Powered By Blogger

четверг, 27 июля 2017 г.

کردار، حیثیت و فرائض:تحریر :اسلم بلوچ


تقابلی مطالعے و تجزیے کا مثبت اور حقیقی پہلو دوسروں کے تجربات اور کارکردگی کو اپنے اندر جانچنا ہوتا ہے تاکہ انکے کامیابیوں سے استفادہ اور ناکامیوں سے سبق حاصل کیا جائے، ایسے تجزیوں سے خامیوں،کمزوریوں،خرابیوں کی نشاندہی کرکے ان سے کیسے نمٹا جائے یہ دیکھنا ہوتا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ ایسے تجزیاتی مواد کو کسی کے بھی نفی کیلئے تراش خراش کر جواز بنایاجاتا ہو، پوری دنیا میں علم سیاسیات اس بنیادی نقطے کے گرد گھومتا ہے کہ طاقت کو کیسے حاصل کیا جائے اسکو کیسے برقرار رکھا جائے اور کیسے استعمال کیا جائے، آج بنیادی سوال جس کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے کیسے طاقت حاصل کی یا کررہے ہیں پچھلے تمام عرصے میں ہم نے اسکو کیسے استعمال کی یا کررہے ہیں اور کیا ہم حاصل کی گئی یا رہی سہی طاقت کو برقرار رکھ رہے ہیں یا رکھ سکتے ہیں؟؟؟؟؟
ان سوالات کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہماری طاقت ہے کیا؟؟سماج انسانی تعلقات انکی نوعیت و ضرورتوں کا نام ہے ،یہ انسانی آبادی کا مجموعہ ہوتا ضرور ہے لیکن یہ مشترکہ مقصد کیلئے وجود میں آتا ہے سماج کو بے آہنگم و بے ربط اور متضاد رویوں و اقدار و روایات و رسم و رواج کا نام ہرگز نہیں دیا جاسکتا اور سیاست سماج میں رہنے والوں کو منظم رکھنے کا علم ہے یہ دونوں ایک ہی مقصد کی تکمیل کرتے ہیں جو انسانوں کی بہتر زندگی کیلئے ہوتی ہے ،کیونکہ سماجی مفکرین سماج میں بسنے والوں کے تعلق کو پیچیدہ رشتوں سے تعبیر کرتے ہیں میکیور(Maciver) کے مطابق سماج بدلتے پیچیدہ رشتوں کا ایک جال ہے جو عادات اور طریقہ کار وباہمی مدد کا ایک نظام رکھتا ہے صرف اور صرف مقصد کی ہم آہنگی ہی سماج کا امتیازی وصف ہے ورنہ سماج علیحدہ ذہن ،فکر و نظریات رکھنے والے افراد کا مجموعہ ہے لاسکی کے الفاظ میں سماج کوئی سادہ تنظیم نہیں یہ انسانوں کا ایک پیچیدہ مرکب ہے اور یہ انسانوں کے متضاد فطرت کی نمائندگی کرتا ہے دستیاب تاریخ میں انسانوں میں مشترکہ مقصد سے ہم آہنگی ہی سیاست اور ریاست کی بنیاد بنتی آرہی ہے تو بلوچ سماج اور سیاست میں بھی مشترکہ مقصد(قومی آزادی کا حصول) ہی ہم آہنگی اورطاقت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اگر بلوچ مزاحمتی تاریخ پر نظر دوڑائیں توماضی کے مقابلے حالیہ لہر مشترکہ مقصد(قومی آزادی) کی بلوچ سماج میں ضرورت و مقبولیت کا اندازہ لگانامشکل نہیں ہوگا، کیونکہ مشترکہ مقصد کیلئے بلوچ سماج سے طاقت کا حصول توقعات سے زیادہ رہا ہے اور ہر طرح کے مشکل حالات میں بھی جاری و ساری ہے ،لیکن جب دوسرے نمبر پر بات اسکو منظم رکھنے اور صحیح استعمال کرنے کی آتی ہے تو بات سیاست اور اسکے معیار پر رکتی ہے وہ اس لئے کہ منظم رکھنے کا ذمہ سیاست کے سر ہوتا ہے تو یہاں بنیادی سوال جو سر اٹھاتا ہے کہ کیا پچھلے تمام عرصے میں حاصل ہونے والی طاقت بی ایل اے، بی ایل ایف، بی آر اے،ایل بی، سیاسی پارٹیاں بی ایس او و دیگر انجمنیں و افراد یا علاقائی شخصیات کو ہماری سیاست منظم رکھنے اور بہتر طور کام میں لانے میں کامیاب ہوچکی ہے؟؟؟
شاہد کہنے لکھنے سے زیادہ موجودہ صورتحال ہی سمجھنے کے لئے کافی ہے۔
کیا ہمیں کچھ سمجھ آرہا ہے یا ہم سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں؟؟؟
کیا ہم صحیح طور پراپنی جدوجہد کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ،وہ تلخ تجربات کو پوری طرح ٹٹول چکے ہیں جو ہمارے طاقت کو منظم کرنے میں ہمیشہ رکاوٹ بنتے آرہے ہیں، مثلا ماضی کے ناکامیوں کو اگر چند افراد کے سر ڈال کرایسے سوچ کے تحت ایک ذہنی کیفیت کی پرورش کی جائے کہ ماضی کے جہدکار سب بیکار و فضول تھے توایسی ذہنی کیفیت کی بنیاد ہی نفی کے قانون پر استوار ہوگا۔ 
بات سیدھی طرح سے یہ ہے کہ ہم کچھ بنیادی عوامل کو بھول کر جست لگانے کی چکر میں ایسے الجھ چکے ہیں کہ اب ہمارے پاس الزام تراشیوں اور زبانی کلامی تعریفات کے علاوہ کچھ رہا نہیں ،کسی کو نفی کرکے اپنے وجود کا احساس دلانا ہماری مجبوری بنتی جارہی ہے، یہ سب کچھ دن رات ہوتاآرہا ہے ،ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم سب مل بیٹھ کر باہمی احترام کے ساتھ صحیح خطوط پر اپنے کام اور تحریک کو استوار کرتے مگر بدقسمتی ان حالات میں بھی ہم اپنے حقیقی جمع پونجی کے نفی میں لگے ہیں، دیکھنا ہے کہ ہمارے عملی جدوجہد سے کیا قومی تحریک کی ضروریات پوری ہورہے ہیں اورہم تحریک کی حقیقی شکل کے تشکیلی مراحل کو آگے بڑھاتے ہوئے اسکو اقوام عالم میں ایک قومی تحریک کے طور پر متعارف کرانے میں کامیاب ہورہے ہیں ،کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور دنیا میں جاری جنگوں نے انسانی مسائل کو عالمی مسائل بنادیا ہے ایسے حالات میں دیکھنے والوں کو ہمارا تحریک مسائل و پیچیدگیوں کا ڈھیر تو نظر نہیں آرہا ہے؟؟
تسلسل سے گر دش کرتے کچھ سوالات اور مخصوص غیر متوقع رویوں نے مجھے کتابیں ٹٹولنے پر مجبور کردیا جس کے تحت اس تحریر سے جوڑنا پڑا اگر ہمارے دانشور اور سیاسی سنگت اس بحث میں مزید دوستوں کی رہنمائی کریں تو یہ وقت و حالات کے تحت ایک موثر عمل ہوگا کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے جن سوالات اور عمل کو میرا ذہن قبول نہیں کرپارہا ہے ،میں انکے پیچھے کے سوچ کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں، اختلاف،تنقید،تقابلی جائزے،شکوک و شکایت کا تعلق ہوتا ہی عمل سے ہے اور یہ سب کچھ تعمیری عمل کا حصہ کہلاتے ہیں تصورات، نظریے،خیالات اور ان پر تنقیدی بحث مباحثے بھی علمی جانداری کی طرف اشارہ کرتے ہیں، لیکن انکے مثبت اور منفی پہلو کا تعلق انکے پیچھے کے مقاصد سے جوڑا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں ا یسے تمام عمل میں زور نفی کے قانون پر رہتا ہے ،عمل میں حد بندی کرداروں میں درجہ بندی اور اختیارات کی نشاندہی و تقسیم کی وضاحت مسائل کی نشاندہی ان کی نوعیت کو سمجھنے اور انکے حل سے زیادہ شکوک شہبات کا اظہار لازمی سمجھا جاتا ہے آخر کیوں؟؟؟
کمزوری،خامی، خرابیوں کی نوعیت سے زیادہ واقعات جواز بنائے جاتے ہیں اور انکے بنیاد پر تحریک کے بہت سے کرداروں پر ناروا طریقے سے ایسے سوالات اٹھائے جاتے ہیں جن میں انکے کردار کومشکوک بناکر انکی حیثیت کی مکمل نفی کی کوشش کی جاتی ہے 
اگر دیکھا جائے توہر کردار کے ساتھ ایک حیثیت ضرور ہوتی ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ کردار اور حیثیت لازم و ملزم ہوتے ہیں دراصل حیثیت وہ سماجی پوزیشن ہے جسکا دارومدار مکمل کردار پر ہوتا ہے اور جب کردار کسی حیثیت (پوزیشن) کاحامل ہوجاتا ہے تو معاشرہ، سماج میں اعتبار کے حوالے سے اس سے ویسے ہی توقعات وابستہ کئے جاتے ہیں ۔ 
اسی طرح جب کوئی شخص اپنی حیثیت سے وابسطہ تمام ذمہ داریوں کو سمجھ کر فرائض کی انجام دہی سے جوڑ جاتا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنا کردار(رول) ادا کررہا ہے حیثیت اور کردار کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے ان میں صرف علمی تعریف کے حوالے سے فرق پایا جاتا ہے۔
وہ چاہئے کسی سماجی تنظیم میں ہو یا سیاسی و عسکری یا کسی تحریک میں یا مختلف مخصوص حالات میں ویسے تو حیثیت کے دو واضح نوعیت سامنے آتے ہیں مگر اسکے بہت سے اشکال انہی دو کے گرد گھومتی ہیں۔
علمی تعریف کے حوالے سے ایک کو انتسابی یعنی وراثتی حیثیت کہتے ہیں جو وراثت میں ملتی ہے، 
دوئم اکتسابی یعنی محنت، صلاحیت،مقابلے و کوششوں کے بل بوتے پرحاصل کی جانے والی حیثیت ہوتی ہے، غرض ہر حیثیت کے ساتھ لازمی طور پر ذمہ داریاں اور فرائض ہی وابستہ ہوتے ہیں، یہ فرائض اور ذمہ داریوں سے خالی کوئی مراعاتی عنایت نہیں ہوتا جسکو حاصل کرنے یا عنایت کرنے کا طریقہ کار ذاتی تعلقات و خواہشات یا مفادات پر یا پھر بعض، حسد، خوف جیسے منفی سوچ پر مبنی ہو، کسی بھی مثالی نظام،انقلابی تحریک، سیاسی تنظیم یا پارٹی میں بہترین صلاحیتیں زیادہ محنت اورخلوص کے بل بوتے پر جب ہرمتعلقہ حیثیت کو اپنے کردار(رول)کا صحیح اندازہ یا علم ہوجاتا ہے تب ہی تمام توجہ ذمہ داریوں اور فرائض پر مرکوز ہوجاتے ہیں۔بصورت دیگر کسی بھی تحریک، تنظیم،پارٹی یا نظام سے وابسطہ افراد میں اس وقت تک ہم آہنگی اور یکسوئی پیدا ہونا مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے جب تک وہ اپنے اپنے حیثیت کے مطابق اپنے کردار پر توجہ مرکوز نہیں کرتے۔
انتسابی یعنی وراثتی حیثیت میں بادشاہت میں جیسے، بادشاہ کے مرنے پر شہزادہ بادشاہ بنتاہے ولی عہد کو طرز حکمرانی کی تربیت دیکر مسند پر بیٹھایا جاتا ہے ہمارے ہاں قبائلی نظام میں سردار کا بیٹا سردار یا کسی سیاستدان کا بیٹا سیاست دان بنتا ہے یہ حیثیت موروثی ہونے کی وجہ سے پیدائشی نوعیت کی ہوتی ہے اسمیں ذاتی صلاحیتوں کا عمل دخل اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک اس حیثیت کے مطابق کردار(رول)ادا نہیں کیا جاتا۔یعنی پیدائشی حیثیت جو بنے بنائے وراثت میں ملتی ہے تو اس حیثیت کی اہلیت کو ثابت کرنے کیلئے اسکے مطابق توقعات پر پورا اُتر نہیں جاتا، یہاں اوپر سے نیچے اور اس سے اوپر کی حیثیت کو ثابت کرنا ہوتا ہے اور اسکی بنیاد کردار پر منحصر ہوتا ہے جتنا بڑا حیثیت ہوگا اتنا ہی زیادہ ذمہ داری اور فرائض کو نبھانے کا تقاضا کرئیگا، ہمارے ہاں اسکی مثال سنگت حیربیارمری،براہمدغ بگٹی،جاوید مینگل،زامران مری ہیں 
اور اکتسابی حیثیت جو کہ صلاحیت، محنت، ذہنیت اور خلوص اور مقابلے کی بنیاد پر بنتی ہے وہ صفر سے شروع ہوتا ہے وہ نیچے سے اوپر کا سفر طے کرتا ہے اسکو کسی ستون(پلر) کا سہارا نہیں ہوتا ہمارے ہاں اگر دیکھا جائے تو چیرمین غلام محمد ،میر عبدالنبی بنگلزئی، استاد واحد قمبر، ڈاکٹر اللہ نذر، کامریڈ بشیرزیب، گلزار امام ماسڑ سیلم وغیرہ اس حیثیت کے مثال ہیں کسی بھی تنظیم یا پارٹی سے تعلق و عہدے یا تنظیمی حیثیت سے قطع نظر بلوچ سماج میں ان حضرات کا اکتسابی حیثیت انکے کردار سے متعلق ہے لہذا ان حضرات پر توقعات اور انکی ذمہ داریاں اور فرائض بھی اسی نسبت سے ہونگے۔کیونکہ ہم قومی جدوجہد کے دعویدار ہیں تو قومی نظریہ کے حوالے سے ہم میں یہ دونوں حیثیتں بشمول علاقائی، علمی و ادبی حیثیتوں کے موجودگی قابل تسلیم و قابل قدر ہیں بشرطیکہ کہ وہ قومی مفادات و قومی نظریے کے مطابق ہوں۔
کسی بھی تحریک میں ہم افراد کے کردارکا سرسری جائزہ لیں تو اس تحریک سے وابسطہ تنظیمیں یا پارٹیاں بالکل ایسے ہوتے ہیں جیسے تدریسی ادارے یعنی سکول کے بچوں کی طرح اگر وہ افراد کو منظم اور نظم و ضبط میں رکھنا چاہتے ہیں تو انکے پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرکے بروئے کار لانا بھی انکا فرض بنتا ہے کیونکہ تمام انسان ذہانت، ایمانداری، طاقت، محنت کے حوالے سے برابر نہیں ہوتے کچھ زیادہ محنتی ذہن اور باصلاحیت ہوتے ہیں اور کچھ کم کچھ جسمانی اور ذہنی مضبوط ہوتے ہیں اور کچھ اتنے مضبوط نہیں ہوتے وہ ماحول اور حالات جہاں سے تحریک کو بہتر افرادی قوت میسر ہو پارٹیوں اور تنظیموں کے ذمہ آتی ہے۔
ہمارے ہاں ہو کیا رہا ہے شعوری یا لاشعوری طور پر کچھ بے بنیاد اور گمراہ کن خیالات کی تشہیر دبے دبے الفاظ میں یا غیر ذمہ دارانہ انداز میں کروائے جارہے ہیں کہ لیڈر ایک ہوتا ہے باقی سب پیروکار ہوتے ہیں اس حقیقت سے قطع نظر کہ تحریکیں ایسے لاتعداد کیڈر و لیڈر جنم دیتے ہیں جو تحریک سے وابسطہ ہزاروں افراد کی قیادت کرکے انکو منظم رکھتے ہیں اور انہی میں سے وہ تحریک کے لیڈرکی شکل میں سامنے آتا ہے جو اسی حلقے میں سب سے زیادہ قابل احترام و قابل اعتبار ہوتا ہے مگرہمارے ہاں کسی بھی سیاسی یا عسکری حیثیت کے نفی کیلئے نئے اصطلاح سیلفی سرمچاری یا شوق لیڈری متعارف کرائے جارہے ہیں اس حقیقت سے قطع نظر کہ جو تحریک قیادت پیدا نہ کرسکے وہ تحریک ہی نہیں کہلاتا اور کبھی کبھی سماجی مسائل،روایات،انقلاب، جدوجہد آزادی اور قومی سیاست اور قومی ریاست کو پولیٹیکل سائنس کے کسی ایک باب(چیپٹر) سے مو ازنہ کرکے گراونڈ پر جاری ایک پوری عمل کی نفی کی جاتی ہے۔لیکن بلوچ سماج،بلوچی روایات، جدوجہدکے تاریخی تسلسل موجود وقت و حالات کے تحت درپیش حقیقی مسائل کا سیاسیات میں حل اور انکے طویل سفر کا نہ تو کوئی ذکر پایا جاتا ہے اور نہ ہی بنیادی تجزیہ، زور ایک ہی بات پر رہتاہے جس میں چند واقعات کو بنیاد بناکر چند کرداروں کو تسلیم کرتے ہوئے انکے حیثیت کی نفی یاانکو مشکوک بنانے کی کوشش کی جاتی ہے یہ سیدھی طرح سے تحریک سے وابسطہ پارٹیوں اور تنظیموں کی اس پیداواری صلاحیت اور پیداوار پر 
ضرب لگانے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے جو تحریک کو قیادت فراہم کرسکتی ہے یا کررہی ہے کبھی ڈسپلن تو کبھی اصول پرستی کے نام پرتو کبھی جنگی حالات میں پیش آنے والے چھوٹے چھوٹے واقعات کو جواز بناکر ایک مرحلہ وار عملی پیداواری سلسلے کی نفی کی جارہی ہے اسکے پیچھے کے مقاصد کو سمجھنا اسلئے بھی ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ ڈھونڈنے پر تاریخی حوالے سے یہ عمل ہمیں دنیا کے کسی بھی تحریک میں نظر نہیں آتا تو یہ بلوچ قومی تحریک کیلئے کیوں اور کیسے ضروری ہوچکا اس کیلئے آج تک کوئی دلیل، وضاحت،حوالہ و ثبوت بھی سامنے نہیں لایا گیا ہے۔ویسے پوری دنیا میں مفکرین میں ابھی تک یہ بات زیر بحث ہے کہ سیاست فن ہے یا سائنس یا دونوں کا مجموعہ۔
میٹلینڈ(MaitLand) نے کہا تھا کہ جب میں امتحانی سوالات کے ایک اچھے مجموعے کو دیکھتا ہوں جن پر علم سیاسیات(پولیٹیکل سائنس)کی سرخی لگی ہوتو مجھے سوالات پر نہیں بلکہ اس عنوان(ٹائیٹل)پر افسوس ہوتا ہے۔
فرانسیسی سیاسی مفکر جین بودن(Jean Bodin)1596 میں پہلی بار اس علم کو علم سیاسیات کہا تھا دراصل علم سیاسیات پولیٹیکل سائنس مجموعی طور پر ریاست و حکومت سے انسانی تعلق کا مطالعہ ہے ۔
فرانسیسی اسکالر پال جانیٹ(Paul Janet)کے الفاظ میں علم سیاسیات سماجی علوم کا وہ حصہ ہے جو مملکت کی ابتداء اور حکومت کے اصولوں سے بحث کرتی ہے۔
سوئیز اسکالر بلونشکلی(Bluntschli) کے الفاظ میں سیاست علم سے زیادہ ایک فن ہے جسکا تعلق عملی معاملات یا مملکت کی رہنمائی ہے جبکہ علم سیاسیات کا تعلق مملکت کی بنیادوں اسکی لازمی نوعیت اسکی شکلوں یا مظاہر اور تبدیلیوں و ارتقاء سے ہے 
گارنر(Garner)کے مطابق علم سیاسیات مملکت سے شروع ہوتا ہے اور مملکت پر ختم ہوتا ہے۔
یہاں ان مفکرین کے حوالے سے اس بات کی نشاندہی مقصود ہے کہ ہمارا درد سر موجودہ حالات میں طرز حکمرانی کا درس نہیں میرے نزدیک سب سے اہمیت کا حامل فرانسیسی اسکالر پال جانیٹ کے الفاظ ہیں جس میں وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کہ علم سیاسیات(پولیٹیکل سائنس)سماجی علوم کا وہ حصہ ہے جو مملکت کی ابتداء اور حکومت کے اصولوں سے بحث کرتی ہے تو میرابنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم مملکت کے تشکیل اور حکومت سازی کے مراحلے سے گذر رہے ہیں؟؟؟؟؟
اس وقت بلوچ قوم جو ایک وسیع و عریض جغرافیہ پر پھیلا ہوا ہے اور ایران و پاکستان کے مقبوضہ کہلاتے ہوئے مختلف قبائلی و علاقائی رشتوں اور سیاسی اور مذہبی نظریات و عقائد کے بنیاد پر تقسیم ہیں ان کے بیچ آزادوطن کو لیکر حب الوطنی اور مشترکہ مفادات معاشی، اخلاقی روایات رسم و رواج زبان کی بنیاد پر ہم آہنگی پیدا کرکے متحدہ قومی قوت کی تشکیل اور اسکے بنیاد پر قومی آزادی کے حصول کو ممکن بناکر آخری مرحلے میں قومی ریاست یا قومی اقتدار اعلی کی تشکیل تک پہنچنا ہے کہتے ہیں کہ سماجی نظم و ضبط سماجی مسائل کا حل سماجی قوانین سے ہی علم سیاسیات کو خام مواد اور رہنمائی حاصل ہوتا ہے، لہذا سماجیات کے بنیادی و ابتدائی اصولوں کو نہ جاننے والوں کو نظریہ مملکت پڑھانا ایسا ہی ہے جیسے نیوٹن کے قوانین حرکت کو نہ جاننے والوں کو فلکیات یا حرکیات پڑھانا قوانین ہمیشہ سماجی ضرورتوں کے تحت بنائے جاتے ہیں، نقالی نہیں ہوتے چاہے جتنے بھی مثالی ہوں بلوچ سماج سے رجوع اور جوڑت کے سواء کوئی چارہ نہیں اس حقیقت کا اسوقت تک بہتر مظہر بلوچ جہدکار ہیں جو دشمن سے برسرپیکا ہونے کے ساتھ ہی ساتھ سماجی مسائل سے نمٹنے کے عمل سے بھی دوچار ہیں ہاں روایات و رسم و رواج میں تبدیلی کا عمل رائے عامہ کے بغیر نقصاندہ ہوتا ہے اسکو سمجھنے کی اہلیت شاہد سب میں نہ ہو مگر اکثریت اس حقیقت کو مان کر چل رہے ہیں اور یہ حقیقت بھی قابل تسلیم ہے کہ انہی جہدکاروں کی شعوری اور فکری کاوشیں ہی فرسودہ روایات اور غیرمنصفانہ رسم و رواج میں شعوری حوالے سے تبدیلی کا باعث بنیں گے۔ 
میرے خیال سے اگر ساتھی اس مقام اور حالات کے نوعیت کے مطابق نظم و ضبط(ڈسپلن)کوسمجھنے کے لئے بھی علمی خزانوں کو ٹٹولیں تو بہتر ہوگا۔
حقیقتاََ کوئی بھی تنظیم اور پارٹی بغیر نظم و ضبط کے بغیرقائم نہیں رہ سکتا، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ نظم و ضبط ہی ایک تنظیم کی جان ہوتی ہے یا یوں کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مقصد، پالیسی، نظم و ضبط اور افراد کے کردار کا مجموعہ تنظیم کہلاتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ نظم و ضبط ہوتا کیا ہے یا اسکی حقیقت اور ضروریات کی وضاحت کیسے کی جائے۔ 
دراصل تمام ضابطے، اصول، نظم تنظیم سے منسلک افراد کے خارجی افعال کو آپس میں مربوط کرتے ہوئے تنظیم سے منسلک افراد کے درمیان اور تنظیم اور تنظیمی مقاصد کے بیچ اختیارات فرائض اور حقوق کا تعین کرتے ہیں اس عمل کے مکمل ہونے کے و نظم و ضبط(ڈسپلن) کہتے ہیں ایک طرح سے یہ سیاسی اقتدار کو بنیادی ابتدائی شکل فراہم کرتے ہیں نظم و ضبط کو ابتدائی قانون قرار دینا غلط نہیں ہوگا .جو طاقت و مقاصد کے حصول کے ساتھ مستقبل میں قومی اقتدار اعلیٰ یا قومی ریاست کے وسیع قانون کی شکل اختیار کرسکتا ہے یا یوں کہیں کہ کرلیتا ہے۔
سماجی زندگی میں قبائلی اور خاندانی تنظیم روایات کے بنیاد پر لوگوں کو منظم رکھتا ہے لیکن ذرا وسیع پیمانے پر اگر سیاسی تنظیم کے تناظر میں اسکا جائزہ لیا جائے تواصول، نظم و ضبط ،تنظیمی مقاصد، تنظیمی پالیسیوں اور تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد کے فرائض،اختیارات،حقوق کے ساتھ ہی ساتھ انکے سماجی تعلقات میں توازن کا نام ہیں۔
یہ انہی تعلقات میں توازن رکھنے کے لئے بنائے گئے ہیں اور بنائے جاتے ہیں ہمارے ہاں شاہد انکو جرائم اور قانونی پابندیوں کے تناظر میں دیکھا یا لیاجاتا ہے۔ نظم و ضبط کی ضرورت و حقیقی تعریف کی وضاحت و تشریح اسلئے بھی ان حالات میں ضروری ہوچکا ہے کیونکہ نظم و ضبط کے نام پر بہت سے غلط فہمیاں پیدا ہوچکے ہیں یا پھرکی جارہی ہیں اور بہت سے غیر مناسب غیر موزوں پابندیوں کو بھی جواز فراہم کیا جارہا ہے لوگوں کو منظم رکھنے والی ٹیم یا گروہ کا اس بات سے باخبر ہونا ضروری ہے کہ عوامی حمایت و محنت کے حصول اور اسکو بروئے کا ر لانے کا انکے پاس متفقہ فارمولا کیا ہے؟؟؟
ایسا ہو نہیں سکتا کہ ایک ہی طرح کے عمل پر آپ دو طرح کے الگ الگ اصول لاگو کریں اور شک یا سوال کا حق بھی ڈسپلن کے نام پرجرم قرار دیں آپ کے پاس متفقہ طور پر ذمہ داریاں اختیارات تقسیم کرنے کا فارمولا بھی نہ ہو اور آپ اختیارات کے تقسیم و سلب کرنے میں بھی بااختیار ہوں ثبوت،وجہ،جواز،شک کا فائدہ کچھ بھی پیش کرنے سے قاصر یابری الذمہ بھی ہوں جب اتنے تضادات کے ساتھ آپ لوگوں کا بھروسہ و اعتماد حاصل کرنا چائیں گے تو آپ کیلئے بہت مشکل ہوگا۔
جہاں تک بات قانون، اصول اور نظم و ضبط کو یکجا کرکے دیکھنے کا ہے تو ان تمام کا مقصد انسانی تعلقات میں توازن قائم کرنے سے ہے جسکی بنیاد عدل و انصاف پر قائم ہوتی ہے فطری قوانین کے بعد اخلاقی قوانین ہی بہتر و اعلیٰ کہلائے جاتے ہیں، کیونکہ اخلاق کا تعلق خارجی نہیں داخلی طور ضمیر سے ہوتا ہے اور اس کا انحصار مکمل رائے عامہ پر ہوتا ہے کسی کمزور پر ظلم دھوکہ دہی، چوری، قتل، جھوٹ، کسی کی حق تلفی سازش وغیرہ کسی بھی سماج میں ناپسندیدہ عمل جانے جاتے ہیں،اسی مناسبت سے اگر دیکھا جائے تو بعد کے جتنے بھی قوانین آتے ہیں انکا اخلاقیات سے گہرا تعلق ہے کسی بھی قانون کو جہاں بھی لاگو کیا جاتا ہے اسکو وہاں کی اکثریت کی اخلاقی حمایت حاصل ہو تب وہ آسانی سے نافذ اور قابل عمل ہوسکتا ہے اور اسکے کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اسلئے تمام انسانی تعلقات میں سب سے اہم اور لازمی بات اخلاقی برتری شمار کی جاتی ہے جو تعلقات کو بہت ہی مضبوط اور دیرپاء بناتی ہے لیکن بدقسمتی سے کسی بھی قسم کے تعلقات کسی بھی وجہ سے اپنے اخلاقی برتری کے جواز کو کھو دیتے ہیں تو پھروہاں ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے ان تعلقات کو قائم رکھنے کے لئے وقت و حالات اور تعلقات کی نوعیت کے مطابق متفقہ اصولوں اور قانون کا سہارا جس میں نظم و ضبط کو قائم رکھا جاسکے۔ورنہ انسانی تعلقات میں اگر خاندان کاسربراہ قبائلی نظام میں قبائل کے بیچ کوئی طاقتوار قبیلہ یا ایک قبیلے کا سردار روایات کے خلاف من مانی کریں یا کسی پارٹی یا تنظیم کا سربراہ سیاسی تعلقات میں کسی بھی وجہ سے من مانی شروع کردیں تو اسکے نتائج سیدھی طرح سے بے چینی، بداعتمادی اور بغاوت کا سبب بن جاتے ہیں۔
تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر مسئلے کو سمجھنے کے لئے اسکے وجوہات و اسباب کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے اور اسکے بعد اسکے حل کیلئے کوششیں کئے جاتے ہیں اگر کسی بھی نوعیت کے مسئلے سے جوڑے کسی بھی کردار کی نفی کی جائے تو مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ایک اور مسئلہ سر اٹھائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ تحریر :: 21 جولائی 2017

среда, 12 июля 2017 г.

سندھ کے بیٹی کی پکار: میرے بھانجے کو آئی ایس آئی کے خونی پنجوں سے بچا لو


میں جسمم جنرل سیکریٹری شھید مظفر بھٹو کی بیہن رانی بھٹو ہوں آج میں اپنہ بیان رکارڈ کروا رہیں ہو ابھی رات کے 4 ہورہے ہیں ادھا گھنٹہ پہلے 3۔30 بجی آء ایس آء رینجرس پولیس دلال دروازے توڑ کر گھروں کا گھیرا کرکے ہمارے اوپر ھتھیار تان کر سارے گھر کی تلاشی لی گئی، گھر میں موجود سامانوں کو توڑ دیا، میرے بھتیجے کا پوچھ رہے تہے، میں پوچھنہ چاہتی ہوں ہمنے کون سہ گناھ کیا ہے، میرے دو بھائیوں مظفر بھٹو، ممتاز بھٹو کو آء ایس آء نے شھید کیا میرے دو بھائی شاہنواز بھٹو، سکندر بھٹو جلاطنی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے میرے کزن آصف کو بھی لاپتہ کردیا تھا میرے دوسرے کزن حامد بھٹو کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کردیا ہے آج رات میرے 18 سال کے بھانجی اویس بھٹو بھی اٹھا کر لے گئے ہے، 3۔30 بجی بھانجی کو گرفتار کیا گیا تو چھڑانے پر ہم خواتین پر تشدد کیا گیا میری 90 سال کی ماں پر تشدد کیا گیا، ہم سے یے کونسا ظلم ہے، ہمارہ کسور کیا ہے۔؟؟؟ کیا آزادی کا نام لینہ گناھ ہے۔؟؟؟؟ میرے بھائیوں کو بھی سندھ کی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے پر شھید کردیا گیا، ہم کیسے جییے ہم کہان جائے ہمارا جینے آء ایس آء نے حرام کردیا ہے، آء ایس آء والے آتے ہے تو چھوٹے چھوٹے بچے خوف سے چیختے رہتے ہے، ہم ابھی ایسے پوزیشن میں ہے میری ٹانگ آگ میں جلل گئی ہے، میرے علاج کے لیے میرے بھائی گھر نہیں آسکتے نہ بھتیجہ آسکتہ ہے، آء ایس آء والے ادھی ادھی راتوں کو آتے ہے اور کسی نہ کسی کو اٹھا کر لے جاتے، میرے چھوٹے بھتیجے رانجھو بھٹو کو اٹھانے آئے تہے، وہ چھوٹہ ہمارے گھر کا جو آخری سہارہ ہے آء ایس آء وہ بھی ہم سے چھینہ چاھتی ہے، میرے بھائی، بھتیجے، نھانجے کزن سب کو اٹھا رہے آخر ہمارا کسور کیا ہے۔؟؟؟؟ پاکستانی ریاست کو کوئی کیوں کہنے روکنے والا نہیں؟؟؟؟ میں ریاست کو کہتی ہوں مجھے ہر حال میں میرا بھانجہ آزاد چاہیے، ہے کونسہ ظلم ہے، کیا اور ملکوں میں بھی ریاستی ایسا کرتی ہے جیسے پاکستانی ریاست کرتی ہے آدھی رات کو گھر میں آکر خواتین پر تشدد کرنہ ۔؟؟؟؟ انکی مائوں کے سامنے اسکے بچوں کو گسیٹنا، تشدد کرنا یے کونسا قانون ہے۔؟؟؟ ہمارے گھر سے موٹر سائیکل، لیپ تاپ، اور قیمتی سامان اور کچھ پیسے تھے وہ بھی چھین کر لے گئے، میرے دو بھائیوں کو شھید کیا گیا، دو بھائی جلاوطن ہیں، گھر میں ایک بھائی جو مازور ہے وہ اور میں اور میرے 90 سالا ماء بھتیجے رہتے ہے، مینے بھانجی کو گائوں سے اپنے علاج کے لیے منگوایا تھا، تا کے ڈاکٹر کے پاس جا سکوں میری حالت بہت خراب ہے میری ٹانگ ساری جلی ہئی ہے، میرہ بھانجا جو سندھ یونیورستی فائین آرٹ فرسٹ ایئر کا اسٹوڈنٹ ہے اور اس کے عمر 18 سال ہے اس کو آء ایس آء نے گم کردیا ہے، میں عوام میڈیا سمیت سب کو کہتی ہوں مجھے اپنا بھانجہ واپس کرواکے دے مین ہاتھ جوڑ کر سب کو مدد کی اپیل کرتی ہوں، یے آج آج ہمارے گھر میں ماتم برپہ کی گئی ہے 3۔30 ہوگئے ہے ابھی 4۔30 ہورہئے ہے میں چل پھر نہیں سکتی کے اپنے بھانجے کی زندگی بچائوں اسلیے میں اس ویڈیو کے ذریعی سب کو کہتیں ہوں مھربانی کرکے میرے بھانجے کو بچائی آء ایس آء والے اس کو بھی ماردینگے، ہمارے گھر میں ایسی حالت کردی ہے چھوٹے چھوٹے بچے ڈرگئے ہے میرے ماں کی حالت بہت 
خراب ہے پلیز پلیز پلیز میرے بھانجے کی زندگی بچائے۔

среда, 5 июля 2017 г.

 بابو نوروز .... بیوروچیف سنگر
بلوچ آزادی پسند قومی رہنما میر عبدالنبی بنگلزئی سے ادارہ ’’سنگر میڈیا گروپ‘‘ نے ایک نامعلوم مقام پر ایک خصوصی انٹرویو لیا تھا۔جس کی آڈیو بھی جلد نشر کی جائے گی،یہ انٹرویو اپنے اندر ایک مکمل و خصوصی حیثیت رکھتی ہے اور میر صاحب کے اب تک کی سب سے اہم اورنایاب ترین انٹرویومیں شمار ہوتا ہے جس میں بلوچ تحریک کے مختلف جہتوں کا تفصیلی و جامع اور حقیقیگوشے شامل ہیں۔ کافی عرصے سے کئی ای میل و دیگر ذرائع سے بلوچ قوم کی خواہش رہی کہ میر صاحب کا انٹرویو کیا جائے جس پر آج ہم کامیاب ہوئے ہیں۔ہم جناب میر عبدالنبی بنگلزئی صاحب کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اس جنگی حالات میں جوبلوچستان کا ہر حصہ فوجی آپریشن کی زد میں ہے اوربلوچ عسکری قیادت بشمول تنظیمیں جو دشمن سے دو بدو صف آراء ہیں اوراپنی حکمت عملی کے تحت اپنا لوکیشن بھی بدلتے رہتے ہیں اس پر آشوب لمحے میں اپناقیمتی وقت نکال کر انٹرویو دینا یقینایہ سنگر کیلئے باعث شرف ہے۔ادارہ
سنگر :میر صاحب آپ کی جہد کا آغاز کب اور کیسے شروع ہوا؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:یہ میرے طالب علمی کے دور سے جب میں کالج میں داخل ہوا،تومیرا سیاست میں دخل ہوا۔1967 میں میں کالج میں داخل تھا بی ایس او نیا نیا بنا تھا۔بی ایس او کا مستونگ میں زونل سیکریٹری بنا،پھر اسی دوران، پاکستان میں ون یونٹ کے خلاف ایک تحریک اُٹھی۔صوبائی خود مختاری کے لیے، بی ایس او بھی اس کا حصہ تھا،وہیں سے میری شمولیت اورحصہ داری ہے۔یہ سلسلہ وہیں سے شروع ہے، آخر آ کر اِس وقت تک وہی سلسلہ ہے۔ پھر مختلف مراحل آئے جیسے کہ سب کو معلوم ہے،ون یونٹ توڑ دیا گیا ،صوبے بنے،،انتخابات ہوئے،پاکستان میں ،عوامی لیگ نے بنگلہ دیش میں کامیابی حاصل کی، بلوچستان اور صوبہ سرحد، موجودہ پختون خواہ میں نیشنل عوامی پارٹی نے اکثریت حاصل کی،آخر پاکستان ٹوٹا بنگلہ دیش آزاد ہو گیا،یہاں صوبائی حکومتیں بنیں،صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اورجمعیت علماء اسلام مفتی محمود انکی مخلوط سرکار بنی،یہاں نیشنل عوامی پارٹی کی متحدہ حکومت بنی،جمعیت علما اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی کی۔73 میں حکومت کو چلنے نہیں دیا گیا جب سردار عطااللہ وزیر اعلیٰ تھا،لیڈر شپ گرفتار ہوا،صوبہ سرحد کے حکومت نے بھی احتجاجاً استعفیٰ دیا، اب یہاں پر پاکستانی حکمرانوں نے فوج کشی شروع کی۔ یہاں جنگی حالت پیدا ہوگئے۔ میں لاہور میں انجینئر نگ یونیورسٹی میں طالب علم تھا،ہم بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے،میں بھی اسی جہد میں شامل ہو گیا،مختصرا یہی ہے جو آج تک ہے۔
سنگر :آپ کی سیاست جو بی ایس او سے شروع ہوئی تھی اور وہاں آپ کی صلاحیتوں سے آپ کو بہت بڑا مقام ملا تھا ۔ صرف بی ایس او میں نہیں بلکہ پوری قوم نے آپ کی خدمات اور ایمانداری کو سراہا ۔ وجہ کیا تھی کہ بی ایس او سے فراغت کے بعد اس وقت کے سیاسی پارٹیوں میں شامل ہونے یا نئی سرفیس پارٹی بنانے کے بجائے مسلح جدو جہد میں شامل ہوگئے؟ آپ کو پاکستان کی غلامی کے سائے میں سرفیس سیاست اور مسلح جدو جہددونوں میں دہائیوں کا تجربہ ہے۔ کون سا راستہ بلوچ کیلئے پاکستان کے خلاف فائدہ مند ہے ؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:مختصر جواب دینا پڑے تو بہتر ہے ....ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان ایک مقبوضہ علاقہ ہے ،کوئی اپنی خوشی سے غلام نہیں بنتا ،زوراک ، طاقتور کمزوروں کو اپناغلام بناتے ہیں ،اور غلامی سے چھٹکارے کیلئے ظاہر ہے اپنی طاقت برابر......جب تک برابر طاقت نہیں ہوگا تو وہ آزاد نہیں ہوسکتا۔ہم نے یہی سمجھا سرفیس سیاست یا سرفیس پارٹی میں شمولیت ،یہاں اس کا امکان ہم نے سمجھا کہ نہیں ہے،.ویسے اس سے انکار نہیں ،وہ بھی ایک ذریعہ ہوسکتا ہے ..مگر ہمارے حالات..ہمارا سماج اور جو معروضی حالات یہاں کے ہیں ،یہاں وہ میل نہیں کھاتے ہیں ،ہماری آبادی ،ہمارا علاقہ ،ہمارے لوگ تو یہ سب چیزوں کو دیکھیں ، یہی ایک طریقہ جو ہمارے روایت ہمارے پاس نہ کوئی بڑے شہر ہیں ،ہم دیہاتی لوگ ہیں ،ہمارے لوگ ابھی تک خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے ہیں ،تو یہاں جلسہ ،جلوس یہ چیزیں .....لوگ بھی ان کو نہیں جانتے یہ طریقہ یہاں کامیاب نہیں ہے، اس لئے ہم نے عہدکیامسلح جدو جہد کیلئے .....اور یہی سمجھے کہ یہی ایک طریقہ ہے .....ظاہر ہے فوجوں کے سامنے ہاتھ باندھنے سے آزادی نہیں ملے گی ،جب تک اسی طرح کا جواب نہ دیا جائے ،اسی لئے مسلح جدوجہد میں میری شمولیت ہے ،وہ عہد کیا میں نے اس کیلئے ،مختصر اً میں یہی کہہ سکتا ہوں ۔
سنگر :مجبوریاں کیا تھیں جوآ پ کو افغانستان میں جلاو طنی اختیار کرنا پڑا، اس ہجرت کے اہم مقاصد کیا حاصل ہوئے ؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:جہاں تک مجبوریوں کی بات ہے ۔مجبوری تو یقیناجو یہاں کے حالات تھے۔اور یہ کہ میں نے کوئی ہجرت کی،میں یہیں پر رہا ہوں۔اور اپنے علاقے میں رہا ہوں ۔افغانستان اگر میں کھبی گیا ہوں تو اپنے دوستوں کے بلاوے پر یا کسی خاص مقصد کیلئے ، کچھ وقت کے لئے ،میں وہاں پر کسی ہجرت کیلئے نہیں گیا ۔اگر ہمارے لوگ گئے ہیں یقیناًیہاں کے جو حالات ہیں انہی کی وجہ سے ۔یہاں پرجو ظلم و جبر تھااس سے بچنے کیلئے کچھ لوگوں نے ہجرت کی ہے اور افغانستان چلے گئے ۔جہاں تک میرا سوال ہے میں نے کوئی ہجرت نہیں کی تھی۔افغانستان میں کبھی گیا ہوں اپنے تنظیم یا دوستوں کے بلاوے پر کام کے حوالے سے گیا ہوں اور واپس آیا ہوں۔یہ کہنا کہ ہم نے کوئی ہجرت کی وہاں گیا ہوں رہائش کیلئے ، نہیں۔
سنگر :افغانستان سے مقبوضہ بلوچستان واپسی کیسے ہوئی؟ کیاقابض سرکار کا نرم گوشہ تھا، حالات نارمل ہوگئے تھے یا کوئی اور حکمت عملی تھی؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:افغانستان سے واپسی ،ان دنوں میں بھی گیا ہوا تھا وہاں پر ،دوستوں کے بلاوے پر ،واپسی ہوئی وہاں کے حالات ،افغانستان میں جو تبدیلی ہوئی ،وہاں کی جو حکومت تھی ،وہ حکومت قریباً ختم ہوگئی۔،ایسے لوگ آئے جو ہمارے ساتھ ان کاکوئی ہمدردی نہیں تھاوہ پاکستان کے دوست تھے ۔اب ہمارے لوگوں کاوہاں رہنا بہت مشکل ہوگیا،تو ظاہر ہے ایسے حالات میں کوئی اور آپشن نہیں تھا سوائے اس کے کہ لوگ واپس آئیں۔اور نرم گوشہ...... یقیناًیہاں بلوچ کیلئے کوئی نرم گوشہ نہیں تھا اور کھبی انہوں نے یہ ظاہر کیا ہوگا تو اپنی حکمت عملی کے تحت،ورنہ کوئی نرم گوشہ نہیں تھا ۔ہمارے پاس حکمت عملی ،وہ صرف لوگوں کا اپنے آپ کا..... ہم سمجھتے ہیں کہ حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں تھی اور وہ ابھی تک چل رہی ہے وہی چیز ہے ۔
سنگر :پاکستانی فورسز نے آپ کو اور آپ کے ساتھی عالم پرکانی کوکیوں گرفتار کیا؟ دوران تفتیش سوالات کی نوعیت کیا تھی؟ ریاست کے مطالبات کیا تھے؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:یقیناًہماری گرفتاری اس کی وجہ جو تھی ہماری مزاحمت، جو یقیناپاکستانی ریاست کادشمن ہے اسی لئے اس کا گرفتار کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔تو اس نے گرفتار کیا ،حالات بھی کچھ ایسے نہیں تھے ،افغانستان سے واپسی پر یہاں پر الیکشن ہوئے ،ایک دو دفعہ الیکشن ہوئے ، انہوں نے،فوج نے مجھے بلایاکہ ہمارے پاس آئیں حاضری کیلئے ،میں نے انکار کیاکہ مجھے آپ سے کوئی کام نہیں ہے۔ان کو یہ چیز پسند نہیں ،کہ میں ان کا سلامی نہیں ہوتا۔ تو انہوں نے کوئی بہانہ بناکر کسی اغوا کا کیس بنا یا کہ افغانستان میں کوئی کمانڈر تھا جو انکا دوست تھا وہ اغوا ہواتھا،تو اس کی کیس میں انہوں نے مجھے پکڑا تو کوئی ایسا مطالبہ ان کا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں ۔مقصد ان کا صرف یہی تھا مطالبہ ان کا.... باقی فروہی...پھر انہوں نے چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ کے قتل کا کیس ڈال دیا،راکٹ فائر ڈال دیا،بم دھماکے ،بہت سارے کیسز انہوں نے ہمارے خلاف بنائے محض ہمیں جیل میں رکھنے کیلئے.....نتیجہ جو نکلا کچھ بھی نہیں تھا ،وہ صرف ہمیں یہ سزا دینا چاہتا تھا کہ تم کیوں ہمارے پاس حاضری نہیں دیتے۔باقی ان کے سوالوں کا یقیناایسے حکمران جو نو آباد کار ،نوآبادیاتی قوتیں جو سوال کرتے ہیں وہ یہی ہے کہ لوگوں کو اپنا مطیع بنائیں ،تو میں اس سے انکاری تھا تو انہوں نے مجھے جیل میں رکھانو آٹھ سال ،.پھر آخر کار انہوں اپنے کچھ کیسز ڈراپ کئے ،پھر جسٹس نوازمری کا کیس تھاوہ انہوں نے ڈراپ کیا...داخل دفتر کیا...پھر ہمیں چھوڑ دیا...کیوں رکھا؟ ...کچھ پتہ نہیں ...جو کچھ اپنے دشمن کے ساتھ کوئی کرتا ہے تو ہمیں وہ اپنا دشمن سمجھتا ہے....اس سے زیادہ میں نہیں سمجھتا کوئی اورمقصد تھا....
سنگر :میر صاحب !آپ رہائی کے بعدسب سے پہلے نواب خیر بخش مری سے ملنے گئے،کیا اس ملاقات کے بارے میں قوم کو کچھ بتاناپسند کریں گے؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:ملاقات ،نواب خیر بخش مری کی ساتھ میری ملاقات جیل کے بعد ایک رسمی چیز تھی ۔وہ میرا رہنما تھا ،کافی عرصہ میں جیل میں رہا اور ہم نہیں مل سکے ۔صرف جیل میں چند ایک پیشیوں پر ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکے ، ورنہ نہیں دیکھ سکے ۔تو یقیناًہم ایک ہی مقصد کے ساتھی تھے تو میں ان سے ملنے کو اپنا سب سے پہلا فرض سمجھتا تھاکیونکہ ہم ایک ہی مقصد کے راہی تھے ۔باقی ایسی کوئی بات نہیں ،قوم واقف ہے کہ جو کچھ نواب صاحب نے کیا یا جو کچھ ہم سے ہورہا ہے وہ سب کو معلوم ہے ،میں اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہہ سکتا ۔
سنگر :رہائی کے بعد آپ نے مقبوضہ بلوچستان کے تقریباً اکثر علاقوں کا دورہ کیا،جس میں مکران قابل ذکر تھا،اس دورے کا مقصد؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:مقصد کی بات بڑی بات ہے ،اگر اس کو ہم دورہ کہتے ہیں کہ یہ علاقہ وہ علاقہ ہے تو یہ سب بلوچسان ایک ہی ہے ،گھومتے رہے ۔مکران میں تو میں فاتحہ خوانی کے لئے،ہمارے دوست ، ہمارے شریک کارغلام محمد ،لالا منیر ،شیر محمد کی شہادت ہوئی میں کراچی میں تھااپنے علاج کے سلسلے میں ،مجھے جانا پڑا،اس کا کوئی اور مقصد نہیں تھا، یقیناًہم گئے تو دوستوں سے ضرور ملے ۔میں تربت گیا ، تمپ گیا،فاتحہ خوانی کی وہاں ،پھر میں پنجگور چلا گیا لالا منیر کے گھر فاتحہ خوانی کی ،پھر کئی دوستوں کے ساتھ ملاقاتیں ہوتی رہیں اورکچھ دوست جو ظاہر ہے سب جاننے والے دوست تھے میں مختلف علاقوں میں لوگوں سے ملنے کے لئے گیا ہوں،دوستوں نے بلایا بھی ....تو کوئی مقصد....یقیناًجس مقصد کے لئے آج ہماری جہد ہے اس کے لئے یقینا،تاکہ بلوچستان کی آزادی کیلئے جو مقصد ہم لئے ہوئے ہیں وہاں تک آواز پہنچائیں ۔تو یہی مقصد تھا اور کوئی مقصد نہیں تھا،پہلی مقصد تو یہی تھا کہ فاتحہ خوانی کیلئے وہاں حاضری کے لئے میں گیا تھا،اس کے علاوہ کوئی اور ایسی چیز میرے خیال میں نہیں تھا۔
سنگر :رہائی کے بعد آپ سرفیس سیاست میں سرگرم کسی سیاسی پارٹی سے کیوں منسلک نہیں ہوئے کیا وجہ ہے؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:میں سمجھتا ہوں کہ سر فیس سیاست کی اس ملک میں گنجائش نہیں ہے ، یہ ملک پاکستان خود ایک نوآبادی ہے ،ایک جدید نوآبادی ہے، یہاں تو ظلم وجبر ہے ،یہاں اس کا امکان بہت کم ہے ،یہ کوئی جمہوری ملک نہیں ہے کہ اس میں کوئی سر فیس سیاست ہوسکتی ہے ،تو اس لئے اس میں شامل ہونااپنی صلاحیتوں کو برباد کرنا ،اپنی محنت کو ضائع کرنا ہے ،میں نے یہی سمجھا،ہاں اگرکوئی ایسے امکانات جیسے دنیا میں ہے ،دنیا کے بہت سارے جمہوری ملکوں میں اگر سرفیس سیاست ہے ،لوگ اپنی مطالبات پیش کرسکیں ،یہاں تو بلوچستان کی بات کریں تو دوسرے دن غائب ہیں ،آج یہی دیکھتے ہیں اسی لئے میں سرفیس سیاست میں گیا ہی نہیں ،اور میرا فکر و سوچ اس کو قبول ہی نہیں کرتا۔
سنگر :بی این ایم توڑنے کی کوششیں کی گئیں ،اُس وقت آپ نے عصا ظفر و دیگر سے ملاقاتیں کیں،آپ کوکیا نتائج حاصل ہوئیں ؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:عصا ظفر ، چیئر مین خلیل کراچی میں تھے ،بی این ایم میں جو یہ تضادات تھے حادثاتی صورت میں میں بھی وہیں پر تھا تو میں نے کوشش کی کہ یہ مسئلہ پیدا نہ ہو۔جب ہم نے دیکھا کہ جو یہ اختلافات ہیں وہ کوئی خاص نوعیت کے نہیں ہیں فروئی قسم کے ہیں تو اس کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلااور ہم نے اس کو چھوڑ دیا ۔بلوچ خود فیصلہ کرینگے ،ہم یا کوئی کسی کو مجبور نہیں کرسکتا ،دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ۔تو کوئی خاص نتیجہ حاصل نہیں ہوااس کا۔پھر پتہ نہیں عصا ظفر کہاں پر گیا ،کیا ہوا۔بی این ایم آج تک دیکھتے ہیں کہ وہ ہے .... شاید عصا ظفر نے بھی محسوس کیا ہوگاکہ ہم اس کو خوامخواہ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم یہی کہ یہ اسی طرح قائم رہے کہ اس میں کوئی دراڑ نہ ہو ۔تو یہ ہم نے کوشش کی اس کا کیا نتیجہ نکلا،کتنی کامیابی ہوئی ،وہ شاید وقت بتائے گا۔
سنگر :بی ایل اے سے نکل کر ایک نئی مسلح تنظیم یو بی اے کا قیام لانے کی کونسی ضرورت اور مجبوریاں تھیں ؟ اس بارے میںآپ پر الزام ہے کہ یہ قدم بلاضرورت اُٹھایا گیا ہے؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:مجھ پر اگر کوئی الزام ہے تو میں انکار کرتا ہوں ، کیونکہ نہ میں اس کے قیام میں شریک تھا اور نہ مجھے اس کا پتہ ہے ۔ اگر میری وابستگی کی صورت رہی ہے تو وہ نواب خیر بخش کے ساتھ ،وہ میرا آئیڈیل تھا، جب سے میں سیاست میں آیا ہوں اس وقت سے جو لیڈر شپ تھی بلوچوں کے وہ میرے آئیڈیل تھے ،ہم اس وقت نہ کوئی نظریہ جانتے تھے اورنہ کوئی چیز......یہی کہ وہ بلوچوں کی بات کرتے ہیں،بلوچ قوم کی بات کرتے ہیں ،ہم جذباتی صورت میں انہی کو سب کچھ سمجھتے تھے ،ہمارا نظریہ ،ہمارا سوچ سب کچھ وہی تھے ،وہ شاید آخری وقت تک یہی کچھ رہا ،ورنہ مجھے یو بی اے سے کوئی تعلق نہیں تھا، آج تک نواب صاحب کے فکر وسوچ وہی میرا رہنما ہے ،وہی سب کچھ ہے ،ورنہ مجھ پر جو الزام ہے کہ میں نے یو بی اے بنایا ،یا میں نے بی ایل اے کو توڑا.....نہ میں نے بی ایل اے بنایا اور نہ ہی میں نے یوبی اے بنایا،میرے خیال میں یہ باتیں مجھ سے منسوب کرناشاید درست نہ ہوں، یا صحیح نہیں ...... نواب خیر بخش اگر بی ایل اے تھا تو میں بھی تھا، اگر وہ یو بی اے تھا تو میں بھی یوبی اے ،کیونکہ اسی کی وجہ سے ....اب اس کو شخصیت پرستی کہتے ہیں ،کچھ بھی کہتے ہیں اس کو.....ولایتی اس پر اعتماد تھاوہی جو کچھ تھا.... ورنہ نواب صاحب سے میں ملا،اگر یو بی اے بنا تو اس نے کھبی یہ نہیں کہا کہ کوئی یو بی اے ہم بنا رہے ہیں ،یا کچھ ہے ،آج کل تو سنتے ہیں کہ لوگ یہی کہتے ہیں کہ نواب صاحب نے یو بی اے بنایا،ہاں کچھ ایسی باتیں تھیں جو نواب صاحب نے ہم سے کیں ،ان کے اور بی ایل اے کے درمیان کچھ اختلافات لیڈر شپ کے حوالے سے تھے جن کا نواب صاحب نے نرمی سے اظہار کیا کہ کچھ باتیں ہیں جو ہمارے درمیان تضاد ہیں کوشش کریں گے ہم انہیں روایتی انداز میں طے کرلیں اگرنہیں ہوئے تو ہم بلوچوں کے سامنے وہ باتیں لائیں گے ،پھر وقت نے ساتھ نہیں دیا ،نواب صاحب بھی چلے گئے ،یہی کچھ تھا،مجھ سے نہ اس کی ضرورت تھی ،ہماری ضرورت تو یہ ہے کہ اپنی آزادی حاصل کریں،متحد ہوجائیں ، اتحاد کریں ،توڑنا تو ہمارے مسئلے کا حل نہیں ،مسئلے کا حل تو ہمارے اتحاد میں ہے ،مجھ پر جو الزام ہے میں اس پر انکاری ہوں ،ہاں آج جو کچھ ہے ہمدردیاں سب کے ساتھ ہیں ۔
سنگر :ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ پر بھی آپ لوگوں کا ساتھ دینے اور یو بی اے کے قیام میں کردار ادا کرنے کے الزامات لگائے جارہے ہیں ۔ اس میں کتنی صداقت ہے ؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:ضروری نہیں کہ ہر الزام درست ہو،مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے ،ڈاکٹرصاحب پر اگر الزامات ہیں تو ڈاکٹر صاحب ماشااللہ خود بالغ انسان ہیں جو جواب دے سکتے ہیں،وہ جانتے ہیں مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا یو بی اے بنانے میں کوئی کردا ر ہے ،میں نے کھبی نہیں سنا ،یہ باقی،الزام تو الزام ہیں ،لیکن ضروری نہیں کہ وہ درست ہوں ،میں نے نہیں سنا میں اسکی تصدیق نہیں کرسکتا۔
سنگر :بلوچستان بھر میں عوام سے ملنے کے بعد آپ اچانک روپوش ہو گئے اور مزاحمت کا حصہ بن گئے،کیا نواب خیر بخش مری کی طرح آپ بھی صرف مزاحمتی جہد پر یقین رکھتے ہیں؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:جی ہاں.....کسی حد تک میں بھی اس پر یقین رکھتا ہوں اور اس کا امکان بھی یہی ہے اس کے علاوہ میں نہیں سمجھتا کوئی اور راستہ ہے یہاں پر،اگر امکان ہوتا تو یقیناًدوسرے راستے بھی وائبل Viableہوتے مگر یہاں پر نہیں ہے ،نواب صاحب بھی مزاحمت پر یقین رکھتے تھے،ان کے انٹرویو ز و لیکچرز میں موجود ہے ،میں بھی سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ،میں روپوش ہوگیا میرے لئے رہنامشکل ہوگیا،جیل سے میں نکلااور میں دیکھ رہا تھا کہ یہاں پر مجھے یہ رہنے نہیں دینگے،اور میں نے مختلف طریقے محسوس کئے کہ ابھی یہ نہیں ہے ،میں نے زندگی اس جہد میں گزاری ہے کہ اسی لئے میرے لئے آرام سے بیٹھنا بھی مشکل تھا،اور چاہے جوبھی حالات ہوں اسی مزاحمت کو آگے لے جانا ہے ۔
سنگر :کئی مزاحمتی تنظیموں کے باوجود یو بی اے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:میں اس کا جوابدہ ہوں، یا صرف معلومات کیلئے مجھ سے یہ سوال کیا جارہا ہے ؟میرے خیال میں تو یقیناًاس سے انکار بھی ممکن نہیں ہے ،بہت ساری تنظیمیں ہیں سب کا فکر ایک ہونا،ایک تنظیم ہونا،فوراً۔۔ میرے خیال میں مشکل کام ہے ،گوکہ ہماری ضرورت یہی ہے کہ ہم متحد ہوجائیں اور اس طرح یہ ضرورت کیا تھی ؟کیوں؟مجھے اس کا علم نہیں ہے ،میں نہیں جانتا.....یقیناًاگر اختلافات ہوں کوئی اپنے ،ہر ایک اپنے بساط کے مطابق، ضرورت تھی یا کیاتھی شاید جنہوں نے بنایا وہ محسوس کرتے ہیں مجھے اس کا علم نہیں ہے ....
سنگر :کیا اس وقت گراؤنڈپر موجود اور بیرونی ممالک میں سرگرم سیاسی لیڈران سے آپ کے رابطے ہیں؟ اگر ہیں تو کس نوعیت کے؟ خصوصاََ حیربیارمری سے کیونکہ آپ ایک زمانے میں ایک ہی تنظیم سے وابستہ تھے۔
میرعبدالنبی بنگلزئی:ہاں یہ کہ ہم ایک ہی تنظیم سے وابستہ تھے ویسے رسمی چیز نہیں ہے ،اور میرے رابطے ان سے، کوئی باقاعدگی نہیں ہے ،میں نہیں جانتا کوئی کیا کررہا ہے،جو کچھ آتا ہے دیکھتے ہیں میڈیا میں وہی بس ،ورنہ میرے خصوصی رابطے نہیں ہیں کسی کے ساتھ ،اور ہم ایک ہی تنظیم میں تھے ،میں نے پہلے عرض کیاکہ میری وابستگی تھی تو نواب صاحب کی وجہ سے ہے بی ایل اے سے........بی ایل اے کا نہ میں ذمہ دار ہوں اور نہ وہ میرا ذمہ لیتے ہیں ،وہ صرف نواب صاحب اگر بی ایل اے تھے تو مجھے بھی لوگ بی ایل اے شمار کرتے تھے بی ایل اے میں...... اگر وہ کسی اور تنظیم میں جوہیں غیر رسمی، کھبی تنظیمیں ہیں جن کا کوئی نام بھی نہیں جانتا ہو، تو اس قسم کی چیزیں کہ میرے رابطے ہیں،میں یہی کہوں گا کہ میرا کوئی رابطہ نہیں ہے ، کوئی ان میں باقاعدگی نہیں ہے۔
سنگر :کیا بلوچ مزاحمتی تنظیموں میں آپسی ہم آہنگی موجود ہے ؟ یہ تنظیمیں ایک مشترکہ کونسل بنانے میں کیوں ناکام ہیں؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:سوال میں جواب ہے ،یقیناناکامی تو وجہ ہے اس کا مطلب ہے کہ ہم آہنگی نہیں ہے .....اگر ہم آہنگی ہوتی تو مشترکہ کونسل بھی ہوسکتاتھا،.تو یہ خود سوال میں ہی اس کا جواب ہے ،باقی میں اس کے بارے میں کیا کہوں،.میرے خیال میں بہت مشکل ہے.....
سنگر :کیا آپ بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے کردار سے مطمئن ہیں؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:اطمینان مرگ کے علاوہ کوئی نہیں ہے ،زندگی میں تو اطمینان نہیں ہوسکتی ،باقی جو کچھ کر رہے ہیں اس کا اطمینان بھی ہے ،مگر کافی نہیں ہے ،جو کچھ کر رہے ہیں وہ بہتر ہے۔ لوگ تعریف کرتے ہیں،باقی اطمینان ہونا علیحدہ بات ہے ،شاید اس بارے میں مجھے اطمینان نہیں ہے ،بہر حال قابل ستائش ہے ۔
سنگر :مقبوضہ بلوچستان میں مختلف سرکاری منصوبات، خاص کر سی پیک کے منصوبے پر کام کرنے والے بیرونی افراد کو صرف پیٹ پالنے والے محنت کش کا نام دیکر اُن کی ہلاکت پربہت شور شرابہ کی جاتی ہے ،آپ اس عمل کو کیسے دیکھتے ہیں؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:میرے خیال میں اس پر شور شرابہ کرنا کہ یہ محنت کش ہیں،یہ محنت کش نہیں ہیں یہ ،بلکہ ان حکمرانوں کے آلہ کار ہیں ،ان کو محنت کش کہنا نہیں ہے ،محنت کش تومظلوموں کے ساتھی ہوتے ہیں،یہاں ایک قومی جہد ہے اور یہ قومی جہد کے خلاف کام کرتے ہیں،اب اگر یہ کوئی مرتا ہے تویہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لوگ یہ کہیں کہ یہ محنت کش ہیں،یہ محنت کش نہیں ہیں بلکہ یہ بھی اہلکار ہیں حکمرانوں کے،.اس عمل کو یہ کہ مزدوروں کے نام پر آکر کام کرتے ہیں،ان کے آلہ کار بنتے ہیں قابل مذمت ہیں.....اور شاباش ہے ان بلوچوں کوجو ان کو کام کرنے نہیں دیتے وہ قابل تعریف ہیں......
سنگر :بلوچ آزادی پسندوں کی خارجہ پالیسی کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ یعنی آپ مطمئن ہیں؟ جو سرگرمیاں سر انجام دی جارہی ہیں ان میں بیرونی ممالک میں احتجاجی جلسے اورمظاہرے وغیرہ بھی شامل ہیں، کیا اس سے پاکستان پر دباؤ بڑھایا جاسکتا ہے؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:ہاں یقینا،میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ اطمینان نام کی کوئی چیزتو زندگی میں اس کا امکان تو بہت کم ہے ،بحرحال خارجی طور پر جوکچھ ہورہا ہے وہ قابل احترام ہے اور یقیناًآج نہیں تو کل پاکستان پر اس کا اثر ضرور پڑے گا،یہ تو ہماری مزاحمت پر منحصر ہے کہ اس کی قوت ،طاقت کیا ہے ،اس کے اثرات پڑیں گے دنیا میں اور قریباًہم ...boosting....نہیں کرتے، قریباً امکانات ظاہر ہورہے ہیں،آج جو کچھ سنتے ہیں میڈیا کے ذریعے جو کچھ ہے اس کی حالت بھی درست نہیں ہے ،جو خارجہ پالیسی ہے اگر وہ سو فیصدہم تعریف نہیں کرسکتے برحال اس کوقابل تعریف کہتے ہیں،بہتر ہے ۔
سنگر :اس بات سے انکار نہیں کی جاسکتی کہ گراؤنڈ میں قوت مسلح پارٹیوں کی ہے۔ دنیا بھی ہمیشہ طاقتور سے مزاکرات کرتی ہے ۔ کیا آپ نے کبھی محسوس نہیں کی ہے کہ مزاحمتی تنظیموں کو بھی اپنے نمائندے متعارف کرانے چاہیے ؟
میرعبدالنبی بنگلزئی: یقیناسوال ہے جو طاقت ہے وہ مزاحمتی قوتوں کی ہے ،یہ مزاحمت ابھی تک اس اسٹیج پر نہیں ہے اس سے کوئی مزاکرات کرے ،یا کوئی بات کرے،شاید یہ ہماری حقیقت پسندی ہے کہ ہماری مزاحمت ابھی تک اس اسٹیج پر نہیں آیا، اب نمائندہ کوئی تنظیم اپنا مقرر کرتے ہیں ،شاید کئے ہونگے،ان سے کون مزاکرات کرے گا ابھی تک مجموعی صورت میں کوئی وہ مرحلے طے نہیں کرسکا،ظاہر ہے کسی سے اکیلے اکیلے مزاکرات کرنا تو مشکل ہے ، جب تک وہ ضروریات سب پورے نہ ہوں ،تو اس میں اپنے نمائندے متعارف کروائیں،یقیناًیہ تنظیم کا کام ہے جو بہتر سمجھے وہی کرے گا،اگر اس سے کوئی مزاکرات کرتا ہے کون کرتا ہے ،کوئی ہمدرد ملکوں سے کوئی بات کرے یا کہیں پر ان کو نمائندوں کی ضرورت ہو تو متعارف کرائے ،تو اس میں وہ تنظیمیں خود سمجھتے ہیں میں نہیں کہہ سکتا....
سنگر :بلوچ قوم میں آپ کیلئے ایک نہایت احترام کا مقام ہے، آپ کا درجہ اہم ترین رہنماؤں میں ہے لیکن عملی طور پر کسی تنظیم نے آپ کو قیادت و اختیار نہیں سونپی یا آپ خود قیادت دوسروں کے حوالے کرنے پر راضی تھے؟ اگر اس طرح ہے تو ہمارے قارئین جاننا چاہتے ہیں کہ بلوچ قوم کو آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کی انتہائی ضرورت کے باوجود آپ کیوں اس ذمہ داری سے دور رہے؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:پھر وہی تعریفی باتیں..... میں کوئی رہنما نہیں ہوں خدمت گار ہوں،میری بھی یہ کوشش ہے کہ جیسے باقی بلوچوں کی کوشش ہے جینے کیلئے ،سب کوششیں کرتے ہیں انسان ہو یا حیوان ہو ،زندہ رہنے کیلئے ،میں بھی اسی طرح زندہ رہنے کیلئے کچھ ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کررہا ہوں باقی یہ کہ میں نے کسی کوخود نہیں آیا یا لیڈر نہیں بنایا ،دوسرے کو میں نے لیڈرنہیں بنایا....لیڈر یا رہنما بنانا یہ تو لوگوں کا کام ہے قوم کس کو اپنالیڈر بناتا ہے ،میں اگر دور رہا اس کی ایک وجہ ہے ،میری تسلی نہیں ہوئی ،جو میرا فکر ہے سوچ ہے ،میں یہی سمجھتا رہا کہ شاید اپنے آپ کو میں نے یہی سمجھا کہ تنظیمیں ہیں بہت ساری چیزیں ہیں،مگر میں یہ نہیں کہہ سکتا ...بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو میں ان کے بارے میں نہیں کہہ سکتا....کیونکہ مجھے اطمینان نہیں تھا،کسی تنظیم میں جانا تواس کے بارے میں جوابدہ بھی ہونا پڑے گا،ابھی تک تو میرا اطمینان نہیں ہوا ...میں کسی میں باقاعدگی سے شامل ہوجاؤں........مزاحمت ہے ....ہم سفری ہے ...یا کوشش ہے ...سب کیلئے دعا گوئی ہے .....باقی میں کسی تنظیم میں جو میں مکمل طور پر سمجھوں کہ میرے فکر کے مطابق ہے ۔دیکھیں ابھی عمل ہے شاید وہ ہمارا اصلاح کریں،میرا بھی اور بعض تنظیمیں ہیں... .شاید وہ بھی اپنے عمل سے سیکھیں گے کہ کیا کچھ ہے ....... جو کچھ میں دیکھتا رہا ہوں .....سنتا رہا ہوں.... .تسلی نہیں ہوئی ....کیونکہ یہ ایک ایمانداری کی بات ہوگی اگر کسی تنظیم میں جانا توجب تک تسلی نہ ہو بہت مشکل ہوتا ہے گزارا کرنا۔اسی لئے میں نے اپنے آپ کو پابند نہیں بنایا........
سنگر :میر صاحب سنگر میڈیا گروپ کو ٹائم دینے کا شکریہ ،آپ سے ہمارا آخری سوال کہ موجودہ صورتحال میں آپ بلوچ مسلح تنظیموں کو اور بلوچ قوم کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:شکریہ میں بھی ادا کرتا ہوں سنگر میڈیا گروپ کا انہوں نے مجھ ناچیز کو اس اہل سمجھا میں کچھ باتیں جو مجھ سے پوچھیں اگر میں جواب دے سکا....میں بھی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ میرا عرض ہے مزاحمت کاروں سے ،مسلح مزاحمتی تنظیموں سے ،پہلے بھی میں یہ عرض کر چکاہوں اتحاد ،یونٹی،اتفاق ایک واحدذریعہ ہے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ،جو آزادی کی جہد ہے اس کے بغیر اس کا امکان نہیں کیونکہ یہ سرزمین بلوچستان بلوچ قوم کی ہے ۔جمعی چیز کیلئے جمع کا ہونا.....قومی چیز کیلئے قوم کا متحد ہونا ضروری ہے .....یہ کسی ایک کا نہیں ہے ،اکیلے اکیلے ہم پروازیں کرتے رہیں ،اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ،یہی میرا عرض ہے ،پہلے بھی ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ اس سرزمین کی خاطر،اپنے قوم کی خاطرآپس میں اتحاد کریں ،جو بھی ممکن ،جو امکانات ہیں،دشمن ایک ہے ،مقصد ایک ہے ،واحد ہے،کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم متحدنہ ہوں .....ہم متحد ہوں یہی میرا عرض ہے .....قوم سے بھی میرا عرض یہی ہے کہ اس وقت یہ قومی جہد ہے ،آگے بڑھیں اس مزاحمت کو مضبوط کریں .....اپنی آزادی کیلئے جہد کے ساتھی بنیں ....یہی میرا قوم سے عرض ہے .....ورنہ اگر اس مزاحمت کو کچھ ہوا توکسی کیلئے کچھ بھی نہیں بچے گا.....آج اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی جان بچارہے ہیں مزاحمت سے دور ہیں میرے خیال میں کوئی نہیں چھوڑے گا.....یہی عرض ہے قوم سے کہ مزاحمت میں شریک ہوں،کیونکہ مزاحمت ہم سب کی ہے ،سب متحد ہوجائیں 

вторник, 4 июля 2017 г.


"مجيد سے مجيد تک"
(شہید علی شير کرد)
شہيد کی موت سے جو خوبصورت سوتيں پهوڻتی ہيں وہ قوم کی راہيں روش کرتی ہيں اور يہ روشنی صداکے لئے ہوتی ہيں۔ بلوچ شہداء کی طويل فہرست ہی ہميں اس روشنی کی جانب بڑی تيزی سے بڑهنے پر مجبور کرتی ہے جسے آزادی کہاجاتاہے۔دنيا ميں ايسی بہت سی اقوام ہيں جنہوں نے اپنی آزادی کی خاطر ايک نسل کو قربان کرکے آنے والی نسلوں کو غلامی کے منحوس سايے سے دور رکهنے ميں کامياب رہے۔ان اقوام ميں بنگلہ ديش ٬ويت نام اور کوريا (شمالی) کی مثاليں دی جاسکتی ہيں۔ آج کے دور ميں ہم بہت سے اقوام کو آ زادی کی خاطر برسر پيکار ديکھ رہے ہيں ان ميں عراق ٬ فلسطين
اور بلوچستان سرفہرست ہيں جو اپنی آزادی کے لئے لڑ رہے ہيں اگر آزادی گهر بيڻهے مل جاتی تو تاريخ ميں شايد جنگوں کا کوئی ذکر ہی نہيں ہوتا بلکہ ظلم واستحصال يا حق و باطل کا کوئی تصور ہی نہيں ہوتا۔جنگوں کی تاريخ کو اگر ديکها جائے تو يہ کسی شوق يا عياشيوں کے لئے نہيں لڑی جاتی بلکہ فطرت کی طرف سے ہر انسان ميں مزاحمت کا عنصر موجود ہے بلکہ چهوڻے سے جانور چيونڻی تک کو اگر ذرا بهی تکليف پہنچے تو وہ بهی کاڻنے پر آجاتاہے تو پهر انسان تو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہے جسے باطل ٬ ظلم ٬ استحصال اور ناانصافيوں کے خلاف اس کا ضمير لڑنے ٬ مرنے يا مارنے پر اکساتاہے۔يہ فطرت کی طرف سے عطاکردہ صفات ہوتی ہيں۔
جن لوگوں کو ظلم ٬ ناانصافی و استحصال پر تکليف نہ پہنچے اور وہ اسے ذہنی طورپر قبول کرليں تو انہيں شک کی نظر سے ديکهنا چاہيے کيونکہ وہ انسان ہو ہی نہيں سکتے ۔اگر وہ بظاہر نظر بهی آتے ہوں تو وہ مريض ہوں گے کيونکہ ذہنی طورپر ايک صحت مند انساں نہ تو غلامی برداشت کرسکتاہے اور نہ ہی ظلم ٬ ناانصافی و استحصال ٬ خواہ وہ دنيا کے کسی بهی کونے ميں ہو رہا ہو ٬اگر يہ ظلم ٬ ناانصافی ٬ جبر اور استحصال ہمارے اپنے ساتھ يا ہماری قوم کے ساتھ ہو رہا ہو تو اس کے خلاف مرنے اور مارنے کے لئے مذہب ٬ اخلاقيات اور قومی تاريخ ہميں يہ اجازت ديتی ہے کہ ہم خود کو غلامی سے نجات دينے کی خاطر اپنی قوم کو آزادی سے ہمکنار کرنے کے لئے آگے بڑهيں اور صرف شہيدوں کے
متعين کردہ راستے کا انتخاب کريں جس طرح شہيد مجيد اول بلوچ قومی آزادی کی خاطر آگے بڑهے ٬ وہ پڑهے لکهے اور باشعور نوجوان تهے ايک متوسط گهرانے ميں ابتدائی تربيت لی اپنے آباؤاجداد کی خوبصورت تاريخی سرزمين کے مالک تهے ليکن اسکی آزادی چهين لی گئی تهی آزادی کا حصول جيسے نظريات بلوچ گهرانوں ميں زير بحث رہتے ہيں ٬غلامی کی زندگی اور پهر باہر سے آئے ہوئے دراندازوں کی حکومت جو قدم قدم پر بلوچوں کے لئے کسی عذاب سے کم نہيں ٬ بلوچ نوجوانوں کو گهسيٹ گهسيٹ کر اذيت خانوں ميں لے جانا ٬ جن کی واپسی کی کوئی اميد نہ ہو ٬ يہ تمام عناصر ايک حساس بلوچ نوجوان کو شعور دينے کے لئے کافی ہيں ٬ان حالات ميں وہ قومی بوجھ کو اپنے کاندهوں پر اڻهانے کی تہی کر ليتاہے جسے اپنے ہونے کا شعور ہوتاہو۔ شہيد مجيد اول جس نے باشعور ہو کر 1973 کے مزاحمت کو وہ عزت بخشی کہ رہتی دنيا تک اس کی قربانی ياد رہے گی۔ تعليم يافتہ نوجوان ٬ پولی ڻيکنيک کالج ميں علم حاصل کرنے والا نوجوان جس نے اپنے قوم کی آزادی کی خاطر اپنے آپ کو قربان کرديا ۔نہ پر آسائش زندگی کی خواہش اور نہ تعليم کے بعد نوکری کے پيچهے بهاگتے رہنا اور نہ ہی مال و زر اور گهر بار کی خواہش شہيد کی راہ ميں رکاوٹ بنے ٬ بلکہ صرف آزادی کی تمنا نے اس نوجوان کو وہ مقام عطا کی جو بلوچ تاريخ ميں ايک روشن باب کی حيثيت رکهتاہے۔
مجيداول نے سب کو ڻهکرا کر بلوچ وطن کو آزاد کرنے کی خاطر موت کو گلے لگايا اور امر ہوگئے۔
1960 ء کے عشرے ميں اسی گهرانے ميں امير بخش بلوچ نے آنکھ کهولی ٬اسی ماحول ميں پرورش پائی ٬ بلوچيت کا درس بچپن ہی سے ملتارہا ٬ غلامی سے نفرت ٬ ظلم ٬ استحصال ٬ ناانصافيوں کے خلاف علم بلند کرنے کی تربيت ٬ آزادی کا درس ٬ شعور و آگہی کا درس اور سب سے خوبصورت اپنی قوم سے جنون کی حد تک محبت کا درس ٬ يہی تو سماجی علم ہے جس سے ہم سب سبق حاصل کرتے ہيں کيونکہ ايک خاندان يا گهرانہ سماج کا اکائی ہوتاہے ٬ اسی سے سيکهنا يہی تو ابتدائی نصاب ہے ٬جس سے ہم صديوں بهرے تاريخ کا علم حاصل کرتے ہيں ٬اپنی تہذيب ٬ ثقافت ٬زبان و ادب کا اور اپنی روايات کا علم ہميں ہمارے ماحول يا پهر سماج سے ملتاہے۔اسے ماہر سماجيات
سماجی شعور کا نام ديتے ہيں ۔ديگر جوتعليمی اداروں سے تعليم حاصل کی جاتی ہے اسے اضافی شعور کا نام ديا جاتاہے کسی ادارے کو چلانے کے لئے يا رياستی معاملات کو يا کسی تنظيم يا پارڻی کو چلانے کے لئے مطلوبہ تربيت يا علم وغيرہ اضافی شعور کہلاتاہے جو کہ ہمارے سياسی نظام ميں فی الوقت ناپيد ہے۔ تربيت ٬ منصوبہ بندی ٬
حکمت عملی بهی انہی علوم کا حصہ ہيں ٬ مگر يہ چيزيں ہميں چهو کر نہيں گزرتے۔حالانکہ يہ ايسی چيزيں ہيں جنکے بغير ايک گهرانے نہيں چل سکتا اور ہم بلوچ مملکت کو چلانے کا سوچ رہے ہيں مگر امير بخش بلوچ جو بلوچ مسلح جدوجہد کے طريقہ کار پر زيادہ زور ديتے تهے تاکہ مدمقابل کو طاقت کے ذريعے زير کيا جاسکے۔مسلح جدوجہد بهی تو سياست کا ايک حصہ تصور کياجاتاہے۔يا ايک سياسی نظام جس ميں تربيت ٬ منصوبہ بندی ٬ حکمتعملی ٬ عوام ميں سرايت کرنے کا طريقہ ٬ عوامی نظريات کو جسے عوام يا قوم فارغ اوقات ميں بيڻھ کر بحث کررہے ھوتے ہيں انہيں اپنے حق ميں جوڑنے کا طريقہ کار اور قوم يا عوام کی رائے کو سياسی و قومی مقاصد کے لئے
قومی حقوق کے حصول کے طريقہ کار کی جانب موڑنے کا ہنر ہی ايک مسلح جدوجہد کرنے والے کو ديگر سياسی پارڻيوں اور تنظيموں کے قيادت يا کارکن کے مقابلے ميں امتيازی حيثيت دلواتاہے ۔امير بخش بلوچ (سگار بلوچ) کی حيثيت اسی وجہ سے اہميت کا حامل تها کہ اس نے اپنی کوششوں سے تاريخ کو ايک نيا موڑ ديا بلوچ قومی آزادی
کی خاطر اپنے شب و روز ايک کرکے وکالت کرنے کے باوجود وہ مسلح جدوجہد پر ہی زور ديتے تهے ۔اعلیٰ تعليم نے ان کے کام ميں مزيد نکهار پيد اکرديا ٬وہ بہتر منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ماہرتهے۔ اسی بناء پر انہوں نے قومی آزادی کے لئے وہ کارنامے انجام ديئے جسے لوگ کئی عشروں تک نہ کر سکے وہ تنظيم ٬ تربيت ٬ منصوبہ بندی اور حکمت عملی کو بہت خوب انداز ميں سمجهتے تهے۔
ابتدائی دنوں ميں سردارخير بخش مری کے ساتھ نشستوں ميں وہ بغور سنتے اور بہت بہتر انداز ميں سوال کرتے تاکہ سيکهنے سکهانے کا عمل جاری رہے ٬سيکهنے سکهانے کا عمل ہی تو سياست اور عسکريت دونوں کو پروان چڑهاتاہے اگر مثبت سوچ اور فکر کو نظرياتی سانچوں ميں ڈالا جائے تو سياست ہو يا عسکريت آگے کی طرف بڑهتے ہيں اور مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن ہوجاتاہے۔ امير بخش بلوچ (سگار بلوچ) اس تمام عرصے ميں سيکهتے ہی رہے اور سکهاتے بهی ٬ سياسی حالات ہوں يا بدلتے واقعات ان سے بہت کچھ سيکها جاسکتاہے اور اگر اسے کوئی دوسروں تک ايمانداری کے ساتھ منتقل کرتاہے تو نتائج تحريک ٬ معاشرہ اور قوم کے حق ميں نہايت مفيد ثابت ہوسکتے ہيں۔
اگر سيکهنے سکهانے کا عمل رک جائے تو بلوچ قومی آزادی کی تحريک پاکستان کے تعليمی نظام کی طرح ہوجائيگا جس کا تجربہ ہميں گذشتہ 62 سالوں سے ہے کہ ڈگری يافتہ تو ہزاروں مليں گے مگر با علم يا عالم ناپيد ٬ ہم اگر اپنے بلوچ معاشرے پر نظر ڈاليں تو کيا ہمارے سياستدان ٬ معيشت دان ٬ انجينئرز ٬ ڈاکڻرز ٬وکلاء يا سماجيات کے ماہر اپنی ڈگريوں کے معيار پر پورا اترتے ہيں ؟ اس کا جواب يقيناً نفی ميں ہوگا۔ اسی ليے تو تحريک يا انقلاب کو تخليقی عمل کہا گيا ہے کيونکہ قوميں انقلاب کے ذريعے تشکيل پاتی ہيں ٬ ان ميں سيکهنے کا عمل جب تک جاری رہتاہے وہ تخليق کے مراحل بهی بخوبی گزار ليتے ہيں۔اور قديم سے جديد کی طرف سفر کرکے مثبت صورتحال اختيار کرتے ہيں۔ امير بخش بلوچ جيسے استادوں کی کمی ہميشہ محسوس رہے گی کيونکہ ان جيسے
دوستوں کا خلاء پر کرنا شايد ممکن نہيں جنہوں نے اپنے تجربات ٬ اپنا وقت ٬علم اور صلاحيتيں قومی آزادی کی تحريک کے لئے وقف کررکهی تهيں۔ اور يوں ايک تجربہ کار کمانڈر ٬ ايک مخلص کارکن ٬ ايک وطن دوست اور باصلاحيت انسان سے بلوچ قوم 27 جنوری 2010 ء کو محروم ہوگئی۔ مگر ان کی صلاحيتيں تخليق کی صورت ميں ٬تجربات عمل کی صورت ميں ٬ کارنامے ادا کردہ فرائض کی صورت ميں وطن دوستی اور قوم دوستی نظريے کیصورت ميں موجود ہيں اور ہميشہ رہيں گے ۔ہم اگر قومی تحريک آزادی کی طرف ايک قدم بهی بڑهائينگے تو يہ تمام چيزيں ہميں سيهکنے کو مليں گے اور ہم شہداء کے وارث بن کر ان کی امانتوں کے محافظ ہونگے۔
اسی خاندان ميں سب سے کم عمر مجيد ثانی کا نام آتاہے جس نے اپنے خاندان کی روايات کو جاری رکهنے کا عزم کر رکها تها ٬ اور قومی آزادی کے فکر اور نظريے کا درس انہيں بچپن ہی سے ملا ہوتو وہ کيونکر اسے بهول سکتاہے۔ وہ سبق تو اسے بچپن سے ہی ازبر تها ٬ مگر وہ ابهی تک نوخيز تها ٬ نوجوان تها ٬خوبرہ تها ٬ ليکن ان تمام
کے باوجود وہ ايک انقلابی ٬ ايک سرمچار اور مرد مجاہد تها جس نے اپنی خواہشات کو پيروں تلے روند کر فکر مجيد ٬ فکر امير بخش اور ہزاروں بلوچ شہيدوں کے راستے کا چناؤ کيا اور اسی راہ پر چل پڑا ٬ تاکہ بلوچ قوم کو ايک آزاد وطن دلاسکے اور شہداء کے خوابوں کی تعبير بن سکے۔ اسی بناء پر اس نے مسلح جدوجہد کو ترجيح دی کسی اور پليٹ فارم کے بارے ميں سوچا تک نہيں بلکہ ايک ہی خواہش اپنے دل ميں رکهی کہ اسے ايک خوبصورت وطن حاصل ہو جہاں وہ آزاد ہو يا پهر ايک حسين موت کی تمنا ٬ پختہ فيصلوں سے نوجوان اپنی قوموں کی تقدير بدلنے ميں کامياب رہتے ہيں اور صديوں تک تاريخ ان پر نازاں رہتی ہے۔
مارچ کا مہينہ يوں تو بلوچ قوم کے لئے گذشتہ 63 سالوں سے نحوست لے کر آيا ہے مگر اس عشرے ميں يعنی 2000 ء سے لے کر ہنوز قوم کو کبهی بهی کوئی اچهی خبر سننے کو نہيں ملی ٬ مگر جو سب سے اچهی خبر ہے وہ قومی آزادی کی جنگ ہے جو آج بهی زور و شور سے جاری ہے اور پچهلے دس سالوں سے بلوچ مسلسل اور انتهک جدوجہد سے اس مسلح جدوجہد کو جاری رکهے ہوئے ہيں۔ بلوچ مسلح جدوجہد يا بلوچ مزاحمت کی تاريخ ميں ہميں يہ مثال نہيں ملتی کہ بلوچ قوم کی آزادی کی جنگ يوں تسلسل سے جاری رہی ہو ٬ آج پوری قوم کا اس مسلح جنگ ميں شامل ہونا ايک بہت بڑی کاميابی ہے۔ بلوچوں کی يہ جنگ گوريلا جنگوں کے باب ميں ايک روشن اضافہ ہے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ايک قابل فخر تاريخ ضرور چهوڑے گی جسے بلوچ قوم سے موجودہ نسل نے اپنے خون سے سينچا ہے۔
مجيد ثانی نے سوچ سمجھ کر اور شعوری انداز سے اپنی جان کی قربانی پيش کی اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر وہ تاريخ رقم کی جو اپنی مثال آپ ہے۔ مرد مجاہد ہی تو موت کی جانب بڑهتے ہيں ٬ موت سے منہ نہيں موڑتے بلکہ اپنی مردانگی اور شعور کا ثبوت دينے کے لئے ميدان جنگ ميں مقابلہ کرکے دشمن کو شکست ديتے ہيں ان کی مردانگی اور شعور و سنجيدگی پرفخر کيا جاسکتاہے۔
مجيد ثانی کی قربانی ہمارے ليے روشن راہ ہے اور ان کی شہادت کا دن 17 مارچ 2010 ء بلوچ تاريخ ميں ہميشہ ياد رکها جائے گا اور شہيد کے بدلے کی چنگاری بلوچ قوم کے نوجوانوں کے خون کو گرماتی رہے گی ٬يہ ہماری تاريخ ہے اور اسے ہمارے خون سے کوئی نہيں نکال سکتا۔