Powered By Blogger

понедельник, 30 июня 2014 г.


انہوں نے اپنے اقدار اور اصولوں پر عمل کرنے کی بہت بڑی قیمت اداکی
Mir Muhammad Ali Talpur
نواب خیر بخش مری 29 فروری 1928 کو پیدا ہوئے، انکا نام انکے نامور دادا کی وساطت سے رکھا گیا جنہوں نے پہلی عالمی جنگ کیلئے مریوں کو بطور ایندھن فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا اور اسکے لئے انہوں نے 1918ءمیں برطانیہ کے خلاف گمبز اور ہرب کے تاریخی لڑائیاں لڑیں۔
وہ سردار دودا خان کی بھی اولاد میں سے تھے جن کے تحت مریوں نے مئی 1840 میں سارتاف کے علاقے میں لیفٹیننٹ والپول کلارک کی قیادت میں برطانوی فوجیوں کا مکمل صفایا کیا تھا۔ پھر اگست 1840 میں، میجر کلبورن کے تحت ایک بڑی فوج کاہان کی امداد کو بھیجی گئی لیکن نفسک سے ہی اسکا راستہ تبدیل کرلیا گیا۔
بھوالان کے بعد خیر بخش آٹھویں مری سردار تھے جنہیں قبیلے کیلئے خدمات کے عوض سرداری سونپی گئی تھی۔ لوگوں کی اکثریت اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ بلوچ کے دل میں آزادی کیلئے ایک والہانہ محبت موجود ہے اور آزادی کیلئے ان کی جدوجہد خالصتاً اپنی ہے۔
ایک بچہ جو ’پلنگیوں‘ یا غیر ملکیوں کیخلاف مریوں کی غیر معمولی بہادری کے قصے سن سن کر جوان ہوا ہو تو وہ اور کچھ بن ہی نہیں سکتا ماسوائے ایک کٹر آزادی پسند کے۔ بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ دعویٰ ہے کہ نواب صاحب نے بہت دیر بعد ایک آزاد بلوچستان کے خیال کو قبول کیا تھا؛ لیکن یہ بات صریحاً غلط ہے۔
برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ ڈیوس نے 1951 میں ان سے پوچھا، ”خیر بخش آپ حکومت کو اپنے بدبخت لوگوں کو ترقی دینے کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟“ انہوں نے جواب دیا، ”ڈیوس، اگر ہٹلر نے برطانیہ پر قبضہ کرلیا ہوتا اور آپ سے یہ کہا جاتا کہ آپ اپنے بدبخت لوگوں کو ترقی دینے میں جرمنوں کی مدد کریں، تو آپ کا رد عمل کیا ہوتا؟“ ڈیوس نے جواب دیا، ”مجھ پر خدا کی لعنت ہو اگر میں پھر کبھی آپ سے یہ سوال پوچھوں۔“
وہ دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن استحصال کیخلاف انکی مسلح مزاحمت ساتھ ساتھ جاری رہی۔ بلوچ عوام کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک واحد شخص تھے جو کہ مسلسل ایک آزاد بلوچستان کا مطالبہ کرتے رہے جبکہ دیگر رہنماءبہ آسانی سمجھوتے کرتے رہے۔
مارشل لاءحکام نے 1958 میں بندوقیں جمع کرانے کا حکم دیا۔ دیگر سرداروں نے احتجاج تو کیا مگر حکم بجا لائے جبکہ نواب صاحب نے انہیں جمع کرانے سے پہلے آری سے انکے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ انکے لئے کوئی بھی عمل ہتھیار ڈالنے سے زیادہ شرمناک نہیں تھا؛ انھوں نے اپنی زندگی میں اس بات کی تبلیغ بھی کی اور اس پر عمل بھی کرتے رہے۔
اسیری کے دوران انھیں کبھی بھی کسی ہسپتال میں داخل نہیں کیا گیا اور نہ کبھی انھوں نے شکایت کی۔ حتیٰ کہ وہ اپنے کپڑے بھی خود دھویا کرتے۔ دستبرداری اور کمزوری کا اظہار انکا خاصہ نہیں تھا۔ وہ اپنے رویوں میں غیرمصالحانہ تھے۔ دسمبر 2005 میں پرویز مشرف کے کوہلو دورے کے دوران ایک راکٹ حملے کے بعد، ان کے بیٹے بالاچ نے ان کی رائے معلوم کرنی چاہی تو انہوں نے پوچھا: ”تمہارا نشانہ کیونکر خطاءہوا؟“
انہوں نے اپنے اصول دنیاوی آسائشوں سے زیادہ محبوب رکھے اور اس چیز نے انھیں سمجھوتے کرنے سے بچنے میں مدد دی۔ انہوں نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ وہ اب بھی افغانستان سے واپسی کے بعد لیے گئے قرض کی ادائیگی کر رہے ہیں اور اگر انکے پاس پیسے ہوتے تو وہ اپنے داماد کے گھر میں نہ رہتے۔ دنیاوی آسائش کے عوض اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے نے انھیں بلوچ آزادی کی جدوجہد کا دائمی علامت بنا دیا۔ انہوں نے اپنے اقدار اور اصولوں پر عمل کرنے کی بہت بڑی قیمت اداکی۔
میں ان چند خوش قسمت افراد میں سے ہوں جنکے ساتھ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ میں ہمیشہ اپنے مضامین انہیں بھیجا کرتا اور وہ ان میں خامیوں کی نشاندہی کرتے۔ وہ مجھ سے ان اردو اور فارسی اشعار کو لکھ بھیجنے کا کہتے جنکا حوالہ میں دیا کرتا۔ وہ نہایت مہربان اور کریم النفس انسان تھے؛ وہ کبھی بھی مجھ سے پہلے کمرے میں داخل نہ ہوتے، اور اصرار کرتے کہ میں آگے چلوں، اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی مان لیا کرتا۔ میں ان کی موجودگی میں ہمیشہ اس طالب علم کی طرح بیٹھتا جوکہ اپنے سب سے زیادہ محترم استاد کی تعظیم میں سہمے ہوئے انداز میں بیٹھے۔
نواب صاحب کی مرغے لڑانے کی محبت افسانوی تھی اور ان کی گفتگو میں بھی انکا چھڑکاو¿ ہوتا۔ انہوں نے ایک بار مجھ سے اور میرے بھتیجوں سلیمان اور زبرکش ٹالپر کیساتھ ڈیڑھ گھنٹے تک مرغوں کی یادگار لڑائیوں کے قصے بڑے جوش و ولولے کیساتھ سنائے؛ ان کی تیز یادداشت نے مجھے ششدر کردیا تھا۔ وہ اکثر اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کیلئے مرغ بازی کی اصطلاحات کا استعمال کرتے۔ وہ ان تمام لوگوں کا احترام کرتے جو لڑسکتے اور کوئی لڑائی منظم کرسکتے۔
وہ ایک برف پوش آتش فشاں کی طرح اتاہ تھے۔ وہ کبھی بھی اپنے جذبات کو اونچی آواز میں بولنے سے یا سخت لہجے میں یا رقیق القلبی سے بات کرکے مجروح نہیں کیا کرتے۔ وہ ہر طرح کے حالات میں حیرت انگیز تحمل کا مظاہرہ کرتے۔ اپنے 43 سالہ رفاقت کے دوران میں خوش قسمت تھا کہ ان سے سینکڑوں بار ملا لیکن کبھی بھی انہیں ناراض ہوتے یا نامناسب الفاظ کا استعمال کرتے نہیں دیکھا۔ میں نے صرف ایک بار 1988ءمیں انہیں لشکر گاہ میں مریوں سے خطاب کے دوران اشکبار ہوتے دیکھا تھا۔ تاہم انکی آنکھیں اپنے شہید بیٹے بالاچ کے بارے میں بات کرتے ہوئے نم ہوجاتیں۔ وہ اپنے جذبات کو چھپاتے تھے مگر انہیں دبا کر نہیں رکھتے۔
انہیں اپنے لوگوں سے انتہائی محبت تھی اور وہ اپنے دشمنوں سے شدید نفرت کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں لوگوں کی بہت فکر تھی اور وہ ہمیشہ کہا کرتے کہ اگر آزادی لوگوں کو انصاف دلانے میں ناکام رہی تو یہ بے معنی ہوگی۔
وہ ایک علامتی والد، ایک رول ماڈل، ایک فلسفی، ایک مدبر اور بلوچ میں جو کچھ بھی اچھا ہے، وہ اس سب کی بہترین مثال تھے۔ انہوں نے نجات اور آزادی کیلئے بلوچ میں موجود غالب خصوصیت کی نمائندگی کی۔ ان کی رحلت ایک ناقابل تلافی نقصان ہے اور ان کے حامی اور پیروکار کبھی بھی انکے غم کو بھلا نہیں پائیں گے۔
یہاں کوئی بھی ایسا نہیں جو انکی جگہ لے سکے، جس سے بلوچ اس نقصان کے درد کو طاقت کے ایک منبع میں تبدیل کرسکیں تاکہ وہ بھرپور طریقے سے اس جدوجہد جاری رکھیں جسکے لئے انہوں نے اپنی پوری زندگی وقف کررکھی تھی۔ اگر وہ یہ کام کر پائیں تو یہ جدید دور کے عظیم ترین بلوچ کیلئے بہترین خراج عقیدت ثابت ہوگی۔
مصنف کا بلوچ تحریک کیساتھ 1971 کے بعد سے ایک تعلق ہے۔
بشکریہ: ڈان، اتوار، 29 جون، 2014

четверг, 19 июня 2014 г.

Mrs. KhairBaksh Marri says, she is in anguish she was not allowed to view her husband before he was buried.

***اج تاریخ ایک مسخ شده نواب سے روح بروح.
اه!!!!!!! باکستانی نواب مری.
*نا باپ کی میت کی عزت
*نا مان کو اخری دیدار کی اجازت
*نا قباهیلی رسم نا قومی سوچ

چنگیز مری کی ترجیحات؛ چنگیزمری کے ہمراہ یہ لوگ وہی لوگ ہیں جو بلوچ آزادی کے خلاف نہ صرف زہر اگلتے رہے بلکہ عملاً بھی دشمن کا سات دیتے آرہے ہیں، آپ اس تصویر میں دیکھ سکتے ہیں، موصوف کی دستار بندی میں وہ لوگ شریک تھے جو پاکستانی فوج اور حکومت کے زیر نظر لوگ ہیں، فوج اور آئی ایس آئی سے ان کے اچھے تعلقات ہیں، میر ہزار رحمکانی، رب نواز ژنگ وغیرہ سرکاری کاسہ لیس مری قبیلے کے معتبر نہیں بلکہ پاکستان کے مہرے ہیں۔
 

воскресенье, 15 июня 2014 г.

محترم حفیظ حسن آبادی، حسن جانان، اسلم بلوچ، صادق رئیسانی، سلام صابر،اور صہیب مینگل صاحبان سے گزارش 
ستر کی دہائی کی مسلح جدوجہد کے دوران بلوچ سرزمین کی آذادی کی خاطر دشمن فوج سے لڑتے ہوئے مری قبائل کے سینکڑوں فرزند شہید ہوئے اور کئی لاپتہ کردئیے گئے جن کا آج تک کوئی سراغ نہ مل سکا. اس جدو جہد کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ایک مضبوط پروپیگنڈے کی ذریعے بلوچ قومی تحریک آذادی کےبجائےاسے صرف مری قبیلے کا مسلہ قرار دیا. لیکن خیربخش مری نے اپنے دانائی سے دشمن کے اس پروپیگنڈے کا (بغیر فیس بک و ٹوئٹر اور میڈیا کے) اس طرح جواب دیا کہ تاریخ اسےمری قبیلے کی مسلہ نہیں بلکہ بلوچ جدوجہد کے نام سے یاد کرتی ہے.
بابا کی رہنمائی میں بلوچ نواجوانوں کی شرکت اور بلوچ تحریک کی مقبولیت کو دیکھ کر پاکستانی اسٹیبلشمنت نے اس بار مری قبیلے کی بجائے اسے تین سرداروں کا مسلہ قرار دیا. اور یہ تاثر پیدا کیا کہ یہ سردار و نواب اپنے قبیلے کے غریب لوگوں کو فوج کے خلاف لڑارہے ہیں لیکن شہید نواب اکبر خان بگٹی و بالاچ مری نے میدان جنگ میں شہادت نوش کر کے دشمن کو یہ پیغام بھیجا کہ حقیقی بلوچ رہبر پنجاب کے چوہدری نہیں جو گھر بیٹھ کر اپنے تنخوا خور فوجیوں کو لڑاتے ہیں. تو دوسری طرف مکران کے غیور بلوچوں نے دشمن پر تابڑ توڑ حملے کرکے دشمن کے اس پروپنگنڈے کو بھی ناکام بنادیا کہ یہ صرف تین سرداروں کا مسلہ ہے
پاکستان کی بلوچستان پر اپنی کمزور ہوتی گرفت اور ناکامی کو چھپانے کے لئے ایک اور پروپیگنڈے کا سہارا لینا پڑا. کہ بلوچستان کی صرف کچھ ضلعوں میں امن و امان کا مسلہ ہے لیکن جب گوادر پر کسی بلوچ کی شہادت کا بدلہ کوہلو میں لیا گیا ڈیربگٹی پر بمباری کا جواب خضدار میں دیا گیامشکے پر حملے کا جواب چمالنگ میں دے کر بلوچ نے دشمن پر یہ واضح کردیا کہ یہ صرف چند علاقوں کا مسلہ نہیں پورے بلوچستان کا مسلہ ہے.
اور اس بیچ بابا مستقل مزاجی سے قوم کی رہنمائی و بلوچ نوجوانوں کی تربیت کرتے رہے اور واضح پیغام تھا کہ ،، بندوق ہاتھ سے گرنے نہ پائے کیونکہ دشمن کے ہاتھ میں بھی بندوق ہے اور اس وحشی سے صرف طاقت کی ذریعے ہی مفاہمت ہوسکتی ہے،،
ریاست کو اپنے تمام حربے و پروپیگنڈے ناکام ہوتے دکھائی دئیے اور آخری حربے کے طور یہ مہم چلائی کہ ان پڑھ اور بھٹکے ہوئے کچھ نوجوان ہیں جو حکومت کے خلاف پہاڑوں پر گئے ہیں لیکن شہید غلام محمد بلوچ، شہید پروفیسر صبا دشتیاری، علی شیر کرد، ایڈوکیٹ زمان مری، ڈاکٹر خالد اور دیگر شہدا نے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا تو دوسری طرف ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ، ڈاکٹر دین محمد، استاد واحد قمبر، استاد عبدالنبی، چیرمیں ذاہد بلوچ، ذاکر مجید بلوچ اور لطیف جوہر بلوچ نے دشمن کو ایک واضح پیغام بھیجا کہ اس تحریک میں ان پڑھ نہیں بلکہ تعلیم یافتہ بلوچ شامل ہیں اور یہ نہ تو بھٹکے ہوئے ہیں اور نہ ہی کسی سے ناراض ہیں. بلوچ شعوری طور پر اپنے وطن کی آذادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں.
بابائے بلوچ نواب خیر بخش مری کی جسد خاکی کو بلوچ خواتین و فرزندوں نے جس طرح دشمن سے چھین کر قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا. بابا کی تدفین کے موقع پر ہر مکتبہ فکر، مرد و خواتین، بچے، بوڑھے اور جوان، قبائل کے زنجیروں سے آذاد، جب ہزاروں کا مجمع بابا کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے تو بابا نے دشمن پر یہ واضح کردیا کہ میں اپنے مشن میں کامیاب ہوگیا، میں قبیلوں میں بٹے اسے ایک قوم ہونے کا شعور بیدار کرگیا۔ اب تم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے. ایک قوم کے ہزاروں افراد کے جم غفیر کو دیکھ کر دشمن نے یقیقنا نفسیاتی و اخلاقی شکست تسلیم کر لی ہے. بابائے بلوچ نے بغیر فیس بک و ٹوئٹر کے سٹڈی سرکلز و فردِِ فردِِ ملکر اور بلوچ شہدا نے اپنے جان دے کر ٹکڑوں میں بٹے قبیلوں سے نکال کر ہمیں ایک قوم ہونے کا شعور اجاگر کیا.
بابا کے پاس بلوچوں تک اپنے پیغام بھیجنے کے لیئے فیس بک و دیگر آسان ذرائع میسر نہیں تھے، اسے اپنا پیغام بھیجنے کےلیے مشکل ذرائع استعمال کرنے پڑھتے تھے. لیکن آپ حضرات تو گھر بیٹھے آسانی سے ہر بلوچ کو اپنا پیغام بھیج سکتے ہو. آپ یہ درس کیوں نہیں دیتے کہ سب آزادی پسند تنظیمیں اورجہد کار مقدس ہیں. جس بھی پارٹی میں آپ کا دل کرے شامل ہوجاو لیکن جدوجہد جاری رکھو.
فیس بک و دیگر زرائع پر صرف بی ایل اے و حیربیار ہی کو عقل کُل ظاہر کرکے باقی تمام بلوچ رہنماوں و آذادی پسندوں کی تزہیک و بے حرمتی کرکے اور بلوچ تحریک کے خلاف زہر اگل کر کیا آپ ہمیں پھر سے واپس قبیلوں میں دھکیلنے کی شعوری یا لاشعوری کوشش کررہے ہو؟؟
اگر میرا آرٹیکل آپ کے نظر سے گزرا اور اس نے آپ کے ضمیر تک دستک دی تو مجھے امید ہے کہ آپ بلوچ قوم کی صحیح طریقے سے رہنمائی فرمائیں گے وگرنہ اس کے جواب میں دس آرٹیکل لکھ کر مجھے بھی برا بھلا کہہ کر اس لسٹ میں شامل کروگے. اگر یہی ہوا تو
بقول بابا ،، ذر تا بکالاں دے بازیںِ ،،
شاہ میر رند
میرے دادا نواب خیر بخش مری کی وفات ایک قومی سانحہ ہے
گزین اور مہران مجھے خاندان سے زیادہ غیر سمجھتے ہیں اور اب نواب خیر بخش مری کی فاتحہ خوانی کے لیے بھی مجھے نہیں بتایا گیا،
میرا راستہ وہی ہے جس پر میرے والد بالاچ مری چل کر شہید ہوئے جس مقصد کے لیے میرے دادا نواب خیربخش مری نے اپنی پوری زندگی وقف کی تھی اور جس راہ پر حیربیار مری چل رہے ہیں ،
گزین اور مہران مری نے میرے ساتھ یہ سلوک کر کے خود بھی یہ واضع کردی کہ وہ ہمارے راہ سے متفق نہیں ہیں،
شہید بالاچ مری کے بیٹے روحیل مری 


شہید بالاچ مری کے بیٹے روحیل مری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ میرے دادا نواب خیر بخش مری کی وفات ایک قومی سانحہ ہے اور بلوچ قوم ایک فکری نظریاتی اور قومی حوالے سے عظیم رہبر سے محروم ہوا ہے انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب سے میرے والد بالاچ شہید ہوئے ہمارے خاندان کے لوگ جو دبئی مقیم ہیں جن میں گزین اور مہران مجھے خاندان سے زیادہ غیر سمجھتے ہیں اور اب نواب خیر بخش مری کی فاتحہ خوانی کے لیے بھی مجھے نہیں بتایا گیا۔ میرے دادا کی فاتحہ خوانی کی خبر بھی مجھے حمدان مینگل نے دی کہ آج میرے داد کا فاتحہ ہورا ہے اگر آپ آنا چاہتے ہیں لیکن میر ے چچاؤں گزین اور مہران مری نے مجھے بتانا مناسب نہیں سمجھا حالانکہ میں کافی عرصے سے دبئی میں رہ رہا ہوں لیکن میرے ان دونوں چچاؤں نے مجھے کبھی بھی خاندان کا حصہ نہیں سمجھا ، مجھ سے ہمیشہ غیروں جیسا سلوک روا رکھا ہوا ہے ۔ میرے خاندان میں صرف اور صرف حنزہ اور حیربیار مری کے تعلقات اور رابطے میرے ساتھ ہیں اور باقی خاندان کے سب لوگوں کے رویے انداز اور طرز میرے ساتھ غیروں جیسے ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل کافی عرصہ سے میرے ساتھ ایسا تھا لیکن میں نے کبھی شکوہ اور گلہ نہیں کیا لیکن اب مجھے میرے دادا نواب خیربخش کی فاتحہ خوانی کے لیے نہ بتانا اور مجھے غیر سمجھنا میرے لیے انتہائی دکھ اور پریشانی کا باعث بنا ۔ لیکن آج میں یہاں ایک بات واضع کرنا چاہتا ہوں کہ میرا راستہ وہی ہے جس پر میرے والد بالاچ مری چل کر شہید ہوئے جس مقصد کے لیے میرے دادا نواب خیربخش مری نے اپنی پوری زندگی وقف کی تھی اور جس راہ پر حیربیار مری چل رہے ہیں ، روحیل نے کہا کہ گزین اور مہران مری نے میرے ساتھ یہ سلوک کر کے خود بھی یہ واضع کردی کہ وہ ہمارے راہ سے متفق نہیں ہیں

رمضان مینگل کا نمازِ جنازہ کی امامت کرنے کو بی ایس او سمیت پوری بلوچ قومی تحریک کی حمایت حاصل نہیں تھی، یہ محض ایک اتفاق تھا جو بابا کے جدائی کے غم میں پیدا ہونے والے جذباتی کیفیت کی وجہ سے نظر انداز ہوگیا ، اور احساس ہوتے ہی فوراً اسے روک لیا گیا
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد 

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے ایک وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ دنوں بابا خیر بخش مری کے جنازے کے حوالے سے یہ نقطہ اعتراض اٹھا یا جارہا ہے کہ ایک مذہبی انتہاء پسند گروہ کے مبینہ رہنما رمضان مینگل نے بابا خیربخش کا نمازِ جنازہ کیوں ادا کی،اس حوالے سے وضاحت لازمی سمجھ کر ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد ہو یا کلی طور پر بلوچ قومی تحریک یہ مکمل اعتدال پسند اقتدار پر کاربند ہیں اور کسی بھی فرقہ واریت ، مذہبی منافرت اور انتہاء پسندی کی نفی اور حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔12 جون کو بابا مری کے آخری رسومات کے حوالے سے حالات گومگو کا شکار تھے ۔ جنگیزمری اور ریاستی ادارے بابا مری کا جنازہ ہاکی گراونڈ میں پڑھ کر ان کی جسد خاکی کوھستان مری منتقل کرنا چاہتی تھی ، بی ایس او اازاد کو اس کی خبر ملتے ہی ہم نے بابا مری کے قریبی ساتھی سے رابطہ کر کہ صورت حال معلوم کی تو پتہ چلا کہ شہید بالاچ کی بہن اور بابا مری کی بیٹی کو انکی دیدار سے محروم رکھا ، یہ معلومات بابا کے قریبی دوست کو شہید بالاچ کی والدہ محترمہ نے دی تھی، اس کے بعد بی ایس او آزاد نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم ریاستی ہتکھنڈے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، مستونگ ، نوشکی نیو کاہان سمیت کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں رات بھر رابطے شروع کئے اور صبح تک کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جمع ہونے کی دعوت دی اس بات کا اعلان کسی بھی اخبار میں جاری نہ کرنا بی ایس او کی حکمت علمی تھی۔ اس دوران بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے کال پر بلوچ بہنیں اور وائس فار مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین اور شہید جلیل ریکی کی والد محترم ماما قدیر بلوچ سمیت بلوچ عوام کثیر تعداد میں وہاں جمع ہوئے اور دھرنا دینا شروع کیا ، اس دوران بلوچ عوام نے جرات و بہادری کا مظاھرہ کرتے ہوئے اپنے نظریاتی استاد بابا خیربخش مری کے جسد خاکی کو زبردستی چھین کر اپنے تحویل میں لیکر نیوکاہان منتقل کرکے نمازِ جنازہ سمیت آخری رسومات وہاں ادا کی ،انہوں نے کہا کہ جب بابا مری کو فوجی تحویل سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوکر قافلے کی صورت جس کی تیاری پہلے سے کر چکے تھے روانہ ہوئے تو مری کیمپ بھی اطلاع دی تھی کہ وہ باقی تیاریاں مکمل کریں۔ رمضان مینگل ہمارے دعوت پر نہیں آئے تھے بلکہ چنگیز مری کے ایماء پر ہاکی گراونڈ میں پہلے سے موجود تھے ۔ درحقیقت رمضان مینگل کے ذریعے نمازِ جنازہ پڑھوانے اور فوجی گاڑیوں و ہیلی کاپٹروں میں بابا مری کی جسد خاکی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے پیچھے ریاست کا ایماء شامل تھا وہ یہ ظاھر کرنا چاہتے تھے کہ بابا مری کا ریاست سے کوئی رشتہ تھا اور ساتھ ساتھ وہ مذہبی انتہاء پسند گروہوں سے بلوچ تحریک کو نتھی کرنے کی سعی لاحاصل میں بھی مشغول تھے ۔ جب بابا مری کے جسد خاکی کو نیوکاہان منتقل کیا گیا اور نمازِ جنازہ کی تیاری کی گئی تو اس وقت بلوچ عوام فرطِ غم میں ایک جذباتی کیفیت میں تھی ۔ اس پورے صورتحال میں اس بات کا کسی کو احساس نہیں ہوپایا کہ چنگیز مری اپنی گاڈیوں میں رمضان مینگل کو بھی ساتھ لائے ہوئے تھے اور اس دوران وہ بلا دعوت اچانک سے نمازِ جنازہ کی امامت کرنے لگے ، جب وہاں موجود ہمارے کارکنوں اور بلوچ عوام کو اس بات کا احساس ہوا تو انہوں نے فوراً رمضان مینگل کو روک دیااور اسے دعا تک پڑھنے نہیں دی بعد میں دعا سمیت باقی تمام مذہبی فرائض کی ادائیگی ایک اور بلوچ عالم نے کی ۔ اس طرح اچانک رمضان مینگل کا نمازِ جنازہ پڑھانا در حقیقت اپنے پیچھے ریاستی عزائم رکھتا تھا وہ بلوچ قومی تحریک کو مذہبی انتہاء پسند گروہوں سے نتھی کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ بلوچ تحریک کا ان گروہوں کے ساتھ کوئی تعلق ہے جو صریحاً ایک مغالطہ ہے ، اس سے پہلے بھی سابق ریاستی وزیر داخلہ اور مختلف فوجی اداروں کی جانب سے مسلسل یہ ہرزہ سرائی سامنے آئے تھی ، یہ سب کچھ بلوچ قومی تحریک کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی ایک سازش ہے ، اگر معروضی حالات پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ امر کھل کر سامنے آتی ہے کہ بلوچ قومی تحریک اور ان مذہبی انتہا ء پسند گروہوں کا آپس میں کوئی خوشگوار تعلقات نہیں بلکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کچھ مذہبی انتہاء پسند گروہوں کو بلوچ سیاسی کارکنوں کے اغواء و قتل میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ، اور حال ہی میں بلوچستان کے علاقے پنجگور میں انہی قوتوں کا بلوچ تعلیمی اداروں کو بند کرنا بھی انہی گروہوں کی کارستانی ہے ،لیکن یہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک مخصوص طبقہ فکر کے لوگ بلوچ تحریک کے معتدلانہ فکر سے آشنائی رکھنے کے باوجود اس واقعے کو ایک الگ رنگ دے کر انگلیاں اٹھا رہے ہیں ، اس طرح حقیقتِ حال سے آشنا ئی حاصل کرنے کے بجائے بلوچ تحریک کے بابت فیصلہ صادر کرنا اور اس کے اعتدال پسندی پر سوال اٹھانا درحقیقت ان ریاستی عزائم کی توثیق اور انہیں لاشعوری طور پر کامیاب کرنے کا مترادف ہے ، جس کیلئے یہ سارا منصوبہ بنایا گیا تھا ۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم تمام مذاہب اور فرقوں کا احترام کرتے ہیں ۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر انسان کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے عقیدے پر ایک آزاد ماحول میں آزادی کے ساتھ کاربند رہے ، اور ہم مذہب وفرقے کے نام پر قیمتی انسانی جانوں کو لینے کی مذمت کرتے ہیں ۔ 12 جنوری کو رمضان مینگل کا نمازِ جنازہ کی امامت کرنے کو بی ایس او آزاد سمیت پوری بلوچ قومی تحریک کی حمایت حاصل نہیں تھی، یہ محض ایک اتفاق تھا جو بابا کے جدائی کے غم میں پیدا ہونے والے جذباتی کیفیت کی وجہ سے نظر انداز ہوگیا ، اور احساس ہوتے ہی فوراً اسے روک لیا گیا ۔کامیاب احتجاج پر مری کیمپ کے بھائیوں اور بزرگوں نے بی ایس او آزاد سے رابطہ کر کے مبارک باددی۔

среда, 11 июня 2014 г.

نواب خیر بخش مری28 فروری 1928 میں میر مہراللہ خان مری کے گھر بلوچستان کے علاقے کاہان میں پیدا ہوئے، 1960 میں مری قبائل کے نواب چنے گئے ۔ نواب خیر بخش مری نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے کاہان سے حاصل کی اس کے بعد نواب خیر بخش مری نے لاہور کے ایچی سن کالج میں داخلہ لیا جہاں وہ ذوالفقار علی بھٹواور نواب اکبرخان بگٹی کے کلاس فیلو رہے۔ زمانہ طالب علمی میں وہ سیاست سے دور رہے،1950ء میں سیاست کا آغاز کیا، 1955ء میں ون یونٹ کے دور میں الیکشن میں حصہ لیا اورکامیاب رہے، 1958ء میں ایوب کے مارشل لاء میں نواب خیر بخش مری کو گرفتار کرلیا گیاجو چند عرصے جیل میں رہے، 1962ء اور 1965 کے الیکشن میں بھی حصہ لیاجس پر نواب خیر بخش مری کو کامیابی ملی، 1970 میں نیشنل عوامی پارٹی کی جانب سے نواب خیر بخش مری نے الیکشن میں حصہ لیا اور مشرقی ومغربی پاکستان کے رکن اسمبلی بنے، 1973 ء میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت ختم کردی گئی اور نواب خیر بخش مری کو گرفتار کرلیاگیااس دوران حیدرآباد سازش کیس بھی ان پر چلا چار سال تک وہ اس دوران قید میں رہے، ضیاء الحق کے دور میں بھی چھ ماہ قید میں رہے پھر نواب خیر بخش مری کو رہائی ملی، 1977ء کونواب خیر بخش مری بیرون ملک جرمنی، فرانس اور لندن میں رہے پھر وہ پاکستان آئے اور چند عرصہ قیام کے بعد 1981ء میں نواب خیر بخش مری افغانستان چلے گئے جہاں وہ جلاوطن رہے، 1992ء کے نواز شریف دور حکومت میں انہیں وطن واپس لایا گیا ، 2000ء میں جام یوسف کے دور حکومت میں انہیں جسٹس نواز مری قتل کیس میں گرفتار کیا گیا اس الزام کے تحت وہ 8ماہ قیدمیں رہے،جسٹس نواز مری قتل کیس میں بری ہونے کے بعد نواب خیر بخش مری چند عرصہ کوئٹہ میں قیام کیا اس کے بعد وہ کراچی میں ہی رہائش پذیر رہے اور کسی الیکشن میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بنے۔ نواب خیر بخش مری کے چھ صاحبزادے ہیں جن میں ان کا ایک بیٹا نوابزادہ بالاچ مری 6 نومبر 2007ء کو مشرف کے دور میں سرلٹ کے مقام پر آپریشن کے دوران مارے گئے، دیگر پانچ بیٹوں میں نوابزادہ جنگیز مری اس وقت مسلم لیگ ن بلوچستان کے رکن اسمبلی ہیں، جبکہ نوابزادہ حیربیارمری، نوابزادہ گزین مری، نوابزادہ مہران مری جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں جبکہ نوابزادہ ہمزہ مری سیاست سے دور ہیں۔

International experts should determine the cause of Nawab Marri’s death before his burial: Hyrbyair Marri

Quetta : 

Baloch National leader Hyrbyair Marri said that friends have decided to bury Nawab Marri in Baloch Martyrs cemetery in New Kahan Quetta but the Pakistan army wants to take him to Kohistan Marri region of Kahan, Balochistan.

He said the Pakistan military want to send more forces in Kahan and strengthen their control to intensify military operations there in guise of burial of the body of Nawab Marri. “Pakistan army has heavily damaged the city of Kahan during past ten years’ bombardment and most of the population of Kahan has already migrated, the city is now empty. Pakistan army has already damaged graves of our ancestors in Kahan,” said Mr Marri.

He said that the road to Kahan are not useable that’s why the military provides ration to their garrison in Kahan with the help of helicopters. Now in the name of Nawab Marri’s burial the military will try to fix the roads to make easy access for ground force to Kahan and surrounding region. “In these circumstances we do not want that Pakistan military takes Nawab Marri’s body to Kahan Kohistan Marri,” he added.

Hyrbyair Marri said that since last Friday Nawab Marri was admitted in a private Hospital’s ICU ward in Karachi but on Monday he was shifted to the normal ward and family and friends were told that his condition has improved. However, on Tuesday they have been informed that Nawab Marri passed away.

Marri said: “Pakistan’s foul play in the death of Nawab Marri cannot be ruled out and that is why the army wants to take his body to Kahan Kohistan Marri so that it can be impossible for international experts to examine his body. We want that international medical experts should determine the exact cause of Nawab Marri’s death before his burial.”

He said that since Nawab Marri’s ideology was freedom of Balochistan and the martyrs graveyard in News Khan is for those Baloch fallen heroes who sacrifice their lives for freedom. Hence Nawab Marri should also be buried at the same graveyard in News Kahan Quetta with his other ideological friends.

نواب مری: عجب آزاد مرد تھا

вторник, 10 июня 2014 г.

نواب مری کی جسدکا بین الاقوامی ماہرین سے معائنہ کرا کر موت کے اسباب معلوم کئے جائیں،
نواب مری کو بھی کاہان کوہستان مری لے جانے کے بجائے نیوکاہان کوئٹہ میں اپنے فکری ساتھیوں کے قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے۔حیربیار مری 
)بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہمارے ساتھیوں کا فیصلہ ہے کہ نواب مری کو شہدا قبرستان نیوکاہان کوئٹہ میں سپرد خاک کیا جائے ۔ پاکستانی آرمی نواب مری کی جسد کو کوہستان مری کے کاہان میں لے جانے کی تیاری کر رہا ہے تاکہ وہ نواب مری کے تدفین کے آڑ میں وہاں پر ڈیرہ ڈال کر بلوچوں کے خلاف آپریشن کو مزید تیز کریں انہوں نے کہا کہ پاکستانی آرمی نے کاہان شہر کو گزشتہ دس سالوں میں بمباری کر کے کافی نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے کاہان شہر سے لوگوں نے نقل مکانی کی اور اب کاہان تقریبا خالی ہے انہوں نے نہ صرف شہر کو بلکہ ہمارے آباواجداد کے قبرستان کو بھی نقصان پہنچایا ہے، کاہان میں پاکستانی فوج کی چھاونی کو بھی روڈنہ ہونے کی وجہ سے ہیلی کاپٹروں کے زریعے راشن پہنچایا جاتاہیں اب وہ نواب مری کے تدفین کی آڑ میں پاکستان آرمی اپنے لیے راستہ بنانیکی کوشش کرے گا اور ہم نہیں چاہتے کہ ان حالات میں پاکستانی آرمی نواب مری کو کاہان کوہستان مری میں لے جاکر دفن کرے۔ حیربیار مری نے کہا نواب مری گزشتہ جمعے کے روزسے ایک نجی ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں تھے لیکن انھیں کل آئی سی یو سے نکال کر نارمل وارڈ میں منتقل کیا گیا اور ہمیں یہی کہا گیا کہ اب ان کی طبیعت بہتر ہے لیکن آج ان کی اچانک وفات کی خبر ہمیں دی گئی ، اس سے اس بات کو تقویت مل رہی ہے کہ اس میں پاکستان کی کارستانی کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے اس لیے پاکستانی آرمی چاہتی ہے کہ نواب مری کے جسد کو وہ کاہان کوہستان مری میں لے جائیں تاکہ وہاں کوئی بین الاقوامی ماہرنواب مری کی جسد کی معائنہ کرنے کے قابل نہ ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ انھیں دفن کرنے سے پہلے بین الاقوامی ماہرین سے ان کی موت کے اسباب جان سکیں اس لیے بھی کوئٹہ تدفین کے لیے موزوں ہے۔حیربیار مری نے کہا چونکہ نواب مری کا فکر قومی آزادی تھا اور نیوکاہان کوئٹہ شہدا قبرستان میں جو شہدا دفن ہیں انہوں نے بھی اس قومی فکر اور آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کر دی ہیں، لہذ ا نواب مری کو بھی کاہان کوہستان مری لے جانے کے بجائے نیوکاہان کوئٹہ میں اپنے فکری ساتھیوں کے قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے۔

بابائے بلوچ سردار خیر بخش مری کا بلوچ قوم کے نام پیغام
مجھے بلوچ گلزمین ماں کی طرح عزیز ہے میرے لیے وہ بلوچ انتہائی قابل احترام ہیں جو بلوچستان کی آزادی کی جدو جہد میں مصروف عمل ہیں ا

суббота, 7 июня 2014 г.

منافقانہ روش اور جہدآجوئی کے دعویدار  میر مزاربلوچ
 پچھلے ایک عرصہ سے سوشل اور پرنٹ
میڈیا پر جس طرز سے بی ایل ایف ، بی آر ے، بی آر پی،یوبی اے،بی این ایم اور بی ایس او (آزاد)کے خلاف تنقید کی جارہی ہے اس سے قطعاً یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ یہ تنقید برائے تعمیر ہو بلکہ یہ طرزعمل یقیناً سوچا سمجھا منصوبہ لگتاہے تاکہ بلوچ عوام میں جہدِآجوئی میں مصروف عمل مسلح اور سیاسی تنظیموں کیلئے جو قربت اور حمایت ہے اسے ختم کیا جائے اور جنگجورہنماؤں اور انکی مسلح تنظیموں کی امیج کو چکنا چور کردیا جائے.80 کی دہائی میں جس طرح ڈاکٹر مالک اوراس کے زر خرید ساتھیوں نے جہدِآجوئی کو کامریڈفدا احمد کی شھادت کے بعد پارلیمنٹ کا رخ دیکر ذاتی و گروہی مفادات کی بھینٹ چڑھاکربلوچ عوام میں جو مایوسی پھیلا دی اور بعد میں عوام کو باور کراتے رہے کہ مسلح جدوجہد بلوچ کے بس کی بات نہیں (سر گوں سنگءَ میڑینگ نبیت) ہم پارلیمنٹ میں رہ کر متوسط طبقہ کے حقوق کی جنگ لڑیں گے۔وقت گزرتا گیا اور2000کی دہائی میں بلوچ تحریک آزادی نے دوبارہ سراٹھاناشروع کردیا.بی ایل اے وجود میں آگئی جس نے شھید بالاچ مری کی قیادت میں کوہلو اورملحقہ علاقوں میں کارروائیاں شروع کردیں جس کے بعد ڈاکٹر اللہ نذر اور واحد قمبر کی قیادت میں مکران میں بی ایل ایف کا قیام عمل میں لایاگیا لیکن بلوچ تحریک آجوئی گوادر میں بی ایل ایف کے ہاتھوں چینی انجینئرز پر حملہ کیسبب بین الاقوامی سطح پر متعارف ہوئی جس کے بعد نواب اکبر خان بگٹی، غلام محمدبلوچ، شیر محمدبلوچ، لالہ منیر بلوچ اور نواب زادہ بالاچ مری کی شھادت نے بلوچ قومی تحریک کوعالمی سطح پر مزید ہائی لائٹ کرکے بلوچ نوجوانوں کوجذبہ آجوئی کی طرف راغب کردیا اور یہ جذبہ جنون کی شکل میں بلوچستان کے کونے کونے میں پھیل گیا جس کے بعد غیراسلامی و غیر مہذب ریاست نے بلوچ فرزندوں کی اغواء اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا اوراب تواجتماعی قبروں تک نوبت آپہنچی ہے بلوچی روایات اورچادرچاردیواری کی تقدس کو تاراج کیا جارہا ہے بازاریں کسی بھی وقت بمباری سے محفوظ نہیں رہیں دشمن ریاست ہمیں بنام بلوچ نشانہ بنا رہا ہے دوسری جانب بلوچ مسلح افواج کی کارروائیوں میں بھی تیزی آگئی ہے لیکن اس نازک اور فیصلہ کن مرحلے میں مسلح تنظیموں کی جانب سے سوشل اورپرنٹ میڈیا پرایک دوسرے کونیچا دکھانے اور کیچڑ اچھالنے کانہ ختم ہونے ہونے والا سلسلہ پورے آب و تاب کے ساتھ جاری ہے جس سے بلوچ قوم اضطرابیت کا شکارہے اور یقیناً اس عمل سے سب سے بڑافائدہ ریاست کوپہنچ رہا ہے۔شہداء کے ورثا پریشان، مسنگ پرسن کے لواحقین بے بس. ماما قدیر اور بلوچ بہنوں کی دنیاکی سب سے بڑی تاریخ رقم کرنے والی لانگ مارچ پر قلم خاموش، زبانیں گنگ، کان بہرے، توتک کی اجتماعی قبروں پرنظر اندھے لیکن معاملہ صرف اور صرف ایک دوسرے پر نکتہ چینی پر آکر اٹکا ھواہے قلات میں جنگجو شہداء کے علاوہ 20سے زائد معصوم بچوں بزرگوں اور خواتین کی شہادت جیسے کوئی معنی نہیں رکھتی بس ھیلی کاپٹر مارنے کے شادیانے بجائے جارہے ہیں.واہ بھت خوب. مسلح تحریکوں میں خامیاں تو ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں اس طرح منظر عام پرلاکر دشمن کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں یہ مسائل ھمالیہ کی طرح بلندوبالا اور بڑے نہیں کہ انہیں سر کرکے حل نہ کیا جاسکے ہم نے دشمن کے سامنے اپنی پول کھول دی کہ ہم کتنی پانی میں ہیں۔خدارا اس سلسلے کو بند کرکے بلوچ شہداء کی قربانیوں پر پانی نہ پھیریئے تقسیم در تقسیم کاسلسلہ بند کرکے صرف آزاد بلوچستان کیلئے اپنی توانائیاں بروئے کار لاکردشمن کا مقابلہ کیجئے کیونکہ اب کی بار اگر تحریک ناکام ہوگئی تو پھر (خدانہ کرے) بلوچ قوم ریاست کے خلاف سر اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہیگی۔۔۔!