Powered By Blogger

вторник, 30 января 2018 г.

بلوچ قوم نے پاکستان کیخلاف جنگ میں اپنی زبان و ثقافت اپنائی ہے...ڈاکٹر اللہ نذربلوچ کا خصوصی انٹرویو
بھارتی نشریاتی ادارے’’ سنڈے گارجین لائیو ‘‘کیساتھ بلوچ رہنما
ڈاکٹر اللہ نذربلوچ کا خصوصی انٹرویو
انٹرویو: مشرا ابھی نندن
بلوچستان کے آزادی کے لئے لڑنے والے ایک بڑے باغی گروہ کے رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے صوبہ بلوچستان میں ایک غیر معمولی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ بھارتی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے سربراہ نے نامعلوم مقام سے فون پر بات کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے کیے گئے دعوؤں کے برعکس کہا کہ کلبھوشن جادو کو پاک افغان سرحد پر واقع شہر چمن سے گرفتار ہی نہیں کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق جادو کو ایران کے شہر چابہار سے زرخرید سپاہیوں اور اسمگلروں نے اغواء کیا تھا اور پھر اسے ایک دہشت گرد گروہ کو فروخت کردیا ۔ اس کے بعد انہوں نے اسے آئی ایس آئی کو فروخت کردیا تھا۔
مشرا ابھی نندن: آپ وہ واحد رہنما ہیں جو بلوچستان میں رہتے ہوئے ایک آزاد بلوچستان کے لئے لڑ رہے ہیں۔ دیگر رہنماء ’’جلاوطنی‘‘ میں ہیں۔ آپ اپنی مسلح جدوجہد کو کس طرح سے جواز پیش کرتے ہیں جس میں، بقول آپ کے، آپ لوگوں نے 2000 پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے؟
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ:نہ صرف میں بلکہ میرے ساتھی، جو اپنی سر زمین پر موجود نہیں ہیں، بھی ایک آزاد بلوچستان کے لئے لڑ رہے ہیں۔ مسلح جدوجہد کے بغیر ہم بلوچستان کی آزادی حاصل نہیں کرسکتے۔ بلوچ کے پاس کوئی اور طریقہ نہیں ہے کیونکہ نوآبادیاتی طاقتیں اور باقی دنیا صرف بندوق کی گھن گرج ہی سنتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ محض 2000 فوجی اہلکار ہلاک کیے گئے ہیں، لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری قوم (بلوچ) نے (پاکستان سے نمٹنے کے لئے) اپنی ثقافت اور زبان اپنائی ہے۔
مشرا ابھی نندن: بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کیوں سی پیک کے خلاف ہے چونکہ پاکستان اور چین دونوں کا دعویٰ ہے کہ یہ بلوچستان میں خوشحالی لائے گی؟
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: بلوچ قوم نہ صرف سی پیک کے خلاف ہے بلکہ ان تمام سامراجی منصوبوں کے بھی خلاف ہے جو بلوچ مفاد کے خلاف ہیں۔ سی پیک شاید پنجاب کے لئے خوشحالی لے آئے، لیکن بلوچ ڈیموگرافیک تبدیلی سے متاثر ہوں گے اور اس منصوبے سے ایک ایسی تباہی آئے گی جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
مشرا ابھی نندن: آپ نے حال ہی میں ٹویٹ کیا تھا کہ ہندوستانی شہری کلبھوشن جادو کو آئی ایس آئی اور سعودی عرب کی پشت پناہی سے چلنے والے دہشتگرد گروہ جیش العدل اور جنداللہ کے ملا عمر گروپ کی طرف سے اغوا کیا گیا تھا۔ کیا آپ اس کی مزید تفصیلات دے سکتے ہیں؟ کیا یہ حتمی سچ ہے؟ وہ کب اغوا ہوئے اور کیوں؟
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: جی ہاں، پاکستانی آئی ایس آئی جیش العدل کی حمایت کررہا ہے اور سعودی عرب جند اللہ اور جیش العدل دونوں کی مالی امداد کر رہا ہے۔ یہ دونوں تنظیمیں اس خطے میں دہشت گرد سرگرمیاں کر رہی ہیں اور یہی بھارتی شہری کو ایران کے شہر چابہار سے اغوا کرنے میں ملوث تھے۔
ہمارے ذرائع کے مطابق، ہندوستانی شہری کو کبھی بھی چمن کی سرحد پر نہیں دیکھا گیا (پاکستان نے سب سے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ جادو کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان چمن کی سرحد سے گرفتار کیا گیا تھا)۔ ابتدائی طور پر پاکستان نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اسے چمن کی سرحد سے گرفتار کیا ہے، لیکن بعد میں انہوں نے کہا کہ اسے بلوچستان کے ضلع واشک سے گرفتار کیا گیا۔ بعد میں انہوں نے ایران کو بھی (اس پورے معاملے میں) شامل کیا، لیکن ایرانی حکومت نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
مشرا ابھی نندن: آپ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ لشکر طیبہ کے تربیتی کیمپ بلوچستان میں موجود ہیں۔ کس طرح سے پاکستانی فوج ان کیمپوں کا کھوج نہیں لگا سکی ہے، جس کی طرف سے اس پورے علاقے میں باقاعدگی سے آپریشن کیے جا رہے ہوں؟
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ:لشکر طیبہ پاکستانی فوج کیلئے ایک اثاثہ ہے۔ آپ پاکستانی فوج سے ان کا کھوج لگانے کی توقع کس طرح سے کر سکتے ہیں؟ لشکر طیبہ بلوچ تحریک آزادی کے خلاف بھی کارروائیاں کرتی ہے۔
مشرا ابھی نندن: پاکستان نے آپ پر بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنے کا الزام لگایا ہے۔ آپکی رائے؟
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ:میں واضح طور پر اس کو آئی ایس آئیکن ہوگا۔ علاقائی استحکام اور امن بلوچ ریاست کی آزادی پر منحصر ہے۔ ہم مہذب دنیا سے بلوچ قوم کی حمایت کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔


ڈاکٹر منان بلوچ ایک عظیم رہنما
تحریر:کمال بلوچ (وائس چیئرمین بی ایس او آزاد)
ڈاکٹر منان بلوچ نے ( (3/9/1969کو مشکے کے علاقے نوکجو میں مولوی اللہ بخش کے ہاں آنکھ کھولی۔بچپن میں ہی والد کی موت کے بعد اپنے چچا کے ہاں رہنے لگے۔ پرائمری تعلیم نوکجو سے حاصل کرنے کے بعد میٹرک تک ہائی اسکول مشکے گجر میں پڑھنے گئے۔ جبکہ ایف ایس سی عطا شاد ڈگری کالج تربت سے کیا ۔اسی دوران آپ ایک اسکول ٹیچر منتخب ہوئے، جھاؤ میں اپنے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ آپ نے بولان میڈیکل کالج میں انٹری ٹیسٹ دیا اور ایک میڈیکل کے اسٹوڈنٹ کی حیثیت سے آپ نے اپنی ’’ٹیچر کی‘‘ نوکری چھوڑ دی اور MBBSمکمل کرنے بعد آپ میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے مشکے،آواران،جھاؤ اور گریشہ(نال) میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر منان بلوچ کی زندگی ایک ایسی کتاب کی مانند ہے جسے پڑھنے و سمجھنے کے لئے دل و دماغ کا ہونا ضروری ہے اُسے سمجھنے کیلئے فیصلہ دل کا ہو نا چاہیے کیو نکہ ڈاکٹر منان بلوچ ہر وقت اپنی دل کے فیصلے کیا کر تے تھے آپ وہ انسان تھے جو ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک تھے آپ ایک سیاسی استا د ایک دوست اور ایک شفیق بھا ئی کی طرح تھے ۔آپ خو د میں ایک مضبوط ادار ہ تھے جو ہر ایک کو علم کی دریا سے روشناس کیا کر تے تھے۔ڈاکٹر منان بلوچ ایک ایسے انسان تھے کہ جس کی فعل و قول میں کسی قسم کا کوئی تضاد موجود نہیں تھا۔ وہ جو کہتے وہ کر کے دکھا بھی دیتے تھے ۔آپ ہروقت کہتے تھے کہ اگر انسان کے ارادے پختہ ہوں تو انہیں مشکل سے مشکل ترین کام کرنے میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہیں ہوسکتا۔ ڈاکٹر منان سیاست اور سماجی سرگرمیوں کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے۔ عوام کے مسائل سن کر انہیں حل کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں طلباء سیاست کا حصہ رہے اور اپنی طالب علمی سے فراغت کے بعد بلوچ نیشنل موؤمنٹ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے قومی آزادی کی تحریک میں پیش پیش رہے ۔کافی عرصے سے اپنی نوکری سے وابستہ رہنے کے بعد اپنی پارٹی فیصلے کی بنیاد پر آپ نے استعفی دیا اور بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے کاموں میں بلوچ قوم کی نمائندگی کرتا رہا اور اپنی زندگی بلوچ قومی آزادی میں بر سرپیکار بی این ایم کیلئے وقف کردی۔ بلوچ نیشنل موؤمنٹ کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔بی این ایم میں قائد غلام محمد بلوچ،لالا منیر،ڈاکٹر منان،حاجی رزاق،رزاق گل،صمد تگرانی،جاوید نصیر،آغا محمود ،نوروز جان،اشرف جان ،حنیف جان اور شہید ساجد جان جیسے سینکڑوں کارکنان و رہنماؤں نے قربانی دی،تب جاکر بلوچ نیشنل موؤمنٹ بلوچ آزادی کی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل کرچکی ہے ۔بلوچ قومی سیاست میں بر سر پیکار کارکناں و رہنماء اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جب آپ ایک سماج کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی ٹھان لیتے ہیں تو تکلیف دہ راستوں سے گزرنا نا گزیر بن جاتا ہے۔سماجی تبدیلی یا قوموں کی خوشحالی قربانیوں کا تقاضہ کرتی ہے ۔ڈاکٹر منان بلوچ انہی تقاضوں کے مطابق اور انہیں منطقی انجام تک لے جانے کیلئے ہر وقت تنظیمی کاموں میں مصروف عمل رہتے تھے،ڈاکٹرمنان بلوچ بین الاقوامی سیاست و قومی سیاست میں عظیم مہارت رکھتاتھا،بلوچستان کے کونے کونے میں عوامی موبلائزیشن کرنا ڈاکٹر کا شیوا تھا۔ ڈاکٹر منان کو جس کسی نے ایک بار دیکھاآپ کو قریب سے دیکھا تو ایک استاد کی درجہ دیتے ہیں۔
ڈاکٹر منان بلوچ سے میرا پہلا سیاسی دیوان غالباََ 2004کو مشکے کے ایک مقامی ہوٹل میں ہوا جہاں وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ بیٹھے تھے۔ ہم نے بی ایس او آزاد کی سہ ماہی سگار ان کے حوالے کی تو انہوں نے اس کی فیس سے زیادہ پیسے ہمیں دئیے اور ہمیں چائے پینے کو کہا۔ چائے کے دوران سیاسی گفتگو بھی شرو ع ہوئی۔اس وقت ہمیں بی ایس او کے پلیٹ فارم کو جوائن کرتے کچھ وقت ہی ہوئے تھے۔باتوں باتوں میں ڈاکٹر منان بلوچ نے سگار ’’جو ان کے ہاتھ میں تھی‘‘ کے بارے میں گفتگو شروع کی۔ میرے خیال میں یہ بی ایس او متحدہ کا پہلا سگار تھا جو بلوچستان میں تقسیم ہو رہا تھا۔انہوں نے ہم سے سوال کیا اور اس سوال کا جواب بھی خود دیتے ہوئے کہا کہ سگار جدوجہد کی علامت ہے، اور اس کتاب کے پچھلے پیج میں موجود شہید فدا احمد کی تصویر ہمیں قربانی کی درس دیتی ہے۔
ڈاکٹر منان بلوچ سے مجھے یہ شکایت تھی کہ وہ اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر ہر جگہ و علاقے میں لوگوں سے ملنے جاتی ہے۔ یہ بات میں نے انہیں بھی کہا کہ انکی زندگی کا نقصان قومی تحریک اور ہم جیسے کارکنوں کے لئے ناقابلِ تلافی نقصان ہو گی۔ ایک مرتبہ وسعت اللہ خان نے شہید صباء دشتیاری (معلمِ آزادی) کی شہادت کے موقع پر اپنے کالم میں لکھا تھا کہ عظیم لوگ دل سے فیصلے لیتے ہیں۔ ڈاکٹر منان بلوچ بھی پارٹی فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے دل سے فیصلہ لیتے تھے۔ مگر ان کی شہادت سے جو خلا بلوچ سیاست میں پیدا ہوا اسے شاید ہی کبھی بھرا جا سکے۔ 
ڈاکٹر منان میں وہ تمام صلا حتیں موجود تھیں جو ایک انقلابی میں پا ئے جاتے ہیں۔ ان کی انقلابی تعلیم سے وہ تمام سیا سی کا رکن سیر آب ہو ئے ہیں جو انقلا بی سفر میں گامزن ہیں۔ آپ ہر وقت انقلا ب کی کامیا بی اور ہما ری ذمہ داریو ں پر بحث کر تے تھے کہ بلو چ قومی تحر یک آزادی جس مو ڈ میں داخل ہے اُس کیلئے کتنی قر بانی درکا ر ہو تی ہے اور اُس کے ساتھ آنے والے ریا ست جو قوم کی ہو گی۔ وہا ں قومی انصاف اور بر ابر ی ہو گی جو طا قت انقلا ب کو ہائی جیک کرنے کی سوچتے ہیں یا یہ کہنازیا دہ منا سب ہو گا کہ انقلاب کو نقصان دینے میں مہا ر ت رکھتے ہیں ان سے بچانے کی درس دیتے تھے اس لئے پاؤلو فریرے کی اس قول کو بار ہا دہراتے کہ آزادی نیم انسانی طریقوں سے حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ڈاکٹر منان بلوچ تنظیم کی مضبوطی کو ہی آزادی حاصل کرنے کے لئے اولین شرط سمجھتے تھے۔ڈاکٹر منان بلو چ میر ے جیسے کارکن کیلئے ایک یو نیو رسٹی کی مانند ہیں جہاں سے ہزاروں انسان سیاسی تعلیم سے آراستہ ہو ئے ہیں۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گاکہ ڈاکٹر منان کوبلوچ انقلابی درسگاہ کے لقب سے نوازنا بھی کم ہو گا ۔ڈاکٹر منا ن بلوچ اپنی ذاتی زندگی کو قر بان کر چکے تھے یہ عمل مکمل ایک انقلا بی کی شان ہو تی ہے انقلا ب اور قر بانی لازم و ملزوم ہیں قر بانی سے بغیر انقلا ب ناممکن ہے اس بنیا د پر انقلاب قر بانی دینے اور قربان ہو نے کی درس دیتی ہے ۔ 
ڈاکٹر منان نے ہرقسم کی تکالیف برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ مگر اس بات کو ہر وقت کہتے "مجھے سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوئی جب کچھ لوگ مجھے بی این ایم سے نکالنے کے لئے گروہ بندی کررہے تھے،در اصل یہ وہی لوگ تھے جو بی این ایم کو ہائی جیک کرنے کی کوشش میں تھے۔ لیکن شہید غلام محمد جیسے معاملہ فہم لیڈر نے ان لوگوں کی سازشوں کو ناکام بنایا اور ڈاکٹر منان بلوچ سنٹرل کمیٹی ممبر منتخب ہوئے۔جو لوگ ڈاکٹر منان کے مخالف تھے آج ان کا اپنا کوئی کردار نہیں۔ مگر ڈاکٹر منان بلوچ نے ہر وقت بلوچ عوام میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ،ڈاکٹر منان بلو چ نے یہ ثابت کی کہ کسی تنظیم کی عظیم مقصد کیلئے خو د کو قر با ن کر نا گھاٹے کا سودا نہیں کیونکہ تنظیم ہی آزادی کے لئے راہ ہموار کر تی ہے ۔بلو چ نیشنل مو ومنٹ کے بانی ممبروں میں ایک ڈاکٹر منان بلو چ بھی تھے بلو چستان میں بلو چ نیشنل مومنٹ کو فعال کر نے میں انہوں دن و رات ایک کی ۔مر کز ی سیکڑیر ی جنرل ہو نے کے باوجو د تنظیم کو فعا ل کر نے میں عام کارکن کی طر ح ہر جگہ تنظیم کے لئے کام کر تے تھے ۔بی این ایم کو ایک قومی پارٹی کی شکل میں لا نے میں ڈاکٹر منان بلوچ کا کر دار کا فی نمایا ں ہے،آپ عام زندگی میں دوسروں کی ایسے بہت سے کمزوری کو ضر ور برداشت کر تے تھے مگر آپ تنظیمی غلطیوں کو کبھی بر داشت نہیں کیا کر تے تھے جو ان سے دیکھا نہیں جا تا وہ ہر عمل کے با رے میں باریک بینی سے بحث کر تے تھے تاکہ سامنے سننے والے کو احساس ہو کہ تنظیم ہر اس عمل کی وکا لت کر تی ہے جس کا تعلق معاشرے سے ہو۔ جہاں ڈاکٹر منان بلوچ کا ذکر ہو اور چیئرمین زاہد بلوچ کا تذکرہ نہ ہو تویہ ناکافی بحث ہو گی۔ مجھے ان دونو ں رہنما وءں کو کا فی نز دیک سے ملنے کا موقع نصیب ہو ا ہے ۔وہ خو د ہر وقت ایک دوسر ے کو اپنا استا د کہتے تھے، کوئی تنظیمی اجلاس ہوتا یا عام مباحثہ ہو تا تو یہ دونوں رہنماء ہمیشہ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں برسرپیکار پارٹیوں کو یکجا ہو کر جدوجہد کرنے پر زور دیتے۔ ان کے بقول ایک مضبو ط پا رٹی یا ایک مضبو ط اتحاد کا میا بی کی ضامن ہے ،ڈاکٹر منان بلوچ وہ سرخیل رہنما تھے جو عوامی انقلاب کی خاطر بلو چستان کے تما م جگہوں میں گئے تھے ۔ڈاکٹر منان انقلا ب و آزادی کی تنظیم کو وہاں تک پہنچایا جہا ں پر پا کستان کے پا لے ہو ئے پا رلیمنٹ پر ست اور سردار وں کی طا قت جھوٹ کے سائے میں لو گو ں کو بے وقوف بنائے ہوئے تھے۔ سرداروں نے بلو چ معصوم عوام پر اتنی ظلم بر سائی ہے کہ وہ زندگی سے بیزار تھے مگر وہا ں ڈاکٹر منان حو صلہ بن کر لو گوں میں صلا حیت پیدا کرتا تھا۔ بلو چستان کے تما م علا قوں میں آزادی کا پیغام لے کرپہنچ جا تا ۔ ڈاکٹر کی شہا دت نے بلو چ تحریک پر گہر ا اور ناقابل تلافی خلا چھوڑا ہے۔ ہر بلو چ کہتا ہے کہ ہم ایک عظیم عالم سے محر وم ہو ئے ہیں ہر دل عزیر رہنما کی شہا دت اس وقت ہو ئی جس وقت کچھ لوگ بلو چ تحر یک درمیان بدگمانیاں پید اکر نے کو شش کر رہے تھے۔ چیئرمین زاہد بلوچ و ڈاکٹر منان بلوچ قومی یکجہتی و ان گروپوں کی منفی اثرات سے قومی تحریک کو بچانے کے لئے انتہائی سرگرم تھے۔تاکہ بلوچ عوام کے حوصلے مضبوط رہیں اور انہیں کسی مایوسی سے بچایا جا سکے۔ ڈاکٹر منان بلوچ مکر ان سے لیکر سروان تک تنظیم کو فعال کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے۔ ڈاکٹر منان بلو چ تحر یک آزاد ی کے کاروان کی ہمسفر وں سے ملنے کیلئے سراوان میں مو جو د تھے کہ پا کستانی فو جی کاروائی میں اپنے پا نچ کا مر یڈوں کے ساتھ شہید ہوئے ۔ ایک دانشور کا قول ہے کہ" سورج ان لو گو ں کیلئے پہلے چمکتا ہے جو مستقل مزاجی دکھاتے ہیں اور ان کیلئے بعد میں جو سجدے میں گر ے ہو ئے ہوتے ہیں "۔بلو چ فر زند وں نے یہ ثابت کیا کہ وہ سجدہ ریز نہیں تھے بلکہ آزادی کے لئے جدوجہد کررہے تھے۔بلوچ شہدا یہ ثابت کررہے ہیں کہ بلوچ تحریک کو طاقت کو زور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔

четверг, 25 января 2018 г.

شہید فاضل بلوچ عرف گہرام بلوچ کی زندگی اور جدوجہد

‏‎تحریر : اسماعیل بلوچ‏‎
شہید فاضل بلوچ عرف گہرام بلوچ یکم مارچ 1994 ء میں بلوچستان کے علاقے مند گیاب میں واجہ محمر عمر کے گھر پیدا ہوئے انہوں نے اپنا ابتدائی تعلم گیاب پرائمری اسکول میں حاصل کیا اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہائی سکول مند سورو میں داخلہ لیا۔آپ نے اپنا میٹرک تک کی تعلیم ہائی اسکول مند سورو میں مکمل کی ۔شہید ایک انتہائی زہین ، خوش اخلاق اور ہونہار انسان تھے ۔آپ فٹبال کھیلنے کے انتہائی شوقین تھے اور ایک بہترین گول کیپر بھی تھے ۔
‏‎شھید فاضل بلوچ نے اپنے سیاسی کیرئر کا آغاز ۲۰۰۸ بلوچ طلبہ تنظیم بی آر ایس او کی فلیٹ فارم سے کیا۔ مگر اپنے انتھک محنت اور سر زمین سے سچی محبت اور جنونانہ سیاسی سرگرمیوں کے سبب کچھ وقت کے بعد شھید فاضل بلوچ بی آر ایس او مند گیاب زون کے جنرل سیکریٹری تعینات کیے گئے۔اور اس دوران شہید نے سیاسی سرگرمیوں کو متحرک کیا، سیاسی سرکلز ، بلوچی ادب اور تاریخ کا مطالعہ کیا ۔ ساتھ ہی مختلف یونٹوں میں سیاسی سر کلز کا انعقاد بھی کیا ،یاد رہے کہ اُس وقت مند میں سیاسی سرگرمیاں انتہائی محدودسطح تک پہنچ چکے تھے ۔
‏‎بلوچستان کے موجودہ حالات اُس وقت سیاسی سرگرمیوں کے لیے انتہائی نا موزوع اور پر خطر تھے اورسیاسی لیڈران و سیاسی کارکنوں کا پاکستان فوج کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پراغواہ اور مسخ شدہ لاشوں کا پھینکنا روز کا معمول بن چکا تھا ، پُرامن جلسہ جلوسوں پر قدغن اور فوج کا سیاسی سر گرمیوں پرحملہ کرنا معمول کی بات بن چکا تھا ۔ایسے حالات میں پُرامن سیاست کرنا یقیناً شہید فاضل بلوچ کے لیےبھی انتہائی مشکل ہوا ہوگا۔ اسی صورت حال کو دیکھ کر شہید فاضل بلوچ نے اپنی نزدیکیاں بلوچ مسلح تنظیموں سے استوار کرنا شروع کیں و بلوچ آزادی پسندمسلح تنظیم بی آر اے میں شمولیت اختیار کی اور 2010 میں شہید فاضل بلوچ نے اپنے دو مہینے کی گوریلہ جنگی ٹریننگ بی آر اے کی منگوچر (مستونگ) کیمپ میں مکمل کرنے کے بعد واپس اپنے علاقے مند میں بلوچ سر زمین کی آزادی کی خاطر مسلح محاز میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں مگر کچھ وقت گزر جانے کے بعد شہید فاضل بلوچ نے بی آر اے چھوڑ کر بی ایل ایف میں شمولیت اختیار کی اور بی ایل ایف کی فلیٹ فارم سے شہری زمہ داریاں سنبھال لیں جب شہید فاضل بلوچ کے قریبی ساتھی شہید زبیر بلوچ کو پاکستانی فوج نے 2011 میں اغواہ کرکے اُس کی مسخ شدہ لاش پھینک دی تواس صورت حال کی وجہ سے وہ مزید شہروں میں رہکر جہد و جہد نہ کرسکے اور دوستوں کے مشورے کے مطابق کچھ تنظیمی زمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے وہ مختصر عرصے کے لیے بیرون ملک چلا گیا ۔اسی اثنا میں شہید فاضل بلوچ کے بھائی حیام بلوچ اور کزن گہرام بلوچ کو پاکستانی فوج نے مند گیاب کے ایک ہوٹل سے اغوا کرکے کچھ دنوں بعد دونوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی۔بیرون ملک شہید دو لاکھ کے تنخواہ کی ایک پر کشش نوکری پر تعینات ہوگئے تھے مگر مختصر عرصے کے بعد جب شہید کو احساس ہوا کہ وہ یہاں بیرون ملک اپنا تنظیمی زمہ داریاں مکمل کرچکے ہیں تو واپس بلوچستان (جنگی محاز پر) چلےگئے ۔‏‎شہید فاضل بلوچ (چونکہ ہم اوپر زکر کر چکے تھے)نے اپنے زاتی پیسوں سے ایک کروزر پِک اپ گاڈی ، دو موٹر سا ئیکل اور ایک قیمتی اسنائپر رائفل اپنے تنظیم کو خرید کر دی تھیں ۔
حالانکہ ‏‎شیید کے بیرون ملک پُر کشش نوکری کے چھوڑنے کے عمل سے شہید کےرشتہ داروں نے شہید فاضل بلوچ پر شدید تنقید کی تھی کسی نے کہا وہ دیوانہ و پاگل ہے جو ایسے پُر مراعات نوکری کو چھوڑ کر واپس بلوچستان چلا آیاہے کسی نے اسےنادان کہا اور کسی نے کچھ اور طنزیہ الفاظ ۔مگر چونکہ شہید کے سامنے ایک عظیم سے عظیم تر مقصد تھا اس لیے شہید نے اپنے نظریہ ، اپنے آدرش اور قومی جہد و جہدسے سمجھوتہ نہیں کیا اور تمام باتوں کو نظر انداز کرکے وہ محاز پر اپنے قومی فرائض کی انجام دہی میں مگن رہے یقیناً ایسے ہی انسانوں کو عظیم کہتے ہیں جو کسی بھی قسم کی مراعات و پُرامن ممالک میں تمام سہولیات سے اپنے قومی تحریک اور ایسے پُر گٹھن راستوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جو ہر لمحہ تکلیف سے برے ہوتے ہیں اوروہ قوم کے آنے والے روشن کل (مستقبل) کے لیے اپنے آج کو قربان کرتے ہیں ویسے رشتہ داروں نے سچ کہا تھاوہ دیوانہ ہی تھا یقیناًاپنے قوم اپنے مادر وطن کی آزادی کی خاطر وہ مکمل دیوانہ ہی تھا ۔
‏‎ دوران محاظ شہید فاضل بلوچ نے انتہائی محنت کی دن رات اپنے دوستوں کے ہمراہ دشمن کے سامنے چٹان کی طرح کڑے رہکر دشمن کا مقابلہ کیا شہید فاضل بلوچ کی صلاحیت کو دیکھ کر اس کی تنظیم نے شہید فاضل بلوچ کو اپنے مند کے نیٹ ورک کا ڈپٹی کمانڈر منتخب کیا یقیناً شہید فاضل بلوچ کو ایک ہی رات میں یہ عہدہ نہیں دیا گیا تھا بلکہ ایک طویل جدوجہد ، محنت ،مختلف حالات و واقعیات و مصائب کے مراحل سے گزر کر اپنے صلاحیتوں کی بنا پر وہ اس مقام تک پہنچ گیا تھا۔
‏‎میں یہاں یہ زکر کرنا ضروری سمجھوں گا اور یقیناً تمام دوستوں کو بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جب بلوچستان لبریشن فرنٹ نے منشیات سے متاثرہ نوجوانوں کی ری ایبلیٹیشن کے لیے ایک ادارہ تشکیل دیاتھا ‏‎تو پس منظر میں اس ادارے کے روح روان شہید فاضل بلوچ ہی تھے۔کہ جہاں شہید متاثرین کی نہ خالی علاج بلکہ تمام ضروریات کے زمہ دار تھے ۔
‏‎جیسا کہ ہمیں معلوم ہے آج بلوچستان کا کوئی بھی علاقہ پاکستانی ریاستی دہشتگرد ی وفوج کے شر سے محفوظ نہیں ہے اور بلوچستان بھر میں فوجی آپریشنز شدت سے جاری ہیں اس حالات میں بلوچ قوم کی کثیر تعداد اپنے گھر بار چھوڑ کر در بدر ی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کچھ اندرون سندھ ، کچھ کراچی اور کچھ مغربی بلوچستان اپنے رشتہ داروں کے پاس چلے گئےہیں میں یہاں یہ واضح کروں کہ پاکستانی ریاستی جبر سےبچنے کے لیےمغربی سرحدی علاقاجات کے لوگ اکثر یت مغربی بلوچستان میں اپنے رشتہ داروں کے پاس پناہ لینے میں مجبور ہیں اوران میں سے ایک خاندان شہید فاضل بلوچ کا بھی تھا ۔شہید کے کچھ رشتہ دار بھی مشرقی بلوچستان میں فوجی بربریت کے نتیجے میں ہجرت کرکےمغربی بلوچستان میں رہاہش پزیر ہیں ۔
‏‎شہید فاضل بلوچ 5 جنوری 2018 میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے مغربی بلوچستان گئے ہوئے تھے اور 8/ 9 جنوری 2018 کی درمیانی شب کو وہ واپس اپنے علاقے روانہ ہوئے مگر جب باڈر پار کرنے کی کوشش کی تو قابض ایرانی سرحدی فورسز نے اُسے فائرنگ کرکے شدید زخمی اور گرفتار کرکے اُسے اپنے ساتھ لے گئے اس وقت اُس کے ساتھ اسکے مغربی بلوچستان کے ایک رشتہ دار بھی ساتھ تھا جب شہید کے قریبی رشتہ داروں کو شہید کی زخمی حالت میں گرفتاری کی اطلاع موصول ہوئی تو انہوں نے مداخلت کرکے شہید کو علاج کے لیے ایک مقامی اسپتال میں داخل کردیا مگر 13 جنوری 2018 کو بد قسمتی سے شہید زخموں کی تاب نہ لاکر شہادت کی عالٰی رتبے پر فائز ہوئے۔
‏‎شہید فاضل بلوچ عرف گہرام بلوچ ہم سے جسمانی طور سے یقیناً ہمیشہ کے لیے جدا ہوگیا مگر وہ تاریخ کے انمٹ نقوش میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے جسے بلوچ قوم اور تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی

пятница, 19 января 2018 г.

پختہ شعور اور مضبوط کمٹمنٹ کے مالک ڈاکٹر منان بلوچ ..... چیئرمین خلیل بلوچ

بلوچ قومی تحریک آزادی کے سفر میں اُن ہزاروں ساتھیوں کو یادکرتاہوں جوکل ہمسفر تھے آج شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہمارے درمیان جسمانی طورسے موجود نہیں ہیں۔ان کا کاروان اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ ان کے ساتھی اُسی جوش اورجذبے کے ساتھ قربانیوں کی تاریخ رقم کرتے ہوئے سفاک دشمن کامقابلہ کررہے ہیں۔ہم پرایک ایسی دشمن قابض ہے جو مثبت انسانی اقدار اور روایات سے عاری ہے۔ اس سے توقع رکھنا کہ جنگی حالات میں زندہ قوموں کی طرح وہ جنگی قوانین کا پاس رکھے گی تو یہ خام خیالی ہوگی۔ ایک درندہ سے انسانی،اخلاقی اقداریابین الاقوامی قوانین پرعمل پیرا ہونے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ بلوچ قوم کے ساتھ سترسال کے جبر کے رشتے نے اس کا مکروہ اوربھیانک چہرہ ہم پر واضح کردیاہے اوراس دشمن سے آج کے حالا ت سے بدرجہا بدترین حالات کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ جدوجہدمیں ایک منظم سیاسی کرداراداکرتے ہوئے عظیم ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیاہے ۔ عظیم ساتھی آج بھی زندانوں میں غیرانسانی اذیتیں سہہ رہے ہیں۔آزادی کی جدوجہد میں بلوچ قوم نے ایسے ایسے گوہرنایاب ہستیوں کی شہادتیں پیش کی ہیں کہ اُن پر کچھ بولنے ،لکھنے کے لئے زبان اورقلم عاجز نظرآتے ہیں ۔الفاظ سے ان کے کردار،ان کی عظمت کا احاطہ ممکن نہیں ہوتا ہے۔ان عظیم ہستیوں میں سے ایک ڈاکٹرمنان جان ہیں۔ اُن کے کردار و علمی و سیاسی بصیرت پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ بلاشبہ اس ناقابل فراموش ہستی کے کارنامہ ہائے کو ایک مضمون میں سمیٹنا جوئے شیر لانے کے مترداف ہے ۔میں اس بات کاقائل ہوں کہ آزادی کا جدوجہدتاریخ کے ہر دور میں ،ہرقوم سے سروں کی قربانی کا تقاضا کرتا چلاآرہا ہے اورمستقبل بعید میں بھی ایسے آثارنظرنہیں آتے ہیں کہ کسی خون خرابے کے بغیر قوموں کی آزادی کو تسلیم کیاجائے ۔ انسانیت کو اس مقام تک پہنچنے کے لئے شاید ابھی اورہزاروں سال درکارہیں ۔
دنیامیں کئی قومیں ایسی خون ریز سلسلہ ہائے سے گزرکر اپنی قومی آزادی کی حصول میں کامیاب ہوچکے ہیں اور آج یہ مرحلہ بلوچ قوم کو درپیش ہے۔ مجھے فخر اس بات کا ہے کہ تاریخ کے سامنے اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے بلوچ قوم دنیاکی معلوم تاریخ میں کسی سے پیچھے نہیں ہے ۔آج بلوچ قوم کسی پس و پیش کے بغیر قربانیوں کی ایسی تاریخ رقم کررہاہے جوزندہ قوموں کا طرہ امتیاز ہے ۔انہی قربانیوں کے طفیل آج بین الاقوامی برادری کے سامنے بلوچ نے کسی حد تک دنیاپرثابت کردیاہے کہ بلوچستان ایک متنازعہ خطہ ہے اوریہ دنیا کے دیگر حل طلب مسائل میں سے ایک بڑا اوراہم معاملہ ہے جسے زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کیاجاسکتاہے ۔آج ہم دنیاکے ہرکونے میں بلوچ قومی آوازسن رہے ہیں۔دنیاکے ہرملک میں بلوچ قوم کے نام لیوا موجود ہیں ۔دنیاکے بہت بڑے ایوانوں میں بلوچ کا مسئلہ زیربحث آرہاہے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کامیابی کا سہرا اُن عظیم ہستیوں کے سرجاتا ہے جنہوں نے بلوچ قومی آزادی کے لئے اپنی سروں کا نذرانہ پیش کیاہے۔
بلوچ سیاست میں ڈاکٹرمنان جان جیسے نام بہت کم ہیں کہ جو اتنی جنون کے ساتھ اتنی کم مدت میں بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں بلوچ قومی آزادی کا پیغام ایک موثرسیاسی اورعلمی اندازمیں پہنچانے میں کامیاب ہواہو۔ یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ بلوچستان کے طول وعرض میں ایسے بہت کم جگہ رہ گئے ہیں جہاں ڈاکٹر منان جان نے آزادی کے پیغام کو لے کر سیاسی تعلیم وتربیت کے لئے اپنا کردار ادانہ کیاہو۔ آج جہاں بھی چلے جائیں ،کسی شہر میں ،دیہات میں ،کوچے میں ،بازار میں، لوگ ڈاکٹر کا نام لیتے ہیں ،انہیں یاد کرتے ہیں۔ انہیں یادکرنے والوں میں ،ان سے پیارکرنے والوں میں ہر عمر اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں ۔یہ بڑی شرف کی بات ہے اوریہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آتاہے ۔گودارسے لے کر شال ، خاران سے لے کر سبی اورنصیرآباد ڈاکٹر منان جان کے سیاسی پلے گراؤنڈ تھے۔ ڈاکٹر منان جان نے آزادی کے جنون میں زعمران ،کولواہ ،گریشہ ،مشکے کے پہاڑی علاقوں کے ساتھ ساتھ سورگرکا وسیع پہاڑی سلسلہ عبور کرکے اپنا سیاسی پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ کبھی کھٹن راستوں یا سنگلاخ پہاڑوں کو بہانے کے طور پر نہ خود استعمال کیا نہ کسی اور کو کرنے دیا۔ ان کی بلوچ دوستی اورآزادی کا فلسفہ تھا جو ہرناممکن کوان کے لئے آسان بناتا تھا ۔ ہفتوں تک اس آسانی سے پیدل سفر کرتے تھے کہ بعض لوگوں کو حیرت ہوتی تھی کہ کمزور صحت کا مالک یہ سفر کیسے طے کر ہا ہے۔( دو دفعہ کار حادثوں میں پیر کی ہڈیاں ٹوٹنے کے بعد ڈاکٹروں نے ہڈیوں کے ساتھ دھاتی راڈ پیوست کئے تھے؛عام طور ان سے مسلسل سفر میں دشواری ہوتی ہے)۔ شہید، سرزمین کی آزادی کی جدوجہد میں جوش،جنون اورعشق کے اُس مقام پر پہنچ چکے تھے کہ وہ کسی بھی جگہ جہاں کوئی بلوچ رہتاہو،کسی بھی جگہ جہاں آزادی کا پیغا م پہنچاناہو،وہاں تک جانے کے لئے دنیاکا ہر خطرہ مول لینے کے لئے تیار تھے ۔ہمیشہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے آزادی کا پیغام لے کر وہ ہر بلوچ کے پاس جانے کواپنااولین فرض قراردیتا ،لوگوں کو اپنی اعلیٰ قابلیت اورعلمی بصیرت سے قومی تحریک ،قومی بقاء اورقومی جدوجہدمیں شامل ہونے کے لئے قائل کرتا۔ آزادی کے عشق میں دیوانہ وار ہر بلوچ کے دروازے پر دستک دیتا رہا،اسی عشق اور جنون کے سفر میں وہ اپنے دائمی سفر پر چلے گئے اس عظمت پر وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایک مختصر مدت میں بلوچ قومی تحریک آزادی اس حدتک عوام تک پہنچ پایاآج بلوچ عوام کی واضح اکثریت قومی آزادی کی جدوجہد سے دلی وابستگی رکھتاہے ۔تمام مشکلات ، سفاک اوردرندہ دشمن کے غیرانسانی مظالم کے باوجود بلوچ قوم اپنی قومی آزادی کے لئے ہرقسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔ یہ عظیم عوامی بھروسہ سیاسی موبلائزیشن کی مرہون منت ہے ۔اس میں بہت سے دوستوں کاحصہ شامل ہے مگرایک بڑی کریڈٹ ڈاکٹر منان جان کو جاتاہے ، جنہوں نے پہلے پہل اس کا ادراک کیا بلکہ اپنی سیاسی بصیرت اورشبانہ روز محنت سے وہ کارنامہ ہائے انجام دیئے ہیں جوصرف انہی کا طرہ امتیاز تھا۔یہ انہی کا جنون اورآزادی سے عشق تھا کہ انہوں نے سردی دیکھی نہ گرمی ،نہ حالات اورمشکلات کو آڑے آنے دیااورنہ قابض کی سفاکیت کورکاوٹ تسلیم کیا۔ہمیشہ ڈٹے رہے۔ سیاسی محاذپربی بی سی کے نامہ نگارنے ان مشکل حالات میں سیاسی سرگرمیوں پرحیرت کااظہارکیاتوشہیدنے بے دھڑک جواب دیاکہ ’’سیاسی عمل رکاتوہم تباہ ہوجائیں گے ‘‘۔ ایک ایسی سیاسی شخصیت جوقومی تحریک کی کامیابی کے لیے تمام ذرائعوں کی اہمیت کے قائل تھے مگران پرسیاسی عمل کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ ہرقومی تحریک میں فوقیت سیاست کوحاصل ہوتاہے۔ ہم جوبھی دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں اُن سب کی اپنی اپنی اہمیت مگر سب کو سیاست کے تابع ہوناہے۔ ڈاکٹرصاحب اس پر بلوچ سیاست میں کامیاب رہے ۔آج بلوچ قومی تحریک دنیامیں ایک باوقارسیاسی حیثیت میں پہچاناجاتاہے ۔آج بلوچستان اوربلوچستان سے باہر نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیارہوچکی ہے جو دنیاکی سیاست پرقابل تعریف گرفت کے مالک ہیں ،جنہیں دنیاکے سیاسی نشیب وفراز کاعلم ہے جواس خطے میں ہوش ربا تبدیلیوں کا علم رکھتے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت سے جو لوگ واقف ہیں وہ بہتر طورسے جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب میں وہ تمام انقلابی صفات موجود تھے جوایک انقلابی قائدمیں ہونے چاہئیں۔مجھے آج بھی وہ دن بے تحاشا یاد آتے ہیں جن دنوں پارٹی قائد شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ زندا ن میں بند تھے۔ اُس وقت بہت اوربھی سینئر اورسرگرم ساتھی بی این ایم میں شامل تھے مگرڈاکٹر منان بلوچ اورڈاکٹر دین جان (جو نو سالوں سے خفیہ زندانوں میں بند ہیں)کو میں نے دیکھا ہے کہ ایسی مہر و محبت کے ساتھ پارٹی پروگرام کے لئے دن رات ایک کرکے موبلائزیشن کے عمل کو آگے بڑھانا، مشکل حالات میں اتنی جانفشانی اورتندہی سے کام کرناکہ آج بھی دلوں پر نقش ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر منان جان کی شہادت اور واجہ غلام محمد کی شہادت دو ایسے نقصان ہیں جنہیں ب تک شاید ہی کسی اور رہنما کی وجہ سے ہوئے ہوں۔ انہوں نے اپنے کام سے نام کمایا اور فوائد براہ راست قومی تحریک کو ملیں۔ وہ پیدائشی طور پر ایک عام بلوچ تھے اور اپنی محنت اور حب الوطنی سے سب کے دلوں میں راج کر گئے۔ ان کی شخصیت کے پیچھے صرف ان کا سیاسی عمل تھاکسی دیگر عنصر کا عمل دخل نہیں تھا۔ ایسے سیاسی رہنماؤں کاشہادت یقیناًقومی تحریک کے لئے بہت بڑے نقصان ہیں۔
میں بی ایس او سے فارغ ہوکربلوچ نیشنل موومنٹ میں شمولیت اختیارکرچکاتھاتومجھے اچھی طرح یادہے کہ اُس دوران ڈاکٹر منان جان کابینہ اورسینٹرل کمیٹی میں بھی نہیں تھے مگر انہیں ایسی باتوں سے سروکار نہیں تھا۔ انہوں نے کبھی بھی یہ تاثر نہیں دیاکہ جوسرگرمیاں وہ اداکررہے ہیں یہ سینٹرل کمیٹی یا کابینہ کے ساتھیوں کی ذمہ داری ہے، انہیں سرگرم ہوناچاہئے۔ نہیں۔ وہ ایسی باتوں سے بالاتر تھے ۔ پارٹی میں ایک ممبرتھے یاکسی عہدے پرفائز تھے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر کرداراداکرتے رہے ۔ انہیں ہروقت اپنے کام سے غرض تھا۔ آزادی کے پیغام سے غرض تھا اورہرقیمت پربلوچ قوم کاپارٹی کے ساتھ رشتہ محکم کرنا چاہتے تھے۔
اپنی سیاسی بصیرت اورعلمی دسترس کی وجہ سے مزاج آشنا اورگوہرشناس انسان تھے ۔موبلائزیشن ان کا محبوب مشغلہ ،عوام کے درمیان کام کرناان کا اوڑھنا بچھوناتھا ۔وہ اسی مقصد کے لئے جئے اوراسی مقصدکے اپنی جان سے گزرگئے ۔ہم نے ایک مختصرمدت تقریبانوسال اکٹھے کام کیا تومیں نے ہمیشہ دیکھا کہ پیہم برق رفتاری سے کام کرنا ،پارٹی اداروں کی استحکام کے لئے مشقت سے کام کرنا، آگاہی پھیلانا ،کبھی نہ تھکنا،سستانانہیں ۔اسی مقصدکیلئے جان ومال، گھر بار ،ذرائع معاش و پیداوار سمیت اپنی ہر شئے کواس مقصدکے لئے وقف کرچکے تھے ۔ شہیدڈاکٹرمنان جان بلوچ قومی تحریک میں اداروں کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے اورادارہ سازی کے بڑے علمبردار تھے ۔وہ ہمیشہ ادارے کی پلیٹ فارم سے سیاست اور ادارے کومستحکم کرنے میں مصروف رہے ۔بلوچ قومی تحریک کے ماضی کے تجزیے سے وہ اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ صرف ادارہ سازی ہی وہ راستہ ہے کہ جس پر قائم رہ کر نہ صرف آزادی کے جدوجہدکوایک باقاعدہ تسلسل کے ساتھ برقراررکھا جا سکتا ہے بلکہ ادارہ ہی کے ذریعے ہم قومی منزل کے حصول میں کامیاب ہوپاتے ہیں ۔
پارٹی اورپارٹی ادارے پراسی راسخ عقیدے کی وجہ سے ،میں سمجھتاہوں کہ ہم بلوچ نیشنل موومنٹ جیسے سیاسی ادارے کے پلیٹ فارم سے قومی کازکے لئے جد و جہد کر رہے ہیں۔ آج بلوچ نیشنل موومنٹ جس مقام پر ہے اس میں ڈاکٹر صاحب کی وژن ،ڈاکٹر صاحب کی شبانہ روز محنت اورکارکردگی کابڑا عمل دخل ہے ۔ایک بڑے سیاسی رہبرورہنمائکے ساتھ ساتھ ان کا مقام ایک سیاسی استاد کابھی ہے ۔ہمیشہ سیاسی درس وتدریس ، مطالعہ و جستجو میں مصروف رہے۔ نہ صرف خود بلکہ کارکنوں کو بھی تلقین کرتے تھے کہ کتا ب سے ناطہ نہ ٹوٹنے پائے۔ علم کا شیدائی اپنے تمام کارکنوں میں علمی بصیرت دیکھنے کے متمنی تھے ۔اپنے کارکنوں میں علم کی پیاس دیکھناچاہتے تھے ۔ حالات جیسے بھی ہوتے وہ نہ صرف خود کثر ت سے مطالعہ کرتے تھے بلکہ ہمیشہ اپنے ساتھیوں کوبھی مطالعہ کرنے کی درس دیتے تھے ۔ایک عالم باعمل انسان جو آج رول ماڈل اورآئیڈیل کردار بن کر ہمارے سامنے ہے۔ ایک اعلیٰ وعلمی پایے کا رہبراُن کی ہر بات تاریخ کے صفحات پر درج ہیں۔ تاریخ لکھی جارہی ہے۔ ایک دن جب یہی مورخ تاریخ کے اوراق کو پلٹے گا توانہیں ضرور ڈاکٹر منان بلوچ کے سیاسی قدوقامت کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہوگا ۔
میں سمجھتاہوں کہ وہ بی این ایم کے بے لوث رہنماء تھے جن کی زندگی پارٹی پروگرام کے لئے وقف تھا۔ میں بہت متاثر تھا۔ ایک ایسی ایکٹوسٹ جن کا کام ،جن کا مقصد اورجدوجہدضرور ایک دن اپنی منزل کو پہنچ جائے گا۔۔۔۔وہی صفات جو ایک بہترین جہدکارمیں ہونے چاہئیں وہ ڈاکٹر صاحب میں موجود تھے ۔۔۔اسے میں اپنے لئے ایک خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ ہرقسم کے بحرانوں ،مشکل حالات یا نام نہاد بحران پیدا کرنے کی کوششیں ہوں، ان تمام حالات میں اگرمیں نے اپنے آس پاس کوئی محکم ساتھی دیکھاہے کہ انتہائی مستعدی کے ساتھ ہمہ قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیارہو، تووہ ڈاکٹر منان بلوچ تھے ۔وہ بلوچ قومی تحریک میں موجود دوسرے تنظیموں کے بحرانوں اور مشکلات کو بھی حل کرنے کی ترغیب دیتا رہا اور کوششیں کرتا رہا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی وہ ایک ایسی ہی کوشش میں مصروف کئی دیگر رہنماؤں سے ملاقات کر چکے تھے تاکہ ان کی مدد کی جاسکے، یا قربت و اتحادیا اشتراک عمل تک راہیں کھولی جاسکیں۔
اس بات سے کسی کو انکارممکن نہیں کہ شعوراور کمٹمنٹ ایک ساتھ ہوں توانہیں دنیاکی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی،اوریہ بات ہم نے عملی صورت میں ڈاکٹر منان جان کی شخصیت میں پایااورانہوں نے دنیاپر ثابت کردیاکہ پختہ شعوراورمضبوط کمٹمنٹ کو شکست دینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ڈاکٹر صاحب بلاشبہ انتہائی پختہ شعور کے حامل اورجدوجہدکے ساتھ کمیٹڈ انسان تھے ۔دشمن انہیں کسی بھی مقام پر شکست نہیں دے سکا۔دشمن نے ہزارجتن کئے مگر ہرمحاذپر دشمن ہی نے گھٹنے ٹیک دئے۔۔۔میں سمجھتاہوں کہ ایک پختہ شعورکے حامل اورکمیٹڈ رہبر اپنی جدوجہدکو انقلابی پیمانوں میں ڈھال کرآئندہ نسلوں کومنتقل کرسکتاہے۔ ڈاکٹر منان جان نے اپنے فکر و عمل سے یہ کام بڑی خوبصورتی سے انجام دیا۔آج ان کا کاروان ایک اورنسل کو منتقل ہورہاہے ۔مضبوط ہاتھوں میں منتقل ہورہاہے ۔ڈاکٹر صاحب کی علم و زانت اورپختہ شعورنے اپنی جدوجہدکو آئندہ نسلوں کے لئے جس نہج پر تیار کیا ہے اسے شکست دینا ناممکنات میں سے ہے اور تاریخ یہ بات ضرور ثابت کرے گی۔
ڈاکٹر منان جان کی زندگی کاایک اورگوشہ جس پرمیں یقینابات کرناچاہوں گااوریہ ان کا رویہ ہے ،ایک ایسا لافانی رویہ جس پر ایک جہاں فدا تھا۔ایک سدا بہار شخصیت کہ حالات کے سرد وگرم نے انہیں کبھی متاثر نہیں کیا۔وہ عوامی مزاج سے آشنا اورعوام کی زبان بولنے والے انسان تھے۔ ایک کھلا، دلکش اورالفت بھرا رویہ اپنے پارٹی ورکروں سے لے کر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عام لوگوں کے لئے دوستانہ اوربے تکلفی کاجواندازہم نے ڈاکٹرصاحب میں دیکھا ہے وہ کم ہی لوگوں میں ہوگا ۔لوگوں کو متاثرکرنے کی بہت بڑی صلاحیت کے مالک تھے ۔ایک بہترین موبلائزر جوموبلائزیشن کے تمام رموزسے آگاہ تھے ہمیشہ بڑی نفاست کے ساتھ انتہائی آسان الفاظ میں ،عوام کی زبان میں عوام کو سمجھا تا ،اپنی موقف بیان کرتا ،ان کی رائے لیتا ،اس رائے کا تجزیہ اورتحلیل کرتااوراس کی روشنی میں نئی حکمت عملی تیارکرتا۔جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکاہوں۔ وہ بلوچستان کے اکثرو بیشترعلاقوں کادورہ کرچکے تھے۔ شہید، بلوچ سرزمین ،بلوچ جغرافیہ سے حیران کُن حد تک واقف تھے ۔مشکل سے مشکل علاقہ ان کے نظروں سے اوجھل نہیں تھا۔کسی نہ کسی طریقے سے وہاں تک پہنچ پایا ۔اپنی شگفتہ بیانی اورسیاسی بصیرت سے لوگوں کے دلوں میں گھرکرلیا،بلوچ سیاست میں عوام کے دلوں پر راج کرنے لئے کسی بلوچ سیاسی رہنما میں وہ صفت موجود تھے تومیں بے دھڑک کہتاہوں کہ وہ ڈاکٹر منان جان شہیدتھے ۔
آخرمیں مختصرالفاظ میں ڈاکٹر منان جان کی شخصیت کے بارے میں ایک اوربا ت عرض کروں کہ تنقید یا خودتنقیدی دونوں میں اپناثانی آپ تھے ۔تنقید کرنے میں سامنے والے کالحاظ رکھتے اور نہ کبھی خود تنقیدی میں اپنے آپ کو معاف کیا مگرزبان ہمیشہ شائستہ اورسیاسی رہا۔پیچیدہ سے پیچیدہ سیاسی اختلافات پر اپنی رائے کااظہار نہایت خوش اسلوبی سے کرتے ۔تنقید ہمیشہ پارٹی فورم اورمتعلقہ اداروں میں کرتے تھے ۔نہ صرف پارٹی ،پارٹی دوستوں بلکہ پارٹی اتحادیوں اورجدوجہدسے منسلک تمام پارٹی ،تنظیم اورشخصیات کے بارے میں نہایت جرات اوربہادری کے ساتھ اپنے تنقیدی رائے کااظہارکرتے اورہمیشہ کہتے کہ جدوجہد میں بنیادی طورپر رویوں کی تعمیر کے لئے ،اپنی اصلاح کے لئے ،تحریک میں مثبت اقدارکی فروغ کے لئے تنقید اورخودتنقیدی انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہم صحیح اورغلط کے درمیان فرق ، تعمیری سوچ کی فروغ اوراپنے فرائض کی انجام دہی سے قاصررہیں گے ۔
میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکنوں سے یہی کہتاہوں کہ ہمارے لئے ڈاکٹرمنان جان کی زندگی مشعل راہ ہے ،ہمیں ان کی بے مثال رویے کی پیروی کرکے ان کے تعلیمات پر،ان کی طرز سیاست پرعمل کرنا چاہئے۔انہیں اپنارول ماڈل مان کر چلناچاہئے ،جب تک ڈاکٹر منان بلوچ جیسے ہستیوں کے تعلیمات پر عمل کرنے والے کارکن اوربلوچ نیشنل موومنٹ جیسا رہنما ادارہ موجود ہے ،دنیاکی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔فتح ہمارا ہی ہوگا۔ آزادبلوچستان زندہ باد

понедельник, 15 января 2018 г.

دنیا کا کم عمر ترین قیدی آفتاب بلوچ – پیردان بلوچ


میں اعتراف کرتا ہوں مجھ سمیت میرے جیسے بہت سے لوگ بے حس ہوچکے ہیں ہمارے اندر کا انسان نما جانور کب کا مر چکا ہے ہم سب خوش اس لیے ہیں کہ ابھی تک قبروں میں نہیں اتارے گئے ہیں اور کھبی کھبار احساس ضمیر کو ایسے دبوچتا ہے کہ چیخنا چاہو بھی تو چیخ حلق سے نکلتے نکلتے راستے میں ہی دم توڈ دیتی ہے۔
کچھ لکھنا چاہوں تو جیسے الفاظ احتجاج کرتے ہوں لفظ آواز بن کر کانوں میں سرگوشیاں کرتے ہوئے لکھنے سے باز رکھتے ہیں
اور کھبی کھبار خود اپنی قبر کھودنے اور اس میں لیٹ کر اپنے اوپر مٹی ڈال کر ہمیشہ راہ فراراختیار کرنے کو دل کرتا ہے ہماری یہ بے حسی ہمیں روز دھیمک بن کر اندر ہی اندر چاٹ رہی ہے دن کے اجالے میں اندھیرے کا گماں ہوتا ہے جیسے ہر شے کتابیں قلم ٹیبل پر رکھی سگریٹ کی ڈبیاں گھر میں موجود دیگر فرینچر تمہارے جنازے میں آئے ہیں اب بس تمہیں لحد میں اتارنے والے ہیں اس وقت میرے لیپ ٹاپ کے سکرین پر آفتاب بلوچ کی تصویر ہے جو مجھ سے محو گفتگو ہے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہا ہے اور میں اس سے آنکھیں نہیں ملا پا رہا ہوں آفتاب بلوچ کے کسی سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے آدھا جواب بھی نہیں ۔
بس اتنا جانتا ہوں کہ آفتاب تمہارا جرم بس یہ ہے کہ تم بلوچ ہو۔
کراچی سے 28 اکتوبر 2017 کو رینجرز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے نو سال کا آفتاب بلوچ تاحال لاپتہ ہے۔
آفتاب چالیس دن کا تھا جب اس کو جنم دینے والی ماں جمال خاتون یرقان کی بیماری سے فوت ہوگئی ۔۔
لاپتہ ہونے کی رات تک آفتاب اس بات سے بے خبر تھا کہ اسکو جنم دینے والی ماں کوئی اسے جنم دینے کے چالیس دن بعد اس جان فانی سے رخصت ہوگئی تھی۔۔
بلوچ مزاحمت کاروں اور ریاست پاکستان کی لڑائی میں شدت آنے کہ بعد بلوچستان کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے خضدار سے آفتاب اپنے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ 2005 کوکراچی آیا ۔۔
اور اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا یہ نو سال کا بچہ اس وقت پاکستانی ٹارچر سل میں کاٹ رہا ہے ۔
جہاں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں میڈیا عدلیہ سمیت آفتاب بلوچ کے رشتہ دار اس ننھی سی جان کے مسخ شدہ لاش کے ملنے کے منتظر ہیں۔
آفتاب بلوچ کا رنگ برنگی بستہ اسکی کتابیں پنسل کاپیاں گھر کے کونے میں پڑھے اپنے دوست کے مانو انتظار میں ہیں ۔۔تمہارا فٹ بال الماری کے اوپر لاوارثوں کی طرح ساکن پڑا ہے تمہاری جرابیں اسی حالت میں بستے کے اندر ہیں جب تم نے اسکول سے آتے ہوئے اپنے بستے میں رکھے تھے ۔۔۔
آفتاب یقین کرو اگر یہ اشیا جاندار ہوتیں اور انھیں تمہاری پاکستانی فورسز کے ہاتھوں گمشدگی کا علم ہوتا تو ان کی چیخیں حشر برپا کرتے ۔
مجھے یہ خیال بھی بے چین کررہی ہے کہ اس نو سال کے بچے سے یہ ریاستی ادارے جن کہ کہے پر موت لکھ دیا جاتا ہے کیا سوال کرتے ہونگے ؟؟
اور آفتاب بلوچ کو اگر یہ جواب نہ آتے ہوں تب اس کے ساتھ بھی وہی ہوتا ہوگا جو وہاں سے نکل کر اپنے ساتھ ہونے والی داستانیں، تشدد کے طریقہ کار کو ٹھیک سے بیان تک نہیں کر سکتے ۔
سوچتا ہوں ایک ریاست کو ایک اٹیمی طاقت کو دنیا کی ساتویں بڑی آرمی رکھنے والے ملک کو ایک بچے سے کیا خطرہ تھا جو رات کی تاریخی میں نقاب پہنے درجنوں نفری کے ساتھ آئے اور اس بچے کو لے گئے ۔
ایک اور سوال میرے زہن میں دستک دے رہی ہے کیا آفتاب اس رات سے اب تک سویا ہوگا یاپھر اس کے ہاتھوں میں بندھی زنجیروں کے شور سے اسے نیند نہیں آتی ہوگی ۔۔
آفتاب کے چھوٹے زہن میں کیسے سوال آرہے ہونگے ؟ کیا اب تک اسے پتہ چل گیا ہوگا کہ اس کا جرم بلوچ ہونا ہے اور وہ کسی اور کے حصے کا تشدد اپنی کمزور جسم پر برداشت کررہا ہے ۔۔
میرے دوست یہ جو میڈیا ہے نہ اس کو وینا ملک کے لیپ اسٹک اور عمران خان کے ناشتے میں بسکٹ سے مطلب ہے تمہاری پس زندان کی کہانی نہیں بکے گی کیونکہ تمہاری کہانی اس ریاست کی بدنامی کا سبب بنے گی ۔
سوشل میڈیا کے ایکٹوسٹ بھی اب تم سے ہمدردی نہیں رکھ سکتےکیونکہ سب ڈرے ہوئے ہیں اس ریاست سے ریاست کے ان باولے درندوں سے کوئی کچھ نہیں بولے گا مورخ بھی نہیں لکھے گا لاپتہ آفتاب کی کہانی اسے بھی لاپتہ کردے گی ۔۔
آفتاب اگر تم زندہ ہو تو کب کہ بوڑھے ہو چکے ہوگے ۔۔ سوچ بوڑھا کرتی ہے وقت سے پہلے ۔۔
تم بس ثابت قدم رہنا آفتاب کو طلوع ہونا ہی ہے ہر روز طلوع ہونا ہے اور تم ان آئینی سلاخوں کو شکست دے کر نکلو گے اگر ایسا نہ ہوا تو مورخ کے بجائے ٹارچر سیل کی دیواریں لکھیں گی تمہاری کہانی ۔۔۔ ننھے ہاتھوں کی ہتھکڑیاں سنائیں گی تمہاری داستان ۔۔۔۔ وہ داستان جس کہ کردار تم تھے ہی نہیں تمہیں گھسیٹا گیا ہے اس کہانی میں ۔۔۔

четверг, 4 января 2018 г.

بلوچستان میں آزادی کی جدوجہد بلوچ قوم کا فطری حق ہے: ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ


بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے جاری کردہ بیان میں بلوچستان میں جاری آپریشنز،بلوچ اجتماعی نسل کشی پر اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی خاموشی کوتاریخ کا بدترین باب قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی فورسز اپنے تمام متوازی طاقت کے مراکز کے ساتھ بلوچ قوم کی نسل کشی میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان کا کوئی علاقہ ریاستی جبر و زیادتیوں سے محفوظ نہیں۔ یہاں روزانہ کی بنیاد پر آپریشن، عام آبادیوں میں لوٹ مار، تشدد اور اغواء معمول بن چکے ہیں۔ اسی طرح قابض ریاستی افواج نے حراستی قتل عام میں بھی تیزی لائی ہے۔ گزشتہ روز ضلع کیچ میں ماسڑ نور احمد بلوچ کی لاش برآمد ہوئی جسے ڈیڑھ سال تک اذیت ناک حراست میں رکھنے کے بعد شہید کیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی ریاست کے جنگی جرائم پر خاموشی سے عیاں ہے کہ یا تو وہ بلوچ قتل عام میں ریاست کے ساتھ ایک فریق بنے ہوئے ہیں یا ریاستی طاقت کے سامنے انتہائی بے بس ہوچکے ہیں۔ بے بسی کی صورت میں انہیں انسانی حقوق کے نام اپنی اپنی دکانوں پر تالا لگانا چاہئے کیونکہ انسانی حقوق کے نام پر بے عملی، غفلت اور بے بسی انسانیت کی توہین ہے۔ اس طرح یہ ایک منافع بخش کار وبار کے سوا کچھ اور تصور نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ نام نہاد انسانی حقوق کے اداروں کی طرح سول سوسائٹی اورمیڈیا بھی ریاستی بیانیے کی تشہیر و دفاع کا باقاعدہ ذریعہ بن چکے ہیں۔ آج نام نہاد آزاد میڈیا بلوچ نسل کشی میں ریاستی بیانیے کو پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کرکے نہتے بلوچوں کو دہشت گرد قرار دلانے کی کوشش میں ہے۔ جبکہ بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کُشی اور استحصال پر گونگے اور بہرے بن چکے ہیں۔ یہ سب بھی پاکستان کے جنگی جرائم پر ایک دن تاریخ میں جوابدہ ٹھہریں گے۔ اس وقت مکران میں بیشتر علاقوں کو فوجی کیمپ وچوکیوں سے سیل کرکے عوام کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔ پورا بلوچستان ایک فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کررہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں آزادی کی جدوجہد بلوچ قوم کا فطری حق ہے اور ہماری قومی تحریک عالمی برادری کے متفقہ اصول و قوانین کے عین مطابق جاری ہے مگر تہذیب سے عاری پاکستان دنیا کے قوانین اور انسانی روایات کو پیروں تلے روندکر پوری فوجی قوت و ڈیتھ سکواڈز کے ذریعے بلوچ سرزمین پر اپنے قبضہ کو دوام دینے اور استحصالی وعسکری منصوبوں کی تکمیل کے لئے آپریشنوں میں نہایت تیزی لاچکی ہے۔ یہ بلوچ قوم کے لئے ایک مشکل اور کھٹن دور ہے۔ لیکن بلوچ قوم اپنی قومی آزادی کے لئے دشمن کے تمام مظالم کا مقابلہ کرے گی۔ دوسری طرف پاکستان کی ایسی درندگی اور انسانیت سے عاری مظالم مہذب اقوام و انسانی حقوق کے اداروں کے وجود کے لئے بھی چیلنج سے کم نہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے مزید کہا کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ پاکستان کی مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے کی پالیسیاں دنیا کے سامنے عیاں ہورہی ہیں۔ اور اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت مہذب ممالک اس دہشت گرد ریاست کے خلاف راست اقدام اُٹھائیں اور بلوچستان میں نسل کشی اور جنگی جرائم رکوانے کے لئے عالمی فورمز میں پاکستان کو جوابدہ بناکر آزاد بلوچستان کے قیام کے لئے راستہ ہموار کریں۔ آزاد بلوچستان اس خطے سمیت پوری دنیا کو پاکستان کی شدت پسندی اور دہشت گردی سے محفوظ بنانے کی ضامن ہو سکتی ہے۔ اس خطے میں امن و سلامتی اور پائیدار ترقی کا واحد ذریعہ بلوچستان کی آزادی سے مشروط ہے۔ امریکہ نے 9/11 کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اربوں ڈالر مہیا کئے اور آج اُس نتیجے پر پہنچا ہے جس کا ہم بہت پہلے اظہار کر چکے تھے۔ پاکستان امریکہ و اتحادیوں سے پیسے بٹورتا رہا اور انہی سے آکسیجن پاکر پاکستانی فوج نہ صرف بلوچ نسل کشی میں تیزی لا سکا ہے بلکہ مذہبی شدت پسندوں کو بھی مضبوط اور توانا بناتا رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اور دیگر ممالک پاکستان کے چھپے چہرے کو پہچان کر پاکستان پر ہر قسم کی پابندیاں عائد کریں تاکہ دہشت گردوں کی نرسری اور پناہ گاہیں ختم ہوں اور دنیا امن سے رہ سکے۔ افغانستان اور انڈیا میں پاکستان سے ہر روز دہشت گرد سرحد پار کرکے کارروائیوں کرتے ہیں مگر مغربی دنیا میں کہیں بھی کوئی واقعہ ہو تو دہشت گرد کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ پاکستان سے ضرور ہوتا ہے۔ لہٰذا دنیا کے نقشے پر اس دہشت گرد اور انسان دشمن ریاست کے وجود کا قیام انسانیت کیلئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔