے جان بچانے کیلئے انجیرہ سے باہر چھپے تھے کیونکہ ہمارے پاس نہ تو اسلحہ اورنہ کوئی ذریعہ تھاکہ سردار کا مقابلہ کرتے ۔سابقہ وزیر اعظم بھٹو نے سردار کو نہ صرف مالی بلکہ عسکری مدد بھی فراہم کی تھی۔ کئی رائفلیں اور ہزاروں کارتوس سردار کو دئیے گئے تھے، اس بات کی ثبوت میں سردار کے چچا زاد بھائی میر امان اللہ خان نے ایک اخباری بیان دیا تھا جوکہ ہمارے پاس موجود ہے۔
8۔جون78 19ء کو سردارنے ہمارے ان آدمیوں کو ڈرایا دھمکایا اور قتل کرنے کی دھمکی دی جن کے نام پر اپیل کورٹ میں تھا اس نے علاقہ کے چند معتبر ان کے پاس بھیجے کہ وہ انھیں سردار کے طاقت سے ڈراکر فیصلہ کرنے پر مجبور کردے، ہمارے بے تعلیم اور سادہ لوح ا فراد ان کے باتوں میں آکر سردار کے ساتھ بلوچی رسم ورواج کے مطابق فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے فیصلہ اس طرح ہواکہ خدا کا نام لیکر اور قرآن شریف درمیان میں رکھ کر اور کلمہ پڑھ کر سردار نے کہاکہ میں ان کی زمینات انھیں واپس دیدیتاہوں اور ان کے پہلے والے حقوق بحال ہیں تو اس فیصلہ کے ایک ماہ بعد کیس کو عدالت سے سردار نے ہمارے غیر موجودگی میں نکلوایا تھا ۔کیس خارج کرنے کے بعد ان چار معتبرین جوکہ فیصلہ میں موجود تھے انجیرہ آکر سردار کو کہا کہ ان کو انکی اراضیات دیدیا جائے جس طرح کہ آپ نے فیصلہ کیا تھا تو سردار نے کہا اب دوبارہ جب پیمائش ہوگا تو ان کا حقوق کھتونی کی شکل میں لیکر دیدونگا۔
9۔اس فیصلہ کے تین سال گذر جانے کے بعد سردار نے ہم لوگوں کو مختلف طریقوں سے تنگ کرنا شروع کردیا تاکہ ہم لوگ مجبور ہوکر انجیرہ چھوڑ جائیں اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کئے گئے اس ظلم وستم کی روئے داد اس روئے زمین پرنہیں ملتی۔
10۔ہم لوگوں کو پانی (نہرسے) پینے نہیں دیتا اور نہ ہمارے مال مویشیوں کو پانی پینے کیلئے چھوڑتا ہے ۔موصوف کے اس رویہ سے تنگ آکر ہم لوگوں نے اپنے گھروں کے ساتھ ایک کنوا ں کھودا ہے جس سے ہم اور ہمارے مویشی پانی پیتے ہیں۔
11۔گذشتہ جون 1981ء کی بات ہے کہ اس ظالم نے ہمارے پانچ چرواہوں کو گرفتار کرکے ان کو عبرتناک سزادی اور اپنا قیدی بنالیا۔اس بناپر کہ آپ لوگوں بھیڑ بکریوں کی ریوڑ پانی پیتے وقت پانی کو خراب اور کم کرتے ہیں اسطرح ان چرواہوں کو چارمہینے تک اپنے قید میں رکھا گیا اور ہر ایک سے چھ چھ ہزار(30)روپے وصول کرکے چھوڑدیا گیا جبکہ وہ روٹی کے محتاج ہیں۔علاوہ ازیں قرب جوار کے پہاڑوں میں ہمارے بھیڑ بکریوں کے چرائی پر بھی پابندی لگائی ہے اور جرمانہ تیس ہزار روپے رکھا ہواہے۔
12۔ہمارے لیئے تمام راستے بند کردیا گیا ہے صرف ایک راستہ ہے جوکہ مشرق کی طرف ہے باقی تین طرف سے بند کیا ہوا ہے اگر خدانخواستہ بھول چوک سے ہمارے مال مویشی دوسرے راستوں سے جائیں تو ہم سے مندرج بالا رقم وصول کیا جاتا ہے یاکہ ہمارے بھیڑ بکریوں کو اپنے لئے لے جاتا ہے سب سے بڑی ظلم یہ کہ ہمارے مکانوں کی چھتیں گررہی ہیں اور لپائی کرنے نہیں دیتا ہم ان کی مرمت رات کے اندھیرے میں کرتے ہیں اس طرح ہمیں ایک دائرے میں بند کرکے ہماری زندگی تلخ کردی گئی ہے۔
درخواست گذاران اہلیان انجیرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرحوم دودا خان اپنے ظلم اور رسوائی کے ساتھ اس دنیا سے ایک ایکسیڈنٹ کی شکل میں گذرگئے اس کے بعد میر رسول بخش اپنے بھائیوں کے ہاتھوں مارے گئے ۔مارنے والوں میں ثناء اللہ زہری بھی شامل تھے ۔ان کی ہلاکت بعد ثناء اللہ کیلئے سرداری کی فرسودہ اور ظالمانہ سیٹ خالی ہوئی کیونکہ رسول بخش کے بیٹے اس وقت طفل تھے۔موصوف نے سرداری اپنے ہاتھ میں لیکر باپ کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑدیئے ۔موصوف نے زہری اور انجیرہ کے علاوہ پورے بلوچستان اور بلوچ پر اپنی ظلم کی گرفت مضبوط کی ۔ بلوچ اپنی جگہ شاید یہ اب اقوام عالم کیلئے بھی درد سر پیدا کرے؟اگر یہ کہا جائے کہ موصوف نے اقوام عالمکیلئے بھی گڑھا کھود دیا ہے تو غلط نہ ہوگا وہ یوں کہ انہوں نے اپنے آبائی علاقہ زہری میں القاعدہ ،اور داعش کو جگہ دے رکھی ہے جہاں آزادا نہ طورپر انکی نقل حرکت دیکھی جاسکتی ہے ۔عینی شایدین کا کہنا ہے کہ ایمن الظواہری بعد القاعدہ کے دوسرے چوٹی کے رہنما جن کا تعلق یمن سے ہے اپنے دوسو عرب ساتھیوں کے ساتھ زہری مشک کے پہاڑوں میں مقیم ہیں ۔انہیں راشن اور گولہ بارود بھی ثناء اللہ زہری کے کارندے جن کے ہاتھ بلوچ آزادی پسندوں کے خون سے رنگے ہیں پہنچاتے ہیں۔لشکر جھنگوی جیسے دوسرے نام نہاد بنیاد پرست پہلے ہی اس علاقہ میں موجود تھے ۔(جن کی پشت پناہی ثناء کے بھتیجے میر زیب کرتے تھے، میر زیب پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے اہم کارندے تھے اور اس کے ہاتھوں ہزاروں بلوچ آزادی پسند غائب اور سینکڑوں شہید ہوئے تھے ۔وہ متعدد ٹارچر سیل چلاتے تھے ،کہتے ہیں کہ جب میر زیب بلوچ جہد کاروں کے ہاتھوں مارا گیا تو راولپنڈی کینٹ میں بڑے بڑے فوجی افسر دہاڑیں مارمار کر رونے لگے کہ کاش میر زیب کی جگہ شفیق مینگل ،اس کا بھائی عطاء الرحمان ،ثناء اللہ زہری سمیت سینکڑوں ڈیتھ اسکوائڈ کے کارندے مرتے مگر میر زیب کو کچھ نہ ہوتا)داعش کی زہری آمد حالیہ چند مہینوں ہوا ،اگرکوئی کراچی سے کوئٹہ جاتے یا آتے ہوئے انجیرہ زہری کراس سے گذراہو وہاں ایف سی اورثناء اللہ زہری کے ڈیتھ اسکوائڈکی مشترکہ چوکی ہے ،جہاں دیواروں اور پہاڑی کے ٹیلے پر یہ جملہ ضرور دیکھا ہوگا ۔ہم داعش کی زہری آمد پر انھیں خوش آمدید کہتے ہیں ۔گویا انکی آمد اسی روز ہوا جب یہ جملہ اسی علاقہ کے کراس پر لکھا گیا یہ بلوچ سمیت عالمی دنیا کیلئے کیا گل کھلائے گی یہ آنے والا وقت ہی بتا ئے گا؟
مدعا یہ کہ سردار ثناء اللہ زہری کے کالے کرتوت عوام کے سامنے لائے جائیں کہ انہوں نے کیا کیا کارنامے اپنے والد ظالم مرحوم کے بعد انجام دیئے ہیں۔ثنا زہری اپنے بھتیجے میر زیب اپنے بیٹے میر سکند ر کو عام بلوچ قبائل،بلوچ جہدکار اور عام کاروباری حلقے دکاندار ،ٹرانسپورٹرز غرض زندگی کے دوسرے شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں مرد وخواتین شامل ہیں پر طرح طرح کے ظلم ڈھانے پر استعمال کرتے تھے۔
دودا خان کے مرنے کے بعد انجیرہ میں دوسو کے قریب رہائشیوں کی تکالیف کم ہونے کے بجائے مذید بڑھ گئیں کیونکہ دودا خان بوڑھے تھے جبکہ اس کا بیٹا ثناء اللہ خان جوان تھا اس کی خون گرم تھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو کام باپ نے نامکمل چھوڑا بیٹے نے وہ پورا کرکے دکھایا تاکہ باپ کی شیطانی روح کو سکون مل سکے۔یہ حقیقت ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ باپ بلوچ قوم کے ساتھ غداری کرکے دشمن میں شہرت پاتے ہیں اور بیٹا چالیس سال بعدبھی بلوچ قوم کیساتھ غداری کرکے اس منصب پر پہنچتے ہیں۔باپ اپنے زندگی کے آخری ایام تک انجیرہ کے ان مسکین باسیوں پر ظلم کرتے ہیں بیٹا ظلم کی ابتدا وہیں سے کرتے ہیں جہاں سے باپ نے چھوڑا تھا ۔ ہم بلا جھجھک کہہ سکتے ہیں کہ ثناء اللہ خان زہری کو عام عوام پر ظلم اوربلوچ قوم سے دلالی کرنا دونوں ورثے میں ملیں غلط نہ ہوگا۔ملاحظہ ہو یہ خط جو ثنا اللہ خان زہری اور اس کے دیگر بھائیوں بارے کیا حقائق سامنے لاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بخدمت جناب ہوم سیکرٹری صاحب حکومت بلوچستان بمقام کوئٹہ
جناب عالی!
گذارش ہے کہ 27/10/97کو ایک کاپی درخواست جناب وزیر اعظم پاکستان کے نام جاری کیا تھا۔اس کا ایک کاپی جناب والا کو فیکس کرچکے ہیں امید ہے مل چکا ہوگا لیکن تاحال حکومت کی طرف سے واقع سے متعلق کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے ۔بلکہ قلات انتظامیہ مظلوموں کو تحفظ دینے کی بجائے ایک فریق بن گئی ہے۔
جناب عالی !…….مورخہ 24.10.1997کو سردار ثناء اللہ خان زہری سینیٹر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ممبر اس کے بھائی میر نعمت اللہ اور میر مہراللہ ،اور نائب عبدالرحیم ولددوست محمد جمعدار لیویز تحصیل زہری میر رحیم خان ،عطر خان پسران میر جعفر خان زہری اشتہاری مجرم اور دیگر اپنے تیس باڈی گارڈز کے جوکہ مختلف مقدمات میں اشتہاری مجرم ہیں انجیرہ میں پناہ لیئے ہوئے ہیں ۔ان سب کو مختلف پوزیشنوں پر چاروں طرف سے مورچہ بند کرکے خود سردارسینیٹر ثناء اللہ خان صبح نو بجے خلقِ انجیرہ کے تمام بندات پر بلڈوزر چلانے لگے ۔یہ بندات شکابہ بارش کے پانی سے سیراب تھے اور ان میں گندم کی بوائی ہوچکی تھی ۔ان کو ہموار کررہے تھے ۔حاجی علی دوست اپنے بوڑھی اہلیہ کے ساتھ سردار صاحب کے پاس قرآن مجید لے کرگئے اور منتیں کیں لیکن قرآن کریم کی عزت کئے بغیر حاجی علی دوست اور اسکی بیوی کو شدید زدوکوب کیا۔اسی دوران ہمارے کچھ اور آدمیوں نے جن میں مردوزن شامل تھے قرآن مجید کا واسطہ لیکر اس کی طرف منتیں لیکر جارہے تھے کہ ان پر سردار ثناء اللہ خان نے خود فائر کھول دیا۔ جس کے نتیجے میں ایک نوجوان طالب علم عید محمدولد محمد عیسیٰ کو سینے میں گولی لگی جوپار ہوگئی اوروہ شدید زخمی ہوگیا۔اس کوفوری طور پر سول ہسپتال سوراب لے جایا گیاجہاں سے کوئٹہ منتقل کیا گیاجوکہ ابھی تک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔وقوعہ بعد شام چار بجے محمد خان ولد رئیس حبیب خان۔محمد اسماعیل ولد عبدالقادر اور محمد صدیق ولد حاجی علی دوست ایف آئی آر درج کرنے تحصیل سوراب گئے۔اسسٹنٹ کمشنر موجود تھا اس نے کہاکہ نائب تحصیلدار انجیرہ واپس نہیں آیا ہے اور ریڈر بھی اس کے ساتھ ہے لہٰذا آپ لوگ کل نوبجے صبح ایف آئی آر درج کرنے سوراب آجائیں۔
25.10.1997کو تینوں آدمی ایف آئی آر درج کرنے سوراب چلے گئے ۔ریڈر نثار احمد نے اسسٹنٹ کمشنر کے ہدایت کے مطابق ایف آئی آر رپورٹ لکھ لی۔اس کی کاپی لینے اور ایک کاپی پر دسخط کرنے کیلئے اے سی نے کہاکہ یہ نائب تحصیلدار کا کام ہے۔جب نائب تحصیلدار کے دفتر پہنچے تو ان سے کاپی وصول کرنے کیلئے کہا گیا۔اور تحصیلدار صاحب نے تینوں آدمیوں محمد خان ،محمد صدیق اور محمد اسماعیل کو گرفتار کروایاجوکہ اب تک قلات کے جیل میں قید ہیں۔
جناب والا! کیا نائب تحصیلدار سوراب اور اسسٹنٹ کمشنر کے یہ اقدام انصاف اور قانون کے اصولوں کے منافی نہیں ہے؟انھوں نے مظلوموں کی دادرسی بجائے ظالم اور اس کے اشتہاری مجرم باڈی گارڈوں کو تحفظ دی ہے۔اور الٹا ہمارے غریب ظلم کے چکی میں پسے ہوئے لوگوں کے خلاف سینیٹر ثناء اللہ خان کے کہنے کے مطابق ایف آئی آر درج کی اور درخواست دینے والے افراد کو گرفتار کیا۔اور نہ جانے ان کے خلاف کیاکیا دفعات لگائے گئے اور ابھی تک ان تینوں افراد کو حبس بے جا میں رکھا گیا ہے۔
جناب عالی ۔ وقوعہ کے تیسرے دن کرم خان ولد علم خان کو گرفتار کیا گیا جوکہ ایک بے گناہ معصوم لڑکا ہے،نائب تحصیلدار سوراب کی یہ اقدام اس معاملے کو مزید خراب کرنے کی ایک کوشش ہے۔
جناب والا! روزانہ نائب تحصیلدار انجیرہ جاکر ہمارے لوگوں کو حراساں کرتا رہتا ہے۔تحصیلدار صاحب خود لوگوں کو جاکر دھمکیاں دے رہا ہے انجیرہ کے تمام چھوٹے بڑے افراد کا نام ایف آئی آر میں درج کی ہیں۔معصوم طالب علم جوکہ پڑھنے کیلئے سکول نہیں جاسکتے ہیں۔ان تمام افرا دکے خرید فروخت کا سامان وغیرہ سوراب بازار ہے ان کو سوراب جانے پر پابندی ہے۔اور ایک خوف ہے اگر سودا سلف لانے جائیں گے تو گرفتار ہونگے۔اس خوف و پریشانی اور اشیاء خوردنوش کی عدم دستیابی کی وجہ سے خطرہ ہے کہ کلی انجیرہ کے مظلوم مسکین مکین بھوکوں مرنہ جائیں۔
جناب والا !انجیرہ میں دو پرائمری سکول ہیں دونوں کی پکی بلڈنگ ہے ایک لڑکیوں کی ہے جوکہ 1992ء میں عوام کی کافی جدوجہد کے بعد تعمیر ہوئی مگر بدقسمتی سے سردار ثناء اللہ خان نے اپنے کرائے کے ایک سپاہی کے ذریعہ قبضہ کرایا اور ابھی تک اس پر سردار کا قبضہ ہے اور بے چاری لڑکیاں کھلے آسمان تلے تعلیم پا رہی ہیں۔محکمہ تعلیم کو اس سے متعلق جانکاری ہے لیکن شاید وہ انجیرہ کے مظلوموں کی طرح مظلوم بنے بیٹھے ہیں۔کیا یہ انصاف جمہوریت اور ایک اسلامی مملکت کے قوانین اور اصولوں کے مطابق ہے؟ اگر ہے تو عمل درآمد کون کرے۔؟
جناب والا!وقوعہ کے دن بچے اسکول میں پڑھ رہے تھے کہ فائرنگ شروع ہوئی ۔بچے بڑے خوف زدہ ہوئے اور کچھ بچے بے ہوش ہوئے تھے۔وقوعہ کے دوسرے دن سردار ثناء اللہ خان کے آدمیوں نے لڑکوں کے اسکول کو زبردستی بندکروایا اورماسٹر وں کو ڈرایادھمکایا۔ اس طرح اسکول ابھی تک بند ہے ۔کیا محکمہ تعلیم نے اس طرف توجہ دی ہے؟
جناب والا !قلات انتظامیہ ایک فریق بن گئی ہے گویا کہ نائب تحصیلدار سوراب سردار ثناء اللہ خان کے نائب اول اسسٹنٹ کمشنر سوراب نائب دوئم اور دپٹی کمشنر قلات نائب سوئم بنے بیٹھے ہیں اور ثناء اللہ خان کو قانونی مشورہ دے رہے ہیں۔
جناب عالی! اس سے قبل سردار موصوف کے بڑے بھائی میر علی نواز نے 1995 ء میں ہمارے گاؤں اور آبادی کے اوپر ایک بہت بڑا بند بلڈوزر کے ذریعے باندھنا شروع کیا۔مظلوموں نے اس کی منتیں کیں قرآن پاک کا واسطہ دیا لیکن وہ بضد رہے اس وقت بھی نائب تحصیلدار جمال شاہ تھے۔اور ثناء اللہ وزیر بلدیات تھے ہماری شنوائی نہ ہوئی۔بند باندھنے مقصد یہ ہے کہ یہ بند پانی سے بھرجائے اور ٹوٹ جائے جس سے انجیرہ کے ان مظلوموں کی مکانات اور آدمیوں کو نقصان پہنچ جائے۔تاکہ یہ مصائب و مشکلات سے دوچار ہوکریہاں سے نکل جائیں۔کیا اس اکیسویں صدی اور اس شعوری دور میں کوئی تصور کر سکتا ہے کہ اہلیان انجیرہ کے ساتھ اس طرح کا ظلم ہوسکتا ہے؟اگر کسی کو شک ہوتو اپنے نظروں سے اس کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔
جناب والا! 1996ء میں سردارثناء اللہ خان نے اہلیان انجیرہ کے چند بندات کو بذریعہ بلڈوزر ہموار کرکے ایک بہت بڑا بند ڈیم بنا لیا ۔لوگوں نے حسب ضابطہ میڑھ اور قرآن شریف کا واسطہ دیا اور اس وقت اقتدار کے نشے میں چور کسی کی آہ زار ی پر توجہ نہ دی اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔یہ بند بھی ظلم اور ناانصافی کا نمونہ لیئے ہوئے ہر دیکھنے والے کیلئے ایک ثبوت ہے۔
جناب عالی !آخر میں اہلیان انجیرہ اللہ ربالعزت اور واحدالقہار کو جو سمیع البصیر ہے ۔حق وانصاف اور ظلم زیادتی کو دیکھ رہا ہے کہ کون ظالم اور کون مظلوم ہے ۔حاضر ناطر سمجھ کر جو کچھ اپنے درخواست میں تحریر کی ہیں حقیقت اور سچائی پر مبنی ہے آپ سے التجا اور التماس کرتے ہیں کہ حق وانصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اہلیان انجیرہ کو سردار ثناء اللہ خان اور انکے بھائی اور دیگر اشتہاری مجرموں اور قلات انتظامیہ کی یک طرفہ پالیسی اور ظلم وستم سے نجات دلائیں۔ہمارے حبس بے جا میں رکھے ہوئے تینوں افراد محمد خان ،محمد اسماعیل،اور محمد صدیق کو رہائی دلائی جائے ۔بچوں کے اسکولوں کو کھولا جائے ،لڑکیوں کی اسکول کو مجرموں کی قبضے سے خالی کروایا جائے ،ہمارے دیگر تمام افراد کے نام جو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اس کو منسوخ کی جائے۔اور ہمارے تمام افرادکو تحفظ دی جائے اور قلات انظامیہ کو اس کی غلط پالیسی غریب ومظلوم دشمنی کی تحقیقات کی جائے اور انظامیہ کو ٹرانسفر کیا جائے۔
جناب والا!ہم اہلیان انجیرہ مروجہ ششک کے اصول کے مطابق جوکہ کئی صدیوں سے ششک دیتے آرہے ہیں۔ششک دینے کیلئے تیار ہیں۔سردار ثناء اللہ خان کے پردادا سردار پسند خان نے خوانین قلات سے جو ششک (چھٹا حصہ) حاصل کی تھی اس کے بعد سردار پسند خان اور اہلیان انجیرہ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے جس کا رسید اور قبضہ ہمارے پاس موجود ہے۔اس تحریر (رسید)کے مطابق ششک دینے کیلئے تیار ہیں۔
جناب والا!ہم اہلیان انجیرہ کے تمام اراضیاتبہت سے افراد پر تقسیم ہے اور ہر ایک فرد اپنے زمینوں پر قابض ہے اور 1997 ء جون تک ربیع کی فصل گندم کی بٹائی ششک سردار موصوف اور اس کے بھائیوں کو دے چکے ہیں۔کیا سردار موصوف اور انتظامیہ قلات صدیوں سے آبادموروثی بزگروں کو ان کیاراضیات (بندات)سے بے دخل کرسکتا ہے؟
25اکتوبر1997ء کو وزنامہ باخبر کوئٹہ،روزنامہ کوہستان میں انجیرہ کے ان مظلوموں پر بیتی ظلم بابت خبریں چھپیں۔روزنامہ باخبر کی چار کالم پر سرخی یوں جمی۔
انجیرہ:مسلح افراد نے مزارعوں کی زمینوں پر بلڈوزرچلادیا ،مزاحمت پر فائرنگ سے 4 افرادزخمی
سنیٹرسردار ثنائاللہ زہری کے مسلح افراد کی زبردستی علاقے کی با اثر شخصیات کی ایماء پر کارروائی ،فائرنگ کے واقعہ بعد لوگوں نے آرسی ڈی شاہراہ پر ٹریفک بند کردی،متاثرین نے سردار ثناء اللہ کو نامزد کردیا۔
یہ واقعہ غریب عوام کے خلاف سیاسی دہشت گردی ہے(بی این ایم)
بلاجواز فائرنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے(جمعیت)
مندرج بالا واقعہ کو روزنامہ کوہستان کوئٹہ نے اس طرح جگہ دی ۔
انجیرہ میں مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک شخص زخمی ہوگیا، واقعہ بعد مشتعل عوام نے آرسی ڈی شاہراہ کئی گھنٹے تک بند رکھی
جھگڑا قبائلی شخصیت کے مسلح افراد کی جانب سے لوگوں کی زمینوں پر بلڈوزر چلانے پر شروع ہوا۔ مسلح افراد نے خواتین اور بچوں کے ہاتھوں میں قرآن پاک کی پرواہ کئے بغیر فائرنگ شروع کردی ۔ مقامی انتظامیہ نے واقعہ کی اطلاع ملنے کے باوجود با اثر شخصیت کے خلاف کارروائی سے انکار کردیا۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے ترجمان ’’جہد حق‘‘ نے دسمبر 1997 ء کے شمارہ میں انجیرہ کے واقعہ کویوں رپورٹ کیا ہے۔
زمین کے جھگڑے پر فائرنگ
انجیرہ کے مقام پر زمین کے تنازعہ پر چیف آف جھلاوان سردار ثناء اللہ خان زہری (سینیٹر)اور اس کے حامیوں نے فائرنگ کرکے دوافراد عید محمد ،علی دوست کو زخمی جبکہ ایک خاتون کو زدوکوب کرکے زخمی کردیا۔
متاثرین کا موقف ہے کہ سردار صاحب کے والد کے دور سے ہمارے درمیان یہ تنازعہ چلا آرہاہے ۔مختلف اوقات میں ہم نے اس پر اپنی زمین کاکچھ حصہ چھوڑدیا کہ وہ قوم کے سردار ہیں اور طاقتور ہیں ،ششک(اس سے مراد آمدنی کا چھٹا حصہ جو بلوچ سردار وصول کرتے تھے مگر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں ختم کردیا)ختم ہو جانے باوجود دینے پر آمادگی ظاہر کی اور وہ بھی قرآن کی موجودگی میں فیصلہ مان لیتا مگر جب ہم اپنے زمینوں پر کام کا آغاز کرتے تو اس کے اہلکار ہمیں ہراساں کرتے اور سردار صاحب کہتے ہمارا معاہدہ ختم ہواگیاہے۔ا س کے بعد 30 اکتوبر کواہل مکینوں کو سردار ثناء اللہ خان نے اپنے گھر بلا یا اور کہاکہ میں کسی معاہدہ کو نہیں مانتا یہ زمین میری ہے ۔مکینوں نے کہاکہ اب ہم مذید مصالحت نہیں کرسکتے کیونکہ اب ہمارے پاس دینے کیلئے کیا رہ گیا۔اگلے صبح بلڈوزرسے سردارنے کام شروع کیا۔سردار نے خود فائر کھول دی۔واقعہ پر تحصیلدار سوراب اور ڈپٹی کمشنر قلات بھی فوری طورپر انجیرہ پہنچے اور متاثرین کو یقین دلایا کہ مذکورہ سردار کے خلاف FIRدرج کی جائے گی جس پر ٹریفک بحال ہوئی۔تین افراد محمد اسماعیل،محمد صدیق،اور محمد خان سوراب تحصیلدار کے پاس پہنچے تو FIRدرج کرنے کے بجائے انھیں گرفتار کیا گیا کہ آپ نے سردار صاحب کی زمین پر قبضہ کیا ہے اور سردار کے بندوں کو زخمی کردیا ہے۔
سرکاری موقف یہ ہے کہ یکم نومبر کو ڈپٹی کمشنر قلات نے ایک پریس نوٹ جاری کیا کہ چند افراد نے سردار زہری کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور سردار کے ملازموں کو زخمی کردیا ۔مزاحمت پر مسلح افراد میں سے ایک زخمی ہوا۔
درج بالا واقعات سے یہ حقیقت ظاہر ہورہی ہے کہ انتظامیہ سیاسی دباؤمیں آکرواقعہ انجیرہ کو غلط رنگ دے رہی ہے ۔سردار زہری ایک بہت ہی با اثر شخصیت ہیں اور بلوچستان حکومت سے ان کا تعلق ہے۔جبکہ مرکز کی بھی اسے بھرپورحمایت حاصل ہے ایسے میں ممکن ہی نہیں کہ کوئی ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا تصور کرے۔ایک مضبوط قبائلی علاقے میں خواتین کا سڑک پر آکر ٹریفک جام کرنا انتہائی بے بسی کی دلیل ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی منشور کی دفعہ 17۔2 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو زبردستی اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جائیگاجبکہ یہ واقعہ اس منشور کی دفعات5،6اور7کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔مقامی بزرگوں کا ماننا ہے کہ زہری علاقہ میں دو تین بڑی قبائلی جھگڑے ثناء اللہ خان زہری کے مرہون منت ہیں جو کافی عرصہ سے شروع ہوکر ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔انھوں نے بتایا کہ زہری علاقہ میں سینکڑوں افراد اس با ت کی گواہی د یں گے کہ یہاں سب سے بڑی قبائلی جنگ جس میں 39افراد لقمہ اجل بن گئے خان صاحب نے 2008 ء میں شروع کروائی تاحال جاری ہے۔
اس جنگ میں بل ترتیب چھ افراد رمضان کے تراویح میں نماز پڑھنے دوران اپنے جان سے ہاتھ دھوبیٹھے اس طرح مختلف واقعات زہری ٹو خضدار،زہری کوئٹہ،کے مختلف ویگنوں سے لوگ ایک دوسرے کو اتار کر ہلاک کئے تو دوسری جانب سردار کے غنڈوں نے قبائل کے زمینداروں ،چرواہوں ،دکانداروں کو بھی مختلف علاقوں ،خضدار،سوراب،انجیرہ،قلات سمیت چھوٹے چھوٹے قصبوں سے اغوا کرکے قتل کردیا تاکہ یہ قبائلی جھگڑا چلتا رہے اس طرح یہ قتل کا کھیل جاری ہے۔اس طرح دوسرا بڑا قبائلی جھگڑا ،سناڑی اور مینگل قبیلہ کے درمیان دشت گوران قلات میں شروع کروایا گیا جہاں شہیدغازی آزادی پسند میر لونگ خان مینگل کے بیٹے میر شائستہ خان سمیت چالیس سے زیادہ افراد اس جھگڑے کے بھینٹ چڑھے جبکہ مال مویشی اور فصلوں کی لوٹ مار اس کے علاوہ ہے جو ہنوز جاری ہے، سناڑی زہریوں کی ایک شاخ ہے جس کی پشت پناہی سردار ثناء اللہ زہری کر رہے ہیں حالیہ دنوں قابض پاکستانی فورسز کی مدد سے ثناء اللہ خان نے شہید میر لونگ خان کے دوسرے بیٹے میر قمبر خان کے واقع گھر دشت گوران میں چھاپہ لگواکر چادر اور چاردیواری کی پامالی کرتے ہوئے گھر کے قیمتی سامان لوٹ کر بعد میں بلڈوز کروایا۔(یہ بلڈوز گھروں کو ٹھیک اس طرح کیا گیا جس طرح انجیرہ میں پانچ سال قبل خلقِ انجیرہ کے سو گھروں پر مشتمل گاؤں پر چلایا جہاں انکی کئی ہزار ایکڑ زمینیں اور پندرہ ٹیوب ویلز قبضہ کرکے ہتھیا لیے گئے اس کے علاوہ اس کے خاندان کے جوانوں کی قتل کی داستان آگے چل کر زیر بحث ہوگی)موصوف نامدار نے تیسرا قبائلی جھگڑا میر امان اللہ خان زرکزئی (بابو نوروز خان کے بیٹے ہیں) کے ساتھ شروع کروایا جہاں وہ اپنے جوان سال بیٹے سمیت قبائل کے انمٹ بیسیوں افراد گنوائے ،موسیٰ میراجی اور عمرجان سمیت عزیز کا قتل بھی ثناء اللہ خان نے اپنے ظلم اور گناہوں کو چھپانے کیلئے کئے جبکہ اب بھی لاکھوریان،آرچنو،گدر،سوراب،خضدار،انجیرہ،قلات اور زہری میں یہ قبائلی موت کا رقص ناچنے سے نہیں تھک رہا۔
قبائلی جھگڑوں کے علاوہ سردار ثناء اللہ کا آزادی پسند بلوچوں کے ساتھ بھی یہ خونی مذاق اپنی انتہاپر پہنچ چکا ہے۔یہ مذاق انھوں نے اپنے آقا قابض ریاست پاکستان کے خفیہ اداروں کی ایماء پر شروع کر رکھاہے ۔ابتداء میں سردار نے ڈیتھ اسکواڈ کیلئے اپنے بھتیجے میر زیب کو چنا ساتھ ہی ساتھ اس نے اپنے بیٹے میر سکندر اوسالے آغا شکیل درانی کو میر زیب کے معاونت کیلئے نامزد کیا ۔انھوں نے سرکار کے ساتھ مل کر آزادی پسندبلوچوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی ۔اس کھیل کیلئے گدرگورانڈی پہاڑ،آڑچنو،زاوہ ،انجیرہ،خضدار ،ڈپٹی کمشنر ہاؤس،زیدی کے وادیوں کوچنا جہاں ٹارچر سیل قائم کئے۔ان ٹارچر سیلوں میں (یہ انکشافات بلوچ سرمچاروں کے ہاتھ لگے ڈیتھ اسکوائڈ ز کے کارندوں سے ہوئے ) بلوچ آزادی پسندوں کے علاوہ ،اغواء برائے تاوان اور بلوچستان کے مختلف اضلاع گنداوہ،جھل مگسی،سندھ شکارپور،سمیت اندرونی سندھ سے عیاشی کیلئے اغواء کئے گئے دوشیزاؤں کو قیدی بنائے رکھتے تھے۔تاہم اس کھیل کے دوران میرزیب اور اس کے بیٹے میر سکندر زہری غیضوغضب میں دفن ہوگئے ۔مگر اس کھیل کو اب نعمت اللہ خان زہری ناظم قلات،میر شاہ جہان ولد میر منظور زرکزئی ،حال گلشن معمار کراچی بااحسن خوبی سر انجام دے رہے ہیں۔قارئین کو یاد ہے کہ میں نے اوپر کہاتھا کہ خلقِ انجیرہ کے لوگوں کو کیسے قتل کیا تھا تو آئیے ان فرزندوں کی قتل کی تفصیل سنیئے۔ان خونی ٹارچر سیلوں میں انجیرہ سے تعلق رکھنے والے گیارہ سالہ رؤف بلوچ اس کے والد ستر سالہ میر محمد یعقوب کو بھی انسانی حقوق کے قوانین کو روندکر بے دردی سے شہید کیا گیا۔بالترتیب بی ایس او آزاد کے ممبر ذکریا بلوچ اور اس کے بھائی محمد ابراہیم جن کا سیاسی تعلق بلوچ نیشنل موومنٹ سے تھا ،کی مسخ لاش پھینکی گئی۔چوبیس سالہ یٰسین بھائی فرید جان ولد عبدلقدوس زہری(بی این ایم )،اسی پارٹی کے بتیس سالہ عبدالغفار ،سترہ سالہ سرفراز بلوچ،نثار بلوچ اور عبدالسلام مینگل جو کہ خضدار یو نیورسٹی کا طالب علم تھا جس کو اپنی تعلیمی محنت پر ایک اسکالر شپ بھی ملا تھا جو کہ انتہائی قابل طالب علم تھا ،سرداروں اور ریاست کو بلوچ طلباء کو تعلیم سے دور رکھنا اور قابل طلباء کو آ ئی ایس آئی اور پاکستان ایف سی کے زیر دست حراست بعد لاپتہ کر کے انکی لاشیں پھینکنا روز کا معمول بن چکا ہے جو کہ شہید شفیع بلوچ کا کزن تھا۔شہید شفیع بلوچ کو خضدار سے اغوا کرکے بعد میں مسخ لاش پھینکی جن کا تعلق کا تعلق بلوچ نیشنل موومنٹ سے تھا۔چنگیز سناڑی جن کا تعلق بی ایس او آزاد سے تھا اغوبعد شہد کئے گئے۔آڑچنو میں قائم تین منزلہ ٹارچر سیل ( جس کی دو منزل زیر زمین ہیں)بابت ایک قومی غدار پنجابی کے کاسہ لیس کا کہنا ہے کہ اس ٹارچر سیل کو میر زیب کے مرنے کے بعد گل حسن محمد زئی،مالک شاہوزئی،اور بدنام زمانہ نائب پتو اصلی نام فتح محمد کی سربراہی میں چلتا ہے جہاں آزادی پسندوں کو کرنٹ،ڈرل سمیت مختلف اذیتیں دے کر مارا جاتا ہے ،جبکہ کراچی سے کوئٹہ آنے اور جانے والے ٹوڈیوں (کاروں)کے مسافروں سمیت علاقائی مالدار لوگوں ،ڈاکٹروں،وکیلوں، ہندو تاجروں کو رکھا جاتا ہے تاوان کی ادائیگی بعد چھوڑدیا جاتا ہے۔
زاوہ کے رہائشی کا ٹوڈی گاڑیاں چھیننے بارے کہنا ہے کہ ایک روز میں اپنے مویشیوں کو چرانے روڈ پر واقع پل سے گذرا پل کے نیچے سے چلانے کی آواز آئی جب قریب پہنچا تو ایک شخص کو رسیوں میں بندھا ہوا پایا پوچھنے پر انھوں نے کہا کہ میں قلعہ سیف اللہ کا بدنصیب رہائشی ہوں یہ بتاتے ہوئے وہ زاروقطار رونے لگا اور کہا کہ میری ہر چیز لٹ گئی ہے۔وہ مسلسل رو رہاتھا ، جب میں نے کہاکہ اگرچہ آپ کی گاڑی چھن گئی ہے مگرشکر کریں کہ آپ سلامت ہیں۔تو انھوں نے کہاکہ کاش اس جینے سے میری موت آجاتی ۔میں چونک گیااور دہرا یا کیا ہوا ؟ انھوں نے دوسری جانب اشارہ کیا میں وہاں پہنچا تو میرے ہوش اڑ گئے میں جلدی واپس مڑا اور اپنے گھر جاکر اپنے بچوں کے کپڑے اٹھاکر لے لائے۔ یہ ماں اور دو جوان بیٹیاں تھیں ۔بعد میں انھوں نے واقعہ بیان کیا کہ کس طرح ہماری گاڑی چھینی گئی اور پھر ہماری عزت لوٹ کر چھ غنڈے ہمارے کپڑے اٹھاکر لے گئے تاکہ ہم پل سے باہر نہ جاسکیں( اس پل سے زہری کراس کی ایف سی چوکی تقریباََ پانچ کلو میٹر کی دوری پر ہے) بعد میں معلوم ہواکہ اس واقعہ بابت اس شخص کو کوئٹہ کے ایک مقامی صحافی نے انٹرویو دینے کیلئے راضی کرلیا تھا مگر وہ انٹرویو ریکارڈ کرنے سے پہلے دلبرداشتہ ہوکر جان کی بازی ہار گئے تھے ۔اگر انٹرویو دیا تو چھپ نہ سکا ۔مقامی شخص کا حلفیہ کہنا تھا کہ اس انوکھے واقعہ کے علاوہ گاڑیاں چھیننے کے واقعات روز کا معمول ہیں۔
ثناء اللہ زہری کے چہتے بھتیجے میر زیب اپنے غنڈوں کے ساتھ مل کر نہ صرف یہاں سے گاڑیوں چھینتے تھے بلکہ دوسرے غیر اخلاقی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش تھے ۔(میر زیب اور ثناء اللہ خان کے بیٹے سکندر کو اپریل 2013ء میں بلوچ سرمچاروں نے ایک کاروائی میں ریموٹ بم ذریعے جہنم وسل کیاتھا)ان پر مقامی افراد کا یہ الزام بھی ہے کہ موصوف سوراب شہر سے ایک دفعہ سندھ سے آئے ہوئے خانہ بدوش جنھیں عرف عام میں لچھی کہاجاتا ہے کے پندرہ لڑکیوں کو زبردستی گاڑیوں میں ڈال کر لے گئے تھے۔ قارئین کو یاد ہے کہ ان خانہ بدوشوں نے مجبور ہوکر انکے خلاف سوراب شہر میں احتجاج بھی کیا مگر مقامی انتظامیہ نے مذید قدم اٹھانے سے منع کیااور کہاکہ انکی پہنچ اسلام آباد اور راولپنڈی تک ہے لہٰذا وہ کارروائی سے قاصر ہیں۔ان تمام حقائق جاننے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے کہ یہ تمام کارنامہ قابض فوج کی معاونت سے کیا جارہاہے اور یہی وجہ ہے کہ ثناء اللہ زہری نے خلق انجیرہِ کے کئی گھروں پر بلڈوز ر چلواکر انھیں نقل مکانی پر مجبور کردیا ۔دوسری جانب ان مکینوں پر آزادی پسندوں کی معاون ہونے کا ڈرامہ رچاکر پندرہ سے زیادہ نوجوانوں کو شہید اور ملازم طبقہ کی تنخواہیں بند کرادیں ۔دنیا کے باضمیر اقوام کے علاوہ بلوچستان خصوصاََ زہری کے عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف بلوچ جہدکار بلوچ سرمچاروں کا ساتھ دیکر اس بربریت کا خاتمہ کرائیں ۔
مندرجہ بالا حقائق جاننے کے بعد بھی کوئی یہ سوچے کہ ثناء اللہ خان زہری سمیت دوسرے پیٹ پرست قبائلی رہنما عوام کیلئے ہمدردی رکھنے والے سیاسی رہنماثابت ہوسکتے ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ ان جیسے سرداروں نے بلوچ قوم کی غلامی کو طول دے رکھا ہے۔ اب بھی وقت ہے غیور عوام ان ظالموں اور سفاک لوگوں کے خلاف آواز بلند کرنے کیلئے بلوچ سرمچاروں کا ساتھ دیکر ان ظالموں کا سفایاکریں ۔بصورت دیگر انجیرہ کے لاچار باسیوں کی طرح وہ بھی اپنے املاک ،ملازمتوں اور نوجوانوں کی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔