Powered By Blogger

пятница, 27 октября 2017 г.

بی ایس او آزاد کے سیکرٹری جنرل عزت بلوچ کا انٹرویو

’’عزت بلوچ بی ایس او آزاد کے موجودہ سیکرٹری جنرل ہیں۔ انہوں نے 2009 میں تنظیم میں شموولیت اختیار کی۔ 2010 سے 2012 تک زونل صدر کے عہدے پر رہے۔2012سے جون 2015 تک مرکزی کمیٹی کے رکن رہے۔ جون 2015 سے نومبر 2015 تک تنظیم کے مرکزی انفارمیش سیکٹری رہے۔ 2015کو ہونے والے کونسل سیشن میں بی ایس او آزاد کے سیکٹری جنرل  منتخب ہوئے۔‘‘ ان سے یہ انٹرویوسگار کمیٹی کی جانب سے لیا گیا ہے۔
سوال*بحیثیت ایک طلباء لیڈر آپ بلوچ قومی تحریک کی موجودہ صورتحال سے کس حد تک مطمئن ہیں؟
جواب*مطمئن ہونا بزات خود ایک ایسا احساس ہے کو یہ عام طور پر کسی کو کچھ نیا کرنے کے لئے متحرک کرنے کے بجائے موجودہ حالات پر خوش کرتا ہے۔ موجودہ تحریک میں کمزوریاں اگرچہ ہیں، یہ کمزوریاں پارٹی منیجمنٹ کے حوالے سے ہوں، بعض معاملات میں سیاسی ناپختگی یا عدم برداشت جیسی کمزوریاں، لیکن ان سب کے باوجود حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ قومی تحریک کی تمام اکائیوں کی طریقہ جدوجہد میں کوئی اختلاف نہیں، ان کے مقاصد میں بھی کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ مجموعی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو قومی تحریک کی مجموعی صورت حال اطمینان کن ہے۔ لیکن مجھے یہ وضاحت کرنے دیجیے کہ جہاں تک میراخیال ہے تحریک کی اکائیوں میں، بشمول بی ایس او آزاد، بہتری کی گنجائش موجود ہیں۔
سوال*پچھلے کئی سالوں سے ریاست کی جانب سے تعلیمی اداروں پر بندش اور منشیات کے پھیلاؤ جیسے مختلف حربے بلوچ نوجوانوں کے خلاف استعمال کیے جارہے ہیں ، آپ کے نزدیک ان حالات میں نوجوانوں کی مجموعی ذمہ داری کیا بنتی ہے؟ 
جواب* یہ حقیقت ہے کہ ریاست مختلف حربوں کا بیک وقت استعمال کرکے نوجوانوں کو تحریک سے دور کرنے کی کوشش کررہی ہے، چونکہ یہ نوجوان ہی ہیں جو کہ کسی تحریک کا، یا قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ریاست کی ان پالیسیوں کے اثرات ’اگر ریاست کامیاب ہوئی تو‘ آئندہ سالوں میں منفی حوالے سے تحریک اور بلوچ معاشرے پر پڑیں گے۔ جہاں تک سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے کہ نوجوانوں کی زمہ داری کیا بنتی ہے تو میرے خیال میں ان حالات کا مقابلہ صرف نوجوانوں کو نہیں بلکہ معاشرے کے تمام باشعور طبقوں کواس صورت حال کے خلاف مزاحم ہوکر ہی ان حربوں کا ناکام بنا نے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ریاست میڈیا اور پروپگنڈہ کے دوسرے ذرائع کا استعمال کرکے ایسی تمام سازشوں کو چھپا رہی ہے جو کہ بتدریج بلوچ معاشرے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ بلوچ سیاسی پارٹیوں اور معاشرے کے باشعور طبقے کی زمہ داری ہے کہ وہ ان حربوں کو بے نقاب کریں۔ جب عام لوگ ان حربوں اور ان سے پہنچنے والے نقصانات سے آگاہ ہوجائیں گے تو وہ ان کے خلاف جاری مذاحمت میں شامل ہوجائیں گے۔
سوال*بعض لوگوں کے نزدیک ان حالات میں بی ایس او آزاد وہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے جو وہ ماضی میں ادا کرتا رہا ہے، مثلاً جلسہ جلوس ، سیمینار، مظاہرے وغیرہ۔ آپ کی نظر میں یہ تنظیم کی ناکامی ہے یا موجودہ حالات کے تقاضے ؟
جواب* میں نہیں سجھتا کہ بی ایس او آزاد جلسہ جلوس یا سیمینارز منعقد نہیں کرسکتا۔ بی ایس او آزاد کے خلاف کریک ڈاؤن اور ایک سو سے زائد لیڈرز اور کارکنوں کی شہادت کے باوجود بی ایس او آزاد نوجوانوں کی ایک ایسی قوت ہے جو کہ گراؤنڈ میں موجود ہے۔ جلسوں یا سیمنارز کے انعقاد ہونے یا نہ ہونے سے کسی تنظیم کو کامیاب یا ناکام نہیں قرار دیا جا سکتا۔ بی ایس او آزاد نے پالیسی کے تحت جلسے اور سیمینار منعقد کرنے کی سرگرمیوں کو محدود کررکھا ہے ۔ اگر آپ کو یاد ہو تو چند مہینوں پہلے تک بی ایس او آزاد نے کوئٹہ اور کراچی میں مظاہرے کیے ہیں، سیمینار بھی منعقد کیا ہے۔ چونکہ یہ سیاسی سرگرمیوں کا حصہ ہیں ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن آج کے زمانے میں بہتر ذرائع موجود ہیں جو کہ جلسوں یا دوسرے روایتی ذرائع کے استعمال سے زیادہ پراَثر ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر روایتی طریقے کی سرگرمیاں محدود ہیں تو ان کی بنیادی وجہ حالات کے نئے تقاضے اور نئی ضروریات ہیں۔
سوال*لیکن کچھ حلقوں کے نزدیک بی ایس او آزاد موجودہ سیاسی منظر نامے سے یکسر غائب ہے ، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ 
جواب* اگر کسی کا یہ خیال ہے تو میرے خیال میں وہ بلوچستان کی موجودہ صورت حال سے ناواقف ہے۔ بی ایس او آزاد کسی بھی زاویے سے منظر عام سے غائب نہیں ہے، تنظیم کے جتنے ذیلی اور مرکزی ادارے ہیں سب متحرک ہیں، تنظیم کا لٹریچر اور سیاسی حالات کے حوالے سے موقف وقتاََ فوقتا میڈیا میں شائع ہورہا ہے۔ جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں، میں نے زکر کیا کہ بی ایس او آزاد نے جلسوں اور سیمنارز کے انعقاد کو شعوری طور پر محدود کررکھا ہے، اگر کسی کے نزدیک جلسہ منعقد نہ کرنے یا سیمنار منعقد نہ کرنے کا مطلب سیاسی منظر نامے سے غائب ہونا ہے تو میرے خیال میں وہ شخص بالکل غلط ہے۔
سوال* بلوچ قومی تحریک میں ماس پارٹی کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ 
جواب* صرف ہماری تحریک میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام ملکوں یا تحریکوں میں منظم پارٹیوں کی موجودگیوں کے فوائد اُن قوموں یا تحریکوں کے لئے مسلمہ ہیں۔ لیکن بلوچ جیسی کمزور قوموں کی طاقت کویکجا کرنے کے لئے پارٹی کی ضرورت و اہمیت دوگنی ہوجاتی ہے۔ اگر ہم تاریخی حوالے سے دیکھیں تو بھی یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ ماضی میں تحریکوں کی ناکامی، یا خاموشی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک پارٹی کی عدم موجودگی بھی تھی۔ میرے خیال میں بلوچ قومی تحریک میں اب تک کوئی ایسی پارٹی موجود نہیں جسے ہم صحیح معنوں میں ماس پارٹی کہہ سکیں یا اس حوالے سے اس کے کردار پر بحث کریں۔ البتہ بی این ایم موجود ہے جو کہ ابھی تک ایک ڈھانچہ ہے، اس ڈھانچے میں گوشت بھرنے اور اسے صحت مند پارٹی بننے میں ابھی تک محنت درکار ہے،بی این ایم کے بانی چیئرمین، مرکزی سیکرٹری جنرل اور دوسرے کئی اہم رہنماء شہید کردئیے گئے ہیں، پارٹی کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن خود اس بات کا اظہار ہے کہ ریاست پارٹی کو عوام سے دور رکھنے کی تمام ممکن کوشش کرے گی۔ جیسا کہ میں نے اپنے ایک کالم میں کہا تھا اور اب بھی وہ بات دہراتا ہوں کہ بی این ایم کی قیادت کو یہ چیلنج قبول کرکے پارٹی کی تنظیم کو وسعت دینے کے لئے جدوجہد تیز کرنا ہوگا۔ کیوں کہ بغیر منظم پارٹی کی موجودگی کے ہم شاید ہی دشمن کو شکست دے سکیں اور شاید ہی اپنی ایک منظم ریاست تعمیر کرسکیں۔
سوال*سیاسی حلقوں میں ایک نقطہ نظر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ بی ایس اوآزاد اپنے تنظیمی دائرہ حدود سے تجاویز کرکے سیاسی جماعت کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟
جواب* اگر وہ سیاسی حلقے حدود سے تجاوز کرجانے والی سرگرمیوں کی نشاندہی کریں تو اُن کی مہربانی ہوگی۔ میں نہیں سمجھتا کہ بی ایس او آزاد نے ایسی سرگرمیاں کی ہیں کہ انہیں بی ایس او آزاد کی حدود سے تجاوز کہا جا ئے۔ بلوچستان کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے ، یا ماضی میں جو بھی پالیسی بی ایس او آزاد نے تشکیل دی ہے، اُن پالیسیوں کی طریقہ کار یا وقت کے انتخاب کے حوالے سے بحث تو کیا جا سکتا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بی ایس او آزاد نے اپنے حدود سے تجاوز کیا ہے۔
سوال* ریاست کی جانب سے مارو اور پھینک دو جیسی پالیسیوں میں شدت آنے کے بعد ماس موبلائزیشن کا عمل ایک حد تک جمود کا شکار ہوتا دیکھائی دے رہا ہے، کیا یہ سیاسی جماعتوں کی ناقص حکمت عملی کا نتیجہ نہیں؟
جواب* مارو اور پھینکو پالیسی کے تحت ریاست نے عام لوگ نہیں مارے ہیں بلکہ سارے ریاست کے Selectedٹارگٹ تھے۔ بی این ایم، بی آر پی اور بی ایس او آزاد سمیت دوسری پارٹیوں کے چنیدہ لوگ ریاست نے اس پالیسی کے تحت مارے ہیں، صرف بی ایس او آزاد کے ایک سو سے زائد لیڈر اور کارکنان اسی پالیسی کے تحت مارے گئے ہیں ۔ یہ نقصان کسی مخصوص پارٹی کے لئے نہیں بلکہ بطور مجموعی بلوچ قوم کے لئے ایک بھاری نقصان ہے۔ کئی انجینئرز، پولیٹیکل سائنٹسٹ، ڈاکٹرز اور وکلاء مارے گئے ہیں، کئی انتہائی سنجیدہ سیاسی لیڈر سالوں سے خفیہ اذیت گاہوں میں بند ہیں۔ اسی وجہ سے پارٹیوں کی موبلائزیشن کے عمل میں بھی کمی آئی ہے۔ پاکستان ایک ملٹری اسٹیٹ ہے، لیکن بلوچستان میں ملٹری کی ذہنیت کسی دوسرے خطے کی نسبت بہت ہی زیادہ عیاں ہے۔ریاست کبھی یہ نہیں چاہتی کہ بلوچستان میں کوئی ایسی سیاسی قوت موجود ہو جو کہ عوام کے ساتھ رابطے میں رہے، ایسی قوت نام نہاد پاکستانی پارلیمانی سیاست پر ہی کیوں نہ بھروسہ کرے، لیکن ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ اسی لئے ریاست نے سیاسی تنظیموں کی مقامی قیادت کو یا تو قتل کردیا یا پھر انہیں مجبور کردیا کہ وہ عوام سے اپنی تعلقات محدود کردیں۔ میرے خیال میں ماس موبلائزیشن میں کمی کے عمل کو ہم ناقص حکمت عملیوں کا سبب نہیں کہہ سکتے کیوں کہ ریاست کی جب پوری کوشش یہ ہو کہ سیاسی کارکن قتل کردئیے جائیں تو اس پالیسی کا مقابلہ حکمت عملی میں تبدیلی لائے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ماس موبلائزیشن کے عمل میں موجودہ وقت میں کچھ کمی آئی ہے تو میرے خیال میں یہ تعطل وقتی ہے۔ جو سیاسی پارٹیاں گراؤنڈ میں موجود ہیں وہ نئی حکمت عملیوں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے کیوں کہ عوام سے رابطہ رکھے بغیر کوئی پارٹی یا تحریک طاقت حاصل نہیں کرسکتا۔
سوال*تاریخ کے مطابق دنیا کے تمام تر عظیم انقلابات اور قومی تحریکوں میں سیاسی لٹریچر کا ایک اہم کردار رہا ہے ، لیکن بلوچ قومی تحریک میں برسرپیکار سیاسی اداروں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملتی۔ آپ کی نظر میں یہ بلوچ قومی تحریک میں متحرک اداروں کی کمزوری نہیں؟
جواب* یہ بات درست ہے کہ تمام عظیم انقلابات میں لٹریچر نے اہم کردار ادا کیا لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ لٹریچر یا پروپگنڈے کے محاز نے بہت زیادہ ترقی کرلی ہے۔ Renaissance period
میں پرنٹر کی ایجاد نے پروپگنڈے کے ذرائع کو مخصوص ہاتھوں سے نکال کر عام کردیا، اس کے بعد انقلاب فرانس میں پرنٹر کی استعمال نے پروپگنڈے کے محاز کی ہیئت ہی بدل دی تھی ، یا اس کے بعد سویت یونین کے زمانے میں پرنٹر کے ساتھ ساتھ وژیول پروپگنڈہ نے خیالات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن آج ہم ایک ڈیجیٹل دور میں رہ رہے ہیں، سوشل میڈیا کی ایجاد نے پروپگنڈہ کے ذرائع کو ناقابل کنٹرول بنادیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ مڈل ایسٹ کے کئی ممالک میں وہاں کے باغیوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کس طرح کرکے لوگوں کو اپنی جدوجہد میں شامل کیا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ لٹریچر کی تقسیم کے روایتی طریقے غیر اہم ہوچکے ہیں، لیکن جتنے نئے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں وہ کم وقت اور کم انرجی استعمال کرنے پر بھی زیادہ لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ بلوچ آزادی پسند پروپگنڈہ کے محاز پر اگرچہ کمزور نہیں ہیں لیکن حالیہ پروپگنڈے کا محور عالمی اداروں یا ممالک کی توجہ حاصل کرنا ہے جو کہ غلط نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی میرے خیال میں بلوچ سیاسی پارٹیوں کو بلوچ عوام کو موٹی ویٹ کرنے اور ریاست اور اس کے مقامی نمائندوں کو بے نقاب کرنے کی جانب بھی توجہ دینا چاہیے ۔ میری ذاتی رائے میں ہماری تحریک کے پروپگنڈہ کا فوکس اپنی عوام کو متحرک کرنا ہونا چاہیے کیوں کہ جب تک عوام متحرک نہ ہوں یا عوام غلامی کے نقصانات اور آزادی کے معاشی، سیاسی و دیگر فوائد سے آگاہ نہ ہوں تو وہ تحریک کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کریں گے۔
سوال*کسی بھی قومی تحریک میں دانشوروں کا مثبت اور اہم کردار دیکھنے کو ملتا ہے ۔ کیا آپ موجودہ حالات میں بلوچ دانشوروں کے کردار سے مطمین ہیں؟
جواب* میں مطمئین نہیں ہوں، اور یہی خیال کرتا ہوں کہ سیاسی کارکن’ صورت خان مری جیسے دانشوروں کے علاوہ‘ باقی دانشوروں کی موجودہ کردار سے مطمئین نہیں ہوں گے۔ ہمارے وہ دانشور جنہیں سیاسی صورت حال پر لکھنے کا ہنر آتا ہے، یا وہ ادیب و لکھاری جو حالات کو اپنے ناول یا افسانوں میں لکھ سکتے ہیں، وہ ایساکچھ بھی تخلیق نہیں کررہے ہیں۔صورت خان مری جیسے دانشور بہت ہی کم ہیں جو صورت حال کا تنقیدی نقطہ نظر سے تجزیہ کرتے ہیں۔ ہمارے بہت سے دانشور ’خاص کر ادبی دانشور‘ خود کو آفاقی مخلوق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کہ زمینی حالات انہیں متاثر نہیں کرتے ، جب ان سے کہا جائے کہ وہ موجودہ حالات کو اپنے افسانوں میں، یا ناولوں میں ، آرٹ میں جگہ دیں تو وہ یہ جواب دیں گے کہ ادب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ تو کیا ٹالسٹائی کی جنگ اور امن ایک سیاسی دستاویز نہیں ہے؟ میکسم گورکی کی ناول ’ماں‘ اپنے دور کے سیاسی حالات کی تاریخ نہیں ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی قوم تشکیل کے عمل سے گزر رہا ہو تو اُس قوم کے ہر فرد کی یہ اخلاقی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے انفرادی ہنر کو اجتماعی عمل سے مربوط کرے۔ اس کے برعکس جو کچھ تخلیق ہوتا ہے اگرچہ وہ تخلیقی اعتبار سے اہم ہے، لیکن حقیقت میں وہ وقت کی مناسبت سے غیر ضروری ہے۔ بلوچ کے لئے موجودہ دوراہم ہے، وہ لوگ جو ادب و سیاست کے شعبے سے وابستہ ہیں انہیں چاہیے کہ وہ لکھیں، تنقید کریں، عوام کی رائے اور حالات کا تجزیہ کریں۔ ایک ادیب یا دانشور جب اپنے اردگرد کے حالات سے متاثر نہ ہو تو میں نہیں سمجھتا کہ ایسے سوڈو دانشور
Pseudo-intellectual
ادیب یا سیاسی دانشور جیسے حساس طبقے کے لوگوں میں شمار ہوسکتے ہیں۔
سوال * بلوچ نوجوانوں کیلئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب*میرے خیال میں گزارش کو پیغام کہنا مناسب نہیں ہے۔ میں نوجوانوں سے یہی گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس بات کا ادراک کریں کہ اُن کے ہرعمل کا نقصان اور فائدہ قوم کے لئے ہے۔ بحیثیت ایک غلام قوم کے نوجوان کے، بلوچ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ذاتی زندگیوں سے زیادہ قوم کی مستقبل اور آزادی کے لئے جدوجہد کریں۔ پاکستان کے نصاب شعوری طور پر کامیابی کے معیار کو گھٹا کر دھوکہ بازوں اور کرپٹ لوگوں کو اور پیسے کی فراوانی کو کامیابی کی علامت قرار دیتے ہیں، لیکن بلوچ نوجوانوں کو ایسی سطحی سوچ سے بڑھ کر اجتماعی مفادات کے لئے کام کرنا چاہیے اور نوجوانوں سے میرا یہی مطالبہ ہے کہ وہ سیاست کا باقاعدہ طور پر حصہ بنیں کیوں کہ سیاست کا حصہ بن کر وہ بہتر طور پر اپنے ہنر قومی آزادی کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий