Powered By Blogger

вторник, 30 июня 2020 г.

بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کی پاکستان اسٹاک ایکسینج پے ہونے والے حملے کی تناظر میں ایک دوست سے حال احوال۔ ‏ ‏ ‏


بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے کل پاکستانی اسٹاک ایکسینج پے مجید برگیڈ کے فداہین نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں قابض پاکستانی فورسز کو جانی و مالی نقصان اُٹھانا پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر ایک عالمی خبر بن گیا۔
جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ دشمن کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ہمارے اپنے بھی ہمیں کمزور کرنے نقصان دینے میں پیچھے نہیں رہے ہیں اور کہی نہ کہی دشمن کے سہولت کار کے طور پر کام کرتے آرہے ہیں، دانستہ یا نادانستہ اللہ ہی جانے۔
خیر یہ بڑا خبر تھا ہر طرف اس کی چرچا ہورہی تھی تو اسی تناظر میں ایک دوست نے کال کیا، حال احوال کے بعد اسی حملے پے بات کرنا شروع کیا کہ دیکھیں یار ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، میں نے کہا کیون ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اس حملے میں کیا خرابی یا نقصان تھا؟ بولنے لگا یار مسنگ پرسنز کا کیس خراب ہوگا، میں نے کہا تو آپ بولو کیا کریں جنگ بندی کا اعلان کریں؟ ریاست تو روز ہمارے لوگوں کو مار رہا ہے گھروں کو جلا رہا ہے مسخ شدہ لاشیں پھینک رہا ہے تو آپ بولو بلوچ کیا کریں۔ اس طرح دیکھا جاۓ قابض ریاست چار بندوں کو چھوڈ دیگا چار سو پھر اُٹھا لیگا، پچھلے ایک ہفتے میں کہی بے گناہ بلوچوں کو جبران گمشدہ کرچکا ہے، ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ یہ جنگ مسنگ پرسنز کے نام پے ہورہا ہے بلکہ یہ جنگ قبضہ گیریت کے خلاف ہورہا ہے اور مسنگ پرسنز کا کیس اس جنگ کا تحریک کا حصہ ہے لیکن اصل چیز قابض کے خلاف جنگ ہے، اگر ریاست کسی کو بھی رہا نہیں کریگا بلکہ سینکڑوں اور کو لاپتہ کرے تو کیا بلوچ مسلح تنظیمیں خاموش بیٹھ جاہیں؟
دوست سنتا رہا پھر اچانک سے کہنے لگا یار وہ نیوز میں میں نے دیکھا انڈیا نے بھی اس حملے کی مزمت، مخالفت کی ہے دیکھو یار انڈیا بھی ہمارا مخالف بن رہا ہے۔ میں نے کہا کیا یہ جنگ بلوچوں نے انڈیا کے خوش رکھنے کے لیے شروع کیا ہے، یا یہ جنگ انڈیا کی مفادات کے لیے ہورہا ہے؟ انڈیا مزمت کرے یا حمایت وہ ایک الگ بات ہے اور ساتھ ہی ساتھ ملکوں کو ڈپلومیسی بھی کرنا ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کے انڈیا جو بولے ہم وہی کریں، یہ جنگ ہماری اپنی جنگ ہے بلوچوں کی اپنی جنگ ہے کہ پاکستان جیسے ریاست نے ہمارے زمیں پے قبضہ کیا ہے، ہم کسی کو خوش یا ناراض کرنے کے لیے یہ جنگ نہیں لڑرہے ہیں۔ کل کو انڈیا و پاکستان کے نعلقات ٹھیک ہوجاتے ہیں اور انڈیا پاکستان کے ساتھ مل کر آپکے خلاف مشترکہ مزاحمت کرے گا تو کیا کرو گئے؟ بلوچ نہ کسی کے پراکسیز ہیں اور نہ ہی انڈیا سمیت کسی کے کہنے یا کسی کو خوش کرنے کے لیے یہ جنگ لڑرہے ہیں۔انڈیا سمیت کوئی بھی مزمت کرے یا حمایت لیکن بلوچ نے کیا کرنا ہے اس کے مفادات کس چیز میں ہیں ہمیں وہ کرنا چاہیے۔
دوست۔ یار بشیر زیب ان کو استعمال کررہا ہے اپنے مفاد کے لیے مجھے سب پتہ ہے۔
میں نے کہا اچھا یہ استعمال ہورہے ہیں کیا آپکو پتہ ہے یہ جو فداہین کرتے ہیں یہ مجھ سے آپ سے اور ہمارے نامونہاد لیڈر صاحباں سے کہی زیادہ باشعور ہوتے ہیں، فکری و نظریاتی طور پر ہم کسی کہی زیادہ پختہ ہوتے ہیں، ان کے پاس اتنا علم ہوتا ہے کہ میرے اور آپ کے گمان سے بھی زیادہ تو کیا یہ کسی کو خوش کرنے کے لیے فداہیں کرتے ہیں؟ وطن کے ان دیوانوں کو یہ کہنا کہ کسی کے کہنے پے استعمال ہورہے ہیں ایسی گندی گھٹیا سوچ وہ لوگ رکھتے ہیں جو ضد حسد گھبرائٹ میں اندھے ہو چکے ہوں، کیا آپ اور مجھ میں اتنا ہمت، جزبہ ہے کہ ہم ایسا سوچ بھی سکیں کہ ہم بھی اس جہد کا عملی حصہ بننا چاہتے ہیں بلوچ فداہین بننا تو بہت دور کی بات ہے، بلوچ فداہین اپنے سرزمین کے لیے اپنے دھرتی کے آجوئی کے لیے قربان ہونے کے جزبے سے یہ فداہین کرتے ہیں نہ کے کسی کو خوش کرنے کے لیے۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ بلوچ فداہین کسی کے کہنے پے حملے کرتے ہیں تو اس دنیا میں اس سے بڑا جاہل احمق نہیں ہے۔ کوئی کسی کے کہنے پے یا کسی کے مفادات کو تکمیل دینے کے لیے فداہین جیسا عمل ہرگز نہیں کرسکتا یہ عمل وطن کے وہ دیوانے کرسکتے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف بلوچ سرزمین کی آجوئی ہے۔ فداہین کو پتہ ہے کہ ہم ایک ایسی مشن پے جارہے ہیں جس سے واپسی لوٹنا ناممکن ہے وہ کیسے کسی کے کہنے یا مفاد کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔
دوست لمبی خاموشی کے بعد کہنے لگا اس طرح دنیا ہمیں دہشتگرد قرار دیگا۔ میں نے کہا دنیا دہشتگرد قرار دے یا نہ دے لیکن آپکو تو یہ جنگ ہرحالت میں لڑنی ہے، لیکن پھر بھی ایک بات واضح ہے دنیا کو بھی پتہ ہے عالمی اداروں کو بھی پتہ ہے کہ بلوچ کیون لڑرہے ہیں بلوچ کیون مجبور ہوکر فداہین کررہے ہیں کیونکہ ہمارا زمین قبضہ ہوچکا ہے قابض ریاست ہماری نسل کشی کررہا ہے، ہماری ماؤں بہنون کی تزلیل کررہا ہے، عورتوں بچون کو ماررہا ہے اس لیے بحالت مجبوری بلوچ یہ عمل کررہا ہے، اپنے سرزمین کے لیے لڑنے سے جدوجہد کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت ہمیں روک نہیں سکتی، کوئی بھی ملک ہو اس کے اپنے حدو حدود ہوتے ہیں اور وہ کھبی بھی یہ برداشت نہیں کرسکتا ہے کوئی ملک اس کے زمین ایک انچ بھی قبضہ کرے اور دوسری طرف بلوچ کا پورا سرزمین قبضہ ہوچکا ہے تو اس کے لیے لڑنے مرنے مارنے کے علاوہ بلوچ کے پاس اور کیا آپشن موجود ہیں؟ دنیا خانہ پوری کی حد تک ضرور دہشتگرد لکھے گا لیکن ان کو پتہ ہے بلوچ اپنے حق کے لیے لڑرہے ہیں کل بلوچ فداہین کے حملے کو عالمی میڈیا نے کوریج دی تو وہاں انہوں نے بلوچ کو دہشتگرد نہیں بلکہ فریڈیم فاہٹرز کہا، یہ لکھا کہ یہ حملہ بلوچستان کی آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجوؤں نے قبول کیا ہے اور مسقبل میں بھی حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
بھائی اس ضد، حسد آنا سے نکل جاؤ اپنے غلامی کو محسوس کرو اس جنگ کا حصہ بن جاؤ بن نہیں سکتے کم سے کم حمایت کرو اس طرح دانستہ یا نادانستہ طور پر تنظیمون کے خلاف استعمال مت ہوجاؤ۔ لوگ لڑرہے ہیں مررہے ہیں ماررہے ہیں اور ہم پھوتاری میں لگے ہیں۔ کسی نے بھی آپکو جدوجہد کرنے سے نہیں روکا ہے اپنے بساط کے مطابق جدوجہد کرتے رہو لیکن دشمن کا کام آسان کرنے کے لیے اس کے بیانینے کو پرموٹ کرنے سے آپ بلوچ کا خیرخواہ ہرگز نہیں ہو سکتے۔
سنگت بلوچ