Powered By Blogger

воскресенье, 31 января 2016 г.



بلوچ رہنما ڈاکٹر منان بلوچ کے قتل پر بلوچ تنظیموں کا ردعمل       

بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی سکریٹری جنرل ڈاکٹر منان بلوچ اور ان کی چار ساتھیوں ساجد بلوچ، اشرف بلوچ ، حنیف بلوچ اور بابو نوروزبلوچ کی شہادت کے خلاف بلوچستان کے مختلف تنظیموں اور رہنماؤں نے اپنی مزاحمتی بیان میں شہیدوں کو خراجِ تحسین پیش کی ہے اور پاکستانی حکومت کے اس اقدام کی سخت الفاظوں میں مزاحمت کی ہے۔ریاستی فورسز نے ڈاکٹر منان بلوچ اور ان کے ساتھیوں کو ہفتہ ۳۰ جنوری کو مستونگ کے علاقے کلی ڈہ میں سفاکانہ قتل کیا ۔


ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت سے تحریک ایک نہایت قابل سیاسی رہنما سے محروم ہوچکی ہے ، بی این ایم کی جانب سے دی جانے والی ہڑتال کی بھرپور حمایت کرتے ییں – شیر محمد بگٹی
( ریپبلکن نیوز )بلوچ ری پبلکن پارٹی کے مرکزی ترجمان شیرمحمد بگٹی نے مستونگ میں فوجی آپریشن کے دوران بلوچ سیاسی رہنما اور بی این ایم کے مرکزی سیکٹری جنرل ڈاکٹر منان بلوچ اور ان کی چار ساتھیوں ساجد بلوچ، اشرف بلوچ ، حنیف بلوچ اور بابو نوروزبلوچ کی شہادت کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ انھوں نے کہا کہ شہید منان بلوچ اور ان کی ساتھیوں کی شہادت سے بلوچ قومی تحریک ایک نہایت قابل سیاسی رہنما سے محروم ہوچکی ہے جس سے ایک خلاء پیدا ہوگئی ہے جسے شاید کبھی پر نہ کیا جاسکے لیکن ان کی قربانی سے بلوچ قومی جدوجہد مزید مضبوط ہوگی۔ ریاست نے ہمیشہ سے کوشش کی کہ بلوچ قومی رہنماوں کو شہید کرکے بلوچ قومی تحریک کو ناکام بنائے لیکن وقت نے ہمیشہ ثابت کیا اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسے واقعات سے ناکامی کا سامنا صرف اور صرف ریاست کو ہی ہوا ہے جبکہ بلوچ تحریک ایک مضبوط اور منظم قوت بن کر ابھری ہے جس کی مثال شہید اعظم نواب اکبر خان بگٹی، شہداء مرگاپ شہید غلام محمد بلوچ، شہید شیر محمد بلوچ، شہید لالا منیر، شہید جلیل ریکی اور شہید ثناہ سنگت جیسے عظیم رہنماؤں کی شہادت کے بعد بلوچ قوم میں شعوری بیداری اور بلوچ قومی تحریک میں جوق در جوق شمولیت نے دشمن کو نفسیاتی شکست سے دوچار کیا۔ بی آر پی شہید ڈاکٹر منان بلوچ اور ان کی ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ ان کی جدوجہد اور قربانی کو بلوچ تاریخ میں سنہرے الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔ بلوچ ری پبلکن پارٹی عالمی برادری اور مہذب ممالک سے اپیل کرتی ہے کہ بلوچستان میں جاری ریاستی ظلم و بربریت کا نوٹس لیں اور پاکستان کی تمام بین الاقوامی امداد کو فوری طور پر بند کرکے اسے بین الاقوامی سطح پر بلوچ قوم کی نسل کشی پر جوابدہ کریں۔ بی آر پی بی این ایم کی جانب سے دی جانے والی ہڑتال کی کال کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتی ہے۔


منان بلوچ کی شہادت بلوچ قوم کے لیے یقینا ایک عظیم سانحہ ہے,مہران بلوچ
جینیوا(سنگر نیوز)جینیوا: اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانے حقوق میں بلوچ قومی نمائندہ مہران بلوچ نے بلوچ سیاسی رہنما ڈاکٹر منان بلوچ اور ان کے دیگر ساتھیوں کی قابض ریاستی فورسز کے ہاتھوں شہادت پر اپنے ردعمل میں کہا کہ پاکستانی فوج اور حکومت نے بلوچ قوم کو نیست و نابود کرنے، باالخصوص بلوچ سیاسی رہنماوں و کارکنوں اور دانشوروں کے قتل عام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت بلوچ قوم کے لیے یقینا ایک عظیم سانحہ ہے لیکن ڈاکٹر منان اور ان کے ساتھیوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا ان کا خون ایک آذاد بلوچ ریاست کی شکل میں ضرور رنگ لائے گاانہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج اپنے بنائے گئےدہشتگرد تنظیموں کے ذریعے اپنے ہی نام نہاد تعلیمی اداروں پر حملے کرواتا ہے تاکہ عالمی براردی کو بیوقوف بناکر ان تنظیموں کےلئے عالمی برادری سے مزیر رقم اکٹھا کرکے ان کی فنڈنگ کو جاری رکھ سکے لیکن دوسری طرف بلوچ قوم جن پر ایک جامع منصوبے کے تحت پہلے سے ہی تعلیم کے تمام دروازے بند کئے ہوئے ہیں اور جنہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بڑی مشکل حالات میں تعلیم حاصل کی انہیں ریاستی مسلح ادارے بڑی بے دردی سے قتل کررہے ہے یہ بلوچ قوم کی نسل کشی اور اکیسویں صدی کی ہولوکاسٹ ہے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور ان کے زیر سایہ چلنے والے ریاستی ڈیتھ سکواڈ کے ہاتھوں بلوچوں کا قتل ایک لمبے عرصے سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے لیکن گوادر پورٹ، راہدری منصوبے کو کامیاب بنانے اور چین کو باور کرانے کے لیے کہ سب کچھ ہمارے کنڑول میں ہے اس تسلسل میں تیزی لائی گئ جس میں لوگوں کے گھروں کو جلانا، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور جنگی جہازوں سے سول آبادیوں پر بمباری کرنا، خواتین کا اغوا اور بلوچ سیاسی کارکنوں و رہنماوں کو ہدف بنا کر قتل کرنا شامل ہے، پاکستانی خفیہ ایجنسیاں ہر اس بلوچ کو قتل یا غائب کردتیے ہیں جو اپنے ملک و قوم کے لیے درد رکھتا ہومہران بلوچ نے کہا کہ پاکستانی فوج وردی میں ملبوس ایک منظم دہشتگرد ادارہ ہے جو بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بلوچوں کے قتل عام میں ملوث ہے ہم اقوام متحدہ، بین الاقوامی براردی اور انسانی حقوق کے تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے ہاتھوں بلوچوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔


ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھیوں کی شہادت بی این ایم کے اجتجاجی شیڈول کی حمایت کرتے ہیں ،بی ایس او آزاد
کوئٹہ (سنگر نیوز)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر منان بلوچ و ساتھیوں کی ریاستی فورسز کے ہاتھوں شہادت کے خلاف بی این ایم کے احتجاجی شیڈول کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت بلوچ قومی تحریک کے لئے ایک عظیم سانحہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت سے بلوچ سیاست میں ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا جسے پورا نہیں کیا جا سکتا۔بی ایس او آزاد کے ترجمان نے کہا کہ ریاست بلوچ قومی مستقبل کو نیشنل پارٹی، سردار ثنا ء اللہ و ان جیسے دیگر گماشتوں کے ہاتھوں دینے اور اپنی لوٹ مار جاری رکھنے کی غرض سے بلوچ رہنماؤں کو چھن چھن کر شہید کررہی ہے، ڈاکٹر منان بلوچ و ساتھیوں کی شہادت بلوچ سیاسی کارکنوں کو راستے سے ہٹانے کی ریاستی پالیسیوں کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ سیاسی لیڈران کی ریاستی فورسز کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی فورسز کئی سیاسی لیڈران و کارکنان کو اغوا و ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید کر چکا ہے۔ سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ریاست بلوچ قومی مستقبل پر وار کرنے کی ناکام کو شش کررہا ہے، قابض ریاست و اس کے گماشتوں کو یہ حقیقت جلد یا بدیر تسلیم کرنا پڑے گا کہ ڈاکٹر منان بلوچ و عظیم بلوچ شہدا کی قربانیاں ریاستی عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی قتل سے قابض اپنے مزموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتا کیوں کہ عظیم بلوچ شہدا کی قربانیاں عام بلوچ کے لئے آزادی کی تحریک کو مقدس بنا چکے ہیں۔بلوچ شہدا کے لہوکا وارث ہزاروں سالوں سے اپنی زمین کی حفاظت کرنے والے بلوچ عوام ہیں ، قابض ریاست سمیت کوئی بھی طاقت بلوچ عوام سے ان کے آزادی پسندی و سرزمین سے والہانہ وابستگی کے جذبے کو ختم نہیں کر سکتی۔بی ایس او آزاد نے تمام زونوں کو تاکید کی کہ وہ 31جنوری، یکم اور دوئم فروری کو بلوچستان میں شٹر ڈاؤن و پہیہ جام ہڑتال کے بی این ایم کی کال کو کامیاب بنائیں۔


بلوچ سیاسی رہنماؤں کو شہید کر کے قومی تحریک کو کچلنے کا ریاستی خواب احمقانہ ہے ،بی آر ایس او
کوئٹہ (سنگر نیوز)بلوچ ری پبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مر کزی ترجمان حمدان بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر منان بلوچ اور انکی ساتھیوں کی شہادت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ سیاسی رہنماؤں کو شہید کر کے قومی تحریک کو کچلنے کا ریاستی خواب احمقانہ ہے ۔ہزاروں بلوچ کارکنوں اور رہنماؤں کی شہادت کے باوجود بلوچ قومی تحریک اپنی منزل کی جانب روادوں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ شہادتوں سے قومی تحاریک کا خاتمہ ممکن نہیں۔ڈاکٹر منان بلوچ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مستونگ کے دورے پر تھے جہاں ریاستی فورسز نے کلی دتوں کے مقام پر ایک گھر میں موجود بی این ایم کے رہنماء ڈاکٹر منان اور انکے ساتھیوں پر حملہ کر دیا جس سے ڈاکٹر منان ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔بی آر ایس او کے ترجمان نے شہید ڈاکٹر منان بلوچ ،اشرف بلوچ،ساجد بلوچ،بابو بلوچ اور حنیف بلوچ کو انکی عظیم قربانیوں پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہداء نے بلوچ گلزمین کی خاطر اپنی قیمتی جانیں قربان کر دیں۔حمدان بلوچ نے مزید کہا کہ ریاستی فورسز نے 27-28تاریخ کی درمیانی شب نوشکی میں بلوچ ری پبلکن پارٹی کے مر کزی رہنماء نظیر جمالدینی کو غواء کر لیا جو تاحال لاپتہ ہے۔ ترجمان نے انسانی حقوق کے بین القوامی اداروں سے پُر زور اپیل کر تے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں بلوچ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی اغواء اور شہادتوں کا فوری نوٹس لیں۔

ڈاکٹر منان بلوچ ایک عظیم جہدکار، مدبر سیاست دان، مستقل مزاج اور نہ جھکنے والے سیاسی رہنما تھے،اُستاد واحد قمبر بلوچ
کوئٹہ (سنگر نیوز)ممتاز بلوچ قوم پرست رہنما واجہ واحد قمبر بلوچ نے اپنے ایک پیغام میں بی این ایم کے رہنما ڈاکٹر منان بلوچ کے ریاستی فورسز کے ہاتھوں قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بلوچ عوام کو متحرک کرنے میں ایک اہم کردار تھے۔ ان کی شہادت بلوچ جد و جہد آزادی کیلئے ایک بہت بڑا نقصان ہے مگر یہ جد و جہد بلوچ وطن کی آزادی تک جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ ایک عظیم جہدکار، مدبر سیاست دان، مستقل مزاج اور نہ جھکنے والے سیاسی رہنما تھے۔ جنہوں نے بی این ایم کے پلیٹ فارم سے عظیم قربانیاں دی ہیں جو ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔انہیں بلوچ جہد آزادی میں بے لوث خدمات پر خراج تحسین اور ساتھی شہیدوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ ڈاکٹرمنان نے سیاسی سفر میں اپنے ذاتی مفادات، روزگار اور گھر بار چھوڑ کر بلوچ وطن کی آزادی میں ہمہ تن گوش ہوکر نوجوانوں کیلئے ایک خوبصورت مثال قائم کی ہے۔انہوں نے جس مہارت اور اپنی صلاحیتوں سے بلوچ عوام کو متحرک کرنے میں کردار ادا کیا، اس کی مثال ناپید ہے۔اس سفر میں انہوں نے بلاخوف اور بہادری سے حالات کا سامنا کیا اور کبھی خاموش نہیں رہے، یہ عظمت انہیں دوسروں سے یکتا کرتی ہے۔ بلوچ جد و جہد قربانی اور شہادتوں سے بھری ہے لیکن بلوچ قوم نے قبضہ گیر پاکستان کے سامنے سر نہیں جھکایا ہے۔ جدو جہد و قربانیوں کے تسلسل کو کو بر قرار رکھ کر ہی ہم اپنی منزل پاسکتے ہیں۔ 1948 سے لیکر آج تک ہزاروں جوان، بوڑھے، خواتین و بچے اس راہ میں شہید و بیگواہ ہوچکے ہیں مگر قابض قوتیں بلوچ تحریک کو نہیں روک سکے ہیں۔

بلوچ نیشنل موومنٹ (شہید غلام محمد)ُکے مرکزی ترجمان کے جاری کردہ بیان میں ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت پر شدید دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ شہید ڈاکٹر منان بلوچ ایک اعلی تعلیم یافتہ زہین و بہترین رہنما تھے ڈاکٹر صاحب کی جدائ بلوچ سیاسی جہدکاروں کیلئے ایک عظیم صدمے سے کم نہیں اور ڈاکٹر صاحب کی شہادت اس ریاستی جبر کا تسلسل ہے جس میں ہمارے شہید قائد واجہ غلام محمد اوردوسرے انگنت رہنماؤں اور کارکنوں کو بےدردی سے شہید کرکے قومی آزادی کی تحریک کو سنگینوں کے زور پر کاؤنٹر کرنا ہے . ترجمان نے مزید کہا کہ ریاستی ظلم و ستم اب اپنے انتہاؤں کو چھو رہی ہے .بلوچستان کے طول وعرض میں روزانہ کی بنیادو پر یورش و آپریشن بہت تیزی سے جاری ہے اور مختلف حربوں سے تمامتر انسانی حقوق کو پاؤں تلے روندھا جارہا ہے .مظلوم ومحکوم بلوچ قوم کے ان رہنماؤں کی شہادت اس نازک گھڑی میں قومی نقصان کےمترادف ہے .ہم شہید ڈاکٹر منان بلوچ اور ان کے عظیم شہید ساتھیوں کو خراج عقیدت اور سرخ سلام پیش کرتے ہیں

суббота, 30 января 2016 г.

Five including BNM SG murdered as Pakistani military offensives continue across Balochistan

about 4 hours ago

a-1
QUETTA: At least five Baloch including the Secretary General of pro-independence Baloch National Movement (BNM) were murdered during a military offensive in Mastung region of Balochistan Saturday morning.
Local sources reported that Pakistani forces attacked a house in Killi Dattu where BNM leader Dr Mannan Baloch and his companion were staying.
Two brothers Ashraf and Haneef were also killed during the unprovoked attack on their house whereas the other two victims have been named as Sajid Baloh (son of Dr Mannan Baloch) and Babu Nouroz Baloch.
Two days prior to his murder Dr Mannan Baloch had tweeted against the killing of previously abducted Baloch activists in staged encounters by Pakistani forces.
Mannan
According to BBC Urdu a spokesperson of Pakistani forces claimed to have killed the victims in an encounter with security forces but BSO-Azad’s exiled member Lateef Johar Baloch rejected the Pakistani forces claim and said that all ‘the victims were shot in their heads.’
Previously on 28 January the Pakistan forces abducted a member of Baloch Republican Party, Mr Nazeer Jamaldini from Quetta.
On 29 January Pakistani forces abducted Jalamb s/o Guharam Bugti, Dishad s/o Noor khan, Ali Murad s/o Noor khan, Samreen w/o Noor Khan, Zar khatoon w/o Ali Murad, Salma bibi d/o Ali Murad, Ayaaz Ali s/o Ali Murad, and Sadia bibi d/ o Ali Murad from Uch area of Dera Bugti.
Pakistani military, ISI and others security forces along with their hired criminal gangs and religious extremist groups have been carrying out targeted killings of pro-freedom Baloch leaders and activists since the beginning of the current phase of Baloch freedom struggle in early 2000.
One of the earliest incident of target killing occurred in January 2001 where the Pakistani forces had attacked a house in Kalat Balochistan and murdered three Baloch namely Gul Bahar Pirkani Baloch, Sobdar Marri Baloch and Wahid Bakhsh Marri Baloch.
Other prominent victims of targeted killings of Pakistani state include Nawab Akbar Bugti, Ghulam Mohammad Baloch along with Lala Munir and Sher Mohammad Baloch, professor Sabah Dashtyari, Rasool Bakhsha Mengal, head teacher Nazir Ahmad Marri, aged political leader Malik Noor Ahmad Qambarani, student leader Raza Jahangir Baloch and countless other Baloch activists including women and children.
Meanwhile the Baloch National Movement (BNM) has announced a three days’ shutter down and wheel jam strike across Balochistan and 40 days of mourning against the murder of party’s Secretary General his son and three other companions.
Baloch pro-freedom leaders and parties have long been urging the United Nations, International Human Rights Organisations and the international media to take notice of Pakistan’s war crimes and crimes against humanity in Balochistan.

четверг, 7 января 2016 г.



مقبوضہ بلوچستان : پاکستانی فورسز کے ہاتھوں سال 2015 میں 


نو ہزار سے زائد بلوچ فرزند گرفتار


بلوچستان میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت سنہ 2015 کے دوران نو ہزار سے زائد افراد 

کو گرفتار کیا گیا۔
محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 

نیشنل ایکشن پلان کے تحت مختلف علاقوں میں سنہ2015 کے دوران خفیہ معلومات کی 

بنیاد پر 1940 کاروائیاں کی گئیں

ان کاروائیوں کے دوران مجموعی طور پر نو ہزار تین سو 69 افراد کو گرفتار کیا گیا 

جوبلوچستان کی تاریخ میں ایک سال کے دوران سب سے بڑی گرفتاریاں ہیں۔
محکمہ داخلہ کے مطابق سنہ 2015 کے دوران بلوچستان میں مجموعی طور پر ٹارگٹ 

کلنگ کے 222 واقعات رونما ہوئے جن میں مجموعی طور پر 200 سے زائدافراد ہلاک اور 

304 زخمی ہوئے۔
اس کے مقابلے میں سنہ 2014 میں 281 واقعات رونما ہوئے تھے جن میں 275 افراد ہلاک 

اور 731 افراد زخمی ہوئے۔
سنہ2015 میں ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہونے والوں میں سے 60 سکیورٹی فورسز کے 

اہلکار 

تھے جن میں پولیس کے36، ایف سی کے 43 اور لیویز فورس کے تین اہلکار شامل تھے 

جبکہ مجموعی طور پر 145اہلکار زخمی ہوئے۔
سنہ 2014کے مقابلے میں سنہ 2015 میں ایف سی اور پولیس کے اہلکاروں کی ہلاکتوں 

میں اضافہ ہوا۔
آباد کاروں پر سنہ 2014 میں ہونے والے 25 حملوں کے مقابلے میں سنہ 2015میں 

13 حملے ہوئے لیکن سنہ 2014 میں ہلاک ہونے والے 30 افرادکے مقابلے میں سنہ 2015 

میں 36 افراد ہلاک ہوئے
۔
سنہ 2015 میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں دیگر لسانی اور نسلی طبقات سے تعلق 

رکھنے والے 55 افراد ہلاک اور 141 زخمی ہوئے۔ سنہ 2014 میں ایسی ہلاکتوں کی تعداد 

41 اور زخمیوں کی تعداد 294 تھی۔
سنہ 2014 میں فرقہ وارانہ واقعات میں مجموعی طور پر 91 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 

سے 80 کا تعلق شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزارہ قبیلے سے تھا جبکہ 5سنی 

علما بھی مارے گئے تھے اور26 زخمی ہوئے تھے
۔
سنہ 2015 میں فرقہ وارانہ واقعات میں مجموعی طور پر 44 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 

21 کا تعلق ہزارہ قبیلے سے تھا۔
ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ سید امتیاز شاہ کا کہنا ہے کہ جرائم اور تشدد کے واقعات میں 

کمی واقع ہوئی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ 146یہ اعداد و شمار تشدد کے واقعات اور دیگر جرائم کے دیگر واقعات 

میں 40 سے 50 فیصد کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔

145

سنہ 2015 کے دوران بم دھماکوں، راکٹ حملوں، بارودی سرنگ کے دھماکوں اور دستی 

بم حملوں کے 419 واقعات رونما ہوئے جبکہ سنہ 2014 میں اس طرح کے 452 واقعات 

رونما ہوئے تھے۔ سنہ 2015 میں کیسکو، ریلوے اور گیس کی تنصیبات پر 68 حملے ہوئے 

جبکہ سنہ 2014 میں115 حملے ہوئے تھے۔
سنہ 2015 کے دوران بھی تشدد زدہ لاشوں کی برآمد گی کا سلسلہ جاری رہا۔ محکمہ 

داخلہ حکومت بلوچستان کے مطابق مجموعی طور پر129افراد کی تشدد زدہ لاشیں 

برآمد 

ہوئیں جن میں 40 بلوچوں،21 پشتونوں اور 12 دیگر لسانی طبقات سے تعلق رکھنے والے 

افراد کی تھیں جبکہ 56 ناقابل شناخت تھیں۔
محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے برعکسں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم 

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کا دعویٰ ہے کہ سنہ 2015 کے 

دوران صرف بلوچوں کی 157تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔
اگرچہ حکام کا یہ کہنا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری 

آئی ہے لیکن اس مد میں اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے
 ۔
جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مالی سال 2014کے بجٹ میں امن و امان 

کی مد میں 21ارب 56کروڑ روپے کے مقابلے میں رواں مالی سال کے لیے26ارب 95کروڑ 

ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو پانچ ارب روپے کے اضافے کو ظاہر کرتاہے۔