Powered By Blogger

суббота, 31 марта 2018 г.


براہمدغ نےبلوچستان پرپاکستان کےجبری قبضہ کو رضاکارانہ شمولیت کیوں قرار دیا؟ رحیم بلوچ ایڈووکیٹ



بلوچ قوم دوست و آزادی پسند حلقےشروع ہی سےبلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کےعمل کوجبری قبضہ قرار دیتےرہےہیں اس تاریخی واقعہ کےبارےمیں متعدد مورخین،محقیقین اوردانشوروں کی درجنوں کتابیں،تحقیقی مقالے،مضامین اور بلوچ قوم دوست رہنمائوں بشمول شہید اکبرخان بگٹی اوربراہمدغ بگٹی اور اس کی بی آر پی کےبیانات موجودہیں یہ بھی بلوچ آزادی پسند حلقوں کی روایت رہی ہےکہ وہ مارچ کی 27 تاریخ کوبلوچستان پر جبری قبضہ کے دن کے طورپر یوم سیاہ مناتےرہےہیں اس عمل میں بی آر پی بھی شریک رہاہے 27 مارچ 2018 کو بلوچ آزادی پسند حلقےجب بلوچستان پر پاکستان کی جبری قبضہ کےخلاف یوم سیاہ منانےاوراس بارےمیں مقبوضہ بلوچستان سمیت مختلف ممالک میں تقریبات اور سرگرمیوں میں مصروف تھےتو بی آرپی کےصدرمیر براہمدغ بگٹی(جو بگٹی قبیلےکی سرداری کےدعویداروں میں سےایک ہے) نے سوشل میڈیاویب سائیٹ ٹوئیٹر پر یکےبعد دیگرےمتعدد ٹوئیٹس کئےجن میں اس نےکہاکہ وہ اور ان کی بی آرپی 27 مارچ کو بلوچستان پر جبری قبضہ کا دن نہیں مانتے مزید یہ کہ ریاست قلات کےسوا بقیہ بلوچستان کےدیگرتمام ریاستیں، اور قبائلی علاقےاپنی مرضی سےپاکستان میں شامل ہوئے ہیں ان کےبڑوں سمیت تمام بلوچ قیادت نےپاکستان کے اندر رہ کراپنےحقوق کیلئےجدوجہدکےمختلف طریقےاستعمال کرتےرہےہیں مگربلوچستان کےساتھ نوآبادیاتی سلوک کےباعث بلوچ اب آزادی کامطالبہ کررہےہیں نہ صرف یہ بلکہ اس نےاپنی پارٹی کےبعض کارکنان کےکچھ ایسےٹوئیٹس کو بھی ریٹوئیٹ کیاجن میں براہمدغ کےموقف کو درست اور دوسرےآزادی پسندوں کےموقف کوجھوٹ،حقائق کوتوڑمروڑکرپیش کرنے اورجائزبلوچ قومی مقصد کو گزند پہنچانےکاعمل قراردیاگیاہےاس بیان کے ممکنہ محرکات واثرات کاجائزہ لینےسے پہلےاس بات پر بحث کرتے ہیں کہ ریاست قلات اور دیگربلوچ ریاستوں وقبائلی علاقوں سےبراہمدغ کاکیامراد ہے؟ اور اس کاموقف تاریخی،قانونی اور سیاسی لحاظ سےکتنا درست ہے؟تاریخی طورپرریاست قلات کی بنیاد 1666 میں میر احمد قمبراڑی نے رکھابعد میں آنےوالےاس کےجان نشین تمام بلوچوں کوایک لڑی میں پرونےاورایک مرکزکےتحت لانےکیلئےتمام بلوچستان (بلوچستان کا مطلب ہےبلوچوں کاوطن یاملک) کو اس ریاست قلات میں شامل کرنےکی کوشش کرتے رہےاور ان کی اس کوشش کو مختلف اوقات میں مختلف بلوچ سرداروں کی طرف سےمخالفت و مزاحمت کاسامنارہا۔بلوچ تاریخ کےمطابق میرنصیرخان نوری پہلا خان قلات ہےجس نےنہ صرف جدید بنیادوں پر قلات کاریاستی ڈھانچہ اوردوسرے ادارے تشکیل دیئےبلکہ بیشترخطہ ہائےبلوچ کو ریاست قلات میں شامل کردیا اس عمل میں میرنصیرخان نوری کو صرف کیچ کےسردار ملک دینار خان گچکی کی طرف سےشدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس مزاحمت کےباوجود میر نصیر خان تمام خطہ ہائےبلوچ کو ریاست قلات کے جھنڈے تلے ایک مرکز کے تحت متحد کرنےمیں کامیاب ہوا اس طرح ہم کہہ سکتےہیں کہ بلوچستان ہی کا دوسرا نام ریاست قلات ہےاور تاریخ میں ایسےکئی ممالک یا ریاستیں بنی ہیں جن کا نام ریاست کے مرکز یا دارالخلافہ کے نام پر رکھاگیا ہےجیسےکہ ماضی کاعظیم سلطنت روم ہےجوکہ یورپ اور ایشیاکےایک بڑےحصےپرپھیلا ہواتھامگراس عظیم ریاست کانام اس کی دارالحکومت یا مرکز کے نام پرتھامگرآج روم اٹلی کاایک چھوٹاعلاقہ ہےاسی طرح سلطنت فارس ہےجو مغربی ایشیا،مڈل ایسٹ اور مرکزی ایشیاکےبیشترعلاقوں پر پھیلا ہوا ایک عظیم سلطنت رہاہےجس نےاپنے مرکز فارس سے نام مستعارلیاتھا مگر آج فارس ایران کامحض ایک صوبہ ہےدور کیوں جائیں حمید بلوچ کی تاریخ مکران دیکھیں وہ کہتاہےکہ تاریخ کےایک مرحلےپرپورابلوچستان مکران کے نام سے جاناجاتاتھا اسی طرح تاریخ میں بلوچستان کےبیشترعلاقوں پرمشتمل ایک ریاست طوران کے نام سےہواکرتا تھامگر آج طوران خضدار کےیونین کونسل زیدی کامحض ایک جھوٹاسا موضح ہےتاریخ گواہ ہےکہ نصیر خان اور اس کےجان نشینوں کی اتھارٹی کے خلاف مختلف اوقات میں مختلف بلوچ سرداربغاوتیں کرتےرہےہیں جس کےباعث سرداروں اور خان قلات کےمابین لڑائیاں ہوتی رہی ہیں 1839 کو جب برطانوی ہند کےافواج معزول افغان بادشاہ شاہ شجاع کو دوبارہ تخت کابل دلانے کے لئے افغانستان لےجانے کی تیاری کررہے تھے تو شکارپور،خان گڑھ (موجودہ جیکب آباد) اور بولان سے بحفاظت گذرنے کیلئے کچھی یا سراوان کے سرداروں سے نہیں بلکہ 28 مارچ 1839 کو خان قلات میر محراب خان کے ساتھ ایک معاہدہ کیاجب افغانستان جانے والے انگریز لشکر کو کچھی اور بولان میں حملہ کرکے بلوچ لوٹتےاورنقصان پہنچاتےرہےتواس کےلئےہندوستان پرقابض انگریز حکمرانوں نےخان قلات کو ہی ذمہدار ٹھہرایا اور اسی بہانےجنرل ولشائر کی قیادت میں انگریز لشکر نے 13 نومبر 1839 کو ریاست قلات کےمرکز میری قلات پرحملہ کیاتو خان میر محراب خان حملہ آورلشکر کےسامنےہتھیارڈالنےکے بجائےاپنےامرا اور رفقا کےساتھ مل کر دشمن کےخلاف لڑتےہوئےباوقارشہادت کو ترجیح دی۔یہ تاریخی واقعہ اس بات کا ثبوط ہےکہ خوانین قلات ہی پورے بلوچستان کےحکمران تھےاور برطانوی ہند کےانگریز ان کو بلوچستان کا جائز حکمران مانتے ہوئے ان سے 1841, 1854 ,1862, 1863 میں مختلف معادے کئے 1860 کی دہائی کے آخر میں جب ڈیرہ غازی خان میں متعین برطانوی ہند کے ڈپٹی کمشنر رابرٹ سنڈیمن نےانگریزی اتھارٹی قائم کرنے کیلئےکوہ سلیمان کےبعض بلوچ سرداروں سمیت مری اور بگٹی سرداروں سے رابطہ کیاتو اس کے اعلیٰ حکام نے اس کے اس حرکت پر ناپسندیسگی کااظہار کرکےاسےریاست قلات کےمعاملات میں دخل دینےسےمنع کیااس پالیسی کوکلوز بارڈر پالیسی کانام دیاجاتاہے سنڈیمن خان قلات کےساتھ ساتھ سرداروں کے ساتھ معاہدات کرنےاور ان کومراعات دےکر ان کی وفاداریاں خریدنےکوبرطانوی استعماری مفادات کیلئےزیادہ مفید سمجھتا تھا یہ شاطر افسر 1875 کےاواخر میں قلات گیاتو کوہ سلیمان،کچھی،سراوان، جہلاوان بشمول مری وبگٹی قبائل کےدوسو کےقریب سردار،وڈیرےاورمعتبر اس کےہمراہ تھےاس نےخان قلات،بیلہ، خاران،سراوان اورجہلاوان کےسرداروں کےدرمیان اختلافات کابھرپورفائدہ اٹھایا اور 1876 میں خان قلات اوراس کےماتحت سرداروں جام لسبیلہ،سردار رئیسانی،سردارمینگل،سردارزہری اور سرادار نوشیروانی وغیرہ کےساتھ اس کے تنازعات کاتصفیہ کیاتمام بلوچ سرداروں نے خان قلات کو اپناحکمران تسلیم کیا اورسنڈیمن نےخان قلات اور سراداروں کےمابین آئندہ تنازعات کی تصفیہ کیلئے حکومت برطانوی ہند کی ثالثی حیثیت کو ان سے منواکربڑی چالاکی سےخان اور سرداروں کوبرطانوی ہند کےماتحت بنالیا۔افغانستان اورایران کےحکمرانوں کو روسی اثرورسوخ سےباہررکھنے،اپنے ہندوستان کی نوآبادی کی حفاظت،فوجی و تجارتی نقل وحمل اورمعاشی سرگرمیوں کیلئےبرطانوی ہند کے سرحدوں کوایک کوریڈور کےذریعےبراہ راست ایران اور افغانستان تک وسعت دینےکیلئےبرطانوی بند کےحکام نےمختلف معاہدات کےذریعےکوئٹہ،بولان،نوشکی،چاغی،اور نصیرآباد کی نیابتیں یااضلاع اجارہ پرخان قلات سےحاصل کئے 21 فروری 1877 کو بلوچستان ایجنسی کا قیام عمل میں لایاگیاجوکہ خان قلات سے اجارہ پر لی ہوئی کوئٹہ ودیگرعلاقون پرمشتمل تھابعد میں افغان حکمران سے 26 مئی 1879 کو گنڈمک معاہدہ کےذریعےچھینےگئے پشتون علاقوں کو بھی بلوچستان ایجنسی کےساتھ ملا کر 18 نومبر 1887 کو برٹش بلوچستان صوبہ قائم کیا گیابرطانوی ہند کےانگریز حکمران اپنےبدنام زمانہ پالیسی “لڑائو اورحکومت کرو” کےتحت خان قلات کو سرداروں سےاورسرداروں کوخان سےڈرا کر بڑی چالاکی کےساتھ ان کوایک دوسرےکےخلاف صف آرا کرتےاوراپناوفاداربناتےرہےخان قلات کی نااہلی اورسرداروں کی لالچ وغداری کا فائدہ اٹھاتےہوئےڈیرہ غازی خان کوہ سلیمان،مری،بگٹی و کھیتران قبائل کے علاقوں کو خان سےکسی معاہدہ یااجازت کےبغیربرطانوی ہند کےاتھارٹیز نے برٹش بلوچستان میں شامل کرلیااسی طرح خان کواعتماد میں لئےبغیر میکمیہن سرحدی کمیشن کےذریعےبرطانوی ہند کے حکام نےافغانستان کےساتھ بلوچستان کی سرحدوں کا تعین یکطرفہ طورپرکر کےگولڈ سمڈسرحد کےذریعےمنقسم بلوچ قوم کو مزید تقسیم کردیا۔انہی غیر قانونی اقدامات کی تدارک کیلئےخان قلات میراحمد یار خان نے 1836 میں ہندوستان کےمعروف وکیل محمد علی جناح کو اپناوکیل بنایا اوربرٹش بلوچستان صوبہ میں شامل بلوچ علاقوں کی واگزاری کامقدمہ دائرکیا یہاں یہ بتانابھی مناسب لگتاہےکہ گوادرکاعلاقہ بھی ریاست قلات نےمسقط کےایک باغی شہزادہ کو سکونت کیلئےدیاتھاجو “باہوٹ “بن کرآیاتھااور گوادرکی آمدنی کاکچھ حصہ اس “باہوٹ “عرب شہزادےکی کفالت کیلئےمقرر کیاتھااوربقیہ آمدنی کیچ کے گچکی سرداراورخان قلات میں حسب حصص تقسیم ہوتاتھااب تک کی اس بحث کا خلاصہ یہی نکلتاہےکہ ریاست قلات کی حدود وہ نہیں تھےجو اب مقبوضہ بلوچستان کےایک چھوٹےسےقصبہ نُماشہراورضلع قلات ہےبلکہ جہلاوان،سراوان لسبیلہ،مکران،کوہ سلیمان،کچھی،خاران،سمیت برٹش بلوچستان میں شامل تمام علاقےملاکر ریاست قلات بنتاتھا۔لسبیلہ،خاران اورمکران کوئی ایلگ ریاستیں نہیں تھےبلکہ ریاست قلات کاحصہ تھےدوسری جنگ عظیم کےبعدجب برطانیہ نےہند کوآزادکرنےکافیصلہ کیاتوانتقال اقتدارکا طریقہ طےکرنےکیلئےجو کیبنٹ مشن اور دیگربرطانوی نمائندہ ہندوستان آئےمسٹرجناح نےقلات سےاجارہ پرحاصل کی ہوئی برٹش بلوچستان کےبلوچ علاقوں کو واپس ریاست قلات کےحوالہ کرنےکا مقدمہ ان کےسامنے رکھالیکن بعدمیں جب برطانیہ نےروس کےخلاف اس خطہ میں اپنےمفادات کےتحفظ کیلئےایک چوکیدارریاست کی ضرورت محسوس کی تواس نےمسلم لیگ اورکانگریس کےاختلافات سےفائدہ اٹھاتےہوئےہندوستان کو تقسیم کرنےاورپاکستان کےنام سےایگ ایک ملک بنانےکافیصلہ کیاتب کوئٹہ چھاونی اور برٹش بلوچستان کےکوریڈورکو پاکستان کیلئےناگزیرخیال کیاگیا ۔تقسیم ہند اورقیام پاکستان کافیصلہ ہونےکےبعد مسٹرجناح بھی اپنےموکل خان قلات احمدیارسےغداری کرتےہوئےاجارہ پر حاصل کی ہوئی برٹش بلوچستان کےبلوچ علاقوں کوریاست قلات کےحوالہ کرنےکےاپنے موقف سےمکرگیاجبکہ برطانوی حکام نےسردارجمال خان لغاری،سردار دوداخان مری،چاغی کےسنجرانی سردارسمیت برٹش بلوچستان کےبہت سےسرداروں کی قلات ریاست میں شمولیت کی درخواست مسترد کردی اورفیصلہ کیاکہ برٹش بلوچستان کی پاکستان یا بھارت کےساتھ الحاق کافیصلہ انگریزوں کی تشکیل کردہ شاہی جرگہ اورکوئٹہ میونسپلٹی کےارکان کرینگےبلوچ قومی اتحاد،اقتداراعلیٰ،مفادات اورعالمی قوانین کو روندتےہوئےریاست قلات سےاجارہ پرحاصل بلوچ علاقوں کو نہ صرف ریاست قلات کو واپس نہیں کیاگیا بلکہ استصواب رائے میں بھی ان کو ریاست قلات کے ساتھ شامل ہونےکےحق میں رائےدینےکاحق و اختیار نہیں دیاگیابرٹش بلوچستان کےمعاملےمیں بلوچ اقتداراعلیٰ،ریاست قلات اور برطانوی ہند کےمابین طےشدہ معاہدوں اورعالمی قوانین کی پامالی کاسلسلہ یہیں پرنہیں رکتابلکہ استصواب رائےکیلئے مقررہ تاریخ 03 جولائی 1947 کو شاہی جرگہ و کوئٹہ میونسپلٹی کےارکان کااجلاس اوررائےشماری ہی سرے سے نہ ہوئی بلکہ رائےشماری کی تاریخ اورطریقہ کارکی بابت وائسرائے ہند کاحکم سنانےکیلئےاے جی جی وائسرائے ہند جناب جیفرےنےجب 29 جون 1947 کو ٹائون حال کوئٹہ میں وائسرائےکاحکم پڑھاتو نواب محمدخان جوگیزئی جو کہ برٹش بلوچستان سےرکن قانون سازاسمبلی تھا،نےاعلان کیاکہ وہ پاکستان آئین ساز اسمبلی میں شرکت کرےگامزید رائےشماری کی ضرورت نہیں ہے نواب جوگیزئی نےیہ اعلان مسلم لیگی رہنمائوں اوراپنےایک بیٹےکےورغلانےپرکیاجو کہ برٹش بلوچستان انتظامیہ میں ایک بڑےسرکاری افسرتھےانگریزوں اور مسلم لیگ کو ڈر تھاکہ شاہی جرگہ کےارکان پاکستان کےحق میں ووٹ نہ دینگے۔تویہ ہے برٹش بلوچستان کےبلوچ علاقوں پر پاکستان کےجبری قبضہ کی کہانی جسے بلوچ آزادی کےدعویدار میر براہمدغ بگٹی اوراس کی جماعت رضاکارانہ شمولیت کا نام دینےاور منوانے پر بضد ہیں۔رہی لسبیلہ،خاران اورمکران کامعاملہ تو 1876 کے مستونگ معاہدہ کےموقع پر لسبیلہ،سراوان ،جہلاوان اورخاران کےسرداروں کی تقریریں اور خان قلات کو اپنا حکمران مان لینےکےبیانات اورعملی طورپرریاست قلات کاحصہ ہونا دستاویزی صورت میں موجود ہیں۔آزادی کےوقت خان قلات سےاختلافات کےباعث جام لسبیلہ میرغلام قادراورنواب حبیب اللہ نوشیروانی نےدعویٰ کیاتھاکہ ان کی ریاستیں قلات ریاست کاحصہ نہیں ہیں مگر برطانوی ہند کےحکام نےان کےدعوے کو مسترد کرکےان کی ریاستوں کےامور ریاست قلات کے حوالہ کیااور جولائی 1947 میں مراسلہ لکھ کر دونوں سرداروں کو آگاہ بھی کیا۔04 اگست 1947 کو دہلی میں وائسرائےہند لارڈ مائونٹ بیٹن کی صدارت میں خان قلات،اس کے قانونی مشیر اور مسلم لیگی قیادت کاایک اجلاس ہواجس میں خان قلات نےبرٹش بلوچستان میں شامل اجارہ پرلئےگئےبلوچ علاقوں کی ریاست قلات کوواپس کرنے کا اپنا دعویٰ پیش کیاجس پرمسلم لیگی قیادت نےاتفاق نہ کیاالبتہ ریاست قلات کو ہند سےالگ آزاد ریاست تسلیم کی جس پرتقسیم ہند قانون کااطلاق نہ ہوگا مزید یہ کہ پاکستان کے نمائوندوں اور ریاست قلات کےمابین ایک معاہدہ جاریہ پربھی دستخط کئےگئےاوربرٹش بلوچستان کےاجارہ پرحاصل کی ہوئی بلوچ علاقوں کی ریاست قلات کو واپس کرنےکےمعاملات کا قانونی جائزہ لینےکیلئےقیام پاکستان کی اعلان کےبعد جلد مزاکرات پر بھی اتفاق ہوا۔دہلی سے واپسی پر 11 اگست 1947 کو خان قلات نےبرطانیہ سےمکمل آزادی کااعلان کردیااور ریاست کیلئے نیا دستور منظورکی جس کےتحت برطانیہ کےطرزپر دو ایوانی پارلیمنٹ وجود میں آیاجس کا دارالامرا موروثی سرداروں پر مشتمل تھاجبکہ دارالعوام کےارکان کیلئےانتخابات کا انعقاد کیاگیا۔قیام پاکستان کےبعدریاست قلات کےنمائندےبرٹش بلوچستان کی قلات کوواپسی کے معاملے پر مزید مزاکرات کیلئے جب پاکستان کےدارلحکومت کراچی گئےاوربرٹش بلوچستان کی واپسی کا معاملہ اٹھایاتوجناح نےاس معاملےکوسلجھانےسےپہلےریاست قلات کوپاکستان میں شامل کرنےکامطالبہ کیا۔اس دوران جام غلام قادر نواب حبیب اللہ کوساتھ لے کرجناح سےخفیہ ملاقات کرکےان سےدرخواست بھی کرچکےتھے کہ لسبیلہ اور خاران کی پاکستان میں شمولیت منظورکی جائےمگرجناح نےانکارکیا تھاوہ جانتا تھاکہ دونوں سرداروں کی یہ درخواست غیرقانونی اور غیر جمہوری تھاکیونکہ لسبیلہ و خاران ریاست قلات کاحصہ تھے۔ دوسری جانب ریاست قلات کے دونوں ایوانوں نےریاست کوپاکستان میں ضم کرنےکےپاکستانی تجویزکو اتفاق رائےسے مسترد کیا 15 فروری 1948 کو مسٹرجناح نےسبی دربارسے خطاب کےموقع پرڈھاڈر میں خان قلات سے ملاقات کرکے ریاست قلات کو پاکستان میں شامل کرنےکااپنامطالبہ دہرایااورخان قلات نےاسے پارلیمنٹ کی رائےسےآگاہ کرتے ہوئے اپنی بےاختیاری کااظہارکیا۔ جناح کے جانےکے بعد 21 فروری 1948 کو قلات پارلیمنٹ کےدارلعوام کاپھر اجلاس ہوا اور دوبارہ الحاق کی تجویزکو مسترد کیا گیاجس سے مایوس ہوکر جناح نےریاست قلات کے معاملات کافائل دفترخارجہ کےحوالےکیااور اس بارےمیں 9 مارچ 1948 کو ایک مراسلہ کے ذریعے خان قلات کو آگاہ کیادوسری جانب حکومت برطانیہ کی جانب سےبھی پاکستان پر دبائو تھاکہ ریاست قلات کو آزاد ملک تسلیم نہ کیاجائے جس کےبعد پاکستانی حکمرانوں نےاپنےانگریزآقائوں کی آزمودہ پالیسی” لڑائو اورحکومت کرو”کی پالیسی کوبروئےکارلاتےہوئےسرداروں سےرابطہ شروع کرکے ان کومراعات کی لالچ دےکرغیرقانونی طریقوں سےپاکستان میں شمولیت کی ترغیب دیناشروع کیااور اپنےسابقہ موقف کےبرعکس جناح نے 17 مارچ 1948 کوجام لسبیلہ میر غلام قادر،نواب کیچ میر بائی خان گچکی اور نواب خاران میر حبیب اللہ نوشیروانی کی غیرآئینی،غیرجمہوری اورغیرقانونی درخواست پر پاکستان کے ساتھ ان کی الحاق کااعلان کیاکیونکہ یہ بوڑھااورمکار وکیل جانتاتھاکہ سیاسی معاملات میں قانون پرطاقت کوبرتری حاصل ہےاسلئےطاقت کےبل پرالحاق کے اس غیرقانونی عمل کوتکمیل تک پہنچایا۔ریاست قلات نےخاران،مکران اورلسبیلہ کی اس طرح غیرقانونی الحاق کےخلاف پاکستان کو احتجاجی مراسلےلکھےمگر اس کی احتجاج پرکوئی کان نہیں دھراگیا 26 مارچ 1948 کو پاکستانی بری اور بحری افواج کو اورماڑہ ،پسنی،جیونی اور کیچ روانہ کرکےان علاقوں پرقبضہ کومکمل کرنےکی ہدایت کی گئی دوسری جانب مزاکرات کی غرض سے کراچی میں موجود خان قلات میر احمد یار سےزبردستی ریاست قلات کی پاکستان کےساتھ الحاق نامہ پردستخط لئےگئےمزےکی بات یہ ہےکہ نواب بائی خان گچکی جو کہ ریاست قلات کی دارالامرا کاممبرتھااپنےعہدےکاحلف بھی اٹھایاتھااوراس کی سرداری صرف کیچ تک تھی مگر اس کےنام پر پاکستان نےپنجگورپربھی قبضہ کیا۔اس طرح پاکستان کےغیرقانونی ،غیرجمہوری اقدامات و توسیع پسندی،اغیارکےساتھ سرداروں کی،سازباز اور غداری و خان قلات کی نااہلی و بزدلی کےسبب بلوچ قوم صدیوں پرمحیط اپنے قومی ریاست اورقومی شناخت کو کھودیا۔ریاست قلات کی آزاد بلوچ ریاست کو جبری ختم کرنےکےاقدام کےخلاف بلوچ آزادی پسندوں نےخان قلات کے چھوٹےبھائی آغاعبدالکریم بلوچ کی قیادت میں مئی 1948 میں مسلح جدوجہد شروع کی جس میں قوم دوست سیاسی کارکنوں،کچھ ریاستی ملازمین، علما اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔گوکہ یہ جنگ دوماہ سے زیادہ جاری نہیں رہ سکامگرجبری الحاق کےخلاف یہ ایک قانونی اورتاریخی بنیاد بن گیا۔
اس بحث سےایک تویہ ثابت ہوتاہےکہ مشرقی بلوچستان کا تمام خطہ ریاست قلات کہلاتاتھا،برٹش بلوچستان میں شامل تمام بلوچ علاقےبشمول کوہ سلیمان، کوہستان مری،بارکھان اورڈیرہ بگٹی ریاست قلات کاحصہ تھےاورپاکستان میں شمولیت کیلئےنہ توبرٹش بلوچستان کےبلوچ عوام اور نہ ہی سرداروں و سرکردہ رہنمائوں سےکوئی رائےلی گئی اور نہ ریاست قلات سےاس کی منظوری لی گئی یہاں تک کہ برٹش بلوچستان کےبلوچ سرداروں کی طرف سےریاست قلات میں دوبارہ شامل ہونےکےدرخواست کوبرٹش حکام نےغیرقانونی وغیرجمہوری طریقہ سےمسترد کرکےانھیں اپنےقومی ریاست میں شامل ہونےکاحق و اختیار نہیں دیا اسی طرح خاران،مکران اورلسبیلہ بھی ریاست قلات کا حصہ تھےجن کاالحاق پاکستان کےساتھ ایسےتین سرداروں کی منظوری سےکیاگیاجن کےپاس منظوری دینے کا کوئی قانونی،قومی اورجمہوری اختیار نہیں تھا۔ریاست قلات کےایک بڑے علاقہ برٹش بلوچستان،خاران،مکران اور لسبیلہ کو پاکستان نے غیر قانونی و غیرجمہوری طریقوں سےقبضہ توکیاتھامگر ریاست ختم نہیں ہواتھابلکہ ریاست قلات موجود تھااوراپنےمذکورہ بالاقومی علاقوں کی واپسی کیلئےپاکستان کے ساتھ مزاکرات،احتجاج اورکوششیں کررہاتھاجبکہ 27 مارچ 1948 کو قلات پر جبری قبضہ سے بلوچ قومی ریاست کا وجود ہی ختم ہوگیااس لحاظ سے 27 مارچ ہی جبری الحاق یاقبضہ کا دن ٹھہرتاہےاسی لئےمحقیقین،تاریخ دان اور بلوچ قوم دوست آزادی پسند درست طورپر 27 مارچ کو بلوچستان پرجبری قبضہ کادن مانتےہیں۔
اب سوال یہ اٹھتاہےکہ میربراہمدغ بگٹی نے 27 مارچ کو بلوچستان پر یوم قبضہ ماننےسےاچانک انکارکرکےنیاموقف کیوں اپنایا؟کیابراہمدغ کوئی محقق و تاریخ دان ہےجس نےکسی علمی تحقیق کےنتیجےمیں یہ بات دریافت کرکےاس پربحث چھیڑدی ہے؟ اس سوال کاجواب تو نفی میں ہےبراہمدغ کوئی محقق،عالم اور تاریخ دان نہیں بلکہ ایک سیاستدان ہےاسلئےاس کانیاموقف کوئی اکیڈمک بحث نہیں بلکہ سیاسی بحث ہےہوسکتاہے کہ براہمدغ بگٹی اس نئےموقف کےذریعے بلوچ قومی آزادی کی جدوجہداورمطالبہ سےانحراف کیلئےراستہ ہموارکرنےکی کوئی کوشش کررہا ہےکیونکہ پہلےبھی براہمدغ کئی باربلوچ قومی آزادی کے مطالبہ سے دستبرداری کیلئےآمادگی کااظہارکرچکاہےاوراس کےاس طرح کے بیانات ریکارڈ پرموجودہیں ایک بار اس نے بیان دیاہےکہ اگربلوچ عوام آزادی کے مطالبہ سےدستبردارہوتےہیں پھرتو اسےبھی کوئی اعتراض نہیں ہے 26 اگست 2015 کوشہید اکبربگٹی کی برسی کےموقع پر بی بی سی کےساتھ انٹرویو میں پاکستان کےساتھ غیرمشروط مزاکرات پر آمادگی کا اظہارکرتےہوئےمیر براہمدغ بگٹی نےیہ انکشاف بھی کیاکہ پیپلز پارٹی کی دورحکومت 2008-13 کے وقت حکومت کی طرف سے مزاکرات کےاعلان پر اس نےاس وقت کےصدر پاکستان میر آصف علی زرداری سے رابطہ کیاتھامگر زرداری نےاسے بتایاتھاکہ سردار اسلم رئیسانی یا رحمان ملک کےساتھ بیٹھ کرچائےپیناہےتوبیٹھو ورنہ ان کےپاس کوئی اختیارنہیں ہےپھربراہمدغ نےڈاکٹرمالک کےدوروزارت میں ڈاکٹر مالک، میر حاصل بزنجواورجنرل عبدالقادربلوچ سےبھی مزاکرات کئےمزکورہ بالا حکومتی نمائندوں نےدعویٰ کیاکہ براہمدغ نےآزادی یااورکوئی بڑامطالبہ نہیں کیابلکہ چند چھوٹے موٹےمطالبات پیش کیئےتھےمگرپاکستان آرمی نےاس کےمطالبات منظور نہیں کیئےبراہمدغ بگٹی نےجنرل عبدالقادروغیرہ کےمذکورہ بالادعوےکی کبھی تردید نہیں کی۔اسی طرح کچھ عرصہ قبل فنانشل ٹائمز نامی برطانوی اخبار نےخبر دی کہ چین نےسی پیک کی تحفظ کیلئےعلیٰحدگی پسند بلوچ سرداروں سےرابطہ کیاہے پاکستانی حکومت کےایک نمائندہ نے بھی اس خبر کی تائید کی۔بی ایل ایف اور بی این ایم نےاس خبرکی تردید کرتےہوئےاسےآزادی پسندوں کےدرمیان بدگمانی پیداکرنےکی سازش قراردیااوردوسرےآزادی پسند بلوچ حلقوں سےاس خبرپراپنی اپنی پوزیشن واضح کرنےکی اپیل کی دیگر رہنمااورتنظیموں نےکوئی ردعمل ظاہر نہ کیامگر براہمدغ بگٹی نے ٹوئیٹ کرکےچین کےاس عمل کوایک مثبت قدم قراردیدیا حالانکہ بعد میں چین نےخود اس رپورٹ کی تردید کردی مگر براہمدغ نےچین کے سامراجی منصوبوں سی پیک وغیرہ کی کامیابی وتحفظ میں مدد دینےکیلئےاپنی آمادگی ظاہرکردی۔ براہمدغ کی زیربحث ٹوئیٹس میں بھی آزادی سےانحراف کے لئےآمادگی کےواضح اشارےموجودہیں اس کا یہ کہناکہ ماضی میں بھی ان کے بڑوں سمییت تمام بلوچ لیڈرشپ پاکستان کےاندرحقوق کیلئےجدوجہدکےمختلف طریقےیاذرائع استعمال کرتےرہےہیں لیکن پاکستان کی طرف سےبلوچستان کے ساتھ مسلسل نوآبادیتی سلوک کےباعث اب بلوچ آزادی کامطالبہ کررہےہیں اس بیانیہ کاصاف مطلب یہ ہےکہ اگرپاکستان اپنےپالیسی میں تھوڑا نرمی لائےاورمراعات دےتووہ ماضی کےانحراف اورسمجھوتوں کوجواز بناکرآزادی کی جدوجہد سےدستبرداری کیلئےتیارہےمگربراہمدغ صاحب یہ بھول رہےہیں کہ ماضی میں جدوجہدسےغداری یاانحراف کرنےوالوں پرعوام نےکبھی پھول پاشی نہیں کی بلکہ ان کی بھرپورمخالفت کی۔نیپ کی جانب سےگورنر نامزد نہ کئے جانےکوجب اکبربگٹی نےاپنےانا کامسئلہ بناکر ذوالفقارعلی بھٹواور فوج کاساتھ دیاتوایک بڑےعرصہ تک بلوچ عوام میں اس کی حیثیت کافی متنازعہ رہا۔بعد میں ڈاکٹرعبدالحئی کی بی این وائی ایم اورسردارعطااللہ مینگل کےساتھ 1988 میں بی این اے کے ذریعے اسے بلوچ قوم دوست حلقےمیں دوبارہ شمولیت کاموقع ملا۔ 17 مارچ 2005 کو نواب اکبرخان بگٹی کےقلعہ پر آرمی کی گولہ باری اورستر سےزائد بلوچوں کی شہادت کےبعد جب اکبربگٹی نےمسئلہ کو بگٹیوں کامسئلہ قراردےکر حکومت سے لاحاصل مزاکرات کیئےتوایک بارپھراس پر تنقیدہوئی اس مزاکرات کی ناکامی کے بعد سنگل بلوچ پارٹی کی تجویزاورقومی آزادی کاواضح پروگرام دینےکےبعد ہی بلوچ آزادی پسند حلقوں نےنواب صاحب پراعتمادکرنا شروع کیا۔شہید نواب بگٹی نے اپنےکردارپرلگےدھبوں کواپنےاور اپنے سرمچار ساتھیوں کی خون سےدھوکرامرتو ہوگئےمگرجب تاریخ کی بات ہوتی ہے تو ان کی غلطیوں کاذکر بھی ہوجاتاہےاس طرح کی ماضی کےغلط فیصلوں کو نظیر بناکر براہمدغ یاکوئی اور بلوچ قومی آزادی کی جدوجہدسےانحراف یا راہ فرار اختیار کرنےکوجواز نہیں بخش سکتا۔براہمدغ کی جانب سےاپنےنئےموقف کو بی آر پی کاموقف کہنےسےپتہ چلتاہے کہ بی آر پی کوئی انقلابی قومی پارٹی نہیں بلکہ خطہ میں موجود بہت سےشخصی و موروثی پارٹیوں کی طرح محض نام کا ایک پارٹی ہے دراصل براہمدغ ہی بی آر پی اور بی آر پی براہمدغ ہےاس جماعت کےکوئی ادارےنہیں ہیں کیونکہ نیا موقف اپنانےسےقبل بی آر پی کی مرکزی کابینہ یا مرکزی کمیٹی( اگر ان کا کوئی وجود ہے) کےکسی اجلاس کی رپورٹ نہیں آئی اتنےبڑےقومی مسئلے کا فیصلہ براہمدغ نےخود ہی کرکےٹوئیٹ کردیااور اس کےپیروکاربلاسوچے سمجھے قومی مفادات کےمنافی اس کےنئے موقف کی بلاچوں چراں اندھاتقلید کرنےلگے میربراہمدغ کےاس نئےبےسروپاموقف کاایک اورمحرک ریاست قلات کےآخری خان قلات میراحمدیارخان کے پوتےاور خود ساختہ خان( خودساختہ اس لئے کہ خان ریاست قلات کےحکمران کا ٹائٹل رہاہے جبری الحاق کےبعد جب ریاست ہی نہ رہاتوحکمران یاخان کیسا) میر سلیمان دائودکے بارےمیں اس کی ناپسندیدگی بھی ہوسکتاہےکیونکہ براہمدغ کا چچازاد بھائی اورکچھ بگٹی وڈیروں و سرکار کی جانب سے پاگ بستہ نواب اوربراہمدغ کےمضبوط حریف میرعالی بگٹی کی میرسلیمان دائودخاندان سےکوئی رشتہ داری ہےاب ممکن ہے میرسلیمان دائود کو نیچادکھانےکےچکر میں براہمدغ بلوچوں کے تاریخی ریاست قلات کو ایک چھوٹےسےعلاقہ تک محدود بتاکر اپنےانا کی تسکین کیلئےپوری بلوچ تاریخ کومسخ کرنےاورتحریک آزادی کو نیچا دکھانے کی غلطی کر رہاہے۔اگر جناب کےنئےموقف کاعلت یہی ہےتب بھی نتیجہ یہی نکلتاہےکہ موصوف میں ایک قومی قائد کی اوصاف اور دوراندیشی کی کمی ہےحیرت و افسوس میر زامران مری کےرویہ پرہوتاہےجو اپنےعظیم والدمرحوم سردارخیربخش مری کی موقف اور جدوجہد کےبرعکس اپنےسالہ براہمدغ بگٹی کےبےسروپا موقف کی حمایت پر کمربستہ ہوگیاہےکیاقومی بیانیہ کوترک کرنےاورنیابیانیہ اپنانے کے لئے براہمدغ نےمیر زامران مری سمیت اپنےدیگراتحادیوں کےساتھ صلاح ومشورہ کیاہے؟کیااس نےبلوچ محققین،تاریخ دانوں اوردانشوروں سے تحقیق و مشاورت کےبعدابہام اور بدگمانیاں کی بیج بونےوالایہ نیاموقف اپنایاہے؟ بعض بلوچ علاقوں کی پاکستان میں رضاکارانہ شمولیت کے بابت براہمدغ بگٹی کادعویٰ ایساہےجیسےکوئی ڈاکوکسی گھر میں گھس کر اسلح کےزورپرمکان کےمکینوں کواپنانقدی ودیگر قیمتی اثاثےاس کے حوالہ کرنےکوکہےاورخوف مارےاسلح کےسامنےبےبس مکان کے مکین اپنا نقدی اور قیمتی اثاثے ڈاکو کےحوالے کریں تو بعد میں ڈاکو یہ دعویٰ کرے کہ مکان کے مکینوں نےتواپنی رضااوراپنے ہاتھوں سےنقدی اوراپنےقیمتی اثاثے اس کے حوالہ کی ہیں لہٰذا اس کا عمل کوئی جرم یا جبر نہیں ہے
۔

пятница, 30 марта 2018 г.


ستائیس مارچ ، حقائق و شوائد اوربراہمدغ بگٹی کا غیر متوازن موقف -- سنگر خصوصی رپورٹ

براہمدغ بگٹی کی سیاسی موقف میں ہمیشہ ایک تضاد یا ابہام موجودرہا ہے ۔ سیاسی موقف میں دانستہ ابہام پیدا کرنے کی سبب براہمدغ بگٹی کی شخصیت بھی متنازعہ ہوتا جارہا ہے ۔ بلوچ نیشنل فرنٹ بلوچ قومی تحریک میں ایک پر اثر سیاسی اتحاد کی صورت میں موجود تھا لیکن بی آر پی نے بغیر کسی واضح موقف یا دلیل کے برعکس اختر مینگل کے خلاف بیان کو جواز بنا کر بی این ایف سے علیحدگی اختیار کرلی آج تک بی این ایف سے علیحدگی کے حوالے سے بی آر پی کی جانب سے کوئی بھی واضح موقف سامنے نہیں لایا گیا واضح موقف پیش نہ کرنے کے سبب بی این ایف جیسے اتحاد سے علیحدگی بلوچ سیاسی طاقت کو کمزور کرنے کی دانستہ کوشش تھی۔ بی این ایف سے علیحدگی کے بعد بی آر پی کی بلوچ پارٹی و تنظیموں سے دوری پیدا ہوتے رہے اور مسائل بھی جنم لیتے رہے ۔ اگر ہم اس دورانیہ کے چیدہ چیدہ معاملات کو بحث کرتے رہے ،شاہد ایک طویل بحث بن جائے لیکن ہماری مقصد اہم اور بڑے موضوع پر بحث کرنا ہے ۔ بلوچستان میں سی پیک جیسے استحصالی میگا پروجیکٹس کے ابتداء کے بعد بلوچستان کے سیاسی حالات میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں پیدا ہوتے رہے اور اس کے ساتھ پاکستان نے اس منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے بلوچ نسل کشی کی پالیسی میں شدت کے ساتھ اضافہ کیا ۔
اس دوران بلوچ آزادی پسند سیاسی قیادت نے سی پیک کے خلاف واضح موقف سامنے لایا اور بلوچ مزاحمتی قوتوں نے سی پیک پر متعدد کامیاب حملے بھی کیئے۔ اس دوران 2015ء کے آخر میں براہمدغ بگٹی بی بی سی اردو کے ساتھ انٹریو میں واضح طور پاکستان کے ساتھ بات چیت کیلئے رضامندی کا اظہار کرتا ہے ۔براہمدغ بگٹی کی اس انٹرویو نے بلوچ تحریک میں شدید خدشات جنم دیے ، براہمدغ بگٹی کی سیاسی کردار مکمل نہ سہی مگر بڑی حد مشکوک ہوگئی ۔براہمدغ بگٹی اپنے اس موقف کے حوالے سے بلوچ عوام کو مطمئن نہیں کرسکے ۔اس دوران بلوچستان کی سب سے بڑی آزادی پسند پارٹی بلوچ نیشنل موومنٹ نے واضح اور مددلل موقف اپناتے ہوئے پاکستان سے بغیر آزادی کے یک نکاتی ایجنڈہ اورکسی عالمی ثالث کے بات چیت کے تمام امکانات کو مکمل رد کردیا ۔ بلوچ قومی تحریک میں بلوچ نیشنل موومنٹ کی واضح موقف نے بلوچ تحریک میں ابہام پیدا کرنے کی تمام کوششوں کو مسترد کردیا ۔ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کہتے ہیں براہمدغ بگٹی کی پاکستان کی ساتھ بات چیت کے لیے آمادگی ماضی کی طرح بلوچ تحریک کو ناکامی کی دلدل میں دھکیلنے کی کوشش تھی لیکن بلوچ نیشنل موومنٹ جیسی قوتوں کے سبب یہ کوشش بہر آور ثابت نہیں ہوئی۔ لیکن ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی براہمدغ بگٹی نے ہمیشہ کی طرح پیٹرن بدلتے ہوئے اپنے پیش کردہ موقف سے انحراف کیا ۔ گذشتہ مہینے فنانشل ٹائمز جیسے مستند رسالے میں سی پیک کے حوالے سے رپورٹ شائع ہوئی جس میں واضح طور پر کہا گہا کہ چین سی پیک کے کامیابی کے لیے آزادی پسند قبائلی رہنماوں سے براہ راست رابطے میں ہے ۔ اس رپورٹ نے بلوچ تحریک کے حوالے سے عالمی سطح پر بہت سے خدشات پیدا کیے لیکن ایک دفعہ پھر بلوچ نیشنل موومنٹ ، بی ایس او آزاد،، ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ ، بی ایل اے کے سینئر کمانڈراستاد اسلم بلوچ نے چائنا کے ساتھ رابطے کی سختی کے ساتھ تردید کیا لیکن بلوچ تحریک میں نئے موڈ نے اس وقت جنم لیا جب براہمدغ بگٹی نے اس رپورٹ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ چائنا سے مخاطب کرتے ہوئے بلوچ قیادت کواعتماد میں لیے بغیر یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا ۔ براہمدغ کی اس موقف نے فنانشل ٹائم کی رپورٹ کی مکمل تائید کی ’’قبائلی آزادی پسندوں کی چائنا کے ساتھ گٹھ جوڑ ‘‘یقیناًیہ گٹھ جوڑ بلوچ عوام کی منشاء و مرضی کی مکمل خلاف ہے۔ لیکن اس گٹھ جوڑ میں موجود خدشات پوری آب و تاب کے ساتھ تحریک کے اندر گردش کررہے ہیں لیکن گردش کسی بھی صورت تحریک میں خوف کی فضاء قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا اس کی سبب بلوچ نیشنل موومنٹ جیسی واضح موقف رکھنے والی پارٹی بلوچ قومی تحریک میں انتہائی مضبوط پوزیشن رکھتا ہے۔ غیر متوازن موقف آتے رہے ،ان کی پوزیشن واضح ہوتارہا ،ان معاملات کے ذکر اپنی جگہ موجود تھا کہ 27مارچ جیسی سیاہ دن آگئی بلوچ پارٹی و تنظیموں کی جانب سے حسب روایات بھر پور قوت کے ساتھ بین القوامی سطح پر اس دن کو منایا گیااور دن بھر یوم قبضے کے حوالے سے آگاہی دی گئی لیکن بلوچ ستر سالہ سیاسی تاریخ میں ایک نئی سیاسی موقف سامنے آئی جس میں قابض پاکستان کی موقف کی بھر پور تائید کی گئی۔
ہوا یوں کہ براہمدغ بگٹی حسب توقع اپنے غیر متوازن موقف کے ساتھ سامنے آگئے ستائیس مارچ کو بلوچستان پر نہیں صرف قلات پر قبضہ قرار دیا ، براہمدغ بگٹی کے اس موقف نے پوری بلوچ سماج کو ایک عجیب کشمکش میں مبتلا کردیا ۔براہمدغ کے سابقہ تمام غیر متوازن موقف کے برعکس ستائیس مارچ یوم قبضہ بلوچستان سے دستبرداری کاواضح عندیہ معلوم ہوتاہے ،براہمدغ بگٹی کے موقف کے خلاف سب سے پہلے بی این ایم کے چیئرمین خلیل بلوچ کا سماجی راطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ردعمل سامنے آگیا جس میں چیئرمین خلیل بلوچ نے کہاکہ ’’ گزشتہ 70 سال میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک بلوچ قوم پرست بلوچستان پر پاکستانی قبضے سے انکار کر رہا ہے۔ یہ شہید اکبر بْگٹی کی جدوجہد کو شرمندہ کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
ٹویٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے ایک تفصیلی بیان بھی میڈیاکو جاری کیا جس میں تاریخی تناظر میں بات کئی گئی ہے ۔
جبکہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے ایک ٹویٹ میں براہمدغ سے اپیل کرتے کہاکہ’’انسانی غلطی کودرست کرتے ہوئے اپنا متنازعہ ٹویٹ کی تصحیح کریں اور ایک اناپرست آدمی کے بجائے وسیع النظر سیاستدان بنیں اور تسلیم شدہ بلوچ سیاسی نصاب کو قبول کریں ‘‘ اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر اللہ نذربلوچ نے کہاکہ ’’میں سیاسی کارکنوں سے بھی اپیل کرتاہوں کہ وہ اس معاملے کو ذاتیات کے بجائے اکیڈمک طورپر حل کریں ‘‘
اب یہاں تاریخی حقائق کاایک مختصرجائزہ پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین کے لئے براہمدغ بگٹی کا موقف اور تاریخی حقائق کا تقابل کرکے نتیجہ اخذ کرنا نا آسان ہو ۔
انیسویں صدی کے اوائل میں برطانوی سامراج کا بلوچستان میں عمل دخل شروع ہوا ۔ بلوچ عوام کی مسلح جدوجہد آزادی کودبانے میں ناکامی کے بعد برطانوی حکومت نے سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے ذریعہ اس خطہ کو انتظامی وحدت سے محروم کرنے کا فیصلہ کیا جس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی ہوئی یوں سر زمین بلوچستان کو متعدد سیاسی آئینی حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ کچھ حصے ایرانی و افغانی شاہوں کو دیئے گئے تاکہ ان کی وفاداریوں کو تاج برطانیہ کے ساتھ پختہ کیا جاسکے۔ مشرقی بلوچستان کو مزید حصوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ بلوچ اتحاد اور ان کی سیاسی مزاحمت کو کچلا جاسکے۔
۱۔ ریاست قلات:
درحقیقت یہی مرکزی بلوچستان ہے جہاں دارلسلطنت قلات تھا۔ اس ریاست میں آئینی طور مندرجہ ذیل علاقہ جات تھے۔ قلات ،خاران، مکران،نوشکی، چاغی، مری،بگٹی وکھیتران قبائلی علاقہ جات، نیابت کوئٹہ و بولان اور کوہ سیلمان میں واقع بلوچ قبائلی علاقے اس ریاست کا حکمران خان قلات ہوا کرتا تھا۔
۲۔ برطانوی بلوچستان:
یہ چمن، ژوب، لورالائی ، دُکی اور دیگر پشتون قبائل علاقوں پر مشتمل تھا۔ یہ اضلاع برطانیہ نے معاہدہ گنڈمک کے تحت افغان حکمرانوں سے حاصل کیے اور یوں یہ اضلاع برطانوی ہند کا آئینی حصہ بن گئے(یاد رہے کہ ریاست قلات آئینی طور پر برطانوی ہند کا حصہ نہ تھی اوائل بیسویں صدی میں اصطلاح’’بلوچستان‘‘ کا اطلاق صرف برطانوی ہند کے صوبہ ’’برطانوی بلوچستان‘‘ پر ہوتا تھا۔ اس برطانوی بلوچستان میں متعدد بلوچ علاقوں کو ریاست قلات سے معاہدات کے تحت اجارہ پر حاصل کرکے برطانوی بلوچستان کی انتظامیہ کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ ان علاقوں میں بلوچ قبائل علاقہ جات ، کوئٹہ، نوشکی،چاغی، بولان اور نصیر آباد کے علاقے شمار ہوتے تھے مگر آئینی طو ر یہ قلات کا حصہ شمار ہوتے تھے۔ یوں برطانوی سیاسی و انتظامی اصطلاح میں’’بلوچستان‘‘ سے صرف برطانوی بلوچستان مراد لیا جاتا تھا۔برطانیہ کی انخلاء کے بعد یہ تمام معاہدات کے آئینی حیثیت ختم ہوگئی تھی یہ تمام علاقے بلوچ وحدت یاریاست قلات کے حصے بن گئے۔
برطانوی عمل دخل کے نقصانات
*: ڈیرہ غازی خان کے بلوچوں کو بلوچستان سے کاٹ کر براہ راست پنجاب کے ساتھ ملادیا اور ساتھ ہی علاقہ افغانستان کے چند اضلاع ژوب، لورالائی، پشین، چمن اوربلوچستان کے علاقہ سبی کو کاٹ کر ایک علیحدہ صوبہ بنایا ۔
*: قبائل مری و بگٹی کے علاقہ کے نظام کو اپنے ہاتھ میں لے کر کچھ عرصہ بعد ان کے تعلقات کو بلوچ حکومت سے قطع کردیا۔
*: درہ بولان سے سنگ اور محصول کو جس سے سالانہ لاکھوں روپے کی آمدنی تھی ایک قلیل رقم کے عوض اجارہ پر لے کر تجارتی آزادی کو ہمیشہ کے لئے سلب کرلیا۔
*: کوئٹہ، نوشکی اور نصیر آباد کو اجارہ کے بہانے سے ہماری بلوچی حکومت سے کاٹ کر اپنے زیر اقتدار کرلیا۔
*: قبائلی علاقہ جات سراوان جھلاوان، مکران، چاغی، کچھی، خاران اور لس بیلہ کو ایک پولیٹکل ایجنٹ کے ذریعے اپنی نگرانی میں رکھا جس سے اس کا مدعا بلوچ حکومت کے اختیارات کو سلب کرنا اور بلوچی اتحاد کو توڑنا اور ختم کرنا تھا۔
بلوچستان کی آزادی
11؍ اگست1947 ؁ء میں برطانوی اقتدار کے خاتمے کے بعد بلوچستان ایک آزاد اور خودمختار ریاست بنا۔ 15 اگست 1947 ؁ء کو خان میر احمد یار خان نے ایک عوامی اجتماع میں آزادی کا اعلان کیا۔
آئین:
اسی مہینے خان کی جانب سے ایک شاہی فرمان کے ذریعے ایک مروّجہ ریاستی آئین کا نفاذ کیا گیا۔
وزراء کی کونسل:
یہ ایک وزیرِ اعظم اور اس کے کابینہ کے ارکان پر مشتمل تھا ۔ان کی تعینّاتی خان کے ذریعے ہوتی تھی ۔ کونسل کا کام معزّز خان کو ریاستی امور کے چلانے میں مشورہ اور مدد فراہم کرنا تھا۔ خان کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی بھی فرد کو کونسل کا رکن منتخب کرے جن میں غیر ملکی شہری بھی شامل تھے مثال کے طور پر وزیر اعظم نوابزادہ محمد اسلم اور وزیر خارجہ ڈی وائی فیل دونوں غیر ملکی تھے اور ان کا تعلق بالترتیب پاکستان اور برطانیہ سے تھا ۔ خان کے یہ وسیع تر اختیارات بلوچ قوم کے لئے فائدہ مند نہیں تھے کیونکہ وزیر اعظم محمد اسلم اپنے دورِ حکومت میں پاکستانی مفادات کیلئے کام کرتے رہے اور بلوچ قوم اور خان سے دغابازی کے مرتکب ہوئے۔
مجلسِ قانون ساز:
مرتب شدہ آئین دو قانون ساز اداروں پر مشتمل تھا۔
(الف) دارالامراء جو ایوانِ بالا کہلاتا تھا اور قبائلی سرداروں پر مشتمل تھا۔
(ب) دارالعوام جو کہ ایوانِ زیریں کہلاتا تھا۔
ایوان بالا میں جھالاوان اور ساراوان صوبوں کے موروثی سردار موجود تھے جبکہ اس میں شامل چھیالیس ارکان میں سے دس کا انتخاب خان کے ذریعے ہوتا تھا۔ مزید براں ان دس میں سے آٹھ کا انتخاب ایوان زیریں اور وزراء کی کونسل سے جبکہ باقی دو کا انتخاب اقلیتوں مثلاً ہندوؤں سے ہوتا تھا ۔
ایوان زیریں ،جو کہ 55 اراکین پر مشتمل تھا ،کے پچاس ارکان کا انتخاب بذریعہ چناؤ ہوتا تھا جبکہ پانچ کا تقرر خان اپنی صوابدید سے کرتا تھا ۔ ایوان زیریں کا سربراہ بھی وزیر اعظم ہوتا تھا
پارلیمان کا چناؤ:
آئین کے نافذ العمل ہوتے ہی بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریاستِ قلات میں انتخابات منعقد ہوئے ۔ قلات نیشنل پارٹی نے ایوان کے کل اکیاون میں سے اُنتالیس نشستیں جیت لیں ۔ باقی نشستیں ان آزاد امیدواروں نے حاصل کیے جو قلات نیشنل پارٹی کے حامی تھے ۔ انتخابات کا انعقاد پذیر ہونا بلوچستان کی اُن جمہوری قوتوں کا فتح تھا جو1920 سے جمہوریت اور ایک خود مختار عظیم تر بلوچستان کیلئے کوشاں تھے۔
بلوچ۔ پاکستان تعلقات:
ستمبر1947 ؁ء میں وزیراعظم نوابزادہ محمد اسلم اور وزیر خارجہ ڈی وائی فیل(DYFell) نے کراچی کا دورہ کیا تاکہ 1947 ؁ء کے قلات ۔پاکستان معائدہ پر بحث کی جائے جس کے تحت بعض علاقے پاکستان کو لیز پر دیئے گئے تھے۔لیکن دونوں ریاستوں کے درمیان ان اجلاس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا کیونکہ پاکستانی حکومت قلات کی پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کرانے کی پالیسی پر بضد تھی ۔
20 ستمبر 1947 ؁ء کو پاکستان کے خارجہ سیکریٹری اکرام اﷲ نے ریاست قلات کے وزیر اعظم محمد اسلم کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے مذاکرات کے بجائے ریاست قلات کی پاکستان کے ساتھ الحاق پر اصرار کیا ۔
جناح کی دعوت پر خان ایک ایسا مرتب کردہ معاہدہ اپنے ساتھ لے کر پاکستان گئے جسے وہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دوران بطورِ دستاویز استعمال کرنا چاہتے تھے ۔ اس معاہدے کے تحت قلات کی پاکستان کیساتھ تعلقات کی حدبندی کی گئی تھی ۔ مجوزہ معاہدے میں مندرجہ ذیل نکات شامل تھے:
(الف) قلات کو بطور ایک آزاد ریاست کے تسلیم کرنا۔
(ب) بیرونی ملک کی جانب سے حملے کی صورت میں اُس کے خلاف اتحاد کیلئے حتمی اقدام کرنا۔
(ج) دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت اور مسائل کو پُر امن ذرائع سے حل کرنے کیلئے پالیسی کا تعین۔
لیکن جناح نے خان کو تاکید کی کہ وہ قلات کو پاکستان کے اندر ضم کردیں اور یہ کہ وہ الحاق سے کم کسی بھی حل پر تیار نہیں ہوں گے۔
12دسمبر 1947 ؁ء کو خان نے دارالعلوم کا ایک اجلاس بلایا کہ الحاق کے مسئلے پر بات چیت کی جاسکے ۔ ایوان کے قائد غوث بخش بزنجو نے حکومت پاکستان کے غیر دوستانہ رویّے پر تنقید کی اور تنبیہ کیا کہ بلوچ کسی توہین آمیز رویے کو برداشت نہیں کریں گے اور اپنی قومی آزادی کے لئے جان تک قربان کردیں گے۔ایوان کے دوسرے اراکین نے بھی میر بزنجو کے خیالات کی تائید کی ۔ ایوان نے طویل بحث مباحثے کے بعد 14دسمبر 1947 ؁ء کو مندرجہ ذیل قرارداد متفقّہ طور پر منظور کرلی۔
’’ پاکستان کیساتھ الحاق کے بجائے دوستی پر مشتمل ایک ایسا معاہدہ کیا جائے جو کسی بھی دو آزاد و خودمختار ریاستوں کے مابین ہوسکتا ہے‘‘۔
4 جنوری 1948 ؁ء کو الحاق کے معاملے پر غور کرنے کے لئے دارالامراء کا اجلاس ہوا۔ ایوان بالا نے دارالعوام کے فیصلے کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔ ایوان بالا جو کہ سرداروں کی اکثریت( بشمول کیچ مکران کے گچکی سردار حالی خان پر مشتمل تھی ) ۔
11فروری1948 ؁ء کو جناح سبّی آئے جہاں اگلے دن کے شام کو خان اور ان کے درمیان ملاقات ہوئی۔ 13فروری کو قلات کے سرد موسم کے دارالخلافہ ڈھاڈر میں ان کے درمیان دوسری ملاقات ہوئی جبکہ 14فروری کو طے شدہ ایک اوراجلاس خان کے اچانک خرابیِ صحت کی وجہ سے برخاست کی گئی ۔ اپنے غیر متوقع خرابیِ صحت کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا :
’’ جب میں سبّی میں جناح سے دوسری بار ملا تو انہوں نے مجھے بتایاکہ حکومت پاکستان نے کچھ ترامیم اور تبدیلیوں کے بعد الحاق کے متعلق ایک اور دستاویز بنائی ہے لہذا میں اس نئے دستاویز کو دیکھوں ۔ جب میں نے دستاویز پڑھی تو ایک لمحے کے لئے حیران رہ گیا کیونکہ اس میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ؁ء اور آزادی ایکٹ 1947 ؁ء کے حوالاجات (references) موجود تھے ۔ان سے قلات کے تاریخی حیثیت پر اثر پڑ تا تھااوراصلی معاہدے میں یہ چیزیں شامل نہیں تھیں۔
خاران، بیلہ اور مکران کا الحاق:
۱۷ مارچ ۱۹۴۸ ؁ء کی رات حکومت پاکستان نے خاران و لسبیلہ اور مکران کے پاکستان کے ساتھ قلات سے جداگانہ الحاق کو منظور کرنے کا اعلان کردیا۔
لسبیلہ اور خاران حکومت قلات کے دو سرداری یا قبائلی علاقے تھے جن کو انگریزی حکومت نے بلوچستان کی طاقت کو کمزور کرنے کی غرض سے قلات سے جدا کرکے براہ راست پولیٹیکل ایجنٹ قلات کی ماتحتی میں دے دیا تھا ۔ لیکن اس کے باوجود رسمی طور پر انہیں قلات کے حصّے اور ماتحت خیال کیا جاتا تھا۔ چنانچہ خوانین قلات کی تاج پوشیوں میں جام لسبیلہ اور سردار خاران برابر شریک ہوتے رہے ہیں۔ خاران کو تو ۱۹۴۲ ؁ء میں انگریزی حکومت نے ایک برائے نام ریاست کی صورت دے دی۔اس سے قبل خاران قلات کے ’’ایک خاص علاقہ‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود آزادی ہندو پاک کے موقع پر تین جون ۱۹۴۷ ؁ء کو حکومت برطانیہ نے رسمی طور پر لسبیلہ اور خاران کا کنٹرول واپس حکومت قلات کے سپرد کردیا تھا اور ان علاقوں کے سرداروں کو اس فیصلہ کی تحریری طور اطلاع بھی دی گئی تھی جس پر انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور مکران تو اعلان کے آخری دن تک قلات کا ایک علاقہ تھا جس پر خان قلات کے بھائی آغا عبدالکریم خان اس وقت گورنر مقرر تھے ۔
پاکستان کا پہلا غیر آئینی قدم:
خاران، لسبیلہ اور مکران کا براہ راست الحاق منظور کرکے حکومت پاکستان نے حکومت قلات کے خلاف پہلا غیر آئینی قدم اٹھایا گوکہ اس سلسلہ میں حکومت پاکستان کی دلیل یہ بیان کی جاتی تھی کہ حکومت قلات قبائلی سرداروں کی ایک رضاکارانہ فیڈریشن کی حیثیت سے وجود میں آئی ہے۔ اس فیڈریشن کا ہر ممبر جب چاہے اپنے مرکز سے جدا ہوسکتا ہے ۔ حالانکہ حکومت پاکستان کی یہ بنیادی دلیل انگریزی حکومت کی پیدا کردہ ایک ایسے مفروضے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی جس کی اس زمانہ میں بھی مئیری ویدر کمشنر سندھ فرنیٹئر اور دوسرے انگریزی مدبّرین نے دھجّیاں اڑادی تھیں ۔ کیونکہ یہ ایک آئینی حقیقت نہ تھی بلکہ صرف میر خدا داد خان، خان قلات کے مقابلہ میں سرداروں کو امداد دینے اور اپنی مداخلت کے لئے وجہ جواز پیدا کرنے کی ایک کج بحثی اور ایک غلط مفروضہ تھا جس کو بعد ازاں زیادہ سنجیدہ انگریز افسروں نے خود ترک کردیا تھا۔
بلوچستان پر قبضہ:
27مارچ 1948ء بلوچستان پر قبضہ کرکے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لیے ۔واضح رہے اس وقت نہ صرف قلات پر فوج کشی کی گئی بلکہ مکران اور دیگر علاقوں میں بھی فوج کشی کی گئی تھی اور پاکستانی قبضے کا اطلاق پورے بلوچستان میں بیک وقت ہوا تھا۔
ریاستِ بلوچستان کے حکمران میر احمد یار خان کو الحاق کے مسوّدے پر دستخط کرنے کے لئے مجبور کیا گیا ۔خان ایک مطلق العنان حکمران نہیں تھے ۔ اُنہیں ’’رواج‘‘ (بلوچی آئین) کے تحت کام کرنا ہوتا تھااور انہیں کوئی اختیار نہیں تھا کہ پارلیمان کی مرضی کے بغیر وہ مسوّدے پر دستخط کرتے ۔ خان نے اپنی آپ بیتی میں تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے بلوچستان کے پاکستان میں ضم کرنے کے دستاویز پر دستخط کرکے اپنے منصب کی خلاف ورزی کی ہے ۔خان کا دعویٰ تھا کہ ان کے اس غیر آئینی اقدام کے باوجود بلوچ قوم نے نہ ہی اس کے خلاف آواز بلند کیا اور نہ اس پر احتجاج کیا لیکن حقائق اُن کے اس دعوے کی تردید کرتے نظر آتے ہیں ۔ قلات کی بزورِ قوت انضمام سے پاکستان مخالف ریلیوں کا پورے ریاست میں آغاز ہوا۔ بلوچ قوم کے جذبات پر قابو کرنے کے لئے فوج کو چوکس رہنے کا حکم دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے 15 اپریل 1948 ؁ء کو ریاستِ قلات کے پورے انتظامیہ کو اپنے تحویل میں لینے کا فیصلہ کرلیا ۔ اے جی جی بلوچستان نے جناح کے ان احکامات کا اعلان کیا کہ قلات کی حیثیت سابقہ برطانوی دورِ اقتدار والی حالت پر واپس چلی جائے گی ۔ قلات کے انتظامیہ کو چلانے کے لئے ایک پولیٹیکل ایجنٹ کا تقرر کیا گیا۔خان نے با دِل نخواستہ اس تبدیلی کو قبول کرلیا اور گورنر جنرل پاکستان جناح کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ : ’’ میرے قانونی اختیار بطور خانِ اعظم کا 15 اپریل1948 ؁ٗ ؁ء کو خاتمہ کردیا گیا ، قلات کے معاملات میں میرا دخل ختم کر دیا گیا اور مجھے آرڈر کے موصول ہونے کے بیس گھنٹوں کے اندر اندر حکومتِ قلات کے بیشتر وزراء کو گرفتار یا جلا وطن کردیا گیا ۔ میرے متعارف کرائے گئے تمام سماجی، معاشی اور انتظامی اصلاحات کو یکسر پلٹ دیا گیا۔ بلوچوں کی نمائندہ پارلیمنٹ اور بلوچ کنفیڈریشن کو بہ یک جنبشِ قلم توڑ دیا گیا۔‘‘
حوالہ جات
1:۔گل خان نصیر۔تاریخ بلوچستان
1:۔ڈاکٹر عنایت اللہ ۔دی پرابلم آف گریٹر بلوچستان 
https://dailysangar.com/home/page/10261.html

تین اسٹیٹ کے نوابوں نے غداری کرکے پاکستان سے الحاق کیا،میجر مجید

 مقبوضہ بلوچستان: بلوچی زبان کے نامورشاعر و ادیب اور دانشور میجر مجید نے بی آر پی کے سربراہ براہمدغ بگٹی کے 27مارچ کے حوالے سے جاری بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ براہمدغ بگٹی ، اس کی پارٹی اور اسکے ساتھی بلوچ جہد آزادی کا ایک بڑا حصہ ہیں ۔ جس طرح دوسری آزادی پسند ہیں اسی طرح وہ بھی تحریک کا ایک ستون ہیں ۔اور اس کی ایماندری پر کسی کو کوئی شک نہیں ہے لیکن براہمدغ صاحب کا جو بیان قلات اسٹیٹ کے حوالے سے آیا ہے اس نے ہمیں اچھنبے میں ڈال ڈیاہے کیونکہ 70سال ہوچکے ہیں بلوچ قوم اسے جبری الحاق قرار دے رہا ہے ۔اور پھر جبری الحاق کے مکمل ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں ۔میر گل خان نصیر کے ’’تاریخ بلوچستان ‘‘ یا ڈاکٹرنصیر دشتی کے ’’دی بلوچ اینڈ بلوچستان ‘‘کے کتابوں میں باقاعدہ دلیلوں سے یہ ثابت ہے کہ قلات پر جبری الحاق ہواتھا اور اس میں کوئی دورائے نہیں اور بلوچ قوم کا بچہ بچہ اس سے واقف ہے۔
واجہ براہمدغ بگٹی اپنے بیان میں کہہ رہے ہیں کہ ان تینوں اسٹیٹ نے اپنی مرضی سے الحاق کیا ہے ۔میں اس بات پر اس کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ مکران ، خاران اور لسبیلہ ،قلات اسٹیٹ کے تین اسٹیٹ تھے اور یہ تینوں قلات کے ماتحت تھے ۔ان تینوں اسٹیٹ کے سالانہ یا ماہانہ مالیتی آمدنی قلات اسٹیٹ کے خزانے میں جمع ہوتا رہا۔
اور یہ تینوں اسٹیٹ قلات کے ایوان بالا اور ایوان ذیلی کے ممبر تھے۔قلات کے دونوں ایوانوں میں مکران کے 10ممبران تھے ۔اور الحاق کی بات جب محمد علی جناح نے خان قلات سے کی تو اس نے سبی میں دونوں ایوانوں کا اجلاس بلاکر یہ معاملہ ان کے سامنے رکھ دیا اور دونوں ایوانوں نے اس معاملے کو مسترد کردیا ۔اس وقت دونوں ایوانوں میں مکران ، خاران اور لسبیلہ کے نمائندگان موجود تھے ۔
جب دونوں ایوانواں میں پاکستان سے الحاق کا معاملہ مسترد کیا گیا تو محمد علی جناح نے قلات کے وزیر اعظم اسلم خان جو ایک پنجابی تھا سے صلاح و مشورہ کے بعد ایک سازش رچی اور لسبیلہ ،خاران اور مکران کے نوابوں کو چھپکے سے کراچی میں بلاکر انہیں مراعات دیں اور آپس میں الحاق کا فیصلہ کیا۔
میں نواب براہمدغ بگٹی کی توجہ اب اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کو یہ ایک غداری کیس ہے جو نوابوں نے کیاہے ۔ اس میں نہ بلوچ عوام کی رضا ومنشا شامل تھی اور نہ ان تینوں اسٹیٹ کے نمائندگان کی جو ایوان بالا و ذیلی کے اجلاس میں شریک تھے ۔ یہ صرف تین نوابوں کی غداری تھی اوران کا یہ عمل بھی غیر دستوری و غیر آئینی تھا۔محمد علی جناح کو یہ اتھارٹی دستوری و قانونی نہیں تھا کہ وہ اسٹٹ کے ساتھ ڈیل کرسکے ۔یا دیگرتینوں اسٹیٹ کے ساتھ بالواستہ ڈیل کرسکے ۔بذات خود یہ ایک تضاد ہے اور ایک آئینی بریک آؤٹ ہے جو جناح نے کیا ہے ۔اس نوعیت کے حساس معاملے پر بیان دینے کیلئے بہت غور فکر اور تاریخی پہلوؤں کاجائزہ لینا چاہیے۔
واجہ میجر مجید مزیدنے کہا ہے کہ میں واجہ براہمدغ بگٹی سے امید اور درخواست کرتا ہوں کہ وہ تاریخی حقائق کا مطالعہ کرکے اپنے اس بیان پر نظر ثانی کرے کیونکہ کھبی کھبی نادانستہ اور غلطی سے بہت ساری باتیں انسان سے سرزد ہوجاتی ہیں لیکن اپنی غلطی کو ماننا خودایک بڑاپن ہے اور میں سمجھتا ہوں اس میں یہ بڑا پن اور یہ جرأت ہے کیونکہ وہ ایک لیڈر ہیں اور بلوچ قوم کواور جہد آزادی کو لیڈ کر رہے ہیں۔
اس معاملے پر ہر کسی کو اپنے رائے دینے کا حق حاصل ہے لیکن میں ان دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے پر لکھتے وقت گالم گلوچ اور غیر تہذیبی زبان استعمال نہ کریں کیونکہ اخلاق سے گری اور غیر شائستہ زبان دورریاں پیدا کرتا ہے اور بلوچ قوم کو ابھی دوری کی نہیں یکجہتی و نزدیکی اور مہرو محبت کی ضرورت ہے ۔
میں ایک بار پھر ایک معمولی ورکر کی حیثیت سے واجہ براہمدغ بگٹی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے بیان پر نظر ثانی کرے اور دیگر دوستوں سے بھی یہ اپیل ہے کہ وہ اپنی بیان بازی کو کم کریں ۔کیونکہ لیڈر کوئی بیان دیتا ہے تو اس کے جواب میں لیڈر جواب دیتا ہے ۔اگرچہ یہ ایک بحث ہے اس میں کسی کو کوئی بندش نہیں ہے لیکن ورکر اس بات کا زیادہ خیال کریں ۔
https://dailysangar.com/home/page/10270.html

вторник, 27 марта 2018 г.

:

 مقبوضہ بلوچستان:27 مارچ کی مناسبت سے بی ایس او آزاد کا پمفلٹ تقسیم

     بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد نے پمفلٹ بعنوان “27 مارچ یوم قبضہ” بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تقسیم کیا۔
پمفلٹ میں بلوچ عوام سے مخاطب ہو کر کہا گیا ہے کہ بلوچستان کی جغرافیہ، اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہونے کے سبب ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے زد میں رہا ہے۔بلوچوں نے ہر ادوار میں بیرونی طاقتوں کے خلاف سرزمین کا دفاع کیا اور اپنی ریاست کی آزاد حیثیت کو برقرار رکھنے کیلئے مزاحمت کرنے کو ترجیح دی جس وقت انگریز قبضہ کرنے کی نیت سے افغانستان ، بلوچستان اور ہندوستان کا رخ کررہے تھے اس وقت اس خطے میں بلوچستان ایک آزاد ریاست تھا ۔جب انگریز بلوچستان پر حملہ آور ہوئے تو بلوچستان کے حکمران خان محراب خان نے انگریز کے خلاف مزاحمت کرکے جام شہادت نوش کیا اور بلوچوں نے قبضہ گیروں کے خلاف مزاحمت کے روایات کو برقرار رکھتے ہوئے انگریز سے بلوچستان کی آزادی تک جدوجہد کو جاری رکھا ۔بلاآخر 11اگست1947ءکو بلوچستان کی آزادی کو تسلیم کیا گیا۔ جب انگریز نے اپنے توسیع پسندانہ پالیسی کے تحت ہندوستان کو تقسیم کیا اور پاکستان جیسی تھیوکریٹک ریاست کو وجود میں لایا تاکہ برطانیہ پوری ایشیاء میں اپنی اثرورسوخ کوبرقرار رکھ سکیں تو اسی تناظر میں پاکستان نے آزادوخود مختیار ریاست بلوچستان پر قابض ہو نے کیلئے مختلف سازشیں تیار کیے۔بلوچستان پر قبضے سے قبل بلو چستان کے پا رلیمنٹ دارلعوام اور دارلامرامیں موجود اراکین پا کستان کی اس سازش سے بخوبی واقف تھے اس لئے انہو ں نے سیاسی بنیا د پر بحث و مباحثے کا آغا ز کیا کہ پا کستانی حکمران اسلام کے نام پر بلو چستان پر قبضہ کرنے کی کو شش کررہے ہیں چونکہ ہم بلوچ اپنی سرزمین کی آزادی کو ہرگز قر بان کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ بلوچ ریاست کی دونوں ایوانوں کے اکثریت رائے نے کہا کہ” جہاں تک بات اسلام کی بنیاد پر الحاق کی ہے تو دنیا کے تمام مسلم ممالک کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنی چاہیے تھے لہذا پاکستان کو ہماری زمینی اہمیت او ر ساحل وسائل سے دلچسپی ہے وہ اسلام کے نام کو بطور ہتھیار استعمال کررہاہے ۔بلوچ پارلیمنٹ کی اکثریت نے پاکستان سے الحاق کے تجویز کو کثرت رائے سے مسترد کیا تو پاکستان نے فوج کشی کرکے27مارچ 1948ءکو بلوچستان پر بزور شمشیر قبضہ کیا۔
اپنے پیغام میں بی ایس او نے بلوچ نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ عوام نے شروع دن سے اس ناجائز قبضے کو تسلیم کرنے سے انکا ر کیا اور پاکستانی قبضے کے خلاف براہ راست مزاحمت کا آغاز کیا جو آج تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بلوچ قومی آزادی کی جد وجہد کو ختم کر نے کےلئے پا کستان شروع دن سے طاقت آزمائی کا مظاہرہ کررہی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو بلوچستان میں ناکامیاں ہی نصیب ہورہی ہے۔جدوجہد کے اس طویل دورانیہ میںبلوچ قومی تحریک نشیب و فراز کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا آج اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ بلوچ مسئلے کو بین القوامی سطح پر تسلیم کیا جاچکا ہے۔ پاکستان اپنی عسکری طاقت کے اکثرتی حصے کو استعمال کرنے کے باوجود بلوچ تحریک کے تسلسل کو روکنے میں ناکامی کے بعد بلوچ نسل کشی کی پالیسی میں روز بہ روز تیزی لارہی ہے۔ پاکستان نے نہ صرف بلوچ نسل کشی میں تیزی لارہی ہے بلکہ بلوچ سرزمین کے قدرتی وسائل کی بے دردی سے لوٹ و کھسوٹ اور ترقیاتی منصوبوں کے آڑ میں ہماری آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش بھی کررہی ہے۔ بحیثیت بلوچ سرزمین کے وارث ہمیں قابض کی ان تمام منصوبوں کو مد نظر رکھ کر قومی بقاءکیلئے ایک وسیع اور جامع پالیسی اپنانا چاہیے تاکہ ہم دشمن کے اس منفی چال کو خاک میں ملا دیں جس سے ہمیں قومی غلامی سے نجات حاصل ہو اور ایک آزاد و خودمختیار سماج تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائے۔
پمفلٹ کے آخری حصے میں بلوچ قوم کو پیغام دیتے ہوئے بی ایس او کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے قبضے کو وسعت دینے کیلئے آبا د کا ری کے سلسلے کو ایک مرتبہ پھر تیزی کے ساتھ بلوچستان بھر میں پھیلا رہا ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقے جہاں بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کیا جا چکا ہے جس کی واضح مثال کو ئٹہ ، حب چوکی اور کراچی ہیں۔آج آبادکاری کے اس سلسلے کو بلوچستان کے ساحلی علاقے خاص کر گوادر میں وسعت دینے کی کوشش کی جارئی ہے۔ پاکستان کی اس طر ح کے خطرناک عزائم کو ناکا م بنانے کیلئے بلوچستان میں سرگرم بلوچ آزادی پسند پارٹیوں کو اپنی صفحوں میں بحث کرنی ہو گی کہ کیسے اور کس طرح قابض کے اس تسلسل کو روک سکتے ہیں ساتھ ہی اپنی سر زمین کی آزاد حیثیت کو بحال کرنے کیلئے مشترکہ راہ ہموار کرنی ہوگی۔ اب وقت اور حالات بلوچ قوم سے تقاضہ کرتی ہے کہ اپنی قومی بقا ءکی خاطر اپنی تمام تر توانائیاں قومی آزادی کی جدوجہد میں صرف کریں جس کی بدولت ہماری آنے والی نسلیں خوشحال رہیں گے اور بلوچ قوم 27مارچ کو یوم سیاہ بھر پور طریقے سے مناکر پاکستان سے اپنی نفرت کا اظہار کریں جس دن پاکستان نے بزور طاقت ہم سے ہماری آزادی سلب کی تھی۔

воскресенье, 25 марта 2018 г.


جنگ آزادی کی رہنماء
گل بی بی ۔
------ شاہ محمد مری
گل بی بی ایک صدی قبل ،پہلی عالمی جنگ کے زمانے میں انگریزوں کے خلاف جنگِ آزادی میں بلوچستان کی ایک بہادر کمانڈر تھی۔وہ مغربی بلوچستان سے تعلق رکھتی تھی، جسے سرحدبھی کہتے تھے ، یا بعد میں اب جسے ایرانی بلوچستان کہا جاتا ہے۔ اس کا مشہور شہر ’’خاش ‘‘ ہے جو یاراحمدزئی قبیلے کا ہے ۔وہاں بہت سے دیگر قبائل بھی ہیں۔ مگر گل بی بی کے باب میں وہ دو قبیلے اہم ہیں جنہوں نے انگریز سامراج کے خلاف جنگِ آزادی جاری رکھی: یاراحمد زئی اور گمشادزئی۔
ہم 1916کا تذکرہ کر رہے ہیں ،جب بلوچوں کے یاراحمد زئی قبیلے نے برطانوی املاک اور اُس کے کاروانوں پر اپنے حملے جاری رکھے ۔ یہ قبیلہ اپنی سامراج دشمنی میں بالخصوص سردار جنید خان کے زمانے میں بہت مشہور ہوا۔جیند خان انگریزوں کاقسم کھایا ہوا دشمن تھا ۔وہ بہادر ی میں لاجواب ، عقل و تدبر میں لاثانی ، قوتِ فیصلہ کا بادشاہ اور عزت و احترام کا مالک تھا۔ اس جنگ کے دیگر ہیروؤں میں خلیل خان اور شاہسوار شامل تھے ۔
یاد رہے کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران 1916 میں جنرل ڈائر (9اکتوبر1864 ۔ 23 جولائی1927) نامی سفاک وچالاک افسر کو اِس علاقے میں بھیجاگیا تھا تاکہ وہ جاری بلوچ مزاحمت کو کچل سکے۔اس نے آٹھ ماہ تک یہاں اپنی سازشوں، بد عہدیوں ، دھوکوں، مظالم اور لالچوں کا بازارگرم کیے رکھا ۔ اس کے مدِمقابل قول و قرار کے پابند ، راست باز ،اور آزادی پسند بہادر بلوچ تھے جو اپنے گھر میں عام سی انسانی باشرف زندگانی گزاررہے تھے۔ بغیر کسی اشتعال کے اُن کے وطن پر قبضہ کے لیے حملہ کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ بلوچ اس قبضہ گر کے خلاف لڑے۔
یہیں پر ایک خاتون کمانڈر ابھر کر سامنے آجاتی ہے ۔ وہ نہ صرف خود بندوق اٹھا کر جنگ کرتی ہے بلکہ جنگی حکمت عملی کی خامیوں پر اپنے سردار تک کوڈانٹ دیتی ہے ۔ اُس کا مقدس نام ’’گل بی بی ‘‘ تھا۔
عبداللہ جان جمالدینی بھی اس عظیم خاتون سے بہت متاثر تھا جسے اُس نے اُس وقت دیکھا تھا جب وہ اُس کے چچا فقیر جان سے ملنے آئی تھی۔ جمالدینی صاحب کے بقول وہ نسبتاً فربہ خاتون تھی جس نے سینے پہ دو رویہ کارتوسوں بھراپٹہ سجا رکھا تھا اوراس کے کندھے پہ بندوق تھی۔(1) جمالدینی صاحب کی معلومات کے مطابق اور بھی کئی خواتین نے جنگ آزادی لڑی تھی، مگر گل بی بی ان میں بہادرترین اورذہین ترین کمانڈر تھی۔ وہ بے پناہ مذاکراتی مہارت رکھتی تھی۔
جنرل ڈائر اُس کی شکل وشباہت اور قدکاٹھ کے بارے میں یوں کہتا ہے۔ ’’میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میں نے دیکھا کہ گُل بی بی واقعی ایک خوبصورت نوجوان عورت تھی۔ ایک سرحدی کی مناسبت سے بہت حسین ، روشن چہرہ‘ تقریباً یونانی خدوخال ، غیر معمولی نگاہوں اور بڑی بڑی آنکھوں والی ایک حسینہ تھی ۔ گو بظاہر وہ چھوٹے قد کی تھی لیکن اُس کے اعضا اور ہاتھ بہت خوبصورت تھے‘‘اور اس کا لباس سفید تھا جس پر ۔۔۔کشیدہ کی گئی تھی ۔ سرپر اس نے گشان (دوپٹہ) ڈال رکھا تھا جو خوبصورت تہوں میں تھا، لیکن اُس کے چہرے کو چھپاتا نہیں تھا ۔ (2)
ظاہر ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ گل بی بی کس کی بیٹی تھی ۔ اُس کی کیا اولاد تھی ، وہ کتنے عرصے تک زندہ رہی اور کس سن میں فوت ہوگئی۔
صرف گل بی بی ہی نہیں بلکہ ہمیں اپنے بلوچ منابع کی طرف سے خود جیئند ، شاہسوار اور خلیل خان کی زندگانی کے بارے میں کچھ نہ مل سکا۔ جو مواد دستیاب ہے۔ وہ سارے کا سارا اُس انگریز کا ہے جو غیر جانبدار تاریخ نویسی نہیں تھی۔ بلکہ وہ تو جنگ کا مخالف فریق تھا۔ اور اپنے نکتہِ نظر سے باتیں لکھتا تھا۔
لہذا اصل حقائق معلوم کرنے کے لیے ہمیں انگریز کی تصانیف سے نکتے اٹھا اٹھا کر پورا سلسلہ ترتیب دینا ہوتا ہے۔ بالخصوص جدوجہد آزادی میں عورتوں کے حصے کی تحقیق مایوسی کی حد تک مشکل کام ہے ۔
البتہ ہم اتنا جان سکے ہیں کہ شاہسوار مشہور چھاپہ مار سردار جیئند خان کا رشتہ دار تھا۔ وہ خواہش کا مالک اور گورنر رہ چکا تھا۔ وہ گل بی بی نامی اس حسین عورت سے عشق میں مبتلا ہوگیا ۔ رواج کے مطابق گل بی بی کے طلب گار دولہا اور لڑکی کے نرینہ وارث محمد حسن کے درمیان گفت و شنید ہوتی رہی۔ محمد حسن نے گل بی بی کی قیمت میں خواش کے حقِ ملکیت کا مطالبہ کیا۔ شاہنواز کی انتہائی فریفتگی نے اُسے یہ قیمت ادا کرنے پر آمادہ کرلیا۔شاہسوار نے خواش کا قلعہ اُس کے حق مہر میں اُس کے قریبی نرینہ وارث محمد حسن کو دیا تھا۔ (3)
چنانچہ اس جنگ میں اگر ایک طرف گل بی بی کی سامراج دشمنی ، فراست اور بہادری ہے تو دوسری طرف ڈائرکی بدمستی ، طاقت اور روباہی ہے ۔ ڈائر 1885سے 1920تک برٹش آرمی میں رہا۔ اس نے ’’سیستان فورس ‘‘اور 25پنجاب کی کمان کی ۔ پہلی عالمی جنگ (18-1914) میں اس نے ’’سیستان فورس ‘‘کی کمان کرتے ہوئے میرے وطن کے مغربی حصے پہ حملے جاری رکھے ۔ اُسے 1915میں کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی اور 1916میں عارضی طور پر بریگیڈیئر جنرل بنادیا گیا۔یہ وہی ڈائر تھا جو بلوچستان کے بعد ہندوستان گیا اور اس نے تین برس بعد 1919میں وہاں جلیانوالہ باغ کا قتلِ عام کیا تھا۔
ڈائر کے مقابلے میں، سامراج دشمن جنگ میں دوندان شکن قبائل تھے : یار احمدزئی جوکہ سردار جیند خان کے پاک ہاتھوں میں تھی ، اور دوسرا گمشا دزئی جس کی قیادت سردار ھلیل خان کر رہا تھا۔ اس جنگ میں ڈائرکو زبردست جاسوس ملے۔۔۔گم کرونام کیا لینا جاسوسوں کا!۔
ھلیل وجیند دو بہادر بیل تھے ۔ ان کی قیادت میں بلوچوں نے اپنی سرزمین کی خوب دفاع کی ۔ایسی جنگ، جس میں جیند خان کا بیٹا مارا گیا اور ھلیل خود شہید ہوگیا۔
ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔مغربی بلوچستان میں ’’نالک ‘‘ کی لڑائی بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ مگر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آج ہم بلوچ عوام کو ’’جنگِ نالک ‘‘کے بارے میں کچھ معلومات حاصل نہیں ہیں۔ نہ تحریر میں اور نہ شاعری میں۔ وہاں انگریز کو تباہ کن شکست ہوئی تھی۔ تاریخ ظالم ہے جہاں زورآور کو فتح ہوتی ہے وہاں کی جنگ مشہور ہوجاتی ہے مگر جہاں اُس کو شکست ہوتی ہے وہ اُسے ،بلیک آؤٹ کرتا ہے ۔
واضح رہے نالک خاش کے قریب ایک تنگ درہ ہے۔ ’درہ اور بلوچ!‘ دشمن سلامت گزرنے کا سوچے بھی مت۔ جیند خان کے بعد اس کا بھتیجا شاہسوار لڑتا رہا۔
چاغی کی تاریخ میں بہت ہی طویل اور توانا سامراج دشمن اقدار کی حکمرانی ہے،جو جانا جا تاہے اُس عظیم جنگجو اور کمانڈرخاتون گل بی بی کے نامِ نامی سے جس نے پدر سری بلوچ معاشرے میں ‘انگریز دشمن لڑائی کی قیادت کی تھی۔گل بی بی نے نہ صرف اس جنگ کو منظم کیا ، اس کی قیادت کی ،بلکہ اسے اس طریقے سے جاری رکھا کہ انگریزی افواج کے سربراہ جنرل ڈائرکواس کو تسلیم کر کے اس خاتون کو باقاعدہ سلیوٹ کرنا پڑا۔۔۔ وہ جرات ، بہادری اور ملٹری لیڈر شپ میں یکتا تھی۔
شاہسوار نہ صرف اُس سے محبت کرتا تھا بلکہ اُس کی فہم ، فراست اور بہادری کے اعلیٰ اوصاف کی وجہ سے اس کی عزت بھی بڑی کرتا تھا ۔ڈائر کی کتاب میں سامراجیت کے عزائم کے بیچ میں غور سے جھانکیں تو معلوم ہوگا کہ شاہسوار اپنی بیگم اور ساتھی جنگجو ،گل بی بی کی بڑی تکریم کرتا تھا۔
گل بی بی ایک برابر کی کمانڈر کے بطور بحث مباحثہ کرتی، دلائل دیتی اور جنگ کے کسی محاذ کی قیادت کرتی۔ وہ صرف شاہسوار سے ہی نہیں بلکہ بزرگ جیند خان سے بھی جنگ کی حکمتِ عملی پہ بہت مفید اور کار آمد گفتگو کیاکرتی تھی۔
بالخصوص وہ جیند وشاہسوار پہ یہ تنقید کرتی تھی کہ وہ اپنی سادگی اور شرافت میں انگریز سے دھوکہ کھا گئے ۔ ڈائر کے بقول :’’عیدو چہچہاتے ہوئے بیان کرتا رہا کہ کس طرح گُل بی بی نے تحکمانہ لہجے میں اُن کو بیوقوف کہہ کر اُن کی ہنسی اُڑائی اور اُن کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہنے لگی کہ اب یہ ایک کُھلی حقیقت اور عام بات ہے کہ جرنیل صاحب صرف مُٹھّی بھر آدمیوں کے ساتھ یہاں پہنچا اور محض فریب دے کر اُن سے ہتھیار ڈلوالیے۔ گُل بی بی نے بات یہیں پر ختم نہیں کی بلکہ اُس نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے جیئند سے کہا کہ اگر اُس میں ایک چُوہے کا بھی دل ہوتا تو وہ گذشتہ شب یا دوسرے دن صبح کو حملہ کر کے خواش پر قبضہ کر لیتا کیونکہ جرنیل کی مختصر سی فوج سُورج کے خُوب بلند ہونے تک وہاں نہیں پہنچ پائی تھی‘‘۔
صرف جنگ میں ہی نہیں بلکہ فہم کی اس مالکن اور جنگ آزادی کی اس کمانڈر نے یہ حیران کن ڈپلومیسی اختیار کی کہ’’اپنی خوشنودی کے اظہار کے طور پر دشمن انگریز کے کمانڈر کو دو دنبے بھجوادیے۔
انگریز ڈائر قبول ورد کے محمضے میں پڑ گیا ۔ مگر اس کے جاسوس اورصلاح کارعید و کہا:’’ آپ اب تک گل بی بی کو نہیں جانتے ۔مگر اب آپ جان لیں گے ۔ وہ سرحد کی ایک بہت بارسُوخ شخصیت ہے۔ اگر چہ وہ ایک عورت ہے لیکن دنیا کی خوبصورت ترین عورت بھی ہے ۔ اور آپ مجھے معاف کریں صاحب! آپ کو یہ دُنبے جو اُس نے بھیجے ہیں قبول کرنا ہوں گے ۔ کیونکہ اگر آپ ان کو واپس کردیں گے تو اُس کی بہت بڑی بے عزتی ہوگی‘‘۔
سرحد دار نے بھی اِس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ’’ اِس میں پسند وناپسند کی کوئی بات نہیں ۔ دُنبوں کو امن کی پیشکش کے طور پر قبول کیاجائے‘‘۔
بہر حال خیر سگالی کے اس اقدام کے جواب میں مشیروں نے ڈائر کو مشورہ دیا:
’’ جاکر اُس سے ملیں صاحب ! عیدو نے کہا: گُل بی بی ا،س قسم کی عزت افزائی کرنے والوں کی پذیرائی کی عادی ہے ۔‘‘
انگریز نے یہی فیصلہ کیا۔ یہاں مجھے دو بہت دلچسپ فقرے ملے۔ ایک تو انگریز کا خیال تھا کہ وہ بلوچ کمانڈر خاتون مغل فیوڈل شاہی گھرانوں کی عورتوں کی طرح سات پردوں میں چھپی بیٹھی ہوگی ۔ لہذا اُس نے کمانڈر گل بی بی سے مذاکرات کی حامی بھرتے ہوئے یہ حتمی فقرہ کہہ دیا ۔’’اگر چہ میرا خیال ہے وہ پردے میں ہوگی‘‘۔
’’بالکل نہیں‘‘ ۔ ا س کے دستِ راست عیدو نے برجستہ جواب دیا۔ (پردہ والا ڈرامہ نہ چرواہا عورت کرتی ہے ، نہ خانہ بدوش عورت اور نہ ہی کسان عورت۔ ایک مکمل آزاد اور پر اعتماد محنت کش انسان)۔
چنانچہ اپنے جاسوس اور صلاح کاروں کے مشورے سے وہ اور اس کاسیکنڈ اِن کمانڈ میجر لینڈون اگلی صبح اُس سے ملنے موٹر کار میں چلے گئے ۔
ڈائراپنی اِ س ملاقات کا تذکرہ یوں کرتا ہے :
’’وہاں سے آدھے راستے پر خود شاہسوار ہمارے استقبال کو آیا اور ایک بہت بڑی جُھگی کی طرف ہماری رہنمائی کی ۔جُھگی کے اندر ہم نے اُس مشہور حسینہ کو رنگ برنگے گدیلوں پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اُس نے ایک گُشان (دوپٹہ) ڈال کر رکھا تھا جو خوبصورت تہوں میں تھا، لیکن اُس کے چہرے کو چُھپاتا نہیں تھا۔
’’ ہمارے داخل ہونے پر وہ ایک شان سے اُٹھی اور تھوڑی سی جھک گئی ۔ شاہسوار نے پھر ہم میں سے ہر ایک کا تعارف کرایا اور ہم تعظیماً سلام کو جُھکتے رہے اور پھر اُس کے دعوت دینے پر اُس کے سامنے نیم دائرے کی شکل میں زمین پر بیٹھ گئے۔
’’ تب اُس نے نہایت خوبصورتی سے فارسی میں ہمیں خطاب کیا جو لینڈون اور میں سمجھ لیتے تھے۔ اُس کی تقریر ختم ہوئی تو میں نے سرحد دار کی مدد سے جو بطور ترجمان بولتا رہا اپنی طرف سے بڑی کوشش کی کہ اُس کو معقول جواب دُوں‘‘۔
’’جب یہ اختتامی رسوم ختم ہوئیں تو ایک بڑا عمدہ قالین میزبان بیگم کی طرف سے لاکر مجھے پیش کیا گیا‘‘۔
اس خاتون کے بارے میں ہماری معلومات یہاں تک ہیں ۔لیکن یقیناًانگریز کے اُس زمانے کے جاسوسی رپورٹوں افسرانِ اعلیٰ کے ساتھ خط و کتابت کے ریکارڈ اور دیگر آرکائیوز میں اُس کے بارے میں مزید تفصیلات مل سکیں گی ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ اُس کے بارے میں بلوچ شاعری کہیں موجود ہو۔ یا اُس کے آل اولاد کی سراغ مل سکے جن سے کچھ مزید معلومات حاصل ہوں۔ ہمارے نوجوان محققین کے لیے کتنا زیادہ کام پڑا ہے !i

суббота, 24 марта 2018 г.


  ڈاکٹر اللہ نذر گوریلا جنگجوؤں کی جنت بلوچستان کے پہاڑوں میں موجود ہیں۔ امریکی تجزیہ کار کا سنی سنائی باتوں پر یقین افسوسناک ہے۔ بی ایل ایف

 (مقبوضہ بلوچستان)بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے امریکی تجزیہ کار ڈاکٹر لارنس کی بی ایل ایف اور ڈاکٹر اللہ نذر کے بارے میں زمینی حقائق سے منافی تجزیہ کے جواب میں کہا کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ ایک مسلح بلوچ قومی تنظیم ہے جو ایک آزاد،جمہوری اور سیکولربلوچستان کی حصول کیلئے پاکستانی جبری قبضہ کیخلاف سرگرم عمل ہے ۔بی ایل ایف اس وقت مقبوضہ بلوچستان میں سب سے زیادہ متحرک مسلح تنظیم ہے، جس کے سرمچار قابض پاکستانی فورسز کو لوہے کے چنے چبوا رہے ہیں۔ 

گہرام بلوچ نے کہا کہ چین اور پاکستان کے مشترکہ سامراجی منصوبہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے خلاف بھی اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ بی ایل ایف کی مسلسل مزاحمت ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستانی فوج خصوصاََ آئی ایس آئی جھوٹی پروپیگنڈہ اورافواہوں سمیت مختلف ہتھکنڈئے استعمال کرکے بی ایل ایف کی قومی حمایت اور اثرورسوخ کو کم کرنے کی سازشیں کرتی رہتی ہیں۔ ویسے تو پاکستان کی میڈیا، عدلیہ، پارلیمنٹ اور نام نہاد سیاسی ومذہبی جماعتیں آرمی اورخفیہ اداروں کی مٹھی میں ہیں، مگر مقبوضہ بلوچستان میں میڈیامکمل طورپرپاکستانی فوج اورخفیہ اداروں کے کنٹرول میں ہے اورعالمی میڈیاکوبلوچستان میں رسائی نہیں دی جارہی ہے ۔اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی فوج اوردیگرسیکورٹی فورسزنہ صرف مقبوضہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں،ماورائے عدالت قتل اور شہری آبادیوں کے خلاف فوجی کارروائیوں سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بلوچ نسل کشی پرپردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ بلوچ آزادی پسند تنظیموں خصوصاََ بی ایل ایف اور اس کی قیادت کیخلاف جھوٹی افواہیں پھیلانے وکردارکشی کرنے میں مصروف ہیں تاکہ بلوچ عوام،عالمی رائے عامہ اور قوتوں کے اذہان میں بلوچ قومی تحریکِ آزادی اور بی ایل ایف کے بارے میں بدگمانی اورغلط فہمی پیداکی جاسکے۔ پاکستانی میڈیا، صحافی اور حتیٰ کہ سوشل میڈیا کو بی ایل ایف کے رہنماؤں کی کردار کشی کیلئے بھرپو طور پر استعمال کیا گیا جو ہنوذ جاری ہے۔ ریاستی ادارے اپنی جھوٹ کو متواتراتنازیادہ دہرارہے ہیں تاکہ اس پرسچ ہونے کاگمان ہو۔

گہرام بلوچ نے کہا کہ قابض پاکستان کے اسی جھوٹی پروپیگنڈے کاعکس ایک سابق امریکی فوجی و تجزیہ کار ڈاکٹر لارنس سیلن کی ایک حالیہ تحریرمیں صاف دکھائی دیتاہے ، جس میں سیلن نے بی ایل ایف پر الزام لگایاہے کہ اس کی پناگاہیں اور ڈاکٹر اللہ نذربلوچ ایران میں ہیں اور بارڈر پارکرکے پاکستانی فورسزپرحملہ کرتے ہیں۔ بی ایل ایف ڈاکٹرسیلن کے لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قراردیکران کی مذمت اور تردید کرتاہے اورمسٹرسیلن سمیت عالمی تجزیہ کاروں اورمیڈیاکو دعوت دیتاہے کہ سْنی سنائی باتوں اورجھوٹی افواہوں کی بنیاد پر ناقص تجزیئے پیش کرنے کے بجائے مقبوضہ بلوچستان کاخود دورہ کرکے جنگ زدہ علاقوں میں جاکر لوگوں سے ملیں اور اپنی آزادانہ مشاہدات کی بنیاد پر تجزیہ پیش کریں۔ 

گہرام بلوچ نے کہا کہ بی ایل ایف کے مراکز اور کیمپ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کے ہی اندر ہیں اور بی ایل ایف کے سرمچار اپنے مراکز سے روزانہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ یہ بات بھی سب کو پتہ ہونا چاہیے کہ گولڈ سمتھ بارڈر کے دونوں جانب ہزاروں سال سے بلوچ ہی بستے ہیں۔ ان بلوچوں کی آپس میں رشتہ داریاں اور آمد و رفت ہے ۔بارڈر کے دونوں طرف کے بلوچوں کے آنے جانے ا وربارڈرکراس کرنیکی وجہ سے ایرانی یا پاکستانی حکومتوں کی مہربانی نہیں بلکہ لوگوں کی آپس میں قومی اور خاندانی رشتہ داریاں ہیں۔ اسی طرح بی ایل ایف کو ڈرگ مافیا سے جوڑنا بھی بی ایل ایف کو بدنام کرنیکی پاکستانی کوششوں میں دانستہ یا غیر دانستہ طورپر ہاتھ بٹھانے کے مترادف ہے۔کیونکہ تحقیق کرنے والوں کو اچھی طرح علم ہے کہ یہاں ڈرگ مافیا ریاست پاکستان سے زیادہ بی ایل ایف سے خائف ہے۔ اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ بی ایل ایف اس گھناؤنے کار و بار کے سامنے رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ کالم نگار اور تجزیہ نگار میتھیو گرین نے بھی اپنی تحقیق میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عالمی مطلوب منشیات کا سرغنہ امام بھیل بی ایل ایف سے خوفزدہ ہے پاکستان سے نہیں۔ 


понедельник, 19 марта 2018 г.



بلوچستان ۔۔وقت تھم گیاہے

ماہ رنگ بلوچ
بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں کی مائیں اپنے بیٹیوں کے بجائے بیٹوں کے بڑے ہونے پر غم میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔
اپنے بھائی بہنوں میں، میں سب سے زیادہ خوش قسمت کہلائی جاتی ہوں کیونکہ ان سب سے زیادہ ابو کا پیار پایا تھا، ابو کے قریب ہونے کے سبب ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا چشم دیدہ گواہ میں خود ہوں، آج بھی یاد ہے جب ابو کے اغواء ہونے کے بعد پہلی بار پریس کلب گئے تھے ۔اْس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کچھ لوگ گھور رہے تھے، کچھ ترس کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور کچھ نفرت سے تکتے جا رہے تھے، ہمیں اْس وقت بس اتنا پتا تھا کہ’’ ابو گھر میں نہیں ہیں‘‘اور ہم سے اتنا ہی کہا گیا تھا۔ اتنی زور سے نعرے لگانا کہ وہ لوگ جو تمارے ابو کو لے گئے ہیں وہ مجبور ہوکر اْنہیں چھوڑ دیں۔
لاپتہ گویا ایک لفظ ہے اور اب تو بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کے لئے معمولی بات بن گئی ہے، یہاں آپ کے اپنوں کو آپ کے نظروں کے سامنے لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور جب آپ کو پتا ہو کہ وہ اْسے کہاں لے کر گئے ہیں اور وہاں اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ؟یہاں انسان بے بسی کی ایسی تصویر بن جاتی ہے کہ اس کا اندازہ لگاناشاید ممکن نہیں ۔ 
یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب اس کی کوئی چیز کھو جاتی ہے(یہاں چیزیں نہیں بلکہ زندہ انسان ہی کھو جاتے ہیںتو وہ اس کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہتا ہے ایسے ہی کوششوں میں میرے اور میرے بھائی بہنوں کا بچپن گزرا ہے، نعرے لگانے سے آواز بیٹھ جایا کرتی تھی ہمارے سکول کی چھٹیاں پریس کانفرنس اور احتجاجوں کیلئے ہوا کرتے تھے حتیٰ کہ ایسے ہی کسی احتجاج میں، ہم نے اپنی کتابیں تک جلا دی وہ ہر کوشش جو ہم کر سکتے تھے ہم نے کی مگر بدلے میں انصاف کے بجائے ہمیں اْس انسان کی لاش دی گئی جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز تھا۔
والد کے جانے کا سب سے بڑا اثر میرے بھائی کو ہوا تھا اْسے ہمیشہ اس بات کا ملال تھا کہ وہ ابو کو نہ بچا سکا جب ایلم(بھائیکے سامنے اْسے اٹھا کر لے گئے تو اْنہیں گھسیٹا جا رہا تھا۔اس دوران ابو کی گھڑی وہاں گر گئی تھی ایلم اکثر یہی کہتا تھا کہ اس گھڑی کی طرح اس کا وقت بھی رک گیاہے،۔
ہم نے اْسے سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی مگر اسے 13 سال کی عمر میں جو درد ملا تھا وہ کبھی بھر نہ سکا ۔آج ایلم کے درد کو محسوس کر رہی ہوں، جب آپ کے سامنے آپ کے عزیز کو کوئی لاپتہ کر دے اور آپ کچھ نہ کر سکیں تو یہ کرب آپ کو جینے دے نہیں سکتا ،وقت گزرتا گیا اور جب ہم پانچ بہنیں والد کے شکل کو دیکھنے کے لئے ترس جایا کرتی تھیں تو اپنے اکلوتا بھائی کو دیکھا کرتے تھے وہ ایک اْمید تھا ایسے جیسے 
لوٹنے والے نے پیچھے کچھ چھوڑ دیا ہو۔
یہ ایک الگ بات ہے کہ لاپتہ افراد کے خاندان کا غم کبھی ختم ہو نہیں پاتا حتیٰ کے ان کی لاشیں بھی مل جاتی ہیں مگر وہ رہتے لاپتہ ہی ہیں ،تب بھی دنیا کے لئے تو سال ہو چکے ہیں ابو کے اس قید سے رہائی کو مگر میرے لیے جیسے آج بھی وہ قید میں ہیں، آج بھی راتوں کو ان کی چیخوں کی آواز سن کر اٹھ جایا کرتی ہوں، آج کل خوابوں میں ابو نہیں آتے، ان کی جگہ بھائی نے لے لی ہے، لاپتہ ابو کے بھائی کو بھی لاپتہ کر دیا گیا۔
پندرہ دسمبر 2017 کی رات جب وہ گھسیٹ کر میرے بھائی کو لے جا رہے تھے۔ اسکی وہ آنکھیں جو ہماری اْمید کا ذریعہ ہیں پرنم سی تھیں، اسے پتا لگ چْکا تھا کہ جو اس کے باپ کے ساتھ کیا گیا تھا وہی سب کچھ اس کے ساتھ ہونے والا ہے یہ کہنا کہ وہ بے قصور ہیں شاید غلط ہوگا کیونکہ بلوچ ہونا ہی سب سے بڑا قصور ہے جس کی قیمت ہر بلوچ کو ادا کرنی پڑتی ہے۔
دنیاکے ہر کونے میں جب بیٹیاں بڑی ہوتی ہیں تو ماں باپ کے لئے پریشانی کا سبب بنتی ہیں مگر بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں مائیں اپنے بیٹوں کے بڑے ہونے پر غم میں مبتلا ہو جاتی ہیں گویا اپنے لختِ جگر کو سالوں اپنے خون میں سینچ کر تیار کر دیا کہ کل کوئی اس کے سامنے اْسے گھسیٹ کر لے جائیں۔
ایلم کے اغواء ہونے کے بعد سب نے یہی کہا تھا کہ اتنا لمبا اتنظار کیوں آپ لوگ کیوں کوئی پریس کانفرنس نہیں کرتے، ہم یہ سب کچھ پہلے کر چکے تھے ،لاپتہ ایلم کے لاپتہ باپ کی لاش جب پھینکی گئی، تب ان کا کیس سپریم کورٹ آف پاکستان میں چل رہا تھا۔ تب ایک بیٹی ہاری تھی، اس کے پیچھے اسکے اکلوتے بھائی کی اْمید باقی تھی۔ آج 

بلوچستان ۔۔وقت تھم گیاہے

ماہ رنگ بلوچ
بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں کی مائیں اپنے بیٹیوں کے بجائے بیٹوں کے بڑے ہونے پر غم میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔
اپنے بھائی بہنوں میں، میں سب سے زیادہ خوش قسمت کہلائی جاتی ہوں کیونکہ ان سب سے زیادہ ابو کا پیار پایا تھا، ابو کے قریب ہونے کے سبب ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا چشم دیدہ گواہ میں خود ہوں، آج بھی یاد ہے جب ابو کے اغواء ہونے کے بعد پہلی بار پریس کلب گئے تھے ۔اْس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کچھ لوگ گھور رہے تھے، کچھ ترس کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور کچھ نفرت سے تکتے جا رہے تھے، ہمیں اْس وقت بس اتنا پتا تھا کہ’’ ابو گھر میں نہیں ہیں‘‘اور ہم سے اتنا ہی کہا گیا تھا۔ اتنی زور سے نعرے لگانا کہ وہ لوگ جو تمارے ابو کو لے گئے ہیں وہ مجبور ہوکر اْنہیں چھوڑ دیں۔
لاپتہ گویا ایک لفظ ہے اور اب تو بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کے لئے معمولی بات بن گئی ہے، یہاں آپ کے اپنوں کو آپ کے نظروں کے سامنے لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور جب آپ کو پتا ہو کہ وہ اْسے کہاں لے کر گئے ہیں اور وہاں اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ؟یہاں انسان بے بسی کی ایسی تصویر بن جاتی ہے کہ اس کا اندازہ لگاناشاید ممکن نہیں ۔ 
یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب اس کی کوئی چیز کھو جاتی ہے(یہاں چیزیں نہیں بلکہ زندہ انسان ہی کھو جاتے ہیںتو وہ اس کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہتا ہے ایسے ہی کوششوں میں میرے اور میرے بھائی بہنوں کا بچپن گزرا ہے، نعرے لگانے سے آواز بیٹھ جایا کرتی تھی ہمارے سکول کی چھٹیاں پریس کانفرنس اور احتجاجوں کیلئے ہوا کرتے تھے حتیٰ کہ ایسے ہی کسی احتجاج میں، ہم نے اپنی کتابیں تک جلا دی وہ ہر کوشش جو ہم کر سکتے تھے ہم نے کی مگر بدلے میں انصاف کے بجائے ہمیں اْس انسان کی لاش دی گئی جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز تھا۔
والد کے جانے کا سب سے بڑا اثر میرے بھائی کو ہوا تھا اْسے ہمیشہ اس بات کا ملال تھا کہ وہ ابو کو نہ بچا سکا جب ایلم(بھائیکے سامنے اْسے اٹھا کر لے گئے تو اْنہیں گھسیٹا جا رہا تھا۔اس دوران ابو کی گھڑی وہاں گر گئی تھی ایلم اکثر یہی کہتا تھا کہ اس گھڑی کی طرح اس کا وقت بھی رک گیاہے،۔
ہم نے اْسے سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی مگر اسے 13 سال کی عمر میں جو درد ملا تھا وہ کبھی بھر نہ سکا ۔آج ایلم کے درد کو محسوس کر رہی ہوں، جب آپ کے سامنے آپ کے عزیز کو کوئی لاپتہ کر دے اور آپ کچھ نہ کر سکیں تو یہ کرب آپ کو جینے دے نہیں سکتا ،وقت گزرتا گیا اور جب ہم پانچ بہنیں والد کے شکل کو دیکھنے کے لئے ترس جایا کرتی تھیں تو اپنے اکلوتا بھائی کو دیکھا کرتے تھے وہ ایک اْمید تھا ایسے جیسے 
لوٹنے والے نے پیچھے کچھ چھوڑ دیا ہو۔
یہ ایک الگ بات ہے کہ لاپتہ افراد کے خاندان کا غم کبھی ختم ہو نہیں پاتا حتیٰ کے ان کی لاشیں بھی مل جاتی ہیں مگر وہ رہتے لاپتہ ہی ہیں ،تب بھی دنیا کے لئے تو سال ہو چکے ہیں ابو کے اس قید سے رہائی کو مگر میرے لیے جیسے آج بھی وہ قید میں ہیں، آج بھی راتوں کو ان کی چیخوں کی آواز سن کر اٹھ جایا کرتی ہوں، آج کل خوابوں میں ابو نہیں آتے، ان کی جگہ بھائی نے لے لی ہے، لاپتہ ابو کے بھائی کو بھی لاپتہ کر دیا گیا۔
پندرہ دسمبر 2017 کی رات جب وہ گھسیٹ کر میرے بھائی کو لے جا رہے تھے۔ اسکی وہ آنکھیں جو ہماری اْمید کا ذریعہ ہیں پرنم سی تھیں، اسے پتا لگ چْکا تھا کہ جو اس کے باپ کے ساتھ کیا گیا تھا وہی سب کچھ اس کے ساتھ ہونے والا ہے یہ کہنا کہ وہ بے قصور ہیں شاید غلط ہوگا کیونکہ بلوچ ہونا ہی سب سے بڑا قصور ہے جس کی قیمت ہر بلوچ کو ادا کرنی پڑتی ہے۔
دنیاکے ہر کونے میں جب بیٹیاں بڑی ہوتی ہیں تو ماں باپ کے لئے پریشانی کا سبب بنتی ہیں مگر بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں مائیں اپنے بیٹوں کے بڑے ہونے پر غم میں مبتلا ہو جاتی ہیں گویا اپنے لختِ جگر کو سالوں اپنے خون میں سینچ کر تیار کر دیا کہ کل کوئی اس کے سامنے اْسے گھسیٹ کر لے جائیں۔
ایلم کے اغواء ہونے کے بعد سب نے یہی کہا تھا کہ اتنا لمبا اتنظار کیوں آپ لوگ کیوں کوئی پریس کانفرنس نہیں کرتے، ہم یہ سب کچھ پہلے کر چکے تھے ،لاپتہ ایلم کے لاپتہ باپ کی لاش جب پھینکی گئی، تب ان کا کیس سپریم کورٹ آف پاکستان میں چل رہا تھا۔ تب ایک بیٹی ہاری تھی، اس کے پیچھے اسکے اکلوتے بھائی کی اْمید باقی تھی۔ آج 

воскресенье, 18 марта 2018 г.


متحدہ بلوچ قومی سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت : رحیم بلوچ ایڈوکیٹ 


’’اتحاد کی راہ ہموار کرنے کیلئے سب سے پہلے آزادی پسند تنظیموں اورحلقوں سے جڑے رہنماؤں،ان کے قریبی دوستوں اوردانشوروں کواپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لاناہوگا۔اختلاف رائے کو اختلاف رائے کے طورپر دیکھناہوگا۔مخالف رائے کا مقابلہ زور اور خاطرسے نہیں بلکہ دلیل و منطق سے کرنے کا چلن اپناناہوگا۔ ‘‘
انیس سو اسی اور انیس سو نوے کے دہائیوں کی طویل خاموشی کے بعد نئی صدی اور نئے ہزاریہ کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی بلوچ قومی آزادی کی خواہاں قوتیں ایک مرتبہ پھر قومی آزادی کی حصول کیلئے سرگرم ہوگئیں۔ قومی آزادی کی جدوجہد کا تجدید نو زیر زمین مسلح کارروائیوں کی صورت میں ہوا۔ البتہ ماضی کے برعکس اب کی بار ان کارروائیوں کا آغاز تنظیمی پلیٹ فارم سے ہوا۔ زیر زمین مسلح تنظیموں کے طورپر بی ایل اے اور بی ایل ایف کے نام سامنے آگئے اور آج کے دن سات مسلح تنظیمیں بلوچ قومی تحریک آزادی کے حوالے سے سرگرم عمل ہیں۔
ان تنظیموں میں تنظیمی اداروں کی کیاصورت ہے؟پالیسی سازی میں تنظیمی اداروں،شخصی و قبائلی اثرات وعوامل کا کردار کیاہے؟ یہ اور اس طرح کے دیگر مسائل ہمارا موضوع بحث نہیں ہیں کیونکہ ان موضوعات پر مختلف آراء پایا جاتا ہے اور نصف درجن تنظیموں کا وجود بذات خود اختلافات کا ثبوت ہے۔ابتدامیں بلوچ قومی تحریک آزادی نے اپنے سرگرمیوں کااحیاء مسلح سرگرمیوں سے کیاجبکہ تحریک کی جمہوری محاذ پراس وقت بھی پاکستانی پارلیمانی سیاست میں یقین رکھنے والے بلوچستان نیشنل موومنٹ حئی گروپ، بی این پی مینگل و عوامی اور جمہوری وطن پارٹی کاغلبہ بدستوربرقرارتھا۔لیکن یہ صورتحال زیادہ دیربرقرار رہ نہیں پایا۔آغاز میں بی ایس او حئی گروپ سے ڈاکٹراللہ نذربلوچ کی قیادت میں بی ایس او آزاد کے نام سے ایک دھڑاالگ ہوکرقومی آزادی کے نعرہ کے ساتھ بلوچ قومی تحریک آزادی کی جمہوری محاذ پر سامنے آیا۔بعدمیں بی ایس اوآزاد اور شہید حمید شاہین کی بی ایس او استارکے انضمام سے بی ایس او متحدہ وجود میں آیا۔اسی دوران بی این ایم حئی اورحاصل بزنجووسردار ثنازہری کی بی این ڈی پی کے انضمام سے اکتوبر2003 میں نیشنل پارٹی وجود میں آیا۔ نیشنل پارٹی کے اعلان کے اگلے روز بی ایس اوکے سابق چیئرمین اور بلوچستان نیشنل موومنٹ حئی گروپ کے سابق مرکزی سینیئرنائب صدر واجہ غلام محمد بلوچ نے بی این ایم کوبرقراررکھنے اور جدوجہدآزادی سے جْڑے رہنے کا علم بلند کیا۔ شہید نواب محمداکبرخان بگٹی کی شہادت کے بعداس کی جمہوری وطن پارٹی اس کے ورثا میں تقسیم ہوئی اورآزادی پسنددھڑا میربراہمدغ بگٹی کی قیادت میں بلوچ ریپبلکن پارٹی کے نام سے سامنے آیا۔
مسلح محاذ پر بی آر اے اور لشکر بلوچستان کا اضافہ ہوا۔ پھر بی ایل اے کے اندرونی دھڑہ بندی کے نتیجے میں یو بی اے بن گیا۔ پھر بلوچ ریپبلکن گارڈ کااضافہ ہو۔اورحال ہی میں ایک مرتبہ پھربی ایل اے دو دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔ اس طرح اب نصف درجن سے زائد بلوچ مسلح تنظیمیں پاکستان کیخلاف مقبوضہ بلوچستان کی آزادی کیلئے برسرپیکار ہیں۔ نئی آزادی پسندتنظیموں کا وجود میں آناایک طرف اس بات کااظہارہے کہ بلوچ معاشرے میں قومی آزادی کی ضرورت کااحساس پھیل رہاہے جوکہ ایک اچھی علامت ہے مگرقومی آزادی کیلئے پہلے سے برسرپیکارتنظیموں میں شمولیت کے بجائے نئی تنظیموں کاقیام بلوچ معاشرہ میں موجود تقسیم کامظہرہے۔
اب یہ آزادی پسندقیادت کی صلاحیتوں اور دوراندیشی پرمنحصرہے کہ وہ مشترکہ قومی دشمن کیخلاف بلوچ قومی قوت کو کیسے ایک مشترکہ محاذ کی صورت میں متحد کرتے ہیں۔ اس بات کااحساس تحریک آزادی سے جْڑی سب تنظیموں کوتقریباََ ہے۔ اسلئے اتحاد کی کوششوں میں تیزی نظرآرہا ہے۔30 اکتوبر 2017 کو بی ایل ایف اور بی ایل ایک ایک دھڑے نے اتحاد اور اشتراک عمل کااعلان کیا۔پھر 24 فروری 2018 کو یو بی اے، بی آراے اور لشکر بلوچستان نے اتحاد کااعلان کردیا۔ تاہم بی ایل اے کا ایک دھڑہ اور بی آرجی اب تک دونوں اتحادوں سے باہرہیں۔ چونکہ یہ زیرزمین تنظیمیں ہیں اسلئے ان اتحادوں کی تنظیمی ساخت اور ادارہ جاتی استحکام کے بار ے میں وثوق سے تو کچھ نہیں کہہ سکتے پھربھی ان پیشرفتوں کومثبت نظرسے دیکھناچاہیے۔ اگریہ اتحادقومی تقاضوں کی تکمیل کیلئے شعوری کوششوں کی پیداوارہیں تولازمی طورپراتحادوں میں شامل تنظیموں کے درمیان اختلافات اور بدگمانیوں کاخلیج بتدریج کم سے کم اوراعتماد کادائرہ وسیع تر ہوتاجائیگا۔اگر یہ اتحاد محض قوم اور کارکنوں کے دباؤکوکم کرنے کیلئے یاکسی اورسبب سے جودمیں لائے گئے ہیں پھر توزیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جانی چاہیءں۔ تاہم بظاہریہ ایک مثبت پیشرفت ہے۔ اسے مثبت ہی لیناچاہیے۔ ایک اورمثبت پیشرفت یو بی اے اوربی ایل اے کے ایک دھڑہ کے درمیان جنگ بندی کااعلان ہے ۔جنگ بندی کے اس فیصلے کااعلان دونوں تنظیموں کے ترجمانوں نے 4 مارچ 2018 کو کردیاہے۔ اب امیدکیاجاناچاہئے کہ بی ایل اے کا دوسرا دھڑا بھی یوبی اے کیساتھ اسی طرح کی جنگ بندی کاکوئی فیصلہ کرلے۔
ویسے دیکھاجائے توآزادی پسندبلوچ مسلح تنظیموں کے کارکنوں اور نچلی سطح کے کمانڈروں کے درمیان باہمی تعاون اوربعض اوقات دشمن کیخلاف مشترکہ کارروائیوں کی خبریں آتی رہی ہیں اورکئی بار ان کے مرکزی ترجمان ایسی مشترکہ کارروائیوں کی تردیدکرکے ایسے غیررسمی اشتراک کی حوصلہ شکنی بھی کرتے رہے ہیں۔ اب اتحادکی صورت میں کارکنوں اورنچلی سطح کے کمانڈروں کے درمیان غیررسمی اشتراک عمل کورسمی قبولیت مل گئی ہے لیکن بلوچ قومی تحریک آزادی کوجس اتحاد اور اشتراک عمل کی اشد ضرورت ہے ،وہ ہے جمہوری و سفارتی محاذ پرایک متحدہ بلوچ قومی سیاسی پلیٹ فارم کی تشکیل۔
بیشک مسلح تنظیموں کے مابین اتحاداوراشتراک عمل اچھی بات ہے مگراس سے عالمی سطح پربلوچ تحریک آزادی کواتنی مہمیزنہیں ملے گی جتنی کہ سرفیس سیاست میں اتحاد و اشتراک سے مل سکتی ہے کیونکہ ایک تو مسلح تنظیموں کوعالمی سطح پر اب تک کسی ملک یاعالمی ادارے نے بلوچ نمائندگی کے حوالے سے تسلیم نہیں کیاہے۔ دوسری بات یہ کہ مسلح تنظیموں کی قیادت بھی خفیہ رہ کرکام کررہے ہیں۔ نصف درجن سے زائدبلوچ مسلح تنظیموں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی قیادت کااعلان نہیں کیاہے۔ حالیہ اتحادوں نے بھی اپنے لئے کسی قائد کااعلان نہیں کیاہے۔ مسلح تنظیموں کے اشتراک عمل سے جنگ، سرمچاروں کی مورال اور کارکردگی پر ضرور مثبت اثرپڑے گامگررازداری اور خفیہ رہنے کے تقاضوں کے باعث اشتراک عمل اور باہمی تعاون کے دائرے کو محدود رکھناپڑیگا۔ویسے بھی خاطرخواہ عالمی حمایت وتوجہ، جنگی وسائل کی کمی اور بے لگام ریاستی دہشتگردی اورجبروتشددکے باوجودبلوچ تحریک آزادی کامسلح محاذپاکستانی فوج،خفیہ اداروں،ان کے کر ایہ کے قاتل نجی وفرقہ وارانہ لشکروں کابڑی کامیابی کیساتھ نہ صرف مقابلہ کرتا آرہاہے بلکہ ان پراپنا دباؤ بنائے رکھنے میں بھی کامیاب نظرآرہاہے۔ البتہ پاکستان کی بے لگام ریاستی دہشتگردی اورجبر و تشدد نے بلوچ تحریک آزادی کے جمہوری بازوکوکسی حدتک کمزوراورمحدودکردیا ہے۔
بی این ایف بناکر شہید واجہ غلام محمد بلوچ نے بلوچ تحریک آزادی کے جمہوری بازوکوبڑی حد تک سرگرم،متحداور منظم کیاتھامگر ان کی شہادت کے بعد بی این ایف کو مزیدمضبوط اورمنظم کرنے کے بجائے اتحادمیں شامل دوستوں نے پارٹی و گروہی مفادات کیلئے بی این ایف کاشیرازہ بکھیردیا۔پہلے تو بیرون ملک مقیم ایک دوست نے کہاتھاکہ بی این ایف اسے بیرون ملک اپناسفیر یانمائند ہ مقرر کرنے کا اعلان کرے جبکہ وہ دوست خودنہ بی این ایف میں شامل کسی تنظیم کا ممبر و نمائندہ اور نہ بی این ایف کے کسی ادارے کا پابند تھا۔اسلئے بی این ایف میں کسی ایسے شخص کواپناسفیر یانمائندہ قرار دینے پر اتفاق نہیں ہوسکاجواس کے کسی ادارے کارکن اورجوابدہ نہیں ہو۔بی این ایف کا اس بارے میں فیصلہ معقول اور منطقی تھامگراس کے فیصلہ پرمذکورہ دوست کا جو ردعمل سامنے آیا وہ منفی تھا۔اس نے ردعمل میں اپنے زیراثرکچھ چھوٹے گروہوں کو بی این ایف سے الگ کردیا۔پھرایک اوردوست نے تنہاپرواز اورایک پاکستانی پارلیمانی پارٹی سے قربت کے چکرمیں بلا کسی عذر اور معقول جواز کے بی این ایف سے علیٰحدگی اختیار کرلی۔ اس طرح بلوچ تحریک آزادی کاکمزور جمہوری بازو مزید کمزور پڑگیا۔
غالباََ 2016 میں بی این ایم کے چیئرمین واجہ خلیل بلوچ اور بی آر پی کے صدرمیر براہمدغ بگٹی نے آپسی روابط کوبحال کرنے اوراتحاد واشتراک عمل کیلئے مذاکرات کی نویدسنائی مگر تاحال وہ روابط اور مذاکرات بارآور نہیں ہوسکے۔ گذشتہ برس 18 نومبر2017 کو اتحاد کیلئے سوئزرلینڈمیں بلوچ رہنماؤں کاایک اجلاس ہونا تھامگر پاکستان وچین کی مداخلت پرسوئس حکام نے اجلاس نہ ہونے دیا۔ اجلاس تو نہ ہوسکا تاہم کافی عرصہ بعد اسی تاریخ کو بی آر پی کے صدرمیربراہمدغ بگٹی اورفری بلوچستان موومنٹ کے ایک وفد کے درمیان ملاقات ہوئی مگر تاحال ان کے درمیان بھی اتحاد کیلئے کوئی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آرہاہے۔
جس طرح مسلح آزادی پسند بلوچ تنظیموں نے اشتراک عمل کااعلان کیاہے۔ اسی طرح بلوچ تحریک آزادی کی جمہوری بازوسے جْڑی پارٹیوں اورتنظیموں کوبھی چاہئے کہ وہ عملی پیشرفت کرکے ایک اتحادتشکیل دیں تاکہ اشتراک عمل کی راہ ہموار ہوسکے۔ ایک مشترکہ قومی سیاسی پلیٹ فارم تشکیل دینے سے نہ صرف بلوچستان کے اندربلوچ تحریک آزادی کاجمہوری بازومتحرک،منظم اورتواناہوگابلکہ سفارتی محاذ پر بھی اس کے کافی مثبت اثرات پڑینگے کیونکہ بلوچ تارکین وطن کی تعداد ایک تو بہت کم ہے پھر وہ بھی مختلف پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے کوئی بھی پارٹی بیرون ملک ایسی کوئی منظم و موثر سرگرمی سرانجام نہیں دے سکتا،جو عالمی میڈیا،رائے عامہ، اداروں اورقوتوں کی توجہ،ہمدردی اورحمایت حاصل کرسکے۔ ایک مشترکہ قومی پلیٹ فارم یقینی طورپراس قابل ہوسکے گاکہ عالمی اداروں اورقوتوں تک بلوچ قومی آوازکوموثرطورپرپہنچاکر ان کی توجہ، ہمدردی اورحمایت حاصل کرسکے۔ بیشک اتحادوں کی سیاست ایک حساس اور نازک عمل ہے جو بْردباری،دوراندیشی اور ذہنی پختگی کامتقاضی ہے۔ اتحاد کو متحد،منظم، توانااورمقاصدکے حصول تک برقراررکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے اغراض و مقاصدایک منشورکی صورت میں واضح ہوں۔ اس کاایک باقاعدہ تنظیمی ڈھانچہ،کام کرنے کے صول وضوابط ہوں۔اس کی ایک پالیسی سازکونسل ہو جوطے شدہ اصول وضوابط کے تحت حکمت عملی تشکیل دینے، عہدیداروں کا انتخاب و جوابدہی اوران کے سرگرمیوں کی نگرانی کرے۔
سترہ سال کوئی چھوٹا عرصہ نہیں ہے کہ بلوچ عوام گذشتہ سترہ سال سے بدترین ریاستی دہشتگردی کامقابلہ بے پناہ اورانتھک قربانیاں دے کر کررہے ہیں۔ بلوچ آزادی پسندقیادت کو چاہیے کہ وہ روایتی شخصی قیادت و فیصلہ سازی کی راہ اور رجحان کو ترک کرکے ٹھنڈے دل ودماغ سے گزشتہ سترہ سال کی کارکردگی،مشکلات ومواقع، کامیابیوں اور ناکامیوں کاجائزہ لیکرایک متحدہ قومی سیاسی پلیٹ فارم اور متفقہ لائحہ عمل تشکیل دیں تاکہ قومی آزادی کے منزل کی جانب زیادہ تیزی سے آگے قدم بڑھایاجائے۔
اتحاد کی راہ ہموار کرنے کیلئے سب سے پہلے آزادی پسند تنظیموں اورحلقوں سے جڑے رہنماؤں،ان کے قریبی دوستوں اوردانشوروں کواپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لاناہوگا۔اختلاف رائے کو اختلاف رائے کے طورپر دیکھناہوگا۔مخالف رائے کا مقابلہ زور اور خاطرسے نہیں بلکہ دلیل و منطق سے کرنے کا چلن اپناناہوگا۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران اختلافات کااظہارجن الفاظ، زبان وبیان میں کیاجاتا رہاوہ بلوچ قومی اقدار اور شائستگی کے بالکل برعکس پاکستانی سیاسی کلچر کے بدنما رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ گوکہ 2015 کے بعد ناشائستہ زبان کے استعمال میں کمی محسوس کی گئی مگر بی ایل اے کی حالیہ بحران کے بعد کچھ لوگ دوبارہ سوشل میڈیا میں اسی طرح کا ناشائستہ زبان استعمال کرنے لگے ہیں جو اتحاد کی کوششوں اور امکانات پرمنفی اثرڈال سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بزرگ آزادی پسند رہنما واجہ واحد کمبر نے اپنے تجربات قلمبند کئے تواس پرایک دانشور نے سوشل میڈیامیں ایک کالم لکھاجس کاعنوان تھا ’’بولاتومعلوم ہواکہ گونگانہیں جھوٹاہے‘‘۔ عنوان سے اندازہ ہوتاہے کہ مندرجات میں کس قسم کی زبان وبیان سے کام لیاگیاہوگا۔ واجہ واحد کمبر کی رائے سے اختلاف رکھنے کاحق ہرکسی کو ہے مگر اس کااظہار کرنے میں بلوچی اقدار اورشائستگی کو پائمال نہیں کیاجانا چاہیے۔ بدزبانی و بداخلاقی اورمنفی روئے صرف نقصان ہی دے سکتے ہیں۔ پاکستان کی نوآبادیاتی قبضہ کیخلاف جدوجہدکے علمبرداروں کو پہلے اس کی منفی سیاسی کلچرسے خودکوآزادکرناہوگا۔
تاریخ
5۔3۔2018
https://dailysangar.com/home/page/10057.html