Powered By Blogger

среда, 30 октября 2013 г.

مارچ ماما مارچ – محمد حنیف

محترم ماما عبدالقدیر بلوچ صاحب: میں گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے آپ کے لانگ مارچ کی حمایت کرتا ہوں اِس لیے نہیں کہ اِس پُر امن، شاندار اور تاریخی لانگ مارچ کے نتیجے میں آپ کے بیٹے جلیل ریکی کے قاتل پھانسی پر جھولیں گے یا فرزانہ مجید کا بھائی ذاکر مجید فوری طور پر رہا ہو جائے گا۔اس لیے بھی نہیں کہ آپ کے منتخب وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک صاحب کو آپ کا خیال آ جائے گا۔ وہ پہلے ہی یہ کہہ کے اپنا فرض ادا کر چکے ہیں کہ آپ اور آپ جیسے دوسرے خاندان جو اپنے بچوں کی تلاش میں ہیں اُن کا مداوا اُن کے پاس نہیں۔
میں آپ کے لانگ مارچ کی حمایت اِس لیے کرتا ہوں کہ یہ طویل مارچ ہے۔

کوئٹہ سے کراچی تک کا سفر سات سو کلومیٹر ہے اور یہ فاصلہ آپ پیدل طے کریں گے۔ آپ کے مختصر سے قافلے میں چونکہ کم عمر بیبیاں اور بچے بھی شامل ہیں تو امید کرتے ہیں کہ یہ سفر آہستہ آہستہ کٹے گا۔مہینے نہیں تو چند ہفتے تو لگ ہی جائیں گے۔ یوں ہم اُمید کر سکتے ہیں کہ جب تک آپ کا قافلہ کراچی پہنچے گا ہم میڈیا والے، ہمارے سیاستدان اور ہماری بھولی بھالی سول سوسائٹی ملک کے اِنتہائی اہم مسائل نمٹا چکی ہوگی اور شاید ہم توجہ سے آپ کی بات سُن سکیں گے اور اگر خدا نے توفیق دی تو آپ کا کراچی پریس کلب کے باہر شایان شان اِستقبال بھی کر سکیں گے۔
شاید آپ یہ کہیں کہ کتنے مہینے کراچی، لاہور اور اسلام آباد پریس کلب کے باہر آپ اپنے دکھوں کی دکان سجا کر بیٹھے رہے، اپنے شہیدوں اور گم شدگان کی تصویروں سے گرد جھاڑتے رہے، تب کوئی نہیں آیا تو اب کیوں آئے گا۔
آپ سے عرض کیا نا کہ قوم کو کچھ اہم مسئلے درپیش ہیں جو فوری توجہ طلب ہیں۔ آپ کہیں گے کہ جس کے بچے کو اُس کی آنکھوں کے سامنے وردی والے اُٹھا کر لے جائیں اور پھر سالوں تک یہ بھی نہ بتائیں کہ وہ زندہ ہے یا مار دیا گیا اُس سے زیادہ فوری توجہ طلب مسئلہ کیا ہو سکتا ہے؟
جِس المیے پر محترم چیف جسٹس صاحب کا چیخ چیخ کر گلا بیٹھ جائے، جن لوگوں کی فہرستیں بناتے بناتے اِنسانی حقوق والے بور ہونے لگیں ، کیا اُس مسئلے کو بھلا دینا چاہیے؟
آپ اپنا مارچ جاری رکھیں لیکن ذرا آہستہ کیونکہ ہمیں پہلے کچھ اہم کام کرنے ہیں۔
ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ طالبان کے سامنے اِسلام کا نام لے کر دامن پھیلائیں یا اُن کی شلوار کھینچ کر ثابت کریں کہ وُہ ہندو ہیں۔
ہمیں ابھی یہ طے کرنا ہے کہ ایک سولہ سالہ بچی فخر پاکستان ہے یا فتنۂ یہود و ہنود ۔
ہمیں اِس فیصلے کا انتظار ہے کہ پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ نجم سیٹھی صاحب کو چلانے دیا جائے یا اُنہیں کہا جائے کہ بس آپ چڑیا اُڑائیں ۔
اور آپ کو تو یہ پتہ ہی ہو گا کہ سپہ سالار ریٹائر ہُوا چاہتے ہیں، اُن کی جانشینی کا فیصلہ بھی سر پر ہے۔
اور جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا آج کل قوم ، اُس کے رہنما اور ہم میڈیا والے بہت مصروف ہیں۔ میڈیا میں تو ابھی یہ فیصلہ ہونا بھی باقی ہے کہ ہم میں سے کون آئی ایس آئی سے تنخواہ لیتا ہے اور کونْْ راْْٰ کا وظیفہ خوار ہے۔
آپ اپنے پیاروں کی تصویریں اُٹھا کر مارچ کرتے رہیں لیکن ذرا آہستہ تا کہ ہم مندرجہ بالا ضروری کاموں سے فارغ ہو سکیں۔
آپ نے شاید توجہ نہ دی ہو لیکن وزیراعظم نوازشریف نے واشنگٹن میں کھڑے ہو کر چند دن پہلے ہی کہا تھا کہ ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ وُہ یہ بات مانتے ہوئے شرماتے ہیں کہ اِس گھر کے نیچے ایک تہہ خانہ بھی ہے جو تاریک ہے اور جہاں تشدد کے آلات کبھی زنگ آلود نہیں ہوتے اور تشدد کرنے والے ہمیشہ تازہ دم رہتے ہیں۔کہتے ہیں یہ تہہ خانہ بلوچ بچوں اور اُن جیسے کچھ اور بد نصیبوں کے لیے مختص ہے۔
اُوپر گھر والوں کو نیچے سے کبھی کبھی آہیں اور سسکیاں سُنائی دیتی ہیں ۔ لیکن گھر میں اِتنا ہنگامہ ہے کہ یہ آوازیں دب جاتی ہیں۔ کبھی کبھار ایک چیخ سنائی دیتی ہے۔ایک لمحے کے لیے خاموشی چھاتی ہے پھر گھر والے پورے زور و شور سے یہ بحث کرنے لگتے ہیں کہ پاکستانی سینما کی نشاۃ ثانیہ میں کیا رکاوٹیں ہیں ۔
مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم پاکستان چند ضروری کاموں سے فارغ ہو کر پوچھیں گے کہ اِس تہہ خانے کی چابی کِس کے پاس ہے۔ پھر آپ کو آ کر بتائیں گے کہ گمشدگان میں سے کون ہمیشہ کے لیے گم ہو چکا۔
اپنا لانگ مارچ جاری رکھیں لیکن ذرا آہستہ کیونکہ محرم کی بھی آمد آمد ہے۔ آپ کے مختصر قافلے کی بے سروسامانی اور اِس میں پردہ دار بیبیوں اور بچوں کی وجہ سے مجھے خطرہ ہے کہ کوئی آپ کے قافلے کو قافلۂ حسینی کا حصہ نہ سمجھ بیٹھے اور آپ کراچی آتے آتے کہیں کُوفے نہ پہنچ جائیں۔
ISI in London: BNM Leader Hammal Haidar narrowly escapes assassination attempt. Attacker chanted "Down enemies of Pak!"

Yesterday in Khuzdar This Pakistani stooge was killed, He was a Active member of Paki Occupying Army & ISI"backed  Death squad, He was involved in the target killing of many pro-Freedom Balochs.


Waqar Naseer Baloch the son of Naseer Baloch a prominent leader of Baloch

 Republican Party and the party president of South Korea chapter has


bees killed by the occupying military of Pakistan in Khuzdar today. Shaheed 


Waqar Naseer Baloch was taken off from a passenger bus by the Pakistani



forces near Wadh area of Khuzdar and killed him after identification!


بلوچ ری پبلکن پارٹی کے جنوبی کو ریا کے صدر نصیر بلوچ کے فررند وقار نصیر بلوچ کے ریاستی قتل کے خلاف تین روزہ یکم نومبر کو بلوچستان بھر شٹرڈاؤن اور پہیہ جام رکھنے کا اعلان کردیا بلوچ ری پبلکن پارٹی کے ترجمان شیر محمد بگٹی نے کہا کہ بلوچ دشمن قابض ریاست نے اپنی جارحانہ پالیسیاں تیز کردی ہیں نہتے اور بے گناہ بلوچوں کو ریاستی ظلم و جبر اور بربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلوچ ری پبلکن پارٹی جنوبی کوریا کے صدر نصیر بلوچ کے صاحبزادے وقار نصیر بلوچ کو ریاستی فورسز نے خضدار کے غلاقے وڈھ میں مسافر بس سے اتار کر شناخت کے بعدفائرنگ کر کے شہید کر دیا بی آر پی بلوچستان کے عظیم فرزند شہید وقار نصیر کو کو سرخ سلام پیش کرتی ہے وقارنصیر بلوچ کو اس سے پہلے 15دسمبر2 201 تربت سے اغوا کر کے شدید تشدد کے بعد نیم مردہ حالات میں پھینک دیا گیا تھاشہید وقاربلوچ نے اپنے خون سے بلوچ گل زمین کی آبیاری کی ہے قابض ریاست کے زرخرید اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بلوچ فرزندوں کو شہید کر کے تحریک کو ختم کر پائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے تاریخ گوا ہ ہے کہ قومی غداروں کو عزت کی موت بھی نصیب نہیں ہوتی آج بھی بنگلہ دیش میں قومی غداروں کے انکے گناہوں پر پھانسی پرلٹکایا جا رہا ہے بلوچستان میں بھی قومی غدارنشان عبرت سے نہیں بچ سکیں گے شہید وقارنصیر بلوچ کی قربانی بلوچ نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہے شہید کامریڈوقار پچھلے کئی سالوں سے تحریک آزادی کیلئے سر گرم تھے اور آخری دم تک وہ قومی جہد میں مخلصی اور جذبہ آزادی کے تحت بلوچ نوجوانوں میںآزادی اور قومی جہد کا پر چار کرتے رہے ہم بلوچستان کے عظیم اور بہادر فرزند شہید کامریڈ وقار نصیر کو ان کی عظیم قربانی پر زبر دست خراج تحسین پیش کرتے ہیں جس نے شہید اعظم کی سوچ و فکر اور فلسفہ پر عمل پیرا رہتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ دیا اور وطن پر قربان ہوگئے اس سے پہلے بھی بلوچ ریپبلکن پارٹی کے رہنماؤں کے شتے داروں اور عزیزو ں کو بھی صرف اس لیے شہید کیا گیا کیونکہ وہ عالمی سطح پر بلوچستان میں جاری ریاستی بر بریت کے خلاف آواز اٹھار ہے تھے جنوری 2012 ء کراچی میں نواب براہمدغ بگٹی کی ہمشیرہ اور معصوم بھانجی کو بے دردی سے گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کیا گیا جنیوا میں جب بی آر پی کے مرکزی رہنماء ایڈوو کیٹ انور بلوچ نے ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی تو اس کے بیٹے ظہیر انور اغواء کے بعد شہید کر دیاگیا اس طرح پارٹی کے سوئٹزر لینڈ کے رکن خدا بخش بگٹی کے سوئی کے قریب واقع گھر پر حملہ کر کے خاندا ن کے آٹھ افرا د کو شہید کیا گیا پھر مجبوری کی حالت میں افغانستان نقل مکانی کے بعد بھی پارٹی رہنما ریاض گل بگٹی کے سپین بولدک میں گھر پر بم سے حملہ کیا گیا جس میں اس کی معصوم بچی اور ضعیف العمر والدہ شدید زخمی ہوئیں اسی طرح میر ے بھائی شاہ محمد بگٹی کو دسمبر 2010میں اغوا ء کے بعد شہید کیا گیا اور میرے بھانجے دین محمد بگٹی کو بھی کوئٹہ سے اغوا کر نے کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش کلی کمالو میں پھینکی گئی تھی اس طرح میرے جوانسال فرزند حق نواز بگٹی کوقابض ریاستی فورسز نے شہید کردیا گیا۔ بی آر پی کے کارکنوں سمیت ہزاروں بلوچوں کو صرف اس لیے شہید کیا گیا کیونکہ ان کے عزیر یا رشتے دار بلوچستان کے ریاستی دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھا رہے ہیں ہم اقوم متحد ہ سمیت سوئٹز زلینڈ ‘ جنوبی کوریا، لندن سمیت تمام حکومتوں سے اپیل کر تے ہیں وہا ں مقیم بلوچ سیاسی رہنماؤں کے خاندان کے افراد کی زند گیوں کو شدید خطراحت لاحق ہیں وہ انسانی ہمدر دی کے تحت پاکستان پر دباؤ بڑ ھائیں اور بلوچستان میں جاری تحریک آزادی کی حمایت کریں شہید وقار بلوچ کی شہادت کے خلاف بلوچستان بھر میں تین روزہ سوگ اور یکم نومبر بروز جمعہ کو مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی جائے گی بلوچستان کی تاجر برداری اور ٹرانسپورٹرز سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہڑتا ل کو کامیاب بنائیں۔

вторник, 29 октября 2013 г.

Waqar Naseer Baloch has bees killed by the occupying military of Pakistan in Khuzdar today. According to eye witnesses Waqar Naseer Baloch was taken off from a passenger bus near Wadh area of Khuzdar District. Waqar Naseer Baloch is the son of Naseer Baloch a prominent leader of Baloch Republican Party and the party presedint of South korea chapter. Waqar Naseer Baloch was also abducted by the military earlier at December 15, 2012, he was later on released after the brutal torture. Baloch Republican Party considers the sad demise of Waqar Naseer Baloch as a great national loss. Baloch National movement of freedom can never be eliminated by the brutal killings , nor by the abductions of innocents says the Sher Muhammad Bugti in his press release. Spokesman of BRP further added that Waqar Naseer Baloch never gave up to convince the masses of great cause of freedom. Baloch Nation will remember him and his chosen path.
Sher Muhammad Bugti Said, targeting the relatives of pro-freedom political activists is the tradition of Pakistani military. Target killing of Waqar Naseer Baloch is the continuity of the brutal military policy. Earlier in January 2012 , the Sister and niece of the prominent Baloch leader Nawab Brahumdagh Bugti were target killed in Karachi, their only sin was their blood relation with the Nawab Brahumdagh Bugti , who is struggling politically for the freedom of Balochistan from Pakistani occupation. Son of Anwar Baloch, Mr.zaheer Anwar was abducted, killed and dumped by the military for nothing but the affiliation of his father with BRP. Military punished the Anwar Baloch of his participation in a rally against the inhuman policies of Pakistan in Geneva. In the same fashion House of Khuda Bakhsh Bugti was attacked by the military in Sui, which swept out his entire family, killing Eight at the spot including women and children. Baloch political activists are not only targeted in land but the refugees are not spared as well. House of Riaz Gul Bugti was attacked in Afghanistan by military paid goons which resulted in serious injuries of his old age mother and the innocent baby. My Brother Shah Muhammad Bugti was abducted and killed in 2010 in Dera Bugti, While my nephew Din Muhammad Bugti was abducted and killed from Quetta and my elder son Haq Nawaz Bugti was martyred by Pakistani army near Nushki in November 2012.
We appeal the international community to take the serious notice of State policies. The family members and the relatives of Pro-Freedom Baloch political activists are in danger. International community should apply every pressure on Pakistani State to ensure that Human Rights are protected at every level of the state. Baloch Nation must be helped for their just cause of freedom.

حیدر آباد سمیت اندرون سندھ کے کئی شہروں میں کریکر دھماکے،  

 اندرون سندھ جسقم کی ہڑتا ل سے ایک روز قبل کریکر دھماکوں اور فائرنگ سے گونج اٹھا جس سے ایک شخص ہلاک اور پولیس اہلکار سمیت چار افراد زخمی ہو گئے۔ 
تحفظ پاکستان آرڈیننس اور رینجرز کو پولیس کے اختیارات ملنے کیخلاف تنظیم جئے سندھ متحدہ محاذ نے کل اندرون سندھ ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔ شام ہوتے ہی اندرون سندھ کے مختلف شہر کریکر دھماکوں سے گونج اٹھے۔ حیدر آباد میں ہوئے تین دھماکوں میں ٹرانسپورٹ کمپنی کا طفیل نامی ملازم مارا گیا جبکہ قاسم آباد پولیس چوکی پر فائرنگ اور دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکار سمیت تین افراد زخمی ہو گئے۔ لاڑکانہ میں مختلف مقامات پر نامعلوم افراد نے 8 کریکر دھماکے کئے جس سے لوگوں میں خوف وہراس پیدا ہو گیا۔ کریکر دھماکوں سے دادو بھی نہ بچ سکا یہاں ہوئے سات دھماکوں میں ایک شخص زخمی ہو گیا جبکہ دو موٹر سائیکلوں کو جزوی نقصان پہنچا۔ خیر پور میرس کے علاقے ہنگورجہ میں یوٹیلٹی اسٹور کے قریب کریکر پھٹنے سے علاقے میں خوف وہراس پیدا ہو گیا۔ میر پور خاص اور جام شورو میں بھی کریکر دھماکے ہوئے ہیں


Zahidan : 

Families of 16 Baloch political prisoners who were killed during a mass execution by Iranian regime in Zahedan have strongly protested on Sunday Morning in front of the governor house.

According to "Human Rights and Democracy in Iran” a large number of residents of Zahedan along with family members of the victims gathered in front of the Governor’s office in the city of Zahedan. The protester demand from the Iranian forces to hand over the bodies of their loved one so that they can hold their funeral, pay the last respects and bury them.

It has been reported that the Police forces, Basiji forces and Mersad on motorcycles and cars have surrounded the families of the victims and they stopped the general public from joining their protest.

Sources on condition of anonymity told Balochwarna news that in most cases Iran does not hand over the bodies of the executed persons to their relatives. Usually the state forces bury them in mass graves and inform their families that their loved ones have been executed for such and such crimes.

The source further said: “If a family try to protest or demand for the body of their loved one – the laws are made so complicated that the victims’ relatives are made to wait for several weeks – they are deliberately harassed and made to go from one office to another to get the body of their loved one.

The Islamic Republic of Iran has executed yet another Baloch political prisoner by the name of Selman Miayi on Sunday October 27.
Miayi was executed in the city of Khorramabad, Lorestan province, on charges of “Moharebeh” (Enmity against the God). On Saturday 16 Baloch political prisoners were executed in Zahedan prison.

понедельник, 28 октября 2013 г.

‫پاھار ماہنامہ سنگر اکتوبر
سنگر کا پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے۔۔۔۔
اختر مینگل کی آنکھ مچولی نے بلاآخر بلوچستان اسمبلی کی ایک ایم پی کی نشست پر تشریف آواری کے ساتھ دم تھوڑ دیا ۔جہاں الیکشن سے پہلے مینگل صاحب نے بلوچ قوم کو اپنی پوری قوت کے ساتھ بے وقوف بنانے کی کوشش کی تو کہیں قابض ریاست کو بھی بلیک میل اور خود کو عوامی طاقت کہہ کر اپنی قیمت بڑانے کا ڈرامہ رچایامگر تب جا کے تمام حربے بے سود نکلے جب اسٹیبلشمنٹ نے اپنی وفاداری کا تمغہ کچھ پورانے اور کچھ نئے نام کے مڈل کلاسوں کے گردن میں تھما دیا۔ریاست کے خاندانی وفادار بزنجو صاحب دیگر سرکاری وفاداروں پہ بازی لے گئے اور کیچ کے کروڑ پتی مڈل کلاس کو بھی پاکستانی تاریخ میں وفاداروں کی لسٹ میں اپنا نام آفیشل طور پر رقم کرنے کا نادر موقع ملا اور اس نے بھی اس وفاداری کو لبیک کے ساتھ قبول کیا وہ الگ داستان ہے کہ یہ واحد وفادار ہے جسکی وفا کا رسہ کئی سروں پر مشتمل ہے اور کھینچنے والے کئی۔۔مقبوضہ بلوچستان میں سیاسی ڈرامے اور وفاداری کا مستقل تاج پہننے کے ڈرامے زورشور کے ساتھ جاری ہیں۔مینگل صاحب کا الیکشن کے بعد دبئی روانگی اور پھر اس طرح واپس آکے عہد ووفا کے پاکستانی سوگند کوئی عام بات نہیں انکے قبائلی اور روایاتی حریف جنہوں نے مشرف دور سے تاحال ریاستی خفیہ اداروں،فوج کی سربراہی میں کئی ڈیتھ اسکواڈ بنائے اور بلوچ فرزندوں کو انکی زمین پر لہولہان کر دیا۔اب اختر مینگل کی پاکستانی کرسی پر تشریف آوری اس سے پہلے دونوں حریفوں کا وڈھ میں طاقت کے مظاہرے کی جھلکیاں دراصل خود سوالیہ نشان ہیں۔کچھ یوں لگتا ہے کہ یہ سب دونوں سرکاری وفاداروں کو آپس میں ملاپ کا ڈراپ سین تھا جس کے بعد اختر کو حلف برداری کرنی تھی۔مینگل صاحب کی دو طرفہ پالسیاں اسکی حکمت عملیوں کا حصہ ہیں وہ بیک وقت خود کو تھوڑا بہت عوام میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں مگر سردار صاحب بھول گئے کہ اب وہ دور نہیں رہا۔انقلاب نے شہیدوں کی لہو نے آج بلوچ قوم کو باشعور بنادیا ہے اس پر آشوب دور میں پاکستانی جھولی تھامنے کی ان کی عادتیں و عہدو وفا سمجھ سے باہر ہے ۔دوسری جانب شفیق مینگل کی پر اسرار گمشدگی پہ کئی تجزیہ ہورہے ہیں کچھ کا خیال ہے کہ اختر مینگل کو کچھ عرصہ کے لیے پاکستانی ایجنسیاں مالک کے ساتھ ملا کر کسی اور حکمت عملی کے تحت بلوچ جہد کو کاؤنٹر کرنے اور دنیا کو باور کرانے کے لیے کہ یہ بلوچ قوم کے نمائندئے ہیں اور بلوچ مزاحمتی یا آزادی کی جدوجہد چند افراد پر مشتمل ہے۔(چند افراد کا ذکر خود ریاست کے خاندانی وفادار حاصل بزنجو نے ایک ٹی وی شو میں بھی کیا) کچھ کا خیال ہے کہ اختر مینگل سے چونکہ شفیق مینگل کے علاقائی سرداری و طاقت کا مسئلہ ہے اس لیے اس نے اختر کے زیر دست کام کرنے سے انکار کیا اور پاکستان نے اسے اپنے جی ایچ کیو میں وقتی نظر بند رکھا ہے تاکہ اختر مینگل کو مکمل اختیار و طاقت دی جائے کہ وہ کس حد تک کروڑپتی مڈل کلاس کے ساتھ مل کر پاکستانی قبضہ کو بلوچ سرزمین پر برقرار رکھنے کے لیے ہنر کھاتے ہیں ۔کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ شفیق مینگل کو اسی دوران جب ملٹری و اختر اور انکے درمیان یہ تمام معاہدے ہو رہے تھے کوئی خطرناک بیماری لاحق ہو گئی ہے۔لیکن یقینی طور پر اس وقت کچھ کہناقیاس آرائی ہوگی مگر یہ یقینی ہے کہ اختر مینگل کی ریاستی کرسی پر تشریف آوری و پاکستانی سرکار کی بلوچ جہد کو داخلی و عالمی سطح پرکاؤنٹر کرنے کی نئی پالسیاں اس گمشدگی یا زیر زمین ہونے کے پیچھے ضرور کارمرز ہیں۔
اگست کے آخر اور ستمبر کے ابتدا میں بی این ایف کے سیکریٹری جنرل نے اقوام متحدہ کے اپنے ہم منصب بان کی مون کو خط لکھا جس میں جنگی جرائم،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب پاکستان کے خلاف عالمی قوا نین کے تحت کاروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ڈاکٹر منان صاحب کی خط سے ایک اضافہ ضرور ہوگا کہ بان کی مون و امریکہ کو مقبوضہ بلوچستان میں آزادی پسند سیاسی فرنٹ کی سیاسی جہد سے آگاہی کے علاوہ آنے والے وقتوں میں اپنی پالسیوں کو مرتب کرنے میں سیاسی فرنٹ کی موجودگی و اہمیت کار آمد ثابت ہوگی بشرطیکہ یہ سلسلہ مستقل مزاجی کے ساتھ جاری رہے۔انقلابی جدوجہد میں قومی آگاہی و تربیت انقلاب کا بنیادی جز ہے اسی طرح جدید دور میں اس کیسخت ضرورت ہوتی ہے کہ آپ اپنی جہد و قابض کی بربریت کو دنیا کے سامنے کتنا اُجاگر کر سکتے ہیں جس کے لیے خالص انقلابی اداروں کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔اس جدید دور میں جہاں ہم ایک ایسے خطے میں اپنی وجود رکھتے ہیں جو آج بھی ترقی و دنیا کی دوڑ سے کوسوں دور ہے،اور اس میں بلوچ سرزمین پر آباد بلوچ تو آج بھی بابا آدم کے زمانے سے شاید چند سال آگے سرایت گر گئی ہے ۔ایسے میں اپنی قوم کو آگاہی سے زیادہ مشکل کام بیرونی اقوام ممالک کو اپنی محکومی و آزادی کے بارے میں دستاویزی و سائنسی آگاہی کے ساتھ دشمن ریاست کی ظلم و جبر کا بھی آئینہ دکھانا بے انتہا ئی ضروری ہے۔اب فرنٹ و دیگر جماعتیں یا افراد اسے کیسے نبھاتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ایک بات صاف ہے کہ دنیا کو آگاہی و انکی توجہ مبذول کرانے کے لیے اتحاد و یکجہتی کے بغیر فارن میں یہ کام اپنی ڈیڑھ انچ کی مساجدیں بنانے سے کسی بھی صورت ممکن نہیں۔لاپتہ افراد کے عالمی دن کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افرادکے اہلخانہ نے مظاہرہ کیا۔لواحقین نے بینرز اور اپنے عزیز و اقارب کی تصاویریں اُٹھا رکھی تھیں اس طرح کے مظاہرے جو عالمی دن کے مناسبت سے ہوتے ہیں اس وقت کوئی اثر یا توجہ اپنی جانب متوجہ کرا سکتے ہیں جب مشترکہ پلیٹ فارم اور یکجہتی کے ساتھ ہوں اور مقام کا تعین بھی ہو۔۔مگر ایک جانب انقلاب کی باتیں تو دوسری جانب اداروں و تنظیموں کے وجود سے انکاری افراد اور پھر اپنی ڈیڑھ انچ سے کم کی دیواریں۔۔کونسی انقلاب اور لینن و مارکس کی پیرو کاری ہے۔۔۔بہرحال کاروان آزادی کا سفر تو جاری رہے گا مگر باہمی یکجہتی انتہائی اہم ہے۔تاریخ کے اوراق میں خود کو مورخ کی قلم کے نوک سے نکلے سیاہی میں سرخ رو کرنا اور مورخ کی قلم سے سرخ رو ہونا شاید کسی بھی انقلاب کے دعویدار کے لیے ایک مشکل نہ سہی مگر محتاط عمل ہو گا۔آج اپنی آواز کو بلند و اس میں اثر پیدا کرنے کے لیے اب ان ڈیڑھ انچ کی دیواروں و انا و اسی انا کے چکر میں آئے روز نئی دیواریں کھڑی کرنے کاوقت نہیں بلکہ ان دیواروں کو مسخ کرنا پڑھے گا ایک قومی جہد کے لیے،ایک آزاد وطن کے لیے اور کامیاب انقلاب کے لیے۔۔۔۔
دشت سے مند آتے ہوئے پاکستانی فورسز نے روز مرہ کی ایک لوکل سواری کی گاڑی پر راکٹ داغہ اور فائرنگ کی جس سے گاڑی میں سوار تمام افراد زخمی ہوئے جبکہ بلوچی زبان کے شاعر شبیرمعصوم بلوچ اور انکی والدہ اور کزن خان محمد اسی وقت خالق حقیقی سے جا ملے اور اپنی زمین پر غیر فوج کی بربریت کا نشان بن کر شہید ہوگئے۔پاکستانی فوج کے حملے میں گاڑی میں سوار خواتین و بچے بھی شدید زخمی ہوئے جبکہ ایک ۶ سالہ بچہ عمران بلوچ اگلے روز مادریں سرزمین میں اپنی خوشبو کو آنے والی نسلوں کے لیے مدہم کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔اُس شہید بوڑھی ماں کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنی زمین پر غلام تھا اور شاعر شبیر بلوچ کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنی شاعری سے سرزمین کو خود محسوس کرتا اور دوسروں کو اسکی خوشبو سے لطف اندوز کراتا تھا۔نوجوان خان محمد کا قصور یہ تھا کہ وہ غلام تھا ۔آج ریاستی فورسز و اسکے نام نہاد مالک و دیگر کا بلوچ کی لہو کو اس بے دردی سے بہانا قومی غلامی کا نتیجہ ہے ۔۔۔ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہا ں دم تھا۔۔۔۔۶ سالہ معصوم عمران جان کا جرم و قصور یہ تھا کہ وہ اپنی اس سرزمین پر زندگی کی ابتدا کر بیٹھا تھا جو غیروں کے قبضے میں ہے۔اگر ہماری پچھلی نسل و آب و اجداد آزادی کے اس جہد کو صحیح معنوں میں پروان چھڑاتے تو آج عمران جان جیسے ہزاروں بچے دشمن ریاست کی بربریت و وحشت کا شکار نہ بنتے۔۔۔جب سنگر پبلی کیشنز نے دوسری ایڈیشن اور (شہیدانی تاک ۱ ) پر کام شروع کیا تو شہید ماسٹر یحییٰ بلوچ کے گھر والوں سے ادارہ سنگر کے سب ایڈیٹر شاری بلوچ نے پوچھا کہ شہید ماسٹر کی کوئی خاص بات یاد ہے تو بانک نے کہا ہاں’’وہ انقلاب کا شروعاتی دور تھا اور ہمارے لیے بھی سب نیا تھا میں نے ایک دن غصہ سے پوچھا کہ تمھارے اس آزادی و جنگ کے چکر میں بچوں کو کون پالے گا۔۔تو شہید نے فرمایا’’ آج میں اپنے آب و اجداد کی وجہ سے غلام ہوں اگر میرے بزرگوں نے اس جنگ کا آغاز کیا ہوتا تو آج صورت حال کچھ اور ہوتی۔۔اور میں نہیں چاہتا کہ اس پیٹ کے چکر میں کل میری اولاد میرے بارے میں یہی کہے کہ دیکھو باپ نے جہد نہیں کیا اور ہماری غلامی کا سبب خود ہمارا باپ ہے اور آج میری جہد زیادہ نہ سہی ایک قدم تو اس سلسلے کو آگے بڑھائے گا یہی میرا اثاثہ ہے اپنے اور قوم کے بچوں کے لیے‘‘ شہید ماسٹر کے تاریخی الفاظ اگر 1948 سے جہد آزادی مسلسل اپنی انقلابی سلسلے کو برقرار رکھتی اور ہمارے بزرگ اپنا کردار ادا کرتے تو آج عمران جان اس طرح ریاستی لانچر کا شکار ایک ماں کے ساتھ نہیں ہوتا۔۔۔بلوچ چائے جہد کار ہویا عام بلوچ وہ ہے غلام اور پوری قوم کا قصور یہی ہے کہ وہ غلام ہے اور اگر غلام نہ جاگا اور اسے احساس نہیں ہوا کہ وہ غلام ہے تو اسی طرح نت نئے طریقے سے موت یقینی ہے اور اگر احسا س غلامی میں شہادت کا عظیم رتبہ پھائے تو یہی احساس غلامی ہی آزادی کی شمعیں جلائے گی۔ اُسی روز لیاقت بلوچ بھی ریاستی آمر کا شکارکر ہو کر شہید ہوئے۔
ستمبر کے مہینے کا آغاز بھی ریاستی فورسز نے بمباری سے کیا ۔مند کے درمیانی پہاڑی علاقوں میں دو روز تک پاکستانی جنگی ہیلی کاپٹروں نے جی بھر کر بارود کی بارش کی کئی مال مویشی ہلاک اور کئی بلوچ مال داروں کے گھروں کو فضائی بمباری سے تباہ کیا گیا۔قابض ریاستی فوج کے ترجمان نے میڈیا کو کہا کہ بلوچ سرمچاروں پر حملہ کرکے درجن سے اوپر سرمچاروں کو ہلاک کیا ہے مگر بی ایل ایف کے ترجمان گہرام بلوچ نے میڈیا میں فوج کے اس بیان کو انکی شکست خوردہ فوج کی حوصلوں کو بڑھانے کا حربہ قرار دیا اور انھوں نے کہا کہ ریاستی فورسز کے فضائی حملوں کا بھرپور جواب دیا گیا ہے جس سے انکے دو ہیلی کاپٹروں کو نشانہ بنا کر جزوی نقصان پہنچایا گیا۔
ناروے میں موجود سابقہ نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما کچکول ایڈوکیٹ نے بی این ایم میں شمولیت کا اعلان کیا ۔کچکول علی ایڈووکیٹ کی انقلابی کاروان میں شمولیت سے یقیناًنیشنل پارٹی کو دھچکا لگا ہے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پرانے کامریڈ نئی خون اور جذبہ آزادی سے بھر پور نوجوانوں میں خود کو کیسے ڈال پھاتے ہیں اور خود میں وہ جوش و ولولہ لا سکیں گے کہ نہیں۔۔یہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے۔۔مگر ایڈووکیٹ صاحب کی قومی جہد آزادی میں شمولیت ایک اہم عمل ہے۔ اس لیے کہ علی صاحب سابقہ پاکستانی پارلیمنٹ کے منجھے ہوئے کھلاڑی اور موجودہ ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ مالک صاحب کے دست راست این پی کے اہم رہنما رہ چکے ہیں اس لیے چہ میگوئیوں میں اضافہ ضرور ہوا ہے ۔اب وقت اور حالات یہ فیصلہ کریں گے کہ واقعی ایڈوکیٹ صاحب جذبہ وطنیت کی گرمائش و محکومی کو محسوس کرتے ہوئے کاروان آزادی کا حصہ بنے ہیں یا مجبوری و وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے کے لیے۔۔۔۔ بہر کیف انکی ایک آزادی پسند سیاسی تنظیم میں شمولیت خوش آہن ہے اس لیے کہ کمزور دشمن اس وقت طاقت ور ہوتا ہے جب اپنے لوگ اپنی قوم کے افراد اسکی مدد یا غلامی کو خود تسلیم کریں اور پھر اس کی مددگار بنیں۔ایڈوکیٹ صاحب اپنے زمانے کے اہم و خاص لیڈر مانے جاتے تھے اب دیکھنا یہ ہوگا کہ دشمن کی چالوں سے واقف کچکول علی قابض ریاست کے لیے کتنے خطرناک انقلابی ثابت ہوتے ہیں۔
کیچ کے قریب دشت میں فوج کے ساتھ جھڑپ میں نوجوان سرمچار ذکریا بلوچ اور احمد جان شہید ہوئے اور مشکے میں سرمچار فاضل امین بھی فورسز کے ساتھ جھڑ پ میں شہید ہوئے دونوں مقامات پہ فورسز کے درجنوں اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ مشکے میں شہید فاضل امین کی لاش کو بھی فورسز اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے اور پھر کچھ روز بعد شہید کی لاش کو مسخ کر کے پھینکا گیا۔بی ایل ایف کے ترجمان نے سرمچاروں کی شہادت کو سرخ سلام پیش کیا اور جہد آزادی میں شہیدوں کی خدمات و گراں قدر قربانیوں و بہادریوں کو تاریخ کا اہم اثاثہ قرار دیا۔
بی ایس او آزاد نے کولواہ میں عظیم الشان جلسہ عام کا انعقاد کیا۔جلسہ میں بی ایس او آزاد کے چےئرمین،وائس چےئرپرسن سمیت بی این ایم کے رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔عوامی جوش و ولولہ کا یہ سلسلہ اور ان سنگین حالات میں عوام کو جوش و جزبہ کے ساتھ یکجا کرنا دشمن کی خوف کو کاؤنٹر کرنے کا بہترین عمل ہے ۔جہاں پاکستانی فورسز اپنی پوری قوت و ظلم و جبر کے ساتھ یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ بلوچ قوم کو خوف زدہ کریں گے اور ایسے حالات میں طلباء تنظیم کی آگاہی و عوامی رابطہ مہم اور انقلابی ماحول کو اس طرح برقرار رکھنا۔۔نوجوانوں کی ہمت و انقلاب کی نوید ہے جو سلام کے مستحق ہے۔
ڈیرہ اللہ یار سے دو مسخ لاشیں برآمد ایک کی شناخت لاپتہ بہار مرید بگٹی سے ہوئی جبکہ دوسرے کی شناخت کچھ روز بعد ہوئی جو لاپتہ ظفر سمالانی کی جسد خاکی تھی جنکو اگست کے شروعات میں گھر سے ایف سی نے اغوا کیا تھا۔
ستمبر کے مہینے کے دوسرے ہفتے میں بی این ایم کے مرکزی چےئرمین خلیل بلوچ کے والد محترم عبدالسلام بلوچ خالق حقیقی سے جا ملے جو کچھ مدت سے بیمار تھے۔ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں پنجگور کے مقامی قبرستان میں انکو سپرد خاک کیا گیا۔سنگر پبلی کیشنز کو چےئرمین خلیل بلوچ کے والد کی ناگہانی وفات پر رنج و غم ہے ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
پنجگو تسپ میں عبدالحکیم بلوچ کے گھر میں فورسز و خفیہ اداروں نے ہلہ بھول کر خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ۔چندوں و امداد پر قائم فوج نے گھر کے تمام قیمتی سامان لوٹ لیے اور گھر میں موجود طفیل بلوچ،سلام بلوچ ،مراد بلوچ اور حمل بلوچ کو اغوا کر کے ساتھ لے گئے۔جبکہ مستونگ دشت میں ایک ہی خاندان کے ۶ افراد کو اس وقت فوج نے اغوا کیا جب وہ اہلخانہ کے ساتھ کوئٹہ علاج کے لیے جا رہے تھے،حسب توقوع فوج نے خواتین کو بے ننگ و تشدد کا نشانہ بنایا اور۔ظہور بنگلزئی،عبدالمالک،محمد،فتح محمد،شیر محمد، محمد صالح بنگلزئی کو فورسز تشدد کرتے ہوئے ساتھ لے گئے جو تا حال لاپتہ ہیں۔
ڈاکٹر مالک نے فوج کے سامنے اپنی وفا اور بلوچ نسل کشی میں نئی حکمت عملیوں کے تحت جنرل کیانی کو شیڈول کے پہلے دورے کے لیے ڈیرہ بگٹی کا انعقاد کیا اور مالک صاحب جوں ہی جنرل کے ساتھ ڈیرہ بگٹی سوئی کی زمین پر لینڈ ہوئے اور نیم چھاونی پونچھے تو سرمچاروں نے راکٹوں کی بارش شروع کردی۔پاکستانی فورسز نے اپنے جنرل اور وفادار وزیراعلیٰ کی حفاظت کے لیے ہیلی کاپٹروں و فضائیہ کا بھر پور استعمال کیا مگر جزبہ حق سے سرشار سرمچاروں نے ریاستی فورسز کا ڈھٹ کر مقابلہ اور کیانی و مالک نے اپنی طے شدہ پروگرام کو کو ادھورا چھوڑ کر بھاگنے میں ہی پاکستانی بقا سمجھی اور جان بخشی بھی۔۔۔اپنی فوج کی ناکامی کا بدلہ پاکستانی فوج نے اگلے چند دنوں تک ڈیرہ بگٹی میں مقامی آبادیوں کو نشانہ بنا کر کیا اور کئی افرادکو اغوا کرکے لے گئے۔جبکہ علی خان اور گزو بگٹی کو شہید کیا گیا۔
پاکستانی نئے وزیر اعظم نے اے پی سی(آل پارٹیز کانفرنس) کا انعقاد کیا جس میں طالبان سے بات چیت ایجنڈہ اہم موضوع تھا جبکہ بلوچستان پر فوج کشی کے سابقہ شیڈول کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا،بعد میں کسی ٹی وی ٹاک شو میں حاصل بزنجو نے اسی حوالے سے کہا کہ ہمارے پاس صرف بی ایل اے سے بات چیت و مزاکرات کا اختیار ہے جب کہ دیگر کے خلاف طاقت استعمال کی جائے گی۔اب یہ الفاظ نہ ہضم ہوئے نہ سمجھ میں آئے۔۔چونکہ بلوچ سرزمین پر موجود تمام مزاحمتی تنظیموں کا بنیادی اور مین مقصد بلوچ سرزمین کی آزادی ہے پھر حاصل بزنجو کا یہ بیان کیا بلوچ مزاحمتی تنظیموں میں سوشل میڈیا میں جاری اس تفریق کا حصہ نہیں جس کے تحت ایک انتشاری سوچھ کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ شاید یہ اندازہ غلط ہو مگر کچھ تو ہے ۔۔۔۔اے پی سی میں قیمت کی بڑوتی کے لیے اختر مینگل جو ہمیشہ موقعہ کی تلاش میں ہوتے ہیں اس بار بھی خوب باتیں کیں اور نواز شریف و جرنلوں کی توجہ حاصل کرنے کی اپنی سی سہحی کی۔۔اس کانفرنس کا ایک اور مقصد بھی کہ دنیا کو شو کر نے کے لیے کہ مڈل کلاس سے لے کر سردار تمام میرے ساتھ ہیں۔۔۔جیسے مشرف نے کہا ۳ سردار ایک کو شہید کیا،ایک اے پی سی میں شامل ہو گیا۔۔۔اور ایک مرد آہن جو انقلاب کی نوید ہے۔جو سراپا انقلاب ہے یہ بلوچ کا ایمان ہے کہ اسے موت بھی شکست نہیں دے سکتی چونکہ وہ خود انقلاب ہے۔۔۔اب نواز شریف اور فوج نے جو ایک مہم شروع کیا ہے جس ٹیم کے لیڈر بزنجو و مالک ،نائب کپتان زہری اور ریزو کھلاڑی اختر مینگل ہیں دنیا کو باور کرانے کے لیے کہ تمام بلوچ سیاسی قوتیں انکے ساتھ آن بورڈ ہیں۔جس کا اظہار کچھ اس طرح بزنجو صاحب نے کیا کہ دو ہزار کے قریب تمام مسلح لوگ ہیں ۔اب یہ خود کی قیمت و کرسی کی تحفظ کا ایجنڈہ ہے یا پھر غالب والی،شعر
دل بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے۔۔۔۔آج بلوچ جہد آزادی کے جلسوں،مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا اکٹھا ہونا اور آسمان کو آزادی کے فلگ شگاف نعرؤں کے ساتھ چیرنا ۔۔۔آزادی کا نعرہ بلند کرنے والوں کو اس بات کا بھی اچھی طرح ادارک ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج کسی بھی وقت حملہ آور ہو کر انکی عزت،ننگ و جان ختم کرسکتی ہے۔ مگر انکی جذبہ قومیت،عشق سرزمین کی دیوانگی،علمی و شعوری انقلابی آگاہی نہتے ہاتھ بے خوف وطن پر نچاور ہونے کے لیے آزادی کا پرچم تھامے رہتے ہیں۔حاصل بزنجو،اختر مینگل و دیگر کا پاکستانی کیمپ میں بلوچ جہد کاروں کو چند افراد گردانا خام خیالی سے کم نہیں اور خیالی دنیا میں رہنے والی بات ہے۔ الیکشن سے پہلے جہاں حاصل بزنجو اقتدار کی کرسی کے لے راہ ہموار کر رہے تھے ایک ٹی وی شو میں کہا کہ ۷۴ میں بلوچ قومی تحریک ایک وجود رکھتی تھی اور آج تو کچھ بھی نہیں ہے اور اس وقت مستحکم تھی جب وہ ختم ہو سکتی ہے تو یہ چند افراد تو کچھ بھی نہیں ہیں۔۔۔۔اب ان الفاظ کا مقصد و مفہوم کسی بھی ذہی الشعور سے ڈھکے چپے نہیں۔ڈاکٹر مالک کی حکومت نے آتے ہی بلوچ نسل کشی میں تواتر کے ساتھ تیزی کے اقدامات اُٹھائے۔سرکار کے خاص جان محمد بلیدی جو ڈاکٹر مالک کے مشیر خاص اور زبان بھی۔کہتے ہیں کہ جب کوئی ہماری فوج کومارے گا تو جواب میں ہماری فوج بھی مارے گی پھر بلوچ بولتے ہیں آپریشن ہو رہا ہے۔۔۔واہ بلیدی صاحب نمک حلالی تو کوئی آپ سے سیکھے۔آپریشن و بلوچ فرزندوں کے اغوا کے سلسلے میں تیزی کے ساتھ اسی رفتار سے لاپتہ فرزندوں کی مسخ لاشیں بھی مل رہی ہیں تو دوسری جانب بلوچ قومی جہد کے خلاف پاکستان کے اندر ایک رائے کو ہموار کیا جا رہا ہے۔تاکہ بلوچ قوم کے خلاف بڑئے پیمانے پر آپریشن کیا جا سکے۔اندرونی طور پر اے پی سی کو لیں یا دیگر ٹاک شو میں انکے پالتو ریاستی افراد کے پروگرام ہوں جہاں چائے حاصل ہو،یا جان،یا زہری ہو یا اختر یا مالک تمام افراد ایک طرف بلوچ جہد آزادی کو چند افراد کا غصہ کہتے ہیں یا نا انصافی کا شاخسانہ۔۔۔ابھی تک کوئی اسے عوامی جہد آزادی کی جنگ ماننے کو تیار نہیں۔۔۔دوسری جانب جان محمد بلیدی ،حاصل بزنجو،زہری کہتے ہیں بندوق سے ختم کریں گے تو ایک طرف مالک کہتے ہیں لاپتہ افراد کی رہائی کے لیے کوشیشں جاری ہیں پھر لاشیں۔اور اختر مینگل بھی اسی طرح دو طرفہ پالسیوں پر گامزن۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کل ملا کر داخلی حوالے سے اپنی میڈیا و اسمبلی کے ذریعے بلوچ جہد سے انکاری پاکستان کے اندر دوسری اقوام کے سامنے جہد آزادی کو چند افراد،و ناراضگی ظاہر کرکے پوری فوجی طاقت کے استعمال کی تیاریاں کر رہے ہیں۔تو دوسری طرف بیرونی ممالک جیسے کہ چین کا دورہ ہو یا باقی آنے والے سرکاری شیڈول دنیا کو بھی یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ پوری بلوچ سیاسی قوتیں ہمارے ساتھ ہیں ۔اب تو اختر مینگل بھی انکے ساتھ ہے اس لیے کوئی ایسی سیاسی مظبوط قوت و اتحاد نہیں ہے ،اس لیے دنیا پریشان نہ ہو ایسے ویسے کر کے ہم اس کو نمٹ لیں گے۔اور اسی پالیسی کے تحت حاصل بزنجو،ثناہ زہری واختر مینگل و دیگر کو اتحاد میں شامل کیا گیا ہے جبکہ عوامی کے ساتھ بھی انکے معاملے طے ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔لفظ عام کوئی بھی اختلاف و حزب اختلاف نہیں۔پوری اسمبلی ۵۰ ووٹ والے پاکستانی ممبران ایک طرف صرف پاکستانی بقا اور اپنی نوابی ،سرداری،میری کو بچانے کے لیے اکٹھے ہیں۔۔۔جبکہ دوسری جانب بظاہر آج بھی ہم دست و گریبان ہیں۔پاکستانی اس سازش و آنے والی طوفان کا رخ بے شک قوم کر لے گی چونکہ انقلاب کا جوش،شہیدوں کا لہو اور مٹی کی محبت سمندری ریلے کی طرح کیچھڑ کو کنارے لگانے کے ساتھ ہر طوفان کو پچھاڑ دیتی ہے۔۔۔مگر بلوچ آزادی کے ایجنڈے میں متفق ساتھی کیوں اکٹھے ہونے سے ڈرتے ہیں بظاہر کوئی اختلاف نہیں تو کیوں یکجہتی نہیں ۔کیا انا اور ذاتی سرداری آڑئے آ رہی ہے،اگر نہیں تو کیوں دوریاں بڑھ رہی ہیں جس سے صرف دشمن ریاست کو شے مل رہی ہے۔۔۔۔
ریاستی جبر و ظلم پورے مہینے اپنی آباوتاب کے ساتھ زوروں پہ رہا ستمبر کے آخری دس روز میں سلسلہ تیزی کے ساتھ جاری رہا،سبی مچھ میں بلوچ سرمچاروں کی فورسز کی قافلے پہ کامیاب حملے کے بعد فوج نے حسب معمول عام آبادیوں کو نشانہ بنایا لوٹ مار کے بعد کئی افراد کو اغوا کر کے لے گئے۔دوسری جانب 21 ستمبر کی رات گوادر میں فوج،خفیہ اداروں اور پولیس نے درجنوں گھروں میں لوٹ مار کے بعد ۲۰ کے قریب نوجوانوں کو اغوا کیا گیا ۔
ڈیرہ بگٹی میں فورسز نے اٹو بگٹی اور انکے معصوم فرزند بچل بگٹی کو شہید کیا ۔شہادتوں کا سلسلہ ریاستی فورسز و اسکی خفیہ اداروں و ڈیتھ اسکواڈوں کے ذریعے تحریک کے آخری سورج کے گروب کے ساتھ تو رہیں گی اس لیے کہ قابض اپنی آخری سانس تک سونے جیسے بلوچ سرزمین پر اپنی قبضہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا۔
ڈاکٹر مالک کی سرکار جسے ایک خاص مقصد کے تحت ابھی تک اور قائم کیا گیا ہے۔ تاکہ پاکستانی ریاست جو آخری سانسیں مقبوضہ بلوچ زمین پر لے رہی ہے آکسیجن دی جا سکے اور اس قبضہ کو کسی طرح سے دوبارہ مستحکم کیا جاسکے اسکی کے غرض سے نہ صرف مالک کو لے کر دنیا کے سامنے مڈل کلاس و عوامی نمائندہ حکومت کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے بلکہ چین کے دورہ کے بعد متوقعہ گلف ممالک،ایران ،و روس کا بھی دورہ آمد پہ ہے تو دوسری جانب مذاکرات کے نام پر لندن بھی پہنچ گئے ۔ایک بار پھر مذاکرات کا شوشہ چھوڑ کر دل کو بہلانے والی باتیں۔بی آر پی و مہران بلوچ نے پاکستانی اس شوشہ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے آزادی کے ایجنڈے کے بغیر کسی بھی ایشو پر بات چیت کو شہداء کی لہو سے غداری قرار دیا۔جیسا کہ بلوچ قومی لیڈر روز اول سے کہہ رہے ہیں کہ بات چیت اقوام متحدہ،و دیگر ذمہ دار ممالک کی موجودگی و گارنٹی پر صرف بلوچ قومی آزادی پر ہونگے۔۔بظاہر ڈاکٹر مالک کو یہ شوشہ بھی مہنگا پڑا۔اب دیکھنا ہے کہ خود کو خان آف قلات اور آزاد بلوچستان کے بعد تخت برطانیہ کے طرز کی خود کی حیثیت کو قائم رکھنے کے خواہاں ڈاکٹر مالک سے ملاقات کرتے ہیں کہ نہیں ۔۔۔اگر کر بھی لیں تو اس سے نہ بلوچ قومی آزادی کو فرق پڑھے گا نہ بیچارے مالک کو کوئی فائدہ۔۔۔۔
بلوچ ری پبلکن پارٹی نے عالمی برادری کی توجہ بلوچستان میں ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں گمشدگیوں بلوچ نسل کشی ،ریاستی ظلم و جبر کی جانب مبذول کرانے لئے شعور و آگاہی مہم شروع کردی جسکے تحت یورپ ،ساؤتھ کوریا ،لندن،سوئٹز لینڈ میں پارٹی کارکنان و رہنماؤں کی جانب سے پملفیٹ اور کتابچے تقسیم کئے گئے جن میں بلوچستان میں سیاسی کارکنان کی ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں گمشدگیوں ،گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاشوں ،سیاسی کارکنوں ،اساتذہ طلباء ،وکلاء ،دانشوروں کو ہدف بنا کر قتل کرنے بلوچ قومی معدنیات کی پاکستان و چائنہ کی جانب سے لوٹ کھسوٹ اور ریاستی ظلم و جبر انسانی حقوق کی پامالی کا تذکرہ کیا گیا ۔اس مہم کا مقصد عالمی برادری کو بلوچستان کی اصل صورتحال سے آگاہی فراہم کرنا تاکہ اقوام متحدہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ،عالمی برادری ،مہذب ممالک بلوچستان میں قبضہ گیریت کے خاتمہ اور پاکستان کے خفیہ اداروں فورسز کی جانب سے بلوچوں کی نسل کشی رکوانے میں اپنا مؤثر و عملی کردار ادا کریں جبکہ 26 ستمبر کو بی آر پی کے قائد براہمدغ بگٹی کی جانب سے جنیوا میں میڈیا میں پریس کانفرنس بھی کی گئی اور مقبوضہ بلوچستان کی صورت حال و بلوچ قوم پر جاری پاکستانی بربریت کے بارے میں دنیا کو و میڈیا ذریعے آگاہ کیا گیا۔‬
Pressurising tactics: Security agencies tried to abduct my brother in Quetta: Nasrullah Baloch
Reported by Archen Baloch Speaking at Quetta press Club, Nasuralla said the secret security agencies abducted his younger brother Samiullah Baloch at Shahwani Road Quetta but luckily he made a successful escape after the agencies car stopped at due to traffic jam. 

He said: My younger brother was walking on Shawani road in Quetta when the armed men of secret agencies whisked him and put him in their vain but, because of the traffic jam he jumped off the vehicle and escaped from the brutal clutches of the agencies.” He said his brother brutally beaten up while by the security agencies in their car. 

He warned that government secret agencies will be held responsible for any harm to him or any of his family members during the course of his struggle for the safe recovery of abducted Baloch. 

He said his brother had nothing to do with his activism for missing persons’ rights. He also said that his younger brother was not affiliated with any political party. The arresting and beating up his brother was a pressure tactic of Pakistani agencies to force him [Nasrullah] to abandon the long march. He made it clear that he will not back down from long march and the intimidating tactics cannot weaken his resolve for the rights of the Baloch people. 

He informed the press that the long march headed by Mama Qadeer Baloch has crossed Lukpass Mountain and it is well on its way. He said the long journey in support of missing persons set off Sunday from Quetta to protest the illegal abduction and enforced disappearances of Baloch people in Balochistan. “Baloch children and elderly people are participating in the 700km long march,” he said.

The long march he said would take around 15 to 20 days to reach to Karachi. He said the government would be held responsible for any ham or displeasing occurrences to any participant of the long march during this humanitarian journey. He added: “Voice for Baloch Missing Persons had asked the government for security arrangement but they did not heed to our request. We are marching all alone.” 

He told the press that nothing can deter the long march from its journey until it achieves its objective. In reply to a question, he said that no official from government had contacted VBMP in this regards.

At the end of the press conference, he appealed the Edhi Foundation to provide an ambulance of doctors and other necessary apparatus to the caravan of Voice for Missing Persons for emergency help. 


میرے بھائی کو خفیہ اداروں نے اغواء کرنے کی کوشش کی تاہم وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ لانگ مارچ جو گذشتہ روز کوئٹہ سے شروع ہوا تھا لکپاس کراس کیا ہے جس میں خواتین بچے اور بوڑھے شامل ہے۔ نصراللہ بلوچ
کوئٹہ ( سنگر نیوز)وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے کہا ہے میرے بھائی کو خفیہ اداروں نے اغواء کرنے کی کوشش کی تاہم وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے اور میرا بھائی ان کی گاڑی سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا اگر میرے خاندان کے کسی فرد کو یا مجھے کوئی نقصان پہنچا تو اس کی تمام تر ذمہ داری خفیہ اداروں پر عائد ہوگی انہوں نے یہ بات پیر کے روز کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہاکہ پیر کے روز میرے چھوٹے بھائی سمیع اللہ کو شاہوانی روڈ سے کالے رنگ کے شیشے میں موجود خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار جو جدید اسلحہ سے لیس تھے اسے اغواء کرکے لے جارہے تھے کہ راستے میں ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے میرا بھائی ان کی گاڑی سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا گاڑی کے اندر خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے میرے بھائی پر شدید تشدد کیا ہے انہوں نے کہاکہ میرا بھائی کا کاروبار مجھ سے الگ ہے اس کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں مگر خفیہ ادارے والے اس طرح میرے بھائی کو اٹھا کر مجھ پر پریشر ڈالنا چاہتے ہیں مگر ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ لانگ مارچ سے کسی صورت دستبردار نہیں ہونگے اور بلوچوں کے حقوق کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے انہوں نے کہاکہ لانگ مارچ جو گذشتہ روز کوئٹہ سے شروع ہوا تھا لکپاس کراس کیا ہے جس میں خواتین بچے اور بوڑھے شامل ہے اور ماما عبدالقدیر لانگ مارچ کیساتھ ہے ہمارے اندازے کے مطابق 15سے 20دن تک وہ کراچی پہنچے گے حکومت کی جانب سے ہمیں کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی ہم ایدھی ٹرسٹ والوں سے کہتے ہیں کہ وہ ہمیں ایک ایمبولینس فراہم کریں جس میں ایک ڈاکٹر اور دیگر سامان ہونے چاہیے انہوں نے کہاکہ جب سپریم کورٹ کا بینچ کوئٹہ میں ہوتا ہے تو سپریم کورٹ ایس ایچ او کو بلا کر اغواء ہونے والوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے اور کوئی نہ کوئی اغواء ہونے والے کو پولیس بازیاب کرلیتے ہیں مگر جب سپریم کورٹ کا بینچ یہاں سے واپس چلا جاتا ہے تو پھر کوئی بھی اغواء ہونے والا بازیاب نہیں ہوتا انہوں نے کہاکہ لانگ مارچ کے دوران اگر ہمارے کسی بھی بندے کو کوئی نقصان ہوا اس کی ذمہ دار حکومت ہوگی کیونکہ ہم نے ان سے سیکورٹی مانگی تھی مگر انہوں نے کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کی اور ہم تن تنہا اکیلے لانگ مارچ کررہے ہیں اور ہم کسی صورت میں اپنے لانگ مارچ سے دستبردار نہیں ہونگے اور نہ ہی ابھی تک حکومت کے کسی اہلکار نے ہم سے کوئی رابطہ قائم کیا ہے ۔‬

воскресенье, 27 октября 2013 г.

27 March: Question and answer session part 2

World should take notice of Iran’s barbarism against Baloch people: Hyrbyair Marri - London - World - Balochwarna News

World should take notice of Iran’s barbarism against Baloch people: Hyrbyair Marri - London - World - Balochwarna News

World should take notice of Iran’s barbarism against Baloch people: Hyrbyair Marri - London - World - Balochwarna News

World should take notice of Iran’s barbarism against Baloch people: Hyrbyair Marri - London - World - Balochwarna News

▶ Mama Qadeer Baloch leads "VBMPLongMarch from Quetta to Karachi (700km ) - Видео Dailymotion

▶ Mama Qadeer Baloch leads "VBMPLongMarch from Quetta to Karachi (700km ) - Видео Dailymotion
The 700km " protest agnst disappearances in Pakistan frm Quetta to Karachi marks the history of peace for mankind

▶ Baloch National Leader Hyrbyair Marri Balochi Interview "March 27, 2013" - Видео Dailymotion

▶ Baloch National Leader Hyrbyair Marri Balochi Interview "March 27, 2013" - Видео Dailymotion

ایران کا 16بلوچوں کو پھانسی دینا نسل کشی ہیں، حیر بیارمری

ایران کا 16بلوچوں کو پھانسی دینا نسل کشی ہیں، حیر بیارمری

пятница, 25 октября 2013 г.

Enforced-disappearance in Balochistan: VBMP announces long march from Quetta to Karachi           The Voice for Baloch Missing Persons announced on Thursday that they are shifting their protest camp from Quetta to Karachi. They also revealed that they will be marching from Quetta to Karachi to record their protest and draw the attention of world towards the plight of abducted Baloch activists.


VBMP chairman Nasrullah Baloch, Vice chairman Abdul Qadeer Baloch and family members of enforced-disappeared persons made this announcement during a press release at Quetta Press Club.
They further said the Voice for Baloch Missing Persons has played an important role to highlight the issue of abductions and kill and dump of Baloch political and human rights activists by Pakistani security agencies. “Several loved ones of VBMP members along with thousands of other Baloch are currently languishing in torture cells and hundreds have been killed under-custody,” said the VBMP.
According the press release, government agencies have tried different methods including life threats and offering bribe to either scare or buy off the organisation – Voice for Baloch Missing Persons – but the organisation was determined to continue its struggle to seek peace of mind and justice.
In a joint press conference the VBMP leaders said: “This organisation – Voice for Baloch Missing Persons – has been democratically protesting from past four years but this time we are changing the medium of our protest as we will have a long march from Quetta to Karachi. We are wrapping up our protest from Quetta Press Club on 24, October 2013 and on 26 October we will start off our march. We will be accompanied by several relatives, including females, of abducted Baloch activists.”
The VBMP warned that if anything happened to them on their way to Karachi they will hold the provincial government of Dr Malik responsible for that. They further said that during their 1311 days of protest the federal government and the Supreme Court of Pakistan have failed to discover enforced-disappeared Baloch activists. They added that: “It is our democratic right to record our protest in any manner we want.”
They said few months ago the family of abducted Baloch student Zakir Majeed Baloch threatened self-immolation because they were fed up of the silence of Supreme Court and the international Human Rights Organisations; however, their friends and well-wishers have managed to stop them from taking this extreme step.
The VBMP has urged the federal and provincial governments and the Supreme Court to take security measures for their long march and if anyone is harmed during the peaceful march, central and provincial government will be held accountable.
Voice for Baloch Missing Persons has also appealed the international media, human rights organisations and the United Nations to pressurise Pakistan to stop the on-going human rights violations in Balochistan. VBMP said: “The media must play their objective role and give coverage to our long march from Quetta to Karachi.”
‫24اکتوبر 4بجے بھوک ہڑتالی کیمپ کو کراچی منتقل کررہے ہیں اور اس دفعہ کوئٹہ ٹو کراچی پیدل مارچ کرینگے 26اکتوبر کو شام 3بجے پریس کلب کوئٹہ کے سامنے سے قافلہ کی روانگی ہوگی جس میں لاپتہ افراد کے لواحقین خواتین بھی شامل ہونگے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز

24 October 2013
کوئٹہ ( سنگرنیوز) وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ اور وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے کہا ہے کہ بلوچ تاریخ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کا کردار درخشاں باب کی طرح روشن ہے اس عظیم تنظیم نے گذشتہ پانچ سے لاپتہ افراد مسخ شدہ لاشوں کی بازیابی میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا ہے جس میں تنظیم کے عہدیداروں کارکنوں کے لخت جگروں کو ریاست کے ٹارچر سیلوں کو بھی برداشت کررہے ہیں اور بہت سے بلوچوں نے اپنے جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے اس عرصہ میں تنظیم کا شیرازہ بکھرنے کیلئے سرکاری ایجنسیوں نے تنظیم کو ختم کرنے کیلئے اپنی بھر پور کوششیں کیں دھمکیاں بھی دی لالچ ومراعات دینے کی کوششیں کی لیکن ناکامی ہمیشہ انکی مقدر ثابت ہوئی لیکن یہ تنظیم اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی انہوں نے یہ بات جمعرات کی شام کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لگائے گئے کیمپ میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہا کہ اس تنظیم کو احتجاج کرتے ہوئے چار سال کا عرصہ گزرچکا ہے مختلف احتجاج کرتے ہوئے لیکن اس ددفعہ ایک نیا احتجاج کرنے جارہے ہیں جوکہ 24اکتوبر 4بجے بھوک ہڑتالی کیمپ کو کراچی منتقل کررہے ہیں اور اس دفعہ کوئٹہ ٹو کراچی پیدل مارچ کرینگے جس میں میرے ساتھ لاپتہ افراد کے لواحقین خواتین بھی شامل ہونگے 26اکتوبر کو شام 3بجے پریس کلب کوئٹہ کے سامنے سے قافلہ کی روانگی ہوگی اگر ہمیں راستے میں کچھ ہو تو یہ تمام ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوگی اس 1311دن کے احتجاج کرنے پر لاپتہ افراد کو منظر عام پر لانے اور مسخ شدہ لاشوں کے پھینکنے کو بند کرنے میں مرکزی حکومت صوبائی حکومت اور سپریم کورٹ ناکام ہوئے لہذا جمہوری طریقے سے ہمیں ہر قسم کا احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے اسکے علاوہ افسوس کی بات ہے کہ گذشتہ چند ماہ پہلے ذاکر مجید بلوچ کے اہل خانہ نے ریاستی اداروں یعنی سپریم کورٹ اور تمام اداروں اور انٹرنیشنل انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خاموشی سے تنگ آکر خود سوزی کا اعلان کیا تھا جوکہ ایک غیر فطری عمل ہے اور ہمدردوں نے انہیں اس اقدام سے روک دیا ہے اور آکر میں یونائیٹیڈ نیشنز مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت سے اپیل کی ہے وہ اس کارواں میں ہمارے تحفظات کا خیال رکھیں اگر کسی بھی لواحقین کو نقصان پہنچا تو اسکے ذمہ دار تمام صوبائی اور مرکزی ادارے اور حکومت ہوں گے ۔‬

четверг, 24 октября 2013 г.


بریکنگ نیوز: بلوچستان کے زلزلہ زدہ علاقے آواران سے ہجرت کرنے والے چار افراد کو قابض فوج نے حب سے اغوا کرلیا۔

بلوچستان کے زلزلہ زدہ علاقے آواران سے ہجرت کرنے والے چار افراد کو قابض فوج نے آج صبح حب سے اغوا کرلیا۔ تفصیلات کیمطابق پاکستانی قابض فورسز کا بلوچستان کے شہر حب میں مولابخش بلوچ کے گھر پر چھاپہ مار کر چار افراد کو اغوا کرلیا ۔ گھر میں موجود خواتین کو شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے سفر،الہی بخش، امین اور بالاچ کو اغوا کرکے ریاستی فورسز نے نامعلوم مقام منتقل کردیا۔ سفر اور بالاچ مولابجش کے بھائی ہیں بالاچ کی عمر محض چودہ سال ہے ۔ یہ افراد بلوچستان کے زلزلہ زدہ علاقے آواران سے نقل مکانی کرکے حب آگئے تھے۔ یاد رہے چند روز قبل آواران کے علاقے لباچ میں ریاستی فورسز نے محمد جان ا ور مولابخش کے گھر پر چھاپہ مار کرپورے علاقے کو کئی گھنٹے تک محاصرے میں رکھا تھا اور کمسن بالاچ کو اغوا کرنے کی کوشش بھی کی تھی مگر گھر میں موجود خواتین نے فورسز کی کوشش کو ناکام بنادیا تھا۔ تب سے اہلخانہ کو فورسز کی طرف سے سنگین دھمکیاں مل رہیں تھیں اور وہ مجبوراَ قدرتی آفت سے رونما ہونے والے تباہ کاریوں او ر قابض فوج کی جارحیت کی وجہ سے تنگ ہوکر حب منتقل ہوگئے تھے۔

BUC NEWS BALOCHISTAN:

BUC NEWS BALOCHISTAN:

вторник, 22 октября 2013 г.

Pakistan Army Has Committed War Crimes In Kashmir And Balochistan - Tare...

▶ BLF: Released Video of Paki Occupying Coastguards Personnel - Видео Dailymotion

▶ BLF: Released Video of Paki Occupying Coastguards Personnel - Видео Dailymotion

پریشان حال زلزلہ متاثرین کی زندگیوں کو ریاستی فورسز نے اجیرن بنادیا ہے پاکستانی فوج ، ایف سی اور آئی ایس آئی نے بین الاقوامی و مقامی ریلیف آپریشن ا راستہ روک کر ملٹری آپریشن کا آغاز کیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اِس میں مذید شدت لائی جارہی ہے
بی ایس او آزاد
کوئٹہ(سنگر نیوز)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ قابض پاکستانی آرمی کی جانب سے بلوچستان کے زلزلہ زدہ علاقوں مشکے اور آوران میں دہشت گردانہ کاروائیاں جاری ہیں ۔ پریشان حال زلزلہ متاثرین کی زندگیوں کو ریاستی فورسز نے اجیرن بنادیا ہے پاکستانی فوج ، ایف سی اور آئی ایس آئی نے بین الاقوامی و مقامی ریلیف آپریشن ا راستہ روک کر ملٹری آپریشن کا آغاز کیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اِس میں مذید شدت لائی جارہی ہے ۔ فوج نے کل صبح آوران کے علاقے لباچ میں محمد جان بلوچ کے گھر پر چھاپہ مار کر آس پاس کی آبادی کوکئی گھنٹوں تک محاصرے میں رکھا۔ محمد جان کے گھر میں شدید توڑ پھوڑ کرتے ہوئے بچوں کو زبردستی لیجانے کی کوشش کی مگر گھر میں موجود خواتین نے اُنکی کوشش کو ناکام بنادیا اور ریاستی فورسز نے خواتین کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ کچھ دن پہلے ایف سی نے بھی محمد جان بلوچ کے گھر کا گھیراؤ کیاتھا اور کافی دیر تک گھر پر شدید فائرنگ کی تھی مگر خوش قسمتی سے کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا تھا۔ زلزلہ زدہ علاقوں میں قابض فوج نے خوف کا ماحول طاری کیا ہوا ہے ، ریلیف ایڈ کی جگہ متاثرین کو بلاوجہ تنگ و تشدد کرکے اغواء کیا جارہا ہے پاکستانی ریاست اور اُسکی فوج ایک منصوبے کے تحت زلزلہ زدہ علاقوں میں بین الاقوامی اور دیگر این جی اورز و تنظیموں کا راستہ روک کر حافط محمد سعید کی شدت پسند تنظیم جماعت الدعوہ اور اِس جیسی دوسری تنظیموں کو کُھلی چھوٹ دی گئی ہے جو ریلیف ایڈ کے نام پر قابض ریاست کے شیطانہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئیے نفرت آمیز تعلیمات کا پرچار کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اُسکی واضح مثال زلزلہ زدہ علاقوں میں شدت پسند مذہبی تنظیموں کی حق میں دیواروں پر چالکنگ کرنا اور بلوچ سیکولر معاشرے پر پاکستانی دہشت گردانہ سوچ کو حاوی کرنا۔ مگر بی ایس او آزاد دوسری آزادی پسند تنظیمیں اور بلوچ قوم مل کر قابض ریاست کے تمام ناپاک عزائم کو خاک میں ملادینگی۔ مرکزی ترجمان نے امریکہ کی جانب سے پاکستان کو حالیہ ملنے والے ملٹری ایڈ کے بارے میں کہا کہ پہلے کی طرح اب بھی پاکستان یہ ایڈ مذہبی شدت پسندی کے بجائے بلوچ تحریکِ آزادی کو کاؤنٹر کرنے کے لئیے استعمال کریگا ، کیونکہ اگر دنیا میں دہشتگردی نہیں تو پاکستان کا وجود ہی نہیں ، اس حقیقت سے دنیا انکار نہیں کر سکتی کے مذہبی انتہا پسند پاکستان ہی کی پیداوار ہیں اور شروع سے لے کر آج تک وہیں سے تربیت لے کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل رہے ہیں، جس طرح پاکستان مذہب کے نام پر بنا ھے مذہب کے نام پر چل رہا ہے اسی طرح بلوچ تحریک کو مذہب کا غلط سہارہ لے کر ختم کرنے کے بھی خواب دیکھ رہا ہے، لیکن بی ایس او آزاد بلوچ قوم میں ایک عظیم تر سیاسی و سماجی تربیت کے ذریعے پاکستان کے ان سازشی منصوبوں کو خاک میں ملائے گی۔ترجمان نے مزید کہا کہ امریکہ سمیت اقوامِ عالم کو سنجیدگی سے غور کرنا چائیے اگر شدت پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان مخلص ہوتا تو وہ بلوچستان کے زلزلہ زدہ علاقوں میں اقوام متحدہ کے اداروں ورلڈ ہیلتھ آررگنائزیشن، ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن، یونیسیف اور ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے داخلے کو ممنوع کرنے کے بجائے مذہبی شدت پسند تنظیموں کا راستہ روکتے ، مگر وہ ایسا کبھی نہیں کرینگے کیونکہ یہ مذہبی انتہا پسندی پاکستان کی کاشت ہے اور اِسے پاکستان بلو چ تحریک آزادی سمیت دُنیا کے خلاف ایک موئثر ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔‬

Pakistan denies access to foreign aid agencies in quake-affected Balochi...

Baloch National Leaders Waja Ustad Qambar Baloch& Waja Dr Allah Nazar Baloch
Saindak Project Gold and Copper ready to be transported to china , The copper and gold in saindak are worth millions of dollars and the larger profit goes to china and the other profit goes to pakistani army which uses the money against the Baloch by buying weapons and machinery and paying army personnel a systematic form of oppression The Baloch national wealth is being used against the Baloch Nation.

Rape of bangladesh by pakistani army 1971 (killed = 3 million in 9 months)

понедельник, 21 октября 2013 г.

واران لباچ فوج کا گھروں پر یلغار عورتوں بچوں پر تشدد ۔خیموں سمیت راشن کو قبضہ میں لے کر علاقہ چھوڑنے یا مرد حضرات کی ایف سی کیمپ میں حاضری پر جان بخشی
آواران(سنگر نیوز) آواران کے علاقے لباچ میں فوج کا مٹی کے ملبے نماگھروں و جھونپڑیوں پہ یلغار۔عورتوں پر شدید تشدد کے بعد وہاں موجود راشن اور خیمے فورسز ساتھ لے گئے۔یہاں آمدہ اطلاعات کے مطاق مشکے کے بعد اب آواران کے مختلف قصبوں میں صورت حال انتہائی گھمبیر ہویے جاری ہے فورسز نے دوپہر کے وقت لباچ میں بچوں اور خواتین پر تشدد کے ساتھ وہاں موجود تھوڑا بہت کھانے کے سامان اور کئی خیموں کو بھی قبضہ میں لیا اور اہل محلہ کو علاقہ چھوڑنے یا ایف سی کیمپ میں گھر کے مرد حضرات کی حاضری کے بدلے راشن و ٹینٹ واپس کرنے کی شرط رکھ لی۔یا وہ علاقہ خالی کردیں۔مزید اطلاعات کے مطابق علاقے میں کشیدگی میں تیزی آرہی ہے اور آئی ایس پی آر اور ڈاکٹر مالک کی حکومت کے بیانات صرف بے وقوف بنانے و سبزا دیکھنے کے ہیں۔جبکہ اطلاعات کے مطابق آواران کے کئی علاقوں میں فوجی ظلم و جبر جاری ہے اور مشکے کو عید سے چند روز قبل جہاں فورسز نے محاصرے میں لیا اب تک محاصرے میں ہے اور زمینی و مواصلاتی نظام فوج نے بلکل بند کرکے رکھ دی ہے‬

воскресенье, 20 октября 2013 г.



لندن میں مقیم شیر باز جمالدینی مشکوک شخص ہے تحقیق جاری ہے آزادی پسند تنظیم ہوشیار رہیں، پنجگور میں سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لی ،
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جےئند بلوچ
20اکتوبر2013
کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ لبریشن آرمی نے پنجگور میں سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لی۔ترجمان جےئند بلوچ نے نامعلوم مقام سے سٹیلائٹ فون کے ذریعے بتایا کہ متنازعہ اور مشکوک شیر باز جمالدینی نامی ایک شخص محدود عرصہ کیلئے بی ایل اے کا کارکن رہا اس دوران بھی اپنے متنازعہ اور منفی کردار کی وجہ سے تنظیم میں اس کی سرگرمیاں محدود رہی دسمبر 2009ء میں قوم پرست پارٹی بی این ایم کے رہنما غفور بلوچ اپنے ایک دوست کے ہمراہ کوئٹہ میں شیر باز جمالدینی کے گھر سے نکلنے کے بعد خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء ہوئے جبکہ اس کا دوسرا ساتھی محفوظ رہا غفوربلوچ تا حال لاپتہ ہے اس واقعہ کے بعد بی ایل اے کے کسی بھی تنظیم فورم پر بیان دینے سے گریز انہ رویے نے شیر باز جمالدینی کے کردار کو مزید مشکوک بنا دیا اس شخص کی بی ایل اے کے کمانڈر شہید امیر بخش سگار سے بھی قربت رہی اس دوران کمانڈر سگار یونٹ کو پیش آنیوالے پے درپے نقصانات کو بھی بی ایل اے ایک حد تک اس شخص کو ذمہ دار سمجھتی ہے آج کل مزکورہ شخص لندن میں بلوچ آزادی پسند حلقوں میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے بی ایل اے تنظیمی سطح پر ان دو واقعات کے علاوہ بھی دوسرے امور پر تنظیمی تحقیق کر رہی ہے لہٰذا یورپ خصوصا لندن میں آزادی پسند بلوچ حلقے شیرباز جمالدینی کو اپنے سیاسی امور سے لا تعلق رکھیں جب تک بی ایل اے کی طرف سے اس کے بارے تفصیلی فیصلہ سامنے آئے دوسری جانب بی ایل اے کے ترجمان نے راسکو پنجگور کے علاقے قلم چوک پر قائم فورسز کی چوکی پر راکٹوں اور خود ہتھیار وں سے حملہ کر کے بلوچ نے 4اہلکاروں کو ہلاک اور2زخمی کر دیا

ArchenSpeaks: Pakistani Punitive Sanctions against Balochistan

ArchenSpeaks: Pakistani Punitive Sanctions against Balochistan: 20/10/2013 By Archen Baloch   As if Pakistan made death and destruction were not enough, Mother Nature struck the 6th most powerful quak...

Activists, lawmakers condemn repression in Balochistan

Activists, lawmakers condemn repression in Balochistan

четверг, 17 октября 2013 г.

Hamukh Nigah Ghamegeh (Ali Jan Dad)

Hamukh Nigah Ghamegeh (Ali Jan Dad)


عید کے دوسرے روز بھی مشکے کے عوام محصور۔فوج کے زمینی و فضائی حملوں میں تیزی
پاکستانی جھنڈے کو سلام نہ کرنے اور ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے خلاف غلیظ زبان استعمال نہ کرنے پر تشدد
تمام دیہاتوں کو سیل کردیا گیا۔ہر فرد اپنی تباہ شدہ گھر میں محصور
مشکے(سنگر نیوز)عید کے دوسرے روز زلزلہ سے تباہ مشکے میں بے سرو سامان عوام پر فوجی ظلم جبر جاری۔یہاں آمدہ اطلاعات کے مطابق مشکے کے تمام قصبوں،دیہاتوں کو سیل کردیا گیا ہے اور ہر دیہات کے راستوں پر ٹینک سمیت بھاری تعداد میں فوج تعینات۔مشکے کے مین شہر گجر میں صرف 20 چوکیاں قائم کسی کو بھی اپنے ملبے کے ڈھیر نما گروندوں و کھلے آسمان و اس جگہ سے ہلنے نہیں دیا جا رہا ہے ۔خواتین و بچے شدید تکلیف کا شکار ہیں۔فورسز کا علاقے خالی کرنے پر زور۔پاکستانی جھنڈے کو سلام کرنے و ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے لیے غلیظ زبان استعمال کرنے والوں پر تشدد نہ کرنے کا اعلان۔۔۔یہاں آمدہ اطلاعات کے مطابق مشکے قلاتِ چیر کے مقام پر فورسز نے خواتین کو اس وقت شدید تشدد کا نشانہ بنایا جب انھوں نے پاکستانی جھنڈے کو فوجیوں کے سامنے اپنے ملبے کے ڈھیر نما گھر سے اُٹھا کر پھینک دیا۔جھنڈے کو سلامی نہ دینے اور ڈاکٹر کے خلاف غلط زبان استعمال نہ کرنے کے جرم میں لوگوں پر شدید تشدد جبکہ وہاں موجود خاندان کے واحد بزرگ شخص کو فوج ساتھ لے گئی اور عورتوں کو انکی زمین پر بے پردہ کردیا۔مشکے کے حالات انتہائی سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ہر کو ئی اپنی جھونپڑی یا ملبے کے ڈھیر تک محصور اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی پروازیں بدستور جاری اور دھماکوں و بمباری کی بھی اطلاعات۔مناسب ذرائع اور مواصلاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے مکمل رپورٹ تک رسائی نہیں ہو پا رہی ہے