Powered By Blogger

вторник, 28 августа 2018 г.

حقائق و اسرار – یاسین عزیز بلوچ

انسانی جذبات کو اُس وقت قابو میں رکھنا مشکل ہوتا ہے، جب انسان ناانصافی دیکھتا ہے اور کسی بھی باضمیر انسان کےلیئے ناانصافی کی انتہاء کو دیکھ کر اُسے برداشت کرنا ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔ برداشت کرکےخاموشی پر اکتفاء کرنا، اندر ہی اندر کڑنا یا کسی بھی قسم کا اظہارکرنا ہر انسان کےعقل و دانش، فہم و فراست اور جرات پر منحصر ہوتا ہے۔ راہ چلتے لوگوں پر کسی پاگل یا مجنوں کا پتھر پھینکنے کا جواب کوئی پتھر پھینک کر دیتا ہے، جب تک اُسے یہ سمجھ نہ آئے کہ پتھر پھینکنے والا پاگل ہے، کوئی خاموشی سے گذر جاتا ہے اور کوئی اپنا راستہ ہی بدل لیتا ہے، بہرحال پاگل اور مجنوں سے کوئی بھی مقابلہ نہیں کرنا چاہتا، جنکا کوئی کام ہوتا ہے، کوئی منزل ہوتی ہے ان کو تو آگے ہی بڑھنا ہوتا ہے۔
‎کچھ وقت سے لکھنے کی کوشش کررہا تھا لیکن کئی اندیشے اور خدشات دامن گیر تھے لیکن اندر سے ضمیر اور انصاف نے انہی دنوں میں نہ جانے کیوں جھنجھوڑا، شاید اس مرتبہ گیارہ اگست کی قربانی اور اسکے بعد کے حالات نے حوصلہ دیا ضمیراور اندر کےانصاف کے تحت کچھ تحریر کررہاہوں۔ آگے پڑھنے والے خود انصاف کے تقاضے پورا کریں۔
‎انصاف صرف عدالتوں سے نہیں ملتا، انصاف کا پیمانہ ہر انسان کے سوچ اور اسکے ضمیرسے جڑا ہوتا ہے، ہر وہ شخص جو انسانی سماج کا حصہ ہے اپنے اردگرد پیش آنے والے واقعات و معاملات کو کس زاویے سے دیکھتا اور پرکھتا ہے، انکو سمجھ کر ان سے حقائق کی کسوٹی پر کتنا انصاف کرسکتاہے، اپنے اظہار اور فیصلوں پر اس حقیقت کو کس طرح سے لاگو کرتا ہے یہ دیکھنے کےلیئے صرف اسکے اظہار اور فیصلوں پر غور کرنا پڑتا ہے کیونکہ انسانی علم، حیثیت واختیار اور عمل کے بااثر اور بے اثر ہونے کا تعلق بنیادی طور اسی سے جڑا ہوتا ہے۔
‎بلوچ قومی تحریک میں حیثیت، اختیار اور عمل کے زوال ہونے کا سب سے سبق آموز اور عبرتناک نمونے کے طور پر ہمارے سامنے اس وقت جونام آتا ہے وہ حیربیار مری کا ہے۔ آخر کیوں وہ شخص جو قومی تحریک کے ابتداء میں سب سے زیادہ جاندار کردار، سب سے بااثر حیثیت اور سب سے زیادہ بااختیار تھا، آج بے بسی کا منظر پیش کررہا ہے؟
‎وجوہات، دعوؤں اور الزامات کے بیچ سرگردانی سےبہتر ہے ہم صرف اردگرد کے لوگوں سےحیربیارمری کے تعلقات اور واقعات کا سرسری جائزہ لیں، ضروری نہیں الزامات کے گورکھ دھندے میں ہم تنقیدی نقطہ نگاہ سے واقعات کو پرکھیں بلکہ ہم اُن پیش آنے والے واقعات اور ان سے جڑے افراد کے کرداروں پرغورکریں، جن پر حیربیارمری کی طرف سےتسلسل کیساتھ الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی رہی تھی یا کی جارہی ہے اور پھر حیربیارمری کی طرف سے سامنے آنے والے موقف اور حیربیارمری کے جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کا موازنہ کریں، کچھ قریبی ذرائع اور بلوچ تحریک پر نظر رکھنے والے دانشوران اور سیاسی مبصرین کی آراء اور اپنی معلومات کوبھی شاملِ تحریر کروں گا تاکہ اصل حقائق کوسمجھنے میں ہمیں آسانی ہو، ان حقائق کے بہت سے دیگر پہلو ہوسکتے ہیں انکی جانج پڑتال قارئین کے ذمہ داری ہے۔
‎لندن میں حیربیارمری کی گرفتاری تک تحریک کے اندر کوئی بڑی رکاوٹ سامنے نہیں آیا تھا، ابتدائی صورت حال کی وجہ سے بلوچ عوام اورتحریکی ساتھیوں کےلیئے سب کچھ نیا تھا اور ظاہری وعملی اقدامات توجہ حاصل کررہے تھے، جن میں اثرانگیزی کی وجہ مزاحمتی اور جنگی کاروائیاں تھیں، نواب اکبر خان بگٹی اور بالاچ مری کی شہادت جیسے سانحات نے تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی تھی، اسی دوران اچانک حیربیارمری کی گرفتاری بعدازرہائی کے بعد تحریک میں دراڑیں پیدا ہونا شروع ہوئیں۔
‎پہلے غیر متوقع اعلانِ یک طرفہ جنگ بندی سامنے آیا، سیاسی اور جنگی مبصرین کے مطابق یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان مزاحمتی تنظیموں کی طرف سے آنا بالکل ہی حیرت انگیز تھا، کیونکہ دنیا کی تاریخ میں جتنی بھی مثالیں ملتیں ہیں، ان میں یک طرفہ جنگ بندی کی پیش کش طاقت ور فریق کی طرف سے ہوتا رہا ہے، جن حالات میں جنگ بندی کی گئی ان حالات کے تحت جنگ بندی کے وجوہات کوسمجھنا آسان کام نہ تھا۔ کئی مہینوں کی مشترکہ جنگ بندی کی غیر اعلانیہ خاتمے کا آغاز بگٹی علاقے سے ہوا، جہاں پاکستانی فوج نے حملہ کرکے کئی لوگوں کو نشانہ بنایا، جسکے ردعمل میں بی آر اے نے جنگ بندی ختم کرکے پاکستانی فوجیوں پر حملے شروع کردیئے اور اسکے فوراً بعد مشکے میں سرکاری کاروائیوں کے نتیجے میں بی ایل ایف نے بھی جوابی کاروائیوں سےجنگ بندی کا خاتمہ کردیا، جو یہ ثابت کرنے کےلیئے کافی تھے کہ یکطرفہ جنگ بندی کا فیصلہ وقت وحالات کے تحت نہیں تھا۔
‎بعد کی حاصل کی گئی معلومات کے مطابق یہ جنگ بندی حیربیارمری کے خواہش پر کی گئی تھی، جس کےلیئے اس نے کوئی واضح اور خاص وجہ پیش نہیں کی تھی۔ مبصرین کے مطابق ہوسکتا ہے کہ یہ جنگ بندی ایک ایسی یقین دہانی تھی، جو کسی کو کرائی جارہی تھی کہ تمام معاملات میرے ہاتھ میں ہیں، جو بی آر اے اور بی ایل ایف کے غیر اعلانیہ جنگی کاروائیوں سے اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکا اور پھر بی ایل اے نے بھی جنگ کا اعلانیہ آغاز کردیا۔
‎یک طرفہ جنگ بندی کا مسئلہ عام بلوچوں کےلیئے سر بستہ راز ہی بنا رہا لیکن جنگی اور سیاسی مبصرین اس جنگ بندی کوکسی کی یقین دہانی سے جوڑتے ہوئے اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یک طرفہ جنگ بندی کے فیصلے اور اسکے مقاصد جو بھی تھے، وہ پورے نہ ہوسکے، اسکی وجہ فردی اور یکطرفہ فیصلوں اور ان پر مجموعی حوالے سے عمل نہ ہونا تھا۔ جنکے پیچھے کسی پالیسی یا متفقہ سوچ کا فقدان تھا، بعد کے ہونے والے تمام متنازعہ اقدامات اور انکی ناکامیوں کی ابتداء جنگ بندی اور اسکے ناکامی سے ہوا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد حیربیارمری کے طرف سے ایک اخباری بیان میں یہ اعتراف کیا گیا کہ تحریک میں قیادت کے سطح پر اختلافات ہیں، جنکو حل نہیں کیا گیا تو وہ تحریک سے کنارہ کشی اختیار کرینگے بیان میں اختلافات اور انکی نوعیت اور قیادت کی سطح پر کوئی وضاحت نہیں کی گئی تھی۔
‎ اسی دوران بی این ایف کی طرف سے ایک اخباری بیان جاری ہوا، جس میں حیربیارمری کو قومی تحریک کا عالمی نمائندہ مقرر کیا گیا تھا، لیکن دوسرے دن ہی بی این ایف نے اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ بعد کی معلومات کے مطابق جوبات کھل کرسامنے آئی، اس میں بلوچ رائٹس کونسل کے وہاب بلوچ اور حیربیارمری سے قربت رکھنے والے سمندر آسکانی نے یہ بیان خود سے جاری کیا تھا۔ جس کےلئے بی این ایف کے ذمہ دار دوستوں سے کسی بھی قسم کی مشاورت کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، اس مسئلے نے بھی یکطرفہ جنگ بندی کی طرح متفقہ سیاسی مشاورت اور فیصلوں کے فقدان کی طرف اشارہ کیا اور اس مسئلے میں بھی جو متنازعہ کردار سامنے آیا، وہ حیربیارمری کا تھا۔
‎ اسی دوران حیربیارمری کی طرف سےچارٹر آف لبریشن کی باز گشت سنائی دی اور وہ تیار ہوکر تمام آزادی پسندوں تک پہنچائی گئی، جن میں نواب مری سے لیکر اختر مینگل تک سب شامل تھے، اس چارٹر آف لبریشن کے ساتھ دو نقاط کے سوا تمام نقاط میں تبدیلی کےلیئے گنجائش کی شرط بھی رکھی گئی تھی، جسے شروع میں تو تمام آزادی پسندوں نے خوش آئند اور بہتر قرار دیا لیکن آہستہ آہستہ سب اسکی حمایت سے دستبردار ہوتے گئے، وجوہات تک رسائی کی تگ دو میں کچھ مبصرین چارٹر آف لبریشن کے شائع کرنے کے وقت و حالات کو غیرمناسب و غیر موزوں قرار دیتے ہیں، انکے مطابق ٹھیک اسی وقت نواب خیربخش مری اور حیربیارمری کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔ زامران مری کو لیکرحیربیارمری اورنواب خیربخش مری کے بیچ جو کچھڑی پک رہی تھی، اسکو لیکر حیربیار مری کسی بھی طرح تمام آزادی پسند اتحادیوں کو اپنا حمایتی بنانا چاہتے تھے۔ مبصرین کے مطابق یکطرفہ جنگ بندی، بی این ایف کا متنازعہ بیان اور چارٹر آف لبریشن اسی سلسلے کی کڑیاں تھے۔ یہ ایسے اقدامات تھے جو حیربیارمری نے قیادت کے ڈور کو اپنے ہاتھوں میں ثابت کرنے کےلئے عجلت میں اٹھائے تھے۔ ان تمام اقدامات سے مراد یہ تاثر دینے کی سعی تھی کہ حیربیار مری بلوچ تحریک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں، لہٰذا کوئی گفت و شنید اس سے گذرے بغیر ممکن نہیں ہوسکے گی، اب یہ تاثردینا کس کو مراد تھا، شاید اب تحریک کے اندر یہ مزید ایک سربستہ راز نہیں رہا۔
‎ مبصرین کے مطابق اگر مدمقابل نواب خیربخش مری جیسی شخصیت نہ ہوتی، تو شاید ان تمام اقدامات کا حمایت حاصل کرنا اتنامشکل نہیں ہوتا۔ دیگر آزادی پسند چہ میگو ئیوں میں ان اقدامات کو سیاسی حربوں کے طور پر بھی دیکھتے ہیں، جنکا مقصد آزادی پسند اتحادیوں میں خود کوبطور قیادت نمایاں کرنا تھا، جو ممکن نہ ہوسکا اس دوران یو بی اے کا ظہور ہوچکا تھا اور بی ایل اے اپنے ایک اخباری بیان میں یو بی اے کوریاستی تنظیم بھی قرار دے چکا تھا۔ یہ سلسلہ آگے چل کر مزید سنگین صورت حال اس وقت اختیار کرگیا، جب سوشل میڈیا پر تنقید اور اصلاح کے نام پرتقریباً ان تمام آزادی پسند گروپوں کو نشانہ بنایا گیا، جو نواب خیربخش مری اور حیربیارمری کے مسئلے میں غیرجانبدار رہنا چاہتے تھے یا جو مسئلے کا کوئی متفقہ حل نکالنا چاہتے تھے۔
‎ مبصرین کے مطابق حیربیارمری کو صرف اور صرف اپنے شرائط پر مسئلے کا طے شدہ حل قبول تھا، جو نواب خیربخش مری اور اسکے ساتھیوں کو سنے اور سمجھے بغیر انکو قبول کروانا تھا، جس میں زامران مری قابل قبول نہیں تھے اور حیربیارمری اپنے فیصلے کو جراح اورکوئی بھی ثبوت پیش کیئے بغیرپورا ہوتا دیکھنا چاہتے تھے، جو دیگر آزادی پسند اتحادیوں کےلیئے ممکن اور قابل قبول نہیں تھا، ایک طرف حیربیارمری کے ناقابل قبول شرائط اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر تنقید و اصلاح کے نام پر کردار کشی کے لیئے کئے جانے والےحملے، معمولی مسائل کو جواز بنا کر ہدف تنقید بنانے کے اقدامات مسائل کے حل میں رکاوٹ بنتے جارہے تھےاور بداعتمادی کا باعث بنے رہے تھے۔ اس دوران تحریک کو حاصل ہونےوالے تمام مقناطیسی اثرات آہستہ آہستہ زائل ہونا شروع ہوئے، وہ مقناطیسی محب بدمزگی، اخلاقی گراوٹ اورکھلے پن کا شکار ہوکر بازاری ماحول میں تبدیل ہوتاگیا، جس کے منفی اثرات سے بلوچ عوام و تحریک متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔
‎ اسی دوران نواب مری اس دنیا سے رخصت ہوگئے، اُنکی رحلت کے فوراً بعد حیربیارمری کا نواب صاحب کے بارے میں تبدیل ہونے والے موقف نے آزادی پسندوں کو حیرت میں ڈال دیا، حیربیارمری کی طرف سے نواب صاحب کے عقیدت میں جو بیانات سامنے آئے، وہ زندہ نواب خیربخش مری کے بارے میں اُن کےپیش کئے جانے والے رائے اور موقف سے بالکل بھی الگ اورمتضاد تھے، قریبی ذرائع کے مطابق اسکے بعد اپنے والدہ سے ناراضگی اور آخری وقت میں انکی حال پرسی سے انکار اور پھر والدہ کی رحلت کے بعد جاوید مینگل، اپنی بہن اور زامران مری کے خلاف لندن پولیس کو رپورٹ کرنا بھی اسی سوچ کی عکاسی تھی۔ خاص طور پر اپنی والدہ کے وفات کے بعد حیربیار کا اپنی بہن کے خلاف اخباری بیان اور لندن پولیس میں رپورٹ کرنے کو عوامی سطح پر بہت منفی معنوں میں دیکھا گیا۔
‎ ایسے پرُتضاد فیصلوں کا سامنے آنا، حیربیارمری اور اُسکے قریبی ساتھیوں اور عوام کے بیچ قائم اعتماد کے رشتے پر براہِ راست منفی اثر ڈالنے لگے کیونکہ نواب خیربخش مری، زامران مری اور دیگر آزادی پسند شخصیات پر لگائے گئے الزامات کو بھی ثابت کرنے میں حیربیارمری مکمل ناکام ہوئے اور دوسری طرف ان شخصیات کے بیچ پیدا ہونے والے مسائل کے حل میں بھی حیربیارمری مکمل ناکام ہوئے، معمولی مسائل اگر اس طرح کی سنگین شکل اختیار کرتے ہیں تو انکی تہہ تک جانا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔ اسی نقطے کے تحت اگر مری بگٹی قبائلی جنگ، جس میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے تھے، جو ایک پیچیدہ مسئلہ تھا، اگر اس جنگ کوروک کر دونوں قبائل کو شیر شکر کرکے انکا رخ دشمن کی طرف موڑا جاسکتا تھا اور موڑا گیا، تو پھرمعمولی کرپشن کے الزامات پر یو بی اے جیسا تقسیم اور آزادی پسندوں کے بیچ ہونے والےآپسی جنگ کو کیسے روکا نہیں جا سکتا تھا؟ دشمن کے خلاف سرگرم عمل ساتھیوں کو دشمن کو چھوڑ کر ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں دھکیلنا باعث تشویش وحیرت تھا۔ وہ عوامل کیا تھے، جو معمولی مسئلے سےتقسیم اور پھر جنگ کی صورت حال اختیار کرگئےاور وہ عوامل کیا تھے جو قبائل کے بیچ جاری جنگ اور اس جنگ میں ہزاروں جانی و مالی نقصانات کو فوراً حل کی طرف لے گئے؟ ایسے متضاد صورت حال میں لازمی طور پر سطحی الزامات جیسے ڈسپلن، اصول پرستی وغیرہ بغیر ٹھوس و ثبوت یا مضبوط دلائل کے اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔ الزامات اورسطحی و جذباتی شور شرابے میں حقائق تک رسائی بھی اتنا آسان نہیں ہوتا، اسلیئے ہر کوئی اپنے معلوماتی ذرائع پر تکیہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، چاہے اسکا معیار کچھ بھی ہو جسکی وجہ سے پیچیدگیاں جنم لیتے ہیں۔
‎ مسائل کے ڈھیر میں ایک اوراضافہ اس وقت ہوا کہ جب بی ایل اے 2017 میں ایک اور بحران کا شکار ہوا، حیربیارمری کے دست راست سمجھے جانے والے اور زمین پر پوری تنظیم کی باگ ڈور سنبھالنے والے استاد اسلم بلوچ اور کامریڈ بشیرزیب بلوچ کے خلاف بھی اچانک میڈیا میں ڈسپلن کی خلاف ورزی کے الزامات اچھالے گئے، ہندوستان اور مذہبی گروہوں سے تعلقات کی شُبے اورنشاندہی کے ساتھ انکو معطل کردیا گیا لیکن دوسری جانب تنظیم کے اندر سے ہی اس فیصلے کو شخصی فیصلہ قرار دیکر مسترد کردیا گیا اور الزامات کو دباؤ کے حربے قرار دیکر ثبوت مانگا گیا اور تنظیم کے اندر تنظیمی طریقہ کار کے بغیر ہونے والے اس فیصلے کو چیلنج کیاگیا اور تنظیم کے اندر ذمہ داران کے ساتھ ملکر مسئلے کے حل پرزور دیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر ماضی کی طرح یہ سلسلہ بھی تنظیم کے اندر حل نہ ہوتے ہوئے اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بن گیا۔ اور تادمِ تحریر لگائے گئے الزامات کے متعلق کوئی ثبوت سامنے نہیں آسکا، جو ان الزامات کے صحت کو مشکوک کردیتی ہے۔
‎ اس مسئلے میں دو ترجمان سامنے آئے، آزاد بلوچ نامی ترجمان حیربیار مری کی ترجمانی کرنے لگا اور جئیند بلوچ بی ایل اے کا دعویدار بنکر سامنے آیا، یہ بات بھی ماضی کی طرح سر بستہ راز رہا کہ سخت اصولوں کےلیئے پہچان رکھنے والا تنظیم اپنے اندرونی مسائل تنظیم کے اندر حل کرنے کی صلاحیت سے کیوں قاصر ہے؟ اپنے مسائل کے حل کےلئے اُسے پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ دو طرفہ دعوؤں اور الزامات سے قطع نظرسیاسی مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ حیرت زدہ کردینے والی بات یہ ہے کہ حیربیارمری ہمیشہ سے اصول اور سخت ڈسپلن کا دعویدار رہا ہے، بی ایل اے کو وہ اصولوں کا گہوارہ قرار دیکر خود کو زبردست اصول پرست قرار دیتا آرہا ہے لیکن اس دوران سب سے زیادہ بحران اور تقسیم کا شکار بی ایل اے اور سب سے زیادہ متنازعہ شخصیت حیربیارمری خود ہی رہے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ یہ سمجھنا شاہد ماضی میں مشکل رہا ہو، مگر آج اتنا مشکل نہیں۔ مبصرین کے مطابق حیربیارمری ہر مسئلے کواپنے مرضی اور منشاء کے مطابق حل کرنا چاہتا ہے، چاہے اس مسئلے میں حیربیارمری فریق ہی کیوں نہ ہو، شرائط رکھ کر اپنی بات منوانے کی عادت حیربیارمری کی نفسیات میں شامل ہے، اسکے شرائط اگر فریقین کےلئے قابل قبول نہ ہو تو، حیربیارمری مزید گفت وشنید کے بجائے دباؤ میں لانے کےلیئے مسائل کو اخبارات میں اپنے طور پر بیان کرکے مزید اُلجھن پیدا کرتا ہے، جس سے مزید پیچیدگیاں جنم لیتے ہیں۔
‎ زمینی حقائق کا سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ بات دیکھنے میں بالکل صاف نظر آتی ہے کہ حیربیارمری کی طرف سے سب سے زیادہ ہدف تنقید بی ایل ایف اور ڈاکٹراللہ نذر رہے، مکران میں ہونے والی جدوجہد رہی اور ساتھ ہی ساتھ اسی دوران اصول، اصلاح، ڈسپلن اور حقیقی سمت میں سفر کےلیئے حیربیارمری ہمیشہ ہی اپنے آپ کو متعارف کراتے رہے لیکن آج کے نتائج میں کوہلو، کاہان اور مکران کے مزاحمتی حالات کچھ اور گواہی دے رہے ہیں۔ کوہلو کاہان میں مزاحمتی لہر آخری سانسیں لے رہا ہے، جس مڈی کو جواز بنا کر آزادی پسند جنگجوؤں کو آپسی جنگ کے آگ میں دھکیلا گیا، اس مڈی کو روزانہ کی بنیاد پر سرکاری فورسز علاقے سے بغیر کسی مزاحمت کے برآمد کرکے اپنے تحویل میں لے رہے ہیں، مری علاقے کے نامی گرامی کمانڈر یا تو سرینڈر ہوچکے ہیں یا پھر خاموش ہو کر کہیں روپوش ہوگئے ہیں۔ بچے کچھے ساتھیوں میں مزاحمت کی قوت ناپید ہے جبکہ جس مکران کو مافیا کا گڑھ اور جس بی ایل ایف کو چوروں اور منشیات فروشوں یا بلوچ کش افراد کا ٹولہ قرار دے رہے تھے، وہ اس مشکل حالات اور بے سر وسامانی کی حالت میں بھی مکران میں مزاحمت کو مضبوطی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسےحالات میں اصول پرستی، سخت ڈسپلن کے دعوؤں پر آسانی سے یقین کرنا کیسےممکن رہ جاتا ہے؟
‎ تازہ ترین بحران کے تحت ایک سال قبل ہی حیربیارمری اور اسکے قریبی ساتھیوں کی طرف سے استاد اسلم بلوچ اور کامریڈ بشیرزیب کو معطل کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ وہ محض دو کمانڈر ہیں، باقی تنظیم پر اسکے اثرات نہیں پڑے لیکن ان دعوؤں کو ترجمان جئیند بلوچ کے نام سے مسترد کیا گیا تھا، بعض مقامات پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ حیربیار کا انفرادی فیصلہ تھا جسے محض اسکے کچھ قریبی ساتھیوں کی تائید حاصل تھی، وگرنہ یہ محض دو کمانڈر نہیں بلکہ تنظیمی اکثریت اس شخصی آمریت کے خلاف ہے، جسکے بعد وہ ترجمان جئیند بلوچ کے نام سے بی ایل اے کی مسلح کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بعد کے آنے والے حالات و واقعات جیئند بلوچ کے موقف کے حق میں دلالت کرتے نظر آئے کیونکہ دو معطل کمانڈر مکران سے لیکر سبّی کاہان تک کیسے مسلح کاروائیاں سرانجام دے سکتے ہیں؟ اس ایک سال کے دوران جیئند بلوچ نے کوئٹہ، خاران، قلات، خضدار، زھری، حب چوکی، دالبندین، نوشکی، بولان، سبی، مچھ، کاہان، ہرنائی وغیرہ سمیت مکران کے مختلف علاقوں میں کامیاب کاروئیاں کئیں، یہ تقریباً بلوچستان کا ہر کونہ بن جاتا ہے، یہ یقیناً محض دو کمانڈروں کی بس کی بات نہیں لگتی بلکہ تنظیمی اکثریت لگتا ہے اور یہ حملے محض اخباری دعوے نہیں ہیں، مسلح کاروائیوں کے بہت سارے وڈیوز بھی سامنے آچُکے ہیں جبکہ دوسری طرف آزاد بلوچ اور ہائی کمان کے حملے انتہائی محدود سطح پر اور محدود علاقوں اور محدود پیمانے کے ہوئے اور وہ بھی ان حملوں کے دعوؤں کی تصدیق کیلئے کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جنگی مبصرین کے مطابق ان عوامل سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ دو کمانڈروں کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ حیربیار مری تنظیمی اکثریت کھوچکے ہیں۔
‎ ایسا بھی سننے میں آرہاہے کہ ہمگام نیوز کی تشکیل ومتعارف کرانےاوراشاعت میں استاد اسلم بلوچ کی ٹیم کاہاتھ تھا لیکن تین سال قبل مختلف حیلوں و بہانوں سے اس ٹیم سے بلا کسی جواز کے ہمگام کو زبردستی چھین کر شبیر اور جمال ناصر کے حوالے کیا گیا، اس کے بعد ہمگام نیوز کی کارکردگی اور معیار اس حد تک گِرگیا کہ دیکھنے لائق ہے۔ اسکے بعد ایک سال قبل متعارف کیاجانے والا ایک نیا اردو و انگریزی آن لائن میڈیا ادارہ اُسی ٹیم کی مرہون منت ہے، جن سے ہمگام نیوز کو بِلا جواز چھینا گیا تھا، اگر اس نئے آن لائن میڈیا ادارے اور ہمگام نیوز کا آج صرف غیرجانبدارنہ تقابل و تجزیہ کیاجائے تو کارکردگی کے حوالے سے بہت کچھ ثابت ہوجائے گا۔
‎ بی ایل اے جئیند بلوچ کی مسلح کاروائیوں سے لیکر متعارف کیئے گئے نئے متحرک میڈیا نیٹورک ادارے کی مخالفت سوشل میڈیا پر اُن آئی ڈیز کی طرف سے کی جاتی رہی ہے، جو حیربیارمری کے حمایتی جانے جاتے ہیں، آگے چل کر اسی سلسلے کی کڑی گیارہ اگست کو دالبندین میں چینی انجئیرز پر ہونے والا فدائین حملہ جسکو استاد اسلم بلوچ کے فرزند ریحان بلوچ نے اپنے والد اور والدہ محترمہ کی اجازت و رضامندی سے سرانجام دیا تھا۔ جنگی مبصرین کے مطابق اس واقعے نے بلوچ تحریک پر انتہائی گہرے اور کثیر الجہت اثرات مرتب کیئے، اول یہ کہ بلوچ تحریک میں فدائی حملوں کی مثال کم ملتی ہے، اس حملے نے یہ پیغام پہنچایا کہ تحریک کس حد تک شدت اختیار کرسکتی ہے اور اس شدت کا فیصلہ بلوچ مزاحمتکاروں کے ہاتھوں میں ہے، جو ان دعوؤں کو مسترد کر بیٹھی کہ بلوچ تحریک کمزور پڑرہی ہے، دوسری جانب بلوچ تحریک قیادت کی سطح پر متنازعہ ہوتی جارہی تھی، لیکن استاد اسلم بلوچ کا خود کش حملے کیلئے سب سے پہلے اپنے جوانسال بیٹے کے چننے نے قیادت پر اعتماد کی بحالی میں بہت بڑا کردار ادا کیا اور حالیہ صورتحال کو لیکر وسعت، شدت اور اثر انگیزی میں بی ایل اے ترجمان جئیند بلوچ کے دعوے سچ ثابت ہوئے اور اسکی واضح برتری نظر آنے لگی۔ پانچ روز گذرنے کے بعد آزاد بلوچ اور ہائی کمان کے دعویدار حیربیارمری کی طرف سے دالبندین فدائین حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرکے اس حملے کواستاد اسلم بلوچ کا ذاتی فعل قرار دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد یعنی اگلے روز جئیند بلوچ نے آزاد بلوچ کے بیان کو شرمناک قرار دیکر تنظیم کے اکثریتی کمانڈروں کی طرف سے آزاد اور حیربیارمری کو بی ایل اے سے لاتعلق قرار دیکر اپنے سینئرکمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمیٹی کا اعلان کردیا۔ اس مسئلے میں بھی قریبی ذرائع اور سیاسی مبصرین کسی اور طرف ہی اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔
‎ مبصرین کہتے ہیں کہ بی ایل اے کا موجودہ بحران راتوں رات پیدا نہیں ہوا تھا، بلکہ اسکی کڑیاں گذشتہ مسائل سے جڑی ہوئیں ہیں اور بہت سے معاملات پر اختلافات تنظیم کے اندر پنپ رہے تھے۔ بی ایل اے میں پہلے نواب خیربخش مری اور حیربیارمری کے بیچ پیدا ہونے والے بحران اور اسکے نتائج کے سامنے آنےکے بعد تنظیمی ساتھیوں کی اکثرت نے ادارہ جاتی طریقہ کار کی کمی محسوس کی اور ادارہ جاتی تنظیمی طریقہ کار پر زور دیا اور یو بی اے سے جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نقصانات اور دیگر آزادی پسند گروہوں سے اختلافات اور آپسی رسہ کشی کے تباہ کن نتائج کو مدنظر رکھ کر اپنے پالیسوں اور طریقہ کار پر نظرثانی کےلیئے زور دیا اور انہی خطوط پرکام کرنا شروع کردیا۔ اُن ساتھیوں میں استاد اسلم بلوچ اور اسکے قریبی ساتھی پیش پیش تھے اور تنظیم کے اندر استاد اسلم اور انکے قریبی ساتھی بہت اثر رکھتے ہیں، وہ اعتماد کے حوالے سے بھی تنظیمی ساتھیوں کے اکثریت کےلیئے قابل قبول ہیں۔ لیکن حیربیار مری کسی بھی ایسے ساخت، فیصلے یا تنظیم کاری کے قائل نہیں تھے، جہاں تنظیمی معاملات مکمل طور پر انکے ہاتھ میں نہیں رہتے۔ اس وجہ سے بہت سے معاملات پر اختلافات نے سر اٹھانا شروع کیا۔ اسی دورانیئے میں بی ایس او کانسٹی ٹیوشنل بلاک اور سالویشن فرنٹ جیسے پارٹیوں کی حیربیار کی جانب سے حمایت اور حوصلہ افزائی پر بھی اختلافات سامنے آچُکے تھے۔ استاد اسلم بلوچ اور انکے دوست ان فیصلوں کے قائل نہیں تھے، مگر دوسری طرف حیربیارمری کو تبدیلی اور کوئی دوسراطریقہ کار قابل قبول نہیں تھا، حیربیارمری نتائج کی پرواہ کیئے بغیر اپنے پرانے سوچ کے تحت اپنے ہی پالیسیوں کو جاری رکھنا چاہتا تھا، تنظیمی طریقہ کار کے فقدان کا پہلے سے ہی تنظیم کو سامنا تھا۔ ادارہ جاتی فقدان کی وجہ سے تنظیم نواب خیربخش مری، زامران اور انکے قریبی ساتھیوں کی تقسیم اور یو بی اے جیسے بحران سے پہلے ہی دوچار ہوچکا تھا۔ حیربیارمری کےلئے کھل کر استاد اسلم اور اُنکے ساتھیوں کی مخالفت ممکن نہیں تھا، لیکن وہ اسلم بلوچ کی تنظیم میں اثرانگیزی اور گرفت کو بھی خود کیلئے خطرے کی گھنٹی سمجھتا تھا۔ اس لیئے حیربیار نے اس دوران اُستاد اسلم اور اسکے ساتھیوں کے خلاف جواز ڈھونڈنا شروع کیا، پہلے مرحلے میں اُس نے استاد اسلم کے قریبی ساتھیوں کو بلا جواز دباؤ میں لانے کی کوششیں کیئے، آہستہ آہستہ انکو بغیر وجوہ ظاھر کیئے اور بسا اوقات معمولی وجوہات بنا کر تنظیمی ذمہ داریاں انکے ہاتھوں سے لیکر انہیں بند گلی میں دھکیلنے لگا، تنظیم کے اندر ذمہ دار حلقے اور مبصرین اس پورے تسلسل کو اسلم بلوچ کے گِرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کرنے سے تعبیر کرتے ہیں تاکہ بغیر کسی مسئلے کے اسلم بلوچ کو بے اثر کیا جاسکتا۔
‎اس کے ساتھ ہی، تنظیم میں کچھ نااہل اور کچھ باہر کے غیرمتعلقہ افراد کو ایک ساتھ کرکے تنظیم کے موجودہ طریقہ کار میں مداخلت شروع کی گئی، ان ساتھیوں پر مزید دباؤ بڑھانے کیلئے وسائل کی روک تھام شروع کی گئی اور ساتھیوں سے رابطے منقطع کیئے گئے، یہاں تک کہا جاتا ہے کہ استاد اسلم اور کامریڈ بشیر زیب کو کہا گیا کہ آپ دونوں عسکری جہد کے تقاضوں سے نابلد شبیر بلوچ اور جمال ناصر کے پابند ہیں اور کسی بھی کام کےلیئے جمال ناصر اور شبیر سے رابطہ کریں، ایسے حالات بنائے گئے جن کی وجہ سے اشتعال انگیزی جنم لے اور کوئی مشتعل ہوکر کچھ غلط کرے۔ ایسے حالات میں مزید دباؤ کےلیئے مختلف حربے استعمال ہوتے رہے۔
‎ اسی دوران طبعیت کی ناسازی اور دوران علاج اُستاد اسلم کے خلاف ایسے اخباری بیان کا سامنے آنا جس کا تصور بھی ایک عام سیاسی کارکن کےلیئے ممکن نہیں، جس میں استاد اسلم کے مقام وموجودگی کی نشاندہی کے ساتھ کسی دوسرے ملک سے تعلقات کے اشارے دیئے گئے، وہ بھی بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ کے نام سے، سیاسی مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ پچھلے تمام عرصے میں پاکستان بھرپور کوششیں کرتا رہا کہ کسی بھی طرح بلوچ قومی تحریک کو ہندوستان ،افغانستان یا اسرائیل سے جوڑ کر پراکسی قرار دے سکے لیکن پاکستان اپنے اس کوشش میں مکمل ناکام رہا، ایسے حالات میں بی ایل اے کے ترجمان آزاد کے نام سے اسطرح کے بیان کا سامنے آنا ناقابل یقین عمل تھا۔ عام خیال یہ ہے کہ تمام رابطوں کی موجودگی اور تنظیم کے ہوتے ہوئے، کیا وہاں صرف علاج کےلئے اجازت نہ لینے کی جرم پر استاد اسلم کو جوابداہ نہیں بنایا جاسکتا تھا؟ اس بات کو بھی سمجھنا ذرا مشکل ہے کہ دوران علاج اور غیر موجودگی میں استاد اسلم کے مقام و موجودگی کی نشاندہی کیوں کی گئی؟ کیا یہ عمل کسی بھی طرح اصول پرستی یا کسی بھی طرح کے ڈسپلن کے زمرے میں آتا ہے؟ اگر اس بات پر چند لمحات کیلئے یقین بھی کیا جائے کہ یہ بیان موقع کی تلاش نہیں بلکہ خاص ڈسپلن کے بنیاد پر جاری ہوا تھا، پھر کیا یہ سوچنے کی بات نہیں کہ جس سطح کی بھی ڈسپلن کی خلاف ورزی ہوئی ہو، شاید وہ اتنا بڑا گناہ نہیں ہوتا لیکن تنظیم کے کسی سینئر کمانڈر کا جگہ، مقام اور صحت کی صورتحال کا میڈیا میں یوں اعلان کرنا، خود ناقابلِ معافی حد تک ڈسپلن کی ورزی نہیں تھی؟ بلکہ یہ پاکستان کی دیرینہ موقف کی رسمی طور پر تائید ہے۔
‎ اس عمل کے پس پردہ مقاصد پر رائے زنی کافی مشکل کام ہے قریبی ذرائع کے مطابق یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس بیان سے کوئی ایک ہفتہ قبل شعبہ نشرواشاعت کے انچارج و ذمہ داران کو کوئی وجہ بتائے بغیر ان سے تنظیم کے تمام ویب سائٹس کے پاسورڈزمانگے گئے اور اسکےلیئے حیربیارمری نے از خود ایک ذمہ دار پر دباؤ ڈالا اور یہ یقین دہانی کرائی کہ میں ویب سائٹس چیک کرکے پاسورڈز واپس کردوں گا لیکن پھر پاسورڈ تبدیل کرکے استاد اسلم کے خلاف بیان جاری کیا گیا اور شعبہ نشرواشاعت کو نظرانداز کرکے ویب سائٹس پر قبضہ کرلیا گیا، جسکے ردعمل میں بی ایل اے کے ساتھیوں نے اس مخبرانہ اخباری بیان، جس میں استاد اسلم کے مقام و موجودگی کی نشاندہی کی گئی تھی سے لاتعلقی اور ویب سائٹس کے ہیک ہونے کا بیان جاری کیا گیا تھا۔ اول یہ بیان رسمی طریقہ کاروں سے ہٹ کر شعبہ نشر واشاعت کے بغیر جاری ہوا تھا اور دوسری طرف آزاد بلوچ سے جاری اس بیان کا بیانیہ مکمل طور پر پاکستانی بیانیئے سے ہم آہنگ تھا، جس سے فوری ہیک ہونے کا تاثر ابھرا۔
‎مبصرین کی رائے ہے کہ گذشتہ واقعات کے تسلسل، استاد اسلم بلوچ سے رابطہ کیئے بغیر اور بجائے اسے آمنے سامنے بِٹھا کر کسی بھی تنظیمی طریقہ کار کے مطابق اظہارِ وجوہ کا موقع دیا جاتا، مسئلے کو اخباروں کی زینت بنانا یہ تمام حالات و واقعات اس جانب اشارہ کررہی ہیں کہ اسلم بلوچ کا علاج یہاں مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ وہ موقع تھا جس کا حیربیار مری کو تلاش تھا۔ ان عوامل کو مدنظر رکھ کر اگر دیکھا جائے تو پھر یہ بات سمجھنے میں چنداں دشواری پیش نہیں آتی کہ اگر اسلم بلوچ علاج نہیں بھی کرواتے تو پھرجلد یا بدیر ڈسپلن کے نام پر کوئی اور مسئلہ اچھال کر اسلم بلوچ کو اسی طرح معطل کیا ہی جاتا اور بات اسی طرح میڈیا کی زینت بنائی جاتی۔
‎جس طرح یہ مسئلہ بلوچ سیاست کے کچھ شرمناک واقعات میں سے ایک ہے، اس مسئلے کو حل کرنے کی نیت اور طریقہ کار بھی اچھے روایات قائم کرنے میں ناکام رہی۔ اس مسئلے میں فریق ہونے کے باوجود حیربیار مری اس مسئلے کا حل بھی حسبِ روایات اپنے شرائط کو تسلیم کرانے سے منسوب کراچکا تھا اور کوئی بھی بات چیت شرائط کو من و عن تسلیم کرنے سے ہی مشروط تھا۔ اس معاملے میں جو ثالث تھے انہوں نے بھی خود کو بے بس پایا۔ انہی ثالثین میں سے ایک میر عبدالنبی بنگلزئی بھی تھے جنہوں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اس بات کا انکشاف کیا کہ اسے استاد اسلم بلوچ نے اس مسئلے کو حل کرنے کا مکمل اختیار دے دیا تھا، لیکن بارہا کوششوں کے باوجود حیربیار مری نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔
‎بلوچ سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کیلئے یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہے اور اس بابت یہ جائز سوال اٹھایا جارہا ہے کہ تنظیم کو اتنے بڑے بحران میں اصولوں کے نام پر مبتلا کیا گیا، لیکن وہ اصول کیا ہیں؟ استاد اسلم بلوچ جیسے ایک کمانڈر جو پورے تنظیم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے، کو یوں اصولوں کی خلاف ورزی کے نام پر معطل کیا گیا، تنظیمی اکثریت اور ہمدردیوں کو یوں اصولوں کے نام پر پسِ پشت ڈالا گیا لیکن اب تک یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اسلم بلوچ نے کس اصول کی خلاف ورزی کی تھی؟ یہ اصول یا نظم و ضبط کے کس شِق کی خلاف ورزی تھی؟ اگر اصول تحریری نہیں ہیں، زبانی ہیں تو پھر اس بات کی ابتک کوئی وضاحت کیوں سامنے نہیں آئی ہے کہ یہ اصول تنظیم کے کس ادارے نے، کب اور کتنے کمانڈروں کی موجودگی میں تشکیل دی تھی اور اسکے علاوہ تنظیم کے اہم اصول کیا ہیں؟ اگر میڈیا میں اتنے حساس مسئلے پیش کیئے جاسکتے ہیں، تو پھر اس معاملے کو سلجھانے کیلئے، ان اصولوں یا کم از کم جس اصول کی خلاف ورزی ہوئی تھی، اسے سامنے لانے میں کوئی عار نہیں۔ اگر ایسی کوئی ٹھوس چیز پیش نہیں کی جاسکتی، پھر استاد اسلم بلوچ، کامریڈ بشیر زیب اور انکے ساتھیوں کے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ یہاں اصول سے مراد حیربیار مری کا مزاج اور منشاء ہے، کوئی متفقہ اور منظور کردہ طے شدہ منشور یا نظم و ضبط نہیں۔ پھر اس طرح اصول و ڈسپلن کے خوشنما نعرے کے پیچھے کل مہران مری کو نشانہ بنایا گیا، آج اسلم بلوچ کو نشانہ بنایا جارہاہے پھر آنے والے کل کو کسی کو بھی انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جاسکے گا۔
‎مبصرین اپنی رائے میں اس سنجیدہ مسئلے کی جانب بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ مسئلہ محض اندرونی تھا، پھر بھی جلد یا بدیر نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن آزاد بلوچ نے استاد اسلم بلوچ کے خلاف جو بیان جاری کیا، اس میں ہندوستان کا ذکر کیوں ضروری تھا؟ کیا حیربیار مری یا اسکے قریبی ساتھی پاکستان کے پروپگنڈے یا خطے کی صورتحال سے اتنے نا واقف تھے کہ انکو احساس نہیں تھا کہ ہندوستان کا نام لیکر وہ پاکستان کے بیانیئے کی تائید کررہے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ اس جانب اشارہ ہے کہ یہ کسی غیر تحریکی قوت کو خوش کرنے کیلئے، بھارت کو بلیک میل کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حیربیار مری غیر تحریکی قوتوں کی وجہ سے تحریک کو بڑے مصائب میں مبتلاء کرنے کا موجب بنے ہیں۔ یک طرفہ جنگ بندی کے فیصلے سے خود کو تحریک کا مالکِ کل ظاھر کرنے کی سعی ہو، بی این ایف سے عالمی نمائیندگی کا جعلی بیان جاری کروانا ہو، یو بی اے مسئلہ یا چارٹر پر سب کو زبردستی متفق کرانے کی کوشش کرکے خود کو اختیار اعلیٰ ظاھر کرنا چاہنا ہو اور اب بی ایل اے کے نام سے بھارت کو رسمی طور پر بلوچ تحریک میں ملوث قرار دینے کی کوشش۔ ان سب عوامل میں تین چیزیں مشترکہ نظر آئیں گی اول یہ کہ سب سے مراد حیربیار کو طاقتور اور سب سے زیادہ با اختیار ظاھر کرنے کی کوشش تھی، دوئم سب عوامل میں تحریک کے باقی اسٹیک ہولڈر بائی پاس ہیں اور جو بھی کچھڑی پک رہی ہے یا سودا بازی ہورہی ہے وہ حیربیار مری اور کسی غیر تحریکی قوت کے بیچ ہوئی ہے اور تیسری یہ کہ سب کا انجام تحریک میں انتشار، ٹوٹ پھوٹ اور مایوسی پر منتج ہوا ہے۔
یہی مسئلہ مزید سنجیدہ صورتحال اختیار کرتے ہوئے خدشات تب جنم دیتا ہے، جب گیارہ اگست کو چینی انجنیئروں پر خود کش حملہ ہوتا ہے۔ اس حملے کو پوری بلوچ قوم میں ستائش کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن حیربیار مری چپ رہنے کے بجائے آزاد بلوچ کے نام سے یہ بیان دیتے ہیں کہ بی ایل اے کا اس خود کش حملے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ استاد اسلم بلوچ کا ذاتی عمل تھا۔ دو ایسے وجوہات ہیں جس کی وجہ سے آزاد بلوچ کے اس بیان کو غیر معمولی سمجھا جاسکتا ہے اور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اول یہ کہ بی ایل اے جئیند بلوچ کے نام سے تقریباً روزانہ کے بنیاد حملے کرتی اور قبول کرتی آرہی ہے لیکن آزاد بلوچ کو صرف چینی انجنیئروں پر خود کش حملے کی تردید کرنی پڑی کے اسکا بی ایل اے سے تعلق نہیں باقی حملوں کی نہیں دوسری اہم بات یہ کہ آج سے قریباً چھ ماہ قبل معتبر جریدے فنانشل ٹائمز نے یہ خبر بریک کی تھی کہ چین ” کچھ قبائلی علیحدگی پسند بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے۔” مبصرین اب چینی انجنیئروں پر حملے کی تردید اور قبائلی علیحدگی پسند کا چین سے مذاکرات کو جڑتے ہیں اور آزاد بلوچ کے بیان کو چین کو دی گئی یقین دہانیوں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔
‎استاد اسلم بلوچ اور کامریڈ بشیر زیب بلوچ کو معطل کرنے کے بعد سوشل میڈیا سمیت مختلف ذرائع سے استاد اسلم اور انکے ساتھیوں پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ در اصل تنظیم توڑنا چاہتے تھے، لیکن انہوں نے بی ایل اے کو توڑنے کے بجائے بی ایل اے کے نام سے ہی اپنا کام جاری رکھا اور مبصرین کے مطابق حیران کن حد تک انکی ایک سالہ کارکردگی بی ایل اے کی گذشتہ کارکردگی سے بھی بہتر رہی، اس دوران بی ایل اے نے جئیند بلوچ کے نام سے بلوچستان کے تقریباً ہر کونے میں کامیاب حملے کیئے، جن میں بڑے پیمانے کے حملے بھی شامل تھے، جن میں سب سے قابلِ ذکر چینی انجنیئروں پر استاد اسلم بلوچ کے اپنے بیٹے ریحان بلوچ کا فدائی حملہ تھا۔ اسکے علاوہ اس ایک سال کے دوران استاد اسلم کے ساتھیوں نے یو بی اے سے جنگ بندی کرتے ہوئے، جنگ کا مکمل خاتمہ کردیا، نقصانات کا ازالے کے ساتھ آزادی پسند ساتھیوں کو باہم شیر وشکر کردیا، بی ایل ایف سے اشتراک عمل کرکے دیگر آزادی پسند تنظیموں سے اعتماد بحال کردیا۔ ایک سال سے کم عرصے میں نا صرف اردو بلکہ انگریزی میڈیا میں ایک نیا معتبر و متحرک میڈیا ادارہ تشکیل دیکر بلوچستان کی آواز دنیا تک پہنچانے میں قابلِ ذکر حد تک بہترین کام کیا اور سب سے بڑھ کر جو کام بی ایل اے گذشتہ دو دہائیوں سے نہیں کرپائی وہ انہوں نے گذشتہ ایک سال کے اندر کرکے دِکھایا یعنی تنظیم کے اندر باقاعدہ سپریم کمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمانڈ کے نام سے حقیقی ادارے تشکیل دے دیئے۔ یہ عوامل اس امر کی غمازی کرتیں ہیں کہ حیربیار مری تنظیم کے اندر اداروں کے قیام اور صلاحیتوں کےسامنے رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔
‎اصول پرستی، حق گوئی اور حقیقت پسندی کے خوشنما نعروں کے برعکس، ہر عمل اور فیصلے کا نتیجہ اسکا سب سے بڑا وکیل ہوتا ہے، آج سے دو دہائیوں سے زائد عرصے پہلے خیربخش مری نے حیربیار کے ہاتھ میں بلوچوں کی واحد نمائیندہ مزاحمتی تنظیم کی مکمل باگ ڈور تھمائی اور اسے بے پناہ طاقت و اختیار کا مالک بنا دیا، اس طویل عرصے کے بعد آج حیربیار اسکو کتنا آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے یا کتنا گھٹاتے رہے، اس پر اب مزید تجریئے کی ضرورت نہیں، آج وہ جہاں کھڑے ہیں، وہ اب تک اپنے غلط فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے، تحریک کے تمام اسٹیک ہولڈروں کو جن کی بہت جاندار کرداریں ہیں، انہیں نمک حرام و سازشی قرار دیکر خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ اور اس سے بھی دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ دوسرے آزادی پسندوں کے ساتھ روا رکھے اس ہتک آمیزانہ اور متکبرانہ رویئے کے باوجود ان سے اتحاد اپنے شرائط پر چاہتے ہیں۔
کوئی بھی عمل ہو، جب تک ہم اسکے مستقبل بعید کے بارے میں درست پیشن گوئی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھ سکیں تب تک وہ سائنس کے کسوٹی پر پورا نہیں اترتا، اور درست پیشن گوئی کی صلاحیت بار بار کے نتائج اور ان نتائج کے باہم مربوط رشتے اور مماثلت کو درست پرکھ کر ہی کی جاسکتی ہے۔ اب ان فیصلوں اور انکے نتائج، اور حقائق کے اس بوچھاڑ میں سیاسیات کا ایک طالبعلم بلوچ قومی تحریک کے مستقبل کی کیسی پیشن گوئی کرسکتا ہے، وہ اسکے صلاحیتوں پر منحصر ہے، لیکن کوئی بھی غیر جانبدار مبصر و تجزیہ نگار ایسے فیصلوں و اعمال کے نتائج میں ایک تابناک مستقبل کی پیشن گوئی نہیں کرے گا، اگر مستقبل روشن نظر نہیں آرہی تو اسکا مطلب ہے کہ موجودہ فیصلوں و اعمال کے نتائج کا باہم ربط مثبت نہیں اور اگر فیصلے مثبت نہیں تو فیصلے کرنے والوں کو پرکھنا چاہیئے۔

пятница, 24 августа 2018 г.


اگر چین اپنے سامراجی عزائم سے باز نہیں آیا تو انہیں بلوچ قوم کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

(   مقبوضہ بلوچستان  ) بلوچ قوم پرست رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ بلوچستان پر پاکستان کی قبضہ گیریت کو محکم کرنے، بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار اور استحصال کے لئے چین پاکستان اشتراک عمل، بے پناہ سرمایہ کاری بلوچ قوم کے لئے ناقابل قبول ہے اور ہم ہر طرح سے چینی منصوبوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔ 
انہوں نے کہا کہ چین کی بلوچ سرزمین پر پاکستان کے ساتھ ساجھے داری اور پاکستان کو جدید عسکری ٹیکنالوجی اور سازو سامان دینا بلوچ نسل کشی میں چین کے کردار کو بھیانک اور قابل نفرت بنا چکا ہے اور اسے بلوچ قوم قطعاً معاف نہیں کرے گی۔ چین پاکستان تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین جس غلامی اور استحصالی دور سے گزرا ہے اسے بلوچ سرزمین، وسائل اور شناخت کا احساس ہونا چاہئے لیکن چین اپنے ماضی قریب کو بھول کر ہماری غلامی اور استحصال میں پاکستان کے ساتھ شریک جرم بن چکا ہے۔ چین کو اپنے ماضی کے طویل تجربوں کو مدنظر رکھ کر اس امر کا اندازہ ہوگا کہ آزادی کی تحریکیں کتنی طاقت ور ہوتی ہیں۔ 
ڈاکٹر اللہ نذر نے کہا کہ سی پیک سمیت کئی چینی منصوبوں کی حفاظت کے نام پر بلوچستان میں نہ صرف پاکستانی فوج کا بہت بڑا حصہ تعینات ہے بلکہ فوج اور خفیہ ادارے ظلم و جبر کی حدود پھلانگ چکے ہیں۔ مگر تمام تر ظلم و جبر کے باوجود پاکستان اور چین کے منصوبے ابھی تک ہوا میں معلق ہیں۔ یہ امر وضاحت کا محتاج نہیں ہے کہ چینی منصوبوں کو بلوچ قوم کی زبردست مزاحمت کا سامنا ہے۔ ہم چین کو خبردار کرتے ہیں کہ بلوچستان ایک مقبوضہ اور متنازعہ خطہ ہے یہاں بلوچ قوم کی مرضی و منشا کے بغیر کوئی منصوبہ کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود چین یہاں سے انخلاء نہیں کرتا ہے تو چینی منصوبوں کے لئے بلوچستان ایک قبرستان بن جائے گا اور چینی سرمایہ یہیں ہمیشہ کے لئے دفن ہوکر رہ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کے خلاف پاکستانی مظالم جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، اس میں چین کا کردار واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ایسے حالات میں چین سمیت کسی بھی ملک کا پاکستان کے ساتھ شراکت داری بلوچ نسل کشی میں ساتھ دینے اور جنگی جرائم میں شریک کار ہونے کے مترادف ہے۔ بلوچستان ایک لاوارث سرزمین نہیں ہے کہ پاکستان کسی بھی سامراجی قوت کے ساتھ مل کر بلوچستان کو ہمیشہ کے لئے اپنے زیر نگین رکھے گا اور بلوچ قوم اور قومی تشخص کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا بلکہ بلوچ قوم نے پاکستانی قبضے کے خلاف بیش بہا قربانیاں دی ہیں جو ہنوز جاری ہیں۔ اگر چین اپنے سامراجی عزائم سے باز نہیں آیا تو انہیں بلوچ قوم کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے پاکستانی مظالم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری فوجی آپریشن میں پاکستانی فوج نے چالیس ہزار سے زائد بلوچوں کو غیر قانونی حراست اور خفیہ زندانوں کے عقوبت خانوں میں بند کر رکھا ہے۔ دس ہزار کے قریب بلوچوں کو فوجی آپریشن، دوران حراست تشدد، مارو اور پھینکو پالیسی اور جعلی انکاؤنٹر میں قتل کرکے شہید کیا گیا ہے۔ ان مظالم میں چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) منصوبے کے معاہدے کے بعد انتہائی حد تک تیزی لائی گئی ہے۔ اس منصوبے کے روٹ پر آباد مکینوں کو فوجی آپریشن کے ذریعے ہجرت پر مجبور کیا گیا ہے۔ کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹائے گئے ہیں۔ ان کے مکین بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک بڑی تعداد افغانستان اور دوسرے ممالک میں پناہ گزین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں نیشنل ایکشن پلان اور ایپکس کمیٹیوں جیسے بلوچ کش منصوبوں کی منظوری بعد خونی آپریشن کروانے اور حصہ لینے والوں کا بھی بلوچ قوم احتساب کرے گی اور وہ ان جنگی جرائم اور بلوچ نسل کشی میں برابر شریک ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ آج بلوچ ہجرت، دربدری اور بے پناہ مظالم کا سامنا کررہے ہیں اور وہ یہ تمام قربانیاں اپنے عظیم وطن کی آزادی کے لئے دے رہے ہیں۔ ان قربانیوں کا حاصل و نتیجہ آزاد بلوچستان ہی ہوگا۔ دنیا کو اس امر کا احساس کرنا چاہئے کہ بلوچستان کی آزادی کے بغیر اس خطے میں امن لانا ایک خواب ہی رہے گا کیو نکہ چین کے سامراجی عزائم اور پاکستان کی دہشت گردی کے فروغ پر مبنی پالیسیاں دنیاکے لئے مزید خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں جس کا نقصان بلوچ قوم پہلے ہی سے اٹھا رہے ہیں لیکن عالمی دنیا بھی ان سے محفوظ نہیں رہے گی۔

четверг, 23 августа 2018 г.

فکر آزادی کو سچ ثابت کرنا – فلسفہ فدائین – برزکوہی


سقراط نے علم فلسفہ کو سچ ثابت کرنے کے لیئے زہر کا پیالہ پی کر جام شہادت نوش کی، اسکندریہ کے فلسفی پروفیسر ہائی پیشیا کو فلسفے کو سچ ثابت کرنے کی پاداش میں ڈنڈوں سے مار مار کر شہید کیا گیا، پھر اس کی لاش کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں کی گئیں اور ان بوٹیوں کو گلی میں رکھ کر آگ لگایا گیا تاکہ خوف مسلط ہو، علم فلسفہ کی سوچ دم توڑ دے۔اٹلی کے برونو کو کمبھے پر باندھ کر زندہ آگ لگائی گئی اور اس کی راکھ ہوا میں اڑا کر خوشیاں منائی گئیں۔
دنیا میں ایسے بے شمار انسان گزر چکے ہیں کہ اپنے نظریہ و افکار کو دنیا میں سچ ثابت کر نے اور پھیلانے کی خاطر ہر قسم کی اذیت حتی کے موت کو بھی خوشی سے قبول کرچکے، تاکہ تاریخ میں وہ امر ہوجائیں اور ان کی فکر بھی زندہ اور سچ ثابت ہو۔ جس طرح سقراط نے سزا موت دینے والی جیوری سے اپنے خطاب میں کہا تھا”یاد رکھو تم مجھے سزائے موت دیکر ذندہ کررہے ہو، اب میں اور میرا علم کبھی نہیں مریں گے کیونکہ میری تمام دلیلیں زندہ رہیں گی، اس لیئے میں زندہ رہونگا۔”
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے دانستہ طور پر دشمن کو نقصان دیئے بغیر، صرف آواز کے بم اسمبلی میں گرا کر پھانسی کا تختہ بخوشی قبول کرکے اپنی قومی آذادی کی فکر کو اپنے قوم اور دنیا کے سامنے سچ ثابت کردیا۔اسی طرح بلوچ قومی لیجنڈ ریحان نے خود کو بارود سے بخوشی اڑا کر، بلوچ قوم خاص کر دنیا اور چین سمیت پاکستان جیسے دشمن کے سامنے قومی فکر کو سچ ثابت کردیا کہ قومی آزادی کی فکر سچائی کی فکر ہے۔ اگر اس فکر میں سچائی نہیں ہوتا تو اپنی جان کو خود فدا کرنا دور کی بات، باشعور انسان بغیر سچ اور حقیقت کے اپنا ایک انگلی بھی کٹا نہیں سکتا ہے۔
دنیا میں ہر سچائی کو صرف باتوں اور لفاظیت سے کوئی سچ ثابت نہیں کرسکتا، اگر اس طرح ممکن ہوتا تو حضرت محمد پر خدا کا وحی اور قران پاک نازل ہوتے ہوئے بھی انہوں نے کیوں فکر اسلام کو سچ ثابت کرنے کے لیئے جہاد شروع کی تکلیف اور مشکلات برداشت کیں؟ وہ بھی بیٹھ کر آرام سے صرف دعوے اور لفاظیت کے ذریعے اسلام کو سچا ثابت کرسکتا تھا حالانکہ آپ پر خدا کا وحی ناذل ہوچکا تھا پھر بھی سچائی کے لیئے اسے قربانی دینا پڑا تب جاکر اسلام دنیا کے کونے کونے میں پہنچا اور سچ ثابت ہوا۔ صرف باتوں دلیل اور لفاظیت سے ممکن ہوتا تو نبی کریم بھی بیٹھ کر صرف سچ کی دعوی کرتا۔ قران پاک اور خدا کا رسول ہونے کے دلیل سے زیادہ طاقتور دلیل اور کیا ہوسکتا تھا؟
آج ہم جتنا بھی، جس حدتک یہ دلیل دیں کہ پاکستان بلوچستان پر قابض ہے، ہم بحثیت بلوچ قوم بلوچ سرزمین کے مالک ہوتے ہوئے پاکستان کو اپنے سرزمین پر نہیں چھوڑتے اور چین بھی پاکستان کا ساتھ نہ دے اور بلوچ قوم کے وسائل کا لوٹ کھسوٹ بند کردے بلکل یہ فکر سچ اور سچائی پر مبنی ہے، کیا اس طرح کہنے اور دلیل پیش کرنے سے پاکستان اور چین بلوچ سرزمین کو چھوڑ دینگے؟ اور خود بلوچ قوم اس سچائی کو قبول کرلیگا؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر 70 سالوں سے کیوں ایسا نہیں ہوا؟ کیوں سننے والا کوئی نہیں؟ اگر سنتے بھی ہیں لیکن کوئی توجہ نہیں ہورہا ہے؟کیوں سارے ٹھوس دلیل اور تاریخی حقائق نظر انداز ہورہے ہیں؟ کیوں بلوچ وسائل کے لوٹ کھسوٹ میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے؟ کیوں چین اور دیگر بیرونی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے؟کیونکہ سب کچھ طاقت اور تشدد کی بنیاد پر ہورہا ہے، طاقت کو طاقت اور تشدد کو تشدد ہی ختم کرسکتا ہے دنیا میں کوئی ایسا ایک مثال ہے؟ بغیر طاقت اور بغیر تشدد سے طاقت اور تشدد کوئی ختم کرسکا ہے؟ میرے خیال میں بالکل نہیں پھر بلوچ قوم کس طرح اور کیسے چین اور پاکستان کی طاقت اور تشدد کو صرف دعووں اور لفاظیت سے ختم کرسکتا ہے؟ یا پھر انتہائی چھوٹے چھوٹے کاروائیوں سے اتنے بڑے پیمانے پر طاقت اور تشدد کو ختم کرسکتے ہیں؟ یہاں رکاوٹ اور پریشر کی حد تک بالکل کافی ہیں لیکن خاتمہ کرنا ناممکن نہیں۔
اگر ہم بحثیت بلوچ قوم اور بلوچ جہدکار صرف اور صرف رکاوٹ اور پریشر گروپ یا ہر ایک اپنے آپ کو انفرادی طور پر تاریخ میں محدود سطح تک زندہ رکھنے کی خواہش مند ہیں تو پھر جو چل رہا ہے، وہ صحیح ہے، پھر ہم تاریخ میں ضرور بالضرور اور ایک محدود سطح تک یاد رکھے جائینگے لیکن بطور کامیاب انسان اور کامیاب تحریک اور کامیاب قوم کے نام سے کبھی بھی نہ یاد رہینگے نہ ہی تاریخ بنیں گے، تو پھر اس طرح کے سینکڑوں قوم اور تحریک پہلے بھی گزر چکے اور آج بھی گزر رہیں ہیں جنکی کوئی خاص تاریخی اہمیت نہیں ہے۔
میں تو سمجھتا ہوں آج شعور و علم کی سطح کی کمزوری اور پست ہونے کی وجہ سے ہم سوچ کے حوالے سے انتہائی محدود دائرے اور مقام پر کھڑے ہوکر اس محدود دائرے اور سطحی مقام کو وسیع اور اعلیٰ مقام تصور کررہے ہیں حالانکہ حقیقت ایسا نہیں ہے۔
آج یہ بات روز روشن کی طرح عیاں اور شیشے کی طرح صاف اور واضح ہوچکا ہے، کچھ طبقے شعوری یا لاشعوری، دانستہ یا غیر دانستہ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپری سطح تک مکمل ایک بلوچ قومی اور عوامی تحریک کی سوچ تک نہیں رکھتے ہیں یا ان کی سوچ اور اپروچ کی سطح یہاں تک ہے یا پھر سب کچھ جانتے ہوئے صرف اور صرف تحریک کی شکل اور نام پر بزنس یا وقت گزاری کرتے ہیں، جو قومی المیہ ہے۔
اس سوچ سے نہ تو دنیا کی توجہ بلوچستان پر مبذول ہوگا اور نہ دشمن سے چھٹکارہ حاصل ہوگا، البتہ دشمن کے لیئے کم سطح پر تکلیف اور پریشانی ضرور ہوگا اور اس سطح کے تحریک کو دنیا کبھی بھی کھل کر اور بڑے پیمانے پر سپورٹ نہیں کریگا اور دنیا اتنا بے وقوف بھی نہیں کہ وہ پاکستان اور چین جیسے طاقتوں سے مفت میں دشمنی مول لے، جب تک دنیا کی طاقت آپ میں وہ قوت اور طاقت محسوس نہ کرلے، اس وقت تک عملاً اور مکمل مدد ممکن نہیں۔
البتہ صرف پریشر گروپ کی حد تک توجہ دینا اور مدد کرنا ممکن ہوگا، جو بلوچ قومی تحریک اور مجموعی بلوچ قوم کے لیئے مفید ثابت نہیں ہوگا، البتہ کچھ لوگوں اور کچھ خاندانوں کے لیئے ضرور فائدہ مند ہوگا۔
انفرادی، خاندانی اور گروہی فوائد کے لیئے آج بلوچ تحریک میں کچھ طبقات اسی سوچ پر کاربند ہیں، جو انتہائی خطرناک ہیں، ایسی سوچ پر تحریک کو قومی اور عوامی تحریک کی شکل اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے، کچھ طبقات کبھی برداشت نہیں کرینگے، کیونکہ قومی اور عوامی تحریک کی شکل میں ان کی ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات کی تحفظ نہیں ہوگی، پھر پانے کے لیئے ان کے پاس کچھ نہیں۔
پھر پاکستان اور چین جیسے بلوچ دشمن قوتوں کا ردعمل آخری حد تک ہوگا، اس خوف کے تناظر اور ذاتی خوشحال زندگی گذارنے کی نقطہ نظر سے پاکستان اور چین جیسے دشمن کو زیادہ تکلیف دینا، انکو ناگوار گذرتا ہے، بس ایک حدتک اور معمولی سطح پر دشمن کو دشمن کہنا اور اس کے خلاف کچھ نہ کچھ کرنے والا حکمت عملی کافی ہوتا ہے، اس سے بڑھ کر کچھ کرنے والے اور قدم اٹھانے والوں کا گلہ گھونٹنا، حوصلہ شکنی اور مخالفت کرنا اس سوچ کے تحت تاکہ قومی اور عوامی تحریک اور دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان کی سوچ پروان نہ چڑھے جو کہ بلوچ تحریک میں انتہائی خطرناک سوچ اور حکمت عملی ہے۔ اسی خطرناک سوچ اور حکمت عملی کی وجہ سے تحریک سے وابستہ مخلص، قربانی کے جذبے سے سرشار جہدکاروں کے خلاف حربے، پروپگنڈے، دیوار سے لگانے والے سازش، کردار کشی، الزام تراشی، حوصلہ شکنی، مخالفت در مخالفت جاری و ساری ہے۔
بلوچ قومی لیجنڈ ریحان بلوچ نے قومی آزادی کی فکر کو مذید سچ ثابت کرنے کے لیئے اور دشمن کو یہ پیغام دینے کے لیئے پاکستان اور چین پر فدائی حملہ کرکے یہ ثابت کیا کہ بلوچ اپنی سرزمین پر کسی کو برداشت نہیں کرتا، اب یہ سچ اور سچائی خود بلوچ معاشرے میں پروان چڑھ کر آئندہ مزید کئی ریحان جیسے سپوت پیدا کریگا اور دشمن کے خلاف مزید ایسے اقدامات سامنے آئینگے، تو بلوچ قومی تحریک اور بلوچ سیاست میں متوقع تبدیلیوں کے ساتھ مزید ردانقلابی قوتیں واضح ہوکر اصل قومی جہدوجہد کے سامنے رکاوٹ ہونگے، ان کو سمجھنا اور جاننا ہر مخلص ایماندار اور ہم خیال جہدکار کی ذمہ داری ہے، یہ اس وقت ممکن ہوگا، جب سطحی اور محدود سوچوں کا خاتمہ ہوکر شعور اور سنجیدگی اپنی بلندیوں پر ہو۔

вторник, 21 августа 2018 г.

برزکوہی – Rehan the Legend

Rehan the Legend
برزکوہی
بلوچ قومی تاریخ میں بالاچ گورگیچ ایک لیجنڈ ہے، بالاچ گورگیج قدیم گوریلا جنگ کا بانی کہلانے کا مستحق ہے، اپنے کمزور طاقت سے تن تنہاء اپنے مدمقابل انتہائی طاقتور دشمن سردار بیبرگ بلیدی سے بلوچ روایات بلوچ کوڈ آف آنر کے خاطر آخری دم تک لڑتا ہے، بالاچ گورگیج کی ماں، بہن یاسمین کی طرح بالاچ گورگیج کو کہتا ہے
یا مرد کہ میار جل انت
تہا نیمروچ نا وسپ انت
بالاچ گورگیج کی ماں کی بالاچ کو نصیحت یا شغان، بہن یاسمین کی اپنے بیٹے ریحان کو قومی بیرک سے لپیٹ کر یہ کہنا جا بیٹا میں نے آپ کو وطن کے لیئے قربان کردیا۔ دونوں تاریخی کردار اور واقعات اپنے تئیں وقت و حالات اور تقاضات کے مطابق مختلف ہوتے ہوئے ایک حد تک یکسانیت رکھتے ہیں، دونوں کی بنیادی اصول بلوچ قوم کوڈ آف آنر پر آکر رک جاتی ہے۔
بالاچ گورگیج اور اس کی ماں کا تاریخی کردار، آج تک بلوچ سماج میں بہادری کی وہ داستان بن چکی ہے کہ جسے اکثر مائیں اپنے بچوں کو سناتے ہوئے بہادری کا درس دیتے ہیں اور بالاچ گورگیج اور اس کی ماں کا یہ تاریخی داستان بلوچوں کے ذہن پر اپنے نقوش چوڑ دیتا ہے۔
شہید نواب اکبر خان بگٹی بھی بالاچ گورگیج کو اپنا آئیڈیل مانتا تھا اور آخری عمر میں وہ بالاچ گورگیج کے فلسفہ پر کاربند ہوتا ہے۔
ریحان بھی صرف بلوچ قوم کا نہیں بلکہ تمام مظلوم قوموں کے لیئے ایک لیجنڈ بن گیا ہے، آج بلوچ قوم کے ساتھ ساتھ دیگر مظلوم اقوام بھی نسل درنسل اپنے بچوں کو اگر بہادری کی داستانیں سناتے ہونگے یا ماں اپنے بچوں کو بہادری کی لوری سنائیں گے، تو ریحان اور بہن یاسمین ہی ان کا موضوع ہوگا۔
تمام مظوم اقوام سمیت، بلوچ قوم کے شہداء اور ماؤں کی قربانی اور کردار اپنی جگہ انتہائی قابل قدر اور قابل فخر ضرور ہے لیکن ریحان اور اس کی ماں یاسمین کی قربانی اور تاریخی کردار سب سے الگ منفرد اور مثالی ہے، جس کا موازنہ اور برابری پوری انسانی تاریخ میں کسی جگہ ہمیں نہیں ملتی ہے۔
کوئی بھی ماں اپنے بیٹے کو بخوشی جنگ پر روانہ کرنا یا اس کی شہادت کے بعد اس پر فخر کرنا، ایک الگ سوچ اور کیفیت ہوتا ہے لیکن اپنے بیٹے کو فدائی پر روانہ کرنا وہ بھی مذہبی نظریئے یعنی خدا کی راہ میں قربان کے سوچ سے مختلف، صرف وطن پر قربان کرنا، وہ بھی یہ سوفیصد جان کر میرا بیٹا ریحان واپس زندہ گھر ہرگز دوبارہ نہیں لوٹے گا، یہ خود انوکھا واقعہ اور کیفیت ہے یعنی بالاچ گورگیج کی ماں کو پورا یقین تھا اس کا بیٹا لڑکر ضرور واپس لوٹے گا لیکن ریحان کی ماں کو پورا یقین تھا کہ ریحان کبھی بھی گھر کے دروازے کی چوکھٹ پر واپس پلٹ کر قدم نہیں رکھے گا، پھر بھی خوشی سے ریحان کو شہادت کے لیئے روانہ کرنا، خود اپنے اندر عجیب ہم جیسوں کے لیئے نہ سمجھنے والی کیفیت ہے۔
صرف میں اتنا سمجھتا ہوں فکرے وطن اور فکرے قوم سب چیزوں سے بالاتر ہے، بشرطیکہ قومی فکر خود کمزوری تذذب اور ڈگمگاتے ہوئے کیفیت کا شکار نہ ہو، بلکہ پختہ یقین ہو۔ یہ بلکل شعور اور قومی فکر کی پختگی اور انتہاء ہے۔ جب بھی قومی فکر، قومی شعور کی پختگی اور اس کی انتہاء ہوگی، تو قومی جنگ برائے قومی آزادی کو پھر رد کرنا کسی بھی طاقت اور رکاوٹ کی بس کی بات نہیں ہوگا۔
قومی جنگ اور قومی شعور لازم و ملزوم ہیں، قومی نجات کیلئے صرف جنگ اور لڑنا بغیر قومی شعور کے بے فائدہ ہے اور قومی شعور بغیر قومی جنگ کے بھی بے فائدہ ہے، قومی شعور اگر ٹیبل ہے تو قومی جنگ ٹیبل کی چار ٹانگیں ہے، اگر قومی جنگ کسی مکان کے چھت ہوتا ہے تو قومی شعور مکان کے چاروں اطراف کے دیواریں ہوتی ہیں، قومی جنگ اگر ایک درخت ہوتا ہے تو پانی قومی شعور ہوتا ہے۔
قومی شعور قومی جنگ کو تخلیق کرتا ہے اور قومی جنگ قومی شعور کو تخلیق کرتا ہے، یعنی دونوں برابر، لاذم اور ملزوم ہیں ایک کے نا ہونے کی صورت میں، دوسرا نا مکمل ہوگا جب نامکمل ہوگا تو ایک دن ضرور انسان تھکاوٹ، مایوسی، پشیمانی اور الجھن کا شکار ہوگا۔
جہاں اور جب بھی قومی شعور پختہ ہوگا، قومی جنگ تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رہیگی، وہاں کامیابی ہی کامیابی قومی مقدر ہوگا۔ قومی جنگ کی منظم، مضبوط اور موثر شکل قومی شعور میں پوشیدہ ہے، تو اسی طرح قومی جنگ کی شدت قومی شعور کی پرورش کرتا ہے۔
جذبہ اور احساسات جب بھی لاشعوری یا کم شعوری میں مبتلا ہوں، تو وقتی ہی صحیح لیکن مستقل طور پر قومی تحریک کے لیئے کارگر ثابت نہیں ہونگے، بہت جلد منہدم پڑ جائینگے۔ ذاتی تجربات اور مشاہدات کے پیش نظر، سینکڑوں واضح مثالیں ہمارے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
لیجنڈ ریحان اور بہن یاسمین کی تاریخی کردار اور عمل اس کے بعد پوری بلوچ قوم، قومی تحریک اور دنیا پر پڑے مثبت و حوصلہ افزاء اثرات، احساسات اور جذبات قومی تحریک کے لیئے انتہائی سود مند ہیں اور مزید سود مند ثابت ہونگے، بشرطیکہ تمام جہدکار ان ہی جذبات، احساسات اور مثبت اثرات کو قومی شعور کے رخ میں بدل کر قومی جنگ میں مزید شدت پیدا کریں۔
اس کوشش کے لیئے ہر قدم ہر لمحہ انتہائی سوچ و بچار اور سنجیدگی کی اشد ضرورت ہے۔ چین سامراج اور پاکستان دشمن سمیت تمام رد انقلابی اور جنگ مخالف قوتیں حتع الوسع کوشش کرینگے کہ بطور ردعمل ایسا عمل کریں تاکہ یہ اثرات زائل ہوں۔
ان کے تمام چھوٹے بڑے عزائم، سازشوں اور اقدامات کو باریک بینی سے جاننا اور سمجھنا اور حکمت عملی ترتیب دینا، اس وقت سب مخلص اور ہم خیال جہدکاروں کا قومی فرض ہے۔ اس مقصد کےلیئے انتہائی سنجیدگی سوچ سمجھ اور غور و خوض کی ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ علم ہنر اور صلاحیت درکا ہوتا ہے، نہیں تو جذبات کا ماحول جیسا بھی ہو، جس طرح بھی ہو، جس مقام اور سطح اور عروج پر ہو، وہ جذبات ہی ہوتے ہیں، جو ہرگز دیر پا نہیں بلکہ وقتی کیفیت ہوتے ہیں اور کیفیت خود ہی ہمیشہ آخر کار سرد پڑجاتے ہیں۔
تو بجائے تمام مخلص اور ہم خیال جہدکاروں کی سطحی، محدود اور غیرضروری چیزوں پر اٹکے رہنے کے، اپنا تمام تر توانائی توجہ اور دلچسپی اہم اور ضروری چیزوں پر مبذول کرکے ریحان کو بطور لیجنڈ سمجھ کر ریحان کے افکار، نظریات اور خیالات کو آگے بڑھاتے ہوئے قومی شعور کو اجاگر کریں اور ساتھ ساتھ قومی جنگ پر توجہ دیکر، قومی جنگ کو تیز کردیں، اسی میں بلوچ قومی تحریک کی کامیابی اور کامرانی پوشیدہ ہے

воскресенье, 19 августа 2018 г.

معدوم کی ہوس ہے، زائل کو ڈھونڈتے ہیں – برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ
میں نے گذشتہ دنوں اپنے ایک کالم میں واضح طور پر کہا تھا کہ جب شہید نواب اکبر خان بگٹی شہید ہوا، تو اس وقت بلوچ قوم اور خاص کر بلوچ نوجوانوں کے دل و دماغ میں وطن و قوم کے حصول کے خاطر جو جذبہ و حوصلہ اور امید کی کرن پیدا ہوا، اسے زائل کرنے کیلئے ریاست پاکستان، ایک طویل المعیاد منصوبے کے تحت اپنے ریاستی مہروں خان آف قلات سیلمان خان، ثناء اللہ زہری، اسلم رئیسانی، نوب شاہوانی، نواب مگسی، اختر مینگل وغیرہ کے ذریعے قلات میں ایک گرینڈ جرگہ منعقد کروایا۔ جرگے میں ایک ڈرامہ پیش کیا کہ بلوچ قومی مسئلے اور بلوچستان اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے کیس کو ہم عالمی عدالت لے جاکر بلوچستان کا مسئلہ حل کردینگے، یعنی بحثیت بلوچ قوم اور بلوچ نوجوان آپ لوگ فی الحال خاموش رہیں اور انتظار کریں۔
اس وقت بھی بی ایس او آزاد نے جرگے کے اندر سخت احتجاج کیا اور یہ موقف ظاہر کیا کہ یہ نوجوانوں کے جذبات سے کھیل کر ان کی جہدوجہد قومی آزادی سے دور کرنے اور توجہ ہٹانے کی ایک ریاستی سازش ہے اور توجہ عالمی عدالت کی طرف کررہے ہیں نہ کہ بلوچ قومی جنگ کی طرف۔ آج وہ حقیقت ثابت ہوگیا، کہاں گیا وہ بلوچ قومی مسئلہ، عالمی عدالت، خود خان آف قلات، نواب مگسی، نواب رئیسانی، نواب شاہوانی، نواب زہری؟ سارے کے سارے اقتدار میں آکر وہی کام بلوچوں کے ساتھ کر رہے ہیں، جو مشرف جام اور گورنر اویس غنی کررہے تھے۔
اس کے بعد قومی آزادی کی سیاسی اور مزاحمتی جہدوجہد کی شدت مسلح کاروائیوں اور دشمن کے خلاف ہنرمندانہ اور مثالی کارنامے ہزاروں بلوچوں کی شہادت و قربانی خاص کر شہید غلام محمد، بالاچ خان، صباء دشتیاری، آغا محمود خان، شہید درویش، شہید امیربخش، غفار لانگو، مجید شہید، ڈاکٹر خالد، سدو مری اور دیگر ہزاروں شہداء کی قربانیوں نے قومی تحریک کو ایک منظم اور موثر رخ دیا اور بلوچ نوجوان، مرد و خواتین پورے خاندان جوق در جوق تحریک میں شامل ہوگئے۔ بلوچ سماج میں تحریک کے حوالے سے ایک نیا جوش و جذبہ اور حوصلہ پیدا ہوگیا۔
لیکن بدقسمتی سے اس وقت یعنی 2012 میں بلوچ قومی تحریک میں باقاعدہ اور منصوبے کے تحت اختلاف، مخالفت اور نفرت پیدا کیا گیا اور اختلافات اور نفرت کو سوشل میڈیا اور اخبارات کے ذریعے اچھالا گیا، حتیٰ کہ نواب خیر بخش مری کی تشکیل کردہ آذادی پسند مسلح تنظیم یوبی اے کے ساتھ باقاعدہ لڑائی کا فیصلہ بھی ہوگیا اور اس آپسی جنگ میں سینکڑوں بے گناہ مری بلوچ، خواتین معصوم بچے اور بزرگ بھی لاپتہ اور شہید ہوگئے اور ان کے گھر بار جلاکر مال مویشیاں چوری ہوگئے۔ خاص طور پر اس آپسی جنگ کے زد میں نواب خیر بخش مری کی قریبی دوست اور بی ایل ایف کے بانی اور سرکردہ 80 سالہ رہنما واجہ رحمدل مری بھی آئے، جو آج تک لاپتہ ہیں یا شہید ہوچکا ہے کچھ پتہ نہیں۔ یعنی قومی تحریک اور قوم کو فائدہ ایک فیصد نہیں ہوا بلکہ نقصان 100 فیصد ہوا اور تمام یعنی 100 فیصد نقصانات کا فائدہ پھر دشمن نے اٹھایا، دشمن نے خوب سے خوب تر فائدہ حاصل کیا، بلوچ سماج اور خاص طور پر بلوچ نواجوانوں میں یعنی وہ نوجوان تحریک کے ساتھ وابستہ ہوتے ہوئے بھی مایوسی، ناامیدی، الجھن اور تذذب کے شکار نظر آرہے تھے۔ باقی مجموعی بلوچ قوم ویسے ہی تحریک سے بدظنی و بددلی کا شکار ہوئے۔
گذشتہ دوسالوں کے دوران اسلم بلوچ کی سربراہی میں مخلص، باعلم اور باشعور دوستوں کی محنت اور خلوص کے بدولت بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر جی کا اشراک عمل، بی ایل اے اور یوبی اے کے آپسی جنگ کا فیصلہ اور مکمل خاتمہ اور بی ایل اے و دیگر آزادی پسند تنظیموں بی ار اے، یوبی اے اور لشکر بلوچستان کے ساتھ تعلقات اور ماحول کی بہتری اور اعتماد کی بحالی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و کمک، ایک بار پھر بلوچ قوم خاص طور پر بلوچ نوجوانوں میں امید اور حوصلے کی ایک کرن پیدا ہوئی۔ وگرنہ باقاعدہ طور تحریک میں بیوروکریٹک سوچ، پیداگیری، موقع پرستی، ویزہ پرستی، خود غرضی اور خوف و لالچ عام ہوتی جارہی تھی اور قومی تحریک سے بس اپنے ذاتی، گھریلو، خاندانی کام اور مفاد نکالو، کھاؤ، پیو، سوجاؤ والے رجحانات اور سوچ کافی حدتک پروان چڑھتے جارہے تھے، جو ایک تاریخی اور قومی المیے سے کم نہیں تھا۔
لیکن 11 اگست کو بی ایل اے مجید فدائین بیرگیڈ کے جانثار فدائی ریحان بلوچ نے دالبندین میں چینی سامراجوں پر حملہ کرکے بلوچ قومی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی، اپنے لہو، فیصلے، عمل اور تاریخی کردار سے پوری بلوچ قوم، خاص طور پر نوجوانوں میں ایک بڑا جوش و جذبہ، امید اور حوصلہ پیدا ہوگیا، جو مجموعی قومی تحریک کے حوالے سے ایک اہم اور بہت بڑا پیش رفت ہے۔
میں نے پہلے کہا تھا کہ مجھے خوف ہے کہ اس ماحول کو پراگندہ اور ریحان کی قربانی اور فیصلے کو زائل اور متنازعہ کرنے کی باقاعدہ کوشش ہوگی تاکہ ایک بار پھر دوبارہ بلوچ قوم خاص طور پر بلوچ نوجوانوں میں مایوسی، الجھن، ناامیدی اور دشمن کو دوبارہ موقع اور فائدہ حاصل ہو۔
ایک ایسی سعی لاحاصل ہوئی بھی، یعنی ریحان کے شہادت کے فوراً بعد دو تین مسلسل فیک اور جانے پہچانے آئی ڈیز کے ذریعے سوشل میڈیا میں الزام تراشی اور پروپگنڈے کے ذریعے ریاستی بیانیئے کو تقویت دینے کی کوشش شروع ہوئی اور 5 دن بعدوہی تمام پروپگینڈے، ریاستی بیانیئے کی نقل اور تحریک مخالف لب و لہجہ ترجمان آزاد بلوچ کے نام سے ہوبہو شائع ہوجاتا ہے، قابلِ غور بات یہ ہے کہ ریحان کی قربانی اور اس بڑے کارنامے کو متنازعہ کرنے کی ناکام کوشش کرنا آخر کس لیئے؟ انا، ضد، عدم برداشت، ہضم نہ ہونا، کسی اور کو خوش کرنا، کسی کو یقین دہانی کرانا، صفائی پیش کرنا، اپنے آپ کو کسی کے سامنے چینیوں کے قتل میں بیگناہ ثابت کرنا یا کوئی اور ایجنڈہ؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نام نہاد معطل معطل والے ڈرامہ کو ابھی میرے خیال میں پورا ایک سال ہونے والا ہے، اس پورے ایک سال میں بی ایل اے جئیند بلوچ کے نام سے مکران، جھالاوان، رخشان، بولان، کاہان میں مختلف کاروائی کرکے قبول کرتا آرہا ہے، ان کے وڈیو اور بیانات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ دوسری طرف یوبی اے کے ساتھ آپسی جنگ کا خاتمہ جئیند بلوچ اور یوبی اے کا مشترکہ بیان بھی سامنے آیا، اس دوران بی ایل اے کے اعلیٰ کمانڈر اسلم بلوچ کے مختلف وڈیو پیغام و انٹرویو بھی سامنے آئے لیکن خود ساختہ ہائی کمان یعنی حیربیار مری کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن 11 اگست کو ریحان بلوچ کا چینیوں پر فدائی حملہ کیوں ناقابل برداشت اور سیخ ہونے والی عمل ثابت ہوا؟ لندن میں لگژری گاڑی سے اتر کر خوشگوار اور سہانے موسم و ماحول میں چینی سفارت خانے کے سامنے آکر جھنڈا اٹھانے کو بہادری، قابل فخر اور بڑا کارنامہ قرار دینا اور ریحان جان کی ماں کے دل پر اس وقت کیا گذر رہی ہوگی، جب وہ اپنے لختِ جگر پر وہی قومی بیرک لپیٹ کر اس کو شہادت کے لیئے روانہ کرتی ہے اور خود ریحان وہی بیرک پھر اپنے جسم پر لپیٹ کر بارود سے بھری گاڑی میں سوار ہوکر چینیوں پر حملہ کرنے کے لیئے روانہ ہوتا ہے اور حملہ کرتا ہے، اس عمل سے برملا لاتعلقی اور بیرک کو لندن کے خوشگوار ماحول میں 5 منٹ لہرانا بہادری، قابل فخر اور بغلیں بجانا کس سوچ و ذہنیت کی سطح کی عکاسی کرتا ہے؟
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، آج بھی کہوں گا یہ تمام اختلافات و تضادات ضرور کسی نہ کسی حد تک مجموعی تحریک میں کسی نا کسی سطح پرموجود تھے اور ہیں، یہ تو تحاریک کا حصہ ہوتے ہیں، یہ کبھی ختم نہیں ہونگے بلکہ کم ہوسکتے ہیں، لیکن ان کو سوشل میڈیا اور اخبارات میں اٹھانا، اچھالنا وہ بھی پروپگنڈہ اور کردار کشی کی شکل میں اور خاص طور پر یوبی اے کے ساتھ آپسی لڑائی کی حد تک لیجانا، اس کا پس منظر اور اصل حقیقت اتنا سیدھا سادہ نہیں، جتنا کچھ لوگ سمجھتے ہیں۔ یہ سب کچھ نادانی، بے وقوفی و احمقی میں نہیں ہورہے ہیں بلکہ باقاعدہ ایک تسلسل اور پلاننگ کے ساتھ ہورہے ہیں اور جو لوگ اوپر سے نیچے تک اس عمل کا حصہ ہیں، وہ بھی بالکل ناسمجھی، لاشعوری، نادانی، مجبوری، بے بسی اور لاچاری کے تحت استعمال نہیں ہورہے ہیں بلکہ ہر ایک کا اپنا ایجنڈہ ہوتے ہوئے ایک مشترکہ ایجنڈے پر متفق سب کے سب اس عمل کا حصہ ہیں۔
میں نے ہر وقت کہا تھا کہ وقت خود ثابت کریگا، تو اعتراض ہورہا تھا کونسا وقت اور کس وقت؟ کیا ابھی بھی وقت نے ثابت نہیں کیا اور نہیں کررہا ہے؟ آج تمام آزادی پسند جہدکاروں کی اکثریت کی رائے کیا ہے؟ حمایت اور ہمدردی کہاں پر ہیں؟ بلوچ قوم میں آراء کیا ہیں؟ یہ ہے وقت جو سب کچھ ثابت کررہا ہے اور مزید بھی ثابت کرتا رہے گا۔ ہاں وہ لوگ جو شعوری ایجنڈے کا حصہ ہیں، پھر ان کے لیئے،کوئی بھی آیا وقت، وقت نہیں ہوگا، بس ان کے لیے سب برابر ہے۔
ریحان بلوچ کی قربانی تاریخ میں کسی کے حمایت، مخالفت، لاتعلقی یا عدم برداشت سے نہ کم ہوگی اور نہ گم ہوگی اور نہ ہی متنازعہ ہوسکتی ہے، البتہ یہ اپنے ایجنڈے کے تحت ریحان کی قربانی کے بعد ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرکے وقتی طور پر نوجوانوں میں مایوسی اور الجھن پیدا کرنا چاہتے ہیں، تاکہ بلوچ نوجوانوں کا رخ قومی جنگ، قومی ذمہ داریوں اور ریحان کے عمل کی طرف نہ ہو اور مزید اور ریحان پیدا نہ ہوں۔
میرے خیال میں ریحان جان وہ پہلا فدائی ہے، جس کے بارے میں ابتک دشمن پاکستان نے اب تک یہ نہیں کہا ہے کہ وہ نوجوان غیر شعوری طور پر استعمال ہوا، اسکے ساتھ ساتھ پاکستانی پارٹیاں بی این پی و نیشل پارٹی، جمیعت، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی وغیرہ تک بھی یہ نہیں کہہ چکے ہیں کہ یہ نوجوانوں کو استعمال کررہے ہیں بلکہ خود ساختہ ہائی کمان حیربیار مری نے علی الاعلان یہ کہا کہ اسلم بلوچ نے اپنے لختِ جگر کو ذاتئ مفاد کے لیئے استعمال کیا، یعنی استعمال لفظ ہی فدائی کے کردار و عمل کو متنازع اور مشکوک کرنے کی ناکام کوشش ہے، تاکہ بلوچ نوجوان اس رستے پر جانے سے گریز کریں۔
کیا کوئی اپنے لختِ جگر کو بلا وجہ ایک تھپڑ تک مار سکتا ہے؟ برداشت کرسکتا ہے لیکن ایک ماں اور باپ اپنے لختِ جگر کو بارود سے بھری گاڑی میں بٹھا کر کہتے ہیں، ہم آپ کو وطن کے لیئے قربان کرتے ہیں، پھر اس تاریخی عمل کو استعمال کا نام دینا، وہ بھی ذاتی مفاد کے لیئے، کیا یہ صاف ظاہر دشمن کا موقف اور بیانیہ نہیں ہے؟
آج اگر کوئی اپنے آنکھوں اور کانوں کو بند کرکے کچھ نہیں سمجھتا اور محسوس نہیں کرتا، پھر وہ کبھی بھی نہ سمجھے گا نہ ہی محسوس کریگا بلکہ اس کا اپنا شعور اور سوچ یہی ہے، وہ دانستہ اور شعوری طور پر سب کچھ جان کر اور سوچ سمجھ کر ایسے لوگوں کے ساتھ ہیں اور آخر تک ساتھ رہینگے تو ایسے لوگوں سے تبدیلی اور بہتری کی توقع کرنا یا گلہ کرنا احمقی اور بے وقوفی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
میرے کہنا کا مقصدِ محض یہ ہے کہ خدارا! ریحان جان کی قربانی کو کج بحثی، غیر ضروری بحث در بحث کے نظر کرنے سے گریز کریں بلکہ تمام تر توجہ اپنے کام اور مقصد پر لگائیں، شب و روز سوشل میڈیا کا کیڑا بن جانا اصل کام اور مقصد سے توجہ ہٹانے کی ایک موذی مرض ہے، جب ہم اس مرض کا شکار ہونگے جس طریقے سے ہمیں ریحان اور دیگر شہداء کی قربانیوں سے مجموعی طور پر تحریک کے لیئے فاہدہ حاصل کرنا ہوگا، وہ کبھی حاصل نہیں ہونگے، شاید کم سطح پر ہی ہو لیکن زیادہ اور مکمل نہیں ہوگا۔
سوشل میڈیا کا ایک حد اور مثبت طریقے سے استعمال صحیح اور فائدہ مند ہے لیکن انتہاء اور کج بحثی کی حد تک جانا تحریک کے لیئے سودمند نہیں، بلکہ انتہائی نقصاندہ ہے، جس سے گریز کرنا ہر جہدکار کا فرض ہے اگر کسی کو ریحان کے لہو کا احساس ہے۔
دی بلوچستاں پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔

пятница, 17 августа 2018 г.

خودساختہ ہائی کمان کا تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔ بی ایل اے


بی ایل اے کےترجمان جئیند بلوچ نے بی ایل اے کے سینئرکمانڈ کونسل اورآپریشنل کور کمیٹی کیجانب سے جاری کردہ اپنے پالیسی بیان میں کہا ہے کہ کل آزاد بلوچ نامی ترجمان کی طرف سے جاری بیان انتہائی شرمناک اور قابل افسوس ہے، یہ امر آج پوشیدہ نہیں رہا کہ شہید ریحان اور شہید درویش جیسے حملوں کی صلاحیت اور حکمت خودساختہ ہائی کمان کے دسترس میں نہیں، لیکن انکی طرف سے شہید ریحان جان کے حملے کی مخالفت اور اس سے لاتعلقی سرکاری بیانیئے کی تصدیق ہے، گو کہ خودساختہ ہائی کمان اور اسکے ٹولے کا ہمیشہ سے سرکاری بیانیئے کی تصدیق کرنا وطیرہ رہا ہے۔ مجید بریگیڈ کے بانی اوراسکے ذمہ داران تنظیم کے اندر تنظیمی پالیسوں کے تحت اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، چینی انجئنیروں پر حملہ اس بات کی تصدیق ہے اور مستقبل میں بھی بیرونی سرمایہ کاراور ریاستی ادارے مجید بیرگیڈ کے جان نثاروں کےاہداف ہونگے۔ مجید بیرگیڈ کےلیئے آزاد نامی شخص کے دعوے مضحکہ خیز ہیں۔
ہم اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ خودساختہ ہائی کمان اور ترجمان آزاد کے نام سے پچھلے کچھ عرصے سے تسلسل کے ساتھ جو شرمناک بیانات جاری کیئے جارہے ہیں، انکا ایک پس منظر ہے ماضی میں تنظیم کو قیادت کے حوالے سے بحران کا شکار کرکے دولخت کیا گیا، یو بی اے کا تنازعہ پیدا کرکے جنگ کی گئی، دیگر آزادی پسند تنظیموں سے اختلافات کےلیئے جواز پیدا کرکے تنظیموں کی سیکورٹی اور انکے قیادت پر کردار کشی کے حوالے سےغیر اخلاقی اور غیر سیاسی و غیر انقلابی طریقوں سے حملے کیئے گئے، تنظیم کے اندر اداراجاتی ساخت کی راہیں مسدود کرکے، تنظیم پر شخصی اجارہ داری قائم کرنے کی سعی کی گئی، اور اسی شخصی اجارے کو تنظیم و تحریک پر حاوی کرنے کیلئے، یکطرفہ متنازعہ فیصلے تنظیمی ساتھیوں پر مسلط کرکے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرایا گیا اور بدقسمتی سے اس وقت بھی ایسا کرنے کےلئے تنظیمی اثر رسوخ کا بے دریغ غلط استعمال کیا گیا۔
بداعتمادی کی ایک ایسی فضاء پیدا کی گئی، جو تحریک کےلیئے کسی صورت سود مند ثابت نہیں ہوا۔ دشمن نے بھرپور فائدہ اُٹھاکر بلوچ عوام میں تحریک کے حوالے سے بدظنی اور مایوسی کو ہوا دی اور دوسری طرف ریاستی ظلم و جبر میں اضافہ کردیا گیا۔ بدترین نتائج سامنے آنے کے بعد تنظیم کے اندر یہ بات واضح طور پر محسوس کی گئی کہ تنقید، اصلاح اور اصول و ڈسپلن کے نام پر ہونے والے تمام اقدامات کا مقصد سیدھی طرح سے خودساختہ قیادت کےلیئے نواب خیربخش مری سمیت دیگر تمام آزادی پسند ساتھیوں کوبلیک میل کرکے ان پردباؤ ڈالنا تھا، تنظیم کے اکثریتی ساتھیوں نے ایسے تمام اقدامات کی مخالفت کی اور معاملات کو بہتر کرنےاور اعتماد کی بحالی کےلئےعملی طور پر کام کرنے پر زور دیا اور ادارہ سازی اور تنظیم کی تشکیل نو پر زور دیا۔ تنظیمی ساتھیوں کی اکثریت اس بات پر قائل تھے کہ اب تنظیم کو شخصی بالادستی اور غیر تحریری فردی مزاج جسے اصولوں کا نام دیا جانے لگا، کے ساتھ آگے نہیں چل سکتا اور حقیقی اداروں کا قیام وقت کی ضرورت ہے، لیکن خودساختہ ہائی کمان نے اکثریتی ساتھیوں کو نظرانداز کرنا شروع کیا اور شخصی وفردی اجارہ داری قائم رکھنے کےلئے، بدقسمتی سے وہی غیر اخلاقی حربے تنظیمی ساتھیوں پر بھی استعمال کرنا شروع کردیا اور تنظیم کے اندر کچھ نااہل اور باہر کے کچھ غیر متعلقہ افراد کا ذاتی ٹولہ تشکیل دے کر تنظیمی معاملات میں بغیر کسی جواز کےمداخلت کرنا شروع کردیا اور ذمہ داران کو دیوار سے لگانے کی کوششیں تیز کرکے تنظیم کو ایک اور بحران کا شکار کردیا۔
ضد ،انااور ہٹ دھرمی کی حدیں پار کی گئیں، اتنا سب کچھ سہنے کے باوجود ساتھیوں نے مسائل کو حل کرنے کےلئے تنظیم کے اندر تنظیمی و دستیاب طریقہ کار پر زور دیا، لیکن بدقسمتی سے ضد و ہٹ دھرمی میں تنظیمی راز اور سیکورٹی کو بالا طاق رکھتے ہوئے تنظیمی ترجمان کے نام پر مسائل کو اخبارات کی زینت بنا کر دروغ گوئی کا سہارا لیا گیا اور بلوچ عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی گئی اور دشمن کا کام آسان بنایا گیا۔
درپیش حالات اور مسائل کو مدنظر رکھ کر تنظیمی ساتھیوں کی اکثریت نے اداروں کے تشکیل پر کام شروع کرکے، جنگ کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ خودساختہ ہائی کمان اور اسکے ٹولے کو تنظیم کے اندر مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کا مکمل راستہ و اختیاردیا اور دیگر آزادی پسند بزرگ راہنماؤں کے ذریعے بھی مسائل حل کرنے کی بھرپور کوششیں کئیں، جن میں قابل ذکر استاد واحد قمبر، میرعبدالنبی بنگلزئی اور استاد گلزار امام شامل ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سندھی آزادی پسند ساتھیوں کے ذریعے بھی ہر ممکن کوششیں کیئے گئے، لیکن تمام نتائج ضد انا و ہٹ دھرمی پر منتج ہوئیں۔
اس دوران ساتھیوں نے دیگر آزادی پسند تنظمیوں سے حالات کو سازگار بنا کر اعتماد کے بحالی کےلئے بھرپور کوششیں کئیں، اعتماد بحال کرکے یو بی اے سے جنگ بندی کرکے جنگ کا خاتمہ کردیا اور نقصانات کا ازالہ کرکے بلوچ آزادی پسندوں ساتھیوں کو شیر وشکر کردیا گیا، بی ایل ایف سے اشتراک عمل کو ممکن بناکے، بی آر جی سے اشتراک عمل کیا گیا اور تمام آزادی پسند تنظیموں کےساتھ دشمن کے خلاف غیرمشروط تعاون کےلیئے حالات کو سازگار بنایا گیا۔
ان تمام حالات میں بی ایل ایف، یو بی اے اور بی آر جی کا مکمل اور دیگر آزادی پسند تنظیموں میں موجود ہم خیال ساتھیوں کا ہمیں بھرپورکمک و تعاون حاصل رہا، اس دوران بھی خودساختہ ہائی کمان اور اسکا ٹولہ ہمارے کام میں رخنہ اندازی کے پالیسی پر عمل پیرا رہا، ایک سال کا طویل عرصہ ہم نے پورے بلوچستان میں مکران سے لیکر کاہان تک دشمن کے خلاف مسلح کاروائیاں سرانجام دیئے، لیکن گیارہ اگست کو چینی انجنیئروں پر ہونے والے کامیاب کاروائی پر اس طرح کا شرمناک ردعمل بہت بڑاسوالیہ نشان ہے۔
تمام تجربات کے بعد تنظیمی اکثریتی ساتھی اور قیادت اس بات پر متفق رہے ہیں کہ بلوچ لبریشن آرمی سینکڑوں شہیدوں کے قربانیوں اور ساتھیوں کی محنت سے بنی ایک تنظیم ہے، جو شخصی اجارہ داری و انفرادی فیصلوں کا متحمل نہیں ہوسکتا، لہٰذا معروضی حالات و تنظیمی تجربات کی روشنی میں ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد تنظیم میں حقیقی اجتماعی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اور اس رو سے تنظیمی ساتھیوں کے اکثریتی فیصلے سے تنظیم کا سینیئر کمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمیٹی تشکیل دے دیا گیا۔ تنظیم کے تمام کارکنان و کمانڈران ان اداروں کے پابند ہیں۔ کوئی خود ساختہ ہائی کمان کا دعویدار ہو یا ایک سپاہی تنظیمی اداروں کے ماتحت آئے اور ان اداروں کو تسلیم کیئے بغیر، اسکا بی ایل اے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کل رات سے چلنے والی ہمارے سینیئرکمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمیٹی کےاجلاس میں تمام کمانڈروں نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ بی ایل اے کے اندر اس قسم کے سطحی گروہی اور روایتی سوچ کی مزید کوئی گنجائش نہیں رہا ہے، تمام مواقع فراہم کرنے کے باوجود خود ساختہ ہائی کمان اور اُسکے ٹولے کی سوچ و رویوں میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی اور انہوں نے اپنا روش نہیں بدلہ، بلکہ مزید مسائل پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی، لہٰذا تمام حالات کو مدنظر رکھ کر یہ فیصلہ لیاگیا کہ آج کے بعد بی ایل اے سے اس ضدی و انا پرست شخص اور اسکے ٹولے کا کوئی تعلق نہیں ہے، وہ اپنے قول و فعل کا خود ذمہ دار ہونگے۔
بی ایل اے کے دو ترجمان میرک بلوچ اور جئیند بلوچ ہونگے، تنظیم کا ویب سائٹ www.Balochliberationvoice.net ہے اور Hakkal اشاعتی ادارہ ہے BLA_Online@ ہمارا ٹویٹر اکاونٹ ہے، تنظیم کے جنگی مسائل سمیت تمام معاملات کی نگرانی سینئیرکمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمیٹی کرینگے۔ تنظیم کا اس وقت لندن سمیت یورپ و امریکہ میں کوئی بھی نمائیندہ مقرر نہیں ہے۔ بیرون ممالک تنظیم سے جڑے کاموں اور فرائض کی ادائیگی کےلئے سینئر کمانڈ کونسل ساتھیوں کا انتخاب جلد عمل میں لائے گا۔
ہم اس عزم کا دوبارہ اعادہ کرتے ہیں کہ بلوچ سرزمین کی آزادی تک چین سمیت کسی بھی بیرونی قوت یا سرمایہ کاروں سے بلوچ وسائل کی لوٹ مار کےلیئے کسی کو بھی کسی بھی قسم کے معاہدے کی اجازت نہیں دینگے اور ان کے خلاف مزاحمتی عمل میں تیزی اور جدت لائیں گے۔

вторник, 14 августа 2018 г.

مادرِ وطن اور قربانی – علی کچکول

لٰہیاتی فلسفی کہتے ہیں کہ ” اگر مذہب کو زندگی سے خارج کی جائے، تو قومی ریاست خدا کی جگہ لے لیگی۔”
جس طرح کے بلوچ شاعر جی ۔ آر ملا کہتا ہے: ” مبارک ہو تمہیں ملا، تمہارا حج اور کعبہ۔۔۔ لیکن مجھے اپنے وطن سے، اپنی بینائی سے زیادہ محبت ہے۔” ( مبارک بیت ترا ملا تئی حج تئی کعبہ۔۔۔ منا چو دیدگا دوست ءِ منی ماتیں وطن ملا)۔
مزید سمجھنے کیلئے، ہمیں قربانی کا تصور “اسخلیئرماخیر” کی تحریروں میں بھی ملتا ہے، جو لکھتا ہے: “میں چاہتا ہوں کے میرے آزادی کا مقصد، مجھے ضرورت سے قریب تر کردے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا مقصدِ عظیم، مرنے کی چاہت کرنے کے قابل ہونا ہو۔”
ایک ازبک شاعر ازبکستان کے بارے میں کہتا ہے: “میری نسل اس سرزمین کی قدر سمجھیں، ظاھراً، لوگ ہمیشہ خاک میں بدلتے ہیں۔ یہ سرزمین ہمارے آباء کی باقیات ہیں، ہم اس قیمتی مٹی کیلئے خاک میں بدلتے رہے ہیں۔”
ریحان اور اسکے والد اسلم بلوچ کی قربانی، ابراہیم اور اسماعیل کی قربانی کی نشاطِ ثانیہ ہے۔ لیکن ابراہیم اور اسکے بیٹے اور اسلم بلوچ و اسکے بیٹے میں ایک بنیادی فرق ہے، ابراہیم اور اسماعیل مذہب کے نام پر قربانی پر تیار تھے لیکن اسلم اور اسکے بیٹے نے قربانی ایک عظیم مقصد اپنے مادر وطن کی خاطر دی۔
بلوچ اپنے پہاڑی جغرافیہ اور اپنے خون میں اس سرزمین کے حفاظت کیلئے مزاحمت کو لیئے، ایک نادرالوجود قوم ہے، جس کی وجہ سے بلوچوں میں قربانی کی ایک شدید روایت ابھر رہی ہے۔
قوم پرستی کبھی کبھار ہم سے یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ہم اجتماعی مفادات کیلئے خود کو قربان کردیں، یہ قربانی عموماً رضاکارانہ طور پر اپنے وطن کی آزادی یا اپنے قوم کے دفاع کیلئے دی جاتی ہے۔ ریحان یا دوسرے تمام شہیدوں کی قربانی جنہوں نے اپنی جانیں قربان کردیں اور ان عورتوں و بچوں کی قربانی جو اذیت گاہوں میں تشدد سہہ رہے ہیں، بلوچوں کے پختہ عزم کا اظہار کرتی ہے۔ یہ ظاھر کرتی ہے کہ بلوچ کس حد تک اپنی قوم کیلئے جانے کو تیار ہیں۔
میری ذاتی رائے میں، مزاحمت کا چاہے جو بھی طریقہ کار ہو، بلوچ کو کسی صورت مزاحمت کے اس تسلسل کو آزادی تک ٹوٹنے نہیں دینا چاہیئے۔ بدقسمتی سے ہماری سینئر بلوچ قیادت نے ناکام پاکستانی پارلیمانی سیاست کو چن کر ہمیں بے تحاشہ نقصانات سے دوچار کیا۔ گذشتہ دن غوث بخش بزنجو کے برسی کے دن ریحان کے قربانی کے بعد، میں نے سوچا کاش کہ محترم بزنجو صاحب اور دوسرے سینئر رہنما قوم پرستی کو اس کے حقیقی روح کے مطابق جاری رکھتے، جو کہ خالص مزاحمت ہے۔ لیکن نواب خیربخش مری کے علاوہ ہماری اعلیٰ قیادت مزاحمتی تحریک سے دستبردار ہوگئی۔
میں قوم کے سامنے یہ واضح الفظ میں رکھنا چاہتا ہوں کہ ایک قومی ریاست کیلئے جدوجہد کے بنا کوئی قوم پرستی نہیں، باقی نام نہاد قوم پرست حقیقی معنوں میں قوم پرست نہیں کہلاتے، کیونکہ قوم پرستی کا معنی ہی قومی ریاست کیلئے قربانی دینا ہے۔ یہ بنیادی اصول ان تمام جماعتوں میں غائب ہے، جو خود کو قوم پرست کہتے ہیں لیکن پاکستان کی پارلیمانی سیاست کرتے ہیں، جو خود ہی فوجی تھانہ شاہی اور بدعنوانی کی وجہ سے ناکام ہوچکا ہے۔
ہمارے مادر وطن کو پاکستان اور چین اسکے وسائل اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے بلوچوں کے منشاء و مرضی کے بغیر لوٹ رہے ہیں۔ بلوچوں کے قیمتی وسائل جیسے کے قدرتی گیس، کوئلہ اور سونا لوٹا جارہا ہے، حتیٰ کہ اب عام بلوچوں کی ملکیتیں تک سی پیک کی تعمیر کیلئے قبضہ کی جارہی ہیں۔ بلوچوں کو انکے آبائی گھروں سے نکالا جارہا ہے۔
بلوچ ان مظالم کے خلاف اپنی آواز ہمیشہ سے بلند کرتا رہا ہے اور مغربی قوتوں کو کئی سالوں سے ان نا انصافیوں سے آگاہ کرتا رہا ہے، لیکن اب تک ہمیں نظر انداز کیا گیا ہے۔ عالمی برداری کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے 1960 کے اعلامیے کے رو سے ہماری مدد کرے، جو تمام مقبوضہ قوموں کی آزادی تسلیم کرتی ہے۔
اس اعلامیے کے ایک شق کے مطابق ” لوگوں پر بیرونی جارحیت، محکومیت، استحصال بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہے اور یہ امنِ عالم اور عالمی تعاون کے سامنے ایک رکاوٹ ہے۔”
ہماری تحریک اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہے لیکن پاکستان اس چارٹر کی خلاف ورزی کرتا رہاہے۔ پاکستان اور چین قومی سلامتی اور اور انسدادِ دہشتگردی کے نام پر ” لمبرگ پرنسپل” کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ لمبرگ پرنسپل کی آرٹیکل 64 اور 65 کا یہاں واضح طور پر خلاف ورزی ہورہا ہے۔
بلوچ تواتر کے ساتھ تمام عالمی اور علاقائی اداروں بشمولِ اقوام متحدہ کو بتاتے رہے ہیں کہ پاکستان نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے، جسے سی پیک کے مد میں چین کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ اور یہ تمام جرائم قومی سلامتی اور انسدادِ دہشتگردی کے نام پر کیئے جارہے ہیں۔
اسی مد میں ایک ممتاز عالمی قانون دان ہیوگو گریوٹز کہتا ہے کہ ” اگر ظلم اس قدر نا قابلِ برداشت ہوجائے کہ ایک قوم اسکے خلاف اٹھ کھڑا ہوجائے، پھر کسی بھی عالمی قوت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس مظلوم قوم کا مدد کرے، جو مدد کیلئے پکار رہا ہے” عالمی برداری تک رسائی حاصل کرنے کی ہماری ساری جدوجہد کا مقصد انہیں بلوچستان سے آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ ان مظالم کے سامنے بند باندھ سکیں لیکن اب تک مغرب کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے بلکہ وہ اپنے اس ذمہ داری سے نظریں چراتے رہے ہیں۔
اب جبکہ عالمی ادارے ہماری فریاد نہیں سن رہے ہیں، پھر ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ بلوچ قربانی کا راستہ اختیار کریں۔
( کچکول علی ایڈوکیٹ انسانی حقوق کے ایک وکیل ہیں، وہ بلوچستان اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف اور وزیر بھی رہ چکے ہیں، اب ان کا تعلق بلوچ نیشنل موومنٹ سے ہے)