Powered By Blogger

вторник, 24 декабря 2019 г.

میرحمل ہوت

میر حمل ہوت
تقریبًا 1550 ء مکران اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر حکمران تھا
جس وقت بلوچوں کی قوت کو ان کے قائدین امیر چاکر اور گوہرام اپنی اپنی خود سری کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرکے اپنی قوم کی اجتماعی تباہی کا اہتمام کر رہے تھے عین اسی زمانے میں مکران میں ہوت قبیلے کا نوجوان سردار میر حمل بلوچستان کے ساحل پر پرتگیزی حملہ آوروں کے خلاف نبرد آزما تھا.
یورپی اقوام میں سے پرتگیزی پہلے لوگ تھے جنہوں نے ایشیاء کے بحری راستوں پر اپنا تسلط قائم کرلیا. اس وقت تک خلافت عباسیہ کے ختم ہوجانے کے بعد کوئی  مرکزی مسلم قوت ایسی نہیں تھی جو یورپی اقوام کی سمندری طاقت کو روک سکتی.
برصغیر کے مسلمان حکمرانوں نے تو کبھی بھی بحری طاقت کی طرف کوئی دھیاں نہیں دیا اس لئے جب پرتگیزیوں نے افریقہ اور ایشیاء کا رخ کیا تو سمندروں میں یہاں کی کوئی قوت ان کے سامنے ٹھرنے والی نہیں تھی، اس علاقے میں سمندروں میں جہاز اور کشتیاں محض تجارت کی غرض سے استعمال ہوتی تھیں، پرتگیزی بحری قزاقوں نے سمندر میں تجارتی کشتیوں کو لوٹنا شروع کردیا مذکوره کشتیوں کی منزل اکثر وبیشتر خلیج کی بندرگاہیں ہواکرتی تھی، اسی لئے لوٹ مار کے لئے اس علاقے کو پرتگیزی قزاقوں نے اپنا مرکز بنایا.
اس طرح ساحل بلوچستان حملہ آوروں کی زد میں آگیا وه بلوچستان پر قابض ہونے کے درپے ہوئے اور انہوں نے بلوچستان کی بندرگاہوں پسنی، گوادر اور جیونی پر کئی بار حملے کئے.
میر حمل ہوت جو بلوچستان کے ساحلی علاقے کا حکمران تھا اس کی تجارتی کشتیاں خلیج کی بندرگاہوں تک آمد و رفت کیا کرتی تھیں وه بھی پرتگیزی بحری قزاقوں کے حملوں اور لوٹ مار کا نشانہ بنیں، میر حمل چونکہ ایک بڑے ساحلی علاقے کا حکمران تھا اس لئے اس کے پاس ایک چھوٹا سا جنگی بحری بیڑا بھی تھا، اس نے اپنے بحری بیڑے کو پرتگیزی حملہ آوروں کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ بلوچستان کے سمندری علاقے کو پرتگیزی قزاقوں سے محفوظ رکھ سکے، پرتگیزیوں کے ساتھ کئی بار سمندر میں اس کی مڈ بھیڑ ہوئی جس میں کئی مرتبہ اس نے پرتگیزیوں کو سخت نقصان اور ہزیمت سے دوچار کیا.
ان سمندری لڑائیوں کے نتیجے میں پرتگیزیوں نے بلوچستان کی بندرگاہوں اور ساحلی بستیوں پر اپنے حملوں کا آغاز کیا تاکہ ان پر قابض ہوکر پورے علاقے کو اپنے زیر تسلط لاسکیں.
سواحل بلوچستان کے حاکم میر حمل ہوت نے ان غیر ملکی حملہ آوروں سے اپنے وطن کی حفاظت کا تہیہ کرلیا اور اس نے اپنی قوت یکجا کرکے پرتگیزی حملہ آوروں کو ساحلی مقامات سے مکمل طور پر مار بھگایا اور اس اندیشے کے سد باب کی غرض سے کہ کہیں پرتگیزی حملہ آور پھر بلوچستان کے ساحلی مقامات کو نقصان نہ پہنچائیں اس نے چند کشتیوں کا ایک جنگی بیڑا بنوایا جن کے ذریعے اس نے پھر کبھی پرتگیزیوں کو ساحل بلوچستان کے قریب نہ آنے دیا اس دوران میر حمل اور پرتگیزی حملہ آوروں کے درمیان کئی چھڑپیں ہوئیں، اب بھی دو قدیم توپ گوادر اور ایک توپ پسنی میں پڑی ملتی ہیں جوکہ پرتگیزیوں سے چھینے جانے کی روایت ہے.
1581 ء کو پرتگیزیوں نے گوادر اور پسنی کو آگ لگادی.
کوئی جھڑپوں کے بعد میر حمل اور پرتگیزیوں کے مابین ایک صلح نامہ طے پایا جس کی رو سے دونوں لڑائی بندکرنے پر آماده ہوگئے اور عہد نامے کی رو سے پرتگیزیوں نے ساحل بلوچستان پر لوٹ مار اور حملے نہ کرنے کا اقرار کیا اور میر حمل نے پرتگیزی کشتیوں کی آمد  ورفت اور دیگر کاروائیوں میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا عہد کیا.
کچھ عرصے تک مذکوره معاہدے پر پوری طرح عمل ہوتا رہا جس کے نتیجے میں وه بلوچ ساحلی بستیاں جو متواتر پرتگیزی حملوں کے سبب اجڑ کر ویراں ہوگئی تھیں پھر آباد ہونا شروع ہوئیں اور میر حمل کی تجارتی کشتیوں نے حسب سابق تجارتی آمد و رفت شروع کردی، اسی پر امن یا بے خبری کے عالم میں پرتگیزیوں نے معاہدے کو توڑتے ہوئے حالت امن میں میر حمل پر حملہ آور ہوکر اسے گرفتار کرلیا اور اسے اپنے ساتھ کچھ عرصے مسقط میں رکھ کر پھر اپنی ہندوستانی نو آبادی دمن یا گوا لے گئے.
ہوا یوں کہ صلح نامے کے بعد میر حمل کو پرتگیزی حملوں اور دشمنی کا کوئی خطره نہیں رہا اس لئے وه اطمینان کے ساتھ اپنی کشتیوں پر ساحلی علاقوں کی سیر کرتاتھا، ایک دن میر حمل ایک تجارتی کشتی میں سوار ہوکر تجارتی مشن پر خلیج کی ایک بندرگاه کی جانب رواں تھا کہ راستے میں چند پرتگیزی جنگی کشتیوں نے میر حمل کی کشتی کو گھیرے میں لے کر اس پر حملہ کردیا.
چونکہ میر حمل کے ساتھ کوئی لڑاکا دستہ نہیں تھا، اس کے ساتھ کشتی میں ملاح یا پھر کچھ خدمت گار سوار تھے جو جنگجو بلوچ نہ تھے، اس لئے وه پرتگیزی حملے سے حواس باختہ ہوئے، مگر میر حمل نے خاموشی سے اپنے آپ کو پرتگیزیوں کے حوالے کرنا گوارا نہیں کیا اور تن تنہا انکا مقابلہ کرتا رہا.
لیکن ایک شخض تن تنہا کہاں تک مسلح دستوں کا مقابلہ کرسکتاہے؟ آخر کار اسے بے بس بناکر پرتگیزیوں نے زخمی حالت میں گرفتار کرلیا.
گرفتاری کے دوران پرتگیزیوں نے تحریص اور ترغیب کے ذریعے اس بات کی کوشش کی کہ میر حمل کو کسی طریقے سے اپنا ہمنوا بناکر اس کے ذریعے اس علاقے پر اپنی بالادستی قائم کرلیں. لیکن حمل کسی بھی طور اپنے وطن اور قوم کو غلام بنانے پر آماده نہیں ہوا، کسی بھی قسم کا دھونس، دباؤ، اور لالچ حمل کے عزم و استقامت کو متزلزل نہ کرسکا جس کی سزا بالآخر میر حمل کو شہادت کی صورت میں ملی.
اس طرح میر حمل ہوت نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر اپنے وطن کو پرتگیزی تسلط سے محفوظ رکھا، یہ وه دور تھا جب سمندروں پر یورپی طاقتوں کا مکمل تسلط قائم ہوچکا تھا، انہوں نے ہندوستان، افریقہ اور مشرق وسطی میں جس جگہ چاہا اپنی ساحلی بستی بسالی.
حیرت کی بات ہے کہ اس دور حاکمیت میں وسیع ساحل بلوچستان پر وه اپنی نو آبادیاں قائم نہ کرسکے.
اس طرح میر حمل کی عظمت کسی تشریح کی محتاج نہیں رہتی کہ اس نے اپنے عزم و حوصلوں کے باعث پرتگیزی حملہ آوروں سے آپنے وطن کو محفوظ رکھا وگر نہ یورپی طاقتوں نے ہرجگہ ساحلوں پر تسلط جمانے کے بعد ہی اس سرزمین کے اندرونی علاقوں پر قبضہ کیا.
اگر میر حمل اس وقت پرتگیزیوں کو نہ روکتا تو اس وقت ہی بلوچستان پرتگیزیوں کے زیر تسلط آجاتا اور وه اس میں مزید توسیع کا اہتمام کرتے.
بعد میں تین سو سال کے بعد برطانوی استعمار نے خشکی کے راستے بلوچستان پر حملہ کرکے اس پر اپنی بالادستی قائم کرلی، میر حمل اور اس کے جاں فروش اگر اپنی ہمت وبہادری سے اولین یورپی نو آباد کاروں کی راه میں حائل نہ ہوتے تو بلوچستان پر غیر ملکی تسلط تین سو برس پہلے ہی قائم ہوچکا ہوتا.
اس حقیقت نے میر حمل کو بلوچستان اور اس خطے میں ایک  ناقابل فراموش کردار کی حیثیت بخش دی ہے.
(حبیب مینگل: از بلوچستان شخصیات کی آئینے میں. بلوچستان ترو دی ایجز)

Комментариев нет:

Отправить комментарий