Powered By Blogger

пятница, 30 сентября 2016 г.

’پاکستان مذہبی انتہاپسندی کا مسکن ہے، جب تک یہ قائم رہے گا امن قائم نہیں ہوگا‘ -- بلوچ رہنماء 
ڈاکٹر ﷲ نذر


بلوچ رہنماء ڈاکٹر اﷲ نذر کا ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو

انٹرویو: آرتی ٹیکوسنگھ
ترجمہ: لطیف بلیدی
ڈاکٹر اللہ نذر، جنہوں نے طب میں ڈگری حاصل کی ہے، پاکستان کے صوبے بلوچستان میں شورش کا سرکردہ چہرہ ہیں۔ ڈاکٹر سے عسکریت پسند بنے یہ شخص اس جنگ زدہ خطے میں سرگرم پانچ عسکریت پسند گروہوں میں سب سے بڑے بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کی سربراہی کررہے ہیں۔ اﷲ نذر، جو کہ روپوش ہیں، پاکستانی افواج کی طرف سے گزشتہ سال ایک جان لیوا حملے میں بال بال بچ گئے۔ یہ اس ای میل انٹرویو سے اقتباس ہے جو انہوں نے بلوچستان میں کسی نامعلوم مقام سے ٹائمز آف انڈیا کے آرتی ٹیکو سنگھ کو دیا تھا:
سوال: بلوچستان میں ایک منتخب صوبائی حکومت ہے لیکن بلوچ عسکریت پسند گروہ پاکستان کے اندر جمہوری نظام کا حصہ بننے سے انکاری ہیں۔ کیوں؟
جس بات کا بیشتر پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کو بھی ادراک نہیں وہ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ برطانیہ سے اُن کی آزادی کے حصول میں ریاست کلات کی نمائندگی کرے وہ کوئی اور نہیں بلکہ خود ایم اے جناح تھا جو کہ وکیل تھا جنہیں خان کلات کی طرف سے بھاڑے پر لیا گیا تھا۔ اپنی خدمات کے عوض مسٹر جناح نے ریاست کلات کے خزانے سے اپنے وزن کے برابر سونا لیا تھا۔
جواب: پاکستان کے قیام سے قبل بلوچستان ایک آزاد ریاست تھی اور پاکستان نے اپنے قیام کے تقریباً ایک سال بعد بلوچ سرزمین پر قبضہ کر لیا۔ جس بلوچستان کے بارے میں ہم آج بات کررہے ہیں وہ ریاست کلات اور مری اور بگٹی علاقے جنہیں ’برٹش/ برطانوی بلوچستان کہا جاتا تھا، برطانیہ کی طرف سے بھارت کے اعضاء کاٹ کر مصنوعی طور پر تراشے گئے ملک پاکستان کے بجائے ریاست کلات میں شامل ہونا چاہتی تھیں۔ لہٰذا 4 اگست 1947ء کو بلوچستان ایک آزاد ملک بن گیا اور اس کا اعلان 11 اگست 1947 کو پاکستان کے قیام سے چند روز قبل کیا گیا تھا۔
جہاں تک پاکستان میں جمہوری عمل کا تعلق ہے تو اس کا کوئی وجود نہیں ہے، کم از کم بلوچستان میں۔ بلوچستان کے عوام نے زیادہ سے زیادہ 3 فیصد کے ٹرن آوٹ کیساتھ 2013ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ آج ان کے چند حلیف جو بلوچستان کی حکومت میں ’منتخب‘ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، 1,000 سے بھی کم ووٹ انکے حق میں کاسٹ ہونے کے ساتھ منتخب ہوئے تھے۔ کس منطق کی بنیاد پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ حکومت بلوچ عوام کی نمائندگی کرتی ہے؟ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ الیکشن پاکستان کیخلاف ایک ریفرنڈم تھا۔
کشمیر کی جنگ میں جب بھارتی فوج نے پاکستان کو شکست دی تو جناح نے اپنی غنڈہ گرد فوج کو بلوچستان کی طرف بھیج دیا اور اسی ریاست پر حملہ کر دیا جس کی آزادی کیلئے انہوں نے ایک وکیل کے طور پر وکالت کی تھی۔ اس کے بعد سے ہمارے والدین اور انکے اجداد اور آج ہم اس غیر قانونی قبضے کو ختم کرنے کیلئے لڑ رہے ہیں۔ مزید برآں، جب کبھی بھی بلوچستان کے عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے تو انہوں نے بلوچ قوم پرست حکومتیں منتخب کیں جنہیں بعد میں پاکستان آرمی اور ان کے سویلین خادمین کی طرف سے برخاست کیا گیا۔
جواب: شاید میں آرام دہ زندگی گزار کر سکتا ہوں، لیکن یہ ہماری مظلوم بلوچ عوام کی حالت تھی جس نے مجھے ادویات کی پریکٹس کو ترک کرنے اور ایک خود مختار بلوچ ریاست کی خاطر لڑنے کیلئے اپنی زندگی وقف کرنے پر مجبور کیا۔ ہم بلوچوں کی اپنی ثقافت، زبان، خطہ اور عمومی نفسیات ہے اور ہماری تاریخ کئی ہزار سالوں پر محیط ہے۔ برطانیہ میں ’پاکستان‘ کا لفظ گڑھے جانے سے قبل ہم طویل عرصے سے یہیں موجود تھے اور اس کے کئی عرصے بعد بھی یہیں رہیں گے جب یہ برا خواب پاکستان اپنے واٹرلو سے جا ملے گا۔
سن 1970ء کے انتخابات میں جب بلوچوں نے مرحوم خیر بخش مری، سردار عطاءاللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو جیسے بلوچ رہنماوں کو ووٹ دیکر اقتدار میں لایا۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں پاکستان فوج کی طرف سے کی گئی نسل کشی، جس میں 30 لاکھ بنگلہ دیشیوں کی ہلاکت ہوئی، کے بعد ہمارے بزرگوں نے سوچا کہ شاید پاکستان آرمی نے سبق سیکھا ہوگا اور وہ جمہوریت کا احترام کرے گی۔ تاہم، جب بلوچ قوم پرست حکومت نے 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی شکست کے بعد اپنے عہدے کا حلف لیا تو واپس لوٹے جنگی قیدیوں نے کوئی وقت ضائع کیے بغیر بلوچستان میں حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ سوال: آپ ایک ڈاکٹر ہیں؛ آپ بلوچستان میں ایک آرام دہ زندگی گزار سکتے تھے۔ آپ پاکستان کیخلاف مسلح جنگ کیوں لڑ رہے ہیں؟ دسیوں ہزار بلوچوں نے اس سرزمین کیلئے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا ہے؛ میں تو محض بطور ایک ڈاکٹر کے اپنا سکون اور پریکٹس چھوڑ رہا ہوں۔ اسکا ان سے کوئی موازنہ نہیں ہے۔ ہم آخری آدمی تک لڑیں گے۔
چین کہ جس نے خود اپنی آزادی کی جدوجہد دیکھی ہے صرف بلوچستان کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کی خاطر آج ایک بدمعاش ملک پاکستان کی امداد کررہا ہے حتیٰ کہ وہ بلوچ کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ ان سے گفتگو کی جائے۔
سوال: بلوچ عسکریت پسند گروہوں کو عام بلوچوں کے درمیان کس طرح کی حمایت حاصل ہے؟ جواب: بلوچستان کے عام لوگوں میں ہمیں مقبول حمایت حاصل ہے اور ہمیں قائم و دائم رہنے کیلئے صرف یہی حمایت حاصل ہے۔ بلوچ قوم اور عوام مالی اور اخلاقی طور پر ہماری حمایت کر رہے ہیں کیونکہ ہماری تحریک خالصتاً دیسی اور مقامی ہے۔ ہمیں اپنی طاقت محض بندوق کی نلی سے نہیں بلکہ اس سرزمین کی پوری بلوچ آبادی کی طرف سے ہم پر اعتماد کرنے سے ملی ہے۔ بلوچ آبادی کی ایک نمایاں اکثریت ہماری حمایت کررہی ہے اس ظلم و جبر کے باوجود جو ہر اس بلوچ مرد یا عورت پر ڈھایا جارہا ہے جو ’سرمچاروں‘ (آزادی کے سپاہیوں) کیلئے ہمدردی کا اظہار کرے۔ پاکستان کی پنجابی فوجی اسٹابلشمنٹ اور وہ جو ترقی کے نام پر ہماری ناک تلے ہمارے وسائل لوٹنے کے خواہاں ہیں ہم سب کو اپنے اس مقصد کیلئے متحد کرتا ہے جس میں ہم قبضے سے آزاد ایک ملک کے طور پر بلوچستان کو دیکھنا چاہے ہیں۔
جواب: سرد جنگ کے دوران بین الاقوامی طاقتوں کے اپنے مفادات تھے؛ مغرب اور امریکہ نے اسلام پسندوں اور جہادیوں کی پرورش کی اور پبلک پالیسی کے طور پر جہاد کی ستائش کی تاکہ وہ مسلم رنگروٹوں کو استعمال کریں اور ان کی ایماء پر افغانستان میں سرخ فوج سے لڑیں۔
چین کو پاکستان یا پاکستانی پنجابیوں سے کوئی محبت نہیں ہے۔ انہیں صرف اس چیز سے غرض ہے کہ وہ سی پیک کی سڑک کو اسٹراٹیجک اہمیت کی حامل آبنائے ہرمز کے دہن پر واقع بلوچستان کی گوادر بندرگاہ سے چین کے اندرونی علاقوں تک لے جائے، بلوچ آبادی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے جسے بیجنگ جڑ سے اکھاڑدے گا اور اپنے ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے ظاہری لبادے کی آڑ میں وہ مزید کھربوں ڈالر کمائے گا۔ ماو اور مارکس اپنی قبروں میں کراہ رہے ہونگے۔ چین کیلئے ہمارا ایک انتباہ ہے۔ آپ بلوچ سرزمین پر اسی طرح سے حملہ کر رہے ہیں جس طرح جاپانیوں نے چین پر حملہ کیا تھا اور نانکنگ کو تباہ کیا تھا۔ چین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بلوچ چینی سامراج کے آگے دستبردار نہیں ہوں گے خواہ یہ اقتصادی ترقی کے برقعے میں کیوں نہ ہو۔ سوال: گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد سے دنیا بھر میں پر تشدد تحریکوں کیخلاف بڑے پیمانے پر نفرت پیدا ہوئی ہے۔ آپ اپنی عسکریت پسند تحریک کا جواز کس طرح سے پیش کرتے ہیں؟ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکیوں نے جہادیوں کو ان کے اپنے حال پر اور پاکستان آرمی اور فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا جنہوں نے طالبان کی تخلیق کی، اور پھر اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری سمیت دسیوں ہزار عرب جہادی جنگجووں کی پرورش کی۔
جواب: یہ بات قطعاً سچ نہیں ہے۔ میری خواہش ہے کہ بھارت ہماری مدد کرتا، لیکن انہوں نے کبھی نہیں کی۔ نئی دہلی نے تو ابھی حال ہی میں ہماری میتوں اور تشدد کا نشانہ بنے لوگوں کی چیخیں سنی ہے۔
اس وقت مذہبی انتہاپسندوں کا گھونسلا مستقل طور پر پاکستان میں ہے، جہاں اسلام آباد مذہبی جنونیوں کو بھارت کیخلاف اپنے اثاثوں کے طور پر استعمال کرتا ہے، اور امریکہ اور مغرب سے بلیک میلنگ کے ذریعے مادی اور مالی مدد حاصل کرتا ہے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے۔ ہماری تحریک ایک آزاد بلوچستان کے لئے ہے جہاں ہمارے پاس ایک جمہوری ملک ہوگا، ایک سیکولر معاشرہ جہاں تمام مذاہب کے لوگ ایک ہی ملک کے شہریوں کے طور پر رہیں گے، یہ پاکستان جیسا ملک نہیں ہوگا جہاں جناح کی نفرت پر مبنی، نسل پرست ہندو مخالف دو قومی نظریے کو داعش جیسے بدنفس فاشسٹ جہادی ثقافت کے ساتھ ملا دیا گیا ہو۔ جلد ہی دنیا پر یہ واضح ہوجائے گا کہ ایک آزاد اور خود مختار بلوچستان اسلامی انتہاپسندی کی کسی بھی جھلک سے آزاد، درحقیقت القاعدہ، داعش اور طالبان کی مخالف جو اسلام آباد اور اسکے عالمگیر جہادی انٹرپرائز کی طرف سے دنیا بھر میں پھیلائے گئے اس پاگل پن کے خلاف ایک مانع قوت ثابت ہوگی جو جنوبی فلپائن سے لیکر شمالی امریکہ تک سرگرم ہے جیساکہ ہم نے گزشتہ ہفتے نیویارک میں دیکھا۔ سوال: پاکستان یہ الزام عائد کرتا رہتا ہے کہ بھارت بلوچ مزاحمت کاروں کو مسلح اور ان کی فنڈنگ کر رہا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ آپ کے گروہ سمیت مختلف بلوچ عسکریت پسند گروہوں کو کون فنڈز، اسلحہ اور تربیت فراہم کرتا ہے؟
میرا خیال ہے کہ اس سے بھارت کو بین الاقوامی سطح پر فائدہ ہوگا کیونکہ پاکستان دراندازی کرکے کشمیر میں اپنے پراکسی جنگجو بھیجتا رہے گا۔ اُڑی واقعہ دنیا کی آنکھیں کھول دینے والا ایک اور واقعہ ہے کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ پاکستان ایک ایسا ملک نہیں جس کے پاس کوئی فوج ہے بلکہ ایک فوج ہے جسکے پاس ایک ملک ہے۔ جتنی جلدی پاکستان اپنے قومی حصوں میں تحلیل ہوگی، یہ ان لوگوں کیلئے اتنا ہی بہتر ہوگا جو آج پاکستان کے ملا ملٹری مافیا کے ظلم کے تحت رہ رہے ہیں۔
اور یہ کہ نہ صرف بھارت بلکہ ہمیں امید ہے کہ پوری دنیا ہماری مدد کو آئے گی، چونکہ بلوچ جیسے مظلوم اقوام کی حمایت کرنا ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ہم کسی بھی ذریعہ سے ملنے والی کسی بھی مدد کا خیر مقدم کریں گے۔ سوال: جلاوطن بلوچ رہنماء براہمدغ بگٹی نے بھارت میں سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ درست سمت میں ایک درست اقدام ہے؟ جواب: بلوچ کو بھارت اور دیگر آزادی پسند ممالک سے ہر قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔ براہمدغ کو سیاسی پناہ دینے سے بھارت خطے میں ایک مثال قائم کرے گا کہ کسی بھی شخص کو محض اپنے لوگوں کیلئے آواز اٹھانے پر قتل اور اغواء کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سوال: کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ بلوچستان کی تحریک آزادی کو بھارت کی اخلاقی حمایت سے کشمیر میں اس کے اپنے موقف کو خطرے میں ڈال دے گی۔ آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟ جواب: سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم کے طور پر یہ مودی صاحب اور بھارتی ریاست کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان میں پاکستانی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کریں۔ ہم بلوچستان پر مودی جی کے موقف کا خیر مقدم اور اس کی قدر کرتے ہیں۔ سوال: بھارت نے پاکستان کے خلاف ایک سفارتی محاذ کا آغاز کر دیا ہے۔ ان حالات میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی بھارت سے کس قسم کی توقعات ہیں؟

ہم امید کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت پاکستان کی بدمعاش ریاست کیخلاف جوابی کارروائی کرے گی جو کسی بھی طرح کی سفارتی زبان نہیں سمجھتا۔ ہم بلوچوں کو اُڑی واقعے پر تشویش ہے کہ اگر اسکا جواب اسی انداز میں نہیں دیا گیا تو یہ کشمیر میں خونریزی کو اشتعال دینے کیلئے پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کرے گا اور بیک وقت وہ بلوچستان میں اپنی نسل کشی کی پالیسی بھی جاری رکھے گا۔ ہم بلوچ اس بات کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ پہلے اقدام کے طور بھارت کو پاکستان پر اپنے تئیں پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا چاہئے اور پھر چین کو یہ بتائیں کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان خود مختار علاقے ہیں اور یہ کہ بیجنگ کو یہاں پر کسی بھی طرح کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو بند کرنا اور باز رہنا چاہئے۔
نئی دہلی کا اس بات کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ جب تک یہاں پاکستان قائم رہے گا بھارت میں امن قائم نہیں ہوگا۔
بشکریہ: ٹائمز آف انڈیا ، منگل، 27 ستمبر، 2016

понедельник, 4 июля 2016 г.

ایک باریک سرخ لکیر


تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی
Mir Muhammad Ali Talpur
انقلابی جدوجہد اپنے حامیوں، رہنماوں اور معاونین سے یہ تقاضہ کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص یا گروہ عوام کے نام پر اختیارات حاصل کرلے تو اسکا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ عوام کو جوابدہ ہیں اور عوام کی منشاء کو عذر بنا کر ان اختیارات کا استعمال یا غلط استعمال منمانے طور پر نہیں کر سکتے۔
کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ان اختیارات کا استعمال اپنے خبط کی بنیاد پر کرے اور دروغ گوئی سے ان کارروائیوں کو جدوجہد کیلئے ضروری اقدامات کے طور پر منوائے۔ انہیں عوام کو جوابدہ ہونا ہوگا خاص طور پر جب وہ اقدامات لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں یا تباہ کریں؛ ایسے اوقات میں رہنماء یا گروہ ایک نہایت باریک لکیر پر چل رہے ہوتے ہیں کہ جس سے وہ منصفانہ یا تباہ کن اقدامات کو کافی حد تک ناقابل امتیاز بنا دیتے ہیں اور اسے ناگزیر گردانتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات کافی غور و خوص اور احتیاط کے بعد عمل میں لائے جاتے ہیں۔

منصفانہ یا عوام مخالف کارروائیوں کے درمیان اس باریک لکیر کو نظر انداز کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور یہ جدوجہد کی اخلاقی بالادستی کیلئے تباہ کن نتائج کا موجب بنی ہوئی ہے اور اس نے حقیقی حامیوں اور خیر خواہوں سے دوری پیدا کی ہے۔ جدوجہد اپنے حامیوں یا اپنی اخلاقی بالادستی کھونے کا متحمل نہیں ہوسکتی جو اسے دشمن سے ممتاز کرتی ہے۔ لہٰذا، کوئی بھی کارروائی کرنے سے قبل انہیں اپنے اقدامات کے ممکنہ اثرات پر غور کرنا چاہئے۔
کہا جاتا ہے کہ ہوشمندی اور پاگل پن کے درمیان ایک ’باریک سرخ لکیر‘ ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس دعوے میں کافی حد تک سچائی ہے کیونکہ ہوشمندی اور پاگل پن کی وضاحت کرنے کے لئے کوئی معیار مقرر نہیں ہے چونکہ انسانوں کے اعمال ایک دوسرے کو ڈھانک دیتے ہیں اور اس بات کی تمیز کرنا مشکل ہوجاتی ہے کہ کونسا عمل ہوشمندانہ تھا اور کونسا نہ تھا۔ ان اعمال کو ہوشمندانہ یا فاتر العقل قرار دیا جانا بھی ہر ایک کے اپنے ادراک پر منحصر ہے اور کوئی عمل جو کسی ایک کو دانشمندانہ دِکھتی ہو کسی اور کو حتمی حماقت لگ سکتی ہے۔ تاہم، ہم کسی ایسے اقدام کی پاگل پن کے طور وضاحت کرنے کی جسارت کر سکتے ہیں جو زمینی حقیقت کو نظر انداز یا اس سے انکار کرتا ہو۔ ایسے اقدامات جو زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوں ان سے افراد، گروہوں یا اقوام پر زبردست حد تک منفی اثرات پڑتے ہیں ان اقدامات کی قیمت انہیں اور انکی آئندہ نسلوں کو چکانی پڑتی ہے۔
زمینی حقائق کو ماننے سے انکار اس صورتحال کو مزید ابتر اور پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ بظاہر انکار ایک عام انسانی کمزوری ہے اور یہ شاید خود کو اس بات پر قائل کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے کہ سب کچھ اچھا اور کنٹرول میں ہے۔ میں نے خون تھوکنے والے بہت سے لوگوں کی مثالیں دیکھی ہے جو اس بات کو قبول کرنے سے انکاری ہوتے ہیں کہ وہ تپ دق میں مبتلا ہیں۔ نفسیاتی مسائل کا شکار لوگ بھی اس بات کو قبول کرنے سے انکاری ہوتے ہیں کہ انہیں علاج کی ضرورت ہے۔ انکار کرنے کا یہ میلان کسی صورتحال کیلئے مدد کی فراہمی اور اسکی تلافی کے حصول کو بہت مشکل بنادیتی ہے؛ وہ یہ سمجھنے سے انکاری ہوتے ہیں کہ ان کے ماننے یا نہ ماننے میں حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ حقیقت ہماری خواہشات یا آرزووں کے بغیر آزادانہ طور پر زندہ اور قائم رہتی ہے۔
اتفاق سے، انقلاب اور دہشتگردی کے درمیان بھی ایک نہایت ’باریک سرخ لکیر‘ ہوتی ہے اور اسے زیادہ ایمانداری سے قبول کرنا اور سمجھنا چاہئے کیونکہ ہوشمندانہ و پاگل پن کی صورتحال کے برعکس یہ نہ صرف خود پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ کئی لوگوں پر اس کے انتہائی دور رس اثرات ہوتے ہیں اور اس کے پاس تعمیر کے ساتھ ساتھ تباہی کیلئے بھی یکساں قوت ہوتی ہے۔ اس ’باریک سرخ لکیر‘ پر بہت احتیاط سے چلا جائے، اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ انقلاب کہیں دہشتگردی نہ بن جائے۔ وہ لوگ جو انقلاب کی رہنمائی کررہے ہوتے ہیں انہیں اس بات کو دوگنا طور پر یقینی بنانا چاہئے کہ یہ باریک لکیر غلطی سے یا جان بوجھ کر عبور نہ کی جائے کیونکہ انقلاب کے معاملات عوام کے ساتھ ہوتے ہیں اور اس لکیر کو پار کرنے سے عوام کو نقصان پہنچتا ہے اور انہیں الگ تھلگ کردیتا ہے اسی لئے یہ انقلاب کیلئے مہلک ثابت ہوتی ہے۔
انقلاب عوام کے ذریعے پنپتی ہے کیونکہ یہ عوام کیلئے ہوتی ہے اور اسے دہشتگردی سے ممیّز اور مختلف رہنا چاہئے اگر یہ کسی بھی طرح سے کامیاب ہونا چاہتی ہے۔ دہشتگردی کو دھوکہ دہی سے انقلاب کے طور پر نہیں منوایا جا سکتا محض اس لئے کہ وہ لوگ جو دہشتگردی کا ارتکاب کررہے ہیں انہیں لگتا تھا کہ ایسا کرنا ضروری تھا۔
انقلاب کوئی حربہ نہیں، یہ ایک حکمت عملی ہے اور ان کارروائیوں سے اسے اسکا جائز احترام ملنا ہے چاہئے جو اس کے نام پر کیے جاتے ہیں؛ آپ بہت بڑی غلطیاں نہیں کرسکتے اور یہ بہانہ بناکر کہ یہ انقلاب ہے، ان سے بری الذمہ ہونے کی کوشش بھی نہیں کرسکتے۔ انقلاب کے اپنے سخت مجموعہءقوانین و ضوابط اور اقدار ہوتے ہیں جنکی نافرمانی نہیں کی جا سکتی۔ وگرنہ، آپ اسے کوئی انقلاب نہیں کہہ سکتے۔ انقلاب کے علم کو اشد ضرورت اور موزونیت کی مناسبت سے سرنگوں نہیں کیا جا سکتا؛ یہ آپ ہیں کہ جس نے اپنے معیار مقرر کیے ہوئے ہیں اور اگر آپ انکی پاسداری نہیں کرسکتے تو ایک طرف ہٹ جائیں۔ انقلاب طاقت اور دولت کا حصول نہیں ہے بلکہ یہ ان اہداف کے حصول سے متعلق ہے جن سے عوام کو فائدہ پہنچے اور ان کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت کی جاسکے۔
مورخہ 15 مئی 2016ء کو پانچ افراد، ان میں سے تین سرکاری اہلکار اور دو ٹھیکیدار تھے، جو کسی سرکاری معائنے کیلئے گئے تھے، کو ایک گروہ کی طرف سے کیچ کے علاقے دشت سے اغواء کیا گیا۔ ان مغویوں میں سے ایک چاکر زامرانی، شہید کمبر کے والد، تھے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کمبر چاکربلوچ جدوجہد کے ایک آئیکون ہیں؛ وہ بی ایس او آزاد کے رکن تھے اور ہمیشہ بلوچ اور طلباء حقوق کیلئے جدوجہد میں سب سے آگے رہتے تھے۔ انہیں 26 نومبر 2010ء کو شاہی تمپ تربت میں اپنے گھر سے انکے کزن ارشاد بلوچ کے ہمراہ پاکستانی ایجنسیوں کی طرف سے اغواء کیا گیا تھا، اور ان کی تشدد زدہ لاش الیاس نذر کی لاش کے ہمراہ 5 جنوری 2011ء میں تربت کے قریب پیدراک سے ملی۔
دشت کے دیگر مغویوں میں محبوب رند (ٹھیکیدار)، فدا احمد (ایس ڈی او)، ابراہیم بلوچ (انجینئر) اور رحیم جان بلوچ (انجینئر) شامل تھے۔ تقریباً دس دن بعد ان کی لاشیں ساہیجی، دشت میں سے ملیں، اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ان کے اغوا کاروں، جو خود پاکستانی فورسز کے حملے کی زد میں تھے، کی طرف سے وہیں چھوڑ دیے جانے کے بعد وہ پیاس، بھوک اور آب رُبانی کے سبب وفات پاگئے تھے۔ متوفی، جو اس مشکل قطعہ زمین میں سے اپنے واپسی کا راستہ تلاش کرنے کے قابل نہ تھے، ہلاک ہوگئے۔
ڈاکٹر مالک کے نام نہاد مڈل کلاس نیشنل پارٹی ان اموات پر شورو غل مچا کر رونا رو رہی ہے اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ ان کے اقتدار میں آنے کی ہوس کے سبب بلوچ کو بے حد نقصان اٹھانا پڑا ہے جہاں انہوں نے پاکستانی پٹھووں کے طور پر کام کیا اور بلوچوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کا غلیظ کام کیا جہاں انہوں نے اپنے لئے خوب مال بنایا جیسا کہ مشتاق رئیسانی کے معاملے سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس شور شرابے کا مقصد پاکستان اور چین کی طرف سے بلوچستان کے استحصال میں سہولت فراہم کرنا ہے۔ ساہیجی جیسے واقعات محض بلوچ کے دشمنوں کو انہیں بدنام کرنے اور حقوق کیلئے بلوچ جدوجہد کو کمزور کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
اس واقعے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور حتیٰ کہ ان لوگوں کے ذہنوں میں بھی شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں جو حقوق کیلئے بلوچ جدوجہد کی دل و جان سے حمایت کرتے ہیں۔ کمبر چاکر کے والد ایک ٹھیکیدار تھے اور یہاں ٹھیکے صرف سرکاری منصوبوں کے ہوتے ہیں تو لہٰذا وہ اپنے خاندان کیلئے ایک قابل احترام زندگی فراہم کرنے کی خاطر اور کیا کر سکتے تھے؛ انہوں نے اپنا بیٹا کمبر، جو دوسری صورت میں اپنے خاندان کیلئے روزی فراہم کر سکتا تھا، بلوچستان کو دیا۔
یہ ہمیں اس سوال کی طرف لاتا ہے جو ہم سے ہمارے ضمیر کو ٹٹولنے کا متقاضی ہے اور اسے بہت احتیاط اور ایمانداری سے دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ کوئی شخص جسے اپنے خاندان کیلئے ایک قابل احترام زندگی فراہم کرنے یا ضرورت کی بنیاد پر کوئی ایسا کام کرنا پڑے جہاں کسی نہ کسی طرح سے حکومت ملوث ہو تو کیا وہ کوئی غدار اور بلوچ دشمن ہے؟
وہاں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اپنے قول وفعل سے صحیح معنوں میں بلوچ دشمن ہیں چونکہ وہ فعال طور پر، جیسا کہ جسمانی طور پر ڈیتھ اسکواڈ کرتے ہیں اور سیاسی طور پر نام نہاد مڈل کلاس کے سیاستدان اور اشرافیہ جو ظالم اور استحصالی قوتوں کیلئے کام کرتے ہیں، ریاست کے ساتھ مل کر بلوچ حقوق کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں لیکن کوئی کسی ایسے شخص کو صرف اس وجہ سے ایک بلوچ دشمن ہونے کیلئے سزا نہیں دے سکتا جو کسی سہل ذریعے سے اپنے خاندان کیلئے روزی کماتا ہو۔ کوئی بھی اس بات سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ ہمارے درمیان بھیڑوں کے روپ میں کچھ بھیڑیے ہیں اور وہ پراسرار طریقے سے ہمارے مفادات کے خلاف کام کرتے ہیں لیکن کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ ہم اس بات پر متفق نہ ہوں کہ، محض زندہ رہنے کی ضرورت کے تحت، وہاں بہت سی بھیڑیں ہیں جو بھیڑیوں کے روپ میں ہیں۔ لوگ، جب وہ حکومت کیلئے خدمات سرانجام دے رہے ہوتے ہیں، بلوچ حقوق کی جدوجہد کے حامی ہوتے ہیں۔ انقلاب اور جدوجہد کیلئے لوگوں کا عزم ایک طرف، انہیں زندہ رہنے اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ وہ اور کیا کرسکتے ہیں جب تک کہ وہ خواب، جو کچھ وہ چاہتے ہیں، ایک حقیقت نہ بن جائے؛ وہ بھوکے پیٹ اس دن کیلئے محض انتظار نہیں کر سکتے۔
وہ لوگ جو بلوچ حقوق کی جدوجہد کے علمبردار ہیں، انہیں ان معاملات پر اپنے نقطہءنظر میں مزید دانشمندانہ اور منصفانہ ہونا پڑے گا، بدقسمتی سے انکے اقدامات، جو باوجودیکہ پرخلوص انداز میں اٹھائے گئے تھے، انقلاب اور عوام دوست ہونے کے بجائے دہشتگردی کے ضمرے میں آتے ہیں۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ غلاف چڑھے فیصلے کرے کہ کون محب وطن ہے اور کون غدار ہے اور ان چیزوں کیلئے لوگوں کو تکالیف کا شکار بنائے جو ان کے خیال میں صحیح یا غلط ہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ سزا یا جزا دینے کی اجارہ داری کے ساتھ خدا کا طرز عمل اپنائے، ان چیزوں کیلئے جو اسے صحیح یا غلط لگتے ہوں، یہ ہوبہو انہی لوگوں کا طرز عمل ہے جو ہمارے حقوق دینے سے انکاری ہیں اور حقوق کیلئے ہماری جدوجہد کی مخالفت کرتے ہیں؛ ہم ان جیسا ہونے کا متحمل نہیں ہوسکتے اور مگر پھر بھی ہم اپنے عوام سے حمایت کی توقع کرتے ہیں چونکہ انہیں ایک بہتر حقِ انتخاب ضرورت ہے نہ کہ محض آقاوں کی تبدیلی کی۔
میں نے اوپر ذکر کیا ہے زندگی میں حقیقت سے انکار کا ایک رجحان موجود ہے جس کے سبب کوئی ایک حقیقت کو دیکھنے یا ماننے سے انکاری ہوتا ہے، اس جھوٹے اطمینان کے احساس کے تحت، شاید اس امید میں کہ اگر میں اسے دیکھنے یا تسلیم کرنے کی کوشش نہ کروں تو یہ خودبخود غائب ہو جائے گی۔ تاہم، حقیقی زندگی ہمارے خیال یا اس کے اعتراف سے مختلف ہے اور اس بات سے قطع نظر کے کہ ہم کیا سوچتے ہیں اس کے نتائج سنگین ہوں گے اگر ہمارے اعمال نے انہیں مدعو کیا ہو۔ یہ امر ضروری ہے کہ وہ تمام لوگ جنکے پاس اختیار ہے یہ جرات رکھتے ہوں اور جب کبھی بھی غلطیاں سرزد ہوں تو انہیں قبول کریں کیونکہ بلوچ حقوق کی جدوجہد ہماری انا کی تسکین نہیں ہے۔ یہ لوگوں کی خدمت اور ان خواہشات اور آرزووں کے حصول سے متعلق ہے جو وہ اپنے لئے اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے چاہتے ہیں۔
اس طرح کے مواقع پر، جہاں ان مضمرات کے سبب جن سے یہ عبورگی عملی لحاظ سے اور جدوجہد کیلئے اس کے نتائج اور جدوجہد کی اخلاقی حیثیت کے حوالے سے، یہ ’باریک سرخ لکیر‘ مزید گہرے معنی اختیار کرلیتی ہے۔ کسی فیصلے کے نقائص اُن اَن کہی اور بے پناہ قربانیوں سے ملے فائدے کا صفایا کر سکتے ہیں جو 27 مارچ 1948ء کے بعد سے بلوچ حقوق کی جدوجہد میں دی گئی ہیں۔ عوام کی قابل قدر حمایت حاصل کرنا بہت مشکل ہے لیکن یہ پلک جھپکتے ہی ختم ہو سکتی ہے جب ایک بار عوام کو یہ محسوس ہونے لگے کہ ان لوگوں، جو دوست ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں، اور دشمنوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
لوگ ہماری ولولہ انگیز بیان بازی پر فیصلے نہیں کرتے۔ وہ ہمارے اعمال اور ہمارے اعمال کے نتائج پر مبنی فیصلے کرتے ہیں۔ ہر فیصلے اور ہر کارروائی کیلئے غور کرنے میں ترجیح عوام کو حاصل ہونی چاہئے کیونکہ عوام کی حمایت کے بغیر سب کچھ برباد ہوجائے گا اور اس میں اب تک دی گئی وہ تمام قربانیاں شامل ہیں جو بہادر شہید کمبر چاکر اوردیگر ہزاروں نے دی ہیں۔

воскресенье, 29 мая 2016 г.

The young dynamic visionary Baloch leader

Nawab Yousif Ali Khan Aziz Magsi
Nawab Yousif Ali Khan Aziz Magsi was born in 1901 in Jal Magsi, Balochistan. His father Nawab Qassir Khan Magsi was the chief of Magsi tribe. He learned his Basic and religious education from Qasi Rasool Buskh. Mulana Gulam Qader of Baulpur taught him Urdu, Persian and Arabic. He became a pupil of Kaniah Lal of Lahore to learn English. Under the guidance of such great teacher of there time Yousif Magsi personality was build, which made him the visionary, revolutionary, freedom loving leader of the Baloch nation.

In early 1920’s with help of his friends like Mir Abdul Aziz Kurd, Yousif Magsi organized “Anjuman-e-Ittehad-e-Balochan” the first political organization of Baloch nation. Anjuman’s aim was to achieve unity among Baloch people and to drive a movement to create an independent Balochistan. In 1929 the famous article of Yousif Magsi, Faryad-e-Balochistan “Wail from Balochistan” was published in a newspaper circulated from Lahore. Because of this article he was arrested and he spend one-year imprisonment in Mastong jail.
Through the effort of the Anjuman Yousif Magsi and his friends convened two All India Baloch conferences. The first was held at Jacobabad on 27th December 1932 and the second one at Hyderabad on November 1933. Delegates from all over Balochistan and India attended these conferences. The aim of the conference was to achieve greater unity among the Baloch people and develop means of protecting their national rights. It adopted several resolutions calling upon the people to be united and work for the unification of the various Baloch regions.
Yousif Magsi and his colleagues in the Anjuman knew the importance of the media’s propaganda in achieving political goals.  For this purpose in 1927 they started a newspaper “Akbar-e-Balochistan”  from Delhi, Nassem Talwi became its editor, when its publication could not continue, they started publishing “Asad” from Lahore.     Anjuman also stated a weekly, Al-Baloch from Karachi under the guidance of Mir Mohammed Hussain Anka. Al-Baloch published an article “An unfulfilled dream” written by Ghulam Mohammed Baloch in its 25th December 1932 issues, in which the author gave a map of Greater Balochistan showing Western Balochistan, Kalat confederacy, leased area under British control and Baloch land in Panjab and Sindh united.

During the campaign to remove the prime Minster of Kalat in 1933 Yousif Magsi wrote a pamphlet “Shamsgradi”  “Tyranny of Shams” in which he criticized the policies of Shams government and demanded constitutional rule and elected representatives in Balochistan. In 1933 he also wrote another pamphlet “Balochistan Ki Awaz” “The voice of Balochistan” which was aimed at apprising the British Parliament of the socio-political condition in Balochistan.
When he became the chief of Magsi tribe he practically implemented his progressive policies in Jal Magsi. He opened an educational institution “Jamiya Yousifa” in Jal. He also build the Karthar canal to improve the irrigation system in his area. To provide health care to his people he build a hospital.
In February 1934 he travelled to England were he tried to mobilise public opinion in support of Balochistan’s independent. During his stay in England he met lawyers and parliamentarian and discussed with them the treaties. He wanted to bring the leased land back into Balochistan fold. On 31st January 1935 he arrived back to Balochistan were he met Khan of Kalat and his other comrades he briefed them about his trip to England and discussed the future course of action. Live did not allowed him to fulfil his unfinished desire of an independent and united Balochistan on 31st May 1935 the earthquake in Quetta not only destroyed the city but also scattered the plans and vision of this dynamic young leader of Baloch nation.

четверг, 19 мая 2016 г.

’تنازعے کے منبعے‘ سے چھٹکارا باعثِ تنازعہ


تحریر: ساجد حسین
ترجمہ: لطیف بلیدی
Nawab Akbar Khan Bugti
مورخہ 26 اگست 2006ء کو پاکستان کی فوج نے ایک ضعیف العمر بلوچ قوم پرست رہنماء اکبر بگٹی کو ہلاک کیا۔ پرویز مشرف کی حکومت نے اسلام آباد اور بلوچستان کے درمیان ”تنازعے کے منبع“ سے چھٹکارا حاصل کرنے پر جشن منایا۔ بلوچوں نے اس عالی مقام بوڑھے شخص کی تمثیلی تصویر کے پوسٹر، جس میں وہ ایک اونٹ پر سوار بلوچستان کے پہاڑوں میں بلوچ گوریلوں کی قیادت کر رہے ہیں، کیساتھ ایک ”ہیرو“ کی موت پر سوگ منایا جو ایک ایسی عمر میں ان کے حقوق کیلئے لڑے جب انہیں ایک پرسکون موت کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔
اگرچہ یہ کوئی پرسکون سوگ نہ تھا۔ مظاہرین نے وہ سب کچھ جلا دیا جو ان کے خیال میں انہیں پاکستان کی یاد دلا سکے۔ بینک۔ اے ٹی ایم مشینیں۔ گورنمنٹ دفاتر۔ اور گاڑیاں۔ ملک کے جھنڈے۔
اگرچہ تقریباً ہر بلوچ نے اس قتل پر کم از کم آنسو کا ایک قطرہ ضرور بہایا، پرتشدد سوگوار زیادہ تر 70 کی دہائی کے بعد پیدا ہونے والے نوجوان تھے، یہ وہ دہائی تھی جب بگٹی نے ایک بلوچ قومپرست بغاوت کو کچلنے میں اسلام آباد کی مدد کی تھی۔
bugti-protest
تمام پرتشدد سوگواران، زیادہ تر طلبا، اور وہ کہ جنہیں پرتشدد طور پر سوگ منانا چاہیے تھا، کیخلاف پولیس نے مقدمات دائر کیے۔ ان میں سے ہزاروں کیخلاف۔ دہشتگردی اور غداری کے مقدمات۔
تین سال بعد، 2009ء میں، جب فوج نے شورش کو کچلنے کیلئے بدنام زمانہ ’مار و اور پھینکو‘ آپریشن کا آغاز کیا تو جن لوگوں نے بگٹی کے قتل کے بعد پرتشدد مظاہرے کیے تھے، پولیس کے ریکارڈ میں موجود ان پرتشدد سوگواران کے ناموں نے اہداف کیلئے ایک فہرست تیار کرنے میں مدد فراہم کی۔
سرکاری افسران ہر تھوڑے عرصے بعد ٹرانسفر ہوتے رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ افسران، جنہوں نے ان نوجوان سوگواران کیخلاف مقدمات درج کیے تھے، جانتے تھے کہ ان کا تشدد ایک آدمی، جنہیں وہ اپنا ہیرو سمجھتے تھے، کے قتل کیخلاف اچانک ردعمل کا نتیجہ تھا، اور دہشتگردی کے الزامات کا مقصد محض انہیں مزید کوئی سوگ منانے سے باز رکھنے کیلئے تھے۔
تاہم، ہو سکتا ہے کہ ان خفیہ ایجنسیوں کے لوگوں کو، جنہیں مارو اور پھینکو آپریشن کیلئے اہداف کی فہرست تیار کرنے کا کام سونپا گیا تھا، ان حقائق سے واقف نہ تھے۔ انہوں نے اس کارروائی کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتایا، حتیٰ کہ پولیس کو بھی نہیں، کہ وہ پاکستان کے دشمنوں کو اٹھا کر لیجانا شروع کریں گے، عقوبت خانوں میں انہیں سزائیں دیں گے، ان کو قتل کریں گے اور ان کی لاشیں پھینکیں گے تاکہ انکے پیاروں کو انکی لاشیں کسی شکاری جانور کے کھائے جانے بعد ملیں۔ انہوں نے پولیس کے ریکارڈ کنگھالے اور وہاں سے انہیں ہزاروں نام ملے جنہوں نے ان کے محبوب ریاست پاکستان کیخلاف ”دہشتگردی“ اور ”غداری“ کی کارروائیوں کا ارتکاب کیا تھا۔ اس سے وہ فہرست بنانا آسان ہوا۔
Baloch Kill and Dump
سن 2009ء سے اور خاص کر 2010ء کے بعد سے، ان ناموں میں سے سینکڑوں کو اس فہرست سے خارج کردیا گیا۔ کوئٹہ کا سفر کرنے والا ایک سیدھا سادہ نوجوان جو تعطیلات کے بعد بولان میڈیکل کالج میں اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرنے جارہا تھا۔ اٹھایا گیا۔ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ قتل کیا گیا۔ پھینک دیا گیا۔ ایک شاعر جو جدید یورپی شاعری پر چھوٹے شاعروں کو تربت میں ایک چائے کے اسٹال میں لیکچر دے رہا تھا۔ اٹھایا گیا۔ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ قتل کیا گیا۔ پھینک دیا گیا۔ اور یہ سلسلہ کئی ماہ اور سال تک جاری رہا۔
اس آپریشن نے سینکڑوں کو ملک سے فرار ہونے اور قریب میں واقع مشرق وسطیٰ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ لیکن ان میں سے اکثر اس کا متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ وہ بلوچ گوریلوں (جو اتنے بھولے نہ تھے کہ شہر کے وسط میں ٹی وی عملے کے سامنے میں پاکستانی پرچم جلاتے) کے محفوظ ٹھکانوں میں پناہ لینے کیلئے پہاڑوں کی طرف بھاگے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ جب مسلح گروہوں نے مفرور افراد کی بھرتی بند کر دی چونکہ ان کے پاس اتنا کھانا نہیں تھا کہ وہ اتنے لوگوں کو کھلا سکیں۔
میں 2013ء میں پہلی مرتبہ متحدہ عرب امارات گیا۔ میں ان سینکڑوں میں سے ایک تھا جو پہلے سے ہی وہاں فرار ہو چکے تھے، ان میں سے چند میرے دوست تھے۔ میں ان سے ملنا چاہتا تھا۔
وہاں تین بائی تین میٹر کے ایک چھوٹے سے کمرے، جس میں ایک چھوٹا سے باورچی خانہ اور ایک چھوٹا سا منسلک غسلخانہ تھا، میں 9 آدمی رہتے تھے۔ پانی اور چائے کیساتھ میری تواضع کے بعد، انہوں نے بلوچستان کے بارے میں سوالات کی بوچھاڑ کردی چونکہ میں ان میں سے کسی کے مقابلے میں حال ہی میں وہاں گیا تھا۔ چند لوگ موسم کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ چند کسی مارے گئے دوست کے بارے میں۔ چند کسی شادی کے بارے میں۔ رستی ہوئی پرانی یادوں کیساتھ سوالات۔
اچانک ان میں سے ایک نے اپنے بائیں بازو میں مسلسل درد کی شکایت کی۔ میرے ایک دوست نے کسی پیشہ ور ڈاکٹر کی طرح درد کے بارے میں اس سے پوچھ گچھ کی۔ وہ بیماری کی بابت اپنی رائے دینے ہی والا تھا کہ ایک اور دوست نے اچانک مداخلت کی۔ اسکے پاس بیماری کے بارے میں ایک اور پیشہ ورانہ رائے تھی۔ وہ کچھ تکنیکی طبی اصطلاحات میں بحث کر رہے تھے کہ کمرے کا ایک اور مستقل رہائشی بحث میں کود پڑا۔
مجھے احساس ہوا کہ اس کمرے میں تین سند یافتہ ڈاکٹر تھے۔ 2006ء میں وہ بولان میڈیکل کالج کے سینئر طالبعلم تھے اور انہوں نے ضرور کچھ چیزیں جلائی ہونگی جب وہ سوگ منا رہے تھے۔ مارو اور پھینکو آپریشن شروع ہونے سے قبل انہیں پہلے ہی سے ان کے ڈاکٹری کی پریکٹس کرنے کے سرٹیفیکیٹ مل چکے تھے۔
وہ اب بیروزگار تھے، وہ ایک امتحان کیلئے تیاری کی کوشش کررہے تھے جس سے انہیں متحدہ عرب امارات میں دواوں کی پریکٹس کرنے کی اجازت مل جاتی۔ میں جانتا تھا کہ اگر وہ اس کی تیاری اس 9 آدمیوں سے آباد کمرے میں کریں گے تو اس امتحان میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔
اس شخص کی بیماری کے علاج کیلئے تینوں ڈاکٹروں کے کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکامی کے بعد، ان میں سے ایک نے کمرے کے ایک رہائشی سے ادھار لیے لیپ ٹاپ کے کیبورڈ پر اپنی ماہرانہ انگلیاں چلائیں اور اپنی متجسس آنکھیں اسکرین پر گاڑ دیں۔ تقریباً 10 منٹ بعد، اس نے مجھے کچھ دکھانے کیلئے اپنے پٹھوں کی طاقت سے میرے باجو میں تھوڑی سی جگہ بنائی۔
وہ سچ مچ ہر اس غیر قانونی راستے کو جانتا تھا جو اسے یورپ لے جا سکتے جہاں وہ سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا۔ اس نے مجھے تمام ممکنہ راستوں کے بارے میں ایک پریزنٹیشن دی، اور اس کے بعد میری رائے پوچھی کہ ان میں سب سے محفوظ ترین راستہ کونسا ہے۔ میں سٹپٹایا ہوا تھا چونکہ میں جغرافیہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ آج، اس کمرے کے تمام کرایہ دار یورپ میں ہیں۔ ماسوائے اس کے۔
اس سال 30 جنوری کو جب فوج نے ایک اور بلوچ قوم پرست رہنماء ڈاکٹر منان بلوچ کو قتل کیا تو بلوچستان کے اندر کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ لیکن یورپ کے تقریباً ہر بڑے ملک اور شمالی امریکہ میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ برطانیہ۔ کینیڈا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ۔ جرمنی۔ سویڈن۔ فرانس۔ اور آسٹریلیا۔
Hammal Haider Baloch_BNM_EU
اپریل میں، یورپی پارلیمنٹ کے درجنوں ارکان نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنماء ہمّل حیدر بلوچ سے ملاقات کی جنہوں نے بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں انہیں بریفنگ دی۔ اس ماہ، انریپریزینٹد نیشنز اینڈ پیپلز آرگنائزیشن (یو این پی او) نے واشنگٹن ڈی سی میں بلوچستان پر دو تقریبات منعقد کیں جہاں امریکی کانگریس ارکان، ارکان سینیٹ، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک سینئر عہدیدار اور صحافیوں نے شرکت کی۔
یو این پی او کے صدر ناصر بلیدی نے مجھے بتایا کہ، ”گزشتہ چند سالوں میں بہت سے بلوچ نوجوان یورپ اور امریکہ آئے ہیں۔ اور وہ اپنے کاز کیلئے لابیئنگ کر رہے ہیں۔ یہ تقریبات انہی کی لابیئنگ کا نتیجہ ہیں۔“
وہ فہرست جو مارو اور پھینکو آپریشن کیلئے خفیہ ایجنسیوں کے لوگوں نے بنائی تھی، اس سے دو مقاصد حاصل ہوئے۔ اول، مسلح گروہوں کیلئے نوجوانوں کی بھرتی آسان ہوگئی۔ دوئم، علیحدگی پسند سیاسی گروہوں کو بین الاقوامی سطح پر اپنے کاز کیلئے لابیئنگ کرنے مدد ملی۔

суббота, 14 мая 2016 г.

haji-abdul-razzaq-baloch-journalits

اِک لاش کا ارتقا


بیس سال کی عمر تھی اور لکھاری بننے کے جذبے سے سرشار میں ہر اس شخص سے ملنے کا شوقین تھا جسکا ادب سے کچھ لینا دینا ہو۔ تو میں ایک آدمی سے ملا۔ 2002ء میں۔
میرا ایک ادبی دوست مجھے لیاری میں اس آدمی کے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں لے گیا جہاں وہ ایک بڑے خاندان کیساتھ رہتا تھا۔ اس نے اردو کی ایک کتاب ’انسان بڑا کیسے بنا‘، بنی نوع انسان کا ارتقا، کا بلوچی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔
لیکن ہماری ادبی بحث شروع ہونے سے قبل میرے دوست اور اس آدمی نے پنکھا بند کردیا اور چرس کا ایک سگریٹ بنانا شروع کیا۔ سگریٹ سلگانے سے قبل انہوں نے چھوٹے سے کمرے کی واحد کھڑکی بند کر دی تاکہ اسکی بو خاندان کے باقی لوگوں کی ناک تک کا سفر نہ کرسکے۔
دو سگریٹ پینے کے بعد، اس آدمی نے اپنے ترجمے کا ایک بہت بڑا مسودہ نکالا اور اس سے پڑھنا شروع کیا۔ انہوں نے ابھی تک پہلا پیرا ہی ختم نہیں کیا تھا کہ میں نے پاگلوں کی طرح ہنسنا شروع کردیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ میں اپنے آپ کو روک نہ سکا اور میری آنتیں میرے منہ سے باہر آنے کو تھیں۔ مجھے کیا ہوگیا تھا؟ میں نے سوچا۔
بلوچی، تحریری شکل میں، نسبتاً ایک نئی زبان ہے۔ اس کتاب کا جو ترجمہ اس شخص نے کیا تھا، وہ علم بشریات کی اصطلاحات سے ہم آہنگ نہیں تھی۔ تو لہٰذا اس نے اپنے بلوچی الفاظ ایجاد کیے تھے۔ عجیب الفاظ۔ لیکن مجھے اس کے سامنے نہیں ہنسنا چاہئے تھا۔ آخر کار میں خود کو ایک مہذب نوجوان سمجھنا پسند کرتا تھا۔
مجھے جلد ہی احساس ہوا کہ میں کمرے میں چاروں طرف پھیلا چرس کا دھواں اپنے پھیپھڑوں میں لے جارہا تھا اور یہی مجھے احمقانہ طور پر ہنسا اور قہقہے لگوا رہا تھا تاہم میں نے کوشش کی کہ نہ ہنسوں۔
اس شخص نے اس واقعے کے بعد اپنا مسودہ کبھی شائع نہیں کیا۔ لیکن ہم ایک طرح سے دوست بن گئے۔
بارہ سال بعد، 2014ء میں، میں ایک برطانوی صحافی کیساتھ رائٹرز کیلئے بلوچ لاپتہ افراد کے بارے میں ایک خصوصی رپورٹ پر کام کر رہا تھا۔ رپورٹ میں تین لاپتہ افراد کی پروفائلز تھیں۔ ان میں سے ایک یہی شخص تھا، حاجی عبد الرزاق سربازی۔
اس وقت وہ ایک مقامی اردو روزنامے کیساتھ ایک پروفریڈر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ ایک رات وہ کام پر گیا اور گھر واپس نہیں لوٹا۔ انہیں سیکورٹی ایجنسیوں نے اٹھا لیا تھا۔ ایک پروفریڈر ہونے کے علاوہ، وہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے ایک رکن تھے جس کے کارکنوں کا اب بھی فوج پیچھا کر رہی ہے۔
مورخہ 21 اگست کو، جب ہم نے پہلے ہی سے اپنی خصوصی رپورٹ اپنے ایڈیٹرز کو بھیج دی تھی، ہم نے سنا کہ رزاق کی لاش کراچی کے سرجانی ٹاون میں سیوریج کے فضلے میں پائی گئی ہے۔
میرے برطانوی ساتھی نے اس افواہ کی تصدیق کیلئے مجھے فون کیا کہ آیا اگر یہ خبر سچی ہے تو شائع ہونے سے قبل ہمیں اپنی رپورٹ پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ میں نے رزاق کی بہن کو فون کیا۔
”ہاں، میرے رشتہ دار ہسپتال میں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ وہی ہے،“ انہوں نے مجھے روتے ہوئے بتایا۔ ”میں خود لاش کو دیکھنے کیلئے ہسپتال جارہی ہوں۔“ انہوں نے یہ کہا اور کال منقطع کردی۔
میں نے سوچا کہ اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔ تو میں نے رپورٹ پر نظر ثانی کرنے کیلئے اپنے برطانوی ساتھی کو بتایا۔
چند گھنٹوں بعد، انہوں نے مجھے فون کیا۔ صرف ایک ہی گھنٹی بجی۔ میں نے انہیں فون کیا۔ ”یہ میرا بھائی نہیں ہے،“ وہ اب بھی رو رہی تھی، لیکن ایک مختلف انداز سے۔
میں نے پوچھا کہ ”تمہیں یقین ہے۔“ میں لندن میں بیٹھے اپنے افسران کو ایک اور غیر مصدقہ رپورٹ نہیں بھیجنا چاہتا تھا۔
”ہاں،“ انہوں نے کہا۔
”کیسے،“ میں جانتا تھا یہ وقت اس طرح کے سوال پوچھنے کا نہیں تھا لیکن ایک ذمہ دار صحافی کے طور پر میری ساکھ داو پر لگی ہوئی تھی۔
”اس لاش کی کھوپڑی بڑی ہے۔ میرا مطلب ہے کہ میرے بھائی کی کھوپڑی بھی بڑی ہے لیکن اس مرے ہوئے شخص کے مقابلے میں تھوڑی چھوٹی ہے،“ انہوں نے وثوق سے کہا۔
میں جانتا تھا کہ مرنے والوں کی شناخت ثابت کرنے کیلئے یہ کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا چونکہ موت کے بعد مرے ہوئے شخص کے چہرے پر سوجن آجاتی ہے۔ اور لاش پرانی تھی جو سرجانی ٹاون میں پھینکے جانے کے کئی دن بعد ملی تھی۔
”تو آپکے رشتہ داروں نے کیونکر سوچا کہ یہ آپ کے بھائی کی لاش ہے؟“ مجھے لازم پوچھنا تھا کیونکہ میں دوبارہ اپنے ایڈیٹرز کو ایک اور غیر مصدقہ رپورٹ قطعی طور پر نہیں بھیجنا چاہتا تھا۔
وہ بہت خوش تھی، اس بات کو باور کرنے کے بعد کہ یہ ان کے بھائی کی لاش نہیں تھی، تو لہٰذا انہیں میرے چبھتے ہوئے سوالات برے نہیں لگ رہے تھے۔
”کیونکہ اس کی قمیض کی جیب میں سے ایک پرچی ملی ہے جس پر حاجی عبدالرزاق لکھا ہوا ہے۔ اسی لئے وہ الجھن میں پڑگئے تھے۔ وہاں ایک اور حاجی عبد الرزاق مری بھی ہے، جو لاپتہ ہے۔ یہ لاش اسکی ہو سکتی ہے۔“
کتنے حاجی عبد الرزاق لاپتہ ہیں؟ میں نے سوچا۔
Haji Abdul Razzak Baloch
چہرہ ناقابل شناخت حد تک مسخ کر دیا گیا تھا۔ لہٰذا لاش کی شناخت کی تصدیق کرنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ماسوائے جو کچھ رزاق کے خاندان والے کہہ رہے تھے۔
میں نے اپنے برطانوی ساتھی سے معافی مانگی کہ میری گزشتہ اطلاع غلط تھی اور خاندان والے کہہ رہے ہیں کہ یہ لاش ان کے حاجی عبد الرزاق کی نہیں ہے۔ انہوں نے بڑی شائستگی سے جواب دیا کہ ہم اس رپورٹ کو اسی طرح شائع کرنے جارہے ہیں۔
جب میں نے سوچا کہ اب میں اس لاش کی شناخت کے حوالے سے گو مگو کی حالت سے نکل چکا ہوں، مجھے رزاق کی بہن کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا، وہ مجھے فون کرنے کو کہہ رہی تھیں۔
وہ میرے ساتھ کوئی کھیل کھیل رہی ہیں؟ لندن میں بیٹھے میرے افسران میری صحافتی مہارت کے بارے میں کیا سوچیں گے؟
”کیا تم نے نہیں کہا تھا کہ اس لاش کی کھوپڑی تمہارے بھائی سے بڑی ہے؟“ میں نے مایوس ہوتے پوچھا۔
”ہاں، لیکن اس کی بیوی نے ان کپڑوں کے ٹکڑوں کی جانچ کی ہے جو اب بھی اس کی لاش پر موجود تھیں۔ یہ وہی کپڑے ہیں جو اس دن اس نے پہنے ہوئے تھے جب اسے اٹھایا گیا تھا۔“
میں چند گھنٹوں تک انتظار کر تا رہا تاکہ وہ ہسپتال سے لاش وصول کرلیں۔ میں کوئی غیر مصدقہ اطلاع بھیجنے والا نہیں تھا۔
انہوں نے لاش وصول کرلی۔ انہوں نے اسے مناسب رسومات کیساتھ دفنا دیا۔ اور ہم نے اپنی رپورٹ تبدیل کرلی۔
لیکن مجھے اب بھی لگتا ہے کہ رزاق کی بہن اور خاندان والے اس شبے کے لمحات سے ضرور گزرے ہونگے کہ جو لاش انہوں نے دفنائی ہے وہ واقعی حاجی عبد الرزاق سربازی کی تھی یا حاجی عبد الرزاق مری کی۔
Here's the handwritten slip found near journalist Abdul Razzaq's body with his name on it.
Here’s the handwritten slip found near journalist Abdul Razzaq’s body with his name on it.
فوج کے لوگ کافی مہربان ہیں کہ وہ پھینکی گئی لاشوں کیساتھ ایک پرچی چھوڑ جاتے ہیں جس پر مقتول کا نام لکھا ہوا ہوتا ہے تاکہ اس کے رشتہ دار اپنے پیاروں کی شناخت بہ آسانی کرلیں اور ان کی تلاش روک لیں۔ یہ احسان کئی سالوں تک بخوبی کام کرتا رہا۔ لیکن اب جبکہ ایک ہی نام کے ایک سے زائد افراد لاپتہ ہیں تو ہمارے مہربان فوجیوں کو چاہیے کہ اب مقتول کے نام سے منسوب ایک تصویر بھی اس پرچی کے ساتھ چھوڑ دیا کریں

понедельник, 2 мая 2016 г.

”کیا نیشنلزم فاشزم ہے؟“


تحریر : میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ : لطیف بلیدی
کراچی میں ’سندھ رائٹرزاینڈ تھنکرز فورم‘ نے حال ہی میں ’نیشنلزم اور انٹرنیشنلزم‘ پر ایک مباحثے کا اہتمام کیا، سندھ میں چھڑی ایک بحث کے بعد جس میں کچھ لوگ فاشزم کا نیشلزم کیساتھ موازنہ کررہے ہیں۔ مجھے دوستوں کی طرف سے مدعو کیا گیا تھا اور میں نے وہاں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ مضمون میری اُس گفتگو پر مبنی ہے۔

Is nationalism fascism?

سندھ میں ایک بحث چھڑی ہوئی ہے جہاں کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ نیشلزم فاشزم کا مترادف ہے اورلبرل ازم حب الوطنی کا۔ اس سے قبل کہ میں آگے بڑھوں، آئیں دیکھتے ہیں کہ فاشزم کیا ہے۔ جب ہم فاشزم کے بارے میں بات کررہے ہوں تو ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ لفظ کہاں سے آیا ہے۔ یہ لاطینی ”Fasci“ (فاشائے) سے آیا ہے جس کے معنی ہیں ’گٹھا‘ اور ”Fascis“ (فاشِس) یا ”fasces“ (فاشیس) جو اسکا صیغہءجمع ہے جسکے معنی ہیں لکڑی کی چھڑیوں کا ایک گٹھا جسکے اوپر کلہاڑی کا پھل ابھرا ہوا ہے، یہ قدیم رومی سلطنت میں مستعمل تھی، جس سے مراد مختلف لوگوں یا قوموں کی جبری یکجائی ہے جیساکہ طاقت ہمیشہ تعداد میں ہوتی ہے یعنی کہ افراد کی تعداد، اسلحہ اور گولہ بارود اور جنگی جہازوں کے بیڑے کیساتھ فوجی طاقت، سیاسی اور قانونی برادری، ثقیف دانشور، وسائل سے بھرپور کاروباری طبقہ، اور سب سے بڑھ کر بین الاقوامی بینکار جو اس فاشسٹ ہستی کو برقرار رکھنے کیلئے اہم ترین عنصر ہے۔ اگرچہ بہت سے ممالک ایسے ہیں جو باضابطہ طور پر ایسے علامات استعمال نہیں کرتے لیکن ان کا طرز عمل خالصتاً فاشسٹ سطور پر استوار ہے۔ ان میں پاکستان، ایران اور ترکی جیسے ممالک شامل ہیں۔ اگر اسے سادہ لفظوں میں بیان کیا جائے تو اس کی سادہ تعریف کچھ یوں ہے: کسی معاشرے کو اس طرز پر منظم کرنا جس میں حکومت ایک آمر کی سربراہی میں ہو جو لوگوں کی زندگیوں پر مکمل اجارہ داری رکھے اور جس میں عوام کو حکومت کیساتھ اختلاف کرنے کی اجازت نہ ہو یعنی کہ انتہائی سخت تسلط یا عملداری والی حکومت۔
اصل بحث پر کچھ کہنے سے قبل میں چاہتا ہوں کہ ارسطو مزید کچھ چیزوں کی وضاحت کریں۔ جب بات ظالموں (پڑھیں ریاستوں) کی ہوتو ارسطو کہتا ہے کہ وہ ایسے طریقے بروئے کار لاتے ہیں جو انہیں لوگوں پر آسانی سے حکومت کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ”ظالم کے تین مقاصد یہ ہیں: اول، اپنے غلاموں کی توہین، وہ جانتا ہے کہ ایک کم ظرف شخص کسی کیخلاف سازش نہیں کرے گا؛ دوم، ان کے درمیان بد اعتمادی پیدا کرنا؛ ایک ظالم کوتب تک اقتدار سے محروم نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ لوگ ایکدوسرے پر اعتماد کرنا شروع نہ کردیں – اور اسی سبب جابر اچھے لوگوں کیخلاف محاذ آراء ہوتے ہیں؛ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں سے انکی طاقت چھننے کا خطرہ ہے، نہ صرف اسلئے کہ اُن پر جابرانہ طرز پر حکومت نہیں کی جاسکتی بلکہ اسلئے کہ وہ ایکدوسرے سے اور دیگر لوگوں سے انتہائی حد تک وفادار ہوتے ہیں، اور ایکدوسرے کیخلاف یا دیگر لوگوں کیخلاف مخبری نہیں کرتے؛ اور سوم، ظالم یہ چاہتا ہے کہ اسکے تمام غلام کسی بھی ممکنہ کارروائی کے قابل نہ ہوں اور کسی ایسے کام کی سعی نہ کرسکیں جوکہ ناممکن ہو اور اگر وہ بے سکت ہوں تو وہ کبھی بھی ظلم کا تختہ الٹنے کی کوشش نہیں کر پائیں گے۔“ -ارسطو (384 قبل مسیح تا 322 قبل مسیح)
لوگوں کو فوج، رینجرز، فرنٹیئر کور، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پولیس کے ہاتھوں جس ذلت کا سامنا ہے وہ مجھے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ سب نے اسے براہ راست دیکھا ہوگا اور اس کا نتیجہ اس طاقت کے آگے، جسکا وہ سامنا کررہے ہوتے ہیں، اپنی خودداری اور خود اعتمادی کھونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ دوئم، بداعتمادی پیدا کرنا ہے اور ایسا وہ لوگوں کے ذہنوں میں ان خیالات کے بارے میں شکوک و شبہات کی بوائی سے کرتے ہیں جن کیلئے وہ جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں؛ مثال کے طور پر ”کیا نیشنلزم فاشزم نہیں ہے۔“ وہ ابہام گوئی اور مغالطہ آمیز حربے بھی استعمال کرتے ہیں، وہ یہاں موجودہ دور کی ناانصافیوں سے توجہ ہٹانے کیلئے ماضی پر زور دیتے ہیں، جیساکہ ٹالپروں کی حکمرانی، جو یہاں پر کچھ لوگوں کیلئے ہدفِ غضب بنا ہوا ہے، تاکہ موجودہ دور کی نا انصافیوں سے توجہ ہٹائی جاسکے۔ جب لوگ منقسم، فریب زدہ اور بدنظمی کی حالت میں ہوں تو انہیں بے اختیار بنانا آسان ہوتا ہے۔ ریاستوں کے ان تینوں مقاصد کی ترویج ہمارے درمیان موجود وہ لوگ کرتے جو ہمارے درمیان نااتفاقی، مایوسی اور انتشار پیدا کرتے ہیں جبکہ بظاہر وہ فلسفیانہ لگتے ہیں۔
اس نئی بحث کا مقصد میرے خیال میں دورُخا ہے۔ پہلا یہ دکھانا ہے کہ آپ ایک ڈیموکریٹ اور لبرل ہیں اور یہ مقبول عام ہوکر ریاست اور بہت سے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کی کفالت مہیا کراتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ پیسہ بہانے سے وہ عوام کی ثقافتی اقدار اور انکے حالات تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس پہلو کو کوئی معاف کرسکتا ہے اور (ارادتاً ابہام گوئی سے) اسکے بارے میں لبرل ہو سکتا ہے۔ اسکا دوسرا پہلو جان لیوا، خطرناک اور مہلک ہے کیونکہ یہ ریاست کی اطاعت گزاری اور غلامی کے اس ایجنڈے سے چشم پوشی کرواتا اور اسے فروغ دیتا ہے جو آپ سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ آپ اسکے آگے اپنے تمام حقوق اور جذبات سے دستبردار ہوجائیں کیونکہ یہ جانتا ہے کہ آپ کیلئے سب سے بہتر کیا ہے اور یہ ان سب چیزوں کو سنبھال سکتا ہے جن پر آپکا انسانی وقار زندہ رہتا، قائم و دائم رہتا اور پنپتا ہے۔ ریاست کا مقصد اور خواہش کبھی بھی آپ کی ضروریات پوری کرنے کا نہیں ہوتا بلکہ مختلف حربوں کے تحت یہ فقط اطاعت گزاری چاہتا ہے اور یہ مخملی دستانے پہنے آہنی ہاتھوں سے کاری ضرب لگاتا ہے۔ وہ لوگ عین یہی کام سرانجام دے رہے ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نیشنلزم فاشزم ہے۔ یقینا نیشنلزم کو جابر کو گالیاں دینے کی حد تک محدود نہیں کیا جانا چاہئے لیکن پھر اس کے ساتھ ساتھ لبرل ازم کو جمہوریت اور افہام و تفہیم کے نام پر ریاستی تشدد کی حمایت کرنے کی بھی آزادی نہیں دی جانی چاہئے۔ آپ محض اس بنیاد پر جاکر ریاست کی حمایت نہیں کرسکتے کہ نیشنلسٹ جماعتیں ویسی نہیں ہیں کہ آپ انکے جسطرح سے ہونے کی خواہش رکھتے ہوں۔ شیخ سعدی کہتے ہیں:
”اگر از جہان، ہما شود معدوم
کس نہ رود زیرِ سایہءبوم
اگر دنیا سے معدوم ہما ہوجاوے
تو کوئی زیرِسایہءاُلّو نہ جاوے“
یہ عذر کہ نیشنلسٹ جماعتیں اتنی اچھی نہیں ہیں تو اس سے فاشسٹ ریاست کی حمایت کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا۔
ریاست اطاعت گزاری کے فروغ کیلئے مختلف آلات اور طریق کار استعمال کرتی ہے اور عناد پر مبنی اسکے منصوبوں کی تعمیل وہ نام نہاد لبرل دانشور بخوبی کرتے ہیں جو قومی آزادی کی جدوجہد کی مذمت کرتے ہیں اور اسے فاشسٹ کہتے ہیں اور اس طرح سے ہمارے خلاف کیا جانیوالا ریاستی تشدد نہ صرف ضروری بلکہ قانونی اور جائز سمجھا جاتا ہے۔ اگر یہ انکا لبرل ازم ہے تو انکا فاشزم کیسا ہو گا؟ بلوچستان، سندھ اور گلگت بلتستان میں ریاستی تشدد کا ارتکاب بالکل انہی بنیادوں پر کیا جارہا ہے اور وہ لوگ جو اس دلیل کو بڑھاوا اور فروغ دیتے ہیں کہ نیشنلزم فاشزم ہے، وہ عوام کیخلاف ریاستی تشدد میں اسکے معاون اور عوام کیخلاف جرائم کے ارتکاب میں برابر کے شریک ہیں۔
یہ ریاست کبھی بھی لوگوں کیلئے نہیں ہوگی۔ بنگلہ دیش اور وہاں بنگالی نیشنلزم کیخلاف ان کا تشدد نظر انداز کیا جاتا ہے اور اسے بھلا دیا گیا ہے کیونکہ اُسوقت بھی ایسے دانشور تھے جنہوں نے تشدد کا ارتکاب کرنے والوں، یعنی فوج، الشمس اور البدر کی حمایت انہی دلیلوں کے تحت کی تھی کہ نیشنلزم فاشزم ہے۔ کیا بنگالی فاشسٹ تھے جب انہوں نے اپنے قومی حقوق کا مطالبہ کیا تھا یا پاکستانی اسٹابلشمنٹ فاشسٹ تھی؟ میرا خیال ہے کہ اس بات کو سمجھنے میں کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ کون کیا تھا۔ کیا بلوچستان اور سندھ میں خودارادیت کے حقوق کا مطالبہ فاشزم ہے؟ میرا ماننا ہے کہ ان کے آزاد ہونے کے حق کا مطالبہ فاشزم نہیں ہے بلکہ قومی خود ارادیت کے حق کو دبانا فاشزم ہے۔
ریاست اور اس کے ارادے اور کردار کے بارے میں میخائل باکونن نے بخوبی اظہار کیا ہے؛ وہ کہتے ہیں کہ ”عوامی زندگی میں … حب الوطنی کے نقطہءنظر سے جب یہ چیزیں ریاست کی عظیم تر شان و شوکت کو بڑھانے اور اس کی طاقت کے تحفظ یا توسیع کیلئے کی جاتی ہیں تو یہ سب کچھ فریضے اور اخلاقی برتری میں بدل جاتے ہیں۔ فقط یہی شے اس بات کو واضح کردیتی ہے کہ قدیم اور جدید ریاستوں کی پوری تاریخ کیونکر محض گھناونے جرائم کا ایک سلسلہ ہے؛ کیونکر تمام ادوار اور تمام ممالک کے ماضی اور حال کے بادشاہوں اور وزیروں، سیاستدانوں، سفارتکاروں، بیوروکریٹس، اور جنگجووں کیساتھ اگر سیدھے سادے ضابطہءاخلاق اور انسانی انصاف کے نقطہءنظر سے انصاف کیا جائے تو وہ ہزار بار سے بھی زائد محنت بامشقت یا پھانسی گھاٹوں کی سزا کے مستحق ہیں۔ وہاں کوئی ایسی دہشتگردی، کوئی ستم گری، بے حرمتی، یا جھوٹی گواہی، کوئی فریبکاری، کوئی بدنام زمانہ خیانت، کوئی حقیر ڈاکہ زنی، کوئی بے باک لوٹ مار یا ذلت آمیز دھوکہ دہی نہ تھی اور نہ ہے جسکا ارتکاب روزانہ ریاستوں کے نمائندوں کی طرف سے نہ کیا جارہا ہو، اور یہ سب کچھ کسی اور عذر کے تحت نہیں بلکہ ان لچکدار الفاظ کے تحت کیے جاتے ہیں جو نہایت موزوں لگتے ہیں مگر پھر بھی انتہائی ہولناک ہیں: یعنی ’ریاست کی خاطر‘۔“ تو کیا نیشنلسٹ فاشسٹ ہیں یا اسٹابلشمنٹ اور اس کے معذرتخواہ؟
آیا ’ریاست کی خاطر‘ جن ہولناکیوں کا ارتکاب اس ریاست نے بنگلا دیش، بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں کیے ہیں وہ ان لبرل دانشوروں کو اس ریاست کی حقیقی روح کو سمجھنے کیلئے کافی نہیں ہیں کہ وہ ان دلائل کیساتھ میدان میں نہ اتریں جن سے ’ریاست کی خاطر‘ عوام کیخلاف تشدد کو فروغ دینے اور جواز فراہم کرنے میں مدد ملتی ہو۔ آیا وہاں کوئی سوجھ بوجھ نہیں ہے جس سے وہ تاریخ یا موجودہ دور کے منظر نامے کو سمجھنے کے قابل ہوں کہ ترجیح عوام کو حاصل ہونی چاہیے نہ کہ ریاست کو۔ لیکن جب ترجیح مادی مفادات ہوں تو عوام کی فلاح و بہبود اور انکے حقوق کا حق جاکر بیکل جھیل میں کود سکتے ہیں جوکہ دنیا کی سب سے گہری جھیل ہے۔
نیشنلزم جو فلسطینیوں کو مستعد رکھتی ہے، ترکی میں کردوں کی اپنے وطن اور اپنے حقوق کی مانگ کو، اور ان کشمیریوں کی بھی، جنکا نہ تو پاکستان اور نہ ہی بھارت کیساتھ کوئی تعلق ہے، تو کیا انہیں بھی فاشسٹ قرار دیا جائے؟ یا پھر نیشنلزم کے فاشزم ہونے کی دلیل یہاں محض بلوچ اور سندھی عوام کے مطالبات تک محدود ہے؟
قومپرستوں کو اکثر تشدد کیلئے مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور ان کی مذمت کی جاتی ہے لیکن جو بات بڑی آسانی سے فراموش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا تشدد اس زیادہ بڑے تشدد کا ردعمل ہوتا ہے جسکا ارتکاب مقتدراوں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ انتفادہ ازخود پیدا نہیں ہوتیں۔ نام نہاد لبرلوں کی طرف سے قومپرستوں کی نہ صرف مذمت کی جاتی ہے بلکہ وہ مستعدی سے ریاست کی جانب سے بروئے کار لائے جانیوالے تشدد کا جواز بھی یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ اگر آپ پر تشدد ہیں تو جواب بھی پرتشدد ہوگا۔ اگر وہ کبھی ریاستی تشدد کی مذمت کر بھی لیں تو وہ انتہائی ملائم اور بزدلانہ پیرایہ میں ہوتا ہے۔ ریاست کے تشدد کو تو ایک غلاف چڑھی منظوری مل جاتی ہے لیکن شدید نکتہ چینی قومپرستوں کے تشدد کیلئے مخصوص کی جاتی ہے۔ ریاستی تشدد کی حمایت کرنے والے تمام افراد انسانیت کیخلاف جرائم میں شریک ہیں اور ریاست کے ساتھ ساتھ وہ بھی فاشسٹ ہیں اور نہ کہ نیشنلسٹ جو اپنے لئے ایک پروقار اور آزادی کی زندگی کے حق کے متلاشی ہیں۔
بعض اوقات لوگوں کی اپنے قومپرست کاز کیلئے دی گئی بڑی قربانیوں کو لبرلوں کی طرف سے ایک حقارت آمیز و باعث ملامت شے بنایا جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک فالتو نقصان ہے۔ کیا ہو چی منھ کی زیر قیادت امریکیوں کیخلاف ویتنامیوں کی دی گئی قربانیاں فالتو تھیں، عمر مختار کی زیر قیادت اٹلی کیخلاف لیبیائی عوام کی دی گئی قربانیاں فالتو تھیں، اسرائیلی قبضے کیخلاف فلسطینیوں کی انتفادہ فالتو تھیں؛ بڑی قربانیوں کے بعد کامیابی حاصل کرنیوالی قومی جدوجہد کی بے شمار مثالیں موجود ہیں؟ فریڈرک نطشے کہتے ہیں کہ، ”اپنے آپ کا مالک بننے کے استحقاق کیلئے کسی بھاری قیمت کی ادائیگی کچھ بھی نہیں۔“ ایک پروقار اور آزاد زندگی کیلئے کوئی بھی قیمت اتنی بڑی نہیں ہے۔ قومی آزادی کی جدوجہد یقینا ”اپنے آپ کا مالک بننے کے استحقاق“ کی جدوجہد ہے۔
قومپرستوں کو اس بات کیلئے بھی تنبیہہ اور نصیحت کی جاتی ہے کہ جو جدوجہد وہ کررہے ہیں اس میں کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ ویتنامیوں سے یہی کہا گیا، بنگالیوں کو بھی یہی سبق دیا جاتا رہا اور بلوچ اور سندھیوں کو بھی یہی کہا جا رہا ہے۔ آئی ایف اسٹون (1907 تا 1989) نے اُن لوگوں کے جذبات اور خیالات کا بڑے شاندار انداز میں اظہار کیا ہے جو جدو جہد کرتے ہیں: ”لڑائی کی صرف وہی قسم لڑنے کے قابل ہے جسے آپ ہار جائیں، کیونکہ کسی نہ کسی کو تو یہ لڑنی ہی ہیں اور ہارنی اور ہارنی اور ہارنی ہیں اور یہاں تک کہ کسی دن، کوئی ایک جسے اتنا ہی یقین ہو جتنا کہ آپ کو ہے، جیت جائے۔ کسی کو آج سے ایک سو سال بعد ایک اہم اور بڑی لڑائی جیتنے کیلئے ضروری ہے کہ دیگر بہت سارے لوگ لڑنے کو تیار ہوجائیں، محض اسکا مزہ لینے اور اس سے لطف اندوز ہونے کیلئے آگے بڑھیں اور لڑیں، یہ جانتے ہوئے کہ آپ ہار جائیں گے۔ آپکو ایک شہید کی طرح محسوس نہیں کرنا چاہئے۔ آپکو اس سے لطف اٹھانے چاہیے۔“ یہ ہمیشہ فتح کی امید ہی ہوتی ہے جو لوگوں کو لڑائی جاری رکھنے پر آمادہ کرتی ہے۔
وہ لوگ جو قومپرستی کی مذمت کرتے ہیں، اسلئے کہ وہ اپنی سرزمین اور اپنے وسائل پر اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہیں، بھول جاتے ہیں جو کچھ فرانٹز فینن اپنی کتاب ’افتادگانِ خاک‘ میں کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”ایک زیرنوآبادیت عوام کیلئے سب سے زیادہ محکم اور اہمیت اور اولیت کی حامل شے، سب سے زیادہ مادی و حقیقی ہونے کے سبب، سب سے پہلے زمین ہے: زمین جو کہ انہیں رزق فراہم کرتی اور سب سے بڑھ کر انہیں قدر و منزلت عطاء کرتی ہے۔“ اپنے وطن کے استحصال اور جبر سے آزاد ہوئے بغیر کوئی قوم وقار اور امن کیساتھ نہیں رہ سکتی۔ دوسرا چارہ اطاعت گزاری اور غلامی کا ہے جس کیلئے ایمینوئل کانٹ کہتے ہیں، ”کوئی خود کو ایک کیڑا بنالے تو بعد میں یہ شکایت نہیں کر سکتا اگر لوگ اسے پیروں تلے روند دیں۔“
ایک مطیع اور اطاعت شعار لبرل، جو وفاقیت اور اس کے تحت قوموں کے اتحاد کے نام پر اپنے حقوق کیلئے لڑنے والے لوگوں کیخلاف ریاستی جبر کی حمایت کرتا ہو، کے بجائے میں ایک فاشسٹ ہونے کو ترجیح دیتا ہوں جو عوام کی قومی آزادی کیلئے ایستادہ ہو۔ یہ ہمیشہ فاشزم ہی ہوتی ہے جسے لبرل قومی آزادی کی مخالفت میں مختلف حیلوں بہانوں اور عذر کے تحت اپناتے ہیں اور قومپرستوں کی فاشسٹ کے طور پر مذمت کرتے ہیں۔ اگر خیر بخش مری، مخدوم بلاول، شیر محمد مری، مجید لانگو، علی شیر کرد، حمید بلوچ، سرائے قربان، بالاچ مری، اکبر خان بگٹی اور وہ تمام لوگ، جو بلوچستان اور سندھ کیلئے جیئے اور مرے ہیں، فاشست تھے یا فاشزم کے حامی تھے تو پھر مجھے فخر ہوگا اگر میرا شمار بھی انہی لوگوں میں کیا جائے۔

пятница, 29 апреля 2016 г.

بلوچ پری بمقابلہ بلوچ جن اور بہت سارے عامل


”تم سبزل سامگی بننا چاہتے ہو؟“ میرے والد میری شاعری کی کتابیں جلانے کی کوشش کرنے سے قبل چلائے۔ میں ان کا غصہ سمجھتا تھا، وہ چاہتے تھے کہ میں اپنی نصابی کتب پر توجہ مرکوز کروں لیکن وہ کیونکر ایسا سمجھتے تھے کہ میں سامگی بننا چاہتا ہوں جنکا شاعری سے کوئی لینا دینا نہیں۔
سامگی بلوچی کے ایک گلوکار ہیں جو طویل عرصے سے اس پیشے سے لاتعلق ہیں۔ جب میرے والد جوان تھے اُسوقت سامگی مقبول ترین گلوکار تھے، کم از کم مکران میں۔ اپنی سیاہ رنگت اور افریقی بالوں کیساتھ لڑکیاں انکا پیچھا ایک راک اسٹار کی طرح کرتی تھیں۔ بلوچ قبائلی نظام میں سب سے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود انہوں نے ایک شاہی قبیلے کی لڑکی سے شادی کی۔
ان کی گلوکاری کے بغیر کسی شادی کی تقریب بہت کم مہمانوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا۔ ان کی پرفارمنس منفرد تھی۔ مخنث رقاص ان کے ہمراہ ہوتے۔ جب سامگی گاتے تو وہ ناچتے اور مہمانوں کیساتھ ناز نخرے کرتے۔
تقریباً تیس سال قبل جب میرے والد جوان تھے تو انہوں نے ایک کچی سڑک پر ادھار لیے موٹر سائیکل پر ایک شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے پانچ میل کا سفر کیا۔ انہیں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ آپکو کسی ایسی شادی کیلئے دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی جہاں سامگی اپنے، عورتوں جیسے کپڑے پہنے، رقاصوں کیساتھ گا رہے ہوتے۔
”روپا، آسیہ، ذرا ہلا بلبل،“ سامگی مائک پر چلاتے جب جب رقاص سست پڑ جاتے اور جب صبح قریب ہوتی اور مہمانوں پر نیند غالب آجاتی۔ سامگی کی اکساہٹ پر تھکے رقاص شادی کی تیز دھنوں والے گانوں پر پھر سے تیز ناچنا شروع کردیتے۔
میرے والد اس رات طلوع آفتاب سے ذرا قبل گھر لوٹے، وہ ہر قدم بڑی احتیاط سے رکھتے تاکہ اپنے خود آموز مُلا والد کو کہیں جگا نہ دیں۔ لیکن وہ جاگ رہے تھے۔ حتیٰ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ پانچ میل دور سامگی کا پروگرام ہے اور ان کا بیٹا یہ موقع نہیں گنوائے گا۔ انہوں نے سونے کا ڈرامہ کیا، اپنے ہاتھ میں مٹی کی ایک ڈلی لیے، اس انتظار میں کہ انکا بیٹا اس ڈلی کی پہنچ میں آجائے۔ جب میرے والد اسکی پہنچ میں آئے تو مٹی کی ڈلی ان کی ٹانگ میں لگی۔ وہ کئی ہفتوں تک لنگڑاتے رہے۔
سامگی بھی ان دنوں کسی بیماری کے باعث لنگڑاتے ہیں، لیکن وہ اسکے علاج کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے۔ کئی سال گزر گئے ہیں کہ انہیں کسی تقریب میں بلایا گیا ہو۔ خدا جانے ان کے مشہور مخنث رقاص کہاں گئے۔ اب بلوچستان میں ان کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
مدرسوں کے تعلیم دیے گئے ملاوں، جنہوں نے کراچی اور پنجاب میں بنیاد پرست مدارس میں کئی سال گزارے ہیں، کی کھمبیوں جیسی افزائش نے چیزیں بدل کر رکھ دی ہیں۔ یہاں تک کہ میرے خود آموز مُلا دادا کو بھی ان سے پریشانی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ”ہر بار تھوڑے عرصے بعد کوئی نہ کوئی اپنی جیب میں بڑی رقم لیے آتا ہے اور میری مسجد کی مرمت کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ جیسا ہے ویسے ہی رہے۔“
یہ رقم سندھ اور پنجاب کے بڑے مدارس سے آتی ہے۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں بسنے والے سینکڑوں ہزاروں بلوچ، خاص طور پر وہ جو مذہبی شیوخ کیساتھ کام کرتے ہیں، مساجد کی تعمیر کیلئے رقم کا بندوبست کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں حتیٰ کہ ایسے مقامات پر بھی جہاں آس پاس کوئی نہیں رہتا۔ ایران کے ہمسایہ بلوچستان کو ایک سلفی گڑھ بنانے کیلئے سعودی عرب سے فنڈ جمع کرنے کا ایک مرکز بحرین ہے۔
اگر بلوچستان کا موازنہ اسکے ہمسایہ ثقافتوں کیساتھ کیا جائے تو یہ نسبتاً ایک سیکولر اور لبرل معاشرہ رہا ہے۔ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل نہیں کیا جاتا تھا۔ اور نہ ہی انہیں اپنے چہرے ڈھکنے پر مجبور کیا جاتا۔ معاشرے پر مذہب کا نہیں بلکہ قبائلی روایات کا راج تھا۔
گانا ہر اہم موقع کا ایک لازمی حصہ رہا ہے۔ کسی بچے کی پیدائش پر۔ بچے کے ختنے پر۔ شادی پر۔ موت پر۔ کسی پیارے کے دور جانے پر۔ مچھلی پکڑنے کے دوران۔ جانوروں کو چرانے کے دوران۔ کسی اونٹ پر سواری کے دوران۔ ہر صنف کا اپنا ایک نام ہے۔
گلوکار اکثر خواتین ہوا کرتیں۔ شرُک ایرانی، ماہرنگ، گُلُک، شریفہ سوتی، گنجان، دُری۔ اب گانا صرف مردوں کے میدان عمل میں آتا ہے۔ کبھی کبھی، کسی دوگانے کیلئے، کسی غیر بلوچ گلوکارہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جسکی بلوچی تلفظ آپکے کانوں میں گدگدی کرنے لگتی ہے۔
فلمساز ڈاکٹر حنیف شریف نے ایک بار مجھ سے کہا کہ ”جب میں کسی فلم کا اسکرپٹ لکھ رہا ہوتا ہوں تو میں یہ بات ذہن میں رکھتا ہوں کہ اس میں کوئی ایسا منظر نہیں ہونا چاہئے جس میں کسی عورت کا ہونا لازمی ہو۔ اگر عورتیں فیس بک پر کوئی تصویر شیئر کرنا چاہیں تو انہیں چہرے والے حصے کو کاٹنا پڑتا ہے۔ کسی فلم میں دکھایا جانا تو دور کی بات ہے۔“
وہ ایک بے حد محتاط فلمساز ہیں۔ وہ اپنا اسکرپٹ اسطرح سے لکھتے ہیں کہ جہاں خواتین کی ضرورت نہ ہو۔ لیکن دیگر کو اپنے آپ پر ہنسنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اپنی فلموں میں وہ کسی آدمی کو عورتوں کے کپڑے پہناتے ہیں اور کیمرے عام طور پر صرف اس کی پیٹھ ہی دیکھ سکتے ہیں۔ کبھی کبھار، جب ایک شوہر اپنی بیوی (جسے اسکرین پر نہیں دکھایا جاتا) کو چائے کا ایک کپ لانے کیلئے بلاتا ہے۔ ”ایک منٹ،“ ایک آواز آتی ہے، جو کسی آدمی کے حلق سے آرہی ہوتی ہے لیکن اسے اتنا بھینچا جاتا ہے کہ وہ ایک عورت کی آواز لگتی ہے۔
ایک فلمساز راشد حسن نے 2013ء میں اپنی فلم بے مراد میں ایک ایرانی خاتون شامل کرنے کی ہمت کی۔ سوشل میڈیا پر انہیں حتیٰ کہ ان لوگوں، جنہیں ”لبرل“ اور ”سیکولر“ کے الفاظ پسند ہیں، کی طرف سے بھی بلوچ ثقافت کو بگاڑنے کیلئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) ان کے حق میں کھڑی ہوئی، لیکن یہ گروہ ان دنوں بہت کمزور ہے کہ کوئی اثر ڈال سکے۔
بائیں بازو کی اقدار پر مبنی بی ایس او کو 1967ء میں قائم کیا گیا، اس نے بلوچوں میں علیحدگی پسند جذبات کو زندہ رکھنے کے علاوہ انتہا پسند اسلام کا مقابلہ کرنے میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر وہ بلوچ جو کبھی بھی کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں پڑھا ہے ایک بار اس تنظیم کا رکن ضرور رہا ہے۔
ایک مرتبہ میرے دادا کو ایک نو بیاہتہ جوان عورت پر سے آسیب نکالنے کیلئے کہا گیا۔ وہ ایسے لوگوں عموماً کسی نفسیات دان کو دکھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن وہ ضد کر رہے تھے، تو وہ اس جوان خاتون سے جن نکالنے کیلئے ان کے ساتھ ہو لیے۔
”چاہے تم کوئی جن ہو یا کوئی پری، اس عورت کے جسم سے فوراً نکل جاو،“ انہوں نے عام بلوچی عاملانہ اظہار میں اسے حکم دیا۔
”ملا! تم میرے ساتھ گڑبڑ کرنے کی ہمت نہ کرنا۔ میں بی ایس او کا صدر ہوں اور میں اس عورت سے محبت کرتا ہوں،“ خاتون نے ایک آسیب زدہ آواز میں جواب دیا۔
Baloch girl
میرے دادا اس نتیجے پر پہنچے کہ اس جوان عورت کی شادی اس کی مرضی کیخلاف کی گئی تھی اور وہ کسی بی ایس او والے سے محبت کرتی تھی۔
بی ایس او کی طاقت ایسی تھی کہ اس کے علیحدگی پسند نعرے شادیوں میں نغموں کے طور پر لگائے جاتے تھے۔ لیکن پاکستان کی حکومت نے اب اس پر پابندی لگا دی ہے۔ چونکہ فوج کی طرف سے علیحدگی پسند بغاوت کو کچلنے کیلئے بلوچ قومپرستوں کیخلاف بدنام زمانہ ’مارو اور پھینک دو‘ والا آپریشن شروع کرنے کے بعد سے اس کے اراکین پکڑے اور مارے جا رہے ہیں۔ یہ گروہ کئی عرصے سے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسٹڈی سرکل لگانے کے قابل نہیں رہا جہاں مارکسی اور قومپرست ادب سکھایا جاتا۔
جب بلوچستان میں کوئی زلزلے آجائے تو بین الاقوامی دہشت گرد گروہ لشکر طیبہ کا خیراتی بازو جماعت الدعوة یا دیگر مذہبی گروہوں کو متاثرین کی امداد کیلئے فوجی پروٹوکول کے تحت لایا جاتا ہے اور بیک وقت ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں جماعت الدعوة نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ صرف انہی کی کوششوں کی بدولت ہے کہ پاکستان کا پرچم اب بھی بلوچستان میں دیکھا جا رہا ہے۔ اور پاکستان کی فوجی اسٹابلشمنٹ، جس نے افغانستان، بھارت اور بلوچستان کیخلاف اپنے اسٹراٹیجک اثاثوں کے طور پر اکثر ان اسلام پسندوں پر انحصار کیا ہے، جانتی ہے کہ اسلام وہ واحد ربط ہے جو بلوچستان کو پاکستان کے باقی حصوں کیساتھ جوڑے رکھ سکتی ہے۔
لیکن بلوچ خاتون گلوکارہ یا اداکارہ کی کمی کیلئے فوجی اسٹابلشمنٹ پر الزام عائد کرنا نامناسب ہے۔ اس کوتاہی کی ذمہ داری رجعت پسندانہ بلوچ قومپرستی اور تھوڑی بہت، کم از کم، پنجابی فلموں میں خواتین اداکاراوں کو ملنے والے ہتک آمیز کردار پر عائد ہوتی ہے۔
جب ایک بار میں نے ایک نوجوان بلوچ قومپرست سے پوچھا کہ وہ خواتین کے گانے اور اداکاری کرنے کے خلاف کیوں ہیں تو انہوں نے مجھ سے کہا، ”کیا ہمیں بھی اسی طرح سے اپنی عورتوں کی توہین کرنے کیا اجازت دے دینی چاہئے جیسا کہ پنجابی فلموں میں ان کیساتھ ہو رہا ہے۔“
چونکہ عورتیں بلوچ ثقافتی منظرنامے سے غائب ہو رہی ہیں، وہ سیاسی محاذ پر ابھر رہی ہیں۔ فوج نے اب تک قومپرست عورتوں کو مارنا شروع نہیں کیا ہے۔ چونکہ بلوچ مرد بھاگ رہے ہیں تو لہٰذا خواتین ان کی جگہ لینے کیلئے تیار ہو رہی ہیں۔ بی ایس او کی تاریخ میں پہلی بار اس کی چیئرپرسن ایک نوجوان خاتون کریمہ بلوچ ہیں۔
میرے دادا جس جوان عورت سے آسیب نکالنے کی کوشش کررہے تھے جس پر مانا جاتا تھا کہ کوئی جن آیا ہوا ہے۔ اگر اگلی بار انہیں کسی جوان مرد پر سے آسیب نکالنے کیلئے مدعو کیا جائے تو یہ کوئی پری ہو سکتی ہے۔