Powered By Blogger

вторник, 31 октября 2017 г.


Teaching Nazar a Lesson Backfired , Ali Kambar
The war in Balochistan has taken a new turn as Pakistani military establishment has started abduction of women and family members of Baloch political activists. I am not a fan of morality in politics and war but such an immoral actions do reflects some realities that Pakistani state has deeply frustrated and seems to be psychologically losing the war in Balochistan.
The abduction of family members is a part of grand design of pressuring Baloch freedom fighters in the name of honour and shame to cave in to increasing state atrocities. But falling such a low as abduction of females will always fireback in Balochistan where the women are considered as the most sacred being enshrined in honour and respect. Therefore, if the purpose of this psychological war is gaining positive result of winning the war in Balochistan, Pakistan army and its military intelligentsia are extremely going in the wrong direction. Such a strategy will only prove it to be more of an evil in the eyes of Baloch who are always ready to fight in the name of honour and civility.
Perhaps, Pakistan army has repeated the mistakes of 2006 when it killed octogenarian Nawab Akbar Khan Bugti in a military raid that ignited a fire in Balochistan and lit the fire of liberation movement that it could neither swallow nor throw out yet. Abduction of women in Balochistan is considered as the lowest of all lows one can fall. Therefore, these recent events must be noted as start of another wave of uprising in Balochitsan freedom movement where the Baloch youth would consider that now there female members are also not safe in Balochistan. It can also force Baloch females to arm themselves and fight along with their brothers in the mountains. Such a scenario could be a nightmare for Pakistani army.
Dr Allah Nazar is known as a man of steel nerves in Balochistan. Even a child knows that he could never be bowed down by such shameful acts by state. He is considered as a leader who has inspired thousands of Baloch youth to fight against injustice and occupation of Pakistan army in Balochistan. The majority of people in Balochistan consider him as de facto leader of Balochistan. He is the undisputed leader of Baloch movement in Balochitsan and symbol of resistance. Only Balach Marri was his calibre in the eyes of people of Balochistan. After Balach he is the leader of the armed as well as political leader in Balochistan’s war against Pakistani occupation. Abduction of his family members by Pakistan army will only strengthen his image a leader who is ready to sacrifice his everything for his nation. Therefore, if Pakistan army thinks that abduction of Allah Nazar’s family members is a psychological tool to win the war in Balochistan, they are extremely mistaken and misled by whoever has designed such a plan.
In the face of increasing atrocities in Pakistan such as action of abduction of women and children, Baloch Liberation Army and Balochitsan Liberation Front have announced to enter an alliance to end  Pakistani occupation. The killing of thousands of innocent Baloch civilian in the hand of Pakistan army has forced Baloch youth to join armed groups as they view Pakistan as an evil force bent upon ethnic cleansing of Baloch and a force engaged in genocide of Baloch people.
In reaction to Pakistan army abduction of Dr Allah Nazr family, hundreds of thousands Baloch have changed their facebook and twitter DPs to Allah Nazar photos to show their solidarity with their leader. A simple search on twitter shows that Dr Allah Nazar popularity has almost quadrupled as his name was used in thousands of tweet and hashtags on twitter. Almost all the leaders in Balochistan and Pakistani intellectual and human right activists have condemned this action of Pakistan military as shameless act. It seems that the move has greatly backfired.
It is high time that Baloch activists must come into actions to highlight and resist such a shameless acts of Pakistan army. Baloch political parties and human right organizations must extend their outreach and be more exclusive to involve and engage all the stakeholders across the globe to highlight barbarity of Pakistani state’s genocide of Baloch people.
It is responsibility of Amnesty International, Human Rights Watch to give Pakistan an immediate notice to release Dr Allah Nazar’s family. UNHRC must hold Pakistan accountable as a member engaged in genocide of Baloch people. Baloch activists should force UN to discipline Pakistan by highlighting reporting human rights violation more aggressively.
And the last but not least, all the human loving beings should play their roles to stop Pakistan to torture Baloch political activists and stop genocide in Balochistan.  

воскресенье, 29 октября 2017 г.

میڈیا کی کور چشمی اور اس کا حل ؛تحریر :جیئند بلوچ


اپنی بات رکھنے سے قبل اسے مزید واضح کرنے کے لئے ایک مثال پیش کرتے ہیں تاکہ بات صحیح طرح سےسمجھ میں آسکے۔
ایک کسان کو کسی فصل کے بارے بتایاگیا کہ وہ انتہائی کارآمد اور فائندہ مند ہے۔کسان نے اس کی کاشت کے لئے الگ زمین لی، اس یہ ہل چلایا ، کھاد ڑالی اور تیار کیا پھر بازار سے اس فصل کا بیج خرید کر کر اپنی تیار شدہ زمین میں اس نیت پہ اگالیا کہ اس کا فائدہ بہت زیادہ ملے گا مگر مدت گزرگئی اور کسان کو اس کا کوئی ثمر نا ملا زمین نے فصل نہیں اگائی۔
اگلے سیزن مین کسان نے زیادہ فائدے کی لالچ میں ایک بار پھر وہی کچھ کیا محنت کی زمین بنایا، بیج لایا اور کاشت کی مگر اس دفعہ بھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ کسان تکنے والا نہیں تھا اس نے فائدے کی لالچ میں تیسری بار بھی وہی سب کچھ کیا جو وہ مسلسل دو مرتبہ کرتا آرہا تھا لیکن قسمت کے مارے کسان کی تیسری کوشش بھی کارآمد ثابت نہ ہوسکی اس نے مگر اپنا ارادہ ترک نا کیا وہ ہر سیزن میں ایک ناکام کوشش کرتا رہا اب آپ سے کوئی پوچھے کسان کیسا شخص ہے ؟تو یقینا آپ کہیں گے کہ اس سے بڑا پاگل کوئی نہیں ہوگا۔
میرے خیال میں اس سے آپ میری بات کا مطلب سمجھ گئے ہونگے۔ اگر نہیں تو چلیں ایک اور مثال لیتے ہیں کسی شہر کے والی نے ایک فیکرٹری لگائی شہر والے خوش ہوئیں کہ یہ فیکٹری ان کے روزگار کا زریعہ ہوگا اس سے ان کے معاشی مسائل اور مشکلات کم ہونگے لیکن والی شہر نے باہر سے لا کر لوگوں کو فیکٹری میں جمع کیا ان سے کام کرایا جتنی کمائی تھی وہ صرف والی شہر اور ان کے باہر سے آئے ملازمین نے سمیٹ لی شہر والوں کے حصے میں روزگار اور معاشی خوشحالی کے بجائے دھواں، زہریلی گیس اور فیکٹری کی آواز سے آرام اور نیند میں خلل آیا۔
اب اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ شہر والے اس پہ ہی قناعت کر کے خوش ہولیں کہ روزگار اور خوشحالی نا سہی کم ازکم ان کے شہر میں ایک عدد فیکٹری تو لگ چکی اس پہ آپ کیا جواب دینگے کہ ہاں یہ بھی خوشی کی بات ہے اگر آپ کا جواب ایسا ہی ہوگا تو آپ کو اپنے عقل کے لئے کسی سائیکاٹرسٹ کے پاس جانا چاہیے۔ اب تو آپ یقیناا سمجھ چکے ہونگے کہ میں کہنا دراصل کیا چاہتا ہوں اگر نہیں سمجھ رہے تو آیئے ایک اور مثال سے بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں آپ کو اپنے کمرے میں آئینہ لگانے کا خیال سوجھا تاکہ اس سے اپنے آپ کو دیکھ کر اپنا وضع قطع اور حلیہ درست کرسکیں آپ نے بازار جا کر ایک قیمتی آئینہ خریدا شہر سے ایک ماہر کاریگر لا کر اسے آئینہ دیا اور وہ مقررہ جگہ جہاں پہ آپ نے آئینہ لگانا تھا اسے دکھایا آپ مطئمن ہو کر کاریگر کو کام کے لئے اکیلے چھوڑ کر انتظار کرنے کے لگے کہ وہ آئینہ لگادے اور آپ اس سے استفادہ کرسکیں۔ جب آئینہ لگ چکا تو حیرت اور اضطراب سے آپ کی چیخیں نکلتے رہ گئیں کہ کاریگر نے آئینہ آپ کی قامت سے اوپر لگا دیا ہے جس سے آپ کسی طور اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتے آپ کی محنت، پیپسے وقت اور خواہش غارت گئیں یقینا آپ کو اس کا دکھ ہوگا لیکن پھر بھی کوئی شخص کہہ دے کہ نہیں کوئی پرواہ نہیں کم از کم آئینہ لگ تو گیا ہے تو میرے نزدیک اس کی عقل پہ تف ہے۔
اب آپ کو سمجھ آگیا ہوگا کہ میں اصل میں کہنا کیا چاہتا ہوں آپ اسی پیمانے پر پاکستانی کنترولڈ میڈیا کو سامنے رکھ کر بلوچستان کا جائزہ لیں۔ جو میڈیا بلوچستان میں رہ کر ہمارے وسائل پہ پلا بڑھا اور ہمارا کھا رہا ہے لیکن ہم سے نظریں بچھا کر بات کسی اور کی کررہی ہے۔ ہمارے جتنے دکھ، درد، مصائن، مشکلات اور آلام ہیں وہ میڈیا کو نظر نہیں آرہے لیکن ہمارے خلاف جو بات ہوتی ہے اسے چیخ اور چلا کر کہہ ڈالتا ہے۔
میڈیا گوکہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اس کا ایک یقینا ایک مسلمہ حیثیت اور حقیقت ہے، دنیا گوکہ آزادی اظہار کا متمنی ہے، اقوام متحدہ یقینا میڈیا کی آزادی کو مقدم سمجھتی ہے لیکن آپ سے سوال ہے کہ جو میڈیا آپ کے پاس رہتے ہوئے آپ کے کسی کام کا نہیں ہے بلکہ الٹا آپ کے خلاف بکواس، پروپیگنڈہ، جھوٹ اور زہر افشانی کا مرتکب ہورہی ہے اور آپ ان سب سے واقف ہیں دیکھ رہے ہیں جانتے ہیں پھر بھی آپ خاموش رہیں یہ ہماری سمجھ سے بالا ہے۔
کچھ دن قبل ہمارے ایک محترم دانش ور نے میڈیائی قوت اور بلوچ تنظیموں کی حکمت عملی پر طویل مضمون قلم بند کر کے کہاں کہاں سے مثالیں لا کر میڈیا کی قوت جتانے اور اس سے ڈرانے کی کوشش کی تھی کہ اس کا اثر یہ ہوگا، اس کے نقصانات یوں نکلیں گے مگر محترم دانش ور صاحب کو یہ زمینی حقیقت نظر نہیں آئی تھی کہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران میڈیا نے بلوچ مسلے پر کتنا مثبت رول ادا کیا ہے۔ اور بلوچ تحریک آزادی کے متعلق میڈیا کا بازاری زبان، سرکاری بیانیہ، تہمت بازی، بچگانہ پن اور زہریلے نشتر کس قدر پریشان کن رہے ہیں۔
پاکستانی کنٹرولڈ میڈیا جو بلوچستان میں موجود ہے اس کے خلاف بلوچ تنظیموں نے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دے کر ایک احسن قدم اٹھایا ہے گوکہ ہم جیسے کچھ جاہل اور بے عمل افراد اس کی مخالفت کرینگے لیکن سوال یہ ہے کہ اس میڈیا جس کا ہم رونا روتے یا اس کی طاقت سے ڈراتے ہیں نے بلوچستان کو دیاکیا ہے۔اس کی بلوچ دشمنی تو اس قدر آگے جاچکی ہے کہ بلوچستان اور اس کے معاملات ایک طرف اسلام آباد کے جناح یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کے احتجاج اور پولیس گردی کو چھپانے کے لیئے اس نے بلوچ طلباء کے خلاف کس قدر یکطرفہ اور منفی کرداد کشی کی۔ حالانکہ بلوچ مسلح تنظیموں نے ابتدائی بیانات میں محض میڈیا کو اپنا رویہ مثبت اور غیر جانبدار بنانے کے لیئے الٹی میٹم دینے پر اکتفا کیا ہے اسے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اپنا اصولی طریقہ کار طے کر کے عالمی قوانین کا لحاظ رکھیں جو میڈیا کا حق ہے ابھی تک باقاعدہ میڈیا کے خلاف طاقت آزمائی سے گریز کی پالیسی اپنائی گئی ہے ماسوائے بی ایل اے اور بی ایل ایف کے تنبیہی حملوں کے۔
اگر میڈیا واقعی بلوچستان میں رہنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ سرکاری زبان بولنے کے بجائے میڈیائی زبان اپنائے، میڈیائی اصول و ضوابط کا پاس رکھے ورنہ اسے یہاں رہنے ہمارے وسائل پہ پلنے اور کھانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ قومی رہبر ڈاکٹر اللہ نظر نے پہلی بار میڈیا کے دوہرے کردار پر سخت موقف اپنا کر اسے درست سمت اختیار کرنے کی تنبیہ کی ہے بصورت دیگر ان کے ساتھ وہی زبان مین بات کرنے کا عندیہ دیا جو پاکستان اور اس کی آرمی بلوچوں کے ساتھ کر کے میڈیا اس کو حق بجانب قرار دینے کی سعی کرتی آرہی ہے امید ہوچلا ہے کہ اب کی بار بلوچ تنظیمیں اور بلوچ قیادت میڈیا کے نام پر بلوچستان میں مچائی گئی گند اور سرکاری فضلے پر مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہونگے۔

пятница, 27 октября 2017 г.

بی ایس او آزاد کے سیکرٹری جنرل عزت بلوچ کا انٹرویو

’’عزت بلوچ بی ایس او آزاد کے موجودہ سیکرٹری جنرل ہیں۔ انہوں نے 2009 میں تنظیم میں شموولیت اختیار کی۔ 2010 سے 2012 تک زونل صدر کے عہدے پر رہے۔2012سے جون 2015 تک مرکزی کمیٹی کے رکن رہے۔ جون 2015 سے نومبر 2015 تک تنظیم کے مرکزی انفارمیش سیکٹری رہے۔ 2015کو ہونے والے کونسل سیشن میں بی ایس او آزاد کے سیکٹری جنرل  منتخب ہوئے۔‘‘ ان سے یہ انٹرویوسگار کمیٹی کی جانب سے لیا گیا ہے۔
سوال*بحیثیت ایک طلباء لیڈر آپ بلوچ قومی تحریک کی موجودہ صورتحال سے کس حد تک مطمئن ہیں؟
جواب*مطمئن ہونا بزات خود ایک ایسا احساس ہے کو یہ عام طور پر کسی کو کچھ نیا کرنے کے لئے متحرک کرنے کے بجائے موجودہ حالات پر خوش کرتا ہے۔ موجودہ تحریک میں کمزوریاں اگرچہ ہیں، یہ کمزوریاں پارٹی منیجمنٹ کے حوالے سے ہوں، بعض معاملات میں سیاسی ناپختگی یا عدم برداشت جیسی کمزوریاں، لیکن ان سب کے باوجود حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ قومی تحریک کی تمام اکائیوں کی طریقہ جدوجہد میں کوئی اختلاف نہیں، ان کے مقاصد میں بھی کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ مجموعی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو قومی تحریک کی مجموعی صورت حال اطمینان کن ہے۔ لیکن مجھے یہ وضاحت کرنے دیجیے کہ جہاں تک میراخیال ہے تحریک کی اکائیوں میں، بشمول بی ایس او آزاد، بہتری کی گنجائش موجود ہیں۔
سوال*پچھلے کئی سالوں سے ریاست کی جانب سے تعلیمی اداروں پر بندش اور منشیات کے پھیلاؤ جیسے مختلف حربے بلوچ نوجوانوں کے خلاف استعمال کیے جارہے ہیں ، آپ کے نزدیک ان حالات میں نوجوانوں کی مجموعی ذمہ داری کیا بنتی ہے؟ 
جواب* یہ حقیقت ہے کہ ریاست مختلف حربوں کا بیک وقت استعمال کرکے نوجوانوں کو تحریک سے دور کرنے کی کوشش کررہی ہے، چونکہ یہ نوجوان ہی ہیں جو کہ کسی تحریک کا، یا قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ریاست کی ان پالیسیوں کے اثرات ’اگر ریاست کامیاب ہوئی تو‘ آئندہ سالوں میں منفی حوالے سے تحریک اور بلوچ معاشرے پر پڑیں گے۔ جہاں تک سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے کہ نوجوانوں کی زمہ داری کیا بنتی ہے تو میرے خیال میں ان حالات کا مقابلہ صرف نوجوانوں کو نہیں بلکہ معاشرے کے تمام باشعور طبقوں کواس صورت حال کے خلاف مزاحم ہوکر ہی ان حربوں کا ناکام بنا نے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ریاست میڈیا اور پروپگنڈہ کے دوسرے ذرائع کا استعمال کرکے ایسی تمام سازشوں کو چھپا رہی ہے جو کہ بتدریج بلوچ معاشرے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ بلوچ سیاسی پارٹیوں اور معاشرے کے باشعور طبقے کی زمہ داری ہے کہ وہ ان حربوں کو بے نقاب کریں۔ جب عام لوگ ان حربوں اور ان سے پہنچنے والے نقصانات سے آگاہ ہوجائیں گے تو وہ ان کے خلاف جاری مذاحمت میں شامل ہوجائیں گے۔
سوال*بعض لوگوں کے نزدیک ان حالات میں بی ایس او آزاد وہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے جو وہ ماضی میں ادا کرتا رہا ہے، مثلاً جلسہ جلوس ، سیمینار، مظاہرے وغیرہ۔ آپ کی نظر میں یہ تنظیم کی ناکامی ہے یا موجودہ حالات کے تقاضے ؟
جواب* میں نہیں سجھتا کہ بی ایس او آزاد جلسہ جلوس یا سیمینارز منعقد نہیں کرسکتا۔ بی ایس او آزاد کے خلاف کریک ڈاؤن اور ایک سو سے زائد لیڈرز اور کارکنوں کی شہادت کے باوجود بی ایس او آزاد نوجوانوں کی ایک ایسی قوت ہے جو کہ گراؤنڈ میں موجود ہے۔ جلسوں یا سیمنارز کے انعقاد ہونے یا نہ ہونے سے کسی تنظیم کو کامیاب یا ناکام نہیں قرار دیا جا سکتا۔ بی ایس او آزاد نے پالیسی کے تحت جلسے اور سیمینار منعقد کرنے کی سرگرمیوں کو محدود کررکھا ہے ۔ اگر آپ کو یاد ہو تو چند مہینوں پہلے تک بی ایس او آزاد نے کوئٹہ اور کراچی میں مظاہرے کیے ہیں، سیمینار بھی منعقد کیا ہے۔ چونکہ یہ سیاسی سرگرمیوں کا حصہ ہیں ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن آج کے زمانے میں بہتر ذرائع موجود ہیں جو کہ جلسوں یا دوسرے روایتی ذرائع کے استعمال سے زیادہ پراَثر ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر روایتی طریقے کی سرگرمیاں محدود ہیں تو ان کی بنیادی وجہ حالات کے نئے تقاضے اور نئی ضروریات ہیں۔
سوال*لیکن کچھ حلقوں کے نزدیک بی ایس او آزاد موجودہ سیاسی منظر نامے سے یکسر غائب ہے ، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ 
جواب* اگر کسی کا یہ خیال ہے تو میرے خیال میں وہ بلوچستان کی موجودہ صورت حال سے ناواقف ہے۔ بی ایس او آزاد کسی بھی زاویے سے منظر عام سے غائب نہیں ہے، تنظیم کے جتنے ذیلی اور مرکزی ادارے ہیں سب متحرک ہیں، تنظیم کا لٹریچر اور سیاسی حالات کے حوالے سے موقف وقتاََ فوقتا میڈیا میں شائع ہورہا ہے۔ جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں، میں نے زکر کیا کہ بی ایس او آزاد نے جلسوں اور سیمنارز کے انعقاد کو شعوری طور پر محدود کررکھا ہے، اگر کسی کے نزدیک جلسہ منعقد نہ کرنے یا سیمنار منعقد نہ کرنے کا مطلب سیاسی منظر نامے سے غائب ہونا ہے تو میرے خیال میں وہ شخص بالکل غلط ہے۔
سوال* بلوچ قومی تحریک میں ماس پارٹی کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ 
جواب* صرف ہماری تحریک میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام ملکوں یا تحریکوں میں منظم پارٹیوں کی موجودگیوں کے فوائد اُن قوموں یا تحریکوں کے لئے مسلمہ ہیں۔ لیکن بلوچ جیسی کمزور قوموں کی طاقت کویکجا کرنے کے لئے پارٹی کی ضرورت و اہمیت دوگنی ہوجاتی ہے۔ اگر ہم تاریخی حوالے سے دیکھیں تو بھی یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ ماضی میں تحریکوں کی ناکامی، یا خاموشی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک پارٹی کی عدم موجودگی بھی تھی۔ میرے خیال میں بلوچ قومی تحریک میں اب تک کوئی ایسی پارٹی موجود نہیں جسے ہم صحیح معنوں میں ماس پارٹی کہہ سکیں یا اس حوالے سے اس کے کردار پر بحث کریں۔ البتہ بی این ایم موجود ہے جو کہ ابھی تک ایک ڈھانچہ ہے، اس ڈھانچے میں گوشت بھرنے اور اسے صحت مند پارٹی بننے میں ابھی تک محنت درکار ہے،بی این ایم کے بانی چیئرمین، مرکزی سیکرٹری جنرل اور دوسرے کئی اہم رہنماء شہید کردئیے گئے ہیں، پارٹی کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن خود اس بات کا اظہار ہے کہ ریاست پارٹی کو عوام سے دور رکھنے کی تمام ممکن کوشش کرے گی۔ جیسا کہ میں نے اپنے ایک کالم میں کہا تھا اور اب بھی وہ بات دہراتا ہوں کہ بی این ایم کی قیادت کو یہ چیلنج قبول کرکے پارٹی کی تنظیم کو وسعت دینے کے لئے جدوجہد تیز کرنا ہوگا۔ کیوں کہ بغیر منظم پارٹی کی موجودگی کے ہم شاید ہی دشمن کو شکست دے سکیں اور شاید ہی اپنی ایک منظم ریاست تعمیر کرسکیں۔
سوال*سیاسی حلقوں میں ایک نقطہ نظر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ بی ایس اوآزاد اپنے تنظیمی دائرہ حدود سے تجاویز کرکے سیاسی جماعت کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟
جواب* اگر وہ سیاسی حلقے حدود سے تجاوز کرجانے والی سرگرمیوں کی نشاندہی کریں تو اُن کی مہربانی ہوگی۔ میں نہیں سمجھتا کہ بی ایس او آزاد نے ایسی سرگرمیاں کی ہیں کہ انہیں بی ایس او آزاد کی حدود سے تجاوز کہا جا ئے۔ بلوچستان کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے ، یا ماضی میں جو بھی پالیسی بی ایس او آزاد نے تشکیل دی ہے، اُن پالیسیوں کی طریقہ کار یا وقت کے انتخاب کے حوالے سے بحث تو کیا جا سکتا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بی ایس او آزاد نے اپنے حدود سے تجاوز کیا ہے۔
سوال* ریاست کی جانب سے مارو اور پھینک دو جیسی پالیسیوں میں شدت آنے کے بعد ماس موبلائزیشن کا عمل ایک حد تک جمود کا شکار ہوتا دیکھائی دے رہا ہے، کیا یہ سیاسی جماعتوں کی ناقص حکمت عملی کا نتیجہ نہیں؟
جواب* مارو اور پھینکو پالیسی کے تحت ریاست نے عام لوگ نہیں مارے ہیں بلکہ سارے ریاست کے Selectedٹارگٹ تھے۔ بی این ایم، بی آر پی اور بی ایس او آزاد سمیت دوسری پارٹیوں کے چنیدہ لوگ ریاست نے اس پالیسی کے تحت مارے ہیں، صرف بی ایس او آزاد کے ایک سو سے زائد لیڈر اور کارکنان اسی پالیسی کے تحت مارے گئے ہیں ۔ یہ نقصان کسی مخصوص پارٹی کے لئے نہیں بلکہ بطور مجموعی بلوچ قوم کے لئے ایک بھاری نقصان ہے۔ کئی انجینئرز، پولیٹیکل سائنٹسٹ، ڈاکٹرز اور وکلاء مارے گئے ہیں، کئی انتہائی سنجیدہ سیاسی لیڈر سالوں سے خفیہ اذیت گاہوں میں بند ہیں۔ اسی وجہ سے پارٹیوں کی موبلائزیشن کے عمل میں بھی کمی آئی ہے۔ پاکستان ایک ملٹری اسٹیٹ ہے، لیکن بلوچستان میں ملٹری کی ذہنیت کسی دوسرے خطے کی نسبت بہت ہی زیادہ عیاں ہے۔ریاست کبھی یہ نہیں چاہتی کہ بلوچستان میں کوئی ایسی سیاسی قوت موجود ہو جو کہ عوام کے ساتھ رابطے میں رہے، ایسی قوت نام نہاد پاکستانی پارلیمانی سیاست پر ہی کیوں نہ بھروسہ کرے، لیکن ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ اسی لئے ریاست نے سیاسی تنظیموں کی مقامی قیادت کو یا تو قتل کردیا یا پھر انہیں مجبور کردیا کہ وہ عوام سے اپنی تعلقات محدود کردیں۔ میرے خیال میں ماس موبلائزیشن میں کمی کے عمل کو ہم ناقص حکمت عملیوں کا سبب نہیں کہہ سکتے کیوں کہ ریاست کی جب پوری کوشش یہ ہو کہ سیاسی کارکن قتل کردئیے جائیں تو اس پالیسی کا مقابلہ حکمت عملی میں تبدیلی لائے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ماس موبلائزیشن کے عمل میں موجودہ وقت میں کچھ کمی آئی ہے تو میرے خیال میں یہ تعطل وقتی ہے۔ جو سیاسی پارٹیاں گراؤنڈ میں موجود ہیں وہ نئی حکمت عملیوں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے کیوں کہ عوام سے رابطہ رکھے بغیر کوئی پارٹی یا تحریک طاقت حاصل نہیں کرسکتا۔
سوال*تاریخ کے مطابق دنیا کے تمام تر عظیم انقلابات اور قومی تحریکوں میں سیاسی لٹریچر کا ایک اہم کردار رہا ہے ، لیکن بلوچ قومی تحریک میں برسرپیکار سیاسی اداروں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملتی۔ آپ کی نظر میں یہ بلوچ قومی تحریک میں متحرک اداروں کی کمزوری نہیں؟
جواب* یہ بات درست ہے کہ تمام عظیم انقلابات میں لٹریچر نے اہم کردار ادا کیا لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ لٹریچر یا پروپگنڈے کے محاز نے بہت زیادہ ترقی کرلی ہے۔ Renaissance period
میں پرنٹر کی ایجاد نے پروپگنڈے کے ذرائع کو مخصوص ہاتھوں سے نکال کر عام کردیا، اس کے بعد انقلاب فرانس میں پرنٹر کی استعمال نے پروپگنڈے کے محاز کی ہیئت ہی بدل دی تھی ، یا اس کے بعد سویت یونین کے زمانے میں پرنٹر کے ساتھ ساتھ وژیول پروپگنڈہ نے خیالات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن آج ہم ایک ڈیجیٹل دور میں رہ رہے ہیں، سوشل میڈیا کی ایجاد نے پروپگنڈہ کے ذرائع کو ناقابل کنٹرول بنادیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ مڈل ایسٹ کے کئی ممالک میں وہاں کے باغیوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کس طرح کرکے لوگوں کو اپنی جدوجہد میں شامل کیا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ لٹریچر کی تقسیم کے روایتی طریقے غیر اہم ہوچکے ہیں، لیکن جتنے نئے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں وہ کم وقت اور کم انرجی استعمال کرنے پر بھی زیادہ لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ بلوچ آزادی پسند پروپگنڈہ کے محاز پر اگرچہ کمزور نہیں ہیں لیکن حالیہ پروپگنڈے کا محور عالمی اداروں یا ممالک کی توجہ حاصل کرنا ہے جو کہ غلط نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی میرے خیال میں بلوچ سیاسی پارٹیوں کو بلوچ عوام کو موٹی ویٹ کرنے اور ریاست اور اس کے مقامی نمائندوں کو بے نقاب کرنے کی جانب بھی توجہ دینا چاہیے ۔ میری ذاتی رائے میں ہماری تحریک کے پروپگنڈہ کا فوکس اپنی عوام کو متحرک کرنا ہونا چاہیے کیوں کہ جب تک عوام متحرک نہ ہوں یا عوام غلامی کے نقصانات اور آزادی کے معاشی، سیاسی و دیگر فوائد سے آگاہ نہ ہوں تو وہ تحریک کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کریں گے۔
سوال*کسی بھی قومی تحریک میں دانشوروں کا مثبت اور اہم کردار دیکھنے کو ملتا ہے ۔ کیا آپ موجودہ حالات میں بلوچ دانشوروں کے کردار سے مطمین ہیں؟
جواب* میں مطمئین نہیں ہوں، اور یہی خیال کرتا ہوں کہ سیاسی کارکن’ صورت خان مری جیسے دانشوروں کے علاوہ‘ باقی دانشوروں کی موجودہ کردار سے مطمئین نہیں ہوں گے۔ ہمارے وہ دانشور جنہیں سیاسی صورت حال پر لکھنے کا ہنر آتا ہے، یا وہ ادیب و لکھاری جو حالات کو اپنے ناول یا افسانوں میں لکھ سکتے ہیں، وہ ایساکچھ بھی تخلیق نہیں کررہے ہیں۔صورت خان مری جیسے دانشور بہت ہی کم ہیں جو صورت حال کا تنقیدی نقطہ نظر سے تجزیہ کرتے ہیں۔ ہمارے بہت سے دانشور ’خاص کر ادبی دانشور‘ خود کو آفاقی مخلوق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کہ زمینی حالات انہیں متاثر نہیں کرتے ، جب ان سے کہا جائے کہ وہ موجودہ حالات کو اپنے افسانوں میں، یا ناولوں میں ، آرٹ میں جگہ دیں تو وہ یہ جواب دیں گے کہ ادب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ تو کیا ٹالسٹائی کی جنگ اور امن ایک سیاسی دستاویز نہیں ہے؟ میکسم گورکی کی ناول ’ماں‘ اپنے دور کے سیاسی حالات کی تاریخ نہیں ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی قوم تشکیل کے عمل سے گزر رہا ہو تو اُس قوم کے ہر فرد کی یہ اخلاقی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے انفرادی ہنر کو اجتماعی عمل سے مربوط کرے۔ اس کے برعکس جو کچھ تخلیق ہوتا ہے اگرچہ وہ تخلیقی اعتبار سے اہم ہے، لیکن حقیقت میں وہ وقت کی مناسبت سے غیر ضروری ہے۔ بلوچ کے لئے موجودہ دوراہم ہے، وہ لوگ جو ادب و سیاست کے شعبے سے وابستہ ہیں انہیں چاہیے کہ وہ لکھیں، تنقید کریں، عوام کی رائے اور حالات کا تجزیہ کریں۔ ایک ادیب یا دانشور جب اپنے اردگرد کے حالات سے متاثر نہ ہو تو میں نہیں سمجھتا کہ ایسے سوڈو دانشور
Pseudo-intellectual
ادیب یا سیاسی دانشور جیسے حساس طبقے کے لوگوں میں شمار ہوسکتے ہیں۔
سوال * بلوچ نوجوانوں کیلئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب*میرے خیال میں گزارش کو پیغام کہنا مناسب نہیں ہے۔ میں نوجوانوں سے یہی گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس بات کا ادراک کریں کہ اُن کے ہرعمل کا نقصان اور فائدہ قوم کے لئے ہے۔ بحیثیت ایک غلام قوم کے نوجوان کے، بلوچ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ذاتی زندگیوں سے زیادہ قوم کی مستقبل اور آزادی کے لئے جدوجہد کریں۔ پاکستان کے نصاب شعوری طور پر کامیابی کے معیار کو گھٹا کر دھوکہ بازوں اور کرپٹ لوگوں کو اور پیسے کی فراوانی کو کامیابی کی علامت قرار دیتے ہیں، لیکن بلوچ نوجوانوں کو ایسی سطحی سوچ سے بڑھ کر اجتماعی مفادات کے لئے کام کرنا چاہیے اور نوجوانوں سے میرا یہی مطالبہ ہے کہ وہ سیاست کا باقاعدہ طور پر حصہ بنیں کیوں کہ سیاست کا حصہ بن کر وہ بہتر طور پر اپنے ہنر قومی آزادی کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔

четверг, 12 октября 2017 г.

شیہک جان کی شہادت پر
ایک بہن کے تاثرات
زینت بلوچ
میں اپنے سہیلی کے گھر جا رہی تھی کہ فو ن آیا کہ آج مشکے میں پا کستانی فو ج کا ایک خو نی آپر یشن جا ری ہے دعا کر یں کہ آپر یشن میں بلو چ فرزند محفوظ رہیں۔ انہوں نے کہاکہ سلیمان عرف شیہک جان کی شہادت کی خبر بھی چل رہی ہے۔ شیہک جان ایک مہربان بھائی اور بہادر سرمچار تھا، شیہک جان سے میری ملاقات عرصہ پہلے ہو ئی تھی۔ یہ خبر سن کر مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ گویا میری حواس نے کام چھوڑدیاہو، ایک بہادر اور محبت کر نے والے بھا ئی ہم سے جد ا ہو ا ۔کٹھن راستہ، جنگ زدہ علاقہ ہونے کے باوجود میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے بھا ئی کے گھر ضرور جاؤں گا۔اگلے روز میں اپنی کچھ سہیلیو ں کے ہمراہ مشکے کیلئے روانہ ہوئی ۔ راستے میں ہر جگہ دشمن فوج کی چوکیاں تھیں جن کا کام بلوچوں کی تذلیل کرنا تھامگر کسی نہ کسی طرح ہم شہید شیہک جان کے گھر پہنچے۔میں سوچ میں تھی کہ میں ایک ملاقات میں شیہک جان کو بھول نہیں سکتی اور اس کے غم میں اس طرح نڈھال ہوں تو ان کی ماں اور بہن کا کیا حال ہوگا؟ کیا میں انہیں دیکھ کر اپنے آپ کو سنبھل پاؤں گی کہ نہیں ؟ مگر پہنچ کر اس عظیم ماں کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ایک بہادر بیٹا ان جیسے عظیم مائیں پیدا کرتی ہیں۔ منہ میں مسکراہٹ اور شیہک جان کی بہادری کی تعریفیں کرتے ہوئے ماں نے ہمارے حوصلے بلند کئے ۔ ماں ہمیں تسلی دیتی رہی کہ شہیک جان جسمانی طو ر پر ہما رے ساتھ مو جو د نہیں مگر ان کا حو صلہ اور عظیم مقصد زندہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوا کہ اس جنگ اور شیہک جان کی بہادری نے ناخواندہ ماں کو ایک فلسفہ سکھایا ہوا تھا۔ وہ عظیم مقصد کیلئے امر ہو گئے، ہر خوشی قربان کی مگر وطن کا سودا نہ کیا۔
چند دن بعد شیہک جان کی موت سے لمحہ پہلے کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس نے شیہک جان کو بلوچ قوم کے دل میں ایک درجہ اور بلند کر دیا، کیونکہ جس حالت میں لوگ ڈاکٹر ، علاج اور دوا کی مانگ کرتے ہیں شیہک جان نے اپنا پیغام ریکارڈ کرنے کی مانگ کی اور دشمن کا مقابلہ اور اتفاق پیدا کرنے کی تلقین کی۔اس ویڈیو کو کیمرے میں بند کرنے والا بھی کوئی اور نہیں شیہک جان کا بھائی ہے جو اپنے بہادر بھائی کو فخر سے الوداع کر رہا ہے ۔دو بھائی وطن کی دفاع میں شہید مگر تیسرے بھائی کے حوصلے نہیں ڈگمگا رہے تھے ۔ یہی حوصلہ پوری قوم کو حوصلہ دیتا ہے ۔
ہر مظلوم قوم میں ایسے فر زند ہو تے ہیں
جو قوم کی عزت و علامت بن جاتے ہیں
شیہک جان کا نام تاریخ میں امر ہے، اس حوصلے نے دشمن کے حوصلوں کو پست کردیا اور دشمن نے ایک سوشل ویب سائٹ کا اکاؤنٹ ہیک کرکے شیہک جان کی ویڈیو اور اکاؤنٹ بلاک کردی۔شیہک جان کی دشمن سے جوانمردانہ لڑائی بلوچوں کیلئے مشعل راہ ہے ۔
آج ہماری ماؤں نے ہمیں سکھا دیا کہ وطن کی دفاع میں سرمچار کی شہادت پر کسی کو غمگین نہیں بلکہ فخر ہونا چاہیے ۔ مجھے اپنے بہادر بھائی شیہک جان اور دوسرے شہیدوں پر فخر ہے