Powered By Blogger

понедельник, 30 июня 2014 г.


انہوں نے اپنے اقدار اور اصولوں پر عمل کرنے کی بہت بڑی قیمت اداکی
Mir Muhammad Ali Talpur
نواب خیر بخش مری 29 فروری 1928 کو پیدا ہوئے، انکا نام انکے نامور دادا کی وساطت سے رکھا گیا جنہوں نے پہلی عالمی جنگ کیلئے مریوں کو بطور ایندھن فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا اور اسکے لئے انہوں نے 1918ءمیں برطانیہ کے خلاف گمبز اور ہرب کے تاریخی لڑائیاں لڑیں۔
وہ سردار دودا خان کی بھی اولاد میں سے تھے جن کے تحت مریوں نے مئی 1840 میں سارتاف کے علاقے میں لیفٹیننٹ والپول کلارک کی قیادت میں برطانوی فوجیوں کا مکمل صفایا کیا تھا۔ پھر اگست 1840 میں، میجر کلبورن کے تحت ایک بڑی فوج کاہان کی امداد کو بھیجی گئی لیکن نفسک سے ہی اسکا راستہ تبدیل کرلیا گیا۔
بھوالان کے بعد خیر بخش آٹھویں مری سردار تھے جنہیں قبیلے کیلئے خدمات کے عوض سرداری سونپی گئی تھی۔ لوگوں کی اکثریت اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ بلوچ کے دل میں آزادی کیلئے ایک والہانہ محبت موجود ہے اور آزادی کیلئے ان کی جدوجہد خالصتاً اپنی ہے۔
ایک بچہ جو ’پلنگیوں‘ یا غیر ملکیوں کیخلاف مریوں کی غیر معمولی بہادری کے قصے سن سن کر جوان ہوا ہو تو وہ اور کچھ بن ہی نہیں سکتا ماسوائے ایک کٹر آزادی پسند کے۔ بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ دعویٰ ہے کہ نواب صاحب نے بہت دیر بعد ایک آزاد بلوچستان کے خیال کو قبول کیا تھا؛ لیکن یہ بات صریحاً غلط ہے۔
برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ ڈیوس نے 1951 میں ان سے پوچھا، ”خیر بخش آپ حکومت کو اپنے بدبخت لوگوں کو ترقی دینے کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟“ انہوں نے جواب دیا، ”ڈیوس، اگر ہٹلر نے برطانیہ پر قبضہ کرلیا ہوتا اور آپ سے یہ کہا جاتا کہ آپ اپنے بدبخت لوگوں کو ترقی دینے میں جرمنوں کی مدد کریں، تو آپ کا رد عمل کیا ہوتا؟“ ڈیوس نے جواب دیا، ”مجھ پر خدا کی لعنت ہو اگر میں پھر کبھی آپ سے یہ سوال پوچھوں۔“
وہ دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن استحصال کیخلاف انکی مسلح مزاحمت ساتھ ساتھ جاری رہی۔ بلوچ عوام کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک واحد شخص تھے جو کہ مسلسل ایک آزاد بلوچستان کا مطالبہ کرتے رہے جبکہ دیگر رہنماءبہ آسانی سمجھوتے کرتے رہے۔
مارشل لاءحکام نے 1958 میں بندوقیں جمع کرانے کا حکم دیا۔ دیگر سرداروں نے احتجاج تو کیا مگر حکم بجا لائے جبکہ نواب صاحب نے انہیں جمع کرانے سے پہلے آری سے انکے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ انکے لئے کوئی بھی عمل ہتھیار ڈالنے سے زیادہ شرمناک نہیں تھا؛ انھوں نے اپنی زندگی میں اس بات کی تبلیغ بھی کی اور اس پر عمل بھی کرتے رہے۔
اسیری کے دوران انھیں کبھی بھی کسی ہسپتال میں داخل نہیں کیا گیا اور نہ کبھی انھوں نے شکایت کی۔ حتیٰ کہ وہ اپنے کپڑے بھی خود دھویا کرتے۔ دستبرداری اور کمزوری کا اظہار انکا خاصہ نہیں تھا۔ وہ اپنے رویوں میں غیرمصالحانہ تھے۔ دسمبر 2005 میں پرویز مشرف کے کوہلو دورے کے دوران ایک راکٹ حملے کے بعد، ان کے بیٹے بالاچ نے ان کی رائے معلوم کرنی چاہی تو انہوں نے پوچھا: ”تمہارا نشانہ کیونکر خطاءہوا؟“
انہوں نے اپنے اصول دنیاوی آسائشوں سے زیادہ محبوب رکھے اور اس چیز نے انھیں سمجھوتے کرنے سے بچنے میں مدد دی۔ انہوں نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ وہ اب بھی افغانستان سے واپسی کے بعد لیے گئے قرض کی ادائیگی کر رہے ہیں اور اگر انکے پاس پیسے ہوتے تو وہ اپنے داماد کے گھر میں نہ رہتے۔ دنیاوی آسائش کے عوض اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے نے انھیں بلوچ آزادی کی جدوجہد کا دائمی علامت بنا دیا۔ انہوں نے اپنے اقدار اور اصولوں پر عمل کرنے کی بہت بڑی قیمت اداکی۔
میں ان چند خوش قسمت افراد میں سے ہوں جنکے ساتھ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ میں ہمیشہ اپنے مضامین انہیں بھیجا کرتا اور وہ ان میں خامیوں کی نشاندہی کرتے۔ وہ مجھ سے ان اردو اور فارسی اشعار کو لکھ بھیجنے کا کہتے جنکا حوالہ میں دیا کرتا۔ وہ نہایت مہربان اور کریم النفس انسان تھے؛ وہ کبھی بھی مجھ سے پہلے کمرے میں داخل نہ ہوتے، اور اصرار کرتے کہ میں آگے چلوں، اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی مان لیا کرتا۔ میں ان کی موجودگی میں ہمیشہ اس طالب علم کی طرح بیٹھتا جوکہ اپنے سب سے زیادہ محترم استاد کی تعظیم میں سہمے ہوئے انداز میں بیٹھے۔
نواب صاحب کی مرغے لڑانے کی محبت افسانوی تھی اور ان کی گفتگو میں بھی انکا چھڑکاو¿ ہوتا۔ انہوں نے ایک بار مجھ سے اور میرے بھتیجوں سلیمان اور زبرکش ٹالپر کیساتھ ڈیڑھ گھنٹے تک مرغوں کی یادگار لڑائیوں کے قصے بڑے جوش و ولولے کیساتھ سنائے؛ ان کی تیز یادداشت نے مجھے ششدر کردیا تھا۔ وہ اکثر اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کیلئے مرغ بازی کی اصطلاحات کا استعمال کرتے۔ وہ ان تمام لوگوں کا احترام کرتے جو لڑسکتے اور کوئی لڑائی منظم کرسکتے۔
وہ ایک برف پوش آتش فشاں کی طرح اتاہ تھے۔ وہ کبھی بھی اپنے جذبات کو اونچی آواز میں بولنے سے یا سخت لہجے میں یا رقیق القلبی سے بات کرکے مجروح نہیں کیا کرتے۔ وہ ہر طرح کے حالات میں حیرت انگیز تحمل کا مظاہرہ کرتے۔ اپنے 43 سالہ رفاقت کے دوران میں خوش قسمت تھا کہ ان سے سینکڑوں بار ملا لیکن کبھی بھی انہیں ناراض ہوتے یا نامناسب الفاظ کا استعمال کرتے نہیں دیکھا۔ میں نے صرف ایک بار 1988ءمیں انہیں لشکر گاہ میں مریوں سے خطاب کے دوران اشکبار ہوتے دیکھا تھا۔ تاہم انکی آنکھیں اپنے شہید بیٹے بالاچ کے بارے میں بات کرتے ہوئے نم ہوجاتیں۔ وہ اپنے جذبات کو چھپاتے تھے مگر انہیں دبا کر نہیں رکھتے۔
انہیں اپنے لوگوں سے انتہائی محبت تھی اور وہ اپنے دشمنوں سے شدید نفرت کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں لوگوں کی بہت فکر تھی اور وہ ہمیشہ کہا کرتے کہ اگر آزادی لوگوں کو انصاف دلانے میں ناکام رہی تو یہ بے معنی ہوگی۔
وہ ایک علامتی والد، ایک رول ماڈل، ایک فلسفی، ایک مدبر اور بلوچ میں جو کچھ بھی اچھا ہے، وہ اس سب کی بہترین مثال تھے۔ انہوں نے نجات اور آزادی کیلئے بلوچ میں موجود غالب خصوصیت کی نمائندگی کی۔ ان کی رحلت ایک ناقابل تلافی نقصان ہے اور ان کے حامی اور پیروکار کبھی بھی انکے غم کو بھلا نہیں پائیں گے۔
یہاں کوئی بھی ایسا نہیں جو انکی جگہ لے سکے، جس سے بلوچ اس نقصان کے درد کو طاقت کے ایک منبع میں تبدیل کرسکیں تاکہ وہ بھرپور طریقے سے اس جدوجہد جاری رکھیں جسکے لئے انہوں نے اپنی پوری زندگی وقف کررکھی تھی۔ اگر وہ یہ کام کر پائیں تو یہ جدید دور کے عظیم ترین بلوچ کیلئے بہترین خراج عقیدت ثابت ہوگی۔
مصنف کا بلوچ تحریک کیساتھ 1971 کے بعد سے ایک تعلق ہے۔
بشکریہ: ڈان، اتوار، 29 جون، 2014

Комментариев нет:

Отправить комментарий