Powered By Blogger

пятница, 30 марта 2018 г.


ستائیس مارچ ، حقائق و شوائد اوربراہمدغ بگٹی کا غیر متوازن موقف -- سنگر خصوصی رپورٹ

براہمدغ بگٹی کی سیاسی موقف میں ہمیشہ ایک تضاد یا ابہام موجودرہا ہے ۔ سیاسی موقف میں دانستہ ابہام پیدا کرنے کی سبب براہمدغ بگٹی کی شخصیت بھی متنازعہ ہوتا جارہا ہے ۔ بلوچ نیشنل فرنٹ بلوچ قومی تحریک میں ایک پر اثر سیاسی اتحاد کی صورت میں موجود تھا لیکن بی آر پی نے بغیر کسی واضح موقف یا دلیل کے برعکس اختر مینگل کے خلاف بیان کو جواز بنا کر بی این ایف سے علیحدگی اختیار کرلی آج تک بی این ایف سے علیحدگی کے حوالے سے بی آر پی کی جانب سے کوئی بھی واضح موقف سامنے نہیں لایا گیا واضح موقف پیش نہ کرنے کے سبب بی این ایف جیسے اتحاد سے علیحدگی بلوچ سیاسی طاقت کو کمزور کرنے کی دانستہ کوشش تھی۔ بی این ایف سے علیحدگی کے بعد بی آر پی کی بلوچ پارٹی و تنظیموں سے دوری پیدا ہوتے رہے اور مسائل بھی جنم لیتے رہے ۔ اگر ہم اس دورانیہ کے چیدہ چیدہ معاملات کو بحث کرتے رہے ،شاہد ایک طویل بحث بن جائے لیکن ہماری مقصد اہم اور بڑے موضوع پر بحث کرنا ہے ۔ بلوچستان میں سی پیک جیسے استحصالی میگا پروجیکٹس کے ابتداء کے بعد بلوچستان کے سیاسی حالات میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں پیدا ہوتے رہے اور اس کے ساتھ پاکستان نے اس منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے بلوچ نسل کشی کی پالیسی میں شدت کے ساتھ اضافہ کیا ۔
اس دوران بلوچ آزادی پسند سیاسی قیادت نے سی پیک کے خلاف واضح موقف سامنے لایا اور بلوچ مزاحمتی قوتوں نے سی پیک پر متعدد کامیاب حملے بھی کیئے۔ اس دوران 2015ء کے آخر میں براہمدغ بگٹی بی بی سی اردو کے ساتھ انٹریو میں واضح طور پاکستان کے ساتھ بات چیت کیلئے رضامندی کا اظہار کرتا ہے ۔براہمدغ بگٹی کی اس انٹرویو نے بلوچ تحریک میں شدید خدشات جنم دیے ، براہمدغ بگٹی کی سیاسی کردار مکمل نہ سہی مگر بڑی حد مشکوک ہوگئی ۔براہمدغ بگٹی اپنے اس موقف کے حوالے سے بلوچ عوام کو مطمئن نہیں کرسکے ۔اس دوران بلوچستان کی سب سے بڑی آزادی پسند پارٹی بلوچ نیشنل موومنٹ نے واضح اور مددلل موقف اپناتے ہوئے پاکستان سے بغیر آزادی کے یک نکاتی ایجنڈہ اورکسی عالمی ثالث کے بات چیت کے تمام امکانات کو مکمل رد کردیا ۔ بلوچ قومی تحریک میں بلوچ نیشنل موومنٹ کی واضح موقف نے بلوچ تحریک میں ابہام پیدا کرنے کی تمام کوششوں کو مسترد کردیا ۔ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کہتے ہیں براہمدغ بگٹی کی پاکستان کی ساتھ بات چیت کے لیے آمادگی ماضی کی طرح بلوچ تحریک کو ناکامی کی دلدل میں دھکیلنے کی کوشش تھی لیکن بلوچ نیشنل موومنٹ جیسی قوتوں کے سبب یہ کوشش بہر آور ثابت نہیں ہوئی۔ لیکن ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی براہمدغ بگٹی نے ہمیشہ کی طرح پیٹرن بدلتے ہوئے اپنے پیش کردہ موقف سے انحراف کیا ۔ گذشتہ مہینے فنانشل ٹائمز جیسے مستند رسالے میں سی پیک کے حوالے سے رپورٹ شائع ہوئی جس میں واضح طور پر کہا گہا کہ چین سی پیک کے کامیابی کے لیے آزادی پسند قبائلی رہنماوں سے براہ راست رابطے میں ہے ۔ اس رپورٹ نے بلوچ تحریک کے حوالے سے عالمی سطح پر بہت سے خدشات پیدا کیے لیکن ایک دفعہ پھر بلوچ نیشنل موومنٹ ، بی ایس او آزاد،، ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ ، بی ایل اے کے سینئر کمانڈراستاد اسلم بلوچ نے چائنا کے ساتھ رابطے کی سختی کے ساتھ تردید کیا لیکن بلوچ تحریک میں نئے موڈ نے اس وقت جنم لیا جب براہمدغ بگٹی نے اس رپورٹ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ چائنا سے مخاطب کرتے ہوئے بلوچ قیادت کواعتماد میں لیے بغیر یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا ۔ براہمدغ کی اس موقف نے فنانشل ٹائم کی رپورٹ کی مکمل تائید کی ’’قبائلی آزادی پسندوں کی چائنا کے ساتھ گٹھ جوڑ ‘‘یقیناًیہ گٹھ جوڑ بلوچ عوام کی منشاء و مرضی کی مکمل خلاف ہے۔ لیکن اس گٹھ جوڑ میں موجود خدشات پوری آب و تاب کے ساتھ تحریک کے اندر گردش کررہے ہیں لیکن گردش کسی بھی صورت تحریک میں خوف کی فضاء قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا اس کی سبب بلوچ نیشنل موومنٹ جیسی واضح موقف رکھنے والی پارٹی بلوچ قومی تحریک میں انتہائی مضبوط پوزیشن رکھتا ہے۔ غیر متوازن موقف آتے رہے ،ان کی پوزیشن واضح ہوتارہا ،ان معاملات کے ذکر اپنی جگہ موجود تھا کہ 27مارچ جیسی سیاہ دن آگئی بلوچ پارٹی و تنظیموں کی جانب سے حسب روایات بھر پور قوت کے ساتھ بین القوامی سطح پر اس دن کو منایا گیااور دن بھر یوم قبضے کے حوالے سے آگاہی دی گئی لیکن بلوچ ستر سالہ سیاسی تاریخ میں ایک نئی سیاسی موقف سامنے آئی جس میں قابض پاکستان کی موقف کی بھر پور تائید کی گئی۔
ہوا یوں کہ براہمدغ بگٹی حسب توقع اپنے غیر متوازن موقف کے ساتھ سامنے آگئے ستائیس مارچ کو بلوچستان پر نہیں صرف قلات پر قبضہ قرار دیا ، براہمدغ بگٹی کے اس موقف نے پوری بلوچ سماج کو ایک عجیب کشمکش میں مبتلا کردیا ۔براہمدغ کے سابقہ تمام غیر متوازن موقف کے برعکس ستائیس مارچ یوم قبضہ بلوچستان سے دستبرداری کاواضح عندیہ معلوم ہوتاہے ،براہمدغ بگٹی کے موقف کے خلاف سب سے پہلے بی این ایم کے چیئرمین خلیل بلوچ کا سماجی راطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ردعمل سامنے آگیا جس میں چیئرمین خلیل بلوچ نے کہاکہ ’’ گزشتہ 70 سال میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک بلوچ قوم پرست بلوچستان پر پاکستانی قبضے سے انکار کر رہا ہے۔ یہ شہید اکبر بْگٹی کی جدوجہد کو شرمندہ کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
ٹویٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے ایک تفصیلی بیان بھی میڈیاکو جاری کیا جس میں تاریخی تناظر میں بات کئی گئی ہے ۔
جبکہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے ایک ٹویٹ میں براہمدغ سے اپیل کرتے کہاکہ’’انسانی غلطی کودرست کرتے ہوئے اپنا متنازعہ ٹویٹ کی تصحیح کریں اور ایک اناپرست آدمی کے بجائے وسیع النظر سیاستدان بنیں اور تسلیم شدہ بلوچ سیاسی نصاب کو قبول کریں ‘‘ اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر اللہ نذربلوچ نے کہاکہ ’’میں سیاسی کارکنوں سے بھی اپیل کرتاہوں کہ وہ اس معاملے کو ذاتیات کے بجائے اکیڈمک طورپر حل کریں ‘‘
اب یہاں تاریخی حقائق کاایک مختصرجائزہ پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین کے لئے براہمدغ بگٹی کا موقف اور تاریخی حقائق کا تقابل کرکے نتیجہ اخذ کرنا نا آسان ہو ۔
انیسویں صدی کے اوائل میں برطانوی سامراج کا بلوچستان میں عمل دخل شروع ہوا ۔ بلوچ عوام کی مسلح جدوجہد آزادی کودبانے میں ناکامی کے بعد برطانوی حکومت نے سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے ذریعہ اس خطہ کو انتظامی وحدت سے محروم کرنے کا فیصلہ کیا جس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی ہوئی یوں سر زمین بلوچستان کو متعدد سیاسی آئینی حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ کچھ حصے ایرانی و افغانی شاہوں کو دیئے گئے تاکہ ان کی وفاداریوں کو تاج برطانیہ کے ساتھ پختہ کیا جاسکے۔ مشرقی بلوچستان کو مزید حصوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ بلوچ اتحاد اور ان کی سیاسی مزاحمت کو کچلا جاسکے۔
۱۔ ریاست قلات:
درحقیقت یہی مرکزی بلوچستان ہے جہاں دارلسلطنت قلات تھا۔ اس ریاست میں آئینی طور مندرجہ ذیل علاقہ جات تھے۔ قلات ،خاران، مکران،نوشکی، چاغی، مری،بگٹی وکھیتران قبائلی علاقہ جات، نیابت کوئٹہ و بولان اور کوہ سیلمان میں واقع بلوچ قبائلی علاقے اس ریاست کا حکمران خان قلات ہوا کرتا تھا۔
۲۔ برطانوی بلوچستان:
یہ چمن، ژوب، لورالائی ، دُکی اور دیگر پشتون قبائل علاقوں پر مشتمل تھا۔ یہ اضلاع برطانیہ نے معاہدہ گنڈمک کے تحت افغان حکمرانوں سے حاصل کیے اور یوں یہ اضلاع برطانوی ہند کا آئینی حصہ بن گئے(یاد رہے کہ ریاست قلات آئینی طور پر برطانوی ہند کا حصہ نہ تھی اوائل بیسویں صدی میں اصطلاح’’بلوچستان‘‘ کا اطلاق صرف برطانوی ہند کے صوبہ ’’برطانوی بلوچستان‘‘ پر ہوتا تھا۔ اس برطانوی بلوچستان میں متعدد بلوچ علاقوں کو ریاست قلات سے معاہدات کے تحت اجارہ پر حاصل کرکے برطانوی بلوچستان کی انتظامیہ کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ ان علاقوں میں بلوچ قبائل علاقہ جات ، کوئٹہ، نوشکی،چاغی، بولان اور نصیر آباد کے علاقے شمار ہوتے تھے مگر آئینی طو ر یہ قلات کا حصہ شمار ہوتے تھے۔ یوں برطانوی سیاسی و انتظامی اصطلاح میں’’بلوچستان‘‘ سے صرف برطانوی بلوچستان مراد لیا جاتا تھا۔برطانیہ کی انخلاء کے بعد یہ تمام معاہدات کے آئینی حیثیت ختم ہوگئی تھی یہ تمام علاقے بلوچ وحدت یاریاست قلات کے حصے بن گئے۔
برطانوی عمل دخل کے نقصانات
*: ڈیرہ غازی خان کے بلوچوں کو بلوچستان سے کاٹ کر براہ راست پنجاب کے ساتھ ملادیا اور ساتھ ہی علاقہ افغانستان کے چند اضلاع ژوب، لورالائی، پشین، چمن اوربلوچستان کے علاقہ سبی کو کاٹ کر ایک علیحدہ صوبہ بنایا ۔
*: قبائل مری و بگٹی کے علاقہ کے نظام کو اپنے ہاتھ میں لے کر کچھ عرصہ بعد ان کے تعلقات کو بلوچ حکومت سے قطع کردیا۔
*: درہ بولان سے سنگ اور محصول کو جس سے سالانہ لاکھوں روپے کی آمدنی تھی ایک قلیل رقم کے عوض اجارہ پر لے کر تجارتی آزادی کو ہمیشہ کے لئے سلب کرلیا۔
*: کوئٹہ، نوشکی اور نصیر آباد کو اجارہ کے بہانے سے ہماری بلوچی حکومت سے کاٹ کر اپنے زیر اقتدار کرلیا۔
*: قبائلی علاقہ جات سراوان جھلاوان، مکران، چاغی، کچھی، خاران اور لس بیلہ کو ایک پولیٹکل ایجنٹ کے ذریعے اپنی نگرانی میں رکھا جس سے اس کا مدعا بلوچ حکومت کے اختیارات کو سلب کرنا اور بلوچی اتحاد کو توڑنا اور ختم کرنا تھا۔
بلوچستان کی آزادی
11؍ اگست1947 ؁ء میں برطانوی اقتدار کے خاتمے کے بعد بلوچستان ایک آزاد اور خودمختار ریاست بنا۔ 15 اگست 1947 ؁ء کو خان میر احمد یار خان نے ایک عوامی اجتماع میں آزادی کا اعلان کیا۔
آئین:
اسی مہینے خان کی جانب سے ایک شاہی فرمان کے ذریعے ایک مروّجہ ریاستی آئین کا نفاذ کیا گیا۔
وزراء کی کونسل:
یہ ایک وزیرِ اعظم اور اس کے کابینہ کے ارکان پر مشتمل تھا ۔ان کی تعینّاتی خان کے ذریعے ہوتی تھی ۔ کونسل کا کام معزّز خان کو ریاستی امور کے چلانے میں مشورہ اور مدد فراہم کرنا تھا۔ خان کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی بھی فرد کو کونسل کا رکن منتخب کرے جن میں غیر ملکی شہری بھی شامل تھے مثال کے طور پر وزیر اعظم نوابزادہ محمد اسلم اور وزیر خارجہ ڈی وائی فیل دونوں غیر ملکی تھے اور ان کا تعلق بالترتیب پاکستان اور برطانیہ سے تھا ۔ خان کے یہ وسیع تر اختیارات بلوچ قوم کے لئے فائدہ مند نہیں تھے کیونکہ وزیر اعظم محمد اسلم اپنے دورِ حکومت میں پاکستانی مفادات کیلئے کام کرتے رہے اور بلوچ قوم اور خان سے دغابازی کے مرتکب ہوئے۔
مجلسِ قانون ساز:
مرتب شدہ آئین دو قانون ساز اداروں پر مشتمل تھا۔
(الف) دارالامراء جو ایوانِ بالا کہلاتا تھا اور قبائلی سرداروں پر مشتمل تھا۔
(ب) دارالعوام جو کہ ایوانِ زیریں کہلاتا تھا۔
ایوان بالا میں جھالاوان اور ساراوان صوبوں کے موروثی سردار موجود تھے جبکہ اس میں شامل چھیالیس ارکان میں سے دس کا انتخاب خان کے ذریعے ہوتا تھا۔ مزید براں ان دس میں سے آٹھ کا انتخاب ایوان زیریں اور وزراء کی کونسل سے جبکہ باقی دو کا انتخاب اقلیتوں مثلاً ہندوؤں سے ہوتا تھا ۔
ایوان زیریں ،جو کہ 55 اراکین پر مشتمل تھا ،کے پچاس ارکان کا انتخاب بذریعہ چناؤ ہوتا تھا جبکہ پانچ کا تقرر خان اپنی صوابدید سے کرتا تھا ۔ ایوان زیریں کا سربراہ بھی وزیر اعظم ہوتا تھا
پارلیمان کا چناؤ:
آئین کے نافذ العمل ہوتے ہی بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریاستِ قلات میں انتخابات منعقد ہوئے ۔ قلات نیشنل پارٹی نے ایوان کے کل اکیاون میں سے اُنتالیس نشستیں جیت لیں ۔ باقی نشستیں ان آزاد امیدواروں نے حاصل کیے جو قلات نیشنل پارٹی کے حامی تھے ۔ انتخابات کا انعقاد پذیر ہونا بلوچستان کی اُن جمہوری قوتوں کا فتح تھا جو1920 سے جمہوریت اور ایک خود مختار عظیم تر بلوچستان کیلئے کوشاں تھے۔
بلوچ۔ پاکستان تعلقات:
ستمبر1947 ؁ء میں وزیراعظم نوابزادہ محمد اسلم اور وزیر خارجہ ڈی وائی فیل(DYFell) نے کراچی کا دورہ کیا تاکہ 1947 ؁ء کے قلات ۔پاکستان معائدہ پر بحث کی جائے جس کے تحت بعض علاقے پاکستان کو لیز پر دیئے گئے تھے۔لیکن دونوں ریاستوں کے درمیان ان اجلاس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا کیونکہ پاکستانی حکومت قلات کی پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کرانے کی پالیسی پر بضد تھی ۔
20 ستمبر 1947 ؁ء کو پاکستان کے خارجہ سیکریٹری اکرام اﷲ نے ریاست قلات کے وزیر اعظم محمد اسلم کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے مذاکرات کے بجائے ریاست قلات کی پاکستان کے ساتھ الحاق پر اصرار کیا ۔
جناح کی دعوت پر خان ایک ایسا مرتب کردہ معاہدہ اپنے ساتھ لے کر پاکستان گئے جسے وہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دوران بطورِ دستاویز استعمال کرنا چاہتے تھے ۔ اس معاہدے کے تحت قلات کی پاکستان کیساتھ تعلقات کی حدبندی کی گئی تھی ۔ مجوزہ معاہدے میں مندرجہ ذیل نکات شامل تھے:
(الف) قلات کو بطور ایک آزاد ریاست کے تسلیم کرنا۔
(ب) بیرونی ملک کی جانب سے حملے کی صورت میں اُس کے خلاف اتحاد کیلئے حتمی اقدام کرنا۔
(ج) دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت اور مسائل کو پُر امن ذرائع سے حل کرنے کیلئے پالیسی کا تعین۔
لیکن جناح نے خان کو تاکید کی کہ وہ قلات کو پاکستان کے اندر ضم کردیں اور یہ کہ وہ الحاق سے کم کسی بھی حل پر تیار نہیں ہوں گے۔
12دسمبر 1947 ؁ء کو خان نے دارالعلوم کا ایک اجلاس بلایا کہ الحاق کے مسئلے پر بات چیت کی جاسکے ۔ ایوان کے قائد غوث بخش بزنجو نے حکومت پاکستان کے غیر دوستانہ رویّے پر تنقید کی اور تنبیہ کیا کہ بلوچ کسی توہین آمیز رویے کو برداشت نہیں کریں گے اور اپنی قومی آزادی کے لئے جان تک قربان کردیں گے۔ایوان کے دوسرے اراکین نے بھی میر بزنجو کے خیالات کی تائید کی ۔ ایوان نے طویل بحث مباحثے کے بعد 14دسمبر 1947 ؁ء کو مندرجہ ذیل قرارداد متفقّہ طور پر منظور کرلی۔
’’ پاکستان کیساتھ الحاق کے بجائے دوستی پر مشتمل ایک ایسا معاہدہ کیا جائے جو کسی بھی دو آزاد و خودمختار ریاستوں کے مابین ہوسکتا ہے‘‘۔
4 جنوری 1948 ؁ء کو الحاق کے معاملے پر غور کرنے کے لئے دارالامراء کا اجلاس ہوا۔ ایوان بالا نے دارالعوام کے فیصلے کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔ ایوان بالا جو کہ سرداروں کی اکثریت( بشمول کیچ مکران کے گچکی سردار حالی خان پر مشتمل تھی ) ۔
11فروری1948 ؁ء کو جناح سبّی آئے جہاں اگلے دن کے شام کو خان اور ان کے درمیان ملاقات ہوئی۔ 13فروری کو قلات کے سرد موسم کے دارالخلافہ ڈھاڈر میں ان کے درمیان دوسری ملاقات ہوئی جبکہ 14فروری کو طے شدہ ایک اوراجلاس خان کے اچانک خرابیِ صحت کی وجہ سے برخاست کی گئی ۔ اپنے غیر متوقع خرابیِ صحت کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا :
’’ جب میں سبّی میں جناح سے دوسری بار ملا تو انہوں نے مجھے بتایاکہ حکومت پاکستان نے کچھ ترامیم اور تبدیلیوں کے بعد الحاق کے متعلق ایک اور دستاویز بنائی ہے لہذا میں اس نئے دستاویز کو دیکھوں ۔ جب میں نے دستاویز پڑھی تو ایک لمحے کے لئے حیران رہ گیا کیونکہ اس میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ؁ء اور آزادی ایکٹ 1947 ؁ء کے حوالاجات (references) موجود تھے ۔ان سے قلات کے تاریخی حیثیت پر اثر پڑ تا تھااوراصلی معاہدے میں یہ چیزیں شامل نہیں تھیں۔
خاران، بیلہ اور مکران کا الحاق:
۱۷ مارچ ۱۹۴۸ ؁ء کی رات حکومت پاکستان نے خاران و لسبیلہ اور مکران کے پاکستان کے ساتھ قلات سے جداگانہ الحاق کو منظور کرنے کا اعلان کردیا۔
لسبیلہ اور خاران حکومت قلات کے دو سرداری یا قبائلی علاقے تھے جن کو انگریزی حکومت نے بلوچستان کی طاقت کو کمزور کرنے کی غرض سے قلات سے جدا کرکے براہ راست پولیٹیکل ایجنٹ قلات کی ماتحتی میں دے دیا تھا ۔ لیکن اس کے باوجود رسمی طور پر انہیں قلات کے حصّے اور ماتحت خیال کیا جاتا تھا۔ چنانچہ خوانین قلات کی تاج پوشیوں میں جام لسبیلہ اور سردار خاران برابر شریک ہوتے رہے ہیں۔ خاران کو تو ۱۹۴۲ ؁ء میں انگریزی حکومت نے ایک برائے نام ریاست کی صورت دے دی۔اس سے قبل خاران قلات کے ’’ایک خاص علاقہ‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود آزادی ہندو پاک کے موقع پر تین جون ۱۹۴۷ ؁ء کو حکومت برطانیہ نے رسمی طور پر لسبیلہ اور خاران کا کنٹرول واپس حکومت قلات کے سپرد کردیا تھا اور ان علاقوں کے سرداروں کو اس فیصلہ کی تحریری طور اطلاع بھی دی گئی تھی جس پر انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور مکران تو اعلان کے آخری دن تک قلات کا ایک علاقہ تھا جس پر خان قلات کے بھائی آغا عبدالکریم خان اس وقت گورنر مقرر تھے ۔
پاکستان کا پہلا غیر آئینی قدم:
خاران، لسبیلہ اور مکران کا براہ راست الحاق منظور کرکے حکومت پاکستان نے حکومت قلات کے خلاف پہلا غیر آئینی قدم اٹھایا گوکہ اس سلسلہ میں حکومت پاکستان کی دلیل یہ بیان کی جاتی تھی کہ حکومت قلات قبائلی سرداروں کی ایک رضاکارانہ فیڈریشن کی حیثیت سے وجود میں آئی ہے۔ اس فیڈریشن کا ہر ممبر جب چاہے اپنے مرکز سے جدا ہوسکتا ہے ۔ حالانکہ حکومت پاکستان کی یہ بنیادی دلیل انگریزی حکومت کی پیدا کردہ ایک ایسے مفروضے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی جس کی اس زمانہ میں بھی مئیری ویدر کمشنر سندھ فرنیٹئر اور دوسرے انگریزی مدبّرین نے دھجّیاں اڑادی تھیں ۔ کیونکہ یہ ایک آئینی حقیقت نہ تھی بلکہ صرف میر خدا داد خان، خان قلات کے مقابلہ میں سرداروں کو امداد دینے اور اپنی مداخلت کے لئے وجہ جواز پیدا کرنے کی ایک کج بحثی اور ایک غلط مفروضہ تھا جس کو بعد ازاں زیادہ سنجیدہ انگریز افسروں نے خود ترک کردیا تھا۔
بلوچستان پر قبضہ:
27مارچ 1948ء بلوچستان پر قبضہ کرکے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لیے ۔واضح رہے اس وقت نہ صرف قلات پر فوج کشی کی گئی بلکہ مکران اور دیگر علاقوں میں بھی فوج کشی کی گئی تھی اور پاکستانی قبضے کا اطلاق پورے بلوچستان میں بیک وقت ہوا تھا۔
ریاستِ بلوچستان کے حکمران میر احمد یار خان کو الحاق کے مسوّدے پر دستخط کرنے کے لئے مجبور کیا گیا ۔خان ایک مطلق العنان حکمران نہیں تھے ۔ اُنہیں ’’رواج‘‘ (بلوچی آئین) کے تحت کام کرنا ہوتا تھااور انہیں کوئی اختیار نہیں تھا کہ پارلیمان کی مرضی کے بغیر وہ مسوّدے پر دستخط کرتے ۔ خان نے اپنی آپ بیتی میں تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے بلوچستان کے پاکستان میں ضم کرنے کے دستاویز پر دستخط کرکے اپنے منصب کی خلاف ورزی کی ہے ۔خان کا دعویٰ تھا کہ ان کے اس غیر آئینی اقدام کے باوجود بلوچ قوم نے نہ ہی اس کے خلاف آواز بلند کیا اور نہ اس پر احتجاج کیا لیکن حقائق اُن کے اس دعوے کی تردید کرتے نظر آتے ہیں ۔ قلات کی بزورِ قوت انضمام سے پاکستان مخالف ریلیوں کا پورے ریاست میں آغاز ہوا۔ بلوچ قوم کے جذبات پر قابو کرنے کے لئے فوج کو چوکس رہنے کا حکم دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے 15 اپریل 1948 ؁ء کو ریاستِ قلات کے پورے انتظامیہ کو اپنے تحویل میں لینے کا فیصلہ کرلیا ۔ اے جی جی بلوچستان نے جناح کے ان احکامات کا اعلان کیا کہ قلات کی حیثیت سابقہ برطانوی دورِ اقتدار والی حالت پر واپس چلی جائے گی ۔ قلات کے انتظامیہ کو چلانے کے لئے ایک پولیٹیکل ایجنٹ کا تقرر کیا گیا۔خان نے با دِل نخواستہ اس تبدیلی کو قبول کرلیا اور گورنر جنرل پاکستان جناح کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ : ’’ میرے قانونی اختیار بطور خانِ اعظم کا 15 اپریل1948 ؁ٗ ؁ء کو خاتمہ کردیا گیا ، قلات کے معاملات میں میرا دخل ختم کر دیا گیا اور مجھے آرڈر کے موصول ہونے کے بیس گھنٹوں کے اندر اندر حکومتِ قلات کے بیشتر وزراء کو گرفتار یا جلا وطن کردیا گیا ۔ میرے متعارف کرائے گئے تمام سماجی، معاشی اور انتظامی اصلاحات کو یکسر پلٹ دیا گیا۔ بلوچوں کی نمائندہ پارلیمنٹ اور بلوچ کنفیڈریشن کو بہ یک جنبشِ قلم توڑ دیا گیا۔‘‘
حوالہ جات
1:۔گل خان نصیر۔تاریخ بلوچستان
1:۔ڈاکٹر عنایت اللہ ۔دی پرابلم آف گریٹر بلوچستان 
https://dailysangar.com/home/page/10261.html

Комментариев нет:

Отправить комментарий