Powered By Blogger

вторник, 29 мая 2018 г.


اٹھائیس مئی :جب چاغی ایٹم بم گرایا گیا۔۔۔۔
۔تحریر:محراب بلوچ  
اٹھائیس مئی کو پاکستان میں یومِ تشکر یا یومِ تکبیر مناتے ہیں، اس دن کو پاکستانی اپنی کامیابی سمجھ کر اس دن کو جشن مناتے ہیں۔ اس دن کو اہم ترین ایام میں سے ایک کے طور پر یاد کرتے ہیں کیونکہ پاکستان نے اسی دن ایٹمی آزمائش کرکے ساتویں ایٹمی قوت کا مالک ملک بن کر دنیا کے سامنے اُبھر آیااور دنیا کے نقشے میں ایک ایٹمی طاقت کے نام سے نمودار ہوا۔

اکثرپاکستانی اس بات پر اب تک افسردہ ہوکر افسوس کرتے ہیں کہ کاش 1971 میں ہم ایٹمی طاقت بن پاتے، تو ہمارے 90 ہزار فوجیوں کو سرنڈر کرنے کی نوبت نہیں آتی اور ہم اپنے ایٹمی طاقت کے ذریعے ہندوستان کو شکست دے سکتے۔
1974 کو بھارت ایٹمی تجربات کرکے ایک ایٹمی ملک بن گیاتھا یہ بات پاکستان پر ایک بم بن کرگرا کہ ہمارے دشمن نے ایٹمی ہتھیار بنانے کا سراغ لگاکر ایک ایٹمی طاقت بن گیا ہے۔پاکستانی سائنس دانوں نے تگ و کرنا شروع کیا تاکہ وہ بھی ایک ایٹمی طاقت کے نام سے اپنے ملک کی پہچان کرائیں، ویسے تو ایٹمی طاقت بننا ایٹمی طاقت کی خواہش رکھنا، ہمیشہ سامراجی ملکوں کی ایک ہوس رہی ہے۔
1973ء میں ذولفقارعلی بٹھو کی دورِ حکومت میں پاکستانی سائنسدانوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر کی سربراہی میں ایٹم بم بنانے کے تجربات شروع کئے ،اس زمانے میں ایٹمی ہتھیار بنانا، عالمی سطح پر عام نہ تھی، دوسری جنگِ عظیم میں سب سے پہلے امریکہ نے سنہ6اگست 1945 کو جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے، پہلا جاپانی شہر ہیروشیما پر گرایا گیا، جہاں ایک لاکھ چالیس ہزار آدم پر لقمہِ اجل بن گئے، دوسرا حملہ تین دن بعد یعنی 9اگست 1945 کو ناگاساکی میں کیا گیا، اس کے نتیجے میں 80 ہزار افراد لقمہِ اجل بن گئے اور بعد میں مرنے والوں کے تعداد تقریبا ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی۔ ایسے ایٹمی یعنی جوہری ہتھیاروں کے اثرات صدیوں تک رہتے ہیں۔ اب تک جاپانی دونوں متاثرہ شہروں میں اثرات باقی ہیں۔
اسی غیر انسانی عمل کے بارے میں ایک طرف لوگ کہتے ہیں کہ جوہری ہتھیاربنانااوراستعمال کرنا غیر انسانی عمل ہے تو دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ اس حملے کے نتیجے میں دنیا کے انسانوں کیلئے نیک شگون نتائج نکلے کیونکہ اس حملے کی بعد ہی جنگ عظیم رک گئی اور دنیا میں ایٹم بم وغیرہ کا استعمال بند ہوگیا دنیا میں اب جوہری ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے پر پابندی کے لئے بڑے پیمانے پر کوششیں جاری ہیں ۔
عالمی پابندیوں کے باجود پاکستاں نے ایٹمی ہتھیار بنائے، پھر 28 مئی 1998 کو بلوچستان کے ضلعِ چاغی میں راسکو کے پہاڑیوں میں کوہِ قمبر کے دامن میں پانچ ایٹمی دھماکے کرکے چاغی کی نازُک دلبند کو ساہ کردیا گیا۔ چاغی کی دلبند کو چاک کردیا گیا۔ آج تک وہاں سے نیم مردہ معزور اپاہج انسانیں پیدا ہوتے ہیں، جانور بھی معزور پیدا ہوتے ہیں، حتٰی کہ وہاں کے سر سبز جنگل بھی ویران ہورہے ہیں۔ وہاں کوئی گھاس پھوس تک نہیں اُگتا۔
ایٹمی طاقت کی جہاں آزمائش کی جاتی ہے، وہاں قدرتی نظام پر بھی درہم برہم ہوتا ہے، موسم میں ردوبدل آتا ہے گرمی، سردی، بارش ہوا وغیرہ بدل جاتے ہیں کیونکہ اب تگ چاغی میں بارش نہ ہونے کے برابر ہے، موسم زیادہ گرم و خشک رہنے لگا ہے۔ زیر زمین پانی کا سطح بہت نیچے چلاگیا ہے۔
چاغی کے لوگ سونا، چاندی، تانبہ، یورینیم، کرومائیٹ وغیرہ سے پہلے ہی کوئی استفادہ نہیں کرسکتے تھے، نا امید تھے۔ پھر بھی بارشوں سے اپنا کاروبارِ زندگی چلاتے اور معاش کا بندوبست کرتے تھے۔ اپنی مدد آپ کھیتی باڑی زمینداری کرتے تھے۔ دو پہروں کے کھانے کا بندوبست کرلیتے تھے۔ کوئی معذور کم از کم پیدا نہیں ہوتاہے ۔
بلوچستان کا امیر ضلع چاغی بہت سے معدنیات سے مالا مال ہے، سب معدنیات سے محروم وہاں کے باسی قدرتی جڑی بوٹیوں پر گذر بسر کرتے تھے، جب وہاں قدرتی بارش ہوتا، تو قدرتی جڑی بوٹی اُگتے تھے، مثلا ڑڑوک، مارموتک، گیشنچ، مورپوژو وغیرہ ان جڑی بوٹیوں کی بڑی مانگ تھی۔ بازاروں میں چاغی کے باسی قدرتی جڑی بوٹیوں کو آزادانہ طورپر فروخت کرتے تھے۔ چاغی کے معدنیات سے محروم لاچار امیروں کو جڑی بوٹیوں پر اختیار آسانی سے تھا۔ غریبوں کیلئے یہ بھی ایک زریعہ معاش سے کم نہیں تھا انہیں سے لوگ گذر بسر کرتے تھے۔ اب چاغی کے باسی اس نعمت سے بھی محروم ہوچکے ہیں ۔
ان انسانی سنگین مسائل کا ذمہ دار پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سردار اختر مینگل بھی ہے۔ اسی دوران بلوچستان کی وزیر اعلیٰ اختر مینگل تھے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نااہل نواز شریف تھے، ایٹمی تجربات کے بعد سردار اختر مینگل، نواز شریف کا گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے چاغی پہنچے۔ ہمیں افسوس ہے کہ چاغی کو اس حالت میں دیکھ کر سردار اختر مینگل نے یہ وعدہ کیا کہ چاغی کے متاثرہ علاقے کے لوگوں کو تاوان دیا جائیگا، جو آج پورا نہ ہوسکا۔
ان ایٹمی دھماکوں کی اثرات صرف چاغی ہی نہیں بلکہ نوشکی، خاران، پنجگور اور دوسرے بہت سے علاقوں تک پھیل چکی ہیں۔ آج تک معزور و اپاہج لوگ راغے، بیسمہ کے ساتھ ساتھ دوسرے علاقوں تک پیدا ہورہے ہیں۔ یہ اثرات بھی انہی ایٹمی دھماکوں کے ہیں ۔
چاغی کی فرزند چاغی کو دیکھ کر خون کی آنسو روتے ہیں، اس درد کا احساس پوری بلوچ قوم کو ہے۔ اس لئے اس دن کے مناسبت سے بلوچ عوام یومِ آسروک اور یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ چاغی کے باسی افسردگی سے پاکستانی حکمرانوں کو بد دعائیں دیتے ہیں ۔
اتنا درد نہیں ہوتا غیروں کی دشمنی سے لیکن دوستوں کا درد دل میں ہمیشہ ماتم کرتا رہتا ہے، پنجابی تو ازل سے بلوچ قوم کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ زیادہ درد سردار اختر مینگل کا ہوتا ہے، اختر مینگل چاغی کا بیٹا ہے، چاغی کا فرزند ہے۔ سردار اختر مینگل نے اپنی ماں کو زر و مال کی لالچ میں آکر سودا کیا، سردار اختر مینگل کو بلوچ تاریخ میں تاریخ دان و مورخ قومی مجرم ثابت کرکے لکھیں گے۔ سردار اختر مینگل کو بلوچ ایک مجرم کی حیثیت سے یاد کریں گے ۔
https://dailysangar.com/home/page/11182.html

Комментариев нет:

Отправить комментарий