Powered By Blogger

понедельник, 31 декабря 2018 г.


انتہائی غور طلب،تحریر: 
تحریر شہید سردرو بلوچ

بلوچ جہد آزادی کا مشعل تمام تر مشکلات و کمزوریوں کے باوجود اگر آج تک روشن ہے تو اس کی روشنائی ان دلیر اور مخلص بلوچوں کی قربانیوں کی بدولت ہے جنہوں نے اپنے لہو کو قوم و سرزمین کی آزادی کےلئے پانی کی طرح بہایا۔
جہاں اس سرزمین کے آزادی کے لیئے ہر شہید کی قربانی کے پیچھے ان کے قیمتی کارناموں اور انمول کردار کی ایک اعظیم تاریخ ہے تو وہاں ایسے خاندانوں کی بھی کوئی کمی نہیں جنہوں نے ایک کے بعد ایک اپنے جگر گوشے تحریک پر قربان کئے اور اف تک نہیں کی محمد خان لانگو جس نے مجید اول کے بعد شھید امیر بخش و مجید ثانی کو قربانیوں کا مثال بنایا حاجی رمضان زہری نے جواں سال مجید کے زندگی کے بدلے اپنے اور حئی عرف نثار کی موت کو قبول کرکے تحریک پر اپنی دنیا اور خاندان وار دی اسطرح شھید رفیق شہسوار کے خاندان نے ایک کے بعد ایک قیمتی جوانیاں تحریک پر قربان کرکے یہ پیغام دیا کہ آزادی سے بڑھکر کچھ بھی نہیں واجہ اختر ندیم کا خاندان ہو یا واجہ ڈاکٹر اللہ نذر کا ہر ایک نے وقت آنے پر ثابت کردیا کہ یہ لہو اور سانسیں یہ خوبصورت جوانیاں یہ بز و بالا بالاد وطن اور قوم کی امانت ہیں دشمن کے سامنے لہو بہہ سکتا ہے مگر بک نہیں سکتا آنکھیں نکل سکتی ہیں مگر جھک نہیں سکتے یہ گرم سانسیں اور جسم سر مٹی پر گر کر مٹی میں مل سکتا ہے مگر دشمن کے قدموں پر گرنا ممکن نہیں ۔ بلوچوں کے ایسے خاندانوں کے بیچ ایک ایسا خاندان بھی ہے جس سے شاید قوم کی اکثریت واقف نہیں جو دشمن کے ناروا بربریت کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا اور اپنے گھر کے چراغ ایک ایک کرکے طوفان کے نذر کرکے تحریک کے راہ کو روشن رکھا ایک کے بعد ایک فرزند قربان کرتے ہوئے انکے قدم کبھی بھی نہیں لڑکھڑائے دس نوجوانوں کو قربان کرنے کے بعد بھی انکار عزم و ہمت حوصلہ دیدنی ہے ۔
اس گم نام خاندان کی قربانیوں کی داستان اتنی اعظیم ہے کہ جسے الفاظ میں بیان کرنا کم از کم میرے لیے مشکل ہے میں ایک سرسری سا تعارف پڑھنے والوں کےلئے پیش کررہا ہوں تاکہ وہ جان سکیں کہ وطن کے محافظ اور سچے فرزند تاریخ عالم میں دیگر اقوام کے سامنے قومی ناموس و غیرت کو لیکر زندہ و تابندہ ہیں یہ جو بزدلوں اور قوم فروشوں کی تشہیر دشمن جس انداز میں کررہی ہے ان سب وطن فروشوں اور غداروں کے سامنے ایسے ایک خاندان کی عظمت اتنی عظیم جیسے کوہ چلتن کے بلندی و عظمت کے سامنے ایک خنزیر کی اوقات ۔
یہ خاندان مری قبیلے کے شیرانی شاخ سے تعلق رکھتا ہے اور انکے سربراہ کا نام ہے احمد خان ۔اس خاندان کا شمار انگیزی یلغار میں کمبد کی جنگ سے لیکر پاکستان کے پنجابی فوجی قبضہ گریت کے خلاف ہونے والی ہرجنگ میں ہوتا رہا ہے اور ہر جنگ میں انہوں نے اپنا قومی فریضہ نبھایا ہے شہید احمد خان نے خود بھٹو کے دور حکومت میں پنجابی فوجی جارحیت کے خلاف مزاحمتی جنگ میں حصہ لیا اور اسکا خاندان فوجی بربریت کا شکار رہا اور بحالت مجبوری انکو افغانستان ہجرت کرنا پڑا اور نواب خیربخش مری بابو جنرل شیرومری اور ہزار خان بجارانی کی قیادت میں کئی سال جلا وطنی میں گذارے وطن واپسی پر بیروزگاری اور تنگ دستی کے وجہ سے لسبیلہ اوتھل اور وندر کا رخ کیا لیکن جب دوبارہ سے تحریک نے نواب خیربخش مری اور واجہ حیربیارمری کی قیادت میں سراٹھایا اور تاریخ اپنے آپ کو دوہرانے لگا تو شہید احمدخان اپنے جوانسال بیٹوں اور خاندان کے ساتھ اپنے ابا و اجداد کی تاریخی کردار کی پاسداری کرتے ہوئے اس تسلسل کو پھر سے جاری و ساری رکھنے کےلئے پوری خاندان سمیت وطن کی پاسبانی کے لئے حاضر ہوا ۔اس کے تمام بیٹے اور بھتیجے کوہ ہستان مری کے ہر مختلف گوریلا کیمپوں میں اپنا فریضہ نبھاتے رہے گھر میں موجود عورتیں بچے بوڑھے حب چوکی وندر اور لسبیلہ میں دوسروں کی زمینوں پر مزدوری کرکے گذر بسرکرتے رہے اس خاندان کے نوجوانوں نے ان علاقوں میں بھی کہیں شہری حملے کر کے دشمن کے مفادات پر ضرب لگاتے رہے۔
2010 کا سال تھا جب پاکستانی خفیہ اداروں نے اپنے زرخرید مخبروں کے ذریعے ان کا سراخ لگایا اور شہید احمد خان کے بیٹے صحبت خان اور ان کے بھتیجے عرضی خان کو حب چوکی کے بازار سے اغواء کیا اور تقریبا 3 مہینے بعد صحبت خان کو شہید کر کے اس کی لاش شہید شادی خان مری کی لاش کے ساتھ کوئٹہ سے کچھ ہی فاصلے پر ڈگاری کراس پر پھینک دیا اور اس کے ایک مہینے بعد 2010 کے آخری مہینوں میں شہید عرضی خان کی لاش اوتھل سے ملی۔
مگر اس خاندان کو چونکہ اس قربانیوں کی اہمیت کا اندازہ بخوبی تھا اس سے ان کے حوصلے پست ہونے کے بجائے اور بڑھ گئے اور انھوں نے اپنے اس قومی فرض کو ایمانداری سے نبانے کی ٹھان لی۔اور کوہستان مری کے کیمپوں اور حب چوکی میں ان کے نوجوانوں نے سرکار پر کئے کامیاب حملے کیئے۔
چونکہ اندر کے بد خواہ اور قریبی مخبروں کے نگاہیں اس خاندان کا پیچھا کررہے تھے اسلئے ان لوگوں نے لسبیلہ سے اندرون سندھ ہجرت کا سوچا اور رات کے اندھیرے میں م حب چوکی سے سندھ کی طرف نکل گئے مگر بدقسمتی سے گھر کا بیدی لنکا ڈھائے نوری آباد کے قریب دشمن نے مزدہ ٹرک والوں کی بھیس میں انکو آگھیرا 2011 کے شروعات میں خفیہ اداروں نے اس ہجرت کے دوران شہید احمد خان ان کے 3 بیٹے اور 4 بھتیجوں کو اغواء کیا یعنی شہید احمد خان سمیت 8 فرزند خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء ہوئے اور ایک مہینے بعد شہید احمد خان کی مسخ شدہ لاش شہید طارق کی لاش سمیت اوتھل میں پھینکا جب یہ لاشیں کراچی پہنچائے گئے تو پتہ چلا کہ لاشوں پر تیزاب بھی پھینکا گیا ہےاور ایک مہینے بعد شہید وزیر خان جو شہید احمد خان کا بھتیجا تھا اس کی لاش ایک اور شہید نصیب اللہ مری کی لاش سمیت لورالائی سے ملی اور لاشوں کی حالت ناقابل شناخت تھی اور چونکہ ان کے بھائی اس وقت تک خفیہ اداروں کی تحویل میں تھے انھوں نے یہ انکشاف کیا کہ ایک رات قبل شہید وزیر خان اور پہلے سے تحویل میں لیئے ہوئے شہید نصیب اللہ کو خفیہ اداروں کے اہلکار ہمارے پاس سے لے گئے اسی شہادت کی بنیاد پر ان کے خاندان والوں نے لورالائی سے ملنے والی لاش کو شہید وزیر کی لاش تصور کر لیا اور کویٹہ میں شہید احمد خان کے قبر کے ساتھ ہی شہید وزیر خان کو دفنایا گیا۔
اور تقریبا 1 مہینے بعد شہید احمد خان کے بیٹے شہید شربت خان اور بھتیجے شہید زمان خان کی لاش اوتھل سے ملی اور قابل شناخت تھی انھیں بھی کوئٹہ میں شہدا قبرستان میں دفنایا گیا۔
اور شہید احمد خان سمیت آٹھ فرزندوں میں سے 4 کو شہید کیا گیا اور ان کے دو بیٹے رحمدل اور رسول بخش اور دو بھتیجوں کو چھوڑ دیا گیا۔
ان لاشوں کی بھرمار نے اس خاندان کے نوجوانوں کو تحریک آزادی سے دور کرنے کے بجائے اور زیادہ حوصلہ بخشا اور انھوں نے اپنے نوجوانوں کو کیمپوں اور شہروں میں کاروائیوں کے لئے پہلے سے زیادہ جذبہ سے سرشار بھیجتے رہے۔
2015 میں شہید احمد خان کے دو بھتیجے شہید صورت خان عرف منشی کو اس کے بھائی سمیت حب چوکی سے اغواء کیا 9 مہینے بعد 2016 میں شہید صورت خان عرف منشی جو کہ حب چوکی میں گروپ کمانڈ کر رہا تھا کی لاش کراچی سے ملی اور اسے حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے وہیں کراچی میں دفنایا گیا۔
یہ سلسلہ یہی نہیں رکھا اور اس خاندان کے نوجوانوں نے قربانیوں کی چونکہ تاریخ رقم کرنے کی ٹھان لی تھی۔2016 کے نومبر کے مہینے میں ایک کاروائی کے بعد شہید احمد خان کے بیٹے جس کو پہلے بھی خفیہ اداروں نے اغواء کے بعد چھوڑ دیا تھا اپنے دو چچازاد کے ساتھ حب چوکی کے پہاڑی سلسلے کی طرف جا رہے تھے راستے میں پہلے سے گھات لگائے دشمن نے ان پر حملہ کردیا گرفتاری کی کوشش کی لیکن مزاحمت جنکے خون میں شامل ہو وہ کیا سر جھکائنگے دو بدو شدید جھڑپ کے بعد تینوں فرزند شہید ہو گئے اور دشمن کو بھی شدید نقصان سے دوچار کیا اور اسی حواس باختگی میں قبضہ گیر فوج نے شہید احمد خان کے جوان سال بیٹے شہید رسول بخش اور دو بھتیجے شہید رزاق اور شہید زبیر خان کی لاشوں کو دینے سے انکار کر دیا اور یہ شرط رکھا کہ لاشیں اس وقت ملیں گی جب اس خاندان کے باقی ماندہ لوگ سرینڈر کرینگے۔۔
لیکن پڑھنے والوں کو یہ بتاتے ہوئے مجھے فخر محسوس ہورہا ہے کہ ان حیرت انگیز قربانیوں کی داستان مجھے قلم بند کرانے والا شھید احمد خان کے جوان سال بیٹے ہیں جنکے پشت پر یتیموں اور بیواہوں کی ایک فوج ہے مگر انکے جذبے اور حوصلے دیکر چلتن اور زرغون شرما جاتے ہیں
اس جواں سال سربراہ کےحوصلوں اور جذبہ حب الوطنی کا اندازہ اس بات سے لگائیں تو اس نوجوان کا جواب تھا “ان شہیدوں نے اپنی زندگی میں ایسا نہیں کیا تو میں کون ہوتا ہوں ان کی شہادت کو ضائع کرنے والا اگر میں ان کا حقیقی سپوت ہوں تو میں اور میرا باقی ماندہ خاندان بھی اسی سلسلے کو برقرار رکھیں گے”۔

شہید بابر مجید ایک گوہر نایاب – لطیف بلوچ 

سنگت شہید بابر مجید عرف فرید بلوچ نے جب ہوش سنبھالا ہوگا تو وہ گھر میں اپنے شہید بابا شہید مجید بزنجو بلوچ کے داستان سُنتا ہوگا، اُن کے والد کو جب شہید کیا گیا، اس وقت شہید بابر ماں کی کوکھ ماں تھے، جب جوانی کے دہلیز پر قدم رکھا تو اپنے بھائی ذاکر مجید بلوچ کے جبری اغوا اور ریاستی عقوبت خانوں میں ظلم و جبر اور تشدد کے دردناک قصوں اور وطن کو غلامی کے زنجیروں میں جکڑا دیکھا اور ظلم سے کراہتے ماں و بہنوں کی درد و کرب کو محسوس کیا، بلوچستان کے طول و عرض میں جاری ظلم و بربریت، ریاستی وحشت، نسل کشی، نوجوانوں اور بلوچ دانشوروں، ٹیچروں اور کارکنوں کی گمشدگی و قتل عام، لوٹ مار، قبضہ گیریت نے بابر بلوچ جیسے نوجوانوں کو بندوق اُٹھانے اور قومی بقاء کے لئے لڑنے و مرنے کے لئے مجبور کیا، اس نے مادر وطن کی پکار پر قومی غلامی، جبر اور قبضہ گیریت کے خلاف کمربستہ ہوکر رخت سفر باندھ کر پہاڑوں کا رخ کیا، شہید بابر مجید انتہائی کم عمری میں گھر و بار اور ماں کی محبت سے محروم ہوکر مادر وطن کی محبت میں باغی بنا، زندگی کی عش و عشرت، بہاروں، ماں کی محبت اور پیار کو وطن پر قربان کردیا تھا۔
ایسے عظیم سپوتوں پر دھرتی ماں فخر کرتی ہوگی، سنگت فدائی شہید بابر بلوچ آزادی کی گوہر نایاب کی تلاش میں سمندر میں اُترا تھا، اُن کو یہ معلوم تھا کہ سمندر میں منجدھار ہوتے ہیں لیکن وہ بیچ منجدھار پھنسنے کے بجائے ساحل کے جستجو میں تھا، اس نے بلوچ قوم کو بیچ منجدھار چھوڑنے کے بجائے ظلم و جبر کے بھنور سے نکالنے کے لئے جان کی بازی لگادی، سنگت بابر ایک فدائی تھا جس نے جنرل پر اپنی جان کو فدا کرکے اپنا فرض نبھایا اور ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا، وہ گوہر نایاب تھا اور ملنے کے لئے نایاب ہوگیا۔
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم ۔
تاریخ عالم کو اُٹھا کر دیکھا جائے، مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بہادر سپوتوں نے اپنے وطن، قوم اور شناخت کو بچانے کے لئے بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرائے ہیں اور اُن کا غرور و گھمنڈ کو پاش پاش کیا ہے، نوآبادیاتی قوتوں نے ہمیشہ مظلوم اقوام کے سرزمینوں پر قابض ہوکر مقامی باشندوں کو طاقت اور جبر کے ذریعے اپنی نوآبادیات میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن مقامی باشندے نوآبادکاری، ظلم و قبضہ گیریت کے خلاف اپنے خون کا نذرانہ دے کر اپنے مستقبل کو غلامی کی گھپ اندھیروں میں گرنے سے بچایا ہے، بلکہ اپنی شناخت اور تشخص کو بچایا ہے، قبضہ گیر ہمیشہ نوآبادیاتی جبر کے ذریعے مقامی باشندوں کو خاموش کرنے کے لئے تشدد کا سہارا لیتا ہے، قبضے کے فورا بعد وہ اُس خطے، سرزمین اور قوم کی تاریخ، تہذیب، شناخت، تشخص، زبان، ثقافت کو مٹانے کی سازشیں شروع کرتا ہے اور ایک جھوٹی تاریخ، درآمدی تہذیب، زبان اور ثقافت کو لوگوں پر مسلط کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے لیکن قبضہ گیر کے سامنے وطن کے بہادر سپوت کھڑے ہوکر اُس کے ظلم و جبر کے رسم و رواج کو منانے سے انکار کرکے بغاوت کرتے ہیں۔
انگریز سامراج نے جب بلوچستان میں اپنے قدموں کو جمانے کے لئے پیش قدمی کی تو خان محراب خان اُنکے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوئے اور مزاحمت کا آغاز کیا اور اُنہوں نے مزاحمت کی بنیاد رکھ کر بلوچوں کو درآمدی قبضہ گیروں کے خلاف لڑنے کا درس دیا اور یہ سلسلہ سینہ بہ سینہ بلوچوں میں منتقل ہوتی رہی۔ جب بھی کسی اغیار نے قبضے کی نیت سے بلوچستان کا رخ کیا ہے، بولان مزاحمت کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا ہے اور اپنے فرزندوں کو پناہ دی ہے، جھالاوان، ساراوان، مکران سمیت بلوچستان کے تمام سپوتوں کو بولان نے سینہ پھیلا کر تحفظ اور پناہ دی ہے۔ اپنے فرزندوں کو ماں بن کر پیار و محبت اور باپ بن کر سایہ اور شفقت عطا کیا ہے، اس کے علاوہ سنگلاخ پہاڑ ہمیشہ مضبوط قلعہ بنکر اپنے آغوش میں وطن کے جانبازوں کو پناہ دئیے ہوئے ہیں۔
شہید بابر بلوچ بھی دیگر وطن زادوں کے طرح پہاڑوں کے آغوش میں پناہ گزین تھا اور پہاڑوں کے آغوش میں آسودہ خاک ہوا۔ ایسے بہادر فرزندوں کو وطن اپنی آغوش میں لے کر فخر محسوس کرتی ہوگی۔
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہئے اے ارض وطن؟
جو تیرے عارض بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہوگا؟
کتنے آنسو، تیرے صحراؤں کو گلزار کریں؟

воскресенье, 30 декабря 2018 г.

 بلوچستان اس گھمبیر صورتحال کا اسٹراٹیجک مرکز ہے - کرنل لارنس سیلن



انٹرویو: سنگر میڈیا گروپ
ترجمہ: لطیف بلیدی


لارنس سیلن ایک ریٹائرڈ امریکی کرنل ہیں جو افغانستان، عراق اور ویسٹ افریقہ کے مشن کے آزمودہ کار سپاہی رہے ہیں۔ وہ کردش اور عربی زبانوں کے بھی ماہر ہیں۔ پاک افغان خطے میں ان کی گہری دلچسپی ہے اور پاکستان اور چین کے حوالے سے امریکی پالیسی کے سخت ناقد بھی ہیں۔

سنگر میڈیا گروپ نے امریکی فوج کے ریٹائرڈ کرنل لارنس سیلن کاانٹرویو لیا ہے۔ اس کے انٹرویو کی خاطر اپنا وقت نکالنے کے لئے ہم جناب سیلن کے شکر گزار ہیں۔

سوال: امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کا آغاز کیا ہے۔ امریکی فوج نے پاکستان اور افغانستان کے علاقے میں تقریبا دو دہائیاں گزار کر کیا حاصل کیا ہے؟

جواب: طالبان کو اقتدار سے محروم کرنے کی ابتدائی کامیابی، ملک کی دوبارہ تعمیر و ترقی اور جمہوری اداروں کو قائم کرنے کی کوششوں کے بعد، افغانستان امریکہ کے لئے ایک اہم اسٹراٹیجک شکست بننے کے دہانے پر ہے۔ ہم اس جنگ کو حقیقی دشمن، یعنی پاکستان، تک لے جانے کے کبھی بھی خواہاں نہیں رہے، جس کے بغیر طالبان اور القاعدہ نہ دوبارہ منظم ہو سکتے تھے اور نہ ہی ان کی قیادت زندہ بچ سکتی تھی۔


 
سوال: افغانستان میں اسلامی انتہاپسندوں کی پیش قدمی کو ملنے والی عارضی ناکامیوں کے باوجود پاکستان میں اسلامی انتہا پسندی کا ایک دھماکہ ہوا جس کی معاونت میں جزوی طور پر امریکی ٹیکس دہندگان کا بھی حصہ ہے جنہوں نے بڑی فراخدلی کیساتھ راولپنڈی کی فنڈنگ کی۔ امریکہ کی عجلت میں افپاک (افغانستان/ پاکستان) سے دستبردار ہونے کے کیا بین الاقوامی نتائج نکلیں گے؟

جواب : مجھے تھوڑا شبہ ہے کہ پاکستان نے طالبان کی افغانستان میں حملوں کو تیز کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے تاکہ وہ کابل حکومت پر دباؤ بڑھا سکیں کہ وہ متبادل اقدامات کریں اور مغربی افواج کی واپسی کو تیز کرنے میں مددگار ہوں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں موجود 14,000 امریکی فوجیوں کی تعداد میں نصف حد تک کمی کرنے کے اعلان کے بعد سفارتی سرگرمیوں میں ہلچل سی مچ گئی ہے، جس میں سامنے پاکستان ہے، روس اور ایران بھی ملے ہوئے ہیں، لیکن اس کی باگ ڈور چین سنبھالے ہوئے ہے۔ ان کا فوری مقصد امریکی اور نیٹو افواج کی افغانستان سے واپسی ہے جس کے بعد جنوبی ایشیا میں انتہائی تیزی سے امریکہ کے اثر و رسوخ میں کمی آئے گی۔ 

جلدبازی میں کیے جانے والے امریکی انخلاء سے پاکستان کے علاقوں میں پناہ لیے ہوئے طالبان کا افغانستان میں سیلاب آجائے گا۔ کابل میں موجودہ حکومت چند مہینوں کے اندر گر جائے گی، اگر اس سے پہلے نہ گرسکی۔ جب تک کہ اس کو روکنے کے لئے فوری اقدامات نہیں کیے جاتے، اس کے نتیجے میں کسی نہ کسی طرح کی خونریز خانہ جنگی شروع ہو جائے گی، اور اس کے بعد انہی علاقائی طاقتوں کی جانب سے ایک بین الاقوامی مداخلت ہوگی جنہوں نے افغانستان سے امریکی افواج کو ہٹانے میں مدد دی تھی، اور ایک بار پھر، چین اور پاکستان کی قیادت میں۔ ابتدائی طور پر غالباً ایک اتحادی حکومت قائم کی جائے جو چین اور پاکستان کے ماتحت ہو۔ آخر میں چین کے اصرار پر طالبان پر قابو پائیں گے، چونکہ چین خود اپنے ملک میں پھیلتے ہوئے اسلامی عسکریت پسندی سے بھی خوفزدہ ہے۔ اور یہ چین کی طرف سے افغانستان کو چین پاکستان اقتصادی کوریڈور اور بیجنگ کی قیادت میں قائم دیگر سفارتی اور عسکری اداروں کے منصوبوں میں شامل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ خطے میں موجود قومی، نسلی اور مذہبی تنازعات کے باعث جنگ و جدل میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ ان سب عوامل کے کسی بھی ممکنہ نتائج پر اہم اثرات پڑیں گے۔

سوال: امریکہ نے امداد تو بند کر دی ہے، لیکن امریکہ کے قریب ترین علاقائی اتحادی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کی مالی معاونت کر رہے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کے پاس پاکستان پر اثرانداز ہونے کیلئے اب کچھ نہیں بچا ہے؟

جواب: پاکستان چین کا اتحادی ہے اور وہ کبھی بھی امریکہ کا دوست نہیں رہا ہے، بلکہ امریکہ اس کے لئے محض مالی معاونت کا ایک مفید ذریعہ رہا ہے، جس سے امریکہ کو صرف ایک معمولی اثر و رسوخ ہی حاصل ہوا ہے۔ امریکی مالی امداد کا بند ہونا پاکستان کا افغانستان کے خلاف اپنی پراکسی جنگ میں طالبان کی حمایت ختم کرنے کیلئے کبھی بھی کافی نہیں ہو سکتا تھا۔
حال ہی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اربوں ڈالر دے کر پاکستان کی معیشت کو تباہی سے بچایا۔ سعودی اور اماراتی اپنی اس سرمایہ کاری کو پاکستان کے لئے ایک انعام کے طور پر دیکھتے ہیں کہ انہوں نے طالبان کو مذاکرات کی میز پرلایا اور وہ اسے ایران مخالف رہنے کی ضمانت کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ انہیں دونوں حوالوں سے مایوسی کا سامنا ہوگا۔ 

سوال: اسی طرح سے، ہوسکتا ہے امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد کم کردی ہے، لیکن پاکستان اب چین پر بھروسہ رکھتا ہے اور ممکنہ طور پر روس پر بھی۔ امریکہ پاکستان سے کس طرح نمٹے گا جبکہ اس کے دوست اور دشمن یکساں طور پر پاکستان کے ساتھ مل رہے ہوں؟

جواب: امریکی گاجر نے پاکستان پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ اب پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے امریکہ کے پاس صرف اور صرف ڈنڈے رہ گئے ہیں۔ پاکستان کی سب سے اہم دکھتی رگیں اس کی معیشت اور نسلی علیحدگی پسندی ہیں۔

سوال: افغانستان کو مستحکم کرنے کے لئے بلوچستان انتہائی اہم ہے۔ لیکن افپاک اب مزید امریکی ترجیح نہیں رہا۔ اگر کوئی ہوں بھی تو وہ کونسے مفادات ہیں، امریکہ کے بلوچستان میں؟

جواب: چین پاکستان اقتصادی کوریڈور کی وجہ سے بلوچستان اسٹراٹیجک اہمیت کا حامل ہے، جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے لئے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ چینی فوجی تنصیبات، خاص طور پر بلوچستان کے ساحل پر بحری اڈوں کی بحیرہء عرب کی اہم سمندری گزرگاہوں اور خلیج فارس تک رسائی حاصل کرنے کے لئے چین کی منصوبہ بندی میں کلیدی اہمیت ہے۔ یہ بحیرہء جنوبی چین اور جبوتی میں قائم فوجی بیس، جو کہ بحر احمر کے دہانے اور سویز کینال کے داخلی راستے کے قریب واقع ہے، کو چینی فوجی اڈوں سے مربوط کرکے چینی عسکری طاقت سے منسلک کرنے والی لنک ہے۔ یہ سب کچھ جنوبی ایشیا پر چینی تسلط قائم کرنے اور بھارت کو الگ تھلگ کرنے کے لئے اہم ہیں۔

سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ آزاد بلوچستان کا خواب امریکی زیر قیادت ورلڈ آرڈر کے حوالے سے مطابقت رکھتا ہے؟

جواب: بالکل رکھتا ہے۔ ایک آزاد اور سیکولر بلوچستان افغانستان کو چین اور پاکستان کی کٹھ پتلی ریاست بننے سے روک سکتا ہے، جنوبی ایشیا میں چینی تسلط کو روکنے کے لئے مددگار ہوسکتا ہے، دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والی ایرانی حکومت کو کمزور کر سکتا ہے اور انتہا پسند اسلام کے دل پر وار کر سکتا ہے۔

سوال: بلوچ سماج میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کا فروغ امریکہ کی زیر نگرانی ہوا۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ابھی حال ہی میں اپنے پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ بہت قریب رہ کر کام کیا ہے۔ تو کیا یہ فرض کرنا محتاط ہے کہ وہ اس بات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں کہ پاکستان بلوچ قوم پرستوں کو حراست میں لینے، ان پر تشدد کرنے اور بلوچ عوام کو دبانے کے لئے اسلامی انتہا پسندوں، منشیات اور اپنی فوج کا استعمال کرتی آئی ہے۔ کیا امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں پر بلوچ عوام کی ریاستی سرپرستی میں نسل کشی کو روکنے کے لئے کوئی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

جواب: بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دردناک ہیں، خواہ یہ کتنی ہی اہم کیوں نہ ہوں، جو کہ یہ ہیں، مگر بنیادی طور پر قوموں کیلئے محرک اخلاقی ذمہ داریوں کے بجائے ان کے اسٹراٹیجک مفادات ہوتے ہیں۔ پاکستان ایک مصنوعی ریاست ہے جسے برطانوی بھارت کی تقسیم کے بعد مختلف نسلی ثقافتوں کے خطوں کو ایک ساتھ ملا کر بنایا گیا جنہوں نے کبھی بھی ایک دوسرے سے کوئی میل ملاپ نہیں رکھا۔ پاکستان جنوبی ایشیا کا یوگوسلاویا ہے۔ اس کا وجود نسلی خود مختاری اور قومی حق خود ارادیت کو کچلنے پر منحصر ہے۔ گوکہ یہ پالیسی غیر مستحکم اور خودشکستگی کا باعث ہے۔

سوال: بلوچوں کی حمایت کرنے کا مطلب پاکستان کی کھل کر مخالفت کرنا ہے، جو کہ ایک بدمعاش ایٹمی طاقت ہے اور اسی طرح سے اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک بدمعاش مستقل رکن بھی ہے، اور اسکی مہربانیوں سے بھی بہرہ مند ہے۔ کیا امریکہ اپنی نصف صدی پرانی پالیسی کو تبدیل کرسکتا ہے؟ کیا امریکہ بلوچوں کی حمایت کر کے چین کے خلاف جاری سرد جنگ میں ایک نیا محاذ کھول سکتا ہے؟

جواب: واحد مسئلہ چینی تسلط کی مخالفت نہیں ہے، جس کا امریکہ کو جنوبی ایشیا میں سامنا ہے۔ بلکہ وہاں ایران ہے، افغانستان کا مستقبل ہے، پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہے، بھارت کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش ہے، ان سب معاملات میں بلوچ اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔

سوال: کسی ایسے شخص کے طور پر جنہوں نے طویل عرصے سے مختلف تنازعات کو دیکھا ہے، بشمول افغانستان کے، جہاں پاکستان ملوث ہے، بلوچ کی پاکستان سے آزادی کی جدوجہد کے لئے آپ کیا مشورہ دیں گے؟

جواب: آزادی کی جدوجہد کوئی چھوٹی سی دوڑ نہیں بلکہ ایک میراتھن ہے۔ بلوچ کو اپنی نسلی شناخت، اپنی زبان اور ثقافت کو برقرار رکھنے اور جب کبھی بھی ممکن ہو ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کی آزادی کے معاملے کو اجاگر کرنے کیلئے اس کی اسٹراٹیجک اہمیت پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔ انسانی حقوق بھی اہم ہیں، لیکن دنیا ’’شفقت کی تھکاوٹ‘‘ میں مبتلا ہے چونکہ اس وقت دنیا کے بہت سے مقامات پر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات نے اسے دھندلا دیا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ حقیقت ہے۔

سوال: امریکی انخلاء کے فوراً بعد ہی پاکستان کی افغانستان پر حملے کرنے کی حواصلہ افزائی ہوگی۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ بلوچ محاذ پرموجود عدم استحکام امریکہ کو ایک بار پھر خطے میں لے آئے گی؟

جواب: میرے خیال میں بلوچستان اس گھمبیر صورتحال کا اسٹراٹیجک مرکز ہے۔ عدم استحکام بھی کافی حد تک توجہ دلاسکتی ہے، جسے امریکہ نظر انداز نہیں کرسکتا اور اسے نہیں کرنا چاہئے

استاد اسلم یا جنرل اسلم؟ – برزکوہی

ویسے تو آجکل لفظ استاد ایک عموعی لفظ بن چکا ہے، مگر باریک بینی اور گہرائی سے لفظ استاد کو جھنجھوڑ کر دیکھا جائے اور سمجھا جائے تو استاد لفظ کا حقیقی معنی و تشریح اور معیار ایک عام لفظ نہیں بلکہ ایک عظیم اور مقدس لفظ ہے۔ ایک استاد خود میں کئی لیڈر، سکالر، مفکر، دانشور، فلاسفر، کمانڈر، انقلابی انسان اور جنرل جنم دیتا ہے بشرطیکہ استاد خود میں ایک حقیقی استاد ہو، صرف نام کی حد تک اور لوگوں کی آراء کی حد تک نہیں ہو بلکہ مکمل معیار و مقام کی حد تک ہو۔ جس طرح سورج کی روشنی سے انکار نہیں ہوسکتا، اسی طرح اسلم بلوچ کے استاد ہونے سے بھی انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ ایک استاد تھا، لیڈر تھا، سیاسی مفکر تھا، سب سے بڑھ کر ایک دانشور تھا بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں وہ ایک ہمہ جہت شخصیت اور کردار کا مالک تھا۔
ان سب کے باوجود میں اسلم بلوچ پر ضرور ایک تنقید کرتا ہوں، یہ تنقید میں اس کی زندگی میں کرتا تھا، آج اس کے جانے کے بعد بھی کرتا ہوں اور آئندہ بھی جرت کا مظاہرہ کرکے کرتا رہوں گا۔
ضرور نا صرف میں خود بلکہ آپ بھی سوچیں گے کہ میری اوقات اور حثیت کیا ہے کہ میں آکر اسلم جیسے انسان پر تنقید کروں؟ میرا جواب صرف یہ ہے کہ اسلم کی تعلیمات، تربیت اور تجربات کے ساتھ میرے اپنا تجربہ میرے ساتھ ہیں تو میرے تعلیمات، تجربات اور تربیت اسلم کی وجہ سے دگنا ہوگئے، اس لیئے میں تنقید کا جرت کرسکتا ہوں۔
میرا تنقید اسلم پر ہمیشہ یہ تھا کہ اسلم آپ حد سے زیادہ بہادر ہو یعنی بہادری کی انتہاء پرہو، آپ اپنی بہادری کی وجہ سے شاید ہم سے جلد جسمانی حوالے جدا ہوجاؤگے، آپ کو ابھی جدا نہیں ہونا ہے۔ آپ کی ضرورت ہے قوم کو، نوجوانوں کو، تحریک اور دیگر مظلوم و محکوم قوموں کو۔ آپ نے بلوچ قوم، سندھی قوم، پشتون قوم اور خاص کر جہدکاروں سمیت معصوم بچوں کو جس طرح اور جس حد تک ایک مہربان اور شفیق باپ اور بھائی کی طرح مہر و محبت اور رہنمائی بشخا ہے، وہ آپکے یوں چلے جانے سے یتیم سا محسوس کریں گے۔ گوکہ آپ کا فکر و عمل، کردار، سوچ اور تعلیمات تا قیامت زندہ ہونگے جو قوم اور تحریک کے لیئے مشعل راہ ہے لیکن پھر بھی آپ کی ضرورت غلامی سے لیکر آزادی تک ہوگی۔
باوجود اسکے آپ اسلم کو لاپرواہ نہیں کہہ سکتے، اسلم کی بہادری، نڈرپن، خواری و تکالیف سے نا ڈرنا، ہمیشہ روایتی حدوں کوتوڑ کر نئی روایتیں بنانا ہی اسلم کو اسلم بناتے تھے، اسے ممتاز کرتے تھے۔ انہوں نے تحریک میں روزِ اول سے لیکر اپنی شہادت تک دبک کر بیٹھنے اور دشمن سے “دوستانہ جنگ” کے فلسفے کو رد کردیا، پہاڑوں میں دشمن پر دور سے چار گولیاں چلانے کا قائل نہیں تھا، اس لیئے دشمن کے مورچوں میں گھس کر مارنے کی روایات قائم کی اور سب سے آگے وہ خود ہوتا، اس پر تنقید ہوتی لیکن وہی وہ شخص تھا جو پھر خود کو ثابت کرکے دشمن کا اسلحہ اور جنگی قیدیاں اٹھا کر لے آتا۔
اسلم نے جنگ کے نبض پر ہاتھ رکھ کر اسکی طبیعت، تقاضات اور رفتار کو پہچان لیا تھا اور اسی رفتار سے جانا چاہتا تھا، اسی لیئے وہ ان حدوں کو جاتا جنہیں شجر ممنوعہ سمجھا گیا تھا۔ پہاڑوں میں جنگی نقشہ بدلنے سے لیکر فدائی حملوں تک “آرام پسند ذہنیتیں” اسکے ہر ایک عمل کو لاپرواہی، ذاتی غرض، لا ابالی اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ کرنشانہ تنقید بناتے رہے لیکن وہ رکا نہیں اور ثابت کردیا کہ جنگ کا اصل راہ یہی ہے جس پر وہ گامزن ہے۔ اس، بہادر، جرت و استقلال نے اسلم بلوچ کی تخلیق کی اور اسی جرت سے ہی وہ چلے گئے۔
ہم اسکے کمی کے احساس سے شاید کہہ سکتے ہیں کہ خوف بہتر ہوتا ہے کیونکہ آپ کو اپنے حفاظت پر مجبور کرتا ہے اور اس خوف کے آثار اسلم میں ہونے چاہیئے تھے تاکہ وہ آج بھی محفوظ ہمارے ساتھ ہوتا لیکن اگر اسلم ایک خوفزدہ انسان ہوتا وہ کبھی جنرل اسلم بلوچ نہیں بنتا۔
بس ایک تلخ حقیقت ہے کہ کاش انسان کی زندگی میں اس کا اتنا قدر ہوتا، جس طرح جسمانی موت کے بعد ہوتا ہے، تو اس وقت سارے انسان ترقی کے لحاظ سے آزادی اپنی جاگہ سب چاند پر پہنچ جاتے، مگر کیا کریں انسان کو خدا نے یا انسان کو دنیا یا ہماری سماج اور ماحول نے مردہ پرست پیدا کیا ہے اور ہمیشہ ماتم، افسوس، کاش اور رونا دھونا ہمارے حصے میں آیا ہے۔ علم ادراک اور مردم شناسی سے ہم نابلد ہیں، اگر نہیں ہوتے تو زندگی میں اسلم کی وہ قدر و اہمیت ہوتا جو باقی ترقی یافتہ باشعور قوموں میں ہوتا ہے۔
واقعی اسلم آپ کی بہادری، جنگی مہارت، حکمت عملی اور لڑنے کی تاریخ اور سبق نے دشمن کو بھی یہ سکھایا کہ اسلم دوبدو لڑائی، جیٹ طیاروں، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور کرائے کی فوجیوں کے ذریعے مارا نہیں جاسکتا ہے، پھر کس طرح آخری حدتک آئی ایس آئی جاکر پاکستانی کی دہشتگرد فیکٹری سے خودکش تیار کرکے آپ پر روانہ کردیتا ہے کیونکہ ان کو پورا اس بات کا یقین تھا اسلم کو مارنا اتنا آسان نہیں، وہ پہلے بھی اپنی طاقت استعمال کرچکے تھے، لیکن ناکامی در ناکامی کے بعد دشمن نے یہ فیصلہ کیا۔
حالانکہ خود کش حملہ وہ کرتے ہیں، جو کمزور ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے، ایک طاقت اور قوت کے سامنے یہ مظلوموں اور محکوموں کا ایک ہتھیار ہوتا ہے، اسی طرح پاکستان اور چین اسلم کے سامنے بے بس اور مجبور ہوگئے۔
اس لیئے ہم کہتے اور سمجھتے ہیں کہ ریاست کے فوج اور جنرلوں سے طاقت، صلاحیت، حکمت اور بہادری کے لحاظ سے اسلم ایک عظیم جنرل تھا اور تاابد ایک جنرل رہیگا، اور اس بنیاد اور منطق کے لحاظ سے اسلم کی جنگی اور فوجی ہنر اور صلاحیتوں کے بنیاد پر اسلم کو فوجی اعزاز جنرل کے لقب سے نوازنا ایک بہترین فیصلہ ہے، اور بحثیت ایک استاد آپکی تمام تر روشنی بلوچستان کے گوشے گوشے میں آج بھی ہے اور کل بھی رہیگا۔
اسلم حقیقی معنوں میں ایک جنرل تھے، وہ جنگی تقاضات سمجھتے تھے، اسے اپنے جغرافیہ و سماج پر مکمل عبور تھا، انہیں معلوم تھا کہ اپنے دستوں کو کب آگے بڑھانا ہے اور کب روکنا، وہ جنگی و حالات کے ضروریات کو سمجھتے تھے کہ کب دشمن پر وار ضروری ہے، اس لیئے جب وقت آیا تو اپنے بیٹے کو بھی صحیح وقت پر قربان کردیا۔ ایک کمانڈر اور جنرل میں فرق ہی یہی ہوتا ہے کہ کمانڈر ایک دستے یا ایک کیمپ کے جنگی تقاضوں و حالات پر عبور رکھتا ہے اور ایک جنرل پورے جنگ پر وہی نظر رکھتا ہے، بلوچ جنگی تاریخ نے جنگی کمانڈر بہت پیدا کیئے لیکن شاید پہلا مکمل جنرل اسلم کو ہی پیدا کیا۔

суббота, 29 декабря 2018 г.


استاد اسلم کے جانے کے بعد کوئی یہ نہ سمجھے کہ جنگ ختم ہوگی – یاسمین اسلم بلوچ

میں قوم کے نوجوانوں سے یہی گذارش کرتی ہوں کہ استاد کی شہادت کے بعد ہمت نہ ہاریں بلکہ نئے جوش و جذبے کے ساتھ قومی جہد کو وسعت دیں، جس طرح استاد مایوس نہیں ہوا اسی طرح آپ بھی مایوس نہ ہوں، میں اپنے قوم کے ساتھ کھڑی ہوں۔ اہلیہ اسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک رپورٹ کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی کے رہنماء استاد اسلم بلوچ کی اہلیہ بی بی یاسمین بلوچ نے استاد اسلم بلوچ اور دیگر دوستوں کی شہادت کے بعد بلوچ قوم کے نام اپنے ایک   ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ مجھے استاداسلم بلوچ کے شہادت پر فخر ہے، انہوں نے اپنی پوری زندگی اسی قوم کے لیئے دیااور استاد اسلم اپنے زندگی میں تمام الزامات اور مشکلات سے گذر کر ثابت قدم رہے کیونکہ ان کے پاس جذبہ تھا کہ وہ وطن کے لیے کام آئے اور اپنے قوم کو غلامی سے آزاد کرے، اس لیے وہ کسی قسم کی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹے۔
اماں یاسمیں بلوچ نے کہا کہ میں قوم کے نوجوانوں سے یہی گذارش کرتی ہوں کہ استاد کی شہادت کے بعد ہمت نہ ہاریں بلکہ نئے جوش و جذبے کے ساتھ قومی جہد کو وسعت دیں، جس طرح استاد مایوس نہیں ہوا اسی طرح آپ بھی مایوس نہ ہوں، میں اپنے قوم کے ساتھ کھڑی ہوں۔
انہوں نے کہا ہے کہ بلوچ قوم اگر استاد کے فکر اور سوچ کو زندہ رکھنا چاہتی ہے تو وہ ان کے مقصد کو آگے بڑھائیں ،استاد کا فکر اور سوچ یہی تھا اور ان کی خواہش تھی کہ میرے قوم کے نوجوان آگے بڑھیں اور بلوچ قوم کے بہنوں کے آنسوؤں اور شہداء کے خون کو ضائع ہونے نہیں دیں۔
اماں یاسمین بلوچ نے مزید کہا کہ استاد کی شہادت کے بعدقوم بالخصوص نوجوان یہ نہ سوچیں کہ سب کچھ ختم ہوگیا بلکہ ایک استاد گیا ہے تو ہزاروں استاد موجود ہیں اور مزید پیدا ہونگے، جس طرح ریحان جان کے جانے کے بعد ہزاروں ریحان جان سامنے آئے۔ استاد کا خود کا اپنا قول اور خواہش تھا کہ بستر کے بجائے میں شہادت کی موت پاؤں۔
انہوں نے کہا کہ استاد کے بعد میں نے حوصلہ نہیں ہارااسی طرح میں قوم سے گذارش کرتی ہوں کہ وہ بھی نہیں ٹوٹیں بلکہ قوم ان کے سوچ اور فکر کو آگے لے جائے۔ جنگیں جذبوں سے آگے بڑھتی ہیں اور ایک شخص کے جانے سے جنگیں ختم نہیں ہوتیں۔ جس دن سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے ہر شخص کے بعد ایک شخص سامنے آیا ہے۔ جیسے کہ بالاچ کے بعد جنگ نہیں رکی اسی طرح اب بھی نہیں رکے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ استاد پر الزامات لگے لیکن وہ نہیں ٹوٹااور ثابت قدم رہا کیونکہ ان کا سوچ اور فکر قوم اور وطن کے لیے تھا۔ قوم اور وطن کی سوچ رکھنے والوں کی جنگ ایک شخص کے جانے سے نہیں رکتی ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ دکھ درد سب کے دلوں میں ہے استاد قوم کے لیے والد کی مانند تھا، ان کی سوچ و فکر ہر شخص کے پاس تھا کیونکہ اس نے خود کو قوم سے الگ نہیں کیا تھا۔
یاسمین اسلم بلوچ نے اپنے ویڈیو پیغام میں مزید کہا کہ استاد نے اتنی قربانیاں دیں، ریحان جان کو صرف اپنے قوم اور وطن کے لیے قربان کیا۔
استاد کے جانے کے بعد کوئی یہ نہیں سوچے کہ یہ جنگ ختم ہوگئی، اگر استاد کے روح کو خوش رکھنا چاہتے ہو تو ان کے فکر اور سوچ کو آگے بڑھائیں، جنگ کو نہیں چھوڑیں بلکہ اس میں مزید شدت لائیں۔ استاد اور ان کے دوستوں کے خون کا بدلہ لینا ہے، ہمیں دشمن کو اس طرح معاف نہیں کرنا ہے، دشمن خوش ہے کہ ہمارا رہنماء شہید ہوگیا اور یہ جنگ کو آگے نہیں بڑھا سکتے ہیں، آج نوجوان دشمن کو دکھائیں کہ جس طرح استاد کی سوچ و فکر تھی اور جنگ کو آگے بڑھا رہا تھا اسی طرح نوجوان بھی جنگ کو آگے لیجائیں۔
انہوں نے پیغام دیتے ہوئے کہا میں جب تک زندہ ہوں بحیثیت قوم کی ماں سب کے ساتھ کھڑی ہوں۔

اسلم بلوچ کے کردار کے اعتراف میں انہیں تنظیم کے اعلیٰ ترین اعزاز “جنرل” سے نوازا جاتا ہے – بی ایل اے

بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے نامعلوم مقام سے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنظیم کے بانی رہنماؤں میں سے ایک اور سینئر کمانڈ کونسل کے رکن  اسلم بلوچ اور ساتھیوں کی شہادت کے بعد تنظیم کے سینئر کمانڈ کونسل اور ذیلی ادارے آپریشنل کور کمیٹی کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا اور موجودہ صورتحال کا بغور جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں تنظیمی امور کا جائزہ لیتے ہوئے متعدد اہم فیصلے کیئے گئے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ساتھیوں کی شہادت کی وجہ سے تنظیمی امور معمول کے مطابق چلیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ  اسلم بلوچ اور تنظیم کے دوسرے اہم ساتھیوں کمانڈر کریم مری عرف رحیم، تاج محمد مری عرف سردارو، اختر بلوچ عرف رستم، سنگت امان اللہ عرف صادق بلوچ اور سنگت بابر مجید عرف فرید بلوچ کی شہادت یقیناً تنظیم کیلئے ایک بہت بڑا نقصان ہے لیکن تنظیم کے ادارہ جاتی ہیت کی وجہ سے تنظیم قیادت کی سطح پر کسی بحران کا شکار ہوئے بغیر اپنی کارروائیاں اور تنظیمی امور معمول کے مطابق بڑھا رہی ہے۔ بی ایل اے میں با صلاحیت اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل دوستوں کی ایک کھیپ تیار ہے، جو تنظیمی امور کو بلا رخنہ جاری رکھنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں۔ اس امر کا سہرہ  اسلم بلوچ کے سر سجتا ہے، جنہوں نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، تنظیم کو شخصی بنیادوں پر چلانے کے بجائے مضبوط اداروں کو پروان چڑھایا اور ساتھیوں کی تربیت کرتے رہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ  اسلم بلوچ بی ایل اے کے ابتدائی ساتھیوں میں سے ایک تھے، وہ 1995 سے قبل ہی تنظیم کا حصہ بنے اور پورے بلوچستان میں تنظیمی نیٹورک کو پھیلانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ آپ کا شمار تنظیم کے بانی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔  اسلم بلوچ اپنے خداداد قائدانہ و عسکری صلاحیتیوں کی وجہ سے تنظیم کے ایک اہم کمانڈر ثابت ہوئے، انہوں نے بولان کا کمانڈ سنبھالتے ہوئے، اسے بلوچوں کے ناقابلِ تسخیر قلعے میں ڈھال دیا اور بعد ازاں وہ بی ایل اے کے اعلیٰ ترین ادارے سینئر کمانڈ کونسل کا حصہ بنے اور ایک رہنمایانہ کردار ادا کرتے رہے۔
اسلم بلوچ نے ایک عسکری کمانڈر کی حیثیت سے بلوچ مزاحمت کو نئی جہتیں بخشیں اور اپنے کامیاب جنگی حکمت عملیوں کی وجہ سے دشمن پر کاری ضربیں لگاتے رہے۔ بی ایل اے مجید بریگیڈ کا قیام، فدائیوں کی تربیت اور دشمن پر فدائی حملے ان ہی کے جنگی حکمت عملیوں کا حصہ ہیں۔ آپ صرف ایک عسکری رہنما نہیں تھے بلکہ ایک سیاسی مدبر کی حیثیت سے عالمی و علاقائی حالات پر باریک نظر رکھتے تھے اور رہنمائی کرتے تھے اور ایک دانشور کی حیثیت سے اپنا قلم بھی قوم کو جگانے اور نوجوانوں کی تربیت کیلئے استعمال کرتے تھے۔
بی ایل اے کی سینئر کمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ  اسلم بلوچ کے اس ناقابلِ فراموش کردار کے اعتراف میں انہیں تنظیم کے اعلیٰ ترین اعزاز “جنرل” سے نوازا جاتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دشمن کے اس بزدلانہ حملے میں تنظیم کے ایک کمانڈر کریم مری عرف رحیم بھی شہید ہوئے۔ کریم مری 2003 سے تنظیم کا حصہ تھے۔ آپ نے تحریک و تنظیم کے استحکام کیلئے نمایاں کردار ادا کیا اور خاص طور پر کوہستان مری کے محاذ پر دشمن کے خلاف قیادت کی۔ کمانڈر کریم مری 2012 کو خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء بھی ہوئے تھے اور شدید تشدد کا نشانہ بنے تھے لیکن آپکے بہترین رازداری کی وجہ سے آپ رہا ہوئے اور رہائی کے بعد بھی آپ اپنے مقصد سے نہیں ہٹے اور بدستور اپنا جدوجہد جاری رکھا۔ کریم مری ایک مخلص اور نڈر ساتھی تھے، تنظیم کے استحکام میں آپکا کردار قابلِ تقلید ہے۔
کریم مری کی تنظیم اور قوم کےلئے خدمات کے بدلے بی ایل اے انہیں ” سگار بلوچ ” کے اعزاز سے نوازتی ہے۔ بی ایل اے اس سے قبل بہادری و جرائت کی علامت ” سگار بلوچ ” کا خطاب امیر بخش لانگو اور ماما مہندو مری کو نواز چکی ہے۔
تاج محمد مری عرف سردارو تنظیم کے اہم ساتھیوں میں سے ایک رہے ہیں، آپ 2003 سے بولان اور ناگاہی کے محاذ سے دشمن کے خلاف جدوجہد کررہے تھے۔ اپنے پیشہ ورانہ صلاحیتوں، ذہانت اور مخلصی کی بنیاد پر آپ کا شمار تنظیم کے نمایاں ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ آپ نے مختلف محاذوں پر بہادری اور شجاعت کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ سنگت تاج محمد مری کے قومی خدمات تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ سے یاد رہیں گی۔
سنگت اختر بلوچ عرف رستم 2003 میں تنظیم میں شامل ہوئے اور 2008 تک مستونگ و کوئٹہ کے شہری نیٹ ورک میں فرائض سرانجام دیتے رہے اور پھر کوہلو، ناگاہو اور بولان کے محاذوں پر دشمن کے خلاف برسرپیکار رہے۔ سنگت اختر بلوچ تنظیم کے اہم معرکوں کا حصہ رہے ہیں اور جانفشانی سے لڑتے ہوئے بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔
سنگت بابر مجید عرف فرید 2012 سے تنظیم کا حصہ رہے اور قلات کے محاذ پر اپنے خدمات سرانجام دیں۔ اپنے صلاحیتوں کی بنیاد پر بہت کم وقت میں نمایاں مقام حاصل کی۔ فرید بلوچ بی ایل اے کے میڈیا ونگ کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ بی ایل اے مجید بریگیڈ کے ایک فدائی تھے اور شہادت سے قبل اپنے آخری مشن کی تیاریوں میں تھے۔ سنگت بابر مجید کی شہادت ان کے فدائی عمل کا نتیجہ ہے، انہوں نے جنرل اسلم بلوچ پر حملے کے وقت خود کو ڈھال بناکر جنرل اسلم بلوچ سے لپٹ گئے تاکہ قربان ہوکر جنرل اسلم بلوچ کو اس حملے میں نقصان سے بچایا جاسکا، جسکی وجہ سے آپ موقع پر شہید ہوگئے۔
سنگت امان اللہ عرف صادق بلوچ بھی 2012 سے بی ایل اے کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کررہے تھے اور قلات کے محاذ پر خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ آپ بی ایل اے کے انٹیلیجنس ونگ کا حصہ تھے اور آپ کی بہترین انٹیلجنس کی وجہ سے بہت سی اہم کاروائیاں ممکن ہوئیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تنظیم کا “آپریشنل چَین” بلا تعطل معمول کے مطابق کام کررہا ہے اور ہماری کاروائیاں مزید شدت کے ساتھ جاری رہیں گی۔ ہم ایک بار پھرچین جیسے توسع پسند قوتوں اور سرمایہ کاروں کو تنبیہہ کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان ایک جنگ زدہ خطہ ہے۔ یہاں بلوچوں کی مرضی و منشاء کے بغیر اور بلوچستان کی مکمل آزادی تک کسی معاہدے کو کوئی قانونی و اخلاقی حیثیت حاصل نہیں، لہٰذا وہ بلوچستان میں کسی سرمایہ کاری اور بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ سے باز رہیں ورنہ وہ بھی ہمارے نشانے پر ہونگے۔

استاد – عائشہ اسلم بلوچ

استاد
تحریر۔ عائشہ اسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ 
بچپن سے لے کر آج تک استاد سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، وہ ایک مہربان والد ہونے کے ساتھ ساتھ میرا دوست اور استاد بھی تھے۔ میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں ان کی بیٹی ہوں، ہمارے باپ بیٹی کا رشتہ بہت زیاد خوبصورت تھا۔ ایک بیٹی کو اس کا والد کتنا عزیز ہوتا ہے، یہ بات سب سمجھ سکتے ہیں لیکن ہمارا رشتہ بہت ہی گہرا اور خوبصورت تھا۔ خونی رشتے کے ساتھ ساتھ وہ میرے رہنما بھی تھے، ان کے سوچ و کردار کو بیان کرنا مشکل ہے، وہ ہمیشہ ہماری سیاسی تربیت کرتے، ہمیشہ ان کی سوچ ان کی باتیں صرف اور صرف قوم کے لیئے ہوتی تھیں۔
انہوں نے اپنی زندگی قوم پر قربان کر دی، اپنے جگر کے ٹکڑے تک کو قربان کردیا، میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ کتنا عظیم شخص ہے میرا والد، پھر میں مسکرا کر کہتی، شاید وہ میرے والد ہیں اس لیئے مجھے اتنے عزیز ہیں، لیکن ایسا نہیں تھا وہ صرف مجھے نہیں بلکہ پوری بلوچ قوم کو اسی طرح عزیز تھے۔
آج ہم ایک مہربان والد، ایک استاد اور ایک دوست سے محروم ہوگئے لیکن ان کی سوچ و تربیت اور باتیں آج بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ آج ہر ایک نوجوان میں ان کی سوچ زندہ ہے۔ آج ہم میں ان کی سوچ زندہ ہے، وہ اپنے وطن کے ساتھ انتہائی مخلص تھے۔ ثابت قدم تھے، وہ اپنے دوستوں اور قومی لوگوں سے بے انتہا محبت کرتے، ان کی سوچ پہلے قوم کے لیئے تھی، پھر ہمارے لیئے اور ہمیشہ ہمیں بھی یہی درس دیتا تھا کہ قوم ہمارے لیئے سب کچھ ہے، چاہیے کچھ بھی ہوجائے ہمیں لڑنا ہے، قوم پر فدا ہونا ہے، اپنے غلام قوم کو ہر حال میں آزاد کرنا ہے۔
آج وہ ہمارے بیچ نہیں لیکن ہمیں اپنے فرائض کو سمجھ کر آگے بڑھنا ہے، ان کے سوچ کو آگے لے جانا ہے، وہ ہم سے جو امید رکھتے تھا، ان امیدوں پر پورا اترنا ہے۔
فرید جان، اختر جان، کریم جان، سردرو جان اور صادق جان ان سب نے اپنا قومی فرض ادا کیا، یہ سب استاد کے کارواں میں شامل تھے، ان کی مخلصی کی مثال نہیں ملتی۔ آخر دم تک اپنا فرض نبھاکر جام شہادت نوش کی اور ثابت قدم رہے۔ ان کے ساتھ نظریاتی رشتہ بہت مظبوط تھا۔
آج ان کے جانے کا دکھ بہت ہے لیکن وہ ایک مقصد کے لیئے قربان ہوئے ہیں اور تاریخ انہیں ہمیشہ سنہرے لفظوں میں یاد کرے گی۔
مجھے ابھی تک یقین نہیں ہورہا ہے کہ ایسا واقعہ پیش آیا ہے، میں ہمیشہ یہی دعا کرتی کے مجھے استاد کا درد دیکھنے کو نہ ملے، یہ واقعہ کسی بھی انسان کو توڑدینے کیلئے کافی تھا لیکن میری لمہ جان نے جو حوصلہ مجھے دیا، جو ہمت بخشی اس نے ہمیں ایک اٹوٹ دیوار بنادیا۔ پہلے میں خود حیران تھی کہ اس واقعے کے بعد میں لمہ جان کو کیسے سنبھالوں گی لیکن انہوں نہ ہمیں جس طرح سے سنبھالا آفرین ہے ان پر۔
استاد کی ہمیشہ یہی خواہش تھی کہ انہیں شہادت نصیب ہو۔ شہادت سے پانچ منٹ قبل میں استاد کے ساتھ تھی، آخری بار ان سے بات کی مزاق کیا اور انہوں نہ کہا میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں اور وہ چلے گئے۔ میں قربان اپنے مہربان والد پر، سرخ سلام شہیدوں کو۔

استاد کا امر کردار اور مسلسل مزاحمتی فکر – شہیک بلوچ

زندگی خوبصورت ہے اور وہ کردار جو زندگی کو نکھارنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں تاکہ نسل انسانی بہتر سے بہترین تک پہنچ سکے وہ کردار یقیناً عظیم ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ جہد مسلسل کی تاریخ ہے۔
اسپارٹیکس کو اس لیے یاد رکھا جاتا ہے کیونکہ اس نے دیگر غلاموں کے برعکس ایک گلیڈیٹر کے طور پر زندگی کو گذارنے کی بجائے ایک آزاد انسان کے طور پر زندگی کو جینے کا خواب دیکھا۔ وہ ایک موت کا کرتب باز بننے کی بجائے ایک ایسا انسان بن کر ابھرا جس نے انسانیت کا ایک اہم سبق پڑھایا۔ جب سپارٹیکس کو ماریا گیا تب کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ بڑی خوشی کی بات کوئی نہیں کہ ایک آزاد انسان کے طور پر اس دنیا کو الوداع کہا۔۔۔
لیونائڈس نے زرکسیز کو نہایت قلیل تعداد کے باوجود چیلنج کیااور امر ہوگیا۔ چے گویرا نے لاطینی امریکہ میں جدوجہد کی ایک تاریخ رقم کی اور آج جہاں بھی کوئی جدوجہد ہوتی ہے چے گویرا کی تصویر اس جدوجہد میں ظلم کے خلاف بغاوت علم کا درجہ رکھتی ہے۔
زندگی ان ہی کی ہے جو جدوجہد کرتے ہیں اور جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ہم اس حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ ہم ایک جدوجہد کا حصہ ہیں اور بے شمار جہدکاروں کا ورثہ ہمارے حصے میں آیا ہے۔
انسانی تاریخ کے ایک سفاک ترین نوآبادکار کے خلاف بلوچ قومی جدوجہد ایک روشن مثال ہے، اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود بلوچ جدوجہد اس خطے میں امید کی ایک کرن ہے۔ جب بھی جدوجہد ہوگی اس میں بلوچ جہدکاروں کے کردار کی روشنی کو کسی صورت نظر اندازنہیں کیا جاسکے گا۔
آج جب جدوجہد ایک نئے مرحلے میں داخل ہوکر نوآبادکار کے لیے سردرد بن گئی، کاؤنٹر انسرجنسی کے پالیسیوں پر عمل پیرا ہوکر بلوچ تحریک کو جب شدید نفسیاتی بحران میں دھکیلا گیا، ایسے میں استاد اسلم بلوچ نے جمود کو توڑنے اور نفسیاتی بحران سے نکالنے کے لیے اپنا کرشماتی کردار ادا کیا۔ انہوں نے قربانی کی وہ مثال قائم کی جس کا کوئی ثانی نہیں۔۔۔ ابتداء اپنے ہی اولاد سے کی کہ اس انتہا تک بلوچ کو پہنچ کر نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا ملیگا۔ شہید ریحان کے بعد منظر نامہ بدل ہی گیا، اب تحریک سے وابستہ جہدکاروں میں ایک نیا عزم تازہ ہوا اور فضا مزید پرامید و پرآشوب ہوگئی، پھر اس کے بعد چینی کونسل خانے پر بلوچ فدائین کے حملے نے بلوچ جہدکاروں کو ایک مرتبہ پھر نفسیاتی طور پر حاوی کردیا لیکن یہ سب کچھ دشمن کے زہریلے آنکھوں میں شدید کھٹکا اور اس نے استاد کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انہیں راہ سے ہٹانے کے لیے اپنی پراکسیز کا استعمال کیا۔
یہاں جہدکار دوستوں کی جانب سے بھی استاد کی حفاظت کے حوالے سے ناقص اقدامات پر تنقید کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے گرانقدر جہدکار بیش قیمت قومی اثاثہ ہوتے ہیں، جن کی حفاظت گوریلا حکمت عملی کے تحت لازم طور پر کرنی چاہیئے اور کمانڈر رازق کے بعد تو خاص کر اس حوالے سے محتاط رہنا چاہیئے تھا۔
بلاشبہ استاد کی قربانی عظیم تر ہے لیکن یہ نقصان بھی بہت بڑا ہے کیونکہ محکوم قوموں کے لیے ایسے رہنماؤں کا خلاء آسانی سے پر نہیں ہوتا۔ استاد کے بعد ان کے جدوجہد کو اداروں کی بنیاد پر استوار کرتے ہوئے ہی منزل مقصود تک پہنچایا جاسکتا ہے، اتحاد و یکجہتی ہی استاد کے اصل نقش قدم ہیں۔
اب دیگر بلوچ جہدکاروں کو اپنی حفاظت یقینی بناتے ہوئے گوریلا حکمت عملی کے تحت ریاست کی چالبازیوں سے بچنا ہوگا۔ جغرافیائی طور پر ایسے علاقوں میں قیام جہاں دشمن بہ آسانی نشانہ نہ بنا سکے اور کسی بھی موقع پر سیکیورٹی سے غافل نہ ہوں۔ اب ریاست آنے والے دنوں میں مزید اس طرح کے بہیمانہ حرکتوں میں شدت لائیگی جس کے جواب میں بلوچ جہدکار اس کے اثاثوں شفیق مینگل جیسے درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی حکمت عملی ترتیب دیں۔
استاد تو امر ہوگئے، ان کا کردار ہماری رہنمائی کرتا رہیگا۔ استاد کی شہادت پر مایوس ہونے کی بجائے ان کے جہد مسلسل کے فکر کو اپناتے ہوئے ہی ہم ان کے منزل مقصود کو پاسکتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا اور سنجیدگی سے عمل کرتے ہوئے دشمن کے جنگی چالبازیوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔

четверг, 27 декабря 2018 г.


اُستاد اسلم بلوچ و ساتھیوں کو خراج عقیدت اور سرخ سلام پیش کرتے ہیں،بی ایل ایف
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے استاد اسلم بلوچ کو خراج عقیدت اور سرخ سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلم بلوچ و ساتھیوں سردرو عرف تاجو، کریم مری، سنگت اختر، فرید بلوچ اور صادق بلوچ کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے۔ یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ہم انہیں بہترین خدمات اور قربانی پر خراج تحسین کے ساتھ عہد کرتے ہیں کہ ہم پاکستان سے ان کا بدلہ آزاد بلوچستان کے حصول کی شکل میں لیں گے۔ اسلم بلوچ کی بلوچ قوم اور بی ایل اے کیلئے خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ وہ ایک بے لوث ساتھی، رہبر، جنگجو، کثیرالجہت خصوصیات کے مالک تھے۔ انہی خصوصیات، محنت اور لگن کی بنا پر وہ تمام تنظیموں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان سے اختلاف رکھنے والے بھی اس کے کردار سے منکر نہیں۔ اپنی ویژن، دوراندیشی اور مدبرانہ فکر و فلسفے کی بدولت وہ بلوچ لبریشن آرمی میں ایک اہم مقام حاصل کرچکے تھے۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ یہ استاد اسلم بلوچ کی دوراندیشی اور قومی آزادی کے وسیع تر مفاد کے لئے کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج بلوچ راجی آجوئی سنگر(براس ) وجود میں آچکا ہے۔ بی ایل ایف اور بی ایل اے کا اتحاد استاد اسلم بلوچ کے کوششوں کی مرہون منت ہے۔ بعد میں بی ایل ایف، بی ایل اے اور بی آر جی کا بلوچ راجی آجوئی (براس)کی تشکیل میں شہید استاد اسلم بلوچ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ براس جیسے اتحاد نے بلوچ قوم میں امید کی ایک لہر پھونک دی۔ آزادی پسندتنظیموں کی اتحاد پاکستان ،پاکستان کے سامراجی اتحادی چین ،بلوچ قوم کے استحصال میں مصروف پارلیمانی پارٹیوں سمیت مختلف عناصر کو انتہائی ناگوارگزرا۔
انہوں نے کہا کہ استاد اسلم کی جس طرح شہادت ہوئی اور جس جشن کا سماں پاکستان اور اس کی میڈیا میں دیکھا گیا وہ اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ پاکستان اپنی دہشت گردانہ پالیسیوں کے ذریعے کسی بھی علاقہ و ملک میں اپنے سیاہ کارنامے انجام دینے میں عار نہیں سمجھتی اور پاکستانی ریاست سے بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدارکی پابندی کا توقع خودفریبی کے سمندرمیں ڈوبنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح عالمی برادری بھی اسی دھوکے میں نہ رہے کہ پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف پاکستان خود ہی کارروائی کرے گی کیونکہ پاکستان کی تاریخ، کردار وعمل یہ عیاں کرچکے ہیں کہ خطے میں سب سے بڑا دہشت گرد پاکستان ہے اور دہشت گردی کی برآمد ریاست کی بنیادی پالیسی اور کاروبار بن چکا ہے۔ نائن الیون کے بعد ہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ملنے والی امداد بلوچ قوم اور ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال ہوتا رہا ہے لیکن عالمی برادری اس کا ادراک کرنے میں ابھی تک ناکام ہے۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ استاد اسلم سمیت تمام بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم عالمی اصولوں کے مطابق قبضہ گیریت کے خلاف قومی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ میں ہم نے پہلے بھی اپنے کئی اعلیٰ کمانڈر سمیت سینکڑوں سپاہی قربان کردیئے ہیں اور قربانیوں کا یہ تسلسل مادروطن کی آزادی تک جاری رہے گا۔
گہرام بلوچ نے آخر میں کہا کہ اسلم بلوچ و ساتھیوں کے کارنامے اور قربانی رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی اور حق و سچائی ہمیشہ فتح مند رہے گا اور باطل کے حصے میں رسوائی اور شرمساری آئے گی۔ پاکستان ایک غیر فطری ریاست ہے اور بلوچستان سمیت سندھ اور پشتونستان پر ان کے عوام کی مرضی کے بر خلاف قبضہ کیا ہوا ہے۔ بلوچ اپنی سرزمین ایک دفعہ پھر غیروں کے قبضے سے آزاد کرکے آزاد بلوچستان میں اپنی شناخت، عزت اور ننگ و ناموس کے ساتھ عزت کی زندگی گزارے گا جہاں کوئی ہمارے خواتین اور بچوں اور بوڑھوں کو گھسیٹ کر بے عزت کرکے زندانوں میں ڈالنے والا نہیں ہوگا۔ اس جنگ میں فتح ہماری ہی ہوگی۔

среда, 26 декабря 2018 г.

فخر ہے کہ اسلم بلوچ جیسے شفیق استاد کا آخری سانس تک وفادار رہا -بشیر زیب بلوچ

بلوچ رہنما بشیرزیب بلوچ نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ عظیم کمانڈر اسلم بلوچ میرا بھائی مہربان دوست اور شفیق استاد تھا اور اسلم بلوچ کی شہادت تک اس کا وفادار دوست رہا اور  آخری سانسوں  تک اس کے فکر و عمل اور تعلیمات کا وفادار رہوں گا۔
بشیر زیب بلوچ نے کہا کہ اسلم بلوچ اور دوستوں کی شہادت کے ردعمل میں ہماری بہادر بہن یاسمین بلوچ کی طرف سے حوصلہ مندانہ اور بہادری پہ مبنی نصیحت و حوصلے نے مزید ہمتوں کو بڑھا دیا۔
انہوں کہا جب بھی ہم اپنے بہادر استاد اسلم بلوچ کو کہتے کہ استاد آپ کو پتہ ہے بزدل دشمن آپ سے بہت سیخ پاء اور تکلیف میں ہے ذرہ احتیاط کرو تو  استاد کا ہمیشہ  جواب تھا ،چھوڑوں یار، بستر پر مرنے سے دشمن کے ہاتھوں شہید ہونا میرے لئے ہزار درجہ بہتر ہے
بشیر زیب بلوچ  نے کہا پنجابی قابض دشمن  دنیا کی دیگر قابضیں کی طرح قومی تحریکوں اور نظریاتی جنگوں کی تاریخ سے نابلد ہے کہ تحریکیں اور نظریاتی جنگ رہنماوں ، کمانڈروں اور نظریاتی دوستوں کی جسمانی طور پر جدا ہونے  نہ کمزور ہونگے اور نہ ہی ختم ہونگے بلکہ  دشمن کے خلاف مزید نفرت اور مظلوم قوم میں  جذبہ اور حوصلہ پیدا ہوگا۔
انہوں نے کہا آج اسلم بلوچ اپنے فکر و نظریہ اور فلسفہ کی بنیاد پر قومی تحریک میں ہزاروں اسلم پیدا کرچکا ہے ان کو ختم کرنا پنجابی دشمن  اور اس کے زرخرید ایجنٹوں کی بس کی بات نہیں ہے ،رہنماوں اور شہداء کی لہو سے رواں دواں یہ تحریک اب رکنے والا نہیں ہے بلکہ مزید توانا ہوکر اور  مزید شدت اختیار کریگا۔
انہوں نے کہا قومی جنگ کے موجودہ دورانیے  میں  بے شمار دوستوں کی قربانی اور شہادتوں نے ہمیں  تجربات اور مستقل مزاجی کا درس دیا ہے اور اب یہ قدم ڈگمگانے والے نہیں ہے کہ حالات کا شکار ہوکر وقت و حالات کا مقابلہ نہ کرسکیں ۔
انہوں نے کہاں اس پر کھٹن راستے میں جو بھی جیسے بھی حالات و واقعات پیش آتے ہیں یا مزید پیش آئیں گے اور جس دن ہم نے  اس راستے کا انتخاب کیا  اسی دن سے ان حالات و واقعات کے حوالے سے ذہنی و فکری طور پر مکمل تیار تھے اور آج بھی مستحکم ارادوں کے ساتھ  تیار ہیں۔
انہوں نے کہا پاکستان ریاست کی دہشت گردی اور چین جیسی سامراجی قوتوں کی بلوچ سرزمین اور بلوچ قوم کے خلاف یلغار کی پیش نظر اور مستقبل کے ادراک کو شعوری طور پر بھانپ کر ہم مکمل طور پر جان چکے ہیں کہ اگر پاکستان اور چین کے خلاف آخری حد تک مزاحمت نہیں ہوگا اور انفرادی حوالے سے ہم حوصلہ و ہمت اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہوکر بلوچ قوم اور بلوچ وطن پر قربان نہیں ہونگے تو مستقبل قریب قومی و اجتماعی طور پر قومی خود کشی ہوگا اور پھر ہماری تاریخ انتہائی سیاہ ترین اور عبرتناک ہوگا۔
انہوں نے کہا آنے والی نسلوں کے بقاء اور خوشحالی کے لیے اپنے سروں کا سودا اپنی مٹی اور اپنی دھرتی ماں کے لیے لگانا اتنا مہنگا اور مشکل سودا نہیں ہے۔
بشیر زیب بلوچ  نے مزید کہا بلوچ قوم خصوصا بلوچ نوجوان اور ہمارے ماں بہنیں جس طرح موجودہ تحریک کے رہنماوں شہید نواب اکبر خان بگٹی مرحوم نواب خیر بخش مری شہید سنگت بالاچ خان مری شہید واجہ غلام محمد بلوچ شہید پروفیسر صباء دشیاری شہید آغا محممود خان شہید ڈاکٹر خالد بلوچ شہید امیر بخش بلوچ شہید میر غفار لانگو اور دیگر کمانڈروں اور رہنماوں سمیت ہزاروں نظریاتی دوستوں کی شہادت پر اپنے ہمت و حوصلے بلند رکھے آج بھی شہید کمانڈر اور بلوچ رہنماء اسلم بلوچ، کمانڈر کریم مری، سنگت اختربلوچ سنگت سردرو، سنگت فرید بلوچ اور سنگت صادق بلوچ کی شہادت کے بعد اپنے حوصلے مزید بلند رکھیں اس امید اور توقع کے ساتھ کہ جب تک ایک بلوچ بھی زندہ رہے گایہ مزاحمت اور قومی جنگ اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ جاری و ساری ہوگا پاکستان و چین اور اس کے ٹکڑوں پر پلنے والے ایجنٹ حواس باختہ اور سیخ و پاء ہوکر جو بھی ردعمل میں کرینگے اس سے نہ پہلے ہمیں کوئی پرواہ تھا نہ ہی آئندہ  ہوگا۔

شہادت سے چند روز قبل استاد اسلم بلوچ کا دیا جانے والا انٹرویو

استاد اسلم بلوچ کا یہ انٹرویو صحافی ملک سراج اکبر کی جانب سے استاد اسلم بلوچ کے شہادت سے چند ہی روز قبل لیا گیا تھا ، جسے قارئین کے دلچسپی کے لیے دی بلوچستان پوسٹ شائع کر رہی ہے۔
حال ہی میں کراچی میں بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے چینی قونصل خانہ پر ہونے والے حملے کے بعد حکومت نے بلوچ قوم پرست رہنما حیربیار مری سمیت جن لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ان میں اسلم بلوچ بھی شامل تھے جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ بی ایل اے کے ایک اہم کمانڈر ہیں۔ دو سال قبل بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ نے مارچ 2016میں دعویٰ کیا تھا کہ اسلم بلوچایک آپریشن میں ہلاک ہو گئے ہیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا۔ البتہ پچیس دسمبر2018 کو پاکستانی میڈیا نے یہ خبر دی کہ اسلم بلوچ افغانستان میں اپنے دو ساتھیوںاورتین کمانڈرز کے ساتھ مارے گئے ہیں۔ بلوچستان ٹائمز کے مطابق، بی ایل اے نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی ہے۔
اس واقعہ سے صرف چار روز قبل راقم نے ان سے چینی قونصلیٹ پر ہونے والے حملے کے تناظر میں انٹرویو کیا۔یہ گفتگو میں نے ان سے ایک ایسے سیریز کے لئے کیا جس میں ، میں بلوچ مسلح تنظیموں کے سربراہان اور کمانڈرز سے ان کی بدلتی حکمت عملی، سی پیک اور بلوچ قوم پرست تحریک کے بارے میں جاننا چارہا تھا۔ تاہم ان کی ہلاکت کی خبر کے پیش نظر میں ان کا انٹرویو یہاں من عن شائع کر رہا ہوں۔ اس انٹرویو کے لئے میں نے انھیں سوالات ارسال کئے تھے اور جوابات ان کے اپنے الفاظ میں ہیں جن میں کوئی ایڈیٹنگ نہیں ہوئی ہے۔
ملک سراج :سب سے پہلے مجھے اپنی ابتدائی زندگی کے بارےمیں بتائیں۔ وہ کون سا واقعہ تھا جس نے آپکی زندگی بدل دی اور آپکو بلوچ مسلح تحریک کا حصہ بننے پر مجبور کیا؟
استاد اسلم بلوچ :بنیادی طور پر میرا تعلق مستونگ سے ہے لیکن میری پیدائش شال (کوئٹہ ) میں ہوئی۔ میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ ہمارے گھرانے میں، میں اپنے چار بھائیوں میں سے سب سے چھوٹا ہوں۔ ہمارے خاندان میں صرف میرے بڑے بھائی کا قوم پرستانہ سیاست کے حوالے سے بی ایس او ( بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن)سے وابستگی رہا تھا۔ وہ ہی میرے استاد تھے ۔کوئی ایک ایسا مخصوص واقعہ نہیں جس نے مجھے سیاست کے طرف مائل کیا۔ زمانہ طالب علمی سے اپنے لوگوں کی حالت ایک احساس دلاتا تھا جیسے کہ بہت کچھ غلط ہورہا ہے۔ نظام تعلیم سے لیکر نظام حکومت تک سب میں انتہائی شدت سے بیگانگی کا احساس ہوتا تھا۔ شروع سے اس بات پرقائل تھا کہ مزاحمت ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔ نعرہ بازی جھنڈے لہرانے اور الیکشن ورکر بنتے دوستوں سے دور رہا۔ جب نواب خیر بخش مری افغانستان سے جلا وطنی ختم کرکے واپس آئے تو انکے حق توار سٹڈی سرکل سے جوڑ گیا اور وہی سے جدوجہد کا آغاز کردیا
ملک سراج :حال ہی میں کراچی میں چینی قونصل خانہ پر جو حملہ ہوا، اس کی ذمہ داری آپکی تنظیم نے قبول کی۔ اس حملے کے مقاصد کیا تھے؟
استاد اسلم بلوچ :چینی قونصل خانے پر حملے کے مقاصد بالکل واضح اور صاف تھے۔ چین پاکستان کے ساتھ ملکر بلوچستان میں سی پیک کے نام پر جس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہچانے کی کوششیں کررہا ہے اس منصوبے سے بلوچ قوم کے مستقبل کو بھیانک خطرات کا سامنا ہے کیونکہ پچھلے ستر سالوں سے پاکستان کے قبضہ گریت نے بلوچوں کے سماجی جغرافیائی معاشی اور سیاسی صورت حال کو بگاڑ کررکھ دیا ہے اگر ایسا کہا جائے کہ برباد کردیا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ ایک فوجی ریاست کے طاقت اور جبر کا سامنا کرنے والے بلوچوں کودوسری طرف چائنا جیسے ملک کی شراکت داری سے مزید سنگین حالات سے دوچار ہونا پڑرہا ہے یہاں ترقی کے نام پر جس طرح سے پاکستان اور چائنا اپنے عسکری عزائم کے تکمیل کےلئے غیر بلوچوں کی آباد کاری کے ذریعے آبادی کے توازن کو بگاڑکر بلوچوں کو اقلیت میں بدلنے کی سازشیں کررہے ہیں وہ کسی صورت قابل برداشت نہیں ہیں اس لئیے ایسے حملوں سے ہم چائنا کو باز رکھنے کے ساتھ اپنا پیغام اور مسئلے کی سنگین صورت حال سے دنیا کو آگاہ کرنا چاہتے تھے
ملک سراج :کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ چینی قونصل خانہ پر حملے سے بلوچ کاز کو مدد ملنے کے بجائے نقصان پہنچا ہے یا پہنچے گا کیونکہ اس سے دنیا کے سامنے بلوچ تحریک بطور “دہشت گرد” تحریک ابھرے گی؟
استاد اسلم بلوچ :لوگ کیا سمجھتے ہیں اس سے زیادہ یہ ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو کیا سمجھا سکتے ہیں ہمارے اہداف اور مقاصد جائز اور برحق ہیں ۔طریقہ کار سے قطع نظر دنیا میں اہداف اور مقاصد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہاں دہشت گردی کی تعریف اپنے اپنے مفادات کے تحت کی جاتی ہے۔ اگر اس حوالے سے ہم دیکھنا شروع کریں تو ہماری جدوجہد کسی کی بھی تعریف پر پورا نہیں اترے گی۔ حکمت عملی اور طریقہ کار کا تعلق ہمیشہ حالات کے تحت کی جاتی ہے پاکستان اور چائنا بلوچستان میں جو اقدامات اٌٹھا رہے ہیں کیا وہ برحق ہیں اور جو حالات انہوں نے بنا رکھیں ہیں ان میں کیا کیا جاسکتا ہے؟ ہم اپنے قومی مفادات اور اپنے دفاعی تقاضوں کے تحت فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر یہ دیکھنے بیٹھ جائیں کہ لوگ کیا سمجھتے اور کہتے ہیں تو شاہد پھر ہمارے لئے ان حالات میں بچانے کےلئے کچھ بھی نہ رہے
ملک سراج :قونصل خانہ اور دالبندین والے واقعات کے بعد یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ بلوچ تنظیموں نے بھی خود کش حملوں کو بطور ہتھیار اور حکمت عملی استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی جماعت کی مذہبی انتہا پسند جماعتوں سے تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
استاد اسلم بلوچ :جہاں تک بات حکمت عملی کی کیجائے تو اسمیں بدلاو عین وقت و حالات کے مطا بق ہے۔ دوران جنگ حکمت عملی اور پالیسیوں میں بدلاو ہوتے رہتے ہیں۔ چائنا پر تسلسل سے بلوچستان میں حملے ہوتے رہے ہیں لیکن چائنا باز رہنے کی بجائے مزید ناروا قدامات کے تحت شدت سے بلوچستان میں ملوث ہوتے جارہا ہے اور پاکستان کے طرف سے چینیوں کی سیکورٹی میں بہتری اور اضافے نے بلوچوں کو مزید عدم تحفظ کا شکار بنادیا ہے۔ ایسے بدتر حالات پیدا کئے گیے جن کی وجہ سے ہمیں بھی اپنا حکمت عملی بدلنا پڑا۔ جو طریقہ کار ہم نے اپنایا ہے وہ ایک موثر جنگی طریقہ کار ہے جسکی بہت سے مثالیں مذہبی شدت پسندی کے علاوہ بھی تاریخ میں ملتے ہیں۔ 1881 میں اگنیٹی گرینوسکی نےروس میں فدائی حملہ کرکے اپنا پیغام ریکارڈ کرایا تھا۔ جاپان، تامل ٹائیگرز اورفلسطینیوں نے اس طریقہ کارسے استفادہ کیا ہے تو کیا ان سب کا مذہبی شدت پسندی سے کوئی تعلق بنتا ہے ؟
اگردیکھا جائے تو گوریلا جنگ چھوٹے ہتھیار ،راکٹ لانچروں، زیرزمین بموں کا استعمال گھات لگا کر حملے ان سب کا استعمال بھی مذہبی شدت پسند کرتے آرہے ہیں تو کیا صرف اس بنا پر ہم ان جیسے طریقہ کار و ہتھیاروں کو رد کرسکتے ہیں ؟ میں صاف الفاظ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم مذہبی شدت پسندی کو دنیا کیلئے ایک ناسور سمجھتے ہیں اور کسی بھی صورت اسکی حمایت نہیں کرسکتے اور نہ کرینگے لیکن ہمارے دشمن کا دشمن ہمارا دوست ہے اس حقیقت سے بھی ہم انکار نہیں کرسکتے اور نہ کرینگے
ملک سراج :آپکی تنظیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ صرف بلوچستان کے اندر کاروائی کرتے ہیں۔ کیا کراچی والا واقعہ آپکی حکمت عملی میں تبدیلی کی طرف نشان دہی کرتا ہے؟ بلوچستان سے باہر کارروائی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
استاد اسلم بلوچ : صرف اسلئے کہ ہم اپنے تنظیم کی طاقت اور صلاحیت کا اظہار کرنا چاہتے تھے
ملک سراج :اطلاعات ہیں کہ بی ایل اے دو گروہوں میں تقسیم ہوگئ ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ آپ ہیں کیونکہ آپ کی قیادت میں تنظیم میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے سابقہ قیادت کو نکال دیا ہے یا نظر انداز کیا ہے۔ کیا واقعی اندرونی سطح پر ایسے اختلافات ہیں؟
استاد اسلم بلوچ :ہمارے اختلافات کی بنیادیں مڈل کلاس و اپر کلاس کے ہرگز نہیں تھے۔ تنظیم کے اندر ہم نے ایک ایسے ذہنیت سے اختلاف رکھا جسکا طریقہ کار کسی صورت بھی سیاسی اور انقلابی نہیں تھا۔ ہم نے اس ذہنیت میں بدلاو کی کوششیں کیں۔ ہم نے ادارہ جاتی طریقہ کار پر زور دیا ہم نے وراثتی بالادستی اور شخصی اجارہ داری سے دستبرداری کی مانگ کی لیکن بد قستمی ہمیں بدترین شخصی آمریت کا سامنا کرنا پڑا جس سے ہمارا کام و کارکردگی برائے راست متاثر ہوا گو کہ ہم گذشتہ کئی سالوں سے ایسے رویوں سے متاثر تھے لیکن یہاں یہ ناقابل برداشت ہوچکے تھے ہم نے پھر بھی بدلاو کےلئے موقع فراہم کیا لیکن بدقسمتی سے ہمارے اس عمل کو ہماری کمزوری سے تعبیر کرکے ہم پر مزید غیرسیاسی طریقہ کار سے دباؤ بڑھایا گیا ان سب کا تعلق برائے راست سابقہ قیادت سے تھا اسلئے تنظیم کی اکثریت نے سابقہ قیادت پر عدم اعتماد کرکے اسے تنظیم سے باہر کردیا
ملک سراج :ہر مسلح تنظیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا اصلی قائد ملک سے باہر بیٹھا ہے ۔ کیا آپ ان باتوں سے اتفاق کرتے ہیں ؟ ان کے ملک سے باہر ہونے کا آپ کی کارروائیوں پر کیا اثر پڑا ہے؟
استاد اسلم بلوچ :حالات کے مطابق متفقہ فیصلوں اور حکمت عملی کے تحت اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ قیادت واضح مقاصد کے تحت کسی بھی ممکنہ مقام میں بیٹھکراپنا کام کرسکتا ہے لیکن صرف اور صرف ایک محفوظ زندگی کےلئے ایسا کرنا بہتر نہیں مانا جاتا بہترین طریقہ کار اور ایک منظم تنظیم ہی ایسے صورت حال میں توازن برقرار رکھ سکتا ہے بصورت دیگر قیادت پر برائے راست سوالات اٹھتے ہیں۔ بذات خود میں یہ سمجھتا ہوں کہ بلوچ قومی تحریک میں یہ طریقہ کار ناکام ہوتے نظر آرہا ہے کیونکہ جہاں آپ ایک محفوظ زندگی چاہتے ہیں وہاں کے لوگ آپ سے امن کی ضمانت چاہتے ہیں تو آپ کو جیل یا میدان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ کاسترو اور نیلسن منڈیلا کی طرح ظاہر ہے کہ دوسری طرف صرف دستبرداری ہی نظر آتی ہے۔
ملک سراج :سی پیک کی وجہ سے آپکی تحریک پر کیا اثر پڑا ہے؟ کیا اس وقت آپکی تنظیم اور دیگر ہم خیال جماعتوں کی توجہ کا سب سے بڑا مرکز سی پیک اور چین کی بلوچستان میں آمد ہے؟
استاد اسلم بلوچ :سی پیک بلوچ قومی تحریک کےلئے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ پاکستان اور چین کے گٹھ جوڈ نے ہمارے مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ سی پیک کے نام پر ہونے والے اقدامات برائے راست بلوچ قومی مفادات کے خلاف ہیں وہ چائے عسکری حوالے سے ہوں یا اقتصادی یا غیر بلوچوں کی آباد کاری کے حوالے سے ہوں۔ جی ہاں ہم اور ہمارے تمام ہم خیال ساتھی اس بات پر توجہ مرکوز کرچکے ہیں کہ چائنا کو بلوچستان سے جلدازجلد دستبردار کراسکیں ۔
ملک سراج :کچھ عرصہ پہلے یہ اطلاعات تھیں کہ چین نے براہ راست بلوچ مسلح تنظیموں سے مذاکرات کے لئے رابطہ کیا ہے۔ کیا اس سلسلے میں آپ سے رابطہ کیا گیا؟ کن امور پر بات ہوئی؟ اگر نہیں ہوئی تو کیا مذاکرات کے لئے آپ کے کوئی شرائط ہیں؟
استاد اسلم بلوچ :ہمیں بھی میڈیا کے ذریعے ایسے خفیہ مذاکرات کا پتہ چلا جسکی ہم نے فوراً تردید کردی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم بلوچ قوم کی مستبقل اور اجتماعی مفادات کے تحفظ پر کسی بھی قسم کی لین دین کی حمایت نہیں کرینگے بلکہ اسکے خلاف مزاحمت کرینگے۔ ان حالات میں چین سے مذاکرات اور شرائط کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہم اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں کیا ہم لین دین یا سودے بازی کا متحمل ہوسکتے ہیں؟ میرے خیال سے ہرگز نہیں۔ یہ ایک خیانت ہوگی اپنے قوم اور ملت سے۔ ہمارا ایک صاف اور واضح پیغام ہے کہ چین جلداز جلد بلوچ سرزمین پر جاری اپنے تمام استحصالی منصوبوں سے دستبردار ہوکر بلوچستان سے نکل جائے۔
ملک سراج :بلیدہ میں ہونے والے حالیہ واقعہ کی ذمہ داری تین مسلح تنظیموں نے ایک ساتھ قبول کی۔ کیا مسلح تنظیموں نے مشترکہ کارروائیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے؟ حکمت عملی میں تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟
استاد اسلم بلوچ :پاکستان ہمارے استحصال اور ہمارے سرزمین پر جاری اپنے لوٹ مار کےلئے کہاں کہاں سے اتحادی ڈھونڈ نکالتا ہے تو کیا ہم ایک قوم ایک مقصد اور ایک منزل ہونے کے باوجود ایک ساتھ ملکر کام نہیں کرسکتے؟ ہم تو فطری اتحادی ہیں ماضی میں ہمارے سماجی ہیئت کی وجہ سے کچھ مشکلات تھے جو گذرتے وقت کے ساتھ اپنے تشکیل اور جدت کا سفر طے کرتے ہوئے بہتری کے طرف محو سفر ہیں۔ کچھ سطحی و فروعی مسائل میں الجھانے کی وجہ سے ہمارا توجہ اصل ہدف سے ہٹادیا گیا تھا۔ تحریک دشمن کی طرف سے شدید دباؤ کا شکار ہوا اور ہمیں بہت سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا جسکی وجہ سے زیادہ منظم انداز میں کام کرنے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا اپنی منتشر قوت کو منظم انداز میں کام میں لایا جائے تو اس پر دوست کام کررہے ہیں تاکہ مزید بہتر نتائج سامنے آئیں۔
ملک سراج :پاکستانی میڈیا میں خبریں گردش کررہی ہیں کہ آپ کا بھارت میں علاج ومعالجہ ہوا ہے۔کیا یہ درست ہے؟
استاد اسلم بلوچ :دشمن کا ایسے افواہیں پھیلانے کا مقصد شاہد اس دباؤ کو کم کرنا ہے جس کو ہمارے ہمسایہ ممالک نے پاکستان پر اسکے دہشتگردی کی پشت پناہی کرنے پر بنا رکھا ہے۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہ پاکستان ہے جہاں مذہبی شدت پسندوں کے علاج معالجے کےلئے بہت سے بڑے اور جدید ہسپتال مخصوص ہیں۔ ایک ایسا ملک (پاکستان) جہاں یہ سب کچھ ہورہا ہو وہ میرے علاج کےلئے بھارت جانے پر واویلا مچائے تو اس بات کے مقصد کو سمجھنا مشکل نہیں کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ جہاں تک میرے علاج کےلئے کئی جانے کی بات ہے تو میں کئی بھی آ جا سکتا ہوں علاج کرواسکتا ہوں اس میں خرابی والی بات کیا ہے ؟
ملک سراج :کوئی ایسا مسئلہ جس کے بارے میں، میں نے نہیں پوچھا ہے لیکن آپ اس پر کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
استاد اسلم بلوچ :بس اپنے پڑھے لکھے طبقے اور دانشور حضرات سے یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ وہ حالت جنگ کی حقیقت کو مدنظر رکھکر بلوچوں کی راہنمائی کریں۔ باہم جوڑے سماجی و سیاسی معاملات کی حساسیت اور باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ ایک بڑے فوجی ریاست سے نبردآزما کسی بھی تنظیم کو درپیش مشکلات کا انداذہ کرتے ہوئے انکا معاون و کمک کار بن سکیں۔
بشکریہ ملک سراج اکبر