Powered By Blogger

понедельник, 9 апреля 2018 г.



شہید غلام محمدبلوچ , ایک انقلابی لیڈر --- شہید ڈاکٹر منان بلوچ 


جب بھی دنیا میں معاندانہ تضادات جنم لیتے ہیں اُ نھیں توختم کرنے کیلئے اسی طر ح ایسے افراد بھی پیدا ہوتے ہیں جنکی جسمانی ساخت تو دوسروں کی طرح ہوتی ہے لیکن اُنکی سوچ،ہمت ،جرأت دوسروں سے مختلف اور فیصلہ کن ہوتا ہے عام لوگ بہت کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن اِن سب سے با معنی وہ کچھ ہوتا ہے جس کودیکھ لیناعام انسان کے بس کی بات نہیں۔یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ خارجی اسباب تبدیلی کی شرط ہوتے ہیں اور داخلی اسباب تبدیلی کی بنیاد ہوتے ہیں۔ تبدیلیوں کے ادراک کے لیے ایک غیر معمولی ذہنیت درکار ہوتی ہے کیونکہ ایسے لوگوں کے لیے غلطی کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی، کیونکہ ایسے غیر معمولی انسانوں کی معمولی غلطی موافق حالات کو مشکل حالات میں بدل دیتی ہے، تبدیلی کے اِس راہ میں کانٹے بھی ہوتے ہیں لیکن ایسے عظیم انسانوں کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ یہی ایک راستہ ہے جو حیات اور جاویدانی کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔
یہی وہ انسان ہوتے ہیں جن کے حامیوں کی تعداد گو کہ زیادہ نہیں ہوتی لیکن مضبوط ارادہ اور غیر متزلزل کردار اُن کی کامیابی کی دلیل ہوتی ہے کیونکہ حالات کی تبدیلی کی پرورش لفظ اور عمل کا متقاضی ہے۔اس کام کو سرانجام دینے والے تاریخ کا دھارا موڑدیتے ہیں اور یوں کہیں کہ تاریخ بناتے ہیں۔تبدیلی سے عاری ذہنیت تاریخ کوبنانے کے قابل نہیں ہوتے اِس لیے بیمانسکی نے کہا تھا کہ زندہ رہنے کا مطلب ہے کہ فروغ پانا ،آگے بڑھانا، تضادات ، مفاہمت سے نہیں بلکہ شدید جدوجہد کے ذریعہ ختم ہوتے ہیں ۔اِس لیے تو کہتے ہیں جو شخص موت سے ڈرتا ہو وہ بلند ہمت کیسے ہو سکتا ہے؟
لینن نے ایسے انسانوں کے بارے میں کہا ہے کہ’’ تمام تاریخ اِن افراد کے اقدامات سے تشکیل پاتی ہے جو بلاشبہ فعال شخصیتں ہوتی ہیں ‘‘
بلوچ قوم کو جس سامراجی قوت نے بزور طاقت27 مارچ 1948 کو غلام بنا یا تو اِس معاندانہ تضاد کو محسوس کرتے ہوئے آغا عبدالکریم نے ہتھیار اُٹھالئے اور دشمن کے خلاف جدوجہدمعمولی اوقات میں خاموشی کے علاوہ جاری و ساری ہے لیکن1976 میں ایک طویل جنگ کے بعد بلوچ قومی جدوجہد کو مصلحت پرستی اور مفادات نے گھیر لیا اور انقلابی جدوجہد انفرادیت کی نذر ہو گئی ۔2002 اور2003 میں بلوچ قوم کے اندر ایسی شخصیات میدان عمل میں آئیں جنہوں نے معاشرے میں موجود تمام سیاسی گندگیوں ،منافقانہ ذاتی و گروہی مفاد پرستی کی بیخ کنی کا تہیہ کر لیا اور بلوچستان کے ہر گلی کوچہ میں ایک ہی آواز گونجنے لگا اور وہ آواز B.N.Mکے صدر غلام محمد بلوچ کی تھی۔
آپ اپنی آواز سے دشمن کو للکارتے رہے۔ اپنی تحریروں و تقریروں میں واضح کرتے رہے کہ ’’یہ جنگ ہم نے شروع کی ہے اور اِسکا خاتمہ ہم ہی کرینگے ‘‘ اور دنیا نے دیکھ لیا کہ مفاد پرستی کی سیاست خزاں زدہ پتوں کی طرح غائب ہونے لگی اور جب تشدد سے غلام زدہ ذہنوں نے انگڑائیاں لیں اور قربانی کے جذبے سے سرشار مند کے نہتے عوام اپنے عظیم قائد چیئر مین کی قیادت میں ایف سی کیمپ پر حملہ آور ہوئے۔ پہلے مختلف ٹی وی چینلوں پر یہ لوگ اِس قسم کے مظاہرے ؤصیہونی ریاست کے خلاف جزبہ حریت سے سرشار فلسطینی عوام کو دیکھ چکے تھے ۔لیکن اب کی بار وہ خود اِس عمل کا حصہ تھے ، بلوچستان کے طول و عرض میں غلام محمدکی گرج دار آواز گونجتی رہی جو قوم پارلیمنٹ کی غلام گردشوں میں اپنے فکر و نظریہ سے بھٹک گئے تھے اور حالات کے مُنہ زور گھوڑے کو لگام دینے کے لیے کوئی نہ تھا لیکن چیئرمین غلام محمد بلوچ نے اپنی سوچ فکر نظریہ عمل جرأت بہادری کے ساتھ حالات کومثبت جانب موڑ کر مصلحت پرست لیڈروں کی تمام راہوں کو مسدود کیا۔
آپ بلوچ قوم کے اندر رہ کر اپنی انقلابی آدرشوں کی پرچار کرنے لگے آپ کو یقین تھا کہ قومی جنگ میں عوام پر بھروسہ کئے بغیر فتح حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ عوام کو متحرک و منظم کرنے اور انقلابی تعلیم کے لیے بلوچستان کے ہر گوشے میں گئے اور جبری صورت حال کو عوام کے سامنے واضح کردیا کیونکہ جبری صورت حال کو سمجھنے کے بعد ہی غلامی سے کُند کئے ہوئے افراد جدوجہد کے لیے کمر بستہ ہوتے ہیں اِس دوران ’’قومی محکومی کے علمبردار‘‘ کہتے رہے کہ’’ مزاحمت کا مطلب محکومی ہوگا اور جنگ کرنے کا مطلب تباہی ۔‘‘
لیکن چیئر مین غلام محمد نے اپنی نظریاتی تحریروں و تقریروں سے ثابت کرتے رہے کہ ’’جنگ نہ کرنے کامطلب تباہی ہوگااور اِس طرح قومیں مٹ جاتی ہیں۔‘‘
جنگ سے انفرادی قربانیاں اجتماعی بقا کی ضمانت ہیں انقلابی جنگ میں بے پناہ قوت ہوتی ہے وہ بہت سی چیزوں کو تبدیل کر سکتی ہے آپ کے اسی انقلابی عمل نے الجھن ،ابہام اور غیریقینی صورت حال کو یکسر بدل دیا۔ پوری قوم میں انقلابی جنگ میں حصہ لینے کا جوش و جذبہ پیدا ہوا۔آپ کی سرفروشانہ جدوجہد نے دشمن کے اداروں پر لرزہ طاری کردیا دشمن کے ایجنڈے پر کام کرنے والی باج گزار پارٹیوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا ،مختلف پروپیگنڈوں کے ذریعے چیئر مین غلام محمد کوآئی ایس آئی اورایم آئی کا ایجنٹ قرار دیا گیا آپ کو بیک وقت تربت،کوئٹہ،پنجگور،کراچی میں مختلف مقدمات میں اُلجھایا گیا ۔ ایک سال تک عقوبت خانوں میں غیرانسانی تشدد آزمایا گیا لیکن ایسے شخصیات کے بارے میں نہرو نے کہا ہے کہ’’ جب کوئی شخص کسی مقصد کے لیے اپنی جان نذر کرنے کو تیار ہو جائے ایسی موت پر فخر کرنے لگے تو اِس کو دبانا یا اُسے مقصد سے مٹانا نا ممکن ہو جاتا ہے ‘‘
قبضہ گیر کی سفاکیت دم توڑ گئی اور چیئرمین مین غلام محمدکے آفکار پھیلتے رہے۔ جبر بڑھتا رہا اور آزادی کا پیغام سرایت کرتا ہوا ہر سرکو متاثر کرتا رہا۔
غلامی کی گرہن ڈوبتی رہی اوربلوچ قوم آزادی کی خاطر سینہ تھانے میدان میں آتی رہی۔
جیل و زندانوں کی تکلیفوں میں ایک ایسی مضبوط ذہنیت عطا کر دی کہ گوادر میں آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ’’پنجابی چاہے جتنا جیل و زندانیں بھر دے ہماری آزادی کی خواہش مٹنے کے بجائے مضبوط ہوتی جائے گی، آخر کار تمام حربوں کو آزمانے کے بعد 3اپریل 2009 کو تربت سے آزادیِ انقلاب کے اِس عظیم پیکر کو دشمن کی بکتر بند گاڑیوں کی معیت میں ایک لاؤ لشکر کے ساتھ جسمانی طورجدا کرکے شہادت کے عظیم رُتبے پہ فائز کر دیا۔
لیکن جسم کٹتے ہیں تو شعور بالغ ہوتا ہے چیئر مین غلام محمدبلوچ، لالہ منیر اور شیر محمد بلوچ کی شہادت نے دشمن کی تمام قوت کو تار تار کردیا اور کئی روز تک کاروبار سے لے کر سرکاری دفاتر تک بند رہے ، اقوام متحدہ،چین ،امریکہ،ہندوستان سمیت دُنیا کے زیادہ تر ممالک نے اِس عظیم انسان کی شہادت پر افسوس کے پیغامات بھیجے اور اِن فکری رہبروں کی شہادت نے B.N.M کو ایک ناقابل تسخیر قوت بنادیا ۔اگر دیکھا جائے تو ایک طویل عرصے کی مصلحت پرستی اور پارلیمانی سیاست نے بلوچ قومی آزادی کو جہاں تباہی کے دھانے پہ پہنچادیا۔وہیں فکری و نظریاتی علم سے لیس اِنقلابی جدوجہد نے بلوچ کی آواز کو آسمان کے بلندیوں پر پہنچادیااور قلیل عرصے میں بلوچ قوم کی منزل قریب ہونے لگی۔
...............

(یہ تحریر زرمبش سے لی گئی ہے)
https://dailysangar.com/home/page/10454.html

Комментариев нет:

Отправить комментарий