Powered By Blogger

понедельник, 13 июля 2015 г.

چند سوالوں کے جواب 


تحریر: میرمحمد علی ٹالپر

گوادر کسی کیلئے اتنا اہم نہیں ہو سکتا جتنا کہ یہ بلوچ عوام کیلئے ہے۔ چین کے گوادر میں اسٹراٹیجک اور اقتصادی مفادات تو ہو سکتے ہیں لیکن بلوچ کیلئے یہ ان کا مادر وطن ہے
Mir Muhammad Ali Talpurبلوچستان توجہ کا مرکز ہے لیکن بلوچ اور ان کی خواہشات کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) چین، پاکستان اور فطری طور پر باقی دنیا کی دلچسپی کا مرکز ہے جیساکہ سب اسے اسٹراٹیجک اور اقتصادی فوائد اور نقصانات کے مطابق دیکھ رہے ہیں جو ان کیلئے اس سے وابسطہ ہیں۔ دوسروں کیلئے یہ کسی بھی طرح کی اہمیت کا حامل ہو، بلوچ کیلئے یہ نہایت اہم ہے جن کی زندگی یہ ’ترقی‘ کے نام پر تباہ کردے گی۔ سی پی ای سی چین کیلئے اسٹراٹیجک حوالے سے اور پاکستان کیلئے بطور اس منصوبے کے تکمیل کنندہ کے نہایت اہم ہے لیکن ان کے خیالات بلوچ سے مختلف ہیں جنہیں عام طور پر اسکی راہ میں حائل رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
چین اس منصوبے پر اپنی رقم اور رتبے کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ جاننا چاہتا ہے کہ بلوچ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ حال ہی میں مجھ سے اس سلسلے میں کچھ سوالات پوچھے گئے اور انکے جواب مندرجہ ذیل ہیں:سی پی ای سی کے بارے میں بلوچ کی رائے کیا ہے؟ بلوچ سی پی ای سی کو کسی امید افزا شے کے طور پر نہیں دیکھتے کیونکہ وہ اسے ایک ایسے آلے کے طور پر دیکھتے ہیں جو ترقی کے بہانے بلوچوں کو ان کے حقوق سے محروم کرے گا۔ بلوچ عوام کو اس بات کا ادراک ہے کہ سی پی ای سی بلوچستان میں باہر کے لوگوں کی بے تحاشہ آمد کے سبب ان کی اکثریت کو خطرے میں ڈال دے گی اور یہ انکی تمام سیاسی، اقتصادی اور سماجی حقوق کیلئے موت کی گھنٹی ثابت ہوگی جن کیلئے انہوں نے جدوجہد کی ہے اور بہت قربانیاں دی ہیں۔
بلوچ کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔ صدر شی ینپنگ کی طرف سے توانائی کوریڈور کے منصوبوں کیلئے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے کے بعد یہ بلوچ کی زندگی اور بلوچ حقوق کیلئے اتنے بڑے سنگین خطرے کے طور پر متجسم ہوئی جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس کی وجہ سرمایہ کاروں کو انکے کامل منافع کی ضمانت دینا تھا جس کیلئے پاکستانی اسٹابلشمنٹ نے بلوچ کیخلاف شدید کریک ڈاون کا وعدہ کیا ہے جو اپنے وسائل کے استحصال کیخلاف شدید نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔
ان کے خلاف اپنے کریک ڈاون کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے پاکستانی فوج نے اپنی فوج کی نو بٹالینوں اور سویلین فورسز کی چھ بٹالینوں پر مشتمل ایک اسپیشل سیکورٹی ڈویژن (ایس ایس ڈی) کے قیام کا اعلان کیا ہے اور یہ کہ فوج اپنے آپریشن ضرب عضب (شمالی وزیرستان میں جو فوجی آپریشن جاری ہے) کی بلوچستان تک توسیع کر سکتا ہے۔ یہ اقدامات بلوچستان میں جبر میں شدت آنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پہلے سے ہی مشکے، آواران اور دیگر مقامات پر انتہائی نوعیت کے تشدد کے واقعات ہوئے ہیں۔ بلوچ عوام سی پی ای سی کو اپنے مفادات اورمستقبل کیخلاف نہایت ضرر رساں، نقصان دہ اور منحوس سمجھتے ہیں۔
بلوچ عوام سی پی ای سی اور خاص طور پر گوادر کی ترقی سے کیا چاہتے ہیں؟ وہاں پربلوچ عوام ہیں اور وہاں پر بلوچ لوگ ہیں؛ ڈاکٹر عبدالمالک جیسے اور ان کی طرح کے لوگ صرف سی پی ای سی کے خبزریزوں سے ایک حصہ چاہتے ہیں جو کہ بلوچ کا حصہ ہوگا، اس کثیر منافع میں سے جسکی چین اور پاکستان توقع کر رہے ہیں۔ اور پھر وہاں پر بلوچ عوام ہیں جنہوں نے 27 مارچ 1948 کو پاکستان کی طرف سے بلوچستان کے غیرقانونی الحاق کیخلاف مزاحمت کی ہے اور تب سے ترقی اور بہتری کے نام پر اپنے حقوق پر تجاوز اور بے جا مداخلت کیخلاف مزاحمت کی ہے۔
بلوچ عوام نے سی پی ای سی سے پہلے گوادر کی نام نہاد ترقی کی مخالفت کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ باہر کے لوگ اسے ان کیلئے دلدل بنا دیں گے۔ انہوں نے وہاں زمینوں پر قبضے کی شروعات دیکھی اور انہیں ڈر تھا کہ اس سے وہاں کی آبادیاتی خصوصیات کا توازن مکمل طور پر بگڑ جائیگا اور انہیں بے دست و پا کردے گا۔ گوادر کے حوالے سے بلوچ نے اپنی ناراضگی کو محض الفاظ تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے عملی طور پر اس کیخلاف مزاحمت کی ہے اور یہ عمل خود گوادر کی ترقی پر انکے موقف کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔
چینیوں کی جانب بلوچ عوام کے احساسات کیا ہیں؟ بلوچ عوام فطری طور پر ان سب کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو بلوچ عوام کے مقابلے میں پاکستان کی یا تو فوجی یا اقتصادی حوالے مدد کرتے ہیں؛ یہ بدگمانی اور نفرت چین اور امریکہ دونوں کی جانب بلوچستان میں ان کے کردار کے حوالے سے پائی جاتی ہیں۔ جیساکہ چین بلوچستان میں تیزی سے سرگرم ایک سرمایہ کار بن چکا ہے، اس کیخلاف یہ نفرت بڑھی ہے اور ترقی کے نام پر پاکستان کی طرف سے جن مظالم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے لوگ انہیں سی پی ای سی کے سبب چین سے منسوب کررہے ہیں۔
سیندک کے تانبے اور سونے کی کانوں میں چینیوں کے ملوث ہونے کو بھی ہمیشہ عداوت کی نظر سے دیکھا گیا ہے چونکہ اسے بلوچ عوام کو ان کے وسائل سے محروم کرنے اور اس کے بدلے انہیں کچھ بھی نہ ملنے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سیندک اور اسکے ارد گرد بسنے والے مقامی لوگوں کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اس پر طرہ یہ کہ کان کنی سے پیدا ہونیوالے ماحولیاتی خطرات کے خوف نے بلوچ کے دل میں چین کیلئے ذرّہ بھر بھی محبت پیدا نہیں کی ہے۔
بلوچ عوام پاکستانی حکومت کو اپنے خدشات اور گزارشات کس طرح سے پہنچا رہے ہیں؟ جیساکہ میں اوپر کہہ چکا ہوں کہ وہاں پر بلوچ عوام ہیں اور وہاں پر بلوچ لوگ ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک جیسے لوگ پاکستانی حکومت کی طرف سے کی گئی کسی بھی ایسی کارروائی پر سوال نہیں اٹھاتے ہیں جو بلوچ مفادات کیلئے نقصان دہ ہوں کیونکہ انہیں اپنے ذاتی مفادات اور فوائد کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے۔ وہ یقینا منفی تبصرے کرتے رہتے ہیں جیساکہ عبدالمالک نے سی پی ای سی کے راستے کے بارے میں کیا تھا لیکن یہ محض سیاسی مفادات کیلئے دکھاوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بے اختیار اور بے اثر ہیں کیونکہ بلوچستان میں فیصلہ سازی کے عمل میں انکا کوئی کردار نہیں ہے۔
دیگر لوگ جو ترقی کے نام پر بلوچ وسائل کے استحصال کی مکمل طور پر مخالفت کرتے ہیں انہیں اپنے خیالات تک پیش کرنے کی اجازت نہیں ہے اور وہ کارکن جو ناانصافیوں کیخلاف آواز بلند کرتے ہیں غائب کردیے جاتے ہیں؛ ہزاروں لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان میں سے تقریباً 3000 ہلاک کرکے پھینک دیے گئے ہیں۔ بلوچ حقوق کے مسائل کو سامنے لانے والے تمام ویب سائٹس پر پابندی عائد ہے۔ بلوچ عوام کی حالت زار کو اجاگر کرنے کیلئے لاہور، کراچی وغیرہ میں سیمیناروں کے اہتمام کو سرکاری طور پر منسوخ کر دیا جاتا ہے تو پھر واحد راستہ اس کیخلاف عملی مزاحمت کا رہ جاتا اور یہی وہ کر رہے ہیں۔
گوادر چینیوں کیلئے بہت اہم ہے۔ یہ بلوچستان کے عوام کیلئے کس قدر اہم ہے؟ گوادر کسی کیلئے اتنا اہم نہیں ہو سکتا جتنا کہ یہ بلوچ عوام کیلئے ہے۔ چین کے گوادر میں اسٹراٹیجک اور اقتصادی مفادات تو ہوسکتے ہیں لیکن بلوچ کیلئے یہ ان کا مادر وطن ہے۔ اس کے علاوہ، وہ محسوس کرتے اور سمجھتے ہیں کہ گوادر لاینحل طور پر ان کے مستقبل کی خوشحالی سے منسلک ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے ماضی میں اس پر تجاوزات کیخلاف مزاحمت کی ہے اور اب بھی مزاحمت کر رہے ہیں۔ گوادر کی زمینوں پر قبضہ اس وقت شروع ہوا جب سال 2000 میں اس کی ترقی کیلئے منصوبہ بندی شروع کی گئی اور یہ اس قدر بے قابو تھی کہ لوگوں کو زمین خریدنے کیلئے مدعو کرنے کے بل بورڈز لاہور میں دیکھے جا سکتے تھے۔ تاہم، یہ بلوچ عوام کی طرف سے کی جانیوالی مزاحمت تھی جس نے بالآخر اسے روکا۔ گوادر میں زمینوں پر اس قبضے نے بلوچ کو بلوچستان میں سی پی ای سی کے راستے میں پیدا ہونیوالے ان حالات کی بابت بیدار کیا جس سے ان کیلئے وہ سنگین نتائج برآمد ہوتے جو انہیں ایک معمولی اقلیت میں تبدیل کرکے رکھ دیتے۔ بلوچ عوام چاہتے ہیں ہر کوئی یہ بات جان لے کہ وہ بہ آسانی اپنے مستقبل یعنی گوادر سے دستبردار نہیں ہونگے، کسی کیلئے بھی نہیں، نہ تو پیسے سے اور نہ ہی وحشیانہ طاقت کے استعمال سے اور ان دونوں کا پاکستان کی طرف سے بے دریغ استعمال کیا جارہا تاکہ وہ اس سے دستبردار ہوجائیں۔
راقم کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے

Комментариев нет:

Отправить комментарий