Powered By Blogger

пятница, 31 октября 2014 г.


After the Death of Ameer E Omar Meerwani Baloch this 

tragedy spread all over baloch nation and on that time his 

son Ameer E Bejar was 5 year old . In response to this 

tragedy Ameer E Shahek Rind who was Ameer E Makran 

and considered himself a senior among the Baloch 

Brotherhood and Baloch unity to take the responsibility of 

Baloch Leadership and came in action . On 15 February 

1485 Ameer E Shahek Rind with Mir Chakar and Ameer 

Gwahram Lashari with their Balochi Armies marched toward 

Mashkey and camped near Nagari (Surab) . On 20th 

February 1485 Ameer E Shahek Rind and Mir Chakar 

attacked the Castle of Nagari , and after an extremly intense 

battle Ameer Jalib chataa Jadgal was killed and castled was 

captured. After wards Ameer E Shahek Rind went to Kalat 

and announced himself as the new king of Baloch Nation. 

After two year Ameer E Shahek and his son Ameer Chakar 

and Ameer Gwahram Lashari planed to conquer Area of 

Kachi .Ameer E Shahek and his Son Mir Chakar conquered 

Bolan and Dadar . Ameer Gwahram Lashari conquered 

Gundahwa and both Armies marched toward Bagh .On 18th 

January Ameer E Shahek Rind Mir Chakar and Ameer 

Gwahram Lashari Attacked Sibi. The head of Sibi was Chief 

Allahdin Pothra Dawood which was Appointed by Jam 

Nizamudin Al Marof as Chief of Sibi and was defeated by 

Ameer E Shahek Rind Ameer E Baloch and Mir Chakar Rind .
 After the conquest of Sibi , in the season of spring Sibi 

festival was held for the first time as a celebration of the 

quest and so the foundation of the Sibi festival were laid. 

Ameer E Shahek made Sibi the Capital of Balochistan and 

Meer Mando Rind was Appointed as Governor of Kalat. On 

2th February 1487 there was a Old Castle which was 

repaired by Ameer E Shahek Rind and made it a huge 

Castle.And later on in 1489 which was named Chakar 

Castle. 

Ameer E Shahek Rind Ameer E Baloch Died in sibi on 11 

February 1490 replaced by his Son Mir Chakar Rind 1490 to 

1512

четверг, 30 октября 2014 г.


پاکستانی خفیہ ادارہ بدنام زمانہ آئی ایس آئی بلوچ قومی تحریک آزادی کا زور 

توڑنے اور اسے اندر سے کمزور کرنے کیلئے پوری منصوبہ بندی کے تحت 

بلوچ 

معاشرہ کے اندر مصنوعی طریقوں سے مذہبی انتہا پسندی وفر قہ واریت کو فروغ 

دینے کی کوشش کر رہی ہے
بلوچستان لبریشن فرنٹ (پالیسی بیان)
مقبوضہ بلوچستان نیوز)بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے پارٹی 

کی پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے نامعلوم مقام سے سیٹلائٹ فون کے ذریعے کہا 

کہ پاکستانی خفیہ ادارہ بدنام زمانہ آئی ایس آئی بلوچ قومی تحریک آزادی کا زور 

توڑنے اور اسے اندر سے کمزور کرنے کیلئے پوری منصوبہ بندی کے تحت 

بلوچ 

معاشرہ کے اندر مصنوعی طریقوں سے مذہبی انتہا پسندی وفر قہ واریت کو فروغ 

دینے کی کوشش کر رہی ہے ، آئی ایس آئی اپنی تربیت یافتہ ایجنٹوں کی کمان میں 

متعدد عسکری گروہ تشکیل دیکر انہیں مختلف فرقہ پرست جہادی تنظیموں کے نام 

پر فوجی تربیت ، فنڈ ، پناہ گاہیں اور آپریشنل سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔ کیچ کے 

علاقے پیدارک میں سردار رعزیز عمرانی اور اُس کے بیٹے میران کے کمان میں 

ایک ایسے ہی عسکری گروہ کا کیمپ موجود ہے ، یہ گروہ آئی ایس آئی کی ایما 

پر ذکری فرقہ کے خلاف جہا د کے نام پر بلوچ عوام ، آزادی پسند ، بلوچ آزادی 

پسند کارکنوں و سرمچاروں کے خلاف عسکری کارروائیوں میں ملوث ہے ۔ اس 

کے علاوہ پنجگور میں تعلیمی اداروں کو دھمکانے و دشت میں تعلیمی اداروں کو 

نذر آتش ، کولواہ میں ذکری عباد ت گاہ پر حملہ، گریشہ میں ذکری زائرین پر 

حملہ 

، کیچ، پنجگور ، کولواہ ، گریشہ ،جھاؤ و دیگر علاقوں میں داعش (آئی ایس آئی 

ایس ) کی شاخوں تحفظ حدوداللہ ، جنداللہ ، انصارالاسلام ، الجہاد ، لشکرِ اسلام ، 

الفرقان الاسلام اور آواران میں لشکر طیبہ کے نام سے فرقہ وارانہ نفرتوں سے 

لبریز لٹریچر و پمفلٹ کی تقسیم اور وال چاکنگ جیسی سرگرمیوں کے پیچھے آئی 

ایس آئی کا ہاتھ ہے۔ذکرو نمازکی بنیاد پر بلوچ قوم کو تقسیم اور آپس میں دست و 

گریبان کرنے ، عسکری کارروائیاں کرنے اور فرقہ وارانہ نفرتیں پھیلانے میں 

ملوث آئی ایس آئی کے ایجنٹوں کے خلاف ہر محاذ پر بلوچ عوام ، تحریک آزادی 

اور سیاسی کارکنوں کا دفاع کرنے کیلئے بی ایل ایف پوری طرح پُر عزم ہے 

،بلوچ قوم اور تحریک آزادی کے خلاف اس مکروہ سازش کا پردہ چاک کرنے کا 

مقصد بلوچ عوام اور عالمی رائے عامہ کو باخبر کرنا ہے، تاکہ فرقہ وارانہ 

بنیادوں پر بلوچ قوم کو تقسیم اور آپس میں دست و گریباں کرنے اور نفرتیں 

پھیلانے والے آئی ایس آئی کے ایجنٹوں کے خلاف بی ایل ایف کی کارروائیوں کو 

کوئی دوسرا رنگ نہیں دی جا سکے،ہم بلوچ علماء کرام سے بھی دوخواست 

کرتے 

ہیں کہ آئی ایس آئی کی اس مکروہ سازش اور بلوچ نسل کشی پر خاموش رہنے 

کے بجائے اپنا قومی اور دینی فرض ادا کرتے ہوئے فرقہ وارانہ نفرت ، انتہا 

پسندی اور عسکری کارروائیوں کی کھل کر مذمت کریں ۔

Why the existence of Pakistan is not in India’s interest » Indian Defence Review

Why the existence of Pakistan is not in India’s interest » Indian Defence Review

среда, 29 октября 2014 г.

بلوچستان میں متحارب فریق ناقابل مصالحت ہیں

قومی سوال پر پاکستان کی بائیں بازو ریاست کیساتھ ملی ہوئی ہیں
تحریر: میر محمد علی ٹالپر / فاروق سلہریہ
ترجمہ : لطیف بلیدی
میر محمد علی ٹالپر کا کہنا ہے کہ ”توتک کی اجتماعی قبریں، جہاں سو سے زائد لاشیں دفن کی گئی تھیں، ’اسٹراٹجک اثاثوں‘ کی کارستانی تھی۔“
ممتاز دانشور، کالم نگار اور بلوچ قومی آزادی کے ایک سرگرم کارکن محمد علی ٹالپر نے اپنی زندگی بلوچ کاز کی حمایت میں گزاری ہے۔ اپنے اس انٹرویو میں انہوں نے بلوچستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ایک حالیہ ریڈیو انٹرویو میں سینیٹر ثناء بلوچ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان میں پنجاب کی کل گیس پیداوار صرف 2 فیصد ہے، جبکہ 80 فیصد پنجابیوں کو گیس کے استعمال تک رسائی حاصل ہے۔ بیک وقت بلوچستان پاکستان کی کل گیس کا 46 فیصد فراہم کرتا ہے لیکن بلوچستان کے صرف 20 فیصد لوگوں کو گیس تک رسائی حاصل ہے۔ بلکہ اس بات کو بھی رپورٹ کیا گیا ہے کہ بلوچستان کیساتھ گیس کی نرخوں کے تعین میں بھی امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ صوبہ بلوچستان سے نکلنے والی قدرتی گیس کے وسائل کے معاملے پر اسکی دیگر شکایات کیا ہیں؟
ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ بلوچستان کی گیس تھی جس نے پاکستانی معیشت کی ابتداء کی۔ سوئی میں گیس کی دریافت کے بغیر بہت کم ترقی ہوئی ہوتی۔ 1955 سے لیکر 1970 تک، سندھ میں گیس کی دریافت سے قبل، یہ سوئی سے نکلنے والی گیس تھی جسکا بنیادی طور پر پنجاب اور کراچی کو ترقی دینے کیلئے اندھا دھند استحصال کیا گیا۔ کسی نے بھی اس لوٹ مار کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا۔ اسکے نتیجے میں، بلوچ اور بلوچستان کے لوگوں کو اسکی بھیانک قیمت چکانی پڑی ہے۔مندرجہ ذیل اعداد و شمار نا انصافی کی اس وسعت کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تازہ اعداد و شمار نہیں ہیں۔ یہاں کوئی حالیہ جائزہ یا مطالعہ نہیں کیا گیا ہے جس سے استحصال کی سطح اجاگر ہو سکے۔
بلوچستان: ۔ کل پیداوار: 374,161 (ملین کیوبک فٹ) – کل فیصد: 40 – استعمال: 66,477 – فیصد: 2
سندھ :۔ کل پیداوار: 536,452 (ملین کیوبک فٹ) – کل فیصد: 54 – استعمال: 386,262 – فیصد: 38
پنجاب :۔ کل پیداوار: 67,691 (ملین کیوبک فٹ) – کل فیصد: 0.6 – استعمال: 6395,388 – فیصد: 144
خیبرپختونخواہ :۔ کل پیداوار: صفر – کل فیصد: صفر – استعمال: 24,138 – فیصد: 2
صوبہ وار سالانہ گیس کی پیداوار 2006-7:
سندھ: غیر متعلقہ گیس (ایم ایم سی ایف) 979,198 – متعلقہ گیس (ایم ایم سی ایف) 21,217 – کل (ایم ایم سی ایف) 1,000,415 – فیصد 70.77
پنجاب : غیر متعلقہ گیس (ایم ایم سی ایف) 52,481 – متعلقہ گیس (ایم ایم سی ایف) 16,127 – کل (ایم ایم سی ایف) 68,608 – فیصد 4.85
صوبہ سرحد : غیر متعلقہ گیس (ایم ایم سی ایف) 22,818 – متعلقہ گیس (ایم ایم سی ایف) 3,552 – کل (ایم ایم سی ایف) 26,370 – فیصد 1.86
بلوچستان : غیر متعلقہ گیس (ایم ایم سی ایف) 318,188 – متعلقہ گیس (ایم ایم سی ایف) 0 – کل (ایم ایم سی ایف) 318,188 – فیصد 22.50
پاکستان : غیر متعلقہ گیس (ایم ایم سی ایف) 1372,685 – متعلقہ گیس (ایم ایم سی ایف) 40,896 -
کل (ایم ایم سی ایف) 1413,581 – فیصد 100%
ماخذ: پاکستان سالانہ کتاب برائے توانائی 2007
صوبہ وار سالانہ گیس کی پیداوار اور استعمال کا رجحان 2006-7:
سندھ : کل گیس کی پیداوار (ایم ایم سی ایف) 1,000,415 – کل گیس استعمال (ایم ایم سی ایف) 459,369 – تناسب (استعمال بمقابلہ پیداوار) فیصد 45.91
پنجاب : کل گیس کی پیداوار (ایم ایم سی ایف) 68,608 – کل گیس استعمال(ایم ایم سی ایف) 638,008 – تناسب (استعمال بمقابلہ پیداوار) فیصد 930
صوبہ سرحد : کل گیس کی پیداوار (ایم ایم سی ایف) 26,370 – کل گیس استعمال (ایم ایم سی ایف) 42,480 – تناسب (استعمال بمقابلہ پیداوار) فیصد 161
بلوچستان : کل گیس کی پیداوار (ایم ایم سی ایف) 318,188 – کل گیس استعمال(ایم ایم سی ایف) 82,138 – تناسب (استعمال بمقابلہ پیداوار) فیصد 25.81
ماخذ: پاکستان سالانہ کتاب برائے توانائی 2007
یہ جدول یہی دکھاتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح سے معاملات بگڑے ہیں۔
ایک دستاویز بعنوان ”تیل و گیس اور صوبوں کے حقوق: سندھ کی کیس سٹڈی“ میں اسٹرینگتھننگ پارٹیسپیٹری آرگنائزیشن (ایس پی او) کے چیف ایگزیکٹو نصیر میمن لکھتے ہیں: ”سندھ اور بلوچستان مل کر گیس کی قومی پیداوار کا 93 فیصد سے زائد مہیا کرتے ہیں لہٰذا انہیں پاکستان کی توانائی کا منبع سمجھا جا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ اپنی پیداوار کا نصف سے بھی کم گیس استعمال کرتا ہے۔ بلوچستان اپنی پیداوار کا تقریباً ایک چوتھائی گیس استعمال کرتا ہے۔ پنجاب اپنی پیداوار کے مقابلے میں 85 گنا زیادہ گیس استعمال کرتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں: ”پنجاب میں 2,760,238 گھریلو صارفین ہیں جبکہ بلوچستان میں صرف 179,372 ہیں۔ اسی طرح سے صنعتی صارفین کی تعداد بالترتیب 4,792 اور 46 ہے۔ اوپر دیے گئے اعداد و شمار کیمطابق ان کا تناسب بالترتیب 53 فیصد اور 3 فیصد، اور کل کا 53 فیصد اور 1 فیصد ہے۔ قومی اوسط بھی بالترتیب 53 فیصد اور 3 فیصد ہے۔“ بلوچستان کے خلاف امتیازی سلوک اور استحصال کی حقیقت فی منبع نرخوں سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ یہ اعداد و شمار اسکی ایک مثال پیش کرسکیں گے۔ کاملاً غیر مساوی قدرتی گیس کی پیداوار اور فی منبع نرخیں درج ذیل میں شامل ہیں:
گیس فیلڈ فی منبع قیمت روپوں میں فی ملین برٹش تھرمل یونٹ
سوئی 47.4
پیرکوہ 75.82
لوٹی 75.82
اوسط 66.34
سندھ کی پیداوار 5,36452 ملین کیوبک فٹ سالانہ ہے۔ اس کے فی منبع نرخ مندرجہ ذیل ہیں:
گیس فیلڈ فی منبع قیمت روپوں میں فی ملین برٹش تھرمل یونٹ
قادر پور 137.86
کنڈن واڑی 181.26
بدین 108.61
اوسط 142.57
پنجاب کی پیداوار 67,691 ملین کیوبک فٹ سالانہ ہے۔ اس کے فی منبع قیمتیں مندرجہ ذیل ہیں:
گیس فیلڈ فی منبع قیمت روپوں میں فی ملین برٹش تھرمل یونٹ
پنج پیر 222.97
روتانہ 188.06
ڈھوڈک 77.77
اوسط 162.93
یہ حکومت آرٹیکل 158 کو ترمیم کرنا چاہتی ہے، جس میں کہا گیا ہے: ”قدرتی گیس کی ضروریات کی ترجیح: جس صوبے میں قدرتی گیس کا منبع واقع ہو اس منبع سے حاصل شدہ گیس سے وہاں کی ضروریات کو پورا کرنے میں اسے پاکستان کے دیگر حصوں پر برتری حاصل ہوگی، روز اول سے بمطابق معاہدوں اور ذمہ داریوں کے۔“
مجوزہ ترمیم موجودہ استحصال اور ناانصافی کو مزید تیز کردیگی اور اسے قانونی درجہ دے دیگی۔ بلوچستان تکلیف میں ہے کیونکہ اس کی قدرتی گیس کے وسائل بے جا استعمال کا شکار ہیں۔ اس کی ناجائز طور پر استعمال ہونیوالی گیس کی نرخیں کم ہیں اور اس سے بہت کم روزگار میسر ہوا ہے۔
چودہ اپریل 2006 کو قومی اسمبلی میں پٹرولیم کے اس وقت کے وزیر امان اللہ جدون نے سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کمپنیوں میں ملازمین کے مندرجہ ذیل اعداد و شمار پیش کیے:
کل آسامیاں : 11,613
سندھ سے ملازمین: 3,613 (جس میں سے شہری ڈومیسائل رکھنے والوں کیلئے 1,960 ہیں)
پنجاب سے ملازمین: 5,454
بلوچستان سے ملازمین: 353
اس تناسب کو بہتر بنانے کے بجائے اب یہ اور بھی زیادہ نیچے جارہی ہے۔
روزنامہ ڈان میں 3 اکتوبر 2014 کو چھاپے گئے ایک اشتہار میں ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے 22 خالی آسامیوں کا اعلان کیا جس میں پنجاب 11، میرٹ 4، خیبر پختونخواہ 3، سندھ شہری 2، سندھ دیہی 1، اور آزاد جموں کشمیر 1۔ بلوچستان کا کوئی کوٹہ نہیں ہے۔ کوئی بھی بلوچستان کا ڈومیسائل رکھتا ہو، اسے دیگر صوبوں کے ساتھ میرٹ پر مقابلہ کرنا پڑے گا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آیا بلوچستان کیخلاف تعصب کسی مخصوص حکومت یا ایک رژیم کی پالیسی ہے؟
یہ امتیاز یقینی طور پر ایک منظم رجحان ہے، نہ کہ ایک بے ہنگم سرکاری کارروائی۔ اس کی ابتداء بلوچ کیخلاف ایک منظم پالیسی میں مضمر ہے جو کسی بھی مسابقتی سطح پر تیار ہونے کیلئے اسے کوئی مواقع دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ یہ تعلیم ہی ہے جس سے ایک مساوی کھیل کا میدان بنانے کیلئے لوگوں کو بااختیار بنانے میں مدد ملتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جسے وہ ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔
فاروق سلہریا نے 6 ستمبر 2013 کو دی نیوز میں شائع ہونیوالے اپنے تحقیقی مقابل اداریے ”تعلیمی رنگبھید“ میں ثابت کیا ہے کہ یہ امتیاز کا ایک منظم رجحان ہے۔ یہاں وہ بڑی مہارت سے بلوچستان میں تعلیم کے فروغ کے دعوے کی قلعی کھولتے ہیں اور اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ صوبے میں غیر اعلانیہ طور پر نسلی عصبیت پر عمل کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”پنجاب اور پنجاب کے زیر تسلط مرکزی دھارا کے ذرائع ابلاغ میں بلوچ کی شکایات کو اکثر معروف حیلوں سے مسترد کر دیا جاتا ہے۔ ایک گھسا پٹا عذر یہ ہے کہ بلوچ سردار صوبے کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ تاہم، جب بھی کوئی بلوچستان کیساتھ روا رکھے گئے اس منظم امتیازی سلوک کو دیکھتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ ترقی مخالف بلوچ سردار نہیں ہیں بلکہ یہ ’وفاق‘ ہے کہ جس نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہوئی ہے۔“ وہ کہتے ہیں کہ جو تعلیمی رنگبھید بلوچستان پر ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی جانب سے نافذ کی گئی ہے وہ بالکل واضح ہے، جیساکہ، اسکے آغاز کے بعد سے، مالی سال میں2002-03 تا 2012-13 تک اس نے کل ایک کھرب 57 ارب 10 کروڑ 20 لاکھ (157,102 ملین) روپے مالیت کے 737 منصوبوں پر مختص کیے تھے۔ ان میں سے، محض 9 ارب 43 کروڑ 30 لاکھ (9,433 ملین) روپے مالیت کے 48 منصوبے بلوچستان کی سات یونیورسٹیوں کیلئے مقرر کیے گئے۔ سلہریا کہتے ہیں کہ بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (بی یو ای ٹی) خضدار کو 10 سال میں 284 ملین روپے (8 منصوبے) ملے ہیں لیکن لاہور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کو 8,361 ملین روپے (23 منصوبے) عطا کیے گئے۔ یہاں تک کہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا کو بی یو ای ٹی خضدار پر ترجیح دی گئی۔ اسے 110 ملین روپے (20 منصوبے) دیے گئے۔ اس طرح سے لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنسز (ایل یو اے ڈبلیو ایم ایس) کو 1,943 ملین روپے (5 منصوبے) دیے گئے۔ یونیورسٹی آف ایرڈ ایگریکلچر راولپنڈی اور یونیورسٹی آف اگریکلچر فیصل آباد کو بالترتیب 1,815 ملین روپے (21 منصوبے) اور 2,647 ملین روپے (25 منصوبے) دیے گئے۔ اسی طرح سے بلوچستان کی واحد خواتین یونیورسٹی کو 965 ملین روپے موصول ہوئے جبکہ ایف جے خواتین یونیورسٹی راولپنڈی، لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی، لاہور اور خواتین کی یونیورسٹی ملتان کو دل کھول کر بالترتیب 879 ملین روپے (10 منصوبے)، 847 ملین روپے (13 منصوبے)، اور 1,144 ملین روپے (بغیر کسی منصوبے) الاٹ کیے گئے۔
سلہریہ مزید کہتے ہیں کہ بلوچستان میں تعلیمی رنگبھید اوربھی زیادہ واضح ہو جاتی ہے جب اسکے مقابلے میں اسلام آباد کیلئے مختص کی گئی رقم سے اسکا موازنہ کیا جائے کیونکہ یہ موازنہ آبادی میں فرق کی دلیل کی نفی کر دیتی ہے۔ ایچ ای سی کی دریا دلی سے دو سب سے زیادہ مستفید ہونے والے ادارے، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اور ٹیکنالوجی (این یو ایس ٹی ) اور کوم سیٹس انسٹی ٹیوٹ انفارمیشن ٹیکنالوجی (سی آئی آئی ٹی)، کو 15205 ملین روپے (22 منصوبے) اور 7373 ملین روپے (28 منصوبے) بالترتیب دیے گئے جو اتفاق سے بلوچستان کو الاٹ کی گئی کل رقم سے 13145 ملین روپے زیادہ ہے۔ بلوچستان کو الاٹ کی گئی کل رقم این یو ایس ٹی اورسی آئی آئی ٹی کو الاٹ کی گئی کل رقم کے نصف سے بھی کم ہے۔ سلہریہ کہتے ہیں کہ اس رنگبھید کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ایچ ای سی کی بیوروکریسی اسے پنجاب کے حق میں کرنے کیلئے جان بوجھ کر اور بدنیتی سے طریقہ کار کی توڑ مروڑ کرتا ہے، 60 فیصد پنجابی اپنے 50 فیصد مختص کوٹہ پر بیرون ملک گئے جبکہ بلوچ کی نمائندگی اس کے چھ فیصد کوٹہ سے بھی نیچے رہی۔
ریاست یہیں پر نہیں رکتی۔ اس نے بلوچ نوجوانوں کو تعلیم کے ذریعے احساس بیگانگی میں مبتلا کرنے کیلئے فوج اور بحریہ پر اسکا بوجھ ڈال دیا ہے۔ وہ اس میدان میں ڈاکٹر مالک اور ان کے حلقہ احباب سے زیادہ فعال ہیں۔ ہر جگہ ’کیڈٹ کالج‘ کھولنے پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ ریاست تعلیم دینے کے بجائے سیاسی اور سماجی اقدار کو تبدیل کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔
سوال: ویو پوائنٹ کی طرف سے حال ہی میں ڈاکٹر اللہ نذر اور حیربیار مری کے ساتھ ہوئے انٹرویو شائع کیے گئے۔ دونوں نے دعویٰ کیا کہ اسٹابلشمنٹ قومپرست قوتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بلوچستان میں جان بوجھ کر مذہبی عسکریت پسندی کی سرپرستی کر رہی ہے۔ کیا آپ اس رائے سے متفق ہیں؟
جواب: زمین پر موجود شواہد کو، کسی بھی ذی شعور شخص کو قائل کرلینا چاہیے کہ ریاست فعال طور پر بلوچستان میں قومپرست قوتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مذہبی عسکریت پسندی کی سرپرستی کر رہی ہے۔ تمام آزاد نامہ نگاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ آواران میں 24 ستمبر 2013 کے زلزلے کے بعد حافظ سعید اور انکے جیسے عسکریت پسند تنظیموں کو ان علاقوں میں جگہ بنانے کیلئے معاونت کی جا رہی ہے جو کہ اس سے پہلے انکی پہنچ سے باہر تھیں۔ اسکے نتائج تیزی سے ظاہر ہورہے ہیں خاص طور پر خواتین کی تعلیم کیخلاف حملوں سے اور عموماً حصول تعلیم کیخلاف کارروائیوں سے۔ جدید علوم سے آراستہ اسکولوں کو خطرہ لاحق ہے، حتیٰ کہ کیچ اور تربت میں انہیں جلایا تک گیا، تنظیم الاسلام الفرقان اور الجہاد جیسی تنظیموں کی جانب سے۔ کسی مجرم کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ، بلوچستان، جو کہ سماجی طور پر ہمیشہ سے سیکولر رہا ہے، جہاں برادریاں امن اور ہم آہنگی کیساتھ رہتے آرہے تھے، اب مذہبی عداوتوں کے سبب سے شکستی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ 28 اگست کو ذکری فرقے کے ذکرخانے پر حملہ کیا گیا اور اس میں سات افراد شہید ہوئے۔ ان میں سے ایک بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سیکرٹری جنرل رضا جہانگیر کے والد بختیار تھے۔ خود رضا کو پاکستان فوج نے گزشتہ سال 14 اگست کو قتل کیا تھا۔ اس سے قبل خضدار میں ذکری زائرین کی ایک بس پر حملہ ہوا اور سات افراد زخمی ہوئے تھے۔
توتک کی اجتماعی قبریں، جہاں سو سے زائد لاشیں دفن کی گئی تھیں، ’اسٹراٹجک اثاثوں‘ کی کارستانی تھی۔ اس جگہ پر جہادی لٹریچر اور نعرے بکھرے پڑے تھے۔ لہٰذا اسکی تحقیقات کیلئے جو جعلی عدالتی کمیشن قائم کیا گیا، اسے قصوروار ٹھہرانے کیلئے کوئی نہیں ملا۔
ہزارہ شیعوں کو مسلسل ہدف بنایا جارہا ہے، انہیں اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر خستہ حال کشتیوں میں ہجرت کرنے پر مجبورکیا جارہا ہے۔ حال ہی میں عید کی خریداری پر تازہ ترین حملہ (یہ انٹرویو 23 اکتوبر 2014 کے حملے سے قبل کیا گیا تھا) یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت متحرک طور پر بلوچ کے پیچھے لگی ہوئی ہے لیکن ان فرقہ وارانہ قاتلوں کو دیکھنے پر بہ آسانی اندھی ہوجاتی ہے کیونکہ یہ بلوچ قومپرستوں کیخلاف جنگ میں ان کی مدد کرنے کا معاوضہ ہے۔
سوال: ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ لیکن ذرائع ابلاغ میں بہت سے لوگوں نے بلوچستان کی موجودہ حکومت سے اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ آپ ذاتی طور پر مالک حکومت کی، اب تک کی، کامیابیوں اور ناکامیوں کا اندازہ کس طرح لگائیں گے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ حکومت ریلیف دینے میں ناکام ہوئی ہے، اور بلوچستان میں پارلیمانی طرز سیاست سے مایوسی میں اضافہ ہو گا؟
جواب: ہمیں ایک بات بالکل صاف سمجھنی چاہیے۔ بلوچ کی اکثریت کو ڈاکٹر مالک اور ان کی قبیل سے کوئی امیدیں وابستہ نہیں ہیں۔ انہوں نے موثر طور پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور اس حقیقت کو یہ بات ثابت کرتی ہے کہ پی بی 48 کیچ کے جس حلقے سے ڈاکٹر مالک ایک فاتح کے طور پر سامنے آئے ہیں، انہوں نے صرف 4539 ووٹ حاصل کیے جبکہ ووٹروں کی کل تعداد 74374 ہے۔ تمام جعلی ووٹنگ کے باوجود، صرف 14 فی صد لوگوں نے ووٹ ڈالا۔ پی بی 41 آواران سے عبدالقدوس بزنجو، جوکہ ڈپٹی اسپیکر ہیں، نے کل 57666 ووٹوں میں سے صرف 544 ووٹ حاصل کیے: یعنی صرف 1.18 فی صد لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ الیکشن کمیشن اور نادرا نے ستمبر 2013 میں کہا تھا کہ بلوچستان میں 65 فیصدووٹ پڑے ہیں، سب جعلی تھے۔
صرف خوش فہمی میں مبتلا لبرل اس متوسط طبقے والے طوطا بیانی سے متاثر ہوئے ہیں۔ زمینی حقائق سے بے خبر یہ لوگ ان سے معجزاتی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی امید کر رہے تھے۔ کچھ لوگوں کو ہر وہ چیز موہ لیتی ہے جس پر متوسط طبقے کالیبل لگا ہوا ہو اور وہ بنا کسی تحفظات کے نغمہ سرا ہوتے ہیں اور جسکا انجام انہیں ندامت کی صورت میں ملتا ہے۔ ڈاکٹر مالک کی حکومت نے اب تک یہ کیا ہے کہ چین کے ساتھ یادداشتوں پر دستخط کرنا اور بلوچستان کے حقیقی حکمرانوں، یعنی فوج اور فرنٹیئر کور، کو ایک سویلین چہرہ دینے کیلئے ان کی طرف سے منعقد کردہ نام نہاد ثقافتی اور کھیلوں کے میلوں میں شرکت کرنا۔ انکے تمام کیے گئے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اگرچہ وہ اکثر کہتے ہیں کہ اگر وہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں کر سکے تومستعفی ہوجائیں گے مگر پھر بھی وہ بلوچ کی اس سست رفتار نسل کشی اور بلوچ وسائل کی لوٹ مار کی صدارت کررہے ہیں۔
بلوچ کی ایک بڑی اکثریت پارلیمانی طرز سیاست پر بالکل یقین نہیں رکھتی۔ یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ غیر ملکی طاقتیں اس عمل پر اعتماد کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں، بلکہ سردار عطاءاللہ مینگل (1972 تا 73) کی حکومت کے بعد تمام حکومتوں نے بلوچ کی حالت زار میں بہتری لانے کیلئے نہایت کم اقدامات اٹھائے ہیں۔ ڈاکٹر مالک اور ان کی حکومت کو فوج اور ایف سی کا پٹھو سمجھا جاتا ہے۔ ان کے اور بلوچ عوام کے درمیان کسی قہر و مہر کا رشتہ نہیں ہے۔
سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ پرامن جدوجہد کے ذریعے حقیقی فوائد حاصل نہیں ہو پارہے، جسکے نتیجے میں عسکریت پسند مزاحمتی گروہ زیادہ سے زیادہ بلوچ نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کر رہے ہیں؟ اسکے علاوہ، ڈاکٹر اللہ نذر کا دعوی ہے کہ وہاں تقریباً 6000 جنگجو پاکستان فوج کیخلاف مزاحمت کررہے ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ 6000 جنگجووں کی ایک قوت دنیا کی سب سے بڑی افواج میں سے ایک کیخلاف مزاحمت کو آزادی کی جانب لے جا سکتی ہے؟
جواب: اس سے پہلے کہ میں اس سوال کا جواب دوں، یہ کہتا چلوں کہ میرا ایمان ہے کہ یہ عوام ہیں جو کہ تاریخ کے دھارے کا تعین کرتے ہیں نہ کہ افواج کا حجم اور طاقت۔ اگر افواج اسکا موجب ہوتیں تو پھر اس حساب سے دنیا پر آج تک فرعونوں، سکندر اور چنگیز خان کی آل و اولاد کی حکومت ہوتی۔ اگر افواج تاریخی عمل کے حتمی فیصلہ کنندگان ہوتے تو امریکہ کو ویت نام یا سوویت یونین کو افغانستان میں شکست نہیں ہوئی ہوتی۔ تاریخ میں افواج کی حیثیت زیادہ تر آرائشی و زیبائشی ہے۔ یہ بات تا ابد حقیقت رہے گی۔
خاص طور پر بلوچ نوجوان اور عموماً بلوچ عوام نے پرامن ذرائع جدوجہد پر آس لگانا چھوڑ دیا ہے۔ میں اس بات کو دہرانا چاہوں گا کہ یہ غیر ملکی طاقتوں کے سبب نہیں ہے بلکہ اس سلوک کے سبب ہے جو ان سے 27 مارچ 1948 سے لیکر اب تک برتا جارہا ہے۔ بلوچ نوجوانوں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس حقیقت کو بلا تعرض قبول کرلیں گے کہ فوج اور ایف سی جب چاہے اپنی مرضی کیمطابق انہیں اٹھا کر لیجا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے، ان کیلئے واحد راستہ یہی ہے کہ وہ سرمچاروں کیساتھ جڑ جائیں تاکہ انہیں اپنی بقاء کیلئے لڑنے کا موقع ملے یا عزت کیساتھ مرنے کا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ 6000 سرمچار، کہ جنکا ذکر ڈاکٹر اللہ نذر نے صرف اپنی تنظیم کے حوالے سے کیا ہے، غیر ملکی نہیں ہیں کہ جنہیں بلوچستان میں تعینات کیا گیا ہے۔ انکے رشتہ دار ہیں، دوست اور ہمدرد ہیں۔ مزید برآں، یہ 6000 کہ جنہوں نے اس وقت معمول کی زندگی کیساتھ ناطہ توڑ دیا ہے، وہاں اور بھی بہت سارے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انکی صفوں میں شامل ہونے کیلئے تیار ہیں۔ تاہم سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ یہ 6000 سرمچار بلوچ عوام کے وسیع سمندر کی مچھلیاں ہیں جو ان کی حمایت کرتے ہیں۔ وہاں اور بھی بہت سارے سرمچار ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ تاریخ کی لہر کا رخ تبدیل کرنے کے قابل ہیں۔
سوال: حالیہ برسوں میں بلوچ مزاحمت کی نئی نسل کی قیادت نے بھارت، امریکہ یا ہر کسی سے مدد قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ماضی میں غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری اور سردار عطاءاللہ مینگل جیسے رہنماوں کو ان کے سوشلسٹ جھکاو اور سامراج مخالف میلان کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ نئی نسل کے آنے سے ایک نظریاتی تبدیلی بھی واقع ہوئی ہے؟
جواب: اس بات کو پرانے موقف سے نظریاتی انحراف کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ یہ محض زمینی حقائق کی تبدیلی کی قبولیت ہے۔ وہ اس امر کو مکمل طور پر سمجھتے ہیں کہ اس بات کا انحصار ان کی اپنی قوت پر ہے، جو انکی فتح یا شکست کا تعین کرے گی کیونکہ اگر کوئی انکی مدد کرنے پر غور کرے بھی تو وہ کسی خلاء میں ایسا نہیں کرے گا۔ بلوچ مساوات پر یقین رکھنے والا معاشرہ ہے اور اب بھی مری جیسے قبائل ہیں جہاں ہر عشرے بعد زمین کی ازسرنو تقسیم ہوتی ہے۔ موجودہ رہنماء محض اپنی ساکھ اور کامیابی کے امکانات کو شدید خطرے میں ڈالنے کے بعد ہی اپنے سوشلسٹ جھکاو اور سامراج مخالف ذہنی میلان سے منحرف ہوسکتے ہیں۔ انکے امداد قبول کرنے کے اعلان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کسی دوسری طاقت یا ملک سے اسی طرح کے سلوک کو قبول کریں جو کہ پاکستان نے ان سے روا رکھا ہوا ہے۔ کسی بھی آنیوالی امداد کو برابری کی بنیاد پر ہونا پڑے گا۔
سوال: آپ کے خیال میں بلوچ شکایات کا ازالہ فیڈریشن کے موجودہ فریم ورک کے اندر کیا جا سکتا ہے یا یہ کہ بلوچستان کا مسئلہ ناقابل واپسی نقطے تک پہنچ چکا ہے؟
جواب: میرا ماننا یہ ہے کہ بلوچ شکایات کا ازالہ فیڈریشن کے موجودہ فریم ورک کے اندر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بلوچ عوام کیخلاف یہ کوئی اتفاقی یا الگ تھلگ ناانصافی، جبر اور استحصال کا ایک مسئلہ نہیں ہے۔ نا انصافیوں کا ارتکاب منظم انداز میں ادارہ جاتی رہنمائی کے تحت ہوتی آرہی ہیں اور ہر گزرتا لمحہ بلوچ کے اس یقین کو مزید تقویت دے رہا ہے کہ انہیں پاکستان میں انصاف نہیں مل سکتا۔ اب یہ ان کیلئے کسی انوکھے این ایف سی ایوارڈ کے حصول یا کسی کمبخت اٹھارویں ترمیم کامسئلہ نہیں رہا۔ اب وہ اپنی قسمت کا مالک بننا چاہتے ہیں۔
دنیا میں کہیں اور ہزاروں لوگوں کی جبری گمشدگیوں اور ’مارو اور پھینک دو‘ والی منظم پالیسی کیخلاف احتجاج کیلئے 106 دن کی مارچ کوئی ردعمل اپنی طرف متوجہ کرسکتی تھی۔ لیکن یہاں ماما قدیر بلوچ اور بہادر بلوچ خواتین کی طرف سے کی گئی لانگ مارچ ہمدردی کا ایک لفظ بھی نہیں کہلوا سکی۔ اگر کوئی اب تک یہی سوچتا ہے کہ بلوچ خالی خولی الفاظ اور کھوکھلے قوانین سے مطمئن ہو جائیں گے تو وہ صریحاً غلطی پر ہے۔ اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے کیے گئے وعدوں کے باوجود، بلوچستان میں جاری ’غلیظ جنگ‘ کے ذمہ داروں کیخلاف مقدمہ چلانا تو درکنار ان میں سے کسی ایک شخص پر الزام تک عائد نہیں کیا گیا ہے۔ ناقابل واپسی نقطے پر پہنچنا کوئی مخصوص واقعہ نہیں تھا۔ یہ ایک طویل عمل تھا اور یہ عمل اب ناقابل واپسی ہے۔
سوال: پونم کے پلیٹ فارم سے یہ کوشش کی گئی تھی کہ مظلوم اقوام کو ان کے حقوق کا دفاع کرنے کیلئے اکھٹا کیا جائے۔ اس میں تبخیر تو پیدا ہوئی لیکن وقت سے پہلے ہی اسے ختم کر دیا گیا۔ صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہوئی ہے۔ آپکے خیال میں قومپرست قوتوں کے اتحاد کو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں ابھر کر سامنے آنا چاہئے؟
جواب: قومپرست قوتوں کا اتحاد آج نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ پوری دنیا کیلئے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسکاٹش ریفرنڈم ایکدم سے غیرمتوقع طور پر پیدا نہیں ہوئی۔ اسکی وجوہات اکثریتی اقوام کا اقلیتی اقوام کے سلوک میں پیوستہ ہیں۔ یوگوسلاویہ کا انہدام ہوا اسلئے کہ سرب اکثریت کروشیائی، بوسنیائی باشندوں اور دیگر کو ساتھ ملانے کیلئے تیار نہیں تھے۔ تبت اور دیگر علاقے جہاں اقلیتی عوام آباد ہیں وہ چین وغیرہ جیسی اکثریت کے غلبے میں ہیں اور وہاں لوگ اس طوق کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ ایک عالمی رجحان ہے اور اگر وہ سب کسی قسم کا اتحاد بنا لیں ہے تو اس سے ضرور مدد ملے گی۔
یہاں نفرت صرف بلوچستان میں نہیں پائی جاتی ہے۔ سندھ میں بہت سے لوگ ہیں جو اپنے استحصال سے متنفر ہیں، اسی طرح سے گلگت اوربلتستان میں بھی۔ قومی جبر زیادہ تیزی سے اور کم خونریزی کیساتھ ختم ہو سکتا ہے اگر تمام خطوں کے مظلوم کوئی مشترکہ محاذ تخلیق کرنے کیلئے کام کریں بجائے اسکے کہ وہ اپنے مختلف مسکنوں تک محدود رہیں۔
سوال: قومی جدوجہد میں طبقاتی کے سوال کو اتحاد کے نام پر پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بلوچ قومی جدوجہد بمشکل اس سے مستثنیٰ ہے۔ براہ مہربانی اس پر اپنی رائے دیں۔
جواب: بلوچ قومپرست جدوجہد میں طبقاتی کے سوال کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، کیونکہ کسی بھی قومی جدوجہد کیلئے بنیادی دشمن قومی ہوتا ہے، نہ کہ طبقاتی جابر۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بالائی طبقہ ہے جو فعال طور پر دشمن کیساتھ تعاون کررہا ہے اور یہ امر مستقبل میں طبقاتی جدوجہد کی اساس پیدا کرتا ہے۔ لیکن بالائی طبقے سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ دشمن کے کیمپ میں نہیں ہیں۔ یہ اگر خودکشی نہ سہی مگر کاملاً بیوقوفی ہوگی اگر وہ لوگ جو قومی جابر کیخلاف جدوجہد کررہے ہیں، اپنی طبقاتی جدوجہد کی لگن میں، اپنے ان گراں قدر حامیوں کو حریف بنالیں اور الگ تھلگ کردیں۔
افسوس کی بات ہے کہ یہاں دائیں بازو اور بائیں بازو، مختلف نظریاتی بنیادوں پر، پاکستانی ریاست کی سالمیت کی حمایت اقلیتی اقوام کی امنگوں کی قیمت پر کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بائیں بازو، جوکہ طبقاتی جدوجہد کی نمائندگی کرتا ہے، قومی جدوجہد کے حقائق کو سمجھ نہیں سکا ہے، اور اس نظریے کا احترام کرنے کے بجائے اسکا کردار زیادہ تر ریاستی نمائندے کی طرح کا ہے۔ جب بنگلہ دیش کے لوگوں کو سب سے زیادہ شیطانی انداز میں کچلا جا رہا تھا تب بہت سے بائیں بازو والوں نے فوج کی حمایت کی تھی اور بنگالیوں کی مذمت۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر بائیں بازو نے زیادہ ارتباط کیساتھ بلوچ قومی جدوجہد کی حمایت کی ہوتی تو وہ بھی زیادہ فعال طور پر طبقاتی جدوجہد کی حمایت کرتے۔
سوال: بلوچستان میں جبکہ صورتحال کئی حوالوں سے انتہائی گھمبیر ہے، کیا آپ کو لگتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں کسی کو اس بات کا احساس ہے؟ یا یہ معاملہ کچھ یوں ہے کہ فوج یہ امید کررہی ہے کہ وہ بندوقوں اور مذہب کی ایک خوراک کے ذریعے بلوچستان کو ٹھنڈا کردیگی؟ نوشتہ دیوار کے باوجود کیا وہ اتنے ہی جاہل ہوسکتے ہیں جتنا کہ 1971 میں تھے؟ اگر ہاں تو اس صورتحال پر ان کی سراسر جہالت کا سرچشمہ کیا ہے؟
جواب: وہ لوگ جو اقتدار کے ایوانوں میں مقیم ہیں، حقیقی دنیا میں ہونیوالے واقعات دیکھنے سے عاری ہیں۔ وہ طاقت کے نشے میں چور انتہائی مغرور ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ طاقت کا استعمال کرکے اور اپنی عیارانہ حکمت عملی سے لوگوں کی خواہشات کو ختم کرسکتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی تین جہتی حملے والی حکمت عملی سے آخر کار بلوچ کو شکست دے دیں گے۔ ان کی حکمت عملی کا انحصار بنیادی طور پر طاقت کے استعمال پر ہے۔ دوسرا، بلوچ معاشرے کی تاریخی طور پر سیکولر سماجی اقدار کو تبدیل کرنے کیلئے مذہبی عناصر کی رواج دہی ہے، اور تیسرا بلوچ سرمچاروں کی صفوں میں اپنے خفیہ ایجنٹ اور جاسوس بھیجنا تاکہ وہ ان میں اختلافات پیدا کریں اور دھڑے بنائیں۔ یہ حکمت عملی 2007-2008 کے بعد سے کارفرما ہے جب صرف انٹیلی جنس بیورو نے بلوچستان میں انسداد بغاوت کیلئے 400 ملین روپے خرچ کیے۔ وفاداریاں خریدنے اور جاسوسی کی خدمات حاصل کرنے کیلئے پیسہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ان سب نے ایک مخصوص حد تک کام کیا ہے لیکن یقینی طور پر اس حد تک نہیں جتنی کہ انکی توقعات تھیں، جیسا کہ سرمچاروں کے حملے حسب منشاء جاری رہیں اور حال ہی میں وہ ان کے مذہبی پراکسی تنظیموں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس سراسر جہالت کا ماخد ان کا یہ غلط عقیدہ ہے کہ وہ اسلام کے مشعل بردار ہیں اور یہ ملک اسلام کیلئے بنایا گیا تھا۔ فوج یہ سکھاتی ہے کہ ایک مسلمان دس ہندووں کے برابر ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ اسلام کی سب سے بہترین نمائندگی کرتے ہیں جو کہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ بنگلہ دیش میں انکا خیال تھا کہ طاقت کا استعمال سب کچھ ٹھیک کردے گا۔ انہیں مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی لیکن ان سب کا نتیجہ صفر نکلا۔
تاریخ سے ناواقف کبھی بھی نوشتہ دیوار نہیں پڑھ سکتے۔ وہ ہمیشہ وہی غلطیاں دہراتے ہیں اور پھر ان غلطیوں کیلئے دوسروں کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔
سوال: کیا کیا جانا چاہئے؟
جواب: ایمانداری سے کہوں تو کچھ زیادہ نہیں۔ کیونکہ متحارب فریق ناقابل مفاہمت ہیں۔ کسی پرامن حل کی کوئی امید نہیں ہے۔ یہ ایک طویل جد وجہد ہوگی جس میں بلوچ کو یقین ہے کہ وہ کامیاب ہو جائیں گے۔ پاکستان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ بہ آسانی دستبردار ہوجائیگا، خود فریبی کے مترادف ہے۔ تاہم بلوچ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ آسانی سے دستبردار ہوجائیں گے یکساں طور پر معصومانہ خیال ہے۔ پاکستان دنیا میں دہشت گردی کا مرکز نگاہ بن چکا ہے اور یہ مختلف اقسام کے دہشت گردوں کیلئے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔ یہ چند شرپسند عناصر کے سبب نہیں ہے۔ یہ ادارہ جاتی ہے اور اسے ریاست کی سرپرستی حاصل ہے۔ پاکستان عالمی امن کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔ تاہم یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ایک آزاد، جمہوری اور سیکولر بلوچستان اس ریاستی معاونت سے بڑھتی ہوئی مذہبی عسکریت پسندی کو روکنے کیلئے مدد گار ثابت ہوگا اور یہ خطے میں پرامن ماحول کے قیام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ منظرنامہ آج ناممکن لگتا ہے لیکن خطے میں امن کو یقینی بنانے کیلئے صرف یہی واحد راستہ ہے۔

понедельник, 27 октября 2014 г.


سلیمان داؤد کو اب یہ تلخ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ وہ سلطان نہیں رہے۔ 

مسلح 

دفاع آرمی اور تحریک نفاذ امن جیسے کرایے قاتلوں کی ناکامی کے بعد کونسے 

فدائین میدان جنگ میں اتارنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں 

شہید آغا محمود جان کی رائے سلیمان کے متعلق یہ تھی کہ ’سلیمان داؤد ایک 

سستی شئے برائے فروخت ہے

بلوچ قوم دوست رہنما ڈاکٹر اﷲ نذر بلوچ

                     بلوچ قوم دوست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے بارے میں سلیمان داؤد کے 27 اکتوبر 2014 کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلیمان داؤد کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بھی خود کو سلطان اور بلوچ عوام کو اپنی رعیت سمجھتے ہیں جو ان کی ناپختہ و فرسودہ ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ سلیمان داؤد نے اپنے بارے میں کہاوت ’’پدرِ من سلطان بود‘‘ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’پدر در پدر‘‘ بھی ’’سلطان‘‘ ہیں، اس پر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ واقعی وہ سلطان تھے، اسلئے نہ ان کی سلطانی رہی اور نہ سلطنت۔ اگر وہ تیزی سے بدلتے حالات کا ادراک کرکے سلطان سے قومی رہنما بن جاتے تو بلوچ آج قومی محکومیت و زیر دستی کی چکّی میں نہ پس رہے ہوتے۔ سلیمان داؤد نے میرے اجداد کے بارے میں پوچھا ہے کہ ’’پدر تو کی است‘‘، تو میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ’’پدرمن بلوچ بود، کار سپاہ گری بود، نہ کہ سوداگری‘‘۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار کے آخری ایام میں سلیمان داؤد کے دادا احمد یار خان گورنر بن کر بے سر و سامان بلوچ حریت پسندوں کو دشمن آرمی کے سامنے سرنڈر کرنے کی ترغیب دے رہے تھے تو میرے والد پس زندان تھے اور میرا بھائی بے سر و سامانی کی حالت میں بلوچ سرمچاروں کے درمیان موجود تھا۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ سلیمان داؤد نے مجھے سردار کمانڈر کہا ہے جبکہ میں کوئی سردار کمانڈر نہیں بلکہ ایک آزادی پسند بلوچ ہوں اور بلوچ قومی آزادی، خوشحال، آزاد و جمہوری بلوچستان کیلئے جد و جہد کر رہا ہوں۔ صرف میرے نہیں بلکہ بلوچ قوم کی اکثریت کے نزدیک سرداریت، خانیت اور سلطانیت جیسے ادارے فرسودہ ہو کر اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ سلیمان داؤد نے اپنے بیان میں جن احمد زئی اکابرین کی قربانیاں گنوائی ہیں وہ مجھ سمیت پوری قوم کیلئے قابل احترام ہیں، ان اکابرین کی قربانیاں گنوانے کے بجائے سلیمان داؤد کو تحریک آزادی میں اپنا کردار قوم کو بتانا چاہئے تھا۔ شہید آغا محمود جان سلیمان داؤد کی سلطانی کیلئے نہیں بلکہ آزاد، خوشحال، جمہوری بلوچستان کی جد و جہد میں دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ شہید آغا محمود جان کی رائے سلیمان کے متعلق یہ تھی کہ ’سلیمان داؤد ایک سستی شئے برائے فروخت ہے‘، یہ الفاظ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ سلیمان داؤد نے دُرست کہا ہے کہ بلوچ قومی آزادی کیلئے سرمچاریت کی بنیاد رکھنے والے آغا عبدالکریم بلوچ ہی ہیں مگر انہیں یہ سچ بھی بتا دینا چاہئے تھا کہ جب آغا عبدالکریم پاکستانی قبضے کیخلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے تو سلیمان داؤد کے دادا نے قابض پاکستان کی حمایت میں فرمان جاری کرکے آغا عبدالکریم کو باغی قرار دیا تھا اور بلوچ عوام کو تاکید کی تھی کہ وہ آغا عبدالکریم کی کسی بھی طرح سے مدد نہ کریں۔ آج اگر آغا عبدالکریم کا پوتا بلوچ آزادی پسندوں کی صفوں میں بیٹھا ہے تو دوسری طرف سلیمان داؤد کا بیٹا اور احمد یار خان کا پڑپوتا بلوچ وطن پر قابض پاکستان آرمی کے کور کمانڈر کے ساتھ ملکر پاکستان کا جھنڈا لہراتا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کو سلیمان داؤد نے جو بندوق دی تھی وہ مہمان نوازی نہیں بلکہ قوم کیخلاف آرمی کی حمایت کا اظہار تھا۔ بیشک بلوچ اپنی روایت کیمطابق اپنی مالی حالت سے بڑھ کر مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیں مگر گھر آئے مہمان کی خاطر تواضع کرنے اور وطن پر قابض دشمن کو مسلح کرنے میں بہت فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی و یورپی ممالک میں مقیم جن محنت پیشہ بلوچوں نے مہمان نوازی کی روایت کے تحت سلیمان داؤد کی خدمت کی تھی انہیں کالی بھیڑیں قرار دینا سلیمان داؤد کی کم ظرفی کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ سلیمان داؤد نے پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں میرے اغواء اور ریاستی عقوبت خانوں میں مجھے دی گئی ’’مراعات و سہولیات‘‘ کا جس رشک سے بیان کیا ہے، کاش وہ وطن میں رہتے اور آزادی کی بات بھی کرتے تو شاید وہ ’’مراعات و سہولیات‘‘ اُنہیں بھی نصیب ہوتیں، مگر وہ ان ’’مراعات ‘‘ کے محض تصور سے ہی خوفزدہ ہوکر بیرون ملک بھاگ گئے۔ جہان تک بیرون ملک سفارتکاری کی بھڑک بازی کا تعلق ہے تو امریکی کانگریس یا دوسرے فورمز پر بلوچ آجوئی زیر بحث آنے کی وجہ سلیمان داؤد کی سفارتکاری سے نہیں بلکہ یہ سب بلوچ شہیدوں، سرمچاروں، آزادی پسند سیاسی کارکنوں و تنظیموں، بلوچ لکھاریوں، ریاستی عقوبت خانوں میں جبری طور پر لاپتہ بلوچ فرزندوں اور بلوچ عوام کی بے پناہ قربانیوں کے باعث ممکن ہوا ہے۔ جہاں تک سلیمان داؤد کا تعلق ہے تو وہ دولت اور اثر و رسوخ کے بھوکے ہیں۔ بلوچ قومی ملکیت شاہی تاج کے ہیرے فروخت کرکے اور کوئٹہ قلعے کو کڑوروں روپے کے لیز پر دینے سے اسکی دولت کمانے کی بھوک نہیں مٹی تو ٹیتھیان جیسے ملٹی نیشنل کمپنیوں و دیگر کے ہاتھوں بلوچ وسائل کو اونے پونے داموں فروخت کرنے کی ساز باز کی کوشش میں ملوث ہوئے۔ انکی سفارتکاری کے کارنامے یہی ہیں۔ رہی بات میرے اور میر ہیربیار مری کے درمیان ہونیوالی اتحاد کی بات چیت کی تو سلیمان داؤد اس میں کبھی بھی شریک نہیں ہوئے۔ لہٰذا اس بے اعتبار شخص کے اس دعوے پر تبصرہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سلیمان داؤد مجھ سمیت بلوچ سرمچاروں اور آزادی پسندوں کی بڑی اکثریت کو کالی بھیڑیں قرار دیکر فدائین اتارنے کی جو خوشخبری سنارہے ہیں، تو بلوچ عوام جانتے ہیں کہ وہ کالی بھیڑیں کون ہیں۔ سلیمان داؤد اپنی سپریم کونسل کے ارکان سردار اسلم رئیسانی، سردار ثناء اللہ زہری اور نواب مگسی کی زیر قیادت ریاستی ڈیتھ اسکواڈوں، مسلح دفاع آرمی اور تحریک نفاذ امن جیسے کرایے کے قاتلوں کی ناکامی کے بعد کونسے فدائین میدان جنگ میں اتارنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں؟ البتہ کمپنی بہادر و جنداللہ اور اس قسم کی دیگر فرقہ پرست و انتہا پسند گروہوں کیساتھ انکے تعلقات کی بازگشت آجکل سنائی دے رہی ہے۔ ممکن ہے کہ سلیمان داؤد کسی خانہ جنگی کی تیاری کر رہے ہوں اور ان خدشات کا اظہار ہم پہلے دو دفعہ کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ سلیمان داؤد نے میری صحت کی خرابی اور مجھے علاج کی سہولیات کی دستیابی اور آزاد نقل و حرکت کے بارے میں اظہار کرکے بدگمانیاں پیدا کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے، اور انکی ترکش سے نکلا یہ تیر بھی ہدف پر نہیں لگے گا۔ ہزاروں میل دور لندن کی ٹھنڈی چھاؤں میں رہنے والوں کے پھیلائے گئے جھوٹ اور بد گمانیوں پر بلوچ عوام کبھی اعتبار نہیں کریں گے۔ کیونکہ بلوچ قوم مجھے بہت قریب سے دیکھ رہی ہے اور میری صحت کی خرابی سلیمان داؤد کے آقاؤں کی دین ہے۔ جبکہ میری آزادانہ نقل و حرکت بلوچ قوم کی حمایت و ہمدردی کے باعث ممکن ہے۔ سلیمان داؤد کو اب یہ تلخ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ اب وہ نہ سلطان رہے اور نہ ہی گوادر پلیری کے شئے انہیں امام مہدی قرار دینے پر کسی طرح سے راضی ہیں۔