Powered By Blogger

вторник, 29 мая 2018 г.


شھید سنگر یار جاوید جان
تحریر دلجان بلوچ
2010 ایک انجانا سا چہرہ معلوم نہیں سنگت امیر جان نے کہاں سے ڈھونڈ کے لایا تھا وہ کہتے ہیں نا سونے کی پہچان سونار کو ہوتی ہیں بدن پر کالے کپڑے کاندھے پر سندھی اجرک بھورے بال چوٹی آنکھیں لمبی ناک ابھی لڑک پن سے جوانی میں قدم رکھا ہوگا اور ابھی ہی اپنے قڈ کاٹ سے بڑی زمہ داری لے کر مادر وطن کہ آجوہی کی راہ میں نکل پڑا
ٹریننگ شروع کی تو
اس دوران سب میں گھل مل گیا ابھی ایک ہفتہ مشکل سے گزرا ہوگا کے ہر محفل میں ہنستے ہنساتے شیخ ( جاوید) سنگت نظر آتا بہت کم لوگوں میں یہ خوبی ہوتی ھیں کے کم وقت میں اپنے ارد گرد کے ماحول کو سمجھ کر اس میں ڈھل جاتے ہیں اور اپ سوچتے رہتے ھیں کے یہ انسان کہی سالوں سے ہمارے درمیان موجود ہیں
شیخ بھی انہیں لوگو میں سے تھا جو بہت کم وقت میں سب کے ساتھ گھل مل گیا اور کام پر لگ گیا. ٹرننگ کہ دوران ہی یہاں رہنے اٹھنے بیٹھنے و کام کا ہنر سیکھ لیا تھا
ٹرننگ مکمل کرنے کہ بعد
خضدار میں اپنے زمہداریاں نبھانے میں لگ گیا. ہر وقت دوستوں کہ شانہ بشانہ کھڑا رہا ہر کام میں خود کا حصہ ڈالتا رہا مشکل مصیبت گھٹن وقت میں بھی اپنے مشن کو مکمل کرنے کہ تاق میں لگا رہتا. جس طرح دشمن نے اپنے چال بدلے تھے ان کہ پیچ رئے کر شیخ و اسکے سنگت اپنے حکمت عملی کو مضبوط بنا کر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے .
وقت گزرتا گیا. مشکلیں بڑتی گئی پھر وہ دن آ پہنچا جب شیخ کو شہر چھوڑ کر پہاڑوں کا رخ کرنا پڑا. شہید سنگت امیر کہ ایک بلانے پر شیخ نے دوستوں کہ فیصلے کو بھی قبول کرکے سخت دشوار پہاڑوں کی طرف چل پڑا.
بعد میں آیا دیکھا سوچا سمجھا سب کام کرکے بہت آگے کے صفوں میں نظر انے لگا ہر کام میں پیش پیش رہنے والا کبھی نہ تک نہیں کیا
شیخ گشت پے جانا ھیں
شیخ موٹرسائکلوں کو بنانا ھیں
شیخ دوست کو لانا لیجانا ھیں
شیخ قلات میں کام کی ضرورت ھیں
شیخ حب چوکی کو تیری ضرورت ھیں
شیخ سوراب بھی آپ کو جانا ھیں
ہر وقت تیار رہتا قلات کہ انجان شہر میں خود جاکر کمان سنبھالنا دوستوں کو سنبھالنا کام کرنا راتوں کو سفر کرکہ سامان لیجانا. ہر موقع پر دوستوں سے مشورہ کرنا. یہاں کچھ وقت انتظار کرنا حکمت عملی کہ تحت کام روکنا ہوتا تو حب چلے گئے وہاں اپنے جہد کو جاری رکھا.
کبھی گھر جانے کی خواہش تک نہ کی کہ کہیں دشمن کہ نظر نہ آجاؤن بس سفر میں زندگی گزارتے رہے. تم نے زندگی ہی اسی سفر کو بنایا تھا تب ہی تو کبھی افسردہ نہیں دیکھے. کبھی شکایت نہیں کی بس شرارت کرتے مسکراتے مزاق کرتے دوستوں کہ دیوان میں دیکھ تے رئے.
تم بنا کچھ کہہ بنا کسی عضر کے ہر کام میں مگن رئے کبھی تو انکار کرتے کبھی تو کہتے تھک گیا ھو کھبی تو کہتے کے مجھ سے نہیں ھو سکتا تو آج تمھارے جانے کا اتنا دکھ نہیں ھوتا یہ سوچتا کہ دوست تھا کچھ کام کیا کچھ نہیں.
آیا اور چلا گیا مگر تم میں ایسی ایک بھی کمزوری نہیں کے میں اپنے آپ کو تسلی دے سکوں کم سے کم کسی جنگی معاز پر جانے کے لیے تم اپنے ایک دو قدم پیچھے اوٹھاتے کے مجھے جانا نہیں چائے وہ بھی تم نے نہیں کیا.
ھژدھ خول ہو یا منجورو لیجے ہو یا سنگر کی زمداریاں قلات کی سرد راتیں ہو یا
حب کی جھلسا دینے والی گرمی 7 اپریل کی ہیلی بور خونی اپریشن ہو یا 16 فروی کے اپریشن کبھی کسی موقع پر تم زرا بھی پیچھے نہیں ہٹے پھر آج کیو تمہارے جانے پر نہ رو دو آج تمہارے جانے پر کیوں قلات افسردہ نہ ہو آج تمہارے جدا ھونے پر چنال وال انسو کیوں نہ بھا دے اتنی جلدی جانا تھا پھر اتنی اچھا کیونکر بنے ہر ایک کو تمہارے جدائی کا غم سہنا پڑے
کچھ لمحے تو رک جاتے ابھی تو بہت کام تھا ابھی تو آئے تھے اجرک کاندھوں پر مسکرائے اور ابھی چل دئے اسے بیرک بناکے ابھی تو قلات تمہارے راہ تک رہا تھا ابھی تو حب میں دشمن طاقت کے گھمنڈ میں ہیں ابھی تو خضدار تمھارے واپسی کا منتظر ھیں.
شیخ ابھی تو نہیں جانا تھا ابھی تو عرفان چلا گیا تھا شعیب بھی ساتھ تھا خالد بھی چلا گیا.
شیخ تم زندہ ہوتے تو اور مشکلیں اٹھاتے اور سختیاں دیکھتے اس کم عمری میں تم ہار نہیں مانتے ہر لمحہ امتحان سے گرزرنے کا لمحہ ہوتا خواری کاٹ تے سفر میں پیاس برداشت کرتے سنگر پر رات رات پھرے دیتے
مگر تم نے خود کو ثابت کر ہی دیا تم کھڑے تھے سب کہ ساتھ کھڑے رئے ہر اول دستے میں اس آخری کالی رات تک جب درد کی اچھانک شدت اور علاج کی کمی نے آپ کو ہم سے جدا نہیں کیا.
تم ہر مشکل سے گزر کر وطن پر قربان ہو چلے جس راہ کا چناو تم نے جس ایمانداری سے کیا تھا اسکی گواہی تمارے عمل کا ہر پھلو بیان کر رہا ہیں کہ تم نے آخری سانس تک خود کو ثابت کرکہ تاریخ کہ اوراق میں ہمیشہ ہمیشہ امر ہوگئے.
شیخ تمہیں معلوم ہیں ابھی تو سورجائی کا تیرا سنگر
اداس ھیں اسے پتہ چلا ہیں کہ تم اس سے دور چلے گے ہو اب وہ اپنے قریب سے راہ گزرتے بہت سو کو دیکھے گا لیکن جس کے وجہ سے سورجائی کی اس چوٹی کو سنگر نام ملا اب وہ سنگر اپنے سنگر یار کو دیکھ نہیں سکھے گا.
اب اسے اگر دیکھنا ہیں اپنے سنگر یار کو تو وہ خود چلا آئے سنگر یار آج سنگت امیر کہ پہلو میں آسودہ خاک سو رہا ہیں. اسی پارود کے پہاڑوں میں جنہیں اس نے اپنے گھر کے بعد اپنا مسکن بنا رکھا تھا.
جن میں سختی سوری بھوک بیماری خواری ہنسی خوشی دکھ درد سب کچھ اپنے قوم کی خاطر برداشت کرکے انہیں اپنے سینے میں خود سمت پارود کہ پہاڑوں میں دفنا کر ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے گمنامی کہ زندگی سے سرخ روح ہوکر نکلا.
پہاڑوں کو بھی رشک آتا ہوگا ایسے جوانوں کو اپنے کوک میں پالتے ہوئے جو اپنے قد اپنے بساط سے بڑ کر درد اتنے چھوٹے سینے میں کیسے پال کر کبھی اُف تک نہیں کرتے. میرا سنگر یار میرا جاوید میرا شیخ اس عمر میں اتنے کم سمے میں کتنا کچھ کر گزرا کتنا کچھ بدل کر چلا گیا
جس کہ ساتھ آیا تھا اسی کہ پہلو میں ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے جا سو لی
ا.

Комментариев нет:

Отправить комментарий