Powered By Blogger

понедельник, 29 декабря 2014 г.

دل گشیت ھچ مہ لکھ... بلے برے برے جزبات سررچ انت.. دل 

گشیت چزی بگش... اے مرد ءُ ہرکس زانت

ہرکس سرپد انت... بلے سد ہزار افسوز کہ انگت لہتیں مردم است 

گشنت اے مرد ہراب انت..

ھو راست گشنت اے مرد ھراب انت.. سک ھراب انت... پرچا کہ 

اے مرد لندن ءَ نہ نشتگ..

اے مرد ءَ ماتیں گلزمین کوہ ءُ دمگ وتی ھنکین کتگ انت..

اے مرد ھراب انت کہ اے مرسیڈیز بنز.. رولز رائز.. فراری.. ءَ سوار 

نہ 

انت..

اے بلوچ ءِ اولاک اشتر ءَ سوار انت یا پیدل انت..

اے مرد ھراب انت.. کہ ایشی تری پیس سوٹ گوْرا نہ انت..
ایشی ءَ وتی بلوچی پوشاک گوْرا انت..
اے ھراب انت کہ اے نرمیں گندل ءُ پلنگانی سرا نہ وپتگ..
اے یک کمبلے ءَ ڈوک ڈلانی تھا وپتگ...

اے ھراب کہ فاسٹ فوڈ.. بار بی کیو.. میکڈونلڈ.. کنتاکی نہ وارت..
اے ناشتہ ءَ سِرتگیں نان ءُ چاہ وارت..
اے ھراب انت سک ھراب انت.. سک ھراب انت..

воскресенье, 28 декабря 2014 г.

بلوچ ریپبلکن پارٹی کے قائد اور بلوچ قومی رہنما نواب براہمداغ بگٹی کا ’’کشک‘‘ سے خصوصی انٹرویو


کشک: بی آر ایس او بلوچ ری پبلکن پارٹی کا اسٹوڈنٹ ونگ ہے اور بی آر پی کے مر کز نے بی آر ایس او کو خود مختار رکھا ہے لیکن دوسرے آزادی پسند پارٹیوں اور
تنظیموں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ بی آر ایس او بلوچ ری پبلکن پارٹی کا ونگ ہونے کے ساتھ ساتھ خود مختار نہیں، اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں؟

نواب براہمداغ بگٹی: بی آر ایس او کا بی آر پی سے نزدیکی ضرور ہے لیکن مرکزی کابینہ اور زونل ڈھانچوں سمیت ان کے اپنے ادارے موجود ہیں جو اپنے تمام تر تنظیمی فیصلے کرنے میں پوری طرح آزاد ہیں۔ جہاں تک ہم آہنگی اور باہمی روابط کا تعلق ہے تو بی آر پی کے بی آر ایس او سمیت تمام آزادی پسند سیاسی جماعتوں اور طلبا تنظیموں کے ساتھ تعلقات ہیں جو کہ ہماری نظر میں ایک مثبت عمل ہے۔

کشک: کیا بلوچ قومی اتحاد بلوچ نیشنل فرنٹ کی بحالی کے لیے اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں؟ اگر ہاں تو اس بارے میں قوم کو حقیقت سے آگا ہ کیوں نہیں کیا جا رہا کہ اتحاد کی بحالی میں کونسی رکاوٹوں کا سامنا ہے؟

نواب براہمداغ بگٹی: قومی اتحاد کے لئے بی آر پی ہر ممکن اقدامات اٹھارہی ہے اور ہماری کوشش ہے کہ جلد از جلد قومی اتحاد کو تنظیمی شکل دیتے ہوئے جہد کو تیز تر کیا جائے لیکن یہ بات باہمی صلح مشورہ سے ہی طے پائیگی کہ بی این ایف کو بحال کیا جائے یا اس سے ایک بہتر تنظیمی ادارہ قائم کیا جائے جس میں شامل تمام جماعتیں اور تنظیمیں نا صرف قومی یکجہتی کو پروان چڑھائیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ادارے کے قوانین کی پاسداری کریں اور قومی اتحاد کو ماضی کی طرح ذاتی اورگروہی مفادات کی نظر ہونے سے بچائیں۔ جہاں تک رکاوٹوں کی بات ہے تو بالکل مشکلات کا سامنا ضرور ہے جس میں ریاست کی جانب سے بڑھتی ہوئی جارحیت اور سیاسی کارکنوں کی اغواہ نما گرفتاریاں اور ان کو شہید کرنا شامل ہیں۔جس طرح ریاست کی جانب سے بلوچستان میں سرفیس سیاست کو نا ممکن بنادیا گیا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک منظم، مظبوط اور موثر عملی اتحاد کی تشکیل کے لئے کتنے مسائل کا سامنا کرنا پرسکتا ہے لیکن ہم پھربھی بہت پرامید ہیں ۔ 

کشک: اگر بی آر پی ، بی این ایف میں شامل ہوتی ہے تو ایسے میں بی آر ایس او کو الگ حیثیت دی جائیگی یا نہیں؟

نواب براہمداغ بگٹی: جہاں تک بی آر پی کی موقف کا تعلق ہے تو آزادی پسند سیاسی جماعتوں اور دیگر تنظیموں کی جانب سے جو بھی اتحاد قائم کی جائیگی، اس میں شامل تمام جماعتوں کی الگ حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لہذا بی آر ایس او ہو یا پھر بی ایس او (آزاد) ان کی الگ تنظیمی حیثیت کو ساتھ لیکر ہی معاملات کو آگے لیکر جایا جائیگا۔

کشک: بی آر ایس او کے سینیئر دوستوں نے بی ایس او آزاد کے مرکزی دوستوں سے رابطے کیے تھے جس میں بی ایس او آزاد کے دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر بی آر پی پھر سے بی این ایف میں شمولیت اختیار کرتی ہے تو بی آر پی اور بی آر ایس اودونوں کو کل ملاکے5 نمائندے بی این ایف میں دیے جائینگے جبکہ بی ایس او آزاد اور بی این ایم کے پانچ پانچ نمائندے ہونگے ۔تو کیا ایسے میں بی آر پی اور بی آر ایس او کی حیثیت ان سے کم نہیں ہوگی؟

نواب براہمداغ بگٹی: میرے خیال میں میں نے آپ کے اس سوال کا جواب بھی پچھلے جواب میں ہی دے دیا ہے۔ اگر بی آر پی ، بی این ایم ، بی آر ایس او، بی ایس او (آزاد) یا پھر جو بھی آجوئی پسند سیاسی جماعت یا تنظیم قومی اتحاد کا حصہ بنے گی تو اسے بھی اتنی ہی نمائندگی ملنی چاہئے جتنا کا ان میں سے کسی ایک کو ملے گی۔

کشک: کیا سنگل پارٹی کے حوالے سے اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں ، اگر ہاں تو کیا بی این ایف میں شمولیت کے بعد بلوچ سنگل پارٹی کے لیے راہ ہموار کی جائیگی یا نہیں اور اگر کی جائیگی تو کیا بی این یف میں شامل بی این ایم، بی آر پی، بی آر ایس او اور بی ایس او آزاد اپنے پارٹی اور تنظیموں کے ڈھانچے کوختم کر کہ نئے پارٹی کا قیام عمل میں لانے کے لیے تیار ہونگے جس میں یہ تمام پارٹی اور تنظیمیں ایک پارٹی اور ایک تنظیم ہوکر اپنی جدوجہد کو جاری رکھے؟

نواب براہمداغ بگٹی: دیکھیں ہم ایک قومی یکجہتی کی بات کرتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں ہماری طاقت پارٹیوں اور تنظیموں میں بٹنے کی بجائے متحد اور موثر ہو چاہے اس یکجہتی کی صورت ایک قومی الائینس کی شکل میں ممکن ہو یا پھر ایک سنگل پارٹی کی تشکیل سے۔ بی آر پی، بی این ایم، بی آر ایس او اور بی ایس او (آزاد) یہ سب جماعتیں پاکستانی قبضہ گیریت کے خاتمے اور ایک آزاد بلوچ ریاست کے حصول کے موقف بغیر کسی شرط کے متفق ہیں اور کم و بیش طریقہ کار میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ہے لیکن چونکہ ان کی طاقت ایک ساتھ نہیں ہے جس کی وجہ سے قومی تحریک اتنی منظم اور موثر نہیں ہے کہ جتنی ہونی چاہیئے لہذا ہماری کوشش یہی ہے کہ اس طاقت کو منظم کیا جائے اور جہد آجوئی میں یکجہتی کو پروان چڑھاتے ہوئے منزل کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے۔

کشک: ریاست کی طرف سے بلوچ قوم کو تعلیم سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے مکران میں اسکولوں کو نذر آتش کیا جارہا ہے اساتذہ کو ڈیتھ اسکواڈز کی طرف سے دھمکیا دی جا رہی ہیں اس حوالے سے بی آر پی کی پالیسی کیا ہے؟

نواب براہمداغ بگٹی: بی آر پی ایک آزاد بلوچ ریاست کے ساتھ ساتھ ایک خوشحال بلوچ معاشعرے کی تشکیل کو یقینی بنانے کے لئے جدوجہد کررہی ہے جو کہ ہمارے پارٹی آئین و منشور کے بنیادی نقات ہیں۔ ظاہر ہے ایک خوشحال معاشرے کے قیام میں تعلیم ہی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم ہی قوموں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر کامیابیوں کی اونچائی تک پہنچادیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قابض ریاست بلوچ قوم کی جسمانی نسل کشی کے ساتھ ساتھ ان کی علمی نسل کشی بھی کررہی ہے تاکہ اسے تعلیم سے دور کیا جاسکے جس کا مقصد ہی یہی ہے کہ بلوچ قوم اپنی تشخص، تاریخ ، زبان اور ثقافت سے دور ہوتا جائے اور اسی طرح اسے ابدی غلامی کے اندھیروں میں جھونک دیا جائے لیکن بلوچ قوم میں اتنی شعور موجود ہے کہ وہ ریاست کی ان گھناؤنی سازشوں کا سامنا کرسکے۔ بی آر پی بحیثیت ایک قومی جماعت کے ناصرف بلوچ قوم میں تعلیم کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بلوچ قوم کی جسمانی نسل کشی کے ساتھ ساتھ علمی نسل کشی پر بھی آواز اٹھاتی ہے۔

کشک: بلوچستان کی آزادی سے پہلے آزاد بلوچستان کے جھنڈے کو منتخب کرنا شائد ممکن نہیں لیکن کچھ حلقوں میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ بی آر پی نے آزاد بلوچستان کے جھنڈے کو اپنا پارٹی جھنڈا بنا دیا ہے اس حوالے سے قوم کو آگا کرینگے؟

نواب براہمداغ بگٹی: اس وقت بلوچستان پاکستان کی جبری قبضہ میں ہے اور بلوچ قوم اپنی بقاء کی جدوجہد کررہی ہے۔ آزاد بلوچستان کے جھنڈے کے ساتھ ساتھ قومی ترانے کا ذکربھی کیا جاتا ہے حالانکہ یہ صرف علامتی چیزیں ہیں چاہے وہ آزاد بلوچستان کا پرچم ہو یا پر قومی ترانہ، ان کو حتمی صورت دینے کے لئے قوم کی نمائندہ جماعتوں کا متفق ہونا ضروری ہے ۔ لہذا یہ کہنا کہ بی آر پی کی جانب سے آزاد بلوچستان کے پرچم کو پارٹی پرچم بنادیا ہے غلط ہے۔ لیکن یہ ایک علامتی پرچم ضرور ہے اور بی آر پی کی جانب سے اس کو اپنانے کے عمل کو مثبت طریقے سے دیکھنا چاہئے۔


کشک: غلامی کو دوام دینے کیلئے پاکستان و ایران ہر طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں،جیسے حالیہ وقتوں میں فرقہ ورانہ فسادات ،ہندو،ذگری،سنی وغیرہ،اس باریں میں آپ کی کیا حکمت عملی ہے؟

نواب براہمداغ بگٹی: تاریخ بتاتی ہے کہ بلوچ قوم ہمیشہ سے مذہبی انتہاپسندی، دہشتگردی اور فرقہ وارانہ فسادات سے پاک رہی ہے لیکن پاکستان کی قبضہ گیریت کے بعد بلوچ قو م کو قابض کی جانب سے ملنے کئی تحائف میں سے یہ بھی شامل ہیں۔ظاہرہے پاکستان کو بلوچستان درکار ہے اور اس کے لئے اس کو بلوچوں سے جان چھڑانا مقصود ہے لہذا وہ ریاستی بربریت، نسل کشی، علم کشی اور دوسرے مظالم کے ساتھ ساتھ مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشتگردی جیسے برائیوں سے بلوچ معاشرے کو آلودہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بلوچ قومی جہد آجوئی میں اس طرح کی کوئی تفریق موجود نہیں ہے۔ ہماری نظر میں مذہب انسان کا ایک ذاتی معاملہ ہے اور ایک عام بلوچ کو اپنے مذہبی عقیدہ چننے اور اس پر آزادی سے عمل کرنے کا پورا حق ہے جو کہ یقیناًایک آزاد بلوچ ریاست کے قیام سے ہی ممکن ہے۔

کشک: تحریکِ آزادی کے بارے میں بلوچ قوم کو آگا کرنے کے لیے بلوچ قوم کا اپنا میڈیا ہونا بہت ضروری ہے کیا آپ نہیں سوچتے کہ انٹرنیشنلی بلوچ قوم کا اپنا ایک ٹی چینل ہونا چایئے تاکہ وہ بلوچ جو سوشل میڈسے دور ہیں بلوچستان کی صورتِ حال سے بخوبی واقف ہوں ؟اگرہاں تو اب تک اس پر کام کیوں نہیں کیا گیا؟

نواب براہمداغ بگٹی: بالکل ہونا چاہئے، ناصرف ٹی وی چینل بلکہ ٹی وی ، ریڈیو اور معلومات سے رسائی کے وہ تمام ذرائع ہونے چاہئے کہ جن کی مدد سے بلوچ قوم نہ صرف اپنے جدوجہد سے جڑی رہے بلکہ بین الاقوامی سیاست اور دنیا میں بدلتے ہوئے حالات و واقعات اور ان کے بلو چ جہد آزادی پر پڑنے والی اثرات سے براہ راست معلومات رکھے ۔ جس طرح پاکستانی میڈیا نے بلوچستان کے حالات کے بارے میں عالمی برادری کو اندھیرے میں رکھا ہوا ہے تو ایسے میں بلوچ قومی میڈیا کا ہونا ایک انتہائی خوش آئند عمل ہوگا لیکن ظاہر ہے اس کے راستے میں بھی کئی رکاوٹیں موجود ہیں۔ جس میں ریاست کی بلو چ کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ محدود وسائل سرفہرست ہیں۔ لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں جس طرح بی آر پی سمیت دیگر بلوچ سیاسی کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرتے ہوئے بلوچستان میں جاری ریاستی بربریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا جارہا ہے اور بلوچستان کو براہ راست بین الاقوامی دنیا سے کنیکٹ کیا جارہا ہے، یہ یقیناًایک اہم اور قابل تعریف عمل ہے۔

کشک: کراچی میں بلوچ آبادی والے علاقوں میں بلوچ قوم کی نسل کشی بے دردی سے جاری ہے کیا بی آرپی کراچی میں آباد بلوچوں کو متحد کر کے تحریکِ آزادی میں شامل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے؟

نواب براہمداغ بگٹی: بی آر پی ایک بلوچ قومی آزادی پسند جماعت ہے اور یقیناًبلوچستان سمیت کراچی اور دیگر علاقوں اور پوری دنیا میں مقیم بلوچوں میں قومی تحریک کے بارے میں شعوری بیداری پیدا کرکے انہیں تحریک میں نہ صرف شامل کرنا بلکہ منظم طریقے سے متحرک کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے اور میرے خیال میں کراچی کے بلوچ اس وقت آزادی کی تحریک میں کسی طرح پیچھے نہیں ہیں جیسے کہ آئے روز بلوچستان میں ریاستی مظالم کے خلاف آواز اٹھانا اور ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں کی صورت میں ایک سیاسی انداز میں اپنا کردار بھی ادا کررہے ہیں البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادی پسند سیاسی جماعتوں کو مزید کا م کرنے کی ضرورت ہے۔

کشک: کر د وں نے خود کو آج دنیا کے سامنے ایک قوم کی حیثیت سے منوادی ہے اور کافی حدتک کامیابیاں بھی حاصل کیں ہیں ، انکی جہدِ آزادی اور بلوچ قوم کی جہدِ آزادی تقریباََ یکسا ں ہیں تو بلوچ کیوں اب تک خود کو دنیا کے سامنے نہیں منوا سکیں؟

نواب براہمداغ بگٹی: کرد وں اور بلوچوں کی قومی تحریکوں میں یکسانیت ضرور موجود ہے لیکن ان میں بہت سی نمایاں تبدیلیاں بھی ہیں جیسا کہ بین الاقوامی سطح پر کرد ڈیاسپورہ کا متحرک کردار اور تحریک میں خواتین کی مردوں کے شانہ بہ شانہ شمولیت قابل ذکر ہیں۔ گو کہ حالیہ تحریک میں بلوچ خواتیں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں جو کہ ایک نہایت مثبت چیز ہے لیکن اس کا کرد خواتین سے ابھی تک موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ میری نظر میں جو اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں اس طرح کی تحریکوں کو منوانے میں دو چیزیں بڑی اہم ہیں جن میں ایک اس قوم کا بین الاقوامی سطح پر مضبوط لابیئنگ کرنا اور دوسرا بین الاقوامی طاقتوں کا اس تحریک سے وابستہ مفادات کا ہونا ہیں ۔ بد قسمتی سے بلوچ تحریک کی لابیئنگ اس وقت تک اُس حد مضبوط نہیں ہے کہ وہ بین الاقوامی پالیسیز پر اثر انداز ہوسکے اور دوسری بات کہ مختصر مدت کے لئے ہی صحیح لیکن بین الاقوامی طاقتوں کی مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں۔ مختصر مدت کے لئے اس لئے کیونکہ مغربی ممالک افغانستان سے اپنی فوجیوں کے انخلاکے حوالے سے پاکستان پر منحصر ہے حالانکہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو دوغلاپن اور منفی کردار رہا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ پی آر پی بین الاقوامی سطح پر بلوچ تحریک کے حوالے سے بھرپور کام کررہی ہے اور ہم پرامید ہیں کہ جلد ہی دوسرے آزادی پسند دوستوں سے مل کر مزید کام کیا جائے گا جس سے مثبت نتائج سامنے آئینگے۔

کشک: بلوچ خواتین کی تحریک میں شمولیت کافی محدود ہے اسکی کیا وجوہات ہیں؟

نواب براہمداغ بگٹی: محدود شمولیت کی وجوہات میں سرفہرست ریاست کی جانب سے مذہبی انتہاپسندی اور تعلیم سے دوری ہے کیونکہ جب تک ایک قوم تعلیم یافتہ نہیں ہوگی اور خاص کر اس کے خواتین تعلیم یافتہ نہیں ہونگیں تب تک وہ قوم نہ تو اپنی حیثیت منواسکتی ہیں اور نہ ہی ترقی کرسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کی جانب سے بلوچستان میں مذہبی انتہاپسندی، بچیوں کے تعلیمی اداروں کا نشانہ بنانا اور ان پر تیزاب حملوں میں تیزی انہیں ریاستی سازشوں کا حصہ ہیں کہ بلوچ قوم خاص کر بلوچ خواتین کو تعلیم سے دور رکھا جائے کیونکہ محدود ہی صحیح لیکن بلوچ خواتین کی تحریک میں شمولیت اور سرگرم کردار نے ریاست کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ 

کشک: بلوچ آزادی پسند تنظیموں کا زیادہ تر توجہ مسلح جدوجہد کی طرف ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاست کے دوسرے تمام ذرائع استعمال نہیں کیے جارہے اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

نواب براہمداغ بگٹی : بلوچ قوم ایک ایسے سفاک دشمن سے آمنے سامنے ہے جو کہ صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور جمہوری انداز جدوجہد کو ہمیشہ طاقت کے زو ر پر کچھلنے کی کوشش کی ہے جس کی واضح مثال آزادی پسند بلوچ سیاسی تنظیموں کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد میں اغواء نما گرفتاریاں، ٹارچر سیلوں میں انہیں اذیتیں دینا اور ان کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دینا یا پھر اجتماعی قبروں میں دفنا دینا ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان میں اس وقت سرفیس پر جدوجہد کو ناممکن بنادیا گیا ہے اور سیاسی کارکنان زیرزمین کام کررہی ہیں اور زیادہ تر بلوچ نوجوان مزاحتمی اور مسلح جدوجہد کی طرف مائل ہورہے ہیں کیونکہ مسلح اور سیاسی طریقہ کار دونوں ہی آزادی کی تحریک کا حصہ ہوتی ہیں جو کہ ایک ساتھ چلتی ہیں۔

کشک: ایسا نظر آتا ہے کہ بلوچ تحریکِ آزادی ایک محدود مدت تک کے لیے ہے، اگر بلوچ قوم اس محدود مدت میں آزادی حاصل نہ کر سکیں تو کیا ہمارے پاس لونگ ٹرم پالیسی ہے؟

نواب براہمداغ بگٹی: میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا کہ بلوچ تحریک آزادی ایک محدود مدت کے لئے ہے کیونکہ بلوچ تحریک میں منزل یعنی آزادی تک پہنچنے کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا ہے حالانکہ حکمت عملی اور طریقہ کار ضرور موجود ہے لیکن سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ جدوجہد بلوچستان کی آزادی تک جاری رکھی جائیگی۔ بلوچ قوم گزشتہ 67 سالوں سے جدوجہد کررہی ہے جس میں کئی مراحل طے کیے گئے اور 2000 کے عشرے میں شہید نواب اکبر خان بگٹی کی قیادت میں جس مرحلے کا آغاز کیا گیا ہے وہ آج بھی پوری توانائی سے جاری ہے اور اس میں دن بہ دن تیزی لائی جارہی ہے۔ مشکلات ضرور موجود ہیں لیکن ہمارے پاس منشور موجود ہے اور ہم اسی پر عمل کرتے ہوئے جدوجہد کررہے جو کہ ناصرف آزادی کے حصول بلکہ ایک آزاد بلوچستان کے نظام کے بارے میں اہم تجاویز رکھتی ہے جسے آپ لے الفاظ میں لانگ ٹرم پالیسی کہا جاسکتا ہے۔ 

کشک: قوم چاہتی ہے کہ آپ قوم کی نمائندگی کریں نہ کہ ان پر بادشاہت ، آپ کے اور حیر بیار کے رویے میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتاکیو؟

نواب براہمداغ بگٹی: میں نے کبھی قوم پر بادشاہت کی بات نہیں کی اور نہ ہی اس طرح کی کوئی تاثر دینے کی کوشش کی اور میں اس بات کو سراسر مسترد کرتا ہوں اور جہاں تک حیربیار مری کے رویے سے فرق کی بات ہے تو میں نہیں جانتا کہ آپ کس نظریے سے فرق کی بات کررہے ہیں لیکن ہم اداروں کی بات کرتے ہیں اور بلوچ قوم کو متحدہ پلیٹ فارم پر جمع کرکے اتحاد کی بات کرتے ہیں تاکہ ہماری طاقت بٹنے کی بجائے یکجا ہو اور ہم منظم ہوکر جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچائیں ۔

کشک: آپ ہمیشہ اپنے انٹرویوز میں بلوچستان میں ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں ، جبکہ اسکوٹ لینڈ کی موجودہ ریفرنڈم ہمارے لیے ایک سبق ہے جہاں کے لوگ ہم سے کئی زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہم سے کئی آگے بھی ہیں ، کیاآپ بلوچستان میں ریفرنڈم کو ایک آپشن سمجھتے ہیں؟

نواب براہمداغ بگٹی: جب ہم ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خدانخواستہ بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد سے دستبردار ہوگئے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے اقوام کی طرح بلوچ قوم کو بھی اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا جمہوری حق ملنا چاہیے لیکن میں اس بات پر حیران ہوں کہ اسکاٹ لینڈ کی ریفرنڈم کا بلوچستان سے کس طرح موازنہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ دونوں کی صورتحال بلکہ ہی مختلف ہے۔ کیا سکاٹ لینڈ پر برطانوی فوج روزانہ کی بنیادوں پر فوجی آپریشن کرتی ہیں؟ کیا سکاٹس سیاسی کارکنوں ، طالب علموں ، اساتزہ، ادیبوں ، شاعروں اور وکیلوں کو برطانوی خفیہ ادارے اغواء کرکے لاپتہ کرتی ہیں؟ کیا سکاٹ لینڈ میں آئے روز مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں؟ کیا وہاں پر اجتماعی قبروں کا کوئی تصور دیکھنے کو ملتا ہے؟ اگر نہیں تو ان دونوں کا موازنہ کرنا نا انصافی ہوگی۔ آج اگر بلوچستان سے پاکستانی فورسز کو نکال کر وہاں بین الاقوامی امن فورسز کی موجودگی میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ریفرنڈم کئے جائیں تو یقیناًبلوچ قوم کی بھاری اکثریت آزادی کی حق میں ووٹ دیگی جس کا ثبوت گزشتہ ریاستی الیکشن ہیں جس میں پاکستان اپنی تمام تر ریاستی مشینری اور فوجی طاقت استعمال کرنے کے باوجو د تین فیصد سے زائد لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لئے مجبور نہ کرسکا جو کہ بذات خود ایک ریفرنڈم ہے کہ بلوچ قوم کی اکثریت آزادی کی حق میں ووٹ دیتی ہے۔

کشک: لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ براہمدغ بگٹی کا مہران مری کے ساتھ بہترین تعلقات کی وجہ آپسی رشتہ داری ہے ، اس بات میں کتنی حقیقت ہے؟

نواب براہمداغ بگٹی: اس بات سے قطع نظر کے آپ کن لوگوں کی بات کرتے ہیں لیکن نواب مہران مری ہی نہیں ہم تمام آزادی پسند بلوچ رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں سے نہ صرف بہترین تعلقات چاہتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ متحدہ پلیٹ فارم کی تشکیل کے لئے کوششیں کررہے ہیں۔ اگر آپسی رشتہ داری ایک مثبت کردار ادا کرتی ہیں تو یہ ایک مثبت عمل ہے لیکن اگر ہم نظریاتی رشتوں سے ذاتی رشتہ داریوں کو ترجیح دیتے تو شہید نواب اکبر خان بگٹی کے خاندان میں سے کچھ لوگ تو ہمارے ساتھ ضرور ہوتے لہذا میں اس بات کو سراسر مسترد کرتا ہوں۔

четверг, 18 декабря 2014 г.

پشاور واقعہ اسی طرح کا ایک اندوہناک واقعہ ہے مگر اس میں آئی ایس آئی و فوج براہ راست ملوث ہے. بی این ای

)بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے پشاور حملے کے بعد معاشرے کے سماجی و سیاسی اور دوسرے طبقوں کی جانب سے ردعمل پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ریاست کے مقتدرہ نے بلوچستان میں گذشتہ دس سالوں سے بلوچ نسل کشی کی انتہا کرکے بلوچستان کو لہولہان کردیالیکن اس منافق معاشرے کے ان نام نہاد روشن فکر طبقوں نے کھبی بھی بلوچ نسل کشی پر آوازبلند نہیں کیا۔ لیکن آج اس کے اپنے گھر میں یہی افتاد آن پڑی ہے توسماجی و سیاسی طبقوں سمیت انسانی حقوق اداروں اور میڈیا نے دنیا کو سر پر اٹھا لیا ہے ۔ ترجمان نے کہا ہے کہ ہم ہر قسم کی دہشت گردی اور معصوم لوگوں کے قتل کی مذمت کرتے ہیں ، چاہے وہ بلوچستان کی طرح آئی ایس آئی و فوج خود کریں یا پشاور
پشاور واقعہ اسی طرح کا ایک اندوہناک واقعہ ہے مگر اس میں آئی ایس آئی و فوج براہ راست ملوث ہے. بی این ایم
کی طرح اپنے قومی اثاثے طالبان سے کروائیں ۔ جبکہ بلوچستان میں فوج و آئی ایس آئی خود اور اپنے مذہبی دہشت گرد گروہوں کے ذریعے بلوچ طلباء و اساتذہ کو قتل کرکے سر عام گھوم رہے ہیں ، طالبان و داعش کی شاخیں پنجگور، تربت اور گوادر میں کئی اسکولوں کو جلا کر کئی طلباء اساتذہ کو قتل کر چکے ہیں ۔ خضدار ، قلات و کوئٹہ میں خواتین پر تیزاب پھینک کر سیکولر بلوچستان میں آئی ایس آئی کی مدد سے ایک دہشت گرد مذہبی معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ پشاور واقعہ اسی طرح کا ایک اندوہناک واقعہ ہے مگر اس میں آئی ایس آئی و فوج براہ راست ملوث ہے ، طالبان کی حالیہ پرورش میں پشتونوں کی نقصان کو برداشت کرنے کا مقصد اپنے اثاثے کو مزید مستحکم کرکے دُنیا کو بلیک میل
کرکے امداد بٹورنے کیساتھ خطے میں ایک اسٹیک ہولڈر کا مقام حاصل کرنا ہے، چونکہ پاکستان کی اہمیت بلوچستان و افغانستان کی صورتحال کی وجہ سے ہے ، اسی لئے ان حملوں کو بدنام زمانہ آئی ایس آئی و فوج برداشت کرکے غیر مستحکم افغانستان کے لئے انہی اثاثوں کو استعمال میں لا کر اپنی بلیک میلنگ جاری رکھنا چاہتا ہے ، تاکہ خطے میں کسی بھی معاملے پر پاکستان کو حصہ دار ٹھہرا کر ہر عمل میں ملوث کیا جا سکے ۔ ان کے ہاں بلوچستان و پشاور کے معصوموں کی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے ،انہیں صرف تجربہ کے طور پر مارا جاتا ہے ۔ ترجمان نے کہا کہ افسوس اس بات کی ہے کہ پشاور واقعے کی شب و روز کوریج و عالمی طاقتوں کی طرف سے مذمت کی جاتی ہے مگر دُنیا اور عالمی میڈیا بلوچستان کی اس جیسی صورتحال پر خاموش رہ کر بلوچ نسل کشی کا تماشہ دیکھ رہی ہیں ۔ بیس ہزار سے زائد بلوچوں کی جبری اغوا و گمشدگی ، تین ہزار سے زائد مسخ شدہ لاشیں اور اس تہذیب یافتہ دور میں اس صدی کی اب تک سب سے بڑی اجتماعی قبروں کی دریافت پر اقوام متحدہ ، عالمی
انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی طاقتوں کی خاموشی پاکستان کو مزید بلوچستان و پشاور جیسے واقعات کو دہرانے کیلئے مواقع فراہم کر رہا ہے ۔ بلوچستان میں رپورٹنگ پر کئی بین الاقوامی صحافیوں کو چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر ملک سے نکال باہر کرنے کے باوجود میڈیا میں بلوچستان کو صحافیوں کیلئے نو گو ایریا بنانے پر کسی قسم کا رد عمل سامنے نہیں آیا ۔ لوکل میڈیا و انسانی حقوق کے تنظیموں کی کارکردگی اس سے بھی بد تر ہے ۔ ہم دُنیا پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس خطے میں امن بلوچستان کی آزاد حیثیت کی بحالی اور طالبان کے خاتمے سے مشروط ہے جو صرف پاکستان کی وجود سے انکاری سے ہی ممکن ہے ۔ اقوام متحدہ و عالمی قوتیں خطے و بلوچستان میں
مزید ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لیکر بلوچستان کی آزادی کی حمایت کرکے پاکستانی فوج کے ہاتھوں بنگلہ دیش کی تاریخ دہرانے و موجودہ قتل و غارت گری کو روکنے کیلئے کردار ادا کریں ۔

суббота, 13 декабря 2014 г.


ریاستی تلوار بلوچ خواتین پر۔ تحریر بیورغ بگٹی

پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خیلاف ورزیوں پر لکھنے 

کیلئے جرت، ہمیت اور حوصلے کی سخت ضرورت پڑتی ہے کیونکہ بلوچستان 

میں 

ریاستی اجنسیوں کی پالیسی کو دیکھ کر قلم اٹھانے سے پہلے دونوں ہاتھ کانپنے 

شروع کرتے ہیں خوف کی ایک ایسی لہر چہجاتی ہے کہ رنگٹے کھڑے ہوجاتے 

ہیں انسان کو اپنی جزبات اور طاقت کا پتہ نہیں چلتا ایک زندہ لاش بن کر صرف 

جسم رہے جاتا ہے، لیکن انسان کا دماغ اتنی آسانی سے کام کرناچھوڑ نہیں دیتا 

لیکن 

وہ ہمیشہ سوچھتا رہتا ہے جب انسان کو یہ خیال آجاتا ہے کہ میں بھی تو ان ظالموں 

جیسا ایک انسان ہوں فرق صرف اتنا ہے کہ ان لوگوں کے اندر انسانیت نہیں 

حیوانیت ہے جن کے خوف سے مجھے کیوں اتنا گھبراہٹ ہورہی ہے ۔۔۔۔۔ جب اسی 

خیالات سے خون میں جزبات اور دل میں ہمت و حوصلہ ابھرتا ہے تو ڈر، خوف 

صرف اللہ پاک کی ہوتا ہے کسی شیطان یا ظالم کا نہیں۔ آج پاکستانی اجنسیاں ایک 

سٹیٹ کا سہارا لیکر بلوچوں کی قتل عام نہیں کررہی بلکہ انسانیت کا قتل کررہے 

ہیں 

جو کل جاکے یہ لوگ پوری دنیا کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر بلوچستان 

کی حالات زار کا ٹنڈے دماغ سے گہرائی سمجھنے کی کوشش کیا جائے تو 

پاکستانی 

سیکورٹی ہر ادارے بلوچوں کے ساتھ غیرانسانی، غیراخلاقی اور غیراسلامی رویہ 

اپنائی ہوئی ہے جو یہ افسوس ناک اور شرم ناک عمل گزشتہ کئی دہائیوں سے 

مسلسل جاری ہے جیسے کہ حال ہی میں ڈیرہ بگٹی سےریاستی فورسزنے3 خواتین 

اور 4 بچے کو اغوا کرکے لاپتہ کردیاگیا جو آج تک جنکی کوئی احوال نہیں ہے 

لیکن پاکستانی فورسز کی اسطرح کے غیراسلامی اور غیرانسانی عملان سے بلوچ 

قوم پہلے واقف ہے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ یہ واقع ایک ایسے موقع پر ہوئی 

ہے جب پوری دنیاں میں خواتین پر تشدد بند کرنے کا دن منائی جارہی تھی تو ٹیک 

دو دن پہلے ریاستی فورسز نے انسانی پکار کو مسخ کرتے ہوئے پوری دنیا کو 

اپنے غیرانسانی کا صبوط پیش کیا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کا کتنا قدر کیا جاتا 

ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اتنے وقت گزر جانے کے باوجود کوئی انسانی 

حقوق کےکسی بھی تظیم کی جانب سے کوئی مزمتی بیان تک نہیں آئی جو بڑی 

شرم 

کی بات ہے۔ اسکے علاوع سوئی کے علاقے 

238RD جیسے واقیعات سب کے سامنے ہے جہاں پاکستانی فورسزنے غیریب و 

بےبس اور لاچار بےگناہ بلوچوں کی گھروں پر دھوا بول کر پوری بستی کو جلاکر 

خاکستر کردیا گیا اور ساتھ میں ایک بوڑہی عورت بانک سزی بی بی کو زندہ چلا 

کر شہید کیا گیا، پھر پاکستانی میڈیا نے بہت خوب اپنی ایمانداری نباتے ہوئے نیوز 

جاری کیا تھا کہ فورسز کو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ بلوچ مزحمتی تنظیموں سے 

طلق 

رکھنے والےکچھ لوگ یہ بستی میں چھوپے ہوئے تھے ایف سی کی کاروائی سے 

سب مارگے لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہاں کوئی مزحمت کار موجود ہی نہیں تھا، مگر 

پھر بھی ہم ایک منٹ کیلئے مان ہی لیتے ہیں کہ جی وہاں سنگت وہاں موجود تھے 

لیکن پھر بھی قصور وہی دو لوگوں کا تھا لیکن اس کی سزاپوری بستی کوکیوں دی 

گئی؟ کیا یہ ناانصافی اور ظلم نہیں؟ کیا لوگوں کو زندہ جلا دینا سفاکیت نہیں؟ کیا یہ 

انسانیت کی تزلیل نہیں؟ کل سب کو مرنہ ہے اور خدا کی عدالت میں پیش ہونا ہے 

ویہاں کسی سے بھی نا انصافی نہیں ہوگی۔۔۔۔ آج جو پاکستانی اسلام کے نام پر یا 

اپنی 

طاقت اور حیوانیت کی حوس سے بے گناہوں پر ظلم ڈھاے ہوئے ہیں اسکا بدلہ 

ایک 

دن ضرور لیا جائگا، لیکن پاکستانیوں کو ایک بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ بلوچ 

اپنی جان اور مال سب کچھ قربان کر سکتا ہے مگر خواتین کی بیزتی اور قبضہ 

وطین پر کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا اسکا اندازہ پاکستان کے ساتھ پوری 

دنیا کو ہے اور پاکستانیوں کو اچھی طرح علم ہے کہ انکا بلوچ کے ساتھ کیا رشتہ 

ہے۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک حقیقت ہےاوراسےکوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے قیام 

سے 

پہلے بلوچ سرزمین ایک آزاد ریاست کے حیثیت سے دنیا کے نقشے پر آزاد 

بلوچستان کی شکل میں نمودار تھا لیکن بلوچ قوم کی بدقسمتی سے پاکستان بننے 

کے 

ساتھ ہی بلوچ قوم کی آزادی غلامی میں بدل گی۔ جیسےکہ پورئے دنیا کو علم ہے 

کہ 

27 مارچ 1948کو پاکستان نے بلوچ سرزمین پر حملہ کرکے بلوچ آزاد ریاست پر 

اپنا ناجائز قبضہ جمہ لیا، تاریخ گوہ ہے کہ اسی دن سے بلوچ حریت پسندوں نے 

پاکستان کی قبضہ کے خیلاف اپنی سرزمین کی آزادی جنگ کا آغاز کیا جو آج تک 

جاری و ساری ہے۔ لیکن پاکستانیوں کے علاوع بلوچستان میں بھی کئی لوگوں کو 

بلوچ قومی آزادی تحریک سے نفرت، ڈر، خوف موجود ہیں کیونکہ جو لوگ خود 

کو 

باقئدہ پنجابی سمجھ کر بلوچیت کو بھول چکے ہیں جنکو ڈرنا اور خوفزدہ ہونا ہی 

چاہیے کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے وہ اپنی کردار کے پیچھے کچھ حاصل کرنے 

کی کوشش کرتا ہے رسلٹ فائدہ مند ہو یا نقصاندہ لیکن نتیجہ وہ ہوگا جو انسان خود 

فولوکررہا ہوگا۔ ایسے لوگ صرف بلوچستان میں موجود نہیں بلکہ پوری دنیا میں 

ایسے شخص بہت ہیں جو دشمن کے ہاتھوں بیک چکے ہیں اور قومی تحریکوں 

کے 

خیلاف دوشمن کے ساتھ سرگرم ہوتے رہتے ہیں لیکن اس میں کوئی حیران والی 

کوئی بات نہیں مگر ردعمل جنکا دیکھنا لازمی ہے کہ ان قوم کی غداروں کے ساتھ 

کیا حشرہوا اسی احتساب کو مدنظر رکھتے ان لوگوں کے زہن میں خوف کی وجہ 

صاف ظاہرہوتا ہے کہ بلوچستان کی آزادی کے بعد جنکو بلوچ قومی عدالت کا 

سامنا 

کے سامنے شرمندہ ہیں کیونکہ ان شخصیات کی اپنی کاروباری دوکانیں تحریک 

کی 

سہارے سے چلتی رہتی ہیں یہ لوگ ایک طرف قوم پرستی کا دعواہ کرکے بلوچ 

عوام کے سامنے منگھرمچھ کے آنسوبہاتے ہیں اور دوسری جانب ریاست سے مل 

کر بلوچ نوجوانوں کی لہو سے اپنا کاروبار چلاتے ہیں کل انشاللٰہ یہ امیر لوگوں کی 

اے ٹی ایم بند ہونگے تو سوداگیروں کا کیا حال ہوگا؟ لیکن اس کے برعکس بلوچ 

سرزمین پر پاکستانی قبضہ کو 65 برس گزرگے لیکن وہ بلوچ قومی آزادی جدوجہد 

کچلنے میں ناکام رہا اور نہ آئندہ پاکستان اپنے اس مزموم مقصد میں کامیاب 

ہوسکے 

گا۔۔۔لیکن پاکستان نے اپنا ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا مگراس کے باوجود بلوچوں کے 

عزم و حوصلہ میں کمی نہیں آئی اور اسی طرح پاکستانی ریاست کی ظلم و جبر 

اور 

غیر انسانی تشدود بلوچ نوجوانوں کی حوصلوں کو پست کرنے کی بجائے آزادی پر 

ایمان اور عتبار کو مزید پختہ کررہا ہے۔ لیکن پیچھلے کئی سالوں سے پاکستانی 

ریاست بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کیلئے ظلم وجبر کے نت نئے حربے آزمائے 

جارہے ہیں۔ 2002 سے لیکر آج تک 20000 ہزار بلوچ نوجوان ریاست پاکستان کی 

سیکورٹی اداروں نے پکڑ کر لاپتہ کیئے ہیں اورہزاروں کی تعد بلوچ فرزندان کو 

شہید کرکے جنکی مسخ شدا لاشیں ویرانوں میں پنھک دی گئی۔ قومی آزادی 

تحریک 

کے حصول کیلئے ہزاروں بلوچ نوجوان دشمن کےزندانوں میں غیرانسانی تشدود 

سہہ رہے ہیں۔ اور پورئے بلوچستان میں فوجی آپریشن بلوچوں کے مال و اسباب 

لوٹنے اور گھر کو جلانے کے واقیات روز کا معمول بن چکا ہے، بلوچ قوم 

کیلئےایساکوئی دن نہیں کہ جس دن انکے سرزمین کی آزادی خاطر کوئی بلوچ شہید 

نا ہوا ہو یا ریاستی بربریت کا شکاریا لاپتہ نا ہوا ہو ایسا لگتا ہے بلوچ قوم کیلئے اللہ 

پاک نے کوئی خوشی کا دن پیدا ہی نہیں کیا ہماری قسمت میں صرف سوگ یا ماتم 

ہی لیکھا ہے، بلوچ قوم کی مائیں، بہنیں، بیویاں اور بیٹھیاں ہمیشہ اپنے پیاروں کی 

بازیابی کیلئے ہڑتال، احتجاج، کانفرنس کرتے کرتے اس غیرمزہب ریاست کے 

آگے 

بے بس و لاچارہوگے۔اسی حالات کو مدنظر رہھتے ہوئےآج بلوچ قوم کے عورتیں 

بھی اس تحریک میں حصہ ڈلنے میں آگے بڑرہی ہیں اور بلوچ قومی آزادی تحریک 

کی جدوجید میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ساتھ قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر 

کھڑئے ہیں۔پورے دینا میں لڑئی جانے والی آزادی تاریخوں کو دیکھا جائے تو ظلم 

و 

جبر کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں میں خواتین بھرپور کردار اداکرتی رہی ہیں۔ 

یہ 

 پوری دنیا میں مشہور ہے کہ جب عورت اپنےاندرانقلابی سوچ پیدا کرلے تو 

قوموں 

کی تقدیر بدلتے دیر نہیں لگتی، اس لیئے ریاست پاکستان بلوچ خواتین کی کردار 

سےحواس باختہ ہوکر اپنی جبرانا ظلم کی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئےعورتوں 

اور بچوں پر ظلم ڈھانا شروع کیا تاکہ بلوچ خواتین قومی تحریک سے کنارا کشی 

کرئیں لیکن ریاست شاہد یہ بھول گے کہ یہ ان جوانوں کی مائیں ہیں جہنوں نے 

تماری ہر ظلم تشددکو ناکام بناتے ہوئے شہادت کو ترجی دیتے ہیں مگر آپنی 

سرزمین کی آزادی موقف سے دستمبردار نہیں ہوتے -

четверг, 11 декабря 2014 г.

’’انسانی حقوق کی عالمی دن اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ‘‘
ماما قدیر بلوچ 
وائس چیئرمین ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز 
آج 10؍دسمبر 2014 ؁ء کو جب ہم کراچی پریس کلب میں انسانی حقوق کا عالمی دن اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کے عنوان سے سیمینار منعقد کررہے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ قوم کی نسل کشی عروج پر ہے ۔ لاپتہ بلوچوں کی تعداد 21 ہزار اور مسخ شدہ لاشوں کی تعداد 6 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے ۔ لاپتہ علی اصغر بنگلزئی جوکہ 18-10-2001 کو کوئٹہ سے آئی ایس آئی، ایم آئی کی تحویل میں رہے ہیں۔ آج تک ان کا پتہ نہیں چل سکا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا انہیں بھی قتل کرکے اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا ہے ۔ اسی طرح ایک اسکول ٹیچر زرینہ مری کاہان کوہلو سے 10-10-2005 کو اپنے شیر خوار بچے کیساتھ سے لاپتہ ہیں جنہیں 2008 ؁ء میں بلوچ وائس کے منیر مینگل نے اپنے دوران حراست ایک فوجی ٹارچر سیل میں بطور سیکس سیلیودیکھا تھا جس کے بارے میں انہوں نے فرانس میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے بعد رپورٹرز و آڈٹ باڈرز(Reporter without Borders) (RSF) کو دی تھی  جسے بعد میں ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ہانگ کانگ نے بھی جاری کیا لیکن تاحال زرینہ مری کو نہ توبازیاب کرایا گیا اور ہی اس کے زندہ رہنے کے کوئی اور شواہد ملے ہیں۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کراچی کے مطابق مورخہ 17-02-2009 کو جب پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے اہلکار جان سولیکی کے اغواء کا واقع پیش آیا تو اس وقت اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو لاپتہ مرد وخواتین بچوں کی ایک فہرست بھی دی گئی جس میں لاپتہ 148 خواتین اور 168 بچے و بچیوں کا تاحال غائب ہیں ۔ اس طرح ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق پاکستان آرمی 52 ٹارچر چلا رہی ہے جسکی تفصیل درج ذیل لنک پر موجود ہیں۔

زرینہ مری کے بارے میں روزنامہ انتخاب کے کالمسٹ بانک نرگس بلوچ نے مورخہ 19-01-2009 کے کالم میں ’’زرینہ مری دکھ تمہارے نہ بانٹ پائی مگر۔۔۔؟؟ ‘‘کے عنوان سے لکھتی ہیں کہ ’’منیر مینگل نے اپنے تن مردہ کو گھسیٹ کر کسی نہ کسی طرح سال بھر کی گمنامی اور کسمپرسی کے بعد تربت براستہ ایران فرانس تک پہنچا دیا جب اسے یقین ہوگیا کہ وہ پاکستان کے مسلمان حکمرانوں کی گرفت سے نکل آیا ہے تو اس نے جو دلدوز ،کربناک ، اذیت آمیز کہانی بلوچ قوم تک پہنچائی جس کے محض ایک جھلک سے ہی میرا جسم جیسے چلتے آرے کے نیچے آگیا۔ اس نے بتایا کہ دوران قید اس کے ٹارچر سیل میں ایک برہنہ خاتون کو پھینکا گیا اور اسے مجبور کیا گیا کہ اس کے ساتھ جنسی بربریت کیا جائے اسے بتایا گیا کہ دیکھو ہم تمہاری خدمت کے لئے بلوچستان سے یہ ’’درنایاب‘‘ لائے ہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہے تم پنجابیوں سے نفرت کرتے ہو۔ منیر کے انکار پر اس پر بدترین تشدد کیا گیا لیکن اس نے اپنی بہن زرینہ مری کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ جہاں اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا وہاں اُس کی آنکھ بھی خون بہارہی تھی وہ بے بس تھے اور ظالموں کے شکنجے میں تھے۔
زرینہ مری کی طرح سینکڑوں عزت کے پیکرمائیں، بہنیں، بیٹیاں آج بھی انہی درندہ صفت ریاستی فورسنز کے ہاتھوں میں نجانے کس حالت میں ہوں گے ؟ کتنے بار وہ مرتے ہیں اور جیتے ہیں۔ ریاستی فورسنز ایک طرف تو بلوچ فرزندوں کو لاپتہ کرنے کے بعد انکی مسخ شدہ لاشیں پھینک رہی تو دوسری طرف بلوچ قوم کی عزت، غیرت و ناموس پر بھی حملے کررہی ہے۔
ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں بلوچ قوم پرست رہنماؤں نواب اکبر خان بگٹی اور نوابزادہ بالاچ مری کو شہید کیا گیا ۔ 17مارچ 2005 کو نواب اکبر بگٹی کے گھر اور ڈیرہ بگٹی میں شہری آبادی پر بمباری کرکے سینکڑوں بلوچوں کو شہید کیا گیا۔ ڈیرہ بگٹی اور سوئی سے بمباری کی وجہ سے ایک لاکھ بگٹی ہجرت کرگئے اور دوسرے شہروں میں جاکر پناہ گزیر ہوئے اسی طرح دسمبر 2005 ؁ء کو کوبلو، کاہان اور بارکھان پر شہری آبادیوں پر بمباری کی وجہ سے دو لاکھ کے قریب بلوچ ہجرت کرگئے، ستار ایدھی فاؤنڈیشن ، مرسی کور، اوکسیفم اور دیگر فلاحی تنظیموں نے ان متاثرین کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں نے انہیں مار بھگایا، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے مری اور بگٹی خاندانوں کی نشاندہی کرتے ہوئے حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان سے ان کے امداد کیلئے اجازت طلب کی تھی لیکن انہیں بھی انکار کردیا گیا۔ پندرہ اپریل 2006 ؁ء کو بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر کی رولنگ پر ڈیرہ بگٹی، کوہلو، کاہان پر بمباری کے بعد نقل مکانی کے حقائق کا جائزہ لینے کیلئے بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جسکے اراکین میں اپوزیشن لیڈر کچکول علی ایڈوکیٹ، صوبائی وزیر عبدالرحمن، عبدالغفور لہڑی اور جے ڈبلیو پی کے رکن اسمبلی سلیم خان کھوسہ شامل تھے ۔ انہوں نے ان علاقوں میں جا کر لوگوں کی حالت زار دیکھی اور اس بات کی تصدیق کی کہ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کاہان سے ڈھائی لاکھ افراد نے نقل مکانی کی ہے ۔ جو صوبہ سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور ان کی حالت بہت خراب ہے انہیں کھانا، پانی، رہائش اور علاج و معالجہ کی شدید ضرورت ہے ۔ انہوں نے دنیا کے جمہوری ملکوں اور رضاکاروں کی تنظیموں سے متاثرین کے مدد کی اپیل کی تھی لیکن حکومت نے کسی کو اجازت نہیں دی تھی۔ صرف بلوچ نیشنل فرنٹ کی جانب سے کراچی، کوئٹہ اور بلوچستان بھر میں امداد ی کیمپ لگائے گئے۔ جنہوں نے ان متاثرین کی کچھ مدد کی بعد ازاں حکومت نے بلوچ نیشنل فرنٹ کے امدادی کیمپ بھی اکھاڑ دیئے تاکہ ان متاثرین کو کوئی مدد نہ مل سکے۔ پیپلز پارٹی کی 2008 ؁ء میں قائم ہونے والی حکومت میں لاپتہ افراد کی بازیابی کی بجائے پالیسی تبدیل کرکے ’’مارو اور پھینکو ‘‘ کے فارمولے پر لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگی۔ 18؍اپریل 2009 ؁ء کو بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین غلام محمد بلوچ اور انکے ہمراہ گرفتار ہونے والے لالہ منیر بلوچ اور شیر محمد بلوچ کی مسخ شدہ لاشیں تربت سے 25کلو میٹر مرگاپ کے پہاڑیوں سے برآمد ہوئیں جنہیں اتنی بُری طرح سے تشدد کیا گیا تھا کہ ان کے چہرے مسخ کردیئے گئے تھے اور انکی شناخت ان کے پیروں اور جوتوں کے نشانوں سے کی گئیں۔
’’لاپتہ افراد کے مقدمات پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریمارکس ‘‘
روزنامہ ایکسپریس کراچی مورخہ 30-10-2007 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ریمارکس شہ سرخی 2 دن کی مہلت ایجنسیاں لاپتہ افراد رہا کردیں ورنہ کارروائی کرینگے۔ سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کو حکم دیا کہ یکم نومبر تک ایجنسیوں کی تحویل میں تمام لاپتہ افراد کو حتمی طور پر رہا کردیا جائے ورنہ ایجنسیوں کے خلاف موجودہ شہادتوں پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی ۔ ہم دھمکیوں میں نہیں آئیں گے کوئی یہ مت سمجھے کہ عدالت کچھ نہیں کرسکتی ۔ مکمل شہادتیں موجود ہیں کہ تمام لاپتہ افراد خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں ۔ ہمیں فہرستیں اور بار بار یقین دہانی نہیں 100 فیصد پروگریس چاہیے روزانہ ایک ہی کہانی دہرائی جارہی ہے ضرورت ہوئی تو شام تک اس مقدمے کی سماعت کرینگے۔ خوامخواہ کے بہانے بازیاں نہ کی جائیں درحقیقت پسندانہ اقدمات کئے جائیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود لاپتہ افراد کی بازیابی ممکن نہیں ہوسکی اگرچہ چند افراد کو رہا کیا گیا ان کا تعلق پنجاب اور خیبرپختونخواہ سے تھا جبکہ بلوچستان میں خفیہ فورسز کے ہاتھوں گرفتار شدہ لاپتہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ جاری ہے ۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ٹاسک کو انسانی بنیادی حقوق اور آئین کے خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا اس بات کے کئی ثبوت ملے ہیں کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے میں خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔
6 ستمبر 2012 ؁ء سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت میں ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کی پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو لاپتہ افراد سے متعلق آج جمعرات تک حتمی جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ جسٹس خلجی عارف حسین اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے داخلہ اور دفاع کے وفاقی سیکریٹریوں کے حاضر نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی سیکریٹریز کو بلوچستان سے کوئی دلچسپی نہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی دکھائی نہیں دے رہی ہے اگر ایک کرنل کو ہتھکڑی لگادی جائے تو فوج میں کیا پیغام جائیگا ملک کی بین الاقوامی سطح پر بدنامی ہورہی ہے ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اخبارات میں خبر ہے کہ اقوام متحدہ کا وفد ہمارے معاملات دیکھنے کیلئے آرہا ہے ۔ باہر کے لوگ ہمارے معاملات دیکھنے کیلئے آئینگے تو اقتدار کیلئے خطرناک ہونگے۔ آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل عبیدا للہ خان نے اعتراف کیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کارکردگی متاثر کن نہیں ہے سیکریٹری داخلہ بلوچستان نے بتایا کہ جون میں 70 جولائی میں 48 اور اگست میں 24 افراد قتل ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے آئی جی ایف سی کے لاپتہ افراد کیس کے بارے میں سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم ایف سی کے افسراں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیں اگر ایک کرنل کو ہتھکڑی لگادی گئی تو فوج میں کیا پیغام جائے گا۔ انہوں نے آئی جی ایف سی سے کہا کہ آپ اپنی ناکامی تسلیم کرلیں تاکہ گورنر اور وزیر اعلیٰ کو طلب کیا جائے۔ چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی نے رپورٹ دی ہے کہ لاپتہ افراد ایف سی کے پاس ہیں ۔ جس پر آئی جی نے کہنا تھا کہ یہ تو بڑا آسان ہے کہ کوئی کہہ دے فلاں کے پاس ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اولین ترجیح لاپتہ افراد کی بازیابی ہے ۔ آپ لوگ ناکام ہوچکے ہیں ہمیں پتہ ہے کہ قانون نے کیا کرنا ہے ۔ وفاقی ، صوبائی حکومت اور ایف سی نے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم تین ماہ گزر گئے ہیں لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہے ۔
’’بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے واقعات پر انسانی
حقوق کی تنظیموں /تھینک ٹینکس کی رپورٹس ‘‘
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی رپورٹ جون 2006 میں کہاگیا ہے ۔ پاکستان میں شہریوں کو غائب کردینے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ایسے واقعات کی شرح صوبہ بلوچستان میں دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے ۔ پولیس ان واقعات کی بالعموم ایف آئی آردرج نہیں کرتی ہے ۔ گمشدہ شخص کے لواحقین عدالتوں کا رُخ کرتے ہیں تو وہاں وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے حکام گمشدہ افراد کے بارے میں لاعلمی کااظہار کردیتے ہیں۔ حالانکہ کچھ عرصے بعد یہی افراد کسی نہ کسی حکومتی ادارے کی تحویل سے برآمد ہوتے ہیں عدالتیں بھی اس ضمن میں شہریوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہیں اس تناظر میں انسانی حقوق کے کارکن ، عام شہری بالخصوص صوبہ بلوچستان میں خوف وہراس کا شکار ہیں۔ ان جبری گمشدگیوں کا شکار ہوکر رہائی پانے والے افراد نے انتہائی ہولناک انکشافات کئے ہیں۔ اس عمل سے گذرنے والے ادیب وڈاکٹر حنیف شریف نے بتایا کہ اسے کئی ماہ تک مسلسل ایک تنگ وتاریک کمرے میں زنجیر سے باندھ کر کھڑا رکھا گیا۔ یہ کمرہ انتہائی غلیظ تھا ڈاکٹر حنیف شریف نے اپنے جسم پر متعدد نشانات دکھائے جو کیڑے ، مکوڑوں کے کاٹنے سے بنے تھے، ڈاکٹر اللہ نذر کی رہائی بھی عجیب انداز میں ہوئی اُنہیں ایسی حالت میں چھوڑا گیا جب وہ مرنے کے قریب تھے اُنہوں نے بتایا کہ اسے بجلی کے جھٹکے دیئے گئے اور کھانے میں زہر بھی دیا گیا ۔ مند سے تعلق رکھنے والے اسکول ٹیچر عبدالستار کو دو مہینوں تک غیر قانونی قید میں رکھ کر اس کے جسم پر آہنی سلاخوں سے ضربیں لگائی جاتی رہی۔ یہ تمام افراد مفلوج ہوگئے تھے اور کافی عرصے تک ہسپتال میں زیر علاج رہے ۔ڈاکٹر حنیف شریف نے کوئٹہ کے قلی کیمپ کے بارے میں بتایا کہ وہاں ایسے قیدی بھی موجود تھے جنہوں نے کئی مہینوں سے سورج کی روشنی نہیں دیکھی۔ وہاں سے خوش نصیب ہی رہائی پاتے ہیں۔ ان قیدیوں کی زندگی اہلکاروں کے رحم وکرم پر ہوتی ہے جو جسمانی اذیت کے ساتھ ساتھ نفیساتی اذیت بھی دیتے ہیں۔ ان کے گھروالوں کو قتل کی دھمکی دی جاتی ہے ۔ اُنھیں کہاجاتا ہے کہ ان کے بھائی یا والد کو بھی اُٹھا لیا گیا ہے اور ان کو قتل کردیا جائے گا۔ اہلکار اپنی گفتگو میں باربار تاثر دیتے ہیں کہ ان کی تشدد سے ٹارچر سیل کا ایک اور قیدی ابھی دم توڑ گیا ہے اور وہ اس کی لاش کو کسی نالے میں پھینک آئے ہیں۔ قیدیوں کو گالیاں بھی دی جاتی ہیں۔ بیت الخلاء کا کوئی انتظام نہیں ۔ ان جیلوں سے رہائی پانے والوں کے مطابق وہاں بہت سے لوگوں نے خود کشی کی کوشش بھی کی تھی۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیاں (Enforced Disappearances) اور ماورائے عدالت قتل کرنے کا سلسلہ 2001 ؁ء سے جاری ہے اور اس کے ساتھ ہی فوجی آپریشن کے نام پر شہری آبادیوں پر بمباری گھروں اور مال مویشیوں کو تباہ و مسمار کرنے میں تیزی آئی، بلوچستان میں ملٹری گورنمنٹ کے اقدامات پر شدید مذمت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بلوچوں کی سیاسی اور معاشی جبر کو حل کرنے کی بجائے ان کے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو جبری طور پر غائب کرکے اور قتل کرکے زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے اسلام آباد کی ماضی کی پالیسیوں کے تحت بلوچستان میں سیاسی اور معاشی اختیارات نہ دینے اور سرد مہدی ، غفلت برتنے کی وجہ سے انہیں باربار بغاوت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ نواب اکبر بگٹی کی فوج کے ہاتھوں قتل نے بلوچ قوم کی کی وفاق سے نفرت کو بڑھا دیا ہے ۔ ملٹری گورنمنٹ سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کی ہزاروں کی تعداد میں گرفتار جن میں طالب علم، سیاسی ورکرز، ڈاکٹرز، جرنلسٹ اور یہا ں تکہ دکاندار بھی شامل میں انہیں خوفزدہ کرنے کیلئے گرفتار کرنا، تشدد کرنا، جبری طور پر لاپتہ کرنا اور ماورائے عدالت قتل کرنے کے حربے استعمال کررہی ہے لیکن اس عمل کی وجہ سے لوگوں کی ہمدردیاں مزاحمت کاروں کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں۔
7؍اگست2009 ؁ء کو بلوچستان کے شہر مند سے کراچی آئے ہوئے ناروے کے بلوچ شہری احسان ارجمندی کو پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکار زیرو پوائنٹ پربس سے اتار کر چہرے پر کسی بڑے مجرم کی طرح سیاہ کپڑا ڈھانپ کر اپنے ساتھ لے گئے عینی شاہدین کے مطابق بیس کے قریب پک اپ گاڑیاں نے ان کے بس کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے انتہائی اطمینان سے بس کی تلاشی لی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ کے تھیں۔ اس دن سے آج تک نارو یجین شہری کے بارے میں پاکستانی اعلیٰ حکام کوئی ٹھوس معلومات نہیں دے رہے ہیں اور ایک بلوچ ہونے کے ناطے تاحال مسلسل ٹارچر سیلوں میں قید کیا ہوا ہے کیونکہ احسان ارجمندی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف سرگرم تھے اور اُنہوں نے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی ناروے آمد پر بلوچوں کا احتجاجی مظاہرہ کرنے میں مددکی تھی۔
بی بی سی ڈاٹ کام اُردو 9؍دسمبر2009 ؁، : بلوچستان کے علاقے مند کی رہائشی بائیس سالہ شہناز بلوچ پہلی مرتبہ جلسے میں شریک ہونے کے لئے تمپ گئیں اسی ایک قدم نے اُن کی زندگی کوسنگین خطرے سے دوچار کردیا تمپ شہر میں اتوار کو ایف سی سے مبینہ جھڑپ میں ہلاک ہونے والے نوجوان شاعر میر جان میرل کے سوئم کے سلسلے میں تمپ ہائی اسکول میں منعقد پرامن جلسے میں خواتین ، بچے اور مرد شریک تھے وہ سب بلوچی میں شاعری سن رہے تھے کہ اچانک یہ پرامن منظر خونی کھیل میں بدل گیا۔ ملیشیا فورس کے اہلکاروں نے چار دیواری کامحاصرہ کیا اور ایک دم اندر داخل ہوگئے۔ اُنہوں نے نہ تو جلسہ ختم کرنے کیلئے اور نہ ہی لوگوں کو وہاں جانے سے یا منتشر ہونے کے لئے کہا۔ صرف لوگوں پر لاٹھیاں اور گولیاں برسانے لگے اور اُن کے شہناز کے بیس سالہ چچازاد بھائی مختار بلوچ کو گولی لگی اور وہ زمین پر گرگیا وہ ان کی طرف دوڑیں تو وہ بھی گولی کا نشانہ بن گئیں اس فائرنگ سے مختار بلوچ ہلاک ہوگئے اور اُن کے والد عبدالرحمان بھی زخمی ہوگئے۔
شہناز پرائمری اسکول میں ٹیچر تھیں اُنہیں گلے میں گولی لگی جوآرپار ہوگئی اُن کا دایاں ہاتھ اور بازو سن ہوگئے ہیں اور وہ بات کرنے میں سخت تکلیف محسوس کرتی ہیں۔
’’لاپتہ افراد کی کراچی سے ملنے والی لاشیں‘‘
جنوری کے آخر میں عدنان بلوچ جسے خفیہ اداروں نے مند سے اغواء کیا تھا ملیر سے اسکی لاش ملی، گوادر سے آئی ایس آئی کے ہاتھوں اغواء ہونے والے ہارون اور رزاق بلوچ کی لاشیں کراچی سے ملی پھر مقبول بلوچ اور اختر بلوچ کی لاشیں کراچی کے ویران علاقے سرجانی ٹاؤن سے برآمد ہوئیں جنہیں چلتی گاڑی سے نامعلوم افراد نے لاشیں تھانے کے سامنے پھینک کرفرار ہوئے منگھوپیر سے لاپتہ واحد بخش نیچاری جسے کوئٹہ سے اغواء کیا تھا اسکی لاش ویرانے میں پھینکی گئی پسنی سے طالب علم ساجد کریم اور بلیدی سے ماسٹر شیر محمد کو بھی حراست میں لیکر لاپتہ کردیا گیا ۔
مارچ کے مہینے میں کراچی میں 7 مارچ کو بابوافتخار اور 10مارچ کو بی این ایم پنجگور زون کے صدر ماسٹر عبدالرحمن اور زاہد بلوچ کی لاشیں بھی کراچی سے برآمد ہوئیں جن کے جسموں پر تشدد کے نشانات کے علاوہ گردے ، دل، آنکھیں نکال لی گئیں تھیں ۔
2008 ؁ء میں بھی ایمنٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں\"Denying the undeniable\" میں جبری گمشدگیوں سے انکار دراصل لاپتہ افراد کی بازیابی سے انکار ہے جب کہ 600 سے زائد کی لسٹ سپریم کورٹ میں موجود ہے ۔پاکستانی ٹروپس بلوچ نیشنلسٹوں کو قتل کرکے اُنہیں ہیر و بنارہے ہیں اور بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کوبڑھاوادے رہے ہیں۔
11؍اکتوبر 2009 ؁ء کو پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں اعتماد کی فضاء بنانے کے لئے صوبہ کو فوری طور پر سرکاری عسکری قوتوں سے پاک کیاجائے تاکہ تمام سیاسی قوتوں سے مذاکرات کاآغاز کیا جاسکے۔ کمیشن تنبیہ کرتا ہے کہ اگر بلوچستان کے لوگوں کی منشا اور اطمینان کے مطابق اصلاح کے اقدامات نہ کئے گئے تو ملک کو اس کی بھاری قیمت چکاناپڑے گی۔ انسانی حقوق کمیشن بلوچستان کے حالات کو ایک ہفتہ تک مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ وفاق کی سب سے بڑی اکائی ایک ایسا آتش فشاں بن چکی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اس کے نتائج بہت برُے ہوں گے ۔ بلوچستان کی صورتحال سنگین ہے اور روز بروز خراب تر ہوتی جارہی ہے ۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات عام ہیں اور رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ ریاست ان خلاف ورزیوں کی روک تھام نہیں کررہی ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ میڈیا دباؤ کے نتیجے میں یا اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے حقائق کی تفتیش کرنے اور اُنہیں پوری طرح سے رپورٹ کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سب سے دل دہلادینے والے واقعات لوگوں کو جبری غائب کردینے سے متعلق ہیں جو 2009 ؁ء کے دوران ایک بار پھر بڑھتے جارہے ہیں۔ کمیشن کے پاس اتنی کافی شہادتیں موجود ہیں جو متاثرہ خاندانوں کے ان الزامات کی تائید کرتی ہیں کہ ان لوگوں کو انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ادارہ نے اغواء کرکے غائب کیاہواہے ۔
’’بلوچ کارکنوں کے اغوا وقتل پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ روزنامہ توار 28-10-2010 ‘‘
بلوچستان میں بلوچ سیاسی رہنماؤں کارکنوں کے اغواء اور ان کے تشددزدہ لاشوں کی برآمدگی پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم اینسٹی انٹرنیشنل نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی جاری رپورٹ میں کہا ہے کہ گذشتہ چار ماہ سے 40سے زائد بلوچ رہنماؤں و کارکنوں کو آغواء اور قتل کیا گیا ہے رپورٹ کے مطابق کارکنوں اور طلباء کو زبردستی اغواء اور قانونی تقاضے پورے کئے بغیر گرفتار کیا گیا اور ٹارگٹ بنا کر غیر قانونی طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ لہر بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور فوجی آپریشن کے بعد شروع ہوئی رپورٹ میں مستونگ سے اغواء قتل کئے والے بلوچ شاعر فقیر محمد اور بی ایس او آزاد کے رہنماء ظہور بلوچ کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ کچھ عرصہ قبل تک اغواء کے قتل کارجحان اتنا زیادہ نہیں تھا۔ ان رہنماؤں کی تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی ایک طے شدہ بڑھتی ہوئی پالیسی کا مظہر ہے کہ ’’مارو اور پھینک دو‘‘۔ رپورٹ میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان واقعات کی تحقیقات کرے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ اب ان پر صرف نظر کرنا پاکستانی و بین الاقوامی کسی بھی انسانی حقوق اور انصاف کے ادارے و حلقے کیلئے ممکن نہیں رہا ہے کیونکہ جس قسم کے واقعات و سانحات بلوچ رہنماؤں و کارکنوں کے ساتھ کئے جانیوالے بدترین انسانیت سوز سلوک کی شکل میں بلوچستان میں رونما ہورہے ہیں وہ بذات خود ان اداروں اور ممالک کے وجود کے جواز پر سوالیہ نشان بن رہی ہیں۔
بلوچستان میں اغواء گمشدگیوں اور قتل متعلق ہیومن رائٹس بلوچ کی رپورٹ 30-07-2011 بلوچستان میں سیاسی رہنماؤں و کارکنوں سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کے اغواء گمشدگیوں اور قتل کرکے لاشیں پھینکنے کا مسئلہ اب دنیا بھر کے نظروں میں آچکا ہے اور اس ضمن میں بعض انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ پاکستانی حکومت اس انسانیت سوز سلسلے کو بند کروائے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹس میں بلوچوں کے اغواء، لاشوں کی برآمدگی میں سیکوریٹی اداروں کو ملوث قرار دیکر پاکستان حکومت کو عالمی سطح پر جوابد ہی کے قیام پر لاکھڑا کردیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر لاپتہ بلوچوں کو بازیاب اور لاشیں پھینکے کے گھناؤنے عمل کو بند کرائے۔ ہیومن رائٹس واچ ایشیاء کے ڈائریکٹر بریڈایڈمز کے مطابق صدر آصف زرداری جان لیں کہ بلوچستان میں زیادتیوں کو نظرانداز کرنا آرمی اور انٹیلی جنس اداروں کو اس بات کی اجازت دینا ہے کہ وہ پاکستان میں جہاں چاہیں زیادتیاں کرسکتے ہیں پورے بلوچستان میں جنوری 2011 ؁ء سے کم از کم 150 لوگوں کو اغواء کرکے قتل کیا گیا اور انکی لاشیں پھینکی گئی ہیں جس کو ’’مارو اور پھینکو ‘‘آپریشن کہا جاتا ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ نے بلوچستان میں بھی شامل ہیں جس میں لاپتہ افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں ہیں جولائی کے شروعاتی دس دنوں میں معروف بلوچ قوم پرست کارکن عبدالغفور لانگو کی لاش ضلع لسبیلہ کے علاقے گڈانی کے ایک ویران ہوٹل کے پاس ملی جنہیں گیارہ دسمبر 2009 ؁ء کو کراچی سے گرفتار کرکے لاپتہ کیا گیا تھا ۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکن حنیف بلوچ کو چار جولائی 2011 ؁ء کو ضلع لسبیلہ کے شہر حب سے اغواء کیا گیا جسکی لاش چھ جولائی کو بولان کے علاقے مچھ سے ملی ان کے جسم کے اوپر ہی حصے میں تین گولیاں ماری گئی تھی اسی دن ضلع کیچ کے شہر تربت کے مضافاتی علاقے جو سک تمپ کے رہائشی اعظم محراب اور مند کے رہائشی رحیم بلوچ کی لاش برآمد ہوئی دونوں کو نامعلوم حالات میں گولیاں مارکر قتل کیا گیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ رپورٹ: ۔ بلوچستان میں حالیہ حراستی قتال
ہیومن رائٹس واچ نے بلوچستان میں حراستی قتل اور جبری گمشدگیوں کے کیسز کی تحقیقات کیں ہیں درج ذیل کچھ کیسز ہیں جن میں پاکستان ملٹری، اسکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پیرا ملٹری فورسز فرنٹیر کور کے ملوث ہونے کے شواہد کو ظاہر کرتے ہیں۔
یوسف نظر اور صدیق عیدو جومعروف این جی او ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سینئر کوآرڈینیٹر تھے ۔ یوسف نظر پیشے کے اعتبار سے درزی تھے کو 21 ؍دسمبر 2010 ؁ء کو ضلع گوادر کے شہر پسنی سے سیکوریٹی کے یونیفارم میں ملبوس افراد نے اغوا کیا۔ دونوں افراد کی لاشیں 28 اپریل 2011 ؁ء کو ضلع گوادر کے علاقے اوڑمارہ کے قریب سے برآمد ہوئیں۔ نصیر کمالان کو 6 نومبر 2010 ؁ء کو مکران کوسٹل ہائی وے سے ایک مسافر وین سے گن پوائنٹ پر اغواء کیا گیا۔اغوا کا رایف سی کے یونیفارم میں تھے اور انکے پاس ایسی جیپ تھی جو عام طور پر ایف والے استعمال کرتے ہیں ۔ نصیر کمان کی لاش 17 جنوری 2011 ؁ء کو مکان کوسٹل ہائی وے سے برآمد ہوئی۔
جمیل یعقوب کو 28؍اگست 2010 ؁ء کو تربت شہر سے ایف سی کی وردی میں ملبوس افراد نے اغوا کیا جو ملٹری کی جیب میں آئے تھے انکی لاش 10 فروری 2011 ؁ء کو تربت کے قریب سے برآمد ہوئی۔
8جولائی 2011 ؁ء کو بی ایس او آزاد جونیئر جوائنٹ سیکریٹری شفیع بلوچ کو ضلع مستونگ کے علاقے لک پاس کے قریب اغواء کیا گیا انکے اغواکار بھی وردی میں ملبوس تین گاڑیوں میں آئے تھے اور انہیں وین سے گن پوائنٹ پر اتار کر لے گئے انکی گولی سے چھلنی لاش کوئٹہ سے 06 کلو میٹر ضلع بولان کے قریب مچھ سے ملی ، یکم جون 2011 ؁ء کو پروفیسر صباء دشتیاری جوکہ کوئٹہ بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر اور معورف قلم کار اور شاعر تھے کوئٹہ سریاب روڈ میں نامعلوم افراد گولیاں مارکر قتل کردیا گیا ۔ صباء دشتیاری نے بلوچ ثقافت ، بلوچی زبان پر کئی کتابیں لکھی اور وہ اسلامی اسکالر بھی تھے ۔
’’اقوام متحدہ وفد کی رپورٹ‘‘
United nation working group on Enforced or Involentry Disappearances (WGEID) نے 10-09-2012 کو پاکستان کا 10 روزہ دورہ کے دوران اسلام آباد ،کراچی اور کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے خاندانوں اور VBMP سمیت مختلف تنظیموں اور پارٹیوں اور سرکاری وزراء اور افسران سے ملاقاتیں کیں اور 20؍دسمبر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی حقائق جاننے والا مشن (ڈبلیو جی ای آئی ڈی) ورکنگ گروپ برائے جبری یا غیر رضاکارانہ گمشدگیاں جس کے چیئرپرسن اولیوٹرڈی فراؤ اور عثماں ال حجے نے اپنے دس روزہ باضابطہ دورے کے اختتام پر مختصر رپورٹ میں بلوچستان اور دیگر مقامات میں لاپتہ افراد کی گمشدگیوں اور قتل پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ورکنگ گروپ کو یہ الزامات موصول ہوئے ہیں ان میں کچھ افراد کے ذریعے جن سے ہم ملے تھے ان کے مطابق انہیں دھمکیاں دی گئی تھی یا خوفزدہ کیا گیا تھا۔ ہم ریاست سے کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو ہم سے ملے تھے ان کی حفاظت کی ضمانت دی جائے اور کسی بھی طرح کی انتقامی کارروائی، دھمکی یا انہیں خوفزدہ کرنے کیخلاف انکی حفاظت کی جائے۔ ورکنگ گروپ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کا حقائق جاننے والا مشن فقط انسانی بنیادوں پر مبنی تھا اور انہیں کسی طور پر بھی ثبوت جمع کرنے کا کام نہیں سونپا گیا تھا کہ جس سے وہ فوجداری کارروائی شروع کردیں کیونکہ یہ ڈبلیو جی ای آئی ڈی کے دائرہ کار میں نہیں ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک لاپتہ شخص کی ماں نے ہم سے ان تمام افراد کو یہ پیغام پہنچانے کا کہا ہے جو پاکستان میں عوامی معاملات کے کرتا دھرتا ہیں اس نے پوچھا اگر آپ کا بہ غائب ہوجائے تو آپ کیا کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوال اس آزمائش کا خلاصہ ہے جس سے یہ خاندان گزر رہا ہے ۔
پاکستان میں اغواء گمشدگی اور تشدد زدہ لاشوں ، ٹارگٹ کلنگ کے بارے میں جن انسانی حقوق کے اداروں نے اب تک آواز اٹھائی ہے ان میں ہیومن رائٹس واچ، ایمنیٹی انٹرنیشنل، ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ہانگ کانگ ، ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کی تنظیم قابل ذکر ہیں اگرچہ بین الاقوامی سطح پر امریکہ، کینیڈا، یورپی یونین پارلیمنٹ نے بھی اپنی جاری کردہ سالانہ رپورٹس میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کرتے ہوئے اظہار تشویش کیا گیا ہے جبکہ سب سے زیادہ رپورٹس بی بی سی اردو ڈاٹ کام نے دیئے۔
10؍اگست 2013کوبولان میں جعلی آپریشن میں 6لاپتہ افراد کی ٹارچر شدہ مسخ لاشیں پھینکی گئیں جن کی شناخت بجارمری، پلیا خان مری ، عزت خان مری، داد محمد مری اور واحد بخش مری کے نام سے ہوئیں جنہیں 8؍اگست کو مچھ بولان سے اغواء کیا گیا تھا، 11؍اگست کو بولان میں جعلی آپریشن میں4 مزید لاشیں پھینکی گئیں جن کی شناخت نورمحمدمری، رحیم مری، جمعہ خان مری اور رزاق مری کے نام سے ہوئیں یہ تمام افراد مری آباد مچھ کے رہائشی تھے۔
20؍اگست2013 کو کراچی میں مزید 2لاپتہ افراد کی لاشیں سرجانی ٹاؤن سے برآمد ہوئیں جن میں ایک کی شناخت بی این ایم کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات صحافی وادیب کامریڈ حاجی رزاق بلوچ اور دوسرے کی پٹھان بگٹی کے نام سے ہوئی حاجی رزاق کو24؍مارچ 2013 کولیاری سے اغواء کیا گیا تھا ۔ جتنے بھی لاپتہ افراد کے حراستی قتل ہوئے وہ سب کے سب نہتے تھے۔
اسی طرح21اور 22 ستمبر کی درمیانی شب ایف سی نے زیر حراست 3 بلوچ فرزندان جن میں ایک اِسی سالہ بزرگ عزیر مینگل، خلیل بلوچ اور عنایت بلوچ کو شہید کرکے لاشیں وڈھ میں پھینک دیں ۔ عزیر مینگل کو 21؍ستمبر کی صبح ایف سی نے وڈھ کے علاقے میں واقع اُن کے گھر سے اغواء کیا جب کہ خلیل بلوچ اور عنایت بلوچ کو 25؍اگست 2014 ؁ء وڈھ وھیرہ سے اغواء کیا بعد میں ایف سی کے ترجمان نے میڈیا میں بیان جاری کیا کہ مذکورہ افراد سرچ آپریشن کے دوران مقابلے میں ہلاک کئے گئے جب کہ یہ تینوں ایف سی کے حراست میں تشدد کرنے کے بعد قتل کئے گئے۔
مورخہ 23ستمبرکوپیدارک سے باہوٹ بلوچ ولد پیر محمد اور ولی محمد بلوچ ولد شکاری یوسف کی مسخ شدہ لاشیں ملیں جنہیں چند دن قبل پیدارک سے پاکستان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے قائم کردہ ڈیٹھ اسکواڈ کے کارندو ں نے اغواء کیا تھا ۔ باہوٹ سری کلگ گورکوپ اور ولی محمد بلوچ سولانی گورکوپ کے رہائشی تھے۔
مورخہ24؍ستمبر2014 کو کوئٹہ کے علاقے کلی حنیفہ اور کلی قمبرانی ، سریب ، بروری، سٹیلائٹ ٹاؤن ، ہزار گنجی ، نیوکاہان کاآپریشن 32 افراد حراست کے بعد لاپتہ ۔
مورخہ 25؍ستمبر2014 ؁ء ہوشاب کے رہائشی 12سالہ لڑکا روشن ولد روزی بلوچ کو فورسز نے تربت سے ہوشاب آنے والی مسافر وین سے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردای۔
25؍ستمبر2014 ؁ء پنجگور کے علاقے وشبود سے چار افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد جوکہ بوریوں میں بند تھے اور اُن کی لاشوں کی حالت انتہائی خستہ ہے صرف ہڈی اور کھوپڑیاں باقی رہ گئی ہیں جو ناقابل شناخت ہیں ۔
یکم ستمبر تمپ گومازی میں ایف سی کا آپریشن ہیلی کاپٹر کے ذریعے گھروں پر بمباری کرکے چھ نہتے معصوم بچوں کو شہید جب کہ ایک درجن کے قریب لوگوں کو اغواء کرنے کے بعد عقوبت خانوں میں منتقل کردیا گیا۔ دوران آپریشن درندہ صفت فورسز نے فیصل بلوچ نامی ایک کارکن کی لاش ہیلی کاپٹر سے نیچے اس کے گھر کے قریب پھینکی جوکہ گذشتہ ایک سال سے لاپتہ تھا۔ ڈیرہ بگٹی سے چھ بلوچ خواتین حراست کے بعد لاپتہ جن میں جوان 4بچیاں اور ایک بچہ بھی شامل ہے ۔
22 نومبر 2014 ؁ء کو فورسز نے ایک چھاپہ کے دوران شہر ک میں آباد ی انخلاء کے بعد 2گرلز اسکول سمیت 16 اسکولز بند ہوئے ۔ شہرک کی آباد ی چند روز قبل تربت اور دیگر علاقوں میں منتقل ہوچکی ہے تربت، ہوشاب ایم 8 شاہرہ کے تعمیر کے آغاز کے بعد فورسز اور مزاحمت کاروں کے درمیان جھڑپوں کے باعث علاقہ مکین میں خوف کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ پلنش سے لے کر گونکی تک عوام نے اپنے صدیوں پرانی آباد کردہ جائیداد ، گھر وفصلات چھوڑ کر نہ بادل خواستہ ، آبدیدہ آنکھوں اور دل گرفتگی کے ساتھ مجبور ی کے عالم میں دیگر علاقوں کا رُخ کرلیا ہے آبادی کے انخلا سے اسکولز بھی بند ہوگئے ہیں۔
اس سے قبل شاپک سے آبادی کی نقل مکانی سے ہائی اسکول شاپک سمیت کئی اسکولز بند ہوگئے ہیں گھر بار ومال ،مویشی چھوڑ کر زندگی بچانے کے لئے شہریوں نے خیموں میں پناہ لے لی ہے سینکڑوں بغیر چھت مفلس الحال میں رہ رہے ہیں۔ شہرک شاپک کے علاوہ نقل مکانی کرنے والوں میں ہیرونک ،کولواہ، کیکن، تجایاں ، بلور کے لوگ بھی شامل ہیں۔
13؍اکتوبر2014 ؁ء بلوچستان بھر میں فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا ہے کوئٹہ، تربت، دشت ، مستونگ، بولان، مچھ ، کرمووڈھ، آواران، مشکے ، خضدار، پنجگور تمپ ، مند، ڈیرہ بگٹی میں بڑے پیمانے پر کاروائی کی گئی گرفتار افراد بلوچستان میں مختلف مقامات وتحقیقاتی مراکز میں منتقل کردیئے گئے سیاسی کارکنان کو حراست کے بعد لاپتہ کیاجارہاہے ۔
18؍مارچ 2014 ؁ء سے بی ایس او آزاد کے چیئر مین زاہد بلوچ پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں گرفتار کئے جانے کے بعد سے تاحال لاپتہ ہیں اُن کی بازیابی کے لئے بی ایس او آزاد کے مرکزی کمیٹی کے ممبر لطیف جوہر کی تادم مرگ بھوک ہڑتال جسے بعد میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور بلوچ آزادی پسند رہنماؤں کی اپیلوں کی وجہ سے بھوک ہڑتال ختم کی گئی مگر تاحال کسی ادارے نے عملی طور پر اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کی زاہد بلوچ کی بے آسرا بیوی اور معصوم کمسن، شیرخوار بچے حکمرانوں کے شہر اسلام آباد میں بھی بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہے مگر تاحال انصاف کا ترازو بلوچوں کے پلڑے میں آنے سے قاصر ہے ۔
بسیمہ سے بی این ایم کے ممبر ابراہیم بلوچ کو ڈیتھ اسکواڈ نے اغوا کرنے کے بعد شہید کیا 27 مارچ کو ڈیرہ بگٹی ، نصیر آباد کے علاقوں میں فورسز کی بربریت جاری جس سے درجنوں مردوخواتین اور بچوں کی شہادت کی اطلاعات ملی ہیں جبکہ درجنوں مکانات کو بھی جلایا گیا ۔ زارا بی بی ، خیرہ بی بی اور بیورغ کو شہید کرنے کے ساتھ درجنوں افراد کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا گیا ۔ اگلے روز ہی لڑو بگٹی ولد خان محمد بگٹی کی مسخ شدہ لاش نصیر آباد سے ملی جنہیں ایک دن قبل فورسز آپریشن کے دوران ساتھ لے گئے تھے ۔
2013 اپریل کی پہلی صبح کوئٹہ ہزار بگٹی، نیوکاہان میں فورسز نے بلوچ آبادیوں پر ہلہ بول کر شدید لوٹ مار کی اور 20 افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔
ماہ مئی میں گومازی میں 7 ماہ قبل اغواء ہونے والے عمر جان کی تشدد زدہ لاش پھینکی گئی جبکہ شعیب کو اغوا کرکے لاپتہ کردیا گیا مرگاپ سے پنجگور کے لاپتہ دو بھائی شاہ زیب اور شاہ نور کی مسخ لاشیں پھینک کر ریاست نے اپنی بربریت کا ثبوت پیش کیا۔ کوئٹہ سے دوسگے بھائی خان محمد مری اور نبی مری کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ۔ یکم جولائی کو خدائیداد عرف عبداللہ مری اور بجار مری کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ڈیرہ اللہ یار سے برآمد ہوئیں۔ جنہیں 24 ؍جون 2013 ؁ء کو پاکستان فورسز نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا تھا ۔ 19؍جولائی کو لاپتہ اعجاز بلوچ کی گولیوں سے چھلنی لاش کراچی میں پھینکی گئی جبکہ جی آر پی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر شمع بگٹی کے بزرگ والد حمل بگٹی اور بھائی واحد بگٹی کی تشدد زدہ گولیوں سے چھلنی لاشیں بھی پھینکی گئی۔
14؍اگست2013 ؁ء بی ایس او آزاد کے جنرل سیکریٹری رضا جہانگیر اور بی این ایم کے رہنما امداد پجیر کو تربت میں فورسز نے اُن کے گھر پر حملہ کرکے مارٹر گولے برساکر شہید کردیا ۔ جب کہ انکا گھر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ۔ 12؍اکتوبر 2014 کوکوئٹہ پریس کل