Powered By Blogger

вторник, 3 апреля 2018 г.


شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ, بلوچ نیشنلزم کا علامت


تحریر:۔خلیل بلوچ
چیئرمین بلوچ نیشنل موومنٹ
’’جو لوگ چیئرمین غلام محمد سے قربت رکھتے تھے ، انہیں بخوبی علم ہوگا کہ چیئرمین کا سرزمین سے عشق کا کیا عالم تھا۔وہ کیسے جذبے کے مالک تھے ۔وہ کیسی موت کا خواہش مند تھے۔ انہیں اس بات کی کوئی بالکل پرواہ نہ تھی کہ وہ کتنے دن زندہ رہیں گے بلکہ انہیں فکر اس بات کا تھا کہ قومی جدوجہد کو کیسی زندگی دے پائے گا۔قومی بقاء کے لئے وہ کیا کرپائے گا،ایسے لیڈر کے شہادت پر بجا طورپر فخر کیا جاسکتا ہے ۔‘‘
آج شہید چیئرمین غلام محمدبلوچ کی نویں برسی ہے ۔وہ ہستی جسے ہم نے آج سے نو سال پہلے 2009کو آزاد ی کے سفر میں الوداع کہہ دیا۔اپنی شہادت کاغلام محمد کو یقین بھی تھا اوریہ یقین ان کی جوش اورولولے میں ہمیں جابہ جا نظر آتاہے ۔
بلوچ قومی تحریک آزادی میں بے شمار دوستوں نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا ہے ۔آج ہمیں قومی تحریک میں جو توانائی، طاقت اور تنظیم نظرآتا ہے وہ انہی ساتھیوں کی محنت، قربانی اور شہادتوں کا ثمر ہے ۔ دنیا میں ہمیشہ اور ہرجگہ یکساں طورپر لہو سے سیرا ب قومیں تاریخ کے صفحات میں باوقار ور شاندار درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ آج بلوچ قوم بھی اپنی لہو سے قومی تحریک کو سیراب کرکے اپنی تاریخ وتہذیب کے اقدارکو گراں مایہ بنارہاہے ۔آج تاریخ کے سامنے سرخ رو ہورہاہے۔
لیکن اس بات کا ہمیں قوی احساس ہونا چاہئے کہ قومی تحریکوں کے سرخیل اور رہبروں کی قربانی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتاہے۔عددی اعتبار سے وہ بھی ہماری طرح قوم کا ایک فرد اور اکائی ہوتے ہیں مگر ان میں دوراندیشی ،شعور کی گہرائی اور قومی جذبے کا اس قدر فراوانی ہوتی ہے کہ وہ قومی مقاصد کی حصول کے لئے نئی راہیں کھولتے ہیں ۔غلامی سے زنگ آلود ذہنوں پر جمی گرد جھاڑ کرانہیں مثبت اورتعمیری سوچنے کے قابل بنادیتے ہیں ۔خودشکستگی اورآپسی کُشت و خون کے عالم سے نکا ل کرایک دشمن سے مقابلے کے مقام پر لاتے ہیں۔ طویل غلامی اور استحصال انسان سے انسان ہونے کا احساس چھین لیتا ہے ،یہ رہبر و رہنما ہی ہمیں انسان ہونے کا احساس دلاتے ہیں جسے ہم طویل غلامی میں واقعتاکھوچکے ہوتے ہیں۔
یہ کام چیئرمین غلام محمد بلوچ نے ایسے عالم میں کیا کہ بلوچ قوم کے ساتھ آزادی کے نام پر اتنی جھوٹ بولاگیاتھا کہ سچ کو ثابت کرنا بذاتِ خود ایک مشکل کام تھا۔ کجاکہ پوری قوم تحریک میں ہمنوا بن جائے لیکن چیئرمین غلام محمد کی صلاحیتیں ، عزم اور حوصلے اتنے بلند تھے کہ آپ نے غلامی کے چکی میں پسے ،استحصال زدہ ، پسماندگی اور جہالت میں پھینکے گئے قوم میں ایک نئی روح پھونک دی ۔انہوں نے ہمیں اپنی تاریخ ،گراں قدر تہذیب کا احساس دلایا ۔ایک طاقت ور دشمن کے خلاف صف آراء ہونے کے لئے ہمیں تنظیم کی شکل دی۔ یہ غلام محمد کا جذبہ قربانی تھا کہ آج ہر سیاسی کارکن آزادی کی حصول کے لئے شہادت کوخندہ پیشانی سے گلے لگانے کے لئے تیا ر ہے ۔ مائیں اپنے بچوں کی شہادت پر ماتم کے بجائے شادمانی کرتی ہیں یہ معمولی جذبہ نہیں ہے ،یہ معمولی قربانی نہیں ہے ۔
تاریخ میں لیڈرشپ ہمیشہ یکساں طورپر بلند مقام پر فائزاس لئے بھی ہوتے ہیں کیونکہ ان کاکردار،کارنامے اورقربانی ان کے اپنے دور تک محدود نہیں رہتیں۔ یہ نہ صرف منزل تک اپنی قومی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے بلکہ اپنی قوم بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور محکوم ان ہی سے رہنمائی پاتے ہیں۔طویل غلامی، بازاری اور باجگزاری سیاست نے ہم سے منزل کا سمت اور راستے سب چھین لئے تھے۔انحراف مکمل ہوچکا تھا ،منحرفین شادان تھے کہ اب پاکستانی پارلیمان کے غلام گردشوں میں ان کے صفِ سجدوں میں کوئی دراڑ ڈالنے والا نہیں آئے گا۔ طبیب اصغر اور طبیب اکبر کی حکمت پاکستانی افواج سے وفاداری کاسند حاصل کرچکا تھا ۔بظاہر تیرگی کا راج تھا ،غلامی کا تیرگی ہماری بحیثیت قوم احاطہ کرچکا تھا ۔پنجابی اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر ساحلِ بلوچ سے بڑے بڑے منصوبوں کی صورت میں حملہ آور ہوچکا تھا۔جس طرح آج ان کا اصل شکل قوم کے سامنے آرہاہے۔ یہ محض تجارتی منصوبے نہ تھے ،ہمارے خیال سے زیادہ گہرے اورتباہ کُن تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ غلامی کے بیکراں سمندر میں استحصال کے بھنورمیں موت و زیست سے دوچار بلوچ قوم کے لئے غلام محمد ایک قطب نما تھا، جس نے ہمیں منزل کا سمت دکھایا، راستے کا تعین کیا ، قومی کشتی کے بادبانوں میں طوفانوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت عطا کی، بے رحم لہروں سے لڑنے کاجذبہ اور جوش دیا۔
یہ عیاں حقیقت ہے کہ آج بلوچ قوم میں اپنی آزادی کے تحریک سے وابستگی،بلوچ نوجوانوں میں قربانی کا جذبہ اوردنیامیں بلوچ بارے جو آگاہی ہے، اس میں کلیدی کردار چیئرمین غلام محمد شہید جیسے استاد اور رہبرکا ہے ۔جن کی تعلیمات بلوچ قومی شعور ی بالیدگی میں بنیادی نصاب کا درجہ رکھتے ہیں ۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی کم تکلیف دہ نہیں کہ ایسے لیڈر کا شہادت قوم کو اپنی فوائد کے ساتھ ساتھ کبھی پُر نہ ہونے والے خلاء بھی دے جاتے ہیں کیونکہ اس سطح کے لیڈر اور رہنما پیدا کرنے میں قوموں کو طویل وقت درکار ہوتے ہیں ۔ایسے مشکل وقت میں صرف ایک بات وجہ اطمینان ہوتا ہے کہ وہ رہبر ایک ایسی نظام دے جاتے ہیں کہ اس نظام میں اس کا نعم البدل نہ سہی لیکن اس خلاء کو بھر نے میں مدد ملتا ہے ۔نظام کی موجودگی میں انتشار اور سراسیمگی نہیں پھیل جاتا،جدوجہد رک نہیں جاتا ہے۔ وہ نظام ہمیں بلوچ نیشنل موومنٹ کی صورت میں چیئرمین غلام محمد نے عطا کیا اور اس پارٹی کو قائم و ائم رکھنے کے لئے اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کیااورآج کی بلوچ سیاست کا بنیادی فرق اور ادارے کی بالادستی پر یقین ہے ۔
اس بات پر بھی شک نہیں کہ یہ بلوچ کے لئے ایک تاریک دن ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ فخر کا مقام بھی کہ یہ ایک ہستی کا یوم شہادت ہے جو اس بات کا متمنی تھا کہ’’ وہ بلوچ قومی آزادی کے لئے شہادت کا جام نوش کرے۔جو لوگ چیئرمین غلام محمد سے قربت رکھتے تھے ، انہیں بخوبی علم ہوگا کہ چیئرمین کا سرزمین سے عشق کا کیا عالم تھا۔وہ کیسے جذبے کے مالک تھے ۔وہ کیسی موت کا خواہش مند تھے۔ انہیں اس بات کی کوئی بالکل پرواہ نہ تھی کہ وہ کتنے دن زندہ رہیں گے بلکہ انہیں فکر اس بات کا تھا کہ قومی جدوجہد کو کیسی زندگی دے پائے گا۔قومی بقاء کے لئے وہ کیا کرپائے گا،ایسے لیڈر کے شہادت پر بجا طورپر فخر کیا جاسکتا ہے ۔اپنی موت میں قومی زندگی کا کھوج لگانے والے ہستیوں سے ہم نے یہی سبق سیکھا ہے کہ قومی بقاء ہی سب کچھ ہے۔
اپنے لیڈرشپ میں ہمیں کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ اس بات کی خواہش مند ہو کہ قربانی ورکر،کارکن اور قوم کے حصے میں آئے اور وہ خودزندگی سنبھالے رہیں۔ ہمیں فخرکرنا چاہئے اپنے عظیم ہستیوں پرکہ انہوں نے موت کو گلے لگانے کے لئے پس و پیش نہیں کیا۔ شہیدسدوجان،شہید ڈاکٹر منان جان ،ڈاکٹر خالد ،رضا جہانگیر،حاجی رزاق،چیئرمین سنگت ثناء ایک بڑی تعدادہے جن سے ہمیں قربانی کا درس ملتا ہے اور عملی نمونہ بھی۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ انقلابی جدوجہد کا بنیادی فلسفہ ہے کہ آپ کو اپنی ذات کو فنا کرنا چاہئے ۔ہرورکر،ہر سپاہی کو گمنام رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔کردار و عمل آپ کی موجودگی کا گواہی دے، تب ہم انقلابی کہلائے جاسکتے ہیں ۔صرف جدوجہد زندہ رہے،افراد فانی ہوتے ہیں ، مگر انکا عمل امر ہو جاتا ہے۔گمنامی میں انقلابی عمل کو قومی تقاضوں کے مطابق آگے لے جانا ہی اصل ورکر و سپاہی کا عمل وہ قوم کی روشن مستقبل کا ضامن ہے۔ قوموں کو فنا نہیں کیا جاسکتامگربنیادی شرط واضح سمت اور واضح نظریہ ہے جس پر کاربند رہ کر ہی ہم قومی بقاء کو محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔
آج ہم اپنے قائد چیئرمین غلام محمد کویاد کررہے ہیں۔ غلام محمد کو یاد کرنا تجدید عہدہے ۔اس قول کی پاسبانی ہے جوہم اپنے قوم سے کرچکے ہیں ۔غلام محمد بلوچ نے نظریے کو روشنی دی جو منزل تک ہماری رہنمائی کرے گا۔نظریہ ہمیں بیگانگی اورا نتشار سے محفوظ رکھے گا۔
چیئرمین غلام محمد نے اُس ادارے کا بنیاد رکھا جو دشمن کی تمام ظلم و بربریت کے باوجود مضبوط و منظم ہورہا ہے ۔اس میں نئی توانائی شامل ہورہا ہے ۔اس کے کارکن دنیا بھر میں پھیل رہے ہیں ۔یہ بلوچ کا مضبوط سیاسی مورچہ بن چکاہے ۔بلوچ نیشنل موومنٹ کا بنیاد رکھنا اور بلوچ قومی سیاست کو پیداگیروں ،پاکستانی پارلیمان پرستوں سے آزاد کرنااورسب سے اہم بات یہ کہ بلوچ سیاست کو عوامی بنانا غلام محمدبلوچ کا ایسا کارنامہ ہے جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔بلوچ قومی تحریک کے ساتھ ساتھ دنیابھر کے قومی تحریکوں کا تجزیہ ہمیں اس بات کو ماننے کے لئے مجبور کرتا ہے کہ شخصیات اداروں کے نعم البدل نہیں ہوتے ہیں ۔نجات ادارے میں ہوتی ہے ۔ادارے تسلسل کو برقرار رکھتی ہیں اور اس بات کا ہمیں بخوبی اندازہ ہے کہ یہ کام آسان نہیں اوربلوچ قومی سیاست کو مجموعی طورپر ادارتی بنیادوں پر استوارکرنے کے لئے پارٹی کے دوستوں کو انتھک محنت کی ضرور ہے ۔
آج ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ چیئرمین غلام محمد نے اُس ادارے کا بنیاد رکھا جس میں طاقت کا سرچشمہ بلوچ قوم ہے اورفلسفہ قربانی ہے اورسبق انتھک محنت اور قوم کو ساتھ لے کر چلنا، ہے۔ ،کوئی سیاسی پارٹی خود قوم سے الگ تھلگ یا دوسرے لفظوں میں قوم سے بالاتر رکھ نہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے اور نہ اپنی منزل پاسکتا ہے ،کیونکہ یہ آفاقی حقیقت ہے اور کسی طورسے وضاحت کی محتاج نہیں کہ مرنے سے قومیں ختم نہیں ہوتی ہیں بلکہ موت کاخوف اور بے عملی قومی موت کا سبب بنے گا۔ اس کا ہزارہا مثال پیش کیا جاسکتا ہے ،پاکستان نئے ہزاریے کے آغاز پر جن جن منصوبوں کے ساتھ بلوچ سرزمین پر حملہ آور ہوا تھا اگر ہم بطور قوم خوف کا شکار ہوجاتے تو شاید آج ہماری قومی تشخص اور بقاء مٹ چکا ہوتا،لیکن جدوجہد اور قومی عمل نے ہمیں مٹنے سے بچالیا ہے ۔پارٹی اداروں کی سیاست نے تحریک کو تسلسل دینے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ پاکستان کے دوسرے بڑے بڑے منصوبے اور قومی نسل کشی کا پروگرام اپنی جگہ، صرف سی پیک کو لے لیں جسے کئی بڑے اورطاقت ورممالک اپنے لئے ایک واضح خطرہ تصور کرتے ہیں لیکن بلوچ مقابلہ کررہاہے۔ بلوچ نے دنیا پر ثابت کردیاہے کہ پاکستان اور چین دونوں مل کر بھی بلوچ قوم کو مٹا نہیں سکتے ہیں۔ یہ جذبہ اور موت سے بے خوفی چیئرمین غلام محمد جیسے ہستیوں کا دین ہے ۔
جب اپریل 2009 کی تین تاریخ کو ہمارے پارٹی کے بانی اور چیئرمین غلام محمد،انکے ساتھی لالا منیر اور شیر محمد کو اٹھا کر شہید کیا گیا تو وہ دن ہمارے لیے امتحان اور دشمن و اس کے کاسہ لیسوں کے لئے خوشی کا دن تھا ۔ہمارے لئے امتحان اس لئے کہ چیئرمین غلام محمد نے نیشنلزم کے نظریے کو اُس نہج پر پہنچایا تھا کہ اسے برقرار رکھ کر پارٹی پلیٹ فارم سے جدوجہد کو ،چیئرمین غلام محمد کے جوش اور ولولے سے آگے بڑھاناایک مشکل امر تھا۔ اپنے ابتداء اور ارتقاء کے آغاز کے ساتھ دشمن ہم پر کاری ضرب لگا چکا تھا ۔چیئرمین غلام محمد کا نعم البدل پید اکرنا نہ صرف پارٹی کے لئے بلکہ بلوچ قوم کے لئے ایک چیلنج تھا ۔چیئرمین کی شہادت پر دشمن کی خوشی کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو وہ تحریک آزادی میں ایک علامت اور سمبل کی حیثیت اختیار کرچکے تھے ،انہوں نے تاریخ کے تجربے کی بنیاد پرسیاست کو شخصی کے بجائے پارٹی شکل دینے میں کامیابی حاصل کی تھی ،اس کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی تھا کہ ان کی موجودگی میں دشمن کے کاسہ لیس اور نام نہاد قوم پرستوں کے لئے بلوچ قوم میں کام آسان نہ تھا ،ان کی آواز میں ایسی توانائی تھی کہ تحریک دشمنو ں کے لئے اس کوتوڑنا ناممکن تھا ۔انہوں نے پاکستان نواز کاسہ لیس سیاست دانوں کی تمام کرتوتوں کو قو م کے سامنے اس طرح آشکار کیا تھا کہ نام نہاد قوم پرست قوم کے سامنے اپنا چہرہ تک دکھانے کے قابل نہ رہے۔ دن کی روشنی میں ان کے لئے اپنے ٹھکانوں سے باہر نکلنا مشکل بلکہ ناممکن ہوچکا تھالیکن دشمن اور اس کے حواریوں کی خوشیا ں دیر پاء ثابت نہ ہوئیں کیونکہ غلام محمد نے اپنی شخصیت کی تعمیر کے بجائے ادارے کی تعمیر کی تھی۔ انہوں نے اپنی ذات کو نمایاں کرنے کے بجائے نظریے کو بامِ عروج پر پہنچایا تھا اور یہی ہماری قومی تحریک میں کامیابیوں کا بنیادی وجہ بنا ۔
آج ہمیں غلام محمد یا د آتا ہے ۔ ان کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ہمیں اس کا فہم و دراک اور ارفع سیاسی شعور کی ضرورت ہے لیکن انہوں نے بلوچ نیشنل موومنٹ کی صور ت میں جس ادارے کی بنیاد رکھی ہے وہ آج اُن تمام نقصانات کا ازالہ کرنے کی پوزیشن میں ہے جو نہ صرف دشمن بلکہ کئی اطراف سے درپیش آتے ہیں
۔
https://dailysangar.com/home/page/10327.html

Комментариев нет:

Отправить комментарий