Powered By Blogger

четверг, 31 мая 2018 г.

یوسف عزیز مگسی – انقلابی ورثہ سلسلہ

جدید بلوچ قوم پرستی کا بانی
یوسف عزیز مگسی
تحریر : ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ
ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچبیسویں صدی مشرق کی اقوام کی قومی بیداری، آزادی کی تحریکات اورمزاحمت سے بھر پورصدی ہے۔ اس سلسلہ میں بلوچستان کی سامراج دشمن تحریک آزادی جنوب مغربی ایشیا میں اہم اور ممتاز نظر آتی ہے۔ یہ بلوچ عوام کی تحریک نہ صرف سامراج دشمن تھی بلکہ ترقی پسند اور انسانی حقوق کی علمبر دار تھی۔ اس جدید تحریک کی بنیاد اور قیادت کا سہرا میر محمد یوسف علی خان عزیزؔ کے سر ہے۔ قبل اس کے کہ ہم یوسف عزیزؔ کا تعارف کرائیں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یوسف عزیزؔ کے وطن بلوچستان کا اوائل بیسویں صدی میں سیاسی جغرافیہ مختصراََ بیان کر دیں تاکہ ان کی سیاست اور ان کے نظریات کو سمجھنے میں مدد ملے۔جغرافیائی طور پر بلوچستان جنوب مغربی ایشیاء یعنی مشرق وسطیٰ کا حصہ ہے اس کی ثقافت و تمدن پر وسطی اور جنوبی ایشیاء کے اثرات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس علاقہ میں بولی جانے والی بڑی زبانوں کا تعلق ایرانی زبانوں کے خاندان سے ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں برطانوی سامراج کا اس علاقہ میں عمل دخل شروع ہوا بلوچ عوام کی مسلح جدوجہد آزادی کودبانے میں ناکامی کے بعد برطانوی حکومت نے سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے ذریعہ اس خطہ کو انتظامی وحدت سے محروم کرنے کا فیصلہ کیا جس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی ہوئی یوں سر زمین بلوچستان کو متعدد سیاسی آئینی حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ کچھ حصے ایرانی و افغانی شاہوں کو دیئے گئے تاکہ ان کی وفاداریوں کو تاج برطانیہ کے ساتھ پختہ کیا جاسکے۔ مشرقی بلوچستان کو مزید حصوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ بلوچ اتحاد اور ان کی سیاسی مزاحمت کو کچلا جاسکے۔ مختصراََ مشرقی حصہ کو مندرمیں بانٹا گیا۔
۱۔ ریاست قلات:
درحقیقت یہی مرکزی بلوچستان ہے جہاں دارلسلطنت قلات (بلوچی)تھا۔ اس ریاست میں آئینی طور مندرجہ ذیل علاقہ جات تھے۔ قلات ،خاران، مکران،نوشکی، چاغی، مری،بگٹی وکھیتران قبائلی علاقہ جات، نیابت کوئٹہ و بولان اور کوہ سیلمان میں واقع بلوچ قبائلی علاقے اس ریاست کا حکمران خان قلات ہوا کرتا تھا۔
۲۔ برطانوی بلوچستان:
یہ چمن، ژوب، لورالائی ، دُکی اور دیگر پشتون قبائل علاقوں پر مشتمل تھا۔ یہ اضلاع برطانیہ نے معاہدہ گنڈمک کے تحت افغان حکمرانوں سے حاصل کیے اور یوں یہ اضلاع برطانوی ہند کا آئینی حصہ بن گئے(یاد رہے کہ ریاست قلات آئینی طور پر برطانوی ہند کا حصہ نہ تھی اوائل بیسویں صدی میں اصطلاح’’بلوچستان‘‘ کا اطلاق صرف برطانوی ہند کے صوبہ ’’برطانوی بلوچستان‘‘ پر ہوتا تھا۔ اس برطانوی بلوچستان میں متعدد بلوچ علاقوں کو ریاست قلات سے معاہدات کے تحت اجارہ پر حاصل کرکے برطانوی بلوچستان کی انتظامیہ کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ ان علاقوں میں بلوچ قبائل علاقہ جات ، کوئٹہ، نوشکی،چاغی، بولان اور نصیر آباد کے علاقے شمار ہوتے تھے مگر آئینی طو ر یہ قلات کا حصہ شمار ہوتے تھے۔ یوں برطانوی سیاسی و انتطامی اصطلاح میں’’بلوچستان‘‘ سے صرف برطانوی بلوچستان مراد لیا جاتا تھا۔ جغرافیائی و معاشی و اقتصادی طور پر یہ دونوں خطے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ اس لئے یہاں دخل سے قبل آئین قلات کے تحت یہاں کا آئینی و سیاسی ڈھانچہ وفاق اور کانفیڈریسی کے اصولوں پر قائم تھا۔ یہاں کی اکثر آبادی قبائل ڈھانچہ پر استوار تھی۔ تبیلہ یا تمن(ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ۱۰ ہزار کے ہیں یعنی۱۰ پر مشتمل افراد کا قبیلہ لیکن یہ اصطلاح بعد میں۱۰ ہزار سے زائد یا کم قبیلہ پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے) اور ان کا راہنما(سردار یا تمندار) قومی اور ملکی امور میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔
سردار کا انتخاب قبائل کے جرگہ یا مجلس میں کیا جاتا تھا لیکن برطانوی عمل دخل میں سردار کا عہدہ موروثی بنا دیا گیا اور وفادار سرداروں کو زمینیں عطا کرکے برطانوی عمل وخل میں سردار کو عہدہ موروثی بنا دیا گیا اور وفادار سرداروں کا جاگیریں عطا کرکے برطانوی عہد کے جاگیرداروں کے برابر مرتبہ دیا گیا۔ یوں بلوچ قوم کے صدیوں کی جمہوری اقدار پر چھاپہ مارا گیا۔ جس کے باعث بلوچ تمنات و قبائل نے برطانوی استعماراور سرداریت کے خلاف مسلح جدوجہد کی روایت قائم کی جس کا مقصود آزادی اور جمہوری انسانی حقوق کا تحفظ تھا۔ آزادی کی مسلح جدوجہد کو استعمار نے سازشوں، اسلحہ کی برتری، قبائلی تضادات اور معاشی پسماندگی کی بنا پر ناکام بنا دیا تھا(جنگ عظیم اوّل میں اکثر و بیشتر قبائل نے خلافت عثمانیہ کی حمایت اور اپنی مکمل آزادی کے حصول کے لئے مسلح جہاد میں شرکت کی تھی لیکن یہ جدوجہد بھی معاشی، سیاسی و دفاعی عوامل کے سازگار نہ ہونے کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی تھی۔ اس جدوجہد میں لاکھوں بلوچ شہید ہوئے یا قید کی سختیوں سے گزرے۔ ہزاروں افراد نے سویت یونین، عرب خلیج کے علاقوں، برطانوی ہند اور مشرقی افریقا کی طرف ہجرت کی تھی جس کا بلوچستان کی سیاسی و معاشی زندگی پر منفی اثر پڑا۔
ان حالات میں بلوچستان کے چند نوجوانوں نے ایک خفیہ تنظیم کا آغاز ۱۹۲۰ء میں کیا تھا۔ یہ تنظیم۱۹۲۹ء میں ایک سیاسی جماعت کی شکل میں ’’انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان‘‘ کے نام پر ابھری جس کی قیادت کے لئے میر محمد یوسف علی خان عزیز مگسی کا انتخاب عمل میں آیا۔ میریوسف علی خان عزیزؔ مگسی کی قیادت کا دور مئی ۱۹۳۵ ء تک محیط ہے جب وہ زلزلہ میں۳۰/۳۱ مئی کی شب شہادت سے ہمکنار ہو کر کوئٹہ میں دفن ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔
یوسف عزیزؔ کی شہادت نے بلوچستان اور عالم اسلام کو ایک ایسے فرزند سے محروم کر دیا جو مفکر بھی تھا اور مردمیدان(مجاہد)بھی۔ آج بھی اہل بلوچستان ان کی وفات پر نوحہ خواں ہیں۔ ان کے بے لوث خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے کردار و افکار پر عمل پیرا ہوں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات ڈھونڈیں:
۱۔ محمد یوسف علی خان عزیزؔ کون تھے؟
۲۔ ان کے عملی زندگی کیسی تھی؟
۳۔ان کے افکار و نظریات کیا تھے؟
میر محمد یوسف علی خان بمقام جھل مگسی جنوری۱۹۰۸ء میں مگسی قبیلہ کے سردار و تمندار نواب قیصر خان کے ہاں متولد ہوئے(مگسی تُمن لدشار بلوچ قبیلہ کی شاخ ہے) محمد یوسف علی خان کی والدہ زہری قبیلہ کے سردار رسول بخش زرکزئی کی دختر نیک اختر تھیں۔زہری قبیلہ نے جنگ عظیم اوّل میں دیگر بلوچ قبائل کی طرح خلافت عثمانیہ کی حمایت میں مسلح جدوجہد میں حصہ لیا۔(سچ تو یہ ہے کہ بلوچ قبائل کی مسلح جدوجہد نے برطانوی ہند کی افواج کو عراق میں فوجی کاروائیوں کو غیر مؤثر بنا دیا تھا جس کا عثمانی افواج نے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ کے ہزاروں مسلح سپاہیوں مع برطانوی جنرل کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا) جھالاوان کے ان مجاہدین کی نواب قیصر خان مگسی نے خفیہ مدد کی تھی۔
جنگ عظیم اوّل کے خاتمہ کے بعد برطانوی انتظامیہ نے اس جرم کی پاداش میں نواب قیصر خان مگسی کوبمعہ اہل خاندان برطانوی ہند کے شہر ملتان میں نظر بند کر دیا تھا۔ یوسف علی خان کی اوّلین علمی تربیت جھل مگسی میں پرائیوٹ طور پر کی گئی تھی۔ عربی و فارسی کے اساتذہ نے نہ صرف زبان و ادب بلکہ مسلم تاریخ وتمدن سے بھی ان کو آگاہی بخشی۔ انہی اساتذہ سے انہوں نے قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ قیام ملتان میں نوابزادہ محمد یوسف علی خان نے برطانوی ہند کی اور سیاسی فضا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانوی سامراج اور اس کی حکمت عملی کا مطالعہ کیا تھا نیزآپ نے برطانوی ہند کی تحریکات عدم تعاون، خلافت تحریک کے محرکات کے ساتھ ساتھ، مولانا ابوالکلام آزادو غیرہ کے افکار کا گہرامطالعہ کیا تھا جس کے اثرات نوجوان عزیز مگسیؔ کی تحرویروں اور تعلیمات میں عیاں ہیں۔
خلافت عثمانیہ کی تباہی و بربادی اور مسلح جہاد کی عارضی ناکامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست قلات اور اس سے منسلک علاقوں میں برطانوی استعمار نے ظلم و جبر کو تیز تر کر دیا تھا تاکہ یہاں آزادی کے تصور کا گزر بھی نہ ہونے پائے۔ اسی جبر و بربریت کے خلاف نوجوان مجاہد میر محمد یوسف علی خان نے آواز اٹھائی اور اس کا آغاز ایک اخباری مضمون بعنوان’’فریاد بلوچستان‘‘ میں کیا۔ یہ مضمون لاہور کے اخبار ’’مساوات‘‘ میں۱۹۲۹ء میں شائع ہوا تھا۔ یوسف عزیزؔ نے لکھا تھا:’’آج ساری دنیا شاہراہ ترقی پر گامزن ہے مگر بلوچ ایسے سوئے ہوئے ہیں کہ جاگناناممکن معلوم ہوتا ہے۔ بلوچوں سے ہماری مخلصانہ درخواست ہے کہ خدا کے لئے ساری دنیا کو ہنسنے کو موقع نہ دیجیے۔ یہی وقت ہے اگر اسلاف کو خون آپ میں اب تک موجزن ہے تو اٹھیے جس طرح آپ کے اسلاف اٹھا کرتے تھے۔ سیاسی غلامی کی زنجیروں کو ایک نعرہ حریت لگا کر توڑ ڈالیے اور قوموں کے لئے مشعل راہ بن جائیے۔ باہمی حسد ورقابت اور ان لغویات کی بیخ کئی کیجیئے اور صرف آتش رقابت سے اپنے سینوں کو مشتعل کیجئے کہ جنگ آزادی میں تم سے زیادہ کوئی بہادر نہ نکلے اور تم سے پہلے کوئی جام شہادت نوش نہ کرے۔ خدا کے لئے بزدلانہ اور رجعت پسندانہ ذہنیت کو مٹائیے اور دیکھے تاریخ کیا کہتی ہے۔ مادروطن کی قربانیوں سے سبق حاصل کیجئے۔‘‘
میر یوسف علی کے اس آتش بیان و انقلابی پیام نے جہاں بلوچوں میں ایک نئی روح پھونکی وہاں استعمار اور اس کے گماشتوں کو خوف اور انتقام و جبر کی طرف مائل کر دیا تھا۔ برطانوی ایجنٹ برائے گورنر جنرل و ریز یڈنٹ (AGG & Resident)نے وزیراعظم قلات(سرشمس شاہ جن کا تعلق گجرات (پنجاب) سے تھا) کو اسی نئی انقلابی صورت حال کو بروقت کچلنے کا حکم دیا۔ یوں استعمار نواز قبائلی سرداروں کی ملی بھگت سے نوابزادہ محمد یوسف علی خان پر’’تخریب کاری‘‘اور بغاوت پھیلانے کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس مضمون کو پڑھنا اور بلوچستان میں تقسیم کرنا خلاف قانون قرار پایا۔ نوابزادہ مگسی کو ایک سال کی قید اور دس ہزار نو سو روپے جرمانہ کی سزا دی گئی۔قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ سرداری و سرکاری جرگہ نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ یوسف علی خان نے غلط، خلل انداز اور فتنہ انگیز نظریات پھیلائے ہیں اور ان جرائم کی تمام تر ذمہ داری اس کے جدید نظریات اور تعلیمات پر عائد ہوتی ہے۔ بہر حال یوسف علی نے اس سزا کا کچھ حصہ جیل اور کچھ حصہ نظر بندی کی صورت میں بمقام گٹ زہری اپنے ماموں سردار میر رسول بخش زرکزئی(زہری) کی نگرانی میں گزارا۔
اس مختصرسے مضمون پر اتنی بھاری ظالمانہ سزا سے ان مشکلات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جو بلوچ قومی تحریک کے اولین راہنما کو درپیش تھے۔ انہی ایام میں زیر زمین سامراج دشمن تحریک’’ینگ بلوچ پارٹی‘‘ کے راہنما میر عبدالعزیز کردنے آپ سے جیل میں رابطہ قائم کیا اور گزارش کی کہ آپ بلوچ قومی تحریک کی قیادت کریں اور اس کی راہِ عمل متعین کریں جس پر بلوچ قومی تحریک عمل پیرا ہوا۔ آپ نے آزادی کے ان متوالوں کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے ایک متحدہ تنظیم اور ایک نصب العین پر یکجا ہونے کی ضرورت پر زور دیا اور یوں بلوچستان کی تاریخ اوّلین سیاسی جماعت’’انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آپ کو صدر منتخب کیا گیا۔
آپ بلوچی ، اردو اور فارسی میں شاعری کیا کرتے تھے۔ انقلابی شاعروں کی مانند آپ نے شاعری کو اپنے استعمار دشمن نظریات، آزادی وطن، سماجی ومعاشی انصاف، نمائندہ حکومت اور اسلام کے نظریہ عدل کے پرچار کا ذریعہ بنایا تھا۔ اتحاد پارٹی کے جنرل سیکریٹری میرعبدالعزیز کرد اور نائب صدر نوابزادہ عبدالرحمن خان بگٹی منتخب ہوئے۔ نوابزادہ بگٹی، یوسف عزیز کے قومی و اسلامی نظریات سے بے حد متاثر تھے جس کی پاداش میں ان کو اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ کے عہدہ سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ ان کے والد نواب محراب خان بگٹی نے ان کو اپنی جانشینی سے معزول کر دیا ۔ انقلابی نظریات کی بدولت ان کو بمقام رانچی(انڈیا) اور جیکب آباد میں قیدو نظربند کیا گیا۔ ان کی بجائے ان کے چھوٹے بھائی نواب محمد اکبر خان کو بگٹی قبیلہ کا سردار مقرر کیا گیا تھا۔ اتحاد پارٹی نے اپنے اولین جلسہ بمقام کوئٹہ۱۹۳۱ء میں مندرجہ ذیل لائحہ عمل کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
۱۔ سرداری نظام کا خاتمہ
۲۔ بلوچستان کے مختلف حصوں کا اتحاد اور آئینی و جمہوری نظام کا اجراء
۳۔ بلوچستان میں تعلیم کا پھیلاؤ
۴۔ جمہوری و آئینی ذرائع کے حصول میں ناکامی کی صورت میں مسلح جدوجہد کی تیاری
۵۔ غیر استحصالی نظریات پر مبنی اسلامی معاشرہ کا قیام
ان مقاصد کے حصول کے لئے یوسف عزیز مگسی اور ان کے ساتھیوں نے برطانوی بلوچستان میں محدود قانونی رعایتوں اور ریاست قلات کے قدیم دستور میں دی گئی آئینی رعایتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ آپ کی قیادت میں اتحاد پارٹی نے جیکب آباد(اصل نام خان گڑھ) میں اور حیدر آباد (سندھ) میں۱۹۳۲ء اور ۱۹۳۳ء میں’’بلوچ و بلوچستان کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا تھا۔ ان کانفرسوں میں بلوچستان اور ریاست قلات سے مختلف قومیتوں اور برطانوی ہند کے صوبہ جات(سندھ۔پنجاب وسرحد) کے بلوچ نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ ان اجلاسوں میں مندرجہ ذیل قرار داد منظور کی گئیں:
۱۔ بلوچستان کے متعدد حصوں کا اتحاد اور مکمل سیاسی آزادی کا مطالبہ
۲۔ سرداریت کا خاتمہ
۳۔ عورتوں کو اسلامی طریقہ سے میراث میں حصہ
۴۔ ڈیرہ جات و جیکب آباد کی بلوچستان میں شمولیت
۵۔ برطانوی بلوچستان کو صوبائی درجہ اور اصلاحات دیے جانے کا مطالبہ
۶۔ بلوچستان میں مفت تعلیم کا اجراء۔نئے سکولوں او ر کالج کے قیام کا مطالعہ
۷۔ ذرائع آمدورفت کی ترقی
۸۔ چھوٹی صنعتوں کا قیام
۹۔ قبائلی رسومات مثلا ولوّر اور لب پرپابندی اور کالا کالی کا خاتمہ
اس آخری مطالبہ سے مقصود عورتوں کے وقار کی بحالی اور ان کو اسلامی قوانین کے تحت حقوق و برابری دلانا مقصود تھا۔
ان قرار دادوں نے بلوچ شرکاء کانفرنس کو دو حصوں میں بانٹ دیا تھا یوں دو واضع گروہ یا مکاتیب فکر سامنے آئے۔ایک گروہ جو بلوچ سرداروں اور جاگیرداروں پر مشتمل تھا مذکورہ بالا قرار دادوں کو حکومت وقت سے محاذ آرائی سمجھتا تھا۔ اس لئے برطانوی استعمار اور اس کی انتظامیہ سے ٹکراؤ کی بجائے وفاداری اور مراعات میں یقین رکھتا تھا۔ دوسرا گروہ جو جدید نظریات کے زیر اثر تھا وہ سامراج اور سامراج دوست عناصر سے مراعات (بھیک) مانگنے کی بجائے حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کرتا تھا۔ اس دوسرے گروہ کی قیادت یوسف عزیز مگسی اور ان کے ساتھی کر رہے تھے۔ ان کو خفیہ طور پر میر احمد یار خان(بعدازاں خانِ قلات) کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔
مکمل آزادی کے حصول کی خاطر یوسف عزیز کی قیادت میں پارٹی نے سرداریت کے خلاف عملاََ جدوجہد کا فیصلہ کیا۔ انہی کے ایما پر رئیسانی ، رند، بگٹی قبائل میں سرداریت کے خلاف پر امن تحریکوں اور ہجرت کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس محاذ کو مزید طاقتور بنانے کے لئے نوابزادہ یوسف عزیز مگسی نے محمد اقبال، مولانا ابوالکلام آزاد اور ظفر علی خان ایڈیٹر، زمیندار، لاہور سے ملاقاتیں کیں اور ان کی امداد کے طالب ہوئے تھے ۔ آپ نے برطانوی ہند کی تنظیم’’آل انڈیا مسلم کانفرنس‘‘ انجمن حمایت اسلام لاہور ، جامعہ ،دہلی سے بھی فکری رابطے استوار کیے۔ نیز آپ نے بلوچستان کے قومی پریس کی ابتدااپنے مالی وسائل سے کی۔ متعدد نوجوان(جو مدارس میں استاد ومعلم رہے تھے)نے اخبارات، البلوچ، بلوچستان اور بلوچستان جدید، الخیف وغیرہ کی ادارت سنبھال کر علمی و فکری جدوجہدکی بنیادیں رکھیں۔ یہ اخبارات یکے بعد دیگرے ضبط ہوتے رہے اور اس کے عملہ کو خوف و ہراس، مالی پریشانیوں اور سزا و عقوبت سے بھی گزرنا پڑا لیکن یوسف عزیز اور ان کے رفقاء سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ یوسف عزیز نے متعدد نوجوانوں کو اپنے مکاتیب کے ذریعہ اس علمی، فکری اور عملی جدوجہد میں شرکت کی دعوت دی۔ برطانوی ہند کے اخبارات میں مضامین کا ایک سلسلہ بھی جاری رکھا ان کے مکاتیب اور مضامین میں اسلامی نظام عدل، عورتوں کے حقوق اور اشتراکیت وغیرہ جیسے موضوعات ہوتے تھے۔
ان اخبارات کا داخلہ بلوچستان میں اکثر و بیشتر ممنوع ہی رہا کرتا تھا۔ ان کے پڑھنے والوں کو محکمہ خفیہ اداروں کے اہلکار خوف و مصائب کا نشانہ بناتے اور نوبت جیلوں تک بھی جا پہنچتی۔ درحقیقت اس صورت حال کا اندازہ برطانوی ہند کے سیاسی کارکن نہیں کر سکتے تھے جہاں آئینی اصلاحات کے نتیجہ میں لولی و لنگڑی جمہوریت کی طرف پیش رفت جاری رہتی تھی قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ بلوچ کانفرنس(۱۹۳۲ء) منعقدہ جیکب آباد کے لئے نواب محراب خان تمندار بگٹی قبیلہ نے گرانقدر چندہ یوسف عزیز کو دیا تھا لیکن جب بگٹی قبیلہ کے ایک وفد نے نواب کے مظالم کے خلاف یوسف عزیز کو اپنی فریاد پہنچائی تو یوسف عزیز نے سردارانہ تعلقات کی پرواہ کیے بغیر مظلوم بگٹی قبائلیوں کی عملی حمایت کا اعلان کیا اور نواب محراب خان بگٹی کو ان کا عطا کردہ عطیہ بھی واپس کر دیا اور کہا کہ نواب بگٹی کی طرف سے یہ چندہ درحقیقت رشوت ہے تاکہ میں اور میری تنظیم مظلوم بگٹیوں کی مدد نہ کر پائیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یوسف عزیزؔ نے بلوچ قوم کی حقوق کے تحفظ و بازیابی کے لئے اپنے طبقہ(سردارو سردارخیل) سے عملاََ علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ آپ کی قیادت میں اتحا د پارٹی نے سرداروں اور سرداریت کے خلاف عملاََ جدوجہدکیا۔ یوسف عزیز کے مجاہدانہ کارناموں نے اہل بلوچستان کو یہ پیغام دیا تھا کہ جو سردارقومی مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دے سکتے وہ عوام کے ہرگز دوست نہیں اس لئے وہ ا س قابل نہیں کہ وہ ان کے(بلوچ قوم کے) قائد و رہنما بنیں۔
یوسف عزیز جہاں جدید اسلامی تعلیمات کے حامی اور بلوچستان کی آزادی کے دلدادہ تھے وہاں وہ اس امر سے بھی واقف تھے کہ غیر طبقاتی نظریات پر مبنی اسلامی ڈھانچہ تعلیم اور سیاسی تنظیم سرداریت کے خاتمے کے بغیر ناممکن ہے۔ وہ ریاستی بلوچستان میں سرداروں کے اختیارات کم کرنے اورجمہوری قدروں کے فروغ کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ جب میراحمد یارخان،خان قلات بنے تو وہ چاہتے تھے کہ ریاست میں تعلیمی و سماجی اصلاحات کی جائیں۔ خان قلات، سید جمال الدین افغانی کے افکار سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ ان کی بیگم کا تعلق افغانی کے خاندان ہی سے تھا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے سرداروں کو اپنے دارالحکومت قلات مدعو کیا اور میر محمد یوسف عزیزؔ کو بھی بحیثیت تمندار مگسی قبیلہ کے بلایا گیا۔ میر یوسف عزیز کے بقول جب وہ پاییہ تخت قلات پہنچے تو انہوں نے ریاستی بلوچستان میں جمہوریت ، تعلیم، آئین سازی وغیرہ کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اس پر خان قلات میر احمد یار خان نے آپ سے کہا کہ وہ اپنے مطالبات کو ایک قرارداد کی صورت میں سرداری کونسل میں پیش کریں۔ یوسف عزیز نے محمد امین کھوسہ کو ایک خط میں بتاتے ہیں کہ :
’’چنانچہ بندہ نے دس پندرہ منٹ کی تقریر کے اندر اپنی تحریک کو پیش کیا۔ ختم کرتے ہی زرکزئی سردار (میر رسول بخش، جو کہ آپ کے سگے ماموں بھی تھے) اور وڈیرہ بنگلزئی(سردار نور محمد) نے بغیر کسی دلیل و حجت کے جاہلانہ طریقہ پر مخالفت کی اور پھر لہڑی سردار(نواب بہرام خان) نے تو سرے سے اسٹیٹ کونسل کی ہی مخالفت کی۔ مگر بنگلزئی سردار کی مخالفت بالکل جاہلانہ اور زور دار طریق پر تھی۔۔۔۔۔مجلس کا رنگ دیکھ کر نواب رئیسانی اور سردار شہوانی نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا۔‘‘
یوسف عزیز اپنے خط میں آگے چل کر اپنے دوست محمد امین خان کھوسہ بلوچ (جیکب آباد) کو لکھتے ہیں:’’ تاہم شکر ہے کہ میں اپنے ضمیر، اپنی قوم اور غرباء کی ترجمانی کے فرض سے غافل نہیں ہوا اور وقت آئے گا کہ آپ اور آپ کی نسلیں پشیمان ہوں گی۔‘‘
ان حالات میں یوسف عزیز دل برداشتہ ہونے کی بجائے ایک مجاہدانہ عزم کے ساتھ ان نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم جری کرتے نظر آتے ہیں اور سرداریت کے خلاف ایک لا متناہی جنگ لڑنے کا مصمم ارادہ کرتے ہیں اور اپنے عزیز دوست میر محمد امین کھوسہ(جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم تھے) کو لکھتے ہیں کہ ان کی آئندہ حکمت عملی سرداری نظام اور سرداروں کے خلاف ہوگی۔ وہ میر احمد یار خان (حکمران قلات)کی سرداریت کے خلاف آئینی اصلاحات کا ساتھ دیں گے اپنے طویل خط کے آخر میں وہ بلوچ و بلوچستان کے باشعورطبقہ کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ:
’’ اب سرداروں کو کچلنا چاہیے ان کے سُدھر نے کی امید فضول ہے۔‘‘
اب تقریباََ ایک صدی گزرجانے کے بعد بلوچستان کی سیاست یہ بتاتی ہے کہ جو لوگ سرداروں سے سماجی و تعلیمی اصلاحات اور فکر کی امید رکھتے ہیں وہ یا تو تاریخِ بلوچستان سے نابلد ہیں یا خوش فہمیوں کا شکار چلے آرہے ہیں۔ اس گزشتہ صدی نے سردار ان بلوچستان کو اقتدار کی سربلندیوں پر دیکھا ہے لیکن ان کی قوم دشمنی بلوچ قوم پر عیاں ہے۔ میر محمد یوسف عزیز کا مذکورہ پیغام آج بھی نوجوانوں کے لئے دعوتِ عمل ہے۔ اس خط میں ایک عظیم علمی سماجی، معاشی اور سیاسی انقلاب کے لئے سرداریت کو کچلنا لازمی ہوگا۔ان کوشکست فاش دینے کا ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ تعلیمی اور معاشی اصلاحات کا بھرپور نفاذ ہے۔
یوسف عزیز کے انقلابی نظریات:
بلوچستان میں مروجہ سیاسی و معاشی ڈھانچہ برطانوی استعمار اور ان کے نمائندگان (سررابرٹ سنڈیمن۔ جنرل جان جیکب سر مرویدر وغیرہ) کا مرہون منت ہے۔ یہ نظام عرف عام میں سنڈیمن سسٹم یا سرداری و تمنداری نظام یا سرداریت کے نام سے موسوم چلا آرہاہے۔ استعماری دور میں بلوچستان کے روایتی و آئینی ڈھانچہ(وفاقیت و نیم وفاقیت پرمبنی) کو معطل کرکے نیم قبائلی و نیم جاگیر داری نظام کا اجراء کیا گیا جس کا مرکزی کردار سردار یا تمنداررہا ہے۔ اس نئے نظام میں حکومت قلات اور بلوچ عوام کے اختیارات اور حقوق غصب کرنا تھا نیز بلوچ وبلوچستان کو قبائل اکائیوں میں تقسیم کرکے ان کو غلامی کی نئی بیڑیوں میں جکڑ دینا مقصود تھا تاکہ بلوچ قوم میں آزادی اور مساوات کی امنگوں کا خاتمہ اور اتحاد پارہ پارہ کر دینا تھا۔ سنڈیمن نظام نے سرداروں پر یہ ذمہ داری بھی عائد کی تھی کہ وہ جدید نظریات(اسلام کے معاشی اور جمہوری نظریات وغیرہ) کو بلوچستان میں داخل نہ ہونے دیں۔ یہی وجہ تھی کہ جدید نظریات اسلامی اقدار کی سرداروں نے بھرپور مخالفت کی تھی۔
یوسف عزیز مگسی نے جب سیاسی شعور پایا تو بلوچستان و بلوچ قبائل کا سیاسی و معاشی ڈھانچہ جس کی بنیادیں حکمران بلوچستان پر نصیر خان نوری (۱۷۹۴وفات) نے استوارکی تھیں سرداروں اور استعمار کی ملی بھگت سے تباہ کردیا تھا۔ یوسف عزیز سامراجیت اور سرداریت کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ سماجی و معاشی انقلاب کے بغیر سیاسی آزادی بے معنی ہو کررہ جائے گی اس لئے انہوں نے اسلام کی معاشی مساوات اور استعمار دشمنی کا نعرہ بلندکیا۔ان کی نظریں دیکھ رہی تھیں کہ وطن کی سیاسی آزادی کا تمام تر فائدہ قبائلی سرداروں، جاگیرداروں اور نئی ابھرتی ہوئی پیٹی بورژواژی کو پہنچے گا اور بلوچستان کے کچلے ہوئے طبقات(ماہی گیر، کسان، خانہ بدوش اور قبائل وغیرہ بلوچستان کے اقتدار اعلیٰ کے اصل مالک ہیں) سے محروم کر دیے جائیں گے۔ اس لئے یوسف عزیز نے اسلامی اشتراکیت کو بلوچستان میں انقلاب کی اساس و منزل قرار دیا تھا۔یقینایوسف کا نظریہ، اسلام کے اشتراکی اصولوں پر مبنی تھا۔ یوسف عزیز قرآنی تعلیمات اور محبت رسولؐ میں سرشار تھے۔ وہ الہندکی بورژوا قوم پرستی، ذات پات کا نظام اور مذہبی فرقہ واریت سے ازحد متنفرتھے۔
کانگریس کی جمہوری تحریک کو ہندوستان کے بالائی طبقات کے لئے سودمند دیکھتے تھے۔ آپ نے بلوچ قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
’’ ہمیں اصلاحات، کونسل، گورنری صوبہ کیا فائدہ دیں گے۔ علاوہ اس کے کہ غیر ملکی سرمایہ داروں کی جگہ ملکی سرمایہ دارہوں گے۔ ۹۰ فیصد بلوچستان کی غریب آبادی کے لئے سوراج(آزادی) تب ہوگا جب وہ لوٹ سے بچیں گے۔‘‘
اپنی وفات سے چند ماہ قبل اپنے ایک دوست (جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم پار ہے تھے) محمد امین کھوسہ کو لکھا تھا کہ اشتراکیت ہی کچلے ہوئے طبقات کے مسائل کاحل ہے۔ وہ اشتراکیت کے جدید مفکرین کارل مارکس اور لینن کے افکار کی تعریف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ امین کھوسہ کولکھتے ہیں:
’’پیارے وطن کے نوجوان بھائی۔ اللہ آپ کو جلدی(تعلیم سے) فارغ کر کے اچھے کام (یعنی قومی تحریک) میں مصروف کرے۔ میں اپ کو ذیل کا ایک مشورہ ضرور غرض کروں گا۔ اگر آپ نے مانا تو میں بہت مشکور ہوں گا۔ کارل مارکس کی تصنیفThe Capitalاور ’’دنیا کے دس ہلاکت آفرین دن‘‘جو انگریزی میں ہے اور ایک سیاح کے قلم کی لکھی ہوئی ہے۔ ان کو ضرور دیکھیں۔ اگرچہ مجھے احساس ہے کہ آپ میں فطر تا بغیر کسی تقلید کے ایک مادہ اشتراکیت ہے اور غریبوں ، کسانوں، مزدوروں کے لئے لڑنے والا دل بھی۔‘‘
آپ کی ایک فارسی نظم’’ آہ افغان سرداران بنام سرکارِ برطانیہ‘‘ ہے۔ اس نظم میں سرداران بلوچستان، برطانوی ایجنٹ ٹو گورنر جنرل(A.G.G)اور ریزیڈنٹ برائے بلوچستان کیڑ کے حضور فریاد رساں ہیں اور یوسف عزیز مگسی پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص(یوسف مگسی ) آقاوغلام کی تمیز روا نہیں رکھتابلکہ آقا و بندہ کے درمیان مساوات کا حامی ہے۔ ایسا شخص جو کہ ہمارے حقوق(سرداریت) کا جانی دشمن ہے وہ یقیناًبرطانیہ کا بھی دوست نہیں۔ ہم برطانوی سرکار کے دست و بازو ہیں اس لئے ہمارا وقار اور سرکار انگلیسہ کی شان و شوکت لازم و ملزم ہیں ۔آپ سب کے منصف ہیں اور انصاف کا تقاضایہ ہے کہ آپ یوسف سے سرداری کا منصب چھین لیں اور اس کی خوفناک جماعت (انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان) کو منتشر کر دیں۔ وہ اس ملک میں اصول اشتراکیت کا نقیب ہے۔ اس نے اپنے طبقہ سے ناطہ توڑ کرکے مفلوک الحال بلوچ عوام سے ناطہ قائم کر لیا ہے۔ یہ فریاد ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے۔
’’یہ انہی کا مقلد ہے۔ اس کے نظریات کی نشر و اشاعت بلوچ نوجوانوں میں کرتا ہے اگر یہ شخص(یوسف عزیز) آزاد چھوڑ دیا گیا تو نہ صرف یہ اور اس کا گروہ ہمارے اقتدار(سرداری نظام)کا خاتمہ کردے گا بلکہ اس کا گروہ (انجمن اتحاد…..) برطانوی اقتدار کا بھی خاتمہ کر دے گا۔‘‘
کسانوں اور مزدوروں کے لئے یوسف عزیز نے احباب کو متوجہ کیا اور اپنے ایک دوست کو ’’بلوچستان مزدور پارٹی‘‘ کے قیام کی تجویز دی۔حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اقبال کی طرح کارل مارکس اور لینن کے اقتصادی و سیاسی انقلاب سے متاثر تھا(یادرہے کہ حضرت عمرؓ تک ارضیات اُمہ کی ملکیت کی پیداوارہے جس کی ابتداء اموی جاگیردارانہ خلافت سے شروع ہوئی تھی جس نے اسلام کے نظام عدل کو مختلف تا ویلات کی مدد سے ذبح کر دیا تھا) اقبال کی طرح مگسی اسلام کے عادلانہ معاشی و سماجی انصاف کی تلاش میں نظر آتاہے۔ اس موضوع پر مگسی نے اپنے دوست و احباب کو خطوط لکھے اور اپنے نقطہ نظر کی ترویج کے لئے مضامین بھی لکھے جن کواس مختصر مضمون میں پیش کرناازحد مشکل کام ہے۔
اس مضمون کے آخر میں حقوق نسواں کے حوالہ سے یوسف مگسی کے نظریات کو جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ یوسف عزیز اس بات سے کما حقہ واقف تھے کہ عورت کے حقوق تسلیم کیے بغیر بلوچستان میں سماجی و معاشی انقلاب برپا نہیں کیا جاسکتا۔ یاد رہے کہ بلوچ خاتون بہت ہی بے کس اور مجبور خاتون ہے وہ نیم جاگیرداری اور نیم قبائلی نظام کے ظلم کا شکار چلی آرہی ہے۔ ا س مظلوم عورت کو جو حقوق اسلام اور قدیم بلوچی دستور نے عطا کیے تھے وہ عرصہ دو صدی سے رواج کے نام پر چھین لیے گئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تاریخ بلوچستان میں احترام نسواں کا یہ عالم رہا ہے کہ اگر کوئی مظلوم یا مسافر ایک عورت سے پناہ مانگ لیتا تھا تو وہ تمام قبیلہ یا قوم کی سماجی ذمہ داری میں آجاتا تھا ۔ اسی طرح خانہ جنگیوں میں اگر عورت گزارش لے کر اپنے دشمن قبیلہ کے پاس جاتی تو اس کو بلوچی آئین کے تحت رد کرنا نا ممکن تھا۔ قدیم بلوچی شاعری سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچ خواتین نے اہم فیصلوں کے لئے ’’ بلوچ مجلس یا جرگہ‘‘ میں مردوں کے برابر اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح میدان جنگ میں بلوچ خواتین قائد بھی نظر آتی ہیں۔ مثلاََ بلوچی شاعری سے پتہ چلتا ہے کہ رسم کالاکالی(کاراکاری) کا بلوچ قبائل میں کوئی رواج نہ تھا لیکن جیسے ہی بلوچ قبائل جاگیر داری نظام کے زیر اثر آئے تو عورت، مرد کی ملکیت قرار پائی۔ معمولی شک یا اس سے چھٹکارا پانے کے لئے یا اس کی جائیداد ہتھیانے کے لئے اس پر سیاہ کاری کا الزام لگا کر نجات پائی جانے لگی۔
ماضی قریب میں درجنوں عورتیں اس ظلم کی بھینٹ چڑھ گئیں بلکہ بلوچی دستور کے تحت اس ظلم سے بچنے کے لئے جب انہوں نے سرداروں کے ہاں پناہ لی تو ان خواتین کو بلوچی دستور کے خلاف سرداروں نے بیچ ڈالا۔ اس طرح کے واقعات سن کر یوسف عزیز سرداریت و ملائیت کے خلاف سراپااحتجاج بن گئے۔ وہ ملائیت، قبائلیت اور ظالمانہ رسم رواج کے مخالف اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حقوق نسواں کے داعی تھے۔ لندن سے اوائل ۱۹۳۵ء میں اپنے ذاتی دوست اور سیاسی رفیق محمد امین کھوسہ کو لکھتے ہیں:
’’……..تمھاری بربادی کا باعث انگریز نہیں بلکہ تمہارے دراز ری مذہب فروش باشندے ہیں۔ کم بختوں نے مذہب جیسی بلند تخلیق کو دنیا کا بدترین کھلونا بنا کر انسانی آبادی کے ایک عظیم حصے کو برباد کر ڈالا۔ خدا ان سے سمجھے۔ حیران ہوتا ہوں جب بڑے بڑے دماغوں کو ان امتیازوں یعنی مردوزن کے درمیان کا اسیر دیکھتا ہوں…….مگر امین۔ یورپ کے متعلق آپ کے علمایان دین کی تمام رائیں غلط بخدا کہ غلط۔ یورپ بہت آزاد ہے ۔ آپ سے بازار میں رسٹورینٹوں میں پارٹیوں میں آزادانہ عورتیں ملیں گی ، باتیں کریں گی، کھیلیں گی، منائیں گی اور رشتہ دارکوئی بھی دخل نہیں دیں گے مگر اخلاقی لحاظ سے وہ برائی جو آپ کے دراز ریش حضرات اس سے منسوب کرتے ہیں ۔ ایک فیصدی پائی جائے گی۔ یہاں کی عورت اپنی عصمت کی حفاظت آپ کے رسم و رواج کے مطابق پردہ اور تلوار و بندوق کے ڈر کے ذریعہ نہیں کرتی۔ ان کا معیار کچھ اور ہے۔ کاش کہ اس خط میں تفصیلات لکھ سکتا۔ یہاں کی کنواری عورتیں جو شادی شدہ ہیں۔ عصمت کے معاملہ میں انتہائی بلند معیار پر ہیں۔‘‘
یوسف عزیز مگسی اس تقابلی جائزہ کے بعد یہ مطالبہ کرتا نظر آتا ہے کہ عورتوں کو وہ تمام حقوق عطا کیے جائیں جو ان کو اسلام نے عطا کیے ہیں۔ یوسف عزیز براہِ راست قرآن مجید اور سنت رسول کریم کی طرف رجوع کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ محض تقلید پر تکیہ گوارانہ کرتے تھے بلکہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں بلوچ و بلوچستان کے مسائل کا حل ڈھونڈھتے ہیں۔ اپنے ایک اور رفیق میر تاج محمد ڈومبکی کولکھتے ہیں:
’’ خدائے قدوس کے نزدیک انفرادی زندگی کی صلاحیت جماعتی منفعت کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں ہمیں طریق استدعا بتایاگیا ہے وہ جماعت کی طرف سے ہے۔ سورۃ فاتحہ کو ہی دیکھے…..اھد نا الصراط المستقیم نہیں۔ انعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم یہ سب جمع کے صیغہ جات ہیں۔‘‘
ایک دوسرے خط مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۳۲ء میں ان مقاصد کے حصول کے لئے عملی اقدامات کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے:
’’قریبی عرصہ سے میرا ارادہ ہے۔ سندھ، بالخصوص جیکب آباد( جو مرکز ہے بلوچوں کا ) آنے اور بلوچ بھائیوں کی امداد سے فی الحال ایک انجمن’’حزب اللہ ‘‘ یعنی خدائی فوج کی بنیاد ڈالنے کا۔ جس کے اغراض ومقاصد واضح ہیں یعنی دین الٰہی و قیام بردین الٰہی کی تبلیغ۔‘‘
ان خطوط سے واضع ہوتا ہے کہ وہ بلوچ عوام اور بلوچستان میں ایک اسلامی انقلاب کی تیاروں میں کوشاں تھے۔اپنے ایک مضمون میں انہی مقاصد کے حصول کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:’’مقام حمد وثنا اور موقع فخر و مباہات ہے کہ بلوچ بھی جاگے۔ نہ صرف بستروں پر اللہ تعالیٰ کا نام جپنے کے لئے بلکہ میدان عمل میں آئے ہیں اور ایک ایسے عزم کا مل اور یقین واثق کے ساتھ آئے ہیں جس کا اعتراف خود قوائے باطلہ کو بھی ہے اگر چہ ان کا اعتراف و اظہار دبی زبان سے کیا جارہاہے۔ نیشنلزم بلکہ اس سے بھی اعلیٰ وارفع تخیل یعنی اسلام ازم جس کی وسعت میں قومی، وطنی، لسانی معتقدات سے سب خائف و پریشان ہو کررہ جاتے ہیں جس کا معیار انسانیت کامل کا حصول اور نوع انسان کی نجات ہیں۔ اتحاد ویگا نگت کی روح پھیلاتا ہے، دلوں سے محوشدہ یاد کو پھر دہرانے کے لئے ایک جماعت حق کا پیشوا ہونا اور اپنے ہم مذہب اور ہم وطن رہنمایاں قوم کی مخالفت اور حکومت کی شکوک افزا روش کے باوجود شراب عشق سے مست موافع و مہالک سے بے نیاز اپنے مسلک پر ثابت اور صراط مستقیم پر چلا جانا اگر کوئی دلفریب حقیقت رکھتا ہے تو مستقبل کے لئے پر امید ہوں کہ انشا اللہ یہ سہرا بلوچوں کے سر ہوگا۔‘‘
لیکن فرنگی سامراج آپ کے ارادوں و عزائم سے خوف زدہ تھا۔ ۱۹۳۴ء میں آپ کے رفقاء کر لئے گئے۔ اے ۔جی۔ جی بلوچستان اور برطانوی نژاد وزیراعظم نے مجبور کیا کہ آپ بلوچستان چھوڑ کر لندن روانہ ہو جائیں۔ یہ حکم جبری تھا۔ اسی دوران برطانوی انتظامیہ نے مگسی مرحوم کی مالی امدادسے چلنے والے متعدد اخبارات’البلوچ‘، کراچی۔ ’’بلوچستان جدید‘‘ ،کراچی کو یکے بعد دیگرے ضبط کر لیا تاکہ انجمن اتحاد اور یوسف عزیز کے افکار و عمل کا پرچارروکا جاسکے۔آپ کے اشارہ پر آپ کے اخبار نویس ساتھی محمد حسین عنقا نے تیسرا اخبار’’ینگ بلوچستان‘‘ کراچی سے جاری کیا۔ اس نئے اخبار کے شمارۂ اوّل کے لئے یوسف عزیز نے لندن سے دس صفحات پر مشتمل ایک یادگار مضمون ارسا ل کیا:
’’جلے جلوس، جماعت بندی، اخبار نویسی یہ سب جمہوریت کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ فرنگی استبداد کا یہ حال ہے کہ ہمارے رفقا کوقیدو بند میں ڈال دیا گیا ہے اور ہمارے ہمدردوں کو بے روزگار کیا گیا ہے دربارسبی سے خطاب کیا جاتا ہے۔ کہ چند شورش پسند اٹھے ہیں جو بلوچستان کی پر امن فضا کو مکدراور اس کے سکون کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں۔ آؤ مل کران کا استقبال کریں۔‘‘
یوسف عزیز نے ان دھمکیوں اور غیر انسانی پالیسیوں پر برطانوی استعمار کو ان لفظوں میں للکارا:
’’ایسی آمریت کے دورمیں اس کے سوا اور کوئی چارہ کا ر باقی نہیں رہتا کہ آزاد بلوچستان کا جھنڈا بلوچستان کے سرحدی علاقہ گرم سیل میں گاڑ کر اپنی پرانی تاریخی بلوچ روایات کے تحت بلوچی لشکر لے کر فرنگی استعمار پرہلہ بول دیا جائے۔‘‘
اس پیغام نے بلوچستان کی سیاست میں ہیجانی صورت پیدا کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان افکار اور اعمال میں سید جمال الدین افغانی سے بھرپور یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ان کے افکار پر علامہ محمد اقبال کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ ان کے متعدد خطوط میں علامہ اقبال کے اشعار ملتے ہیں مثلاََ ایک خط کے آخر میں یہ اشعار درج ہیں ’’ لوکار میڈ:
تیر و سنان خنجر و شمشیرم ارزوست
با من بیا کہ مسلک شبرم ارزوست
(اقبال)
بلوچ و شجاعت، بلوچوم ارزوست
خیزد! باز نعرۂ اسلام آرزو است
(عزیز)
ایک دوسرے خط کے شروع میں یہ شعر ہے:
خردی نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلمان کو ہے ننگ وہ پادشاہی
اپنے مقصد کی ترویج کے لئے انہوں نے جھل مگسی قصبہ میں ’’جامعہ عزیزیہ‘‘ کے نام سے ہائی اسکول بھی قائم کیا تھا۔ جہاں پر طلباء کو مفت تعلیم ، لباس اور خوارک مہیا کی جاتی تھی۔ انہوں نے دیگردیہاتوں میں پرائمری سکول قائم کیے۔ ان کا ارادہ تھا کہ لندن میں بلوچ طلباء کے لئے ایک ہاسٹل قائم کیا جائے جس کے اخراجات انہوں نے خود براداشت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔’’جامعہ یوسفیہ‘‘ کے کورسز کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انجمن حمایت اسلام، لاہور اور جامعہ ملیہ، دہلی کے نصاب سے بہت متاثر تھے نیز جامعہ عزیز یہ جھل میں بلوچستان کے جغرافیہ ، تاریخ و ثقافت کے مضامین کو بھی شامل نصاب کیا ہوا تھا۔
یوسف عزیز نے تعلیم کے علاوہ سماجی برائیاں(شراب اور بھنگ)پر پابندی عائد کی تھی۔ ان کو اپنے مقاصد میں از حدکامیابیاں ہوئیں۔ بلوچ اور اہل بلوچستان ان سے والہانہ پیا رکرتے تھے۔ جلا وطنی سے واپسی کے بعد ان کا ارادہ تھا کہ وہ متعدد محاذوں پر جدوجہدکریں گے جن میں آئینی و تعلیمی اصلاحات، سردای نظام کا خاتمہ، اسلامی تعلیمات کی ترویج۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے وہ سوویت یونین کی مدد سے آزادی کی مسلح جدوجہد کا ارادہ بھی رکھتے تھے لیکن بلوچ اور بلوچستان کی یہ انتہائی بد قسمتی تھی کہ یوسف عزیز کوئٹہ میں ۳۰/۳۱مئی۱۹۳۵ء کی درمیانی رات میں زلزلہ میں شہید ہوگئے یوں بلوچ اور اہل بلوچستان ایک عظیم دانشور، قائد، ساتھی اورعظیم راہنما سے محروم ہوگئے۔
یوسف عزیز مگسی کی وفات کا نوحہ ہر طبقۂ فکر نے کیا ہے۔ اس مضمون کے آخر میں میر گل خان مرحوم(بلوچی زبان کے شاعر، ادیب، مورخ اور سابق وزیر تعلیم بلوچستان) کا غیرمطبوعہ خط(مورخہ۳۱اگست۱۹۳۵ء) کا وہ حصہ پیش کرتا ہوں جو انہوں نے نوابزادہ میر شہباز خان نوشیروانی(نواب خاران کے چھوٹے بھائی اور بلوچ قومی تحریک کے سرگرم رکن) کو محمد یوسف عزیز کی زلزلہ میں شہادت پر لکھا تھا:
’’وہ کون سا دل ہے جس میں نوجوان یوسف کی ناگہانی موت کا سن کر رنج والم کے بادل نہ امنڈ آئے ہوں۔ وہ کو ن سی آنکھ ہے۔ جو بلوچستان کے اس مایہ ناز فرزند کی یا دمیں خون کے آنسو نہیں بہاتا ہو۔ یوسف ! ہم گم کردہ راہ بلوچوں کے لئے خضر کی طرح نمودار ہوا اور بھولے بھٹکے بلوچوں کو راستے پر لگا کر یکایک غائب ہوگیا۔ یوسف کو خداوندنے مسیحا ء بلوچ بناکر بھیجا جو مردہ بلوچوں میں حیات جاوید پھونک کر خود آسمان کی جانب پرواز کر گیا

вторник, 29 мая 2018 г.


شھید سنگر یار جاوید جان
تحریر دلجان بلوچ
2010 ایک انجانا سا چہرہ معلوم نہیں سنگت امیر جان نے کہاں سے ڈھونڈ کے لایا تھا وہ کہتے ہیں نا سونے کی پہچان سونار کو ہوتی ہیں بدن پر کالے کپڑے کاندھے پر سندھی اجرک بھورے بال چوٹی آنکھیں لمبی ناک ابھی لڑک پن سے جوانی میں قدم رکھا ہوگا اور ابھی ہی اپنے قڈ کاٹ سے بڑی زمہ داری لے کر مادر وطن کہ آجوہی کی راہ میں نکل پڑا
ٹریننگ شروع کی تو
اس دوران سب میں گھل مل گیا ابھی ایک ہفتہ مشکل سے گزرا ہوگا کے ہر محفل میں ہنستے ہنساتے شیخ ( جاوید) سنگت نظر آتا بہت کم لوگوں میں یہ خوبی ہوتی ھیں کے کم وقت میں اپنے ارد گرد کے ماحول کو سمجھ کر اس میں ڈھل جاتے ہیں اور اپ سوچتے رہتے ھیں کے یہ انسان کہی سالوں سے ہمارے درمیان موجود ہیں
شیخ بھی انہیں لوگو میں سے تھا جو بہت کم وقت میں سب کے ساتھ گھل مل گیا اور کام پر لگ گیا. ٹرننگ کہ دوران ہی یہاں رہنے اٹھنے بیٹھنے و کام کا ہنر سیکھ لیا تھا
ٹرننگ مکمل کرنے کہ بعد
خضدار میں اپنے زمہداریاں نبھانے میں لگ گیا. ہر وقت دوستوں کہ شانہ بشانہ کھڑا رہا ہر کام میں خود کا حصہ ڈالتا رہا مشکل مصیبت گھٹن وقت میں بھی اپنے مشن کو مکمل کرنے کہ تاق میں لگا رہتا. جس طرح دشمن نے اپنے چال بدلے تھے ان کہ پیچ رئے کر شیخ و اسکے سنگت اپنے حکمت عملی کو مضبوط بنا کر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے .
وقت گزرتا گیا. مشکلیں بڑتی گئی پھر وہ دن آ پہنچا جب شیخ کو شہر چھوڑ کر پہاڑوں کا رخ کرنا پڑا. شہید سنگت امیر کہ ایک بلانے پر شیخ نے دوستوں کہ فیصلے کو بھی قبول کرکے سخت دشوار پہاڑوں کی طرف چل پڑا.
بعد میں آیا دیکھا سوچا سمجھا سب کام کرکے بہت آگے کے صفوں میں نظر انے لگا ہر کام میں پیش پیش رہنے والا کبھی نہ تک نہیں کیا
شیخ گشت پے جانا ھیں
شیخ موٹرسائکلوں کو بنانا ھیں
شیخ دوست کو لانا لیجانا ھیں
شیخ قلات میں کام کی ضرورت ھیں
شیخ حب چوکی کو تیری ضرورت ھیں
شیخ سوراب بھی آپ کو جانا ھیں
ہر وقت تیار رہتا قلات کہ انجان شہر میں خود جاکر کمان سنبھالنا دوستوں کو سنبھالنا کام کرنا راتوں کو سفر کرکہ سامان لیجانا. ہر موقع پر دوستوں سے مشورہ کرنا. یہاں کچھ وقت انتظار کرنا حکمت عملی کہ تحت کام روکنا ہوتا تو حب چلے گئے وہاں اپنے جہد کو جاری رکھا.
کبھی گھر جانے کی خواہش تک نہ کی کہ کہیں دشمن کہ نظر نہ آجاؤن بس سفر میں زندگی گزارتے رہے. تم نے زندگی ہی اسی سفر کو بنایا تھا تب ہی تو کبھی افسردہ نہیں دیکھے. کبھی شکایت نہیں کی بس شرارت کرتے مسکراتے مزاق کرتے دوستوں کہ دیوان میں دیکھ تے رئے.
تم بنا کچھ کہہ بنا کسی عضر کے ہر کام میں مگن رئے کبھی تو انکار کرتے کبھی تو کہتے تھک گیا ھو کھبی تو کہتے کے مجھ سے نہیں ھو سکتا تو آج تمھارے جانے کا اتنا دکھ نہیں ھوتا یہ سوچتا کہ دوست تھا کچھ کام کیا کچھ نہیں.
آیا اور چلا گیا مگر تم میں ایسی ایک بھی کمزوری نہیں کے میں اپنے آپ کو تسلی دے سکوں کم سے کم کسی جنگی معاز پر جانے کے لیے تم اپنے ایک دو قدم پیچھے اوٹھاتے کے مجھے جانا نہیں چائے وہ بھی تم نے نہیں کیا.
ھژدھ خول ہو یا منجورو لیجے ہو یا سنگر کی زمداریاں قلات کی سرد راتیں ہو یا
حب کی جھلسا دینے والی گرمی 7 اپریل کی ہیلی بور خونی اپریشن ہو یا 16 فروی کے اپریشن کبھی کسی موقع پر تم زرا بھی پیچھے نہیں ہٹے پھر آج کیو تمہارے جانے پر نہ رو دو آج تمہارے جانے پر کیوں قلات افسردہ نہ ہو آج تمہارے جدا ھونے پر چنال وال انسو کیوں نہ بھا دے اتنی جلدی جانا تھا پھر اتنی اچھا کیونکر بنے ہر ایک کو تمہارے جدائی کا غم سہنا پڑے
کچھ لمحے تو رک جاتے ابھی تو بہت کام تھا ابھی تو آئے تھے اجرک کاندھوں پر مسکرائے اور ابھی چل دئے اسے بیرک بناکے ابھی تو قلات تمہارے راہ تک رہا تھا ابھی تو حب میں دشمن طاقت کے گھمنڈ میں ہیں ابھی تو خضدار تمھارے واپسی کا منتظر ھیں.
شیخ ابھی تو نہیں جانا تھا ابھی تو عرفان چلا گیا تھا شعیب بھی ساتھ تھا خالد بھی چلا گیا.
شیخ تم زندہ ہوتے تو اور مشکلیں اٹھاتے اور سختیاں دیکھتے اس کم عمری میں تم ہار نہیں مانتے ہر لمحہ امتحان سے گرزرنے کا لمحہ ہوتا خواری کاٹ تے سفر میں پیاس برداشت کرتے سنگر پر رات رات پھرے دیتے
مگر تم نے خود کو ثابت کر ہی دیا تم کھڑے تھے سب کہ ساتھ کھڑے رئے ہر اول دستے میں اس آخری کالی رات تک جب درد کی اچھانک شدت اور علاج کی کمی نے آپ کو ہم سے جدا نہیں کیا.
تم ہر مشکل سے گزر کر وطن پر قربان ہو چلے جس راہ کا چناو تم نے جس ایمانداری سے کیا تھا اسکی گواہی تمارے عمل کا ہر پھلو بیان کر رہا ہیں کہ تم نے آخری سانس تک خود کو ثابت کرکہ تاریخ کہ اوراق میں ہمیشہ ہمیشہ امر ہوگئے.
شیخ تمہیں معلوم ہیں ابھی تو سورجائی کا تیرا سنگر
اداس ھیں اسے پتہ چلا ہیں کہ تم اس سے دور چلے گے ہو اب وہ اپنے قریب سے راہ گزرتے بہت سو کو دیکھے گا لیکن جس کے وجہ سے سورجائی کی اس چوٹی کو سنگر نام ملا اب وہ سنگر اپنے سنگر یار کو دیکھ نہیں سکھے گا.
اب اسے اگر دیکھنا ہیں اپنے سنگر یار کو تو وہ خود چلا آئے سنگر یار آج سنگت امیر کہ پہلو میں آسودہ خاک سو رہا ہیں. اسی پارود کے پہاڑوں میں جنہیں اس نے اپنے گھر کے بعد اپنا مسکن بنا رکھا تھا.
جن میں سختی سوری بھوک بیماری خواری ہنسی خوشی دکھ درد سب کچھ اپنے قوم کی خاطر برداشت کرکے انہیں اپنے سینے میں خود سمت پارود کہ پہاڑوں میں دفنا کر ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے گمنامی کہ زندگی سے سرخ روح ہوکر نکلا.
پہاڑوں کو بھی رشک آتا ہوگا ایسے جوانوں کو اپنے کوک میں پالتے ہوئے جو اپنے قد اپنے بساط سے بڑ کر درد اتنے چھوٹے سینے میں کیسے پال کر کبھی اُف تک نہیں کرتے. میرا سنگر یار میرا جاوید میرا شیخ اس عمر میں اتنے کم سمے میں کتنا کچھ کر گزرا کتنا کچھ بدل کر چلا گیا
جس کہ ساتھ آیا تھا اسی کہ پہلو میں ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے جا سو لی
ا.

اٹھائیس مئی :جب چاغی ایٹم بم گرایا گیا۔۔۔۔
۔تحریر:محراب بلوچ  
اٹھائیس مئی کو پاکستان میں یومِ تشکر یا یومِ تکبیر مناتے ہیں، اس دن کو پاکستانی اپنی کامیابی سمجھ کر اس دن کو جشن مناتے ہیں۔ اس دن کو اہم ترین ایام میں سے ایک کے طور پر یاد کرتے ہیں کیونکہ پاکستان نے اسی دن ایٹمی آزمائش کرکے ساتویں ایٹمی قوت کا مالک ملک بن کر دنیا کے سامنے اُبھر آیااور دنیا کے نقشے میں ایک ایٹمی طاقت کے نام سے نمودار ہوا۔

اکثرپاکستانی اس بات پر اب تک افسردہ ہوکر افسوس کرتے ہیں کہ کاش 1971 میں ہم ایٹمی طاقت بن پاتے، تو ہمارے 90 ہزار فوجیوں کو سرنڈر کرنے کی نوبت نہیں آتی اور ہم اپنے ایٹمی طاقت کے ذریعے ہندوستان کو شکست دے سکتے۔
1974 کو بھارت ایٹمی تجربات کرکے ایک ایٹمی ملک بن گیاتھا یہ بات پاکستان پر ایک بم بن کرگرا کہ ہمارے دشمن نے ایٹمی ہتھیار بنانے کا سراغ لگاکر ایک ایٹمی طاقت بن گیا ہے۔پاکستانی سائنس دانوں نے تگ و کرنا شروع کیا تاکہ وہ بھی ایک ایٹمی طاقت کے نام سے اپنے ملک کی پہچان کرائیں، ویسے تو ایٹمی طاقت بننا ایٹمی طاقت کی خواہش رکھنا، ہمیشہ سامراجی ملکوں کی ایک ہوس رہی ہے۔
1973ء میں ذولفقارعلی بٹھو کی دورِ حکومت میں پاکستانی سائنسدانوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر کی سربراہی میں ایٹم بم بنانے کے تجربات شروع کئے ،اس زمانے میں ایٹمی ہتھیار بنانا، عالمی سطح پر عام نہ تھی، دوسری جنگِ عظیم میں سب سے پہلے امریکہ نے سنہ6اگست 1945 کو جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے، پہلا جاپانی شہر ہیروشیما پر گرایا گیا، جہاں ایک لاکھ چالیس ہزار آدم پر لقمہِ اجل بن گئے، دوسرا حملہ تین دن بعد یعنی 9اگست 1945 کو ناگاساکی میں کیا گیا، اس کے نتیجے میں 80 ہزار افراد لقمہِ اجل بن گئے اور بعد میں مرنے والوں کے تعداد تقریبا ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی۔ ایسے ایٹمی یعنی جوہری ہتھیاروں کے اثرات صدیوں تک رہتے ہیں۔ اب تک جاپانی دونوں متاثرہ شہروں میں اثرات باقی ہیں۔
اسی غیر انسانی عمل کے بارے میں ایک طرف لوگ کہتے ہیں کہ جوہری ہتھیاربنانااوراستعمال کرنا غیر انسانی عمل ہے تو دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ اس حملے کے نتیجے میں دنیا کے انسانوں کیلئے نیک شگون نتائج نکلے کیونکہ اس حملے کی بعد ہی جنگ عظیم رک گئی اور دنیا میں ایٹم بم وغیرہ کا استعمال بند ہوگیا دنیا میں اب جوہری ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے پر پابندی کے لئے بڑے پیمانے پر کوششیں جاری ہیں ۔
عالمی پابندیوں کے باجود پاکستاں نے ایٹمی ہتھیار بنائے، پھر 28 مئی 1998 کو بلوچستان کے ضلعِ چاغی میں راسکو کے پہاڑیوں میں کوہِ قمبر کے دامن میں پانچ ایٹمی دھماکے کرکے چاغی کی نازُک دلبند کو ساہ کردیا گیا۔ چاغی کی دلبند کو چاک کردیا گیا۔ آج تک وہاں سے نیم مردہ معزور اپاہج انسانیں پیدا ہوتے ہیں، جانور بھی معزور پیدا ہوتے ہیں، حتٰی کہ وہاں کے سر سبز جنگل بھی ویران ہورہے ہیں۔ وہاں کوئی گھاس پھوس تک نہیں اُگتا۔
ایٹمی طاقت کی جہاں آزمائش کی جاتی ہے، وہاں قدرتی نظام پر بھی درہم برہم ہوتا ہے، موسم میں ردوبدل آتا ہے گرمی، سردی، بارش ہوا وغیرہ بدل جاتے ہیں کیونکہ اب تگ چاغی میں بارش نہ ہونے کے برابر ہے، موسم زیادہ گرم و خشک رہنے لگا ہے۔ زیر زمین پانی کا سطح بہت نیچے چلاگیا ہے۔
چاغی کے لوگ سونا، چاندی، تانبہ، یورینیم، کرومائیٹ وغیرہ سے پہلے ہی کوئی استفادہ نہیں کرسکتے تھے، نا امید تھے۔ پھر بھی بارشوں سے اپنا کاروبارِ زندگی چلاتے اور معاش کا بندوبست کرتے تھے۔ اپنی مدد آپ کھیتی باڑی زمینداری کرتے تھے۔ دو پہروں کے کھانے کا بندوبست کرلیتے تھے۔ کوئی معذور کم از کم پیدا نہیں ہوتاہے ۔
بلوچستان کا امیر ضلع چاغی بہت سے معدنیات سے مالا مال ہے، سب معدنیات سے محروم وہاں کے باسی قدرتی جڑی بوٹیوں پر گذر بسر کرتے تھے، جب وہاں قدرتی بارش ہوتا، تو قدرتی جڑی بوٹی اُگتے تھے، مثلا ڑڑوک، مارموتک، گیشنچ، مورپوژو وغیرہ ان جڑی بوٹیوں کی بڑی مانگ تھی۔ بازاروں میں چاغی کے باسی قدرتی جڑی بوٹیوں کو آزادانہ طورپر فروخت کرتے تھے۔ چاغی کے معدنیات سے محروم لاچار امیروں کو جڑی بوٹیوں پر اختیار آسانی سے تھا۔ غریبوں کیلئے یہ بھی ایک زریعہ معاش سے کم نہیں تھا انہیں سے لوگ گذر بسر کرتے تھے۔ اب چاغی کے باسی اس نعمت سے بھی محروم ہوچکے ہیں ۔
ان انسانی سنگین مسائل کا ذمہ دار پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سردار اختر مینگل بھی ہے۔ اسی دوران بلوچستان کی وزیر اعلیٰ اختر مینگل تھے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نااہل نواز شریف تھے، ایٹمی تجربات کے بعد سردار اختر مینگل، نواز شریف کا گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے چاغی پہنچے۔ ہمیں افسوس ہے کہ چاغی کو اس حالت میں دیکھ کر سردار اختر مینگل نے یہ وعدہ کیا کہ چاغی کے متاثرہ علاقے کے لوگوں کو تاوان دیا جائیگا، جو آج پورا نہ ہوسکا۔
ان ایٹمی دھماکوں کی اثرات صرف چاغی ہی نہیں بلکہ نوشکی، خاران، پنجگور اور دوسرے بہت سے علاقوں تک پھیل چکی ہیں۔ آج تک معزور و اپاہج لوگ راغے، بیسمہ کے ساتھ ساتھ دوسرے علاقوں تک پیدا ہورہے ہیں۔ یہ اثرات بھی انہی ایٹمی دھماکوں کے ہیں ۔
چاغی کی فرزند چاغی کو دیکھ کر خون کی آنسو روتے ہیں، اس درد کا احساس پوری بلوچ قوم کو ہے۔ اس لئے اس دن کے مناسبت سے بلوچ عوام یومِ آسروک اور یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ چاغی کے باسی افسردگی سے پاکستانی حکمرانوں کو بد دعائیں دیتے ہیں ۔
اتنا درد نہیں ہوتا غیروں کی دشمنی سے لیکن دوستوں کا درد دل میں ہمیشہ ماتم کرتا رہتا ہے، پنجابی تو ازل سے بلوچ قوم کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ زیادہ درد سردار اختر مینگل کا ہوتا ہے، اختر مینگل چاغی کا بیٹا ہے، چاغی کا فرزند ہے۔ سردار اختر مینگل نے اپنی ماں کو زر و مال کی لالچ میں آکر سودا کیا، سردار اختر مینگل کو بلوچ تاریخ میں تاریخ دان و مورخ قومی مجرم ثابت کرکے لکھیں گے۔ سردار اختر مینگل کو بلوچ ایک مجرم کی حیثیت سے یاد کریں گے ۔
https://dailysangar.com/home/page/11182.html

понедельник, 28 мая 2018 г.

اٹھائیس مئی :جب صوراسرافیل پھونکا گیا 


اٹھائیس مئی :جب صوراسرافیل پھونکا گیا
May 28, 2018, 10:40 pm
(پاکستا ن کے ایٹمی دھماکے اوربلوچ قوم پر ان کے اثرات )
تحقیق وترتیب :زرمبش لٹریری فورم
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کا پسِ منظر اوروہ کیاوجوہات تھیں جن کی بناپاکستان نے 28 مئی 1998 ء کو بیک وقت پانچ ایٹمی دھماکے کیے؟ بلوچ قوم ان دھماکوں کے بعد کس کرب سے گزری اور دنیا پہ ان کے کیا اثرات مرتب ہوئے ؟اس مضمون میں ہم انہی موضوعات کاجائزہ لینے کی کوشش کریں گے ۔
پاکستان کے جوہری پروگرام کا تاریخی پس منظر:۔
بی بی سی اردومیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انیس سو چون (1954)کی بات ہے، جب اس زمانے کے پاکستانی وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے وائیٹ ہاؤس میں امریکی صدر آئزن ہاور سے ملاقات کی تھی اور پاکستان نے امریکہ کے ایٹم برائے امن (ایٹم فار پیس) کے منصوبہ میں شمولیت کے ساتھ جوہری توانائی کے شعبہ میں تحقیق اور ترقی کے لیے جوہری توانائی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
ایٹمی طاقت حاصل کرنے کے لیے یہی پاکستان کا پہلا قدم تھاجس نے آگے چل کر مئی 1998ء میں اپنے اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ بلوچ عوام پہ قہر نازل کی۔
اسی سال یعنی 1954ء میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو انتہائی اہم فوجی معاہدوں ''سینٹو اور سیٹو''پہ دستخط ہوئے جن کی روسے امریکہ پاکستان کو روایتی اسلحہ فروخت کریگا اور اس کے بدلے پاکستان امریکہ کو اپنے ملک میں فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دے گا۔
حیران کن امر یہ ہے کہ جب ساٹھ کی دہائی میں ہندوستان جوہری تجربات کی تیاریوں میں مصروف تھا تو پاکستان نے کھلے عام ایٹمی پروگرام سے انکار کردیا تھا اور دوسری جانب جنوری 2004کے بی بی سی اردو کے رپورٹ کے مطابق پاکستان جوہری پروگرام کے لئے کافی سرگرم تھا لیکن پاکستانی مقتدرہ کاایک حصہ امریکی دباؤ کے تحت اس پروگرام کے حق میں نہیں تھا۔
اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کہ بین الاقوامی ادارے ایسے تجربوں کی ہمیشہ مخالفت کرتے آرہے ہیں۔ اسی لیے سرعام ایسامعاہدہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ ہاں البتہ جوہری توانائی کا امریکی عندیہ ہی اس بات کی نشاندہی کے لیے کافی ہے کہ امریکہ کی رضا اس پروگرام میں شامل تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جہاں ایک جانب سرد جنگ اپنے عروج پہ تھی ،دنیا دوحصوں میں تقسیم ہوچکا تھا ۔ایک جانب سوشلزم کے حامی ریاستیں اور دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ممالک تھے ۔1955ء کو سویت یونین اورافغانستان کے درمیان باہمی تعان کا ایک اہم معاہدہ ہوا تھا جس کی روسے سوویت یونین افغانستان میں بڑے ترقیاتی منصوبوں کو عملی شکل دینے کی کوشش کررہی تھی ۔
یہ اقدام سرمایہ دار ممالک کے سرخیل امریکہ کے لئے ناقابل برداشت امر بن گیا۔ انہی دنوں ایک مفروضہ مشہور ہوا کہ سوویت یونین افغانستان کے راستے گوادر سمیت خطے کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اسی مفروضے کوسرمایہ دارممالک ایک حقیقت کے روپ میں دیکھ رہے تھے اور انہوں نے سوویت یونین کو افغانستان تک محدود کرنے کے لئے سردجنگ کو عروج پر پہنچایااور اس مقصد کے لئے پاکستانی ریاست نہایت سستے داموں استعمال کے لئے دستیاب تھا ۔
دوسری طرف دنیا کی دوسری بڑی منڈی اور آبادی بھارت ہے۔بھارت برطانیہ کے نوآبادی اور استحصالی نظام میں سوسال تک پسنے اورآزادی کے بعد تیزی سے اصلاحات اور سوشلزم کی طرف جھکاؤکی وجہ سے مغرب کا قابل اعتماد ساتھی نہیں تھا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ مغرب کو ڈر تھا کہ اگر بھارت اس خطے میں طاقت حاصل کر لے تواپنے اکھنڈ بھارت کے تصور کو عملی جامہ پہنائے گااورمغرب اپنے مفادات کے چوکیدارپاکستان سے محروم ہوگااور یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت اور سویت یونین کی قرابت داری مزید پروان چڑھی تو مغرب کے مفادات کو زک پہنچے گا ۔
لیکن اس کے باوجود آنے والے دنوں میں امریکہ نے پاکستانی جوہری پروگرام کی مخالفت کیوں کی ؟
دراصل ان دنوں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ تھے اور امریکہ نے پاکستان کی بجائے بھارت کو اہمیت دینا شروع کیاتھااور 65 اور 71 کی جنگوں میں یقین دہانی کے باوجود امریکہ نے پاکستان کی کوئی مددنہیں کی توفرانس نے 1968ء میں جب پاکستان کو ''ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ'' لگانے کی پیش کش کی تو پاکستانی صد رایوب خان امریکہ کی مخالفت کا متحمل نہ ہوسکا اوراس پیشکش پرپیشرفت نہ ہوا۔کہاجاتاہے کہ پاکستان کو پیشکش کی وجہ فرانس کا یہ یقین تھا پاکستان اس عمل کے قریب پہنچ چکا ہے۔ جب بھٹو کا دورِ اقتدار آیا تو اس نے ایٹمی پروگرام پر ازسرنوکام شروع کرکے سابقہ ٹیم کو معطل کیا اور ان کی جگہ ہالینڈمیں مقیم ڈاکٹر قدیر خان کوبلالیااور مالی امداد کے لیے بھٹو نے اسلامی ممالک کا ہنگامی دورہ بھی کیا جہاں1973ء میں بھٹو نے امریکی دباؤ کے باوجود ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا۔
بھٹو ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے کیونکہ اس دور تک پاکستان یورینیم اس مقدار میں افزودہ نہیں کرسکا تھا جو اس پروجیکٹ کے لیے کافی تھے۔
جب 1977ء میں بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اورفوج براہ راست اقتدار پر براجمان ہوگیا اس دوران امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا نیا باب کھل گیا اورجہاد کے نام پر دنیا بھر سے انتہاپسندوں کو پاکستان میں سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے تربیت دے کر انہیں افغانستان بھیجنا شروع کیا جہاں افغان حکومت اور ان کے اتحادی سوویت یونین کے خلاف جہاد کے نام پرمشہور جنگ لڑا گیا۔ جب تک سوویت فوجیں افغانستان میں موجود تھیں تو پاکستانی فوج مغربی بلاک کا دلدادہ اور اتحادی تھا ،جمہوریت کے دعویدار مغرب کے لئے پاکستان میں فوجی رجیم قابل قبول تھا۔ اسی دوران پاکستان نے جوہری پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کردی تھیں ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مطابق پاکستان 1984ء میں جوہری بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرچکا تھا۔ یہ وہ دور تھا جہاں افغانستان امریکہ اور پاکستان کی وجہ سے تباہی کے دہانے پہ پہنچ چکا تھاجس سے امریکہ اور مغرب کا وہ دیرینہ مقصد جس میں روس کو گرم پانیوں تک رسائی سے روکنا تھا حاصل کرلیا تھا۔یہی وجہ سے کہ امریکہ نے بھی پاکستان کے اس پروگرام کی مخالفت نہیں کی کیونکہ پاکستان ان کے مفادات کی تکمیل کے لیے ایک کارآمد ساتھی تھا۔ ان دنوں پاکستان نے ایٹمی تجربات اس لیے بھی نہیں کیے کہ ایک جانب اس کاروایتی حریف بھارت کھل کر اس جانب کوئی قدم نہیں اٹھا رہا تھا اور دوسری جانب سویت یونین کے خلاف پاکستان اور امریکہ کی جنگ۔ جہاں امریکہ اور پاکستان دونوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر پاکستان نے ایٹمی تجربات کیے تو ممکن ہے کہ دنیا کی ہمدردی سویت یونین کے ساتھ ہوں۔ اسی لیے جوہری تجربات سے پاکستان گریز کرتا رہا اور اس کے چودہ سال بعد 28 مئی1998ء کوپاکستان نے مقبوضہ بلوچستان کے علاقے چاغی پر ایٹمی تجربہ کرکے بلوچ قوم پر صوراسرافیل پھونک دیا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بلوچ لیڈرشپ کی رائے ۔
اس سوال پر کہ ’’پاکستان کا ایٹمی پروگرام عالمی اصولوں کے عین مطابق ہے؟
بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ کا کہنا ہے کہ’’سی ٹی بی ٹی(Comprehensive Nuclear Test Ban Treaty)1996 ء میں قائم ہوا تھاجو کہ ایٹمی تجربات کی روک تھام کے حوالے سے سب سے بڑا معاہدہ ہے جس کا مقصد دنیا میں ہر قسم کی ایٹمی تجربات کی روک تھا م ہے لیکن پاکستان نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کئے ہیں۔ دوسرا معاہدہ این ٹی پی (Non Proliferation Treaty) کا کہنا ہے کہ عالمی امن کی خاطر تمام ایٹمی ہتھیاروں کو حذف کیا جائے،پاکستان اس کابھی حصہ نہیں ہے۔ لہٰذا میں سمجھتاہوں کہ ’’پاکستان کے ایٹمی پروگرام اوربلوچستان میں ایٹمی دھماکے تمام عالمی قوانین کے خلاف ہیں‘‘۔
عالمی قوتوں اور اداروں کے بارے میں چیئرمین کا کہنا ہے کہ’’میں نہیں سمجھتا کہ امریکہ کی رضاء کے بغیر پاکستان کوئی اتنا بڑا قدم اٹھا سکتا ہوکیونکہ جن دنوں سویت یونین کے خلاف امریکہ اور پاکستان افغانستان میں لڑرہے تھے،انہی دنوں 1984ء میں پاکستان ایٹمی قوت بننے کی طاقت حاصل کر چکا تھالیکن میرے خیال میں اس وقت سوویت یونین کے شدید ردعمل کے خوف سے امریکہ نے دھماکہ کرنے سے منع کیا ہوگا‘‘۔
’’ہاں،یہ بات اہم ہے کہ نیو کلیئر سپلائزر گروپ نے پاکستان کو کسی رعایت کا مستحق نہیں سمجھااور آج تک پاکستان اس گروپ کا ممبرنہیں بن سکاہے اور2015ء میں جمہوریہ مارشل آئرلینڈ کی درخواست پر پاکستان کو نوٹس جاری کیے گئے‘‘ ۔
ایٹمی تجربات کے لیے بلوچستان کے انتخاب پر چیئرمین کا کہنا ہے کہ ’’اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتاکہ بلوچستان کی سرزمین اہم ہے۔ پاکستان کے لئے بلوچ قوم اہم نہیں۔ بلوچ وسائل کی لوٹ مار ہو یا یہاں ایٹمی تجربات کی تباہ کاریاں،غرض پاکستان نے ہمیشہ اس سرزمین اور قوم کا استحصال کیاہے اور جب تک غلامی کی تلوا ر ہم پر لٹک رہی ہے،پاکستان کاظلم و ستم جاری رہیں گے‘‘
اس بارے میں بات کرتے ہوئے بی ایس او کے سابق چیئرمین بشیر زیب نے کہا کہ ’’پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور ایٹمی تجربہ تمام عالمی اصولوں کے منافی بلکہ جنگی جرائم کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے تجربے بھی چھوٹے دیہاتوں اور بکھرے آبادیوں کے علاوہ تین بڑے شہروں خاران، نوشکی اور دالبندین کے درمیان راسکو میں اپنا ایٹمی تجربہ کیااوراس کے اثرات سے لوگ آج بھی نہیں نکل پائے ہی۔ آج تک وہاں لوگ مختلف امراض کا شکار اوربچے مفلوج معذور پیدا ہورہے ہیں۔‘‘
اس سلسلے میں مزید بات چیت کرتے ہوئے چیئرمین بشیر زیب کا کہنا تھا ’’پاکستان نے اپنے روایتی حریف بھارت سمیت دنیاکو بلیک میل کرنے کے لئے تجربے کئے اوریہ بات کہ’’ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار کسی وقت دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے‘‘بشیر زیب کے مطابق اس پروپیگنڈے کا مقصد بھی دنیاکو تھریٹ کرنا کہ کسی نے پاکستان کے خلاف کوئی بڑااقدام اٹھایا توہتھیارشدت پسند تنظیموں کے ہاتھ لگ سکتے ہی۔ اس کا مطلب یہ ہے پاکستان کہہ رہاہے کہ وہ ایسی صورت میں ایٹمی ہتھیاردہشت گردوں کا حوالہ کرے گا‘‘
چیئرمین بشیر زیب کا کہناتھا’’پاکستان کا کوئی بھی عمل ایسا نہیں جس کی منفی اثرات دنیا اور خاص کر ایشاء پر نہیں پڑے ہی۔ پورے خطے میں یورینیم افزودگی اورایٹمی ہتھیاروں کی رجحان کو پروان چڑھانے میں پاکستان کا کلیدی کردار رہا ہے ،جس کا واضح ثبوت ڈاکٹر قدیر کے انکشافات اور اعترافات سب کے سامنے عیاں ہیں‘‘۔
بلوچ قوم پہ اثرات:۔
ایٹمی تابکاری کے اثرات انتہائی مہلک ہوتے ہیں۔ اس حوالے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا ایک اہم رکن ڈاکٹر پاؤلو ایم بوس کا کہنا ہے کہ'' ایسے تمام جانوروں کو ہلاک کردیا جائے جن کے بارے میں شبہ ہو کے وہ تابکاری سے متاثر ہوئے ہیں۔تمام پودے اور نباتات جو تابکاری جذب کر چکے ہیں اور اس علاقے کی مچھلی وغیرہ بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔تابکاری کی پیمائش کی جائے اور جہاں تابکاری صفر ہوجائے وہاں سے اس پورے علاقے کے گرد ایک حصار قائم کردیا جائے تاکہ تابکاری سے متاثرہ علاقے کے جانوروں کا گوشت، دودھ،مچھلی ، پھل اور سبزیاں وغیرہ ہر قسم کی کھانے پینے سے متعلقہ اشیاء کسی بھی صورت انسانی غذا ء میں شامل نہ ہو سکیں۔''
اس ایک پیراگراف سے اندزاہ ہوتا ہے کہ ایٹمی تابکاری کے اثرات کتنے مہلک ہوسکتے ہیں۔ اس حوالے ڈاکٹر پاؤلو ایم بوس کا مزید کہنا ہے کہ''جو لوگ تابکاری سے متاثر ہوچکے ہوں انہیں اگلے پانچ سے دس سال تک اور بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ عرصے تک ڈاکٹروں کی متواتر دیکھ بھال میں رہنا ہوگا۔'' (ڈاکٹر پاؤلوایم بوس نے یہ معلومات جاپان کے ایٹمی پلانٹ میں حادثے کے بعد یکجا ء کیں)۔
ان کے علاوہ امراض جن میں کینسر، رسولی، سانس کی بیماری، معذور بچوں کی پیدائش، حمل کا ضیاع، بانجھ پن وغیرہ شامل ہیں ۔یہ امراض اگر ایک ترقی یافتہ ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے تو پاکستان جیساغیر ترقی یافتہ ملک کیسے ان سے محفوظ رہ سکتا ہے اور دوسری بات کہ پاکستان کا ہمیشہ سے بلوچستان اوربلوچ قوم کے ساتھ رویہ حاکمانہ اور جابرانہ رہاہے تو ایک غلام قوم کے لیے قابض اورآقا کی طرف سے حفاظتی تدابیر کا امید ہی عبث ہے۔ پاکستان تو ہمیں 1948ء سے آج تک قتل گاہوں کی سیر کراتا آرہا ہے۔
بلوچ عوام پہ کیا گزری انہی کی زبانی:
زرمبش لٹریری فورم نے ان لوگوں کی رائے معلوم کئے جن پر یہ قیامت گزری جن میں چند لوگوں کی رائے شامل کی جاتی ہے ۔
۱۔ محمدنور جوچھتر کے پہاڑی سلسلہ میں رہائش پذیر تھا۔ان دھماکوں کے بعد وہ ''ریکو ''نوشکی ہجرت کرگیا۔ان کا کہنا تھاکہ ''اُس وقت جب دھماکے ہوئے تو اس کی وجہ سے ہمارے علاقے میں جاری چشمے جو کہ صدیوں سے ہمارا ذریعہ معاش تھا، اس میں سیاہی مائل ذرات شامل تھے۔اس پانی کے پینے سے ہمارے لوگوں کے منہ سے خون کے قطرے رسنے لگے اور شدید الٹیاں ہونے لگی۔اسی وجہ سے ہم وہاں سے نقل مکانی کرنے پہ مجبور ہوگئے۔ ان کے علاوہ ان دھماکوں سے پہلے ہماری خواتین زچگی کے دوران کبھی ہسپتال نہیں گئے تھے کیونکہ انہیں اس دوران اتنی بڑی تکالیف کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا تھالیکن ان دھماکوں کے بعد حمل کے دوران بہت سی خواتین کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔''
۲۔عبدالقادر ’مالدین‘راسکوہ کا رہائشی ہے ۔ ان کے مطابق ''ان دھماکوں کے کچھ ہی عرصے بعد امراضِ چشم زیادہ ہونے لگی حالانکہ اس سے قبل علاقے کا کوئی مکین اس مرض میں مبتلا نہیں تھا۔ امراضِ چشم میں آنکھوں کے موتیوں کے علاوہ شب کوری کی بیماری بھی عام ہونے لگی اور آج تک ہمارے علاقے میں بہت سارے لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔''
۳۔۔اسماعیل بلوچ جو کہ خاران شہر کا رہائشی ہے ۔ان کاکہنا ہے کہ ''امراضِ چشم کی بیماری شدت اختیار کرگئی ۔آج بھی خاران کے آنکھوں کے ہسپتال میں ہزاروں کی تعداد میں مریضوں کا علاج ہوچکا ہے ۔ان امراض میںآنکھوں کی موتیاں قابلِ ذکر ہے۔ حالانکہ اس علاقے میں اس سے قبل ہمارے لوگ اس بیماری کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔''
۴۔کمال بلوچ کا تعلق خاران سے ہے اوربلوچ نیشنل موومنٹ کا ایک سرگرم کارکن ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ'' ان دنوں میں نو عمر تھا لیکن میں وہ واقعہ کبھی بھول نہیں سکتا جب میری دادی جو کہ اس وقت ۵۰ سال کی ہوگی اچا نک آنکھوں کی مرض میں مبتلا ہوگئی جس کی وجہ سے اس کی آنکھوں کی بینائی شدید متاثر ہوئی۔''
۵۔ راسکوہ کا ایک رہائشی علی جان سیاہ پاد کا کہنا ہے کہ'' ایٹمی دھماکوں کے بعد انسانی امراض نے تو علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارئے کجھور کے باغات بھی خشک ہونا شروع ہوئے اور آنے والے دو سالوں میں وہ فقط درختوں کی خشک ٹہنیاں ہی ہماری میراث بن گئیں۔''
۶۔اس بات کی گواہی آج بلوچستان کا ہر فرددیتا ہے کہ قحط اور تابکاری اثرات کی وجہ سے لوگوں کا سب سے بڑا ذریعہ معاش ما ل داری بری طرح متاثر ہوئی ہے۔اس زمانے میں لوگوں نے مال مویشیوں کو کوڑیوں کے دام فروخت کرنا شروع کیا جہاں5000 سے6000 روپے والے جانور کی قیمت100 سے200 روپے تھی۔
۷۔ ابراہیم جو کہ چاغی کا رہائشی ہے ۔کہہ رہاتھا کہ'' آج بھی اگر چاغی ،خاران اورخاص کرراسکوہ کا دورہ کیا جائے تو وہاں ان معذوروں کی کمی نہیں جو ان دھماکوں کے بعد پیدا ہوگئے تھے۔''
۸۔۔ چاغی کا ایک رہائشی سلام بلوچ کہتا ہے کہ'' ان دھماکوں کی وجہ سے بہت سارے انسانی امراض کے ساتھ ہمارے علاقے کے چشمے بھی خشک ہوگئے تھے جس کی وجہ سے چاغی اور اس کے گرد و نواح سے ایک بڑی آبادی مہاجرت کرنے پہ مجبور ہوا۔اس کے علاوہ آج بھی وہ علاقہ بری طرح متاثر ہے جہاں پانی کی سطح جو کہ ان دونوں ۱۵ سے ۲۰ فٹ تھا آج ۱۰۰ فٹ سے زیادہ نیچے چلا گیا ہے اور تابکاری ہی کی وجہ سے فصل کی مقدار بھی گھٹ گئی ہے۔''سلام بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ آج تک ہم تابکاری کے اثرات کا بری طرح شکار ہیں جہاں گزشتہ تین مہینوں میں چاغی کے رہائشیوں کے ۵۵۰ سے زائد'' اپینڈکس '' کے آپریشن کوئٹہ میں ہوئے ہیں ''
۹۔ظفر بلو چ نال سے تعلق رکھتے ہیں اورسیاسی ورکرہیں نے اس حوالے سے کہا کہ''قحط کے دنوں میں خاران سے بہت سارے خاندان ہمارے علاقے کی جانب بھی ہجرت کرچکے تھے۔ ایک دن میں نال ندی کے دوسری جانب چلاگیا تو وہاں دیکھتا ہوں کہ بہت سارے جانوروں کے دھانچے جن میں اونٹ اور بھیڑ بکریاں شامل تھے بکھرے پڑے تھے۔ میں نے وہاں کے ایک بزرگ سے اس حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد جو یہ قحط آئی ہے یہ اسی کی دین ہے۔''
یہ تو فقط چند لوگوں کی رائے ہے۔
اگر بین الاقوامی ادارے اپنا فرض جان کراس انسانی مسئلے پر توجہ دیں تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی تابکاری کے اثرات نے بلوچ قوم کو کسی بھی ایٹمی حادثے یا تجربے سے بہت زیادہ زیادہ متاثر کیاہے ،حالانکہ جہاں بھی ایٹمی دھماکہ کیاگیاہے یا ایٹمی حادثہ ہوا ہے تو وہاں تابکاری کے اثرات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے گئے لیکن بلوچستان میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں پاکستان نے اس جانب کوئی مثبت قدم اٹھایا ہو۔ بلوچستان پر پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کے ذریعے صورِاسرافیل پھونک دیا اور نعرہ تکبیر بلند کیا۔یہ رپورٹ مرتب کرتے وقت مجھے ایک عالم دین کے وہ الفاظ یاد آئیں جب انہوں نے جمعہ کی نماز کے دوران اپنی خطبے میں فرمایاتھا، ''یہ نعرہ ہی اس بات کی نشاندہی کے لیے کافی ہے کہ بلوچستان کو قربانی کا جانور سمجھ کر تکبیر دے دیا گیا'' یہ مشہور بلوچ عالم دین مولانا عبدالعزیز صاحب کے الفاظ ہیں جو ان دنوں کوئٹہ کے علاقے ایریگیشن کالونی کے جامعہ مسجد میں پیش امام تھے۔

https://dailysangar.com/home/page/11179.html

воскресенье, 27 мая 2018 г.

28 مئی کا دن بلوچ قومی غلامی کا بدترین دن ہے۔ چیئرمین خلیل بلوچ


بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ 28مئی کا دن بلوچ قومی غلامی کا بدترین دن ہے۔ اس دن قابض پاکستان نے بلوچستان میں ایٹمی دھماکے کرکے بلوچ قوم کے لئے مصیبتوں کے نئے سلسلے کاآغازکیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکے لئے بلوچ سرزمین کا انتخاب کرکے بلوچ دشمنی اورنوآبادیاتی ذہنیت کا واضح ثبوت پیش کیا ۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ہے پاکستان جیسے دہشت گردملک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی اس خطے سمیت پوری دنیاکے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ لیبیا، ایران اور شمالی کوریا کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی اور جوہری توانائی بارے میں کشمکش کی بنیادی وجہ پاکستان ہے۔ پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کو بلیک مارکیٹ میں پیش کرکے پوری دنیا کو بارود کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ اس بارود کو اڑانے کی کنجی مذہبی دہشت گردوں دسترس سے دور نہیں کیونکہ خود پاکستان مذہب کو ہتھیار کے طور استعمال کرکے اپنی فوج کی تربیت مذہبی بنیادوں پر کر چکی ہے۔ اس وقت پاکستان دہشت گردوں کی نرسری اور محفوظ جنت ہے۔ پاکستانی ریاست اور فوج نے باقاعدہ فوج کے متوازی دہشت گردی کے مراکز قائم کر رکھے ہیں، جن کے ذریعے پوری دنیامیں دہشت گردی پھیلائی جاتی ہے۔ اس بات کے قوی امکان ہیں کہ پاکستان کے دہشت گرد فوج اور پراکسی تنظیموں کی ملی بھگت سے دنیا بڑی تباہی سے دوچار ہوسکتاہے ۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہاکہ بلوچستان میں ایٹمی دھماکے ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کو اس سرزمین کے صرف جغرافیہ ،وسائل اور تزویراتی اہمیت درکار ہیں۔ اس میں بسنے والے لوگوں پر ایٹمی دھماکوں سے کس طرح قہر ناز ل ہوئی، یہ قابض کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ بلوچستان میں ایٹمی دھماکو ں کے بعدتابکاری اثرات نے تباہی مچائی ہے۔اس سے نہ صرف علاقے کی ایک بڑی آبادی کو بیدخل کرکے انہیں اپنے آبائی سرزمین سے محروم کیاگیا بلکہ بڑی شہری اور دیہی آبادیوں کے درمیانی علاقوں میں دھماکہ کرکے انسانی زندگیوں پرخوفناک اثرات مرتب کئے گئے ۔
انہوں نے کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکوں اور ان کے تابکاری کے اثرات نے بلوچ قوم پر مصیبتوں کے پہاڑگرائے ۔ایٹمی دھماکوں اور تابکاری سے پورے علاقے کے لوگ ،ماحول اور زراعت و مالدداری معیشت تباہ ہوگیا۔ لوگ نان شبینہ کا محتاج بن گئے ہیں۔ دھماکوں کے بعد تابکاری سے پید اہونے والی بیماریوں نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ کینسر ،خاص کر جلد کا کینسر،آنکھوں کی بیماریاں سمیت زچگی میں پیچیدگیاں اورپیدائشی معذوربچوں کی شرح میں ہوش ربا اضافہ ہوچکاہے ۔اس کے ساتھ ہی ان دھماکوں سے نہ صرف انسان متاثر ہوئے بلکہ جنگلی حیات اور چراہ گاہیں تباہ ہوگئی ہیں۔ علاقے میں پانی کے چشمے سوکھ گئے ہیں اور تاریخ کے بدترین قحط سالی نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا لیکن اب تک اقوام متحدہ سمیت کسی بھی عالمی ادارے نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دیوالیہ پن کا شکار ریاست ہے جس کی معیشت بلوچ قومی وسائل کے بل بوتے پر چل رہاہے ۔گیس سے لے کر دیگر معدنی وسائل ہی پاکستانی معیشت کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی بلوچ قومی وسائل کے مرہون منت ہے ۔یورینیم بلوچ سرزمین سے نکال کر ان سے پاکستان ان کی افزودگی ایٹمی توانائی اور ایٹم بم بنارہا ہے لیکن سرزمین کے باشندے آج بھی پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں اقوام متحدہ سمیت ذمہ دارعالمی اداروں سے اپیل کرتاہوں کہ علاقے میں پڑنے والے اثرات کی جانچ کے لئے معائنہ کار ٹیم بھیج دیں اور پاکستان کے جرائم کے تاریخ کو مدنظر رکھ کر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو بین الاقوامی ایٹمی کمیشن کے تحویل میں دینے کے لئے کوششوں کا آغاز کرے ۔

یوم آسروخ _ مرید بلوچ 

تحریر:مرید بلوچ
28 مئی کا دن جسے بلوچ قوم یوم آسروخ کے نام سے یاد کرتی ہے، جس دن ناپاک پنجابی فوج نے اپنے ہمسائے ملک کے خوف سے ایک بار پھر بلوچ سر زمین کو اپنے ناپاک عزائم کیلئے استعمال کیا اور بلوچ نسل کشی کی پالیسیوں کو ایک نیا رخ دیا۔ 28 مئی 1998 جب کوئٹہ سمیت مختلف علاقوں سے ناپاک فوجی قافلے چاغی پہنچے، جن میں اکثر کو اس بات کا علم نا تھا کہ ان کے وہاں ہونے کا مقصد معمول کا مشق نہیں بلکہ بلوچ سر زمین کے سینے اور بلوچ کے مستقبل کو جلانے کی غرض سے ہمیشہ کے لیئے آگ کے گولے نصب کرنا تھا۔
بلوچ کی تاریخ میں سیاہ حیثیت رکھنے والے اس دن یعنی 28 تاریخ کی اس دوپہر کا سیاہ ترین لمحہ 3 بج کر 15 منٹ جب ایک زوردار دھماکہ ہوا، جسکا مطلب تھا کہ ریاست پاکستان اپنی شیطانیت میں کامیاب ہو چکا تھا اور اسی وقت دہشت زدہ چاغی کے بلوچ عوام اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ زور دار دھماکے کی آواز، آسمان پر اڑتا غبار، ریتیلا طوفان اور زمین پر جھٹکوں کی شدت ہی انکی قسمت میں نہیں بلکہ اور بہت کچھ یہ ناپاک ریاست انکے نام کر چکا ہے، جسکے اثرات عنقریب دکھنے کو مل جائیں گے۔
ریاست پاکستان، جس کیلئے بلوچ ہمیشہ سے ناقابل قبول رہا ہے، جس نے بلوچ پر ظلم ڈہانے اور بلوچ نسل کشی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نا دیا ہے، نے ظلم کی انتہا کو ظاہر کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کیلئے پنجاب سندھ اور پشتون زمینوں کو چھوڑ کر بلوچ سر زمین کا فیصلہ کیا، جو اس ریاست کا بلوچ پر غصے اور نفرت کا کھلم کھلا اظہار تھا۔ 28 مئی کے دن جب پاکستان خوشیاں منا کر یوم تکبیر مناتی ہے، بلوچ اس دن کو یوم سیاہ قرار دے کر یوم آسروخ مناتے ہیں۔
ایٹمی دھماکے جسکے اثرات سے دنیا ناگا ساکی و ہیروشیما کی حالت کو دیکھ کر واقف ہے۔ راسکوہ کے سائے تلے رہنے والے بھی ویسے ہی حالت سے دوچار ہوئے ہیں، جس حالت سے ہیروشیما و ناگا ساکی کے رہنے والے گذرے۔ یہاں پیدا ہونے ولے بچے تک کی قسمت میں معزوری لکھی گئی۔ کسی کا ہاتھ نہیں تو کسی کا کان، تو کسی کی آںکھ اور کچھ مردہ پیدا ہوئے۔ یہاں کا درجہ حرارت کچھ ہی وقت میں آسمان کو چھو گئی۔ بارشیں بند ہو گئے۔ زمین کی زرخیزی ختم ہو گئی، سر سبزعلاقے سوکھ گئے، مال مویشی بیمار ہونا، مرنا شروع ہوئے اور جب کچھ سالوں بعد ہلکی پھلکی بارشیں ہونا شروع ہوئیں، تو وہ بارشیں پانی کے بجائے زھریلی بارشیں تھیں۔ ہوا میں موجود زھریلے ذرات کی وجہ سے مختلف خطرناک قسم کی بیماریاں چاغی باسیوں کے حصے میں آئیں۔ آج بلوچستان میں معزور بچوں کا پیدا ہونا، انہی زہریلی گیسوں کے اثرات ہیں اور کینسر کی شرح میں جو اضافہ ہوا، وہ بھی کوئی قدرتی نہیں بلکہ انہی ایٹمی تابکاریوں کی وجہ سے ہے۔
ایک طرف پاکستان جس کے بقا کیلئے سر زمین بلوچستان ضروری ہے اور ایک طرف بلوچ قوم جن کیلئے بلوچ سر زمین ماں کی حیثیت رکھتی ہے، اس ناپاک قوم کیلئے بلوچ اپنی ماں کے ساتھ سودہ بازی کو ہر گز تیار نہیں۔ چاغی جہاں کی سر زمین کی معدنیات کو چرا کر پاکستان لا تعداد مال کما چکا ہے اور چاغی کے سینے کو چیر چیر کر زمین کی تہہ تک کی معدنی وسائل لوٹ چکا ہے، نے بلوچ مزاحمت کا جواب بھی اسی ایٹمی دھماکے سے دیا اور دنیا آنکھیں بند کر کے بلوچ پر ڈھائے اس ظلم کو دیکھتی رہی اور کچھ بے وقوف اس شیطان بمب کو جو دنیا کے لیئے خطرہ ہے، اسلامی بمب سمجھ کر تالیاں بجاتے رہے جن کا خمیازہ مستقبل میں انہیں بھی بھگتنا پڑیگا۔
بلوچ ہر سال کی طرح اس سال بھی 28 مئی کو یوم آسروخ کے طور پر منا کر بلوچ سر زمین پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے اور بلوچ قومی حقوق قومی آجوئی کا نعرہ بلند کرینگے، جس مقصد کیلئے مختلف ممالک میں احتجاجی مظاہرے،ریلیاں اور سیمینارز کا انعقاد کیئے جائینگے اور چونکہ بلوچ کے پاس ایسا کوئی میڈیا نہیں جسکی مدد سے بلوچ اپنی آواز دنیا تک پہنچائیں اس لئے تمام بلوچ آزادی پسند سیاسی تنظیمیں 28 مئی کو سوشل میڈیا میں #NoToPakistaniNukes کے ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے متحدہ کمپین چلائینگے۔ 
https://thebalochistanpost.com/

четверг, 24 мая 2018 г.

آو! بی این ایم کے چھتری تلے ایک ہوجائیں – قاضی بلوچ

قاضی بلوچ
بلوچ سرزمین پر جبری قبضے کے ردعمل میں جب بلوچ جہد آزادی کا آغاز کیا گیا تھا، تو کافی نشیب و فراز آتے رہے۔ کبھی کوئی تھک جاتا، تو کوئی ڈر جاتا، کچھ لوگ بہکاوے میں آجاتے، تو کوئی چند مراعات اور پیسوں کی عوض خود کو اور اپنےضمیر کا سودا کردیتا۔ موجودہ جاری تحریک جو گذشتہ سترہ سالوں سے رواں دواں ہے، اس میں بھی ڈر، لالچ، تھکاوٹ، بہکاوے میں آنا یا پیسوں کی خاطر اپنی ضمیر کا سودا جیسے تمام جہتیں جاری و ساری ہیں۔ لیکن بلوچ قومی آزادی کے سیاسی جہدکاروں اور سرمچاروں کی بے پناہ قربانیوں، ہزاروں بلوچ نوجوانوں، بزرگوں، ماؤں، بہنوں اور بچوں کی پاکستانی ریاست اور اسکے پالے ہوئے ڈیتھ سکواڈز کے ہاتھوں شہادت اور ہزاروں کی تعداد میں زندانوں میں قید بلوچوں کی اپنی مادر وطن کیلئے اذیت سہنا اور ہمارے قائدین اور جہدکار ساتھیوں کی شب و روز محنت کے بدولت آزادی کی تحریک دن بہ دن مضبوط ہوتی جارہی ہے اور انشااللہ ہم اپنی منزل آزاد بلوچ سرزمین کو ضرور حاصل کرینگے۔
کچھ روز قبل ایک دوست محمد عمر بلوچ کا بیان نظروں سے گذرا جس میں لکھی کافی باتوں سے ایک حد تک میں بھی متفق ہوں، جب موجودہ تحریک کی بنیاد رکھی گئی تو اس میں شہید واجہ غلام محمد اور انکے ساتھیوں کا بہت بڑا کردار تھا، انہوں نے شب و روز محنت کرکے بلوچ قوم کو ایک پلیٹ فارم پر یکجاہ کیا۔
بلوچ قوم پر اس تحریک آزادی کی اہمیت کو اجاگر کرنے سمیت اور بی این ایم کے موقف کی پرچار جس کے مطابق” اس تحریک کی بنیاد بلوچ عوام نے رکھی ہے اور بلوچ قوم ہی اسے اپنے منزل مقصود بلوچستان کی آزادی تک پہنچائے گی۔ شہید واجہ غلام محمد اور بی این ایم کے جہدکاروں نے بلوچ تحریک آزادی اور بلوچ مادر وطن کی آواز کو ہر بلوچ گھر، گاؤں، محلے، گلی کوچوں اور شہروں تک پہنچایا۔ اس تمام صورتحال کو دیکھ کر ریاست اور اسکے آلہ کار نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک، حاصل بزنجو اور انکے حواریوں نے بی این ایم اور چیئرمین شہید غلام محمد پر طرح طرح کے الزامات لگاکر کافی پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اپنے صفوں سے لوگ بی این ایم میں شامل کیئے لیکن بلوچ قوم انکی اصلیت سے آشنا ہوچکی تھی، اسی لیئے انکے تمام حربے اور سارے چال بری طرح سے ناکام ہوئے۔ پھر شہید چیرمین کو کراچی سے اغواء کیا گیا۔ لیکن بی این ایم کے ایماندار کارکنان نے اس کاروان کو روک نہیں سکے۔ شہید لالا منیر، شہید رسول بخش مینگل، شہید ڈاکٹر منان ، عصاءظفر اسیر رہنماء ڈاکٹر دین محمد اور اسی دوران سنگت خلیل بلوچ بھی بی ایس او سے فارغ ہوکر اپنے دوستوں کے ہمراہ بی این ایم کے پلیٹ فارم کا حصہ بن گئے، جس سے بی این ایم اور بھی مضبوط اور توانا ہوگیا۔ نو ماہ اسیری کے بعد جب شہید واجہ ریاستی اذیت گاہوں سے بازیاب ہوئے اور بی این ایم کے کامیاب کونسل سیشن کے بعد ریاست اور اسکے دلال نیشنل پارٹی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور انہوں نے پھر سے شہید واجہ کو شہید لالا منیر اور شہید شیر محمد کے ہمراہ تربت سے اغواء کرکے شہید کردیا۔
واجہ غلام محمد کی شہادت کے بعد لوگ جوق درجوق بی این ایم میں شامل ہونے لگے، جس سے ریاست اور اس کے زرخرید ڈاکٹر مالک اور حاصل بزنجو کی نیندیں حرام ہوگئیں اور انہوں نے بی این ایم میں پھوٹ ڈالنے کی خاطر اپنے کارندوں کے ذریعے قائدین کیخلاف پروپیگنڈہ مہم کا آغاز کیا۔ جس سے دوستوں کے درمیان بدگمانی پیدا ہونے لگی اور ایک ایسا ماحول بن گیا کہ دوست ایک دوسرے کی باتیں سننے کو تیار نہیں تھے اور جلتی میں تیل چھڑکنے کا کام ان لوگوں نے کیا، جو آج سرنڈر کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ عصاءظفر نے اسی وقت تحریک سے دستبرداری اختیار کرلی تھی اور کچھ دوستوں نے بی این ایم شہید غلام محمد کے نام سے خود کو الگ کرکے ایک تنظیم بنالی۔ یہ وہ دوست تھے، جو شہید چیئرمین سے کافی نزدیک اور قابل اعتماد ساتھیوں میں سے تھے۔ انہیں شہید غلام محمد سے عقیدت تھی لیکن ان میں کچھ دوستوں میں سیاسی ناپختگی تھی، جس کا فائدہ اٹھاکر کر چھوٹے اور حل شدہ مسئلوں کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ بی این ایم کو ایک مخصوص لابی بی این ایم کو آزادی کی جہد سے الگ کرکے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بد گمانیاں اور غلط فہمیاں دونوں ہی طرف سے دوستوں کے درمیان تھیں لیکن آج وقت نے یہ ثابت کردیا کہ یہ تمام غلط فہمیاں پروپیگنڈے اور سیاسی ناپختگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات تھے۔
جن دوستوں کیخلاف پروپیگنڈوں کا محاذ کھولا گیا تھا انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے بی این ایم اور بلوچ قومی تحریک کی اپنے خون سے آبیاری کی اور جن دوستوں کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کی گئی ان تمام ساتھیوں کی دن رات محنت کے بدولت بی این ایم بلوچ جہد آزادی میں پہلے سے زیادہ سرگرم ہے۔ دوسری جانب بی این ایم ایس جی ایم سے منسلک دوستوں نے بھی اپنی بساط کے مطابق شہید قائد کی مشن کو آگے لیجانے کی کوشش کی، جس میں کافی دشواریاں اور سختیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا، جیسے کہ سفارتکاری اور میڈیا میں موجودگی سمیت دیگر مشکلات۔ موجودہ دور میں منظم سیاسی سفارتکاری اور مظبوط میڈیا کا ہونا لازمی امر ہے۔ پھر چاہے وہ میڈیا سوشل میڈیا کی شکل میں کیوں نہ ہو۔ اگر ہم شروعاتی مراحل میں ہی ضد اور انا سے بڑھ کر سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے تو شاید یہ مسائل جنم ہی نا لیتے اور پھر ہمارے درمیان دوریاں، غلط فہمیاں، بدگمانیاں پیدا ہی نہ ہوتے۔ آج میں اپنے تمام ساتھیوں سے یہ گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے ماضی کی غلطیوں اور تلخیوں کو بھلاکر پھر سے یک مشت ہوکر اپنے مشن کو جاری رکھنا ہوگا۔
ہمیں اپنے گھر بی این ایم کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرنا ہوگا، جس کی بنیادوں میں ہمارے قائدین اور ساتھیوں کا خون شامل ہے۔ ہمیں بی این ایم جیسے ادارے کہ جس کاروان کا امیر ہمارے ہردل عزیز چیرمین شہید غلام محمد تھے، اس میں شامل ہوکر اس کاروان کو منزل تک پہنچانے کی خاطر مشترکہ جدوجہد کرنا چاہیئے۔ جیسا کہ شہید واجہ نے دشمن ریاست کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ “ ہم آزاد بلوچ سرزمین کے مالک ضرور بنیں گے”۔ ہم بی این ایم کے چیئرمین سنگت خلیل بلوچ سے اور بی این ایم کے تمام جہدکاروں سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے بچھڑے ہوئے دوستوں کو صفوں میں واپس لے کر آئیں ۔ غلطیاں تمامتر انسانوں سے سرزد ہوتی ہیں اور وہ غلطیاں انسان کو سکھانے کا کام کرتی ہیں، آج مجھ سمیت کثیر تعداد میں دوستوں کو اس بات کا اندازہ ہوا ہے، ہم سے جو غلطی ہوئی تھی، اس کا اثر اجتماعی طور پر بلوچ تحریک اور ہمارے اداروں پر مرتب ہوا تھا اور ان غلطیوں سے ہمیں سبق بھی مل چکا ہے کہ اپنا گھر ہی اپنا ہوتا ہے اور بی این ایم سیاسی حوالے سے ہمارا گھر ہے، جس کی مضبوطی کی لیئے ہمارے دوستوں نے اپنا خون بہایا ہے، ٹارچر سیلوں میں اذیت سہہ رہے ہیں۔ ہمیں بھی ان شہیدوں اور اسیران کے مشن کا حصہ دار بنائیں جسکی سربراہی آپ کررہے ہیں۔