Powered By Blogger

понедельник, 12 марта 2018 г.

راسکوہ کی عظمت – کے ڈی بلوچ

راسکوہ کی عظمت
تحریر: کے ڈی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
20فروری کی صبح جب چند دوستوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے جارہا تھا، تو راستے میں ایک بڑی پہاڑی چوٹی پر تھکاوٹ کم کرنےکیلئے بیٹھ گئے، اچانک موبائل پہ میسج آنے کی آواز آئی، موبائل نکال کر دیکھا تو ایک دوست نے اپنے وٹس ایپ پروفائل پر بارگ جان کا فوٹو لگایا ہوا تھا، یہ دیکھ کر بہت عجیب سی بے چینی محسوس ہونے لگی، بار بار فوٹو کو غور سے دیکھنے کے بعد بھی اپنے آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ اسی اثناء میں قریب بیٹھے دوست کی آواز آئی دلجان اور بارگ شھید ہوگئے ہیں، یہ سن کر ایسا لگا جیسے مجھ پر آسمان ٹوٹ کر گر پڑی ہے اور اس کے بوجھ تلے میرا دم گھٹ رہا ہے، مجھے ایسے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے سامنے والے قلات اور نوشکی کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں۔ میں خاموش اور خالی آنکھوں سے دوست کو دیکھتا رہا، ایسے خاموش جیسے کہ میرا سب کچھ لٹ گیا ہو۔ میں خاموش اور ساکت سامنے والے پارود کے پہاڑوں کو کچھ ایسے دیکھتے رہا، جیسے پارود کے پہاڑ سوگ منارہے ہوں اور میں اپنے خیالات میں گم ہوگیا، جب پہلی بار 2011 کی ایک شام شہید میرل (نثار جان) نے مجھے شہید بارگ کا نمبر یہ کہہ کر دیا کہ یہ بہت سینئر اور قابل دوست ہے، ان سے بات کرو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
اسی دن میں نے اس نمبر پے کال کر کے شہید میرل کا حوالہ دیکر بات چیت کی، اسی دن سے شہید بارگ سے میرا رابطہ شروع ہوا. ایک طرف میں تھا جو مسلسل لاعلمی میں غیر ضروری سوالات کی بوچھاڑ کرتا اور ایک بارگ جان تھا جو انتہائی سنجیدگی سے جواب دیتے رہتا اور مہر و محبت کے رشتوں کو مضبوط کرتا رہتا۔
فون پہ رابطہ ہوتا رہتا لیکن ملاقات نہیں ہوئی تھی، لیکن فون پر بھی وہ میرا تربیت کرتا رہا. اسی اثنا میں ایک دن اچانک بارگ جان کا میسج آیا کہ آج شام آپ سے ملاقات ہوگی، میسج کے آنے سے میری بےچینی بہت ہی بڑھ گئی، ایسے محسوس ہوا جیسے اس دن کو کسی نے کیلینڈر سے نکال کر کھینچ کر لمبا کردیا تھا، پورا دن بہت بے چینی میں گذر کر شام میں بدل گئی. شام کو بارگ جان نے شہر کے شمال کی جانب جوژان کے علاقے میں مجھے ٹائم دیا تھا، جہاں میں وقت سے پہلے ہی پہنچ گیا۔ عجیب سماء تھا، گرمی کےدن تھے، میں ایک کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھا تھا، سامنے مغرب کے سمت راسکوہ کے پہاڑوں پر سورج غروب ہوتا ہوا نظر آرہا تھا، جو شام کو مزید حسین و دلکش بنا رہا تھا۔ کھجور کے درخت کے ساتھ کاریز کا صاف پانی بہہ رہا تھا، گرمی کی زور ٹوٹ گئی تھی۔ قریب ہی بناپ کا روڈ تھا جو بلکل سنسان تھا۔
اسی دوران میں نے ایک موٹر سائیکل کی آواز سنی، جو میرے نزدیک آکر رُک گیا، ایک شخص موٹر سائیکل سے اُترنے کے بعد سلام کہہ کر میرے نزدیک بیٹھ گیا۔ چہرے پر ہلکی داڑھی، چھوٹے بال اور خوبصورت رنگت والے شخص کو پہلے ہی نظر میں دیکھنے سے ایسا لگا جیسے یہ میرا کوئی سالوں پرانا دوست ہے، میرے ساتھ بیٹھنے کے بعد وہ اپنے علم کا نور بکھیرتا رہا، بات دلائل دیکر کرتا رہا، بد قسمتی سے یہ ملاقات زیادہ دیر تک نہ رہی، جلد ہی وہ اپنے راستہ اور میں اپنے راستہ پر روانہ ہوگئے۔
پھر دن بدن ہمارا رشتہ مضبوط ہوتا رہا، ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ یہ وہ دور تھا جب میں میٹرک پاس کر کے نیا نیا کالج میں آیا ہوا تھا اور تحریک کے بارے میں کم علمی کے وجہ سے خاص دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ پھر ایک دن بارگ جان سے ملاقات ہوئی تو عام باتوں کے بعد بارگ جان نے اپنے موقف کا اظہار کیا کہ وہ تحریکِ آزادی کا حصہ ہے، پھر عام باتوں کے نسبت تحریک کی بابت باتیں زیادہ ہونے لگیں۔
بارگ جان کے مہر ومحبت خوش کلامی اعلیٰ اخلاق، وسیع ذہنیت اور اچھے کردار کو دیکھ کر میں بھی اس سے متاثر ہوا اور تحریک کا حصہ بننے کا عندیہ ظاہر کیا لیکن حالات اور ذاتی مصروفیات کی وجہ سے ہم زیادہ نہ مل سکے، فون پر بات ہوتا رہا، طویل عرصے کے بعد ایک دن بارگ کا فون آیا کہ آپ کدھر ہو؟ آپ سے ملنا ہے، میں نے شام کو ایک جگہ اسے ملنے کے لئے ٹائم دیا۔ میں حسب معمول وقت سے پہلے ہی پہنچا، کچھ منٹ بعد دیکھا کہ بارگ جان بھی وہاں پہنچ گیا۔ اس کے کپڑے استری کئے ہوئے تھے، وہ انتہائی ہشاش بشاش لگ رہا تھا۔
رسمی حال احوال کے بعد تحریک کے بارے میں بارگ جان قیمتی باتیں کرتا رہا، جو آج تک میرے دل و دماغ میں محفوظ ہیں۔ شام کا وقت تھا، ہم جہاں بیٹھے تھے وہ ایک بڑا میدان تھا جہاں شام کے وقت لوگ آکر لطف اندوز ہونے کیلئے بیٹھ جاتے تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد میدان میں بہت سے لوگ بیٹھ گئے، بارگ جان نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ “یہ سب لوگ فضول زندگی گذار رہے ہیں، چھوٹی سی بات پر پریشان ہوجاتے ہیں، محدود سوچ رکھتے ہیں، آزادی اور انصاف سے واقف نہیں ہیں، ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان کو شعور دیں، محدود سوچ اور فکر سے نکال کر آزادی کی عظیم فکر سے ان کو واقف کریں۔”
میں نے استفسار کیا کہ آخر کیسے؟ تو آپ نے کہا: “اس کے لئے پہلے ہمیں خود علم سے لیس ہوکر انتہائی محنت، مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔ میرے شعور کی کمی کی وجہ سے یہ باتیب میرے سر کے اوپر سے گذر گئیں، آخر میں بارگ جان نے کہا کہ “ہمیں یہ آسودہ زندگی، گھر میں اچھی نیند اور اچھے کھانے، اچھے پہناؤ حتٰی کہ سب کچھ آزادی کیلئےقربان کرنا ہوگا.” یہ کہہ کر پھر ہم اٹھ گئے۔ پھر کچھ دن بعد میں نے بارگ جان کا نمبر ٹرائی کیا جو بند تھا، میں اسی انتظار میں تھا کہ شاید وہ نمبر تبدیل کرکے خود کال کرے گا لیکن ایسا نہ ہوا، بہت عرصہ گذرنے کے بعد بھی بارگ جان کا کوئی پتہ نہ چل سکا کہ آسمان کھا گیا یا ذمین نگل گئی، کچھ بھی پتہ نا چل سکا۔
سات مہینے بعد ایک دن بارگ جان نے کال کیا کہ فلاں جگے پہ آؤ اور اپنے ساتھ پکوڑا اور روٹی لانا. میں جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل کے ساتھ ایک لاغر بدن لڑکا کھڑا ہے جس کے کپڑے پٹھے ہوئے تھے، رنگت دھوپ کی تپش کی وجہ سے کالی ہوگئی تھی، خشک ہونٹ خواری کی گواہی دے رہے تھے، داڑھی اور سر کے بال انتہاہی بڑے اور بے ڈھنگے تھے، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی 5 سال بعد قید بامشقت سے رہائی پاکر ابھی نکلا ہو۔ مہربان بارگ جان کو اس حالت میں دیکھ کر میرا دل پسیج گیا، دل نے چاہا کہ اس کو گلے لگا کر رونا شروع کروں، شاید وہ میرے حالت کو سمجھ گیا اور مسکرا کر میرا ہاتھ چوم کر اپنے قریب بٹھایا.
جب میں نے کھانا پیش کیا تو اس سے کہا کہ آپ پہلے بتاتے کہ آپ آئیں گے تو گھر سے آپ کے لئے کڑھائی بنواکر لاتا. آپ نے مسکرا کر جواب دیا “پُھل اب ان چیزوں کا دور گیا، میں نے اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑا اس سرزمین کیلئے تو پھر لذیذ کھانے چھوڑنا کونسی بڑی بات ہے. تین دن سے میں نے کھانا نہیں کھایا ہے، ابھی پہاڑوں سے آرہا ہوں، میں پھر بھی پکوڑے کھا رہا ہوں لیکن ادھر دوستوں کو کھانا ایک دن ملتا ہے ایک دن نہیں ملتا ہے اور یہ کچھ بھی نہیں آزادی کیلئے ہمیں اس سے بڑے تکالیف برداشت کرنے ہونگے.” یہ باتیں سن کر میں دنگ رہ گیا، کچھ دیر بعد بارگ جان کو خداحافظ کر کے جب میں گھر آیا، تو ساری رات اسی سوچ میں گذرا کہ سرمچاروں کی کیا حالت ہوگی، آخر یہ کیا سوچ کر اپنی جوانی اور سب خوشیاں داؤ پر لگا کر ایسے مصائب اور مشکلات بھری زندگی اپنا لیتے ہیں. ہر وقت بارگ جان کی یہ مفلسی کی حالت میرے دل دماغ پر سوار تھا، جو میرے سوچ کو پختہ کرتا رہتا۔
آخر کار میں بھی بارگ جان اور میرل جان کی کوششوں سے پارٹی کا حصہ بنا، دن گذرتے رہے، جب پاکستانی الیکشن قریب تھے، یہ وہ وقت تھا جب تمام مذاحمتی پارٹیوں نے الیکشن کے خلاف سخت اعلانات کیئے ہوئے تھے اور فوج الیکشن کرنے کیلئے اپنا آخری زور لگا رہا تھا، گلی گلی پر ناکہ لگا کرسخت چیکنگ کیا جارہا تھا اور دوسری طرف ضمیر فروش پارلیمنٹ پرست بھی اپنے بساط کے مطابق الیکشن کامیاب کرنے کیلئے اپنا زور لگا رہے تھے۔ اس حالت میں کاروائی کرنا اور الیکشن کو بند کرنا ایک انتہائی مشکل امر تھا. ایسے میں شہید نورالحق عرف بارگ جان کے بہترین حمکت عملی و پالیسیوں کی وجہ سے ھم تمام دوستوں نے ملکر کامیاب کاروائیاں کر کے پورے شہر میں الیکشن کو جام کردیا، جس کی وجہ سے علاقے میں الیکشن نہ ہونے کے برابر ہوئے۔
اس دوران بارگ جان انتہائی محنت کرتا رہتا، دن رات ایک کرکے تنظیم کاری کرتا رہا جس کے نتیجے میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بلوچ مسلح جہد کاروں کی شدید نوعیت کے کاروائیوں سے پاکستانی فوج خوفزدہ ہوکر اپنے کیمپ تک محدود ہوگیا اور اپنے لئے سودا لینے کے لئے کیمپ کے قریب روڈ سے گذرتے عام لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اور تشدد کرکے بازار بھیجتے جبکہ پاکستانی فوجی خود کیمپ سے نکلنے سے خوفزدہ تھے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا بارگ جان کی محنتوں کی وجہ سے تنظیمی کام دن بہ دن بہتر سے بہترین کی جانب گامزن رہے۔
ایک دن جب میں کراچی اپنے کسی کام کے سلسلے گیا تھا کہ بارگ جان کا میسج آیا حال و احوال کے بعد بارگ جان نے دو سینئر دوستوں کا حوالہ دیا کہ وہ میدان جنگ سے فرار ہوگئے ہیں اور چند دوستوں نے سرنڈر کیا ہے، یہ سن کر میں بہت پریشان ہوگیا، اسی سوچ میں تھا کہ بارگ جان کا دوسرا میسج آیا کہ: “پریشان نہیں ہونا یہ کچھ نہیں ہے تحریک کسی کا محتاج نہ تھا اور نہ رہے گا، اور انتھک محنت سے ہم اپنے کاموں میں کمی آنے نہیں دینگے، ہم کسی بھی صورت میں تنظیمی کاموں کو ان کی وجہ سے متاثر ہونے نہیں دینگے۔”
اس نے مزید کہا: “یہ تحریک کی خاصیت ہے کہ مفاد پرست، ذاتی اور محدود سوچ کے شکار لوگوں کو تحریک کچرے کی طرح اپنے اندر سے نکال کر باہر پھینکتی ہے۔ بارگ جان کی ان باتوں سے میری پریشانی کم ہوئی۔ پھر کیا تھا بارگ جان کے محنت پہلے سے زیادہ ہوئی، ہر جگہ دوستوں کی تربیت کرتا رہتا، حوصلہ دیتا رہتا اور ان کی فکری مضبوطی کیلئے ماہانہ سب دوستوں کیلئے کتابیں بھیجتا رہتا اور ہر مہینے ان کے ساتھ بیٹھ کر کتابوں پر گفتگو کرتا رہتا۔ یہ وہ وقت تھا، جب فیس بک پر اختلافات اپنے عروج پر تھے (گوکہ ان اختلافات کی اصل پول اب کھل گئی ہے اور ان ذاتیات کو اختلاف کا نام دیکر مایوسی و کنفیوژن پھیلانے والوں کو بلوچ قوم پہچان گئی)، آپ نے انتہائی سختی سے سب دوستوں کو اور خصوصاً نئے دوستوں کو سوشل میڈیا میں کُج بحثی سے دور رہنے کی ہدایت کرتے تھے. میں زیادہ تر ہر جگہ بارگ جان کے ساتھ رہتا. ہر دن وہی داش کا ایک نان اور پکوڑا بارگ جان کا روزانہ کا خوراک تھا۔
پھر یہ سلسلہ جلد ہی بند ہوگیا کیونکہ کچھ وجوہات کی بناء پر تنظیمی دوستوں کے مشورے سے میں شہر چھوڑ کر کیمپ منتقل ہوگیا. کیمپ میں منتقل ہونا اپنے آپ میں میرے لئے ایک نیا تجربہ تھا، ہر طرف پہاڑ، درخت اور چشمے کا پانی اور دوستوں کے شکل میں بہت سے نئے چہرے، جن سے پہلی ہی ملاقات میں ایسا محسوس ہوتا کہ کئی برسوں سے شناسہ ہوں.
پہلی رات میں بارگ جان کےقریب اپنے سونے کیلئے جگہ بنائی، میں ابھی سونے ہی والا تھا کہ بارگ جان کی آواز آئی: تھوڑی دیر ٹہرو، بہت دنوں بعد ملے ہیں کچھ باتیں کرتے ہیں، میں 9 بجے گھاٹ کیلئے جاؤنگا، پھر تم سو جانا اور پھر بارگ ہاتھ میں چائے کی کیٹلی اور دو پیالے کے ساتھ پہنچ گیا۔
چودھویں کی چاند تھی، رات دن کی طرح روشن لگ رہا تھا، ہلکی سی ہوا چل رہی تھی اور ایک جانب بارگ جان کی مہر و محبت بھری باتیں دوسری جانب چاندنی رات کے حسن کو دوبالا کررہی تھی اور ساتھ میں چائے کے کش کچھ الگ اور حسین سی سماء باندھ رہے تھے، گھاٹ کیلئے جانے سے پہلے بارگ جان نے مجھے کیمپ کے ڈسپلین و اصول اور ماحول کے متعلق سمجھایا۔
میں روزانہ بارگ جان کو دیکھتا کہ وہ کچھ نئےدوستوں کے ساتہ بیٹھ کر شام تک باتیں کرتا رہتا، بارگ جان کے ساتھ شہید میرل اور دوسرا ایک دوست بیٹھا ہوتا، بعد میں مجھے بتایا گیا کہ جن دوست کو میں نیا سمجھ رہا تھا وہ “بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کا سینئر ساتھی ہیں، جو اتحاد کے لئے کوشش کررہے ہیں. چند دنوں بعد بارگ جان اور BLA کے دوستوں کے انتہک محنت کے بعد دونوں تنظیموں کا اتحاد ہوا، جس کا مرکزی سطح پر کوئی وجود نہ تھا، لیکن شہید میرل، بارگ اور بی ایل اے کے ساتھیوں نے علاقائی حالات اور ماحول و ضروریات کے مطابق ذیلی سطح پر اتحاد کیا تھا، جس کے بعد میں اثرات مرکزی سطح پر پہنچ گئے اور مرکزی سطح پر اتحاد ہوگیا۔ آج اتحاد کے سبب کوئی بھی شخص یہ فرق نہیں کرسکتا ہے کہ کونسا ساتھی کونسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔
کیمپ میں بارگ جان کو میں نے ایک دن بھی آرام سے بیٹھتے نہیں دیکھا۔ ایک دن جب بارگ جان کی کمان میں ہم چند دوست جن میں BLA اور BRA کے دو سینئر دوست شامل تھے ایک مہینہ کے جنگی گشت پر روانہ ہوئے، ھمارے پاس راشن دوسری ضرورت کی اشیاء نہ ہونے کے برابر تھے. بہار کا موسم شروع ہوچکا تھا، پہاڑوں پر بہار نے اپنا سبز چادر بچھایا تھا. سفر انتہائی دلکش تھا. چونکہ ہمارے پاس روٹی پکانے کا کوئی خاص سامان نہیں تھا، تو بارگ جان پتھر پر روٹیاں بناتا اور سب مل کر چائے کے ساتھ کھاتے اور کبھی جب دال میسر ہوتی تو وہ ہمیں گوشت سے زیادہ لذیذ لگتی۔ ہمارا پورا مہینہ سفر اور جنگی کاموں میں گذرا۔ ایک رات جب ہم مورچے پر بیٹھے تھے، ہمارے پاس صرف ایک ٹکڑا روٹی کا اور ایک چھوٹا ڈبہ پانی کا تھا، تو نیچے پوسٹ کو دوربین کرتے ہوئے بارگ جان نے مجھے کہا کہ تم سوجاؤ، سب کچھ ٹھیک ہے اور میں مورچے کو سنبھالتا ہوں لیکن میں نے اس کے بات کو نہ مانتے ہوئے اس کیساتھ بیٹھا رہا. پھر بارگ جان نے اس روٹی کے ٹکڑے کو دو حصوں میں بانٹ دیا اور ہم نے اس پر گذارا کیا. بارگ جان دشمن کے کیمپ کو بار بار دوربین سے دیکھتے ہوئے کاروائی کے بارے میں سوچتا رہا، آخر کار صبح بارگ جان کے اچھے پالیسی کی وجہ سے ھم کامیاب کاروائی کرنے میں کامیاب ہوئے۔
بارگ جان بہت وسیع ذہنیت کا مالک تھا، ہر کام کرنے سے پہلے دوستوں سے مشورہ کرتا، تنظیمی ڈسپلن کا پابند تھا، ہر کام میں سب سے آگے رہتا تھا. بہادری میں اپنی مثال آپ تھا. اچھے خصوصیات کی وجہ سے کیمپ میں ہر ساتھی اس کو پسند کرتا. اس کی ہر بات سے مہر و محبت کی خوشبو آتی تھی۔ شُور و پارود سے لیکر مکران تک ہر جگہ قومی کاموں کے لئے پیش پیش تھا۔ میرا نور الحق عرف بارگ جان سے آخری بار ملاقات اس وقت ہوا، جب وہ جھلاوان (زہری) کے محاذ پر زمہ داریاں سرانجام دینے کے لئے روانہ ہورہا تھا. مجھ کو “اوار آں سنگت” (پھر ملینگے.) کہہ کر اپنے سفر کو روانہ ہوگیا۔
بارگ جان کی کمی مجھ کو بہت محسوس ہوا کیونکہ شاید اتنے برسوں میں ہماری نذدیکی بہت زیادہ ہوگئی تھی. شہادت سے دو دن قبل میں نے جب شہید سے بات کی، تو وہ کچھ کاموں سے فراغت کے بعد واپس شُور کے محاذ پر آنے کیلئے تیار تھا لیکن آہ بدقسمت شُور… جو ایسے عظیم شخصیت سے محروم ہوگیا۔ شور و پارود کی گود خالی ہوگئی راسکوہ نے اس عظیم شخصیت کواپنے گود میں لیکر اپنے شان کو مزید اونچا کردیا۔
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہِجر کی قتل گاہوں سے سب جا مِلے
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عُشّاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جِن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

Комментариев нет:

Отправить комментарий