Powered By Blogger

четверг, 27 сентября 2018 г.

مکران و بولان میں اسلحہ چھیننا، کاہان میں حوالگی کیوں؟ – برزکوہی

آگے و پیچھے، ترقی و بربادی، زوال و عروج، اوپر و نیچے، ناکامی و کامیابی، شکست اور فتح کے معنی و مفہوم تشریح اور وضاحت کا معیار اور ان کی پہچان و علامات کا پیمانہ کیا ہے؟ پرکھنے، جاننے، سمجھنے اور محسوس کرنے کا حتمی تجزیہ اور اندازہ کیا ہوتا ہے؟
تحاریک میں نشیب و فراز ایک قدم آگے اور ایک قدم پیچھے، وقتی پسپائی، دشمن کا وقتی حاوی ہونا جنگجووں کا سرنڈر، جنگی سازوسامان دشمن کے ہاتھوں لگ جانا حصہ ہوتا ہے اور تحاریک میں ایسا ہوتا رہتا ہے، ایک حد تک ایک ہی مقام اور سطح تک ہم بھی مانتے ہیں۔ مگر مسلسل اور تسلسل کے ساتھ ایک ہی ڈھنگ میں جاری و ساری ایسے اعمال بحثیت بلوچ جہدکار اور بحثیت لکھاری ہمارے لیئے انتہائی دلخراش تکلیف دہ اور افسوناک عمل ہوکر قومی المیہ ثابت ہورہے ہیں۔
بلوچستان کے علاقے کوہلو اور کاہان انگریز قابض سے لیکر پنجابی قابض تک بلوچ مزاحمت کے حوالے سے مزاحتمی تحریک کا درخشان باب اور علامت تھے گوکہ پرامن سیاسی مزاحمت اور مزاحمتی ادب کے حوالے سے بلوچستان کا علاقہ مکران ایک علامت رہا ہے۔
موجود مزاحمتی تحریک جب شروع ہوا تو مکران سے تعلق رکھنے والے قلم کار اور صحافی جان محمد دشتی بھرے محفلوں میں ہمیشہ طنزیہ طور پر کہتا تھا کہ کوہلو اور کاہان کے لوگ لڑینگے مگر مکران کے لوگ صرف ڈھول پر چاپ و رقص اور ناچ کرتے رہینگے۔
واقعی وہی کوہلو و کاہان جس نے اس وقت اپنے سینے تراتانی اور بمبور میں شہید نواب اکبرخان بگٹی جیسے ریاست کے ہائی پروفائل ٹارگٹ کو پناہ دی، وہ کوہلو کاہان جہاں پورے علاقے کے عام عوام تحریک کے ساتھ ہمدردی اور حمایت اپنی جگہ کم از کم تیس کے قریب تعداد میں ہر کیمیپ الگ الگ 100 سے لیکر 80 تک کی تعداد میں مستقل گوریلا سرمچار ہر وقت مورچہ زن تھے اور وہی مکران جہاں شروع میں صرف ساہیجی، دڑامب اور تلار کے سنگلاخ چٹانوں میں استاد قمبر، ڈاکٹر اللہ نظر، ڈاکٹر خالد اور شہید سدومری اور دیگر چند لوگوں پر مشتمل صرف ایک ہی کیمپ تھا۔ آج اگر ہم موازنہ کریں، وہی کوہلو و کاہان جہاں کتنے کیمپ موجود ہیں؟ کتنی تعداد میں گوریلا سرمچار ہیں؟ اور وہ بھی کس حالت میں ہیں؟ باقی مستند زرائع کے علاوہ آج وہاں مزاحمت کی رفتار خود سب کچھ بتا رہا ہے، حالیہ پاکستانی الیکشن سڑکوں کی تعمیر و ترقی، بلوچ زیر ذمین قدرتی وسائل کے تلاش کاکام و سروے، سرنڈروں کا سلسلہ اور خاص کر جنگی سازوسامان کو دشمن کی رضاکارانہ طور پر حوالگی یعنی دشمن کو خود حوالہ کرنا، نہ کہ دشمن کے کامیاب آپریشن اور چھاپہ، جو صرف ریاستی دعویٰ اور پروپگنڈہ اپنی کامیابی کو دکھانا ہوتا ہے۔
دوسری طرف مکران میں مزاحمت آج ساہیجی سے نکل کر ہر طرف اور ہرجگہ مکران کے کونے کونے میں مزاحمتی تحریک کی شکل میں پھیل کر مزید وسعت اور شدت اختیار کرتا ہوا، دشمن پر مسلسل حملے اور ان سے ہتھیار چھیننے کے ایک جدت کا رواج بنتا جارہا ہے اور ساہیجی کے چٹانوں کے ساتھ درہ بولان بھی شانہ بشانہ ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم آج محدود سوچ کے مالک ہوکر سینہ تان کر خوشی اور فخر سے بغلیں بجانا شروع کریں، پھر ہم میں اور ان میں سوچ کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ہوگا، ہمیں تکلیف ہونا چاہیئے اور احسا س ہونا چاہیئے اور سنجیدگی کے ساتھ غورو فکر کرنا چاہیئے کیونکہ کوہلو و کاہان اور مری قبیلہ ہماری مزاحتمی تحریک کا مضبوط محاظ اور مضبوط بازو تھا اپنے مضبوط بازو کے ٹوٹنے سے کوئی احمق اور بے وقوف ہی کو احساس اور تکلیف نہیں ہوگا۔
مگر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا مکران کے عوام مزاحمتی تحریک سے بدظن ہوگئے یا کوہلو و کاہان کے عوام؟ اگر مکران کے عوام کی بات کی جائے تو پھر مکران میں مزاحمتی تحریک کی شدت اور وسعت کس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے؟ پھر کوہلوو کاہان میں انگریز کے دور سے مزاحمت جاری تھی آج کیوں اس نہج پر پہنچ گیا؟ اگر کوہلو و کاہان میں ریاست کی جبرو بربریت، سازش، دھونس و دھمکی، لالچ و دہشت اور سرنڈر والی ڈرامہ بازیاں وغیرہ ہوئے، تو کیا مکران سے لیکر بولان اور دیگر علاقوں تک ریاست کے ان تمام حربوں کو بروئےکار نہیں لایا گیا؟
پھر بھی وہاں مزاحمت کیوں تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے؟ پھر جواب واضح ہے کہ مخصوص ایجنڈے کے تحت مزاحمتی جنگ کی گلے کو یوبی اے اور بی ایل اے کی آپسی جنگ کے ذریعے دبانا، تاکہ مزاحمت اور مزاحمتی سوچ کی ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بیخ کنی ہو، سڑکوں کی تعمیرات اور قدرتی وسائل کی تلاش اور ان کو نکالنے، لیجانے کا مقصد آج بھی واضح ہے اور آگے چل کر مزید واضح ہوگی۔ اور جنگی سازوسامان کو رضامندی سے حوالے کرنا تاکہ کچھ اور سورمائیں اٹھ کر رکاوٹ نہ بن جائیں۔ اور باقی خود ساختہ ہائی کمان والے ڈرامے، سازشیں، حربے، سوشل میڈیا میں الزام تراشیاں، کیچڑ اچھالنے اور منفی پروپگنڈے بھی اسی تسلسل اور ذنجیر سے منسلک کڑیاں ہیں۔
کیا مکران سمیت پورے بلوچستان کے دیگر علاقوں کے نسبت کوہستان مری میں شروع سے لیکر آج ہی کے دن تک کا سب سے بڑا اسلحے کا ذخیرہ موجود نہیں تھا؟ باقی جگہوں میں شروع سے لیکر آج تک اور اس وقت تک بھی جنگی سازوسان کوہستان مری کے نسبت آٹے میں نمک کی برابر ہے۔
مجھے یاد ہے 2007 میں جب کوئٹہ، خضدار، حب چوکی میں شہری جنگ نے شدت اختیار کیا، تو اس وقت دوستوں کے پاس وسائل کی کیا پوزیشن تھی اور مکران میں کیا تھی؟ آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا پڑ رہا ہے کہ کوہستان مری میں اتنے جنگی سازوسان کا ذخیرہ اس وقت موجود ہوتے ہوئے کیوں دوستوں کے حوالہ نہیں کیا گیا؟ باقی جگہوں کو چھوڑ کر خضدار اور کوئٹہ میں 2010 میں باقی سازوسان کی ختم ہونا یا شروع سے نہ ہونا اپنی جگہ جب وہاں کلاشن کوف کے تیر ختم ہوگئے تو دوستوں سے یہی جواب موصول ہوتا کہ انتظار کریں، فی الحال کچھ نہیں اور آج سینکڑوں صندوقیں تیراور باقی سازوسامان دشمن کے حوالے ہورہے ہیں کیوں؟
اگر جنگ اور کاروائی کی بنیاد پر جنگی سازوسان کا تقسیم ہونا اور تقسیم کا معیار تھا؟ تو اس وقت جنگ اور کاروائی زیادہ مقدار میں کہاں کہاں پر ہورہے تھے؟ وہ خود روذ روشن کی طرح عیاں ہیں، پوری دنیا کی نظروں میں پھر بھی اس وقت قومی سازو سامان کو غاروں میں چھپانے کی اصل وجوہات کیا تھے؟
اہم اور بنیادی سوال یہاں سے شروع ہوتا ہے؟ دوسروں کو اس اہل اور قابل بھروسہ نہیں سمجھنا؟ تو بھروسے کا معیار اور پیمانہ اس وقت کیا تھا؟ اس وقت وہ معیار کیوں نہیں بتایا گیا؟ پھر آج جن پھر بھروسہ کرکے سب کچھ ان کے حوالہ کیا گیا تھا ان کے بھروسے کا کیا ہوا؟ یہی تھا وہ معیار یعنی جب چاہے ہدایت اور احکامات کی روشنی میں سازوسامان کو رضامندی سے دشمن کے حوالے کرنا؟ پھر بلکل اس معیار پر پورا اترنا مشکل تھا یا پھر سیدھی سادھی سی بات ہے، اس میں توڑمروڑ کی کوئی ضرورت نہیں آج میں بلاجھجک کہتا ہوں کہ شروع میں ارادہ و نیت اور سوچ قومی آزادی، قومی بقاء اور تشخص کی جنگ نہیں بلکہ جنگ ذرگری کا تھا، بطور پریشر گروپ اور جنگی منافع خوری، گوکہ یہ اور بات کہ بعد میں اور آج قومی جنگ ایک قومی و نظریاتی جنگ کی شکل اختیار کر چکا۔ اگر اس وقت قومی آزادی اور قوم کا قومی جنگ ہوتا اور قومی لیڈر موجود ہوتے، تو کم از کم سب کچھ لانگ ٹرم پالیسی کے تحت ہوکر آج یہ صورتحال دیکھنے کو نہیں ملتا۔
بس صرف خارجی مفادات کی حصول، دشمن کو بلیک ملینگ، اپنی سیاسی و سماجی ساکھ کی بڑھوتری اور جنگی منافع خوری پھر اپنے ذات سے لیکر خاندانوں کی ذاتی زندگیوں کو جنگل میں منگل کرنے کا واضح سوچ اور ارادوں کی عکاسی کرتا ہے۔
کم از کم مجھے آج تک تاریخ میں ایسی سطحی قسم کے محدود اور مخصوص سوچ اور پلان کے تحت کوئی لیڈر اور تحریک نظر نہیں آتا ہے، اگر میں اپنی آنکھوں، کانوں اور دماغ سے مصلحت پسندی کی سیاہ پٹیوں کو اتار کر تاریخ کا مطالعہ کروں۔ پھر میں کونسا بد بخت ہوں، کس سوچ و اپروچ فکر اور نظریئے کے تحت اندھےپن اور پاگل پن کا شکار ہوکر مبالغہ آرائیوں قیاس آرائیوں، خوش کن اور خوش گپیوں کی صحرا میں بٹھک کر کسی کو امام، پیغمبر، کرشماتی، کراماتی، وژنری، قومی لیڈر اور قومی ہیرو سمجھ کر خود کو دھوکا دوں اور باقی نوجوانوں کو دھوکا دوں اور خود بھی کسی کے ذاتی اور خاندانی مفادات کے لیے بطور ایندھن استعمال ہوجاوں اور دوسروں کو بھی بطور ایندھن استعمال کروں۔ شاید ایک وقت تک ایسا ہوا اور یہ قومی گناہ شاید تاریخ میں معاف نہیں ہو بلکہ تاریخ سے معافی کے لیئے بڑی قیمت چکانا پڑے، اس کے باوجود بھی خود کو خود استعمال کروانا، باقی نوجوانوں کو استعمال کرنا، پورے ایک نسل اور بے شمار خاندانوں کو درپدر کرنا،اب ہوش سنھبالنا، حقیقت کو جاننا اس کے باوجود مورخوں کی بے رحم قلم کا ادراک کرکے بڑی قیمت ادا کرنے کے باوجود شاید مورخ اور ضمیر سے معافی کی گنجائش ہی نہ ہو۔ اگر قبر نصیب ہوا بھی قبر پر پھولوں کی ہار نہیں جوتوں کی بھرمار ہوگی، اس کے باوجود آج اپنے شعور و علم اور ادراک کے تناظر میں اپنے قلم کی نوک سے تمام بلوچ نوجوانوں کے کانوں کو بار بار آواز دوں گا کہ خدارا آپ لوگ ہمارے تجربات اور اندھیرے میں اندھادھند دوڑ دھوپ والی، دور ماضی سے سبق و عبرت حاصل کرکے مزید استعمال ہونے سے بچیں بلکہ بلوچ قومی آزادی کی قومی، شعوری اور نظریاتی جنگ کا حصہ ہوکر اپنا تاریخی کردار نبھائیں۔
آخر میں میں بی ایل اے کے مخلص و نظریاتی دوستوں سمیت یوبی اے کے دوستوں سے عرض کرتا ہوں، وہ جلد از جلد مشترکہ طور پر مزاحمت کے علامت کوہستان مری کے محاذ کی خاطر ایک مضبوط منصوبہ و حکمت عملی مرتب کرکے عملی طور پر سرگرم ہوکر سڑکوں کی مزید تعمیر کی روک تھام، بلوچ قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور جنگی سازوسان کی حفاظت کے لیئے کوشش کریں، ورنہ تاریخ کے صفحوں میں سب کے سب تماشائی شمار ہونگے۔

среда, 26 сентября 2018 г.

کرشماتی گدھ – سگار سے ریحان تک – قاضی بلوچ

جوانسال، بہادر، نڈر اور مادر سرزمین کے محبت سے سرشار شہید ریحان جان نے وہ عظیم عمل کر دکھایا جس نے دشمنوں کے دل دہلادیئے اور دنیا کو معلوم ہوا کہ بلوچ اپنی مادر سرزمین کے حفاظت اور دفاع کیلئے دنیا کی ہر بڑی طاقت سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس بات کو شہید ریحان جان کی عظیم قربانی نے سچ ثابت کردیا۔ بلوچ قوم کو اس عمل پر فخر ہونا چاہیئے کہ اب بھی بلوچ قوم میں شہید ریحان جان اور شہید درویش جیسے بہادر اور نڈر سپوت موجود ہیں، استاد اسلم جیسے با صلاحیت، بہادر اور مخلص رہنما موجود ہیں، جو اپنے دشمن کا جگر چیرنے کیلئے اپنے جگر کے ٹکڑے کو بارود بناکر انکے بیچ روانہ کردیتا ہے۔ ماں یاسمین جیسی نڈر اور حوصلے والی مائیں موجود ہیں، جو اپنے جسم کے ٹکڑے کو ھالو ھلو کرکے مسکراتے ہوئے اس کی پیشانی چوم کر اسے مادر سرزمین کیلئے قربان ہونے کی خاطر بھیج دیتی ہیں، ایسا حوصلہ ایسا ضبط اور ایسی بہادری آج تک نہ دیکھی گئی ہے، نہ سنی گئی ہے، جو ہمیں استاد اسلم، ماں یاسمین اور ریحان جان کی عظیم قربانی نے دکھائی ہے۔
اس عمل کے بعد ہم نے دیکھا چند لوگوں نے سوشل میڈیا یا دیگر مختلف پروگراموں اور فورمز پر اس عظیم عمل کے خلاف بولنا اور لکھنا شروع کیا اور یہ وہ لوگ ہیں، جو حیربیار مری کے قریبی ساتھی اور اس کے گن گانے والے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے لندن میں چینی ایمبیسی کے باہر جب حیربیار مری بلوچستان کا بیرک اپنے ہاتھوں میں اٹھایا، تو انہوں نے حیر بیار کو ایک ایسا ہیرو، کرشماتی، آفاقی لیڈر بناکر پیش کیا تھا کہ جیسے اس نے بلوچستان آزاد کرالیا ہو اور اس سے زیادہ بہادر اور لائق بلوچوں میں اور کوئی وجود نہیں رکھتا ہے۔ لیکن شہید ریحان جان کے عظیم عمل کے بعد جسطرح لندن ہائی کمان کے ترجمان آزاد بلوچ نے اس عمل سے لاتعلقی کا اعلان کیا، اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حیر بیار مری کو بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین سے کوئی غرض نہیں، اسکا اپنا ایک مائینڈ سیٹ ہے۔ وہ بلوچستان، بلوچ سرزمین اور بلوچ قوم کے نام پر کاروبار کررہا ہے، اگر ہم ماضی کو کچھ باریک بینی سے دیکھیں تو بلوچ آزادی کی تحریک کو جتنا نقصان حیر بیار مری نے دیا ہے کسی اور نے نہیں اس کی شروعات اس وقت ہوئی تھی جب بلوچستان کے ایک مسلح تنظیم بلوچ لبریشن یونائٹیڈ فرنٹ نے اقوام متحدہ کے ایک اہلکار جان سولیکی کو اغوا کیا تھا۔
اس مسلح تنظیم کا مقصد یہ تھا کہ ہم جان سولیکی (جو اقوام متحدہ کے ایک اہلکار تھے) کو اغوا کرکے اس کے ذریعے بلوچستان میں پاکستان آرمی جو ظلم کررہی ہے اور بلوچ آزادی کی تحریک کو دنیا کے سامنے لائینگے، بلوچ لبریشن یونائٹیڈ فرنٹ کے سربراہ شہید ایڈووکیٹ امیر بخش لانگو سگار بلوچ تھے۔ انہوں نے یہ کام ایک پلانگ اور منظم طریقے سے سرانجام دیا تھا اور اسکے آگے کا لائحہ عمل بھی بنایا تھا، انکا طریقہ کار یہ تھا کہ جب یہ کام کامیاب ہوجائےگا تو ہم خود اقوام متحدہ کے نمائندوں سے بات کرینگے اور انکے سامنے اپنے مطالبات رکھیں گے۔ جب انہوں نے جان سولیکی کو اغوا کرلیا تو حیربیار مری نے یہ تجویز سامنے رکھی کہ ہم ایک کمیٹی بنائینگے اور اس کمیٹی کا سربراہ میں(حیربیار) ہونگا اور پاکستان میں بلوچ نیشنل فرنٹ اس کمیٹی کا حصہ ہوگا۔
حیربیار کی اس تجویز کی شہید سگار نے مخالفت کی اور کہا تھا کے اس طرح نہ تو ہماری بات مانی جائیگی اور دوسری جانب ہمارے سرفیس کی سیاست کرنے والے رہنماؤں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ جائینگی اور آپ جو B N F کو اس کمیٹی کا حصہ بنا رہے ہو، اس سے آنے والے وقت میں B N F میں شامل سب تنظیموں پر ایک وبال آئیگا، انہیں مسلح تنظیموں سے جوڑا جائیگا اور انکے لیئے سرفیس سیاست کرنا مشکل ہوجائیگا لیکن حیر بیار نہیں مانے تو شہید سگار خود کراچی آگئے اور اس نے شہید حاجی (اصل نام معلوم نہیں سب دوست انہیں حاجی کے نام سے جانتے تھے) جو مرحوم نواب خیر بخش مری کے قریبی لوگوں میں سے تھے ان سے 3 مرتبہ ملاقات کی اور نواب خیر بخش مری کو پیغام بجھوایا کہ جو حیر بیار کر رہا ہے، وہ بلوچ تحریک اور تحریک سے منسلک بہت سارے لوگوں کےلئے نقصاندہ ہے لیکن نواب صاحب بھی شاید حیربیار کو سمجھا نہیں سکے۔ اسکا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس واقعے کے بعد نواب خیر بخش مری اور حیر بیار مری کے درمیان ایک تضاد پیدا ہوا تھا اور پھر مرحوم نواب صاحب کے جو خاص لوگ تھے انہوں نے حیر بیار سے اپنا راستہ الگ کرکے یونائیٹڈ بلوچ آرمی U B A کی بنیاد رکھی۔ جسے نواب صاحب کی بھرپور حمایت اور تائید حاصل تھی۔ جب شہید سگار مایوس ہو گئے تو انہوں نے شہید واجہ غلام محمد کے ایک قریبی ساتھی جو شہید سگار کا بھی دوست تھا، اس سے کہا کہ آپ شہید واجہ کو منع کردیں کے وہ جان سولیکی والے کمیٹی کا حصہ نہ بنیں اور B N F کو بھی اس کمیٹی سے دور رکھیں۔
شہید امیر بخش نے شہید واجہ غلام محمد کے ساتھی سے یہ بھی کہا کہ اس سے غلام محمد کی زندگی کو خطرہ ہوسکتاہے، پاکستان جان بوجھ کر شہید غلام محمد اور دیگر کمیٹی کے ممبران اور سیاسی لیڈران کو نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کرےگا تاکہ بدلے میں جذبات میں ہم جان سولیکی کو مار دیں اور اس سے پاکستان کو بلوچ آزادی کی تحریک کو دنیا کے سامنے دہشت گرد تحریک کے طور پر متعارف کرانے کا جواز فراہم ہوجائے گا۔ اس دوست نے شہید سگار سے کہا میں آپکا پیغام تو واجہ غلام محمد تک پہنچا دونگا لیکن انہیں منع کس طرح کرپاونگا؟ تو شہید سگار نے کہا میں ان کو فون نہیں کرسکتا ہوں (کیونکہ اس وقت فون کے علاوہ اور کوئی ذرائع نہیں تھا) اور اب نہ وہ اور نہ میں اس حالت میں ہیں کہ کہیں مل سکیں، آپ میرا یہ پیغام ان تک ضرور پہنچا دینا۔ اس دوست نے شہید واجہ غلام محمد کو تربت جانے سے دو دن قبل شہید سگار کا پیغام دیا تھا، دو دن بعد یعنی تین اپریل دو ہزار نو کو شہید واجہ غلام محمد پیشی کے سلسلے میں تربت گئے ہوئے تھے، جہاں ایڈوکیٹ کچکول علی کے دفتر سے پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے شہید واجہ غلام محمد، شہید واجہ لالہ منیر اور شہید واجہ شیر محمد کو دن دہاڑے اٹھاکر غائب کردیاتھا اور کچھ دن بعد نو اپریل کو انکی مسخ شدہ لاشیں مرگاپ کے مقام پر پھینک دیا تھا۔
دوسری جانب بلوچ لبریشن یونائٹیڈ فرنٹ نے جان سولیکی کو چار اپریل کو ہی رہا کردیا تھا۔ شہید سگار کے تمام خدشات درست ثابت ہوئے کہ حیر بیار غلام محمد اور دوستوں کو مروائیگا اسکے بعد شہید سگار بھی بہت دلبرداشتہ ہوئے، شہید سگار اور انکے دوست جان گئے تھے کہ حیر بیار مری بلوچ آزادی کی تحریک کو اپنی مرضی، منشاء اور اپنی خواہشات کے مطابق چلانا چاہتے ہیں اسکی نظروں میں اداروں اور اصولوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ حیر بیار مری کے وہ لوگ جو شہید سگار کی اس تصویر کو جس میں وہ حیر بیار مری کے ساتھ کھڑے ہیں اسے سوشل میڈیا میں دیتے رہتے ہیں، انہوں نے کبھی حیر بیار کے ماضی اور حال کے کردار کا جائزہ لیا ہے؟ کبھی حیربیار سے پوچھا کے کیوں BNF کو ایک مسلح تنظیم کے انتہائی حساس معاملے میں فریق بنایاگیا؟ کبھی شہدائے مرگاپ کی شہادت اور اس واقعے میں کردار ادا کرنے والے لاپتہ افراد کے بابت سوال کرنے کی جسارت کی ہے؟
جو شخص خود کو بلوچ قوم کا تن تہنا لیڈر سمجھتا ہو، ان کے اعمال یہ ہوں کے انکے درباری شہید ریحان جان کی عظیم قربانیوں اور استاد اسلم کے خلوص اور جذبے اور ماں یاسمین کے بےباکی اور دلیری کا مذاق اڑاتے ہیں اور واجہ ہائی کمان اس پر خوش ہوتے ہوں، نام نہاد لندنی ترجمان آزاد بلوچ کے بیانات اور انکے ساتھیوں کے حرکات پاکستان اور چین کو خوش کرنے کےلیئے شہید ریحان جان کی قربانی سے لاتعلقی کا اعلان ایک بہت ہی سنجیدہ اور حل طلب مسئلے کو جنم دےچکی ہے۔ بلوچ قوم کو اب مزید دھوکہ دہی یا اندھیرے میں نہیں رکھا جاسکتا، شہید ریحان کے کردار کو داغ دار کرنے کی ناکام کوشش کرنے والا ہائی کمان، حیربیار مری اور اس کے مریدوں کو یقیناً قومی عدالت میں پیش ہونا پڑیگا۔

четверг, 20 сентября 2018 г.

صورت خان مری کی رائے کے روشنی میں – برزکوہی

کل کسی دوست نے واجہ صورت خان مری کا کوئی حالیہ صوتی انٹرویو وٹساپ پر بھیجا تو سننے کاموقع ملا، کیونکہ صورت خان مری کو میں روزاول سے بلا ناغہ سنتا اور پڑھتارہا ہوں اور اس سے سیکھتا ہوں، تو حسب روایت انٹرویو بھی سنا۔ سننے کے بعد مجھے یہ تعجب ہوا کہ اس حالت میں ایک تو واجہ صورت خان مری عمر کی لحاظ سے بہت ضعیف اور بیمار ہیں، پھر بھی غنیمت اگر کسی کو بھی ایسا موقع مل جاتا ہے کہ ان سے بات کرے، تو کم از کم بلوچ قوم، دنیا عالم کیلئے اور کم از کم خود کیلئے کچھ سیکھنے اور آگاہ ہونے کا ماحول بنانا چاہیئے۔ اور واجہ صورت خان سے علمی و تجرباتی استفادہ حاصل کرنے کے خاطر مجموعی اور قومی مقصد اور فکری و نظریاتی بنیادوں پر کچھ حاصل کرنے کی کوشش ہونا چاہیئے تھا، تو قابل داد عمل ہوتا۔ بجائے سب کو نیچا دکھانے، خود کو آسمان پر چڑھانے کی ناکام کوشش کرنے کے۔
مگر افسوس بدقسمتی سے یہ انٹرویو کم بلکہ صورت خان مری صاحب کو بطو وکیل صفائی یا آخری سہارا بنانے کی ایک ناکام کوشش نظر آئی، انٹرویو کو ایک موقع سمجھ کر کسی محترم بلوچ بہن کو چند ذاتی خواہشات، ذاتی مقاصد اور ذاتی ایجنڈے کے تحت چند مخصوص سطحی فیسبکی سوالات تھما کر، اس سوچ کے ساتھ روانہ کرنا کہ واجہ صورت خان صاحب بھی سوشل میڈیا کے چند نابالغ اور غیر سنجیدہ ایکٹیوسٹوں کی طرح تمام تنظیموں کے قائدین اور جہدکاروں کو غلط اور مسترد کرکے یہ کہہ دیں گے کہ بس بلوچ واحد قوم ہے، واحد تحریک ہے، اور فلانہ واحد اصول پرست کرشماتی و کراماتی اس کا لیڈر ہے اور باقی سب کے سب حقیر، فقیر، نتو خیرو ہیں اور کوئی کچھ نہیں، باقی سب کے سب ناکارہ پرزے ہیں۔ لیکن واجہ صورت خان مری نے انکے ذاتی فرمائش، خواہش، توقعات اور فرمودات کے برعکس 5 سالہ سوشل میڈیا اور اخبارات میں شروع کئے گئے اسی قسم کے منفی پروپگنڈوں، الزام تراشیوں، گالی گلوچ کو عامیانہ قسم کی آراء یا پروپگنڈہ قرار دیکر مسترد کر دیا۔ ان کونا قبول کیا اور نا ان کی تائید و تعریف کی، یہ نہیں کہا جنہوں نے یہ عمل شروع کیا، انہوں نے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے بلکہ اسے انارکی اور انتشار قرار دیکر لوگوں اور خاص کر سمجھنے والوں کی توجہ اصل اور بنیادوں حقائق کی طرف متوجہ کیا۔ یہ انٹرویو تو انٹرویو کرنے والوں کے توقعات کے اتنے برخلاف تھا اگر بس چلتا تو وہ اسے شائع نہیں کرتے لیکن واجہ صورت خان کی عادت ہے کہ وہ مختلف جگہوں سے دریافت کرتے رہتے ہیں کہ شائع ہوئی یا نہیں اگر ہوئی تو توڑی یا مروڑی نہیں گئی، سو مجبوراً شائع کی گئی۔
واجہ نے جوابات میں جواب کم دیا بلکہ خود سوال اٹھایا، اب سوال سے سوال پیدا ہونا اور پھر سوال سے پیدا ہونے والے سوال کو لیکر سوال کرکے کسی دانشور سے جواب حاصل کرنا اور قارئین کی تشنگی ختم کرنا اور علم و شعور سے مستفید کرنا کسی بھی صحافی کا معیار و صحافتی اصول اور ہنرمندی ہوتا ہے، لیکن یہاں معاملہ ایسا نہیں تھا، ایک تو محترمہ صحافی نہیں ہوگی، دوسری بات اگر صحافی ہو بھی اسے سوالات روانہ کرکے ہدایت اور خبردار کیا گیا تھا کہ بس یہ چند سوالات کے علاوہ زیادہ صحافی بننے کی کوشش نہیں کرنا، بس صرف جواب میں کچھ تعریفی صفت و ثناء والی کلمات اور باقی سب کو غلط قرار دینے والی کچھ اچھے قسم کے باتیں واپس لانا اور مقصد کچھ نہیں، بس اپنے مرضی کے جواب لینا مقصود تھا۔
تو کیا یہ عمل خود صحافت اور صحافتی اصولوں اور انٹریو کے زمرے میں شمار ہوتا ہے؟ میرے نزدیک واجہ سے جس مقصد کے تحت اپنے حق میں کچھ کہنے کی توقع رکھا گیا، وہ ایک غلط اندازہ اور تجزیہ تھا اور پھر واجہ کی باتوں کو شائع کرنا جس توقع کے ساتھ ہوا، وہ بھی ایک غلط اندازہ اور تجزیہ تھا، ہم نے بارہا کہا ہے کہ لمحہ بہ لمحہ شروع سے لیکر آج تک غلط اندازوں اور سطحی تجزیوں کی وجہ سے ہی حالات اس نہج پر پہنچ گئے، ہمیشہ ہر قدم، آراء اور فیصلے سے قبل اگر اس کے بارے میں اندازہ، تجزیہ، سطحی اور سرسری ہو تو اس کے نتائج بھی غلط اور صحیح نشانے پر نہیں ہونگے فی الحال تو معامالہ ایسا چلتا آرہا ہے۔
اسی تناظر میں دیکھا جائے تو واجہ کی پوری انٹریو خود بیساکھی یا سہارا بننے کے بجائے معذور پیروں پر ایک اور کلہاڑی اور کم عقل دماغ پر ایک اور ہتھوڑا مارنے کے مترادف ثابت ہوا۔
2010 سے لیکر آج تک آپ اخبارات، سوشل میڈیا، محفلوں اور مجلسوں کے ذریعے حتیٰ کہ میدان جنگ میں بھی انتہائی ترند و تیز انداذ میں صبح و شام اپنی تمام ترانرجی خرچ کرکے حربہ، سازش، الزام و دشنام، گالی گلوچ، اغواء و قتل وغیرہ وغیرہ کی انتہاء پر پہنچ کر یہ ثابت اور وضاحت نہ کرسکے کہ بی ایل اے اور یوبی اے کے اختلافات، جنگ، یوبی اے کے بننے اور اس سے آپسی جنگ کے اصل حقائق اور وجوہات پس پردہ کیا تھے؟ یہ سوال اب میں نہیں اٹھا رہا ہوں بلکہ بلوچ دانشور واجہ صورت خان مری اٹھا رہا ہے اور آپ خود اس سوال کو شائع کرکے ہمارے بھی اسی رونے اور موقف کی تصدیق کررہے ہو۔ ہم نے بارہا کہا، رویا کہ چند سطحی، مخصوص، فیسبکی، غیرسنجیدہ لوگ اور مخصوص و محدود سرکل آپ کی اقدامات اور باتوں پر ضرور واہ واہ کرتے ہوئے وقتی طور پر مطمئین ہونگے، ان کا شعور و علم اور سوچ اور اپروچ کی سطح یہی ہے لیکن جو دانشور ہے، جو تاریخ دان ہے، جو اعلیٰ شعور و علم کے مالک محققین ہیں، وہ ایسے ویسے بے بنیاد غیر منطقی سطحی باتوں سے مطمین نہیں ہونگے۔ جس کی واضح مثال آپ نے خود پیش کیا، صورت خان مری کی شکل میں کہ وہ جواب اور وضاحت طلب کررہا ہے، وہ مطمین نہیں ہے۔ صورت خان مری ایک بلوچ دانشور ہے، بلوچ قوم سے ہے، آج بھی بلوچ سرزمین پر بیٹھا ہوا ہے، 60 کی دہائی سے سب کچھ دیکھ رہا ہے، محسوس کررہا ہے، مطالعہ کررہا ہے، وہ فین، سارتر، ایڈور سعید، گرامچی اور جان ریڈ وغیرہ نہیں ہم اسے اس پربات نظر انداز کریں کہ ان کے زمینی حقائق اور حالات اور تھے، ہمارے حالات اور ہیں وہ وقت اور تھا آج اور مختلف ہے، یہ جی صورت خان مری ہے، جو آپکا دانشور اور آپکے زمینی حقائق سے مکمل واقف ہے، وہ بھی جواب اور وضاحت کا طلبگار ہے؟ کہ یوبی اے اور بی ایل اے کی تقسیم، اختلاف اور آپسی جنگ کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟
کیا اس وقت بلوچ قوم میں صورت خان مری کے علاوہ ایسا کوئی بھی دانشور ہے، جو کسی بھی پارٹی یا شخصیت کی وفاداری کے بجائے، ایسا غیرجانبدار آزادی پسند اور بلاخوف و لالچ کوئی اور اعلیٰ قسم کے علم و تجربہ رکھنے والا ہو ؟ اگر جواب نہیں میں ہے؟ تو پھر کیا صورت خان مری کا موقف، ادراک اور سوچ غلط ہوسکتا ہے؟ اگر غلط ہے تو اس کو غلط ثابت کرنے کے لیئے کوئی ٹھوس علمی دلیل اور منطق موجود ہے؟
کیا صورت خان مری تنظیم، تحریک، ڈسپلن، احتساب، تنقید، ادارہ، ہائی کمان وغیرہ وغیرہ سے علمی حوالے سے اس طرح نابلد اور نا واقف ہے؟ کہ صورت خان مری کو ایسی چیزوں اور خالی خولی باتوں پر قائل اور متاثر کرکے اس سے حمایت حاصل کیا جاسکتا ہے؟
کیا صورت خان مری ماہانہ خرچہ، موبائل فون، لیپ ٹاپ (بڑھائی)روٹی کپڑا مکان، کرایہ، گاڑی کی خاطر اپنا ضمیر اور علم کو بیچ کر درباری اور چاپلوس بن کر خوف اور لالچ میں کچھ کہے گا یا لکھے گا؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں کیونکہ جہاں علم و شعور ادراک اور ذہانت دستیاب ہو، وہاں پھر چاپلوس، وفادار اور درباری بننا اور خوف اور لالچ میں مبتلا ہونا ممکن نہیں ہوگا۔
میرے نزدیک اگر کوئی سمجھنے والا اپنی آنکھیں، کان اور دماغ کے دریچوں کو کھول کر سمجھ لے تو صورت خان مری کے حالیہ انٹریو میں وہ سب چیزیں واضح انداز میں لفظ بہ لفظ اظہار پاچکے ہیں اور کم از کم ہمارے موقف اور خیالات کی تصدیق ہوچکا ہے۔
میں نے باربار اپنے تحریوں میں ذکر کیا ہے کہ محدود اور مخصوص سرکلوں اور ٹولوں سے نکل کر ہمیں سوچنا چاہیئے، ہوا نہ وہی بات؟ اپنے مخصوص و محدود سرکلوں اور خوشامدیوں کے زیر سایے آپ تو امیرالمومنین بن گئے تھے لیکن دانشور حضرات ابھی بھی جواب اور وضاحت چاہتے ہیں کہ بی ایل اے اور یوبی اے کی تقسیم کی اصل وجوہات اور حقائق کیا تھے؟
یاد رکھا جائے مورخ ایسے ہوتے ہیں، ہم نے بارہا کہا مورخ اندھا اور بہرہ نہیں ہوتا ہے، مورخ درباری اور خوشامد پسند بھی نہیں ہوتا ہے۔
میں آج بھی برا ملا کہتا ہوں کہ موجودہ بلوچ قومی تحریک کی باقی تمام غلطیاں، بلنڈر، کمزوریاں اپنی جگہ لیکن تین چیزوں کو مورخ انتہائی بے رحمی کے ساتھ بلوچ قومی تحریک کے لیئے انتہائی نقصاندہ اور خطرناک اور پاکستان کے لیے انتہائی فائدہ مند قرار دیگا نمبر 1۔ یوبی اے اور مری بلوچوں کے خلاف بی ایل اے کے طاقت کا استعمال نمبر 2۔بی ایل اے کے گمنام غیرمتحرک آزاد نامی ترجمان کے نام سے بی ایل اے کے رہنماء اسلم بلوچ کی انڈیا موجودگی یعنی تحریک کو انڈیا اور دوسرے مذہیبی شدت پسندوں سے جوڑنا 3۔بی ایل اے کے جانثار مجیدبرگیڈ فدائی ریحان بلوچ کی چینی انجنیئروں پر فدائی حملے کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کا نام دینا۔ یہ ایسے تاریخی بلنڈر ہیں کہ ان کے منفی اثرات آج بھی تحریک پر پڑ رہے ہیں اور مستقبل میں انتہائی بھیانک انداز میں پڑینگے۔ جس طرح صورت خان مری سوالات کے بوچھاڑ میں حقائق کو واضح کرتا ہے، کل مورخ ضرور لکھے گا، اسی طرح کہ یہ تمام فردی فیصلے اور بلنڈر ہوتے رہے لیکن درباری خوف اور لالچ کے عوض تماشائی بنے تھے یا پھر سب کی رضامندی شامل تھی، یہ بلنڈر ضرور تاریخ کا حصہ ہیں اور حصہ ہوچکے ہیں۔
ہم نے بارہا کہا! جھوٹ، حربہ، سازش، بلیک میلنگ، منفی پروپگنڈہ، الزام تراشی، گالی گلوچ، تشدد کسی کو نیچا دکھانے سے سوشل میڈیا، چاکنگ، مظاہرے، پوسٹرسازی، پروفائل پکچر، سطحی، تعریفی مضامین، صفت خوانی، سخت ڈسپلن اصولی کرشماتی کرماتی واحد قومی لیڈر کی جملوں کی رٹہ بازی سے بات نہیں بنے گا۔ ضرور کچھ نادان، معصوم، کم علم، کم عقل، جذباتی، بے شعور، غیر سنجیدہ، خود غرض، رافراریت اختیار کرنے والے چاپلوس لوگوں کی آنکھوں میں ایسے چیزیں دھول بن کر وقتی گمراہ ہوسکتے ہیں لیکن مورخ دانشور اور باشعور اور باعلم مخلص بے غرض اور بہادر لوگوں کے لیئے ایسے تمام چیزیں سطحی اور عامیانہ ہونگے۔ خاص کر تنقید اور حقیت پسندی کے نام پر سوشل میڈیا کی گند آلود بحث ہم نے کہا تھا وقت ضائع کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں اور صرف خوش فہمی اور دل بہلانا ہے اور کچھ نہیں۔ آج صورت خان کو سمجھنے سے سب کچھ ملے گا اگر عقل و شعور تھوڑا بھی ہے۔
واجہ کے انٹرویو کے تناظر میں کچھ سوالات، بلوچ طاقت کو بلوچ عوام کے خلاف استعمال اور پھر تحریک سے بلوچ عوام کی حمایت کا ختم ہونا کیا کوہستان مری میں جو مری بزرگ، معصوم بچے، مرد اور خواتین رہائش پذیر تھے وہ بلوچ عوام شمار نہیں ہونگے؟ کیا بی ایل اے کا طاقت ان کے خلاف استعمال نہیں ہوا؟ وہاں بلوچوں کا سرعام اور علی الاعلان قتل عام، مال مویشیوں کا چوری، گھروں اور گدانوں پر حملہ اور انہیں نذر آتش نہیں کیا گیا؟ اور 80 سالہ بلوچ جہدکار نواب خیربخش مری کے قریبی دوست بلوچ گوریلا کمانڈر رحمدل مری کا اغواء نہیں ہوا؟ آج تک معلوم نہیں وہ زندہ ہے یا شہید ہوچکا ہے؟ کیا بی ایل اے بلوچ قومی طاقت نہیں تھا؟ کیا بے گناہ بلوچوں کے خلاف استعمال نہیں ہوا؟ اگر فرض کریں وہ گناہ گار تھے، تو کوئی دلیل کوئی وضاحت؟ آج یہ میں نہیں کہتا واجہ صورت خان مری کہتا ہے میں نے پہلے کہا آپ کی تاریخ ایسے لوگ لکھتے ہیں۔ سوال آپ نے کیا کہ بلوچ قوم کی طاقت بلوچ قوم کے خلاف استعمال سے بلوچ قوم کی حمایت تحریک سے ختم ہوا تو جواب صورت خان مری نے دیا بلکل کوہستان مری انگریز دور سے مزاحمت کا گڑھ اور علامت تھا، وہاں پاکستان اور انگریز دشمن کی طاقت کے باوجود سڑک نہیں بنا سکے لیکن بی ایل اے اور یوبی اے کے آپسی جنگ کے بعد سڑک بھی بن گیا اور ٹریفک بھی زور و شور سے جاری ہے اور کامیاب پاکستانی الیکشن پہلے ممکن نہیں تھا، اس دفعہ کوہستان مری میں جوش و خروش سے الیکشن بھی ہوا، یہ میں نہیں کہتا صورت خان کہہ رہا ہے، صورت خان کو تو ڈاکٹر نظر استاد اسلم اور بشیر زیب استعمال نہیں کررہے ہیں۔
صورت خان مری کہتا ہے کہ سڑکوں کا اجازت تو نہیں ہوا ہے؟ کیا مخصوص ایجنڈے کے تحت یہ آپسی جنگ خود اجازت کی طرف واضح اشارہ نہیں ہے؟ پہلے قومی طاقت کو تقسیم پھر آپسی لڑائی بلوچ عوام میں مایوسی، بدظنی، سرنڈر، قتل عام، مزاحمت کا صفایا، پھر سڑکوں کی تعمیر، الیکشن اور لیویز فورس کے ذریعے قومی مڈی، جنگی سازوسامان دشمن کے حوالے، اس کے بعد آخری مرحلے میں کوہستان مری سے تیل و گیس اور بے پناہ دیگر وسائل کو نکالنا، اس وقت نواب خیربخش مری تھا جو پوری زندگی کوہستان مری میں موجود وسائل کو ہاتھ نہ لگانے دیتے اور بلوچ قوم کا ملکیت، امانت تصور کرتے تھے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواب خیربخش مری کی زند میں نواب صاحب نے یوبی اے بنایا اور بی ایل اے سے علیحدگی اختیار کی تو جب نواب صاحب حیات تھے، تو اس وقت یوبی اے یا مری عوام کے خلاف کیوں بلوچ قومی طاقت یعنی بی ایل اے استعمال نہیں ہوا؟ اور نواب صاحب کے وفات کے فورا بعد نواب صاحب کی قبر کی مٹی خشک نہیں ہوا تھا، وہاں بی ایل اے کے طاقت کا استعمال ہوا؟ کیا کوہستان مری سے مزاحمت کا بیخ کنی سڑکوں کی تعمیر انہی سڑکوں کے ذریعے فوجی نقل و حرکت کے ساتھ قدرتی وسائل کو لےجانے کا منصوبہ بندی اور مخصوص ایجنڈہ نہیں تھا؟ اگر نہیں تو پھر یوبی اے اور بی ایل اے کی آپسی لڑائی کی کیا وضاحت؟ بقول واجہ صورت خان مری کے اس کے بعد بی ایل اے کے مخلص سینئر اور اکثریت دوستوں کی یوبی اے کے ساتھ پہلے ایک سال جنگ بندی اور پھر جنگ کا مکمل خاتمہ اس عمل کو برا مان کر مخلص دوستوں کو دیوار سے لگانے کی ناکام کوشش کیا گیا، کیا یہ عمل خود مخصوص ایجنڈے کی تکمیل نہیں تھا؟
لیکن بی ایل اے اور یوبی اے کی آپسی جنگ کا خاتمہ، خود آج اس بات کی واضح ثبوت ہے کہ بی ایل اے نے آپسی جنگ کو مسترد کرکے پورے آپسی جنگ کا خاتمہ کیا، آج بلوچ قوم کی خوش قسمتی ہے، کوہستان مری میں یوبی اے اور بی ایل اے کے دوست آپس میں شیروشکر ہوگئے اور کوئی واقعہ، کوئی جنگ اور کوئی جھگڑے کی ایک معمولی سی جھلک بھی دیکھائی نہیں دے رہا اس حقیقت سے کوئی انکار کرسکتا ہے؟
اور یہ بات متوقع ہے کہ جلد یوبی اے اور بی ایل اے کے سرمچار کوہستان مری میں مشترکہ طور پر ایک ساتھ ہوکر بلوچ جنگی سازوسان اور قدرتی وساہل کی لوٹ مار اور ریاستی و بیرونی استحصالی حکمت عملی و منصوبہ بندی، عزائم اور ایجنڈے کو خاک میں ملا دینگے۔
دوسری جانب واجہ صورت خان مری جو بار بار ہمیشہ کہتا آرہا کہ بلوچ سیاسی پارٹی، سیاسی قوت کی فقدان ہے، وہ بھی سرزمین پر اسی وجہ سے مسلح گروپس میں انارکی، تقسیم در تقسیم، بے لگامی کی کیفیت ہے تو ایک بار پھر واجہ ہمارے موقف کی تائید کی جب تک سیاسی سوچ، علم و شعورعوام میں نہیں ہوگا، اس وقت تک مسلح جہدوجہد اور تحریک کی کامیابی ممکن نہیں ہوگا۔ صورت خان مری یہ نہیں کہتا کہ مضبوط سفارت کاری، سوشل میڈیا بحث و مباحثے، باہر مظاہرے، جلسہ جلوس کی ضرورت ہے گوکہ یہ کسی حد تک ضرورت ہے لیکن مسلح جنگ کو منظم کرنے اور لگام دینے اور دھڑے بندی سے بچانے کی حصول کے خاطر سیاسی پارٹی کی ضروت ہے، جو ریاست کا نعم البدل ہو، جو گراونڈ میں موجود ہوکر ریاست کی نعم البدل ہوسکتا ہے ہزاروں میل دور ہوکر کیسے کس طرح ریاست کا نعم البدل ہوسکتا ہے؟
میں مزید واجہ کی مستند رائے کی تشریح کرتا چلوں، جب سیاسی پارٹی ہوگا تو خود قوم اور نوجوانوں میں سیاسی شعور و علم ہوگا، جب سیاسی علم شعور ہوگا تو مسلح جدوجہد کنٹرول ہوگا یعنی سیاسی شعور و علم ہی کے مقابلے میں پھر کوئی لاکھ کوشش کرے، مسلح دھڑہ بنا لے بے لگام ہو تو بلوچ عوام کی سیاسی شعور اور علم کے سامنے بےبس حمایت سے محروم اور ناکام ہوگا بلکہ ختم ہوگا۔ اس کو کوئی بھی قبولیت نہیں ملیگا، جب سیاسی شعور نہیں تو ایک درجن اگر مسلح گروپس آزادی کے نام پر بنے ان کا ایجنڈہ جو بھی ہو تو لاشعوری، جذباتی اور غیر سیاسی بنیادوں پر بھیڑ بکریوں کی طرح نوجوان آنکھیں اور کان بند کرکے دوڑتے ہوئے بطور ایندھن استعمال ہونگے، جس طرح آج ہوتے جارہے ہیں اور مسلح گروپس کو سہارا اور ایندھن بن رہے ہے اور کسی کے بھی ذاتی اور خاندانی مفادات کے نگہبان اور محافظ بن رہے ہیں، اس لیئے مخصوص اور ذاتی مفادات کے خاطر بقول واجہ صورت خان کے روذاول سے سیاسی قوت تشکیل نہیں دیا گیا ہے، تو اس کا برائے راست تانے بانے مخصوص مفادات کی حصول اور تکیمل سے ملتے ہیں۔
اب ضرورت اسی امر کی ہے کہ بلوچ عوام میں ہر مکمن حد تک کوشش ہو، علم و شعور اور ذہنی تربیت کو تیزی کا ساتھ پھیلانا تب جاکر قومی مسلح جہدوجہد منظم اور موثر ہوگا۔

суббота, 8 сентября 2018 г.

تنظیم و ڈسپلن کے دعویدار، خود نابلد – برزکوہی

چلیں! لمحہ بھر کیلئے ہم ان تمام انشاء پردازیوں، دشنام طرازیوں، الزامات در الزمات اور حقائق و فسانے کے غیر متفرق گنجلک دلدل سے ہاتھ پیر مار کر نکلتے ہوئے بالا تر ہوکر، خالصتاً بطورِ ایک غیر جانبدار بلوچ ، بلوچ لکھاری اور تحریک کے ہمدرد کے حیثیت سے ناپ تول کرکے دیکھتے ہیں کہ کون موسیٰ کون فرعون، کون صحیح کون غلط، کون ملامت کون سلامت۔
ایک توقف کیلئے بیانیوں کو مان کر دیکھتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ بی ایل اے کے سینئر کمانڈر استاد اسلم بلوچ گذشتہ سال ہائی کمان، ڈسپلن اور اداروں کو بائی پاس کرتے ہوئے بغیر اجازت علاج کے غرض کیلئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں پھر ردعمل میں بی ایل اے کے ایک ترجمان آزاد بلوچ اخباری بیان میں یہ بات آشکار کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ حقائق قوم کے سامنے لارہا ہوں پھر فوراً بی ایل اے کے دوسرے متحرک ترجمان جیئند بلوچ اس بیان کی تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیے دیتا ہے اور سارے الزامات مسترد کرتا ہے۔
سلسلہ چلتا ہے اور کچھ وقت بعد بی ایل ایف کے ترجمان گہرام بلوچ کا بیان نظروں سے گذرتا ہے جس میں وہ اعلان کرتا ہے کہ بی ایل اے کے ساتھ اشتراکِ عمل طے پاچکا ہے لیکن چند دن بعد بی ایل اے کے ترجمان آزاد کا بیان آتا ہے اور کہتے ہیں کہ بی ایل اے کے دو کمانڈران اسلم و بشیر زیب اور دو ترجمان میرک و جیئند غیر معینہ مدت کیلئے معطل ہیں۔ پھر اسکے ساتھ ہی الزامات میں بھی اضافہ ہوتا ہے کہ اسلم بلوچ ناصرف بھارت گئے ہیں بلکہ انکے مذہبی شدت پسند گروہوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اور بشیرزیب کو معطل محض اسلم بلوچ کی حمایت پر کیا جاتا ہے۔ پھر اگلے دن بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ کا بیان آتا ہے کہ بی ایل اے کا کوئی متفقہ، مشترکہ اور منظور شدہ کوئی ہائی کمان ہی نہیں ہے اور باقی تمام الزامات کو جیئند بلوچ جھوٹ قرار دیکر چیلنج کرتا ہے۔ اس کے بعد مکمل خاموشی۔۔۔۔۔
یہاں پھر سوال یہ اٹھا کہ جیئند بلوچ نے جو کہا کیا وہ سب سچ تھا، اگر نہیں تو پھر آزاد بلوچ اپنے الزامات کے صحت میں کوئی ثبوت و دلیل یا کوئی صفائی پیش کرنے سے کیوں قاصر؟
پھر تقریبا پورے ایک سال تک بی ایل اے کے مکران سے لیکر بولان، کاہان، قلات، خضدار، نوشکی، دالبندین، خاران، حب چوکی، کوئٹہ، زہری و دیگر علاقوں میں تواتر کے ساتھ مسلح کاروائی ہوتے رہے اور ان کو بی ایل اے کے ترجمان جئیند بلوچ قبول کرتے رہے اور بی ایل اے کے سرمچار دوستوں کی شہادتیں بھی ہوتی رہیں۔ کبھی کبھار بی ایل ایف کے ساتھ مشترکہ کاروائیاں بھی ہوتے رہے اور خاص کر بی ایل اے اور یو بی اے کی آپسی جنگ بندی اور جنگ کا مکمل خاتمہ یوبی اے اور بی ایل اے کا مشترکہ بیان مرکزی ترجمانوں جئیند بلوچ اور مرید کا بیان بھی سامنے آیا، اس کے ساتھ مختلف مسائل اور حالاتِ حاضرہ پر پر بی ایل اے کے رہنما اسلم بلوچ کے مختلف اور وقتاً فوقتاً بحثیت بی ایل اے کے کمانڈر بیان، وڈیو پیغام اور انٹرویو بھی آتے رہے لیکن مکمل خاموشی۔۔۔۔ جب 11 اگست کے دن دالبندین کے مقام پر سیندک پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجنیئروں پر فدائین حملہ ہوا، اس واقعے کو بھی بی ایل اے کے مجید فدائین بریگیڈ نے ترجمان جئیند بلوچ کے نام سے قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ فدائین بی ایل اے کے جانثار ساتھی ریحان بلوچ تھا۔ اور ریحان بلوچ استاد اسلم بلوچ کے بڑے فرزند ہوتے ہیں۔
اس لمبی خاموشی کے بعد، خود کش حملے کے پانچ دن بعد بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ کا بیان آتا ہے کہ اس فدائین حملے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ معطل شدہ دوکمانڈر اسلم بلوچ اور بشیرزیب بلوچ کا ذاتی فیصلہ تھا، انہوں نے اپنے ذاتی مفاد میں ریحان بلوچ کو استعمال کیا۔ لہٰذا یہ تنظیمی ڈسپلن کے خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے اور ان کے اوپر ایک اور مقدمہ بن گیا، لہٰذا وہ جوابدہی کے لیئے پیش ہوجائیں، ورنہ ان کا تنظیم سے بنیادی رکنیت ختم کردیا جائیگا، دوسرے دن بی ایل اے کے سینیئر کمانڈ کونسل اور آپرینشنل کور کمیٹی کا مشترکہ بیان ترجمان جئیند بلوچ کا نام سے آتا ہے کہ آزاد بلوچ کا اخباری بیان بچگانہ، شرمناک اور قابل افسوس ہے اور سرکاری بیانیہ ہے اور آئیندہ بی ایل اے کا خود ساختہ ہائی کمان اور ترجمان آزاد بلوچ سے کوئی تعلق نہیں ہے یعنی یہ خود ساختہ ہائی کمان بشمول اس کا ٹولہ بی ایل اے سے فارغ ہے لیکن بی ایل اے کے ترجمان جئیند بلوچ کے بیان کے بعد ایک مہینہ گذر جانے کے بعد بھی مکمل خاموشی، نہ دلیل نہ صفائی نہ وضاحت کچھ نہیں۔ کیا یہ خود کھلا تضاد نہیں ہے؟ غلط، جذباتی پن، بے شعوری، کم عقلی، تنظیمی امور سے نابلدی اور ملامت ہونے کی واضح ثبوت نہیں ہے؟ یا پھر جئیند بلوچ کے بیان کو من و عن حقیقت مان جانے اور تسلیم کرنے کی واضح اشارہ ہے؟
یہاں سب سے زیادہ مزاحقہ خیز بات مجھے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جتنا زیادہ تنظیم، ادارے اور اصول کی بات کی جاتی ہے، انکے ہاں ادارے، ادارہ جاتی طریقہ کار، تنظیمی امور کے بابت اتنی ہی لاعلمی اور نا اہلیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ بالفرض آزاد بلوچ اپنے بیان میں کہتا ہے کہ ان دونوں کمانڈران کو غیر معینہ مدت کیلئے معطل کی جاتی ہے۔ کیا دنیا کے کسی تنظیم میں غیر معینہ مدت تک معطل کرنے کا تصور موجود ہے؟ سزا ثابت ہونے پر کوئی تین مہینے، کوئی سال کوئی چھ مہنے معطل کردیتا ہے لیکن یہ دنیا کے تنظیموں کے تاریخ میں پہلا انہونا واقعہ ہے جہاں غیر معینہ مدت کیلئے معطل کی جاتی ہے۔ دوسری بات کیا کسی بھی تنظیم میں شوکاز نوٹس جاری کیئے بغیر اور اظہار وجوہ کا موقع دیئے بغیر سزا دی جاتی ہے؟ تنظیمی طریقہ کار یہ ہے کہ کسی اونچ نیچ کی صورت میں مذکورہ شخص کو شوکاز نوٹس جاری ہوتا ہے، وہ شخص جاکر اپنی صفائی پیش کرتا ہے، صفائی سننے کے بعد سزا و بری کا فیصلہ ہوتا ہے، کیونکہ یہی اخلاقی و تنظیمی اور قانونی اصول ہے، جب تک آپکو دوسرے کا موقف معلوم نہیں آپ کو سچائی کا مکمل علم نہیں ہوسکتا ہے، اسی لیئے کسی قتل کے مجرم کو بھی تب تک ملزم ہی کہا جاتا ہے جب تک اسے صفائی کا موقع نہیں دیا جائے۔ لیکن یہاں جس پر الزام لگے ہیں اسے بنا شوکاز اور صفائی کے موقع کے معطل ہونے کی خبر اخباروں سے پتہ چلتی ہے۔ یہ خود ان لوگوں کے اصول پرستی کے دعووں کی دھجیاں اڑانے کیلئے کافی ہے۔
قطع نظر اسکے کہ شنید میں آیا ایک دو دفعہ بطور قبائلی جرگہ پیغام رسانی کیلئے اسلم بلوچ کے پاس بھیجے گئے، کیا اس جرگے کے ارکان تنظیمی امور، تنظیمی مسائل، تنظیمی ڈسپلن، تنطیمی اصولوں کے فرنبرداری و خلاف ورزی سے بلد اور باعلم یا با اختیار تھے؟ اگر نہیں تو پھر پورے ایک سال تک اسلم، بشیر اور ان کے دوستوں کی سرگرمیوں کا جیئند کے نام سے قبولیت حتیٰ کے بقول ان کے تنظیم کے دوست کو بھی ذاتئ مفاد کے لیئے فدائی حملہ کروایا گیا یعنی بقول ان کے بار بار ہر بار پورے ایک سال تک تنظیم کے ڈسپلن کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انکی طرف سے متنازعہ ہائی کمان اور ترجمان آزاد کو فارغ کرنا، بی ایل ایف کے ساتھ مشترکہ کاروائی، یوبی اے کا ساتھ جنگ کا خاتمہ، اس کے باوجود معطل در معطل پر گذارہ کرنا؟ پھر بھی بنیادی رکنیت ختم نہیں کرنا کس تنظیم، کس ڈسپلن کی علامت ہوتا ہے؟ دنیا میں ایسی کوئی مثال موجود ہے؟ ایسی کسی تنظیم اور ڈسپلن کے وجود کا کوئی ذکر کرسکتا ہے؟ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں سب سے زیادہ تنظیم و اصولوں کی رٹابازی ہورہی ہے وہ تنظیم و اصول کے ابجد سے بھی ناواقف لوگ ہیں۔
یہاں سب سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ وسائل کی کمیابی، جنگی سازو سامان کے چھینے یا چوری کیئے جانے، وسائل کی ترسیل بند ہوجانے اور انتہائی کسمپرسی کے حالت کے باوجود یہ پورے بلوچستان میں ایک سال تک بہت زور و شور طریقے سے مسلح کاروائیاں کرتے ہیں، فدائین حملے کرتے ہیں اور یہ حملے کھلم کھلا جیئند بلوچ قبول کرتا آیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ دو بندے اسلم بلوچ اور بشیر زیب جادوئی چھڑی گھما کررہے ہیں یا پھر انکے ساتھ مختلف علاقوں کئی کیمپ کمانڈران اور سرمچاران موجود ہیں۔ جو ایک سال سے اس کم وسائلی میں بھی انکے شانہ بشانہ دشمن پر آتش و آہن برسا رہے ہیں، تو پھر یہ باقی تمام کمانڈران کو اور سرمچاران کو ڈسپلن کے خلاف ورزی پر معطل کیوں نہیں کیا جارہا؟ دیکھا جائے تو پھر وہ بھی واضح احکامات کی خلاف ورزی کررہے ہیں، پھر باقی سب معطل کیوں نہیں؟ یہاں تنظیم و اصول اور ڈسپلن کہاں گئی؟
یہ اب تک نا تنظیم کو سمجھ سکے ہیں اور تحریک کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں، تنظیم کا محور فعالیت ہوتا ہے اور تحریک کا محور ہدف! تنظیم کی کارکردگی رپورٹس، اعداد و شمار سے بھری ہوتی ہے جبکہ اگر پوچھیں اس تمام فعالیت نے آپ کو ہدف اور اپنے نصب العین سے کتنا نزدیک تر کیا ہے تو جواب مشکل ہی ملتا ہے۔ تحریک ہدف کی طرف حرکت کرتی ہے۔ چاہے پورے سال فعالیت رہے لیکن ہدف کی طرف ایک قدم بھی نہ بڑہے تو یہ وقت ضائع کرنا ہے کیوںکہ حرکت نہیں کی، اپنی جگہ کھڑے ہو کر پاؤں مارے ہیں۔ تنظیم فعالیت محور ہے اور تحریک ہدف محور ہے۔ ظاہر ہے ہدف تک پہنچنے کیلئے حرکت اور فعالیت چاہیئے لیکن فعالیت سے مراد کارکردگی رپورٹس کا پیٹ بھرنا نہیں بلکہ ہدف اور مقصدِ اعلیٰ سے نزدیک تر ہونا ہے۔ لیکن اپنی تنظیمی نابلدیت کی وجہ سے انہوں نے تنظیم کا محور ہی بدل کر غیرفعالیت میں ڈھال دیا ہے جس کی وجہ سے وہ نا صرف خود تحریک کے محور ہدف سے نکلتے جارہے ہیں بلکہ دوسروں کی ٹانگیں بھی کھینچتے نظر آتے ہیں۔
میرا ایک غیرجانبدار بلوچ لکھاری کی حثیت سے ایسے تنظیم، تنظیمی اصول اور تنظیموں امور سے نا واقف، نابلد اور لاعلم لوگوں سے عرض ہے کہ وہ سب سے پہلے تنظیم، تنظیمی اصول اور طریقہ کار کے بارے میں زیادہ اگر ممکن نہیں کم سے کم کچھ نہ کچھ ضرور مطالعہ کرلیں، یہ جان لیں کہ تنظیم اور تنظیمی امور خود کیا ہوتا ہے اور تنظیمی فیصلے تنظیمی و اصولی طریقہ کار سے کیسے عمل میں لائے جاتے ہیں کیونکہ آپ لوگوں کے ایسے بچگانہ، غیر سنجیدہ اور مضحکہ خیز حرکتوں سے ضرور چند مٹھی بھر غیرسنجید علم سے نابلد سوشل میڈیا اکٹیوسٹ، مراعات یافتہ، چاپلوس، خوشامدی، ضرور خوش اور مطمئین ہونگے۔ ان کے لیئے آپ بلی کو شیر اور شیر کو بلی قرار دو وہ قبول کرچکے ہیں اور قبول کرتے رہیں گے لیکن پوری بلوچ قوم ایسی نہیں، ایسے بھی بلوچ بہت ہیں جو سیاسی حوالے سے باعلم اور پختہ ہوکر ایسے بچگانہ حرکتوں کو دیکھ کر ان کے پاس ہنسنے کے سوا اور کچھ نہیں، دنیا میں اور بھی مختلف مکاتبِ فکر کے انتہائی زیرک قسم کے ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جن کی نظر اس وقت بلوچ قومی تحریک پر فوکس ہے، وہ بھی سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور وہ آپ لوگوں کی طرح تنظیم اور تنظیمی امور سے نا بلد بھی نہیں ہیں۔
آپ قوم اور اہلِ دانش کی نظروں میں ایک مزاق بنتے جارہے ہیں، شاید آپ لوگوں کو اس بات کا گمان بھی نہیں ہے اور آپ لوگوں کو یہ بھی اندازہ نہیں ہوا کہ آپ لوگ اپنے اس سارے کھیل اور ڈراموں کے ذریعے خود اسلم بلوچ اور بشیرزیب کو صحیح ثابت کررہے ہو۔ اگر کسی میں تھوڑا بہت علم و شعور اور اس کو تنظیمی امور پر عبور اور تجربہ حاصل ہے، وہ آپ کے ان حرکات سیاسی نابالغی یا بوکھلاہٹ ہی کہہ سکے گا۔
صرف اور صرف رٹے بازی، سنی سنائی باتوں پر قیاسات کے محل تعمیر کرنا اگر علم و شعور کا معیار ہوتا تو دنیا میں اس وقت سب سے ذہین، باشعور اور باعلم جانور طوطا ہی ہوتا۔ دنیا کی دیگر تحریکوں کے بارے میں غلط تشریحات کرکے، انہیں خلط ملط کرکے اپنے ذاتی مفاد، خواہش اور مرضی کی مطابق پیش کرنا ہرگز دانشمندی نہیں ہوتا۔ ذمینی حقائق، اپنے وسیع ماحول سے عدم واقفیت، مخصوص و محدود سرکلوں میں مقید ہوکر خلا میں تیراندازی کرنے کا نتیجہ ہمیشہ زوال ہوتا ہے۔
اگر تھوڑی بہت شعور اور عقل ہوتی تو بہتر انداذ میں یہ تجزیہ ہوتا کہ کل کی حمایت، طاقت، باصلاحیت لوگوں کی اکثریت کہاں چلی گئی؟ آج ادھر ادھر سے تمام سست و کاہل، کام چور، مفاد پرست درباریوں، چاپلوسوں اور پیداگیروں کو اکٹھا کرکے تنظیم اور ڈسپلن کا نام دینا اور خوش فہمی میں مبتلا ہونا۔ عنقریب یہ ارگرد کے مفاد پرست خود ایسا درد سر بن کر رہینگے جس کا اندازہ آج کسی کو نہیں ہے، ہر ایک کے ذاتی مفادات اور ذاتی خواہشات کا آپسی ٹکراو آج سے شروع ہے، مستقبل قریب میں کیا ہوگا وہ آج خود ظاہر ہے۔
ہاں اگر سب کچھ مخصوص ایجنڈے کے تحت رفتہ رفتہ ختم کرنے کی پالیسی تھی اور پالیسی ہے، تو سب کچھ صحیح چل رہا ہے اور اسی طرف آپ اور آپ ٹولہ بالکل جارہا ہے۔ لیکن پھر بھی کامیابی نہیں ملی آپکو کیونکہ بی ایل اے کے مخلص، ایماندار، محنتی، بے غرض اور قربانی کے جذبے سے سرشار دوست آج بھی اور کل بھی اور مستقبل میں بھی اپنے حقیقی وجود کے ساتھ قائم تھے اور قائم رہینگے۔

пятница, 7 сентября 2018 г.

ہماری سیاسی نا پختگی – توارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 
کچھ مہینوں سے سوشل میڈیا میں مِسنگ پرنسز کے حوالے سے کافی بحث و مباحثہ دیکھنے کو مل رہا ہے، بحث کا آغاز اُس وقت شروع ہوا جب بی این پی مینگل و اُس کے ٹولے نے انتخابات کے وقت لاپتہ افراد کے مسئلے کو پولیٹکل سکورنگ کیلئے استعمال کیا تاکہ وہ اپنے لیئے بلوچ قوم سے ہمدردی بٹور سکیں۔ اسی سلسلے کو مینگل کی ساری پارٹی لیڈرشپ نے اپنایا اور ہر کسی نے اپنے پہلے ترجیحات میں لاپتہ افراد کا معاملہ رکھا جبکہ اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں کہ بلوچ سیاسی کارکناں طلبا سمیت ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سمیت آئے دن بلوچستان میں بےگناہوں کی گمشدگی کا سلسلہ آج کا نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ 15 سال سے بدستور جاری و ساری ہے، جس میں ہر نئی حکومت کے بعد شدت آئی ہے جبکہ لاپتہ افراد کی زیادہ تر مسخ شدہ لاشیں آج بلوچستان کے ہر کونے میں دریافت ہوئیں ہیں۔ سیاسی ورکروں سے لیکر عام بلوچ کو بے دردی سے قید خانوں میں بےرحمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد مسخ شدہ لاش پھینکی گئی ہیں، کسی کا کھال اترا ہوا مسخ شدہ لاش پایا گیا ہے، تو کسی کا جسم سگریٹ سے جلا ہوا پایا گیا ہے، کسی کے جان پر چاقو سے پاکستان زندہ باد لکھا گیا ہے، تو کسی کے ہاتھ پاؤں تڑے ملے ہیں، اذیت و تشدد کے بارے میں جو ہم کہانیاں کتابوں میں پڑھتے تھے، کئی عشروں سے بلوچستان میں اپنے آنکھوں سے دیکھتے آ رہے ہیں۔
‎یہ سلسلہ دو تین مہینے کا نہیں جو کہ میں کہوں کہ شاید اختر مینگل اپنے لیڈرشپ سمیت ناواقف تھے بلکہ بقول اختر مینگل خود یہ سلسلہ 15 سالوں سے جاری ہے تو پھر وہ کیا وجہ تھی کہ اختر مینگل کو اب بلوچ مِسنگ پرنسز کی یاد آئی ہے؟ اسی دوران 5000 سے زائد سیاسی کارکنان بلوچ طلباء ڈاکٹرز وکلا سمیت ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا ہے، کیا پانچ ہزار لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں، لاپتہ افراد کیلئے آواز اُٹھانے کیلئے کم ہیں؟ کیا ان پانچ ہزارہ لاشوں کی کوئی سزا و جزا نہیں؟ کیا ان پانچ ہزار لوگوں کو بھول کر خوش ہو جائیں کہ 10 بےگناہ لاپتہ افراد رہا کیئے گئے بلکہ حقیقت میں ہم سمجھ ہی نہیں رہے ہیں کہ کیا گیم چل رہی ہے حقیقت میں مسئلہ لاپتہ افراد کا نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کہ تحت بلوچ نوجوانوں کے ذہن کو دوسری جانب موڑا جا رہا ہے، جس دن پاکستانی ایجنسیاں دس لوگوں کو رہا کر دیتے ہیں اُسی دن بلوچستان کے مختلف علاقوں سے درجنوں سے زیادہ لوگوں کو غائب کیا جاتا ہے جبکہ میڈیا میں بس انہی دس رہا ہوئے لوگوں کی خبریں گردش کرنے لگتی ہے جبکہ وہ درجنوں افراد جو اُسی ہی دن غائب ہوئے کا کوئی بھی پوچھتا نہیں جبکہ ان بازیاب شدہ افراد میں سے زیادہ تر لوگ مختلف امراض کا شکار اور ذہنی حوالے سے مفلوج ہوتے ہیں۔ جن کا اب اُنہیں جیل خانوں میں کوئی ضرورت نہیں ہوتا جبکہ کچھ ایسے جیلیں ہوتے ہیں جیسے کے تربت ٹارچر سیل ہے، جہاں لوگ بھرے ہوئے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یہ بازیابیاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔
‎یہ ایک ریاستی سوچا سمجھا منصوبہ ہے، جیسے ہم سمجھنے سے قاصر نظر آ رہے ہیں ہمارے کچھ سیاسی دوست انجانے میں اپنے اصل ہدف کو کھو بیٹھے ہیں، اگر ہم یاد کریں تو یہ جبری گمشدگیاں یوں نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک مقصد ہے ہم یہ پہلے ہی بخوبی جانتے تھے کہ اگر بلوچ اپنی آزادی خودمختاری اور اپنے آزاد ریاست کی بحالی کے لئے آواز بلند کرے گا اپنے مادر وطن کی مکمل آزادی کی بات کرے گا، تو دشمن اپنی پوری زور آزمائے گا اور ہر وہ حربہ استعمال کرے گا، جس سے تحریک کو نقصان پہنچے، تحریک کو کاؤنٹر کرنے کیلئے ہی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ کوئی انوکھا عمل نہیں بلکہ یہ عمل ہمیں ہر قبضہ گیر کی جانب سے دیکھنے کو ملا ہے کہ اگر کسی محکوم قوم نے اپنی آزادی کی بات کی ہے تو قبضہ گیر نے ہر وہ عمل اپنایا ہے، جس سے محکوم کی تحریک کو نقصان پہنچے، اس لیئے ہمیں اس بات پر حیرانگی نہیں ہونا چاہیئے کہ لوگ کیوں لاپتہ ہوئے ہیں؟ کیونکہ اس عمل کا ادراک جنگ شروع کرنے سے پہلے ہی ہمیں تھا ایک دفعہ شہید واجہ غلام محمد نے کہا تھا کہ اس جنگ کا آغاز ہم نے شعوری طور پر کیا ہے، دشمن نے نہیں اس لیئے جنگ میں نقصان تو ضرور ہوگا۔
‎ایک ادنیٰ سیاسی کارکن کے بحیثیت میں نے بلوچ تحریک میں یہ مشاہدہ کیا ہے کہ ہم اپنے اختیارات کو سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہے ہیں، اگر بلوچ تحریک کا بغور جائزہ لیا جائے اس میں سب سے بڑی ایک غلطی یہ رہی ہے کہ ہم نے ہمیشہ اپنے کام نہیں کیئے اور اپنے ذمہ داریوں کو سمجھنے سے قاصر رہے، ہر کوئی اپنے کاموں سے غافل رہا ہے یہی عمل تحریک کیلئے زیر قاتل ثابت ہوا ہے اپنے واک و اختیارات سے بالاتر ہوکر ہم نے کام کرنا چاہا، جس کے نقصانات آج ہمارے سامنے عیاں ہیں کہ ہر کوئی سیاسی کارکن ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ بن چُکا ہے۔
‎بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگیں مسئلہ ہے جس سے کوئی بھی باشعور انسان انکار نہیں کر سکتا لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی سے ہمارا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا جبکہ یہ لوگ اغواء ہی اسی جنگ کے سبب ہوئے ہیں، یہ بات یقینی ہے کہ جب تک بلوچ قومی تحریک جاری رہےگی دشمن لوگوں کو لاپتہ کرنا نہیں چھوڑے گا جبکہ اس عمل کو مزید وسعت دے گا، جبکہ دوسری جانب جب بھی بلوچ لیڈرشپ نے آزادی سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا اُسی دن ریاست سارے لاپتہ افراد کو بازیاب کرے گا تو اس چھوٹی سی بات کو سمجھنے سے ہم کیوں قاصر ہیں دشمن ہمارے اسی غیر دانستہ عمل سے فائدہ اُٹھا رہا ہے بلکہ میں یہ کہتے ہوئے غلط نہیں ہونگا کہ دشمن ہمارے اس عمل سے فائدہ اُٹھا چُکا ہے اور دنیا و پاکستان میں یہ تاثر ایک حد تک پھیلانے میں کامیاب ہو پایا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ اب بس لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے جبکہ بلوچستان میں بھی ریاست کے کٹھ پتلیاں اس بات کو پھیلانے میں ایک حد کامیاب ہو پائے ہیں جبکہ اصل مسئلہ آزاد بلوچستان اور بلوچ قومی تحریک سے توجہ ہٹانے کی کوشش میں ہم دشمن کا غیر دانستہ طور پر خوب ہاتھ بٹا رہے ہیں۔
‎اختر مینگل اور اس کے حواریوں کی بھی کوشش رہی ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو جو عوامی پذیرائی ملی ہے کو ختم کریں جبکہ بلوچ قوم کا توجہ دوسری جانب موڑنے کی کوشش کریں، اسی پر عمل پیرا ہوکر اختر مینگل نے بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ زور سے اُٹھایا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ اُٹھا کر قوم سے ہمدردیاں حاصل کرے گا جبکہ دوسری جانب بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو لوگوں کے ذہنوں سے نکال دینے کی کوشش کرے گا، اب یہ ہم ہر منحصر ہے کہ ہم اختر مینگل و اس کے حواریوں کے اس دوغلے پن کو کیسے کاؤنٹر کر سکتے ہیں جبکہ ہماری کوشش ہونی چاہیئے کہ اختر مینگل کا نظریہ سامنے لانے کے بجائے اصل ہدف کیلئے کیمپیئن چلائیں۔
‎لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگین و گمبھیر مسئلہ ہے اس سے کوئی بھی انکاری نہیں ہے البتہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ افراد لاپتہ ہوتے ہی کیوں ہیں؟ جبکہ گمشدگی کا سبب جدوجہد سے لوگوں کی وابستگی ہے ہمیں چاہیئے کہ قوم کے اندر دشمن کے اس عمل کے خلاف آگاہی پھیلائی جائے، اگر ہم گمشدگی کے واقعات کا جائزہ لیں تو اُن علاقوں میں ایسے واقعات زیادہ رونما ہوتے ہیں جہاں بلوچ جدوجہد آزادی منظم ہے، جبکہ ان علاقوں میں ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے جہاں لوگ بلوچ جدوجہد سے وابستہ نہیں ہیں۔ ہمارے دوستوں اور کامریڈوں کو سمجھنا ہوگا کہ اگر گمشدگی کا سلسلہ بند ہو جائے، گھروں پر بمباری کا سلسلہ بند ہو جائے فوج کا عوام پر جبر و ظلم ختم ہو جائے، تو اس صورت میں ہماری کامیابی نہیں ہوگی بلکہ ہم ناکام ہونگے کیونکہ یہ اُس صورت ہو سکتا ہے جب عام لوگ ریاست کے ساتھ بیٹھنے کو راضی ہونگے جبکہ آزادی مانگنے والوں کو ریاست چاکلیٹ نہیں کھلائی گی، جبری گمشدگیاں ریاستی جبر و ظلم تب تک جاری رہیں گی جب تک ایک بلوچ بھی آزادی کا مطالبہ کرے گا۔
‎ذاکر مجید آج 9 سالوں سے کس لیئے زندان میں ہے؟ ڈاکٹر دین محمد کس وجہ سے اتنے عرصے سے بند ہیں؟ سنگت زاہد، ثنااللہ بلوچ، شبیر بلوچ، حسام نصیر سمیت ہزاروں لوگ کیوں گمشدگی کی زندگی بسر کر رہے ہیں؟ یقیناً بلوچستان کی پاکستان سے مکمل آزادی کیلئے ناکہ مِسنگ افراد کی بازیابی کیلئے، وہ ایک آزاد ریاست کی خاطر اس اذیت کا سامنے کر رہے ہیں، باہر بہت سارے دوست چلے گئے ہیں سب لوگ ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ بن چُکے ہیں اتنی کوشش لاپتہ افراد کا مسئلہ اُٹھانے کے بجائے آزاد بلوچستان کیلئے کرتے تو شاید باہر کچھ لوگ بلوچستان کی قومی جدوجہد سے آگاہ ہوتے لیکن باہر جاکر سب سوشل لوگ بن چُکے ہیں، میں اُن سے عرض کرتا چلوں کہ میرے عظیم کامریڈوں یہاں خاندانوں کے خاندان آزادی کیلئے شہید ہوئے ہیں ہزاروں ماؤں نے اپنے لخت جگر آزاد ریاست کی بحالی کیلئے قربان کئے ہیں اور کر رہے ہیں۔
‎میں قطعاً لاپتہ افراد کے معاملے میں اُٹھنے والے آوازوں کی خلاف ورزی نہیں کر رہا، میں چاہتا ہوں کہ مِسنگ پرسنز بازیاب ہو جائیں لیکن اس قیمت پر نہیں کہ آج اختر مینگل نے رکھا ہے جبکہ ہمیں اس حقیقت سے انکاری نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم کس ریاست سے نبرد آزما ہیں، پاکستان اگر سیاسی زبان سمجھتا تو آج بلوچ کو بندوق اُٹھانے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن بلوچ نے بندوق اور مسلح جنگ کو ترجیح ہی اس لیئے دیا ہے کہ پاکستان سیاسی زبان نہیں سمجھتا بلکہ طاقت سے قبضہ کیئے گئے ریاست سے طاقت کے ذریعے سے ہی آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔
‎باہر بیٹھے ہوئے لوگ بلوچ سرمچاروں کی کھل کر حمایت کر سکتے ہیں اور لوگوں تک اُن کے بندوق کے نظریہ کو سمجھا سکتے ہیں، اُنہیں چاہیئے کہ بجائے سارا دن ہیومن رائٹس اداروں سے بلوچوں کی بازیابی کا مطالبہ کرنے کے کچھ وقت اُن عظیم سرمچاروں کی پرچار کرنے میں صرف کریں، جو آزادی کیلئے پہاڑوں پر سخت مشکل زندگی بسر کر رہے ہیں جن کا روز موت سے سامنا ہوتا ہے جن کا مقصد ایک آزاد بلوچستان ہے اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ بلوچ سرمچار بلوچ قوم کی حقیقی فوج ہے اور بلوچ سرمچاروں کی مرضی و منشا کے بغیر دنیا کا کوئی بھی سرمایہ بلوچستان میں پایا تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا، لیکن اس طرح کا کوئی بھی عمل ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتا کچھ دنوں پہلے 11 اگست کو بی ایل اے کے سرمچار شہید ریحان بلوچ نے چائینز انجئینرز پر خود کش حملہ کیا تھا، تنظیم کی جانب سے حملہ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ چائینا کو ایک واضح پیغام پہنچائیں کہ وہ بلوچ نسل کشی میں پاکستان کا ہاتھ بٹانا بند کر دیں اور اپنا سرمایہ بلوچستان سے نکال دیں لیکن حملے کے بعد کچھ ہی سوشل میڈیا کارکنان نے ریحان کی قربانی کو سراہا اور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے چائینز ذمہ داروں تک یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی جبکہ دوسرے جانب ہمیں خاموشی دیکھنے کو ملی میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس پر ہمیں زیادہ بات کرنا ہوتا ہے ہم خاموش ہو جاتے ہیں جبکہ دوسرے چیزوں پر اپنا پورا وقت دے دیتے ہیں۔
‎باہر بیٹھے کچھ دوستوں کا اسرار ہے کہ اگر ہم سرمچاروں کی حمایت کریں تو ہمیں باہر مسئلہ ہو سکتا ہے ہمارے لیے سیاسی پناہ لینا مشکل ہو سکتا ہے، میں اُنہیں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ سیاسی پناہ کس لیئے لے رہو ہو اپنی جان بچانے کیلئے یاکہ قومی آزادی کا پیغام دنیا کو پہنچانے کیلئے آپ کے سیاسی پناہ کو مسئلہ ہے تو آپ خاموش ہیں جبکہ یہاں لوگوں کے گھروں پر بمباری ہو رہا ہے نوجوان آئے روز دشمن کے ہاتھوں شہید ہو رہے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زندان میں قید و بند ہیں اور ہزاروں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں ہیں کیا ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق نہیں تھا؟ کیا بلوچستان میں آزادی کیلئے جدوجہد کرنے سے آپ کی جان کو خطرہ لاحق نہیں ہے اگر ہے تو آپ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ باہر اپنا فرض پورا کریں، ایک انقلابی جہدکار کیلئے لفظ جان کو خطرہ میری سمجھ سے باہر ہے، دوسرے قوموں کی تحریک سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ قربانیوں کے بغیر آزادی حاصل نہیں ہوتا۔

‎آخر میں اپنے دوستوں سے اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا ہمارے لیئے اُس وقت تک کچھ نہیں کرے گا جب تک ہم دنیا کو یہ باور نہ کرائیں کہ ہم بھی ایک مضبوط طاقت رکھتے ہیں دنیا کبھی بھی بلوچستان کو سپورٹ نہیں کرے گا اور جب دنیا ہماری طاقت مزاحمت اور مظبوط جدوجہد سے آگاہ ہوگا تبھی ہماری مدد کرنے کو تیار ہوگا، لاپتہ افراد کا مسئلہ اجاگر کرنے سے ہم دنیا کو یہ ثابت نہیں کرا سکتے ہیں کہ بلوچ قوم صرف اور صرف آزادی چاہتا ہے جس کیلئے بلوچ قوم ہر قیمت ادا کرنے کو وہ تیار ہے جبکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ دو صورتوں میں حل ہوگا، بلوچستان کی مکمل آزادی یاکہ جدوجہد سے دستبرداری انہی دو صورتوں میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے اس لیئے دوستوں کو چاہیئے کہ وہ اصل ہدف پر توجہ دینے کی کوشش کریں۔