Powered By Blogger

вторник, 14 ноября 2017 г.

خان میر محراب خان ( انقلابی ورثہ سلسلہ)


خان میر محراب خان
(1817-1839)
آزادی۔۔۔ہر انسان کی انفرادی اور بحیثیت ایک معاشرتی اجتماع یعنی ایک قوم کے اس کی اجتماعی خوشی اور عزیز ترین نعمت ہے۔ اپنی مرضی کا مالک ہونا کسی فرد کے لئے سب سے بڑی خوشی ہوسکتی ہے اور ایک فرد ایسی مرضی کا مالک اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ بحیثیت ایک قوم کے اپنی قسمت و مرضی کا مالک اور خودمختار نہ ہو۔ صرف آزاد قوم کے افراد ہی اپنی مرضی کے خود ہی مالک ہوتے ہیں۔
آزادی کے حصول‘ تحفظ و بقا کے لیے قوموں کی زندگی میں بعض اوقات ایسے مرحلے بھی آتے ہیں۔ جب اس عزیز نعمت کے لیے اپنے وجود یا عدم وجود کے احساس تک مٹانا پڑتا ہے۔ اس وقت وجود محض آزادی کا نام بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر اس قوم کی رہنمائی کرنے والے بھی اسی منزل کو مراد سمجھ لیں اور اسی کو حیات اور مقصود حیات قرار دے ڈالیں جو اس کی قوم نے اپنے لئے معین کی ہو تو اس قوم کی تاریخ میں ایسے افراد دائمی اور لازوال نقوش چھوڑ جاتے ہیں اور خود ایک تاریخ بن جاتے ہیں۔
خان میر محراب خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلوچوں کی تاریخ کا ایک ایسا ہی کردار ہے۔ اگر برطانوی نوآبادیاتی سامراجی دور کی جدوجہد آزادی کی تاریخ کے حوالے سے آزادی کے لئے لڑی جانے والے جنگوں کا مطالعہ کیا جائے تو خان محراب خان جنوب مغربی ایشیا کے ایک عظیم وطن پرست اور آزادی پسند اور وطن اور اس کی آزادی کی حرمت کے پاسبان اور جان نثار نظر آتے ہیں۔
اس دور میں جبکہ برصغیر میں برطانوی استعمار ایست انڈیا کمپنی کی صورت میں اپنی گرفت مکمل کرچکا تھا۔ اس کا رُخ شمال مغرب کی جانب ہوگیا تھاتاکہ افغانستان پر قابض ہوجانے کے بعد مزید آگے بڑھنے کا اہتمام ہوسکے تو بلوچستان کے خان محراب خان ہی اس منصوبے کی راہ میں ایک ایسی رکاوٹ بن گئے کہ اس میں ان کی اپنی جان تو گئی لیکن برطانوی حکومت کے منصوبے بہرحال تشنہ تکمیل رہ گئے۔
خان محراب خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلوچی ریاست کے قومی حکمران تھے جس کے ہمسایہ افغان ریاست کے ساتھ تاریخی برادرانہ تعلقات تھے۔ اسی دوران افغانستان کے شاہ شجاع کو اندرون ملک حکمرانی چپقلش میں شکست کھانے کے بعد اپنا ملک چھوڑنا پڑا اور وہ وہاں سے بھاگ کرخان محراب خان کے پاس قلات آگیا۔ خان محراب خان اگر چاہتا تو قلات اور کابل کے مابین طے شدہ معاہدوں کے بموجب اسے افغانستان کے نئے حکمران کے حوالے کرسکتا تھا لیکن اس نے روایتی بلوچی باہوٹی کا احترام کرتے ہوئے(جس کا مظاہرہ دوسوسال قبل اس کا ایک پیشروبلوچ ملک خطی نے ہندوستان کے شکست خوردہ‘ معزول اور بے سروسامان شہنشاہ‘ ہمایوں کو اپنی پناہ میں آجانے کے بعد اس کو بحفاظت ایران پہنچانے کی صورت میں کیا تھا) امیر شجاع کو بحفاظت اپنی سرحدوں سے باہر پہنچادیا۔ جس نے بعد ازاں پنجاب میں مہاراجہ زنجیت سنگھ کی سکھ حکومت کے توسط سے ہندوستان کے انگریزی حکومت کی حمایت حاصل کی اور ان کی قوت کے بل بوتے پر دوبارہ افغانستان کا تخت حاصل کرنے کا تہہ کرلیا۔ یہ تخت گویا اسے افغانستان کی آزادی کا سودا کردینے کے عوض حاصل ہورہا تھا۔ چونکہ انگریزیتلوار کے سائے میں کابل پر حکمرانی کرنا گویا اپنے ملک کی آزادی کی قیمت پر اپنے لئے حکمرانی حاصل کرنا تھا جسے بہر حال شاہ شجاع نے بخوشی قبول کرلیا۔
یہ معاملہ طے ہوجانے کے بعد شاہ شجاع نے انگریزی افواج کی معیت میں افغانستان کا رُخ کیا۔ افغانستان میں داخلے کے لئے قندہار کے راستے کو منتخب کیا گیا جہاں جانے کے لئے بلوچستان سے درئے ءِ بولان کے راستے سفر اختیار کرنا پڑتا تھالیکن اس سے پہلے سندھ کی ریاست واقع تھی جس پر اس وقت تک وہ ہندوستان کی برطانوی سلطنت کا حصہ نہیں بنی تھی۔ لیکن سندھ کے ان حکمرانوں نے اپنی حاکمیت اور باگ دوڑ عملاً انگریز حاکموں کے ہاتھ میں دے رکھی تھی اس لیے انگریزوں کو ان کی حمایت و اجازت حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ وہاں سے گزر کر انگریزی افواج بلوچستان سے گزرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہوسکتی تھیں جس کے لئے انہیں بلوچستان کے حاکم‘ خان محراب خان کی اجازت و اعانت کی ضرورت تھی۔
اس سلسلے کی واقعات کے تذکرے سے قبل بلوچستان کے اس وقت کے حالات اور خان کے دربار کی کیفیت کا ایک جائزہ ضروری ہے تاکہ اس دور کی سیاسی صورتحال کی روشنی میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی صحیح تصویر دیکھی جاسکے۔
خان محراب خان کے دربار میں اس کے چند درباریوں کا مکمل غلبہ تھا۔ ان میں سے داؤد محمد غلزئی‘ آخوند فتح محمد‘ اس کا بیٹا آخوند محمد صدیق‘ ملا محمد حسن اور سید شریف محمد خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ انہیں بلوچ سرزمین اور بلوچی حکومت کے ساتھ کوئی دلچسپی اور وابستگی نہیں تھی۔
انہیں محض اپنی وزارت اور ذاتی مفادات سے غرض تھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مذکورہ درباری حصول مال وزارت کی خاطر ایک دوسرے سے بھی پرخاش رکھتے تھے اور آپس میں مستقل چپقلش کی سی کیفیت میں رہتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے حریف کا خاتمہ کرکے خود اس کی جگہ قلات کا وزیر بننے کا خواہشمند تھا۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کرانے تک سے گریز نہیں کیا۔ آخوند فتح محمد اور داؤد محمد غلزئی اسی چپقلش کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔ اسی چپقلش اور ذاتی مفادات کے لالچ نے انہیں انگریزی حکومت کا ایجنٹ بن جانے پر مائل کیا۔ مذکورہ درباریوں کی باہمی چپقلش محض ان تک محدود نہ رہی۔ اس کی لپیٹ میں پیشتر دیگر بلوچ سردار آگئے چونکہ انہوں نے مختلف قبائلی سرداروں کے ساتھ اپنی بیٹیوں کی شادی کرکے ان سے قرابت داری پیداکرلی تھی۔ خان کے سرداران ساراوان اور سردار جھالاوان دونوں آخوند فتح محمد کے داماد تھے۔ اس طرح متذکرہ درباریوں کی چپقلش اور سازشیں بالواسطہ طور پر بلوچ قبائلی معاشرے پر اثر انداز ہوکر ان کے اندر بھی نفاق و گروہ بندی پیدا کردیتی تھی۔ جس کے باعث بلوچ کفیڈریسی میں رخنے پڑتا شروع ہوگئے۔
ان حالات میں جب خان محراب خان نے بلوچ سرداروں کی سرکشی کو ختم کرکے مرکزی قوت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی تو سردار حضرات خود مرکز کے مٹانے کے درپے ہوگئے اور اس ضمن میں انہوں نے کسی قومی ننگ و ناموس کا لحاظ رکھے بغیر غیر ملکی قوتوں کا آلہ کار بن کر اپنی قوتغیرت‘ آن اور وطن کی آزادی و ناموس کا سودا کر ڈالا۔
یہی تھے وہ حالات جب انگریزی افواج کے کماندار جنرل میکناٹن نے 1830میں میجر لیچ کو اپنے نمائندے کی حیثیت میں
قلات بھیجا تاکہ خان محراب خان کے ساتھ انگریزی افواج کے بلوچستان کے راستے بہ حفاظت گزرنے کے سلسلے میں کوئی معاہدہ ہوسکے۔
خان محراب خان اپنی سرزمین میں انگریزی افواج کی آمد اور اس راستے ہمسایہ مسلم افغانستان پر حملے کو برداشت نہیں کرسکتا تھا لیکن وہ اپنے ملک داخلی کیفیت سے بخوبی آگاہ تھا۔ اس لئے اس صورت حال اور وقت کے پیش نظر وہ انگریزی حکومت کے ساتھ کسی قسم کی باقاعدہ محاذ آرائی یا مخالفت سے باز رہے۔ البتہ انہوں نے انگریزی افواج کی کسی قسم کی معاونت نہیں کی اس دوران انگریزی افواج شاہ شجاع کو اپنے ساتھ لئے کچھی اور درہ ءِ بولان سے ہوتے ہوئے شال کوٹ (کوئٹہ) پہنچ گئیں جو افغانستان کی سرحدوں کے قریب خان کی ایک سرحدی چوکی تھی۔
چند سرداروں کے باغی اور دشمن ہوجانے کے باوجود خان کو عمومی طورپر تمام بلوچوں کی حمایت حاصل تھی۔ چند ایسے بلوچ سرکردہ لوگ موجود تھے جو انگریزی افواج اپنی سرزمین پر سے گزرنے کو اپنے وطن کی حرمت و آزادی کے خلاف سمجھتے تھے۔ انہوں نے انگریزی افواج کی پیش قدمی میں رکاوٹیں ڈالیں اور درہ ءِ بولان سے گزرنے اور موجودگی کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور خان کے اسی رویے کو محسوس کرتے ہوئے مختلف بلوچ قبائلی لشکر ان کی افواج کو ہر ممکن نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔
انگریزوں نے ان حالات سے پریشان ہوکر خان محراب خان سے وفادار رہنے کا قول و قرار حاصل کرنے کی خاطر اسے قلات سے کوئٹہ پہنچ کر شاہ شجاع کے سامنے حاضری دے کر اس کا وفادار و فرمانبردار رہنے کا حلف و اعلان کرنے کی ہدایت کی ۔ خان محراب خان جو اپنے آپ کو ایک آزاد ملک و قوم کا آزاد خودمختار حکمران خیال کرتا تھا۔ اس کے لیے یہ تصور بھی اذیت ناک تھا کہ وہ کسی دوسرے غیر ملکی حاکم کے سامنے اپنی ماتحتی کا اظہار و اعلان کرکے اپنی آزادی سے دست بردار ہوجائے لہٰذا اس نے حکومت کے اس توہین آمیز مطالبے کو یکسر رد کردیا۔ اس کا اظہار اس دور کے ایک بلوچ شاعر محمد حسن خان نے اپنے اشعار میں اس طرح کیا ہے۔ترجمہ:
جب وہ شال کوٹ (کوئٹہ) پہنچ کر قیام پذیر ہوئے تو انہوں نے خان کو خط بھیجا کہ تم ابھی اور اسی وقت اُٹھ کر بادشاہ کے حضور حاضر ہوجاؤ۔
شیرنر (خان) نے اس کے جواب میں یوں کہا:
اے برنس (انگریز نمائندہ) تم ہوش کے ناخن لو
اور مجھ پر یوں رعب مت جماؤ
جس دن سے میں تخت پر
اپنے ہی بخت و ہمت سے بٹھا ہوں
اللہ کا رسول ﷺ گواہ ہے
میری دشمنوں کے ساتھ لڑائی ہے۔
دریں اثنا شاہ شجاع انگریزی لشکر کے ساتھ عازم افغانستان ہوا اور قندھار فتح کرنے کے بعد وہ کابل کی جانب روانہ ہوا۔ کابل بغیر کسی لڑائی کے ان کے ہاتھ آگیا اور امیر دوست محمد خان لڑے بغیر وہاں سے فرار ہوگیا اور اس نے بعد میں خود کو انگریزوں کے حوالے کردیا جنہوں نے اسے جلاوطن کرکے کلکتہ میں نظر بند کردیا۔ افغانستان پر مسلط ہوجانے کے بعد انگریزی فوج کا ایک حصہ قندھار سے واپس کوئٹہ پہنچا۔ اسی دوران انگریزی افواج کو گورنر جنرل ہند لارڑاک لنپڈ کی جانب سے قلات پر حملہ کرنے اور خان محراب خان کو اس کی آزادانہ روش پر سزادینے کے احکامات جاری کئے جاچکے تھے۔
انگریزی فوج کا ایک دستہ بریگیڈیئر ولشائر کے زیرکمان قلات کی جانب روانہ ہوا۔ ساتھ ہی اس نے خان محراب خان کو اپنی شرائط کے تحت حکومت برطانیہ و افغانستان کا مطیع و فرمانبردار بننے کی تنبیہ کی۔ وہ دربار قلات کی اندرونی صورت حال سے بخوبی آگاہ تھا۔ اسے یقین تھا کہ خان کے سامنے اس کی ہر شرط پر انگریزوں کی اطاعت گزاری قبول کرنے کے سواکوئی راستہ نہیں ہے لیکن جب خان محراب خان کو انگریز حملے کی اطلاع اور دھمکی ملی تو اس نے کسی توقف کے بغیر انگریز قوت کا میدان جنگ میں جواب دینے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا۔ لالہ ہتورام اپنی کتاب ’’تاریخ بلوچستان‘‘ کے صفحہ 320پر لکھتا ہے:
’’ہر چند کوشش ہوئی کہ میر محراب خان سلام کرے یا قلات چھوڑ دے مگر محراب خان مقدمہ کرنے پر اور اپنی جان دینے پر مستعد رہا‘‘۔
خان کے ایک درباری آخوند محمد صدیق نے فارسی زبان میں خوانین قلات کی تاریخ لکھی جس میں اس نے تحریر کیا کہ انہوں نے خان کو مشورہ دیا کہ انگریزی قوت و سپاہ کا مقابلہ ہم نہیں کرسکیں گے لہٰذا مصلحت اسی میں ہے کہ وقتی طور پر پسپائی اختیار کی جائے اس پر محراب خان نے یہ جواب دیا:
’’جانتا ہوں کہ انگریز لندن اور پورے ہندوستان کے بادشاہ ہیں اب انہوں نے کابل و قندھار کو بھی تسخیر کرلیا ہے۔ ان کو جو قوت و غلبہ حاصل ہے میں اس سے آگاہ ہوں اور ان کا مقابلہ سخت مشکل ہے لیکن میں اس ملک کو چھوڑ کر کہاں جاؤں۔ میرے آباؤ اجداد نے اس سرزمین کو اپنالہودے کر حاصل کیا ہے۔ اللہ گواہ ہے کہ بغیر کسی ریاکے خالصتاً اللہ کے لئے اپنا سر دے رہاہوں۔ آئندہ جو ہو‘ سوہو خُدا کا شکر ہے کہ اپنی زندگی میں کسی غیر کے سامنے اپنا سر نہیں جُھکایا‘ اپنی قوت پر حکمران رہا۔ کسی کی اطاعت نہیں کی۔ آج اپنا سرکیوں قربان نہ کردوں، اللہ کی ذات سے اُمید ہے کہ وہ ضروراس گناہ گار کو جام شہادت نصیب کرے گا‘‘۔
یہ عبارت لالہ ہتورام نے اپنی کتاب ’’تاریخ بلوچستان‘‘ میں آخوند محمد صدیق کی فارسی کتاب کے متن میں صفحہ 258-259 پر اور خان احمد یارخان نے اپنی کتاب ’’قوم بلوچ و خوانین بلوچ‘‘ کے صفحہ 55پر تحریر کی ہے۔ خان محراب خان نے انگریزی حملے کی اطلاع پاکراپنے تمام سرداروں کو اسلامی جہاد‘ قومی غیرت اور بلوچی ننگ کا واسطہ دے کر اپنی سرزمین اور اس کی آزادی و ان کے تحفظ کی خاطر پکارا۔ مگر وہ تو ان کے تحفظ کی بجائے ان کو پائمال کرنے پر تلے بیٹھے تھے۔ میر گل خان نصیر اپنی کتاب ’’تاریخ بلوچستان‘‘ کے صفحہ 129پر اس المیے کا اظہار یوں کرتا ہے:
’’انگریزی فوج بلوچوں کے ننگ و ناموس پر ڈاکہ ڈالنے میجر ولشائر کی قیادت میں قلات کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ساراوان کے سرداروں نے مستونگ میں میجر ولشائر کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور اس کی امداد کی۔ راشن اور بھوسہ بہم پہنچانے کے لئے‘ اپنے آدمی‘ اونٹ اور گھوڑے ساتھ کردیئے اور خود عورتوں کی طرح چادر اوڑھ کر اور گھروں میں بیٹھ کر بلوچی ننگ و ناموس پر اغیار کی بد مستیوں اور درازدستیوں کا تماشا دیکھتے رہے‘‘۔
انگریزی افواج میجر ولشائر کی کمان میں تیرہ نومبر 1839کو قلات کے قریب پہنچ گئیں۔ اس وقت خان کے پاس ایک محدود سالشکر موجود تھا۔ جو انگریزی حملے کی اطلاع پاکر قلات اور اس کے گردونواح سے اپنی سرزمین کو غیر ملکی تسلط سے محفوظ رکھنے کی خاطر قلات میں جمع ہوچکا تھا۔ یہ سب مختلف علاقوں کے عام بلوچ سرفروش تھے۔
لڑائی علی الصبح شروع ہوئی جو شام تک جاری رہی۔ اس تمام عرصے ہتھیار اور حوصلوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ بلوچی لشکر نے اس وقت تک انگریز لشکر کو قلعے سے باہر روکے رکھا جب تک کہ انگریزی توپوں کی گولہ باری کے سبب قلعے کا ایک دروازہ گرگیا۔ انگریزی قبضہ مکمل نہیں ہوا۔ ایک ایسی ہی مزاحمت کا سامنا ان کو قلعے کے اندر بھی کرنا پڑا۔ انگریزی لشکر قلعہ کے اندر پہنچ کر فوری طور پر خان کے محل (میری) پر قابض ہوجانا چاہتا تھا۔ تاکہ مرکز مزاحمت ہی ختم ہوجائے اور خان کو گرفتار کیا جاسکے لیکن جب انگریزی لشکر میری کے قریب پہنچا تو بلوچی ناموس و وقارکا محافظ خان محراب خان۔۔۔۔۔۔بہ نفس نفیس ان کے ساتھ نبردآزما ہونے کے لیے موجود تھا یہاں ایک شدید جھڑپ ہوئی جس میں خان محراب خان نے اپنے کئی جان نثاروں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ جس کے ساتھ ہی اس پورے خطے میں انگریزی توسیع پسندی کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی اس لڑائی کا ذکر خود انگریز کماندار میجر ولشائر نے تسخیر قلات کے بعد گورنر جنرل کو بھیجی جانے والی رپورٹ میں اس طرح کیا:
دشمن قدم قدم پر نہایت بہادری‘ استقامت اور جوش کے ساتھ لڑتا رہا۔ دشمن نے قلعہ کے اندرونی حصہ تک اسی طرح مقابلہ کیا اور انچ انچ زمین کے لئے لڑتا رہا‘‘۔
تھوڑے وقفے کے بعد فوج کے اس حصے نے جس نے شہر پر قبضہ حاصل کیا تھا میری میں داخل ہونے کے لئے ایک دروازے پر رسائی حاصل کی۔ جہاں میر محراب خان نے اپنے آدمیوں کی سرکردگی کرتے ہوئے ایک دیرانہ مدافعت پیش کی۔ خان محراب خان اپنے کئی معتبرین کے ساتھ تلوار ہاتھ میں لئے مارا گیا۔
شہر کے کئی ملحقہ مکانوں سے ہم پر گولیوں کی بدستور جاری رہی یہاں تک کہ جان بخشی کا عام وعدہ دے کر بھی ظہر سے قبل ہم ان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہ کرسکے۔ قلعہ کی حفاظت غزنی کے مقابلہ میں زیادہ مضبوط طریقے پر کی گئی تھی۔میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہماری طرفسے مرے ہوئے اور زخمیوں کی تعداد زیادہ ہے‘‘۔
قلات کا سقوط نہ صرف بلوچستان کی آزاد حاکمیت کا اختتام تھا بلکہ اس پورے خطے میں انگریزی استعمار کے خلاف مضبوط مزاحمت کا ایک مرکز ختم ہوگیا۔ بعد میں اگرچہ خان محراب خان کے نوجوان فرزند میر نصیرخان دوئم نے بلوچ عسکری قوت کو منظم و متحرک کرکے انگریزوں کے نامزد کردہ خان شاہ نواز خان کو اس کے انگریز محافظ فوج کے ساتھ شکست دے کر بلوچوں کی حاکمیت اپنے ہاتھ میں لے لی مگر بعد میں ایک برتر حیثیت رکھنے کے باوجود انہوں نے انگریزی حکومت سے اپنی حاکمیت کی سند حاصل کرنے کی غرض سے ان کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرلیا جس کے ذریعے ان کی حیثیت انگریزی راج کے ایک ماتحت و فرمانبردار امیر کی سی ہوگئی۔
خان محراب خان کے ذکر کے بغیر بلوچستان کی تاریخ رقم ہی نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خان محراب خان ہی بلوچوں کا اولین و آخری آزاد اور خودمختار حکمران تھا۔ جس نے اپنے تمام دور حکومت میں نہ افغانستان کی بالادستی کو قبول کرلیا نہ انگریزی قوت کے سامنے جھکنا گوارا کیا۔ شاہ شجاع کو اپنے ہاں پناہ دیتے وقت جب افغانستان کے نئے حکمران نے اس کا تعاقت کرتے ہوئے اس کی حوالگی کا مطابلہ کیا تو خان نے جواب دیا کہ ’’شاہ شجاع اب میری باہوٹی میں آچکا ہے اسے گزند پہنچانے کے لئے اگر افغان فوجیں آگے آگئیں تو مجھے مقابلے پر پائیں گی‘‘۔ اس پر افغان فوج منگوچر سے ہی واپس ہوگئی تھی۔
ایک دوسرے موقع پر اس کے دربار کا ایک وزیر آخوند فتح محمد جب حاکم قندھار کے پاس اپنے بیٹے کے قتل کے سلسلے میں فریادی بن کر گیا اور اس نے محراب خان سے مطلوبہ قاتلوں کو پکڑ کر اپنے دربار میں بھیجنے کی ہدایت کی تو وہ بپھر گیا اور جواب دیا کہ یہ میری ریاست کا اندرونی معاملہ ہے تم اس میں دخل اندازی کرنے کے مجاز نہیں ہو اور حاکم قندھار کو یہ تلخ جواب سن کر خاموش ہونا پڑا اسی طرح خان محراب خان نے انگریزی حاکموں کی کسی بات کو بھی ‘ کبھی بھی اپنی حاکمیت سے بالاتر نہیں سمجھا۔
’’اس نے ایک غلام بلوچستان میں ذلت کی زندگی گزارنے کی بجائے اس کی آزاد فضاؤں میں مرجانے کو ترجیح دی‘‘۔
حوالہ: بگٹی۔ عزیز محمد۔ بلوچستان، شخصیات کے آئینہ میں۔ صفحہ 89-97
پبلشرز: فکشن ہاؤس

понедельник, 6 ноября 2017 г.

ھیربیار سعودی تعریف ایک پراکسی بیانیہ


قاضی داد محمد ریحان

قابض پاکستانی فورسز کے ہاتھوں بلوچ خواتین کا اغوا اور انہیں لاپتہ کرکے ٹارچرسیلز میں ڈالنا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ ماضی میں روابط کی کمزورویوں اور میڈیا کی غیرموجودگی میں ایسے واقعات کو بآسانی دبایا جاتا تھا۔لیکن موجودہ تحریک کے ابھار اور متحرک قوم دوست جماعتوں کی وجہ سے اب ایسے واقعات منظرعام پر آرہے ہیں۔ جس سے نا صرف بین الاقوامی برداری ان پاکستانی مظالم سے آگاہ ہورہی ہے بلکہ بندوبست پاکستان کی عوام بھی بتدریج بلوچستان پرقابض فورسز کی زیادتیوں کے بارے میں جان کر بلوچ تحریک کی حقانیت کو تسلیم کررہی ہے۔ اس لیے ڈاکٹراللہ نزر بلوچ کی اہلیہ ، بچی اور ان کے ساتھ دیگر خواتین کا اغوا وسیع پیمانے پر پاکستانی فورسز کی سبکی کا باعث بنا۔یہاں تک کہ پاکستان کے ٹاؤٹ بھی اس کے دفاع کرنے میں ناکام رہے اور پاکستانی سینٹ کے اجلاس میں بھی بعض سینٹرز نے اس پر اپنی تشویش کا اظہارکرتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا۔
واقعے کی نزاکت اور اس کے ابلاغی طاقت کا تقاضا تھا کہ بھرپور طریقے سے دنیا تک اپنی آواز پہنچائی جائے یہ صرف چند رہنماؤں کے گھر کی خواتین کے تحفظ کا معاملہ نہیں تھا بلکہ اس طاقتور چیخ کے ساتھ بلوچ قومی مسئلہ بھی مختلف میڈیم سے سفر کرتا ہوا دنیا کے کونے کونے میں پہنچا۔ھیربیارسے تمام تر اختلافات کے باوجود جناب ایک طاقتور سردار اور جدیدبلوچ نیشنل ازم کے بانی باباخیربخش مری کے بیٹے اور بلوچ تحریک کے حوالے سے اپنی پہچان رکھنے والے لیڈر ہیں۔ان سے یہ توقع ہے کہ وہ اس طرح کی حالات میں مذمتی بیان سے ہٹ کر ایسے اقدام بھی کریں گے جس سے پاکستان پر دباؤ بڑھایا جاسکے لیکن غیرمتوقع طور پر ھیربیار نے فوری ردعمل دینے سے گریز کیا یہاں تک کہ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نے بھی اس بات کو محسوس کیا اور ایک بلوچ فلم کے ڈائیلاگ ’’ سنگت گپ نہ جنت ‘‘ (دوست بات نہیں کرتا) کو پوسٹ کرکے ان کی اس خاموشی پر تنقید کی گئی حسب معمول ھیربیار کے ہمنواؤں نے ناصرف اس بات کا برا منایا بلکہ اس سوشل میڈیا ئی تنقید کو بھی کھینچ کر’سنگت‘ کی ذات تک لے جانے کی کوشش کی گئی البتہ یہ یکطرفہ تماشاسوشل میڈیا میں بھی عمومی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا اور بالآخر سنگت کا بیان بھی آگیا۔ ھیربیار کے ہمنوابیان کے مندرجات پر غور کی بجائے خوشی خوشی ’سنگت‘ کے بیان کو تنقید کرنے والوں کی منہ پر مارتے رہے ، تاثرتھا: ’’لو ھیربیار نے تم لوگوں کا منہ بند کردیا‘‘۔
موصوف کے بیان میں بلوچ خواتین کے اغوا کا تذکرہ تو تھا لیکن حالیہ واقعہ پر توجہ مرکوزکرنے کی بجائے ایک ہی بیان میں عالمی اور علاقائی سیاست کی مکسچر کی گئی جس سے بیان باہمی اعتماد کی فضا جس کی اس مشکل گھڑی میں ضرورت تھی ، پیدا کرنے میں ناکام رہا بلکہ اس سے ایک اور تنازعے نے جنم لیا۔ ڈاکٹراللہ نزر بلوچ نے ھیربیار کے بیان کے سامنے آنے کے فور اّ بعد اپنے ٹیوٹ میں ھیربیار کے بیان کی مذمت کی بعدازاں ایک اورسرخیل رہنما ء کامریڈ نبی (عبدالنبی بنگلزئی )نے بھی ھیربیار کے موقف پر اپنے تشویش کا اظہار کیا۔
ھیربیار بلوچستان فری موومنٹ نام کے ایک سرکل کو لیڈ کرتے ہیں ، بین الاقوامی بندشوں کی وجہ سے جناب خود کو اعلانیہ طور پر بی ایل اے سے الگ رکھتے ہیں لیکن ان کی وابستگی ایک کھلا راز ہے۔اس تناظر میں مذکورہ بلوچ رہنماؤں کی طرف سے دو مختلف نکتہ نظر کا ہونا دو جداگانہ سوچ کی نشاندہی کرتا ہے ایسا نہیں ہے کہ اس سوچ کا حالیہ واقعات یا سعودی عرب میں رونما ہونے والے سیاسی یا خانگی تبدیلیوں سے تعلق ہے یاتازہ واقعات کے بعد ہی دو مختلف سوچ پیداہوئیں مگر ماضی میں مشرقی بلوچستان میں سیاسی جماعتوں اور طلبا ء تنظیموں کے درمیان شدیدترین اختلاف کے باوجود اس ایک نکتے پر اختلاف کی مثال نہیں کہ:’’ بلوچ تحریک مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرئے گی اور نہ ہی معاشرے میں ملائیت قبول کی جائے گی۔‘‘ ھیربیار کے حالیہ بیان میں سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے نام نہاد اصلاحی اقدامات کا سراہا کہا گیا ہے ، یہی اس بیان کا مقصد تھا مگر کسی ممکنہ طعنہ سے بچنے کے لیے جناب نے بلوچ رہنماؤں کے نام لینے سے گریز کرتے ہوئے بلوچ خواتین کے اغوا بھی حوالہ دیا جو کہ ان کی ایک سیاسی مجبوری تھی۔
حیرت ہے کہ ایک محکوم قوم کے ایسے رہنما کی حیثیت سے جو اب تک اپنے گھر میں سدھار پیدا کرنے میں ناکام اور اپنی جماعت کی تقسیم در تقسیم جیسے سنگین مسئلے سے نمٹنے سے قاصر نظر آتے ہیں وہ سعودی بادشاہ کا دفاع کررہے ہیں۔ سعودی عرب جو وہابیت کا علم بردار ہے ، جس نے اسلام میں ’ لکمدینکم ولی دین ‘ کے فلسفے کو ’ جہاد ی ‘ فلسفے میں بدل دیا اور اب کے وہاں ایک بادشاہ اپنے اقتدار اور علاقائی اثر ورسوخ بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔انہوں نے احتساب کے نام پر اپنے ممکنہ مخالفین کے خلاف ایسے اقدامات کا آغاز کیا ہے جن کی عرب ملوکیت اور دنیا کی بادشاہتوں میں ایک طویل تاریخ ہے۔گزشتہ دنوں کے اقدامات سے جس میں درجنوں شہزادوں اور حکومتی اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا ہے ،صاف نظر آرہا ہے بادشاہ اپنے محلاتی سازشوں سے خوفزدہ ہوکر یہ سب کررہا ہے،تجزیہ نگار اس اکھاڑ پچھاڑ میں استحکام نہیں دیکھ رہے۔
اوراچھے سے اچھا دوربین لگانے پر بھی ہمیں ھیربیار کے لائے گئے اس دور کی کوڑی میں بلوچ مفاد ات کا شائبہ تک نظر نہیں آتا یہ الگ بات ہے کہ ھیربیار ہی ’ایران‘ کے خلاف بطور پراکسی اپنے خدمات پیش کرنے کا خواہاں ہو جو یقیناّ وہ نہیں چاہئیں گے۔یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ھیربیارمری کے ان کے اپنے والدگرامی باباخیربخش مری سے تعلقات میں بگاڑپیدا ہونے کے بعدوہ ان افراد کے قریب ہوگئے جن کا تعلق ایران کے زیرانتظام مغر بی بلوچستان سے ہے جو وہاں زمین پر موجود نہیں لیکن یورپی ممالک میں ایرانیوں کے ساتھ مل کر ایرانی رجیم کے خلاف محض پروپیگنڈہ سے دل بہلا رہے ہیں۔ان افراد نے ماضی میں بلوچ نیشنل فرنٹ میں بھی درانداز ی کی اور کچھ لوگوں کو ماورائے ادارہ فنڈنگ کرکے ان سے ایران کے خلاف نعرے لگوائے۔ ان کے اپنے پاس موثر قیادت اور عوامی حمایت نہ ہونے سے ھیربیار جیسے قدآؤر شخصیت کا ان کے دام میں آنا ان کی بڑی کامیابیہے ، جسے وہ استعمال کررہے ہیں۔ ان میں سے کئی ھیربیار کے خصوصی مشیر اور سفیر کا درجہ بھی رکھتے ہیں جنہوں نے ھیربیار کے چارٹرآف لبریشن کی تیاری اور تقسیم میں بھی کلیدی کردار ادا کیا لیکن دوسری طرف ان کا مذہبی انتہا پسند تنظیم جنداللہ ، جیش العدل اور انصارالفرقان سے بھی یارانہ ہے جن کے موقف کی یہ ببانگ دہل تشہیر اور دفاع کرتے ہیں۔
جب کہ مذہب کے نام پر لوگوں کے تقسیم کرنے والے ان گروہوں کو بلوچ قوم دوست جماعتیں ہمیشہ سختی کے ساتھ مسترد کرتے رہی ہیں اور اس کا ھیربیار کے اختلافی بیان سے نسبت اتنا ہے ہے کہ موصوف کا بیان بلوچستان کی ان سیکولر سوچ رکھنے والی جماعتوں کے موقف کے برخلاف ہے۔
بلوچستان کی سب سے بڑی قوم دوست اور آزادی پسند سیاسی جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ جو کہ ایک’ سیکولرڈیموکریٹک آزاد بلوچستان ‘کی پرامن تحریک چلا رہی ہے روز اول سے بلوچستان میں قبائلیت ، رجعت پسندی اور ملاہیت کے خلاف نظریہ ساز کردار اداکررہی ہے۔مذکورہ جماعت نے بلوچ نیشنل فرنٹ کی طرف سے ۰۲ جون ۰۱۰۲ کو مالک ریگی کی پھانسی کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے ہونے والے احتجاج سے بھی لاتعلقی کا اعلان کیاتھا۔ بی این ایم کا موقف تھا مالک ریگی ایک مذہبی انتہاء پسند گروہ کا سرغنہ تھا جن کے ایجنڈے میں بلوچستان کی آزادی کی بجائے ، ایرانی سنی حقوق کی بحالی تھی اور وہ مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہا تھا۔۔ بی این ایم کے اس موقف پر اس وقت بھی ان عناصر نے ناراضگی کا اظہار کیا لیکن بی این ایم اپنے موقف پر قائم رہی اوراس احتجاج کے لیے ’ بلوچ نیشنل فرنٹ ‘ کے نام کو استعمال کرنے والوں سے ایک غیررسمی نشت میں اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا گیا۔ 
یہ ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ بی این ایم اور اس کی اتحادی تنظیمیں ماضی میں بھی اسی موقف پر قائم تھی جس کا ھیربیار کے بیان کے ردعمل میں اعادہ کیا گیا ہے۔مگر ھیربیار مری کا سعودی عرب کے پراکسی کرداروں کی طرف جھکاؤ اور ان کی خوشنودی کے لیے ان کے آقا’آل سعود ‘کی تعریف پاکستان کی طرف سے بدترین نسل کشیکی شکار بلوچ قوم کے مصائب میں اضافہ کرئے گا کیوں کہ پاکستانی دہشت گردی سے بچنے کے لیے اندازاً پچاس ہزار سے زائد آئی ڈی پیز مغربی بلوچستان ہجرت کرچکے ہیں جہاں وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ جن میں نوئے فیصدایسے ہیں جو غیریقینی صورتحال میں وہاں پناہ گزین ہیں۔ ایران کے خلاف ھیربیار کا پراکسی بیانیہ (جو بلوچ مفادات اور زمینی حالات سے میل نہیں کھاتا) ان مہاجرین کی زندگیوں کو برائے راست خطرے میں ڈالنے کا سبب بھی بن سکتا ہے جب کہ اصل خطرہ بلوچ تحریک کے سیکولر نظریے کو ہے جسے مغربی بلوچستان میں شیعہ سنی شکل دے کر مسخ کیا جاچکا ہے جہاں ان ہزاروں بلوچوں کو بھی نفرت اور بیگانگی کی نظر سے دیکھاجاتا ہے جو سنی نہیں۔اس لیے ھیربیار کے بیان پر فوری ردعمل دینا ایک دور اندیشانہ فیصلہ تھا جس کے مستقبل میں بلوچ معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے

воскресенье, 5 ноября 2017 г.

چادر چھِین کر سر پر سجانے والے

دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ: حیدر مِیر
تیس اکتوبر کو کوئٹہ میں سریاب روڈ کے علاقے سے اغواء کیئے گئے خواتین چوتھے روز منظر عام پر آگئے۔ اغواء ہونے والے خواتین میں بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ، اور بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک سینئر کمانڈر اسلم بلوچ کی ہمشیرہ سمیت دیگر خواتین شامل تھیں۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان کے مطابق ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ علاج کی غرض سے کوئٹہ گئی تھی، انہیں مشکے کے علاقے میں فوجی بمباری کے دوران کمر میں چوٹ آئی تھی، اور تاحال ریڑ کی ہڈی میں تکلیف کی وجہ سے انہیں کوئٹہ پھر سے علاج کے لیئے آنا پڑا تھا، اسی دوران انہیں اور دیگر خواتین کو فورسز نے گھر سے اٹھا کر لاپتہ کردیا۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان و وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی اول اس بات سے انکاری رہے کہ فورسز نے ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ یا پھر اسلم بلوچ کی ہمشیرہ کو حراست میں لیا ہے، مگر بعد میں اپنی باتوں سے مکر کر انہوں نے تسلیم کیا کہ کچھ خواتین انکی تحویل میں ہیں، مگر کسی کا نام ظاہر کیئے بغیر بتایا کہ ان خواتین کو افغان سرحد پار کرتے ہوئے چمن سے پکڑا گیا ہے۔
بلوچ تحریک کے سرکردہ بلوچ رہنماوں کے خاندان کی خواتین کو نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل کراچی میں بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ براہمدغ بگٹی کی ہمشیرہ کو خفیہ اداروں کے کارندوں نے فائرنگ کرکے بیٹی سمیت جانبحق کیا تھا۔
کوئٹہ سے اللہ نذر کی اہلیہ و اسلم بلوچ کےہمشیرہ کے اغواء کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور مختلف طبقہ فکر کی جانب سے پاکستانی فورسز کے اس عمل کی بھر پور مذمت کی گئی۔ سب سے زیادہ غم و غصہ بلوچ عوام میں پایا گیا کیونکہ بلوچ معاشرے میں عورت کا مقام نہایت بلند مانا جاتا ہے، حالات چاہے جس نہج پر پہنچ جائیں خواتین و بچوں کو فریق نہیں بنایا جاتا، بلکہ خواتین کی مداخلت پر انکی احترام کی خاطر جنگیں روک دی جاتی ہیں۔
اس دلخراش واقع کو بلوچستان کی عوام اور سیاسی و عسکری لیڈران اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں کہ انکے چادرو چار دیواری اور ننگ و ناموس کو پاکستانی فورسز نے پامال کیا ہے۔ جبکہ اسی دوران دونوں عسکریت پسند رہنماوں ڈاکٹر اللہ نذر اور اسلم بلوچ نے بھی سوشل میڈیا پر بیانات جاری کیئے۔ اسلم بلوچ نے اپنے ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ، “آزاد وطن ہی ہمارے عورتوں بچوں کی بہتر و محفوظ زندگی کا ضامن ہوگا”۔
گذشتہ روز حکومت کی جانب سے ڈرامائی انداز میں انہی خواتین کو برآمد کیا گیا، اور انہیں میڈیا کے سامنے چادریں اوڑھ کر یہ کہا گیا کہ ہم بلوچی روایات کا احترام کرتے ہیں اور اسی لیئے ان خواتین کو چادریں پہنا کر رہا کر رہے ہیں۔ گو کہ پاکستانی فورسز کی تاریخ رہی ہے کہ انہوں نے کبھی بلوچ خواتین کے سر کی چادروں کی پرواہ نہیں کی، فوجی کاروائیوں میں خواتین کو ہمیشہ فریق بنایا گیا ہے۔ اس وقت بھی سہنڑا بگٹی کے خاندان کی عورتوں سمیت کوہلو کاہان اور ڈیرہ بگٹی سے درجنوں کی تعداد میں خواتین لاپتہ ہیں۔ ان لاپتہ خواتین میں زرینہ مری جیسے ایسی کئی خواتین بھی شامل ہیں جو دس سال سے زائد عرسے سے لاپتہ ہے۔
ستر کی دہائی میں بھٹو حکومت کے دوران بلوچستان کے علاقے کوہلو و کاہان میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن ہوئے، جہاں سینکڑوں بلوچ مردوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا، وہیں انکے گھر کی خواتین کو ٹرکوں میں بھر کر قید خانوں میں ڈال دیا گیا۔ شیرمحمد مری نے ان دنوں بی بی سی کو دیئے گیئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ” ہماری بچیوں کو منڈیوں میں فروخت کیا گیا، میں میڈیا میں بتاتا رہا مگر کسی نے نہیں سنا، بہت سی بچیوں کو میں نے اپنی جیب سے پیسے دیکر خرید کر واپس انکو انکے ماں باپ کے حوالے کیا ہے”۔
ماضی قریب میں بھی ایسے دلخراش واقعات کا حوالہ ملتا ہے، جہاں حکومتی فورسز نے بلوچی اقدار کی پرواہ کی نا چادر و چار دیواری کی۔ رواں سال ہرنائی کے علاقے شاہرگ میں ایک ہی خاندان کے 7 خواتین کی تب موت واقع ہوئی جب فوجی ہیلی کاپٹر سے ایک گھر پر گولہ داغا گیا، اس حملے میں ایک نوزائدہ بچہ بھی لقمہ اجل بنا جو اس وقت اپنی ماں کے ساتھ اس گھر میں تھا۔
ہرنائی کے علاقے میں یہ واحد واقعہ نہیں، بلکہ اس سے قبل سن 2015 میں فوجی آپریشن کے دوران 50 سے زائد بلوچ خواتین کو ایک ماہ تک زیرِ حراست رکھا گیا اور بعد ازاں بین القوامی سطح تک پہنچنے والی احتجاجوں کی پریشر کی وجہ سے انھیں بازیاب کیا گیا۔
اسکے علاوہ رواں سال ستمبر میں آواران آپریشن کے دوران فوجیوں کا خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کرنے کی بھی اطلاعت ملیں، اس حوالے سے بلوچ نیشنل مومنٹ سمیت دیگر جماعتوں نے مذمتی بیانات بھی جاری کیئے ہیں۔ جبکہ تازہ واقعے میں کراچی کے علاقے گلستانِ جوہر سے 9 بلوچ طلباء کو اغواء کیا گیا، جن میں بلوچ ہیومن رائٹس سے منسلک نواز عطاء بھی شامل ہیں۔ اغواء کے اس واقع کے دوران فرح بلوچ نامی خاتوں کو بلڈنگ کے تیسری منزل سے گرا کر بری طرح زخمی کیا گیا، فرح بلوچ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیئے آج بھی کراچی پریس کلب کے سامنے سٹریچر پر لیٹی احتجاج کر رہی ہیں، وہ اب چل نہیں سکتی۔
خیال رہے 30 اکتوبر کو سریاب روڈ میں واقع گھر سے اغواء کیئے گیئے ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ و دیگر خواتین کو حکومت منظر عام پر لے آیا مگر ان خواتین کے ساتھ اغواء ہونے والے تین مرد سمیع اللہ، شاہ میر اور بیبرگ بلوچ تاحال لاپتہ ہیں۔
سر پر چادر رکھ کر حکومتی وزراء جس بلوچیت کا مظاھرہ کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں، وہ اب تک یہ جواب دینے سے قاصر ہیں کہ ابتک درجنوں لاپتہ خواتین کو کب بازیاب کیا جائے گا اور ان تمام خواتین کے اغواء اور انکے سروں سے چادر چھیننا کونسی بلوچیت ہے؟

среда, 1 ноября 2017 г.

عسکری اتحاد اور دشمن کی نئی چالیں:تحریر: جیئند بلوچ

کل کا دن بلوچ تحریک کے حوالے سے بڑی اہم دن ثابت ہوئی۔ کل جو دو خبریں اس حوالے سے آئیں وہ بھی اہمیت کی حامل تھیں، پہلی خبر جس نے تحریک سے جڑے ہمدردوں اور بہی خوابوں کو مسرور و شاد کردیا۔
بی ایل ایف کے ترجمان کی خبر تھی جس میں بلوچ قومی تحریک کے ایک اہم جز بی ایل اے کے ساتھ اشتراک عمل کی بابت پالیسی تھی۔
کل ہی کی دوسری افسردہ اور فسوں ذدہ خبر پاکستانی حمیت سے عاری فوج کا قومی رہبر ڈاکٹر اللہ نظر کے بیوی اور ان کے بچوں کی اغواء کی تھی جس نے اندوہ مچادی، بلوچوں کو غم ذدہ اور ہیجاں میں مبتلا کردیا یہ بلا شبہ ایک صدمہ تھا جس کا سہنا انتہائی مشکل تھا دشمن کو معلوم تھا کہ وار کہاں کرنا ہے سو اس نے وہاں وار کردیا یہ کسی حمیت سے عاری دشمن کی جنگی پلان تھا جسے سوچ کر ترتیب دیا گیا تھا ہماری سوچ اپنی جگہ مگر وہ کامیاب رہا۔
اگر دیکھا جائے تو بی ایل ایف اور بی ایل اے کی جانب سے اشتراک عمل کا اعلان ناصرف قومی خواہشات کی تکمیل ہے جس کے لئے تحریک سے جڑے عناصر اور ہمدرد کافی عرصے سے جدوجہد کررہے تھے بلکہ وقت و حالات کی ضرورت بھی تھا کیوںکہ ایک ہی مقصد کے لئے جاری جدوجہد میں الگ الگ محاذ بنانا، ایک دوجے کا جدا راستے پہ چلنا، ایک دوسرے کو اس کے باوجود کہ مقصد ایک ہے برداشت نا کرنا تکلیف دہ تھا اس سے مایوسی کی شدت محسوس کی جاسکتی تھی جدا جدوجہد کو لے کر دشمن اور اس کے عناصر عوام میں بھڑک بازیاں بھی کرتے رہتے تھے۔
مگر اشتراک عمل کے اعلان کے بعد بھی چند ایک ایسے لوگ ایک ایک کر کے نظر آنے شروع ہوگئے ہیں جو بظاہر ہمدرد رہے ہیں لیکن باہمی اختلافات کو ہمیشہ ہوا دیتے رہے تھے۔ ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر اتحاد کی خواہش کے برعکس ان کا طرز بیان اور طریقہ واردات جداگانہ رہا تھا وہ  بغل میں چھری اور منہ میں رام رام والے فارمولے پر عمل پیرا تھے۔
تنظیموں کے طریقہ کار بالخصوص بی ایل ایف پر ان کی نکتہ چینیاں، تنقید اور الزام تراشیاں سب سے بڑھ کر تھیں۔ وہ اتحاد کے بخار میں مبتلا تو تھے لیکن اب جبکہ اتحاد ایک عملی شکل میں سامنے آگئی ہے یہی لوگ اس کی مخالفت میں کمر بستہ ہوگئے ہیں جس سے ان کا ظاہری طرز عمل اور اندرونی نیت آشکار ہوتی ہے یہ لوگ کون ہیں کس کے کہنے پہ ایسا کررہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں یہ لمحہ ایسا ہے کہ اب کسی کو رعایت نہیں دینا چاہیے جتنے مکروہ چہرے ہیں جن پر خوداری کا پلاسٹک چڑھا ہوا ہے انہیں بے نقاب کرنا چاہیے تاکہ ان کی نحوست دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہ بن پائے۔
اتحاد مخالف عمل کے خلاف جتنے عناصر سرگرم ہیں انہیں بلاشبہ نواب زادہ حیر بیار مری کی تائید حاصل ہے کیوں کہ زبانی جمع خرچ کے برخلاف  حیر بیار بی ایل اے کی بی ایل ایف کے ساتھ اتحاد کے عملی شکل میں سامنے آنے سے کترا رہے تھے وہ محض الفاظ کی چابک دستی کے سہارے اتحاد اور یکجاہی کی راگ الاپتے رہے ہیں اب جب بی ایل اے کے برسر زمین قیادت نے محسوس کیا ہے کہ الگ الگ جدوجہد قبولیت کا حامل نہیں ہوسکتا اور اس کے خاطر خواہ نتائج نہیں آرہے ہیں تو وہ اتحاد کی راہ پہ آگئے جو بلا شبہ ایک مقبول فیصلہ ہے البتہ اسے  حیر بیار کی رضا و رغبت حاصل نہیں ہے اس لیئے ان کے جتنے قصیدہ خواں ہیں وہ اپنی نحوست کے ساتھ ایک ایک کر کے سامنے آرہے ہیں  حیر بیار کا کردار اتحاد مخالفت یا ٹوٹ پھوٹ میں کسی تعریف کا محتاج نہیں اس پہ پھر بات ہوگی۔
بی ایل اے اور بی ایل ایف کے اشتراک عمل کے ساتھ بی آر اے اور یو بی اے جو عسکری محاذ پر منظم اور سرگرم ہیں ان کا امتحان شروع ہوگیا ہے وہ کس طرح کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں یہ ان پر منحصر ہے البتہ عوامی خواہش ضرور یہ ہے کہ بی آر اے اور یو بی اے وقت کا ادراک رکھتے ہوئے اس اشتراک عمل کو اپنی شراکت سے مذید بہتر منظم بناسکتے ہیں۔
بی آر اے کے سرکردہ کمانڈر واجہ گلزار امام اور یو بی اے میں محترم بنگلزئی و قادر مری مجنھے ہوئے رہنما ہیں ان کے سیاسی سوچ اور حکمت کسی سے پنہاں نہیں ہیں ان سے بڑی توقعات ہیں کہ حالات کی نزاکات کا بھرم رکھیں گے۔
بی آر اے اور یو بی اے کی قیادت جن کا عسکری کردار بلاشبہ بلند ہے اور وہ زمین میں رہ کر تمام تر حالات و واقعات کا بچشم خود گواہ ہیں کس طرح اکیلے جدوجہد برقرار رکھ سکتے ہیں یہ ان پہ منحصر ہے لیکن مجموعی قومی مفادات کا یہ تقاضا ان سے بھی ہے کہ وہ اتحاد کے لئے عوامی خواشہات کا لحاظ رکھیں۔


اگر دشمن کی چالاکیاں دیکھی جائیں تو وہ روز نت نئے گر آزما کر جنگ کو نئی سمت لیجانے کی کوشش کررہی ہے۔ کل ڈاکٹر اللہ نظر اور استاد اسلم کے خاندان سے عورتوں اور بچوں کے اغواء کا عمل دشمن کی نئی چالاکیاں ہیں وہ اس طرز عمل کو یہاں سے بطور ٹیسٹ کیس شروع کر کے اس کا دائرہ آہستہ آہستہ ہر اس فرد تک لیجا ئے گا جو تحریک کا ہمدرد ہے۔ اس عمل کے خلاف اکھٹے رہنا، بلوچ مائوں اور بہنوں کی حفاظت کے لیئے نئی حکمت عملیاں تشکیل دینا، دشمن کی چالوں کو سمجھ کر جنگ کو مزید پھیلانا اور وسعت دینا اور اسے دشمن کے ہر کونے تک لے جانا مشترکہ عمل سے ممکن ہے۔
یہ ہمارا محض خیال ہوسکتا ہے کہ دشمن بزدل ہے جو عورتوں کو اغواء اور زیر زندان کررہی ہے مگر ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس دشمن سے ہمارا پالا پڑا ہے اس میں اخلاقی ا اقدار کا شروع دن سے فقدان ہے۔اس بے حمیت اور گری ہوئی دشمن سے بدتر سلوک کی توقع کرنا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ اس کے مقابلے میں ہم کیا کررہے ہیں، ایک اخلاق باختہ دشمن کے ساتھ دوران جنگ ہاتھ ہلکا کرنا انہیں اس کے موافق جواب دینے سے گریز کرنا کس طرح سودمند ثابت ہوسکتا ہے اس پہ سوچنا اور نئی حکمت عملیاں ترتیب دینا بڑی ضرورت بن گئی ہے۔ دشمن کے جتنے دوست ہیں انہیں نقصان پہنچا کر یا انہیں اسی زبان میں جواب دے کر جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ گوکہ دشمن کو اپنے بلوچ ہمدردوں اور دلالوں کا نقصان اتنا غم ذدہ نہیں کرتا مگر ان کی راہیں ضرور مسدود ہوسکتی ہیں کم از کم اپنا غم اس سے بانٹا جا سکتا ہے۔ دوران جنگ دشمن کے ساتھ اس حد تک چلے جانا کہ انہیں درد سہنا پڑے حکمت اور باہمی اشتراک عمل کا تقاضا ہے