Powered By Blogger

четверг, 19 мая 2016 г.

’تنازعے کے منبعے‘ سے چھٹکارا باعثِ تنازعہ


تحریر: ساجد حسین
ترجمہ: لطیف بلیدی
Nawab Akbar Khan Bugti
مورخہ 26 اگست 2006ء کو پاکستان کی فوج نے ایک ضعیف العمر بلوچ قوم پرست رہنماء اکبر بگٹی کو ہلاک کیا۔ پرویز مشرف کی حکومت نے اسلام آباد اور بلوچستان کے درمیان ”تنازعے کے منبع“ سے چھٹکارا حاصل کرنے پر جشن منایا۔ بلوچوں نے اس عالی مقام بوڑھے شخص کی تمثیلی تصویر کے پوسٹر، جس میں وہ ایک اونٹ پر سوار بلوچستان کے پہاڑوں میں بلوچ گوریلوں کی قیادت کر رہے ہیں، کیساتھ ایک ”ہیرو“ کی موت پر سوگ منایا جو ایک ایسی عمر میں ان کے حقوق کیلئے لڑے جب انہیں ایک پرسکون موت کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔
اگرچہ یہ کوئی پرسکون سوگ نہ تھا۔ مظاہرین نے وہ سب کچھ جلا دیا جو ان کے خیال میں انہیں پاکستان کی یاد دلا سکے۔ بینک۔ اے ٹی ایم مشینیں۔ گورنمنٹ دفاتر۔ اور گاڑیاں۔ ملک کے جھنڈے۔
اگرچہ تقریباً ہر بلوچ نے اس قتل پر کم از کم آنسو کا ایک قطرہ ضرور بہایا، پرتشدد سوگوار زیادہ تر 70 کی دہائی کے بعد پیدا ہونے والے نوجوان تھے، یہ وہ دہائی تھی جب بگٹی نے ایک بلوچ قومپرست بغاوت کو کچلنے میں اسلام آباد کی مدد کی تھی۔
bugti-protest
تمام پرتشدد سوگواران، زیادہ تر طلبا، اور وہ کہ جنہیں پرتشدد طور پر سوگ منانا چاہیے تھا، کیخلاف پولیس نے مقدمات دائر کیے۔ ان میں سے ہزاروں کیخلاف۔ دہشتگردی اور غداری کے مقدمات۔
تین سال بعد، 2009ء میں، جب فوج نے شورش کو کچلنے کیلئے بدنام زمانہ ’مار و اور پھینکو‘ آپریشن کا آغاز کیا تو جن لوگوں نے بگٹی کے قتل کے بعد پرتشدد مظاہرے کیے تھے، پولیس کے ریکارڈ میں موجود ان پرتشدد سوگواران کے ناموں نے اہداف کیلئے ایک فہرست تیار کرنے میں مدد فراہم کی۔
سرکاری افسران ہر تھوڑے عرصے بعد ٹرانسفر ہوتے رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ افسران، جنہوں نے ان نوجوان سوگواران کیخلاف مقدمات درج کیے تھے، جانتے تھے کہ ان کا تشدد ایک آدمی، جنہیں وہ اپنا ہیرو سمجھتے تھے، کے قتل کیخلاف اچانک ردعمل کا نتیجہ تھا، اور دہشتگردی کے الزامات کا مقصد محض انہیں مزید کوئی سوگ منانے سے باز رکھنے کیلئے تھے۔
تاہم، ہو سکتا ہے کہ ان خفیہ ایجنسیوں کے لوگوں کو، جنہیں مارو اور پھینکو آپریشن کیلئے اہداف کی فہرست تیار کرنے کا کام سونپا گیا تھا، ان حقائق سے واقف نہ تھے۔ انہوں نے اس کارروائی کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتایا، حتیٰ کہ پولیس کو بھی نہیں، کہ وہ پاکستان کے دشمنوں کو اٹھا کر لیجانا شروع کریں گے، عقوبت خانوں میں انہیں سزائیں دیں گے، ان کو قتل کریں گے اور ان کی لاشیں پھینکیں گے تاکہ انکے پیاروں کو انکی لاشیں کسی شکاری جانور کے کھائے جانے بعد ملیں۔ انہوں نے پولیس کے ریکارڈ کنگھالے اور وہاں سے انہیں ہزاروں نام ملے جنہوں نے ان کے محبوب ریاست پاکستان کیخلاف ”دہشتگردی“ اور ”غداری“ کی کارروائیوں کا ارتکاب کیا تھا۔ اس سے وہ فہرست بنانا آسان ہوا۔
Baloch Kill and Dump
سن 2009ء سے اور خاص کر 2010ء کے بعد سے، ان ناموں میں سے سینکڑوں کو اس فہرست سے خارج کردیا گیا۔ کوئٹہ کا سفر کرنے والا ایک سیدھا سادہ نوجوان جو تعطیلات کے بعد بولان میڈیکل کالج میں اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرنے جارہا تھا۔ اٹھایا گیا۔ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ قتل کیا گیا۔ پھینک دیا گیا۔ ایک شاعر جو جدید یورپی شاعری پر چھوٹے شاعروں کو تربت میں ایک چائے کے اسٹال میں لیکچر دے رہا تھا۔ اٹھایا گیا۔ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ قتل کیا گیا۔ پھینک دیا گیا۔ اور یہ سلسلہ کئی ماہ اور سال تک جاری رہا۔
اس آپریشن نے سینکڑوں کو ملک سے فرار ہونے اور قریب میں واقع مشرق وسطیٰ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ لیکن ان میں سے اکثر اس کا متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ وہ بلوچ گوریلوں (جو اتنے بھولے نہ تھے کہ شہر کے وسط میں ٹی وی عملے کے سامنے میں پاکستانی پرچم جلاتے) کے محفوظ ٹھکانوں میں پناہ لینے کیلئے پہاڑوں کی طرف بھاگے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ جب مسلح گروہوں نے مفرور افراد کی بھرتی بند کر دی چونکہ ان کے پاس اتنا کھانا نہیں تھا کہ وہ اتنے لوگوں کو کھلا سکیں۔
میں 2013ء میں پہلی مرتبہ متحدہ عرب امارات گیا۔ میں ان سینکڑوں میں سے ایک تھا جو پہلے سے ہی وہاں فرار ہو چکے تھے، ان میں سے چند میرے دوست تھے۔ میں ان سے ملنا چاہتا تھا۔
وہاں تین بائی تین میٹر کے ایک چھوٹے سے کمرے، جس میں ایک چھوٹا سے باورچی خانہ اور ایک چھوٹا سا منسلک غسلخانہ تھا، میں 9 آدمی رہتے تھے۔ پانی اور چائے کیساتھ میری تواضع کے بعد، انہوں نے بلوچستان کے بارے میں سوالات کی بوچھاڑ کردی چونکہ میں ان میں سے کسی کے مقابلے میں حال ہی میں وہاں گیا تھا۔ چند لوگ موسم کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ چند کسی مارے گئے دوست کے بارے میں۔ چند کسی شادی کے بارے میں۔ رستی ہوئی پرانی یادوں کیساتھ سوالات۔
اچانک ان میں سے ایک نے اپنے بائیں بازو میں مسلسل درد کی شکایت کی۔ میرے ایک دوست نے کسی پیشہ ور ڈاکٹر کی طرح درد کے بارے میں اس سے پوچھ گچھ کی۔ وہ بیماری کی بابت اپنی رائے دینے ہی والا تھا کہ ایک اور دوست نے اچانک مداخلت کی۔ اسکے پاس بیماری کے بارے میں ایک اور پیشہ ورانہ رائے تھی۔ وہ کچھ تکنیکی طبی اصطلاحات میں بحث کر رہے تھے کہ کمرے کا ایک اور مستقل رہائشی بحث میں کود پڑا۔
مجھے احساس ہوا کہ اس کمرے میں تین سند یافتہ ڈاکٹر تھے۔ 2006ء میں وہ بولان میڈیکل کالج کے سینئر طالبعلم تھے اور انہوں نے ضرور کچھ چیزیں جلائی ہونگی جب وہ سوگ منا رہے تھے۔ مارو اور پھینکو آپریشن شروع ہونے سے قبل انہیں پہلے ہی سے ان کے ڈاکٹری کی پریکٹس کرنے کے سرٹیفیکیٹ مل چکے تھے۔
وہ اب بیروزگار تھے، وہ ایک امتحان کیلئے تیاری کی کوشش کررہے تھے جس سے انہیں متحدہ عرب امارات میں دواوں کی پریکٹس کرنے کی اجازت مل جاتی۔ میں جانتا تھا کہ اگر وہ اس کی تیاری اس 9 آدمیوں سے آباد کمرے میں کریں گے تو اس امتحان میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔
اس شخص کی بیماری کے علاج کیلئے تینوں ڈاکٹروں کے کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکامی کے بعد، ان میں سے ایک نے کمرے کے ایک رہائشی سے ادھار لیے لیپ ٹاپ کے کیبورڈ پر اپنی ماہرانہ انگلیاں چلائیں اور اپنی متجسس آنکھیں اسکرین پر گاڑ دیں۔ تقریباً 10 منٹ بعد، اس نے مجھے کچھ دکھانے کیلئے اپنے پٹھوں کی طاقت سے میرے باجو میں تھوڑی سی جگہ بنائی۔
وہ سچ مچ ہر اس غیر قانونی راستے کو جانتا تھا جو اسے یورپ لے جا سکتے جہاں وہ سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا۔ اس نے مجھے تمام ممکنہ راستوں کے بارے میں ایک پریزنٹیشن دی، اور اس کے بعد میری رائے پوچھی کہ ان میں سب سے محفوظ ترین راستہ کونسا ہے۔ میں سٹپٹایا ہوا تھا چونکہ میں جغرافیہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ آج، اس کمرے کے تمام کرایہ دار یورپ میں ہیں۔ ماسوائے اس کے۔
اس سال 30 جنوری کو جب فوج نے ایک اور بلوچ قوم پرست رہنماء ڈاکٹر منان بلوچ کو قتل کیا تو بلوچستان کے اندر کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ لیکن یورپ کے تقریباً ہر بڑے ملک اور شمالی امریکہ میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ برطانیہ۔ کینیڈا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ۔ جرمنی۔ سویڈن۔ فرانس۔ اور آسٹریلیا۔
Hammal Haider Baloch_BNM_EU
اپریل میں، یورپی پارلیمنٹ کے درجنوں ارکان نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنماء ہمّل حیدر بلوچ سے ملاقات کی جنہوں نے بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں انہیں بریفنگ دی۔ اس ماہ، انریپریزینٹد نیشنز اینڈ پیپلز آرگنائزیشن (یو این پی او) نے واشنگٹن ڈی سی میں بلوچستان پر دو تقریبات منعقد کیں جہاں امریکی کانگریس ارکان، ارکان سینیٹ، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک سینئر عہدیدار اور صحافیوں نے شرکت کی۔
یو این پی او کے صدر ناصر بلیدی نے مجھے بتایا کہ، ”گزشتہ چند سالوں میں بہت سے بلوچ نوجوان یورپ اور امریکہ آئے ہیں۔ اور وہ اپنے کاز کیلئے لابیئنگ کر رہے ہیں۔ یہ تقریبات انہی کی لابیئنگ کا نتیجہ ہیں۔“
وہ فہرست جو مارو اور پھینکو آپریشن کیلئے خفیہ ایجنسیوں کے لوگوں نے بنائی تھی، اس سے دو مقاصد حاصل ہوئے۔ اول، مسلح گروہوں کیلئے نوجوانوں کی بھرتی آسان ہوگئی۔ دوئم، علیحدگی پسند سیاسی گروہوں کو بین الاقوامی سطح پر اپنے کاز کیلئے لابیئنگ کرنے مدد ملی۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий