Powered By Blogger

воскресенье, 29 марта 2015 г.

شہید حمید شا ہین بلو چ ایک سچا انقلا بی کھرا کامریڈ ,, ہمبل شا ہین



زندگی میں انسان کو بہت سے لوگ ملتے
ہیں ، جن سے مل کر ایک حلقہ احباب بنتا ہے ، لیکن اس حلقے میں بھی قر بتوں کے مختلف درجا ت ہو تے ہیں ،کچھ ایسے ہو تے ہیں کہ ملیں تو خو شی ہو تی ہے اور اگر نہ مل سکیں تو دکھ اور تکلیف نہیں ہو تی ،مگر بعض دو ست اس قدر قریب ہو تے ہیں کہ اگر ملیں تو انتہا ئی مسرت ملتی ہے اور نہ ملیں تو دل بو جھل بے چین اور آنکھیں ہر وقت راہ دیکھتی ہیں ، جبکہ ایسے دو ستوں کا جہان فا نی سے رخصت ہو نے سے تادم مرگ ایک ایسے کرب اور دلی تڑپ کا انسان اس طرح شکار ہو جا تا ہے کہ بچھڑ نے کا گہرا زخم کبھی مند مل نہیں ہو پا تا ، ہر وقت ستا نے وا لی یا دیں روح کو بے چین کئے رکھتی ہیں اور آنکھیں بھر آتی ہیں ، کامریڈ حمیدشا ہین بھی را قم کے ایسے ہی گہرے اور قریب ترین دوست تھے ، حمید شا ہین کے سا تھ میری پہلی ملاقا ت اس و قت ہو ئی جب وہ سا ئنس کا لج کو ئٹہ میں انٹر کے طا لب علم اور بی ایس او کے یو نٹ سیکر ٹری تھے ، اس کے بعد فکری ہم آہنگی فروغ پا کر سنگتی کے لا زوال جذبا تی رشتے میں بدل گئی ، تنہا ئی اور محفل میں شا ہین کی عدم مو جو دگی کی کمی شدت سے محسوس ہو نے کی وجہ آپ کی منفرد اور ہر دلعزیز انقلا بی شخصیت تھی ، کم گو مگر مجلس پسند خوشگوار اور ہنس مکھ مزاج کے علا وہ آپ درویشانہ اوصاف کے ما لک تھے ، نہ تکبر نہ مر دم بیزاری ، نہ چھچھوراپن ، اور نہ ہی غیر مہذب پن کی کو ئی ایسی انسان دشمن اور جا ہلا نہ خصو صیت کبھی آپ کے طرز عمل میں دیکھی گئی ، سر ما یہ دا را نہ نظام کی بدصورت اشکال خود غر ضی ، ہر قسم کی تنگ نظری ، مو قع پر ستی ، تعیش پسندی اور دو سرے کو دھو کا یا دھکہ دے کر آگئے بڑھنے کا مظا ہرہ شا ہین کی شخصیت میں کبھی نظر نہیں آیا ، سرما ئے اور مال و دولت کو اپنی زندگی کا محور بنا نے کی بجا ئے ہمیشہ بلوچ قوم سمیت دنیا بھر کی محکوم و غلام اقوام اور پسے ہو ئے طبقات کی نجات کے حقیقی انقلابی راہ کی تلاش اور اس پر چلنے کا جنون کامریڈ حمید شا ہین کی زندگی پرغالب رہا ، یہ مقصد آپ کو ہر وقت بے چین کئے رکھتا تھا، بلوچ قو می آجو ئی اور انقلاب کی جدو جہد سے وا بستگی کیلئے بے قراری کی کیفیت تصوف کے فلسفے میں عشق حقیقی کی جز ئیا ت جیسی تھی اس فلسفے و نظریے کے مطا بق جس طرح روح ما دی و جود میں خود کو بے سکون اور نا خوش محسوس کر تے ہوئے جز ہو نے کے نا طے اپنے کل یعنی قادر مطلق میں جذب یا اس میں سما جا ناچا ہتی ہے جسے نروان یاقا لب ما ہیت کا نام بھی دیا جا تا ہے ایسی تڑپ اور خوا ہش سے جنم لینے وا لی کیفیت کو عشق حقیقی بھی قرار دیا جا تا ہے ، اسی طرح شہید سنگت حمید شا ہین کی انقلا بی فکر و نظر یہ بھی اُسے غلام و محکوم اور انسان پر انسان کی با لا دستی و نا برا بری اور استحصال کی بنیا دوں پر قا ئم معا شرے اور ارد گرد کے حا لا ت میں اُسے بے چین کئے رکھتا ، اور اسے انقلابی عمل میں جذب ہونے کے لئے بے قرار رکھتا ، نو عمری میں ہی محکوم اقوام اور مظلوم و استحصال زدہ محنت کش طبقے کے آفا قی سا ئنسی انقلا بی نظر یے مار کسزم سے متعا رف ہو نے سے کا مریڈ حمید شا ہین کا نظری تنا ظر عا لمگیر ہو گیا، ایک محکوم قوم کے فرد ہو نے کے علا وہ دنیا بھر کی انقلا بی تحریکا ت ا ور نو آبا دیا تی طا قتوں کے جبرو استحصال کے ہتھکنڈوں کے گہرے مطا لعہ نے حمید شا ہین کو انتہا ئی حساس اور با شعور بنا دیا، جبکہ بلوچ قو می تحریک اور اس کے شہدا ء کی قر با نیوں اور لا زوال کر دار سے سنگت شا ہین بہت متا ثر تھے، یہ اسی تا ثیر کا نتیجہ تھا کہ آپ نے ان شہدا ء اور تحریک کے لا زوال کر دا روں کو اپنی مشعل را ہ بنا یا ، اور ایسا ہی کردار اپنے لئے منتخب کیا ، جس کی عکا سی ا ن بلو چ شہیدوں کی یا د میں لکھی گئی آپ کی تحریروں میں بڑی نمایاں ہے، اپنے پیش رو بلو چ شہدا ء کے یوم شہا دت کو آپ کبھی نہیں بھو لے ، ہر بر سی کو شایان شان طور پر منا نے میں آپ پیش پیش رہتے ، شہیدوطن کا مریڈ فدا بلوچ کی علمی و نظر یا تی بلندی اور وسیع النظری سے آپ کا فی متا ثر تھے ،اور شہید فدا کی علمی و نظریا تی کا وش کو آپ بلوچ قو می تحریک کا رہنما یا نہ اثا ثہ تصور کر تے تھے ، شا ید یہ انہی اثرات کا نتیجہ تھا کہ کامریڈ حمیدشا ہین سیا سی عمل اور تحریک میں علم و نظر یے کو او لین تر جیح دیتے تھے ، گہرے علم اور انقلا بی نظریے کے بغیر عمل اور تحریک آپ کی نظر میں بے معنی اور تبا ہی و انتشار کے نتا ئج کے حا مل تھے ،اسی لئے سنگت شا ہین بلوچ قومی تحریک و سیاست کی تا ریخ سمیت محکو می ، غلا می ، نا برا بری اور جبر واستبداد کے خا تمے کی دنیا بھر میں چلنے وا لی تحریکا ت اور انقلا بی نظر یے اور علوم کے مطا لعہ کو اپنی زند گی کا نا گزیر حصہ بنا یا ۔
سنگت حمید شا ہین کا قو می آزا دی کا تصور محض جغرا فیا ئی علیحد گی کے مقصد سے کہیں زیا دہ وسیع اور گہرا تھا ، آپ کے خیال میں آزادی صرف بیرو نی قبضے اور جبرو استحصال سے نجات تک محدود نہیں ہے ،بلکہ یہ انسا نی بو دو با ش کا ایک ایسا اعلیٰ اور مہذب مقام ہے جہاں کسی بھی قوم کے تمام افراد کو معا شی و سما جی اور سیا سی طور پر تر قی و خوشحا لی کے یکساں مواقع حاصل ہو تے ہیں ،جہاں انسان پر انسان کی با لا دستی اور جبرو استحصال کی ہر شکل کا خا تمہ کر دیا جا تا ہے ، اور ہر کسی کو دوسرے کی زند گی کو متا ثر کئے بغیر اپنے نظریا ت اور عقائد کے مطا بق زند گی گزارنے اور اس کے اظہار کا پورا حق حاصل ہو تا ہے،نسلی، لسانی ، مذہبی و فر قہ وا را نہ تنگ نظری اور عدم مساوات و طبقاتی تفریقات نا پید ہو تی چلی جا تی ہیں ، یہ مقصد جغرا فیا ئی آزا دی کے علا وہ غلام و محکوم قوم کے سماج میں ایک سیا سی و معا شی اور معا شر تی ا نقلاب کا متقا ضی ہے ، لہٰذا آپ حقیقی آزا دی کے حصول کو انقلاب کی راہ سے گذارے بغیر ناممکن خیال کر تے تھے ،آپ کے نز دیک حقیقی قو می آزادی بیرو نی جغرا فیا ئی و سیا سی تسلط کے علا وہ معاشی غلا می سے بھی مکمل چھٹکا رے کا تقا ضا کر تی ہے ، کیو نکہ یہ اقتصا د ی محکو می ہی ہے جو بظا ہر جغرا فیا ئی طور پر آزاد ہو نے وا لی اقوام کو جدید نو آبا دیا تی صورت میں عا لمی سامرا جی قو توں کے شکنجے میں جکڑے ہو ئے ہے جس کی وجہ سے یہ نو آزاد اقوام داخلی و خا رجی پا لیسیوں کی تشکیل میں سامرا جی طا قتوں کی مدا خلت اور غلبے کا شکا رہیں، اسی لئے آپ بلوچ قو می تحریک کی انقلا بی نظر یا تی بنیا دوں کو مزید مضبوط ، وسیع اور گہرا بنا نے پر زور دیتے تھے ، اس نقطہ نظر کے مطا بق سنگت حمید شاہین محکوم اقوام اور مظلوم و استحصال زدہ طبقے کے ایک ایسے بین الاقوامی اتحاد کے قا ئل تھے جو قوم کے ہا تھوں قوم اور فرد کے ہا تھوں فرد کے استحصال کے خا تمے اور سامرا جیت کی بیخ کنی کے انقلا بی مقا صد پر استوار ہو، آپ کے مطا بق جس طرح قا بض استعما ری حکمرا نوں اور با لا دست سامرا جی قو توں کا بین الاقوا می اتحاد ہے انہی عا لمگیر بنیا دوں پر غلام اقوام اور جبرو استحصال کے شکار محنت کش عوام کو بھی متحد ہو کر اپنے خطوں میں جا ری آزا دی پسند انقلا بی لڑا ئی میں ایک دو سرے کی بھر پور حما یت و مدد کر نی چا ہیے ،یوں حمید شا ہین کا نظر یا تی تشخص ایک بین الاقوا میت پسند انقلا بی قوم دوست کا تھا ، جو نہ صرف بلوچ قوم کی آزا دی چا ہتا تھا بلکہ دنیا بھر کی غلا می و محکو می کی کسی بھی شکل کی شکا ر اقوام کی آزا دی کا بھی خوا ہش مند تھا،اور ہر قسم کی معا شی و سما جی تفریق استحصال اور جبر کی کیفیت کو ایک آزاد انسا نیت کی تکمیل کی راہ میں رکا وٹ اور اس کی ضد سمجھتا تھا ۔
شہید حمید شا ہین اپنے انقلا بی نظر یا تی رحجان میں مارکسسٹ و لیننسٹ اپروچ رکھتے تھے، اپنے نظر یے کا اظہار انہوں نے تحریرو تقا ر یر سے لے کر ہر عملی سیا سی سر گر می میں بڑا بے با کی سے کیا ، جس میں آپ ایک سچے اور کھرے کامریڈ ثابت ہو ئے ، آپ کی نظر میں بلو چ قوم سمیت تمام محکوم اقوام اور استحصال زدہ طبقات کی آزا دی و معا شی خوشحالی اور سما جی تر قی سو شلسٹ انقلا ب کے ذر یعے ہی حقیقی طور پر حاصل کی جا سکتی ہے، جبکہ سر ما یہ دارانہ نظام و سامرا جیت کو آپ قو می و طبقا تی غلا می اور نا انصافی کی بنیا د تصور کر تے ہو ئے اسے تبا ہی و بر با دی کا نظام قرار دیتے تھے ، شہید کامریڈ شا ہین اپنی اسی انقلا بی فکر کے با عث پا کستانی بائیں با زو کے ایک ایسے گروپ سے بھی کچھ عر صہ وا بستہ رہے ، جو طبقا تی اور قومی جبر و استحصال کے خا تمے اور بین الاقوا میت پسندی کا دعویدار تھا ، مگر اس گروپ کے قول و فعل میں تضاد اور بلوچ سمیت پا کستان میں مو جود قو می سوال پر مار کسز م لیننزم سے انحراف کے با عث شہید حمید شا ہین الگ ہو گئے اس کے بعد آپ پا کستا نی لیفٹ گروپوں سے پہلے جیسا تعلق استوار نہیں کرسکے ، کیو نکہ پا کستا نی با یاں با زو قو می سوال پر کبھی اس نظر یا تی بنیا د پر کھڑا ہوا نظر نہیں آیا جو لینن نے قومی سوال پر مار کسز م کی رو شنی میں فراہم کی تھیں ، آپ کی سیا سی و نظر یا تی تر بیت چو نکہ بی ایس او جیسی انقلا بی بلوچ طلبا ء تنظیم میں ہو ئی تھی اور آپ نے مارکسز م لیننزم کا مطا لعہ کسی مخصوص لیفٹ گروپ کے مفاداتی فکری فریم سے آزاد ہو کر کیا تھا ، لہٰذا آپ کی نظریاتی اپروچ ہمہ جہت ، گہری اور کافی وسیع تھی ، یوں آپ میں حقیقی انقلابی تحریک کی تلاش کی بے قراری بڑھتی رہی ، یہ وہ دور تھا جب بلوچ قومی تحریک کا حالیہ ابھار اپنا تنظیمی وسیاسی اظہار نہیں کر پایا تھا، اس دور کو بلوچ قومی تحریک کا نشیب یا قومی انقلابی سیاست کے حوالے سے تاریک دور بھی کہا جاتا ہے، اس دور میں انقلابی نظریاتی سیاست کی جگہ موقع پرست پارلیمانی ومفاد پرستانہ سیاست بلوچ سماج کے وسیع حصے پر غلبہ پا چکی تھی ، تاہم یہ زوال پزیری شہید حمید شاہین بلوچ کو متاثر نہ کر سکی اور آپ نظریاتی طور پر موقع پرستانہ نو آبادیاتی پارلیمانی سیاسی تجارت سے دور رہے، اپنی اسی نظریاتی مضبوطی کے باعث حمید شاہین بی ایس او(استار)کو انقلابی قومی فکروسیاست پر استوار کرتے ہوئے اُسے ایسے راستے پر گامزن کرنے میں کامیاب ہو گئے جو بلوچ قومی تحریک کی حقیقی انقلابی مزاحمتی قوت سے اتحاد وانضمام کی طرف جاتا تھا ۔
اس سلسلے میں حمید شاہین نے بطور مرکزی چیئر مین دو اہم کامیابیاں حاصل کیں ،اول انہوں نے بی ایس او(استار)کے موقع پرست ومفاد پرستانہ پارلیمانی سیاست کا شکار بی این پی (عوامی)کے ساتھ ماضی میں کئے گئے اتحاد کو ختم کرتے ہوئے اسے بلوچ قومی تحریک کی تاریخی نظریاتی بنیادوں اور پروگرام پر استوار کر نے پر بھر پور توجہ دی ، دوئم انہوں نے چار دھڑوں میں تقسیم بی ایس او کو باہم اتحاد و انضمام کی لڑی میں پرونے کیلئے بھر پور کو شش کی اور اس کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دھڑے یعنی استار کو بی ایس او آزاد میں ضم کر دیا ، آپ کے اس اقدام سے بی ایس او کے دیگر دھڑوں کے درمیان اتحاد وانضمام کی کوششوں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ، لیکن ان دھڑوں کی اتحا دی پار لیما نی پا رٹیوں کی قیادت کے بعض حصے اس سے نا خوش تھے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ بلوچ طلباء کا باہم تنظیمی اتحاد موقع پرستانہ پارلیمانی سیاست کی مخالف سمت اختیار کرتے ہوئے ان کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے،اور نو جوان بلوچ طلباء بلوچ قومی تحریک آجوئی کی حقیقی انقلابی راہ پر گا مزن ہو گئے اور تحریک کی انقلا بی قوتوں کے اتحا دی ثا بت ہوں گئے ، حمید شا ہین سمیت بلوچ تحریک آجو ئی سے نظریاتی وجذباتی وابستگی اور ہمدردی رکھنے والے بلوچ طلباء اور نوجوانوں کا یہ موقف تھاکہ بی ایس او چونکہ تحریک میں شعوری ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی رہی ہے جس کا مطمع نظر کبھی قابض نو آبادیاتی ریاستی وسیاسی ڈھانچے کا حصہ بنا نہیں رہا اور نہ ہی وہ کسی سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیم رہی ہے ، لہٰذا اس کا تاریخی نظریاتی اور آزادی پسند جداگانہ سیاسی تشخص قائم رہنا چاہئے اوراسے ایسی کسی سیاسی پارٹی کا اتحادی نہیں ہونا چاہئے ، جو بلوچ قومی آزادی کے واضح فکر وپروگرام کی حامل نہیں ہے اور پارلیمانی سیاست سمیت نو آنادیاتی جغرافیائی وریاستی ڈھانچے کو قبول کرنے کا درس دیتی ہے ، اسی لئے آپ نے بی ایس او( استار) کو پارلیمانی سیاست کرنے والے کیمپ میں براجمان بی ایس او کے نام سے قائم کئے گئے دھڑوں کا تنظیمی اتحادی بنانے کی بجائے نو آبادیاتی پارلیمانی سیاست کی نفی کرنے اور بلوچ آزادی پسند انقلابی جدوجہد کرنے والے مزاحمت کارواں کی سیاسی حمایت کرنے والی بی ایس او آزاد سے انضمام کیا، آپ کی نظر میں ایک ایسا سماج جہاں نو آبادیاتی جبر انتہاؤں کو چھوتے ہوئے جدوجہدکے پر امن جمہوری راستوں کو بند کر چکا ہو اور بالادست قوتیں طاقت کی بد ترین اشکال کا انتہائی بے رحمی سے استعمال کر رہی ہوں وہاں مسلح عوامی طاقت سے جواب دینا نا گریز ہو جاتا ہے ، اس سلسلے میں آپ بلوچ قومی تحریک کے سر خیل اور نظریہ دان سردار خیر بخش مری کے افکار اور جدوجہد سے متاثر تھے اور انہیں اپنا عظیم رہنما مانتے تھے ، حمید شاہین کی یہ قومی وانقلابی فکر اٰسے بلوچ حریت پسند سر مچاروں کی صفوں کا حصہ بنانے کا سبب بنی ، تب سنگت حمید شاہین کی طبیعت میں دیکھی جانے والی بے قراری و بے چینی ختم ہوئی جوآزادی اور انقلاب کی حقیقی تحریک سے عملی وابستگی کیلئے تھی۔
بلوچ قومی آجوئی اور انقلاب کی منزل تک رسائی کیلئے شہید حمید شاہین نے مسلح جدوجہد کا جو راستہ اختیار کیا وہ محض جذباتی اور مہم جو ہانہ فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ آپ کے پورے سیاسی تجربے اور گہری علمی اپروچ کا نتیجہ تھا ، اس ضمن میںآپ دنیا کی متعدد انقلابی قومی وطبقاتی تحریکات کا مطالعہ کر چکے تھے، خاص طور پر بلوچ تحریک کے نشیب وفراز آپ کے ہمیشہ زیر مطالعہ ومشاہدہ اور غور وخوض کا حصہ رہے ، آپ اس امر کے قائل تھے کہ ایک انقلابی تحریک ایک انقلابی نظریے پر استوار پارٹی کے بغیر اپنی مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچ سکتی اور انقلابی پارٹی دفاعی یا مسلح ونگ کے بغیر نا مکمل رہتی ہے ، خاص طور پر ایک ایسے منظر میں جہاں نو آبادیاتی ریاستی پالیسی میں طاقت کا عنصر غالب ہو، دوسرا پہلو بلوچ سماج کی اپنی مخصوص معاشی ، سماجی اور جغرافیائی ساخت کے تناظر میں مسلح جدو جہد کی تاریخی اہمیت کا ہے ، کیونکہ بلوچستان میں صنعت کاری اور بڑے اقتصادی مراکز ناپید ہیں ، جبکہ حب سمیت لسبیلہ میں قائم صنعتوں میں مقامی افراد اقلیت میں ہیں، لہٰذا سرحدی علاقے میں واقع ہونے اور صنعتی مزدوروں کی بھاری اکثریت کا غیر مقامی ہونے کے ناطے ان صنعتوں کے بلوچ سماج پر ایسے اثرات مرتب نہیں ہو سکے جو اسے صنعتی معاشرے میں بدل سکتے، دوسری طرف زراعت بھی گہری اور کلاسیکل جاگیر دارانہ شکل میں نہیں تھی اور پانی کی کمیابی کے باعث زرخیز ہونے کے باوجود زمین کا ایک وسیع وعریض حصہ زراعی پیداوار کے قابل نہیں ہے ،جس کے باعث بارش پر انحصار کیا جاتا ہے ، زیادہ تر زمین انفرادی طورپر چھوٹی ملکیتوں میں تقسیم ہے، ما سوائے چند علاقوں کے سندھ اور پنجاب کی طرح زراعت کے شعبے میں بڑی جاگیر دارانہ طبقاتی تقسیم واضح نظرنہیں آتی، معیشت کی دیگر اشکال غیر پیداواری ہیں ، جن میں دکانداری ، ٹرانسپورٹ ، تجارت ، سرکاری محکموں میں ملازمت ، بیرونی اشیاء کی اسمگلنگ وغیرہ قابل ذکر ہیں ، ماہی گیری اگرچہ پیداواری شعبہ ہے مگر یہ صرف بلوچ ساحلی علاقوں تک محدود ہے۔
تیل وگیس سمیت معدنی ذخائر ہی بلوچستان کی وہ معاشی بنیاد ہے جو پیداوار کی صورت میں بلوچ سماج کو دنیا کے خوشحال اور ترقی یافتہ معاشروں کے ہم پلہ بنانے میں کلیدی کردار ی صلاحیت رکھتی ہے، مگر جو پیداوار حاصل کی گئی ہے یا کی جا رہی ہے وہ نو آبادیاتی غلبے کے باعث بلوچ قوم کی ترقی وخوشحالی کیلئے استعمال نہیں ہو رہی، یہ تمام دولت پاکستانی بالا دست قوتوں اور ان کے سامراجی عالمی آقاؤں کی تجوریوں میں منتقل ہو رہی ہے، جس کے باعث یہ جائز خدشہ پایا جا تا ہے کہ نوآبادیاتی غلبہ اگر زیادہ دیر تک برقرار رہتاہے تو بلوچ قوم اپنے بے پناہ قیمتی قدرتی وسائل کے خزانے سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو سکتی ہے ، جس کا تحفظ بلوچ قومی تحریک کے فوری اور اولین مقاصد کا نا گریز حصہ ہے ، بلوچ سماج کی یہ معاشی بنیادیں صنعتی طبقاتی معاشروں کی اقتصادی بنیادوں سے مختلف نظر آتی ہیں ، اور انہی معاشی بنیادوں کی وجہ سے بلوچ آبادی منظم ہو نے کی بجائے پھیلی ہوئی ہے ، جس کا ایک سبب گلہ بانی کی صورت میں آبادی کے ایک بڑے حصے کا خانہ بدوش ہو نا بھی ہے ، اس سماجی ساخت میں اقتصادی ، سیاسی وسماجی استحصال کی نمایاں اشکال بیرونی ونو آبادیاتی صورت میں ہیں ، جس کا شکار ہر شعبہ زندگی اور ذریعہ معاش ہے ، ایسی صورت میں منزل کا ہدف اور طریقہ جدوجہد قومی آجوئی اور مسلح منظم عوامی تحریک کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتے ، جس میں بلوچ قوم کے تمام سماجی حصے یکساں بنیادوں پر شامل ہو سکتے ہیں ، ان کا مشترکہ قومی ثقافتی ، اقتصادی وسیاسی مفاد ہی بلوچ قومی مفاد ہے ، جو صرف قومی ہی نہیں بلکہ طبقاتی استحصال کے مکمل خاتمے سے ہی درست طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے ، لہٰذا قومی وطبقاتی جبر کے خاتمے کیلئے بلوچ سماج میں مسلح جدو جہد معروضی تقاضوں کے عین مطابق ہے ، جس میں نو آبادیاتی قوتوں کی عسکری و معاشی طاقت پر کاری ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ اس کے سیاسی نظام کو ایک نہ سنبھل سکنے والے بحران سے دو چار کیا جا سکتا ہے ، حمید شاہین بلوچ جدوجہد کے دیگر ذرائع کی اہمیت وافادیت سے بھی بخوبی آگاہ تھے ، لیکن اس کا انحصار معروضی شرائط وحالات پر قرار دیتے تھے ، آپ کے خیال میں کھلی جمہوری سیاسی سرگرمی عوام اور آزادی پسند انقلابی قوتوں کے مابین رابطے و تحریک سے عملی وابستگی اور انہیں باہم مربوط اور منظم کرنے کیلئے انتہائی ضروری ہے ، جو عوامی مظاہروں ، ہڑتالوں ، ذرائع ابلاغ یا اشاعتی ونشری سرگرمیوں ، کانفرنسوں ، سیمینا ر ، اور دیگر سرگرمیوں کی شکل میں قابل عمل ہو سکتی ہے ،مگر ان تمام سرگرمیوں کا نظریاتی طور پر تحریک کے انقلابی پروگرام کے ڈسپلن میں ہونا ضروری ہے ، جس کیلئے طلباء سمیت مختلف شعبہ جاتی بنیادوں پر ایک ایسی تنظیم کاری لازمی ہے جو مسلح جدوجہد کے ساتھ ایک انقلابی پارٹی کے وسیع البنیاد عوامی پلیٹ فارم سے باہم مربوط ہو ، اس تناظر میں آپ اپنے معروضی حالات کے درست مشاہدے اور گہرے ادراک کو نا گزیر سمجھتے تھے۔
شہید حمید شا ہین بلوچ نے اپنے ان اقوال و نظر یے کی عمل سے ہم آہنگی بر قرار رکھی ،اور جب کھلی سیا سی سر گر میوں کی گنجا ئش نوآبا دیا تی ریا ستی جبر سے انتہائی محدودنا پید کر دی گئی تو آپ نے اپنے نظر یے پر عمل کیلئے پہا ڑوں کو مسلح جہد کا مور چہ بنا یا ،اور قا بض ریا ست کیخلاف جنگ میں شریک ہو گئے ، بلو چ قوم آجو ئی کی اس جنگ میں آپ کا کر دار دلیرا نہ او ر مد برا نہ تھا، اس دوران آپ جنگی کا روا ئیوں کے علا وہ اپنے گو ریلا سا تھیوں میں نظر یا تی و سیا سی مبا حث کا بھی اہتمام کر تے رہے ، یہاں بھی آپ کا مطا لعا تی ذوق بر قرار رہا ، آپ سیا ست و نظر یے کو بندوق کے تا بع رکھنے کی بجا ئے بندوق کو سیا ست و نظر یے کے تا بع رکھنے کے دا عی تھے ۔
کا مریڈ حمید شا ہین جہاں سیا سی جدو جہد میں کھرے اور مخلص تھے وہاں دوستوں کے سا تھ تعلقات میں بھی پر خلو ص تھے ، جھوٹ، دھو کہ و فریب خود غر ضی ، مفادپرستی اور مالیاتی حرص آپ کی شخصیت کا کبھی حصہ نہیں رہے ، وعدہ خلافی ، تکبر، قومی و نسلی اور مذہبی سمیت ہر انسان دشمن تنگ نظری سے آپ کا کو ئی واسطہ نہ تھا ، اپنے مزاج میں سا دہ لو حی اور معصو میت کے علا وہ عا جزی و انکسا ری اور انسان دوستی کے با عث آپ بلو چ قوم سمیت تمام سیا سی و سما جی حلقوں میں ہر دلعزیزتھے ، سنگت حمید شاہین کو بھی ایسے موا قع میسر آئے جب وہ ما ل دو لت حا صل کر سکتے تھے مگر یہ سب کچھ انقلا بی نظر یے سے انحراف کی صورت میں تھا لہٰذا آپ نے اسے اپنی تذلیل اور بلوچ قوم تحریک کیخلا ف اقدام تصور کر تے ہو ئے ما لیا تی مرا عات کی پیش کشوں کو ٹھکرا دیا ، صرف یہی نہیں بلکہ آپ نے ایسے روز گار کو بھی اپنی معا شی تنگد ستی سے چھٹکارے کا ذر یعہ نہیں بنایا ، جو آپ کو محض معا شی ضرو ریا ت کی تکمیل تک محدود کر کے قو می و انقلا بی جدو جہد سے دور رکھنے کا با عث بنتا، حا لا نکہ آپ اپنے بو ڑھے والدین کے نو جوان سہا را تھے اسی لئے حمید شا ہین نے اپنی اور گھریلو معا شی ضرو ریا ت پوری کرنے کے لئے نو آبادیاتی ریاستی ڈھانچے کا پرزہ بننے کی بجائے صحافت کو اپنے ذریعہ معاش کے طور پر اختیار کیا ، لیکن زرد صحافت کا حصہ نہ بننے کی وجہ سے آپ معاشی طور پر تنگدستی کا شکار رہے ، اور تمام تر تنگدستی کے باوجود آپ نے قلم کی حرمت پر کبھی آنچ نہیں آنے دی ، اور نہ ہی خودداری پر کوئی سودے بازی کی، حمید شاہین کے مزاج میں عزت ، وقار ، خودداری اور انسانیت کے احترام اور بہادری کی روائتی بلوچیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ، اپنے لباس، رہن سہن اور موسیقی کے انتخاب میں آپ مکمل طور پر بلوچ تہذیب وثقافت اور فن وادب سے متاثر اور اسکی عکاسی کرتے تھے ، سنگت حمید شاہین میں مردم بیزاری کا شائبہ تک نہ تھا ، اور تنہائی کی بجائے آپ مجلس پسند اور مجلسی آداب سے بخوبی آشنا تھے ، دوران گفتگو آپ اختلاف رائے کے باوجود مقابل کی تضحیک سے اجتناب اور شخصی عزت و احترام کے تضاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے اور سینئر زکا انتہائی احترام کرتے تھے، جبکہ ہنس مکھ اور خوشگوار طبیعت کے باعث آپ کی موجودگی یاروں کی محفل کی جان ہوتی تھی ، اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے آپ دوستوں کا ایک وسیع حلقہ رکھتے تھے ، جس میں آپ کو احترام اور محبت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ، یہی وہ آپ کے خوبصورت انسانی اوصاف تھے جو آپ کو تیزی سے بلوچ قومی انقلابی سیاست کی اعلیٰ قیادتی صفحوں تک پہنچانے کا کلیدی سبب بنے ، شاید ہی یہ اعزاز کسی اور کو حاصل ہوا ہو کہ بی ایس او کا ایک یونٹ سیکرٹری قلیل وقت میں تنظیم کے قیادتی مرحلوں کو عبور کرتے ہوئے اس کے سب سے اعلیٰ ترین منصب مرکزی چیئر مین تک پہنچا ہو ، نظریاتی اور علمی اپروچ کے حوالے سے بی ایس او میں آپ کے ہم پلہ کوئی دوسرا شاذونادر ہی تھا، کیونکہ یہ دور نظریاتی وعلمی زوال پذیری کا تھا ، جس سے بلوچ طلبہ کی سیاست بھی براہ راست متاثر تھی۔
شہید حمید شاہین تمام بلوچ نمائندہ سیاسی قوتوں کے مابین اتحاد کے قائل تھے ، اس راہ میں آپ مختلف رائے رکھنے والے بلوچ سیاسی حلقوں کے درمیان مخالفانہ بیان بازی اور کشمکش کو رکاوٹ سمجھتے تھے، اگرچہ آپ اتحاد وانضمام کیلئے بنیادی فکروپروگرام پر اتفاق کو نا گریز قرار دیتے تھے، تاہم عدم اتفاق کی صورت میں اختلافات کو دشمنی کا رنگ دینے کے حق میں نہیں تھے اور سیاسی ڈائیلاگ کو جاری رکھنے کے قائل تھے، جس کا مظاہرہ آپ نے مرکزی چیئر مین منتخب ہونے کے بعد تنظیمی ترجمان ’’استار ‘‘کی اشاعت میں شامل کئے گئے مواد کی صورت میں بھی کیا، اس مواد میں بلوچ قومی آجوئی کی تاریخی وبنیادی انقلابی فکرو سیاست پر نا قابل مصالحت مضبوط موقف اختیار کیا گیا ، مگر اختلاف رائے رکھنے والوں پر نہ تو کوئی دشمنانہ تنقید کی گئی اور نہ ہی الزام تراشی سے کام لیا گیا ، حمید شاہین کا خیال تھا کہ بلوچ قومی سیاست کے اندر دشمنانہ محاذ کھڑے کر کے بلوچ قوم کے مابین وسیع البنیاد یک جہتی کا عمل رکاوٹوں کا شکار ہو کر بلوچ قومی تحریک آجوئی پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے ، یہی وجہ تھی کہ ’’استار‘‘کی اشاعت کو بی ایس او کے تمام تنظیمی گروپوں کے کارکنوں سمیت بلوچ طلباء میں بھر پور پذیرائی ملی اور اس کو شش کو تمام حلقوں میں سراہا گیا ، اورآپ ایک غیر متنازعہ شخصیت کے طور پر سامنے آئے ، حمید شاہین کا کہنا تھا کہ انقلابی نظریے اور اس پر عمل میں چونکہ بلوچ قوم کی امنگوں وخواہشات اور بنیادی حقوق کے حصول کی واضح عکاسی و تر جما نی پائی جاتی ہے لہٰذا جہاں بھی یہ انقلابی فکرو عمل پہنچے گا وہاں سماجی وسیاسی سطح پر اسے پذیرائی اور قبولیت بھی ملے گی ،جس سے اختلاف رائے رکھنے والے سیاسی حلقے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے ، اور وہاں سے بلوچ قومی تحریک آجوئی کو مزید جہد کا ر میسر آسکتے ہیں ، کیونکہ اصل مسئلہ تاریخی ومعروضی حقائق اور ان کی روشنی میں درست منزل اور راستے کے ادراک کا ہے، جہاں انقلابی نظریاتی اپروچ بڑھے گی وہاں ایک حقیقی انقلابی عمل اور تحریک سے وابستگی کی شدید خواہش بھی تڑپ کی صورت اختیار کرے گی ۔
سنگت حمید شاہین بلو چ کا انقلابی فکرو عمل چونکہ اثر انگیز تھا لہٰذا رد انقلابی نو آبادیاتی قوتوں کی آنکھوں میں کھٹکھنا لازمی امر تھا، خاص طور پر جب رواں صدی کے آغاز پر بلوچ قومی تحریک مسلح جدو جہد کے اظہار کی صورت میں شدت سے ابھری تو کا مریڈ حمید شاہین اس میں پیش پیش اور انتہائی متحرک نظر آئے ، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شہر میں رہنے کے باوجود آپ نے پہاڑوں کی ہر قسم کی سہولیات سے محروم زندگی اختیار کی ، اس دوران اپنی جنگی مہارت اور بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ جس سے قابض قوتوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ، یوں آپ کا وجود نو آبادیاتی ریاست کے لئے خطرے کی علامت بن گیا اور ان قوتوں کی نظر میںآپ کو راستے سے ہٹایا جانا لازمی ٹھہرا ، اور آپ کا گھیرا تنگ کیا جانے لگا، آپ چونکہ انتہائی بہادر اور جان پر کھیل جانے والے انقلابی تھے لہٰذا مسلح حالت میں ریاستی فورسز کو آپ پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوئی ، اور جونہی آپ کو نہتا اور تنہا پایا گیا آپ پر سرکاری فورسز اور خفیہ اداروں کے مسلح اہلکاروں کی بھاری نفری کے ساتھ اس وقت ہلہ بول دیا گیا ،20 مارچ بروزاتوار2011ء کو کوئٹہ سے بذریعہ بس کراچی جا رہے تھے، یہ بزدلانہ کام کسی ریاستی زر خرید مخبر کی مدد سے انجام دیا گیا ۔
مگر یہ جانتے ہوئے بھی کہ حمید شاہین نہتے اور تنہا ہیں ،ریاستی مسلح اہلکاروں کو آپ کے قریب جانے کی جلدی جلدی ہمت نہ ہوئی ، عینی شاہدین کے مطابق فورسز وخفیہ اداروں کے اہلکار گھبراہٹ کا شکار اور خوفزدہ نظر آئے، لیکن سنگت حمید شاہین دشمن کے نرغے میں ہونے کے باوجود پر عزم دکھائی دئیے،آپ جان چکے تھے کہ آپ کا بلوچ سر زمین اور قوم پر قربان ہونے کیلئے جام شہادت نوش فرمانے کا وقت آن پہنچا ہے، لہٰذا آپ نے دشمن کے سامنے زندگی کی بھیگ مانگنے اور گڑگڑانے کی بجائے بلوچ سر زمین کی آجوئی کے حق میں اور نو آبادیاتی ریاست کی بربادی کے فلک شگاف نعرے لگائے،آپ کے اس ناقابل فراموش انداز شہادت سے آپ کے پیش رو بلوچ شہداء کے دلیرانہ کردار کے ساتھ ہندوستان کے انقلابی سوشلسٹ حریت پسند نو جوان رہنما بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے لمحہ شہادت کی یاد تازہ ہوگئی جو تختہ دار تک جاتے ہوئے انگریز استعمار سے آزادی اور انقلاب کے فلک شگاف نعروں کی صورت میں ہے ، کامریڈ حمید شاہین کو بھی شہادت کا وہ مہینہ اور تاریخ نصیب ہوئی جو بھگت سنگھ اور اسکے ساتھیوں کا یوم شہادت تھا ، جو 23مارچ کو منایا جاتا ہے ، شہید حمید شاہین بلوچ کی لاش بھی اغواء نما گرفتاری کے اگلے روز یعنی 21مارچ کو کوئٹہ سے ملی ، یعنی بھگت سنگھ اور حمید شاہین کے یوم شہادت میں محض دو یوم کا فرق ہے ، جبکہ دونوں کے انقلابی نظریے میں مکمل ہم آہنگی نظر آتی ہے،بھگت سنگھ اور حمیدشاہین بلوچ میں مماثلت شاید اس لئے بھی نظر آتی ہے کہ سنگت حمید شاہین بھگت سنگھ اور اس کے انقلابی ساتھیوں کے نظریے اور جدوجہد سے ہم آہنگ اور متاثر تھے،جبکہ دونوں ہی نو جوان تھے ،کامریڈ حمید شاہین نے نو جوانی کے عین شباب پر 30سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا ، اور تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے ،آپ کی شہادت کی خبر نہ صرف آپ کے بوڑھے والدین ، بیوی اور کمسن بیٹے وچھوٹے بہن بھائیوں اور اہلخانہ سمیت تمام عزیز واقارب پر بجلی بن کر گری بلکہ تحریک کے ساتھیوں اور حلقہ احباب پر بھی غم کے پہاڑ ڈھا گئی ، جبکہ بلوچ قوم میں اس المناک خبر پر دلی رنج کے علاوہ مزید اشتعال پھیل گیا ، جس کا مظاہرہ شدت آمیز رد عمل عوامی ہڑتالوں ، مظاہروں اور ریاستی مراکز پر حملوں کی صورت میں دیکھنے کو ملا اور بلوچ قوم نے اپنے اس عظیم فرزند کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا ، شہیدحمید شاہین کے قاتلوں کو گمان تھا کہ وہ آپ کو شہید کر کے شاید آپکے اہلخانہ اور بلوچ قوم کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور وہ بلوچ قومی آجوئی اور انقلاب کے درس کو بھول جائیں گے،مگرآپ کے بوڑھے والدین ، بیوی ، بچوں اور بہن بھا ئیوں نے جس صبر و استقا مت اور بلند حو صلے کا مظا ہرہ کر تے ہو ئے شہا دت کو اپنے لئے قا بل فخر قرار دیا اورآپ کے انقلا بی نظر یے کو آگے بڑھا نے کے عزم کا اظہا ر کیا اس سے قا تلوں کو سوا ئے نا کا می و رسوا ئی کے کچھ ہا تھ نہیں آ سکا جبکہ آپ کی شہا دت سے بلوچ تحریک آجو ئی کے جہد کا روں اور بلو چ عوام میں تحریک کو اس کی منزل تک پہنچا نے کا جذ بہ مزید شدت اختیا ر کر گیا ،اورآپ کی شخصیت آنے وا لی نسلوں کیلئے آزا دی و انقلا ب کی غیر مصالحا نہ جدو جہد کی علا مت بن کر ابھری ہے،شہید حمید شا ہین اپنے پیچھے ایسی یا دیں چھو ڑگئے ہیں جو کبھی بھی فرا مو ش نہیں کی جا سکیں گی ، خصو صا را قم کیلئے تا دم مرگ آپ کو بھول جا نا ممکن نہیں ہے ، کیو نکہ راقم کو آپ کے سا تھ قر بت وا لی سنگتی کے دن گذا رے کا شرف حا صل ہے ، سنگت حمید شا ہین کے سا تھ قا ئم ہو نے وا لا سنگتی کا رشتہ سب سے منفرد اور گہرا تھا ، ر اقم آج بھی اپنے اس کھرے کامریڈ کی یادوں میں بو جھل دل اور غم زدہ ہے ، اور ایک لمبی جدائی کا کرب روح کو بے چین اور دل کو دکھی کئے رکھتا ہے ، جب بھی آپ کی یاد آتی ہے تو غم اور کرب سے آنکھیں بھر آتی ہیں ، شاید اس گہرے صدمے اور غم کا زخم ابھی تک اس لئے بھی مند مل نہیں ہو سکا ہے کہ آپ کی شہادت کے بعد کوئی دوسرا حمید شاہین جیسا سنگت نصیب نہیں ہو سکا،اور شاید نہ ہی مل سکے گا،حمید شاہین کا انقلابی فکرو عمل ،خوبصورت یادیں اور شہادت ہمارے اور آنے والی نسلوں کیلئے اس درس اور سبق کی حیثیت رکھتے ہیں ، لہٰذا اس کی روح کو تب ہی سکون پہنچا یا جا سکتا ہے کہ جب آپ کے دئیے ہوئے درس وعمل کے مطابق بلوچ قومی آجوئی وانقلاب کی جدو جہد کو آگے بڑھا یا جا ئے
۔

среда, 25 марта 2015 г.

خاموش جنگ,, تحریر: وکرم سود, ترجمہ: لطیف بلیدی


بلوچ کو ایک سے زائد مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کی آبادی اتنی کم ہے کہ وہ پاکستان کی قومی سیاست کے اعداد و شمار پر اثرانداز نہیں ہوسکتے، اگرچہ ان کا صوبہ اسٹراٹیجک اعتبار سے اہمیت کے حامل علاقے کا 45 فیصد ہے۔ وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود وہ پاکستان میں سب سے زیادہ غریب اور محروم ہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی صرف ان بے پناہ قدرتی وسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں جو بلوچ کے پاس ہیں لیکن انہیں ان کے ثمرات سے مستفید ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
بلوچ نے اگست 1947ء سے آزادی کا خواب دیکھا اور اس کیلئے مسلسل جدوجہد کی مگر انہیں وحشیانہ طور پر کچلا گیا۔ یکے بعد دیگرے آنیوالی پاکستانی حکومتوں نے صوبے کو محکوم و محروم اور الگ تھلگ رکھا، ان کی صداؤں کی گونج ایک کال کوٹھڑی میں ہی گلا گھونٹتی رہیں۔ غیر ملکی، خاص طور پر صحافی، بلوچستان میں ناپسندیدہ شخصیات ہیں۔ ڈیکلن والش، تب گارڈین سے تعلق رکھنے والے صحافی، نے اپنے مضمون ’پاکستان کی غلیظ جنگ‘ میں بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں جس لرزہ خیز اور گرافک انداز میں یاد دہانی کرائی کہ انہیں ملک سے نکال دیا گیا۔ اطالوی صحافی فرانسسکا مارینو کے مضمون ’آخر زمانِ پاکستان‘ پاکستانی حکام پر اس قدر ناگوار گزرا کہ انہیں ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
مزید بر آں، کئی ہزار معروف بلوچ قوم پرست مرد و خواتین لاپتہ ہو چکے ہیں اور حکام نے ہمیشہ کی طرح قوم پرستوں کو بدنام کرنے کیلئے بلوچستان میں، اہلسنت والجماعت کے جانشینوں میں سے، لشکر جھنگوی میں اپنے قابل اعتماد قاتل شامل کرواکر فرقہ وارانہ دہشت گردوں کو بے لگام چھوڑ دیا ہے جنہوں نے بلوچستان میں بار ہا ہزارہ شیعوں کا قتل عام کیا۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کی 2014 کی سالانہ رپورٹ میں بلوچستان میں ان کارروائیوں کو 1948 کے بعد سے پاکستان آرمی کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کیمطابق ان کارروائیوں میں سویلین آبادی پر اندھا دھند بمباری؛ صوابدیدی گرفتاریاں؛ سرگرم بلوچ کارکنوں اور سیاسی قیدیوں کی ماورائے عدالت اغواء؛ بلوچ دانشوروں اور بلوچ معاشرے کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور متمدن ارکان کو ہدف بنا کر قتل کرنا شامل ہیں۔ 2010 کے بعد سے حکام نے ’اٹھاؤ، مارو اور پھینک دو‘ کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ جبری گمشدگیاں سزا سے استثنیٰ کیساتھ جاری ہیں۔ ٹھیک ایک سال قبل بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کو فرنٹیئر کور کی طرف سے اٹھایا گیا اور تب سے ان کی حفاظت اور اتا پتہ معلوم نہیں۔
انصار الاسلام، الفرقان، لشکر اسلام اور ان جیسے دیگر بنیاد پرست گروہوں کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے وہاں مسلسل تشویش رہی ہے جنہیں شیعوں، ہندووں، سکھوں اور ذکریوں سمیت صوبے میں رہنے والے دیگر لوگوں اور بلوچوں کے درمیان دراڑیں پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ کرائسس بلوچستان ڈاٹ کام نامی ایک ویب سائٹ نے وینڈی جانسن کی بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اﷲ نذر کیساتھ 2014 میں ہونیوالا ایک انٹرویو شائع کیا ہے۔ اس انٹرویو میں ڈاکٹر اللہ نذر نے گزشتہ سال بلوچستان کے علاقے دشت میں داعش سے منسلک ایک گروہ لشکر خراسان کیساتھ بی ایل ایف کی ہونیوالی لڑائی کا حوالہ دیا ہے اور بلوچستان میں داعش کے پہلے ہی سے موجود چار کیمپوں کا ذکر بھی کیا ہے۔
بلوچستان میں قوم پرستوں کیلئے دیگر پیچیدگیاں بھی ہیں۔ یہ صوبہ اب افغانستان سے بلوچستان کے ذریعے باقی دنیا کو کی جانیوالی ہیروئن کی اسمگلنگ کی اہم ترین گزرگاہ پر واقع ہے۔ امام بھیل بزنجو جیسے ہیروئن سرغنہ ممتاز بلوچ کارکنوں کو ختم کرنے میں ریاست کیلئے کارگر ثابت ہوئے ہیں۔ 2009 میں بھیل کے بیٹے یعقوب کو ہلاک کرنے کی بی ایل ایف کی کوشش ناکام ہوئی۔ لیکن اگلے سال وہ بلوچستان میں دوسرے نمبر پر سب سے طاقتور منشیات سرغنہ حاجی لال بخش کو مارنے میں کامیاب ہوئے۔ امام بھیل سرکاری تحفظ کے تحت کافی حد تک ایک گاڈفادر کی طرح رہ رہا ہے اور جب اس نے اپنے گھر میں گوادر کے ڈپٹی کمشنر عبدالرحمان دشتی کو قتل کیا تو تب کسی کے کان میں جوں تک نہ رینگی۔ گزشتہ سال اکتوبر میں بلوچ سرمچاروں نے حملہ کیا اور امام بھیل سے تعلق رکھنے والے اسلحے کو قبضے میں لے لیا۔ تو لہٰذا اس طرح سے قوم پرست فوجی دستوں، ایئر فورس، نیم فوجی دستوں، سیاسی جرائم پیشہ فوجی گٹھ جوڑ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مذہبی انتہا پسند نیٹ ورک کیخلاف ایک ہمہ جہتی جنگ لڑ رہے ہیں۔
وہاں چین کا عنصر بھی موجود ہے۔ گوادر کو چین نے عیش و آرام کی ایک تفریح گاہ کے طور پر ترقی نہیں دی ہے۔ یہ شاہراہ قراقرم کے ذریعے گوادر کو سنکیانگ میں کاشغر کیساتھ منسلک کرنے کیلئے ایک عظیم الشان انفراسٹرکچر منصوبے کا حصہ ہے۔ اصل سڑک کو دریائے سندھ کے مغرب میں واقع بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سے ہوتے ہوئے گزرنا تھا لیکن پنجابی لابی غالب آگئی اور مجوزہ سڑک کو واضح اقتصادی فوائد کے سبب اب پنجاب سے گزارا جائے گا۔ چینی اور پاکستانی دونوں بلوچستان کو اپنے کنٹرول میں رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
بلوچ بغاوت کا کردار تبدیل ہو رہا ہے۔ مہوش احمد، کاروان ڈاٹ کام نئی دہلی کی طرف سے شائع کردہ، اپنے مفصل مضمون میں اس بات کو وضاحت کیمصنف ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کے سابق سربراہ رہے ہیںساتھ سامنے لائی ہیں۔ شمال مشرقی علاقے سے تعلق رکھنے والے ریاست مخالف روایتی مراکز، جنکی قیادت مری اور بگٹی جیسے بلوچ سرداروں نے کی جوکہ بیشتر انتقال کرگئے یا تو قتل کیے گئے یا پھر جلاوطنی میں ہیں، اب اس تحریک کی قیادت جنوب سے تعلق رکھنے والی شہری متوسط طبقے کی قیادت نے سنبھال لی ہے۔
دریں اثنا، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بلوچ اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں جو کہ بیرنی دنیا کو کسی حد تک متوجہ تو کر سکتی ہے لیکن ان کی حالت زار پر خاطر خواہ عالمی توجہ نہیں ہے۔ ان کی جدوجہد یک و تنہا ہے۔

пятница, 20 марта 2015 г.


شاہ زیب بلوچ کی قلم سے
آزادی پسندوں کیلئے اب بھی وقت ہے کہ وہ ہیر بیار مری کو کھلے عام ریجیکٹ کرکے بی ایل اے توڑنے سے لیکر رحمان ملک سے ساز بار کی تمام سازشوں کو قوم کے سامنے لائیں ۔۔۔ تاکہ قوم اس ہیجانی کیفیت سے جلدی نکل سکے جہاں ہیر بیار مری ایک گینگ پال کر وارلارڈ کی شکل میں بلوچ قوم کی وسائل کو بیچنے کی مزید راہیں کھولنے کیلئے بلوچ تحریک کو کمزور کرنے کے درپے ھے ۔۔ انہی کرتوتوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بی ایل اے کے سینئیراور کمیٹڈ کمانڈروں کو ہٹا کر اپنے من پسند کمانڈر منتخب کرنے کی کوششیں کیں تاکہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو سکے مگر نواب خیر بخش مری نے حالات کو بھانپ کر ہیر بیار مری کے جعلی کمانڈروں کی ٹیک اوور سے پہلے مخلص دوستوں کے ساتھ ملکر ہیر بیار مری کے منصوبے کو کسی حد تک ناکام بنا دیا مگر قطار میں کمانڈری کی شوق میں انتظار لوگوں نے ہیر بیار مری و بی ایل اے کو انہی مقاصد کیلئے زندہ رکھنے کی ٹھان لی جس خدشے پر نواب مری نے یو بی اے کی بنیاد ڈالی تھی ۔۔۔ دراصل یہ یو بی اے ہی وہی بی ایل اے ہے جس کے خالق نواب خیر بخش و شہید بالاچ مری ہیں (اس سب کھیل میں بالاچ کی شہادت ایک معمہ ھے جس کے بعد کمانڈر انچیف بننے کی دوڑیں شروع ہوگئیں، بلآخر اسلم کمانڈر انچیف بننے یعنی اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا ، جس کی حرکتوں سے نواب مری نے بقول ِ بشیر زیب انہیں (اسلم کو) پہچاننے سے انکار کیا تھا ) ۔ ہیر بیار مری کی پاکستانی خواص سے دوستیوں کا شروع ہونے نے تمام شکوک کو یقین میں بدل دیا۔ ان پاکستانی خواص میں سلیمان داؤد (جس نے ڈاکٹر اللہ نذر کو اپنے فدائین کے ذریعے قتل کرنے کی دھمکی دیکر پاکستانی مذہبی دہشت گردوں سے روابط کی شکوک کو یقین میں بدل دیا) رحمان ملک کون ہیں، وہ ہیر بیار مری سے خفیہ طور پر کیوں ملتے ہیں اور چند مہینے بعد اسلام آباد میں ملاقات کی راز آؤٹ کرنے کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ بلوچ آزادی پسندوں کا آپس میں اختلافات ہیں ، اس کے بعد ہیر بیار مری بھی اپنے دوست رحمان ملک کی پیروی کرتے ہوئے بہ دل نا خواستہ ملاقات کا اعتراف کرتے ہیں اور رحمان ملک کی ’’ بلوچوں کی آپس میں اختلافات ہیں ‘‘ والے جملے کو بھی دُہراتے ہیں ۔۔ ان اعمال کے مالک کو اگر بلوچ قوم کوئی بڑی ذمہ داری دینے کی مزید غلطی کر بیٹھتا ھے تو بلوچ قومی تحریک کو یہ اشخاص ایک کھائی میں گرانے کی تیاری کر چکے ہیں ۔۔۔ اس سلسلے میں پہلے وہ دوسری قوتوں کو ختم یا کمزور کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ، جس کے بعد وہ خود اپنی مرضی سے سوئچ آف کرکے سلیمان داؤد اور رحمان ملک سے کئے گئے وعدے نبھائیں گے ، جس کے ثمرات ان کو ملنا پہلی ہی ملاقات سے شروع ہیں اور آج یہ ٹیم پوری ذمہ داری و ایمانداری کے ساتھ پاکستان کا مدد و کمک کر رہا ھے ، یہ مدد بلوچ کیمپوں پر حملوں سے لیکر اغوا و مخبری تک پہنچے ہیں ۔۔۔ محمود خان اچکزئی ملاقات کا ذکر اس پوسٹ میں قصداََ نہیں کر رہا ہوں کیونکہ اس میں اور رنگ بہت ہیں جو موضوع کو بدل سکتا ھے ۔۔ خیر کرتوتوں کی بات ہو رہی تھی تو سوشل میڈیا میں گالم گلوچ سے قصہ شروع ہوکر بلوچ جہد کاروں کی نام و راز فاشی تک جا پہنچا، جس کے ثبوت سوشل میڈیا و ہمارے ریکارڈ میں درج ہیں ۔۔ ان گالی گلوچ ، نام و راز فاشی میں اگر کوئی سمجھے کہ ہیر بیار مری کی منشا و اجازت شامل نہیں تو وہ شبیر بلوچ کی آڈیو ریکارڈنگ میں سُن سکتے ہیں جس میں شبیر کہہ رہا ھے کہ ان سب چیزوں میں ہیر بیار مری کی رضا شامل ھے۔ حال ہی میں ایک کہنہ مشق اُستاد و کمانڈر واجہ رحمدل مری کو اغوا کرکے حبس بے جا میں رکھنا ہیر بیار مری کی کارستانیوں کی فہرست میں ایک اور بد نما اضافہ ھے۔۔

среда, 18 марта 2015 г.

رحمدل مری کو اگر کوئی گزند پہنچائی گئی تواسکی ذمہ دار حیر بیار ہوگی،بی ایل ایف

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے کہا کہ ہیر بیار مری کے گروہ کے ہاتھوں اغواء ہونے والے بزرگ بلوچ رہنما واجہ رحمدل مری کی تاحال عدم بازیابی اور اس معاملے میں ہیر بیار مری و اسکے گروہ کی خاموشی قابل مذمت ہے۔ واجہ رحمدل مری بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے بانی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ یہ بات ہیر بیار مری بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ اگر ہیر بیار مری کو واجہ رحمدل مری سے کوئی شکایت تھی تو وہ بی ایل ایف کے ذمہ داروں کو بتا دیتے۔ کسی گروہ کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ جد و جہد آزادی کے نام پر آئی ایس آئی کی طرح بلوچ آزادی پسندوں کو جبری طور پر غائب کردیں۔ بی ایل ایف یا کسی دوسری تنظیم کے ساتھ اختلاف رکھنا ہیر بیار و اس کے گروہ کا بنیادی حق ہے مگر اس اختلاف رائے کو دشمنی میں بدلنا نہ صرف ان کی بڑی حماقت ہے بلکہ یہ ا ن کے فاشسٹ سوچ اور رویے کو ظاہر کرتا ہے ۔ ان کے اس فاشسٹ سوچ اور رویے کی وجہ سے بلوچ تحریک آزادی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس گروہ میں شامل جو درباری لوگ بلوچ آزادی پسندوں کے ساتھ تصادم کی راہ پر چل رہے ہیں یقینی طور پر وہ عناصر سرکاری ایجنٹ ہیں۔ اس گروہ کے اندر اگر کچھ باضمیر، سنجیدہ اور محبِ وطن افراد موجود ہیں تو ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان درباری موقع پرستوں اور سرکاری ایجنٹوں کے ہاتھوں آزادی کے نام لیوا اس گروہ کو قابض سرکار کا آلہ کار اور آئی ایس آئی کی بی ٹیم بننے نہ دیں۔ واجہ رحمدل مری کا اغواء ہو یا یو بی اے کے ساتھ مسلح تصادم کے واقعات ہوں یہ سب ایسی حماقتیں یا سازشیں ہیں جو بلوچ تحریکِ آزادی کو آپسی تصادم کے گرداب میں دھکیل رہی ہیں۔ قومی غداروں، خفیہ اداروں کے کارندوں اور منشیات فروشوں کے خلاف بی ایل ایف کی کارروائیوں کو سوشل میڈیا و پرنٹ میڈیا میں حدف تنقید بنانے والا یہ ٹولہ ذرا قوم کو یہ بھی بتادے کہ واجہ رحمدل مری جیسے مستقل مزاج اور بزرگ آزادی پسند رہنما کو اغواء کرنے کا ان کے پاس کیا جواز ہے؟ کیا واجہ رحمدل مری کا گناہ یہ ہے کہ مری ہوتے ہوئے بھی انہوں نے جد و جہدِ آزادی کیلئے اپنے قبائلی سردار زادہ کے گروہ کے بجائے بی ایل ایف کا انتخاب کیا؟ کیا مری قبیلہ یا کوہلو و کاہان سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کیلئے ہیر بیار مری کے مخصوص گروہ کے بجائے کسی دوسرے آزادی پسند تنظیم کے پلیٹ فارم سے آزادی کی جد و جہد کرنا جرم ہے؟ کیا اس طرح کی گروہی تنگ نظری اور فاشسٹ رویے سے چارٹر آف لبریشن میں درج انسانی حقوق، اظہار رائے اور جمہوریت کے بلند و بانگ دعووں کی نفی نہیں ہوتی؟ لبریشن چارٹر ،جمہوریت و اظہارِ رائے کی آزادی کا راگ الاپنے والے اپنی قبائلی انا سے نکلنے کو تیار نہیں ۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ واجہ رحمدل مری کو اگر کوئی گزند پہنچائی گئی تو اس کی براہِ راست ذمہ د اری ہیر بیار مری پر عائد ہوگی۔

четверг, 12 марта 2015 г.

کامریڈ حمید شاہین، فکرونظریہ اور سوانح حیات,, پیش لفظ  ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ 



حمید میں آپ کو دوست مخاطب کر کے کلام کرتا ہوں کیونکہ آپ زندہ ہیں۔ آپ کی فکر زندہ ہے۔ میری پہلی ملاقات شاید یونیورسٹی میں آپ سے ہوا تھا اس وقت آپ بی ایس او (اِستار) کے چیئرمین تھے۔ اور آپ کی کاوشوں سے مرتب کردہ (اِستار) کا کتابچہ مجھے ملا۔ پڑھ کر احساس ہوا کہ شہزادوں اور زرداروں کے درمیان رہتے ہوئے بھی آپ نے اپنی نظریات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی اپنی طبقاتی افکار سے روگردانی کی ہے۔
حمید افسوس ہے کہ میں آپ کو اس وقت زیادہ سمجھ نہ سکا جس وقت ہماری نظریاتی کشمکش پارلیمانی پارٹیوں کے ساتھ اپنی انتہا تک پہنچ چکا تھا۔ اس وقت بی ایس او کے تینوں دھڑوں کی بولان میڈیکل کالج میں جلسہ سے آپ کی خطاب میں جو سنجیدگی دیکھی اور اب محسوس کررہا ہوں وہ ایک بالغ سیاسی کارکن کی تقریر تھی جس میں کسی جذباتی پن کا اظہار نہ تھا۔ مجھے یا مجھ جیسے کئی لوگوں کو اچھا نہیں لگا لیکن آپ ماحول سے متاثر ہونے والے نہیں تھے بلکہ اپنی بات نہایت سنجیدگی سے رکھتے تھے۔ حمید مجھے معاف کرنا میں ایک مردہ پرست قوم سے تعلق رکھتا ہوں اس لئے آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ کئی معاملات پر اختلاف رائے رکھنے کے باوجود ایک ہی منزل کے مسافر ہیں۔ جس دن آپ شالکوٹ کے مضافاتی علاقہ میں اپنے اُستاد سے ملانے کے لئے لے گئے میں نے آپ کو ایک خاص سوشلسٹ پایا۔ ہمیشہ طبقاتی کرداروں پر بحث کرتے تھے۔ میرے لئے قومی مسئلہ میں طبقاتی کرداروں کی نشاندہی کرنا مشکل ہورہاتھا لیکن آپ بضد تھے کہ اشرافیہ کہیں بھی اپنی اصلی چہرہ دکھاسکتا ہے۔ اس کے لئے پیشگی منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔ بالآخر ہم اس بات پر متفق ہوئے کہ نظریہ سے مسلح اور جامع اصولوں کی پابند تنظیم ہی اِن کرداروں کو لگام دے سکتا ہے۔ جب ہم دوستوں نے پارلیمانی پارٹیوں سے علیٰحدگی اختیار کرنے ’’کیچ‘‘ میں بی ایس او (آزاد) کی تشکیل کی تو اُس وقت آپ کیچ آئے۔اور چھپکے سے شہید گُل بہار اور دوستوں کے پمفلٹ پارلیمانی پارٹیوں کے جلسہ میں تقسیم کیا اور اپنا خطاب بھی کیا۔ آپ بائیں بازو کے قوم پرست اور سوشلسٹ نظریات پر پختہ یقین کرنے والا شخص تھے۔ آپ ماؤ اور چے گویرا سے متاثر تھے جو ہمیشہ چے گویرا اور کاسترو کی لباس سے مشابہ لباس پہنتے تھے اور بین الاقوامیت پسند تھے۔ جب بی ایس او آزاد اور اِستار کا انضمام کے لئے حقیقی دوستوں کے ساتھ ساتھ موقع پرست بھی سرگرم تھے۔ آپ مجھ سے زیادہ مسئلے کی نزاکت کا ادراک رکھتے تھے جونہی انضمام کے لئے دونوں طرف سے دباؤ بڑھ گیا آپ مجھے جناح روڑ کے آخری سرے میں ایک چھوٹے سے چائے کی ہوٹل میں لے گئے جہاں پشتون، ہزارہ اور بلوچ سیکولر سیاسی کارکنوں کی بحث و مباحثہ کی ایک خاص جگہ تھی۔
سویت یونین کی بکھر جانے کے بعد سوشلسٹ نظریات کی احیاء اور طبقات سے پاک معاشرے کے لئے جدوجہد کی باتوں میں مشغول تھے۔ آپ انضمام اور اس کے بعد کی قیادت سیاسی و نظریاتی پالیسیوں پر اپنا نقطہ نظر پیش کی۔ جس میں پارلیمانی سیاست کو بھی بطور سیاسی طریقۂ کار اختیار کرنے پر زور دیا۔دلیل کے طور پر ’’کے۔ بی‘‘ کا نام لیکر اظہار کیا کہ وہ اس طریقۂ کار کو خارج از جہد نہیں کرتا۔ لیکن میں نے آپ سے اتفاق نہیں کیا۔ آپ مادیت کے فلسفہ کے پیروکار تھے۔ اضداد کو برحق سمجھتے تھے لیکن اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ بقولِ شریعتی حضرات انسان نے کوئی جرم نہیں کی تھی بلکہ وہ شعور کی دانہ کھانے کے بعد آسائش سے بیدخل کردیئے گئے تھے۔ اس طرح آپ بھی شعور کی دانہ کو چھکنے کے بعد رؤسا اور شرفاء کے درمیان جگہ نہ پاسکے۔ کیونکہ شعور اُمرا و شرفاء کے لئے زہر قاتل ہے۔ یار حمید حالات
واقعات نے سچ ثابت کیا کہ اشرافیہ واقعی جدوجہد کے دوران کسی مرحلے میں اپنا اصل چہرہ دکھاسکتا ہے اور خدائی کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ یہ درندہ اس وقت کامل قابو میں نہیں آسکتا جب تک شعور کا دانہ نہ کھائے اور کھانے کے لئے قائل نہیں ہوسکتا تو کھائے کون۔؟ انا کی شعوری تشکیل اس وقت ممکن ہے جب انسان خود کو نفی کرے۔ جس طرح آپ نے خود کو نفی کرکے اپنی زیست کو آنے والے نسلوں کے لئے قربان کرگئے اور تاریخ کا حصّہ بن گئے اور اپنے حصّے کا کام مکمل کرلیا۔ بیٹا ’’فدا بلوچ‘‘ اور دوستوں کے لئے ترکہ میں نظریہ آزادی، طبقات سے پاک معاشرہ اور جنگ آزادی کے طویل سفر چھوڑے ہیں۔ جو انقلابی ارتقاء کے ساتھ رواں دواں ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
زیارت، بلوچستان
(5 مارچ 2014ء)

вторник, 10 марта 2015 г.

عظیم بلوچ قومی رہنما واجہ مامو رحمدل مری کا اغوا،، چاکر خان بلوچ

بلوچ قومی جہد میں ہزاروں جہد کار، درجنوں لیڈر گمنامی میں قومی نجات ،قومی تشخص اور آزادی کے لیے جد وجہدکر رہے ہیں۔سینکڑوں ساتھی ایسے ہیں جنہوں نے اپنے خاندان کے خاندان اپنی آنے والی نسلوں اور قومی جہد آزادی کے لیے قربان کر دئیے ہیں اور آج بھی بلا تفریق اُف کئے بغیر سرزمینِ بلوچستان کی پہاڑوں میں دشمن ریاست سے نبردآزما ہیں۔انسان اپنی اعمال،دور اندیشی،مستقبل مزاجی و اشتراکی سوچ سے سماج اورقوم میں مقام بناتا ہے۔اور اس مقام کو قائم ودائم رکھنے کے لیے پوری زندگی،پوری نسل اور پوری خاندان کی بھلی چڑھاتا ہے لیکن نظریہ،قومی فکر ومقصد کو آنچ نہیں آنے دیتا۔ ایسے ہی ایک رہنما،شفیق،مہر و محبت کرنے والے اُستاد کا نام واجہ رحمدل مری ہے جسے ہر علاقے کا سرمچار، جہد کار اپنے انداز سے احترام والے نام دیتے ہیں۔اور احترم میں شاذو نادر ہی انکا نام کوئی لیتا۔ناکو،مامو، واجہ،واجوجیسے القابات سمیت کوئی ابا جیسے پر محبت اندازمیں نہایت احترام سے انہیں مخاطب کرتا ہے۔ کچھ روز قبل واجہ رحمدل کو مری علاقے جالڈی سے دلشاد ولد شاہ میر اور بلوچ نامی افراد نے اغوا کیا جو ہیر بیار مری کے اہم لوگ ہیں اور بزرگ قومی رہنما کو جو نہتا تھا بڑی بے دردی سے دشمنوں کی طرح ہاتھ پاؤں باندھ کر گاڑی میں پھینکا گیا جیسے کہ وہ دشمن فوج کا گرفتار کیا جانے والا سپاہی ہو۔۔۔اُف اُف۔۔۔۔جس کسی نے واجہ رحمدل جیسے شفیق بزرگ کو دیکھا ہے ان کیلئے رحمدل مری کا اغوا آسمان گرنے جیسی بات ہے۔
واجہ رحمدل کے اغوا نے کئی سوال جنم دئیے اور شعور رکھنے والے انسانوں کے لیے بہت کچھ واضح کر دیا۔اور مجھے بھی سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اس لیے کے مامو رحمدل کو کم مدت میں بہت ہی قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ایک معصوم،شفیق استاد جو ایک چھڑی کے سہارے چلتا ،پھر مضبوط انسان،ایک ایسا خاموش صوفی جو سراپا عمل،سراپا قربانی،سراپا شفقت تھا۔ایسے انسان کا اغوا سمجھ سے بالاترہے؟
واجہ رحمدل جسے میں مامو کہتا تھا اس لیے کہ مامو سعادت مری کی شبیہہ اس میں پاتا۔میں مامو سعادت مری کو کبھی دیکھ نہ سکا لیکن جتنا انکے بارے میں پڑھاسنامجھے واجہ رحمدل میں انکی روح نظر آتا۔شاید ہی بلوچ قومی جہد آزادی میں کوئی ایسا سرمچار ہو (چائیے تعلق کسی بھی مزاحمتی تنظیم سے ہو) وہ مامو رحمدل کو نہ جانتا ہو۔وہ پیار،علم،گوریلہ شہری و دیہی جنگ کا ایسا سپہ سالار کہ ان کے لئے الفاظ سمیٹنا مشکل ہے۔قومی آزادی کا ایسا رہنما جو بلا تفریق ہر مزاحمتی کیمپ میں جاتا اور کئی ماہ تک سرمچاروں کی جنگی و علمی تربیت کرتااوراس عمر میں اس میں علم حاصل کرنے ،پڑھنے و سیکھنے کا اتنا جنون تھا کہ اب تک میں نے کسی دوسرے میں نہیں دیکھا۔مامو رحمد ل ملنگ انسان ہیںیہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وہ سراپا بلو چ تحریک ہیں۔2009 میں پہلی بار واجہ سے ملاقات مکران میں ہوئی مختصر ملاقات۔۔۔۔لیکن پھر سلسلہ شروع ہوا،مامو کو صحیح معنوں میں جاننے کا موقعہ مشکے میں2010 آپریشن کے دوران ہوا۔کچھ مدت ساتھ رہنے کے بعد مامو کی عظمت انکے رہن سہن انکے ساتھیوں سے گفتگو،روز مرہ کے شیڈول گشت سے عیاں ہوتی ہے وہ ایک دبستان ہیں۔ کچھ ماہ انکے ساتھ گزارنے سے انسان خود کو کھوجنے میں کسی حد تک کامیاب ہوجاتا اوریہی مامو کے صوفیزم تھا۔2011 ء مشکے میں جب ایک بڑی طویل آپریشن ہوا تو عصاء کے سہارے گھومتے بزرگ مامو رحمدل کو اور قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔جاری فوجی آپریشن میں جنگی جہازوں کی پروازیں اور شیلنگ کر رہی تھیں۔مامو کیمپ کمانڈر کو ہدایات دیتے اور آخری دستے کی قیادت کرتے نکلنے والے وہ عظیم قومی رہنما کہ انکی زندگی پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔اس آپریشن میں واجہ مامو نے مختلف دستوں کو جنگی حکمت عملی کے تحت مختلف سمت روانہ کیا اور آخری دستے کی کمان کرتے ہوئے نکلنے کی تیاری میں تھے۔ میں نے ا نہیں کہا کہ مامو آپ پہلے چلے جاتے تو اچھا تھا رات تک اس علاقے سے نکلنا ضروری ہے۔تو میرے کندھے پر محبت سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولا’’بیٹا ہم پہلے قافلے کیساتھ جائیں گے اور مغرب سے قبل وہ پوزیشن میں پہنچیں ہم انھیں راستے میں جا ملیں گے ،اس چھڑی کو نہ دیکھیں ‘‘اور پھر پیاری سی ہلکی مسکراہٹ ۔۔۔ ساتھیو بس ہمت کریں رات سے قبل اس پوزیشن میں پہنچ جائیں گے۔ میں ذرا دل میں حیران رہ گیا کہ ۲گھنٹے کا فاصلہ پہلے سے اول دستے اور ہمارے درمیان ہے۔ مگر مغرب کے آخری پہر پوزیشن سے کچھ فاصلے پر ہم پہلے دستے کے پاس پہنچ چکے تھے۔ایک ایسا رہنما جسکی روح سے سانس تک بلوچ سرزمین اور جنگی مہارت بھری ہے۔کتنی داستانیں کتنی یادیں۔۔۔مامو کی زندگی کا ہر پل قربانی و جہد کا نام ہے۔ ایسے بزرگ رہنما کے اغوا نے میرے دل و دماغ میں ایک سوال برپا کر دیا کہ آخر کیوں۔۔۔۔؟ کیوں۔۔۔۔۔؟
مامو رحمد ل کی عمر کا اندازہ صحیح معلوم نہیں لیکن میرے خیال میں واجہ75 سے80 کے درمیان کے ہونگے ۔بچپن کوہستان مری بلوچ جہد کار کمانڈورں سرمچاروں کے زیر سایہ و تربیت اور جنگ میں گزری۔اور لڑکپن سے جوانی بھی سرزمین بلوچ کی آبیاری اور انقلابی جہد کو اگلی نسل تک منتقل کرنے میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا اورجب2002 میں ایک بار پھر جنگ کا آغاز ہوا تو اس سے قبل تیاریوں میں صف اول کے رہنما تھے جو طویل جنگی حکمت عملی کے تحت ایک وسیع جامعہ حکمت عملی ترتیب دینے میں مامو کا اول دستہ و کردار تھا۔اسی طرح بی ایل ایف کی بنیاد جب 1999 میں رکھی گئی تو وہ یہاں بھی اول دستے میں شامل تھے اور انکی قومی جہد میں خدمات کسی الفاظ و تعارف کے محتاج نہیں۔مکران سے جھلاوان،ڈیرہ بگٹی،کوہلو،موجودہ قومی آزادی کی جنگ کا جائزہ لیا جائے تو واجہ رحمدل کی خدمات قومی جہد میں دن رات کرنا خود ایک تاریخ اور داستان ہے۔واجہ نے اپنی آنکھ قومی جہد کی فضا میں کھولی اور جہد سے منسلک رہے ۔وہ ان جہد کار،رہنماؤں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے خاندان کے تمام افراد قومی جہد کے لیے قربان کر دئیے ۔عمر کے اس موڑ پر بھی جہد سے ایک سچی لگن و کمیٹڈوابستگی دیکھیں کہ بڑھاپے کی خراب صحت کے باوجود مقبوضہ بلوچستان کے کھونے کھونے میں جاتے رہے۔کوہستان مری کی پہاڑوں کی طرح مکران،جھلاوان کے پہاڑ بھی واجہ مامو رحمدل کی سانسوں،قدموں کی آواز سے مانوس ہونے کے ساتھ ساتھ بے پناہ مہر رکھتے تھے۔مکران میں مامو سعادت مری کی کمان میں آپریشن سے ناصر آباد و دیگر کئی آپریشنوں میں ریاستی فوج کی جنگی عملوں و حکمت عملیوں کو نیست و نابود کرنے والے مامو واجہ رحمدل ہزاروں جہدکاروں کے لیے ایک درس گاہ،یونیورسٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔بلا آخر اغوا کر لیے گئے۔کیوں؟کیا اس لیے کہ وہ سب کے لیے قابل احترام تھا وہ ہر مزاحمتی تنظیم کے لیے کمان کی حیثیت رکھتا تھا اور اس بات سے خود ہیر بیار مری اچھی طرح واقف ہیں،اور کبھی کبھی علی الصبح لندن مختلف مسائل کے حل کے لیے فون کرنے والا واجہ رحمدل اغوا ہو گیا۔۔۔۔۔!!یہاں قربانیاں گنوانے کی دوڑ نہیں،مگر ایک انسان جو اس ادھیڑ عمرمیں ہسپتال،یا کسی کیمپ میں بستر پراپنی صحت کے ساتھ لڑ کر آخری سانس گزار رہا ہوتا۔مگر نہیں انہوں نے آج بھی زندگی کو جہد اور عمر کو رکاؤٹ بننے نہیں دیا۔آج بھی سرگرم تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے،موجودہ صورت حال پر بی ایل اے میں پیدا کردہ حالات سے نالاں اور حل کی تلاش میں گرداں تھا(بی ایل اے میں سینئر ساتھیوں کا اچانک صفایا اور باقی موضوعات زیر بحث نہیں)مگر اغوا کر لیا گیا۔
کیا واجہ رحمدل آزادی مخالف تھا،کیا وہ مری سرداریت کی بھینٹ چڑھ گیا؟اگر نہیں تو کیوں اغوا کیا گیا؟وہ تو خود رہنما تھا ایک غیر مسلح بوڑھے شخص کے ساتھ ایسا سلوک وہ بھی قومی جہد سے منسلک ایسا ناروا سلوک کی مثال بلوچ روایات میں نہیں۔واجہ مامو رحمدل کے ساتھ کیا گیا سلوک تو پاکستانی فوج بلوچ کے ساتھ کرتا ہے۔اللہ جانے۔۔کہ انقلاب اور آزادی کے معنی کچھ لوگوں کے لیے کیا ہیں۔مامو رحمدل کے ساتھ کیا ہو گا؟یہ ایک اہم سوال ہے جس طرح پاکستانی فوج بلوچ فرزندوں کو اغوا کرنے کے بعدان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکتی ہے۔ کیا کہیں ایسا تو نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔؟ایسا ہو بھی سکتا ہے جس طرح رویہ نظریات سے عاری اور شخصی انا کی نشاندہی کر رہے ہیں ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔اہل علاقہ گواہ ہے بلکہ مامو کے ساتھ جو لوگ تھے وہ گواہ ہیں کہ کس بے دردی کے ساتھ بزرگ بلوچ قومی رہنما کو اغوا کیا گیا۔کیا کوئی جوابدہ ہے قوم کے ہزاروں جہد کاروں کا جنکے اُستاد کو اغوا کیا گیا۔۔۔۔؟؟ جس نے ہزاروں فرزندوں کی آزادی کی راہ میں علمی وعملی تربیت کی۔پتہ نہیں؟سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا یہ انقلابی جہد ہے ۔؟؟ایک ایسے انسان کو جو سراپا جہد ہو ،انقلاب ہو، اگر واجہ رحمدل کی پچپن سے لڑکپن اور تاحال زندگی پر روشنی ڈالی جائے تو ممکن نہیں کہ ایک کتاب میں اسے سمیٹا جا سکے۔ایسے عظیم انسان کو قبائلیت کا نشانہ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔بہر حال بحیثیت ایک جہد کار کے اس طرح کے رویوں نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے اور میں عالم برذخ ایسے کرب سے گزر رہا ہوں جس نے میری روح کو جنجھوڑ دیا ہے ۔ اسی طرح قوم کے ہر فرزند کے دل و دماغ میں بھی کئی سوالات نے ضرورجنم لیا ہو گا۔60کی دہائی سے 2015 تک بلا وقفہ جہد مسلسل کے پیغمبر کا علاقے میں باقی ساتھیوں کی موجودگی میں اغوا اور پھر انکار۔۔۔کیا یہ عمل قابل معافی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

понедельник, 9 марта 2015 г.


رحمدل کون ہے؟کس نے کس لیے گرفتارکروایاہے؟اس 

شخص کو جاننے کے لیے 60


سال 

بلکہ اسے زیادہپیچهےجانا پڑهے گا 


رحمدل ایوبی فوجی حملوں کے دورمیں گوریلا 

کمانڈر 

بابوشیرو

 کے زیرے کمان،کمانڈرشاہباز،کمانڈرکریمو،کمانڈرجمندخان،کمانڈرغازی خان 

وغیره وغیره کےساته ایک نوجوان سپاہی کے طورپر وا بستہ رہا بلکہ ساته ساته کام 

کرتا 

رہا ایوبی جارہیت کےخلاف درجنوں لڑایاں لڑیں گوریلائی جنگی گر سیکهے پهربهٹو دور 

آمیریت میں لندن گروپ اور میرہزارخان کے کمانڈری کے زیرے سیائے ایک درجن بهترین 

گوریلا کمانڈروں کےساته خود عالی کمانڈر کی حیثیت سے کام کرتا رہا 


کمانڈرامیدهان،کمانڈربلو،کمانڑمیرحمد،کمانڈرصاحب،کمانڑرجانا،کمانڈرسبزل،کمانڈرقادر،

کمانڈر،وغیره جیسے اعظیم کمانڈروںاور شخصیتوں کے ساته مل کر گوریلائی جنگ 

لڑتهےرہےاوران کےسربراہی کرتے رہے سیکڑوں لڑائیاں لڑئی گیں کئی درجن ہتیار 

پنجابی 

فوج سے چهین چهین کر گوریلائی جنگ کو تقویت پہنچاتے رہے ایک ہی جگہ پر چار 

کمانڑروں کی یک مشت لڑائی میں100فوجیوں کو گهیر کر)بمبهور تهراتانی کور حیتانی 

موڑ(پر80فوجیوں کو ہلاک کرکے رکه دیا چهوٹا واقعہ نہیں،مژآئی آف،چاکرکورمثال کے لی

ے کافی ہیں وغیره وغیره بٹهو جنگ کے خاتمےکے بعد یقینا"اس کے زهین میں وسیع 

گوریلا ج گی تجربہ و آزادی کے لیے زهینی پختگی آتارہا اس درمیانی دور میں رحمدل 

نے 

تینچار جماعت تعلیم گوریلا کیمپوں کےاندر حاصل کی کیونکہ اس وقت کمیپوں کے اندر 

پڑهانے کا ماحول)رواج(پیداہو چکا تها مری علاقوں میں کمک کے لیے دوسرے بلوچ بهی 

پہنچ چکے تهے میر عبلنبی بنگلزی،واحدقمبر،حمل خان پرکانی،سالم ریکی عرف بیبرگ 

وغیره آئے تهے جب گرم جنگ ختم ہوئی تو مستقبل کےلیے مزید تیاری کے لیے 

نظریاتی 

تعلیم کا آغاز ہوا مارکسی فلسفہ،جدید نوآبادیاتی نظام،موزیتنگ کےاقوال اورکوریا میں 

گوریلا جنگنامی کتابیں وغیرہ میرعبدلنبی نے درجنیوں ساتهو ں کےساته نظریاتی تعلیم 

کمانڑروں کو دیتا رہا جب کام کے تقاضوں کے مطابق حالت بدلتے رہے مزید تیاری کی 

ضرورتوں نے رحمدل اور کئی دوسرے کمانڈروں کوکابل جانا پڑا نواب صاحبکے ساته مزید 

نظریاتی تعلیم حاصل کرتے رہے زهینی اور ہنری تربیت ہوتارہا جب افعانستان سے لوگ 

واپس ہوئے رحمدل نواب صاحب کے سوچ کے عین مطابق فکری اور عملی تیاری کےکام 

میں مصروف رہا حق توارکے سرکلوں میں بهی حصہ لیتا رہا یاد رہے کہ دوران جلاوطنی 

لوگوں کی مسائل حل کے لیئے نواب صاحب کے اہیم معتبرین کے جو کہ کیئی بلوچی 

رواج بهی نیئے کیئے تهیں جو کہ جرگہ ممبر بهی تهے کوئیٹہ میں بہ وقت ضرورت جرگہ 

میں بیٹه کر فیصلوں میں حصہ لیتا تها اور مری علاقوں میں گهوم پهر کر لوگوں کی 

مسائل وغیره حل کرتے تهےاور کیمپوں میںبهی بہ وقت ضرورت نواب صاحب کے پیغامات 

لاتے اور لےجاتے رہے چمالنگ،کاہان اور ناگہائی کے کیمپوں میں وا بستہ رہیے گوریلا 

طریقہ کار اور آزادی کے لیے نظریاتی لیکچرز دیتےرہے تاکہ مستقبل کے لیے تیاری ہوتی 

رہے جب کہ نواب صاحب گرفتار ہوا نواب صاحب اوررحمدل کےتیار کیئے ہوئے گوریلا یا تو 

پہلے کیمپوں میں موجود تهے یا بزریعے رحمدل اور دوسروں کے کیمپوں پہینچتهے رہے 

جنگ آزادی کا آغاز ہوا سینئیر ساتهیوں نے دیکها کہ صرف مری علاقےمیں آزادی کا جنگ 

کا فی نہیں ہے رحمدل نے شہری اور نظریاتی لوگوں سے مل کر واحدقمبر اور ڈاکٹرالله 

نظر کےساته مل کر مکران میں ایک نیئے مہازکهولنے میں کلیدی کردار ادا کیا 

اور2003می

ں B L Fکی بنیاد رکه دیا گیا تنظیمی طور پرB L Fکا سینئیر رکن رہا مگر نوب صاحب کا 

دستہ راست ہمیشہ رہا اس دوران جدوجہدکا سامان کہیں ایک علاقے میں تهاتو دوسرے 

علاقوں میں تقسیم کر کے پہهلا دیا گیا ایک سال کے دوران مکران میں جنگی تیاریاں 

مکمل ہوئے 2004مئی میں جنگ کا آغاز ہوا رحمدل ہمیشہ کیمپوں میں گهوم پهر کر 

گوریلائی طریقہ کار اور نظریاتی لیکچرز دیتارہا مسائل اور حالات کا جائیزه لے کر 

نوابصاحب 

تک حال پہنچاتے رہے اور نواب صاحب سے نیئے هدایت لے کر مری علاقے بگٹی 

علاقےاور مکران میں هدایت دیتے رہے رحمدل ایوبی آمریت کے دور میں نوجوان سپاہی 

بهٹو کے دور میں کمانڈر اور اسی دور میں پختہ)سن(رسیدہ سفیدریش جو کہ نواب 

صاحب کے دستہ راست کے طور پر جانے جاتے تهے ایک بڑهی جنگی ابهار پیدا کرنے 

میں ان کا بہیت بڑا رول رہا مری،بگٹی اورمکران کی سربرہان کے درمیان اچهے بهائیوں 

جیسی اتحاد اور شریکی بنا دیا گیا تها جب حیربیارنے پرانےسینئیرلوگوں کی جگہ اپنے 

زاتی پسند کے لیے نوجوان سامنے لانے شروع کئیے تو سینئیر ساتهوں سے اختیارات 

چهین کر نیے لوگوں کو دینا شروع کیااور کها کہ آپ سینئیر لوگ یا تو سپاہیکی حیثیت 

ے کام کریں یاآپ لوگ فارغ ہوجائیں حالانکہ بلوچ جدوجہد آزادی کے حامی لوگوں 

کےاندر نواب صاحب کی عمر بهر سیاسی بصیرت ان کی هدایت و تیاری کارکنوں کی دل 

میں ایک بڑی محبت پیدا کیا تها جب حیربیار آگے ہوا تو سب کارکنوں نے حیربیار کو بہیت 

مہر و محبت اور قدر کی نگاه سے دیکهتا دہا دل و جان ایک کر کے ان کی هدیت مانتے 

رہے جب حیربیارنے موڑ کاٹا تو اپنےان کارکنوں کے زریعے جو ان کی زیاده جی صاحبی 

کرتے تهے جو عوام کے اندر ان کے تاریخی حیثیت کوئی نہیں تهیں تو 

سپاہیوان،کارکنوں،حمائیتوں اور عوام کے اندر یہ سوال پیدا ہونے لگا کہ دکه درد کے 

شریق اور سمنجهے والے سینئیر شخصوں کو حیربیار ہٹاکر نیئے لوگوں کو مقرار کر کے 

کیا حاصل کرنا چاهتا ہے؟پهر کچه سینئیرلوگوں کو مروانا،گرفتارکرنااورہٹانا کچه لوگوں کو 

خاص کر مری لوگوں کو پکڑ کر غیب کرنا وغیره وغیره یہ سب کچ کرداروں کا حال دوسرے 

زریعوں کےساته ساته خاص کر رحمدل کے ذریعے نواب صاحب تک بهی پہنچهتے 

رہےاورهدایت بہ زریع رحمدل سپاہیوں،کمانڈروں اورعوامتک آتےرہے کیونکہ سب کا مرکز 

نواب خیربخش تها حیربیار اور دوسرے سب جدوجہدکے حصے تهے مرکزیت نواب 

خیربخش کو حاصل تهی جو حالات خیربخش بهانپ کر حیربیار کو هدایت دیتے اور تنبهی 

کرتے رہے تو حیربیار غصے میں آگیا کہ رحمدل کون ہےکہ ہمارے کردارکےمطالق نواب 

صاحب کو بتاتاہے تو اس وجہ سے حیربیار کے دل میں کیئ لوگوں کے خلاف نفرت پیدا 

ہوئی اور رحمدل کےپیچهے پڑهتارہااور مڈی مڈی کرکے اوروں کے پیچهے بهی پڑهتارہا 

جب رحمدل مری علاقےمیں داخل ہوتے توحیربیار اپنے جی صاحبی کرنے والےکمانڈروں 

کو هدایت دیتاکہ اس کے پیچهے جاسوس لگا دیں کہ کہاں جاتاہے کس کس س

ے ملتاہےکیا کہتاہے ہمیں اطلاعات دیتےرہیں تو اس مرتبہ بهی راحمدل علاقےمیں داخل 

ہوا توکچه لوگوں کی جهگڑے تهیں کچه ان کے اپنے طائیفے کےزمینوں کے معامے تهے 

تواس کےاپنے چار قومی افرادکے ساته کوٹ منڈائی،بادره،اورجالڑی کےعلاقوں میں آئے 

جہانداریاں تهیں دلشاد کے گهراس کی باپ کی فاتحہ خوانی کی کیونکہ حیربیار کے 

جاسوس راحمدل کےپیچہے پڑهے ہوئے تهے اب نواب صاحب نہیں رہا اب زرین موقع پاکر 

اسے بهلا پسلا کر سیدخان کے گهر میں مہمان کرایاکر دو پہرکا کهانااس وقت دلیا جب 

سانگان سے ٹریکٹرٹرالی میں حیربیارکے ایک درجن لوگ آئے تو اسےکهانا دیا گیا ان 

لوگوں نے کہا کہ ہمارے کمانڑر کا دعوت ہے آپ کو سانگان آنا پڑیگا سب ٹریکٹرٹرالی می

ں ہوتے ہوئے شام ہوتے ہی سانگان شہر پہنچا ادهر ان لوگوں کی ایک ٹهکانہ تها ادهر 

ایک گاڑی آیا راحمدل نے بهانپ لیا کہ مجهے گرفتار کر لیں گیں ان لوگوں نے کہا کہ آپ 

کو 

تو اوپر پہاڑ کے اندر آنا ہی ہو گا رحمدل نے انکار کر دیا لوگ ان پر جهپٹ پڑهے بندوقوں 

کی کنداقوں سے رحمدل اور ان کے ساتهوں کااستقبال کیا80سالہ بزرگ رحمدل کو 

زخمی حالت میں ہاتهپائوں بانده کر گاڑی میں ڑال دیا بہیت افسوس کی بات ہے کہ بلوچ 

قومی سینئیر ترین لیڑر80سالہ بزریگ رحمدل نے پتہ نہی کہ کتن

ے دکهوں،تکلیفوں،بهوکوں،گرمیوں،سردیوں،دن،رات پیدل سفروں کتنے دردناک گرم و 

سرد 

حالتوں میں ٹهلتا کام کرتا رہا بال بال گرفتاریوں اور دشمنوں کے حملوں س

ے بچتارہادشمن کی گولیوں سے ان کے کپڑے سراخسراخ ہوئے وہ بچتار رکا سانپ 

ڈستے رہے وہ بچتارہا ساتهی جدا ہوتے رہے درد سہتارہا عظیم لیڈر گوا دیا اس کا درد 

بهی سہیتا رہا کبهی ہار نہیں مانا زندگی کے اول عمرسے لیکر آج تک کسی مصیبت 

کے 

سامنے نہ جہکا نہ بکا جو کہ عمر بهر جہد مسلسل رکهتاہے ابهی بهی آزادی کے 

کاموں 

کی کو ششوں میں برسرپیکار تها اتنے طویل مسلسل کام کے اور عمر کےاور کوئی 

شخص باقی نہیں رہے یہ تو بلوچ قومکا بهرتین جدوجہد کا پهل تها رحمدل نے اپنا پورا 

\\\زندگی بلوچ آزادی کے لیے وقیف کر دیاتها بلوچوں یہ عبرت کا مقام ہے جس عقل ن

ے حکم دیا کہ اس پهل پر ہاته ڈالو جس پائوں نے قدم بڑهیا جن ہاتهوں نے رحمدل کو 

جبر کی شکل میں جهپٹا درندگی کا ثبوت،بےضمیری کاعلامت،گهٹیااخلاق کی حرکت 

ہے بلوچ تہزیبو مہزہبیت کی ناشناسی ہے