Powered By Blogger

среда, 15 октября 2014 г.

بلوچ قوم کی قربانیاں اور آپسی جنگ 

تحریر نوراحمدمری

قومیں تب بربادی ک

ے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں جب وہ معمولی باتوں کو جواز 

بناکرآپسی کشت وخون پر اتر آتے ہیں مسلہ چاہے بہت پیچیدہ ہو 

تب بھی آپس میں بات چیت ممکن ہے 

اس طرح سوشل میڈیا میں کارکنوں کو بےلگام گھوڑوں کی طرح 

چھوڑنا شایدہی کسی کے مفاد میں ہو مگر بلوچ قوم نے قربانیوں 

کی ان حدوں کو چھولیاکہ جہاں معمولی غلطیاں بہت ہی بڑی 

نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے آپسی تضادات نے ہمیشہ 

قوموں کو ان اندھیر نگری کی جانب دھکیلا جہاں سے واپسی 

ناممکن ہے بالاچ شہید کے بقول "قوم پہ میرغہ گار نبنت قوم پہ 

کراغہ گاربنت"قومیں مرنے سے ختم نہیں ہونگے بلکہ آپسی 

تضادات اور تحریک سے بے رخی قوموں کے زوال کے دن ہونگے
آج بلوچ قوم میں کوئی ایسی ماں نہیں جس نے اپنے بیٹے کے 

شہادت کا غم نہ سہا ہو،ایسی باپ نہیں جس نے اپنے بیٹے کے 

لاش کو کندھا نہ دیاہو(مجھ جیسے بدنصیبوں کی بھی کوئی 

کمی 

نہیں جو اپنے والد کے مسخ شدہ لاش کو کندھا تک نہ دے سکا )
ایسی کوئی بہین نہیں جو اپنے سر کا سایہ نہ گنوا بیٹھی ہو،کئ 

خواتین بیوہ ہوئیں
آج یہ تحریک ء بلوچ کسی بھی طرح سے آپسی جنگ کا متحمل 

نہیں ہوسکتا
بلوچ یونائٹیڈ آرمی اور بلوچ لبریشن آرمی کے درمیان موجودہ خون 

خرابی کا خواہش احمق ہی کرسکتے ہیں اب سوشل میڈیا میں 

فکری حقیقی سنگتوں کی نشاندہی،لیڈروں پر الزامات،ایک 

دوسرے کو گالی دینا برابھلا کہنا،کم شعور اورناپختہ لوگوں کا کام ہے
اگر کسی کے طرف کسی کا کوئی اسحلہ سازوسامان ہیں 

تولیڈران بیٹھ کر بات کریں کیا ایک دوسرے پرحملہ آور ہونے کے 

بجائے نواب زامران اور حیربیار آپس میں بیٹھ کر دوسرے راہنماؤں کو 

بلا کر گفت وشنید سے حل کرسکتے ہیں آج بی ایل اے کے 

دوستوں کے بقول یونائٹیڈ بلوچ آرمی کے سنگتوں نے قبضہ کیا ت 

کئ سوال پیدا ہوتے ہیں اب یہ دونوں تنظیموں کے کمانڈران ایک 

دوسرے پر الزام کے بجائے حقائق کو کسی درمیانی فرد ثالث کے 

پاس نہیں لیجاتے تاکہ مسلہ حل ہو،یا اتحاد کرکے مشترکہ طور پر 

جدوجہد کرتے،کیا اسطرح تو نہیں کہ درمان میں ایک تیسری قوت 

آکر انہیں لڑارہے ہیں ،کیا تاریخ بلوچ اور بلوچ مائیں و بہینیں ان 

قوتوں کو معاف کرینگے

Комментариев нет:

Отправить комментарий