Powered By Blogger

суббота, 28 апреля 2018 г.

موجودہ صورتحال۔کمال بلوچ وائس چیئرمین بی ایس او آزاد

کمال بلوچ
وائس چیئرمین بی ایس او آزاد
جب بھی کچھ لکھنے کا خیال آتا ہے، تو مو ضو ع کا انتخا ب کر نے سے پہلے کچھ سوالا ت سامنے آتے ہیں کہ یہا ں کی صورتحال کو کس طر ح سمجھنے کی ضر ورت ہے اور دوسروں کو کس طرح سمجھا سکیں گے۔ کسی بھی سیا سی ورکر کیلئے یہ وہ بنیاد ی سوال ہے، جس کی وجہ سے کچھ لکھنے کی خواہش ہو تا ہے۔ کچھ الفاظ لکھ کر لوگوں کو متو جہ کر سکیں جس کے ذریعے اپنے قوم اور دنیا کو آگا ہی دے سکیں۔ بلوچستان کے حالات کتنے گھمبیر ہو چکے ہیں، لیکن اس کے باوجو د بھی دنیا اس طرف کیوں متو جہ نہیں ہو رہا ہے۔ ہم دنیا کو متو جہ کر نے کیلئے کیا مثبت کردار ادا کریں کہ یہاں پاکستانی فو ج بلوچ کی نسل کشی کر رہی ہے۔
اس وقت بلوچستان میں پا کستانی فو ج بلوچستان کے کونے کونے میں فو جی کاروائی کر رہی ہے۔  پاکستانی میڈیا اور صحافی حضرات اس حو الے سے اپنی آنکھوں پر پٹی لگائے ہو ئے ہیں۔ پاکستانی میڈیا کا کردار سب کے سامنے عیاں ہے۔  وہ صرف اُس مسئلہ کو اجاگر کرتے ہیں، جس سے اُس کے معاشی مفادات وابسطہ ہیں، کیو نکہ پا کستانی صحافیوں کے کردار کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ قبضہ گیر کے دانشور اور لکھاریوں کے حوالے سے سارتر بہت ہی خوب صورت الفاظ میں کہتے ہیں کہ ’’اگر قبضہ گیر کے دانشور کچھ کہیں، تو وہ اس لیئے کہتے ہیں، تا کہ آقا کو سمجھا سکیں کہ اُسے آگے کس طر ح کی پالیسی اپناناہو گا۔” یہاں صحافی حق اور سچ کیلئے نہیں لکھتے ہیں۔ اگر لکھتے ہیں تو اُسی کردار کے مالک ہیں جو کردار انہوں نے بنگلہ دیش میں ادا کی ہے۔
ہم بلوچستان میں ہوئے جبر کی داستان کو دیکھتے ہیں۔ اس کی تاریخ لمبی ہے لیکن آج بلو چستان میں فو جی آپر یشن میں تیزی کی وجوہات کو سمجھنے کی کو شش کرتے ہیں کہ پا کستانی فو ج اس وقت بلوچستان کے کونے کونے میں اپنی طاقت آزمائی کر رہا ہے۔  فوجی کا راوئیوں کے مقصد کو سمجھنا بہت ہی آسان ہے۔  وہ طاقت کے ذریعے بلوچ تحر یک کو ختم کر نے کی کو شش کر رہا ہے۔ وہ باشعور لوگوں کو ’’تلا ش کرو اور ختم کرو‘‘ کی پالیسی کے ذریعے آپر یشن میں تیز ی لائے ہوئے ہیں۔ یہ فوجی آپر یشن شہروں سے لیکر دیہاتوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ بلو چ سیاسی کا رکنوں کو چن چن کر گرفتار کر کے لا پتہ کیا جا رہا ہے۔
یہاں ایک بحث سامنا آتا ہے کہ انہی حالات میں پا کستان ریاست وہی کردار ادا کر رہا ہے، جو 1971میں بنگلا دیش میں اپنایا گیا تھا، لیکن اس وقت پاکستان کو بلوچستان میں ایک عوامی ردعمل کا سامنا کر نا پڑ رہاہے۔ اس طرح کے مشکلا ت ان کے سامنے ہیں کیو نکہ بلوچستان میں پا کستان کی 2013کی جنرل الیکشن میں پو رے بلوچستا ن میں بلوچ عوام نے بائیکاٹ کیا تھا، تو یہاں ووٹنگ نہ ہو نے کے برابر تھی۔ اس کی کال بلوچ آزادی پسندوں کے اتحاد بلوچ نیشنل فرنٹ نے دی تھی۔ پا کستان کو ناکامی کا سامنا ہوا اور دوسری طرف حال ہی میں مردم شماری میں بھی ناکام ہوئی۔ اس کی کال بھی بلو چ نیشنل فرنٹ نے دی تھی۔
پاکستانی فو ج طا قت کے استعمال کے با وجود بھی بلوچستان میں مر دم شما ری نہیں کرا سکی۔  فو جی چھاؤنیو ں میں مردم شماری کے فارم ازخود کوبھرددیئے گئے۔ اسی خو ف کی وجہ سے پور ے بلوچستان میں پاکستانی فو ج کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ پاکستانی فو ج نے بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کی ہے۔ یونیورسٹی سے لیکر پرائمری سکولوں کو فوجی کیمپ میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔
ریاست کی کوشش ہے کہ خو ف کے سایے تلے 2018میں پا کستان کے جنرل الیکشن منعقد کیئے جائیں اور کا میاب کرائے جائیں۔ اسی لیئے اس الیکشن میں پاکستانی فو ج بہت ہی دلچسپی لے رہی ہے۔ فو جی طا قت کے بل بو تے پر مردم شماری نہیں کراسکیں تو الیکشن بھی نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ عوام اپنے دشمن کو پہچان چکی ہے۔
اس وقت فو ج بلو چستان میں ایک نئی پا رٹی کی قائم کر رہی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے ذریعے وہ دنیا کو گمراہ کر رہا ہے۔ پاکستانی فو ج اپنے معاشی تحفظ کے ساتھ ساتھ دنیا میں یہ ثابت کر نے کو شش کررہاہے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بلوچ عوام کی مرضی سے ہو رہا ہے، لیکن اس بات کو یاد رکھنا ہو گاکہ بلوچ عوام نے پاکستان کی ہر چیز کو مستر د کر دیا ہے۔ بدلے میں پاکستانی فوج جو کچھ کر رہی ہے، اس میں فو ج کے پالے ہوئے لوگ ڈاکٹر مالک ،سر دار ثنا اللہ اور حال ہی کے قدوس بیزنجو ہوں وہ ہر کام میں بر ابر ی کے حصے دار ہیں۔ یہ لوگ بھی بلوچستان میں بلوچ عوام کا خون بہانے میں برابر کے شریک ہیں۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال میں فوج ہمیشہ کی طرح اصل حکمران کا کردار ادا کرنے کا بیڑا اٹھا چکا ہے۔ سب انکے سامنے بے بس نظر آتے ہیں ’’اس کی مثال مسلم لیگ نو از سے مکمل تضاد اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ فو ج کے ساتھ ہمقدم سپر یم کورٹ اور بیو روکریسی ہیں۔ سپر یم کو رٹ بہت خو ب استعمال ہو رہا ہے۔ اس میں فو ج بر اہ راست ملوث ہے۔ اسی لیئے میرے خیال میں نوازشر یف اپنے 10اپریل کے اخباری بیاں میں کہتاہے کہ آئندہ الیکشن کے نتائج قبول نہیں کرینگے۔ یہ ایک واضح تضاد ہے۔ اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ فو ج کا کردار کتنا مضبو ط ہے۔
پنجابی قوم پرست کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کر کے گھر بھیج دیا گیا ہے، حالانکہ پاکستان کی تمام سیاسی پا رٹیاں اور فوج بلوچستان کے حو الے سے ایک ہی صفحے پر ہیں، لیکن اس کے باوجود، انہیں انکی ذمہ داریو ں سے فارغ کیا گیا، تو بلوچستان میں صورتحال کیسی ہوگی، آپ کو اب اسکا انداز ہو گا۔  بلوچستان حکومت کی تبد یلی وہی سلسلہ ہے کیو نکہ ایک بات کی وضا حت کر نا چاہیئے کہ پا رلیمنٹ میں بیٹھے تما م رکن پارلیمنٹ فو ج کے اہلکا ر ہیں۔ انکی وفا داری ایک سے بڑھ کر ایک ہے لیکن انکو انکی حیثیت بھی با ر بار انکو یا د دلائی جا تی ہے کہ آپ لو گو ں کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے۔ اس وقت بلوچستا ن کے نام نہاد پارلیمنٹ میں با ربار قائد ایوان کی تبد یلی ہوتا ہے، لیکن نئے وزیر اعلیٰ کو وہی پرانے حربوں کے ساتھ ایک نئے مہر ے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
انہی کٹھ پتلیو ں کی وجہ سے فو ج بلوچستان میں اپنی من مانی کرتا ہے، انکے ذریعے بلو چستان کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے۔ انکا کردار صر ف یہ ہے کہ وہ صر ف کلرک کی طرح کسی کا غذ پر مہر لگا سکتے ہیں، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں، یہ صر ف کاغذی شیر ہیں جو نما ئش کے طور پر رکھے جاتے ہیں۔ اس کھیل میں قوم پرست جماعتیں شامل ہیں۔ سردار اخترمینگل اور اُس کی پارٹی بلوچستان میں آنے والی الیکشن کی تیاری میں بہت زور شور سے حصے لے رہی ہے۔ یہ مہم خاص کر لسبیلہ اورمکران میں جاری ہے۔ اپنے سرگر میوں میں تیزی لانا، یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں حصہ لیگا لیکن وہ اپنے ذاتی مفادات کو تحفظ دینے کے لیئے قوم کا سودا کرنے میں پیش پیش ہے۔ سردار مینگل اس بات سے آگاہ ہے اور بخو بی جانتا ہے کہ بلو چستان میں کبھی بھی ایک قوم پرست کو حکومت کر نے نہیں دیتے ہیں۔ اس کی مثال 1970کا دور ہے یا 1997 میں سردار اختر کی حکومت کو واپس بھینا ہے، اس سے بڑی مثال کو ئی نہیں، لیکن انہوں نے اپنی قیمت بہت کم لگادیا۔
ہم سمجھتے ہیں اختر مینگل بھی بلوچ نسل کشی میں برابر شریک ہے، آگے شر یک ہو نے جا رہے ہیں۔ اس وقت آپریشن میں تیزی کے وجو ہا ت یہ بھی ہیں: 66ارب ڈالر کی پروجیکٹ سی پیک نام سے پا کستان اور چین سر انجام دے رہے ہیں، جو بلو چستان کی سر زمین سے بلوچ کی مرضی کے خلاف اس پر وجیکٹ کو آگے لے جا رہے ہیں۔ جب بلوچوں نے مزاحمت کی تو پاکستانی فوج نے چین کی مد د سے اس روٹ کے تما م نہتے بلو چ آبادی کو بزور طاقت بیدخل کردیا۔ اب لاکھو ں کے حساب سے آئی ڈی پیز کی زندگی گذار رہے ہیں۔ ہم جس پہلو پر نظر ڈالیں تو وہی سچ ہوگا۔
الیکشن نز دیک ہو نے کے ساتھ ساتھ پاکستانی فو ج اپنی حکمت عملی میں تبد یلی لارہی ہے۔ بلو چستان کے تمام دیہی علاقوں کی آبادیو ں کو طاقت کے زور پر اپنے کیمپوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ ان کا گذر بسر مال مویشیو ں سے ہو تاہے۔ نہتا عوام طاقت کے سامنے بے بس ہیں۔  آوران، مشکے، بو لا ن کو لو اہ، ڈیر بگٹی اور کوہلو میں فو جی آپر یشن کرکے اور خواتین اور بچوں کو اغو اء کرنے کے ساتھ ہی پوری آبا دیو ں کو گھر بار چھو ڑنے پر مجبور کرنا اس با ت کو واضح کر تا ہے کہ پاکستان تمام جنگی قوانین کو روند چکا ہے، لیکن دنیا کے تمام انسانی حقو ق کے اداروں کا خامو ش رہنا ایک سوالیہ نشان ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ وہ اگر اپنا انسانی فر ض پو را کرنا چاہتے ہیں تو وہ بلوچستان کا دورہ کر یں، بلو چ عوام پر طا قت استعمال کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ پاکستانی ریاست سے بلوچ اپنی انسانی اور بنیاد ی حق آزادی مانگ رہی ہیں۔ دنیا کے تمام قوانین، اُسے اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنی آزادی کے لیئے جدوجہد کریں۔ اس جد وجہد کو کاؤنٹر کر نے کیلئے نئے نئے حربے استعمال کیئے جا رہے ہیں، جسے ہم اجتما عی سزا کا نام دیں تو منا سب ہوگا۔ بلوچ رہنماؤ ں کے رشتہ دارو ں کو اٹھا کر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، جس طر ح ہما رے سامنے ایک مثال مو جو د ہے کہ ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کے بہنوں کو پا کستانی فوج نے اغوا کیا تھا اور انکی بیوی اور رشتہ دارو ں کو اٹھا کر لا پتہ کرکے، انہیں ذہنی تشد د کا نشانہ بنایا تھا۔ اسی طر ح استاد اسلم بلوچ کے خاندان کے خواتین اور بچوں کو اغو ا کیا گیا، یہ تما م اجتماعی سزا ہیں، جسے پاکستانی ریاست استعمال کررہا ہے۔
اب اس سلسلہ میں تیزی آئی ہے۔ تما م سیاسی کا رکنو ں کے رشتے داروں کو تنگ کیا جا رہا ہے،  یہ عمل جنگی اصولوں کے خلاف ہے۔ دراصل پاکستان جنگی مجرم ہے۔ اسے روکنے کے لیئے مہذب دنیا کو کردار ادا کرنا چاہیئے۔ یہ بھی بہت بڑا المیہ ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افر اد کی تعداد میں تیزی کے ساتھ روز افزوں اضافہ معمو ل بن چکا ہے، اجتماعی قبر وں کی برآمدگی سے بلوچ عوام کوذہنی اذیت دی جا رہی ہے۔ لا پتہ افراد کے خاندان کو ذہنی اذیت دینے میں کو ئی کمی نہیں چھوڑی جا رہی ہے۔
ایک طرف لاپتہ افراد کے خاندان ذہنی کوفت کا شکا ر ہیں۔ ان سے بھی فو ج پیسے کا مطالبہ کر تا ہے کہ آپ اگر اتنی رقم مہیا کردیں تو آپ کے بندے کو رہا کیا جائے گا،  یہ عمل کسی غریب کے لیئے کسی ذہنی اذیت سے کم نہیں۔ پاکستان فوج قبضہ گیر اور کا روبار کے لیئے بلو چستان کا رُخ کر تے ہیں، جو خو د پیسے دیکر بلوچستان میں اپنی ڈیوٹی لگواتے ہیں، تاکہ یہاں اپنا بینک بلینس بنا سکیں۔  یہاں کسی کو بلوچستان کے لیئے کوئی سوچ نہیں۔ یہ تما م بلوچ وسائل کو لو ٹ رہے ہیں۔ نہتے بلوچ عو ا م کے لیئے تنگ دستی اور غر بت لائی گئی ہے۔
آج بلو چ غر بت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں، اس جد ید دور میں بلو چ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل کا شکار ہے، جو کسی بھی انسان کا بنیا دی حق مانے جا تے ہیں لیکن وہ حقوق بھی بلوچوں کونہیں دیے جاتے ہیں۔ انکی جگہ بلو چوں کی سرزمین پر نئے نئے تجربات کیئے جاتے ہیں۔ جس طرح 28مئی 1998کونو ازشر یف اور اختر مینگل پاکستانی فو ج کے ساتھ جوہری تجربے کیلئے بلوچستان کے علاقے چاغی کا انتخاب کرتے ہیں۔  اب اُس کی تابکاری کی وجہ سے بلوچستان میں کینسر کے شرح میں روزانہ اضافہ ہو تا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے سینکڑوں لو گوں کی اموات رونما ہو چکی ہے، لیکن مو جودہ حکمرانوں کو کوئی پر وا نہیں۔ رخشان سے لے کر مکران اور سراوان میں اس کے اثرات سامنے آرہے ہیں۔ اگر حقیقی بنیاد یو ں پر تحقیق کر یں، تو حقیقت سامنے آجائے، کو ئی صر ف ایک علا قے میں اس حوالے سے ریسریچ کرے اور اسکے وجوہات جاننے کیلئے انکو کسی ایک اچھے لیبارٹریوں میں زیر معائنہ لائے تو بعید از گمان نہیں کہ اسی تابکاری کی  وجہ سے لو گ موذی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں ۔
http://thebalochistanpost.com/

среда, 25 апреля 2018 г.


ریاستی مظالم بلوچ قوم کو تحریک آزادی سے دستبردار کرانے کے لئے ہیں، ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

     مقبوضہ بلوچستان  بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذربلوچ نےمیڈیا میں جاری کردہ بیان میں کہاہے کہ پاکستان اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے بلوچ قومی وجود کو مٹانے کے لئے تمام عالمی و انسانی اقدار کو روند کرجنگی جرائم کا ارتکاب کررہاہے ۔
انہوں نے کہاکہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کی تکمیل کے لئے پاکستان اپنے سامراجی اتحادی چین کی مددسے بلوچ وطن میں بربریت کی انتہاکرچکا ہے ۔ چین بلوچستان میں اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے تجارتی منصوبوں کی آڑ میں بڑے پیمانے پر تزویراتی منصوبوں پر سرمایہ کررہاہے۔ سی پیک اور گوادر پورٹ کے علاوہ چین کاگوادر کے قریبی علاقے جیونی میں ایک بڑی نیول بیس بنارہاہے جس سے نہ صرف بلوچ قوم خطرات سے دوچار ہے بلکہ پورے خطے میں طاقت کا توازن بگڑجائے گا ۔
سی پیک سمیت تمام استحصالی منصوبے بلوچ قوم کی منشا ء اور مرضی کے بر خلاف ہیں ۔بلوچ قبضے سمیت تمام استحصالی منصوبوں کے خلاف مزاحمت کررہاہے اور چین کو نوشتہ دیوار پڑھنے کی ضرورت ہے کہ ایک قبضہ گیر کے ساتھ مل کر بلوچستان میں سرمایہ کاری تمام بین الاقوامی قوانین کی علی الاعلان خلاف ورزی ہے ۔اور چین قطعاََ اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ وہ پاکستان کے مل کر بلوچ قومی تحریک کومٹاکر خطے میں بالادستی قائم کرلیں گے ۔
ڈاکٹراللہ نذربلوچ نے کہا کہ سی پیک کے مرکزی روٹ اوراس سے منسلک لنک سڑکوں سے منسلک آبادیوں کوپاکستانی فوج تہس نہس کررہاہے۔ لوگوں کو اپنے آباؤاجدادکی زمینوں سے بیدخل کیاجاچکاہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سی پیک کے نام پربلوچ قوم اوربلوچ سرزمین کے بڑے حصے کو بری طرح تباہ کیاجارہاہے ۔
پاکستان سی پیک کی کامیابی اور آئندہ الیکشن کے لئے پہاڑوں میں موجود آباد یوں کو گن پوائنٹ پرنقل مکانی پر مجبور کرکے کیمپوں کے قریبی علاقوں میں آباد کررہاہے۔ پہاڑی سلسلوں میں آباد لوگوں کا ذریعہ معاش مالداری سے وابستہ ہے۔ اس طرح انہیں اپنی معاشی ذرائعوں سے محروم کیاجارہاہے تاکہ آنے والے الیکشن کو 2013کی طرح یکسر ناکامی سے بچایا جائے ۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہاکہ قابض ریاست سے بلوچ قوم نے اپنی جمہوری حق کا اظہار 2013کے الیکشن میں کرچکاہے، جسے جمہوریت کی پیمانوں میں ایک استصواب رائے کی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن پاکستان دنیاکو گمراہ کرنے کے لئے ایک بار پھر الیکشن کی تیاریو ں میں مصروف ہے۔ بندوق کی زور پر الیکشن کی تیاری ہی خود اس بات پر دلالت کرتاہے کہ بلوچ قوم پاکستانی فریم ورک کے اندر کسی سیاسی عمل کا حصہ نہیں ہیں ۔
ڈاکٹر اللہ نذربلوچ نے کہاکہ وادی مشکئے میں32خواتین اور بچے پاکستانی فوج اور اس کے ڈیتھ سکواڈکے قبضے میں ہیں۔آواران کے مختلف علاقوں میں آبادیوں کو فوجی کیمپوں کے نزدیک رہنے پر مجبور کیاجارہاہے ۔ڈیرہ بگٹی میں خواتین شہید کئے گئے ہیں۔ تربت میں سیکورٹی فورسز خواتین کو گھروں سے نکال رہے ہیں۔ جنگی حالات میں خواتین ،بچے اورنہتے لوگوں کو حراساں کرنا ،انہیں نقصان پہنچانا تمام عالمی قوانین کے خلاف ورزی ہے ۔بمبور میں پاکستانی جنگی جہاز کئی دنوں سے مسلسل بمباری کررہے ہیں۔ زمینی فوج بلوچ قوم پر جبر و وحشت کی انتہا کررہاہے ۔ لہڑی سمیت کئی علاقوں میں لوگوں کے تیار فصلو ں کو نذرآتش کیاجارہاہے۔ پاکستان کے گن شپ ہیلی کاپٹر اور جیٹ جہاز بلوچ آبادیوں پر آگ برسارہے ہیں ۔یہ تما م مظالم بلوچ قوم کو تحریک آزادی سے دستبردار اور پاکستانی قبضے کو تسلیم کرانے کے لئے کئے جارہے ہیں لیکن قوموں کی تاریخ اس بات کا گواہ ہے کہ زندہ قوموں کو نسل کشی ،جبر و وحشت اور انسانیت سوز مظالم سے جھکایا نہیں جاسکتاہے ۔
بلوچ قوم ماضی میں بھی قبضہ گیریت کے خلاف لڑکر اپنے مادروطن کا حفاظت کرچکاہے اور آج بھی بلوچ پنجابی قبضہ گیریت کے خلاف اپنے لہو سے اپنے وطن کی حفاظت کرکے تاریخ کے سامنے سرخرو ہورہاہے ۔
ڈاکٹراللہ نذربلوچ نے اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ عالمی ادارے مزید غفلت کے بجائے بلوچستان کو متنازعہ علاقہ قرار دیں اوربلوچستان میں پاکستان کے مظالم ،نسل کشی اور جنگی جرائم کے روک تھام کے لئے فوری اقدام اٹھائیں
۔

воскресенье, 22 апреля 2018 г.


وہ قیامت کی گھڑی تھی ۔۔۔۔۔تحریر:۔صباء بلوچ

میری دولہا بھائیو ں کو سرخ سلام ۔
لوگوں کے لئے آج کا دن شایدمعمول کاایک دن ہے مگر میرے لئے یہ دن کا قیامت کی گھڑی ہے۔ آج ہی کے دن یعنی 21 اپریل 2015 کی رات 4 بجے کے وقت پاکستان کے ناپاک آرمی فورسزنے مشکے کے علاقے گورجگ میں ہمارے گھر پر اس وقت دھاوابولا جب ہمارے گھر میں میری بھائی اعجاز جان اور میری کزن شاہنواز جان اور باسط جان کی شادی اورشادی کی خوشیاں جاری تھیں۔

شہنوازجان کی شادی کا دوسرااورباسط جان کی شادی کا تیسرا دن تھا اوراعجازجان کے نکاح کی رات تھی ،پوراخاندان خوشی سے جھوم رہاتھا،اپنے بھائیوں کی شادی میں بہن خوشی سے نہال تھے ،ہمارے گھر میں پے درپے پاکستانی فوج کے حملوں اور دربدری سے ہم اکھٹے ہوکر خوشیاں منانے کے لئے ترس رہی تھیں کہ یہ موقع آیاکہ تین بھائی ایک ہی وقت میں دلہا بن چکے تھے۔ ہمیں قطعاََ یہ معلوم نہ تھی کہ خوشیوں کے یہ دن ہمارے قیامت بن جائیں گے اور ہم زندگی بھر اپنے دلہا بھائیوں کی شہادت کے آگ میں سینہ بریان ہوں گے ۔
رات کی آخری پہر جب دلہا عجلہ عروسی میں محو خواب تھے کہ فرعونی لشکر ٹوٹ پڑا ،اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کو دیکھ کر ہم سب سہم گئے، فوجیوں نے سب سے پہلے دلہابھائیوں اور آفتاب جان کو گھسیٹ کرایک جگہ اکھٹاکیا ،اس کے بعد فوجی درندے دیگر رشتہ داروں اور بچوں کو گرفتار کرکے لے جارہے تھے میری ماں نے چلا کر کہا’’ہمارا کیا قصور ہے ،ہم پر ایسی ظلم کیوں کررہی ہو؟‘‘
ایک آرمی والاجو شاید ان کا افسر تھااس کی آنکھوں سے جیسے انگارے برس رہے ہوں نے بڑھ کر میری ماں سے کہا’’آپ سب غدار ہیں، ملک توڑنا چاہتے ہیں‘‘۔
میری ماں اپنی بچوں کے ساتھ یہ ظلم دیکھ کرچپ ہونے کے بجائے اور بولتی رہی کہ’’ مجھے ماریں لیکن میرے بچوں کو چھوڑدیں،یہ دولہا ہیں،ان کے ہاتھوں کی مہندیاں دیکھیں ‘‘
بھائیوں کو ایسی درندوں کے ہاتھ میں دیکھ کر میں بھی ہوش و حواس کھوچکی تھی میں جوں ہی آگے بڑھی کہ بھائیوں کو بچالوں تو ایک فوجی نے بندوق کے بٹ اور لاتوں سے مجھے مارنا شروع کیا میں نے انہیں خدا کا واسطہ دیاکہ ’’کیا تم لوگوں کو خدانہیں ہے ، جو ہم پر اتنا ظلم کرہے ہو‘‘ تو ان کے آفیسر نے جواب دیا’’تم لوگوں کو مارناجہاد ہے،تم لوگ مسلمان نہیں ہو،‘‘۔
میں اس وقت اسلام اور جہاد کی تشریح سے قاصر تھی مگر یہ اندازہ ضرور ہوا کہ یہ آرمی والے کیسے اسلام کے پابند ہیں جس میں معصوم لوگوں کو مارنا ثواب سمجھا جاتاہے ۔
میں ،میری ماں گھرکے دوسرے خواتین اور بچوں کی چیخوں اور آہ و زاری سے قیامت کا منظر تھا ،ہم فوجیوں سے التجائیں کررہی تھیں ،انہیں خدا کا واسطہ دے رہی تھیں۔ شاید ہمیں اندازہ نہ تھا کہ مہندی کی رنگوں سے سجے ہمارے دلہا بھائی اپنی ہی لہوسے سجنے والے ہیں۔
ہماری فریادیں ان ظالموں کے دلوں کو موم نہ کرسکیں اور ہمارے دولہا بھائیوں کے ساتھ کئی رشتہ دار اور گاؤں کے دوسرے لوگوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر ٹرکوں میں بھرکر لے گئے ۔میری بھائیوں اوردوسرے رشتہ داروں کو آرمی والوں نے اپنی قریبی کیمپ لے گے کیونکہ تحصیل مشکے میں 40 یا 50 چھوٹے اور بڑے کیمپ اور چوکیاں موجود ہے ،مشکئے میں ہرجانب فوج ہی فوج نظر آتاہے ،کسی کو آرمی اور کسی کو ایف سی کہاجاتاہے لیکن ہماری نظروں سے دیکھوتو سب قاتل ہیں ،سبھی کے ہاتھ معصوم بلوچوں کے ہاتھوں سے رنگین ہیں۔ہر کلو میٹر یا آدھا کلو میٹر پر ایک چوکی موجود ہے جن کاکام تشدد،قتل اور لوٹ مار ہے۔
میرے دولہا بھائیوکو دیگر بلوچ قیدیوں جیسا سالوں سال قید میں نہیں رکھا گیابلکہ اسی ایک رات میں ان پر اتنا تشدد کیاکہ وہ صبح تک سب کے سب شہید ہوگئے ۔
ہمیں مگرمعلوم نہ تھا ،ہم اپنے دلہا بھائیوں کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ واپس آئیں گے کہ مبارک باددینے کے لئے جمع ہونے والے رشتہ دار اور قرب و جوار کے لوگ انہیں مبارک باددیں گے ۔لیکن ہماری نصیب میں خوشی کے بجائے قیامت خیزدرداور رنج والم کاداستان تو لکھا جاچکاتھا بس ہمیں معلوم نہ تھا،شام پانچ بجے ہمیں ہمارے بھائی دولہا سے شہید دولہا بن گئے اور ان کی میتیں گھر لائی گئیں گھر کا وہ سماں میں قیامت تک نہیں بھولوں گی ۔میں نہیں جانتی کہ قیامت اس سے بھی زیادہ بھیانک ہوگی۔ہم محشر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں ،ہمارے حواس ہمارے ساتھ نہیں تھیں۔ہمارے دولہابھائیوں پر ان درندوں نے ایسی تشدد کی تھی کہ جیسے انہیں درندوں نے نوچ لیاہواورحقیقت میں بھی انہیں درندوں نے نوچ لیا تھا ،یہ فوجی انسان نہیں ہیں درندے بلکہ درندے سے بدتر ہیں ۔
شام 5 بجے ہم تک ہمارے دولہا بھائیوں کی میتیں پہنچائی گئیں ہم نے اپنے بھائیوں اور میری ماں اور میری خالہ نے اپنے دولہا بچوں کی لاشوں کو دیکھا تو رات کو جن ہاتھوں پرمہندی تھا، ابھی پورے جسم لہولہاں تھا وہ کون سنگ دل ہوتا ہے جو یہ نظارہ برداشت کر سکے۔ یہ قیامت کے منظر کا دیکھ کر میری ماں اور خالہ سمیت گھر کے کئی لوگ بے ہوش ہوگئے ۔جب ماں اور خالہ ہوش میں آگئے اس وقت دولہاؤں کی آخری دیدارہورہاتھا،میری ماں اور خالہ نے اپنے شہیدوں کادیدار کیااور پھر بے ہوش ہو گئے۔ شہداء کو خاندان کے ارمانوں کے ساتھ دفن کردیاگیااور بعد میں اسلام کے پاسبان پاکستانی فوج نے بیان دیاکہ’’ آج دہشت گردوں نے ہم پہ حملہ کیا اور جوابی فائرنگ سے چار حملہ آور مارے گئے ہیں۔
پاکستان اورپاکستانی فوج کچھ بھی کہے لیکن ہماری نظروں کے سامنے بھائیوں کو درندوں نے اٹھاکر لے گئے اورایک ہی رات میں انہیں تشددکرکے شہید کیاگیاپورے گاؤں کو معلوم ہے کہ آرمی اور ایف سی والوں نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارکرانہیں اٹھایاتھا۔یہ پاکستان کے آرمی کب تک جھوٹ بولتا رہتا ہے؟ ایک نہ ایک دن ضرور ان کا جھوٹ دنیا کے سامنے عیاں ہوگا اور انشااللہ ہوگا ۔آج 21اپریل 2018 میری دلہا بھائیوں کی شہادت کوتین سال مکمل ہوگیاہے لیکن میرے بھائیوں کا درد ہرے زخم کی طرح ترو تازہ ہے ،میری ماں اب بھی اپنے جوان بیٹوں کو یاد کرکے بے ہوش ہوجاتی ہیں ۔اپنوں کو کھونازندگی کا سب سے بڑی درد ہے لیکن میں جانتی ہوں کہ یہ صرف میری خاندان کا درد نہیں ہے بلکہ بلوچستان کے ہر ماں اور بہن میری طرح ایسے ہی درد جھیل رہی ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میرے دولہابھائیوں نے مادروطن کی آزادی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیاہے ۔میرے بھائیوں نے آزادی کے لئے اپنا لہوبہایاہے جب پوری قوم انہیں خراج عقیدت پیش کرتاہے توہمیں احساس ہوتی ہے پوری قوم ہماری درد میں شریک ہے تویہ احساس ہماری حوصلوں کو اوربلند کردیتی ہےhttps://dailysangar.com/home/page/10671.html

понедельник, 16 апреля 2018 г.

قضیہ ستائیس مارچ: روگردانی یا راہ فراریت؟ – حکیم واڈیلہ

قضیہ ستائیس مارچ: روگردانی یا راہ فراریت؟
حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
‏‎” یہ جنگ، آزادی کی جنگ ہے،یہ جنگ بلوچ قوم نے خود شروع کی ہے، یہ جنگ مادرِوطن بلوچستان کی آزادی کے ساتھ ہی ختم ہوگی ، کیونکہ بلوچستان ایک آزاد ملک تھا ، اسکی آزاد حیثیت تھی بلوچ قوم ایک آزاد قوم تھا، 27مارچ 1948ء کو پاکستانی ریاست نے بین الاقومی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے، بلوچستان پر جبراً قبضہ کیا، جسے الحاق کا نام دیا گیا، شروع دن سے بلوچ قوم نے اس جبری الحاق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔”
‏‎
مندرجہ بالا الفاظ شہید قائد واجہ غلام محمد بلوچ کے کراچی لیاری کے خالق جمعہ حال میں تاریخی خطاب سے اقتباس ہیں اور تاریخی سچائی بھی یہی ہے۔ اگر اس تاریخی سچائی سے کوئی صرفِ نظر کرے یا انکار کرے تو پھر وہ کسی بھی طرح بلوچ قومی آزادی کی تحریک کا حصہ نہیں بن سکتا، کیونکہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک اسی بنیاد پر استوار ہے اور بلوچ قومی سوال اسی حوالے کی متقاضی ہے۔ بنیادی اہمیت کے حامل اس بیانیئے و مذکورہ عنصر کی وجہ سے متعدد بار بلوچ قومی مزاحمت جاری و ساری رہی 1948ء 1958ء تا 1960ء 1962ء تا 1969ء 1973ء تا 1977ء اور موجودہ جاری تحریک جو اب 19 ویں سال میں داخل ہوچکی ہے، جو گذشتہ تمام تحاریک سے زیادہ وسیع ہونے کے علاوہ بین الاقومی اہمیت بھی اختیار کرچکی ہے اور جانی و مالی قربانیاں بھی سب سے زیادہ دے چکی ہے۔
اس پوری صورتحال کے باوجود ہمارے محترم رہنما کا یہ بیان کے صرف قلات نے الحاق کیا تھا اور بلوچستان کے باقی ریاستوں اور قبائل نے رضاکارانہ طور پر پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی، قصّہ ختم کے مصداق ہے۔ محترم رہنما سے ہم یہ بھی پوچھنے کی جسارت نہیں کرسکتے کہ پھر ہزاروں جانوں کی قربانیاں، ہزاروں بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیاں ہمارے عظیم رہنماؤں کی جانی قربانیاں، کیا سب نورا کشتی تھے؟ یا پھر بلوچ قوم کو اپنی زندگی پیاری نہیں کہ وہ ہر وقت قابض ریاست سے اسلحہ بدست برسریپکار ہے؟ کیا بلوچ قوم کو مرنے کا شوق ہے؟ کیا بلوچ قوم غنڈہ یا داداگیر ہے جو ہر پل لڑتا جھگڑتا ہے؟ یا اسے کوئ اور کام آتا ہی نہیں ؟ ایسی صورتحال جو گذشتہ 70 سالوں سے بلوچستان میں پیش آرہا ہے۔ اس قسم کی صورتحال کا سامنا سندھ ، پختونخواں حتیٰ کہ پنجاب کو کیوں درپیش نہیں؟ حتیٰ کہ مظلوم سندھی قوم بھی بھیانک غلامی سے دوچار ہیں، سندھی قوم نے صرف 1983ء میں عملی طور پر بھرپور جنگ لڑی لیکن بلوچ قوم کی طرح تسلسل کے ساتھ نہیں۔
‏‎
آج بین الاقومی طور پر پاکستانی ریاست یک تنہا ہے اور اندرونی طور پر ایک خطرناک داخلی بحران کا شکار ہے۔ اس قسم کے بحران کا سامنا اس ریاست اور اس کے حکمرانوں کو کبھی پیش نہیں آیا۔ امریکہ، یورپ کے علاوہ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک نے بھی اپنی راہیں جداکردی ہیں۔ چین جسے پاکستانی نام نہاد دانشور قابلِ اعتماد دوست سمجھتے ہیں تذبذب کا شکار ہیں اور پاکستانی حکمرانوں کو واضح کرچکی ہے کہ وہ اب اپنے جاری منصوبوں کو تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا کیونکہ ان منصوبوں کےلیئے ذمینی حقائق ساز گار نہیں اور پاکستانی ریاست کے پاس سوائے کرپشن کے کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں پاکستانی حکمرانوں اور خاص کر فوج نے طفیلی بن کر usa کے مفادات کی جنگوں میں ملوث ہوکر سوویت یونین کے خلاف ایک قلعے اور محاذ کی حیثیت اختیار کی، مذہبی جنونیت کو پروان چھڑایا، جسکے نتیجے میں فوجی جرنیل اور ان کے خاندان کھرب پتی بن گئے۔
ان جرنیلوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاکر اپنے خطرناک عزائم کےلیئےراستہ ہموار کیا اور ساری دنیا میں اپنے پراکسی جہادی قوتوں کو پھیلایا ۔ مگر اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے اور usa یورپ وغیرہ کے مفادات تبدیل ہوگئے ہیں اور دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں، اس صورتحال میں اب پاکستانی ریاست عالمی پالیسیوں سے مربوط نہیں رہے۔ usa اور دوسری یورپی طاقتیں واضح طور پر حقانی نیٹ ورک، جرنیلوں کے ایٹمی ذخائر اور فوج کی بڑی تعداد کو ماننے پر تیار نہیں۔ مگر پاکستانی فوج کے کھرب پتی جنرل کسی بھی طرح پیچھے ہٹنے سے انکاری ہیں۔ اسلیئے usa اور دوسری عالمی قوتوں نے بھرپور تیاری کے ساتھ یہ فیصلہ کررکھا ہے کہ اس دہشت پسند ریاست کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔
‏‎
مگر ستم دیکھیں ہمارے رہنماء اس اہم ترین موڑ پر بجائے usa اور یورپ کے اتحادی بننے کے اُلٹا ان جرنیلوں اور پاکستان کا اتحادی بننے جارہے ہیں۔ قدرت اور حالات نے بلوچ قومی امنگوں اور آرزؤں کی تکمیل کا ایک شاندار و نادر موقع فراہم کیا ہے۔ مگر صد افسوس کے ہمارے ان رہنماؤں کے ناتواں کندھے اس عظیم قومی ذمہ داری کو سہار نہیں پارہےہیں یا پھر شاہد ہمارے رہنماء پاکستان کو باور کرانا چاہتے کہ وہ اس زبردست موقع کا ہم فائدہ نہیں اٹھانا چاہ رہے ہیں، بلکہ اس نازک صورتحال میں وہ پاکستان کیساتھ کھڑے رہنا چاہتے ہیں۔ یہ رہنماء، سمجھ رہے ہیں کہ اس احسانِ عظیم کے بدلے میں پاکستانی حکمران انہیں طلائ تمغوں سے نوازینگے، انہیں نوبل پرائز کا حق دار تسلیم کرینگے اور پاکستان کا اقتدار اعلیٰ بلاچوں و چرا ان کی قدموں میں نچھاور کرینگے۔ پاکستانی جرنیل ان کے آگے سر تسلیم خم کرینگے اور انھیں اپنا آقا و سردار مان جائینگے۔
‏‎
بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے کافی عرصے سے اندازہ لگایا تھا کہ ان رہنماؤں اور پاکستانی اتھارٹیز کے درمیان اندر ہی اندر بات چیت جاری ہے اور کافی معاملات طے پاچکے ہیں۔ ان رہنماؤں نے اس سب کو انتہائی خفیہ رکھا اور اپنے چند جی حضوروں کے علاوہ کسی کو بھی بتانے کی ضرورت گوارا نہیں کیا۔ حالانکہ ہمارے یہ قائدین اپنی پارٹیوں اور تنظیموں کو بھی بائی پاس کرگئے جو پارٹی ڈسپلین اور آئین کی صریحاً اور دانستہ خلاف ورزی تھی (عجب تماشہ ہےکہ پارٹی ڈسپلن اور آئین کی خلاف ورزی کےالزامات ہم پر لگائے جارہے ہیں ),کافی کچھ معلوم ہونے کے باوجود ہم نے قومی آزادی کی عظیم تحریک کی خاطر ان چیزوں کو میڈیا میں ڈسکس نہیں کیا۔ تاکہ مایوسی نہ پھیل جائے، چونکہ بلوچ سرفیس سیاست کو قابض ریاست نے انتہائ ظالمانہ انداز میں کچلا ہوا ہے، جسکی وجہ سے سرفیس کے کارکن جلاوطن ہوئے اور روپوش ہوگئے۔ سرفیس کی عدم موجودگی میں اب ترب کا پتہ ان رہنماؤں کے ہاتھ میں تھا، لیکن ہماری امیدوں کا مرکز ہمیشہ ہمارے عظیم سرمچار رہے۔
ہم اب بھی امید اور یقین کے ساتھ قومی آزادی کی عظیم تحریک سے وابسطہ ہیں۔ ہمیں کسی کے سرٹیفکٹ کی ضرورت نہیں۔ نہ ہم نے پارٹی ڈسپلین کی خلاف ورزی کی ہے اور نہ ہی آئین کو پامال کیا، بلکہ ڈسپلن اور آئین کی دھجیاں انہوں نے خود اڑائی ہے۔ ان کے خیال میں یہ رہنماء خفیہ طریقے سے پاکستانی حکمرانوں سے ڈیل کرکے تحریک کو لپیٹ دینگے۔ یہ قبائلی اور شخصی سحر سے باہر نہیں نکلے ہیں، مگر اب 1970ء کی دھائی نہیں ہے اور نہ ہی عالمی حالات اور خطے کی صورتحال 1970ء کی دھائی جیسی ہے اور نہ ہی بلوچ قومی تحریک کسی قبیلے یا کسی شخصیت کے گرد گھوم رہی ہے۔ بلوچ قومی آزادی کی جڑیں بہت مضبوطی کے ساتھ پیوست ہوچکی ہیں۔
‏‎
اگر ہمارے رہنماء یہ سمجھتے کہ پاکستان کے ساتھ ڈیل کرکے ہفت آسمان فتح کرینگے تو جائیں کرکے دیکھ لیں، پھر انہیں اندازہ ہوگا کہ پاکستان انہیں چند مراعات اور چند خوشامد کے سوا کچھ دے ہی نہیں سکتا۔ آج ہمارے ان رہنماؤں کو جو عزت مقام اور وقار نصیب ہوسکا، تو یہ سب قومی آزادی کی تحریک اور ہمارے عظیم شہدا کی جانگسل جدوجہد کی مرہون منت ہے، ورنہ تحریک کے بغیر ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہاں یہ اپنے قبیلے کے رہنماء ضرور ہونگے جس طرح اسلم رئیسانی اور ثنااللہ زہری ہیں۔ یا پھر واپس جاکر وہاں اپنی ایک پارٹی بنائینگے جس طرح ڈاکٹر مالک کی بھی ایک پارٹی ہے۔ تو انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئےکہ کام نکل جانے کے بعد جس طرح پاکستانی ریاست نے مالک اور ثنااللہ زہری کو دودھ میں مکھی کی طرح نکال باہر پھینکا ایسے ہی ان کا بھی مقدر ہوگا۔
‏‎
یہ ایک فطری امر ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی اور عزت بہت پیارے ہوتے ہیں اور ان کی حفاظت کے لیئے وہ سب کچھ کرگذرتا ہے۔ یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہےکہ پاکستانی بحران زدہ ریاست میں بلوچ قوم کی زندگی اور عزت محفوظ نہیں اور حیرت کی بات ہے کہ آج ہمارے رہنماؤں کے پاس بھی بلوچ قوم کی زندگی اور عزت محفوظ نہیں ہے۔ یہ کچھ بھی کرلیں لیکن قومی آزادی کی تحریک کو کوئی طاقت اپنے منزل تک پہچنے سے نہیں روک سکتا اور وہ منزل بلوچ قوم اور مادروطن بلوچستان کی آزادی ہے۔ کیونکہ قومی تحریک آزادی کے بنیادوں میں ہمارے شہید قائد واجہ غلام محمد اور ان کے ساتھی لالا منیر بلوچ ، شیر محمد بلوچ ، ہمارے عظیم جنرل شہید بالاچ مری ، ہمارے عظیم کمانڈر شہید خالد بلوچ، ہمارے عظیم کمانڈر شہید امیر بخش لانگو( شہید سگار )،ہمارے عظیم بزرگ ہستی ڈاڈا ئےبلوچ نواب شہید اکبر خان بگٹی، ہمارے معلم آزادی شہید صباء دشتیاری( قندیل) ہمارے بزرگ محترم بابو نوروز خان اور آپکےعظیم جانثار ساتھیوں، ہمارے جواں سال شہید حمید بلوچ ،شہید مجید بلوچ ،شہید فدااحمدبلوچ، شہید اسد اللہ مینگل، شہید سفرخان اور ہزاروں شہدا کا مقدس لہو شامل ہے اور پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں گمشدہ کیئے گئے ہزاروں بلوچ فرزندوں کی امنگیں اور آرزوئیں مچل رہی ہیں۔
http://thebalochistanpost.com/

среда, 11 апреля 2018 г.


وادی مشکے:پاکستانی فوج ،ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے عقوبت خانوں میں چالیس سے زائد بلوچ خواتین و بچے قید 
وادی مشکے( مقبوضہ بلوچستان) وادی مشکے ایک ہی خاندان کے چالیس سے زائد افراد جن میں زیادہ تعداد بچوں و خواتین کی ہے تاحال پاکستانی فوج و ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کی تشدد خانوں میں زندگی و موت سے دوچار ہیں۔
وادی مشکے جو پچھلے کئی سالوں سے پاکستانی زمینی و فضائی آپریشنوں کا شکار ہے،وہاں عوام آئے روز فوج و ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ سردار علی حیدر محمد حسنی کی بربریت کا شکار ہیں۔ یکم دسمبر2017 کو جاری آپریشنز میں تیزی لاتے ہوئے ایک اور بڑے آپریشن میں جہاں کئی افراد کو شہید کیا گیا جس میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں اسی آپریشن میں میر علی محمد جنکی عمر 70 سال ہے، انکے خاندان کے29 افراد جن میں پانچ مرد اور باقی خواتین و بچے شامل ہیں کو پاکستانی فوج نے حراست میں لیا اور انکے ساتھ میر علی محمد حسنی کے قریبی رشتہ داروں شکاری عرض محمد کے خاندان کے کئی افراد کوحراست بعد آرمی کیمپ منتقل کیا گیا۔ جو اس وقت پاکستانی فوج و سر داد علی حیدر محمد حسنی کی عقوبت خانوں میں بند ہیں۔
دوران آپریشن فورسز کے ہاتھوں حراست بعد آرمی کیمپ منتقل کیے جانے والے افراد کی تفصیل۔
میر علی محمد،محمد حسنی جس کو یکم دسمبر2017 کے بڑے آپریشن دوران فوج نے خاندان سمیت حراست میں لے کروادی مشکے آرمی کیمپ منتقل کیا ،جو اس وقت پاکستانی فوج اور سردار علی حیدر محمد حسنی کے مشترکہ قید خانہ میں اپنے خاندان کے ساتھ بند ہے۔
میر محمد علی جو 70 سال کے بزرگ ہیں اور پیروں سے معذور ہیں۔
۔۔۔بی بی عزیزہ زوجہ اول ۔محمد اسماعیل ولد علی محمد
۔۔۔مہیم خان۔ عمر 15 سال
۔۔۔کریم خان عمر 13 سال
۔۔۔وحید خان عمر 11 سال
۔۔۔نصرت عمر 9 سال
یہ افراد محمد اسماعیل کے پہلے بیوی کے بچے ہیں ،جو ماں کے ساتھ فوج و ڈیتھ اسکواڈ کے زیر حراست ہیں۔
۔۔۔فرید زوجہ ، محمد اسماعیل ۔ زوجہ دوئم
۔۔۔مجیب الرحمان عمر 8 سال
۔۔۔خلیل عمر 6 سال
۔۔۔عبداللہ عمر 4 سال
۔۔۔حسیدہ عمر 2 سال
۔۔۔حمیدہ عمر 9 ماہ
یہ اسماعیل بلوچ کے دوسرے بیوی و بچوں کی تصیل ہے جو زیر حراست ہیں۔
عبدالمالک ولد علی محمد عمر38 سال
مریم زوجہ عبدالمالک عمر 35 سال
عبدالمالک کے پانچ لڑکے جن میں سے بڑے بچے کی عمر12 سال ہے اور ایک بیٹی جو ایک سال کی ہیں۔عبدالمالک بلوچ کے خاندان کے 8 افراد کے ساتھ زیر حراست ہیں۔
۔۔حا جی رحیم ولد علی محمد عمر 36 سال ہے اپنے زوجہ 6 بچوں سمیت پاکستانی فورسز و ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ علی حیدر محمد حسنی کے تشدد خانوں میں بند ہے۔
۔۔۔گل پری زوجہ رحیم عمر 30 سال
۔۔۔علی احمد ولد رحیم عمر 9 سال
۔۔۔یار جان ولد رحیم عمر 6 سال
۔۔۔رحیم بلو چ کے دو بیٹیاں جن میں سے ایک کی عمر4 سال اور ایک 6 ماہ کی ہیں۔
۔۔اقبال ولد علی محمد عمر 34 سال۔
ناز گل زوجہ اقبال عمر28 سال جو کچھ روز قبل دوران حراست شہید ہو گئیں تھیں۔ اقبال بلوچ کی دو بچیاں جنکی عمریں3 سال اور ایک سال ہیں۔اس خاندان کے 4 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا ایک خاتون شہید ہوئیں اور اس وقت اقبال بلوچ دو بچیوں سمیت حراست میں ہیں۔
ْ۔واجہ علی محمد کے خاندان کے ساتھ اس کے قریبی رشتہ دار غوث بخش ولد شکاری عرض محمد کا خاندان۔غوث بخش کے بھائی عبدالنبی، اور اسکا خاندان بھی فورسز و ڈیتھ اسکواڈ کی قید میں ہے۔ جبکہ اسی آپریشن میں غوث بخش ولد عرض محمد شکاری اسکی بیوی اور ایک14 سالہ بیٹی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ سے شہید ہو گئیں تھیں
۔
https://dailysangar.com/home/page/10488.html

понедельник, 9 апреля 2018 г.


خدا حافظ واجہ۔۔۔۔انور ساجدی

میرا بے رحم قلم زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ''گلو گیر ''نہیں ہوا،ہر بڑے واقعہ کو ہر سانحہ کو ہر شہادت کو اس نے پوری قوت کے ساتھ رقم کیا لیکن آج پہلا موقع ہے کہ یہ ڈگمگا رہا ہے عقل حیران ہے دل پریشان ہے اس لئے الفاظ اور قلم ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔
اس سانحہ کو اس عظیم شہادت کو رقم کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں اگر چہ یہ شہادتوں کے نہ رکنے والے سلسلہ کا تسلسل ہے لیکن میرا دل کہہ رہا ہے کہ شہادتیں کچھ الگ سی ہیں ان کی شان کچھ جدا ہے اور یہ تاریخ میں کچھ الگ انداز سے رقم کرنے کی متقاضی ہیں۔

رندوں کی سر زمین مند جس نے ایسا بیٹا جنا کہ وہ اس پر صدیوں تک نازاں رہے گا،حقیقت یہ ہے کہ چند سال قبل جب واجہ غلام محمد ہم سے بحث کرتا تھا ناراضگی کا اظہار کرتا تھا تو ہمیں یقین نہیں آتا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس پر عمل کر کے دکھائے گا اور جو اس کا عزم ہے وہ کر گزرے گا،گذشتہ سال وہ مخصوص بلوچی''دزمال''(جو ایک ریشمی کپڑاہے اور جسے مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان) میں پہنے کا زیادہ رواج ہے) پین کر تو میں نے اس کی وجہ پوچھی واجہ نے کہا کہ یہ کفن ہے اور اس میں خونی رنگ ہے وہ 3اپریل کو اسی کفن کے ساتھ اٹھائے گئے اور اسی کفن میں شہادت کے عظیم رتبہ پر فائز ہو گئے اس کی مغفرت کی دعا اس لئے ٹھیک نہیں کہ شہید کی مغفرت پہلے سے ہو چکی ہوتی ہے۔
واجہ غلام محمد نے مکران کے خطے مین وطن دوستی جد و جہد اور تحریک کو ایک نیا اسلوب دیا وہ گذشتہ پانچ سالون میں کئی بار جیل گیا بار بار تشدد اور اذیتیں برداشت کیں لیکن ان کے لبوں پر کوئی شکوہ نہیں تھا اسے معلوم تھا کہ جس راستہ کا انتخاب اس نے کیا ہے اس میں یہ سب کچھ تو ہو گا۔خوشی کا مقام ہے کہ اس نے اپنا سر بلند رکھا جو کت تو گیا لیکن جھکا نہیں،دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس شان کا مظاہرہ کرتے ہیں غلام محمد نے ایک بہت کھٹن مگر شاندار سنت قائم کی ہے جس پر عمل کرنا ہر کسی کا کام نہیں۔
نواب شہباز اکبر نے جو روایت قائم کی غلامحمد نے نہ صرف اس کا تسلسل برقرار رکھا بلکہ اسے ایک نئی جہت عطاء کی،نواب نے ساحل و وسائل کا نعرہ لگا کر تراتانی کے پہاڑوں کو گلنار کر دیا لیکن غلام محمد کا سرخ لال خون بحرہ بلوچ کے پانیوں میں مل گیا جب تک یہ پانی ہیں جب تک بحرہ بلوچ سوکھ کر خشک نہیں ہو جاتا یہ لال خون اس کہ سطح پر تیرتا رہے گا،اس شہادت کی گواہی دیتا رہے گا،اتنا بہتر گواہی شاہد ہی کسی لیڈر کی قربانی کا ہو،واجہ کے ساتھ لالہ منیر نے جس ثابت قدمی جوانمردی اور بہادری کے ساتھ دیا اس کے لئے ''یار غار ''کا لقب درست ہوگا،لالہ منیر پنجگور کا ''عظیم سپوت''جس نے رخشان ڈیلٹا کو درخشندہ بنا کر اپنا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کر دیا معلوم نہیں کہ منیر سے پہلے اس علاقہ کے کتنے لوگوں نے اپنی دھرتی پر خون نچھاور کیا لیکن یہ بات طے ہے کہ لالہ جیسی قربانی ایسی شہادت ایسی شان شائد کسی نے دکھائی ہو پنجگور کی خوبصورت وادیاں عظیم دریائے رخشان اس کے نخلستان اس کے مچھکدے اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لالہ منیر کے نام سے منسوب رہیں گے انہون نے دھرتی اور ''بلوچیت''کا حق ادا کر دیا۔
شیر محمد بلوچ تو تھا ہی شیر اس نے کئی سال قبل پہلے نواب اکبر خان کی جماعت میں شامل ہو کر اپنا راستہ جدا کرلیا شیر جان نے باقی
سارے ساتھیوں سے زیادہ جیل کاٹی لیکن اسے راستے سے نہ ہٹا سکے۔
شیر جان نے اپنے نام کی لاج رکھ لی اس نے ٹیپو سلطان کا یہ مقولہ سچ ثابت کر دکھایا کہ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈرکی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔‘‘
آج تاریخ میں دکن کے غدار میر قاسم کو بہت بُرا سمجھا جاتا ہے اس کی وطن فروچی پر سارا ہندوستان لعنت بھجتا ہے لیکن ٹیپو کو اس کی قربانی کو اس کی شجاعت کو تاریخ کھبی فرا موش نہیں نہیں کر سکتی۔
میں بہت بوجھل دل کے ساتھ تینوں شہداء کو خدا حافظ کہتا ہوں لیکن تینوں شہداء ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہیں گے، ان کی قربانی روشنی کی مانندآنے والوں کی رہنمائی کرے گی۔ نواب اکبر خان،خالد،میر بالاچ اور اس کے بعد ان تین شہادتوں اور بے شمار شہادتوں کے بعد کہنے اور سننے کے لئے کیا رہ گیا ہے۔انہوں نے اپنی قوم کو ایک بہت بڑی آزمائش اور مشکل میں ڈال دیا ہے ان کے راستے پر چلنا جو سوئے دار کی طرف جاتا ہے ایک کھٹن کام ہے ان کی قربانی سے منہ موڑنا بے وفائی ہے یہ ایک مشکل صورتحال ہے ممکن ہے کہ وقت ان شہادتوں زخم مند مل کر دے یا یہ شہادتیں طوفان اور سونامی کی شکل اختیار کر لیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن جو لوگ تحریک کی قیادت کر رہے ہیں ان کے لئے غور و فکر کا مقام ہے کہ وہ کس طرح ایک بہتر اور کار گر حکمت عملی اپنا کر چلیں قومی تحریک میں شہادتیں اور قربانیاں کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی یہ دھرتی پر احسان ہے ان کا مسئلہ تو جاری رہے گالیکن اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اتنی بھاری قیمت کے بدلے میں کیا کچھ ملے گا کیا سودے باقی گنجائش ہے، مفاہمت مصالحت درمیانی راستہ وغیرہ کی اصطلاح میں استعمال ہویے رہیں گی، غلام محمد بلوچ،شیر محمد بلوچ اور لالہ منیر کو جن لوگون نے اُٹھایا اور قتل کیا وہ کون تھے....؟
اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے اگرچہ ان کی نشامدہی مشکل ہے لیکن اس پر سوچا جانا چاہئے۔

(بشکریہ روزنامہ انتخاب کوئٹہ)
https://dailysangar.com/home/page/10464.html


شہید غلام محمدبلوچ , ایک انقلابی لیڈر --- شہید ڈاکٹر منان بلوچ 


جب بھی دنیا میں معاندانہ تضادات جنم لیتے ہیں اُ نھیں توختم کرنے کیلئے اسی طر ح ایسے افراد بھی پیدا ہوتے ہیں جنکی جسمانی ساخت تو دوسروں کی طرح ہوتی ہے لیکن اُنکی سوچ،ہمت ،جرأت دوسروں سے مختلف اور فیصلہ کن ہوتا ہے عام لوگ بہت کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن اِن سب سے با معنی وہ کچھ ہوتا ہے جس کودیکھ لیناعام انسان کے بس کی بات نہیں۔یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ خارجی اسباب تبدیلی کی شرط ہوتے ہیں اور داخلی اسباب تبدیلی کی بنیاد ہوتے ہیں۔ تبدیلیوں کے ادراک کے لیے ایک غیر معمولی ذہنیت درکار ہوتی ہے کیونکہ ایسے لوگوں کے لیے غلطی کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی، کیونکہ ایسے غیر معمولی انسانوں کی معمولی غلطی موافق حالات کو مشکل حالات میں بدل دیتی ہے، تبدیلی کے اِس راہ میں کانٹے بھی ہوتے ہیں لیکن ایسے عظیم انسانوں کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ یہی ایک راستہ ہے جو حیات اور جاویدانی کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔
یہی وہ انسان ہوتے ہیں جن کے حامیوں کی تعداد گو کہ زیادہ نہیں ہوتی لیکن مضبوط ارادہ اور غیر متزلزل کردار اُن کی کامیابی کی دلیل ہوتی ہے کیونکہ حالات کی تبدیلی کی پرورش لفظ اور عمل کا متقاضی ہے۔اس کام کو سرانجام دینے والے تاریخ کا دھارا موڑدیتے ہیں اور یوں کہیں کہ تاریخ بناتے ہیں۔تبدیلی سے عاری ذہنیت تاریخ کوبنانے کے قابل نہیں ہوتے اِس لیے بیمانسکی نے کہا تھا کہ زندہ رہنے کا مطلب ہے کہ فروغ پانا ،آگے بڑھانا، تضادات ، مفاہمت سے نہیں بلکہ شدید جدوجہد کے ذریعہ ختم ہوتے ہیں ۔اِس لیے تو کہتے ہیں جو شخص موت سے ڈرتا ہو وہ بلند ہمت کیسے ہو سکتا ہے؟
لینن نے ایسے انسانوں کے بارے میں کہا ہے کہ’’ تمام تاریخ اِن افراد کے اقدامات سے تشکیل پاتی ہے جو بلاشبہ فعال شخصیتں ہوتی ہیں ‘‘
بلوچ قوم کو جس سامراجی قوت نے بزور طاقت27 مارچ 1948 کو غلام بنا یا تو اِس معاندانہ تضاد کو محسوس کرتے ہوئے آغا عبدالکریم نے ہتھیار اُٹھالئے اور دشمن کے خلاف جدوجہدمعمولی اوقات میں خاموشی کے علاوہ جاری و ساری ہے لیکن1976 میں ایک طویل جنگ کے بعد بلوچ قومی جدوجہد کو مصلحت پرستی اور مفادات نے گھیر لیا اور انقلابی جدوجہد انفرادیت کی نذر ہو گئی ۔2002 اور2003 میں بلوچ قوم کے اندر ایسی شخصیات میدان عمل میں آئیں جنہوں نے معاشرے میں موجود تمام سیاسی گندگیوں ،منافقانہ ذاتی و گروہی مفاد پرستی کی بیخ کنی کا تہیہ کر لیا اور بلوچستان کے ہر گلی کوچہ میں ایک ہی آواز گونجنے لگا اور وہ آواز B.N.Mکے صدر غلام محمد بلوچ کی تھی۔
آپ اپنی آواز سے دشمن کو للکارتے رہے۔ اپنی تحریروں و تقریروں میں واضح کرتے رہے کہ ’’یہ جنگ ہم نے شروع کی ہے اور اِسکا خاتمہ ہم ہی کرینگے ‘‘ اور دنیا نے دیکھ لیا کہ مفاد پرستی کی سیاست خزاں زدہ پتوں کی طرح غائب ہونے لگی اور جب تشدد سے غلام زدہ ذہنوں نے انگڑائیاں لیں اور قربانی کے جذبے سے سرشار مند کے نہتے عوام اپنے عظیم قائد چیئر مین کی قیادت میں ایف سی کیمپ پر حملہ آور ہوئے۔ پہلے مختلف ٹی وی چینلوں پر یہ لوگ اِس قسم کے مظاہرے ؤصیہونی ریاست کے خلاف جزبہ حریت سے سرشار فلسطینی عوام کو دیکھ چکے تھے ۔لیکن اب کی بار وہ خود اِس عمل کا حصہ تھے ، بلوچستان کے طول و عرض میں غلام محمدکی گرج دار آواز گونجتی رہی جو قوم پارلیمنٹ کی غلام گردشوں میں اپنے فکر و نظریہ سے بھٹک گئے تھے اور حالات کے مُنہ زور گھوڑے کو لگام دینے کے لیے کوئی نہ تھا لیکن چیئرمین غلام محمد بلوچ نے اپنی سوچ فکر نظریہ عمل جرأت بہادری کے ساتھ حالات کومثبت جانب موڑ کر مصلحت پرست لیڈروں کی تمام راہوں کو مسدود کیا۔
آپ بلوچ قوم کے اندر رہ کر اپنی انقلابی آدرشوں کی پرچار کرنے لگے آپ کو یقین تھا کہ قومی جنگ میں عوام پر بھروسہ کئے بغیر فتح حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ عوام کو متحرک و منظم کرنے اور انقلابی تعلیم کے لیے بلوچستان کے ہر گوشے میں گئے اور جبری صورت حال کو عوام کے سامنے واضح کردیا کیونکہ جبری صورت حال کو سمجھنے کے بعد ہی غلامی سے کُند کئے ہوئے افراد جدوجہد کے لیے کمر بستہ ہوتے ہیں اِس دوران ’’قومی محکومی کے علمبردار‘‘ کہتے رہے کہ’’ مزاحمت کا مطلب محکومی ہوگا اور جنگ کرنے کا مطلب تباہی ۔‘‘
لیکن چیئر مین غلام محمد نے اپنی نظریاتی تحریروں و تقریروں سے ثابت کرتے رہے کہ ’’جنگ نہ کرنے کامطلب تباہی ہوگااور اِس طرح قومیں مٹ جاتی ہیں۔‘‘
جنگ سے انفرادی قربانیاں اجتماعی بقا کی ضمانت ہیں انقلابی جنگ میں بے پناہ قوت ہوتی ہے وہ بہت سی چیزوں کو تبدیل کر سکتی ہے آپ کے اسی انقلابی عمل نے الجھن ،ابہام اور غیریقینی صورت حال کو یکسر بدل دیا۔ پوری قوم میں انقلابی جنگ میں حصہ لینے کا جوش و جذبہ پیدا ہوا۔آپ کی سرفروشانہ جدوجہد نے دشمن کے اداروں پر لرزہ طاری کردیا دشمن کے ایجنڈے پر کام کرنے والی باج گزار پارٹیوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا ،مختلف پروپیگنڈوں کے ذریعے چیئر مین غلام محمد کوآئی ایس آئی اورایم آئی کا ایجنٹ قرار دیا گیا آپ کو بیک وقت تربت،کوئٹہ،پنجگور،کراچی میں مختلف مقدمات میں اُلجھایا گیا ۔ ایک سال تک عقوبت خانوں میں غیرانسانی تشدد آزمایا گیا لیکن ایسے شخصیات کے بارے میں نہرو نے کہا ہے کہ’’ جب کوئی شخص کسی مقصد کے لیے اپنی جان نذر کرنے کو تیار ہو جائے ایسی موت پر فخر کرنے لگے تو اِس کو دبانا یا اُسے مقصد سے مٹانا نا ممکن ہو جاتا ہے ‘‘
قبضہ گیر کی سفاکیت دم توڑ گئی اور چیئرمین مین غلام محمدکے آفکار پھیلتے رہے۔ جبر بڑھتا رہا اور آزادی کا پیغام سرایت کرتا ہوا ہر سرکو متاثر کرتا رہا۔
غلامی کی گرہن ڈوبتی رہی اوربلوچ قوم آزادی کی خاطر سینہ تھانے میدان میں آتی رہی۔
جیل و زندانوں کی تکلیفوں میں ایک ایسی مضبوط ذہنیت عطا کر دی کہ گوادر میں آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ’’پنجابی چاہے جتنا جیل و زندانیں بھر دے ہماری آزادی کی خواہش مٹنے کے بجائے مضبوط ہوتی جائے گی، آخر کار تمام حربوں کو آزمانے کے بعد 3اپریل 2009 کو تربت سے آزادیِ انقلاب کے اِس عظیم پیکر کو دشمن کی بکتر بند گاڑیوں کی معیت میں ایک لاؤ لشکر کے ساتھ جسمانی طورجدا کرکے شہادت کے عظیم رُتبے پہ فائز کر دیا۔
لیکن جسم کٹتے ہیں تو شعور بالغ ہوتا ہے چیئر مین غلام محمدبلوچ، لالہ منیر اور شیر محمد بلوچ کی شہادت نے دشمن کی تمام قوت کو تار تار کردیا اور کئی روز تک کاروبار سے لے کر سرکاری دفاتر تک بند رہے ، اقوام متحدہ،چین ،امریکہ،ہندوستان سمیت دُنیا کے زیادہ تر ممالک نے اِس عظیم انسان کی شہادت پر افسوس کے پیغامات بھیجے اور اِن فکری رہبروں کی شہادت نے B.N.M کو ایک ناقابل تسخیر قوت بنادیا ۔اگر دیکھا جائے تو ایک طویل عرصے کی مصلحت پرستی اور پارلیمانی سیاست نے بلوچ قومی آزادی کو جہاں تباہی کے دھانے پہ پہنچادیا۔وہیں فکری و نظریاتی علم سے لیس اِنقلابی جدوجہد نے بلوچ کی آواز کو آسمان کے بلندیوں پر پہنچادیااور قلیل عرصے میں بلوچ قوم کی منزل قریب ہونے لگی۔
...............

(یہ تحریر زرمبش سے لی گئی ہے)
https://dailysangar.com/home/page/10454.html

вторник, 3 апреля 2018 г.


شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ, بلوچ نیشنلزم کا علامت


تحریر:۔خلیل بلوچ
چیئرمین بلوچ نیشنل موومنٹ
’’جو لوگ چیئرمین غلام محمد سے قربت رکھتے تھے ، انہیں بخوبی علم ہوگا کہ چیئرمین کا سرزمین سے عشق کا کیا عالم تھا۔وہ کیسے جذبے کے مالک تھے ۔وہ کیسی موت کا خواہش مند تھے۔ انہیں اس بات کی کوئی بالکل پرواہ نہ تھی کہ وہ کتنے دن زندہ رہیں گے بلکہ انہیں فکر اس بات کا تھا کہ قومی جدوجہد کو کیسی زندگی دے پائے گا۔قومی بقاء کے لئے وہ کیا کرپائے گا،ایسے لیڈر کے شہادت پر بجا طورپر فخر کیا جاسکتا ہے ۔‘‘
آج شہید چیئرمین غلام محمدبلوچ کی نویں برسی ہے ۔وہ ہستی جسے ہم نے آج سے نو سال پہلے 2009کو آزاد ی کے سفر میں الوداع کہہ دیا۔اپنی شہادت کاغلام محمد کو یقین بھی تھا اوریہ یقین ان کی جوش اورولولے میں ہمیں جابہ جا نظر آتاہے ۔
بلوچ قومی تحریک آزادی میں بے شمار دوستوں نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا ہے ۔آج ہمیں قومی تحریک میں جو توانائی، طاقت اور تنظیم نظرآتا ہے وہ انہی ساتھیوں کی محنت، قربانی اور شہادتوں کا ثمر ہے ۔ دنیا میں ہمیشہ اور ہرجگہ یکساں طورپر لہو سے سیرا ب قومیں تاریخ کے صفحات میں باوقار ور شاندار درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ آج بلوچ قوم بھی اپنی لہو سے قومی تحریک کو سیراب کرکے اپنی تاریخ وتہذیب کے اقدارکو گراں مایہ بنارہاہے ۔آج تاریخ کے سامنے سرخ رو ہورہاہے۔
لیکن اس بات کا ہمیں قوی احساس ہونا چاہئے کہ قومی تحریکوں کے سرخیل اور رہبروں کی قربانی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتاہے۔عددی اعتبار سے وہ بھی ہماری طرح قوم کا ایک فرد اور اکائی ہوتے ہیں مگر ان میں دوراندیشی ،شعور کی گہرائی اور قومی جذبے کا اس قدر فراوانی ہوتی ہے کہ وہ قومی مقاصد کی حصول کے لئے نئی راہیں کھولتے ہیں ۔غلامی سے زنگ آلود ذہنوں پر جمی گرد جھاڑ کرانہیں مثبت اورتعمیری سوچنے کے قابل بنادیتے ہیں ۔خودشکستگی اورآپسی کُشت و خون کے عالم سے نکا ل کرایک دشمن سے مقابلے کے مقام پر لاتے ہیں۔ طویل غلامی اور استحصال انسان سے انسان ہونے کا احساس چھین لیتا ہے ،یہ رہبر و رہنما ہی ہمیں انسان ہونے کا احساس دلاتے ہیں جسے ہم طویل غلامی میں واقعتاکھوچکے ہوتے ہیں۔
یہ کام چیئرمین غلام محمد بلوچ نے ایسے عالم میں کیا کہ بلوچ قوم کے ساتھ آزادی کے نام پر اتنی جھوٹ بولاگیاتھا کہ سچ کو ثابت کرنا بذاتِ خود ایک مشکل کام تھا۔ کجاکہ پوری قوم تحریک میں ہمنوا بن جائے لیکن چیئرمین غلام محمد کی صلاحیتیں ، عزم اور حوصلے اتنے بلند تھے کہ آپ نے غلامی کے چکی میں پسے ،استحصال زدہ ، پسماندگی اور جہالت میں پھینکے گئے قوم میں ایک نئی روح پھونک دی ۔انہوں نے ہمیں اپنی تاریخ ،گراں قدر تہذیب کا احساس دلایا ۔ایک طاقت ور دشمن کے خلاف صف آراء ہونے کے لئے ہمیں تنظیم کی شکل دی۔ یہ غلام محمد کا جذبہ قربانی تھا کہ آج ہر سیاسی کارکن آزادی کی حصول کے لئے شہادت کوخندہ پیشانی سے گلے لگانے کے لئے تیا ر ہے ۔ مائیں اپنے بچوں کی شہادت پر ماتم کے بجائے شادمانی کرتی ہیں یہ معمولی جذبہ نہیں ہے ،یہ معمولی قربانی نہیں ہے ۔
تاریخ میں لیڈرشپ ہمیشہ یکساں طورپر بلند مقام پر فائزاس لئے بھی ہوتے ہیں کیونکہ ان کاکردار،کارنامے اورقربانی ان کے اپنے دور تک محدود نہیں رہتیں۔ یہ نہ صرف منزل تک اپنی قومی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے بلکہ اپنی قوم بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور محکوم ان ہی سے رہنمائی پاتے ہیں۔طویل غلامی، بازاری اور باجگزاری سیاست نے ہم سے منزل کا سمت اور راستے سب چھین لئے تھے۔انحراف مکمل ہوچکا تھا ،منحرفین شادان تھے کہ اب پاکستانی پارلیمان کے غلام گردشوں میں ان کے صفِ سجدوں میں کوئی دراڑ ڈالنے والا نہیں آئے گا۔ طبیب اصغر اور طبیب اکبر کی حکمت پاکستانی افواج سے وفاداری کاسند حاصل کرچکا تھا ۔بظاہر تیرگی کا راج تھا ،غلامی کا تیرگی ہماری بحیثیت قوم احاطہ کرچکا تھا ۔پنجابی اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر ساحلِ بلوچ سے بڑے بڑے منصوبوں کی صورت میں حملہ آور ہوچکا تھا۔جس طرح آج ان کا اصل شکل قوم کے سامنے آرہاہے۔ یہ محض تجارتی منصوبے نہ تھے ،ہمارے خیال سے زیادہ گہرے اورتباہ کُن تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ غلامی کے بیکراں سمندر میں استحصال کے بھنورمیں موت و زیست سے دوچار بلوچ قوم کے لئے غلام محمد ایک قطب نما تھا، جس نے ہمیں منزل کا سمت دکھایا، راستے کا تعین کیا ، قومی کشتی کے بادبانوں میں طوفانوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت عطا کی، بے رحم لہروں سے لڑنے کاجذبہ اور جوش دیا۔
یہ عیاں حقیقت ہے کہ آج بلوچ قوم میں اپنی آزادی کے تحریک سے وابستگی،بلوچ نوجوانوں میں قربانی کا جذبہ اوردنیامیں بلوچ بارے جو آگاہی ہے، اس میں کلیدی کردار چیئرمین غلام محمد شہید جیسے استاد اور رہبرکا ہے ۔جن کی تعلیمات بلوچ قومی شعور ی بالیدگی میں بنیادی نصاب کا درجہ رکھتے ہیں ۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی کم تکلیف دہ نہیں کہ ایسے لیڈر کا شہادت قوم کو اپنی فوائد کے ساتھ ساتھ کبھی پُر نہ ہونے والے خلاء بھی دے جاتے ہیں کیونکہ اس سطح کے لیڈر اور رہنما پیدا کرنے میں قوموں کو طویل وقت درکار ہوتے ہیں ۔ایسے مشکل وقت میں صرف ایک بات وجہ اطمینان ہوتا ہے کہ وہ رہبر ایک ایسی نظام دے جاتے ہیں کہ اس نظام میں اس کا نعم البدل نہ سہی لیکن اس خلاء کو بھر نے میں مدد ملتا ہے ۔نظام کی موجودگی میں انتشار اور سراسیمگی نہیں پھیل جاتا،جدوجہد رک نہیں جاتا ہے۔ وہ نظام ہمیں بلوچ نیشنل موومنٹ کی صورت میں چیئرمین غلام محمد نے عطا کیا اور اس پارٹی کو قائم و ائم رکھنے کے لئے اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کیااورآج کی بلوچ سیاست کا بنیادی فرق اور ادارے کی بالادستی پر یقین ہے ۔
اس بات پر بھی شک نہیں کہ یہ بلوچ کے لئے ایک تاریک دن ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ فخر کا مقام بھی کہ یہ ایک ہستی کا یوم شہادت ہے جو اس بات کا متمنی تھا کہ’’ وہ بلوچ قومی آزادی کے لئے شہادت کا جام نوش کرے۔جو لوگ چیئرمین غلام محمد سے قربت رکھتے تھے ، انہیں بخوبی علم ہوگا کہ چیئرمین کا سرزمین سے عشق کا کیا عالم تھا۔وہ کیسے جذبے کے مالک تھے ۔وہ کیسی موت کا خواہش مند تھے۔ انہیں اس بات کی کوئی بالکل پرواہ نہ تھی کہ وہ کتنے دن زندہ رہیں گے بلکہ انہیں فکر اس بات کا تھا کہ قومی جدوجہد کو کیسی زندگی دے پائے گا۔قومی بقاء کے لئے وہ کیا کرپائے گا،ایسے لیڈر کے شہادت پر بجا طورپر فخر کیا جاسکتا ہے ۔اپنی موت میں قومی زندگی کا کھوج لگانے والے ہستیوں سے ہم نے یہی سبق سیکھا ہے کہ قومی بقاء ہی سب کچھ ہے۔
اپنے لیڈرشپ میں ہمیں کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ اس بات کی خواہش مند ہو کہ قربانی ورکر،کارکن اور قوم کے حصے میں آئے اور وہ خودزندگی سنبھالے رہیں۔ ہمیں فخرکرنا چاہئے اپنے عظیم ہستیوں پرکہ انہوں نے موت کو گلے لگانے کے لئے پس و پیش نہیں کیا۔ شہیدسدوجان،شہید ڈاکٹر منان جان ،ڈاکٹر خالد ،رضا جہانگیر،حاجی رزاق،چیئرمین سنگت ثناء ایک بڑی تعدادہے جن سے ہمیں قربانی کا درس ملتا ہے اور عملی نمونہ بھی۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ انقلابی جدوجہد کا بنیادی فلسفہ ہے کہ آپ کو اپنی ذات کو فنا کرنا چاہئے ۔ہرورکر،ہر سپاہی کو گمنام رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔کردار و عمل آپ کی موجودگی کا گواہی دے، تب ہم انقلابی کہلائے جاسکتے ہیں ۔صرف جدوجہد زندہ رہے،افراد فانی ہوتے ہیں ، مگر انکا عمل امر ہو جاتا ہے۔گمنامی میں انقلابی عمل کو قومی تقاضوں کے مطابق آگے لے جانا ہی اصل ورکر و سپاہی کا عمل وہ قوم کی روشن مستقبل کا ضامن ہے۔ قوموں کو فنا نہیں کیا جاسکتامگربنیادی شرط واضح سمت اور واضح نظریہ ہے جس پر کاربند رہ کر ہی ہم قومی بقاء کو محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔
آج ہم اپنے قائد چیئرمین غلام محمد کویاد کررہے ہیں۔ غلام محمد کو یاد کرنا تجدید عہدہے ۔اس قول کی پاسبانی ہے جوہم اپنے قوم سے کرچکے ہیں ۔غلام محمد بلوچ نے نظریے کو روشنی دی جو منزل تک ہماری رہنمائی کرے گا۔نظریہ ہمیں بیگانگی اورا نتشار سے محفوظ رکھے گا۔
چیئرمین غلام محمد نے اُس ادارے کا بنیاد رکھا جو دشمن کی تمام ظلم و بربریت کے باوجود مضبوط و منظم ہورہا ہے ۔اس میں نئی توانائی شامل ہورہا ہے ۔اس کے کارکن دنیا بھر میں پھیل رہے ہیں ۔یہ بلوچ کا مضبوط سیاسی مورچہ بن چکاہے ۔بلوچ نیشنل موومنٹ کا بنیاد رکھنا اور بلوچ قومی سیاست کو پیداگیروں ،پاکستانی پارلیمان پرستوں سے آزاد کرنااورسب سے اہم بات یہ کہ بلوچ سیاست کو عوامی بنانا غلام محمدبلوچ کا ایسا کارنامہ ہے جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔بلوچ قومی تحریک کے ساتھ ساتھ دنیابھر کے قومی تحریکوں کا تجزیہ ہمیں اس بات کو ماننے کے لئے مجبور کرتا ہے کہ شخصیات اداروں کے نعم البدل نہیں ہوتے ہیں ۔نجات ادارے میں ہوتی ہے ۔ادارے تسلسل کو برقرار رکھتی ہیں اور اس بات کا ہمیں بخوبی اندازہ ہے کہ یہ کام آسان نہیں اوربلوچ قومی سیاست کو مجموعی طورپر ادارتی بنیادوں پر استوارکرنے کے لئے پارٹی کے دوستوں کو انتھک محنت کی ضرور ہے ۔
آج ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ چیئرمین غلام محمد نے اُس ادارے کا بنیاد رکھا جس میں طاقت کا سرچشمہ بلوچ قوم ہے اورفلسفہ قربانی ہے اورسبق انتھک محنت اور قوم کو ساتھ لے کر چلنا، ہے۔ ،کوئی سیاسی پارٹی خود قوم سے الگ تھلگ یا دوسرے لفظوں میں قوم سے بالاتر رکھ نہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے اور نہ اپنی منزل پاسکتا ہے ،کیونکہ یہ آفاقی حقیقت ہے اور کسی طورسے وضاحت کی محتاج نہیں کہ مرنے سے قومیں ختم نہیں ہوتی ہیں بلکہ موت کاخوف اور بے عملی قومی موت کا سبب بنے گا۔ اس کا ہزارہا مثال پیش کیا جاسکتا ہے ،پاکستان نئے ہزاریے کے آغاز پر جن جن منصوبوں کے ساتھ بلوچ سرزمین پر حملہ آور ہوا تھا اگر ہم بطور قوم خوف کا شکار ہوجاتے تو شاید آج ہماری قومی تشخص اور بقاء مٹ چکا ہوتا،لیکن جدوجہد اور قومی عمل نے ہمیں مٹنے سے بچالیا ہے ۔پارٹی اداروں کی سیاست نے تحریک کو تسلسل دینے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ پاکستان کے دوسرے بڑے بڑے منصوبے اور قومی نسل کشی کا پروگرام اپنی جگہ، صرف سی پیک کو لے لیں جسے کئی بڑے اورطاقت ورممالک اپنے لئے ایک واضح خطرہ تصور کرتے ہیں لیکن بلوچ مقابلہ کررہاہے۔ بلوچ نے دنیا پر ثابت کردیاہے کہ پاکستان اور چین دونوں مل کر بھی بلوچ قوم کو مٹا نہیں سکتے ہیں۔ یہ جذبہ اور موت سے بے خوفی چیئرمین غلام محمد جیسے ہستیوں کا دین ہے ۔
جب اپریل 2009 کی تین تاریخ کو ہمارے پارٹی کے بانی اور چیئرمین غلام محمد،انکے ساتھی لالا منیر اور شیر محمد کو اٹھا کر شہید کیا گیا تو وہ دن ہمارے لیے امتحان اور دشمن و اس کے کاسہ لیسوں کے لئے خوشی کا دن تھا ۔ہمارے لئے امتحان اس لئے کہ چیئرمین غلام محمد نے نیشنلزم کے نظریے کو اُس نہج پر پہنچایا تھا کہ اسے برقرار رکھ کر پارٹی پلیٹ فارم سے جدوجہد کو ،چیئرمین غلام محمد کے جوش اور ولولے سے آگے بڑھاناایک مشکل امر تھا۔ اپنے ابتداء اور ارتقاء کے آغاز کے ساتھ دشمن ہم پر کاری ضرب لگا چکا تھا ۔چیئرمین غلام محمد کا نعم البدل پید اکرنا نہ صرف پارٹی کے لئے بلکہ بلوچ قوم کے لئے ایک چیلنج تھا ۔چیئرمین کی شہادت پر دشمن کی خوشی کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو وہ تحریک آزادی میں ایک علامت اور سمبل کی حیثیت اختیار کرچکے تھے ،انہوں نے تاریخ کے تجربے کی بنیاد پرسیاست کو شخصی کے بجائے پارٹی شکل دینے میں کامیابی حاصل کی تھی ،اس کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی تھا کہ ان کی موجودگی میں دشمن کے کاسہ لیس اور نام نہاد قوم پرستوں کے لئے بلوچ قوم میں کام آسان نہ تھا ،ان کی آواز میں ایسی توانائی تھی کہ تحریک دشمنو ں کے لئے اس کوتوڑنا ناممکن تھا ۔انہوں نے پاکستان نواز کاسہ لیس سیاست دانوں کی تمام کرتوتوں کو قو م کے سامنے اس طرح آشکار کیا تھا کہ نام نہاد قوم پرست قوم کے سامنے اپنا چہرہ تک دکھانے کے قابل نہ رہے۔ دن کی روشنی میں ان کے لئے اپنے ٹھکانوں سے باہر نکلنا مشکل بلکہ ناممکن ہوچکا تھالیکن دشمن اور اس کے حواریوں کی خوشیا ں دیر پاء ثابت نہ ہوئیں کیونکہ غلام محمد نے اپنی شخصیت کی تعمیر کے بجائے ادارے کی تعمیر کی تھی۔ انہوں نے اپنی ذات کو نمایاں کرنے کے بجائے نظریے کو بامِ عروج پر پہنچایا تھا اور یہی ہماری قومی تحریک میں کامیابیوں کا بنیادی وجہ بنا ۔
آج ہمیں غلام محمد یا د آتا ہے ۔ ان کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ہمیں اس کا فہم و دراک اور ارفع سیاسی شعور کی ضرورت ہے لیکن انہوں نے بلوچ نیشنل موومنٹ کی صور ت میں جس ادارے کی بنیاد رکھی ہے وہ آج اُن تمام نقصانات کا ازالہ کرنے کی پوزیشن میں ہے جو نہ صرف دشمن بلکہ کئی اطراف سے درپیش آتے ہیں
۔
https://dailysangar.com/home/page/10327.html

воскресенье, 1 апреля 2018 г.


ستائیس مارچ 1948 -- تحریر: میر محمد علی ٹالپر -- ترجمہ: لطیف بلیدی

حال ہی میں بلوچ ریپبلیکن پارٹی کے رہنما براہندگ بگٹی نے اپنے ٹویٹس کے ذریعے 27 مارچ، 1948 کے واقعات کے حوالے سے پاکستانی ورژن کی تائید کی ہے، جسے بلوچ ’یومِ سیاہ‘ کے طور پر مناتے ہیں چونکہ بلوچستان کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں شامل کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بلوچستان کا نہیں بلکہ صرف کلات کا الحاق تھا اور اس کے بعد مزید ٹویٹس میں کہا کہ ”بلوچستان کے الحاق (منقول) کے بعد ہمارے باپ دادا نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ ایڈجست کرنے کی کوشش کی تھی۔ جدوجہد کی تمام شکلوں کے ساتھ، پوری بلوچ قیادت نے بارہا پاکستان کے اندر بلوچ حقوق کے لئے کوششیں کیں۔“ عجب اتفاق ہے کہ اپنے اگلے ہی ٹویٹ میں، جس سے قبل انہوں صرف کلات کے الحاق کا دعویٰ کیا تھا، وہ پھر سے ’بلوچستان کے الحاق‘ کا حوالہ دیتے ہیں۔
الحاق کے بارے میں موجود تمام ثبوت اس پاکستانی دعوے کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں اور اس کے علاوہ یہ کہ تمام کے تمام ’باپ دادا‘ نے پاکستان کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ 1953 میں نواب خیر بخش مری سے اس وقت کے مری بگٹی ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ ڈیوس نے کہا کہ ”آپ انہیں کیوں نہیں چھوڑتے کہ وہ یہاں آپ کے بدبخت لوگوں کیلئے سڑکوں کی تعمیر کریں اور انہیں ترقی دیں؟“ نواب صاحب نے کہا ”ڈیوس اگر دوسری عالمی جنگ میں جرمنی نے برطانیہ کو فتح کیا ہوتا اور کوئی آپ سے آکر یہ کہتا کہ آپ اپنے بدبخت لوگوں کو ترقی دینے کی اجازت کیوں نہیں دیتے، تو آپ کا جواب کیا ہوتا؟“ ڈیوس نے کہا،” خیر بخش مجھ پر خدا کی لعنت ہو اگر میں دوبارہ کبھی بھی آپ سے ترقی کی بات کروں۔“ نواب خیر بخش نے کبھی بھی ایڈجسٹ نہیں کیا تو لہٰذا یہ بات بھی غلط ہے کہ ’ہمارے باپ دادا‘ نے ہر طرح سے ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔
میں نے یہ مضمون (بلوچ سیاسی بیداری) اکتوبر 2013 میں لکھا تھا جو ’ویوپوائنٹ آن لائن‘ میں چھپا۔ مجھے یہ ضروری محسوس ہوا کہ میں ’بلوچستان ٹائمز‘ سے درخواست کروں کہ وہ الحاق کے مسئلے کو اس کے مناسب نقطہ نظر میں پیش کرے اور لوگوں کو یہ بھی بتائے کہ ہمارے باپ دادا نے کس طرح سے اور کیونکر جدوجہد کی تھی۔ الحاق کے حوالے سے پاکستانی ورژن کی قبولیت بلوچ تاریخ کو مسخ کرنے اور بلوچ قوم کی دی گئی عظیم قربانیوں کو بے وقعت کرنے کے مترادف ہے اور اس کے علاوہ یہ موجودہ بلوچ جدوجہد کو تہ و بالا کرکے اسے نقصان پہنچانے کے برابر ہے۔
سیاسی بیداری
(نوٹ: یہ ان چار مضامین کی دوسری قسط ہے جو بیک وقت شائع ہوئیں)
برصغیر میں دیگر تمام جگہوں کی طرح بلوچستان میں بھی سیاسی بیداری بتدریج آئی تھی اور یہ پہلی جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین اور نوآبادیاتی مخالف تحریکوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے رفتار پکڑتی گئی۔ میر عبدالعزیز کرد نے 1920ء میں ’ینگ بلوچ‘ نامی ایک خفیہ سیاسی تحریک کا آغاز کیا اور 1929ء میں انہوں نے ’انجمن اتحاد ِبلوچستان‘ میں شمولیت اختیار کی جو یوسف علی خان مگسی کے جیل جانے کے بعد قائم کی گئی تھی، انہیں اپنے مضمون ’فریادِ بلوچستان‘ میں کیے گئے آئینی اصلاحات کے مطالبے پرپابند سلاسل کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے برطانوی حکومت اور ریاست کلات کے وزیر اعظم سر شمس شاہ، جو کہ گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک پنجابی تھے، کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انجمن کا مقصد بلوچستان کی آزادی تھا اور اس نے آئینی اصلاحات کا مطالبہ کیا اور برطانوی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ وزیراعظم کی مخالفت کی، جنہیں بالآخر ان کی مخالفت کے سبب برخاست کردیا گیا۔
شہزادہ محمد اعظم جان کو دسمبر 1931ء میں انجمن کی حمایت سے خان مقرر کیا گیا اور انہوں نے وزیراعظم کو برخاست کر دیا۔ حالانکہ انجمن نے خان کی مدد کی تھی لیکن وہ اس کے مقاصد کا حامی نہیں تھا۔ انجمن کی طرف سے بلوچستان کی آزادی کے مقصد کا واضح الفاظ میں اظہار جنرل سیکرٹری عزیز کرد کی طرف سے کیا گیا، جنہیں ہندوستانی اخبارات میں بھارت کی مختلف جماعتوں کے رہنماوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
احمد یار خان، جو 1933ء میں اعظم جان کی وفات کے بعد خان بنے، نے میر یوسف علی مگسی کو اپنے ذاتی نمائندے کے طور پر خانیت کی خودمختاری پر بات چیت کے لیے برطانیہ بھیجا لیکن ان کا جواب حوصلہ شکن تھا۔ 1935ء میں کوئٹہ کے بڑے زلزلے میں یوسف علی مگسی وفات پاگئے اور اس سے ان کی انقلابی قیادت بے وقت اپنے اختتام کو پہنچی۔ فروری 1937ء میں انجمن کا سبی میں اجلاس منعقد ہوا اور قلات نیشنل پارٹی باضابطہ طور پر قائم کی گئی اور اسے بلوچ معاشرے کے مختلف طبقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔ برطانوی حکومت کے ساتھ ساتھ سرداروں نے بعض وجوہات اور اپنے مفادات کے لیے مختلف توجیہات اور بنیادوں پر پارٹی کی مخالفت کی لیکن مشترکہ بنیاد ان کی اپنی مراعات اور اختیارات تھے۔
مورخہ 6 جولائی 1939ء کو منعقدہ پارٹی کے سالانہ اجلاس کو کچھ سرداروں کے پیروکاروں کی طرف سے تہہ و بالا کیا گیا، جنہوں نے خان سے مطالبہ کیا کہ پارٹی پر پابندی لگائی جائے۔ 20 جولائی کو کلات کے وزیر اعظم نے کلات نیشنل پارٹی کو کلات ریاست کی حدود کے اندر غیر قانونی قرار دے دیا۔ اس کے رہنماوں، ملک عبد الرحیم خواجہ خیل، میر غوث بخش بزنجو، عبدالکریم شورش، میر گل خان نصیر، اور دیگر سرگرم کارکنوں کو جلاوطن کردیا گیا۔ پارٹی نے اپنا ہیڈکوارٹر کوئٹہ میں قائم کیا لیکن دوسری عالمی جنگ کے باعث سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد تھی مگر پھر بھی پارٹی نے اپنی سرگرمیاں زیرزمین جاری رکھیں۔
نیشنل پارٹی، انڈیا اسٹیٹس پیپلز کانگریس (کانگریس نواز) کے ساتھ مل گئی اور محمد حسین عنقا اور بزنجو جیسے رہنماوں نے کلات کے بھارت کے ساتھ الحاق کی حمایت کی اور خان کے آزاد بلوچستان کے مطالبے کی مخالفت کی۔ اس تبدیلی نے پارٹی کو تقسیم کردیا جیسا کہ عزیز کرد اور دیگر نے اس نئی پالیسی کی مخالفت کی اور اس سے نفاق پیدا ہوا۔ تاہم 1947ء میں نیشنل پارٹی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کی اور ایک بار پھر بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کیا۔
بلوچستان میں دیگر دو اہم جماعتیں کام کررہی تھیں؛ ایک انجمن وطن پارٹی تھی جسے عبدالصمد اچکزئی نے تشکیل دیا اور اس کی قیادت کر رہے تھے اور اس نے برطانوی افغانستان میں آئینی اصلاحات کی حمایت کی اور یہ انڈین کانگریس پارٹی سے وابستہ تھی۔ اس نے پشتونوں کی نمائندگی کی اور ان کے لیے حقوق کا مطالبہ کیا۔ دوسری مسلم لیگ تھی، جسے قاضی ایم عیسیٰ نے 1938ء میں قائم کیا اور اس کی قیادت کی۔ اس پر بھی پشتونوں کا غلبہ تھا اور وہ ان کے حقوق کا مطالبہ کرتی تھی۔
جون 1947ء میں برطانوی حکومت نے بھارت کی تقسیم کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ برطانوی افغانستان اور بلوچ قبائلی علاقوں، جن میں مری، بگٹی، کھیتران اور ڈیرہ غازی خان کے بلوچ قبائلی علاقے شامل تھے، کے مقدر کا فیصلہ ایک ریفرنڈم کے ذریعے کیا جانا تھا۔ ریفرنڈم میں ووٹ دینے کے معاملے پر وہاں اختلاف ِرائے موجود تھا چونکہ برطانوی حکومت نے حقِ رائے دہی کو موروثی شاہی جرگہ تک محدود کر رکھا تھا، جناح نے ووٹنگ کے حقوق میں توسیع کی تجویز دی، نہرو نے شاہی جرگہ کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ہر ممکن بڑی سے بڑی تعداد کے ساتھ مشاورت کی تجویز پیش کی۔
برطانوی حکومت نے دونوں کے ساتھ اتفاق نہیں کیا۔ اگرچہ ماﺅنٹ بیٹن نے منتخب جرگہ کے ذریعے ریفرنڈم کی حمایت کی مگر اس کے لیے وقت نہیں تھا۔ 29 جون کو پشتون جرگہ نے برطانوی افغانستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی حمایت کی۔ بلوچ اس ریفرنڈم کو جعلی قرار دیتے ہیں کیوںکہ جرگے کے لیے ابتدائی اجلاس 21 جولائی 1947ء کو منعقد ہوا اور اس سے شور شرابہ تھم گیا اور 30 جون کو جرگہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن پھر پرفریب انداز میں تمام اراکین کو بتائے بغیر 29 جون کو اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس ریفرنڈم کے ساتھ اور اسی کی بنیاد پر برٹش بلوچستان بشمول لیز پر دیے گئے اور قبائلی علاقوں سمیت، جوکہ آئینی طور پر خانیت کا حصہ تھے، 15 اگست 1947ء کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں شامل کردیے گئے۔
مری بگٹی علاقوں کے بلوچ سرداروں، سردار دودا خان مری، جوکہ سردار خیر بخش مری اور سردار محمد اکبر خان کے بااختیار نائب تھے، نے برطانوی حکومت سے خانیت میں شامل ہونے کے لیے اپنے فیصلے کا تحریری طور پر اظہار کیا، باوجود اس کے کہ وہ ابھی تک خانیت کے وفاق میں شامل نہیں تھے۔ اسی عمل کے لیے ڈیرہ جات کے کئی بلوچ سرداروں کی درخواستوں کو بھی برطانیہ کی طرف سے نظر انداز کردیا گیا۔
یہ امر دلچسپی کا حامل ہے کہ تقسیم کے بعد ڈیرہ جات کے سرداروں کو یہ انتخاب کرنے کا استحقاق دیا گیا تھا کہ یا تو وہ اپنی مراعات سے دستبردار ہوکر بلوچستان میں شامل ہو جائیں یا پنجاب میں شامل ہوکر انہیں برقرار رکھیں۔ اس برطانوی زیرانتظام بلوچستان کے علاقے ڈیرہ غازی خان کو 1950ء میں پنجاب نے خیانت کرتے ہوئے ہڑپ لیا۔ تمن داروں نے اس تخویف کے تحت معاہدے پر دستخط کیے کہ اگر وہ پنجاب میں شامل نہیں ہوئے تو انہیں اپنی بڑی زمینیں اور جائیدادیں ترک کرنا پڑیں گی۔ اس ناانصافی کی ایک یادگار سطح سمندر سے 6470 فٹ کی بلندی پر فورٹ منرو پر کھڑی ہے۔ برطانوی حکومت نے برطانوی زیر انتظام بلوچستان کے لوگوں کو وہ حقوق نہیں دیے جو انہوں نے برطانوی زیر انتظام افغانستان کو دیے تھے۔
بھارت میں برطانوی حکام نے بلوچستان کو ہمیشہ بطور ایک آزاد اور خود مختار ہستی سمجھا اور اسے کبھی ہندوستانی برصغیر کا حصہ نہیں سمجھا۔ برطانوی حکومت اور خان کلات کے درمیان 1854ء اور 1876ء میں کیے گئے معاہدوں میں بلوچستان کو بھارت کے باہر ایک خود مختار ملک کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ 3 جون 1947ء کے تقسیم کے منصوبے میں پاکستان اور برطانیہ دونوں نے ریاست کلات کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کیا تھا۔
مورخہ 4 اگست 1947ء کو پاکستان، برطانوی حکومت اور بلوچستان کے درمیان ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے گئے، جو اسٹینڈ اسٹل ایگریمنٹ کہلاتا ہے، جس میں بلوچستان کی خود مختار حیثیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کی پہلی شق میں کہا گیا ہے کہ: پاکستان کی حکومت کلات کی بطور ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت کو تسلیم کرتی ہے، جس کے برطانوی حکومت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات ہیں اور جس کا درجہ اور مقام دیگر بھارتی ریاستوں سے مختلف ہے۔ مئی 1946ء میں کابینہ مشن میں کلات کی یادداشت (کلات میمورنڈم)، جسے جناح نے پیش کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ کلات ایک غیر ہندوستانی ریاست ہے اور اس کی آزادی کی حمایت کی گئی تھی۔ جناح جون 1947ء تک اسی بات پر قائم رہے۔ برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے دوران صرف بھارت، نیپال اور کلات وہ ریاستیں تھیں جنہیں سفیر کی تقرری کا اختیار حاصل تھا۔
خان نے پاکستان کی آزادی سے دو روز قبل 12 اگست 1947ء کو بلوچستان کی آزادی کا اعلان کردیا۔ خان نے بلوچستان کی ایک خوشحال خود مختار ملک کے طور پر تعمیر کرنے، جہاں بلوچ اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے اور اپنی روایات کے مطابق رہتے ہوئے، اپنے پڑوسی ممالک پاکستان، ایران اور افغانستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور بیرونی دنیا کے ساتھ دوستی کے معاہدوں کے ذریعے تعلقات قائم کر نے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
آزادی کے فوراً بعد دیوان کے انتخابات منعقد کیے گئے، اس میں بلوچستان کے دو حصوں پر مبنی مقننہ اور ملک میں امن و آشتی کے دور کو یقینی بنایا گیا تھا۔ دیوان دارلامرا، قبائلی سرداروں کا ایوان یا ایوان بالا اور دارالعوام (یا ایوان زیریں) پر مشتمل تھا۔ دارالامرا جھالاوان اور سراوان صوبوں کے موروثی قبائلی سرداروں پر مشتمل تھا، جن کی تعداد 35 تھی۔ دارالعوام کے 52 ارکان تھے، 47 منتخب ہوتے اور 5 خان کی طرف سے نامزد کیے جاتے تھے۔
اسمبلی نے ستمبر اور دسمبر 1947ء میں اجلاس منعقد کیے اور اکثریت نے اتحاد کی حمایت کی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی مخالفت۔ 14 دسمبر 1947ء کو غوث بخش بزنجو نے ایک تاریخی تقریر کی اور اسے آزادی کے لیے ایک درست دلیل تصور کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”ہم ایران اور افغانستان کی طرح ایک الگ تہذیب اور ایک الگ ثقافت رکھتے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ مسلمان کے ہونے کے باعث ہمیں اپنی آزادی گنوا دینی چاہیے اور دوسروں کے ساتھ ضم ہوجانا چاہیے۔ اگر محض یہی بات، کہ ہم مسلمان ہیں، ہم سے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا تقاضا کرے تو پھر افغانستان اور ایران، دونوں مسلم ممالک، کو بھی پاکستان میں شامل ہوجانا چاہیے۔
ہم برطانوی حکومت سے قبل کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہے۔ پاکستان کی مکروہ اور گھناونی خواہش، کہ ہمارے قومی وطن بلوچستان کو اس کے ساتھ ضم ہوجانا چاہیے، پر غور کرنا تک ناممکن ہے۔ ہم خودمختاری اور برابری کی بنیاد پر اس ملک سے دوستی کرنے کو تیار ہیں لیکن کسی طرح سے بھی پاکستان کے ساتھ ضم ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم پاکستان کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے بغیر پاکستان کا کیا ہوگا؟“
”میں دفاع اور بیرونی مواصلات کے معاملات میں نو تخلیق شدہ پاکستان کے لیے رکاوٹیں پیدا کرنے کی تجویز نہیں دے رہا ہوں۔ لیکن ہم عزت مندانہ تعلقات چاہتے ہیں نہ کہ ذلت آمیز۔ اگر پاکستان ہم سے ایک خود مختار قوم کے طور پر برتاو برتنا چاہتا ہے تو ہم دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔ اگر پاکستان ایسا کرنے پر اتفاق نہیں کرتا اور جمہوری اصولوں کو روندتا ہے تو اس طرح کا رویہ ہمارے لیے مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہوگا، اور اگر ہمیں یہ مقدر قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تو پھر ہر بلوچ فرزند اپنی قومی آزادی کے دفاع میں اپنی زندگی قربان کر دے گا۔“
اسی اثنا میں پاکستان نے نوآزاد ریاست کلات پر پاکستان میں شامل ہونے کا دباو ڈالنا شروع کر دیا اور کلات اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں ایک مضطرب خاموشی چھا گئی۔ پاکستان اور کلات کے درمیان مذاکرات کھنچتے چلے گئے۔ پاکستان نے خان اور بلوچ ریاستی مشینری کو مختلف حیلوں سے ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، وہ خان کو پاکستان میں شامل ہونے پرمجبور کرنے کے لیے سازشوں اور مکارانہ ہتھکنڈوں میں مصروف تھا۔
جب پاکستان کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ خان الحاق قبول نہیں کریں گے تو اس نے لسبیلہ اور خاران، جوکہ کلات سے وفاداری کی پابند ریاستیں تھیں، اور مکران جوکہ ریاست کلات کے ایک ضلع سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھا، کے ساتھ الحاق کے علیحدہ دستاویز کے ذریعے 18 مارچ کو شامل ہونے کا اعلان کیا ۔ مکران، خاران اور لسبیلہ کے الحاق کے ساتھ کلات اپنے آدھے سے زیادہ علاقے اور سمندر تک اپنی رسائی سے محروم ہوگیا۔
اگلے روز خان کلات نے ایک بیان جاری کیا اور اس بات پر یقین کرنے سے انکار کردیا کہ پاکستان دنیا میں مسلم حقوق کے چمپیئن کے طور پر اپنے چھوٹے مسلمان ہمسایوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرسکتا ہے اور نشاندہی کی کہ مکران کی، بطور قلات کے ایک ضلع کے، کوئی جداگانہ حیثیت نہیں ہے اور یہ کہ لسبیلہ اور خاران کی خارجہ پالیسی اسٹینڈ اسٹل ایگریمنٹ (امتناعی معاہدے) کے مطابق کلات کے ما تحت رکھی گئی تھیں۔
مورخہ 26 مارچ 1948ء کو پاکستانی فوج کو بلوچ ساحلی علاقے پسنی، جیونی اور تربت جانے کا حکم دیا گیا۔ یہ پاکستانی فوج کے خصوصی مہمی دستے کی طرف سے یکم اپریل 1948ء کو دارالحکومت کلات پر چڑھائی سے قبل جارحیت کا پہلا واقعہ تھا۔ فوج کے ساحلی علاقے میں منتقلی کے بعد 27 مارچ 1948ء کو خان ان کے آگے جھک گئے اور کراچی میں اس کا اعلان کیا گیا کہ خان کلات نے اپنی ریاست کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ کلات کے آئین کے تحت خان کے پاس ایسا بنیادی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ بلوچستان اسمبلی نے پہلے ہی سے کسی بھی بہانے بلوچستان کی آزادی کو خیرباد کہنے کی کسی بھی تجویز کو ٹھکرا دیا تھا۔ بھارت سے برطانوی انخلا کے بعد خود مختار بلوچ ریاست صرف 227 دن قائم رہی۔
سن 1948ء میں خانیت کا پاکستان میں ضم ہونے کا نتیجہ بلوچستان بھر میں بدامنی اور پاکستان مخالف ریلیوں کی صورت میں نکلا۔ نیشنل پارٹی، جوکہ ایک ”گریٹر بلوچستان“ کے نصب العین کی وکالت کرتی تھی، نے الحاق کو مسترد کر دیا اور بیشتر شورشی مظاہروں کے پیچھے اسی کا ہاتھ تھا۔ اس کے قائدین، میر غوث بخش بزنجو، میر عبدالعزیز کرد اور دیگر کو گرفتار کر لیا گیا۔ خان کے چھوٹے بھائی کی طرف سے ایک مختصر دورانیے کی بغاوت کو پاکستان فوج نے بے رحمی سے کچل دیا اور بغاوت کے رہنما شہزادہ عبدالکریم کو قید کردیا۔ بلوچ اور ریاست پاکستان کی افواج کے درمیان یہ پہلی مڈبھیڑ ایک نئے نوآبادیاتی طاقت کے ہاتھوں قوم پرستانہ عدم تحفظ اور جبر کے خوف کی تشکیل میں ایک اہم عنصر تھی۔
ریاست کلات کا پاکستان کے ساتھ جبری الحاق، جس سے خود مختار اور نیم خود مختار بلوچ ریاست کے تین سو سالہ دور کا خاتمہ ہوا، بلوچوں کی تاریخ کے عہد ساز واقعات میں سے ایک تھا۔ نوآبادیاتی نظام، خواہ وہ ایران کی ہو، افغانستان، برطانیہ یا پاکستان کی، نے قوم پرستی کے شعور کی سانچہ سازی میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے جو کہ اپنی ابتدائی شکل میں ان کی پوری تاریخ میں موجود رہی ہے لیکن خوابیدہ رہی ہے، اسی لیے وہ اپنی جدوجہد کو اس انداز میں آگے بڑھانے کے قابل نہیں رہے تھے جیسا کہ وہ اس وقت کررہے ہیں۔ یہ شعور جو انہوں نے ایک انتہائی تلخ قیمت پر حاصل کیا ہے، اب اپنی تقدیر کا مالک خود بننے کے لیے ان کی جدوجہد میں ایک فیصلہ کن عنصر بنتا جا رہا ہے۔