Powered By Blogger

четверг, 24 мая 2018 г.


28مئی بلوچ گلزمین کیلئے تباہی کا پیام
تحریر: مزار بلوچ
قابض ریاست نے ہمیشہ اپنے فوجی طاقت کے غرور میں ہر دور میں بلوچ گلزمیں پر مظالم کے پہاڑ توڑے ہیں ۔ محکوم قوم پر غیر اخلاقی غیر مہذب اور غیر انسانی حربے استعمال کیئے جن کے آگے ہلاکو خان اور چنگیز خان کے مظالم بھی انتہائی معمولی نوعیت کے معلوم ہوتے ہیں۔ بچوں عورتوں بوڑھوں تک کو بھی نہیں بخشا گیا۔ نوجوانوں کے لاشوں کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ریاست اپنے خونی پیاس کی تسکین کرتا رہا۔ جن کو دیکھ کر ہلاکو و چنگیز کی روحیں بھی تڑپتے ہونگے ۔ پاکستان کی جانب سے عام بلوچ کے مال مویشیوں کو زندہ جلایا گیا۔ بلوچستان کے ہر کونے میں خون کی ندیاں بہاہی گئی۔ لیکن دوسری طرف غیرت مند بلوچوں نے ریاست کے ان تمام مظالم کو سہتے ہوئے انکا جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا اپنے جان مال اولاد گھربار سب اپنے سرزمین کی آذادی کی خاطر قربان کیے۔ ان قربانیوں کی وجہ سے قابض ریاستی درندے اور زیادہ بپھر گئے اور بلوچوں کے خلاف روز نئے مظالم منظر عام پر آنے لگے۔ اسکے علاوہ قابض نے ایک انتہائی خطرناک اور خاموش قاتل ایٹمی دھماکہ بلوچ سرزمین پر آزمائے ۔ اپنے اس منافقانہ اور شیطانی عمل کو پورا کرنے کیلئے قابض ریاست پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیلئے پنجاب کی سرزمین کو چھوڑ کر 28 مئی 1998 کو بلوچ سرزمین کے عین وسط میں چاغی کے پہاڑی علاقے راسکوہ میں سات ایٹمی دھماکے کرکے بلوچ قوم کے دائمی بربادی کا اعلان کیا ۔ اور اپنے اس شیطانی عمل کو چھپانے اور دیگر نامنہاد مسلم ممالک اور سادہ لو بلوچوں کو دھوکہ دینے کیلئے ان ایٹمی ہتھیاروں کو اسلامی بم اور 28 مئی کو یوم تکبیر کا نام دیکر مسلم دنیا کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔
22 مئی تا 28 مئی 1998 راسکوہ اور گرد و نواح کے بلوچ دن بھر کے محنت مزدوری کے بعد اپنے گھروں میں سو رہے تھے کہ آدھی رات کو قابض ریاستی فوج نے گاؤں کو اپنے محاصرے میں لے لیا۔ اور اعلان کیا جو بھی گاؤں سے باہر نکلے گا اسے گولی مار دی جائیگی۔ محکوم و غیر مسلح بلوچ حیرانی و پریشانی کے عالم میں اپنے گھروں میں سرچھپا کے رکھے ۔ تین دن تک اس علاقے میں محاصرے اور گھر گھر تلاشی کے بعد 25 اور 26 مئی کے دن تمام بلوچ مرد عورتوں اور بچوں کو راسکوہ کے دامان میں خاردار تاروں کا بھاڑ لگا کر تمام بلوچوں کو اس میں قید کر دیا گیا ۔ معمولی سی باتوں پر لاٹھی چارج اور بچوں کو زد و کوب کیا گیا۔ حیران و پریشان فوجی پہرے میں مقید بلوچوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھاکہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ 27 مئی کو باڑھ تنگ کرکے پانی کی فراہمی بند کر دی گئی۔ بھوک اور پیاس سے بلکتے بچے پاکستانی درندہ صفت فوج کے رحم و کرم پر تھے ۔بالآخر 28 مئی کا وہ قیامت خیز گھڑی آ پہنچا ظہر اور عصر کے درمیانی وقت اچانک باڑھ میں قید بلوچوں کو لگا شاید کوئی زلزلہ آگیا ہو ہر طرف دھند گرد و غبار پھیل گیا راسکوہ کا عظیم الشان پہاڑ میں زلزلہ برپا کیا گیا۔ کچھ دیر تک لرزنے کے بعد اس کے سیاہ رنگ سے مضبوط چٹان ٹوٹ پھوٹ کر سفیدی و زرد مائل رنگ اختیار کر گئے۔ راسکوہ کے کبوتر، مارخور، چکور درخت اور چشمے ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئے ہر طرف موت کا سناٹا چھا گیا۔ کھڑے درخت اور فصل راکھ میں تبدیل ہو گئے۔ لیکن دوسری طرف کھڑے قابض پاکستانی فوجی درندے بلوچوں کی اس بربادی پر ناچتے گاتے ایک دوسرے کو مٹھائی بانٹتے رہے ۔ قابض پاکستان کی جانب سے ہر شہر میں بلوچوں کی اس تبائی پر جشن منایا گیا۔ اگلے دن بلوچوں کو ڈرانے دھمکانے کے بعد انہیں انکے گھروں کو جانے دیا گیا۔ گھروں میں موجود تمام قیمتی اشیاء مال مویشیوں کو ریاستی فوج لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ بلوچ اپنے ماندہ جانور تلاش کرنے لگے جو پہاڑوں میں چرنے کیلئے گئے تھے لیکن وہاں انہوں نے دیکھا کہ سارے جانور مر چکے ہیں درخت راکھ بن چکے ہیں۔ چشمے سوکھ گئے ہیں کچھ مویشی ایٹمی تابکاری کی وجہ سے تڑپ رہے تھے۔ انکے منہ سے خون اور جھاگ بہہ رہا تھا۔ جب بلوچ وہاں سے مایوس ہوکر گھروں کو لوٹے تو دیکھا شیر خوار بچے اور بوڑھے دست اور الٹیاں کر رہے ہیں۔ وہ نہ کوہی چیز کھا سکتے ہیں اور نہ ہی پورا پانی پی سکتے ہیں۔ علاج محالجے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے کچھ افراد نے شہر جانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس نئی آفت سے نمٹا جا سکے۔ لیکن علاقہ مکینوں کو فورسز کی جانب سے علاقے نہ چھوڑنے کی دھمکی دی گئی۔ لیکن بلوچ شہر جانے کیلئے بضد رہے تو قابض فورسز کے ایک افسر نے ان سے کہا کہ اگر وہ واپس اپنے گاؤں نہیں گئے تو انہیں بھارتی ایجنٹ کہ کر گولی مار دی جائیگی۔ لاچار اور بے بس بلوچ مجبور ہوکر اپنے گھروں کو چلے گئے وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ تین بچوں کی موت واقع ہو چکی ہے۔ مقامی بلوچ اسے کوئی وبائی مرض تصور کر رہے تھے اور اپنی سی مقامی تدبیریں کر رہے تھے لیکن مرض میں کوئی افاقہ نہ ہوا بلکہ مرض روز بروز پھیلنے لگا۔ پانی پیتے ہی ہر کسی کو الٹیاں آنے لگیں کچھ ہی دنوں میں مویشیوں کی مرنے کی وجہ سے ہر طرف تعفن پھیلنے لگا۔ بوڑھے اور بچے قریب المرگ تھے۔ قرب و جوار میں بسنے والے بلوچوں کی ذندگیاں اجڑ چکی تھیں۔ آہستہ آہستہ فوجی گھیرا اٹھا لیا گیا تو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت شہروں کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں جاکر ٹیسٹ کرنے پر پتا چلا کہ انکے عورتیں بچے اور بوڈھے موذی مرض کینسر کا شکار ہو گئے ہیں ۔ جنکا علاج نا ممکن تھا۔ آہستہ آہستہ پاس کے علاقوں میں دمہ ٹی بی ہیپاٹائٹس بی بھی پھیلنے لگا۔
خاران سے نوشکی دالبندین چاغی کے نواحی علاقے اس کی مکمل زد میں آگئے ۔ چاغی اور نوشکی کا ذرخیز زمین ایٹمی تابکاری کی زد میں آکر بانجھ ہو چکا تھا ۔طویل خشک سالی نے اپنا خونی پنجہ گاڑنا شروع کیا تھا۔ راسکوہ سے چاغی کی طرف نوے کلومیٹر نوشکی کی طرف ستر کلومیٹر خاران کی طرف پینتیس سے چالیس کلومیٹر دالبندین کی طرف ساٹھ کلومیٹر تک سارا علاقہ جل کر صحرا میں تبدیل ہو چکا تھا ۔ چاغی اور نوشکی کی طرف زمین اسقدر متاثر ہوا سبزی پھل تربوزہ خربوزہ اپنے شیرینی مٹھاس چھوڑ کر بے زائقہ ہوگئے ۔ درختوں جھاڑیوں اور جڑی بوٹیوں کا نام و نشان مٹ چکا تھا ۔ ان علاقوں میں بارش نہ ہونے کے برابر ہوا۔ اگر ان علاقوں میں کنوؤں کے ذریعے کوئی کھیتی باڈی کی جاتی ہے تو انکے فصل میں کوئی مٹھاس باقی نہیں رہا ہے۔پیداواری صلاحیت انتہائی کم ہو چکا تھا۔ راسکوہ سے مختلف آبادیوں کا فاصلہ:
راسکوہ سے دالبندین شہر کا فاصلہ 35 کلومیٹر
راسکوہ سے خاران شہر کا فاصلہ 40 کلومیٹر
راسکوہ سے نوشکی شہر کا فاصلہ 65 کلومیٹر
راسکوہ سے چاغی کا علاقہ 50 کلومیٹر
اسکے علاوہ کچھ چھوٹے دیہات جن میں چھتر، پدگ حشکیں نلی سنگری آشلو اور کچکی چاہ دس سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ راسکوہ کے دامن میں تین سے پانچ کلومیٹر کے علاقے میں 13 سے ذاہد گاؤں اور کلیاں آباد ہیں جن میں سینکڑوں بلوچ گھرانے آباد ہیں۔ اسکے علاوہ خاران اور دالبندین کی طرف بھی راسکوہ کے دامان اور نشیبی علاقوں میں اتنے ہی آبادیاں ہیں جو بیس سے پچیس کلومیٹر علاقے میں موجود ہیں۔
اب اگر ہم انٹرنیشنل ایٹمی قوانین کو دیکھیں تو جہاں ایٹمی دھماکے کے تجربے کیے جاتے ہیں تو اس علاقے کے چاروں اطراف سو میل کے علاقے میں کوئی انسانی آبادی نہ ہو۔ ایٹمی تجربات ایسے علاقے میں ہوں جہاں ایٹمی تابکاری پھیلنے کا کوئی خدشہ اور امکان نہ ہو۔ وہاں علاقہ بنجر اور ریگستانی ہو انسان جانور اور نباتات کیلئے قابل استعمال نہ ہو۔ اسکے علاوہ زیر سمندر ہونے والے تجربات کیلئے بھی ضروری ہے کہ اس سے سمندری حیات اور ماحول کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ وہاں ایٹمی تابکاری پھیلنے کی صورت میں ان سے نمٹنے کیلئے پیشگی احتیاطی تدابیر اور انکا پورا سسٹم موجود ہو تاکہ ہنگامی حالات میں کوئی مسائل درپیش نہ ہوں۔ علاج معالجے کے تمام سہولیات دستیاب ہوں زیادہ چلنے والے ہواؤں کا رخ آبادی کی طرف نہ ہو۔ اب تک دنیا میں جتنے بھی ایٹمی تجرباتی دھماکے کیے گئے ہیں ان تمام ممالک نے اپنے انسانی آبادیوں سے تین سے چار سو کلومیٹر تک دور اور مخالف ممالک کے سرحدوں پر ہوا کے رخ کو دیکھتے ہوئے کیئے گئے ہیں تاکہ کسی بھی تابکاری کے پھیلنے سے ان کے آبادیاں محفوظ رہیں اور مخالف ممالک متاثر ہو۔
مگر پاکستان جیسے غیر مہذب لاپروا اور غیر ذمہدار بلوچ دشمن ریاست نے عالمی اخلاقی اور انسانی قوانین کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بلاجھجک بلوچ سرزمین پر ایٹمی تجربات کئے۔ اسی لئے امن پسند دنیا کو چاہیے کہ پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کی روک تام اور بلوچ سرزمین پر پھیلنے والے ایٹمی تابکاری کے ادراک کیلئے عالمی ادارے اپنا عملی کردار ادا کریں۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий