Powered By Blogger

суббота, 11 августа 2018 г.

**بلوچ قوم کا جوانسال مورخ شہید ریحان جان بلوچ.....ڈاکٹر جلال بلوچ**
چھلے دنوں میں نے ایک کالم میں یہ لکھا تھا کہ کردار ہی مورخ ہے۔وہ کالم لکھے ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ تاریخ رقم کرنے والا ایک اور عظیم کردار شہید ریحان بلوچ کے نام سے ہمارے سامنے آگیا۔شہیدریحان بلوچ نے اپنے عمل اور کردار سے بلوچ سماج میں شہید مجید اول اورشہید درویش بلوچ کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے تاریخ کا ایک اور باب رقم کیا جسے رہتی دنیا تک کوئی بھلا نہیں سکتا۔

جب ہم دنیا کی آزادی کی جنگوں میں فدائی حملوں کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس حوالے سے نوآبادیاتی نظام میں پہلا فدائی ہمیں ہندوستان کی سرزمین پہ کمانڈر کھلی کی صورت میں نظرآتا ہے۔یہ عظیم عورت کمانڈر کھلی جنوبی ہندوستان میں تامل قوم میں پیدا ہوئی۔ اپنی قوم کی آزادی کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے اس عظیم کمانڈر نے برطانوی نوآبادیات کے بارودی مواد کو نشانہ بنایاجو ایک مندر میں چھپائے گئے تھے کیونکہ انہیں یہ جانکاری تھی کہ اگر برطانوی قبضہ گیر کو شکست دینا ہے تو اس کے لیے اس کے بارود اور ہتھیاروں کو نشانہ بنانا ہوگا۔اس کے بعد ہوا بھی یہی جہاں ہتھیاروں کی عدم دستیابی اور کمی نے برطانوی فوج کو ہندوستانیوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار کیا۔
دنیا میں اس سے قبل کتنے فدائی حملے ہوچکے ہیں میں نہیں جانتا ہاں البتہ تاریخ گواہ ہے کہ لوگ دیوانہ وار موت پہ بیعت کرتے نظر آتے ہیں لیکن بارود کی ایجاد کے بعد یہ پہلا فدائی حملہ تھا جس میں کمانڈرکُھلی نے برطانوی سرکار کو نشانہ بنایاجس پہ چل کے نہ صرف تامل نسلوں نے آنے والے دنوں میں سری لنکا کے خلاف اقدامات کیے بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی آزادی پسندوں نے جنگ کے اس طریقہ کار کو دشمن کے خلاف موثر ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا۔جنگوں میں فدائی حملوں کا یہ تسلسل دراصل اسی اثرات کا نتیجہ ہیں جس نے برطانوی سرکار کو اٹھارویں صدی میں شکست سے دوچار کیا ۔جنگی حکمت عملی اور طریقہ کا ر کے اثرات کے حوالے سے دنیا میں یہ نظریہ خود کو ثابت کرچکا ہے کہ کوئی عمل جو کسی اجتماعی مقصد کے لیے ہو اس کے اثرات نہ صرف آنیوالوں پڑتے ہیں بلکہ اس سے دنیا کا ہر وہ معاشروہ جو اسی طرز کی جدوجہد کررہے ہوں وہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتے ،چاہے ماضی میں انہوں نے اس طریقہ کار کی وجہ سے کامیابی سے منزل کی جانب سفرکیا ہو یا اس میں ناکاامی کا منہ سامنا کرنا پڑا ہو لیکن اس کے اثرات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔کمانڈر کھلی کی جرات اور بہادری کے اثرات ہمیں اس کی قوم نہ صرف تاملوں میں نظر آتا ہے جہاں تامل ٹائیگرز کے فدائی حملہ آوروں نے فدائی طرز اپنا کے دشمن کو ایک بڑے عرصے تک مسائل سے دوچار کیے بلکہ اس کے اثرات دیگر انقلابی تحریکوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
بلوچ جدوجہد آزادی میں شہید مجید بلوچ نے ۷۰ کی دہائی میں پہلا فدائی حملہ کیا جس میں ہدف اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو تھے ۔شہید مجید بلوچ کا بلوچ جدوجہد کو فدائی طرزدینا ایک عظیم کارنامہ ہے جسے بلوچ قوم قدر اور فخر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔شہید مجید بلوچ کے بعد اکیسوی صدی میں شہید درویش بلوچ نے ریاستی ڈیتھ سکواڈ کو فدائی حملہ کا نشانہ بنایا جس میں ۷۰ سے زائد ریاستی ڈیتھ سکواڈ کے لوگ مارے گئے ۔شہید مجید بلوچ کے اس طرزِ جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے 11اگست جو کہ بلوچستان کی برٹش سرکار سے آزادی کا دن بھی ہے آزادی کے اس دن میں ایک اور تاریخی واقعہ کو اضافہ کرتے ہوئے ریحان بلوچ نے پاکستان اور چین کے استحصالی منصوبوں پہ کام کرنے والے چینی اہلکاروں کو نشانہ بناتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
ایسے کارنامے انسان کو عظمت کی بلندیوں تک لے جاتی ہے جہاں ان کی ہمسری کے دعویدار کوئی اس وقت کرسکتا ہے جب وہ انہی کے نقش قدم پہ چل کر اجتماعی مفادت کی تکمیل کے لیے خود کو سپردِ گل زمین کردیں۔۔۔۔
جب شہید کے بارے میں میں نے معلومات حاصل کی تومجھے یہ جانکاری حاصل ہوئی کہ شہید ریحان بلوچ 2012ء میں فدائی حملے کے لیے تیار تھے لیکن کم عمری کی وجہ سے انہیں اس کی اجازت نہیں ملی مزید یہ کہ وہ پچھلے چھ سالوں سے یہ کہتا چلاآرہا ہے کہ میں نے ہوش سنبھالتے ہی یہ فیصلہ کیا ہے اور اسی پہ قائم رہونگا کیونکہ میں (شہید ریحان) اس بات کا قائل ہوں کہ ہمیں اپنے طریقہ کار میں جدت لانی چاہیے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم جنگ کے ہر اس طریقے کو بروئے کار لائیں جس سے دشمن کی تکلیفیں زیادہ ہوں اور بلوچ قوم میں جذبہ آزادی پروان چڑھے۔
شہید ریحان بلوچ کے حوالے سے یہ معلومات بھی حاصل ہوئی کہ وہ ہر وقت جہد آزادی سے کافی پرامید دیکھائی دیتے تھے البتہ ان کا یہ کہنا تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ آزادی کی وہ کرنیں دیکھنا مجھے بھی نصیب ہوں لیکن یہ قوم ضرور آزادی حاصل کریگی کیونکہ آج بلوچ جہد آزادی کو بلوچ سرمچاروں نے اپنی قربانیوں کی بدولت ایسی بنیاد فراہم کردی ہے جس میں مجھے دشمن کی شکست کے واضح آثار نظر آرہے ہیں۔
دشمن کی شکست کے لیے راہِ آزادی مسافروں نے دنیا میں جنگ کے نت نئے طریقے دریافت کیے جن پہ عمل پیرا ہو کے انہوں نے دشمن کی شکست یقینی بنایا۔ یہ ذکر ہوچکا ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف جو پہلا فدائی حملہ آور تھا وہ بھی ایک قوم پرست عورت تھی جنہوں اپنی قوم کی بقاء اور آزادی کے لیے اپنی جان کی قربانی دیتے ہوئے دشمن کی شکست کو یقینی بنایا ۔قومی آزادی کی جنگ میں یہ صنعتی انقلاب کے دوران نئی دریافت تھی۔
دنیا کے نظریاتی جنگوں میں اس طرز کے حملوں کو جب ہم دیکھتے ہیں وہ چاہے دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں ان میں اورپراکسی حملہ آوروں کے حملوں میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ نظریاتی طور پہ فدائی حملوں میں نشانہ دشمن ہی ہوتا ہے اور اسی لیے ایسے حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعدادنہ ہونے کے برابر ہے۔ کیونکہ انہیں اپنے ہدف کو ہی نشانہ بنانا ہوتا ہے جہاں وہ اپنے عوام اور عام لوگوں کو محفوظ رکھنے کی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔اسی لیے ان کے ان حملوں کودنیا ہدفِ تنقید نہیں بناتی اور نہ ہی عالمی قوانین ان کے خلاف کچھ کہتاہے ۔ یہی وجوہات ہیں کہ دنیا کے انقلابی سوچ یا دنیا سے محکوموں پہ ظلم کو برداشت نہ کرنے والے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
بلو چ جدوجہد میں شامل جہد کاروں نے اپنی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے آزادی کی جنگ کو ایسے رنگوں سے نوازہ ہیں جن کی وجہ سے دشمن کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، وہ چاہے جہد کاروں کے سنیپرز ہوں، یا دیگر جنگ کے دیگر طریقہ کار۔جن سے آج دشمن نفسیاتی طور پہ اس میں شکست کھا چکا ہے اسی لیے روز عام شہریوں خاص کر بلوچ خواتین اور بچوں کو لاپتہ کرکے جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنارہی ہے۔دشمن کے اس ظلم و ستم کے باوجود بلوچ جہد آزادی کے مسافر خندہ پیشانی دھرتی ماں کا قرض ادا کرنے میدانِ عمل میں بخوبی اپنا کرادر ادا کررہے ہیں ۔
شہید ریحان بلوچ کے 11 اگست 2018ء کا فدائی حملہ جس میں نوآباد کاروں کے آقا سیندک استحصالی منصوبے کے چینی انجینیروں کو نشانہ بنایا گیا تھا یہ چین ،پاکستانی قبضہ گیر اور ان کے دیگر آقاؤں کے لیے واضح پیغام ہے کہ وہ بلوچستان میں بلوچ قوم کو ظلم ،جبر ،بربریت اورغلامی کے اندھیروں کی نظر کرکے استحصالی منصوبوں کو کبھی بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاسکتے اس لیے بیرونی دنیا کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ اس غیر فطری ریاست کی پشت پناہی سے باز آجائیں نہیں تو وہ بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آسکتے ہیں جس کی بھٹی انہیں ہی زوال پذیر کرسکتی ہے۔
شہید ریحان بلوچ کو یہ عظیم کارنامہ سرانجام دینے کے لیے جہاں انہوں نے مورخ بن کے اپنے لہو سے قومِ بلوچ کی تاریخ نوشتہ کی خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فقط اتنا کہوں گا کہ
بلوچ قوم نے تاریخ میں آج کے دن آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھا اور آج ہی کے دن شہید ریحان بلوچ نے ایک اور سورج طلوع کیا جو بلوچ قوم کے لیے یقیناً آزادی کی نوید ثابت ہوگی ۔شہید ریحان بلوچ کے جلائے ہوئے روشنی کے اس چراغ میں آنے والی نسلیں رات کی تاریکی میں اپنی راہوں کا صحیح سمت انتخاب کرتے ہوئے منزل کی جانب پیش قدمی کریں گے ۔جو ایک اور 11 اگست یعنی آزادی کی منزل پہ جا کہ ختم ہوگی جو شہیدوں کے خوابوں کی تعبیر بھی ہے اور قوم کی منزل بھی

Комментариев нет:

Отправить комментарий