Powered By Blogger

вторник, 31 декабря 2019 г.

ایران میں 25-اکتوبر 2014 کو پھانسی چڑھنے والی چھبیس سالہ خاتون، ریحانے جباری، کی ڈائری سے ایک اقتباس

ایران میں 25-اکتوبر 2014 کو پھانسی چڑھنے والی چھبیس سالہ خاتون، ریحانے جباری، کی ڈائری سے ایک اقتباس-

’’پولیس ہیڈ کوارٹر میں تین جسیم مرد ایک چھوٹے سے کمرے میں میرے منتظر تھے۔ اندر داخل ہوتے ہی انہوں نے مجھے فرش پر بیٹھنے کو کہا اور مجھے ایک کرسی کے ساتھ ہتھکڑیوں سے باندھ دیا۔ باری باری وہ مجھ پہ چلاتے رہے ۔

 تم سمجھتی ہو کہ تم بہت چالاک ہو؟ یہاں تو تم سے بڑوں بڑوں کی چیں بول گئی۔ تم کیڑی مکوڑی کیا چیز ہو؟ سارے سوالوں کا اونچی آواز میں جواب دو۔‘‘
مجھے اپنی پشت پر جلد سوجتی اور پھٹتی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے شدید جلن محسوس ہو رہی تھی اور میری چیخوں سے میرے اپنے کان دکھنے لگے۔ مجھے چابک کی لش سنائی ہی نہیں دے رہی تھی۔ میں نہیں جانتی کہ وہ مجھے کس چیز سے زدوکوب کر رہے تھے، چابک سے یاکسی رسی سے یا لکڑی کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ۔ ۔ مجھے کبھی پتہ نہیں چلا کہ وہ تینوں راکشس مجھے کس شے سے جلا رہے تھے۔ مجھے صرف اپنی چیخیں سنائی دے رہی تھیں اور کچھ نہیں۔ اونچی کرسی سے بندھی میری کلائیاں درد اور جلن سے سُن ہو چکی تھیں۔
اس سال موسم سرما سرد تھا ۔ جیل میں ہیٹنگ کے نطام کے خراب ہونے کی وجہ سے ہمارے وارڈ میں ہر طرف دانت بجنے اور کھانسی چھینکوں کی آوازیں آتی تھیں۔ مجھے ۲۰۰۷ کی قیدِ تنہائی یاد آتی ہے کہ جب قیدِ تنہائی کے دوران میری تفتیش ہو رہی تھی۔ زخموں سے چور اور بے چینی اور خوف سے کانپتے بدن کے ساتھ۔ میری عمر تب انیس برس کی تھی۔
پوچھ گچھ کرنے والے اکثر دو آدمی ہوتے تھے جن کا نام مجھے کبھی پتہ نہیں چلا۔
وہ مجھے [میرا اقرارنامہ] بول کر لکھاتے تھے اور میں لکھتی تھی۔ ایک بار وہ مجھے کہیں تفتیش کے لئے لے گئے جہاں میں نےاپنی کلائیوں سے بندھی چھت سے لٹکی ہوئی ایک 14 یا 15 سال کی عمر کی لڑکی کو دیکھا۔ لڑکی کا رنگ پیلا تھا، بری طرح سبکیاں لیتے ہوئےاس کے ہونٹ پھٹے ہوئے تھے۔
[ایک اور کمرے میں،] پرسندہ مرے سامنے بیٹھ کر بولا کہ آج یا کل وہ میری چھوٹی بہن کو بھی لے آئیں گے۔ انہیں اسکا نام بھی معلوم تھا: بادوک۔ اس نے کہا کہ "اب اس کی باری ہے۔ وہ تو دبلی پتلی دھان پان سی ہے۔ کیا خیال ہے وہ اس لڑکی کی طرح لٹکی ہوئی کتنی دیر کاٹے گی؟‘‘
وہ تفصیل سے مجھے بتانے لگا کہ وہ میری بہن سے کیا سلوک، کیسے کرے گا۔ میں نے رونا شروع کر دیا اور منتیں کرنے لگی کہ وہ میری بہن کو معاف کر دے۔ اس نے کہا کہ وہ مجبور ہے یہ اس کے بس میں نہیں ہے۔ میں نے اسے پوچھا کہ میں اپنی بہن کو تکلیف سے بچانے کے لئے کیا کر سکتی تھی ۔ اس نے کہا کہ:
"یہ بہت آسان ہے ۔ بس اعتراف لکھ کر دے دو کہ تم نے چھری دو دن پہلے خاص طور پر اس قتل کیلئے خریدی تھی۔"۔ ...
تو میں نے بالآخر لکھ کر دے دیا کہ میں نے چھری خود پہلے سے خریدی تھی، کاغذ پر دستخط کئے اور ایک اطمینان کی سانس لی [کہ بادوک بچ گئی تھی]۔

دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی کوششوں کے باوجود قتل کے الزام میں تقریباً 7 سال سے قید ریحانہ جباری کو 25 اکتوبر کو پھانسی دے دی گئی۔
ریحانہ نے پھانسی سے پہلے اپنی ماں کو ایک خط لکھ کر اپنی موت کے بعد اپنے اعضاء کو عطیہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا یہ خط اپریل میں ہی موصول ہوگیا تھا، لیکن ایران میں امن کے حامی کارکنوں نے اس کو ریحانہ کو پھانسی دیے جانے کے ایک دن بعد عام کیا۔
ریحانی کی والدہ نے جج کے سامنے اپنی بیٹی ریحانہ کی جگہ خود کو پھانسی دیے جانے کی التجاء کی تھی۔
واضح رہے کہ 2007ء میں ریحانہ نے سابق اینٹیلی جنس اہلکار مرتضیٰ عبدل علی سربندی کو چھری کے وار سے قتل کر دیا تھا۔ 
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ایک مبصر کا کہنا تھا کہ ریحانہ نے مرتضٰی کا قتل اپنے دفاع میں کیا تھا کیونکہ سربندی نے ریحانہ کا ریپ کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ پندرہ دسمبر 2008ء کو ریحانہ جباری اپنے خلاف مقدمے کی پہلی سماعت کے دوران اپنا دفاع کیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ ریحانہ پر اس قتل کا مقدمہ 2009ء میں نہایت ناقص طریقے سے چلایا گیا تھا۔ ایرانی اداکاروں اور دیگر نامور شخصیات نے ریحانہ کو سنائی جانے والی پھانسی کی سزا پر سخت احتجاج کرتے ہوئے اس سزا کو روکنے کی اپیل کی تھی اور اُن کی اپیل کی باز گشت مغربی دنیا میں بھی سنائی دے رہی تھی۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ کے مطابق ریحانہ کی والدہ کو جمعہ کو ایک گھنٹے کے لیے اپنی بیٹی سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔ 
ایرانی قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو سزائے موت دینے سے پہلے اُس کے کسی قریبی رشتہ دار سے ملنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ایران میں امن کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا تھا کہ ریحانہ کی والدہ کو بتایا گیا تھا کہ ریحانہ کو پھانسی دیے جانے کے کچھ گھنٹوں پہلے انہیں اس بارے میں بتا دیا جائے گا۔ عدالت کے حکم کے مطابق، 2007 ءمیں ریحانہ نے مرتضیٰ پر جس چاقو سے وار کیا تھا، وہ دو دن پہلے ہی خریدا گیا تھا۔ ایرانی وزیر انصاف مصطفٰی محمدی نے بتایا تھا کہ اس معاملے کا خوشگوار اختتام ہو سکتا تھا لیکن مرتضٰی کے اہلخانہ نے ریحانہ کی جان بچانے کے لیے قصاص کی رقم لینے کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ برطانوی وزارت خارجہ نے بھی ریحانہ جباری کی پھانسی کو ناپسندیدہ فعل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح دنیا کے ساتھ ایران کے تعلقات کو بحال کرنا آسان نہیں ہوگا۔  اگرچہ ایرانی حکام یہ وضاحت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ چونکہ مقتول کے ورثاء اسلامی قوانین کے تحت قاتل لڑکی کو معاف کرنے یا قصاص لینے پر راضی نہیں ہوئے تھے، چنانچہ حکومت اور عدالتیں مجبور تھیں۔ لیکن وہ اس سوال کا جواب دینے میں ناکام رہے کہ ریحانہ پر جنسی حملہ کرنے کے الزام کی تحقیقات کیوں نہیں کی گئیں۔ اس حقیقت کی چھان بین کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی کہ ریحانہ کن حالات میں مرتضیٰ عبدالعلی کے فلیٹ تک لائی گئی اور وہاں تیسرا شخص کون تھا۔ مقدمے کے دوران استغاثہ سارا زور اس بات پر دیتا رہا کہ ریحانہ نے دو روز قبل چاقو خریدا تھا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ قتل کا ارادہ رکھتی تھیں۔

ریحانہ کی والدہ صالحہ۔

ریحانہ نے اپنی والدہ کے نام اپنے آخری خط میں لکھا تھا:
’’میری عزیز ماں،
مجھے آج پتہ چلا کہ مجھے قصاص (ایرانی نظام میں سزا کا قانون) کا سامنا کرنا پڑے گا، مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہو رہا ہے کہ آخر آپ اپنے دل کو یہ یقین کیوں نہیں دلا رہی ہیں کہ میں اب اپنی زندگی کے آخری مقام تک پہنچ چکی ہوں۔
آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی  اداسی مجھے کس قدر پریشان کرتی ہے؟ آپ مجھے اپنے اور پاپا کے ہاتھوں کو چومنے کا موقع کیوں نہیں دیتی ہیں۔
ماں، اس دنیا نے مجھے 19 سال جینے کا موقع دیا تھا۔ اس منحوس رات کو میرا قتل ہو جانا چاہیے تھا۔ میری لاش کو شہر کے کسی کونے میں پھینک دیا گیا ہوتا اور پھر پولیس آپ کو میری لاش کو پہچاننے کے لیے بلواتی اور آپ کو پتہ چلتا کہ قتل سے پہلے میرا ریپ بھی ہوا تھا۔
 میرا قاتل کبھی بھی گرفت میں نہیں آتا، کیونکہ آپ پاس اس کی طرح نہ ہی دولت ہے، نہ ہی طاقت۔
 اس کے بعد آپ کچھ سال اسی عذاب اور پریشانی میں گزار تیں اور

ایسٹ انڈیا کمپنی: ’کروڑوں افراد کو غلام بنانے کی تاریخی مثال‘

1833 میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی سے حق تجارت چھین لیا گیا۔ فوٹو: ویکیپیڈیا
آج سے کوئی چار سو بیس سال قبل آج کی ہی تاریخ یعنی 31 دسمبر سنہ 1600 کو برطانیہ کی ملکہ الزبتھ اول نے لندن کے دو سو سے زائد بااثر افراد اور تاجروں کی ایک نئی کمپنی کو چارٹر جاری کیا جس کے تحت اس کمپنی کو مشرقی ایشا میں تجارت پر اجارہ داری عنایت کی گئی۔
یہ ایک عام سا سرکاری فرمان تھا اور امکان یہی تھا کہ کمپنی مصالحہ جات کی بین الاقوامی منافع بخش تجارت میں شریک ہو جائے گی لیکن شاید اس دن نہ ملکہ کو نہ ہی کمپنی کے سرکردہ افراد کو اندازہ تھا کہ لندن کی ایک چھوٹی سی عمارت میں قائم یہ کمپنی صرف مصالحہ جات کی تجارت نہیں کرے گی بلکہ دنیا کی تاریخ کی سب سے طاقتور ملٹی نیشنل کمپنی بن کر دنیا کے سب سے امیر ملک اور تقریباً ایک چوتھائی آبادی پر براہ راست راج کرے گی۔
حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ولیم ڈارلیمپل کی کتاب ’دی انارکی، دا ری لینٹ لس رائز آف ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کے مطابق یہ تاریخ کی ایک منفرد مثال ہے جس میں اٹھارویں صدی کے وسط میں ایک پرائیویٹ کمپنی نے اپنی زمینی فوج اور نیوی کی مدد سے 20 کروڑ لوگوں پر مشتمل ایک پوری قوم کو غلام بنا دیا تھا۔
ابتدا میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے قریب ڈیڑھ سو سال تک قدرے شرافت کے ساتھ تجارت کی۔
اس وقت مغلوں کی حکمرانی میں انڈیا دنیا کا امیر ترین ملک شمار ہوتا تھا اور ان دنوں کا انگلینڈ ملکہ الزبتھ کی فراست مندی اور حکمت کے باعث  قدرے ترقی کے باوجود  رقبے اور وسائل میں انڈیا کے سامنے ایسا ہی تھا جیسے آج کے امریکہ کے سامنے ایشیا کا کوئی چھوٹا سا ملک۔
انڈیا کی آبادی اس وقت انگلینڈ سے تقریباً 20 گنا زیادہ تھی۔ 

 1600 میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ اول نے لندن کے بااثر افراد پر مبنی ایسٹ انڈیا کمپنی کو چارٹر جاری کیا تھا۔ فوٹو: بریٹنیکا

انڈیا دنیا کا صنعتی مرکز تھا دنیا کی آبادی کا پانچ فیصد انڈیا میں رہتا تھا اور تقریباً ایک چوتھائی مصنوعات یہاں تیار ہوتی تھیں جن میں کپڑے کی اشیا سر فہرست ہیں۔ دنیا بھر کا سونا اور چاندی انڈیا میں آتا اور یہاں کی اشیا دنیا بھر میں بکتی تھیں حتیٰ کہ سستی انڈین مصنوعات کی دستیابی کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں جیسے میکسیکو میں مقامی صنعت تک متاثر ہو رہی تھی۔
اس زمانے میں معاشی خوشحالی کے باعث اس وقت کا مغل شہنشاہ اکبر دنیا کا سب سے امیر انسان تھا جس کی آمدنی چند تخمینوں کے مطابق آج کے دور کے 10 ارب برٹش پاؤنڈز کے برابر تھی۔ 
دوسری طرف انگلینڈ قدرے غریب زرعی ملک تھا جو تقریباً ایک صدی تک مذہب جیسے موضوع پرخانہ جنگی کا شکار رہا تھا۔ انگلینڈ میں دنیا کی صرف تین فیصد مصنوعات تیار ہوتی تھیں۔
مذہبی خانہ جنگی کی وجہ سے یورپ میں انگلینڈ کسی حد تک تنہا ہو چکا تھا اسی تنہائی نے انگلینڈ کے باسیوں کو مجبور کیا کہ دنیا بھر میں کاروبار اور تجارت کے مواقع ڈھونڈیں۔
یہ وہ وقت تھا جب یورپ کی بڑی طاقتیں مشرق کے مصالحہ جات کی تجارت پر اجارہ داری کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریبان تھیں۔
یورپ اور دینا بھر میں ریفریجریشن وغیرہ کی عدم موجودگی میں گوشت اور دیگر کھانے بدبو چھوڑ دیتے تھے ایسے میں ان کھانوں کو استعمال کے قابل بنانے کے لیے مشرق سے آنے والے مصالحہ جات کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ اپنی دولت کو مصالحوں کی موجودگی سے ماپتے تھے۔ 

ایسٹ اندیا ہاؤس لندن سے انڈیا کے معاملات چلائے جاتے تھے۔ فوٹو: ویکیپیڈیا

پرتگال اور سپین تقریباً ایک صدی سے اس تجارت میں اپنے پنجے گاڑ چکے تھے اور انگلینڈ کے تاجر پریشان تھے کہ وہ کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔
اس دور میں برطانوی ملکہ کی مرضی سے انگلینڈ کے ’بحری تاجر‘ اسپین، اور پرتگال کے بحری جہازوں کو سمندروں میں موقع ملنے پر لوٹتے رہتے تھے تاہم انہیں بڑے پیمانے پر مصالحہ جات کی پرکشش تجارت میں حصہ لینا تھا۔ 
ایسٹ انڈیا کمپنی سے پہلے مشرق سے مصالحہ جات کے حصول کے لیے لیونٹ کمپنی دو کوششیں کر چکی تھی مگر اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ تاہم لندن کے سابق اور موجودہ میئر حضرات، شہر کے اکاونٹ افسران، تاجران، سابق فوجی افسران اور بحری قذاقوں کی طرف سے مل کر تشکیل دی جانے والی کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی نے جو چارٹر حاصل کیا اس میں انہیں مانگی گئی مراعات سے بھی زائد عطا کی گئیں جن میں 15 سال تک بلا شرکت غیرے تجارتی اجارہ داری اور پہلے چھ بحری سفروں پر ہر طرح کے ٹیکس اور ڈیوٹی کی رعایت شامل تھی۔
کمپنی کا پہلا سفر 13 فروری 1601 کو سر جیمز لین کاسٹر کی قیادت میں شروع ہوا جو ساؤتھ افریقہ میں موجود کیپ آف ہوپ سے ہوتا ہوا آج کے انڈونیشیا اور قریبی علاقوں میں پہنچا اور چھ جون 1603 کو جب چار جہازوں پر مشتمل بحری بیڑہ واپس لندن پہنچا تو وہ دارچینی، مرچ اور لونگ کے 900 ٹن سے زائد مقدار لیے ہوئے تھا جس میں بڑی مقدار وہ بھی تھی جو ایک پرتگالی جہاز سے لوٹی ہوئی تھی جبکہ باقی آج کے انڈونیشیا اور ملحقہ علاقوں سے خریدی گئی تھی۔ کمپنی کے 218 شئیر ہولڈروں کو تین سو گنا منافع ہوا تھا۔
اس دور میں یورپ کا نو آزاد ملک ہالینڈ مصالحہ جات کی تجارت پر اپنی معاشی مضبوطی کی وجہ سے چھا چکا تھا اس لیے انگریزوں نے فیصلہ کیا کہ مصالحہ جات کو ان پر چھوڑ کرانڈیا سے کپڑے اور دیگر اشیا پر توجہ مرکوز کی جائے۔

تین سال کی مشکل سفارتکاری کے بعد سر تھامس ایسٹ انڈیا کمپنی کی سورت میں فیکٹری کھلوانے میں کامیاب ہو گئے۔ فوٹو ویکیپیڈیا

چنانچہ اگست 1608 کو کیپٹن ولیم ہاکنز نے اپنا جہاز ’ہیکٹر‘ انڈیا کی بندرگاہ سورت (جو آجکل گجرات ریاست میں شامل ہے) پر لنگر انداز کیا اور انڈیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی پہنچ گئی۔
کیپٹن ہاکنز کو انڈیا پہنچ کر اندازہ ہو گیا کہ عظیم مغل حکمرانوں کے اس ملک کو فتح کرنے کا سوچنا بھی پاگل پن ہو گا۔
 اس وقت مغل بادشاہ کے پاس چالیس لاکھ افراد پر مشتمل فوج موجود تھی۔
کیپٹن ہاکنز کی بات سالوں بعد درست ثابت ہوئی جب شہنشاہ جہانگیر نے 1632 میں بنگال میں مداخلت کی کوشش پر پرتگالیوں کو چند دن کی لڑائی میں عبرتناک شکست دی۔ اس پر ایسٹ انڈیا کمپنی بھی سہم گئی۔
کمپنی نے فیصلہ کیا کہ انڈیا میں تجارت اور کاروبار کے لیے مغل حکمرانوں کی رضامندی سے کام کیا جائے۔
ہاکنز کو شہنشاہ جہانگیر کے پاس بھیجا گیا مگر بازوق شہنشاہ نیم خواندہ ہاکنز سے متاثر نہ ہوا اور اسے کوئی رعائت نہ مل سکی۔
اس کے بعد کنگ جیمز کو آمادہ کیا گیا کہ انتہائی پڑھے لکھے رکن پارلیمنٹ اور سفارت کار سر تھامس رو کو جہانگیر کے دربار میں شاہی ایلچی کے طور پر بھیجا جائے۔
تھامس رو 1615 کو مغل درالحکومت آگرہ پہنچا اور بادشاہ کو انگلینڈ اور آئرلینڈ سے لائے شکاری کتوں سمیت بیش قیمتی تحائف پیش کیے۔

 سترھویں صدی میں کمپنی نے صرف ایک بار مغلوں کے سامنے طاقت آزمانے کی کوشش کی جس میں اسے منہ کی کھانی پڑی تھی۔ فوٹو ویکیپیڈیا

تین سال کی مشکل سفارتکاری کے بعد سر تھامس ایسٹ انڈیا کمپنی کی سورت میں فیکٹری کے لیے مغل شہنشاہ کا شاہی فرمان اور چند دیگر رعایتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
کمپنی نے اگلے سو سال تک مغلوں کی خوشنودی کے حصول کو اپنی پالیسی بنائے رکھا۔ 
1626 تک کمپنی نے انڈیا میں ارماگون میں ایک محفوظ اڈہ بنایا۔ پھر مدراس میں ایک تجارتی کالونی آباد کی جو جلد ہی خوشحال ہو گئی۔ کمپنی کی دوسری آبادی بمبئے میں قائم ہوئی جو دراصل پرتگال کی طرف سے انگلینڈ کے بادشاہ چارلس دوم کو جہیز میں دی گئی تھی۔ بمبئے میں کمپنی نے اپنا پہلا بحری اڈہ قائم کیا۔
سترھویں صدی میں کمپنی نے صرف ایک بار مغلوں کے سامنے طاقت آزمائی کی کوشش کی جس میں اسے منہ کی کھانی پڑی تھی۔
سن 1681 میں کمپنی کی ڈائرکٹرشپ سر جوائش چائلڈ کے ہاتھ میں آئی تو کمپنی کے اہلکاروں نے انہیں شکایت کی کہ بنگال میں نواب شائستہ خان  کے اہلکار ٹیکس اور دیگر معاملات میں کمپنی کے کارندوں کو تنگ کرتے ہیں۔ 
نواب آف بنگال مغل بادشاہ اورنگزیب کا بھانجا تھا۔
چائلڈ نے سوچا کہ مغلوں کو سبق سکھایا جائے اس مقصد کے لیے اس نے انگلینڈ کے بادشاہ کو خط لکھا کہ اسے فوجی مدد مہیا کی جائے۔ چنانچہ سن 1686 میں لندن سے ایک بڑا بحری بیڑہ بنگال کی طرف روانہ ہوا جس میں انیس جنگی جہاز، دو سو توپیں اور چھ سو فوجی سوار تھے۔
 شاید چائلڈ نے دنیا کے سب سے امیر بادشاہ سے غلط وقت میں پنگا لے لیا تھا۔ جب برطانوی بیڑہ انڈیا پہنچا تو مغل بادشاہ دکن میں دو مقامی فتوحات سے فارغ ہی ہوا تھا اور اس کی فوج مکمل تیار تھی۔

انیسویں صدی کے شروع میں کمپنی برطانوی راج کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی قوت بن گئی۔ فوٹو ویکیپیڈیا

تاریخ دان ولیم ڈارلیمپل کے مطابق برطانوی فوجیوں کو مغل فوج نے مکھیوں کی طرح مارا اوراس کے بعد کمپنی کی بنگال میں پانچ فیکٹریوں کو تہس نہس کر کے سب انگریزوں کو بنگال سے نکال باہر کیا۔ سورت کی فیکٹری بند کر دی گئی جبکہ بمبے کو بلاک کر دیا گیا۔  کمپنی کے ملازمین کو زنجیروں سے باندھ کر شہروں میں گھمایا گیا اور انکو چوروں اورقاتلوں کی طرح شدید ہتک کا نشانہ بنایا گیا ۔ کمپنی کے پاس معافی مانگنے اور اپنی فیکٹریوں کی واپسی کے لیے بادشاہ کے دربار میں بھکاریوں کی طرح پیش ہونے کے سوا چارہ نہ رہا، اورنگزیب نے بالآخر 1690 میں کمپنی کو معاف کر دیا۔
1707 میں اورنگزیب کی وفات کے بعد اسکی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف انڈیا کےمختلف علاقوں کے ہندووں اور دیگر لوگوں کا لاوا پھٹا تو کمپنی نے بھی اپنی پالیسی بدل لی۔
جب احمد شاہ رنگلیلا کے دور میں ایران سے نادرشاہ کے حملے اوراربوں ڈالر کی تاریخی لوٹ کھسوٹ اور انڈیا کے مختلف علاقوں کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوئے تو کمپنی نے فائدہ اٹھاتے ہوئے تو مقامی افراد پر مشتمل لاکھوں کی فوج تیار کی اور اس کے زریعے مغلوں، مرہٹوں، سکھوں اور مقامی نوابوں کو ایک ایک کر کے زیر کرتی گئی۔
اس دوران یورپ میں صنعتی انقلاب آیا جس کی بدولت جنگی ٹیکنالوجی میں بھی یورپیوں کو برتری حاصل ہو گئی اور وہ اپنی چھوٹی مگر مؤثر فوج کے زریعے مغلوں اور دیگر حکمرانوں کی پرانی ٹیکنالوجی سے مسلح بڑی فوجوں کو شکست دیتے گئے۔

یورپ میں صنعتی انقلاب کے بدولت جنگی ٹیکنالوجی میں بھی یورپیوں کو برتری حاصل ہو گئی۔ فوٹو: ویکیپڈیا

اگست 1765 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے نوجوان مغل بادشاہ شاہ عالم کو جنگ میں ہرا کر اسے مجبور کر دیا کہ وہ بنگال میں انتظامی امور کمپنی کے حوالے کر دے۔ تاریخ دانوں کے مطابق یہ انڈیا کو نوآبادی بنانے کا سب سے اہم مرحلہ تھا جس کے بعد کمپنی انڈیا کی مالک بن بیٹھی اور جہازوں کے جہاز بھر کر انڈیا سے لوٹا ہوا مال لندن پہنچنا شروع ہو گیا۔ 
صرف میسور کے شیر کہلانے والے ٹیپو سلطان نے فرانس کی تکنیکی معاونت سے کمپنی کی حقیقی بڑی مزاحمت کی اور کمپنی کو دو جنگوں میں شکست بھی دی تاہم انڈیا کے ہی دیگر حکمرانوں کو ساتھ ملا کر کمپنی نے بلآآخر ٹیپو سلطان پر بھی قابو پا لیا اور جب سن 1799 کو کمپنی کے گورنر جنرل لارڈ ویلزلے کو ٹیپو کی جنگ میں ہلاک ہونے کی خبر سنائی گئی تو اس نے اپنا گلاس ہوا میں بلند کرتے ہوئے کہا کہ آج میں انڈیا کی لاش پر جشن منا رہا ہوں۔ 
 اس دوران کمپنی نے برطانوی راج کی طاقت کو استعمال کیا اور انیسویں صدی کے شروع میں دنیا کی سب سے بڑی استعماری قوت بن گئی اور 20 کروڑ آبادی کے انڈیا پر قابض ہو گئی۔
عین اسی وقت برطانیہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا زوال شروع ہو گیا تھا۔
لارڈ ویلزکے دور میں ہی کمپنی جنگی کامیابیوں کے باجود مالی مسائل کا شکار ہونا شروع ہو گئی تھی اور اسکا قرضہ تین کروڑ پاونڈ (آج کے تقریبا  تین ارب ڈالر) سے بڑھ چکا تھا۔ کمپنی کے ڈائریکٹر نے حکومت کو ویلزلے کی فضول خرچیوں پر خط لکھا اور اسے انڈیا سے واپس بلا لیا گیا۔ 
پھر سن 1813 میں برطانوی پارلیمنٹ نے صدیوں بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی انڈیا میں تجارت پر اجارہ داری ختم کرتے ہوئے دیگر برطانوی کمپنیوں کو بھی انڈیا میں کاروبار کرنے اور دفاتر کھولنے کی اجازت دے دی۔

1857 کی بغاوت کے بعد ملکہ وکٹوریہ نے کمپنی کا اختیار ختم کر دیا تھا ۔ فوٹو: ویکیپیڈیا

سن 1833 میں سالوں کی مسلسل کوشش کے بعد کمپنی کے برطانوی مخالفین غالب آگئے اور برطانوی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی سے حق تجارت چھین لیا اور اسے ایک گورننگ کارپوریشن میں بدل دیا۔
جب 1857 کی جنگ آزادی میں کمپنی کے اپنے بھرتی شدہ سپاہیوں نے اس کے خلاف بغاوت کر دی تو برطانیہ نے فیصلہ کر لیا کہ بہت ہو گیا۔ نو ماہ کی بے یقینی کے بعد آخر کمپنی نے ’بغاوت‘ (جسے انڈیا میں جنگ آزادی کہا جاتا ہے) کچل دی اور کمپنی نے آخری بار اپنی بہیمانہ طاقت کا مظاہرہ بیسیوں ہزاروں افراد کو بازاروں اور سڑکوں پر لٹکا کر اور قتل کر کے کیا۔
یہ پوری برطانوی نو آبادی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام تھا۔ تاہم یہ کمپنی کا آخری ظالمانہ اقدام تھا۔
برطانوی ملکہ وکٹوریہ نے کمپنی کے اختیارات ختم کر کے انڈیا کا انتظام براہ راست سنبھال لیا اور کمپنی کی فوج کو برطانوی فوج میں ضم کر کے اسکی نیوی ختم کر دی گئی۔ اسکے باجود کمپنی کا چارٹر1874 تک مؤثر تھا جس کے بعد کمپنی خاموشی سے تاریخ کے اوراق میں گم ہو گئی۔
شاید برطانیہ کمپنی کے کارناموں پر زیادہ فخر محسوس نہیں کرتا اسی لیے آج لندن میں کمپنی کے نام کی کوئی یادگار تک نہیں ہاں کمپنی کے برانڈ کا نام اب انڈیا کی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں کی ملکیت ہے جسے وہ لندن کے ایک  شو روم میں گورمے  چائے، کافی اور چاکلیٹ کی فروخت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

понедельник, 30 декабря 2019 г.

ہاں! میں جذباتی ہوں – برزکوہی

جب موجودہ تحریک آزادی کی لہریں نئی نئی نمودار ہورہیں تھی، اور جب کوئی نوجوان، بزرگ، یا بچہ قومی آزادی، قومی جنگ اور قومی فکر کے بارے میں بات کرتا، پاکستانی قبضے، پاکستان دشمنی اور سرمچاروں کے بارے میں اظہار خیال کرتا، اور اپنی ہمدردیوں کا جھکاؤ آزادی کی تحریک کی جانب مائل دِکھاتا تو 73 و 80 کے تھکے ہوئے، بزدل و خوف کے شکار مایوس کامریڈوں سمیت نام نہاد دانشور و لکھاریوں کی جانب سے یہ برملا کہا جاتا کہ آزادی کا نام لینے والے جذباتی، مہم جو، انتہاء پسند،غیر سنجیدہ، نابالغ اور ایڈوانس سلوگن والے ہیں۔ جواب میں ماشاء اللہ ہم بھی ان کو معاف نہیں کرتے اور کہتے وہ مایوس و شکست خوردہ ہیں، ڈرپوک ہیں، پیداگیر ہیں، بھتہ خور ہیں، غدار ہیں وغیرہ۔

اب طنزیہ بات یہ ہے کہ آج وہی رویہ کچھ آزادی کے علمبرداروں نے بھی اختیار کیا ہوا ہے۔ آج اگر کوئی قومی جنگ، مسلح مزاحمت، پاکستان دشمنی کے متعلق بغیر لگی لپٹی واضح اور دوٹوک انداز میں اپنا موقف اسی طرح پیش کرتا ہے، جس طرح شروع ادوار میں کیا جاتا تھا، تو پھر انکو آزادی پسندوں کے بیچ پنپتی ہوئی ایک سوچ جذباتی، مہم جو، انتہاء پسند، غیرسنجیدہ وغیرہ کے ناموں سے پکارے تو پھر یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس وقت کے بھگوڑے قوم پرست، دانشور، ادیب، صحیح تھے اور آپ غلط؟ اور آپ اس امر کا ادراک آج رکھ رہے ہیں، یا پھر کہیں ایسا نہیں کہ آپ میں اور ان میں کچھ یکسانیت پیدا ہورہی ہے، اسلیئے آپکی سوچ بھی اسی ڈگر پر رواں ہے؟

یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم خوف، تھکاوٹ، بزدلی، شکست خوردگی، راہ فراریت، کاہلی، سستی اور آرام پسندی کو خوبصورت الفاظ کے چادر میں ڈھانپ کر سنجیدگی کا نام نہیں دے رہے ہیں؟ کیا کبھی ہم نے سچائی و ایمانداری کے پیمانے کو لیکر اپنے ذہن و ضمیر و سوچ کو چیک کیا ہے کہ کہیں ہم قومی جنگ کی طوالت سے تھکاوٹ کا شکار تو نہیں ہورہے ہیں؟ اور پھر 73 و 80 کے کامریڈوں و نام نہادغازیوں کی طرح اپنے تھکاوٹ و بے عملی کو سنجیدگی کا نام دے رہے ہیں؟

میرے خیال میں چند کتابیں، بغیر سمجھے رٹا لگانا، جیب میں پین لگاکر تھری پیس سوٹ بوٹ، کاٹن و جیکٹ پہننا یا یورپ نشین ہونا سنجیدگی کا معیار نہیں ہے اور نا ہی قومی آزادی کے حصول کی خاطر بندوق اٹھاکر، دوٹوک اور واضح انداز میں اپنے موقف کو پیش کرنا، دشمن سے مقابلہ کرنا غیر سنجیدگی کے زمرے میں آتا ہے۔

عجیب روایت آن پڑی ہے کہ قلم و زبان سے وابسطہ ہر عمل کو سنجیدگی سے دامن گیر کیا جاتا ہے، اور بندوق و تشدد کے تمام زاویوں کو نظرانداز کرکے اسے ایک ڈبے میں بند کرکے اس پر مہم جوئی لکھی جاتی ہے۔ ہر وہ عمل سنجیدہ و پختہ ہے، جو تاریخی تسلسل، زمینی حقائق، مستقبل کے تعین، اور دشمن کے حقیقتِ حال کو باریکی سے جان کر، چنا جائے اور اسکا کماحقہ استعمال کیا جائے۔ اگر راہ بندوق نکلتی ہے تو وہ مسلح جدوجہد مہم جوئی نہیں بلکہ ایک سنجیدہ اور دانشمندانہ عمل ہے، اور قلم نکلتی ہے تو قلم اور اگر زبان نکلتی ہے تو زبان۔ ایسے بھی حالت نکلتے ہیں کہ جہاں قلم و زبان مہم جوئی کہلائے جاسکتے ہیں۔ جناب کاغذ چاٹنے سے پہلے اپنی مٹی پھانکنی پڑتی ہے، شاید کوئی اسکاٹ لینڈ میں مسلح جہد کی بات کرے آپ اسے مہم جو کہہ سکتے ہو کیونکہ انہیں ریفرنڈم کا پورا حق دیا گیا ہے لیکن ذرا اپنی مٹی پھانک کر بلوچستان کو دیکھو یہاں اور راستہ ہی کیا نکلتا ہے؟ اسی لیئے سب سے سنجیدہ، معتبر اور کماحقہ رستہ ہی مسلح جہد ہے، جو ہرگز ہرگز مہم جوئی نہیں اور جو بھی اسے مہم جوئی و غیرسنجیدگی کے خانوں میں ڈھالنے کی کوشش کرے گا وہ دراصل انکے خوف و شکست کا لاشعوری اظہار ہوگا۔

ہزاروں شہداء اور ہزاروں لاپتہ افراد کی قربانی، تکلیف، اذیت کے بعد اگر کوئی آکر نام نہاد قوم پرست پارٹیوں، مایوس کامریڈوں اور غازیوں کی طرح آج قومی آزادی کی جنگ یا جنگجو دوستوں کو جذباتی مہم جو کہہ دے یا سمجھے خدا کرے وہ خود کیوں آزادی پسند نہ ہو، پھر یہ حق بنتا ہے کہ جسطرح ہم نیشنل پارٹی و بی این پی کو نام نہاد قوم پرست کہتے تھے، ان کو بھی نام نہاد آزادی پسند کہنا بہتر ہوگا۔

باقی آپ چھوڑ دیں، آج ہمارے بردار و ہمسایہ سندھی قوم میں ایک درجن سے زائد پارٹیاں ہیں، جو آزادی کی بات کرتے ہیں، آزادی کے نام پر جلسہ، جلوس و سیمینار منعقد کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، آزادی پر بڑی بڑی تحریریں لکھتے ہیں، شہیدوں کو یاد کرتے ہیں، مگر کھل کر سندھی مسلح جدوجہد کو مہم جو، جذباتی اور انتہاء پسندی کہتے ہیں اور باقی سرگرمیوں کی خاطر ریاست ان کا آج تک ایک بال بھی بیکا نہیں کرتا، پھر کیا یہ آزادی پسند اور حقیقی قوم پرستی کے زمرے میں شمار ہونگے؟ کیا یہ ہے سنجیدہ اور پختہ سیاست؟ اگر جواب جی ہاں میں ہے، تو اس سنجیدہ و پختہ سیاست سے دشمن کو سندھ میں کیا تکلیف اور پریشانی ہوئی ہے؟

آج بہت سے لوگ خود گواہ ہیں کہ پاکستانی قلی کیمپ میں جو دوست قید تھے، انہیں آئی ایس آئی خود نصیحت کیا کرتا تھا اور یہ آفر بھی ہوتا تھا کہ جاؤ پاکستان کو گالی دو، آزادی کی بات کرو، تقریرکرو، تحریر لکھو، نعرے لگاو، جدھر بھی آپ کا دل چاہے یورپ میں، بلوچستان میں، کراچی میں، اسلام آباد میں جلسے کرو، بس مسلح جدوجہد سے دور رہو، اس کا نہ حمایت کرو، نا حصہ بنو، جسے آپ سنجیدہ سیاست کا نام دے رہے ہو، اس سنجیدہ سیاست کا درس خود دشمن بھی دے رہا ہے۔

میں ایک بار پھر دہراؤں گا، اگر سنجیدہ سیاست کا معیار و تعریف یہ ہے، تو ہم غیر سنجیدہ اور جذباتی تھے اور جذباتی رہینگے، کیونکہ سچائی اور حقیقت الفاظ کی ہیرہ پھیری، جواز، بہانوں، من گھڑت دلیلوں سے کبھی بھی چھپ نہیں سکتا ہے۔ اپنی مایوسی، تھکاوٹ، خاموش راہ فراریت، خاموش کمپرومائز اور خوف کواگر سنجیدگی و پختگی، بالیدگی کے پردوں میں لپیٹ دینا ممکن ہوتا تو اس وقت دنیا کے تاریخ میں تمام بزدل اور مایوس انسان سنجیدہ و پختہ انسان کہلاتے۔

میں پھر وضاحت کرتا ہوں، بالکل قومی تحریک میں مسلح جدوجہد کے ساتھ، ہمہ جہت جہدوجہد کی ضرورت پڑتی ہے، چاہے وہ سرفیس سیاست ہو، سفارت و صحافت ہو، یا ادب وغیرہ لیکن ان کو پہلے خود سمجھنا، سیکھنا، جاننا بنیادی شرط ہے۔

صرف باتوں کی حد تک نہیں، عملاً کچھ کرنا اور دکھانا، رات بھر بیٹھنا، دوستوں کے ساتھ گپ شپ و ٹائم پاسی، فیسبک یا گیم کھیلنا، چائے پر چائے، سگریٹ پر سگریٹ پھر سارا دن نیند میں مدہوش رہنا، پھر بھی سیاست، سفارت، ادب، صحافت کا نعرہ مستانہ بلند کرنا۔ کم از کم ہم جیسے جذباتی کم علم بندوں کی سمجھ میں نہیں آتا یہ معیارِ سنجیدگی۔

یہ سیاست نہ بلوچ قوم کا پہلے درد کا دوا تھا اور نہ ہی آج ہے، اس سے دشمن بھی خوش، ہم بھی خوش، صرف وقت پاسی اور وقت کو دھکا دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، بالکل اسی طرح مسلح جہدوجہد کا بھی اپنا معیار و تقاضہ ہوتا ہے، ہر وقت متحرک، چست و چوبن، مہارت کے ساتھ سرگرم عمل رہنا، ایک منٹ اپنے کام اور ذمہ داریوں سے غافل نہیں رہنا، وقت کی پابندی، ہر وقت چوکس رہنا، بہتر سے بہترین جنگی منصوبہ بندی کرنا و جنگی تخلیق میں مگن رہنا اور رسک اٹھانے کی جرات رکھنا، اور بروقت فیصلہ کرنا اہم ہوتا ہے، نہیں تو صرف بس جنگ کے ساتھ وابستگی بھی وقت پاسی ہے، جو ضائع شدہ سرمچاری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

بہرحال مسلح جہدوجہد ہو، غیر مسلح ہو، جہدوجہد کا ہر جز لازمی ہے، مگر ہر جز کی تعریف و معیار اپنی ذاتی خواہشات، ذاتی سوچ، ذاتی مزاج سے نہ ہو، کم از کم علمی، تحقیقی بنیاد اور حقائق کے بنیاد پر ہو، اس میں ہلڑبازی اور ملاوٹ نہ ہو۔

کوئی اگر کہہ دے مجھے جہاز چلانا نہیں آتا ہے، میرے بس کی بات نہیں، میں سائیکل چلاسکتا ہوں، پھر وہ سائیکل کو صحیح طرح کم از کم چلائے، یہ بھی درست نہیں پھر وہ جو صحیح صحیح ابھی سائیکل تک نہیں چلا سکتا اور جہاز چلانے سے بالرضا درستبردار ہوچکا ہے، وہ کہے کہ جہاز چلانے والا جہاز ہی غلط چلا رہا ہے، اور میں ساری سواریاں سائیکل پر اٹھاسکتا ہوں۔

اس مسئلے پر تھیسز لکھنے کی ضرورت بھی نہیں، یہ بات ایک سادہ سے ایماندارانہ تجزیئے سے سمجھ آجاتی ہے کہ بلوچستان کے تمام مسئلوں کا حل آزادی کے سوا کچھ بھی نہیں اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ یہ آزادی طاقت کے زور پر چھینی گئی اور طاقت کے زور پر واپس حاصل کی جائیگی۔ جس کیلئے آپکو اپنے طاقت اور لڑنے کے استطاعت میں حددرجہ اضافہ کرتے جانا ہے۔ ابھی اس حقیقت کو کوئی قبول کرے اسے سنجیدگی کہے، حقیقت پسندی کہے تو بھی حقیقت اپنی جگہ سالم رہے گی، اگر مہم جوئی اور جذباتی پن کہے پھر بھی حقیقت اور راہ وہی رہے گا اور اسی پر ہی چلنا ہے۔

среда, 25 декабря 2019 г.

اسلم ہارے بھی نہیں۔۔۔برزکوہیدی بلوچستان پوسٹ

تاریخ عالم میں شخصیات کا تقابل و تشبیہہ ایک ناگزیر عمل ہے، اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کچھ ہستیاں اپنے کردار سے انسانی صلاحیتوں و کامیابی کے پیمانوں کو اتنا بلند کردیتے ہیں کہ انکی شخصیت خود ایک پیمانہ بن جاتا ہے اور آنے والے ہر نابغہ روزگار کی صلاحیتوں کا اداراک اسی پیمانے کے تقابل سے ہوتا ہے، تب تک جب تک کہ کوئی اور آکر اپنے کردار و صلاحیت کی اونچائی سے ان پیمانوں کو ہی نا توڑدے اور پھر خود وہی پیمانہ بن جائے۔

میں بلوچ لکھاریوں و سیاسی کیڈر میں یہ رجحان بدرجہ اتم دیکھتا ہوں کہ وہ متعلقہ گروہی یا قومی رہبروں کا تقابل، عالمگیر انقلابی رہنماؤں سے کرکے خود کی تشفی کرتے ہیں۔ لاشعوری طور پر یہ عمل از خود متعلقہ لیڈر کے قد کا پیمائش کرنا ہوتا ہے، اسی لیئے یہ رجحان بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک ہی متعلقہ لیڈر کا چار پانچ عالمی انقلابی رہنماؤں سے تقابل پیش کیا جاتا ہے کہ پیمائش کہیں پورا اترے۔

اس مضمون کو ضبطِ تحریر میں لانے سے پہلے یہی روایتی خیال لاشعوری طور پر مجھے آن گھیرتا ہے کہ میں استاد اسلم بلوچ کے کاٹھی کا تقابل کس سے کروں، کس پیمانے پر وہ پورا اترے گا؟ لیکن سوچتا ہوں کہ میں کیوں انکا تقابل پیش کروں بسمارک، جنرل گیاپ، ہوچی منہ، ڈاکٹر چے، جیولیس فیوچک وغیرہ سے، جب اسلم بلوچ خود ان پیمانہ شکن ہستیوں میں سے ایک ہیں، جو اپنے کردار و صلاحیتوں کی بالاد سے اب خود ایک پیمانہ بن چکے ہیں۔ بلوچ کی اس دھرتی پر اب نسلوں تک جب بھی کوئی شجاعت، قیادت، ایثار، مخلصی، ذہانت اور قربانی کا دم بھرے گا، تو اسے اسلم بلوچ کے پیمانے سے گذرنا پڑے گا۔ جنرل نے اب یہ پیمانے اتنے سخت کردیئے ہیں کہ اگر کوئی رہبری کا دعویٰ کریگا تو پھر اسے اپنے کردار کا تقابل اسلم سے کرنا پڑیگا، شاید اب نسلوں تک بلوچ سماج میں وہ رہنما ہی تصور نا ہو، جسکے خلوص، قربانی اور سچائی کی کاٹھی اسلم سے میل نا کھائے۔ جنرل اسلم نے جاتے جاتے رہنمائی کے تقاضے بھی بہت سخت کردیئے۔

آج اگر کوئی یہ کہنے کی سکت رکھے کہ بلوچ قوم یا تاریخ میں استاد اسلم وہ کماحقہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں رہے، تو پھروہ تاریخ اور تاریخی کرداروں سے نا بلد انسان ہوگا۔ بالکل اسلم کاسترو و ڈاکٹر چی نہیں بن سکا لیکن اسلم بلوچ، اسلم بن گیا۔ جو اتنا ہی اہم، عظیم اور عالمگیر ہے جتنے باقی عالمی رہبران۔

عصر حاضر میں بلوچ قوم میں اعلیٰ پائے کے شاعر و ادیب، دانشور، تاریخ دان، ڈرامہ نگار، افسانہ نگار، صحافی، لکھاری، سیاستدان وغیرہ ضرور دستیاب ہیں لیکن فن جنگ پر مکمل عبور رکھنے والے ماہر سپہ سالار یعنی بہترین مہارت رکھنے والے استاد اسلم جیسے کتنے کمانڈر موجود ہیں؟ بالکل اس امر سے انکار نہیں کہ آج بھی بہادری، ہمت، جوش و جذبہ اور خلوص کے ساتھ بے شمار مہارت رکھنے والے جنگی دوست موجود ہیں اور آگے بھی پیدا ہونگے لیکن موجودہ جنگ میں اسلم بلوچ کے جنگی محاذ پر جنگ کے حوالے سے ایک منفرد و مثالی کردار رہا ہے۔

اسلم بلوچ کی شخصیت کے مختلف پہلو تھے بلکہ آپ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، اس کی شخصیت کے ہر جہت سے واقفیت شاید ہمارے بس کی بات نہ ہو کیونکہ کسی بہترین کمانڈر کو کوئی بہترین کمانڈر ہی پہچان سکتا ہے، جس طرح کسی دانشور کو دانشور ہی جانتا ہے، کسی بہترین ڈاکٹر کو بہترین ڈاکٹر ہی جان سکتا ہے، اب مجھ کتنا مہارت اور جانکاری ہے کہ میں اسلم کی صلاحیتوں کی صحیح پہچان کرکے پھر انکو صیح معنوں میں بیان و تشریح کروں؟ شاید انتہائی مشکل ہوگا البتہ اگر کوئی کہتا ہے لیڈر و کمانڈر کو سچا ہونا چاہیئے تو اسلم ایک سچا انسان تھا، اگر کوئی کہے لیڈر و کمانڈر میں جرت و بہادری آخری حد تک ہونا چاہیئے تو اسلم بہادری کا دوسرا نام تھا، اگر کوئی کہتا ہے، لیڈر و کمانڈر ہر قربانی کی خاطر سب سے پہلے خود پیش پیش ہو یہ تو اسلم کی بنیادی اور اولین خصوصیت تھی۔

اس مستند حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ دشمن کے جبر و تشدد، بربریت، سازشوں، خوف و ہراس، لالچ و مراعات کی بوچھاڑ، خاص طور پر آزادی پسندوں کے درمیان غیر نظریاتی اختلافات، تضادات اور آپسی رسہ کشی کے نتیجے میں بلوچ سماج و بلوچ قوم، خصوصاً نوجوانوں میں ایک بددلی و مایوسی اور خوف و تذذب کا رجحان جنم لے چکا تھا، جو بلوچ تحریک کے لیے ایک انتہائی خطرناک بھنور تھا، اس بھنور سے تحریک کو نکال کر درست سمت میں روانہ کرنا، ایک بار پھر بلوچ سماج اور بلوچ قوم میں حوصلہ و امید، جوش و جذبہ پیدا کرنا اور مایوسی و خوف کو کسی نا کسی طرح ختم کرنے میں استاد اسلم کا بہت بڑا کردار ہے۔

کیا کسی لیڈر کے عظمت و کامیابی کا تعین اسکے حتمی فتح سے ہوتا ہے؟ نہیں عظمت و کامیابی کا پیمانہ، تعینِ حقیقی راہ ہے، اسکے قیادت و فیصلوں کے اثرات ہیں، اسکے وہ غیر معمولی فیصلے ہیں جو بالآخر قافلے کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں، چاہے وہ مزید امیر کارواں نا رہے، لیکن اسکے تعلیمات اندھیری راتوں میں بھی ستارے کی مانند کھوئے ہوئے قافلے کوراہ منزل دِکھاتے رہتے ہیں۔ گوکہ اسلم بحیثیت لیڈر، بحثیت ایک کمانڈر ہمیں ہماری قومی منزل قومی آزادی تک خود جسمانی طور پر سر نہیں کرسکا، اسلم اپنے زندگی میں جیتا نہیں، لیکن اس نے شکست بھی نہیں کھایا، ہر جنگ جیتنے کے لیئے نہیں ہوتا بلکہ جنگ جاری رکھنے اور ہارنے سے بچنے کی خاطر بھی جنگ کرنا ہوتا ہے، اسلم تاریخ کے انہی لیڈروں میں شمار ہوتا ہے۔

کامیابی کو سامنے دیکھ کر لڑنے والے رہنماؤں سے یقیناً وہ رہنما زیادہ منفرد مقام رکھتے ہیں جو یہ جاننے کے باوجود لڑتے ہیں کہ شاید وہ کبھی کامیابی کو اپنی زندگی میں نہیں دیکھ سکیں گے۔ انگریز کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن خان محراب خان اپنے چالیس ساتھیوں کے ہمراہ دنیا کے اس عظیم سپر پاور سے ٹکراتا ہے کیونکہ وہ یہ جنگ جیتنے کیلئے نہیں لڑتا، بلکہ شروع کرنے کیلئے لڑتا ہے۔ کیا اسکی موت اسکی ناکامی ہے یا جس مزاحمت کا آغاز اس نے کیا وہ اسکی کامیابی؟

اسپارٹیکس جانتا تھا کہ جب تک سلطنت روم قائم ہے، تب تک اسکیلئے غلامی کو مکمل شکست دیکر ایک آزاد انسان کی طرح رہنا ممکن نہیں، اور وہ جانتا تھا کہ وہ چند غلاموں کے ہمراہ روم کی حشمت کو نہیں ڈھاسکتے، لیکن وہ پھر بھی غلامی کے صفائے کے اس جنگ کا آغاز کرتے ہیں، جسے صدیوں بعد انجام تک مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو پہنچانا ہوتا ہے۔

چنگھاڑتی ہوئی رانی لکشمی بائی ہو، یا ” مرسو مرسو سندھ نا ڈیسو” للکارتا ہوش محمد شیدی یا پھر دمِ آخر تا جوانمردی سے لڑتا ٹیپو سلطان سب جانتے تھے کہ تاج برطانیہ سے ٹکر کا مطلب انکی موت ہے، اور وہ اپنی زندگی میں نہیں جیت سکتے تھے لیکن وہ جیتنے کیلئے نہیں جنگ جاری رکھنے کیلئے، جنگ نسلوں کو منتقل کرنے کیلئے لڑرہے تھے۔

بھگت سنگھ پھانسی کے پھندے کو چوم کر اور ڈاکٹر چی بولیویا کے جنگل میں یہ چیخ کر کہ ” بزدلوں گولی چلاؤ، تم ایک جسم کو ختم کرسکتے ہو، فکر کو نہیں۔” اپنی فکر، اپنی جنگ منتقل کررہے تھے۔

گوکہ حتمی مقصد کامیابی پر منتج ہونا ہی ہوتا ہے، لیکن اسکی ہر لڑائی صرف جیتنے کیلئے نہیں ہوتی، بہت سی جنگیں اس فکر و نظریئے کو زندہ رکھنے، اس تسلسل کو برقرار رکھنے اور اگلے نسل تک منتقل کرنے کیلئے ہوتی ہیں۔ اگر جنرل اسلم کے کردار کو جانچنا ہو تو یہ پیمانہ درست نہیں ہوگا کہ دیکھا جائے کہ انہوں نے آزادی لیکر دی یا نہیں، یہ جانتے ہوئے کہ وہ اپنی زندگی میں آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے نہیں دیکھیں گے، لیکن پھر بھی وہ آخری دم تک لڑتے ہیں، اپنے جوانسال بیٹے کو قربان گاہ خود بھیجتے ہیں اور بالآخر اسی راہ میں اپنی جان دے دیتے ہیں۔ وہ آزادی کا جھنڈا نہیں گاڑھ سکے، لیکن وہ آزادی کے نظریئے کو سیسہ پلائی دیوار بنانے میں کامیاب ہوئے، مایوسیوں کے بادل چھٹوانے میں کامیاب ہوئے، اس جنگ کے تسلسل کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوئے، اور اس جنگ کو اگلی پیڑی تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے، استاد اسلم جیتے نہیں لیکن وہ سب زیادہ کامیاب رہے۔


اسلم بلوچ” ایک بلوچ جنرل”دی بلوچستان پوسٹ خصوصی رپورٹبہزاد دیدگ بلوچ

گذشتہ اکہتر سالوں سے بلوچستان میں جاری آزادی کی تحریک عروج و زوال، تیزی و مندی، کامیابیوں و ناکامیوں کے مختلف مدارج سے گذرتے ہوئے آج تک جاری ہے۔ اس طویل اور خونریز آزادی کی تحریک میں بہت سے اہم دیوہیکل کردار نظر آتے ہیں، لیکن ایک سحر انگیز کردار نے بلوچ سماج و تحریک کے اندر اساطیری حیثیت حاصل کرلی ہے۔

یہ شخصیت کسی مہم جوئیانہ افسانے کے مرکزی کردار کے طرح متوسط طبقے سے گمنامی کے پردے کے پیچھے سے اچانک نمودار ہوتا ہے، اور پھر اسکے شجاعت کے قصے زبان زد عام ہوجاتے ہیں اور وہ گھر گھر نام ہوجاتا ہے۔ اپنے حلقہ احباب میں وہ اسپارٹیکس کی طرح باپ کا درجہ رکھنے لگتا ہے اور دشمنوں میں ایک ایسی خوف کی علامت، جو اچانک اپنے لشکر کے ساتھ نمودار ہوکر سب تہس نہس کردیتا ہے۔ یہ کردار حضرت ابراہیم کی طرح اپنے بیٹے کو قربان کرنے کیلئے خود چنتا ہے، اور قربان گاہ پہنچا کر قربان کرجاتا ہے۔ وہ کئی بار اپنے دشمن کے گھیرے میں آتا ہے، گولیوں اور توپوں کی بوچھاڑ میں گِھر جاتا ہے، اسکی موت کا پختہ یقین کرکے اسکا دشمن سکھ کا سانس لیتا ہے لیکن وہ پھر کسی اور جگہ سے مزید طاقتور ہوکر نمودار ہوتا ہے، گولیاں اسکی جسم میں پیوست ہوتی ہیں لیکن موت اسے چھوتا نہیں۔ وہ ایسی روایتیں قائم کرتا ہے، جنکی پہلے نظیر نہیں ملتی۔ وہ ایک ہی وقت میں ایک اعلیٰ پائے کے سپہ سالار، مبلغ، استاد اور مصنف کا کردار ادا کرتا ہے، اور وہ یہ سب کچھ صرف چوالیس سال کی عمر تک پہنچنے تک کرجاتا ہے۔ یہ کردار نا ایک فوک لور ہے اور نا ہی اساطیر بلکہ بلوچستان کی آزادی کی تحریک کے حقیقی کردار اسلم بلوچ ہیں، جسے بلوچ پیر و ورنا جنگجو و سیاسی کارکن احترام سے “استاد” کہہ کر پکارتے ہیں، اور مرنے کے بعد انہیں بلوچستان کی جاری آزادی کی تحریک کے اعلیٰ ترین اعزاز “جنرل” سے نوازا جاتا ہے۔

25 دسمبر 2018 کو اسلم بلوچ اپنے پانچ ساتھیوں کمانڈر رحیم مری سگار، تاج محمد مری، اختر شاہوانی، فرید بلوچ اور اور صادق بلوچ کے ہمراہ ایک خود کش حملے کا نشانہ بنے اور ساتھیوں سمیت جانبر نا ہوسکے۔ لیکن انکی شخصیت کا سحر اور کردار کے اثرات آج تک گہرائی کے ساتھ بلوچ سماج خاص طور پر بلوچستان کی آزادی کی تحریک پر محسوس کی جاسکتی ہیں۔ اسکی وجہ کیا ہے؟ یہ جاننے کیلئے دی بلوچستان پوسٹ نے اسلم بلوچ کے قریبی رفقاء سے گفتگو کی۔

سنہ 1975 کو کوئٹہ کے علاقے ٹین ٹاون حاجی غیبی روڈ پر رحیم داد دہوار کے گھر میں آنکھ کھولنے والے اسلم بلوچ نے ابتدائی تعلیم اسپیشل ہائی اسکول کوئٹہ سے حاصل کی۔ وہ بلوچستان کی آزادی کی تحریک سے باقاعدہ طور پر سنہ 1994 میں اس وقت جڑگئے، جب مرحوم سردارخیربخش مری نے جلاوطنی ختم کرکے بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں رہائش اختیار کی اور وہاں حق توار کے نام سے ایک اسٹڈی سرکل کا آغاز کیا۔ یہ اسٹڈی سرکل جہاں سماج اور سیاست خاص موضوع ہوتے تھے، نوجوانوں کی خاص توجہ کا مرکز بن گئی۔ اسلم بلوچ بھی ان نوجوانوں میں سے ایک تھا، جو اس بوڑھے مارکسسٹ بلوچ سردار کو سننے آتا تھا۔ یہاں سے وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور ان اسٹڈی سرکلوں کا حصہ بننے کے بعد اسلم بلوچ باقاعدہ طور پر 1995 میں چند دوستوں کے ہمراہ بلوچ لبریشن آرمی کی بنیاد ڈالنے اور اسے بلوچستان بھر میں پھیلانے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ پانچ سالوں تک زیر زمین بلوچ لبریشن آرمی کو منظم کرنے کے بعد سنہ 2000 میں بلوچ، بی ایل اے کے نام سے باقاعدہ مسلح جدوجہد شروع کردیتے ہیں، جو تاحال جاری ہے۔ اسلم بلوچ ابتداء میں بلوچ لبریشن آرمی کے سب سے بڑے بیس کیمپ مانے جانے والے بولان کیمپ کے کمانڈر بنتے ہیں، جس کے بعد وہ بی ایل اے کے تمام جنگی امور کے کمانڈر مانے جاتے ہیں اور باخبر ذرائع کے مطابق 25 دسمبر 2018 کو ایک خود کش حملے میں پانچ ساتھیوں کے ہمراہ جانبحق ہونے سے تقریباً ڈیڑھ سال قبل سنہ 2017 میں وہ بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ اعلیٰ یا کمانڈر انچیف بن جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے 

بی ایل اے کے سینئر کمانڈر اور بلوچ رہنما اسلم بلوچ کیساتھ خصوصی نشست

جس وقت بلوچ لبریشن آرمی بلوچستان بھر میں مسلح کاروائیاں شروع کرچکی تھی، اس وقت بلوچستان لبریشن فرنٹ کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ ایک طالب علم رہنما تھے، جنہوں نے بلوچ آزادی پسند طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی بنیاد رکھی۔ جس کی پاداش میں انہیں فورسز نے اغواء کرکے مہینوں شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد منظرعام پر نیم مردہ حالت میں لایا۔ جیل سے ضمانت پر رہائی کے بعد اللہ نظر بلوچ نے مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔

ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ بھی اسلم بلوچ کو استاد کے نام سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ “جنرل اسلم میرے حقیقی معنوں میں استاد تھے، میں ان کا شاگرد رہ چکا ہوں، انہوں نے مجھے جنگی تربیت دی تھی۔”

اللہ نظر بلوچ ان چند ایک لوگوں میں سے ایک ہیں، جو اسلم بلوچ کو انتہائی قریب سے اور طویل عرصے سے جانتے تھے، اسلم بلوچ کی پہلی برسی پر دی بلوچستان پوسٹ نے ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ سے اسلم بلوچ کے بابت گفتگو کی اور انکے کردار کے بارے میں

دریافت کیا تو انکا کہنا تھا کہ “میں جنرل اسلم بلوچ کو بہت قریب سے جانتا تھا، جنگی حوالے سے وہ ایک اعلیٰ پائے کے منصوبہ ساز تھے، میدان جنگ میں دشمن کے خلاف جس طرح وہ دوستوں کو لڑاتا تھا، اسکا کوئی ثانی نہیں۔ وہ ایک نمایاں اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے، بلوچوں کا قبائلی معاشرہ ہو یا شہری زندگی یا باقی امور وہ بہت جلد ہی خود کو حالات میں ڈھال دیتے تھے۔ جنرل اسلم جیسے ساتھی اور رہنما کا بچھڑنا یقیناً ایک تاریخی المیہ ہے، ہمیں انکی مزید ضرورت تھی لیکن انقلاب اپنے بچوں کو خود ہی کھاجاتی ہے۔ مجموعی بلوچ تحریک پر انکے شہادت سے منفی اثرات نہیں پڑیں گے کیونکہ انکی شہادت نے بلوچ قوم، خاص طور پر بلوچ مزاحمت کاروں اور بلوچ سیاسی کارکنوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا ہے اور انہیں مزید متحرک کیا ہے۔ جنرل کا نظریہ بہت مضبوط نظریہ ہے، اور یہ نظریہ ہر اس بلوچ کا نظریہ ہے جو بلوچستان کی آزادی کو اپنا نصب العین سمجھتا ہے، اور جنرل اسلم کی شہادت نے ان فرزندوں کے کردار سازی پر بہت مثبت اثرات ڈالے ہیں۔”

اسلم بلوچ کو بلوچستان کی آزادی کی تحریک میں اسلیئے بھی ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے کہ وہ باقی بلوچ رہنماؤں کے برعکس نا کوئی بڑا قبائلی پس منظر رکھتے تھے اور نا ہی سیاسی، لیکن انہوں نے محض اپنی قابلیت، محنت اور مستقل مزاجی سے ایک سپاہی سے “جنرل” تک کا سفر طے کیا۔ شاید اسی لیئے بی ایل اے کے اندرونی حلقوں میں ایک اعلیٰ کمانڈر ہونے کے باوجود، انہوں نے ایک نئی بحث و تحریک شروع کردی، جس کا مطمع نظر یہ تھا کہ تنظیم کو مکمل اداراجاتی و جمہوری ساخت میں ڈھالا جائے اور اختیار و سربراہی کا معیار قبائلی پس منظر کے بجائے قابلیت ہو۔ جو بی ایل اے کے اندر اختلافات کا باعث رہی، جو بالآخر تنظیم کے ایک قدامت پسند حلقے کے علیحدگی، از سر نو ادارہ سازی اور اسلم بلوچ کی سربراہی پر منتج ہوئی۔

اسلم بلوچ نے ورثے میں ایک منتشر لشکر نہیں چھوڑا، بلکہ انہوں نے ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میں ہی وہ ادارے قائم کرلیئے، جو انکا خواب تھا، اسلیئے روایات کے برعکس انکے جانے کے بعد بی ایل اے کی سربراہی نا انکے خاندان کو منتقل ہوئی نا ہی قبیلے کو بلکہ پہلی بار جمہوری انداز میں قیادت تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کو منتقل ہوگئی اور ایک سابق طالب علم رہنما بشیر زیب بلوچ بی ایل اے کے سربراہ بنے۔

بلوچستان یونیورسٹی کے سابق طالبعلم اور بلوچ طلبہ تنظیم بی ایس او آزاد کے دو دورانیوں تک چیئرپرسن رہنے والے بشیر زیب بلوچ کہتے ہیں کہ “استاد اسلم بلوچ صرف میرے ہی استاد نہیں تھے بلکہ وہ ہر بلوچ جہدکار کے استاد ہیں، اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچ جنگ آزادی کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں انکا مرکزی کردار تھا۔”

دی بلوچستان پوسٹ نے بی ایل اے کے موجودہ سربراہ بشیر زیب بلوچ سے اسلم بلوچ کے برسی کے موقع پر رابطہ کیا اور ان سے

دریافت کی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آج تک اسلم بلوچ کا ذکر بلوچ تحریک میں ایک اساطیری کردار کے طور پر ہوتا ہے تو انکا کہنا تھا کہ “جنرل استاد اسلم بلوچ، جن اوصاف کے مالک تھے اور انکا جتنا بڑا کردار رہا ہے، انہوں نے اس سفر میں جتنے مصائب کا سامنا کیا ہے، میں سمجھتا ہوں ابتک سب لوگوں کو مکمل ادراک بھی نہیں ہے۔ شاید آنے والے وقت میں تاریخ و مورخ انکے دیو ہیکل شخصیت کا مکمل احاطہ کرپائے گا۔ استاد اسلم اپنے دور سے بہت آگے تھا۔ جنرل گیاپ، ہوچی منہ، چی گویرا وغیرہ جن معاشروں میں پیدا ہوئے اور جب انقلابات کا حصہ بنے، وہاں معاشرے انقلاب کیلئے تیار تھے، لیکن جنرل اسلم شاید وقت سے پہلے پیدا ہوئے، وہ صرف آٹھ ساتھیوں کے ہمراہ تھے اور معاشرہ ایک تحریک کیلئے تیار نہیں تھا۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر انکی طرح استاد اسلم بھی انقلاب کیلئے پہلے سے ہی ہموار ایک معاشرے میں پیدا ہوتے تو وہ ان متذکرہ شخصیات سے بھی کئی گنا زیادہ جانے مانے عالمگیر شخصیت بن جاتے۔ وہ بلوچ سماج میں ایک بہادری کے علامت بن گئے ہیں، وہ جدید بلوچ گوریلہ وارفیئر کے بانی ہیں۔ جیسے جیسے تاریخ کا پہیہ آگے حرکت کرے گا تو نسل نو درست احاطہ کرپائے گی کہ آج جو تبیدلیاں اسلم نے لائیں، جو چیزیں انہوں نے متعارف کئیں، وہ کیسے تاریخ کا دھارہ بدل دیں گی، اور پھر جنرل اسلم کے کردار کے ساتھ شاید مکمل انصاف ہوپائے گا۔”

کیا بلوچ لبریشن آرمی کو انکے جانے سے نقصان اٹھانا پڑا؟ اس سوال کے جواب میں بی ایل اے کے سربراہ کہتے ہیں کہ “اگر میں اپنا ذاتی طور پر کہوں تو انکی شہادت سے بڑی شاید زندگی میں مجھے اور کوئی تکلیف نہیں ملی ہے، انکے جانے سے ایک دوست، ایک استاد، ایک سائے کی کمی ضرور رہیگی لیکن تنظیم یا قوم کو ہرگز نقصان نہیں ہوا کیونکہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں، انہوں نے ہماری تربیت اور تنظیمی اداراجاتی ساخت کو اس طرح ڈھال دیا تھا کہ شخصیت چاہے جتنی بھی دیو قامت ہوں، اسکے جانے سے تنظیم میں خلاء پیدا نا ہو اور تحریک اسی طرح فوراً خلاء پر کرکے رواں دواں رہے۔ اور میں سمجھتا ہوں یہ بھی انکے کارناموں میں سے ایک کارنامہ ہے کہ اتنا اہم کردار ہونے کہ باوجود انہوں نے اپنی ذات کو تنظیمی ساخت پر اتنا حاوی ہونے نا دیا کہ انکا خلاء اتنا بڑا ہوجائے کہ تنظیم کو ہی نقصان پہنچے۔ وہ بہت دور اندیش تھے۔ استاد اسلم کی زندگی نوجوانوں کیلئے حیاتِ مصدقہ کا استعارہ بن چکا ہے اور انکی شہادت سب کیلئے ایک مثال اور ایک نئے جوش کا سبب بن گیا۔”

بلوچ راجی آجوئی سنگر ایک بلوچ اتحاد ہے، جس کا باقاعدہ اعلان 10 نومبر 2018 کو ہوا تھا، جس میں چار بلوچ مزاحمتی تنظیمیں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بلوچ ریپبلکن گارڈز شامل ہیں۔ اس اتحاد کو بلوچ تحریک میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اسلم بلوچ کو اللہ نظر بلوچ کے ہمراہ اس اتحاد کو قائم کرنے کا مرکزی کردار سمجھا جاتا ہے۔

گلزار امام بی آر اے کے سربراہ ہیں، جو اس اتحاد میں شامل ہیں۔ دی بلوچستان پوسٹ نے بلوچ ریپبلکن آرمی کے سربراہ سے اسلم بلوچ کے بابت انکی رائے جانی تو انکا کہنا تھا کہ “جنرل اسلم بلوچ سے میرا نزدیک کا واسطہ رہا ہے، وہ ایک انتہائی معاملہ فہم

انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین جنگی کمانڈر اور دوراندیش انسان تھے، مجھے استاد کے کردار نے بے حد متاثر کیا، وہ ہمیشہ سب کو ساتھ لیکر چلنے کیلئے پرعزم رہتے تھے۔ گوکہ استاد آج جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے ہیں لیکن انہوں نے مقصد کو آگے لیجانے کیلئے ہمیں ایک تیار روڑ میپ بناکر دیا ہے۔ “براس” کی صورت میں استاد کا دیا ہوا روڈ میپ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اگر ہم نے براس جیسے اتحاد کو کمزورکر دیا تو پھر میں کہہ سکتا ہوں کہ استاد کی شہادت سے بلوچ قومی تحریک کو نقصان ہوا، اگر ہم استاد کے طریقہ کار اور روڈ میپ پر کامیابی سے چلیں گے تو پھر استاد کا سوچ و فکر آزادی تک ہمارے ساتھ ہے۔”

اسلم بلوچ گوکہ ایک آزادی پسند قوم پرست تھے اور ایک مزاحمتی تحریک کے بانی تھے، لیکن وہ فسطائیت کے سخت خلاف تھے، وہ مذہبی شدت پسندی کے بھی مخالف تھے، اسی لیئے کھلم کھلا شیعہ زائرین کے قتل کے خلاف اپنا موقف دیتے تھے۔ وہ جنگی اصولوں کے سخت پابند تھے۔ عورتوں، بچوں، بیماروں کو ہر طرح جنگ کے نقصانات سے بچانے کی کوشش کرتے۔ اسی وجہ سے خطے کے باقی مظلوم اقوام کے ساتھ انکے گہرے مراسم قائم ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے 

بی آر اے کے سینئر رہنما گلزار امام بلوچ کے ساتھ ایک خصوصی نشست

سندھو دیش ریوولیوشنری آرمی سندھ اور سندھی قوم کی آزادی کیلئے عرصہ دراز سے مسلح مزاحمت کررہی ہے۔ صوفی شاہ عنایت ایس آر اے کے کمانڈر ہیں اور اسلم بلوچ کے قریبی رفیق بھی رہے ہیں۔ اسلم بلوچ کے بارے میں انکا کہنا ہے کہ “شہید محترم استاد

اسلم بلوچ سے میرا 2002 سے لیکر انکے شہادت کے دن تک فکری، نظریاتی اور مزاحمتی حوالے سے ایک اٹوٹ رشتہ رہا ہے۔ اس سارے عرصے کو اگر میں مختصر طور پر بیان کروں تو، استاد ذاتی حوالے سے مہربان، مخلص، سچا، ایماندار، شفیق اور دکھ سکھ میں ساتھ دینے اور نبھانے والا، فکری اور نظریاتی حوالے سے پکا پختہ دیش بھگت اور اول آخر سب کچھ اپنے وطن کو سمجھنے والا اور مزاحمتی حوالے سے پروفیشنل کمانڈر والی سب خوبیاں رکھنے والا ایک عظیم انسان تھا۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنے آخری وقت میں بھی فنافی الوطن(بلوچستان ) بنکر سارے بلوچستان کے لئے اپنی عظیم شہادت کے ذریعے نئے راستے، لائین آف ایکشن، قربانی، حوصلہ، بہادری اور ولولے کی بے مثال اور ناقابل شکست مثال چھوڑ گیا ہے۔ جن راستوں اور ڈائریکشنز پر چل کر بلوچستان ایک دن ضرور آزاد ہوگا

یہ بھی پڑھیے 

ایس آر اےکے کمانڈر صوفی شاہ عنایت کیساتھ خصوصی نشست

ایس آر اے کے کمانڈر صوفی شاہ عنایت، دی بلوچستان پوسٹ سے بلوچ تحریک پر اسلم بلوچ کے بعد کے اثرات پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “قربانیاں اور شہادتیں قوموں اور تحریکوں کے لئے معراج ہوتی ہیں۔ قومی جہدکاروں، بالخصوص لیڈرشپ کے شہید ہوجانے سے وقتی طور پر خلاء اور نفسیاتی طور پر اثر تو ضرور پڑتا ہے، لیکن جس تحریک و تنظیم کے پاس وطن اور قوم کا واضح ویژن، تنظیمی فہم و ادراک، مخلص و ایماندار ٹیم ورک اور درست مزاحمتی حکمت عملی و جدت ہوتی ہے، وہ اس پیدا ہونے والے خلاء کو جلد سے جلد پر کر لیتی ہیں اور جہد آزادی اور مزاحمت میں تیزی لاکر قوم و تحریک کو آگے لے جاتی ہیں۔ استاد محترم اسلم بلوچ کی شہادت کے بعد بی ایل اے کی لیڈرشپ جس فکری، نظریاتی، تنظیمی اور مزاحمتی حوالے سے مجموعی طور پر تحریک کو آگے لے جا رہی ہے، اس حوالے سے سارے دوست تعریف کے مستحق ہیں۔”

اسلم بلوچ ایک روایت شکن جنگی کمانڈر تھے، انکا ہنر محض بندوق تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ ادبی و سیاسی حلقوں میں ایک جانے پہچانے لکھاری تھے، وہ تواتر کے ساتھ نئے و پیچیدہ سیاسی و سماجی مسئلوں پر قلم آزمائی کرتے۔ وہ اپنے خیالات تحریروں، مختلف جرائد، اخبارات و ٹی وی چینلوں کو انٹرویووں کے ذریعے پہنچاتے رہتے تھے۔

بلوچستان کے موجودہ حالات اور آزادی کی جاری تحریک پر گہری نظر رکھنے والے صحافی، سلام صابر گذشتہ ایک دہائی کے دوران

متعدد بار مختلف جرائد کیلئے انٹرویو لینے کی غرض سے اسلم بلوچ سے مختلف خفیہ مقامات پر ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ اس دوران بطور صحافی سلام صابر کو اسلم بلوچ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ دی بلوچستان پوسٹ نے سلام صابر سے بات چیت کی اور دریافت کیا کہ انہوں نے اسلم بلوچ کو علمی و سیاسی شعور کے حوالے سے کیسے پایا تو انکا کہنا تھا کہ “آپ کسی بلوچ گوریلہ کمانڈر کا جیسا روایتی خاکہ اپنے ذہن میں رکھتے ہیں، اسلم بلوچ اسکے بالکل برعکس تھا۔ مختلف جرائد کیلئے، کئی بار مختلف خفیہ مقامات پر میری اسلم بلوچ سے ملاقاتیں ہوئیں ہیں اور ہر بار میں انکے ہمراہ بندوق کے ساتھ ساتھ کتابوں کا ایک بنڈل دیکھتا۔ انہیں مطالعے کا بے حد شوق تھا۔ اور انکا مطالعہ بے حد وسیع تھا۔ فلسفہ، تاریخ، اور علم نفسیات پر انہیں بہت عبور حاصل تھا۔ وہ سوالوں کا سیدھا لیکن گہرا و غیر پیچیدہ جواب دیتے تھے۔ سب سے خاص بات انکی تحریریں تھیں، اگر آپ انکی تحریریں پڑھیں تو آپ یقین نہیں کرسکتے کہ یہ تحریریں کسی ایسے شخص کی ہیں جو صرف دسویں جماعت تک پڑھا ہے، بلکہ انکی تحریروں کے رموز، الفاظ کا چناؤ، خیال کی گہرائی اور دلائل آپکو یہ تاثر دیں گے کہ یہ کسی اعلیٰ ادارے سے ڈاکٹریٹ کیئے ہوئے شخص کی تحریریں ہیں۔ اسلم بلوچ ایک جنگجو تھے، لیکن انکی جنگ مکمل طور پر انکے سیاسی نظریات کے تابع تھی۔ گوکہ وہ اپنے نظریات پر سخت گیر موقف رکھتے اور اٹل رہتے، لیکن وہ سامنے والے کی بات بہت غور سے سنتے اور اگر انہیں بھاری دلائل دیئے جاتے تو وہ سامنے والے کی بات بلا دلیل مسترد نہیں کرتے۔”

اسلم بلوچ کو ایک طویل عرصے سے بلوچستان کی آزادی کی تحریک میں ایک سحر انگیز، دیوقامت شخصیت کی حیثیت حاصل تھی، لیکن مجید بریگیڈ کو قائم کرنا اور اسے متحرک کرنا، انکا ایک ایسا کردار رہا ہے جو انکو انکے دشمنوں کی نظروں میں خطرناک ترین اور دوستوں کی نظروں میں امر بناتا ہے۔

مجید بریگیڈ کے قیام کا اعلان اس وقت ہوتا ہے، جب 2010 کو مجید لانگو ثانی فورسز کے ساتھ ایک دوبدو لڑائی میں جانبحق ہوتے ہیں۔ اس واقعے کے اگلے سال ہی 30 دسمبر 2011 کو مجید بریگیڈ اپنا پہلا کاروائی کرتا ہے۔ جب درویش بلوچ سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل کے گھر پر خودکش حملہ کرتا ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی کے ایک پریس ریلیز کے مطابق مجید بریگیڈ کو بنانے والے اور اسکے بانی اسلم بلوچ ہوتے ہیں۔ لیکن 2011 کے بعد مجید بریگیڈ کی کاروائیاں روک دی جاتی ہیں۔ لیکن جب 2017 میں اسلم بلوچ، بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بنتے ہیں تو اگلے ہی سال 11 اگست 2018 کو مجید بریگیڈ دالبندین میں چینی انجنیئروں کے ایک قافلے کو خودکش حملے کا نشانہ بناتا ہے۔ یہ خودکش حملہ آور کوئی اور نہیں اسلم بلوچ کے اپنے جوانسال بائیس سالہ فرزند ریحان بلوچ ہوتے ہیں۔ پھر چند ماہ بعد 23 نومبر 2018 کو مجید بریگیڈ کے تین فدائین کراچی میں واقع، چینی قونصل خانے کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ سلسلہ پھر اسلم بلوچ تک نہیں رکتا، انکے بعد 11 مئی 2019 کو چار فدائین گوادر پی سی ہوٹل پر چوبیس گھنٹوں تک قبضہ کرتے ہیں۔

اسلم بلوچ ایک باعمل انسان تھے، اسلیئے جہاں انکے ساتھیوں کا حلقہ وسیع ہے، وہیں انکے مخالفین بھی ہیں لیکن کوئی بھی انکے کردار کے اونچائی سے انکار نہیں کرسکتا۔ وہ ان انسانوں میں سے تھے، جو وقت سے پہلے مرتے ہیں، لیکن تیز جیتے ہیں اور وقت سے زیادہ جیتے ہیں


вторник, 24 декабря 2019 г.

ایک جنرل، ایک عظیم کردارتحریر: ریاض بلوچ

دنیا میں عظیم انسان، عظیم کردار کے مالک ایسے شاید ہزاروں جانثار گذرے ہیں جنہوں نے اپنی عظیم جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت تاریخِ عالم میں ایسے قصے چھوڑے ہوں جو مورّخ کو اپنی خدمات اور جدوجہد پر قلم کشائی کیلئے مبذول کرایا ہو، کیونکہ ان لوگوں کی جدوجہد اور عظیم قربانیاں ایک معاشرے کے اندر جستجو پیدا کرنے کے سبب بنے ہیں. ایک منجمد معاشرے کو تجسس ہی توڑ سکتی ہے اور اس معاشرے کو سمت دیتی ہے. تاریخ میں ایسی ہستیاں گذری ہیں جنہوں نے سولی چڑھ کر یا سینے میں گولیاں کھا کر ایک منجمد معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہو، بحث و مباحثے کی رواج کو پروان چڑھایا ہو، ایک عہد کو بچانے اور ایک نسل کو امر کرنے کیلئے خود قربان ہونے کا فلسفہ اپنایا ہے۔ تاریخ میں ایسی ہستیاں سرخرو ہوئی ہیں جنہوں نے خود فنا ہو کر لوگوں کیلئے مشعل راہ بنے ہوں۔

جب دنیا میں آزادی کی تحاریک کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں محکوم قوموں کے ایسے بہادر سپوتوں کی طویل فہرست آپ کو مل جاتی ہے، جنہوں نے قومی آزادی اور معاشرے کی خوشحالی کی خاطر بے بہا کردار اور انمول کردار نبھا کر تاریخ میں اپنے نام سرخ حروف سے درج کیئے ہیں. لاطینی امریکہ میں امریکی سامراج کیخلاف جدوجہد کرنے والے عظیم انقلابی چے گویرا ہوں، متحدہ اور عظیم چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ یا دنیا کے مظلوم مزدوروں کی آواز بننے والے کارل مارکس، یہ سب ایسے عظیم کردار ہیں جو ظلم اور جبر کے خلاف اپنے لوگوں کی آزادی اور خوشحالی کیلئے تاریخ میں اپنا نام رقم کرکے امر ہوچکے ہیں.

آج بھی دنیا میں قومی آزادی کی تحاریک و جدوجہد جاری ہیں، دنیا کے مختلف کونوں میں انسان قومی غلامی، مذہبی غلامی اور نسلی غلامی کے خلاف قابض کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں، اس خطے میں کردوں کے بعد شاید دوسرا قوم بلوچ ہے جس کی زمین کو تین حصوں میں بانٹا گیا ہے.

بلوچ قومی جدوجہد آزادی کا صحیح تاریخ کا اندازہ شاید میں نہ لگا سکوں یا یہ کہہ کر تاریخی حوالے سے رد ہو جاؤں کہ بلوچ قومی جہد آزادی پاکستانی قبضے سے ہی ابتداء ہوا کیونکہ بلوچ سرزمین تو اس سے پہلے ہی بٹ چکا تھا، ہاں البتہ موجودہ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی غلامی سے انحراف یا قابض کے خلاف للکار 1948 کے قبضے سے ہی ہوا تھا جو ہنوز جاری ہے. ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اس جدوجہد نے نشیب و فراز دیکھے ہیں لیکن جدوجہد اور بغاوت کا عنصر کبھی ختم نہیں ہوا ہے، مگر ان میں کرداروں کی کمی محسوس نہیں ہوئی ہے۔

بلوچ جدوجہد میں کرداروں کی ایک طویل فہرست ہے جو آغا عبدالکریم سے لیکر نواب نوروز خان، نورا مینگل، شیر محمد عرف شیروف، شہید اکبر خان بگٹی ،شہید بالاچ خان مری، شہید واجہ غلام محمد ،پروفیسر صبا دشتیاری اور شہید جرنل استاد اسلم بلوچ تک ہے.

دنیا کی مزاحمتی تحاریک اور کچھ انقلابی کرداروں کا ذکر انہی کرداروں سے مماثلت ایک ایسے کردار کے کھوج میں تھا جسے جسمانی طور ہم سے جدا ہوئے ایک سال پورا ہوا، لیکن اپنوں کیلئے انکی مسکراہٹ اور دشمنوں کیلئے غصہ ہم آج بھی بھولے نہیں ہیں.

ایک مہربان استاد، ایک شفیق باپ، ایک جنگی کمان اور ایک مزاحمتی استاد جس نے جنگی حکمت عملیوں کی سبب جنرل کا لقب پایا وہ استاد اسلم بلوچ تھا. آج سے اگر ہزاروں سال بعد جدوجہد اور قربانیوں کی تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں گے تو اس میں شہید اسلم بلوچ کا نام ضرور سنہرے حروف سے درج ہوگا.

بلوچ تاریخ کا عجیب اتفاق ہے کہ شہید نوروز خان کی زندان میں شہادت اور شہید استاد اسلم بلوچ کی میدان محاذ میں شہادت کا دن بھی دسمبر کی 25 تاریخ ہے. بابو کی شہادت کے 53 سال بعد یہ تحریک کبھی تھما نہیں کبھی رکا نہیں بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید ابھار آگیا.

شہید استاد اسلم بلوچ اپنے جانثار فکری ساتھیوں کے ساتھ 25 دسمبر 2018 کو ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوگئے، مگر انکی عظیم مزاحمتی فکر، انقلابی سوچ و ولولہ اور تعلیمات بتدریج تسلسل کے ساتھ جاری ہیں. قابض ریاست یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ بلوچ قومی تحریک آزادی جب بابو نوروز اور اکبر خان جیسے بزرگ قومی اور مزاحمتی رھبروں کی شہادت سے رکی نہیں تو استاد اسلم بلوچ کی شہادت سے کبھی ختم نہیں ہوگا، ریاست جاں لے کہ ان عظیم ہستیوں نے شیر کے بچے پالے ہیں جو گیدڑ جیسے دشمن پر جھپٹنا جانتے ہیں.



جنرل استاد اسلم بلوچ

میار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“اگر ہم نہ بھی رہے تو یہ جدوجہد جاری رہے گی، یہ غیرت مند بلوچوں کی جدوجہد ہے، ہم آٹھ افراد نے اس سفر کا آغاز کیا تھا، پھر کہیں سے نواب اکبر بگٹی اور کہیں سے ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ مزاحمت کرنے لگا۔ آج ہماری تعداد زیادہ ہے ہمارے وسائل زیادہ ہیں ہمارے ساتھ زیادہ طاقت ہے اور کسی کے سرینڈر کرنے سے یا مرجانے سے یہ جدوجہد نہیں رکے گی، آج نہیں تو کل ہم سب کو مرجانا ہے۔ لیکن یہ جدوجہد جاری رہے گا اگر ایک ساتھی شہید ہوگا تو اسکی جگہ کوئی اور آجائے گا۔” یہ تاریخی الفاظ یہ پرامید باتیں جنرل اسلم بلوچ نے اپنی شہادت سے کچھ دن قبل اپنے ساتھیوں کے ساتھ گفتگو میں کہی تھیں۔

جنرل اسلم یا اُستاد اسلم بلوچ، بلوچ تاریخ کا ایک ایسا باب بن چکے ہیں جنہیں جتنا پڑھا جائے، لکھا جائے، سمجھا جائے، سوچا جائے، دیکھا جائے، سُنا جائے، انکے راہ پر چلنے کی کوشش کی جائے یا انکے اعمال کو دہرانے کی کوشش کی جائے پھر بھی انکے کردار انکے عمل، انکی ذہانت، انکی دانشمندی، انکی جنگی مہارت، انکی سیاسی سوج بوجھ اور زمینی حقائق سے باخبری جیسی مثال صدیوں میں بھی ملنا ناممکن ہے۔

اُستاد اسلم ایک ایسے ادارے کا نام ہیں جنہوں نے نہ صرف بلوچ مزاحمت کو ایک نیا رخ دیا، بلکہ بلوچ قومی سوچ بلوچ قومی سیاست اور بلوچ ادب پر بھی ایک ایسا چھاپ چھوڑ گئے ہیں کہ آج جنرل شہید اسلم بلوچ کے نام کے بغیر بلوچ سماج، بلوچ سیاست، بلوچ مزاحمت، بلوچی و براہوئی ادب و شاعری نا مکمل نظر آتے ہیں۔ اُستاد اسلم نے ایک ایسے وقت میں نیم مردہ بلوچ سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جب دشمن ریاست اسکی فوج اسکے پارلیمانی کٹھ پتلیوں سمیت مسلح گروہ اس خوش فہمی میں تھے بلوچ سیاست اور بلوچ مزاحمت ختم ہوچکی ہے۔ فکر آجوئی اب زندہ نہیں رہا۔

لیکن پھر بولان کے پہاڑی شہزادے نے وہ عمل سرانجام دیا جس کی مثال دنیا کے ہرکونے میں وطن پرست سرمچار اس طرح سے دیا کرینگے کہ جب گلستان کو لہو کی ضرورت پڑی تو سب سے پہلے کس طرح بلوچ قوم کے عظیم رہنما اسلم بلوچ اور وطن مادر لمہ یاسمین بلوچ نے اپنے ہی لخت جگر کو سر پر کفن بندھوا کر بلوچستان کے بیرک میں لپیٹ کر وطن پر قربان کردیا۔

شہید جنرل اسلم بلوچ نہ صرف ایک مکمل گوریلہ اور جنگی مہارت رکھنے والے کمانڈر تھے بلکہ وہ حقیقی حالات کے مطابق جنگی حکمت عملیوں کو ترتیب دینے کا بھی بہترین ہنر جانتے تھے۔ آج انہی کی بیباکی، دلیری اور بہترین حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے کہ چائنا اور پاکستان اپنے اکنامک کاریڈور سے زیادہ اپنی سیکیورٹی کی خاطر پریشان ہیں ۔

یقیناً جنرل اسلم اس بات کا ادراک رکھتے تھے کہ دشمن کبھی بھی کہیں بھی حملہ آور ہوسکتا ہے اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ اگر وہ اپنے عمل کو تھوڑا سست روی کا شکار کرکے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوجائیں تو انکی زندگی کو کم خطرات لاحق ہونگے، لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ زندگی اور موت دونوں ہی ایسی ہونی چائیں جو نہ صرف مثالی ہوں بلکہ آنے والی نسلوں کی خاطر باعث فخر ہوں اور آنے والی نسلیں بھی اسی منزل کے مسافر بن کر دشمن ریاست پر قہر بن کر ٹوٹ پڑیں۔

یقیناً شہید جنرل اسلم بلوچ اپنے ساتھیوں کمانڈر کریم مری ،تاج محمد مری،اختر بلوچ، سنگت امان اللہ اور سنگت بابر مجید کے ہمراہ ۲۵ دسمبر کو ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوئے جو کہ کسی صدمے سے کم نہیں آج بھی کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں سے کوئی پیغام یا ویڈیو شائع ہوگا جس میں ایک روشن فکر اور سالار عظیم اپنے بندوق کے ہمراہ کسی پہاڑی پر بیٹھ کر دشمن ریاست کو نہ صرف لککاریں گے بلکہ اپنے ہر ایک پیغام کو سچ ثابت کرکے دکھایئنگے۔

شہید جنرل اسلم بلوچ اپنی جدوجہد اور شہادت سے اپنے سوچ کو اس طرح بلوچ سماج میں پختہ کر گئے ہیں کہ آج بلوچستان کے ہر ایک کوچہ میں فکر اسلم لوگوں کی رہنمائی کررہا ہے۔ کہیں کسی سرمچار کی صورت میں، تو کہیں کسی قلم کار کی شکل میں تو کہیں ایک سیاسی کارکن کی صورت میں فکر اسلم بلوچ عوام میں پھیلتا جارہا ہے۔

دشمن ریاست نے جنرل اسلم اور ساتھیوں کو شہید کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ دشمن آج بھی ہم سے طاقتور ہے لیکن آج جنرل اسلم کے ساتھیوں، دوستوں، شاگردوں اور دوزواہوں پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر ایک محاذ پر دشمن کا دیدہ دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے عمل میں زیادہ میں زیادہ تیزی پیدا کرتے ہوئے دشمن کو سرزمین سے باہر نکالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے بلوچ سرزمین کو غلامی کی چنگل سے آزاد کرکے ایک بہتر پرامن اور خوشحال بلوچستان کے قیام کو یقینی بنائیں۔

میرحمل ہوت

میر حمل ہوت
تقریبًا 1550 ء مکران اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر حکمران تھا
جس وقت بلوچوں کی قوت کو ان کے قائدین امیر چاکر اور گوہرام اپنی اپنی خود سری کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرکے اپنی قوم کی اجتماعی تباہی کا اہتمام کر رہے تھے عین اسی زمانے میں مکران میں ہوت قبیلے کا نوجوان سردار میر حمل بلوچستان کے ساحل پر پرتگیزی حملہ آوروں کے خلاف نبرد آزما تھا.
یورپی اقوام میں سے پرتگیزی پہلے لوگ تھے جنہوں نے ایشیاء کے بحری راستوں پر اپنا تسلط قائم کرلیا. اس وقت تک خلافت عباسیہ کے ختم ہوجانے کے بعد کوئی  مرکزی مسلم قوت ایسی نہیں تھی جو یورپی اقوام کی سمندری طاقت کو روک سکتی.
برصغیر کے مسلمان حکمرانوں نے تو کبھی بھی بحری طاقت کی طرف کوئی دھیاں نہیں دیا اس لئے جب پرتگیزیوں نے افریقہ اور ایشیاء کا رخ کیا تو سمندروں میں یہاں کی کوئی قوت ان کے سامنے ٹھرنے والی نہیں تھی، اس علاقے میں سمندروں میں جہاز اور کشتیاں محض تجارت کی غرض سے استعمال ہوتی تھیں، پرتگیزی بحری قزاقوں نے سمندر میں تجارتی کشتیوں کو لوٹنا شروع کردیا مذکوره کشتیوں کی منزل اکثر وبیشتر خلیج کی بندرگاہیں ہواکرتی تھی، اسی لئے لوٹ مار کے لئے اس علاقے کو پرتگیزی قزاقوں نے اپنا مرکز بنایا.
اس طرح ساحل بلوچستان حملہ آوروں کی زد میں آگیا وه بلوچستان پر قابض ہونے کے درپے ہوئے اور انہوں نے بلوچستان کی بندرگاہوں پسنی، گوادر اور جیونی پر کئی بار حملے کئے.
میر حمل ہوت جو بلوچستان کے ساحلی علاقے کا حکمران تھا اس کی تجارتی کشتیاں خلیج کی بندرگاہوں تک آمد و رفت کیا کرتی تھیں وه بھی پرتگیزی بحری قزاقوں کے حملوں اور لوٹ مار کا نشانہ بنیں، میر حمل چونکہ ایک بڑے ساحلی علاقے کا حکمران تھا اس لئے اس کے پاس ایک چھوٹا سا جنگی بحری بیڑا بھی تھا، اس نے اپنے بحری بیڑے کو پرتگیزی حملہ آوروں کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ بلوچستان کے سمندری علاقے کو پرتگیزی قزاقوں سے محفوظ رکھ سکے، پرتگیزیوں کے ساتھ کئی بار سمندر میں اس کی مڈ بھیڑ ہوئی جس میں کئی مرتبہ اس نے پرتگیزیوں کو سخت نقصان اور ہزیمت سے دوچار کیا.
ان سمندری لڑائیوں کے نتیجے میں پرتگیزیوں نے بلوچستان کی بندرگاہوں اور ساحلی بستیوں پر اپنے حملوں کا آغاز کیا تاکہ ان پر قابض ہوکر پورے علاقے کو اپنے زیر تسلط لاسکیں.
سواحل بلوچستان کے حاکم میر حمل ہوت نے ان غیر ملکی حملہ آوروں سے اپنے وطن کی حفاظت کا تہیہ کرلیا اور اس نے اپنی قوت یکجا کرکے پرتگیزی حملہ آوروں کو ساحلی مقامات سے مکمل طور پر مار بھگایا اور اس اندیشے کے سد باب کی غرض سے کہ کہیں پرتگیزی حملہ آور پھر بلوچستان کے ساحلی مقامات کو نقصان نہ پہنچائیں اس نے چند کشتیوں کا ایک جنگی بیڑا بنوایا جن کے ذریعے اس نے پھر کبھی پرتگیزیوں کو ساحل بلوچستان کے قریب نہ آنے دیا اس دوران میر حمل اور پرتگیزی حملہ آوروں کے درمیان کئی چھڑپیں ہوئیں، اب بھی دو قدیم توپ گوادر اور ایک توپ پسنی میں پڑی ملتی ہیں جوکہ پرتگیزیوں سے چھینے جانے کی روایت ہے.
1581 ء کو پرتگیزیوں نے گوادر اور پسنی کو آگ لگادی.
کوئی جھڑپوں کے بعد میر حمل اور پرتگیزیوں کے مابین ایک صلح نامہ طے پایا جس کی رو سے دونوں لڑائی بندکرنے پر آماده ہوگئے اور عہد نامے کی رو سے پرتگیزیوں نے ساحل بلوچستان پر لوٹ مار اور حملے نہ کرنے کا اقرار کیا اور میر حمل نے پرتگیزی کشتیوں کی آمد  ورفت اور دیگر کاروائیوں میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا عہد کیا.
کچھ عرصے تک مذکوره معاہدے پر پوری طرح عمل ہوتا رہا جس کے نتیجے میں وه بلوچ ساحلی بستیاں جو متواتر پرتگیزی حملوں کے سبب اجڑ کر ویراں ہوگئی تھیں پھر آباد ہونا شروع ہوئیں اور میر حمل کی تجارتی کشتیوں نے حسب سابق تجارتی آمد و رفت شروع کردی، اسی پر امن یا بے خبری کے عالم میں پرتگیزیوں نے معاہدے کو توڑتے ہوئے حالت امن میں میر حمل پر حملہ آور ہوکر اسے گرفتار کرلیا اور اسے اپنے ساتھ کچھ عرصے مسقط میں رکھ کر پھر اپنی ہندوستانی نو آبادی دمن یا گوا لے گئے.
ہوا یوں کہ صلح نامے کے بعد میر حمل کو پرتگیزی حملوں اور دشمنی کا کوئی خطره نہیں رہا اس لئے وه اطمینان کے ساتھ اپنی کشتیوں پر ساحلی علاقوں کی سیر کرتاتھا، ایک دن میر حمل ایک تجارتی کشتی میں سوار ہوکر تجارتی مشن پر خلیج کی ایک بندرگاه کی جانب رواں تھا کہ راستے میں چند پرتگیزی جنگی کشتیوں نے میر حمل کی کشتی کو گھیرے میں لے کر اس پر حملہ کردیا.
چونکہ میر حمل کے ساتھ کوئی لڑاکا دستہ نہیں تھا، اس کے ساتھ کشتی میں ملاح یا پھر کچھ خدمت گار سوار تھے جو جنگجو بلوچ نہ تھے، اس لئے وه پرتگیزی حملے سے حواس باختہ ہوئے، مگر میر حمل نے خاموشی سے اپنے آپ کو پرتگیزیوں کے حوالے کرنا گوارا نہیں کیا اور تن تنہا انکا مقابلہ کرتا رہا.
لیکن ایک شخض تن تنہا کہاں تک مسلح دستوں کا مقابلہ کرسکتاہے؟ آخر کار اسے بے بس بناکر پرتگیزیوں نے زخمی حالت میں گرفتار کرلیا.
گرفتاری کے دوران پرتگیزیوں نے تحریص اور ترغیب کے ذریعے اس بات کی کوشش کی کہ میر حمل کو کسی طریقے سے اپنا ہمنوا بناکر اس کے ذریعے اس علاقے پر اپنی بالادستی قائم کرلیں. لیکن حمل کسی بھی طور اپنے وطن اور قوم کو غلام بنانے پر آماده نہیں ہوا، کسی بھی قسم کا دھونس، دباؤ، اور لالچ حمل کے عزم و استقامت کو متزلزل نہ کرسکا جس کی سزا بالآخر میر حمل کو شہادت کی صورت میں ملی.
اس طرح میر حمل ہوت نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر اپنے وطن کو پرتگیزی تسلط سے محفوظ رکھا، یہ وه دور تھا جب سمندروں پر یورپی طاقتوں کا مکمل تسلط قائم ہوچکا تھا، انہوں نے ہندوستان، افریقہ اور مشرق وسطی میں جس جگہ چاہا اپنی ساحلی بستی بسالی.
حیرت کی بات ہے کہ اس دور حاکمیت میں وسیع ساحل بلوچستان پر وه اپنی نو آبادیاں قائم نہ کرسکے.
اس طرح میر حمل کی عظمت کسی تشریح کی محتاج نہیں رہتی کہ اس نے اپنے عزم و حوصلوں کے باعث پرتگیزی حملہ آوروں سے آپنے وطن کو محفوظ رکھا وگر نہ یورپی طاقتوں نے ہرجگہ ساحلوں پر تسلط جمانے کے بعد ہی اس سرزمین کے اندرونی علاقوں پر قبضہ کیا.
اگر میر حمل اس وقت پرتگیزیوں کو نہ روکتا تو اس وقت ہی بلوچستان پرتگیزیوں کے زیر تسلط آجاتا اور وه اس میں مزید توسیع کا اہتمام کرتے.
بعد میں تین سو سال کے بعد برطانوی استعمار نے خشکی کے راستے بلوچستان پر حملہ کرکے اس پر اپنی بالادستی قائم کرلی، میر حمل اور اس کے جاں فروش اگر اپنی ہمت وبہادری سے اولین یورپی نو آباد کاروں کی راه میں حائل نہ ہوتے تو بلوچستان پر غیر ملکی تسلط تین سو برس پہلے ہی قائم ہوچکا ہوتا.
اس حقیقت نے میر حمل کو بلوچستان اور اس خطے میں ایک  ناقابل فراموش کردار کی حیثیت بخش دی ہے.
(حبیب مینگل: از بلوچستان شخصیات کی آئینے میں. بلوچستان ترو دی ایجز)

понедельник, 23 декабря 2019 г.

نظریاتی مفرور – برزکوہی

جنوب افریقی تاریخ ساز رہنما نیلسن منڈیلا تحریک کے مختلف مدوجزروں کو دیکھ کر ایک جگہ کہتے ہیں کہ “ایک آزادی کے مجاہد کو یہ کافی مشکل سے سمجھ آتی ہےکہ جنگ کس نوعیت کی ہوگی۔ اس بات کا فیصلہ ظالم کرتا ہے، اور مظلوم کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ بالکل وہی طریقے اپنائے جو ظالم کا مقابلہ کرسکیں۔ انصاف کی جنگ میں ایک مقام پر پہنچ کر آگ کا مقابلہ آگ ہی سے کیا جاسکتا ہے۔”

جدوجہد قومی آزادی یا قومی انقلاب ایک ہمہ جہت اور تسلسل کے حامل جہدوجہد کا متقاضی ہوتا ہے، جو مختلف اجزائے ترکیبی سے روبہ عمل پاتا ہے، اسکے تمام اجزاء بہت ضروری ہیں، لیکن یہاں ایک امر نہایت غور طلب ہے کہ اپنے مقابل دشمن کے طریقہ واردات کو نظر انداز کرکے یعنی مقابل قوت کے جارحیت، سفاکیت، شاطرانہ و سازشی اقدامات سے منہ پھیر کر یا لاعلم و بے خبر ہوکر، جہدوجہد کے محض ایک ایسے جز کے ساتھ منسلک رہنا اور اسے دردِ دل کا دوا گرداننا، جو دشمن کے طریقہ واردات کا کماحقہ مقابلہ نہیں اور اسی جز میں سرگرم رہنا، محض ایک ہاری ہوئی ذہنیت کی عین علامت ہے۔

مشاہدات و تجربات، تحلیل نفسی اور تحریکی تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ جب قومی آزادی کی جدوجہد، ابتدائی مرحلے کو کامیابی سے پارکرکے، دوسرے طویل مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو نظریاتی و فکری، علمی و عملی طور پر کمزور جہدکار تھکاوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، کیونکہ ابتدائی مرحلہ مختصر ہوتا ہے اور عموماً اس پر جذبات کا گہرا چھاپ ہوتا ہے، جبکہ دوسرا مرحلہ طویل و کٹھن ہوتا ہے اور نظریاتی پختگی کا متقاضی ہوتا ہے۔ تحریک کے طوالت اختیار کرتے ہی، نظریاتی طور پر نا پختہ جہدکار مختلف حیلے بہانوں سے یا تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتے ہیں، یا پھر آسان سرگرمی اور آسان ذمہ داری کی تلاش شروع کردیتے ہیں، جو عمومی زندگی کے کسوٹی کے ایک چھوٹے سے خانے میں پورا بیٹھے، اور پھر اس چھوٹی اور آسان ذمہ داری کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کیا جاتا ہے کہ یہ کیسے دشمن کا کماحقہ مقابلہ ہے اور کیسے اہم ہے، کیونکہ اسطرح صرف وہ معمولی کام اہم نہیں بن جاتا، وہ فرد بھی کچھ خاص کیئے بغیر اہم بن جاتا ہے، قطع نظر اسکے تحریک کو اسکی کتنی ضرورت ہے۔ یہ ذہنی شکست خوردگی کی ایک واضح نفسیاتی علامت ہے۔

فکری طور پر پختہ جہدکار، بہادر ہوتے ہیں، بہادری محض توپ کے منہ میں خود کو ڈالنا نہیں ہوتا بلکہ اس لحاظ سے بھی بہادر ہوتے ہیں کہ انکی فکری پختگی انہیں اس قابل بناتی ہے کہ وہ بہادری کے ساتھ حالات کا درست ادراک رکھیں، درست تجزیہ کریں اور اس حقیقت کو نہایت حقیقت پسندی کے ساتھ سمجھیں کہ زمینی حالات کیا ہیں، اور یہ حالات بطور جہدکار مجھ سے کس طرح کے جہد کا تقاضہ کررہے ہیں، اور بہادری و ایمانداری کے ساتھ اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ان تحریکی تقاضات پر کاربند ہوجائے۔ خود کو حیلے بہانوں سے روکنا، درست تقاضوں کو سمجھ کر اپنی ذات کو ہر حال میں ان پر کاربند کرنا، مقدس اور بہادر ترین جہدکاروں کا شیوہ ہے۔

آج بحثیت بلوچ، ہم کہاں کھڑے ہیں؟ دشمن ہمارے خلاف کس حد تک بڑھ چکا ہے؟ نا زمین کے نیچے وسائل محفوظ ہیں اور نا ہی اوپر بسے اسکے باتی، نا مرد آزاد ہے نا زن، نا پیر محفوظ ہیں نا ہی ورنا، اور یہ ظلم، جبر، قبضہ زبانی جمع خرچ سے ہورہا ہے نا ہی سیاسی و سفارتی اٹکل بازی سے، یہ خالص آتش و آہن اور فوجی طاقت کی وجہ سے ہے۔ اب ایسے صورتحال میں نا آپ کو کوئی سائنسدان ہونے کی ضرورت ہے اور نا سماجی و سیاسی سائنس کا ماہر کے سمجھ سکیں کہ دشمن کے اس طریقہ واردات کا مقابلہ کیا ہوسکتا ہے؟ بس جس طرح دو جمع دو چار ہوتے ہیں، اسی طرح سادہ سا اپنے وطن کے حالات کا درست حساب لگالیں تو پھر آپ کو حل کیا نظر آتا ہے؟ کیا آپکو نہیں لگتا کہ اس تناظر میں مسلح محاذ پر مکمل توجہ مرکوز کرکے قومی جنگ کو مزید منظم کرنے کی ضرورت ہے؟

اگر میدان میں دشمن کے خلاف موثر جنگ نہیں ہوگی تو باقی چیزیں موجود ضرور ہونگی، لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، لیکن مزاحمت کو مضبوط و متحرک کرنے کے قیمت پر باقی اجزاء کمزور یا ختم ہو بھی جاتی ہیں تو، پھر جب مزاحمت شدت پکڑے گی تو وہ از خود باقی اجزاء اپنے کوکھ سے خود تخلیق کریگی۔

سنہ 2000 سے پہلے کہاں پر تھا ہماری سفارتکاری؟ نظریاتی و فکری سرفیس سیاست؟ انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے خلاف جدوجہد و علمبرداری و مزاحتمی ادب، تحریر و تقریر؟ حتیٰ کہ عالمی قوتوں کی توجہ بلوچستان پر کچھ نہیں تھا۔ کیا ان سب کی تخلیق مسلح جدوجہد کی کوکھ سے نہیں ہوا؟ اب اگر مسلح جدوجہد خدانخواستہ کمزور ہوتی ہے یا ختم ہوتی ہے تو پھر ان متذکرہ چیزوں کی کوئی اہمیت و افادیت کیا ہوگی؟ اگر یہ موجود ہوں بھی تو پھر نتیجہ کیا ہوگا؟

یہاں ایک بات دوبارہ واضح کرکے دوبارہ دہرائے جانے کے متقاضی ہے کہ پاکستان جیسے سفاک، غیر جمہوری اور انسانی اقدار سے عاری دشمن سے آزادی حاصل کرنا، بالکل بھی آسان نہیں ہے اور اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ وہ ایک انتہائی محدود پیمانے کے سیاست، سفارت، صحافت سے پاکستان جیسے سفاک سے آزادی حاصل کرلے گا، وہ محض خود کو دھوکہ دے رہا ہے، اس سے آپ کو چار نالیوں کے ٹھیکے تک نہیں ملیں گے، آزادی دور کی بات ہے۔ آزادی کا راستہ گو کہ کٹھن ہوگا شاید طویل بھی لیکن وہ راستہ صرف اور صرف مسلح مزاحمت ہے۔

یہاں ایک ضروری سوال اٹھتا ہے کہ اگر راستہ صرف اور صرف مسلح مزاحمت ہے تو پھر باقی اجزائے ترکیبی جیسے سیاست، سفارت، صحافت، انسانی حقوق وغیرہ کا کیا کردار؟ ان تمام اجزاء کا کردار مسلح جدوجہد کو ہی مستحکم کرنا ہوتا ہے۔ سیاست بندوق سے نکلی گولی کے مقصد کی سیاسی تشریح کرکے اپنے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ سفارت، یہی کام بیرونی دنیا میں کرتا ہے اور انکو بتاتا ہے کہ ہم ان کیلئے خطرہ نہیں، صحافت آپکی آواز پہنچاتا ہے، اسی طرح ہر جز مسلح مزاحمت کو استحکام کے گرد اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یعنی اگر مسلح مزاحمت نا ہو پھر ان اجزاء کے ہونے کا جواز ہی نہیں ہے۔ خاص طور پر جب دشمن پاکستان جیسا ملک ہو۔

لیکن ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ وہ ذہنی شکست خوردہ جہدکار، جو کسی طرح مسلح جہد سے نکل کر آسانی کی تلاش میں باقی اجزاء سے جڑ گئے ہیں، وہ اپنے اپنے متذکرہ اجزاء کی اتنی تسبیح کرتے ہیں کہ جیسے پوری تحریک ان پر کھڑا ہے۔ کوئی سفارت سے جڑ گیا ہے اور بیرن ملک منتقل ہوگیا ہے تو وہ اس تھیوری کے ساتھ آتا ہے کہ مسلح مزاحمت اب زائدالمیعاد ہوچکا ہے، جب تک سفارت کاری سے ہم بیرونی طاقتوں کو مدد کیلئے آمادہ نہیں کرینگے تو آزاد نہیں ہونگے۔ اگر کوئی صحافت سے جڑگیا ہے تو وہ اس تھیوری کیساتھ آرہا ہے کہ اب دنیا سوشل میڈیا کی دنیا ہے، ہر تبدیلی وہاں سے آتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح یہ قبیل نا صرف خود راہ فرار اور آسان طلبی کا شکار ہورہے ہیں بلکہ اس آسان طلبی میں بھی اپنی اہمیت اور ایک اثرورسوخ قائم رکھنے کیلئے متذکرہ اجزاء کی اہمیت کا حامل ہونے کا حد درجہ پرچار بھی کرتے ہیں، جس سے ناصرف وہ نئی نسل کو حقیقی جہد کی جانب مائل ہونے کے بجائے ایسے بے فائدہ کاموں میں لگاتے ہیں بلکہ مسلح جہد کے صفوں میں موجود کچھ تھکے ہوئے جہدکاروں کے ذہنوں میں بھی سوال پیدا کرتے ہیں کہ اگر وہ کام بھی اتنا اہم ہے تو میں کیوں اتنا مشکل کام کررہا ہوں اور نئی نسل سوچتا ہے کہ اگر میں آزادی کی جہد چار ٹویٹ کرکے کرسکتا ہوں تو پھر بندوق اٹھانے کی کیا ضرورت، پھر ان جذبات کا رخ دوسری جانب بہہ جاتا ہے، جو بے نتیجگی کے بے باعث آخرکار اس میں اول اکتاہٹ پیدا کرتے ہیں اور بالآخر وہ کنارہ کش ہوجاتا ہے۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سفارتکاری کے جس کام کیلئے اگر چار بندوں کی ضرورت تھی تو اب چار ہزار ہوگئے ہیں، جس سے درجنوں مختلف موقف پہنچنے کی وجہ سے فائدہ نہیں صرف نقصان ہی ہورہا ہے۔ میڈیا و لکھاری اگر چار ضرورت تھے تو وہ اب اتنے ہوگئے ہیں کہ اب پڑھنے والے کم ہیں، لکھنے والے زیادہ۔ اور یہ سب ایک گروہ کی شکل اختیار کرچکے ہیں جہاں میں تمہیں ملا بلاؤں اور تمہیں مجھے حاجی کے مصداق صرف اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ انکا کام کتنا اہم ہے، جو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں لیکن زمینی حالات کی انکو کوئی خبر نہیں۔

آخری دلیل محض یہ آتی ہے، ” جی! جو مجھ سے ہوتا ہے، میں کررہا ہوں” عجیب دلیل ہے، جو جینیوا میں چھ مہینے میں ایک بار فائیو اسٹار ہوٹل میں سیمینار کرنے والے اور بولان میں روز دشمن کے بندوقوں کا مقابلہ کرنے والے کو برابر کردیتا ہے، کیوںکہ دلیل کے رو سے جس سے جو ہوتا ہے وہ کررہا ہے، بندوق بردار سے لڑائی ہورہی ہے وہ لڑرہا ہے، اس سے جنیوا میں مظاہرہ ہورہا ہے وہ کررہا ہے۔ “بس” کے اندر کرنے کا پیمانہ دونوں کو برابر کردیتا ہے۔ نہیں جناب! ایسا نہیں، یہ پیمانہ درست نہیں ہے، حقیقی پیمانہ یہ ہے کہ حالات جو تقاضہ کررہے ہوں۔ پیمانہ یہ ہے کہ وطن کی دھرتی اس وقت جو تقاضہ کررہی ہے وہ کرو۔ اور جو ان تقاضوں پر چلا وہ عظیم ہے، وہ نہیں جو اپنے “بس” پر چلا۔

اختتام ان الفاظ پر کروں گا کہ باقی اجزاء تحریک کیلئے کتنا ضروری ہیں، جہاں ضروری ہیں، اور کب ضروری ہیں اور کب، کس وقت، کتنے لوگوں کو ان ضرورتوں کو پورا کرنا ہے۔ وقت کے ساتھ تنظیمی لیڈرشپ یہ فیصلے کریں، اور ذمہ داریاں اہلیت و ضرورت کے مطابق بدلتے رہیں۔ باقی اجزاء محض آرام طلب و نظریاتی مفرور طبقے کیلئے محفوظ جنت نہیں بننی چاہیئں۔


دی بلوچستان پوسٹ:

понедельник, 4 марта 2019 г.

میرے وجود کا دشمن میرا کلچر ڈے منا رہا ہے؟ – سُرگُل بلوچ 

گذشتہ ایک دہائی سے ہر سال دو مارچ کو بلوچ قومی ثقافت کے دن کے طور پر منانے کا دستور چل پڑا ہے، جس میں آج کل بلوچ کھاتا پیتا طبقہ یعنی مڈل کلاس، لچڑ گروپ یعنی منشیات فروش وغیرہ اور حکمران اشرافیہ کلچر ڈے منانے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اس سال بھی اسی اُوپری طبقے میں اچھی خاصی گرم جوشی پائی جارہی ہے۔ دو مارچ کی تیاریوں کے سلسلے میں بڑے بڑے شلواروں والے کپڑے، دستار اور چوٹ خصوصی طور پر تیار کیئے جا رہے ہیں۔ کئی بڑے تقریبات کے اعلان بھی ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ناچ گانے کے پوسٹر بھی منظر پر آچکے ہیں۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد خوبصورت ٹُھمکے لگانے کے ریہرسل بھی کررہے ہیں۔ الغرض قومی غیرت دکھانے کا یومیہ میلہ لگ بھگ سج چُکا ہے۔
اس سب میلے جھمیلے میں حیران کُن و غور طلب بات یہ ہیکہ اس میلے کا خصوصی ٹھیکہ دار مملکت خداداد کا فوجی اشرافیہ ہے۔ فوجی اشرافیہ کی خصوصی دلچسپیوں سے بلوچستان کے بڑے بڑے شہروں میں فیسٹیول میلے فنکشن کے اہتمام کیئے جا رہے ہیں۔ ناچ گانے کیلئے نامور گلوکاروں کی بکنگ بھی انہی ٹھیکیداروں نے کنفرم کر لی ہیں اور سرکاری سطح پر اہم نمائندے بھرپور شرکت کیلئے تیار کھڑے ہیں۔ گویا اب دو مارچ کا ثقافتی میلہ سرکاری سطح پر قبولیت و منظوری حاصل کر چکا ہے۔
دو مارچ کے اس ثقافتی میلے میں فوجی اشرافیہ کی دلچسپی و شرکت کیوں حیران کن ہے، اسے سمجھنے کے لئے صرف ایک دہائی پیچھے کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیں تو تمام ابہام خود بخود کلیئر ہو جاتے ہیں۔ آج کی نسل کو بخوبی علم ہے اور یہ کوئی قرونِ وسطیٰ کی یادداشت نہیں بلکہ ایک دہائی پہلے کی بات ہے کہ حالیہ تحریک جو نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے ساتھ ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ کر ابھرا تو مجموعی طور پر پورے بلوچ وطن کو اس نے اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ کوہِ سلیمان سے مکران تک اور کراچی سے زابل و ہلمند تک بغاوت کی لہریں بلند ہوئیں۔ نوجوان نسل نے تمام لسانی و قبائلی تفریقوں کو مَسل کر قومی اتحاد کا خوبصورت گلدستہ تعمیر کیا اور جذبۂ بغاوت کو قومی پہچان بنایا۔ اس قومی بغاوت نے قابض کی پاؤں تلے زمین کھسکا دی اور قابض فوج اپنی بے بسی پر بھوکلا کر رہ گیا، جس کے بعد حواس باختہ قابض فوج نے تمام جنگی قوانین کو پاؤں تلے روندتے ہوئے درندگی کی حدیں پار کر دیں۔ بے گناہ نہتے عوام کا قتلِ عام، دیہاتوں و گھروں کا مسمار کرنا، لوٹ مار، بلوچ فرزندوں کو اٹھا کر غائب کرنا، مسخ شدہ لاشیں پھینکنا اور اجتماعی قبروں میں سینکڑوں فرزندوں کو درگور کرنا، بلوچ خواتین کی بے حرمتی و عصمت دری جیسے درندگی تک کی تمام وحشیانہ جرائم کا ارتکاب قابض فوج نے اپنی حواس باختگی میں کئیں۔
بیچ چوراہوں پر بلوچی ننگ و ناموس کی بے حرمتی کرتے ہوئے درندہ صفت فوج نے بچوں و خواتین سمیت بزرگوں تک کی تذلیل کا سلسلہ شروع کیا۔ بے لگام فوجیوں نے کھلے عام بلوچ خواتین کی تلاشیاں لینا شروع کئیں اور بزرگوں کو کان پکڑوا کر سڑک پر مرغا بنوایا۔ منہ کھولنے پر نوجوان بچوں کو اٹھا کر غائب کر دینا عام ہو گیا۔ بلوچی دستار پہننے پر بزرگوں کو اذیت دیا جاتا۔ نوجوانوں کے سر پر چے گویرا کی ٹوپی دیکھ کر سر منڈوائے جاتے اور مار مار کر ہڈی پسلیاں توڑ دی جاتیں۔ حتیٰ کہ بلوچی شلوار تک بیچ بازار میں کاٹے جانے کا رواج عام کرکے خوف و وحشت کا راج رائج کیا گیا۔ اپنی ان تمام وحشیانہ کرداروں سے سفاک فوج نے ثابت کر دیا کہ وہ قابض ہے اور گذشتہ چھ سے سات دہائیوں کا یہ قبضہ بالکل تازہ تازہ یلغار معلوم ہونے لگا۔ ساتھ ہی انہی رویوں سے بلوچ قوم کا اجتماعی باغیانہ روش بھی ثابت ہوگیا، جس کی وجہ سے ستر سالوں بعد بھی قابض کیلئے بلوچ دھرتی ایک مقبوضہ زمین اور ہر بلوچ اجنبی کی حیثیت رکھتا ہے جوکہ بلوچ راج کی یقینی سربلندی کی نشانی ہے۔
وحشی فوج اپنی روایتی خصلت کے مطابق بلوچ قوم کے نام و نشان کا دشمن بن گیا۔ بلوچی زبان میں لکھے گئے تمام رسالے و کتابیں بھی بلوچ نوجوانوں کی طرح اٹھا کر غائب کر دی گئیں، جن پر تاحال پابندی عائد ہے۔ اسی بربریت کے مقابلے میں بلوچ فرزندوں نے قومی تشخص کے دفاع میں زیادہ شدت سے اپنی پہچان کو آشکار کرنا شروع کیا۔ قابض کی نفرت آمیز رویئے کے خلاف سرفروش نوجوانوں نے دو مارچ 2009 کو خضدار کالج میں کلچر ڈے کا اہتمام کرکے دشمن کو یہ پیغام دیا کہ جہاں آپ ہماری تاریخ و ثقافت سے نفرت کرتے ہیں، وہیں ہم اپنی تاریخ تہذیب و ثقافت کا جشن منا کر اپنی عظیم باغیانہ تاریخ پر فخریہ قربان ہونے کیلئے تیار ہیں۔ دو مارچ کے اسی تقریب پر وحشی دشمن نے بم حملہ کر کہ نوجوان سٹوڈنٹس جنید بلوچ اور سکندر بلوچ کو شہید کیا اور کئی نوجوانوں کو زخمی کردیا۔ یہ قابض کی بلوچ قوم سے انتہائی نفرت کا مکروہ اظہار تھا۔ لیکن اس حملے نے کسی بھی طور بلوچ نوجوانوں کے حوصلے پست نہیں کیئے۔ قومی تشخص کے محافظ شہید نوجوانوں کے اعزاز میں اگلے دو مارچ کو زیادہ جوش و خروش کے ساتھ شہدائے دستار کے نام پر قومی ثقافتی دن کے طور پر منایا گیا۔ جس کے بعد ایک سلسلہ شروع ہوا جو قطعی طور بھی کسی قوت سے ختم کرنا ناممکن ہو گیا۔
جو مکروہ چال قابض نے بلوچ راج کے خلاف بُنا تھا، وہ اس کے اپنے گلے پڑ گیا اس لئے اس نے ایک اور چال بُنا۔ چینی قوم میں ایک مثال مشہور ہے کہ جس دشمن کو آپ ڈائریکٹ مقابلہ میں شکست نہیں دے سکتے اس کے ساتھ نباہ کرکے قربت بڑھائیں اور اسے اندر سے ختم کر دیں۔ پاکستانی عیّار حکمرانوں نے ہوبہو یہی کیا۔ جس بلوچی دستار، کپڑے اور ثقافت سے قابض کو شدید نفرت تھی اچانک اسی ثقافت کو سیلیبریٹ کرنا شروع کیا مگر اسکی شکل یکسر بگاڑ دی۔ جس طرح پنجاب میں بسنے والوں بلوچوں کیلئے فِکس کیا گیا ہے کہ “بھیڑ بکری پال بلوچا، ہو جا مالا مال بلوچا” یعنی بلوچ صرف بھیڑ بکری پال لے اور پنجابی حکمرانی کرے اسی طرح بلوچستان کے بلوچ عوام کو اونٹ اور جھونپڑی پہ ناز کرنے پر لگا دیا گیا۔
پہلے پہل بدنام زمانہ ڈاکو عزیر بلوچ اور احمد اقبال جیسے کاسہ لیسوں کے ذریعے لیاری میں کلچر ڈے کے نام پر ناچ گانے کا رواج شروع کیا گیا تو بعد ازاں فوجی پروٹوکول میں بلوچوں کو اونٹوں پر بٹھا کر دو مارچ کے اصل حقائق کو دھندلا کیا گیا۔
ذرا غور کریں کہ ایک دہائی پہلے جو دشمن بیچ سڑک پر بلوچی شلوار کاٹ رہا تھا اور بزرگوں کے دستار اچھال رہا تھا آج خود بلوچی دستار پہن کر ناچ گانے کے میلے کو سیکورٹی فراہم کر رہا ہے۔ ایک طرف دشمن نے بلوچی زبان و ادب کی کتابوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے تو دوسری طرف بلوچی زبان کے زر خرید گلوکاروں کو خطیر رقم دے کر انہیں ڈھول کی تھاپ پہ نچا رہی ہے۔ یقیناً اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ کل تک جو ثقافتی میلہ سجتا تھا وہ خالصتاً قومی تشخص کی دفاع میں تھا اور اس میں باغیانہ روش موجود تھی مگر آج کا میلا فقط بے حیائی اور ننگا ناچ کیلئے لگ رہا ہے، جس میں قابض فوج کے ساتھ بلوچ اشرافیہ پہلی صف میں کھڑے ہیں۔
آج کا باشعور نوجوان اس قدر کم فہم و بھلکڑ نہیں ہے کہ اپنی کل کی یادداشت بھلا دے اور دشمن کی اس عیار چالبازی کو سمجھ نا پائے۔ بلوچ قومی تشخص کو آج بھی وہی خطرہ لاحق ہے۔ آج بلوچ فرزند اپنی دھرتی پر غیر محفوظ ہیں۔ بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیاں اور انکی دشمن کے ہاتھوں بے پردگی روز کا معمول بن چکا ہے۔ بلوچی زبان، تاریخ و ادب کی کتابوں پر پابندی عائد ہے۔ بلوچ فرزندوں کی آزادانہ نقل و حرکت، سیاست و صحافت پر مجرمانہ پابندی عائد ہے۔ جبکہ دشمن بلوچ قوم کو یہ باور کرانے میں لگا ہوا ہے کہ بلوچ قوم کی تاریخ و تقدیر اونٹ اور جھونپڑی کے ساتھ لیوا ہے۔
بلوچ فرزند اپنی تاریخ پر ناز کرتے ہوئے جذبہ بغاوت کیساتھ شہدائے دستار کی عظیم قربانیوں کو یاد کرتا ہے اور ہر قسم کی سرکاری بے حیائی کا بائیکاٹ کرتا ہے۔ نئی نسل کو بلوچ شہداء کا یہ پیغام ہے کہ وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بلی کا شکار نہ بنیں بلکہ شہداء کی عظیم روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہر مکارانہ چال کا بھرپور جواب دیں۔ ایسے کسی بھی تقریب کا حصہ نہ بنیں جس سے عظیم شہداء کے قربانیوں کی توہین ہو بلکہ شہدائے دستار کا دن منا کر دشمن کو ایک اور کرارا جواب دیں۔

четверг, 21 февраля 2019 г.

برزکوہی کے کالم “توتک واقعہ اور ماں” کے تناظر میں ـ خالد شریف بلوچ 

دنیا کی سب سے عظیم اور اہم رشتہ ماں کا ہے، مجھے فخر ہے کہ میں ایک بلوچ ماں کا بیٹا ہوں اور اس ماں کے پیار نے ہمیں مادر وطن سے پیار کرنا سھکایا ہے، بلوچ مائیں ایک ظالم دشتگرد سامراج سے چھٹکارہ پانے اور آزاد ہونے کیلئے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بھی قربان کررہے ہیں، ہمیں ان ماؤں نے سکھایا ہے کہ احساس غلامی کیا ہے اور احساس انسانیت کیا ہوتا ہےـ
جو لوگ غلام ہوتے ہیں، اصل میں وہی لوگ انسانیت کی قدر کرنا جانتے ہیں ـ غلامی نے ہمیں بہت کچھ سکھایا اور بلوچستان کی آزادی کی جنگ میں سال کے بارہ مہینوں میں سے فروری کا مہینہ ہر سال بارشوں و سرد ہواؤں میں بلوچ قوم، بلوچ راج، اور بلوچ وطن پر قربان ہونے والے بہادر بلوچ نوجوانوں کی شہادتیں بہت کچھ یاد دلاتے ہیں اور حوصلہ و ہمت دیتے ہیں۔ شہید نعیم جان ہو یا شہید یحیٰ جان، شہید حق نواز، شہید دل جان ہو یا شہید نورلحق جان کی یادیں ہو سب فروری کی دین ہیں ـ
اس سال بھی ہر سال کی طرح فروری میں بارش ہورہا ہے اور میں 20 فروری کے دن تنظیم کے کسی کام سے نیٹورک میں گیا، ہلکی ہلکی بارش اور سرد ہواؤں سے لڑتے لڑتے جب میں نیٹورک پر پہنچا اور فون کھول کر دیکھا تو دی بلوچستان پوسٹ پر برزکوہی کا ایک آرٹیکل آیا تھا( واقعہ توتک اور ماں) اُس آرٹیکل کو پڑھتے پڑھتے میں ایک گہری سوچ میں گُم ہو گیا، کئی گھنٹوں بعد مجھے پتا چلا کہ میں ایک کام سے آیا ہوں وہ گہری سوچ کچھ یوں تھاـ
جو کچھ برزکوہی نے اپنے آرٹیکل میں بیان کیا تھا، ٹھیک اُسی طرح کی بارش اور سرد ہوائیں چل رہی تھیں، جب میں نیٹورک پر بیٹھ کر آرٹیکل کو پڑھ رہا تھا تو ایک پل کیلئے مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ میں ہی تھا، اُس آپریشن میں جس کا ذکر برزکوہی کر رہے تھے کیونکہ مجھے اُس ماں کی درد شدت سے محسوس ہورہی تھی، بہت خوش نصیب ہونگے وہ لوگ جن کی ایسی مائیں ہوتی ہیں ـ
کیسے ہونگے وہ لمحے، جب اُس وقت قبضہ گیر سامراج پاکستان کی آرمی اور ایف سی کی بربریت ایک طرف، سردی کے موسم میں بارش اور سرد ہوائیں دوسری طرف سے قہر ڈھا رہے ہونگے۔ ایک ماں پر اس وقت کیا گذر رہا ہوگا، جب وہ صبح سویرے فائرنگ کی آوازیں سن رہا ہوگا اور اُس ماں کو پتہ ہو کہ اُس کا پورا خاندان قبضہ گیر پاکستان کی گھیرے میں ہے، گولیاں ایسے برس رہے ہونگے، جیسے کہ بارش کی بوندیں ہوں، کیسے ہونگے وہ لمحے جب اس ماں کی دو بیٹے دشمن کے خلاف جنگ کر رہے ہونگے، اپنے فکری و نظریاتی دوست اور اپنے بھائیوں کو ظالم کے گھیرے سے نکالنے کیلئے ـ
میں اُس دن کی سوچوں میں گم تھا، مجھے پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ میں نیٹورک پر بیٹھ کر بارش میں بھیگ رہا ہوں، مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ میں خود پتہ نہیں آج بھی توتک کے آپریشن میں ہوں اور میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں، محسوس کررہا ہوں، ذہن میں پتہ نہیں کیوں یہ سوچ بار بار آرہی تھی کہ میں صبح سویرے جب اٹھ کر اپنے معمول کی مطابق ہاتھ منہ دھونے لگا کہ ایسے میں فائرنگ کی آواز شروع ہوئی اور میں دوڑ کر وتاخ گیا، جب وتاخ پہنچا تو مہمانوں کو آواز دی، “سنگت ہمیں دشمن فوج نے گھیر لیا ہے، چلو نکلو” جب ہم باہر نکلے شہر کے گلیوں میں ہر کوئی اپنے گھر کے باہر پریشان کھڑا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ قیامت کی گھڑی ہو، اُس وقت فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کہ کیا کرنا ہےـ
اس دوران سنگت ہمیں ہمت، حوصلے اور بہادری کا درس دے رہے تھا کہ مرینگے، دشمن کو خوب مارینگے مگر زندہ دشمن کے ہاتھ میں ہرگز نہیں جائینگے۔
اسی اثناء شہید نعیم جان کی ماں اپنے جوان بیٹے نعیم جان کی طرف جارہی تھی، وہ ہمیں دیکھ کر روک گئی اور کہا “میرے بیٹے اپنے مہمان کو کبھی اکیلا مت چھوڑنا اور انکا بہت زیادہ خیال رکھنا” پھر ہمیں ایک جگہ کاپتہ بتایا اور وہاں جانے کو کہا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اُس ماں کے کہے ہوئے جگہ پر گئے، تو ہمیں راستہ مل گیا۔
کچھ گھنٹے گذرنے کے بعد چیخوں کی آوازیں زیادہ ہونے لگیں اور شہر کی طرف سے جلے ہوئے گھروں کا دھواں نظر آرہا تھا، کانوں میں ایک عجیب سی آواز گونج رہی تھی اور ہم دشمن کے انتظار میں تھے کہ کب ہمارا دشمن سے سامنا ہو، اُس وقت صرف ایک خیال تکلیف دے رہا تھا کہ ہم بلوچ قوم کیلئے کچھ زیادہ نہ کر سکے، ہم ابھی جارہے ہیں اور بلوچستان کی آزادی کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پائینگے۔
خیر پورا دن دشمن کے گھیرے میں گذر گیا، لمحہ بہ لمحہ دشمن کے انتظار میں ہم بیٹھے رہے، شام کو ایک بچے کی آواز آرہی تھی، وہ کہہ رہا تھا کہ فوجیوں کی گاڑیاں واپس جارہی ہیں، اُس وقت شام ہونے والا تھا، ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ فوج چلا جائے گا۔ اسی میں شہید نعیم جان کی بھابھی آئی اور اُس کے ہاتھ میں شہید نعیم جان کا چادر تھا، جو خون سے لت پت تھا۔ اُس نے ہمیں آواز دی اور کہنے لگی “نعیم اور یحیٰ شہید ہو گئے ہیں” باقی سب کو فوج اپنے ساتھ لے گیا ہے، اب آپ لوگ یہاں سے نکلو ایسا نہ ہو کہ فوج واپس آئے، ہم وہاں سے نکلے، ہمارے کپڑے بارش سے بھیگے ہوئے تھے اور اُس سردی میں ہمارے پاس سردی سے بچنے کیلئے نہ چادر تھا، نہ کوٹ، خیر ہم راستے میں تھے، میرے فون پر ایک کال آیا اور میں نے فون اٹھایا، میں ایک پہاڑی کی بلندی پر بیھٹے بارش میں مکمل بھیگ رہا تھا اور اپنی سوچ کی گہرائی سے نکل کر دیکھا، تو میرے ماتھے پر پسینے اور آنکھوں سے آنسو بے اختیار بہہ رہے تھےـ فون اٹھایا تو عظیم ماں کی آواز سنا وہ سب سے پہلے بجائے میرا خیریت دریافت کرنے کے، دوست کا پوچھ رہی تھی، وہ کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ بالکل ٹھیک ہے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے خدا حافظ کیا اور کہا اللہ آپ لوگوں کا مدد و کمک ہو، آپ جلدی سے نکل جاو، دشمن پر بھروسہ نہیں۔
دوسرا کال دوست کا تھا، ھیلو کے بعد دوست نے کہا میں کتنی دیر سے کال کررہا ہوں، آپ فون کیوں نہیں اٹھا رہے ہوـ ہم سامراج پاکستان کی فوج کے گھیرےسے نکل چکے ہیں، پورے حوصلے اور ہمت کے ساتھ اپنے محاذ پر بیٹھے ہیں، ہم خیر خیریت سے ہیں، آپ لوگ کیسے ہیں؟ میں نے کہا ہم عظیم ماؤں کی دعاوں کے برکت بالکل خیرخیریت سے ہیں، وہ دعائیں ہمارے ساتھ ہیں اور میں دعا کرتا ہوں، ایسی مائیں ہمیشہ سلامت رہیں اور بلوچ جہدکاروں کیلئے دعا کرتے رہیں۔
میں تمام بلوچ قوم اور خاص طور پر بلوچ جہدکاروں سے یہی امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے مقصد اور اپنے شہیدؤں کی فکر و نظریئے سے سنجیدہ ہوجائیں اور اپنے کام اور ذمہ داریوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں اور ایسے عظیم ماؤں کی قربانیوں اور امیدوں کو ذہن میں رکھ کر ان کو نا امید نہ کریں کیونکہ جب تک ہم اپنے کام اور اپنے مقصد میں سنجیدہ نہ ہونگے، تب تک دشمن ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیگاـ

вторник, 19 февраля 2019 г.

واقعہ توتک اور ماں ۔ برزکوہی 

نپولین عظمت کیلئے فرانسیسیوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ” تم مجھے عظیم مائیں دو میں تمہیں ایک عظیم قوم دونگا” آج بحثیت قوم ہم بلوچ جس تاریخی عظمت کا دعویدار ہیں، وہ یقیناً عظیم بلوچ ماوں کی ہی دھان ہے۔
اس عظمت کے گواہ بلوچستان کے کوہ و صحرا ہیں، جو ان شیر زال ماؤں کی داستانیں اپنے سینے میں آنے والی نسلوں کو سنانے کیلئے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ آج سے پورے 8 سال قبل پیش آنے والے ایک حقیقی اور تاریخی واقعے اور کردار کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ کاش! ہمارے دانشوروں کے پاس میکسم گورکی جیسی صلاحیت، ہمت اور وقت ہوتا تو پافل ولاسوف کی ماں کے کردار کی طرح اس ماں کے کردار کو بھی امر کردیتے۔ کاش! اس ماں کے کوہ گراں کردار کو الفاظ کے لڑیوں میں اس خوبصورتی کے ساتھ پرویا جاتا کہ تاریخ اس کردار کا وزن اور ان لمحات کا الم اپنے پرنوں سے کبھی ماند پڑنے نا دیتا۔
یہ واقعہ روس، چین، فرانس، الجزائر، ویتنام، کیوبا وغیرہ میں پیش نہیں آیا اور نہ ہی یہ ماں کوئی روسی، فرانسیسی، کیوبن یا ویتنامی ماں ہے بلکہ یہ میری اور آپ کی اپنی دھرتی بلوچستان کے علاقے توتک کی ایک بلوچ ماں کی تاریخی و حقیقی کردار اور واقعہ ہے۔
جی ہاں! 8 سال قبل جب پاکستانی فورسز خضدار کے علاقے بلبل پشک اور مولی کے دامن توتک سرداری شہر پر صبح سویرے حملہ آور ہوئے تو پاکستانی فوج کے حملے کے خلاف اس شہر کے دونوجوان نعیم جان قلندرانی اور یحیٰ جان قلندرانی اپنے سرپر کفن باندھ کر اپنے نظریاتی دوستوں کو گھیرے سے نکالنے اور بچانے کے خاطر دیدہ دلیری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے اور درجنوں فوجی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو جہنم واصل کیا۔ فورسز نے ردعمل میں سیخ پا ہوکر نعیم جان کے 80 سالہ والد محترم و بزرگ حاجی رحیم خان قلندرانی، ان کے 40 سالہ بڑے بھائی ڈاکٹر طاہر قلندارانی، بھانجے عتیق قلندرانی، وسیم قلندرانی، خلیل قلندرانی اور باقی قریبی رشتہ دار آفتاب قلندرانی اور مقصود قلندرانی سمیت 25 نوجوانوں کو گرفتار کرلیا اور شہید نعیم کے گھر سمیت درجنوں مزید گھروں کے سازوسان لوٹ کر، گھروں کو آگ لگادی۔
دوران حراست چند مہینے بعد مقصود جان کو شہید کرکے اس کی تشدد زدہ لاش ویرانے میں پھینک دیا گیا اور کچھ رہا کردیئے گئے اور باقی لگ بھگ 18 بندے 80 سالہ حاجی رحیم خان قلندرانی سمیت آج تک لاپتہ ہیں، ان کا کوئی اتا پتا نہیں ہے کہ وہ زندہ ہیں یا شہید ہوچکے ہیں۔
جب صبح 6 بجے سے سخت سردی اور موسلا دھار بارش میں آپریشن شروع ہوا اور شام 7 بجے جب فورسز واپس چلے گئے، تو وہ سرسبز و شاداب اور خوشیوں کے گہوارے توتک کو میدان الم میں تبدیل کرچکے تھے، ہر طرف آگ و دھواں اور چیخ و پکار ہی بچا ہوا تھا۔ ایسے عالم میں فوج کے چلے جانے کے بعد فوراً شہید نعیم جان کی ماں نے اپنے اس بیٹے کو فون کیا جو آپریشن کے دوران گھیراو سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوا تھا اور اس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا “(کنا چنا ) میرے بچے! مجھے جلدی سے بتا دو کہ تمہارے ساتھی کیسے ہیں؟” بیٹے نے جواب دیا ” اماں جان دوست خیر خیریت سے ہیں” ماں نے انتہائی خوشی سے جواب دیا ” یا اللہ تیرا شکر ہے کہ ساتھی سلامت ہیں۔” وہ ماں جس کا جگر گوشہ، سب سے چھوٹا بیٹا چند گھنٹے پہلے انہی ساتھیوں کو بحفاظت نکالنے کیلئے شہید کیا گیا، 80 سالہ شوہر کو ایک بیٹے سمیت فوج گرفتار کرکے لے گئی، جس کے کئی بھانجوں اور رشتہ داروں کو فوج گھسیٹتے ہوئے ہمیشہ کیلئے لے گئی اور اسکی آنکھوں کے سامنے تنکا تنکا کرکے اسکے بنائے گھر کو سامان سمیت آگ لگادی گئی، اسے کسی چیز کا پرواہ نہیں اور پھر بھی شکر بجا لارہی ہے، اور شکر کس لیئے بجا لارہی ہے کہ وہ ساتھی بچ گئے جن کے ساتھ اسکا کوئی رشتہ و تعلق نہیں تھا، نا وہ اسکے قبیلے کے فرد تھے نا خاندان کے رکن، اگر کوئی تعلق تھا تو وہ محض فکر و نظریئے کا رشتہ۔ اس مستند حقیقت سے کوئی باعلم اور ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا کا سب سے عظیم، بڑا، اٹوٹ اور مقدس رشتہ، نظریاتی و فکری رشتہ ہے۔ اس کے علاوہ اور کسی رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
بہادر لاڈلے اور چھوٹے بیٹے نعیم جان اور رشتے دار یححیٰ جان کے خون سے لت پت لاش کے قریب برپا چیخ و پکار اور سسکیوں کی طوفان میں اور اس کربناک ماحول اور حالت میں بھی خون میں لت پت جگر گوشے کے بجائے فکری سنگتوں کے غم میں غلطاں ہونا اور فون پر نظریاتی دوستوں کی خیر خیریت دریافت کرنا، اپنے دیگر زندہ نکلنے والے بیٹوں اور رشتہ داروں کا بھی نہیں پوچھنا یہ خود کیا ہے؟ کیا یہ بلوچ تحریک، بلوچ وطن، بلوچ قوم اور قومی آزادی کے ساتھ سچی کمٹمنٹ، ایمانداری، خلوص، سچائی اور وفاداری نہیں ہے؟ کیا یہ جرت و بہادری نہیں ہے؟ کیا موجودہ بلوچ تحریک میں بلوچ ماوں کی تاریخی اور عظیم کردار نہیں ہے؟
آج شہید نعیم کی عظیم ماں کے علاوہ ہزاروں ایسے بہادر نظریاتی مخلص اور عظیم مائیں بلوچ تحریک کے ساتھ عملاً وابستہ ہیں، ان کا آج بھی تحریک میں ایک متحرک اور فعال کردار موجود ہے، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب اس تحریک کو کیا کوئی بھی طاقت، حالت اور قوت ختم کرسکتا ہے؟ کیا بلوچ قومی تحریک اب بانجھ ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں، جب مائیں اس طرح تحریک کے ساتھ ہوں اور جہدکاروں کے لیئے حوصلہ و ہمت ثابت ہوں تو جہدکاروں کے قدموں کی آہٹ اور حوصلوں کو کوئی مائی کا لال بے حوصلہ نہیں کرسکتا، انکے حوصلوں کو پست کرنے والا باطل وجود نہیں رکھتا، ایسی ماؤں کے لال ہی دھرتی ماں کے اصل وارث ثابت ہوتے ہیں، ایسی مائیں صرف بچے نہیں جنتے، وہ تاریخ جنتے ہیں۔ آج ہر ایک ایسی بلوچ ماں ایک تاریخ، ایک سبق اور عظمت کا درخشاں ستارہ ہے۔
اسی وجہ سے آج دشمن کی جبر و بربریت اور قہر کے علاوہ تحریک کی نشیب و فراز سے لیکر ہر تحریکی کیفیت میں بلوچ نوجوان مایوسی، الجھنوں، خوف اور خود غرضیوں سے بے نیاز ہوکر لڑرہے ہیں اور ان کا پورا پورا یقین، ایمان اور عقیدہ ہے کہ اس دفعہ بلوچ تحریک آزادی نہیں رکے گی، اور نہ ہی سرد مہری کا شکار ہوگا اور نہ ہی ختم ہوگا، یہی مضبوط سوچ، بلوچ قومی تحریک کی کامیابی و کامرانی کی امیدوں کو زندہ رکھتا ہے۔
بس ایسے بہادر بلوچ ماوں اور بہنوں کی تاریخی اور عظیم کرداروں کو اپنی قوم اور دنیا کے سامنے اجاگر کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ بلوچ قوم اور پوری دنیا کو یہ باور ہو کہ اس دفعہ بلوچ تحریک بلوچوں کے ہاتھوں میں ہے اور بلوچ قوم بغیر قومی آزادی کے کسی بھی چیز کے لیئے تیار نہیں ہونگے، جب تک بلوچستان آزاد نہیں ہوگا اور بلوچستان سے پاکستانی فوج کا مکمل انخلاء نہیں ہوگا۔
یہ سوچ، یہ احساس آج ثابت کرتا ہے کہ تحریک اپنی کامیابی کی طرف رواں دواں ہے، مزید بہتری کی گنجائش پہلے بھی تھا، آج بھی ہے۔ اس کی بھرپور انداز میں کوشش ہو بلکہ تحریک مکمل ادارتی بنیادوں پر استوار ہو، ادارہ سرگرم عمل ہو، پھر یہ نسل کشی، یہ گرفتاری، یہ شہادت، تکلیف اور کرب تحریک کے لیئے رکاوٹ اور خوف نہیں بلکہ باعث حوصلہ ہونگے۔