Powered By Blogger

понедельник, 13 июля 2015 г.

چند سوالوں کے جواب 


تحریر: میرمحمد علی ٹالپر

گوادر کسی کیلئے اتنا اہم نہیں ہو سکتا جتنا کہ یہ بلوچ عوام کیلئے ہے۔ چین کے گوادر میں اسٹراٹیجک اور اقتصادی مفادات تو ہو سکتے ہیں لیکن بلوچ کیلئے یہ ان کا مادر وطن ہے
Mir Muhammad Ali Talpurبلوچستان توجہ کا مرکز ہے لیکن بلوچ اور ان کی خواہشات کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) چین، پاکستان اور فطری طور پر باقی دنیا کی دلچسپی کا مرکز ہے جیساکہ سب اسے اسٹراٹیجک اور اقتصادی فوائد اور نقصانات کے مطابق دیکھ رہے ہیں جو ان کیلئے اس سے وابسطہ ہیں۔ دوسروں کیلئے یہ کسی بھی طرح کی اہمیت کا حامل ہو، بلوچ کیلئے یہ نہایت اہم ہے جن کی زندگی یہ ’ترقی‘ کے نام پر تباہ کردے گی۔ سی پی ای سی چین کیلئے اسٹراٹیجک حوالے سے اور پاکستان کیلئے بطور اس منصوبے کے تکمیل کنندہ کے نہایت اہم ہے لیکن ان کے خیالات بلوچ سے مختلف ہیں جنہیں عام طور پر اسکی راہ میں حائل رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
چین اس منصوبے پر اپنی رقم اور رتبے کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ جاننا چاہتا ہے کہ بلوچ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ حال ہی میں مجھ سے اس سلسلے میں کچھ سوالات پوچھے گئے اور انکے جواب مندرجہ ذیل ہیں:سی پی ای سی کے بارے میں بلوچ کی رائے کیا ہے؟ بلوچ سی پی ای سی کو کسی امید افزا شے کے طور پر نہیں دیکھتے کیونکہ وہ اسے ایک ایسے آلے کے طور پر دیکھتے ہیں جو ترقی کے بہانے بلوچوں کو ان کے حقوق سے محروم کرے گا۔ بلوچ عوام کو اس بات کا ادراک ہے کہ سی پی ای سی بلوچستان میں باہر کے لوگوں کی بے تحاشہ آمد کے سبب ان کی اکثریت کو خطرے میں ڈال دے گی اور یہ انکی تمام سیاسی، اقتصادی اور سماجی حقوق کیلئے موت کی گھنٹی ثابت ہوگی جن کیلئے انہوں نے جدوجہد کی ہے اور بہت قربانیاں دی ہیں۔
بلوچ کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔ صدر شی ینپنگ کی طرف سے توانائی کوریڈور کے منصوبوں کیلئے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے کے بعد یہ بلوچ کی زندگی اور بلوچ حقوق کیلئے اتنے بڑے سنگین خطرے کے طور پر متجسم ہوئی جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس کی وجہ سرمایہ کاروں کو انکے کامل منافع کی ضمانت دینا تھا جس کیلئے پاکستانی اسٹابلشمنٹ نے بلوچ کیخلاف شدید کریک ڈاون کا وعدہ کیا ہے جو اپنے وسائل کے استحصال کیخلاف شدید نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔
ان کے خلاف اپنے کریک ڈاون کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے پاکستانی فوج نے اپنی فوج کی نو بٹالینوں اور سویلین فورسز کی چھ بٹالینوں پر مشتمل ایک اسپیشل سیکورٹی ڈویژن (ایس ایس ڈی) کے قیام کا اعلان کیا ہے اور یہ کہ فوج اپنے آپریشن ضرب عضب (شمالی وزیرستان میں جو فوجی آپریشن جاری ہے) کی بلوچستان تک توسیع کر سکتا ہے۔ یہ اقدامات بلوچستان میں جبر میں شدت آنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پہلے سے ہی مشکے، آواران اور دیگر مقامات پر انتہائی نوعیت کے تشدد کے واقعات ہوئے ہیں۔ بلوچ عوام سی پی ای سی کو اپنے مفادات اورمستقبل کیخلاف نہایت ضرر رساں، نقصان دہ اور منحوس سمجھتے ہیں۔
بلوچ عوام سی پی ای سی اور خاص طور پر گوادر کی ترقی سے کیا چاہتے ہیں؟ وہاں پربلوچ عوام ہیں اور وہاں پر بلوچ لوگ ہیں؛ ڈاکٹر عبدالمالک جیسے اور ان کی طرح کے لوگ صرف سی پی ای سی کے خبزریزوں سے ایک حصہ چاہتے ہیں جو کہ بلوچ کا حصہ ہوگا، اس کثیر منافع میں سے جسکی چین اور پاکستان توقع کر رہے ہیں۔ اور پھر وہاں پر بلوچ عوام ہیں جنہوں نے 27 مارچ 1948 کو پاکستان کی طرف سے بلوچستان کے غیرقانونی الحاق کیخلاف مزاحمت کی ہے اور تب سے ترقی اور بہتری کے نام پر اپنے حقوق پر تجاوز اور بے جا مداخلت کیخلاف مزاحمت کی ہے۔
بلوچ عوام نے سی پی ای سی سے پہلے گوادر کی نام نہاد ترقی کی مخالفت کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ باہر کے لوگ اسے ان کیلئے دلدل بنا دیں گے۔ انہوں نے وہاں زمینوں پر قبضے کی شروعات دیکھی اور انہیں ڈر تھا کہ اس سے وہاں کی آبادیاتی خصوصیات کا توازن مکمل طور پر بگڑ جائیگا اور انہیں بے دست و پا کردے گا۔ گوادر کے حوالے سے بلوچ نے اپنی ناراضگی کو محض الفاظ تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے عملی طور پر اس کیخلاف مزاحمت کی ہے اور یہ عمل خود گوادر کی ترقی پر انکے موقف کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔
چینیوں کی جانب بلوچ عوام کے احساسات کیا ہیں؟ بلوچ عوام فطری طور پر ان سب کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو بلوچ عوام کے مقابلے میں پاکستان کی یا تو فوجی یا اقتصادی حوالے مدد کرتے ہیں؛ یہ بدگمانی اور نفرت چین اور امریکہ دونوں کی جانب بلوچستان میں ان کے کردار کے حوالے سے پائی جاتی ہیں۔ جیساکہ چین بلوچستان میں تیزی سے سرگرم ایک سرمایہ کار بن چکا ہے، اس کیخلاف یہ نفرت بڑھی ہے اور ترقی کے نام پر پاکستان کی طرف سے جن مظالم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے لوگ انہیں سی پی ای سی کے سبب چین سے منسوب کررہے ہیں۔
سیندک کے تانبے اور سونے کی کانوں میں چینیوں کے ملوث ہونے کو بھی ہمیشہ عداوت کی نظر سے دیکھا گیا ہے چونکہ اسے بلوچ عوام کو ان کے وسائل سے محروم کرنے اور اس کے بدلے انہیں کچھ بھی نہ ملنے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سیندک اور اسکے ارد گرد بسنے والے مقامی لوگوں کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اس پر طرہ یہ کہ کان کنی سے پیدا ہونیوالے ماحولیاتی خطرات کے خوف نے بلوچ کے دل میں چین کیلئے ذرّہ بھر بھی محبت پیدا نہیں کی ہے۔
بلوچ عوام پاکستانی حکومت کو اپنے خدشات اور گزارشات کس طرح سے پہنچا رہے ہیں؟ جیساکہ میں اوپر کہہ چکا ہوں کہ وہاں پر بلوچ عوام ہیں اور وہاں پر بلوچ لوگ ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک جیسے لوگ پاکستانی حکومت کی طرف سے کی گئی کسی بھی ایسی کارروائی پر سوال نہیں اٹھاتے ہیں جو بلوچ مفادات کیلئے نقصان دہ ہوں کیونکہ انہیں اپنے ذاتی مفادات اور فوائد کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے۔ وہ یقینا منفی تبصرے کرتے رہتے ہیں جیساکہ عبدالمالک نے سی پی ای سی کے راستے کے بارے میں کیا تھا لیکن یہ محض سیاسی مفادات کیلئے دکھاوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بے اختیار اور بے اثر ہیں کیونکہ بلوچستان میں فیصلہ سازی کے عمل میں انکا کوئی کردار نہیں ہے۔
دیگر لوگ جو ترقی کے نام پر بلوچ وسائل کے استحصال کی مکمل طور پر مخالفت کرتے ہیں انہیں اپنے خیالات تک پیش کرنے کی اجازت نہیں ہے اور وہ کارکن جو ناانصافیوں کیخلاف آواز بلند کرتے ہیں غائب کردیے جاتے ہیں؛ ہزاروں لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان میں سے تقریباً 3000 ہلاک کرکے پھینک دیے گئے ہیں۔ بلوچ حقوق کے مسائل کو سامنے لانے والے تمام ویب سائٹس پر پابندی عائد ہے۔ بلوچ عوام کی حالت زار کو اجاگر کرنے کیلئے لاہور، کراچی وغیرہ میں سیمیناروں کے اہتمام کو سرکاری طور پر منسوخ کر دیا جاتا ہے تو پھر واحد راستہ اس کیخلاف عملی مزاحمت کا رہ جاتا اور یہی وہ کر رہے ہیں۔
گوادر چینیوں کیلئے بہت اہم ہے۔ یہ بلوچستان کے عوام کیلئے کس قدر اہم ہے؟ گوادر کسی کیلئے اتنا اہم نہیں ہو سکتا جتنا کہ یہ بلوچ عوام کیلئے ہے۔ چین کے گوادر میں اسٹراٹیجک اور اقتصادی مفادات تو ہوسکتے ہیں لیکن بلوچ کیلئے یہ ان کا مادر وطن ہے۔ اس کے علاوہ، وہ محسوس کرتے اور سمجھتے ہیں کہ گوادر لاینحل طور پر ان کے مستقبل کی خوشحالی سے منسلک ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے ماضی میں اس پر تجاوزات کیخلاف مزاحمت کی ہے اور اب بھی مزاحمت کر رہے ہیں۔ گوادر کی زمینوں پر قبضہ اس وقت شروع ہوا جب سال 2000 میں اس کی ترقی کیلئے منصوبہ بندی شروع کی گئی اور یہ اس قدر بے قابو تھی کہ لوگوں کو زمین خریدنے کیلئے مدعو کرنے کے بل بورڈز لاہور میں دیکھے جا سکتے تھے۔ تاہم، یہ بلوچ عوام کی طرف سے کی جانیوالی مزاحمت تھی جس نے بالآخر اسے روکا۔ گوادر میں زمینوں پر اس قبضے نے بلوچ کو بلوچستان میں سی پی ای سی کے راستے میں پیدا ہونیوالے ان حالات کی بابت بیدار کیا جس سے ان کیلئے وہ سنگین نتائج برآمد ہوتے جو انہیں ایک معمولی اقلیت میں تبدیل کرکے رکھ دیتے۔ بلوچ عوام چاہتے ہیں ہر کوئی یہ بات جان لے کہ وہ بہ آسانی اپنے مستقبل یعنی گوادر سے دستبردار نہیں ہونگے، کسی کیلئے بھی نہیں، نہ تو پیسے سے اور نہ ہی وحشیانہ طاقت کے استعمال سے اور ان دونوں کا پاکستان کی طرف سے بے دریغ استعمال کیا جارہا تاکہ وہ اس سے دستبردار ہوجائیں۔
راقم کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے

воскресенье, 12 июля 2015 г.

A Balochistan Freedom Fighter’s last words before he succumbs to bullet wounds inflicted by the Pakistan Arm

On June 30, 2015, the Pakistan Army attacked the village of Mehi in Occupied Balochistan near the town of Mashkay, which is the hometown of Balochistan Liberation Front (BLF) supreme commander Dr. Allah Nazar Baloch.
The Army’s assault began with aerial shelling by U.S. supplied helicopter gunships on the village and the nearby mountains. Later ground troops moved in breaking into civilian houses.
In the carnage that followed 11 people were massacred including Dr. Allah Nazar’s two nephews Suleman aka Shehak and Zakir Baloch. Suleman ‘Shehak’ Jan was a commander of BLF.
The family had gathered there for the funeral of Suleman’s father who passed away a day earlier on June 29. Of the 11 men who died in the attack only four were members of BLF and rest were non-combatant civilians.
Here is a video clip recorded moments before Suleman ‘Shehak’ Jan succumbed to his bullet wounds, where he speaks his last words addressed to his friends, family and the Baloch nation.

WARNING! This Video contains Graphic Images. Viewer Discretion is strongly advised

Video Player

Text of Shehak Jan’s Message to his comrades:

“My sangats (comrades), I have been shot. If I die, our fight with the enemy is to continue. The Freedom for Balochistan is our aim. All the sacrifices that our sangats have made, and are still making, is for Balochistan. For the sake of their sacrifices I urge our leadership, don’t do anything that might harm our organization and cause the struggle to stop.
“In order to strengthen the struggle and foil all the tactics of the enemy, every Sangat must struggle. I may not have much strength left to speak…
“Perhaps I am short of time.
“Long Live Balochistan. Long Live BLF. Long Live Free Balochistan. Salaam Alek.”

Text of Shehak Jan’s Message to his Family:

“O mother, don’t be sad at all, I am not dying a coward’s death. If I die, I will be dying like a man. My children, be proud of me that I have fought for my nation.
[Sound of gunfire. “The ones at the hilltop are shooting? They are shooting at a higher trajectory].
“We have fought and luckily I have been shot at the front (of my body).
“My mother, don’t be sad at all.
“My sisters, don’t be sad at all.
“I have sacrificed for a good cause. I have not done anything wrong that you would ever be ashamed of among the folks. Salaam Alek!”
Right after recording this message Shehak Jan gave all of his belongings and bullets to his Sangats. He said: these bullets are enough. I am already hit and may not last long. I will kill at least two of enemy soldiers and then shoot myself. I will not let them take me alive.
After the Mehi carnage, the Pakistani Army committed yet another war crime when they tied the bodies of Baloch fighters behind their military trucks and dragged them for many miles.
Most of the dead were so badly mutilated by the Pakistan Military, they were beyond recognition when dumped for collection by their families
https://vimeo.com/133216093

пятница, 3 июля 2015 г.


تحریر : میر محمد علی ٹالپر


بلوچ مخالف بیانات، بے لگام جبر اور سزا سے استثنیٰ کا کلچر قدرتی طور پر بلوچ کے ذہنوں میں تشویش اور شکوک پیدا کرے گا
Mir Muhammad Ali Talpur’دہشتگرد زدہ‘ بلوچستان کو شانت کرنے کی کوششیں تاملوں کیخلاف سری لنکا کی طرف سے کی جانیوالی سفاکانہ تسخیری کارروائی جیسی حکمت عملی کیساتھ جلد شروع ہونیوالی ہیں اور پہلے ہی سے دہشت زدہ بلوچ عوام ان ہولناک اوقات کیلئے چشم براہ ہیں جو 2000 کے بعد سے عداوتوں کے اس پانچویں راونڈ میں مسلسل سفاکانہ حملوں کی زد میں ہیں۔ تاہم بلوچ کو محکوم بنانے کی یہ حکمت عملی پچھلی تمام کی جانیوالی کوششوں کی طرح ناکام ہوجائیگی کیونکہ جبر کے سبب اسوقت بلوچ عوم کے درمیان پائی جانیوالی بیگانگی اور مزاحمت پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہے۔
بظاہر سرمایہ کار بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار میں مدد کے جتنے بڑے وعدے اور جتنے بڑے متوقع منافع دکھاتے ہیں تو اسٹابلشمنٹ اور اسکے یارغار سرمایہ داری جھتے کے اعمال اور منصوبے بلوچ عوام کیخلاف پوری طرح سے شیطانی اور سفاکانہ بن جاتے ہیں۔ ”بلوچستان میں ڈرون جنگ“ کے عنوان سے روزنامہ ٹربیون (14 جون 2015) میں چھپنے والے ایک مضمون میں محمد علی احسان نامی راقم بلوچ کیخلاف نہ صرف ایک شیطانی، سفاکانہ اور پوری طاقت سے ڈرون جنگ کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں بلکہ چینی اور دیگر سرمایہ کاروں کیلئے اسے زیادہ محفوظ بنانے کیلئے انہیں ختم کرنے کے طریقوں پر مزید ناپاک تجاویز کیساتھ آتے ہیں یہاں تک کہ اگرانکی حفاظت 44 فیصد وسیع زمین پر بسنے والے پانچ فیصد کے مکمل خاتمے کی قیمت پر ملے۔ بدقسمتی سے سب یہ بات بھول جاتے ہیں کہ پانچ فیصد بلوچ اپنی مرضی سے پاکستان کا 44 فیصد نہیں بنے؛ اسٹابلشمنٹ کے حامی انسانی جانوں کی قیمت سے قطع نظر ایسے اقدامات چاہتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ بلوچستان ان کا 44 فیصد رہے۔احسان صاحب اس بات پہ ناراض ہیں کہ اب تک بلوچستان میں ڈرون استعمال نہیں کیے گئے کیونکہ ان کے مطابق ”بلوچستان میں زمین پر فوجی ’ایک خالی بالٹی میں پانی کے قطروں کی طرح ہیں“ اور پھر بلوچ پر الزام لگاتے ہیں کہ ’وہ نسل کشی کے رجحانات دکھا رہے ہیں اور مذہبی اور نسلی بنیادوں پر بڑے پیمانے پر لوگوں کو قتل کررہے ہیں۔‘ وہ بہ آسانی بھول جاتے ہیں کہ یہ پاکستان ہے جو 27 مارچ 1948 سے بڑی تعداد میں بلوچوں کو نسلی بنیادوں پر قتل کررہا ہے اور یہ کہ ہزارہ، زکری اور ہندووں کو ان گروہوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا ہے جنہیں پاکستان نے قائم کیا ہے اور انہیں تحفظ فراہم کررہا ہے اور انکا بلوچ کیساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے جوکہ صرف اپنے حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں۔ نسلی بنیادوں پر بلوچ کی طرف سے کی جانیوالی ہلاکتیں کسی ہمدردی کی مستحق نہیں ہیں اور میں ان کی مذمت کرتا ہوں۔پھر وہ پوچھتے ہیں ”بڑا سوال یہ ہے: مقامی طور پر تیار کیے گئے ہمارے مسلح ڈرون ’براق‘ اور اس کا لیزر گائیڈڈ میزائل ’برق‘ کہاں ہیں؟“ اور ”ہم عملی طور پر دہشتگرد زدہ، وسیع زمین بلوچستان میں اسے تعینات کرنے میں اب تک کیوں ناکام رہے ہیں؟ اگر ہم بلوچستان کے آسمان کو باقاعدگی سے نگرانی اور مسلح ڈرون مشن کے ساتھ بھردیں تو کیا اس سے دہشتگردوں کیلئے پہاڑی علاقے میں نقل و حرکت کرنا اور سزا سے پچنا آسان ہوگا؟ اگر ہمارے پاس ٹیکنالوجی ہے تو ہم اسے استعمال کیوں نہیں کررہے ہیں؟ حتیٰ کہ اگر ہم انہیں بڑی تعداد میں تعینات کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں تو ہم کیوں چینی مسلح ڈرون 3 سی ایچ خریدنے پر غور نہیں کرتے جو کہ دو لیزر گائیڈڈ میزائلوں سے لیس ہے۔“ چین ایک ’محفوظ‘ ماحول کو یقینی بنانے کیلئے بخوشی ان کو 3 سی ایچ کی فوجی امداد دے دیگا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکی ڈرون کے استعمال کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن بلوچ کیخلاف اس کا استعمال جائز لگتا ہے۔
لیکن صرف یہی چیز نہیں ہے جسے یہ شریف النفس شخص ’دہشتگرد زدہ‘ بلوچستان میں بلوچ کے خاتمے کیلئے استعمال میں لانا چاہتے ہیں؛ وہ مشورہ دیتے ہیں، ”بھارت کی مثال لے لیں کہ جس نے مبینہ طور بلوچستان میں ہم پر ایک وسیع پراکسی جنگ مسلط کر رکھی ہے جسے ہم لڑرہے ہیں۔ جب 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں بھارتی ریاست پنجاب ہماری طرح کی شورش کی لپیٹ میں تھا تو انہوں نے ایک رضاکار فورس بنائی۔ انہوں نے 1100 دیہاتوں کی کمیٹیوں اور 40000 رضاکار مردوں پر مشتمل ایک ’دیہاتی دفاعی منصونہ‘ منظم کیا۔ اس فورس کو ریاست کی انسداد بغاوت کی حکمت عملی میں مربوط کیا گیا۔ اس دفاعی منصوبے کے تحت انہوں نے رضاکاروں کی تربیت کی اور انہیں مسلح کیا جو معمول کی گشت کیا کرتے اور کسی بھی مشتبہ ملزم کو دیکھتے تو اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کردیتے۔ آج بلوچستان بھی ایک ’غیر رسمی سیکورٹی نظام‘ کا مستحق ہے۔ یہ صرف اس غیررسمی اور رسمی سیکورٹی کے نظام کے مابین باقاعدہ ربط و ہم آہنگی کے ذریعے کیا جاسکتا ہے تاکہ بلوچستان میں غیرمحفوظ برادریاں اپنی حفاظت اور دفاع خود کر سکیں۔“
وہ بلوچ الشمس اور البدر کے قیام کا مطالبہ کررہے ہیں جسے 1971 میں بنگلہ دیش میں استعمال کیا گیا، وہ بلوچستان میں بھی اسی طرح کی نسل کشی کا ارتکاب کرنا چاہتے ہیں جسکی انہوں نے بنگلہ دیش میں کوشش کی تھی۔ وہ چاہتے ہیں کہ ”ایک غیر رسمی سیکورٹی کا نظام ہو جو کہ ’لوگوں کی حفاظت کیلئے اور لوگوں کی طرف سے‘ بنائی گئی ہو“، اسکو اسطرح پڑھیں کہ بلوچ کے ذریعے بلوچ کو قتل کروانا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ شفیق مینگل جیسے لوگ پہلے ہی سے ان کا یہ غلیظ کام سرانجام دے رہے ہیں؛ توتک کی اجتماعی قبریں ا سٹابلشمنٹ کے تحفظ کے تحت کام کرنے والے انہی قاتل دستوں کی کارستانیاں تھیں۔
ڈرون کے مطالبے، ’غیررسمی سیکورٹی نظام‘ اور مزید سفاکانہ فوجی کارروائیوں کا مقصد بلوچ عوام پر ظلم و ستم ڈھانا ہے تاکہ اس غیر قانونی اور ناجائز طور پر حاصل کی گئی 44 فی صد غیرمنقولہ جائیداد میں بسنے والے لوگوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور مزاحمت کے بغیر اس کے وسائل کا استحصال کیا جائے۔ چین جیسے سرمایہ کار ایک محفوظ ماحول کا مطالبہ کررہے ہیں جو کہ صرف اور صرف ان وحشیانہ اقدامات سے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں جو سری لنکا کی طرف سے تاملوں کو شانت کرنے کیلئے بروئے کار لائے گئے تھے۔ پس آمدہ انسانی جانوں کی قیمت مرتکبین کیلئے ایک معمولی قسم کی زحمت ہے کیونکہ سزا سے استثنیٰ کا کلچر اب بھی اسی طرح غالب ہے جیساکہ 1971 میں تھا۔ بلوچ مخالف بیانات، بے لگام جبر اور سزا سے استثنیٰ کا کلچر قدرتی طور پر بلوچ کے ذہنوں میں تشویش اور شکوک پیدا کرے گا جو وسائل اور غیرمنقولہ جائیداد کیلئے اسٹابلشمنٹ کی وحشیانہ طاقت اور اسکی غیر تسکین پذیر لالچ کے اس مہلک آمیزش کے نتائج کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
جینوسائیڈ واچ کے صدر گریگوری ایچ اسٹینٹن نسل کشی کے 10 مراحل کی فہرست کچھ یوں پیش کرتے ہیں: درجہ بندی، علامت بندی، امتیاز، سلب انسانیت، تنظیم، تقطیب، تیاری، عقوبت، قتل اور تردید۔ وہ مزید کہتے ہیں ”یہ عمل مرحلہ وار نہیں ہے۔ مراحل بیک وقت وقوع پذیر ہوسکتے ہیں…. مگر تمام مراحل اس عمل کے دوران اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔“ بلوچستان میں بھی یہی ہو رہا ہے اور دنیا کو اس مسئلے پر بیدار ہونے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو چکی ہو۔ زمینی حقیقت فوجی اور سیاسی رہنماوں کی طرف سے بلوچ کیلئے اکثر دہرائے جانیوالے بھائی چارے اور خیر سگالی کے منتر سے مختلف ہے۔ وہ لوگ جو غلطی سے نسل کشی کو ایک واقعہ تصور کرتے ہیں، میری استدلال سے اختلاف کرینگے لیکن وہ جو سمجھتے ہیں کہ نسل کشی ایک طویل عمل ہے، ضرور فکر مند ہونگے۔
پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ ہونے کی وجہ سے بلوچ کیخلاف سخت ترین اقدامات کیلئے جو شور مچایا جارہا ہے یہ نسل کشی کے تمام 10 مراحل کی شدت میں اضافے کیلئے زمین ہموار کر رہا ہے جوکہ پہلے ہی سے پراسرار انداز میں مختلف شدت کیساتھ بروئے عمل ہے۔ لوگوں کو اسے سمجھنے اور بلوچ حقوق کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے میرا ماننا ہے کہ اس سفاکانہ جبر سے بھی آخر کار بلوچ بھی اپنا وجود قائم رکھیں گے جیساکہ بنگالیوں نے کیا اور وہ اس حقیقت کے پچھتاوے میں رہیں گے کہ جب عظیم نا انصافیوں کا ارتکاب کیا جا رہا تھا تو وہ انصاف کیلئے کھڑے نہیں ہوئے۔ وہ تمام لوگ جو انصاف کیلئے کھڑے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں یہ فیصلہ کرنا پڑے گاکہ آیا وہ بلوچستان کو شانت کرنے کے اس سفاکانہ اور نسل کشیانہ عمل کی حمایت کرتے ہیں یا مخالفت۔
میر محمد علی ٹالپر کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے