Powered By Blogger

суббота, 24 февраля 2018 г.

قومی آزادی کی جدوجہدمیں تنظیم کی ضرورت قومی تحریک کے تناظر میں – واحدقمبربلوچ


بلوچ قومی تحریک آزادی میں ایک سپاہی کی حیثیت سے میں نے ایک طویل مسافت طے کی ہے۔ اس دوران میں نے تحریک میں بہت سے نشیب و فراز کامشاہدہ کیاہے۔ پہلی بار کوشش کررہاہوں کہ تحریک پر ایک طائرانہ نظرڈالنے کے ساتھ ساتھ تحریک کے باربار تسلسل ٹوٹنے کے بنیادی وجوہات اختصارکے ساتھ پیش کروں۔
قوم ایک وحدت کا نام ہے جس میں لوگوں کا بہت بڑا گروہ جن کا کسی سرزمین سے وابستگی ہو اور تمام لوگ جغرفیائی یا معاشی مفادات سے مشترک ہوں۔ اس اشتراک عمل کو میں’قوم‘سمجھتاہوں۔ بلوچ بھی ایک قوم کی حیثیت رکھتی ہے جو ہزاروں سال ایرانی پلیٹو میں اپنی موجودگی کا احسا س تاریخی حوالے سے دلاتی رہی ہے۔ بقول ڈاکٹر نصیر دشتی ’’بلوچ قوم سات ہزارسال سے اس خطے میں آباد ہے‘‘۔ یہ خطہ اپنی ذرخیزی اورتزویراتی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ غاصبین کی توجہ کا مرکز رہاہے اورآج بھی صورت حال ماضی سے زیادہ مختلف نہیں ہے لیکن بلوچ قوم کا اپنی وجود اور اپنی تشخص سے وابستگی اس بات کا غمازہے کہ بلوچ قوم کو مٹانے میں تمام قبضہ گیروں کی طرح پاکستان بھی ناکام رہے گا اوربلوچ اپنے تاریخی فریضے کی ادائیگی میں سرخ رو ہوگا ۔
آج کی گفتگومیں ہم تاریخ پر بحث کرنے کے بجائے بلوچوں کی قومی آزادی کی جدوجہدپر اپنے خیالات کا اظہارکریں گے جوکہ میرا بنیادی موضوع بحث ہے ۔یہ تاریخی صداقت ہے کہ بلوچ قبائلیت میں منقسم قوم رہی ہے۔ وہ ہرحملہ آور کے خلاف قبائلی شکل و صورت میں نبردآزما رہے ہیں۔ انگریزوں کے خلاف ہماری جنگ قبائلی بنیاد پر ہوئی ۔انگریزوں کے خلاف جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں جن کا آغاز خان مہراب خان کی شہادت سے ہوتا ہے، جنہوں نے قبضہ گیریت کے خلاف سرتسلیم خم کرنے کے بجائے انگریزی فو ج کا مقابلہ کیا اوراپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہیدہوئے۔ اسی طرح مری قبائل اپنے علاقے میں اپنے زورِ بازو پر انگریزکے خلاف لڑتے رہے۔کیچ مکران میں بلوچ خان نوشیروانی انگریزوں کے خلاف لڑتا ہوا ’’گوک پروش ‘‘ کے میدان میں شہید ہوئے ۔جھالاوان میں بھی مزاحمت ہوئی مگر صورت قبائلی رہی۔ یہاں تک ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس دورکی مناسبت میں بلوچ سماج کی ہیئت قبائلی تھی اور بلوچ قبائلی نظم میں زیادہ منظم تھے لیکن ہماری جدید تاریخ جو بلوچ وطن پر پاکستان کے قبضے سے شروع ہوتاہے اس دورمیں بھی بلوچوں میں مرکزیت کی کمی تھی۔ پاکستان کے خلاف جتنے مزاحمتی دور گزرے ہیں سب کے سب قبائلی سرداروں یاقبائلی شخصیات کے ماتحت ہوئی ہیں۔ ان جنگوں میں قبائلیت کا جوش و جذبہ زیادہ تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستان نے قلات پر حملہ کرکے مارچ ۴۸ء کو بلوچستان پر قبضہ کرلیا ۔پہلامزاحمت آغاعبدالکریم نے پاکستانی حکومت کے خلاف جنگ کا اعلان کرکے کیا اورآغاعبدالکریم کی جنگ ایک علامتی جنگ تھی جواثرات کے حوالے سے موثرمگرمیدان جنگ میں بڑی کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ آغا تھوڑی سی مزاحمت کے بعد سرلٹھ چلاگیا کیونکہ ان کے پاس آزادی کی جنگ میں تنظیم یا پارٹی کا وجود نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ایوب خان دور میں نواب نوروز خان اور اس کے ساتھیوں نے ایوبی حکومت کے خلاف زبردست مزاحمت کی اوردشمن نے نوروز کو دھوکہ دیکر پہاڑوں سے نیچے اتارا اوران کو حیدرآباد جیل میں پابند سلاسل کردیا ۔ ان کے ساتھیوں کو حیدرآباد میں پھانسی دی گئی؛ خود بابوصاحب پیرانہ سالی میں جیل میں وفات پاگئے۔ کہتے ہیں کہ نواب صاحب پر جیل میں تشددکیاگیا جس سے وہ شہید ہوگئے ۔
نواب نوروزخان کی جدوجہدکے بعد بھٹو کے دورمیں جب وزیر اعلیٰ عطاء اللہ مینگل کی نیپ کی حکومت ختم کی گئی توایک مزاحمت دوبارہ شروع ہوئی مگر اس دور میں بھی کوئی واضح سیاسی تنظیم نہیں تھی اور اس جنگ میں صرف مری اور مینگل قبائل جنگ لڑرہے تھے۔ کوئی واضح سیاسی لائحہ عمل نہیں تھا۔ کوئی تنظیمی پالیسی نہیں تھی۔ مری اور مینگل قبائل اپنے سربراہوں کے مرہون منت تھے ۔جب انیس سوستترکو قبائلی سربراہاں جیل سے رہا ہوئے تو پورے بلوچستان میں خاموشی چھاگئی۔ کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ اس جنگ کا کیا مقصد تھا ۔ضیاء الحق کے پورے دورحکومت میں بلوچ قومی تحریک میں حرکت دیکھنے میں نہیں آئی کیونکہ تمام جددجہد کا محور قبائلی تھا اور پوری تحریک چند شخصیات کے تحریک سے وابستگی ،اندازوں اور سوجھ بوجھ پر منحصرتھا۔ تنظیم اور تنظیمی نظم میں فیصلوں کی عدم موجودگی سے اداروں کا خلاء واضح طورپر محسوس ہوتاتھا مگر اس جانب سنجیدہ کوششیں کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ جس مقصد کے لئے ہزاروں بلوچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ،بے پناہ مالی مشکلات کا سامنا کیا، نتیجہ انہیں مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں ملا ۔
میں بی ایس او سے منسلک تھا اور آزادی کا جذبہ دل میں موجزن تھا اورشہید فدا احمد بلوچ کی سیاسی ہمراہی میں ذہنی طورپر اس بات کا قائل ہوچکاتھا کہ بلوچ جدوجہدمیں تنظیمی خلاکو پر کرنے کے لئے عملی کوشش کی جائے کیونکہ شہید فدا بلوچ ہروقت ادارہ سازی کی درس دیتے تھے۔ انیس سو اسی میں میں نے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ اس وقت میں بی ایس او عوامی کراچی زون کا صدر تھا۔آزادی کی جستجو کو لے کر انیس سواکیاسی میں میں مری علاقے میں چلاگیا تاکہ اس جدوجہد کو سیاسی تنظیمی بنیاد پر جاری کیاجائے۔ میں نے اپنے طورپر تمام علاقے یعنی مری بگٹی علاقے میں سیاسی تنظیم اور جدوجہدآزادی کے لئے ہوم ورک کیا۔میں اورمیرے چند دوست اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر آزادی چاہتے ہیں تو ایک سیاسی پلیٹ فارم بنایا جائے اور جدوجہدکوسیاسی تنظیم تشکیل دی جائے۔ ہم نے بزگرمیں شہید سدومری کے کیمپ میں غالباََ پچاسی یا چھیاسی کوتمام کمانڈروں کو بلاکر ایک میٹنگ کا انعقادکیا۔ اس میں میرے علاوہ شہید سعادت مری ،میر عبدالنبی بنگلزئی ،میررحمدل مری،نیاز احمد چلگری اورشکل کلوانی شامل تھے۔ ہم نے اس پر بحث و مباحثہ کی ۔تمام ساتھی میرے موقف کے حامی تھے مگر میرصاحب نے زبردست اس کی مخالفت کی اور ان کا کہنا تھا کہ ’’آپ لوگ اپنے نمائندے بابوشیر محمد مری کے پاس بھیج دیں ‘‘اس کے بعد کیمپوں کے کمانڈر اور میرصاحب بشمول من کوئٹہ میں بابو شیر محمد مری سے ملاقات کی اور اپنا مدعابیان کیا۔ وہاں غیر متوقع طورپرشیر محمد مری نے بھی اس کی بھرپور مخالفت کی اورکہا کہ’’ آپ لوگ سامراج کی زبان میں بات کر رہے ہیں ‘‘اوریہاں بھی میرعبدالنبی نے شیر محمد کی تائید کی۔ یہ انیس سو چھیاسی کی بات تھی۔ میں اس نتیجے پر پہنچاکہ موجودہ جدوجہدمیں اسٹیک ہولڈرتحریک پر اپنی گرفت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس مقصدکے لئے قبائلیت ا ن کا موزوں ہتھیارہے ۔قبائلی محورکے گرد گھومنے والی جدوجہدمیں ’’قبائلیت ‘‘ کو میرعبدالنبی کی بھی بھرپور حمایت حاصل تھی ۔ہم نے اس وقت بھی شیر محمد مری سے کہا تھا ’’جناب سیاسی جدوجہد کو ایک منظم سیاسی تنظیم کی ضرورت ہے ‘‘۔اس کے علاوہ آزادی ہمیں نہیں مل سکتی۔ مگرہماری آوازایسی تھی جیسے نقارخانے میں طوطی کی آواز۔۔۔۔لیکن میں نے مایوس ہونے بجائے اپنا کام جاری رکھا کہ کوئی صورت نکل آئے گا۔ اس وقت نواب خیر بخش اپنی طویل جلاوطنی کے سلسلے میں یورپی ممالک کا دورہ کرنے کے بعد افغانستان میں مقیم تھے ۔
جدوجہد میں پارٹی کی خلاء کو پرکرنے کے لئے نواب خیربخش مری سے ملنے کے لئے شہید فدااحمدبلوچ ،میر حمل پرکانی اورمیر عبدالنبی بنگلزئی کے ہمراہ کابل افغانستان چلے گئے۔ بنیادی معاملہ تنظیم کی ضرورت اور اس کے قیام کے لئے کوششیں تھیں تاکہ اس جانب پیش رفت کیاجائے اور تین مہینے وہاں قیام کیا۔ جب واپس آئے توہم نے کراچی میں ایک میٹنگ کا انعقاد کیا جس میں راقم کے علاوہ شہید فدا احمد ،میر عبدالنبی بنگلزئی اورمولابخش دشتی شامل تھے۔ شہید فدا احمد نے اپنی رپورٹ پیش کی، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ’’ جب میں نے نواب صاحب کے سامنے اپنی رائے کا اظہارکیا تو نواب صاحب نے مجھ سے تنظیمی خاکے کامطالبہ کیا تو میں نے انہیں بلوچ قومی سیاسی تنظیم کا خاکہ اور اس کے آئینی ڈھانچہ فراہم کیا لیکن نواب صاحب بنیادی طورپر تنظیم کے ضرورت پر قائل نہیں ہوسکا۔ اس کے ساتھ ہی نواب صاحب نے میر عبدالنبی بنگلزئی کو اپنا نمائندہ بنایا جبکہ مجھ کو (فدااحمد بلوچ) بلوچ طلباء تنظیم بی ایس اوعوامی کا نمائندہ قراردیااوربلوچستان میں جاکر اس پر مزیدکام کرنے کی ہدایت کی گئی تو میں بلوچستان آگیا۔ فدابلوچ کا کہنا تھا کہ بی ایس او سے فارغ ہونے والے سیکڑوں کی تعداد میں فارغ التحصیل نوجوان پاکستانی نظام میں چلے جاتے ہیں اور بلوچ قومی تحریک سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ قومی سیاسی پارٹی کی عدم موجودگی ہے ،جبکہ میٹنگ میں میر عبدالنبی بنگلزئی کا کہنا تھا ان کا رشتہ اوراعتمادنواب صاحب کی شخصیت سے وابستہ ہے وہ انہیں کسی صورت میں چھوڑ نہیں سکتے ہیں۔ یوں ہمار ا یہ میٹنگ بھی بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوا ۔اس میٹنگ کے اثرات یہ ہوئے کہ شہید فدا بلوچ نے بی این وائی ایم کے نام سے ایک پارٹی کی داغ بیل ڈالی ۔
انیس سو نوے کے سال ہم میر عبدالنبی بنگلزئی کے ساتھ افغانستان چلے گئے۔ افغانستان میں سیاسی تنظیم کی بجائے بلوچیت اورقبائلیت کی بنیادپر کام کررہے تھے۔ کسی قسم کی تنظیمی سیاست نہیں تھی مگر اس وقت چند طلباء اور رہنما سوویت یونین چلے گئے۔ وہ بی پی ایل ایف کے پلیٹ فارم سے جاتے تھے یا اس کے علاوہ جتنے بھی بلوچ ہمدرد ملک تھے ان کے ساتھ تعلقات کے باب میں یہی تنظیم کا نام استعمال ہوتا تھا مگر گراؤنڈ میں اس تنظیم کے خدوخال واضح نہیں تھے اورنہ ہی اس کے پلیٹ فارم پر فیصلے ہوتے تھے۔
ہم نے نواب سے پوچھا کہ بی ،پی، ایل، ایف کیا ہے ؟ کیا یہ ہماری تنظیم نہیں ہے ؟
توانہوں نے کہا ’’بالکل نہیں ،اس کو’’ ہم کارڈ‘‘ کے طورپر استعما ل کررہے ہیں ،اس سے ہمار اکوئی تعلق نہیں ہے‘‘
تو ہم نے جس میں ڈاکٹر بہارخان مرحوم پیش پیش تھا نے کہا ایک قومی سیاسی تنظیم،ایک قومی سیاسی پارٹی تشکیل دی جائے ۔
نواب صاحب نے کہا کہ ’’ہلمند جاکر عوام سے مشورہ کریں گے ‘‘۔
تو جب ہم لوگ ہلمند گئے تو وہاں پر بحث و مباحثہ ہوئی کہ ’’کس طرح کی تنظیم بنائی جائے ‘‘تو میں نے ایک تنظیمی خاکہ پیش کیا جس میں بلوچ قوم کی تاریخ، سیاسی جدوجہد اورتنظیم کی ضرورت پر زوردیاگیا توتقریباََ دوہزاربلوچوں کے مجمع میں نواب خیر بخش مری ،میرعبدالنبی کی موجودگی میں میرہزارخان کافی حد تک ناراض ہوئے اورانہوں نے غصے میں آکر مجھے کہا کہ ’’آپ مکران سے آئے ہو تو آپ مکران چلے جائیں ،ہماری تنظیم مریوں تک محدودہے اور قبائلیت خود ایک تنظیم ہے ‘‘۔
نواب صاحب خاموش رہا۔انہوں نے نہ ہماری حمایت کی اورنہ ہی مخالفت ۔لیکن ایسا پہلی بار ہورہاتھاکہ اُس دورکے جدوجہد سے جڑے جہدکاروں کے سامنے پہلی بار یہ مسئلہ پورے آب وتاب کے ساتھ زیر بحث آیا۔ مگریہ پہلی سیاسی مجلس ایک ٹرننگ پوئنٹ ثابت ہوا کہ اس کے بعد مری قبیلہ گزینی اور بجارانی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ،کیونکہ یہاں سے میرہزارخان کا گروپ الگ ہوگیا جبکہ اکثریت کا تعلق نواب صاحب کے ساتھ رہا ۔
انیس سو بیانوے کو جب نجیب اللہ کی حکومت ٹوٹ گئی اورمجاہدین برسراقتدار آگئے توافغانستان براہ راست پاکستان کے زیر اثر آگیا اور ہمارے لئے مزید قیام ممکن نہیں رہا۔ ہم لوگ واپس ’چھوٹو‘کے راستے دالبندین میں پہنچے اوروہاں سے کوئٹہ چلے گئے ،اورچلتن کے دامن میں نیوکاہان کے نام سے ایک کیمپ میں رہائش اختیار کی جسے عالمی اداروں کے ساتھ پاکستان کے فلاحی ادارہ ایدھی وغیر ہ اشیائے خردونوش کی مدمیں مددکرتے تھے ۔نواب صاحب اپنے گھر میں رہائش پذیر تھے مگر روزانہ صبح کو کیمپ میں آتے تھے۔ وہاں پر بھی ہم نے تین مہینے تک تنظیم اورتنظیم کاری پر بحث کی لیکن نواب صاحب کوانیس سو ترانوے تک منظور نہ تھی۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس تاریخی جدوجہد میں تنظیم نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ یہاں سے فکری طورپر میں اپنے راستے الگ کرچکاتھا کیونکہ میں اس نتیجے پر پہنچ چکاتھا کہ جدوجہد تنظیمی دستور اور لائحہ عمل کے بغیر کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتاہے اورتنظیم کے قیام میں رکاوٹ ڈالنا میں سمجھتا ہوں کہ ارتقاء کی راہوں کو مسدودکرنے کے مترادف ہے جس کا نقصان ہمیں اٹھاناپڑتا ہے۔ ہمیں ہر صورت میں اس جانب بڑھنا چاہئے۔ اس کے بعد میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ کام کا آغاز کیا اورہم سن دوہزارمیں بی ایل ایف کے نام سے ایک تنظیم پر متفق ہوئے۔ بی ایل ایف کو قیام میں لانے میں ڈاکٹر اللہ نذر ،شہید سعادت مری ،میر رحمدل مری ،ڈاکٹر خالدکے علاوہ چند اور دوست تھے جن کے نام یہاں بیان کرنا مناسب نہیں۔
غالبا دوہزار دویا تین کو حیربیار مری نے ہمیں دبئی بلایا اورایک میٹنگ کا انعقادکیا جس میں راقم کے علاوہ حیربیار مری ،شہیدامیربخش ،استاد اسلم بلوچ ،حسنین جمالدینی ،نبی دادمری شامل ہوئے۔ یہ میٹنگ شاید میرحیر بیارمری نے پرانے تعلقات کی بناء پر بلایا تھا مگر میں ذہنی طورپر شخصی اجارہ دارانہ جدوجہد سے مایوس ہوچکا تھا اور ہم متبادل کے طورپر بی ایل ایف کا قیام عمل میں لاچکے تھے۔اس میٹنگ میں بھی حیر بیار اُسی طریقہ کارپر مصر تھا۔ شایدتنظیم کی ضرورت محسوس کرنے والے احباب نے تسلی کے لئے بی ایل اے کے نام سے جدوجہد کرنے پر زوردیا۔ میرے نزدیک بی ایل اے کسی واضح تنظیمی ڈھانچہ اور دستور سے محروم فقط ایک نام تھاجس پر ایک فردکی اجارہ تھی۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ اس میٹنگ میں حیربیار نے کہاکہ ’’میرے جیل جانے یا کسی دوسرے حادثاتی یا طبعی موت کے بعد میرا بھائی زعمران میرا جانشین ہوگااوروہی اس مشن کوآگے بڑھائے گا ‘‘۔ یہ اس بات کا عندیہ تھا کہ بی ایل اے کی آڑ میں وہی موروثی اوراجارہ دارانہ سیاست کوبلوچ کا مقدربنانے کا دورختم نہیں ہواہے بلکہ اسے نئے دورکے ساتھ نئی روپ میں مزید مستحکم کیاجارہاہے ۔اس پر میں مطمئن نہیں ہوسکا۔ میں نے اس میٹنگ میں باقاعدہ بی ایل ایف کا آئین ،منشور،عملی پروگرام پیش کیا اوردوستوں پر واضح کیا کہ ہمارا جدوجہد اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہوگا۔ ہاں ہم آپ کے ساتھ تعلقات قائم رکھیں گے اور مشترکہ جدوجہدکے لئے تیار ہیں مگر ہمارا پلیٹ فارم الگ ہوگا اورہمارے فیصلے تنظیمی ہوں گے‘‘ ۔اس کے بعد ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔ یہاں یہ سب ذکرکرنے سے میر امقصود یہ ہے کہ بلوچ قومی جدوجہد میں بی ایل ایف پہلی دستوری تنظیم تھی جس کے تنظیمی ڈھانچے کے علاوہ عملی پرگروام ،اختیارات کی تقسیم اور فیصلہ و پالیسی ساز اداروں کے اشکا ل واضح تھے۔
اکیسویں صدی بہت حوالوں سے جاناجاتا ہے ۔ بلوچ کے لئے اس کے اثرات نہایت وسیع ہیں۔ مشرف کے دورمیں میگامنصوبوں کے ذریعے بلوچ کے وجود کو مٹانے کے لئے پاکستان نئی تیاریوں کے ساتھ سامنے آئی ۔پاکستان کو بلوچ مزاحمت کے ابھارکاخدشہ ضرورتھا کہ اُس نے متوقع تحریک کوکاؤنٹر کرنے لئے ایسی جماعت کی ضرورت محسوس کی جو مستقبل میں پاکستان کا ہمنوا بن جائے اورپاکستانی منصوبوں کی حمایت کرے اور اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے میں پاکستان کی مددکرے اوریہ کام پاکستان نے نیشنل پارٹی کے قیام کی صورت میں کیا لیکن یہاں سے بلوچ نیشنل موومنٹ جیسے قومی پارٹی کا وجود سامنے آیا۔ چیئرمین غلام محمد شروع ہی سے بلوچ قومی آزادی کے لئے ایک جذبہ رکھتے تھے مگر سابقہ بی این ایم کے لیڈرشپ کی منافقانہ سیاست اوردھوکہ دہی کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہیں موقع نہیں ملا۔ جب سابق بی این ایم اور بی این ڈی پی نامی پارٹی نے انضمام کرکے واضح طورپر قومی موقف سے انحراف کی تکمیل کی اور نیشنل پارٹی بنائی تو چیئرمین غلام محمد شہید نے اس موقع پر تاریخ کاحق اداکرکے بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کو برقرار رکھ کر جد وجہد کی۔
اس کام میں بلوچ قومی تحریک میں پارٹی جدوجہدکے قائل رہنماؤں نے چیئرمین غلام محمد کا ہرقدم پر ساتھ دیاجو قومی سیاسی پارٹی کی خلاء کو پر کرنے کا بہترین ذریعہ بن گیا اور آج تک تجربہ یہی کہتاہے کہ جس پارٹی کو عشروں پہلے بننا چاہئے تھا لیکن بلوچ آزادی پسند لیڈرشپ کی مسلسل پہلوتہی سے نہیں ہوسکا تھا مگر غلام محمد جیسے تاریخ کے مزاج سے آشنا انسان نے یہ کام آسان کرکے بلوچ قوم کوایک ایسی سیاسی پارٹی سے نوازا جس کا بلاشبہ تاریخ میں ہمیں نظیر نہیں ملتی۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کے قیام کے بعد بلوچ تحریک آزادی کو ایک ایسی استحکام مل گیا کہ آج تک دشمن کی تمام بربریت کے باوجود تحریک کا تسلسل نہ صرف قائم ہے بلکہ روز بہ روز اس کی طاقت میں اضافہ دیکھنے میں آرہاہے ۔
میں نے یہاں صرف بی ایل ایف اور بی این ایم کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری تنظیم اور پارٹیوں کا ذکر نہ کرنے کا میرامقصد خدانخواستہ انہیں نظرانداز کرنا نہیں ہے۔ ہر کسی کی ایک اہمیت ضرور ہوتی ہے۔ ماضی میں تحریک پارٹی سے محروم تھا لیکن اس کی اہمیت سے ہم انکار نہیں کرسکتے ہیں لیکن میرا تجزیہ تاریخ کے تناظر اور تجربات کی بنیاد پر ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بی این ایم اور بی ایل ایف کے علاوہ دوسری تنظیمیں اس معیار پر پورا نہیں اترتے ہیں جنہیں پارٹی اور تنظیم کا معیار مانا جاتاہے ۔
میں ایک جہدکار کی حیثیت سے محسوس کررہاہوں کہ بلوچوں کی باقی جتنی تنظیمیں ہیں ان میں جمہوریت ،سیاسی شعور ،اختیار کی تقسیم اورجمہوری مرکزیت کی کمی ہے ۔میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ان تنظیموں میں اختیارات کی تقسیم کی فقدان ہے اورفرد واحد کی حکمرانی ہے۔ جمہوریت مرکزیت سے لے کر اورسیاسی اداروں کی کمی ہے ۔۔میں پھر سے دوستوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ اگر وہ بلوچستان کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں تو اس جنگ میں انہیں ایسے منظم سیاسی تنظیم کی اشد ضرورت ہے جسے واقعتاتنظیم یا قومی پارٹی کہاجائے ،اوران میں پالیسی ساز ادارہ ہوناچاہئے اورادارے میں جمہوری مرکزیت ہونا چاہئے۔ فرد واحد نہ تنظیم چلاسکتا ہے اورنہ ہی آزادی حاصل کرسکتی ہے۔ میرا دوستوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ قومی آزادی کے جدوجہدکے لئے اس عالمی سچائی کا ادراک کریں کہ اس جدیددورمیں شخصی اجارہ داری ایک دقیانوسی اور فرسودہ سوچ ہے،اس سے چھٹکارہ پانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے حاصل وصول سوائے زیاں کے کچھ نہیں 

среда, 21 февраля 2018 г.

خاران کے بُلبُل زہری کے چٹان سے ملاقات.
تحریر زمرک زہری
یہ دن پوری ی دنیاء کے مسلموں کا تہواری دن تھا، دنیاء کے کونے کونے میں عید کی تیاریاں اور خوشیاں منایا جارہا تھا، بازاروں میں رنگ برنگیاں سجھی ہوئی تھی، ہر طرف ایک میلا نما سا منظر بنا ہوا تھا. پوری دنیاء کے مسلم کمیونٹی کیلئے خوشی کا لہر تھا.
ہم بلوچ بھی مسلم ہیں مگر ہم دنیاء کے باقی مسلموں سے کچھ مختلف دکھائی دے رہے تھیں.
دنیاء کے چاروں طرف عید کی تیاریاں ہو رہی تھی مگر یہاں میرے دیس میں ہر گھر پر عید ایک غم کا آندھی لےکر آرہا تھا.
کیونکہ بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں ہر گھر سے ایک یا ایک سے زائد فرزند یا تو لاپتہ ہے یا پھر شہید کردیا گیا ہے.
بلوچستان میں یہ تہوار دنیاء سے کافی مختلف تھا اور اسی مختلف منظر نے ہمیں بچپن سے ستائے آیا ہے اور تب ہی سے ہم منتشر ہیں.
عید بھی ہوگئی سب نے عید بھی منایا لوگ دوستوں اور عزیزوں کے میل جُل میں مگن تھے مگر میں خود کو خوش قسمت بھی کہتا ہوں اور بد قسمت بھی.
خوش قسمت اس لئے کہ اس تہوار کے دورانیہ میں میرا ملاقات دو وطن کے بہادر سپوتوں سے ہوا. اور بدقسمت اس لئے کہ میرے گمان تک میں یہ نہیں تھا کہ یہ ان سے پہلی اور آخری ملاقات ہوگی اور وہ دو ہیرے اس بدقسمت راج سے بچھڑ جائیں گے.
میرا شہر کبھی باغیوں کا گڑھ کہلایا جاتا تھا مگر نہ جانے کس بلا کا سایہ اس پر پڑی کہ سب کے زندگیوں پر غلامی کا بسیرا ہوگیا ہم کھل کے یہاں اپنے وطن، راج، ثقافت اور تہذیب پر گپیں لڑاتے تھیں مگر اب حالات یہ ہین کہ مجھے اپنے وطن کے عاشقوں سے دور دور پہاڑوں سے گنجان اور پسماندہ علاقوں میں جاکر ملنا پڑا.
میں ایک معاشرے کےگھٹن زدہ روایات و کردار سے ستایا ہوا بچے کی طرح اکثر سوچا کرتا تھا کہ میں تو اس اندھیری رات کا سفر جیسے بھی تک کٹ چکا ہوں مگر آنے والے نسلوں کا بھی یہی حال ہوگا کیا؟
جب سے ہوش سنبھالا ہے میرا وطن جھلسا ہوا مجھے نظر آرہا ہے، ہر روز ایک نوجوان کی مسخ لاش ملتی ہے یا پھر لاپتہ ہوتا ہے.
بابا اور بھائی کبھی بھی آکر ان کے متعلق بات تک نہیں کرتے جیسے ہر گھر کے پیچھے ایک فوجی کیمپ قائم ہے.
آزاد بلوچستان تو دور صرف بلوچستان کا نام آپ کبھی بھول کر بھی لب سے ادا کرے تو آس پاس موجود لوگوں کی نظریں آپ کی طرف اس گمان سے ٹک جاتے ہیں کہ یہ کون ہے اس بھیڑ میں اتنا کچھ کہے جا رہا ہے اور جان کا خطرہ بھی نہیں.
ایسا لگتا ہے آقا ڈنڈا ہاتھ میں لئے ہمارے سرپر کھڑا ہے.
یہ حالات نے مجھے دماغی طور پر منتشر کردیا.
فطرت کچھ اور کہے جا رہا تھا حقیقت کچھ اور بن چکا تھا ہنارے لئے.
تبھی سے ہم انگاروں میں جلنے کا ٹھان لیا اور اپنی سنگتوں کی متلاشی بنے.
اس تلاش میں کافی وقت لگے شاید یہ میری کمزوری تھی کہ میں اپنی جزبات کو سامنے نہیں لارہا تھا.
مگر جنہوں نے میری جزبات کو سمجھا تھا انہوں نے کمال کردیا.
میں تو چند الفاظیں بھی کسی محفل میں کھلے بازار میں آزادی کیلئے ادا نہیں تھا مگر وہ چہروں کو پڑھنے والوں نے کمال کردیا.
نہ جانے کہاں میں بھول میں بلوچستان اور بلوچ راج کے حق میں کچھ لکھا یا بیان کیا تھا کہ مجھے بہت کم وقت میں ایک سنگت کا پیغام آ پہنچا.
کچھ دن کے روابط میں مجھے وہ جانشینوں نے اپنے کاروان کا ایک حصہ قرار دے دیا اور مجھے ملاقات کیلئے بلایا اور میں ایک ستایا ہوا کم علم انسان کی کفیت ہی بدل گئی ایسا لگا برسوں کے پیاسے کو دریاء مل گیا.
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر میں پہلے پیش قدمی کرتا تو شاید میرے وطن کے فرزند پہلے مجھے اپنے دیوان میں بُلاتے.
مگر دیر ہی سہی ایک ملاقات تو میرے زندگی کے کسی حصے میں شمار ہوا.
جب دلجان کے ایک سنگت کا مجھ سے اچانک رابطہ ہوا تو اس نے کہا سنگت اگر آپ چاہو تو ہم آپ سے ملاقات کا طلبگار ہیں. میں برسوں سے ملنے کیلئے ترسا ہوا انسان کیسے انکار کرتا. میں نے کہا جب آپ چاہو ہم ملنے کیلئے آئیں گے.
ہائے یہ تنگ دستی موبائل نہ ہونے کی وجے سے سنگتوں سے کچھ دن رابطہ نہ ہو سکا.
مگر جس کو راہ ڈھونڈنے ہو اور راہ آزادی کا ہو تو اس کیلئے سارے ذریعے کھل جاتے ہیں.
میں نے کہیں سے بھی رابطے کا ذریعہ نکال کر سنگتوں سے رابطہ جاری کیا تب مجھے دلجان اور نورالحق سے ملاقات کا موقع دیا گیا. میں اپنی شہر سے نکل کر گھنٹوں کی سفر طے کرکے اس نگری میں جا پہنچا جہاں مجھے ان جانبازوں سے ملنا تھا.
کل مجھے ان دو ہستیوں سے ملنا ہے جو آج شہداء تراسانی کا پہچان اپنے نام کرکے امر ہوگئے.
موبائل نہ ہونے کی صورت میں میں نے کسی دوست سے موبائل چند منٹ کیلئے اس سے لیکر ھنینا دلجان کو پیغام بھیجا تھوڑی دیر بعد ہمارے دل و جان کا پیغام آیا روایتی حال حوال کے بعد اس نے دوسرے دن ہمارے ملاقات کیلئے مناسب سمجھ کر کہا کہ کل ملتے ہیں.
2011سے یہی میری خواہش تھی کہ سنگتوں سے مل لوں اور ان کی درسِ دیوان میں شمول کا موقع حاصل ہوں. ان سے کچھ سیکھنے کو ملے اور اپنی وطن کی محبت کو عشق میں بدلنے کی صلاحیت ان سے حاصل کر سکوں آخر وہ دن میرے زندگی کی خوبصورتی کا ایک اہم حصہ بن گیا، دوعظیم وطن کے سپوتوں سے ملاقات کا عین میرے خواہشات کے مطابق موقع مل گیا.
رات بھر ہزاروں خیالوں میں گم رہا سوچتا رہا کہ کل جب اُن سے ملاقات ہو جائے گا تو ان سے کچھ سوالات ضرور پوچھوں گا اور کہیو سوال میرے زہن میں گردش کر رہے تھے
صبح جب ہوا آنکھ کھلی تو دیکھا وہ پہاڑی سے گنجان علاقہ میرے نظر میں ایک جنت کا منظر پیش کر رہا تھا شاید اس لئے کہ میرے برسوں کی خواہش آج اس بنجر علاقے میں پوری ہونے والا تھا.
ہم اس جگہ روانہ ہوئیں جس کو سنگت دلجان نے انتخاب کیا تھا، میں نے گھر سے نکلنے کا پیغام سنگت کو ارسال کیا کہ ہم نکل چکے ہیں. سنگت کا پیغام تھوڑی دیر بعد آیا کہ آپ آجائیں ہم بھی ادھر آپ سے ملیں گے.
اب راستے میں سفر کے دوران سینکڑوں باتیں مجھے ستانے لگے کہ کیسے سنگتوں سے ملوں گا کیسے سلام دعا کروں گا اور اپنے جزبات و وطن سے محبت کی شدت ان کو شیئر کروں گا.
ہم ان سے پہلے وہاں پہنچ گئیں پھر جاکر کسی جگہ پر ان کا انتظار کرنے لگا.
ایسے حالت میں انتظار انسان کیلئے موت کی گھڑی ہوتی ہے مگر یہاں انتظار ایک عجیب منظر پیش پیش تھا.
تخت دار تو دعویٰ کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ ہم نے بلوچستان کو سب سہولیات فرہم کیا ہے مگر اس دن بجلی نہ ہونے کی وجے سے موبائل کا چارج بھی آخری لمحات میں تھا تب مجھے سمجھ آیا کہ ان کی مہربانیاں کتنی ہے اس دیس پر.
خیر جیسے بھی ہوا ان سے رابطہ جاری رہا.
اچانک ھنینا دلجان کا پیغام پہنچا کہ ایک جگے پر آنے کا مجھے کہا اور میں موبائل دوست کے حوالے کرکے اکیلے سنگتوں کے جانب بڑھنے لگا.
یہاں ہر شخص مشکوک ہے جب میں سنگتوں کے جانب بڑھنے لگا تو میرا دوست مجھے عجیب نگاہوں سے گھور رہا تھا جیسے اس کی آنکھیں مجھ سے مخاطب ہیں کہ کہاں جا رہے ہو اور کس سے ملنے.
کیونکہ یہاں جان کا خطرہ بھی کسی کیلئے خالی نہیں شاید وہ مجھے اکیلے جاتے ہوئے یہی محسوسـکر رہا تھا کہ اکیلے کہیں بھی جانا خطرے سے خالی نہیں مگر میں آگے بڑھ گیا.
میں وہاں سے تھوڑا آگے نکل گیا کہ دیکھتا ہوں دو بندے چہرے رومال سے چھپے ہوئے موٹرسائیکل پر آکر میرے قریب کھڑے ہوئے.
روایتی مصافحہ اور حال حوال کے فوراً بعد میں سنگتوں کے ہمراہ وہاں سے نکل کر کسی محفوظ جگے پر کسی سائے دار درخت کے نیچے پہنچے.
آج میں اور وہ درخت تو ہیں مگر وہ دو جانباز نہیں رہے جس کو اس درخت نے پناہ دیا تھا.
آج میرے سینے سے ایک درد اور ایک فخر ایک ساتھ نکل رہے ہیں حیران ہوں کہ درد کا ہوجاؤں یا فخریہ لمحات کا.
ہم تینوں جاکر ایک طرف بیٹھ گئیں بلوچی روایت کے مطابق پھر سے علاقائی حال حوال ہوا سنگت نے مجھ سے تعارف پوچھا ایک دوسرے سے اپنے تعارف بھی ہوئے.
میرے زندگی کا یہ پہلا دن تھا ان جانبازوں کے درمیان خود کو پاکر عجیب محسوس کر رہا تھا.
میرے جتنے بھی سوالات تھے سب نے دم توڑ دیئے.
اور ہمارا اُستاد دلجان آزادی کے متعلق باتیں کرنا شروع کیا میں بس ایک نالائق شاگرد کی طرح اسے سنتا رہا. ایسا لگ رہا تھا میں کسی عالمی ادارے میں کسی پروفیسر کا لیکچر سُن رہا ہوں تب عجیب خیالات میرے زہن میں ابھرے کہ پہاڑوں میں رہنے والے دن رات دشمن سے قوم راج اور خود کو حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کیا نہیں سیکھتے ایک آکسفرڈ یونیورسٹی کے پروفءسر سے بھی اچھے انداز میں مجھے سمجھا رہا تھا.
قوم کے خیرخواہوں سے لیکر غداروں تک سب کے متعلق بتاتا گیا. اور عین اسی وقت بارگ فون پہ کسی مجھ جیسے نکمے کو گائیڈ کر رہا تھا.
دو قوم کے استاد ہم سے بچھڑ کر اس قوم کو نیند سے جگایا اور خود امر ہو گئیں.
لیکچر سناتے سناتے جیب سے سگریٹ کا پاکٹ نکالا اور بارگ سے ماچس لیکر سگریٹ سلگایا، تب مجھے کیوبا کا ہیرو چی گویرا یاد آیا. مگر ہمارا دلجان بلوچستان کا چی گویرا تھا اور بارگ اس کا ہمراہ پختا ساتھی اس کا ہمراز ہو جیسے ساتھ بیٹھا تھا.
ان کی زندگی کا گزر بسر ہم سے کافی مختلف تھا. مٹی پر بیٹھنا ان کا شیوا بن چکا تھا. ان کی باتوں کا انداز جیسے کوئی مفکر محوگفتگو ہے. نہ زات پر اتر پن ہے نہ خود کی جہد پر غرور.
اُن کے بیٹھنے اور باتیں کرنے کا انداز آج بھی میرے نگاہوں میں گھوم رہا ہے.
وطن سے محبت کرنے والوں کو کسی ریشم کا کالین یا صوفا کی ضرورت نہیں وطن کی مٹی ان کیلئے کسی ریشم سے کم نہیں یہ بھی مجھے دلجان اور بارگ نے اس دن سکھا دیا.
سنگتوں کی اس ملاقات نے میرے سوئے ہوئے آنکھوں کو کھول دیا کہ آپ کے وطن آپ سے کیا چاہتا ہے اور آپ میں وہ سارے صلاحتیں ہیں جو کسی انقلابی سوچ کے مالک کے پاس ہوتے ہیں.
آپ بھی اپنے دوست اور دشمن میں فرق کر سکتے ہو بس آپ کو آگے بڑھنا ہے وطن کے خاطر راج کے خاطر اپنے آنے والے نسلوں کے خاطر.
آپ کو بھی اپنے اندر یہ خوبی جگانا ہوگا کہ ماں بہنوں اور وطن کی عزت کو کس نے تار تار کیا اور کس غدار نے اپنے آقا کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر اپنے راج کے آشیانوں کو جھلسا دیا اور آگ لگا رہے ہیں.
اور سنگتوں کی وہ چند کے منٹ کے ملاقات نے مجھے ہمیشہ کیلئے بدل دیا.
مجھ جیسے ہزاروں نوجوانوں کو جگانے کیلئے دلجان اور بارگ آگے بڑھے تھے تاکہ مجھ جیسے غافلوں کو اپنے ساتھ لیکر آگے بڑھیں مگر قسمت کا ہمارے ساتھ مزاق آج کا کھیل نہیں برسوں کا ہے.
ابھی تک امتیاز کا زخم بھرا نہیں تھا کہ ہم دو اور جانبازوں سے ہار گئیں.
مگر آج دلجان اور بارگ زندہ ہیں مجھ جیسے ہزار نہیں سینکڑوں نہیں کم از کم دس بیسوں کو تو دلجان و بارک نے سنبھالا ہوگا.
اگر ان دس بیسوں سے دو بھی اس کاروان کا حصہ بنیں دلجان اور بارگ کا یہ جدوجہد رہینگان نہیں گیا جس کیلئے وہ اپنا جان ہتھیلی پر رکھ کر زہری جیسے علاقے میں پہنچ گئیں.
اس ملاقات کے اختتام کے بعد مجھے اپنے وہی جگے پر پہنچا دیا اور واپسی میں یہی کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کہ
رخصت اف اواروں سنگت

понедельник, 19 февраля 2018 г.

دنیا پاکستان کے بغیر زیادہ پر امن ہوگا....امر جیت سنگھ 


یہ مضمون A World Without Pakistan Will be more peaceful’’انڈین ڈیفنس ریویو‘‘ میں ستمبر2015 اور دوبارہ 26 فروری2017 کو شائع ہوا۔اسکی اہمیت کے پیش نظر اسکے اردو کے قالب میں ڈالا گیا۔ادارہ

تحریر : ڈاکٹر امر جیت سنگھ ...... ترجمہ: گل بی بی بگٹی

دریائے سندھ سے لیکر شام و ترکی بارڈر تک کے علاقے کو سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ہزاروں سال کی تاریخ میں لپٹی ہوئی اسی علاقے میں خود ستائی سے بھرپوردنیاکی پہلی عظیم طاقت’’ ایرانی سلطنت ‘‘ شیعہ سنی علاقے اور کسی زمانے کسی حد تک ، بدھا ، زرتشی (Zoroastrian )عقا ئد ،آرین ویدک مسلک کے کافی اثرات کے علاوہ یہودی عقیدہ،سندھ اور بابل تہذیبوں کا وارث ہو نے کی بنااپنے ما ضی کے تمام مجتمہ ادراک(wisdom )کی بدولت ترقی یافتہ تہذیب کے اگلے صف میں ہو نے کی بجائے آج خود بے انتہا ابترصورتحال میں پھنسی ہوئی ہے۔ علاقے میں تیل کے بڑے ذخائر جو دنیا کی معیشت کومتا ثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں،نے اسکی سٹریٹیجک اہمیت میں مزید اضافہ کیا۔لیکن بد قسمتی سے خطے میں موجود مشتعل و متشددبنیاد پرستی کی اسلامی تشریح نے علا قے کے لوگوں کے ساتھ مصا لحت کو کافی مشکل کردیا۔مغربی طا قتیں جانتی ہیں کہ اس علاقے کواپنے حال پر چھوڑنے سے یہ علا قہ خطہ کی مضبوط طاقتوں جیسے ، دوبارہ سمبھلنے والی روس اور توسیع پسند(irredentist )چین جو دنیا پر حاوی(Hegemony )ہونے کی کوشش میں ہیں،کا شکار بن سکتی ہے۔یہ صحیح ہے چین کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ وہ خامو شی سے مشرق وسطی کے ساتھ اپنی نئی زمینی و سمندری ریشمی راستوں (Silk Routes )کے ذریعے دوبارہ منسلک ہو۔جو طا قتیں مشرق وسطی کو کنٹرول کریں گی وہ نہرے سویز اور سٹریٹ آف ھر مز جو دنیا کی 30% تجارتی تیل کی گذرگاہ ہے کو بھی کنٹرول کریں گی۔

تا ریخی حقا ئق:
(Historical Factors )

اگر دہشت گردی اس اہم علاقے کو متاثرکرے گا، تو یہ موجودہ تہذیب کے لیئے پریشان کن ہوگا،اگر چہ ایک غیر مستحکم مشرق وسطی مغربی طاقتوں کو مدا خلت کا بہا نہ مہیا کرے گا ،اگر ان کے پاس اور کوئی بہانا نہ ہو۔دوسری صورت میں ایک پر امن اور خاموش مشرق وسطی ریچھ اور اژدھا(Bear and Dragon )کے حملوں اور وہاں کے ملکوں پر قبضہ کا سبب بن سکتی ہے۔یہ نہیں بھولنا چا ہیئے کہ کسی زمانے منگول جنکی منگولیا ،جو اب شمالی چین ہے،پر حکومت تھی، کا مشرق وسطی پر بھی کنٹرول تھا۔ پنج دہ واقعہ(ُPanjdeh incident in 1885 )کے بعد لندن اور کلکتہ میں خطرے کی گھنٹیاں بجیں تو عظیم بر طا نیہ نے روس کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیکراسکی ’ جنوب کی جانب’ گریٹ گیم مارچ ‘کودریائے آمو کے جنوب میں روک دیا۔اگر چہ روس کی خوائش تھی کہ وہ ایران پر قبضہ کرے اور ایران بھی کمزور تھا،لیکن بر طا نیہ کا سفارتی سخت لہجہ اور دھمکیاں روس کوایران پر قبضہ کرنے سے بعض رکھنے میں کا میاب ہو ئیں۔عظیم بر طا نیہ نے پہلی جنگ عظیم میں مشرق وسطی پر کئی اثرات کا تدارک کیا،خا ص کر عثما نیہ سلطنت کے اثرات کا، اس مہم میں اکثر ہندوستانی فوج کو استعمال کیا گیا۔عثمانیہ سلطنت برطا نیہ کا سدابہار نہیں بلکہ موسمی دوست تھا۔ہندوستانی کرنسی اسی لیئے مشرق وسطی اور خاص کر خلیج فارس میں1955 تک رائج تھی۔

ہندوستان کے لیئے صرف ایک انتخاب:
(Indias Hobson's Choice )

بہر حال اس سب کا نچوڑ یہ ہے کہ مشرق وسطی کی غیر متوقع بگڑ تی(Volatile ) صورتحال مغرب کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ وہاں اپنی موجودگی بر قرار رکھے۔ مغرب اپنی اثر رسوخ کے لیئے چا ہے گی کہ مشرق وسطی غیر مستحکم رہے۔کیونکہ بہت سی وجو ہات کی بنا جن میں سے ایک بڑی وجہ مغرب کی وہاں کے لوگوں کے تا ریخ و ثقافت سے لا علمی ہے، اس لیئے وہ وہاں کوئی بہتری لانے کی امید نہیں رکھتا ۔وسیع ذرائع نہ ہو نے کی وجہ سے ہندوستان کو شرق اوسط میں صرف ایک انتخاب(Hobson's Choice ) کا سا منا ہے : یا تو وہ وہاں پر کنٹرول برداشت کرے اور سنی بنیاد پرست دہشت گردوں سے لڑتا رہے،جنہوں نے اسلام کے نام پر ہندوستان کو دوبارہ فتح کرنے کا تہیہ کیا ہے ، یا شرق اوسط اور بحر ہند پر کمیونسٹ روس اور ،یا،کمیونسٹ چین کی بالا دستی (Hegemony ) برداشت کرے، یا مغرب کو اسلامی دہشت گردی کا صفایا کرنے کے لیئے وہاں خوش آمدید کہے۔آ خری انتخاب سمجھ میں آنے والی ہے کیونکہ مغرب اور ہند میں یہ تین بہترین اقدار مشترک ہیں: جمہوریت، مذہبی آزادی اور عام انگریزی قوانین(English Common Law )۔

آئی ایس آئی اور آئسز :
(ISI and ISIS )

ایسا لگتا ہے کہ سنی دہشت گرد اپنی بالا دستی قائم رکھنے کے لیئے ہمیشہ تخلیقی راستے ڈھونڈلیتے ہیں۔اسطرح سنی آئی ئسز اور سنی پاکستان اور طالبان کے ما بین رشتے ’’پان اسلامک سلطنت‘‘ سندھ سے لیکر شام ، ترکی بار ڈر’’ کو بانی‘‘ تک گہرے ہیں۔طا لبان اور ISI آئسز (ISIS) کے لیئے افرادی قوت کے علاوہ ، مقا صد کے حصول کے لیئے’ تحریک‘ کا سرچشمہ (Source of Inspiration )ہیں۔پاکستان کی ISI خود ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔اسے دہشت گرد قرار دینے کے لیئے واشنگٹن ڈی سی میں بل تیار ہے۔ بل پر فیصلہ کسی دن،منا سب وقت پر، امریکہ کی پاکستان حکومت سے رعا یتیں لینے پر منحصر ہے۔جس طرح ISI اور ISIS کے نام میں ابہام ہے اسی طرح ISIS اصل میں ISI کا’جمع ‘ہے۔ جب آپکے پاس کئی ISI ہوں تو یہ ISIS بن جاتے ہیں۔حقیقت میں ISI نے کشمیر، پنجاب اور تمام ہندوستان میں دہشت گردی کو متعارف (Sponsored )کیا۔امریکہ کے ساتھ اسکا دوھرا کردار جاری ہے اور طالبان اسکا واضع ثبوت ہیں۔ISI اپنی خفیہ کارروائیوں کی بنا پا کستان میں حکومت کے اندر ایک حکومت کی شہرت رکھتی ہے۔یہ حقیقت ہے ISI پاکستان کی اندرونی سیاست میں فوج کو بالا دستی دلانے کے لیئے دھماکے کراتی ہے۔اس کے علاوہ سب سے خطر ناک پہلو یہ ہے کہ اسلام کی فتنہ انگیز اور مبالغہ آ میز تشریح کی جو گونج آج مشرق وسطی میں سنائی دے رہی ہے اسکی فلاسفی کی جڑیں پاکستان کے مدرسوں میں ہیں، جنہیں وہابی اسلام اور ISI کی مکمل مدد حاصل ہے۔حال ہی میں ISI اور ISIS اس بات پر متفق ہوئے کہ ہندوستان پر ایک بار پھر اسلام کا غلبہ ہونا چا ہیئے۔ہندوستان کی سوئی ہوئی سیاسی ہندو مشینری اس خوف سے کہ وہ داخلی طور متعصب دکھا ئی نہ دے،ان مسائل پر سست روی کاشکار ہے۔ اسلامی دہشت گردی پہلے سے ہندوستان میں ایک مضبوط بنیاد بنا چکی ہے ،پس اس لحاظ سے کوئی بھی ملک نہ تو اتنا غیر مستحکم ہے اور نہ اسے اسلامی دہشت گردی سے اتنانقصان ہونے جا رہاہے جتنا ہندوستان کو ۔

ISIS کوراستہ ISI سے ہو کر جاتی ہے :
(The Road to ISIS Goes Through ISI )

اب جب ISI اور ISIS ہندوستان میں ممکنہ تباہی پھیلانے پر متفق ہیں،ایسے میں ہزاروں سلیپر سیلزاور ان مدرسوں جن پر اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں ،جن میں سے 1200 ہندوستان اور بنگلہ دیش کے بارڈر پر ہیں اور وہ ہندوستانی خاص کر پسماندہ ذات کے جو اسلام قبول کریں گے ،پر مزید اربوں ڈالروہابی اسلام کی تبلیغ پر خرچ ہونگے، کا کیا بنے گا؟۔انڈیا واقعی بہت زیادہ غیر محفوظ ہے۔لیکن ISIS کا ایک طاقتور مدد گار ISI ہے۔ISIاسکا جنگی داؤ پیچ (Tactics ) اور سراغرسانی (Intelligence ) میں مدد کرتا ہے۔اگرISI ختم یا ڈھیر ہو جائے تو ISIS نہت کم (Minimized )ہو جائے گا۔پس یہ تسلیم کرنا ہوگاکہ ISIS سے لڑنے کی راہ ISI سے ہو کر جاتی ہے۔اسی طرح ٰISIS کو جڑ سے اکھاڑ نیکی راہ پاکستان سے ہو کر جاتا ہے۔اگر پا کستان کو ختم کیا جائے تو دنیا میں دہشت گردی اپنی موجودہ نشان (level )سے 10% سے بھی کم رہ جائے گی۔

پا کستان کو امداد دینا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے:
(Funding Pakistan Mean's Playing with Fire )

جنرل راحیل شریف پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف امداد کے لیئے امریکہ گئے تاکہ قدرے نا بینا امریکہ کے آنکھوں میں مزید دھول ڈال سکیں ۔پاکستان میں دہشت گردی کے نام پرامدادکازیادہ حصہ خود بخود ISI کو جاتا ہے۔جنرل را حیل جو بات نہیں سمجھ رہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں پھر بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو انکے کھیل کو سمجھتے ہیں۔وہ جانتے ہیں دہشت گردی کا مقابلہ کر نے کے لیئے پاکستان کی مدد کے معنی خود دہشت گردی کی مدد کے مترادف ہے۔لیکن کیا وہ قدرے بیوقوفوں کو اور بیوقوف بنا سکتا ہے؟۔تا ہم طاقتور امریکہ کی بات اور ہے۔ہو سکتا ہے وہ اپنے پیش روؤں کی طرح کا میاب ہوں،جو امریکہ کو بار بار بیوقوف بناتے رہے ۔یہ یاد رہے کہ کس طرح بلو چستان میں ISI نے امریکی فوجی رسد پرحملہ کرایااور طا لبان پر اسکی ذمہ داری ڈال دی۔پھر اپنے فوجی پروگرام کے لیئے امریکہ سے رعایتیں حا صل کیں۔ابھی تک وقت ہے امریکہ یہ سمجھے کہ پاکستان کی امدادکے معنی آگ سے کھیلے کے سوا کچھ نہیں۔صدر اوباما جس نے عراق سے تمام امریکی فوجی دستے بلاکرتزویراتی(Stratigic )غلطی کی،کوشاید امریکہ کی پوزیشن کا دوبارہ جا ئزہ لینے پر قائل کیا جا سکے جب وہ ا نڈین ریپبلکن ڈے پریڈ میں شرکت کریں گے۔

نتیجہ:

پاکستان کے بغیر دنیاپر امن ہوگا:
(A World Without Pakistan Will Be Peaceful )

اگر امریکہ افغانستان ،پاکستان اور شرق اوسط میںآگ بجھا نا چاہتاہے تودہشت گردی کے خلاف اسے پاکستان کی بجائے انڈیا کوفنڈ دینی چاہیئے۔جتنی رقم وہ پاکستان کو دیتاہے اسے چار گنا کرکے ہندوستان کی امدادکرے۔جو امدا داسلامی ہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہندوستان کوملے گی وہ ہی صحیح استعمال ہوگا۔آ خر میں،امریکہ کی پاکستان سے مکمل گلو خلاصی کی کوششیں ہی صحیح کوششیں ہو گی۔دوسرے لفظوں میں دنیاپاکستان کے بغیر بہت زیادہ پر امن ہوگا۔اب بھی وقت ہے امریکہ دہشت گردی سے لڑنے کے لیئے ہندوستان کا ساتھ دے ،نہ کہ پاکستان کا ساتھ دیکر دہشت گردوں کی مدد کرے۔اگر پاکستان اور اسکا شمال مغربی علاقہ انڈیا کے کنٹرول میں ہو تو انڈیا طالبان اور زیر زمین پشاور اسلحہ کے بازاروں کے پھیلاؤ کو روکنے(Check ) کے قابل ہوگا۔حشیش کی بر آمدطالبان کی معاشی طاقت ہے،حشیش کواسکے پیداواری علاقوں کے قریب ہوکر ہی روکا جا سکتا ہے۔دنیا بھر میں جرائم اور دہشت گردی کے مابین تعلق(Connection )کا مرکز(Origin ) پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علا قے ہیں۔جسے قریب سے ہی مونیٹر کیا جا سکتا ہے۔یہ ایک مو قع ہے دنیا گذشتہ دو دہائیوں کی شدید دہشت گردی سے نکل آئے۔اور یہ اس وقت ممکن ہے جب یہ فیصلہ ہو اور اس پر عمل بھی ہوکہ پاکستان ایک قوم کی صورت باقی نہ رہے ۔یہ انتخاب آسان نہیں لیکن متبادل اس سے بھی زیادہ مشکل ہیں۔